Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4346 articles
Browse latest View live

مفتی اعظم پاکستان، مفتی رفیع عثمانی

$
0
0

مفتی اعظم پاکستان، دارالعلوم کراچی کے رئیس اور مسلم دنیا کے مشہور عالم دین مفتی محمد رفیع عثمانی 21 جولائی 1936ء کو متحدہ ہندوستان میں یوپی کے شہر دیوبند کے معروف دینی گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کا نام مولانا اشرف علی تھانوی نے رکھا تھا۔ ان کے والد مفتی شفیع عثمان بھی اپنے وقت کے جید عالم دین تھے، ان شمار تحریک پاکستان کے اہم رہنماؤں میں کیا جاتا ہے، قیام پاکستان کے بعد مفتی شفیع عثمانی مفتی اعظم پاکستان کہلائے اور انھوں دارالعلوم کراچی کی بنیاد رکھی۔ مرحوم مفتی رفیع عثمانی ، مفتی شفیع عثمانی کے بڑے صاحب زادے اور مفتی تقی عثمانی کے بڑے بھائی تھے۔ مفتی رفیع عثمانی 30 سے زائد کتابوں کے مصنف، مفسر قرآن اور فقیہہ تھے۔ مولانا رفیع عثمانی نے ساری زندگی دار العلوم کراچی کے احاطے میں اپنے والد کی مسند علم و ارشاد پر قرآن و سنت کی تعلیم دیتے گزاری۔

مفتی رفیع عثمانی کے دادا مولانا محمد یاسین بھی دار العلوم دیوبند کے استاد تھے، یوں دینی علوم اور عزت ووقار انھیں ورثے میں ملا جس کی تمام عمر انھوں نے پاسداری کی۔ درس مسلم، دو قومی نظریہ، نوادر الفقہ، پراسرار بندے ان کی اہم کتابوں میں شامل ہیں۔ مفتی رفیع عثمانی کی گرانقدر علمی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔  مفتی رفیع عثمانی متوازن افکار و نظریات کے حامل تھے، جنھوں نے اپنی تصانیف اور خطبات سے اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کی اور جدید فقہی مسائل ہمیشہ صائب موقف دیا۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز



سردی میں پریشان سیلاب متاثرین

$
0
0

سردیوں کی پہلی بارش کے بعد کراچی میں سیلاب زدگان کی خیمہ بستیوں میں بارش کا پانی جمع ہو گیا، جس سے ہزاروں متاثرین سخت پریشان اس لیے ہوئے ہیں کہ ان کے خیمے واٹر پروف نہیں ہیں۔ پکی سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے بارش سے خیموں میں کیچڑ جمع ہو گئی ہے اور وہاں رہنے والے متاثرین کے لیے پانی کی جو ٹنکیاں فراہم کی گئی ہیں ان میں بھی برساتی پانی شامل ہو گیا ہے۔ اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے سیلاب متاثرین عارضی طور پر قائم خیمہ بستیوں میں اس لیے رہنے پر مجبور ہیں کہ ان کے علاقے دو تین ماہ بعد بھی زیر آب ہیں۔ بارشوں سے ان کا سامان اور کپڑے بھیگ گئے اور وہ اپنے زیر آب علاقوں سے پانی نکلنے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ اپنے آبائی گھروں کو واپس جا سکیں۔ یہ صورت حال کراچی میں سرکاری طور پر قائم کی گئی خیمہ بستیوں کی ہے جب کہ اندرون سندھ انڈس ہائی وے اور دیگر سڑکوں کی ہے جہاں تین ماہ سے سڑکوں کے اطراف بعض سماجی تنظیموں اور متاثرین کی طرف سے بنائی گئی عارضی جھونپڑیاں، خیمے اور کپڑوں سے ڈھانپی گئی رہائش گاہیں ہیں جو کچی دیواروں سے بھی محروم ہیں۔

راقم کو پنجاب اپنی گاڑی میں جانے اور سیلاب متاثرین کی بدتر حالت دیکھنے کا موقعہ ملا جو انتہائی ناگفتہ بہ اور سخت پریشان کن تھی۔ ہمیں سپر ہائی وے پر سفر کے بعد حیدرآباد کے بجائے جامشورو اور دادو کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ دادو سے پہلے دریائے سندھ عبور کر کے آمری کے راستے نیشنل ہائی وے کے بجائے نواب شاہ شہر کے قریب انڈس ہائی وے کا پرانا راستہ اختیار کرنا پڑا کیونکہ قاضی احمد، سکرنڈ سے رانی پور تک دو طرفہ بنی نیشنل ہائی وے کی خراب حالت کے باعث بسیں اور پرائیویٹ گاڑیاں بھی نیشنل ہائی وے کے بجائے نواب شاہ والا متبادل راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہیں اور اس یک طرفہ سڑک پر رش بڑھا ہوا ہے اور ٹریفک زیادہ اور سڑکوں کے دونوں طرف سیلاب متاثرین نے عارضی طور پر رہائش اختیار کر رکھی ہے جو پھٹے ہوئے خیموں، پلاسٹک سے ڈھانپی گئی جھونپڑیوں، درختوں کی شاخیں کاٹ کر بنائی گئی عارضی رہائش گاہوں پر مشتمل ہیں۔

سیلاب سے دادو، جامشورو، نواب شاہ، خیرپور کے اضلاع بہت متاثر ہوئے تھے جہاں کے متاثرین سڑکوں کے کنارے رہنے پر مجبور ہیں۔ کیونکہ ان کے گھر زیرآب ہیں اور وہ اپنے علاقوں سے سیلابی اور برساتی پانی نکلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ راقم الحروف نے جامشورو سے روہڑی تک سڑک کنارے رہنے والوں کی حالت زار دیکھی جنھیں اب فلاحی اداروں کی طرف سے ملنے والی خوراک کی سہولت ختم ہو گئی ہے اور وہ بعض مخیر حضرات اور سماجی اداروں سے ملنے والے راشن پر گزارا کر رہے ہیں۔ راقم الحروف کو کراچی سے روہڑی موٹروے تک پہنچنے میں 8 گھنٹے لگے اور بعض علاقوں میں سڑکوں کے دونوں اطراف دور دور تک پانی ہی پانی نظر آیا۔ کھیتوں میں لگائی گئی مختلف فصلیں زیرآب رہنے سے تباہ ہو چکی ہیں۔ کیلے کے باغات سوکھے پڑے تھے، ضلع خیرپور کھجوروں کی پیداوار کے لیے مشہور ہے جہاں کھجور کی فصل تباہ ہو چکی ہے۔ کھجوروں کے ہزاروں درخت زیر آب چلے آ رہے ہیں جس کا نتیجہ آنے والے رمضان المبارک میں کھجور کی قلت اور باہر سے آنے والی کھجور کے مزید مہنگا ہونے سے ظاہر ہو گا۔

بعض علاقوں میں لوگوں کے کچے پکے گھر جو گرنے سے بچ گئے وہ اب بھی زیر آب ہیں بس کشتیوں پر سفر ختم ہوا ہے لوگ پانی سے گزر کر اپنے گھروں کو آتے جاتے ہیں۔ متاثرین کے لیے سڑکوں کے دونوں اطراف آباد لوگوں نے سر چھپانے کے لیے جو جگہیں بنائی تھیں وہ پھٹ چکی ہیں، پرانے کپڑوں اور پلاسٹک سے بنائی گئی ان کی جگہیں اب رہنے کے قابل نہیں رہیں کیونکہ وہاں لگے کپڑے اور پلاسٹک پھٹ چکا ہے۔ متاثرین نے بتایا کہ بارشوں سے قبل جو پلاسٹک 50 روپے گز مل جاتی تھی وہ گراں فروشوں نے تین سو روپے گز تک فروخت کی۔ بعض اداروں اور حکومت نے جو خیمے فراہم کیے وہ اب تک پھٹنے سے محفوظ ہیں مگر دھوپ میں شکستہ ہو چکے ہیں مگر ان مضبوط خیموں کی تعداد کم اور متاثرین کی تعداد بہت زیادہ تھی اور یہ خیمے صرف خوش نصیبوں اور سفارشیوں کو ملے اور اکثریت نے اپنی مدد آپ کے تحت بانسوں، درختوں سے توڑے گئے ٹہنیوں کے سہارے جھونپڑیاں بنائیں اور ان پر کپڑا، پلاسٹک اور پرانی رلیاں لگا کر گزارا کیا مگر اب گرمیاں ختم اور موسم سرد ہونا شروع ہو چکا ہے۔

دن میں دھوپ کے باعث گزارا ہو جاتا ہے مگر رات سرد ہو گئی اور متاثرین کا اب ان عارضی جگہوں پر گزارا مشکل ہو گیا ہے اور وہ دو تین ماہ سے ملیریا، گیسٹرو اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ درجنوں ہلاکتیں ہو چکیں ہزاروں افراد بیمار مگر ان کے علاج کی سہولت برائے نام ہے۔ سیلاب سے کراچی و روہڑی کے درمیان ٹرین سروس بند ہو گئی تھی جو اب بحال ہو رہی ہے مگر ریلوے ٹریک مضبوط نہ ہونے سے ٹرینوں کی رفتار کم ہے۔ راقم کو پنجاب سے ٹرین کے ذریعے واپسی پر ٹرین نے روہڑی سے کراچی تقریباً دس گھنٹوں میں پہنچایا۔ بعض علاقوں میں ریلوے ٹریک کے دونوں طرف پانی موجود ہے اور سفر تاخیر سے ہو رہا ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر بیرونی امداد آئی مگر وہ کہاں گئی؟ سندھ حکومت کراچی کی خیمہ بستیوں کو بارش سے نہ بچا سکی تو اندرون سندھ سڑکوں کنارے رہنے والے ہزاروں متاثرین پر حالیہ بارش اور موسم کی تبدیلی سے کیا گزر رہی ہو گی، اس کا احساس صرف متاثرین کو ہے حکومتوں اور مفاد پرست سیاستدانوں اور سیلاب کو کمائی کا ذریعہ بنانے والوں کو نہیں ہے۔ متاثرین کی حالت اب بھی قابل رحم ہے اور انھیں بڑی تعداد میں حکومتی مدد کی اشد ضرورت ہے۔

محمد سعید آرائیں  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

اگلا کون ہے بھئیا؟

$
0
0

قمر جاوید باجوہ کو تو سب جانتے ہیں مگر کتنے عام پاکستانی شہری فضائیہ اور بحریہ کے موجودہ سربراہوں یا جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے فور سٹار چیئرمین یا چیف آف آرمی سٹاف کے باس سیکریٹری دفاع یا سیکریٹری دفاع کے باس وزیرِ دفاع کا نام جانتے ہیں ؟ کون کون بتا سکتا ہے کہ مسلح افواج کی تینوں شاخوں کا سپریم کمانڈر کون ہے؟ چلئے واپڈا کے موجودہ چیئرمین یا چیف الیکشن کمشنر یا وفاقی سیکرٹری داخلہ اور خارجہ میں سے کسی ایک کا نام بتا دیجیے۔ یہ سب بھی آخر چیف آف آرمی سٹاف کی طرح مراعات میں زمین آسمان کے فرق کے باوجود گریڈ بائیس کی بنیادی تنخواہ ہی لیتے ہیں۔ نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش، انڈیا، چین، افعانستان، ایران، ترکی یا کسی بھی جانے پہچانے ملک کے عام شہری سے پوچھ لیجیے کہ تیرے ملک کے صدر یا وزیرِ اعظم کا کیا نام ہے۔ وہ ایک لمحہ سوچے بغیر درست نام بتائے گا۔

اب اسی سے پوچھیے کہ تمہارے سپاہ سالار کا نام کیا ہے؟ ننانوے فیصد امکان ہے کہ الٹا وہ آپ سے پوچھ لے کہ بھیا کیا کہا؟ پھر وہ سر کھجائے، کم ازکم ایک منٹ سوچے اور یا تو غلط نام بتائے یا معلوم نہیں کہہ کر آگے بڑھ جائے۔ اب یہی سوال کسی بھی دور دراز گوٹھ یا پہاڑ پر رہنے والے پاکستانی شہری سے پوچھ لیں۔ پچانوے فیصد پاکستانی شرطیہ کہیں گے باجوہ۔ اس ایک سوال اور اس کے جواب سے کسی بھی ملک کے مقتدر ڈھانچے کی نوعیت اور بااختیاری و بے اختیاری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حالانکہ چیف آف آرمی سٹاف کی مدتِ ملازمت کا دورانیہ تین برس ہے مگر ڈھائی برس گزرتے ہی سب سے پہلے میڈیا یہ چٹکی لیتا ہے کہ اگلا کون ہو گا یا موجودہ ہی اگلا بھی ہو گا۔ پھر اس معمے کو حل کرنے کی دوڑ میں سیاستدان بھی شامل ہو جاتے ہیں اور آخری دو ماہ میں محلے کا ہر کن ٹٹا، ہر سرکاری کرمچاری، ہر ہیر ڈریسر، ہر خوانچہ فروش اس کا جواب ڈھونڈنے کی مہم میں شامل ہو جاتا ہے اور آخری تیس دن میں یہ سوال قومی بخار بن جاتا ہے۔

کون ہو گا؟ کون بنے گا؟ وہ یا وہ؟ یہی والا یا کوئی دوسرا؟ پھر چھ تصاویر نکال لی جاتی ہیں۔ شرطیں بندھنے لگتی ہیں۔ قیافہ شناسی کا کاروبار چمک اٹھتا ہے۔ ستاروں کی چال کو بحث میں گھسیٹ لیا جاتا ہے اور کلیجے پر تب تک ڈھائی سالہ ٹھنڈک نہیں پڑتی جب تک نام کا اعلان نہیں ہو جاتا۔ آئین میں آپ ایک چھوڑ لاکھ بار لکھ دیں کہ ’اقتدار اللہ تعالی کی امانت ہے جسے منتخب نمائندے عوام کے توسط سے استعمال کرنے کے مجاز ہیں۔‘ آپ یہ سمجھا سمجھا کر اپنی زبان کو چھالا زدہ کر ڈالیں کہ مسلح افواج کا حلف انھیں سیاسی معاملات سے بالکل الگ تھلگ رہنے اور ایک منتخب حکومت کے آئینی و قانونی احکامات کے تابع رہنے کا پابند بناتا ہے۔ خود فوج ہزار بار قسم کھائے کہ اس کا سوائے ملکی سرحدوں کے دفاع اور اندرونی سلامتی کے تحفظ اور قدرتی آفات و حادثات و ہنگامی حالات میں سرکاری احکامات کی پاسداری کے کوئی اضافی کردار نہیں بنتا۔

آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی کے سربراہ ایک نہیں سو پریس کانفرنسوں میں برملا کہہ دیں کہ فوجی قیادت اب سیاسی معاملات میں مکمل غیر جانبداری برتے گی کیونکہ سیاسی گھتیاں سلجھانا یا کسی ایک کی فرمائش پوری کرنا ان کا کام نہیں۔ پر مجال ہے کہ کوئی بھی کسی کی بھی بات پر حق الیقین کی مہر لگانے کو تیار ہو۔ بس اتنی پیشرفت ہوئی ہے کہ نوے کی دہائی تک اگر کوئی تجویز دیتا تھا کہ فوج کو بھی ریاستی معاملات میں ایک مستقل آئینی کردار دیا جائے تو ہر طرف سے ’ہا ہائے بھلا یہ کیا بات ہوئی‘ کا غوغا بلند ہو جاتا تھا۔ آج 2022 میں یہاں سے وہاں تک ہر سیاستدان قائل ہے کہ فوج کے براہِ راست یا بلاواسطہ سیاسی و تزویراتی کردار کو محدود یا ختم کرنا کم ازکم موجودہ پولٹیکل کلاس کے بس کی بات نہیں۔ 

ان میں سے جو بھی سیاستدان برسرِ اقتدار آتا ہے وہ ’فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں‘ کی گردان شروع کر دیتا ہے۔ وہی سیاستدان حزبِ اختلاف کی بینچ پر کھڑا کر دیا جائے تو ترنت شور اٹھا دیتا ہے کہ فوج کے سیاسی کردار کو محدود کرنا کس قدر ضروری ہے۔ ’ووٹ کو عزت دو‘ کس کے یاد آنا شروع ہو جاتا ہے۔ کبھی سوچا کہ جب آئی ایم ایف سے معاملات بگڑنے لگتے ہیں تو وزیرِ خزانہ کے ہوتے ہوئے فوج کے سربراہ کو کیوں اس معاملے میں ڈالا جاتا ہے؟ کسی دوست ملک کے زہن میں شکوک و شبہات پیدا ہونے لگیں تو وزیرِ خارجہ کے بجائے فوج کے سربراہ کو کیوں دلوں کو صاف کرنے کی ذمہ داری دی جاتی ہے؟ کوئی تجارتی ڈیل ہاتھ سے نکلنے لگے تو فوج کے سربراہ کو کیوں سمجھانے بجھانے کے مشن پر روانہ کیا جاتا ہے؟ جب حکومت سے معاملات بگڑنے لگیں تو حزبِ اختلاف فوجی قیادت کو ثالثی کروانے کی مشکل میں کیوں ڈالتی ہے؟ جب ایوان میں اکثریت ثابت کرنی ہو تو بندے پورے کرنے کے لیے حساس اہلکاروں سے فون کون کرواتا ہے، خود فون کیوں نہیں کرتا۔

