↧
عوامی مسائل اور جماعت اسلامی کی جدوجہد
↧
عمر شریف کو کس کا ڈر تھا؟
لندن کی ایک سرد اور حسین شام تھی۔ ایم کیو ایم کے الطاف بھائی کے ولیمے کی تقریب تھی اور کراچی سے آئے ہوئے عمر شریف کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا۔ ان کے خوف سے پسینے چھوٹ رہے تھے اور وہ میرا ہاتھ چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔ الطاف بھائی سے ذاتی تعلق کبھی نہیں رہا، کراچی میں تھے تو صحافت ان کی دھمکیوں کی زد میں رہتی تھی۔ ان کی پریس کانفرنس میں بھی سرجھکا کر بیٹھتے تھے کہ کہیں نظر میں نہ آ جائیں۔ افطار کی دعوت پر بہانہ کر دیتے تھے اور جب ان کے لڑکے فون پر گالی دے کر کہتے تھے تمھارے دفتر کا پتہ ہے تو دفتر کو تالا لگا کر گھر چلے جاتے تھے۔ لیکن لندن میں جب ان کے ولیمے کا کارڈ ملا تو ساتھیوں نے کہا صحافت اور سیاست گئی بھاڑ میں، ہم کراچی والے ولیمہ تو دشمن کا بھی نہیں چھوڑتے۔ سب نے اپنے ریشمی پاجامے نکالے اور بچوں سمیت بدھائی دینے پہنچ گئے۔ محل نما شادی ہال میں سیکیورٹی بہت زیادہ تھی۔
ہال کے اندر داخل ہو کر باہر جانے کی ممانعت تھی۔ سگریٹ پینے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ ایک بزرگ کے مشورے اور معاونت سے ایک بازو والا دروازہ ڈھونڈا اور اس میں پیر پھنسا کر آدھے اندر اور آدھے باہر ہو اپنی علتیں پوری کرنے لگے۔ ایک گاڑی آ کر رکی اور اس میں سے عمر شریف برآمد ہوئے۔ میرے اندر ایک دم وہ احترام جاگا جو کسی بڑے سیلبرٹی یا خاندانی بزرگ کو دیکھ کر جاگ جاتا ہے۔ میں نے سگریٹ بجھائی، آگے بڑھا اور جھک کر پھر نجانے کیوں عمر بھائی کہہ کر سلام کیا۔ ویلکم ٹو لندن عمر بھائی۔ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا، ادھر ادھر دیکھا، ان کے ہاتھ پسینے سے شرابور تھے۔ انھوں نے کہا مجھے بھائی کے پاس لے چلو اور دیکھو میرا ہاتھ نہیں چھوڑنا۔ میں نے بتانے کی کوشش کی کہ میں الطاف بھائی کا لڑکا نہیں، میں خود ایک مہمان ہوں۔ انھوں نے کہا جو کوئی بھی ہو سٹیج تک میرا ہاتھ نہیں چھوڑنا۔
میں نے کراچی میں میڈیا کے سیٹھوں سے لے کر ایم کیو ایم کے منحرفین میں سب کو الطاف حسین سے خوفزدہ ہوتے دیکھا تھا لیکن میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سٹیج پر کھڑے ہو کر ہر طاقتور کی کراچی کی زبان میں پتلون اتارنے والا عمر شریف بھی کسی سے اتنا خوفزدہ ہو سکتا ہے۔ پھر ایک ساتھی نے سمجھایا کہ عمر شریف کراچی کا جم پل تھا اس کی زبان، اس کا فن اس کے لطیفے، اس کی جگتیں کراچی کے غریب محلوں کی گلیوں میں گندھی ہوئی تھیں۔ پھر وہ اپنی شہرت کے عروج پر کراچی چھوڑنے کو کیوں مجبور ہوا۔ ایک زمانے میں کراچی سے باہر رہنے والے شاید شہر کو دو لوگوں کی وجہ سےجانتے تھے ایک الطاف حسین اور دوسرا عمر شریف۔ ایک اپنے ایک حکم سے شہر بند کروا دیتا تھا اور دوسرا ایک ایسا ڈرامہ لکھتا کہ مہینوں کھڑکی توڑ رش لیتا تھا۔ ہر بڑے کامیڈین کی طرح عمر شریف کا مزاح بھی کراچی کے حالات کی پیداوار تھا۔
اب شہر کا سب سے مشہور فنکار شہر کے سب سے بڑے سیاسی فنکار کا مذاق نہیں اڑا سکتا تو کیا کرتا۔ کچھ امن عامہ کے مسائل بھی تھے لیکن اگر آپ کراچی کے سٹیج پر چڑھ کر ایم کیو ایم کا مذاق نہیں اڑا سکتے، الطاف حسین کی نقل نہیں کر سکتے، تو پھر اس شہر کو چھوڑنا اچھا۔ پاکستان کی تاریخ میں بہت کم فنکار ہوں گے جنھوں نے ایک شہر سے بھاگ کر دوسرے شہر میں اپنا مقام بنایا ہو۔ لاہور میں لالو کھیت کے مزاح کو کون سمجھتا۔ اس لیے انھوں نے پنجابی سیکھی، پنجابی کامیڈی کی کئی صنفوں کو اپنے ڈراموں میں لیا اور خود اپنا تھیٹر کھول کر کئی سال تک جلاوطنی میں رہ کر خود اپنے آپ پر ہی ہنستے رہے اور پنجابیوں کو ہنساتے رہے۔ یہ کام انھوں نے قومی یکجہتی کا درس دینے والی حکومت کی سرپرستی میں نہیں کیا اور نہ ان کے پیچھے کوک سٹوڈیو جیسا محب وطن کاروباری ادارہ تھا۔
