المیہ یہ ہے کہ ایک ہوکر بھی شریفین ایک نہیں۔ میاں نوازشریف سیاست تو کر سکتے ہیں لیکن حکومت نہیں چلا سکتے اور میاں شہباز شریف حکومت چلا سکتے ہیں لیکن سیاست نہیں کر سکتے۔ میاں نوازشریف کو بہترین سیاست کاری کے نتیجے میں تین مرتبہ حکومت ملی لیکن اسے ایک مرتبہ بھی کامیابی سے نہیں چلا سکے ۔ اسی طرح میاں شہباز شریف ہر مرتبہ بہترین منتظم ثابت ہوئے لیکن جب بھی سیاست کی مہار ان کے ہاتھ میں آئی وہ ناکام سیاستدان ثابت ہوتے رہے ۔ اب کی بار تو حادثہ یہ ہوا کہ میاں نوازشریف نے اپنے بیانیے سے میاں شہباز شریف کی حکومت کا اور میاں شہباز شریف نے اپنے رویے سے میاں نواز شریف کی سیاست کا راستہ بند کر دیا۔ میاں نواز شریف ضد سے کام لے کر اپنے بیانیے پر اصرار نہ کرتے تو میاں شہباز شریف کی حکومت ختم نہ ہوتی بلکہ آج وہ وزیراعظم ہوتے اور میاں شہباز شریف دل سے ساتھ دیتے تو میاں نواز شریف کے سیاسی بیانیے کا وہ حشر نہ ہوتا جو ہو گیا۔
کسی اور کو الزام دینا مناسب نہیں بلکہ اس گھر کو گھر کے چراغ سے ہی آگ لگی میاں نوازشریف نے میاں شہباز شریف اور میاں شہباز شریف نے میاں نوازشریف کو اس انجام سے دوچار کیا۔ نواز نے شہباز کی حکمت عملی کو کامیاب نہیں ہونے دیا تو شہباز نے نواز شریف کے بیانیے کو ناکام بنایا ۔ وہ گڈکاپ (Good Cop) اور بیڈ کاپ(Bad Cop) کھیل کر پورے ملک سے کھیلنا چاہ رہے تھے لیکن اس کھیل کھیل میں اپنے آپ کو خراب کر بیٹھے۔ دوران حکومت تو پھر بھی گڈ کاپ اور بیڈ کاپ کسی حد تک فائدہ مند ہو سکتا تھا لیکن انہوں نے دوران الیکشن بھی اپنے بیانیے کو ایک نہیں کیا۔ آخر وہ فوج کوئی جنگ کیسے جیت سکتی ہے جس کا چیف دشمن کو للکار رہا ہو لیکن اس کا چیف آف جنرل اسٹاف لڑائی کے نقصانات بیان کر کے دن رات دشمن کی قدم بوسی میں لگا ہوا ہو۔ نواز شریف اور شہباز شریف نے یہ غلط طریقہ اختیار کیا اور جنگ ہار گئے۔
گزشتہ پانچ سالوں کے دوران میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف کی پالیسیوں کا یہ تضاد اپنی جگہ موجود تھا بلکہ بچوں تک بھی منتقل ہو گیا تھا۔ دونوں کے مشیر اور خوشامدی بھی الگ الگ تھے۔ میاں نوازشریف کو خواجہ آصف ، اسحاق ڈار، احسن اقبال اورعرفان صدیقی نے گھیرے میں لے رکھا تھا جبکہ شہباز شریف چوہدری نثار علی خان کے یار غار بنے ہوئے تھے۔ میاں نوازشریف کو اپنے مشیروں کا گروپ باور کرارہا تھا کہ وہ پاکستان کےطیب اردوان ہیں جنہیں سویلین بالادستی کے لئے جارحانہ رویہ اپنانا چاہئے جبکہ میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر مفاہمت کی تلقین کر رہے تھے۔ بد قسمتی سے عرفان صدیقی صاحب جیسے لوگوں نے مریم نوازصاحبہ کو بھی اپنا ہم نوا بنا لیا تھا۔ چوہدری نثار علی خان تو کھل کر سامنے آگئے اور نتائج بھی بھگت لئے لیکن شہباز شریف بوجوہ ایسا نہ کر سکے بلکہ انہوں نے چوہدری نثار کو بھی تنہا چھوڑ کر خود کو پارٹی میں مزید تنہا کر دیا ۔