مان لیا کہ فوج دفاعی، علاقائی اور خارجہ معاملات میں کسی منتخب حکومت کی نہیں چلنے دیتی مگر صحت، تعلیم، روزگار اور وسائل کی تقسیم سے متعلق عوام دوست پالیسیاں بنانے اور ان پر عملدرآمد سے بھی کیا آئی ایس آئی روکتی ہے؟ وزیرِاعظم یا قائد حزبِ اختلاف کو ایک میز پر آمنے سامنے بیٹھ کر آنکھ سے آنکھ ملا کر بات کرنے سے بھی کیا فوج ہی منع کرتی ہے۔ اگر آپ اتنے ہی ننھے معصوم ہیں تو سیاست میں کیوں ہیں۔ ووٹ لینے کے لیے آسمان سے تارے توڑنے کے خواب کیوں بیچتے ہیں۔ لنگڑی لولی حکومت تھامنے کے لیے بھی ایک دوسرے کی شیروانی آگے پیچھے سے کیوں کھینچتے ہیں؟ بوٹ آؤٹ ہونے کے بعد ہی کیوں لینن، چی گویرا، منڈیلا، حقیقی آزادی اور عوامی انقلاب جیسے بھاری بھاری نام اور الفاظ پولے ہلکے منہ سے جھڑنے لگتے ہیں؟ ہاں کسی بھی وزیرِ اعظم نے پچھتر برس میں اپنی مدتِ اقتدار مکمل نہیں کی۔ بعد از ضیا آنے والے ہر وزیرِاعظم نے برطرفی یا سبکدوشی کے بعد برملا کہا کہ ہمارے ہاتھ بندھے تھے۔

آخر کس نے ان کا ہاتھ پکڑا تھا کہ معزول یا چوپٹ ہونے سے پہلے یہ کہتے ہوئے اپنا بریف کیس اٹھا کر گھر لوٹ آتے کہ میں لعنت بھیجتا ہوں اس بے اختیار کرسی پر یا ان میں سے کوئی ایک جس نے یہ کہہ کر اقتدار لینے سے معذرت کر لی ہو کہ میں گتے کے سیٹ پر فلمی حکومت ہرگز قبول نہیں کر سکتا کہ جس کا مکالمہ نویس اور ہدایتکار عوام یا پارٹی کے بجائے کوئی اور ہو۔ جو وفاقی کابینہ یا پارلیمنٹ حاضر سروس سپاہ سالار کی مقررہ مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے آرمی ایکٹ میں ایک دن کے اندر اندر متفقہ ترمیم کر سکتی ہے، وہی پارلیمنٹ آرمی ایکٹ میں یہ اضافہ کیوں نہیں کر سکتی کہ سپریم کورٹ کی طرح فوج میں بھی سینیئر موسٹ جنرل خود بخود اگلا سپاہ سالار نامزد ہو جائے گا۔ کیا یہ بھول پن ہے، نیت کا فتور یا پھر کسی بھی آئی جی پولیس کی تعیناتی کے عمل میں ’ساڈا بندہ آوے ای آوے‘ کی عادت کا اعادہ ہے۔

زلف اس کی ہے جو اسے چھو لے
بات اس کی ہے جو بنا لے جائے (رسا چغتائی)

وسعت اللہ خان

بشکریہ بی بی سی اردو


پاکستان کے نئے چیف آف آرمی اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کون ہیں ؟

$
0
0

لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر اس وقت سب سے سینئر ترین جنرل ہیں، انہیں ستمبر 2018 میں 2 اسٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی لیکن انہوں نے 2 ماہ بعد چارج سنبھالا تھا جس کے نتیجے میں لیفٹیننٹ جنرل کے طور پر ان کا چار سالہ دور 27 نومبر کو اس وقت ختم ہو جائے گا جب موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اپنی فوج کی وردی اتار رہے ہوں گے۔ نامزد کردہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر ایک بہترین افسر ہیں، وہ منگلا میں آفیسرز ٹریننگ اسکول پروگرام کے ذریعے سروس میں شامل ہوئے اور فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا، وہ اس وقت سے موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف کے قریبی ساتھی رہے ہیں جب سے انہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے ماتحت بریگیڈیئر کے طور پر فورس کمانڈ ناردرن ایریاز میں فوجیوں کی کمان سنبھالی تھی جہاں اس وقت جنرل قمر جاوید باجوہ کمانڈر ایکس کور تھے۔

بعد ازاں، انہیں 2017 کے اوائل میں ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس مقرر کیا گیا اور اگلے سال اکتوبر میں آئی ایس آئی کا سربراہ بنا دیا گیا، تاہم اعلیٰ انٹیلی جنس افسر کے طور پر ان کا اس عہدے پر قیام مختصر مدت کے لیے رہا کیونکہ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے اصرار پر 8 ماہ کے اندر ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا تقرر کر دیا گیا تھا۔ جی ایچ کیو میں کوارٹر ماسٹر جنرل کے طور پر منتقلی سے قبل انہیں گوجرانوالہ کور کمانڈر کے طور پر تعینات کیا گیا تھا جہاں وہ اس عہدے پر وہ 2 سال تک فائز رہے تھے۔

بشکریہ ڈان نیوز

Who is Lieutenant General Asim Munir?

$
0
0

Lieutenant General Syed Asim Munir Ahmed Shah HI(M) is a four-star rank general and awaiting Chief of Army Staff as the government announced and currently serving as a Quartermaster general in the Pakistan Army. He commanded the XXX Corps (Pakistan) in Gujranwala from 17 June 2019 to 6 October 2021. He served as the 23rd Director-General of the ISI until he was replaced with Lt. Gen. Faiz Hameed on 16 June 2019. He is also a holder of the Sword of Honour. Prime Minister of Pakistan Shehbaz Sharif announced him as Chief of Army staff on 24 November 2022 for 3 years term.

Military career

Syed Asim Munir is from the 17th course of the Officers Training School in Mangla. He was commissioned in the 23rd Battalion of the Frontier Force Regiment. He was promoted to the rank of Lieutenant General in September 2018 and was subsequently appointed as DG ISI. He previously served as Director General of Military Intelligence. He was awarded the Hilal-i-Imtiaz in March 2018. He had earlier served as the commander of the Troops deployed in the Northern Areas of Pakistan. In June 2019, Munir was replaced by Lt. Gen. Faiz Hameed as the new DG ISI. Munir was transferred and appointed as Corps Commander of XXX Corps in Gujranwala.

Courtesy : Wikipedia

پاکستان ریلوے کا خسارہ

$
0
0

پاکستان ریلوے ملک کا تیسرا بڑا ادارہ اور قومی اثاثہ ہے۔ قیام پاکستان سے قبل اس خطے میں ریلوے کا وسیع نیٹ ورک تھا جو نارتھ ویسٹرن ریلوے کے نام سے جانا جاتا تھا، 1974ء میں پاکستان ریلویز میں تبدیل کر دیا گیا۔ ریلوے نہ صرف آمدو رفت کا سستا ، تیز رفتار ، آرام دہ سفر بلکہ مال برداری کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اسے جدید خطوط پر استوار کیا جاتا مگر بد قسمتی سے ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘۔ یہ ملکی معیشت پر بھاری بوجھ بن گیا۔ آج یہ حالت ہے کہ آمدن کے مقابلے میں اس کے اخراجات دگنے ہو گئے ہیں۔ ناقص گورننس، سیاسی مداخلت ، بدعنوانی ، ناقص انفراسٹرکچر ، مال بردار ٹرینوں کو چلانے کی محدود صلاحیت اس کی وجوہات قرار دی جاسکتی ہیں۔ ٹرک مافیا نے بھی پاکستان ریلوے کی مالی حالت کو نقصان پہنچایا۔ 

بھاری پنشن واجبات بھی خسارے میں اضافے کا باعث بنے۔ وزارت ریلوے کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کئے جانے والے تحریری جواب میں انکشاف ہوا ہے کہ اپریل اور اکتوبر کے دوران ریلوے خسارہ 35 ارب 31 کروڑ روپے رہا۔ آمدن 33 ارب اور اخراجات 69 ارب روپے سے زیادہ رہے جبکہ ایک لاکھ 75 ہزار پنشنرز کو سالانہ 75 ارب روپے سے زیادہ دیئے جارہے ہیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ایک فرانزک رپورٹ کے مطابق 2011ء سے 2020ء تک ریلوے کو مجموعی طور پر 333 ارب 81 کروڑ 20 لاکھ روپے کا خسارہ ہوا۔ تحریک انصاف کا دور خسارے کے لحاظ سے بدترین ثابت ہوا سالانہ خسارہ بڑھ کر 41 ارب 46 کروڑ تک پہنچا، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا دور خسارے کے لحاظ سے بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہا۔ ان 10 سال میں ریلوے خسارہ پورا کرنے کیلئے قومی خزانہ سے 560 ارب 82 کروڑ روپے امداد کی ’’بیساکھیاں‘‘ لگانا پڑیں۔ ان چشم کشا حقائق سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

بے بس پارلیمینٹ کا نوحہ

$
0
0

کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں، کئی آرمی چیف آئے اور چلے گئے لیکن لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہونے کی بجائے پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ 2016ء میں آرمی چیف بنے تو انہوں نے ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے تین مختلف حکومتوں کے ساتھ مل کر کوششیں بھی کیں لیکن مسئلہ حل نہ ہوا۔ جنرل باجوہ چھ سال میں یہ مسئلہ حل نہ کر سکے تو کیا نیا آرمی چیف اگلے تین سال میں یہ مسئلہ حل کر سکے گا ؟ سوال یہ ہے کہ ہم سب اس مسئلے کے حل کیلئے آرمی چیف کی طرف کیوں دیکھتے ہیں ؟ وجہ بڑی واضح ہے، یہ مسئلہ فوجی حکومتوں کے دور میں شروع ہوا اور سیاسی حکومتیں بھی اس مسئلے کے حل کیلئے فوج کی طرف ہی دیکھتی ہیں۔ موجودہ حکومت نے پچھلے ماہ پارلیمینٹ سے کریمنل لاز امینڈمنٹ بل 2022ء منظور کرایا جس کے تحت جبری گمشدگی کو جرم قرار دیا گیا اور جبری گمشدگی میں ملوث افراد کے لئے قید اور جرمانے کی سزا رکھی گئی۔

یہ وہی بل ہے جو عمران خان کے دور حکومت میں قومی اسمبلی سے منظور کرا کے سینیٹ کو بھیجا گیا تو راستے میں لاپتہ ہو گیا تھا۔ اس بل میں یہ دفعہ بھی شامل تھی کہ اگر کوئی کسی ادارے پر جبری گمشدگی کا الزام ثابت نہ کر سکے تو اسے پانچ سال قید اور جرمانے کی سزا ملے گی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس بل کو مسترد کر دیا لہٰذا شہباز شریف کے دور حکومت میں ان کے ایک اتحادی اختر مینگل اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مل کر اس متنازعہ دفعہ کو بل سے نکلوا دیا اور کچھ عرصے کے بعد اعظم نذیر تارڑ بھی وزارت قانون سے نکل گئے۔ اس بل کی منظوری کے بعد بھی بلوچستان میں نوجوانوں کو لاپتہ کیا جا رہا ہے جو موجودہ پارلیمینٹ کی بے بسی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس اطہر من اللہ نے گزشتہ سال ایک صحافی مدثر نارو کی گمشدگی پر مقدمے کی سماعت شروع کی تھی۔ مدثر نارو کو اگست 2018ء میں فیس بک پر انتخابات کے بارے میں ایک متنازعہ جملہ پوسٹ کرنے کے بعد غائب کیا گیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے براہ راست وزیر اعظم عمران خان سے جواب طلب کیا۔ عمران خان نے عدالت کو یقین دلایا کہ مدثر نارو کو جلد بازیاب کرایا جائے گا۔

عمران خان عدالت کے ساتھ کیا جانے والا وعدہ پورا نہ کر سکے ان کے بعد شہباز شریف وزیراعظم بنے عدالت نے ان کو بھی طلب کیا۔ شہباز شریف نے بھی عدالت میں کھڑے ہو کر وعدہ کیا کہ وہ مدثر نارو کو بازیاب کرائیں گے۔عدالت میں انہوں نے مدثر نارو کے چار سالہ بیٹے سچل اور اسکی بوڑھی دادی سے بھی وعدہ کیا کہ مدثر واپس ضرور آئے گا۔ پھر جسٹس اطہر من اللہ سپریم کورٹ چلے گئے۔ اگلی پیشی پر وزیر اعظم صاحب عدالت نہیں آئے اور مدثر نارو کی والدہ روتی پیٹتی رہ گئی۔ ایک عدالت میں دو وزرائے اعظم اپنا وعدہ پورا نہ کر سکے لاپتہ افراد کے مسئلے نے اس ملک کی پارلیمینٹ کو نہیں بلکہ قانون کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے ۔ستم ظریفی دیکھئے کہ بلوچستان کے علاقے کوہلو سے تعلق رکھنے والی ایک سکول ٹیچر زرینہ مری 2005ء سے اپنے شیر خوار بچے سمیت لاپتہ ہے اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

مسعود جنجوعہ 2005ء سے لاپتہ ہیں انکی اہلیہ آمنہ مسعود جنجوعہ سترہ سال سے خاوند کی بازیابی کیلئے عدالتوں میں دھکے کھا رہی ہیں لیکن انہیں انصاف نہ ملا۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ ایک سرکاری ملازم تھے 2009ء سے غائب ہیں انکی بیٹیاں اپنے باپ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے جوان ہو گئیں لیکن انصاف نہیں ملا۔ ذاکر مجید بلوچ انگریزی ادب کا طالب علم تھا 2009ء سے لاپتہ ہے اسکی والدہ کو میں کبھی کوئٹہ، کبھی کراچی اور کبھی اسلام آباد کی سڑکوں پر دھکے کھاتے دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ جس ریاست کو مائیں، بہنیں اور بیٹیاں بددعائیں دیں اس ریاست کو کیسے چین نصیب ہو سکتا ہے؟ علی اصغر بنگلزئی کا اغوا اکتوبر 2001ء میں ہوا تھا۔ وہ ایک درزی تھا اس نے کسی مشکوک آدمی کے کپڑے سیئے تھے اسے ایک ساتھی سمیت اٹھا لیا گیا بعد میں ساتھی کو چھوڑ دیا اور علی اصغر بنگلزئی اکیس سال سے غائب ہے انکی اہلیہ اور دو بیٹیاں بھی بنگلزئی کے انتظار میں بوڑھی ہو رہی ہیں پچھلے سال ایک نوجوان شاعر تابش وسیم بلوچ کو غائب کیا گیا تو میرے سمیت کئی صحافیوں نے اسے فوری طور پر کسی عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔

پھر جب بلوچستان میں لاپتہ افراد کو مار کر انکی لاشیں سڑکوں پر پھینکنے اور جعلی مقابلوں کا سلسلہ شروع ہوا تو وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز نے گورنر ہائوس بلوچستان کے باہر احتجاج کا سلسلہ شروع کیا۔ اس احتجاج کو ختم کرانے کیلئے وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کوئٹہ پہنچے۔ مظاہرین نے انہیں پچاس لاپتہ افراد کی ایک فہرست دی اور صرف یہ مطالبہ کیا کہ انہیں جعلی مقابلے میں مارنے کی بجائے کسی عدالت میں پیش کیا جائے۔ وفاقی وزراء نے یہ مطالبہ تسلیم کر لیا اور کئی ہفتے تک جاری رہنے والا مظاہرہ ختم ہو گیا۔ کچھ دن بعد پچاس لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تابش وسیم بلوچ کی ایک مقابلے میں ہلاکت کا اعلان کر دیا گیا۔ یہ وہ واقعات ہیں جن کے باعث ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف غلط فہمیاں اور عدم اعتماد بڑھ رہا ہے۔ اب یہ کہہ کر معاملہ ختم نہیں کیا جا سکتا کہ تمام لاپتہ افراد دہشت گرد ہیں اگر سب دہشت گرد ہیں تو پچھلے کچھ عرصے میں بہت سے لاپتہ افراد کو رہا کیوں کیا گیا؟

لاپتہ افراد کی بازیابی کا تعلق آئین و قانون کی بالادستی سے ہے۔ پارلیمینٹ نے یہ مسئلہ حل کرنے کیلئے کریمنل لاز امینڈمنٹ بل 2022ء منظور کیا۔ بل منظور کرانے والے وزیر قانون کی قربانی بھی دیدی گئی۔ اب اس بل پر عملدرآمد کرایا جائے۔ جنرل باجوہ کے دور میں جو مسئلہ حل نہ ہو سکا اس مسئلے کو نئے آرمی چیف اپنے لئے چیلنج سمجھیں، نئے آرمی چیف کو یہ تاثر ختم کرنا ہو گا کہ وہ پارلیمینٹ سے زیادہ طاقتور ہیں وہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کریں اور قوم کی مائوں بیٹیوں کی دعائیں لیں تو ہم آپ کو سلیوٹ کریں گے۔