اپنے فن کے بل بوتے پر اور اسی عوام کے ساتھ جو سو دو سو روپے کا ٹکٹ خرید کر دو گھنٹے کے لیے اپنے دکھڑے بھلانا چاہتے تھے۔ الطاف بھائی کا ولیمہ عمر شریف کے لیے دشمنوں کے درمیان ایک شام کا منظر تھا۔ پاکستان کا ہر بڑا فنکار موجود تھا اور الطاف بھائی کی نظر پڑنے سے پہلے یہ بتانا ضروری تھا کہ وہ خود اپنے پلے سے ٹکٹ لے کر بھائی کی خوشیوں میں شریک ہونے آیا ہے۔ (الطاف بھائی شاید پہلے سیاستدان تھے جن کی غائبانہ تقریب ولیمہ چوبیس ملکوں میں منائی گئی)۔ عمر شریف نے الطاف بھائی کو شادی کی مبارکباد دی، پھر شادی کے بارے میں کچھ گھسے پٹے لطیفے سنائے اور کسی اور کا ہاتھ پکڑ کھسک لیے۔ کراچی کا سب سے بڑا فنکار عمر شریف چلا گیا۔ کراچی کا دوسرا بڑا فنکار خود ایسا گھسا پٹا لطیفہ بن چکا ہے کہ اس کا غائبانہ ولیمہ کھانے والے بھی نہیں ہنستے۔
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
↧
↧
محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رخصتی
قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے بعد وطنِ عزیز پاکستان کی جن اہم ترین شخصیات کو عوامی محبت و اکرام ملا، ذو الفقار علی بھٹو اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان ان میں ممتاز ترین اور سر فہرست حیثیت رکھتے ہیں۔ بعض مقامی اور بین الاقوامی قوتوں نے دونوں شخصیات کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔ عوام مگر دونوں کا دل و جاں سے احترام و اکرام کرتے رہے۔ دونوں کا ’’قصور‘‘ یہ تھا کہ ایک نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی اساس رکھی اور دوسرے نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا۔ افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ان دونوں عظیم پاکستانی شخصیات کی موت اس حال میں ہُوئی کہ ایک پھانسی کے تختے پر اُس وقت جھول گیا جب ملک آمریت کے سائے تلے کراہ رہا تھا اور دوسرے نے ایسے حالوں میں موت کو لبیک کہا کہ اسپتال میں کوئی اہم ترین سرکاری شخصیت اُن کی تیمار داری اور پرسش کے لیے حاضر نہ ہو سکی۔ جی ہاں ، پاکستان کی یہ اہم ترین اور محترم ترین شخصیت اب ہمارے درمیان میں نہیں رہی۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے خالق کے پاس حاضر ہو گئے ہیں۔ اُن سے پوری پاکستانی قوم کی محبت کا یہ عالم تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کروڑوں عوام نے اُن کی بے مثل خدمات کے صلے میں انھیں ’’محسنِ پاکستان‘‘ کے لقب سے نوازا۔ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پچھلے چند ہفتوں سے خاصے بیمار تھے۔ کووِڈ 19کے اِس جاں سوز اورمہلک موسم سے وہ بھی متاثر ہُوئے تھے؛ چنانچہ اسپتال میں داخل کر دیے گئے تھے۔ پہلے اسلام آباد میں اور پھر راولپنڈی میں۔ درمیان میں کچھ دنوں کے لیے اُن کی صحت سنبھل بھی گئی تھی لیکن مکمل صحت کی جانب وہ لَوٹ نہ سکے۔ بسترِ علالت پر انھیں اس بات کا شدید رنج اور قلق تھا کہ کوئی ایک بھی اہم سرکاری اور غیر سرکاری شخصیت اُن کی عیادت کے لیے نہ آ سکی تھی؛ چنانچہ ایک انگریزی اخبار کے رپورٹر سے انھوں نے اس بات کا بر ملا گلہ اور افسوس بھی کیا تھا۔ کسی حکمران نے فون کے ذریعے بھی اُن کا حال تک نہ پوچھا۔ ہماری سیاسی اور مقتدر شخصیات اس قدر بے حس ہو چکی ہیں کہ کسی اَن دیکھی طاقت سے خوف کھاتے ہُوئے بسترِ مرگ پر پڑے اُس شخص کا حال احوال پوچھنے سے بھی گریزاں رہیں جس نے پاکستان کو ہر قسم کے دشمنوں کی یلغار سے ہمیشہ کے لیے محفوظ و مامون بنا ڈالا۔