شہباز شریف اگر انتخابات سے قبل سختی کے ساتھ اپنے بھائی کو مذکورہ گروپ کے نرغے سے نکال کر پوری طرح اپنا ہمنوا بنا لیتے تو آج وہ ملک کے وزیر اعظم ہوتے لیکن انہوں نے تو بھائی کو سختی سے روکا اور نہ خود صدق دل سے ان کے ہمنوا بنے ۔ اور تو اور جب ان کے بھائی اور بھتیجی انقلابی بیانیے کے ساتھ گرفتاری دینے پاکستان آئے تو شہباز شریف گڈکاپ بننے کے چکر میں ان کے استقبال کے لئے ایئرپورٹ تک بھی نہیں پہنچ سکے۔ دوسری طرف نوازشریف کے بیانیے کی وجہ سے وزارت عظمیٰ تو کیا شہباز شریف پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے بھی محروم ہو گئے۔ ادھر شہباز شریف کا بیانیہ نواز شریف کے کسی کام نہ آسکا ۔ نوازشریف تو کیا بلکہ مریم نواز کو بھی جیل جانا پڑ گیا بلکہ انتخابات کے بعد قیدو بند کا سلسلہ خود شہباز شریف تک بھی دراز ہو گیا۔
چنانچہ میاں شہباز شریف نے ایک بار پھر اپنے بھائی کو بیانیہ بدلنے کے لئے آمادہ کرنا شروع کیا اور اتنی کامیابی ضرورحاصل کر لی کہ انہیں بیٹی سمیت زبان بندی پر آمادہ کر لیا۔ یہاں سے ڈیل کے سلسلے کا آغاز ہو گیا اور فریقین ایک دوسرے کو ڈھیل دینے لگے۔ اسی ڈھیل کے تحت نواز شریف اور مریم نواز نے چپ کا روزہ رکھ لیا اور اسی کے تحت شہباز شریف کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کو بھی رعایتیں ملنے لگیں لیکن دوسری طرف مسئلہ یہ درپیش تھا کہ ڈھیل دینے والوں سے عمران خان صاحب بدظن ہونے لگے۔ اگرچہ شریفوں کو ڈھیل دینے والے عمران خان کی بہتری کے لئے ڈیل کی طرف بڑھ رہے تھے لیکن خود ان کو یہ ڈیل اپنی سیاست کی موت نظر آرہی تھی جس کی وجہ سے انہوں نےایسے اقدامات شروع کروائے جس کی وجہ سے ڈیل ناکام ہوتی نظر آنے لگی۔
دوسری طرف شہباز شریف اپنے بھائی اور بھتیجی کو خاموشی پر تو آمادہ کر چکے تھے لیکن ڈیل کی مزید شرائط ان سے نہ منوا سکے ۔ چنانچہ نہ صرف ڈھیل ڈیل میں نہیں بدل سکی بلکہ ڈھیل دینے والے شہباز شریف سے بھی ناراض ہو گئے اور ان کے گرد بھی گھیرا تنگ ہو گیا۔ دوسری طرف پراسرار خاموشی کے نتیجے میں وہ انقلابی حلقے بھی مایوس ہو گئے جو نوازشریف کو پاکستان کا طیب اردوان سمجھ بیٹھے تھے اور اب لگتا ہے کہ شہباز شریف کا بیانیہ بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو رہا ۔ یوں بظاہر مسلم لیگ (ن)