حامد میر

بشکریہ روزنامہ جنگ

اب معیشت کی خبر لیں

$
0
0

سیاست ایک بے رحم کھیل ہے۔ اس کھیل کے دوران جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا نے کیلئے مخصوص بیانیہ تراشہ جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عمران خان نے اس کھیل میں اپنے حریفوں کو تھکا دیا ہے اور خود بہت حد تک بند گلی سے نکل آئے ہیں۔ انہوں نے صوبائی حکومتوں سے نکلنے کا مشروط اعلان کر کے سیاسی عدم استحکام کی تلوار پھر لٹکا دی ہے۔ تاہم پنڈی جلسہ کے اختتام کے بعد ملک میں جاری سیاسی افراتفری کسی حد تک تھم چکی ہے۔ پاکستان کی فوج میں قیادت کی تبدیلی کا عمل انتہائی احسن انداز میں پایۂ تکمیل تک پہنچ چکا ہے، جو دھول اڑائی جا رہی تھی، اب بیٹھ گئی ہے۔ میاں نواز شریف اہم فیصلے کرنے کے بعد اپنی فیملی کے ہمراہ یورپ کی سیر پر ہیں، وزیراعظم پاکستان کے دورے بھی مسلسل جاری ہیں۔ عمران خان نے بڑی سمجھ داری کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسی سے’’یوٹرن‘‘ لیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف آرمی چیف کی تقرری کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی بلکہ دھرنے کا پروگرام ملتوی کر کے نئی اسٹیبلشمنٹ کو مثبت پیغام دینے کی کوشش بھی کی ہے، اس اقدام کو اگر سیاسی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے پی ڈی ایم کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔

انہیں اشتعال دلانے کیلئے مرکزی حکومت کے وزیر داخلہ نے جو بیانات دیے تھے حیرت انگیز طور پر عمران خان نے ان پر مشتعل ہونے کے بجائے ٹھنڈے دماغ سے اپنی مرضی کی حکمتِ عملی طے کی۔ پی ڈی ایم کی وسیع الاتحاد حکومت نے عمران خان کو ایک کونے میں دھکیلنے کی کوشش کی لیکن عمران خان نے اپنی حکمت عملی سے خود کو تنہا ہونے سے بچا لیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گزشتہ مہینوں میں سیاسی کشیدگی اپنے عروج پر رہی ہے لیکن اس سے زیادہ کشیدگی 90 کی دہائی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے مابین تھی۔ ان کے ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملوں کی خبریں آج بھی اخبارات کی فائلوں میں محفوظ ہیں۔ اس وقت اگر سوشل میڈیا کی طاقت ان دونوں رہنماؤں کے پاس ہوتی تو شاید اس لڑائی کی حدت آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی۔ تاہم جس طرح ان دونوں رہنماؤں نے تاریخ کے جبر سے سبق سیکھا اور میثاقِ جمہوریت جیسی نادر اور تاریخی دستاویز پر دستخط کیے، آج پھر اسی سیاسی فہم و فراست کی ضرورت ہے۔

عمران خان ایک مضبوط اعصاب کی حامل شخصیت ہیں۔ انہوں نے گزشتہ چند مہینوں کے دوران جس طرح اپنا ایک بیانیہ تشکیل دیا اور جس طرح اس بیانیے کی ترویج میں لگے رہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس اعصابی جنگ میں پی ڈی ایم کے دام میں نہیں آئے۔ انہیں اب اپنی صلاحیتوں کو ملک کی بہتری کے لیے استعمال میں لانے کی ضرورت ہے۔ موجودہ ملکی معیشت جس نہج پر پہنچ چکی ہے اس سے نمٹنا اکیلی پی ڈی ایم کے بس کی بات نہیں۔ انہی کالموں میں کئی بار اس حقیقت کا اظہار کیا گیا کہ ملک میں زرِ مبادلہ کے ذخائر میں شدید کمی دیکھی گئی ہے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ملک کے ڈیفالٹ کی طرف جانے کا واضح اشارہ دیا ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت سے بجا طور پریہ پوچھا جانا چاہیے کہ وہ جس ایجنڈے پر حکومت میں آئے تھے، وہ ایجنڈا کدھر ہے؟ ملک میں خطِ غربت سے نیچے جانے والے افراد کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے عام آدمی کا جینا محال کر دیا ہے۔ 

اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں اضافہ کر کے کاروباری سرگرمیوں کو مزید منجمد کر دیا ہے۔ ہم توقع کر رہے تھے کہ اسحاق ڈار اپنی جادوگری دکھائیں گے اور ڈالر کنٹرول کیا جائے گا لیکن ڈالر کی قیمت کم تو کیا ہونی تھی، ڈالر مارکیٹ سے ناپید ہو گیا ہے۔ وہ والدین جنہوں نے بیرونِ ملک زیر تعلیم اپنے بچوں کی فیسوں کی ادائیگی کرنی ہے وہ ڈالر کی تلاش میں دربدر پھر رہے ہیں۔ ابھی سردی شروع نہیں ہوئی اور گیس ملنا بند ہو گئی ہے، صنعتی صارفین تو پہلے ہی کئی مہینوں سے گیس سے محرومی کی وجہ سے اپنی انڈسٹری بند کر چکے تھے، اب گھریلو صارفین بھی اس سے محروم ہو گئے ہیں۔ کیا پی ڈی ایم کا ایجنڈا یہ نہیں تھا کہ وہ مہنگائی کنٹرول کریں گے؟ کیا پی ڈی ایم کا یہ دعویٰ نہیں تھا کہ وہ ڈالر کی قیمت نیچے لائیں گے؟ کیا پی ڈی ایم نے تیل اور گیس کے نرخوں پر نظر ثانی کا وعدہ نہیں کیا تھا؟ کدھر ہیں وہ دعوے اور کہاں گئے وہ وعدے؟ اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی تک حکومت کی طرف سے معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے سنجیدہ اقدامات دیکھنے کو نہیں مل رہے۔

البتہ یہ خبریں مل رہی ہیں کہ جناب آصف علی زرداری پنجاب پر سیاسی حملہ کرنے کی تیاری کر چکے ہیں، جہاں چوہدری پرویز الٰہی بڑی دلیری سے عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں اور علی الاعلان ان کا ساتھ دینے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔ اب شہباز حکومت کے پاس نواز شریف کے علاوہ کوئی ترپ کا پتا نہیں جو وہ کھیل سکیں۔ ایک سیاسی تجزیہ کار کے طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ نواز شریف کو اپنی ساکھ کی حفاظت کیلئے موجودہ حالات میں پاکستان کا رُخ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ شہباز حکومت کے اقدامات کے باعث اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ نواز شریف کے اگر پاکستان آنے کے باوجود ن لیگ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکی تو یہ ایک بڑے سیاسی لیڈر کے لئے ناقابلِ تلافی نقصان ہو گا جو پاکستانی سیاست کیلئے کسی طور بھی مفید نہیں۔ معیشت کی ڈوبتی نبضوں کو صرف ایک ہی صورت میں بحال کیا جا سکتا ہے کہ حکومت اپنے اخراجات فوری طور پر نصف کر دے غیر ترقیاتی اخراجات کیلئے قرض لینا بند کیا جائے، مراعات یافتہ طبقے پر ٹیکس کی بلاجواز چھوٹ ختم کی جائے اور ترقی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچائے جائیں۔ جہازی سائز کابینہ اگر اسی طرح رہی، حکومتوں کے شاہانہ اخراجات کو کنٹرول نہ کیا گیا تو ن لیگ کو آئندہ انتخابات میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

پیر فاروق بہاو الحق شاہ

بشکریہ روزنامہ جنگ


پی ٹی وی کے 58 سال … کیا کھویا کیا پایا؟

$
0
0

 
پی ٹی وی پاکستان کے ان اداروں میں سرفہرست ہے جنھوں نے قیام پاکستان کے بعد جنم لیا۔ پی ٹی وی Colonial Legacy نہیں رکھتا، یہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت وجود میں آیا۔ اس کی کہانی 5 دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ اس نے 30 سال سے زائد عرصے تک ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا ء الحق اور پرویز مشرف کے آمرانہ دور اور باقی عرصہ نام نہاد جمہوری دور کے تابع گزرا۔ اس پورے عرصے میں صرف انتخابات کے دوران قائم نگران حکومتوں میں پی ٹی وی نے چند ماہ ایک قومی ادارے کے طور پر کام کیا، باقی تمام عرصے میں یہ قومی ادارہ حکمرانوں کی خواہشات کے مطابق چلتا رہا۔ مختلف حکمرانوں نے باصلاحیت افراد کے بجائے زیادہ تر ’’اپنے آدمی‘‘ کو ہی اس ادارے کا ایم ڈی مقرر کیا اور قومی کے بجائے ذاتی ہدف حاصل کیے۔ پاکستان ٹیلی ویژن ایک ایسا قومی ادارہ ہے جسے پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی ’’ماں‘‘ کہا جاتا ہے۔

آج ملک میں جتنے بھی نجی ٹی وی چینلز چل رہے ہیں، ان کے لیے ابتدائی افرادی قوت، تکنیکی صلاحیت اور پیشہ وارانہ رہنمائی پی ٹی وی کے پروفیشنلز نے ہی فراہم کی۔ 1975 میں جب میں نے پی ٹی وی کو بطور نیوز پروڈیوسر، رپورٹر جوائن کیا تو اس کی عمر بمشکل گیارہ سال تھی۔ ان ایام میں بھی نیوز اور حالات حاضرہ میں درخواست دینے کی اہلیت کم از کم ایم اے سیکنڈ ڈویژن ہوا کرتی تھی۔ 36 سال تک پی ٹی وی میں نیوز پروڈیوسر، رپورٹر، جنرل منیجر، ڈائریکٹر نیوز اینڈ کرنٹ افئیرز رہتے ہوئے میں نے 26 ایم ڈیز کے دور میں کام کیا۔ ان ادوار کے دوران پی ٹی وی کو کس طرح استعمال کیا گیا، وہ سب میرے حافظے میں بہت حد تک محفوظ ہے۔ 1964 سے لے کر 2003 تک پاکستان کے سیاسی نظام میں پی ٹی وی کی مناپلی قائم رہی، نجی ٹی وی چینلز کے آنے کے بعد پی ٹی وی کی الیکٹرانک مناپلی تو ختم ہو گئی لیکن حکومتی ترجمان کے طور پر اس کا کردار اب تک حاوی ہے۔

یہ ادارہ جو 1964 میں ریڈیو پاکستان کے ایک گوشے (کینٹین کو پہلا ٹی وی اسٹوڈیو بنایا گیا) سے شروع ہوا، اب پھیل کر ایک سلطنت بن چکا ہے۔ پی آئی اے کی طرح پی ٹی وی بھی ملک کے اندر اور باہر پاکستان کی پہچان تصور کیا جاتا ہے۔ پی ٹی وی کی پہلی دہائی ہنی مون کا گولڈن پیریڈ تھا۔ دوسری دہائی میں پروفیشنل ازم اور ٹیکنالوجی متعارف ہوئی، تیسری دہائی گلیمر اور اشتہارات کی رہی ۔ چوتھی دہائی میں اس کی مناپلی ختم ہوئی اور مسابقت کا دور آیا جو اب بھی جاری ہے۔ آج کے دور میں بھی پی ٹی وی پاکستان کا سب سے بڑا نشریاتی نیٹ ورک رکھتا ہے۔ اس کے پاس سب سے بہتر تکنیکی سہولتیں ہونے کے ساتھ ساتھ تجربہ کار، تربیت یافتہ پروفیشنلز کا گروپ موجود ہے۔ یہ ادارہ اب بھی ایک متحرک نیٹ ورک ہونے کی وجہ سے ملک کے سماجی، ثقافتی، تعلیمی اور سیاسی رویوں پر اثر انداز ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ سب کام تب ہی ہو سکتے ہیں جب حکومتی سطح پر پی ٹی وی کی اس صلاحیت کا ادراک ہو اور اسے ایک حکومتی کے بجائے قومی ادارے کے طور پر چلانا چاہیں۔ 

پی ٹی وی میں بیڈگورننس، غیرضروری سیاسی تقرریاں اور مالی وسائل کو ذاتی اور سیاسی طور پر استعمال کرنے کا جائزہ لیے بغیر اس ادارے کا تجزیہ ممکن نہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن میں سیاسی بنیاد پر بھرتیوں اور بڑی بڑی تنخواہوں کے پیکیج دینے سے یہ ادارہ مالی اعتبار سے کھوکھلا ہو رہا ہے۔ سرکاری کارپوریشنوں اور اداروں میں اخراجات کو متناسب سطح پر رکھنے کا فارمولا یہ ہے کہ تنخواہوں اور اسٹیبلشمنٹ کا خرچ 25 اور 28 فیصد سے زائد نہ ہونے دیا جائے۔ پی ٹی وی بھی اسی فارمولے کے تحت 1988 تک عمل کرتا رہا لیکن بڑھتے بڑھتے یہ تناسب 60 فیصد سے بھی زائد ہو گیا ہے۔ پی ٹی وی کی مالی صورتحال تو یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ریٹائرڈ افراد کو پنشن کے حصول میں بھی دقت کا سامنا ہے۔ ایک مروجہ اصول کے تحت ہر ادارے میں پنشنرز کے لیے پنشنرز ٹرسٹ فنڈ قائم کیا جاتا ہے۔ پی ٹی وی غالباً واحد قومی ادارہ ہے جہاں یہ ٹرسٹ فنڈ قائم نہیں کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق پی ٹی وی کو ٹی وی لائسنس فیس کی مد سے سالانہ پانچ ارب روپے حاصل ہوتے ہیں جب کہ کمرشل اشتہارات سے بھی تقریباً دو ارب سالانہ آمدنی ہوتی ہے، اس کے باوجود پی ٹی وی کا خسارے میں جانا نہ صرف قابل توجہ ہے بلکہ قابل تحقیق بھی ہے۔ 

اس ادارے میں بڑا Potential ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف یہ کہ مالی اعتبار سے با آسانی منافع بخش بنایا جا سکتا ہے بلکہ پی ٹی وی دوسرے ٹی وی چینلز کے لیے ایک اکیڈیمی اور قومی رویوں کی تعمیر اور جمہوری قدروں کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں سرکاری سطح پر کوئی ٹیلی ویژن اکیڈمی نہیں۔ مجبوراً ہر چینل محدود وسائل اور حالات کی بناء پر جزوقتی تربیت کا اہتمام کرتا ہے، اسی بناء پر اکثر ٹی وی چینلز میں معیاری پروگرامنگ اور صحافتی اخلاقیات کے عمل میں کمی کا احساس ہوتا ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ٹیلی ویژن اکیڈیمی جیسے اہم شعبے کو متحرک کیا جانا ضروری ہے۔

سرور منیر راؤ  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

گوادر کے عوام کے مسائل

$
0
0

لالہ فہیم کو کتابوں سے عشق ہے۔ انھوں نے اپنے عشق کو عملی شکل دینے کے لیے کراچی کے مشہور اردو بازار میں ایک نئی عمارت میں دکان لے لی۔ وہ کتابیں فروخت کرتے ہیں اور کتابیں شایع کرتے ہیں۔ تین ماہ قبل اپنی دکان پر آئے اور کچھ لوگ انھیں اپنے ساتھ لے گئے۔ اب لالہ فہیم دوبارہ اپنے گھر آگئے ہیں۔ اچانک گھر سے جانے پر ان کے اہل خانہ نے سندھ ہائی کورٹ میں عرضداشت داخل کی تھی مگر اب یہ معاملہ داخل دفتر ہو چکا ہے۔ لالہ فہیم کا تعلق مکران ڈویژن سے ہے۔ گوادر میں جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکریٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمن نے دوبارہ ’’ حق دو تحریک ‘‘ شروع کر دی ہے۔ گوادر کے شہری مولانا ہدایت الرحمن کے مطالبات کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمن کا مطالبہ ہے کہ گوادر کے لوگوں کی نوے فیصد اکثریت کا تعلق ماہی گیری کے شعبہ سے ہے۔ مکران کے غریب ماہی گیروں سے ماہی گیری کا حق چھین لیا گیا ہے۔ 

غیر ملکی جدید ترین ٹرالر مکران ڈویژن سے ملحقہ سمندر میں جدید مشینری کے ذریعہ مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں اور ساری مچھلیاں ان کے الیکٹرانک جال میں پھنس جاتی ہیں۔ گوادر کے شہریوں کو جو صدیوں سے ماہی گیری کے شعبہ سے منسلک ہیں پورے ہفتہ سمندر میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ ماہی گیروں کو مختصر مدت کے لیے سمندر میں جانے کی اجازت دی جاتی ہے، یوں غریب ماہی گیر خالی ہاتھ واپس آتے ہیں۔ گوادر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ گوادر شہر ان کا ہے مگر شہر میں داخل ہونے کے لیے روزانہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو اپنی شناخت بار بار بتانی پڑتی ہے۔ ’’ حق دو تحریک ‘‘ کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ ایسے افراد کی واپسی کا ہے جو لاپتہ ہوئے۔ ان میں سے کچھ افراد برسوں سے لاپتہ ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمن کی قیادت میں ان مطالبات کو منوانے کے لیے گزشتہ سال جدوجہد کا آغاز کیا گیا تھا۔

ان کی قیادت میں ہزاروں افراد نے کئی مہینوں تک گوادر سپر ہائی وے پر دھرنا دیا تھا۔ اسلام آباد کی وفاقی حکومت اور کوئٹہ کی صوبائی حکومت کے عہدیداروں نے مولانا ہدایت الرحمن سے مذاکرات کیے تھے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو نے مولانا ہدایت الرحمن کے مطالبات ماننے کی یقین دہانی کرائی مگر ایک سال گزرنے کے باوجود گوادر کے شہریوں کے مسائل کے حل کے لیے کیے گئے وعدے وفا نہ ہوئے۔ مولانا ہدایت الرحمن نے اکتوبر کے مہینہ میں پھر اعلان کیا کہ اگر وعدوں پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو وہ 20 نومبر کو پھر جمع ہوں گے۔ 20 نومبر کے دھرنے میں ہزاروں افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوئے مگر مکران کے باسیوں کے مسائل کو حل کرنے اور کیے گئے وعدے پورے کرنے کے لیے نہ تو بلوچستان کی حکومت تیار ہے نہ موجودہ وفاقی حکومت توجہ دے رہی ہے۔  بلوچستان کا ایک مسئلہ سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا ہے۔ نئی صدی کے آغاز سے سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔ 