ڈاکٹر قدیر خان کی عیادت کے لیے نہ تو ہمارے صدر صاحب جا سکے، نہ وزیر اعظم صاحب اور نہ ہی کوئی اپوزیشن لیڈر۔ ڈاکٹر خان سے بے پناہ محبت کرنے والے عوام کو بھی اُن ملنے نہیں دیا جاتا تھا۔ سخت پابندیاں تھیں۔ وہ شدید تنہائی اور قید کے ماحول میں اپنے اللہ کے پاس پہنچے ہیں۔ اتنے بڑے احسانوں کی ایسی سزا؟ یہ تو کبھی انھوں نے اُس وقت سوچا بھی نہ ہو گا جب وہ ہالینڈ میں ایک شاندار ملازمت اور پُر آسائش زندگی کو تیاگ کر محض اپنے وطن کی کامل خدمت کرنے کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان آئے تھے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی دشمنی اور مخالفت میں امریکی اور مغربی ممالک اور وہاں کے میڈیا نے محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف بھرپور مہمات چلائیں لیکن وہ سب مل کر بھی پاکستانی عوام کے دلوں سے ڈاکٹر خان کی محبت ختم نہ کروا سکے ۔ ہمارے ملک کے نامور اخبار نویس اور ’’ایکسپریس‘‘ کے معروف کالم نگار جناب عبدالقادر حسن مرحوم جب تک حیات رہے، ہمیشہ ڈاکٹر خان کا ذکر اعلیٰ ترین الفاظ میں اور محبت سے کرتے رہے۔
عبدالقادر حسن صاحب مرحوم ہر اُس مقامی اور عالمی شخصیت اور ادارے کی بھی گوشمالی کرتے تھے جوتعصب سے مغلوب ہو کر ڈاکٹر خان کو ہدف بناتے تھے۔ اسلام آباد میں فروکش ممتاز صحافی جناب زاہد ملک مرحوم بھی ڈاکٹر خان کے سب سے بڑے حامی تھے۔ زاہد ملک صاحب نے تو ڈاکٹر خان کی شخصیت اور خدمات پر مبنی ایک ضخیم کتاب ( محسنِ پاکستان کی ڈی بریفنگ) بھی لکھی۔ اس تصنیف میں ڈاکٹر خان پر عائد کیے جانے والے متنوع الزامات کا شافی جواب بھی دیا گیا۔ اور یہ جناب مجیب الرحمن شامی کا جریدہ (قومی ڈائجسٹ) تھا جس نے پاکستان میں سب سے پہلے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا مفصل انٹرویو شایع کیا تھا۔ ویسے تو عالمی سطح پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام اور پاکستان کو جوہری طاقت بنانے کے حوالے سے اُن کی شخصیت کی باز گشت عالمی میڈیا میں مسلسل سنائی دیتی رہتی تھی لیکن اس بازگشت میں اُس وقت بے پناہ اضافہ ہُوا جب ممتاز بھارتی صحافی، آنجہانی کلدیپ نئیر، نے بھارت سے اسلام آباد آ کر ڈاکٹر خان کا مفصل انٹرویو کیا۔ اسی تاریخی انٹرویو میں پہلی بار اعتراف اور اعلان کیا گیا تھا کہ پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔
یہ انٹرویو پاکستان کے ایک اہم صحافی ، جو اب مشہور سیاستدان بھی ہیں، کے توسط سے کیا گیا تھا۔ یہ انٹرویو بذاتِ خود ایٹم بم بن کر بھارت کے حواس پر گرا تھا۔ ساتھ ہی ساری دُنیا بھی ششدر رہ گئی تھی۔ کلدیپ نئیر نے اس انٹرویو اور ڈاکٹر خان سے ملاقات کا تفصیلی احوال اپنی سوانح حیات (Beyond The Lines) میں بھی کیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ زیڈ اے بھٹو کے بعد ڈاکٹر خان پاکستان کی دوسری شخصیت تھے جن پر کئی غیر ممالک میں کئی کتابیں لکھی گئیں۔ مغربی ممالک میں انھیں ایک پُر اسرار اور اساطیری کردار کی حیثیت میں بھی یاد کیا جاتا تھا۔ یہ ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی وطن سے شدید محبت اور محنت کا نتیجہ تھا کہ بالآخر اسلامی جمہوریہ پاکستان 28 مئی 1998 کو عالمِ اسلام کی پہلی جوہری طاقت بن گیا۔ برملا ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو دُنیا کی جوہری طاقتوں میں شامل کرنے کا یہ اعزاز جناب میاں محمد نواز شریف کا مقدر بنا۔ پوری پاکستانی قوم وہ دُکھی لمحہ نہیں بھول سکتی جب ڈاکٹر خان صاحب کو، پاکستان کے ایک آمر کے جبریہ دَور میں، پی ٹی وی پر اپنے ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ایسا اقدام کر کے شاید ہمارے حکمرانوں نے اپنی جان عالمی قوتوں سے چھڑا لی ہو لیکن ذلت کا یہ لمحہ پوری پاکستانی قوم آج تک فراموش نہیں کر سکی۔
