ایک عالمی سروے کے مطابق لوگ اب زیادہ ناراض رہتے ہیں، زیادہ تناؤ میں ہوتے ہیں اور زیادہ پریشان رہتے ہیں۔ تقریباً 150 ممالک کے ڈیڑھ لاکھ افراد سے کیے گئے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ ہر تیسرا شخص ذہنی تناؤ کا شکار ہے جبکہ ہر پانچ میں سے ایک شخص نے بتایا کہ وہ یا تو اداس ہے یا پھر وہ ناراض ہے۔ عالمی جذبات کی عکاسی کرنے والی گیلپ گلوبل ایموشنز رپورٹ میں لوگوں سے ان کے مثبت اور منفی تجربات کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق سب سے منفی ملک افریقا میں واقع چاڈ اور اس کے بعد نائیجر رہا جبکہ سب سے مثبت لاطینی امریکا کا ملک پیراگوئے رہا۔
پاکستان زیادہ غصہ کرنے والے ممالک کی فہرست میں دسویں نمبر پر آیا۔ محققین نے اس سروے میں شامل افراد کے تجربات پر توجہ مرکوز کی اور وہ تجربات بھی جو انھیں سروے کے دن سے ایک دن پہلے ہوئے تھے۔ سروے میں شامل افراد سے اس طرح کے سوالات پوچھے گئے کہ کیا گزشتہ روز آپ بہت مسکرائے تھے یا بہت ہنسے تھے؟ اور کیا آپ کے ساتھ لوگ عزت سے پیش آئے تھے؟ یہ سوالات لوگوں کے روزانہ کے تجربات جاننے کے لیے پوچھے گئے تھے۔ تقریباً 71 فیصد لوگوں نے کہا کہ سروے کے دن سے قبل والے دن انھوں نے خاطر خواہ مزا کیا۔
مثبت تجربات والے پانچ سرفہرست ممالک میں پیراگوئے، پاناما، گوئٹے مالا، میکسیکو اور ایل سلواڈور جبکہ منفی تجربات کے حامل پانچ سرفہرست ممالک میں چاڈ، نائیجر، سیرالیون، عراق اور ایران شامل ہیں۔ ہم نے اسی سروے کے حوالے سے ٹویٹر پر پاکستان میں مختلف شخصیات سے یہ سوال پوچھا کہ انھیں غصہ کیوں اور کس وجہ سے آتا ہے؟ اس سوال پر مصنف محمد حنیف نے چھوٹتے ہی جوابی ٹویٹ کی سوشل میڈیا پولز (جائزے) جبکہ ایک صارف خوشحال کو لوڈشیڈنگ پر غصہ آتا ہے۔ صحافی رمشہ جہانگیر کو واٹس ایپ گروپس پر غصہ آتا ہے۔ ویسے ان گروپس سے خوش کون ہے؟۔
صحافی اور اینکر عاصمہ شیرازی سے جب پوچھا تو ان کا کہنا تھا مجھے جھوٹ اور ظلم پر غصہ آتا ہے۔ ہدایتکار اور فلمساز عمران رضا کاظمی سے جو پوچھا تو انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا بے شک ہم ایک غصے والی قوم ہیں۔ اپنے بارے میں انھوں نے کہا میرے غصے کا پیمانہ بہت بڑا ہے، میں آسانی سے غصے میں نہیں آتا مگر بدتمیزی سے میرا پارہ چڑھ جاتا ہے۔ سابق سینیٹر اور پیپلز پارٹی کے رہنما عثمان سیف اللہ خان نے جواب دیا میں غصے میں نہیں آتا مگر بہت ساری چیزوں پر مجھے غصہ آتا ہے جن میں سے ایک غیر ذمہ داری ہے۔
اداکار عمران عباس سے جب ہم نے یہ سوال کیا کہ انھیں کس بات پر غصہ آتا ہے تو انھوں نے کہا مجھے جھوٹ پر شدید غصہ آتا ہے، دوسرا جب لوگ سڑک پر گندگی پھینکتے ہیں تو میں روک کر انھیں منع کرتا ہوں اور جب مجھے یہ سننے کو ملتا ہے کہ یار یہ پاکستان ہے تو بہت برا لگتا ہے۔ شہریار رضوان کو فیس بُک پر یکسانیت والی پوسٹس پر غصہ آتا ہے۔ سکیورٹی ماہر نوبرٹ المیڈا نے ہم سب کے قومی دکھ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہر چیز کی فوٹو کاپیاں فراہم کرنے، شناختی دستاویزات کی کاپیاں اور پھر ایک سرکاری افسر سے تصدیق جو اس بات کی گواہی دیتا ہے مگر واضح طور پر غلط بیانی کر رہا ہوتا ہے کیونکہ وہ نہیں جانتا آپ کہاں سے آئے ہیں۔ ایک ٹویٹر صارف نے لکھا کہ ڈرائیونگ کرنے پر میں غصے سے پاگل ہو جاتا ہوں۔ صرف غصے میں نہیں آتا۔ قوانین کا کوئی خیال نہیں کرتا اور قانون توڑنے کے کوئی نتائج نہیں۔