اس دوران سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت کے علاوہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن ، تحریک انصاف اور اب میاں شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومتیں برسر اقتدار رہیں مگر یہ مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا جس کی ذمے داری لاپتہ افراد کی بازیابی تھی۔ جسٹس جاوید اقبال بعد ازاں نیب کے سربراہ بن گئے۔ تحریک انصاف کے مخالف سیاست دانوں کو چن چن کر جیل بھجوایا گیا مگر کمیشن لاپتہ افراد کے مسئلہ کے حل کے لیے پوسٹ آفس کی طرح کردار ادا کرنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اور انسانی حقوق کمیشن HRCP نے کمیشن کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے لاپتہ افراد کے مسئلہ کا مستقل حل نکالنے میں سب سے زیادہ دلچسپی لی۔ جسٹس اطہر من اﷲ نے کہا کہ جس شہری کو ریاستی اداروں کے اہلکار اغواء کریں وہ شخص لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہو گا۔ 

کسی شہری کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دینے کا بل پارلیمنٹ میں دو سال قبل پیش ہوا تھا۔ سینیٹ نے اس بل کو منظور کر لیا تھا مگر تحریک انصاف کی انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے ایک دن یہ انکشاف کیا کہ بل کا مسودہ لاپتہ ہو گیا ہے مگر موجودہ حکومت کے اقتدار کے تین ماہ بعد پارلیمنٹ شہری کے لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دیا گیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر سندھ حکومت نے لاپتہ افراد کے لواحقین کو 5 لاکھ روپے ادا کیے ہیں۔ بلوچستان کے کئی کتابوں کے مصنف، صحافی عزیز سنگھور نے مولانا ہدایت الرحمن کو حق دو تحریک کے محرکات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ جماعت اسلامی نے کبھی بھی نہ تو قوم پرستانہ سیاست کی ہے اور نہ ہی اس طرح ریاستی اداروں کو چیلنج کیا مگر ہدایت الرحمن کی مقبولیت کی بناء پر خاموشی اختیار کر لی گئی ہے۔ مولانا ہدایت الرحمن اس جدوجہد کے ذریعے بلوچ عوام میں مقبول ہو گئے ہیں۔ عزیز سنگھور کا کہنا ہے کہ گوادر میں منشیات کا خاتمہ ہونا چاہیے، ماہی گیروں کو آسانی سے ساحل سمندر میں مچھلی کا شکار کرنے کا حق ملنا چاہیے۔ 

مسلم لیگ ن کے رہنما ماضی میں گوادر کے عوام کی تحریک کی حمایت کرتے رہے ہیں مگر اب مسلم لیگ ن کے قائد شہباز شریف کی حکومت سابقہ حکومت کی طرح گوادر کے عوام کو مایوس کر رہی ہے جس کا فائدہ دوسرے اٹھا رہے ہیں۔ کیا گوادر کے عوام کے مسائل حل ہونگے؟

ڈاکٹر توصیف احمد خان 

بشکریہ ایکسپریس نیوز

سیاسی احتجاج عوام کے لیے عذاب کیوں؟

$
0
0

سیاسی پارٹیوں کے احتجاج کے لیے ہمیشہ سڑکیں استعمال کی جاتی ہیں اور راستے بند کر کے وہاں سے لوگوں کی آمد و رفت بند کر دی جاتی ہے اور لوگوں کو وہاں سے گزرنے بھی نہیں دیا جاتا اور اگر کوئی وہاں سے پیدل بھی گزرنا چاہتا ہے تو اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں احتجاج کے مقام پر ہر طرف گاڑیوں کی لمبی لمبی لائنیں لگ جاتی ہیں اور بزرگوں، خواتین و بچوں اور ایمبولینسوں کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا، مریضوں کو اسپتال، بچوں کو اسکولوں اور لوگوں کو ان کی منزل تک نہیں جانے دیا جاتا۔ مجبوری اور ضروری کاموں سے جانے والے احتجاجی مظاہرین کی خوشامد کرتے ہیں مگر ان کی نہیں سنی جاتی اور گزرنے کی کوشش پر ان کی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے کئی دنوں کے حالیہ احتجاج پر بزرگ اور خواتین کی برداشت ختم ہو گئی تھی اور انھوں نے وہاں موجود رہنماؤں کو کھری کھری سنائیں اور متاثرہ افراد مظاہرین سے پوچھتے رہے کہ کیا ریاست مدینہ میں یہی کچھ ہوتا تھا اور آمد و رفت کے راستے بند کر کے وہاں لوگوں کو پریشان کیا جاتا تھا۔

سپریم کورٹ کے سینئر جج قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہمارے نبی رسول اللہ ؐ نے راستے بند کرنے کے عمل کو شیطانی عمل قرار دیا تھا۔ انھوں نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ سڑکوں کی بندش پر پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے۔ دوسروں کے بنیادی حقوق متاثر کر کے آزادی اظہار کا حق استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ لوگوں کے سڑکوں کے استعمال کرنے کے حق میں رکاوٹ ڈالنے والے یہ مظاہرین کو قانون کے تحت جواب دہ ٹھہرانا لازم ہے۔ پاکستان کے علاوہ دنیا کے کسی ملک میں احتجاج کے لیے سڑکیں کئی کئی روز بند نہیں کی جاتیں نہ سرکاری اور لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے بلکہ بڑی تعداد میں احتجاج کرنے والے مظاہرین کچھ دیر اپنا احتجاج ریکارڈ کرا کر پرامن طور پر منتشر ہو جاتے ہیں اور پولیس کو بھی ایکشن لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ دنیا بھر میں بڑے بڑے لاکھوں کی تعداد میں بھی مظاہرے ہوتے ہیں مگر مقبوضہ کشمیر اور اسرائیل میں ہی مسلمانوں کو احتجاج کرنے بھی نہیں دیا جاتا۔

پاکستان میں سیاسی جماعتوں نے احتجاج کو پرتشدد بنانے کے راستے خود اختیار کر رکھے ہیں۔ مظاہرین سے سرکاری املاک کو نقصان پہنچوایا جاتا ہے اور بعد میں توڑ پھوڑ کرنے والوں سے علیحدگی بھی ظاہر کر دی جاتی ہے اور الزام اپنے مخالفین اور پولیس پر لگا دیا جاتا ہے۔ کراچی، لاہور اور بڑے شہروں میں مذہبی سیاسی جماعتیں بھی احتجاج کرتی ہیں دھرنے دیتی ہیں اور ایسے مقام کا انتخاب کرتی ہیں کہ جہاں سڑکیں مکمل بند اور لوگوں کی آمد و رفت متاثر نہ ہو۔ سڑک کے ایک ٹریک پر اگر احتجاج ہو تو دوسرے ٹریک پر ٹریفک کی روانی جاری رہے تاکہ لوگوں کو پریشانی کا سامنا نہ ہو۔ پاکستان میں پرامن احتجاج کی روایت بہت کم ہے زیادہ تر احتجاجوں کے درمیان جب تک لوگوں کو پریشان نہ کیا جائے۔ سرکاری و نجی املاک کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور پتھراؤ نہ کیا جائے ان کا احتجاج موثر نہیں ہو سکتا اس لیے جان بوجھ کر توڑ پھوڑ کرائی جاتی ہے تاکہ میڈیا میں ان کا احتجاج نمایاں ہو اور اگر پولیس انھیں منتشر کرنے کے لیے کارروائی کرتی ہے تو الٹا حکومت کو مطعون کیا جاتا ہے اور بیانات جاری کر کے خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس بار اسلام آباد جا کر احتجاج کرنے والوں کے لیے صورت حال بہت بہتر ہے کیونکہ پنجاب پولیس انھیں توڑ پھوڑ سے روکنے کے بجائے ان کی حفاظت کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے پنجاب و کے پی میں جو احتجاج اور سڑکیں بلاک کی گئیں، میٹرو کا سفر معطل کیا گیا، موٹر وے تک کو نہیں بخشا گیا۔ جہاں بڑے بڑے آہنی کیل ٹھونک کر کروڑوں روپے مالیت سے بنی سڑکوں کو تباہ کیا گیا اور پولیس نے انھیں اس لیے نہیں روکا کہ احتجاج کرنے والوں کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا اور پنجاب اور کے پی میں پی ٹی آئی کی ہی حکومت ہے۔ اس لیے مظاہرین کو کوئی ڈر نہیں تھا اور ان کے احتجاج میں صوبائی وزرا اور ارکان اسمبلی بھی شامل تھے اور ان کی موجودگی میں احتجاج ہوتا رہا اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے احتجاج سے اس بار سب سے زیادہ شہری متاثر ہوئے جنھیں سڑکوں کی بندش سے آمد و رفت میں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور مظاہرین کو اس بار شہریوں کے ان کے خلاف احتجاج کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

پنجاب حکومت کی زیر نگرانی ہونے والے پی ٹی آئی کے احتجاج میں سرکاری املاک کو اس لیے نقصان نہیں پہنچایا گیا کہ ان کی اپنی حکومت ہے مگر موٹر وے ضرور کھود دی گئی وہ وفاقی حکومت نے بنوائی تھی۔ احتجاج کا زور سڑکوں کی بندش پر رہا جس سے شہری بری طرح متاثر ہوئے۔ وفاقی حکومت اس لیے مطمئن تھی کہ احتجاج اسلام آباد میں نہیں تھا اور متاثرہ لوگ خود مظاہرین کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ راولپنڈی لاہور ہائی کورٹ کی حد میں ہے جس نے سڑکوں کی بندش کو اہمیت نہیں دی اور پرامن احتجاج مظاہرین کا حق سمجھا صرف سپریم کورٹ کے سینئر جج قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد میں سرکاری ملازمین کے احتجاج میں سڑکوں کی بندش کو محسوس کیا کیونکہ انھوں نے یہ بندش اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔

محمد سعید آرائیں  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

یہ ضدی سیاست دان

$
0
0

پہلے عمران خان ضد پراڑے تھے تو اب حکمراں اتحادی ضد پر اتر آئے ہیں۔ اگر عمران خان نے اپنی ضد چھوڑ کر حکومت کو مذاکرات کیلئے دعوت دے دی تھی تو اتحادیوں کو بھی خان کے اس مثبت یو ٹرن پر مثبت انداز میں سوچنا چاہئے تھا۔ افسوس کہ وزیراعظم کے ساتھ اجلاس میں عمران خان کی مذاکرات کی دعوت کا جائزہ لینے کے بعد ن لیگی وزیروں نے گویا عمران خان کو دھتکار دیا ہے۔ اس عمل سے یوں محسوس ہوا کہ جیسے ایک دوسرے سے ضد کا مقابلہ کیا جا رہا ہے، ایک دوسرے کو ذلیل کئے جانے کی ریس لگی ہے۔ خدارا! کچھ ملک کا بھی سوچ لیں۔ پہلے عمران خان کہتے رہے کہ ’’ پاکستان کے دشمنوں سے بات کر لوں گا لیکن ان چوروں ڈاکوئوں سے بات نہیں کروں گا۔‘‘ اب اگر عمران خان اپنی بات ، جو غلط تھی، سے پیچھے ہٹے ہیں تو حکمرانوں اور ن لیگیوں کو سنجیدگی دکھانی چاہئے تھی، ملک کا سوچنا چاہئے تھا۔ 

اگر عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران اپوزیشن سے لڑتے لڑتے اور ’’چور ڈاکو، چور ڈاکو‘‘ کی گردان الاپتے وقت ضائع کیا، ملک کو سیاسی اور معاشی استحکام مہیا کرنے کا سنہری موقع کھو دیا تو موجودہ حکومت بھی اُسی روش پر کیوں چل رہی ہے؟ بات چیت کے ذریعے سیاسی اور معاشی استحکام کا حصول اپوزیشن سے زیادہ حکومتوں کی خواہش ہوتی ہے۔ یہ سب اگر عمران خان اپنے دور حکومت میں نہیں سمجھے تو موجودہ حکمراں خصوصاً ن لیگ کی عقل پر کیوں پردے پڑ گئے ہیں۔ ؟ عمران خان نے اگر واقعی پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیاں توڑ دیں اور حکمراں اتحاد اس بات پر قائم رہا کہ نہ تو سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں توڑیں گے اور نہ ہی وزیراعظم قومی اسمبلی کو تحلیل کریں گے تو ایسے میں سیاسی عدم استحکام مزید کتنا بڑھ جائے گا ؟ اس سے بھی اہم اور فکرانگیز بات یہ کہ معیشت کا کیا بنے گا؟ 

پاکستان کے معاشی حالات پہلے ہی بہت گمبھیر ہیں، سیاسی عدم استحکام میں اضافے کا مطلب معیشت کی مزید تباہی ہے، جو دراصل پاکستان اور عوام دونوں کیلئے بہت بُری خبر ہے۔ ویسے تو عمران خان نےانتخابات کی شرط پر حکومت کو مذاکرات کی دعوت دی لیکن تحریک انصاف کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ وہ میثاق معیشت، الیکشن ریفارمز سمیت، گڈ گورننس اور دوسری اصلاحات پر بھی حکومت سے بات کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ضد، اناپرستی اور ایک دوسرے کو زیر کرنے کی سیاست نے ہی ملک کی یہ حالت کی ہے۔ ن لیگ اور پی پی پی کو اگر بار بار حکومتیں ملیں تو اُنہوں نے جو کرنا چاہئے تھا وہ نہ کیا، یہی حال عمران خان کا تھا۔ اس ملک کو میثاق معیشت کی اشد ضرورت ہے، پاکستان کو اگر ترقی کرنی ہے تو اسے اپنے گورننس ماڈل کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ اداروں کی مضبوطی، ادارہ جاتی اصلاحات، سول بیوروکریسی اور پولیس کو غیر سیاسی کرنا، قانون کی عملداری، میرٹ اور شفافیت یہ وہ گورننس کی بنیادیں ہیں جن کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو مل کر اتفاق رائے سے اصول مرتب کرنا پڑیں گے جس کیلئے یہ بہترین وقت ہے۔ 

اگر الیکشن جون میں کروا دیے جائیں، جس کیلئے طرفین کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑے گا تو آنے والے تین چار مہینوں میں بات چیت کے ذریعے ہم اپنی معیشت اور طرز حکمرانی کے fundamentals کو ٹھیک کر سکتے ہیں جو پاکستان اور عوام دونوں کے وسیع تر مفاد میں ہو گا۔ اگر عمران خان موجودہ حکومت کو گرانے کے چکر میں ہی رہے اور حکمراں اتحاد اپنے آپ کو بچانے اور عمران خان کی سیاسی چالوں کو ناکام بنانے میں ہی لگا رہا تو معیشت بد سے بدتر ہوتی چلی جائے گی۔ اس کے برعکس دونوں اطراف اگر مذاکرات کی میز پر بیٹھتے اورمعاملات کے سدھار کیلئے اتفاقِ رائے کا اعلان کرتے ہیں تو اس سے ملک کو سیاسی استحکام ملے گا جو معیشت کی بہتری کیلئے ازحد ضروری ہے۔  

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ

خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ

$
0
0

کل ( جمعہ ) انسدادِ غلامی کا عالمی دن تھا۔ اقوام متحدہ کے تحت اس دن کا مقصد یہ آگہی پھیلانا ہے کہ غلامی کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ مجبوروں اور مقروضوں سے جبری محنت اور کم سنوں سے مشقت کے علاوہ انفرادی و کاروباری خود غرضی کے ہاتھوں جنسی و جسمانی غلامی، انسانی اسمگلنگ، جبری شادیاں، باعزت ملازمت کے دھوکا میں پاسپورٹ و پروانہِ راہداری کی ضبطی یا ذاتی شناختی دستاویزات کے قانونی حصول کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر کے بنیادی حقوق غصب کرنے اور کچھ انسانی گروہوں کو نام نہاد کمی کمین قرار دے کر ان پر مفاداتی سواری گانٹھنے سمیت صدیوں پر میحط غلامی نے جدید چولا پہن لیا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی عہدنامے کی شق چار کے تحت کسی انسان کو کسی بھی جواز و شکل میں غلام رکھنا قانوناً و اخلاقاً ممنوع اور شرفِ انسانیت کی کھلی پامالی ہے اور اس بنیادی حق کا تحفظ تمام ریاستوں کی مشترکہ ذمے داری ہے۔