اور وہ لمحہ بھی ہمارے لیے شرمناک ہی تھا جب ڈاکٹر خان اسلام آباد کی ایک سڑک کے فٹ پاتھ پر بیٹھے، پاؤں میں معمولی سی چپل پہنے، ایک ٹی وی اینکر سے گفتگو کر رہے تھے۔ جبر کا یہ عالم تھا کہ محسنِ پاکستان کا چہرہ پاکستان کے کسی ٹی وی پر دکھایا جا سکتا تھا نہ اُن کی گفتگو سنائی جا سکتی تھی۔ اپنے محسنوں سے کوئی ایسا بھی کرتا ہے؟ لیکن ہمارے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں نے یہ انہونی بھی کر کے دکھا دی۔ اس جبریہ اور قہریہ ماحول میں محض سانسیں لیتے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو احساس ہو گیا تھا کہ اب وہ شاید زیادہ دنوں تک زندہ نہ بچ سکیں؛ چنانچہ انھوں نے ایک معاصر میں خود ہی اپنے بارے میں یہ الفاظ شایع کروا دیے تھے :’’میری وفات کے بعد پورے پاکستان کے ہر شہر، ہر گاؤں، ہر گلی کوچے میں آپ لوگوں نے میرے لیے جنازہ پڑھنا ہے اور دعائے مغفرت کرنا ہے‘‘۔ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اللہ کریم اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ ( آمین )۔
تنویر قیصر شاہد
بشکریہ ایکسپریس نیوز
↧
ن لیگ کا نیا بیانیہ
ن لیگ کے نواز شریف، مریم نواز گروپ نے اپنی حکمت عملی میں ایک واضح تبدیلی کر دی ہے۔ اس حکمت عملی کے مطابق باقی سب تو خاموش ہیں لیکن مریم نواز کی طرف سے موجودہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض کو کھلے عالم نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت اب اسٹیبلشمنٹ کے کسی دوسرے فرد کا نام بھی نہیں لیا جا رہا بلکہ نواز شریف کی سپریم کورٹ کے ذریعے نااہلی، وزارت عظمی سے نکالے جانے، پاناما کیس اور اس کے نتیجے میں عدلیہ کی طرف سے میاں صاحب اور مریم کو دی جانے والی سزائوں اور پھر الیکشن سے پہلے مبینہ پولیٹیکل انجینئرنگ ہر چیز کا ذمہ دار صرف ایک ہی شخص کو ٹھہرایا جا رہا ہے جس کا وہ بار بار نام بھی لے رہی ہیں اور ایک نیا بیانیہ بنایا جا رہا ہے کہ یہی فرد عمران خان کو لانے اور تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ پہلے تو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن کے ذریعے جنرل فیض کا نام لے کر اپنے تمام الزامات کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا اور پھر دوسرے یا تیسرے دن میڈیا سے بات کرتے ہوے اپنی پٹیشن میں لگائے گئے ان الزامات کو دہرایا بلکہ اُس سے بھی زیادہ کھل کرباتیں کیں جو تقریباً تمام ٹی وی چینلز پر چل بھی گئیں۔
یہی نہیں اب گزشتہ (ہفتہ کی) رات کو فیصل آباد میں پی ڈی ایم کے جلسہ میں ایک بار پھر مریم نواز نے ڈی جی آئی ایس آئی کو اپنے نشانہ پر رکھا ۔ عمران خان کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوے، اُنہیں ایک منتخب شدہ وزیر اعظم نہ مانتے ہوئے مریم نواز نے فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والے صرف اور صرف جنرل فیض کا حوالہ دے کر بار بار یہ دہرایا کہ اس سب کی ذمہ داری اُسی ایک فرد پر ہے۔
اسی جلسہ میں سٹیج پر سے جنرل فیض استعفی دو کے نعرے بھی لگوائے گئے اور پھر آج اس مطالبہ کو ن لیگ کے سوشل میڈیا نے ٹاپ ٹویٹر ٹرینڈز میں شامل کر لیا۔ پہلے میاں صاحب اور مریم آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی دونوں کو تمام تر خرابیوں، اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں، عمران خان کو اقتدار میں لانے اور ن لیگ کو ہرانے کا ذمہ داری ٹھہراتے رہے لیکن اس کے نتیجے میں ن لیگ کے خلاف بالعموم اور نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف بالخصوص شدید ردعمل محسوس کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ نواز شریف اور مریم نواز نے فوج کے ادارے کو ہی نشانہ پر رکھ لیا! دونوں باپ بیٹی کے متعلق دفاعی ادارے میں انتہائی منفی تاثر زور پکڑ گیا۔
اگرچہ نواز شریف اور مریم نواز کی اس پالیسی سے ن لیگ کے کئی رہنما بشمول شہاز شریف متفق نہ تھے لیکن ذرائع کے مطابق نواز شریف نے بھی یہ محسوس کیا کہ فوجی قیادت کے دو انتہائی اہم افسران کا نام لے لے کر اُنہیں نشانہ بنانے کی پالیسی کا شاید پارٹی کو فائدے سے زیادہ نقصان ہو۔ شاید اسی وجہ سے اب ایک نیا بیانیہ بنایا جارہا ہے جس کا نشانہ صرف اور صرف جنرل فیض ہیں جو کہ عمران خان کے ممکنہ آئندہ سال تعینات ہونے والے نئے آرمی چیف ہو سکتے ہیں۔ اس نئے بیانیہ کا واضح مقصد یہ ہے کہ جنرل فیض کو اتنا متنازعہ بنا دو اور بار بار عوامی سطح پر اُن کے خلاف بات کرو کہ اُن کا اگلا آرمی چیف بننے کا چانس ہی باقی نہ رہے۔ ن لیگ کو اس بات کا پتا ہے کہ جنرل فیض پر جو جو الزمات لگائے وہ اُس وقت کے ہیں جب وہ آئی ایس آئی کے سربراہ نہیں بلکہ سیکنڈ ان کمانڈ تھے۔
یعنی اُن پر جو جو کچھ غلط کرنے کا الزام ہے اگر وہ سب اُنہوں نے کیا تو آیا خود سے کیا یا کسی کے حکم پر کیا؟ اگلے سال نومبر میں موجودہ آرمی چیف اپنی ایکسٹینشن کے تین سال پورے کر لیں گے۔
اُس وقت تک کیا ہوتا ہے اس بارے میں کچھ بھی حتمی طور پر کہنا قبل از وقت ہو گا کیوں کہ یہاں تو دنوں میں سب کچھ بدل جاتا ہے۔ ن لیگ کے نئے بنائے جانے والے بیانیہ کو وزیراعظم عمران خان کی طرف سے فوج میں حالیہ تبدیلیوں کے نوٹیفیکیشن روکنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے تنازعہ سے تقویت ملی۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ حکومت کے اپنے نمائندوں نے ٹی وی چینلز پر آ کر اور کہہ کر پوری کر دی کہ عمران خان جنرل فیض کو ابھی آئی ایس آئی سے کہیں اور بھیجنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اپوزیشن خصوصاً ن لیگ اور مریم نواز نے اس بات کو بھی خوب اچھالا جس سے ایک تو عمران خان پر تنقید کی کہ وہ فوج کے ادارے کو سیاست زدہ کرنا چاہتے ہیں اور دوسرا جنرل فیض کو نہ ہٹانے کی بات کو سیاست سے جوڑا۔ حکومت کی طرف سے جنرل فیض کو چند ماہ تک اسی ادارہ میں رکھنے کی وجہ افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں کی گئی۔ یہ بات سامنے آ چکی اور میری بھی یہ اطلاعات ہیں کہ جنرل فیض خود بھی آئی ایس آئی میں مزید نہیں رہنا چاہتے اور آئی ایس پی آر کے نوٹیفیکیشن کے مطابق جلد از جلد پشاور کور کو سنبھالنا چاہتے ہیں۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم جنہوں نے نوٹیفیکیشن روک کر ایک غیر ضروری تنازعہ کھڑا کیا اور اپنے اور فوج کے درمیان ایک کھنچائوکی صورتحال پیدا کر دی، آئندہ بدھ کو یعنی دو دن کے بعد نوٹیفیکیشن جاری کر دیں گے۔ جب پاکستان کے حالات دیکھتا ہوں اور خراب معیشت اور انتہا لیول کی مہنگائی کے بارے میں سوچتا ہوں تو بہت پریشانی ہوتی ہے اور پاکستان کے مستقبل کے متعلق ڈر سا محسوس ہوتا۔ یہ حالات تقاضا کرتے ہیں کہ سب سر جوڑ کر پاکستان کو ان مشکلات سے نکالنے او ر اس کے بہتر مستقبل کے لئے اپنے اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر فیصلے کریں۔ اس کے لیے وزیر اعظم عمران خان کا کردار اہم ہو سکتا ہے لیکن وہ چور ،چور ڈاکو، ڈاکو اور این آر او نہیں دوں گا کے جنون سے ہی باہر نہیں نکل رہے۔ اور حالات ہیں کہ بد سے بدتر ہوئے جا رہے ہیں۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
↧
کیا ترک حزبِ اختلاف ایردوان کو ہرا سکتی ہے؟
ہمارے بعض صحافی صدر ایردوان کی مقبولیت میں بے حد کمی آنے اور سن 2023 کے صدارتی انتخابات میں صدر ایردوان کے کسی بھی صورت کامیاب نہ ہونے سے متعلق دعوے کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں پر سب سے پہلے یہ عرض کر دوں کہ صدر ایردوان کو آج بھی ترکی کے تمام سیاسی رہنمائوں پر واضح برتری حاصل ہے اور کوئی بھی لیڈر آج تک ان کی مقبولیت کے عشرِ عشیر تک بھی نہیں پہنچ سکا۔ یہ بات درست ہے کہ صدر ایردوان کی مقبولیت میں عالمی حالات خاص طور پر کوویڈ 19 کی وجہ سے گزشتہ دو سال میں ملکی اقتصادیات پر پڑنے والے منفی اثرات اور مہنگائی کی وجہ سے کمی آئی ہے لیکن تمام منفی رجحانات کے باوجود اب تک ترکی کی سیاست میں کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آتا جو صدر ایردوان کا مقابلہ کرتا دکھائی دے۔