عالمی ادارہِ محنت ( آئی ایل او ) کا اندازہ ہے کہ اس وقت کرہِ ارض پر پانچ کروڑ سے زائد انسان جسمانی غلامی کا جوا اٹھائے ہوئے ہیں۔ ان میں ایک چوتھائی پندرہ برس کی عمر تک کے بچے ہیں۔ ان میں سے اٹھائیس ملین انسان جبری مشقت میں جھونکے گئے ہیں۔ بائیس ملین کو جبری شادی کے ذریعے غلامی کی کھائی میں دھکیلا گیا ہے۔ سترہ ملین ذی روح نجی شعبوں میں اور چار ملین افراد ریاستی سطح پر غلامی کی مختلف شکلوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ غلاموں کی تعداد میں سال بہ سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دو ہزار سولہ سے اکیس کے درمیانی پانچ برس میں کم ازکم ایک کروڑ غلاموں کا اضافہ ہوا ہے۔ غلام سازی کا خام مال ہر طرف بکھرا پڑا ہے۔ قدرتی و انسانی آفات سے تباہ حال بے بس انسان، انتہائی غربت کی سطح سے بھی نیچے گرنے والے آدم، بہتر معاشی مستقبل کا خواب دیکھنے والی اشرف مخلوق، غیر قانونی تارکینِ وطن و پردیسی اور بے سہارا خواتین و بچے غلامی کی بھٹی کا ایندھن ہیں۔

کمزور و مبہم ریاستی قوانین، متعلقہ محکموں کی کرپشن اور ملی بھگت اس انسانی ایندھن کی مستقل اور پائیدار رسد کے ضامن ہیں۔ لاکھوں خاندان وہ ہیں جنھیں قرض کے بوجھ تلے دبا کے نسل در نسل غلام بنایا جا سکتا ہے۔ نہ قرض کا بار کم ہو گا نہ غلام اپنی آزادی خریدنے کے قابل ہو گا۔ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے جس کا مالی حجم ڈیڑھ سو سے دو سو بلین ڈالر سالانہ ہے۔ سن اٹھارہ سو نو میں امریکا میں ایک غلام جتنے پیسیوں میں بیچا خریدا جاتا تھا وہ رقم آج کے چالیس ہزار ڈالر کے مساوی تھی۔ لیکن اس وقت آپ انسان کو نوے سے سو ڈالر ماہانہ کی اجرت پر دو سو برس پہلے کے مقابلے میں زیادہ سستائی اور آسانی سے غلام رکھ سکتے ہیں۔ یہ غلام اور ان کی محنت کے سینے پر اپنی کامیابی و ترقی کے جھنڈے گاڑنے والی اقوام اور کثیر القومی کمپنیاں اور خون چوس سرمایہ کار ہمارے چاروں طرف پھیلے پڑے ہیں۔ ان غلاموں کو چھوٹے بڑے کارخانوں، گھروں، منڈیوں، دوکانوں، تعمیراتی شعبوں، کھیتوں، قحبہ خانوں، بھکاریوں کے منظم کاروبار سمیت بیسیوں شعبوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔

عام طور سے سمجھا جاتا ہے کہ اکثر جدید غلام غریب اور ترقی پذیر ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ یہ خیال اس اعتبار سے تو ٹھیک ہے کہ غریب ممالک میں غلامی کی فصل کے لیے زرخیز ماحول میسر ہے۔ مگر ان میں سے باون فیصد غلام متوسط یا ترقی یافتہ معیشتوں کے گالوں کی دوڑتی سرخی کا سبب ہیں۔ جبری مشقت کے شکار چھیاسی فیصد انسان نجی شعبوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے تئیس فیصد جنسی غلامی کے بھٹے میں جھونک دیے گئے ہیں اور ان جنسی غلاموں میں بھی اسی فیصد تعداد خواتین اور بچیوں کی ہے۔ غلامی کے بین الاقوامی اشاریے کی دو ہزار اٹھارہ کی شایع تفصیل کے مطابق مغربی افریقہ کے ملک ماریطانیہ میں آج بھی نوے ہزار کے لگ بھگ (کل آبادی کا دو فیصد ) زرخرید غلام پائے جاتے ہیں۔جب کہ جدید غلامی کی تشریح کی روشنی میں بھارت میں اسی لاکھ ، چین میں چالیس لاکھ، پاکستان میں اکتیس لاکھ، شمالی کوریا میں پچیس لاکھ ، نائجیریا میں پندرہ لاکھ ، انڈونیشیا میں گیارہ لاکھ ، کانگو میں دس لاکھ ، روس اور فلپینز میں آٹھ آٹھ لاکھ انسان جدید غلامی کی جکڑ بندی میں ہیں۔ یہ ریاستی فہرست یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ طول پکڑتی جاتی ہے۔

امریکا میں چار لاکھ سے زائد جدید غلام ہیں۔ ان میں زیادہ تر وسطی و جنوبی امریکا سے آنے والے غیر قانونی تارکینِ وطن اور جیلوں میں بند قیدی ہیں۔ جن امریکی ریاستوں میں قید خانے نجی کمپنیوں کو ٹھیکے پر دیے جاتے ہیں وہاں حالات اور برے ہیں۔ وہاں جو قیدی جبری محنت سے انکار کرتے ہیں انھیں قیدِ تنہائی بھی بھگتنا پڑ سکتی ہے۔ برطانوی حکام کا اندازہ ہے کہ اس وقت ملک میں دس سے پندرہ ہزار انسان مختلف شعبوں میں غلامی کاٹ رہے ہیں۔ قیدِ بامشقت بھی غلامی کی ایک نمایاں تسلیم شدہ شکل ہے۔ کیونکہ قیدیوں کو ان کی محنت کا یا تو جائز معاوضہ بھی بطور سزا نہیں ملتا یا بطور جبری مزدور کام لیا جاتا ہے۔ چند وسطی ایشیائی ریاستوں اور بعض افریقی ممالک میں طلبا اور ملازمین سے سال کے کچھ دن رضاکاری کے نام پر قانوناً بلامعاوضہ جبری مشقت لینے کو آج بھی برا نہیں سمجھا جاتا۔ کئی ممالک میں بچوں کو اغوا کر کے مسلح تصادم اور خانہ جنگی میں جھونک دیا جاتا ہے۔ یہ وبا کانگو، یوگنڈا اور مغربی افریقہ کی ریاستوں اور برما میں عام ہے۔

انٹرنیٹ کے پھیلاؤ کے سبب عام لوگوں کو پرکشش نوکری کا جھانسہ دے کر غلامی کے جال میں پھانسنے کا چلن سال بہ سال بڑھتا جا رہا ہے۔ پڑھے لکھے کوالیفائیڈ نوجوانوں کو جھانسہ دے کر کمبوڈیا، تھائی لینڈ اور برما لایا جاتا ہے اور پھر انھیں قید کر کے آن لائن جوئے یا فراڈ کے کاموں پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جرائم پیشہ بین الاقوامی گروہ اس کاروبار سے کروڑوں ڈالر اینٹھتے ہیں جب کہ غلاموں کو انتہائی معمولی معاوضہ دے کر قیدیوں کی طرح پہرے میں رکھا جاتا ہے اور اس عذاب سے رہائی کے عوض ان کے اہلِ خانہ یا جاننے والوں سے بھاری معاوضہ وصولا جاتا ہے۔ اس کاروبار میں چینی جرائم پیشہ گروہ آگے آگے بتائے جاتے ہیں۔ اس وبا کو روکنے کے لیے علاقائی سطح پر تھوڑے بہت اقدامات بھی کیے جاتے ہیں مگر بدعنوان حکام اور مجرموں کا گٹھ جوڑ توڑنا کوئی آسان کام تو نہیں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں۔ غلامی آج بھی ایک سنگین عالمی مسئلہ ہے۔ مگر اس سے نجات پانے کی اجتماعی کوششیں خاصی بکھری اور غیر منظم ہیں۔ چنانچہ فی الحال واحد طریقہ یہی ہے کہ آنکھیں اور کان کھلے رکھے جائیں۔ البتہ جب تک مجبوری، غربت اور راتوں رات آگے بڑھنے کے خواب زندہ ہیں۔ غلامی بھی پینترے بدل بدل کے وار کرتی رہے گی۔

وسعت اللہ خان 

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کیا سیاسی پروجیکٹ بند ہونگے؟

$
0
0

سال 2022 صرف سیاست کیلئے ہی نہیں صحافت کیلئے بھی اچھا سال نہیں رہا۔ صحافتی دنیا کے دو بڑے نام ارشاد رائو اور عمران اسلم ہم سے بچھڑ گئے۔ دونوں ہی چیف ایڈیٹر اور گروپ صدر کے منصب پر فائز رہے ایک کا تعلق اردو سے اور دوسرے کا انگریزی صحافت سے تھا۔ دونوں کا دور جنرل ضیا الحق کا دور ہے۔ البتہ ارشاد رائو نے اپنے رسالے الفتح کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور کئی بار ان کا رسالہ بند ہوا۔ عمران اسلم جیو اور دی نیوز کے گروپ صدر تھے وہ بھی تقریباً اسی سوچ کے حامل تھے جس سوچ اور نظریہ کے ارشاد رائو تھے۔ عمران سے میری پہلی ملاقات 1983 میں ڈان گروپ کے شام کے اخبار ’’دی اسٹار‘‘ میں ہوئی۔ جہاں سے انہوں نے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز ہی بحیثیت ’’مدیر‘‘ کیا اور چند برسوں میں ہی اپنا لوہا منوا لیا اور سرخیوں کو ایک نیا انداز دیا مگر وہ صرف صحافی ہی نہیں ایک اچھے اداکار، صداکار اور جاندار لکھاری بھی تھے ان کی سیاسی سوچ روشن خیالی کی طرف مائل تھی، وہ سقوط ڈھاکہ کے عینی شاہد تھے، جس کے واقعات وہ اکثر سناتے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ مارچ، 1971 کا فوجی آپریشن بہت بڑی ’’فوجی غلطی‘‘ تھا۔

بہرحال سیاست اور صحافت دونوں نے ہی برا وقت دیکھا ہے اور اب بھی معاملات ٹھیک نہیں ہیں لیکن ایک امید البتہ بندھی ہے کہ فوج اب سیاسی معاملات میں قطعی مداخلت نہیں کرے گی۔ شاید اب آئی ایس پی آر کی اس طرح پریس کانفرنس سننے کو نہ ملے، سنا ہے ٹرانسفر پوسٹنگ کی خبریں بھی شاید نمایاں جگہ نہیں پائیں گی۔ اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو یہ آگے چل کر جمہوریت کو مضبوط کرنے میں مدد گار ثابت ہو گا مگر کیا سیاسی پروجیکٹ بھی بند ہونگے۔ پاکستان کی سیاست میں کئی تجربات ہوئے اور نئے نئے پروجیکٹ لائے گئے مختلف سیاسی جماعتوں اور گروپس کی شکل میں مقصد تقسیم در تقسیم تھا اور یوں سیاست بے معنی اور جمہوریت کمزور ہوتی چلی گئی۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی تحریک کا کوئی اور نتیجہ نکلا ہو یا نہیں مگر بہت سے چہرے بے نقاب ہو گئے اور ثابت ہوا کہ 2018 میں کیا ہوا تھا اور اس کے بعد سے آج تک کیا ہو رہا ہے۔

ایسی ہی ایک صورتحال 1990 کے الیکشن کے بعد کھلی جب مہران بینک یا یوں کہیں اصغر خان کیس سامنے آیا کہ کس طرح ISI نے سیاست دانوں اور صحافیوں میں رقوم تقسیم کیں اور ثابت ہوا کہ وہ الیکشن بھی دھاندلی زدہ تھے۔ ویسے غور کریں تو اندازہ لگانا مشکل نہ ہو گا کہ یہاں کبھی ایک جماعت کو نیچا دکھانے کیلئے دوسری جماعت کو کھڑا کیا جاتا ہے۔ بائیں بازو کی تین جماعتوں کو اسی طرح ختم کیا گیا۔ 50 کی دہائی میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگی، 1954 میں جگتوفرنٹ کی حکومت توڑ دی گئی اور 70 کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا کر بائیں بازو کی سیاست کو ہمیشہ کیلئے دفن کرنے کی کوشش کی گئی۔ مشرقی پاکستان ہاتھ سے نکل گیا تو بھٹو کی بڑھتی ہوئی مقبولیت دیکھ کر پاکستان پیپلز پارٹی میں ایسے لوگ بھیجے گئے کہ بھٹو بائیں بازو کے ہاتھوں سے نکل کر جاگیرداروں اور وڈیروں میں پھنس کر رہ گئے۔ جس کی پہلی مثال اچانک 1977 کا الیکشن ہے۔ اس اعلان نے کھلبلی مچا دی اور سب سے پہلے پروجیکٹ پی این اے لانچ کیا گیا۔

ملک میں مارشل لا لگا اور بھٹوکو پھانسی ہوئی تو پی این اے سے بھی پیچھا چھڑانے کی باتیں ہونے لگیں پھر دو نئے پروجیکٹ سامنے آئے۔ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ اور سندھ میں ایم کیو ایم۔ اس وقت بنیادی مسئلہ پروجیکٹ لانے والوں کے نزدیک بھٹو کے سحر اور پی پی پی کو ختم کرنا تھا۔ پنجاب میں میاں نواز شریف صاحب پر ہاتھ رکھا تو سندھ میں کوٹہ سسٹم کو بنیاد بنا کر لسانی فسادات کو آگے بڑھایا گیا جب کہ پنجاب میں یہ ٹاسک شریف برادران کو دیا گیا۔ بعد میں جب سندھ اور پنجاب میں یہ دونوں پودے تناور درخت بن گئے تو ان کی شاخیں کاٹنے کا کام شروع ہوا۔ سندھ میں ایم کیو ایم کے کئی دھڑے بنائے گئے اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو توڑنے کا عمل جاری رہا۔ پہلے سیاست دانوں کو کرپشن اور چمک میں لگا دیا گیا بعد میں احتساب کے نام پر اچھے اور برے کرپٹ میں تقسیم کر دیا گیا۔

اس سے بھی بات نہ بنی تو 1993 میں پروجیکٹ عمران کا اجرا کیا گیا جس کا خود عمران کو بھی پتا نہیں تھا۔ اس کی ابتدا 14 اگست 1993 کو ہوئی جب غیر سیاسی لوگوں پر مشتمل جلوس نکالا گیا۔ آپ سب کو عمران، عبدالستار ایدھی اور جنرل حمید گل والا واقعہ یاد ہو گا۔ ایدھی صاحب تو لندن چلے گئے جبکہ عمران خان دھمکی کے بعد پیچھے ہٹ گیا یوں گل پروجیکٹ ناکام ہو گیا۔ بعد میں عمران نے 1996 میں اپنی جماعت تحریک انصاف بنائی جو ابتدا میں زیادہ کامیاب نہ ہوئی کیونکہ اس وقت پروجیکٹ مسلم لیگ (ق) پر کام ہو رہا تھا۔ خان صاحب سیاسی طور پر ناسمجھ تھے تبھی انہوں نے جنرل مشرف کا ساتھ دیا مگر جب 2000 میں نواز شریف ملک چھوڑ گئے۔ گجرات کے چوہدری مضبوط ہو گئےاور یوں عمران ناراض ہو گئے۔

2011 کے بعد عمران پر بھرپور توجہ دی گئی اور بہت سے لوگوں کو مختلف جماعتوں سے وہاں بھیجا گیا۔ کپتان کو خود بھی بڑی مقبولیت ملی اور 2013 میں وہ تیسری سیاسی قوت بن گئے۔ آگے کی کہانی کچھ مونس الٰہی نے سنا دی باقی چوہدری پرویز الٰہی یا پرانے پی ٹی آئی کے لوگوں سے پوچھ لیں۔ کراچی میں الطاف حسین کو پہلے مضبوط کیا گیا پھر جب وہ بہت زیادہ طاقتور ہو گئے تو نئے نئے گروپ بنا دیئے گئے۔ پروجیکٹ الطاف کے بارے میں اطلاع ہے کہ اب اسے بند کر دیا گیا۔ یہی نہیں مائنس الطاف پر کام ہو رہا ہے مگر شرط یہ ہے کہ نہ رابطہ کمیٹی ہو، نہ سیکٹر یونٹ آفس۔ پیغام دیا گیا ہے کہ ایک ہو جائو اور پارٹی کے دھڑے متحد ہو کر دوسری جماعتوں کی طرح اپنا چیئرمین یا صدر اور عہدے دار نامزد کرو۔ یہ تھی چند سیاسی پروجیکٹس کی مختصر کہانی۔ اب یہ امتحان ہے سب کا کہ کیا یہ سلسلہ بند بھی ہو گا یا کل کسی اور رنگ میں آجائیںگے یہ لوگ۔

مظہر عباس

بشکریہ روزنامہ جنگ

سیاسی اشرافیہ معاشی اصلاحات سے کیوں کتراتی ہے؟

$
0
0

مسلسل جاری رہنے والی سیاسی محاذ آرائیوں نے ملک کو کمزور کر دیا ہے۔ سیاسی تناؤ ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ سیاسی رہنما دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سیاسی جنگ کا اگلا مرحلہ فیصلہ کُن ہو گا لیکن ان کی یہ جنگ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ جنگ کی یہ مثال سیاسی رویوں کی عکاسی کرتی ہے۔ مخالفین کو حریف کے بجائے دشمن تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں سیاست کا مقصد دشمن کو شکست دینے اور انہیں سیاسی منظرنامے سے باہر کرنا ہوتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پاکستان کی تاریخ اسی طرح کے سیاسی رویوں سے بھری پڑی ہے اور یہ سیاسی روایت کا حصہ بن چکے ہیں۔ عدم برداشت اور جمہوری اقدار کی پامالی بھی ان ہی میں شامل ہے۔ جو لوگ اقتدار میں ہیں وہ حزبِ اختلاف کے ساتھ بات کرنے کو ترجیح نہیں دیتے جبکہ حزبِ اختلاف کے لوگ اکثر حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ 