ترکی میں 2023 کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کیلئے صدر ایردوان کی جماعت’’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی‘‘ اور ان کے حلیف دولت باہچے کی جماعت ’’ نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی‘‘ پر مشتمل ’’جمہور اتحاد‘‘ اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل اتحاد جسے ’’ملت اتحاد‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے میں’’ری پبلکن پیپلز پارٹی، گڈ پارٹی، سعادت پارٹی، ڈیموکریٹ پارٹی، دیوا پارٹی، فیوچر پارٹی اور کردوں کی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی‘‘ پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ عرض کر چکا ہوں عالمی حالات اور کوویڈ 19 کی وجہ سے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ترکی بھی بُری طرح متاثر ہوا ہے اور مہنگائی نے ترک عوام کی کمر توڑ رکھی ہے لیکن حالیہ کچھ عرصے سے ترکی جس تیزی سے ان تمام مشکلات پر قابو پاتے ہوئے حیرت انگیز رفتار سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوا ہے اس نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے اور تمام عالمی اور اقتصادی ادارے ترکی سے متعلق آئندہ سال کے لیے ترقی کے تخمینوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
کم و بیش تمام ہی عالمی مالیاتی اور اقتصادی اداروں نے ترکی کی سالانہ شرح نمو 6 فیصد سے بڑھ کر آئندہ سال نو فیصد تک پہنچنے کا تخمینہ لگایا ہے جبکہ صدر ایردوان شرح ترقی کے دہرے ڈیجیٹ تک پہنچنے یعنی دس فیصد سے بھی زائد ہونے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ اس دوران امریکی صدر جو بائیڈن اور یورپی یونین کے رہنمائوں نے جس طریقے سے صدر ایردوان کو مظلوم مسلمانوں کی کھل کر حمایت کرنے پر نشانہ بنایا اور ترکی کی اقتصادیات کو نقصان پہنچانے کے اقدامات کئے اس سے اگرچہ ترکی کی کرنسی ’’ٹرکش لیرا‘‘ پر منفی اثرات مرتب ہوئے، اس پر قابو پانے کیلئے صدر ایردوان نے اسٹیٹ بینک کے گورنروں کو اوپر تلے تبدیل بھی کیا لیکن ٹرکش لیرے کی قدرو قیمت کو ابھی تک کنٹرول نہیں کیا جاسکا ہے لیکن ترک عوام کو صدر ایردوان پر مکمل بھروسہ ہے اور یہی یقین اور بھروسہ صدر ایردوان کے 2023ء کے انتخابات میں کامیابی کاعندیہ بھی دیتا ہے کیونکہ ماضی کے تمام واقعات صدر ایردوان کی اس خصوصیت کو اجاگر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
کالم کے آخر میں صدر ایردون کے ’’جمہور اتحاد‘‘ اور حزبِ اختلاف کے ’’ملت اتحاد‘‘ کی کامیابی کے امکانات کو اعدادو شمار کے ذریعے پیش کرتا ہوں تاکہ آپ پر صحیح صورتِ حال واضح ہو سکے۔ حالیہ سروئیز کے مطابق حزبِ اختلاف کے ’’ ملت اتحاد‘‘ میں ری پبلکن پیپلز پارٹی کو 25 فیصد، گڈ پارٹی کو 10 فیصد، پیپلز ڈیموکریٹ پارٹی کو 10 فیصد، سعادت پارٹی کو ایک فیصد، دیوا پارٹی اور مستقبل پارٹی کو بھی ایک ایک فیصد سے زائد ووٹ ملنے کی توقع نہیں اور سب سے اہم بات اسی اتحاد میں کردوں کی قومیت پسند ’’پیپلز ڈیموکریٹ پارٹی‘‘ اور ترکوں کی قومیت پسند پارٹی ’’گڈ پارٹی‘‘ کے درمیان دشمنی کی حد تک اختلافات موجود ہیں جسکے اثرات لازمی طور پر ان کے اتحاد پر مرتب ہونگے۔ اس اتحاد کو، اگر آج انتخابات ہوتے ہیں تو، 44 فیصد کے لگ بھگ ووٹ مل سکتے ہیں جبکہ صدر ایردوان کے ’’جمہور اتحاد‘‘ کو اس وقت 48 فیصد کے لگ بھگ ووٹ ملنے کی توقع ہے، تاہم صدر ایردوان جو سیاسی حالات کو اپنے حق میں بدلنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے 2023ء تک ملک کو مزید ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے، معیار زندگی بہتر بنا کر اور ترک لیرے کو مضبوط بناتے ہوئے بڑی آسانی سے کامیابی کی راہ ہموار کر سکتے ہیں کیونکہ حزبِ اختلاف آپس کے اختلافات کی وجہ سے صدر ایردوان سے مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔
ڈاکٹر فر قان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
↧
↧
باقر شوکت ڈاکٹرائن اور غربت کی ٹوپی
گزشتہ ماہ گورنر اسٹیٹ بینک نے لندن میں ایک عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گراوٹ کا مثبت پہلو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ سمندر پار پاکستانیوں کی محنت مشقت کی کمائی سے بھیجے جانے والے زرِ مبادلہ کی قدر میں موجودہ شرح ِ تبادلہ کے سبب اضافہ ہو رہا ہے۔ مثلاً اگر پاکستان میں تیس ارب ڈالرِ زرمبادلہ بھیجا جا رہا ہے اور روپے کی قدر میں دس فیصد کمی ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ زرِ مبادلہ بھیجے جانے والوں کو روپے کی قدر میں کمی سے تین ارب ڈالر کا اضافی فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ہر معاشی پالیسی کچھ لوگوں کے لیے نقصان دہ تو کچھ کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے ۔‘‘ اس بیان میں روپے کی قدر میں کمی کے نتیجے میں لاکھوں سمندر پار پاکستانیوں کے مقابلے میں کروڑوں غیر سمندر پار پاکستانیوں کی بڑھتی ہوئی تکالیف کو ’’ کچھ لوگوں کے نقصان ‘‘ کے قالین تلے دبانے کی کوشش پر میڈیا اور سوشل میڈیا میں گورنر اسٹیٹ بینک پر خاصی تنقید ہوئی مگر وہ آج بھی اپنے ’’ وچاروں ‘‘ پر بلا ترمیم قائم ہیں۔
تازہ ’’ ارسطوکاری‘‘ مشیرِ خزانہ شوکت ترین کی جانب سے سامنے آئی ہے۔پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں صحافیوں سے گفتگو میں فرمایا کہ پاکستان میں غربت سے بھی بڑا مسئلہ افراطِ زر کا ہے۔ آپ نے یہ بتانے کے بجائے کہ پاکستان میں شرح غربت اڑتیس سے چالیس فیصد کے درمیان جھول رہی ہے (جو کسی بھی خود دار قوم کے لیے قابلِ خفت بات ہے) یہ خوشخبری سنائی کہ عالمی بینک کے تازہ آنکڑوں کے حساب سے گزشتہ ایک برس کے دوران غربت کی شرح پانچ اعشاریہ چار فیصد سے کم ہو کر چار اعشاریہ دو فیصد ہو گئی ہے۔ ( یعنی ایک اعشاریہ دو فیصد کی کمی )۔ آپ نے فرمایا کہ دیہی علاقوں میں زبردست فصلوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کے سبب موٹر سائیکلوں کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ متوسط اور اوپری طبقے کے دن بھی پھرے ہیں۔ ریستوران بھرے پڑے ہیں۔ کاریں طلب میں اضافے کے سبب مہنگی ہو گئی ہیں۔
یہ وہی دلائل ہیں جو پرویز مشرف، شوکت عزیز اور خود شوکت ترین سن دو ہزار سے دو ہزار چھ تک کے زمانے کی ادھاری ببل اکانومی (غبارہ معیشت) کے ’’ سنہری دور ‘‘ میں دیا کرتے تھے۔ جب یہ غبارہ دو ہزار آٹھ میں پھٹا تو پھر ’’ نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا ‘‘ والا معاملہ ہو گیا۔ پرویز مشرف اور شوکت عزیز ہوا ہو گئے اور بھائی ترین بھی کئی برس تک تارہ بننے کے بعد دوبارہ بحفاظت لینڈ کر گئے کیونکہ ان سے بہتر فی الحال کون جانتا ہے کہ بھنوروں سے گھری معیشت کو بھنور سے کیسے نکالا جاتا ہے۔ گزشتہ تین برس میں ڈالر اوپن مارکیٹ میں ایک سو بیس روپے سے ایک سو اٹہتر روپے تک کیسے پہنچا ؟ اس بارے میں اعلیٰ حضرت ترین نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں صحافیوں سے ہمکلام ہوتے ہوئے براہِ راست تبصرے سے بوجوہ گریز کیا۔ بس کرنسی ذخیرہ کرنے والوں کو خبردار کیا کہ ڈالر اوپر جا سکتا ہے تو نیچے بھی آ سکتا ہے اور ڈالر پر کمند ڈالنے کے لیے اہم اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