بہت کم ایسا ہوا کہ یہ دونوں ایک صفحے پر تھے، جیسا کہ جب باہمی اتفاقِ رائے سے آئین کی 18ویں ترمیم کو اپنایا گیا تھا۔ لیکن پاکستان کی سیاست نے زیادہ تر حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان شدید کشمکش اور ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی کوششوں کو ہی دیکھا ہے۔ نہ ختم ہونے والے سیاسی جھگڑوں نے ہی اسٹیبلیشمنٹ کی سیاسی منظرنامے میں واپسی اور اس میں مداخلت کرنے کے راستے بھی کھولے۔ یوں ملک کو ایک اور قیمت چکانی پڑی۔ یہاں ایسے سیاسی ماحول کا ہمیشہ فقدان ہی رہا جو مستحکم ہو اور جس کا مستقبل بھی بہتر نظر آرہا ہو۔ یہی چیز ملک کو درپیش گھمبیر مسائل حل کرنے میں رکاوٹ بنی۔ ان مسائل کو یا تو خود حل ہونے کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا یا پھر ان کے حل کے لیے قلیل مدتی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ پاکستان کے معاشی مسائل کی ایک بڑی وجہ بھی یہی غیر مستحکم سیاسی صورتحال ہے۔

حالیہ ’ہائبرڈ تجربے‘ نے فوج کو قومی معاملات میں غیر رسمی اور وسیع کردار ادا کرنے کا موقع دیا لیکن پھر بھی دیکھا جائے تو ملک میں 2008ء کے بعد سے بلاتعطل جمہوری حکومتیں ہی رہی ہیں۔ اس دوران جمہوریت کو مستحکم ہونا چاہیے تھا، سیاسی جماعتوں کو جمہوری روایات کے فروغ کے لیے کاوشیں کرنی چاہیے تھیں لیکن ایسا ہوا نہیں۔ اس طرح نہ صرف ریاستی اداروں میں اختیارات کا توازن اور انہیں دوبارہ ترتیب دینے کا موقع ہاتھ سے گیا بلکہ سیاست کو تیزی سے تبدیل ہوتی معاشی اور سماجی تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرنے کا موقع بھی ضائع ہو گیا۔ ان میں بڑھتی ہوئی شہرکاری، متوسط طبقے کی شرح میں اضافہ، متنوع اور متحرک سماج کا اُبھر کے سامنے آنا اور ٹیکنالوجی کی بدولت عوام میں شعور آنے جیسی تبدیلیاں شامل ہیں۔ ان تبدیلیوں کے بعد نئے سیاسی نظام کو وجود میں آنا چاہیے تھا لیکن یہ اب بھی اپنی پرانی حالت میں ہی ہے۔ 

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) متوسط طبقے اور نوجوانوں کی نمائندہ جماعت بن کر ابھری تھی۔ اس کی بنیاد اشرافیہ کے حوالے سے عوام میں پایا جانے والا غصہ تھا اور اس نے عمومی سیاست سے ہٹ کر سیاست کرنی تھی۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی مخصوص گروہ کی جماعت بن کر رہ گئی اور اقتدار میں آنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے بغیر حکومت کرنے میں ناکام رہی۔ دوسری جماعتوں کی طرح اس میں بھی سیاسی اشرافیہ، مقامی بااثر افراد اور مفادات کے پیچھے بھاگنے والے مخصوص افراد شامل ہو گئے۔ یہ لوگ ماضی میں انہی دو جماعتوں کا حصہ تھے جن کی بدعنوانی کی پی ٹی آئی مذمت کرتی آئی تھی۔ مصلحت کی اس سیاست نے پی ٹی آئی کو پاکستانی سیاست میں نئی روایت قائم کرنے سے محروم کر دیا۔ پارٹی کی تنظیم پر شخصیت کو ترجیح دی گئی یہی وجہ تھی کہ پی ٹی آئی نئی سیاسی جماعت ہونے کے باوجود پرانی جماعتوں سے مماثلت رکھنے لگی۔ 

اس کے نتیجے میں روایتی سیاست، سیاسی شخصیات کی مقبولیت اور اسٹیٹس کو پر عمل پیرا جماعتوں کے عوام سے متعلق طرزِ عمل میں کچھ تبدیلی ضرور آئیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ سماجی اور سیاسی ماحول میں تبدیلی کے باوجود، ریاست اور عوام کے تعلق میں کوئی اہم تبدیلی نہیں آرہی ہے۔ سیاست ہمیشہ سیاسی اشرفیہ کے درمیان ایک مقابلہ ہی رہے گی۔ افسوس کے ساتھ یہ جماعتیں بیانات تو خوب دیتی ہیں لیکن ان کے پاس کوئی ایسا نظریہ موجود نہیں جس کی بنیاد پر وہ ملک کو آگے لے کر چلنے کا دعویٰ کریں۔ یہ سیاسی حریف جو ایک دوسرے کو حکومت کرنے کے لیے نااہل قرار دیتے ہیں ان کی پالیسیاں ایک دوسرے سے کچھ خاص مختلف بھی نہیں ہیں۔ اس پورے معاملے کی عکاسی پاکستان کے مایوس کن معاشی ریکارڈ سے بھی ہوتی ہے۔ حکومت چاہے کسی بھی جماعت کی ہو، معاشی معاملات پر سب کا مؤقف ایک جیسا ہی ہوتا ہے، حالانکہ اقتدار سنبھالنے سے قبل کیے گئے دعوے کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔ 

ملک کے بڑھتے ہوئے بجٹ اور ادائیگیوں کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے اصلاحات کرنے اور اندرونی وسائل بڑھانے کے بجائے ان سب جماعتوں نے قرضے لینے کو ترجیح دی۔ سرد جنگ اور اس کے بعد ہماری خارجی پالیسی کی ترجیحات کی وجہ سے ہمیں جو بیرونی امداد ملی اس نے ہمارے اندر بیرونی امداد پر انحصار کرنے کی عادت پیدا کر دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت جو دیہاتوں اور شہروں کی اشرافیہ کی نمائندگی کرتی ہے وہ معاشی اصلاحات لانے، وسائل کی تقسیم اور اپنے بااثر حامیوں پر ٹیکس عائد کرنے سے گریز کرتی ہے۔ امداد یا قرضوں سے حاصل ہونے والی معاشی ترقی بالکل بھی بُری نہیں ہو گی اگر اس کے نتیجے میں ایسی اصلاحات نافذ ہو سکیں جن سے بنیادی معاشی مسائل کو حل کیا جاسکے۔ ان میں ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا، معیشت کو دستاویزی بنانا، ایکسپورٹ بیس میں تنوع لانا اور سرمایہ کاری کی اس سطح کو فنانس کرنے کے لیے بچت کی حوصلہ افزائی کرنا شامل ہے جو اقتصادی ترقی کی اس شرح کو برقرار رکھ سکے جو آبادی میں اضافے کی شرح سے زیادہ ہو۔ 

ایسا کچھ نہیں ہوا اور بیرونی وسائل اور ترسیلاتِ زر کی دستیابی کے باعث حکمراں اشرافیہ ہماری معیشت کے ساختی مسائل کو نظر انداز کرتی رہی۔ اس کے علاوہ ہر حکومت نے ہی دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ حاصل کیا۔ معاشی انتظامات کے لیے امداد پر انحصار کیا جانے لگا جس نے ملک کی سول اور ملٹری قیادت کو موقع فراہم کیا کہ وہ ٹیکس اصلاحات جیسی ضروری اصلاحات کو ملتوی کر دیں۔ یہ اصلاحات معیشت کو عملی اور پائیدار بحالی کے راستے پر لانے میں مددگار ثابت ہو سکتی تھیں۔ یکے بعد دیگرے آنے والی ان حکومتوں نے مالیاتی ترقی اور ضروریات کے نام پر بھاری قرضہ لیا۔ نتیجتاً ملک اندورنی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا۔ ان قرضوں کو ادا کرنا ناممکن لگ رہا ہے۔ قرضوں کا یہ بوجھ معیشت کو نہ صرف مفلوج کررہا ہے بلکہ اس سے مہنگائی کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ 

چند مخصوص مواقعوں کے علاوہ، مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت نے ہمیشہ معاشی معاملات سے نمٹنے کے لیے ایسے راستے کا انتخاب کیا ہے جو انہیں آسان لگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک ایک کے بعد دوسرے معاشی بحران کا شکار ہو رہا ہے۔ یہ جماعتیں مخصوص حلقوں پر توجہ دے رہی ہیں اور ان کی انہی پالیسیوں کی وجہ سے اسٹیٹس اپنی جگہ برقرار ہے۔ اس کی وضاحت اس طرح ہوتی ہے کہ سیاسی اشرافیہ ایسے کسی اقدام کا خیر مقدم نہیں کرتی جن سے ان کی سیاسی حیثیت یا مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہو۔ ساتھ ہی ان کی معاشی پالیسیاں اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ عوامی وسائل پر دراصل اشرافیہ قابض ہے۔ ایک بات تو واضح ہے کہ تند و تیز بیان بازی سے اشرافیہ کے درمیان تنازع کو چھپایا نہیں جاسکتا۔ اس کا پریشان کُن پہلو یہ ہے کہ پاکستان غیر فعال سیاست، بڑھتے ہوئے حکومتی چیلنجز، طویل مدتی معاشی انتظام اور ریاستی اداروں پر سے عوام کے عدم اعتماد کے جس دلدل میں دھنسا ہوا ہے، ان جماعتوں کے پاس اس سے نکلنے کے لیے کوئی منصوبہ بھی نہیں ہے۔

ملیحہ لودھی  
یہ مضمون 6 دسمبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

بشکریہ ڈان نیوز


ارشد شریف ہم سب کو بدنام کر گیا

$
0
0

سب سے زیادہ بدنام تو وہ ہمارے مقتدر اور محبوب ادارے کو کر گیا حالانکہ چند ماہ پہلے تک وہ اسی ادارے کا سب سے زیادہ محبوب صحافی تھا۔ اس کے چاہنے والوں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ آئی ایس پی آر ارشد شریف کا ’دوسرا گھر‘ تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ارشد شریف کے گھر والے دوسرے گھر والوں کے ساتھ مل کر ارشد شریف کے قاتلوں کو ڈھونڈ نکالتے لیکن یہاں تو دوسرے گھر والے اپنی عزت بچاتے پھر رہے ہیں۔ جب بھی پاکستان میں کوئی ایسا خوفناک واقعہ ہوتا ہے جس کے مجرم نہیں ڈھونڈے جاتے ہیں یا ہم ڈھونڈنا نہیں چاہتے تو کوئی نہ کوئی ادارہ اٹھ کر کہہ دیتا ہے کہ یہ سب ہمیں بدنام کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم ان اداروں اور لوگوں کا تذکرہ کریں جن کو جاتے جاتے ارشد شریف بدنام کر گیا، شہر کراچی کی صحافت کا ایک سچا واقعہ سنتے چلیں۔ کراچی میں الطاف بھائی کا راج تھا۔ ان کی جماعت کی بہت دہشت تھی۔ اگر الطاف بھائی کہتے تھے کہ آج اخبار نہیں نکلے گا تو وہ نہیں نکلتا تھا۔

اخباروں کے سیٹھ مالکان بھی اگر ایم کیو ایم کے مرکز پر فریاد لے کر جاتے تھے تو الطاف حسین انھیں ساری رات بٹھا کر آزاد صحافت کا مطلب سمجھاتے تھے اور صبح چائے پلا کر وعدے لے کر واپس بھیج دیتے تھے۔ اس ماحول میں ہمارے ایک سینیئر صحافی کے گھر کا دروازہ توڑ کر کچھ لونڈے گھس آئے اور ان پر بُری طرح سے تشدد کیا گیا۔ کراچی کے کسی صحافی کو ذرا بھر بھی شک نہیں تھا کہ یہ کام کس نے کیا ہے۔ بلکہ ایم کیو ایم کے کارکن کھلے عام بتاتے پھرتے تھے کہ ہمارے فلاں فلاں ساتھی نے اس صحافی کے گھر میں گھس کر اس کے ’کُھنے‘ کھول دیے۔ صحافی تنظیموں نے شور مچایا تو الطاف حسین نے آزادی صحافت پر ایک اور لیکچر دینے کے لیے پریس کانفرنس بلائی۔ ہمارے زخمی صحافی بھی سر پر پٹی باندھے پریس کانفرنس میں پہنچ گئے۔ الطاف حسین نے ان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ صاحب آپ کی وجہ سے ہماری بہت رسوائی ہو رہی ہے۔ ہمارے زخمی صحافی نے اپنے سر پر بندھی پٹی کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ آپ کی تو صرف رسوائی ہوئی ہے، سر تو میرا پھٹا ہے۔

ارشد شریف کے قتل کے بعد بھی مقتدر حلقوں کو بدنامی کا اتنا اندیشہ تھا کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئی ایس آئی کے سربراہ کو براہ راست صحافیوں سے خطاب کرنا پڑا، جس میں دستاویزی ثبوت دے کر بتایا گیا کہ یہ کام ہم نے نہیں کیا ہے۔ بین السطور پیغام یہ تھا کہ اگر ہم چاہتے تو کیا وہ ملک سے جا سکتا تھا۔ مجھے تو یہی سمجھ آئی کہ ہمیں بتایا جا رہا ہے (یا ڈرایا جا رہا ہے) کہ اگر ہم نے کرنا ہوتا تو ہمارے پاس اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔ ہمیں تو اتنا یقین ہے کہ ہمارا مقتدر ادارہ یہ کام کرتا ہی نہیں اور اگر کرتا ہے تو ہمیں اپنے طریقے کیوں بتائے گا اور ہمیں خود جان عزیز ہے، ہم یہ قومی راز آپ سے کیوں پوچھیں گے۔ تو اگر آئی ایس پی آر ارشد شریف کا دوسرا گھر تھا تو کیا اس گھر کو شامل تفتیش کرنے کی اجازت ملے گی یا اس سے بدنامی ہو گی۔ 

اس بدنامی سے بچنے کے لیے مقتدر ادارے نے ایک تیسرے گھر کی طرف اشارہ کر دیا ہے یعنی ارشد شریف کا ادارہ اے آر وائی اور اس کے مالک سلمان اقبال۔ کچھ مہینے پہلے تک سلمان اقبال کا میڈیا کی دنیا میں اتنا دبدبہ تھا کہ ہم تو انھیں کوئی چھوٹا موٹا جنرل ہی سمجھتے تھے اور اے آر وائی چینل کو آئی ایس پی آر کا پہلا گھر۔ اب بدنام آئی ایس پی آر والے ہوں یا سلمان اقبال صاحب، دونوں زندہ سلامت ہیں۔ جان سے کون گیا؟  اس بدنامی میں سویلین حکومت کا بھی حصہ بنتا ہے۔ ارشد شریف کے خلاف درجن بھر سے زیادہ کیس رجسٹر ہوئے۔ تھانے تو سویلین حکومت کے ہی ماتحت ہوتے ہیں۔ تو اگر مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی مرضی کے بغیر کوئی ارشد شریف کے خلاف مقدمے درج کروا رہا تھا تو کیا آپ کو صرف بیرون ملک جا کر قرضے مانگنے کے لیے رکھا ہوا ہے۔ 

سب سے زیادہ رسوائی لیکن ہماری صحافی برادری کی ہوئی ہے۔ بندہ بھی ہمارا مارا گیا ہے اور ہم اس قابل بھی نہیں کہ کھرا اس کے قاتل کے گھروں تک پہنچا سکیں۔کمیٹی پر کمیٹی بیٹھے گی اور ہم اس کی رپورٹیں چھاپیں گے، تجزیے کریں گے، ماتم کریں گے، کالی پٹیاں باندھیں گے، کبھی کبھی چھوٹا موٹا احتجاج بھی کریں گے۔ لیکن ہم میں سے کئی اندر ہی اندر یہ بھی سوچیں گے کہ دیکھیں نا، ارشد بھی تو صحافت چھوڑ کر جہاد پر نکل پڑا تھا۔ یا پھر، اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ تو باقی ادارے اپنی بدنامی کا بندوبست خود کریں، میرا خیال ہے میری صحافی برادری کی بدنامی اس وقت تک زوروشور سے جاری رہنی چاہیے جب تک ہم ریاست کو مجبور نہ کریں کہ ہمارا بندہ مارا گیا ہے، قاتل ڈھونڈ کر دو چاہے وہ دوسرے گھر میں ہوں یا دسویں گھر میں۔

محمد حنیف

بشکریہ بی بی سی اردو

آئین کی تکریم ہی نہیں ترمیم بھی ضروری

$
0
0

آئین کی تکریم ضروری ہے لیکن آئین میں ترمیم تو بہت ہی ضروری ہے۔ فیصلہ سازوں کو جب تک یہ نکتہ سمجھ نہیں آتا، تب تک آئین کی بالادستی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ یہ آئین ایک خاص ماحول میں، ایک خاص نفسیات کے زیر اثر مرتب ہوا۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھا۔ صدمے کی ایک کیفیت تھی جس نے سب کو جکڑ رکھا تھا۔ چنانچہ مختلف معاملات پر گہرائی میں جا کر بحث کرنے کی بجائے سبھی کا رجحان ایک متفقہ آئین تیار کرنے پر تھا اور یہی چیز فتح مبین قرار پائی کہ چلیں ایک متفقہ آئین تو بن گیا۔ یہ اتفاق رائے سانحہ مشرقی پاکستان کے گھاؤ پر گویا ایک مرہم سا تھا۔ چنانچہ کسی نے یہ سوال نہ پوچھا کہ زمینی حقائق جب اتنے بدل چکے کہ ملک ہی ٹوٹ گیا تو متحدہ پاکستان کے انتخابات کی بنیاد پر حکومت کیسے بن سکتی ہے؟ کیوں نہ نیا مینڈیٹ لیا جائے تاکہ لوگ اس سانحے کے بعد پھر سے فیصلہ کریں کہ اب انہوں نے کس جماعت کو ووٹ دینا ہے؟ اس خاص نفسیاتی پس منظر میں جب آئین تشکیل پایا تو بہت سے معاملات پر اس طرح بحث اور غور نہ ہو سکا جیسے ہونا چاہیے تھا۔

یہی غنیمت تھی کہ ایک آئین بن رہا ہے۔ بعد میں یہ آئین تواتر سے پامال ہوا تو سب نے یہی غنیمت سمجھا کہ کسی طرح اس کا احترام ہونے لگے اور یہ مزید پامال نہ ہو۔ یعنی آئین سازی کے مرحلے سے آئین کے احترام کے مرحلے تک، قومی نفسیات پر اضطراب اور اضطرار کا پہلو نمایاں رہا۔ اگر ہم اس اضطراب اور اس اضطراری حالت سے نکل سکیں تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ اصل کوہ کنی آئین کی تکریم میں نہیں، تکریم کے ساتھ ساتھ اس میں ترمیم میں ہے۔ سوال یہ ہے کیا ہم یہ بھاری پتھر اٹھانے کو تیار ہیں؟ اس سفر کے ابتدائی نقوش کے طور پر چند چیزیں ایک طالب علم کے طور پر میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ ہمارا آئین اگرچہ جمہوری، پارلیمانی اور اسلامی ہے لیکن اس کا مزاج نہ پارلیمانی ہے نہ جمہوری ہے نہ ہی اسلامی۔

پارلیمانی جمہوریت کے اس آئین میں صدر اور گورنر کے منصب ہیں جن کا پارلیمانی نظام جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ نو آبادیاتی نظام ہے جو کاپی پیسٹ کی جدید شکل میں ہمارے ہاں بلاوجہ رائج ہے۔ نو آبادیاتی دور تھا تو بادشاہت تھی۔ یہ ختم ہوا تو ابتدائی مرحلے میں گورنر جنرل کا منصب بادشاہ کے نمائندے کے طور پر رکھا گیا۔ اپنا آئین بنانے کے بعد گورنر جنرل کا منصب ختم ہو گیا لیکن ہم نے اسی منصب کا نیا نام صدر رکھ دیا۔ اس کی کیا ضرورت تھی؟ کیا صدر کا یہ منصب برطانوی پارلیمانی نظام میں برطانوی بادشاہ کی طرز کا ایک متبادل ہے؟ یعنی جیسے وہاں پارلیمان کے ساتھ کراؤن ہے ہم نے پارلیمان کے ساتھ صدر رکھ لیا؟ جو کام گورنر یا صدر کرتے ہیں وہ رسمی سے کام سپیکر یا چیئرمین سینیٹ بھی کر سکتا ہے۔ اس نوآبادیاتی علامت کے لیے اتنے اخراجات کیوں اٹھائے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ ہم نے صدر اور گورنر کو اختیار بھی اسی نوعیت کے دے رکھے ہیں جو ایک دور میں بادشاہ کو حاصل تھے۔

مثلا آئین کے آرٹیکل 109 میں لکھا ہے کہ گورنر جب جہاں اور جس مقام پر چاہے اسمبلی کا اجلاس طلب کر سکتا ہے اور اجلاس کو ختم بھی کر سکتا ہے۔ غور کیجیے جب جہاں اور جس مقام پر کا کیا مطلب ہے؟ یعنی گورنر چاہے تو کیا وہ پنجاب سمبلی کا اجلاس گوال منڈی میں بھی طلب کر سکتا ہے؟ جب اسمبلی کی عمارت موجود ہے تو جہاں اور جس مقام پر کا اختیار کس لیے؟ علامتی ہی سہی اس میں بڑی معنویت ہے۔ اجلاس بلانے کا مکمل اختیار بھی جواب طلب ہے۔ اس میں سپیکر اور خود پارلیمان کو یہ اختیار کیوں نہیں کہ وہ اپنا اجلاس بلا سکیں؟ صدر کو آئین میں ہی آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق آج تک 2500 آرڈی ننس جاری ہو چکے ہیں۔ تو کیا یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ ملک میں 2500 مرتبہ ایسی ایمرجنسی پیدا ہو گئی تھی کہ آرڈیننس جاری کرنا پڑے؟

آئین کے مطابق وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کو اختیار ہے عدم اعتماد کی قرارداد سے پہلے پہلے جب چاہے اسمبلیاں تحلیل کر دے اور ان کو ایسا کرتے وقت کوئی جواز پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ پارلیمان عوام کی نمائندہ ہے تو اس کی تحلیل کا اختیار فرد واحد کو کیسے دیا جا سکتا ہے؟ کیا یہ عوام کے حق انتخاب کی توہین نہیں؟ اسلامی دفعات موجود ہیں لیکن اقوال زریں کی صورت میں۔ نظام تعزیر میں سپریم کورٹ کا ایک شریعت ایپلٹ بنچ ہے جو سالوں تک مکمل ہی نہیں ہوتا، غیر فعال پڑا ہے اور اس کے سامنے گذشتہ صدی کے مقدمات زیر التوا ہیں۔ آئین میں لکھے اسلامی آرٹیکل اس نظام کی کسی چیز کو بھی بالفعل اسلامی نہیں کر سکے۔ آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ میں درج اصطلاحات کے معنی ہی کسی کو معلوم نہیں۔ 

بجٹ پارلیمان کا حق ہے اور اسی کا استحقاق، لیکن ہم نے آئین میں ہی سپلیمنٹری گرانٹ کی گنجائش رکھ کر پارلیمان کے اس حق کو عملا ساقط کر کے یہ حق صرف حکومت کو دے دیا۔ آئین میں بنیادی انسانی حقوق کا ذکر تو موجود ہے لیکن ان اقوال زریں کو نو آبادیاتی دور کے قوانین سے مشروط کر کے ان کی عملا نفی کر دی گئی۔ چنانچہ آئین کے آرٹیکل 19 میں آزادی رائے کا حق تو موجود ہے لیکن قانون سے مشروط اور قانون یہ ہے کہ حکومت اور وفاقی وزیر کی توہین پر بھی تعزیرات پاکستان کی دفعہ 124 اے کے تحت مقدمہ درج ہو سکتا ہے اور اس کی سزا عمر قید تک ہو سکتی ہے۔ آئین میں یہ تو لکھ دیا گیا ہے کہ آپ کے مال کا تحفظ آپ کا بنیادی حق ہے لیکن یہ مروجہ قانون سے مشروط حق ہے۔ نو آبادیاتی دور میں تو صرف مفاد عامہ یعنی سرک ریلوے ہسپتال وغیرہ کے لیے زمین لی جا سکتی تھی، ہم نے آزادی کے بعد قانون میں یہ اضافہ کر لیا کہ اشرافیہ کے لیے ہاؤسنگ سوسائٹی بنانا بھی مفاد عامہ ہے۔ 

گویا یہ حق بھی تب تک ہے جب تک آپ کی زمین پر کسی ہاؤسنگ سوسائٹی کی نظر نہیں پڑ جاتی۔ آئین میں بنیادی حقوق دیے گئے ہیں لیکن آئین میں ہی لکھ دیا گیا کہ یہ حقوق صرف ایک حکم نامے کے ذریعے ساقط بھی کیے جا سکتے ہیں۔ کچھ شرائط موجود ہیں لیکن ان کی کون پرواہ کرتا ہے۔ سوراخ موجود ہو تو سرنگ اہل ہنر خود بنا لیتے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ جب کوئی پارلیمانی بحران پیدا ہوتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ آئین تو اس نکتے پر مبہم ہے اور اس کی شرح کی ضرورت ہے۔ شرح کے نام پر یہاں جو کچھ ہوتا رہا وہ ایک الگ افسوس ناک باب ہے۔ ضرورت اب اس بات کی ہے کہ آئین پر از سر نو غور کیا جائے اوراس کے ابہام دور کیے جائیں۔ مقامات آہ و فغاں بہت سارے ہیں۔ میں نے صرف چند مقامات کی نشاندہی کر دی ہے۔

آصف محمود  

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

پاکستان میں سود سے پاک بینکاری نظام

$
0
0

وفاقی شرعی عدالت نے 19 سال کے بعد حکومت کو سودی نظام کے مکمل خاتمے کیلئے 5 سال کی مہلت دی ہے اور انٹرسٹ ایکٹ 1839ء کے تحت سودی قوانین اور شقوں کو یکم جون 2022ء سے غیر شرعی قرار دیا ہے جبکہ ہر قسم کا سودی کاروبار اور بینکوں کے قرض پر لئے گئے سود یعنی ربا کو ناجائز قرار دیتے ہوئے 31 دسمبر 2027ء تک حکومت کو سود سے پاک نظام کے تحت اندرونی اور بیرونی قرضوں اور ڈپازٹس کو سود سے پاک رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ چیف جسٹس محمد نور مسکنزئی کی سربراہی میں قائم شرعی عدالت کے فل بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ موجودہ معاشی نظام میں سود کا خاتمہ حکومت کی شرعی اور قانونی ذمہ داری ہے کیونکہ ربا کا خاتمہ اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ گزشتہ دنوں خیبرپختونخوا کے گورنر اور میرے قریبی دوست سینیٹر حاجی غلام علی نے کراچی میں ملاقات کے دوران مجھ سے استدعا کی کہ شرعی عدالت کے فیصلے پر حکومت اور بزنس کمیونٹی کا موقف بیان کروں۔ 

یہ بات خوش آئند ہے کہ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FPCCI) اور ملک کے دیگر چیمبرز نے شرعی عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ حال ہی میں کراچی میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور گورنر اسٹیٹ بینک نے مجھے بتایا کہ سود کے خاتمے کیلئے اعلیٰ سطحی ورکنگ گروپ فعال کر دیا گیا ہے اور آئندہ 5 سالوں میں سود کا خاتمہ ممکن ہے جبکہ اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک سے مشاورت کر کے شرعی عدالت کے فیصلے کیخلاف دائر اسٹیٹ بینک اور نجی بینکوں کی اپیلیں واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ ملک میں مستقبل میں سودی نظام کا خاتمہ ہو سکے جس پر میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس موقع پر میں پاکستان میں اسلامک بینکنگ کے نفاذ کیلئے کوشاں معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی اور دیگر مذہبی اسکالرز کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

اس سے پہلے میں پاکستان میں اسلامک بینکاری پر کئی کالم لکھ چکا ہوں جس کو ملک اور بیرون ملک بہت سراہا گیا۔ پاکستان میں اسلامک بینکنگ کی گروتھ نہایت خوش آئند ہے اور اب تک ملک میں 21 فیصد اسلامک بینکنگ نظام رائج ہو چکا ہے جبکہ 2021ء میں پاکستان میں اسلامک بینکنگ کی گروتھ 30 فیصد تھی جس کی وجہ پاکستان میں سود سے پاک بینکاری کی طرف لوگوں کا بڑھتا ہوا رجحان ہے جبکہ اسٹیٹ بینک بھی اسکے فروغ میں سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔ پاکستان میں اسلامک بینکنگ کے اثاثے جو 2011ء میں صرف 641 ارب روپے تھے، بڑھ کر 5577 ارب روپے (31.2 ارب ڈالر) ہو چکے ہیں جو 770 فیصد متاثر کن گروتھ ہے۔ موڈیز نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2026ء تک پاکستان میں اسلامک بینکاری روایتی بینکاری کو پیچھے چھوڑ دیگی اور روایتی بینکنگ میں اسلامک بینکنگ کے ڈپازٹس 30 فیصد اور شیئر 33 فیصد ہو جائیگا۔

اس وقت دنیا میں اسلامک بینکنگ گروتھ میں پاکستان کا نمبر آٹھواں ہے۔ ملک میں 5 مکمل اسلامک بینک میزان بینک، دبئی اسلامک بینک، البرکہ بینک، بینک اسلامی، فیصل بینک اور MCB اسلامک بینکس کی 3200 برانچیں کام کر رہی ہیں جبکہ 17 کمرشل بینکوں کی بھی مجموعی 1442 اسلامک بینکنگ برانچیں پاکستان میں اسلامک بینکنگ کی خدمات فراہم کر رہی ہیں۔ اسلامک بینکنگ میں روایتی بینکنگ کے مقابلے میں قرضوں کے ڈیفالٹ کی شرح کم ہے جس کی وجہ سے اسلامک بینک روایتی بینکوں کے مقابلے میں زیادہ محفوظ اور منافع بخش ہیں۔ اس وقت دنیا میں 70 سے زائد ممالک میں 500 سے زائد بینکنگ ادارے اسلامک بینکنگ کو اپنائے ہوئے ہیں، لوگ اسلامی طریقے سے تجارت اور سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں جس میں سود کی سخت ممانعت لیکن مضاربہ کمپنیوں کی طرح رہن رکھ کر قرض لینے کی اجازت ہے۔

قارئین! سود اللّٰہ سے جنگ کے مترادف ہے۔ بزنس کو ملک اور بیرون ملک فروغ دینے میں جب ہمارا گروپ بھی روایتی بینکنگ نظام میں بری طرح جکڑتا گیا اور ذاتی سرمایہ کاری کیساتھ بینکوں کے اربوں روپے کے سودی قرضے کاروبار کا حصہ بنتے گئے تو مجھے احساس ہوا کہ میں سودی قرضوں کے ذریعے اپنے بزنس کو فروغ دیکر دراصل آخرت کیلئے جہنم کمارہا ہوں۔ اس احساس ندامت کیساتھ میں نے اللّٰہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ کی کہ انشاء اللّٰہ جلد ہی ہم اپنے گروپ کو سودی بینکاری نظام سے نجات دلا کر شریعہ بینکنگ نظام میں منتقل کر دینگے، میں قارئین سے بھی یہ درخواست کرونگا کہ آپ بھی روایتی سودی بینکاری نظام سے جلد از جلد نجات حاصل کر کے اسلامک بینکاری نظام اپنائیں کیونکہ اسلامک بینکاری نظام انصاف اور برابری کے بنیادی اصولوں کے عین مطابق ہے جبکہ سودی بینکاری نظام اس کے برعکس ہے جسکے سبب آج امریکہ، یورپ اور یونان جیسے ممالک مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔ میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر آج آپ نے اسلامک بینکاری نظام اپنا لیا تو اللّٰہ تعالیٰ نہ صرف آپ کے رزق میں خیر و برکت عطا فرمائے گا بلکہ آپ کا یہ عمل اللّٰہ اور رسولﷺ کی خوشنودی کا سبب بھی بنے گا۔

ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ

بشکریہ روزنامہ جنگ

چین-امریکا تعلقات دنیا پر کیا اثرات مرتب کریں گے؟

$
0
0

دنیا کی موجودہ صورتحال شدید غیر مستحکم اور اسٹریٹجک لحاظ سے تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ اگر سال 2023ء میں درپیش چیلنجز اور جغرافیائی سیاسی رجحانات پر نظر ڈالی جائے تو سب سے اہم پہلو ان کا غیر یقینی اور غیر متوقع ہونا ہے۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب عالمی سطح پر طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے، بین الاقوامی نظام انتشار کا شکار ہو رہا ہے اور کثیرالجہت تعلقات خطرات سے دوچار ہیں۔ بڑھتے ہوئے سیاسی جغرافیائی تناؤ اور عالمی معاشی اتار چڑھاؤ نے دنیا کو غیر مستحکم صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ آنے والے سال میں اسٹریٹجک طور پر عالمی قوتوں کے درمیان تعلقات کا کردار سب سے اہم اور متحرک ہو گا۔ یوکرین جنگ کے تباہ کن معاشی اثرات عالمی اقتصادی بحالی کے عمل کو متاثر کریں گے جو پہلے سے ہی کورونا وبا کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار ہے۔ بین الاقوامی تھنک ٹینکس، سرمایہ کار کمپنیوں اور دیگر کی جانب سے کیے جانے والے سالانہ جائزوں میں 2023ء کے حوالے سے جن اہم رجحانات کا ذکر کیا گیا ہے ان میں معاشی عدم استحکام کو ایک نئے معمول کے طور پر لیا گیا ہے۔

برطانوی میگزین دی اکونومسٹ کی دی ورلڈ اہیڈ 2023ء رپورٹ نے آج کی دنیا کو کچھ یوں بیان کیا ہے کہ ’یہ انتہائی غیر مستحکم، کورونا وبا کے آفٹر شاکس سے دوچار، معاشی طور پر بدحال، شدید درجہ حرارت کا شکار، سماجی اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے تیز تبدیلیوں اور عالمی قوتوں کی عداوت میں گھری ہے‘۔ ایک اہم جغرافیائی مسئلہ جو آنے والے سال پر غالب رہے گا وہ امریکا اور چین کے درمیان سنگین ہوتی مسابقت اور عالمی معیشت اور جغرافیائی سیاست پر پڑنے والے اس کے اثرات کا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان نومبر میں ہونے والی پہلی ذاتی باضابطہ ملاقات میں اس کشیدگی کو کم کرنے کا اعادہ کیا گیا۔ دونوں رہنماؤں نے ان تعلقات کو بہتر کرنے کا عہد کیا جو تاریخ میں کم ترین سطح پر ہیں اور جن کے باعث دنیا کو خدشہ ہے کہ کہیں ایک نئی سرد جنگ نہ چِھڑ جائے۔ 

لیکن اس ملاقات کے بعد بھی اہم معاملات پر دونوں ممالک کے درمیان موجود اختلافات اپنی جگہ برقرار ہیں۔ ان معاملات میں تائیوان، تجارتی تنازعات، ٹیکنالوجی کے شعبے میں پابندیاں اور عسکری طرزِ عمل شامل ہیں۔ مستقبل کے امکانات واضح نہیں ہیں، خاص طور پر چین کے حوالے سے امریکا کی پالیسی جو بائیڈن انتظامیہ کی قومی سلامتی کی حکمتِ عملی میں بھی شامل ہے۔ چین کی جانب سے آنے والا ردِعمل ان دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید کشیدہ کر دے گا۔ آنے والے دنوں میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں عدم تعاون بڑھے گا، عسکری مقابلے میں شدت آئے گی اور تائیوان تنازعہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے راستے میں رکاوٹ بنا رہے گا۔ کنٹرول رسک نامی ایک ادارے نے 2023ء میں چین-امریکا تعلقات کو جغرافیائی سیاست کا سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ دیگر جائزے اس تنازع کو مسترد کرتے ہیں لیکن ایشیا-پیسفک خطے میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک، چین-امریکا تصادم کے خدشے کے پیشِ نظر فکرمند ہیں۔

آنے والے سال میں یوکرین کی جنگ بھی توجہ کا مرکز رہے گی۔ یوکرین پر روسی حملے نے جغرافیائی سیاست میں ایک نئے تنازع کی نشاندہی کی ہے۔ لندن کے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز نے اپنے سالانہ سروے میں کہا کہ اس تنازع کے سیاسی اور اقتصادی نتائج بھی ہیں جو عالمی منظرنامے کو نئی شکل دے رہے ہیں۔ اسی سروے میں مزید کہا گیا کہ یہ جنگ مغربی دنیا کی سلامتی کو نئی شکل دے رہی ہے اور ’یہ روس میں بھی بدلاؤ کا باعث بن سکتی ہے اور یہ عالمی سطح پر پائے جانے والے تصورات اور خدشات کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ البتہ اس جنگ کی وجہ سے مغرب کی توجہ ایشیا-پیسفک خطے سے ہٹی ہے جو پہلے اس کی ترجیح تھا۔ اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ یورپ کی سلامتی ہی مغرب کی ترجیح ہے‘۔ اس سروے میں مزید کہا گیا کہ دو اہم خطے یعنی یورو-اٹلانٹک اور انڈو-پیسفک ایک دوسرے پر منحصر ہیں کیونکہ یورو-اٹلانٹک میں ہونے والی کوئی بھی گڑبڑ بیرونی سلامتی کے وعدوں کو ناقابلِ عمل بنا دے گی جبکہ اس خطے کا کامیاب دفاع انڈو-پیسفک خطے کی جانب جھکاؤ کو جواز فراہم کرے گا۔ 

چاہے کوئی اتفاق کرے یا نہیں لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر مذاکرات کے ذریعے یوکرین میں جنگ بندی نہیں ہوئی اور مذاکرات تعطل کا شکار رہے تو اس سے صرف یورپ ہی نہیں بلکہ دیگر خطے بھی عدم استحکام ہوں گے۔ جنگ کے سبب ابھرتا ہوا معاشی بحران اس امر کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ اس کے منفی اثرات کی وجہ سے عالمی سپلائی چین اور اجناس اور توانائی کی منڈیاں افراتفری کا شکار ہیں۔ یہ اتار چڑھاؤ بڑی معیشتوں پر معاشی عدم استحکام کے دباؤ میں اضافے کی وجہ بنے گا۔ یوکرین جنگ اشیائے خور و نوش میں ہوش ربا اضافے اور سنگین عالمی مہنگائی کا باعث بنی ہے۔ آنے والے سال میں زیادہ تر ممالک کی توانائی انہی مسائل سے نمٹنے میں صرف ہو گی مگر غریب اور قرضے کے بوجھ تلے دبی معیشتوں کے لیے اس مسئلے سے نمٹنا بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ غذائی عدم تحفظ سال 2023ء کا اہم چیلنج ہو گا جبکہ توانائی کا بحران بھی عالمی معاشی نظام کے لیے امتحان ثابت ہو گا۔

فِچ ریٹنگ کمپنی نے عالمی تجارتی جنگ، کورونا کی وبا اور یوکرین تنازع کی وجہ سے موجودہ اقتصادی دور کو ’دوسری جنگِ عظیم کے بعد معاشی طور پر سب سے زیادہ بدحال دور‘ قرار دیا ہے۔ اکتوبر میں آئی ایم ایف کی جانب سے متنبہ کیا گیا تھا کہ عالمی معیشت پر مزید بدترین وقت آئے گا اور بہت سے ممالک کی معیشت 2023ء میں مزید گراوٹ کا شکار ہو گی’۔ چین-امریکا مسابقت، یوکرین جنگ اور عالمی سطح پر طاقت کے توازن میں تبدیلی نئی صف بندیوں کا باعث بنی ہے اور ماضی کے اتحادیوں کو بھی دوبارہ متحرک کر دیا ہے۔ کواڈ اور اوکس (آسٹریلیا، امریکا اور برطانیہ کا اتحاد) اس کی بہترین مثالیں ہیں جو چین کی ابھرتی ہوئی قوت کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کی انڈو-پیسفک حکمت کا حصہ ہیں۔ چین نے بھی اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے جغرافیائی معاشی حکمتِ عملی کا استعمال کیا ہے جس سے دنیا میں اس کا اثر و رسوخ بڑھا ہے اور اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ بڑھتے ہوئے چین-سعودی عرب تعلقات نئے اتحاد کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔

موجودہ جغرافیائی سیاسی ماحول میں ممالک اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایسی حکمتِ عملی اپنائیں گے جو ان کے لیے نقصان دہ نہ ہو اور کوشش کریں گے کہ وہ طاقتور ممالک کے آپسی تنازعات کا حصہ نہ بنیں۔ ایک اور ابھرتا ہوا سوال یہ بھی ہے کہ ممالک کا ایسی کثیر القطبی دنیا کے حوالے سے کیا ردِعمل ہو گا۔ کیا وہ درپیش مسائل کی بنیاد پر ہم خیال ممالک سے ہاتھ ملائیں گے یا پھر مخصوص مسائل پر عارضی طور پر متحد ہوں گے۔ یہ سوال حل طلب ہے کہ اس سب کے بعد کیسا عالمی نظام سامنے آئے گا کیونکہ موجودہ بین الاقوامی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ پولیٹیکل رسک فرم یورو ایشیا گروپ کے ہیڈ این بریمر نے ایک پُرزور دلیل پیش کی ہے کہ ’آنے والے کل کی جغرافیائی سیاست کی بنیاد صرف ایک عالمی نظام نہیں بلکہ کئی نظام ہوں گے۔ اس میں مختلف کردار چیلنجز سے نمٹنے کے لیے قیادت فراہم کریں گے‘۔ 2023ء میں دنیا کس سمت جائے گی اس حوالے سے اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ 2023ء میں عالمی سلامتی نظام امریکا کے ہاتھ میں ہو گا جبکہ عالمی معاشی نظام کا انحصار چین پر ہو گا۔ 

عالمی ڈیجیٹل نظام بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ماتحت ہو گا جبکہ عالمی ماحولیاتی نظام کا اختیار تو پہلے سے ہی مختلف ممالک کے ہاتھ میں ہے۔ 2023ء میں بھی جمہوریت کو چیلنجز کا سامنا رہے گا۔ اس کے مضمرات بین الاقوامی سطح پر سامنے آئیں گے۔ جب سیاسی تقسیم جمہوریت کو غیر فعال کر دیتی ہے جو بہت سے ممالک میں ہو بھی رہا ہے، تب ان ممالک کی اندرونی کمزوریاں ان کی خارجہ پالیسی اور عالمی میدان میں مؤثر طریقے سے کام کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہیں۔ دائیں بازو کے مقبول رہنما جو اپنی ریاستوں میں عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور جمہوری اقدار کو پامال کرتے ہیں وہ عالمی معاملات میں بھی ایسی پالیسیاں اپناتے ہیں جن سے کثیرالجہتی عمل کو نقصان پہنچتا ہے۔ آنے والا سال اپنے ساتھ دنیا کے لیے جغرافیائی سیاست کا تناؤ، معاشی عدم تحفظ اور ایسے مزید چیلنجز لے کر آئے گا جس میں ماحولیاتی تبدیلی بھی شامل ہے۔ یہ چیلنجز اقوام کی انفرادی صلاحیت کے ساتھ ساتھ مشترکہ مسائل کے حوالے سے اجتماعی اقدامات کرنے کی صلاحیت کا بھی امتحان لیں گے۔

ملیحہ لودھی 
یہ مضمون 12 دسمبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

بشکریہ ڈان نیوز

ٹیکسوں کا بوجھ اور عوام

$
0
0

ٹیکس کو اکٹھا کرنا اور پھر عوام پر خرچ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، محصولات حکومت کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہیں جن کے ساتھ ساتھ حکومت غیر ملکی قرضوں پر بھی انحصار کر تی ہے، اگر عوام پر ٹیکس کا بوجھ کم ہو گا تو عوام خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔ پچھلے 8 سالوں سے اشیائے خرو نوش اور بلز پر ٹیکس کی مد میں اضافے کی انتہا کر دی گئی ہے جس سے عوام پریشان ہیں، بجلی کے بلز میں فی یونٹ اضافہ بھی مسلسل ہو رہا ہے، جس میں بجلی کی قیمت 60% اور ٹیکس فیول چارچز 40% ہوتے ہیں، دیگر ممالک جوں جوں آپ بجلی زیادہ استعمال کرتے ہیں فی یونٹ قیمت کم ہو جاتی ہے اور یہاں زیادہ استعمال کرنے سے بہت زیادہ ہوتی ہے یعنی بلز میں اور یونٹ کی قیمت میں اضافہ کا کوئی فارمولہ ہی نہیں ہے، ٹیکس دینا ہر شہری کا فرض ہے اور ٹیکس کلچر کو پروموٹ کرنا بھی ضروری ہے لیکن نہ ہی یہاں ٹیکس کلچر پروموٹ ہوا اور نہ ہی ٹیکس کا بہتر مصرف ہو سکا ہے، عوام اور حکومت کے اعتماد کو ٹیکس کلچر کی پروموشن کے لئے بحال کرنا ضروری ہے۔ 

حکومتیں عوام کے ٹیکس سے ہی چلتی ہیں، یہاں ٹیکس چوری بھی عام ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ایف بی آر کے بغیر ٹیکس چوری نہیں ہو سکتا ہے، اب حکومت کی آمدنی کا ایک اور اہم ذریعہ زمینوں کی رجسڑیوں پر ٹیکس ہے، رجسٹریوں پر ٹیکسوں میں اضافہ کی وجہ سے جائیدادوں کی خریدو فروخت میں کمی آ گئی ہے اور ملکی خزانے کی آمدنی میں بھی کمی ہو گئی ہے، قریباً دو ماہ گزر گئے جائیدادوں کی خرید و فروخت پر بڑھائے جانے والے ٹیکسوں میں کمی نہ آ سکی۔  دوسری طرف اشٹام فروش، وثیقہ نویس، وکلا اور ان کے دیگر اسٹاف کے گھروں میں کسمپرسی کی حالت ہے۔ رجسٹری برانچوں میں سوائے چند بینکنگ سیکٹر سے متعلقہ ڈاکیومنٹ یعنی مورٹگیج، ریڈمیشن ڈیڈ، ہبہ نامہ، دستبرداری وغیرہ جن پر ٹیکسز اپلائی نہیں ہوتے، وہی جمع کروائے جا رہے ہیں۔ بیعہ نامہ رجسٹری نہیں آ رہی، سرکاری اسٹاف سارا دن انتظار کرتے رہ جاتے ہیں۔ یہ ہی حال پٹوار خانوں کا بھی ہے، جب لوگ خریدیں ہی گے نہیں تو لازمی بات ہے کہ رجسٹریاں بھی پاس نہیں ہونگی تو انتقال کیسے درج ہوں گے؟ 

لہٰذا ریوینیو عملہ فیلڈ اسٹاف بھی مکمل طور پر زبوں حالی کا شکار ہے۔ ریل گاڑی کی طرح انجن سے آخری بوگی تک ہر ایک شعبہ متاثر ہو رہا ہے۔ حکومتی پالیسی میکرز کو چاہئے تھا کہ آہستہ آہستہ ایک ایک ٹیکس بڑھاتے ہوئے ریونیو کلیکشن میں اضافہ کرتے۔ ایک ساتھ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرنے کی کوشش سے منفی نتائج حاصل ہو رہے ہیں۔ ابھی دیر نہیں ہوئی حکومت رجسڑی کی مد میں ٹیکسوں میں کمی کرے تو بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ ایک تو مہنگائی کی شرح قابو سے باہر ہے اوپر سے اگر کوئی غریب اپنی مشکل کو آسان کرنے کے لئے اپنی کوئی جائیداد فروخت کرنے کا سوچتا ہے تو گین ٹیکس کی شرح دیکھ کر رک جاتا ہے۔ اور خریدار تقریباً 15 فیصد رجسٹری اخراجات کا سن کر دبک جاتا ہے، ویسے قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ کیا صرف حکومت کو ہی سرمائے کی ضرورت ہے غریب آدمی کو نہیں؟ 

دراصل حکومت اس وقت دو کشتیوں پر سوار ہے، صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت، اگر وفاقی حکومت کوئی ریلیف دینا چاہے تو صوبائی حکومتیں حزب اختلاف اور اگر صوبائی حکومت عوامی سہولت کا کوئی منصوبہ پیش کرے تو وفاقی حکومت کو اس پر غور کرنا چاہئے۔ اس شعبہ سے لا تعداد خاندان روز گار سے منسلک ہیں، حکومت کو رجسڑی ٹیکس میں کمی لا کر اس کاروباری صنعت کو ترقی دینی چاہئے تاکہ پراپرٹی کی خرید و فروخت کا عمل جاری رہے اور ملک میں ترقی وخوشحالی ہو۔ چند دن قبل حکومت پنجاب نے اشٹام ڈیوٹی کی شرح میں 100 فیصد کمی کر کے صوبے کے عوام کو 25 ارب روپے کا ریلیف دیا ہے۔ عوام کی سہولت کیلئے پنجاب بھر میں اشٹام ڈیوٹی کی شرح ایک فیصد مقرر کی ہے، اشٹام ڈیوٹی کی شرح کم ہونے سے شہری جائیداد کی رجسٹری اور انتقالات میں اضافہ ہونے کی توقع ہے۔ حکومت نے یہ فیصلہ صوبے کے عوام کے وسیع تر مفاد میں کیا ہے، اس اقدام کا مقصد عوام کو ریلیف دینا ہے۔ 

ٹیکسوں میں اضافے کے ساتھ سرکاری ملازمین کا ایک اہم مسئلہ بھی تھا جس کے بارے میں عدالت نے ایک اہم فیصلہ کیا ہے، عدالت نے حکومتی حکم نامے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 25 سال کی سروس پوری کرنے والوں کی ریٹائرمنٹ کو آئین و قانون کے مطابق قرار دے دیا، اس فیصلے سے پنجاب بھر میں ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ڈیوٹی پر جانے والے محکمہ ایجوکیشن کے اساتذہ ودیگر ملازمین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ پٹیشن دائر کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ گورنمنٹ آف پنجاب نے سروس ایکٹ کی سیکشن 12 میں ترمیم کر کے یہ شرط عائد کر دی تھی کہ 25 سال سروس مکمل ہونے کے ساتھ ساتھ ریٹائرمنٹ کے لئے 55 سال عمر کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اس پر محکمہ تعلیم کے کئی اساتذہ 25 سال سروس مکمل ہونے پر ریٹائرڈ ہو چکے تھے، بعد ازاں سروس ایکٹ کی سیکشن 12 کی ترمیم کی روشنی میں محکمانہ اتھارٹیز نے پینشن کے احکامات واپس لے لئے۔

فاضل عدالت نے وکلا کے دلائل سننے کے بعد دائر ہونے والی پٹیشن کو منظور کر لیا، ادھر عدالت عالیہ کے فیصلے کے بعد اب 25 سال سروس مکمل کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین دوبارہ اگر چاہیں تو اپنی بقیہ سروس مکمل کر سکتے ہیں کیونکہ ایسے ملازمین ذاتی وجوہات کی بنا پر قبل از ریٹائرمنٹ 25 سال کے بعد ریٹائرڈ منٹ لینے کا استحقاق رکھتے تھے، اب وہ دوبارہ جوائن کر سکتے ہیں۔ عدالت عالیہ کے جسٹس جواد حسن نے ایک پٹیشن پر یہ فیصلہ دیا ہے جس سے ہزاروں ملازمین کو فائدہ ہو گا ایسے فیصلے مفاد عامہ کے لئے مثال ہیں۔

سید عارف نوناری

بشکریہ روزنامہ جنگ

Viewing all 4346 articles
Browse latest View live