مجھے ہرگز ہرگز نہیں معلوم تھا کہ افراطِ زر غربت سے بڑا مسئلہ ہے۔ مجھے تو بس یہ معلوم تھا کہ جب درآمد شدہ پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوتی ہیں تو ایندھن سے پیدا ہونے والی بجلی اور پٹرول و ڈیزل سے چلنے والی ٹرانسپورٹ مہنگی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور پھر لگژری کہلائے جانے والے آئٹمز سے لے کر روٹی تک ہر شے مہنگی ہو جاتی ہے اور اس عمل کے دوران اگر آمدنی اور تنخواہ ساتھ نہ دے تو غربت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ لیکن اگر ’’ باقر و شوکت ڈاکٹرائن ‘‘ پر اعتبار کر لیا جائے تو سب اچھا ہے ، بہترین ہے ، کشل منگل ہے۔ بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی کنزیومر پرائس انڈیکس کے ریکارڈ کا ہی ایکسرے کر لیا جائے تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔ اگست دو ہزار اٹھارہ سے اکتوبر دو ہزار اکیس کے درمیان کاسٹ آف لیونگ ( زندہ رہنے کی قیمت) اوسطاً پینتیس فیصد بڑھی ہے۔ خوراک کے نرخوں میں گزشتہ اڑتیس ماہ کے دوران اڑتالیس فیصد ، صحت اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں بتیس فیصد ، آٹے کی قیمت میں انسٹھ فیصد، چینی کی قیمت میں اناسی فیصد، مرغی کے گوشت کی قیمت میں ایک سو اٹھارہ فیصد، خوردنی تیل کی قیمت میں نواسی فیصد ، دالوں کی قیمت میں تراسی فیصد ، انڈوں کی قیمت میں اکہتر فیصد ، تازہ دودھ کی قیمت میں تینتیس فیصد اور سبزیوں کی قیمت میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔
جولائی دو ہزار اٹھارہ سے قبل اسٹیج پر سے یہ کہا جاتا تھا کہ مہنگائی دراصل حکمرانوں کی کرپشن کا نتیجہ ہے۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ قیمتوں میں عالمی سطح پر کوویڈ کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ پھر بھی ہمارے ہاں قیمتیں بھارت اور بنگلہ دیش سے اب بھی کم ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ گھبرانا نہیں ہے۔اچھے دن بس نکڑ پر کھڑے ہیں کے ساتھ ساتھ یہ جملہ بھی تکیہ کلام میں جوڑ لیا جائے کہ میرے پاکستانیو !ہمارے ہاں غربت ضرور ہے مگر آج بھی صومالیہ ، چاڈ اور کانگو سے کم ہے۔ گذرے زمانوں میں حکمران بھیس بدل کر بازاروں میں حقیقی حالات کی ٹوہ لینے کے لیے گھومتے تھے۔ آج کے وزرائے اعظم، وزرائے اعلیٰ اور مشیرانِ کرام بھی وقتاً فوقتاً بازاروں کا اچانک دورہ کرتے ہیں۔ مگر یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ اچانک دورے کے باوجود میڈیا پہلے سے کیمرے لے کر کیسے کھڑا ہوتا ہے ، دکانوں پر نرخ نامے خود بخود لٹکنے کا چمتکار کیسے ہو جاتا ہے اور کاؤنٹرز کے پیچھے مستعد کھڑے دکانداروں کو ’’جی سر یس سر آپ درست فرما رہے ہیں ‘‘ کا ورد کون پروٹوکولی یاد کراتا ہے ۔
اور جیسے ہی اس اچانک دورے میں شامل شاہی قافلے کی لینڈ کروزرز کی لمبی قطار دھول چھوڑتی ہوئی آگے بڑھتی ہے تو یہی دھول لٹکے ہوئے نرخ ناموں اور عام آدمی کے ہونق چہرے پر دوبارہ جم جاتی ہے۔ اب تو ہفتہ وار کنزیومر پرائس انڈیکس بھی ماہانہ کر دی گئی ہے۔ فرض کر لیا گیا ہے کہ اس اقدام سے دن وار مہنگائی سے پیدا ہونے والی مرگی سے عام آدمی کو بچایا جا سکے گا۔ ظاہر ہے یہ عام آدمی براہ راست بازار جانے سے پہلے کنزیومر پرائس انڈیکس پڑھ کے ہی شاپنگ کے لیے نکلتا ہے۔ ہر دکان دار کے پاس بھی اس انڈیکس کی مصدقہ کاپی ہوتی ہے۔ پہلے وہ اس پر نظر ڈالتا ہے اور پھر گاہک کو بتاتا ہے کہ آج دہی کی کیا قیمت ہے اور آٹا کس بھاؤ ہے۔ ایسا ہی ہے نا ؟
میں کن لوگوں میں رہنا چاہتا تھا
یہ کن لوگوں میں رہنا پڑ رہا ہے
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
↧
پاکستان میں پراپرٹی کی نئی قیمتوں کے تعین سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کتنا متاثر ہو گا؟
پاکستان کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے غیر منقولہ جائیدادوں کی قیمت بڑھانے کے فیصلے کے بعد پاکستان کے ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے وابستہ افراد خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایف بی آر نے پراپرٹی کی نئی ویلیوایشن کا یکم دسمبر سے اطلاق کر دیا تھا اور ملک کے لگ بھگ 40 شہروں کی کمرشل اور رہائشی پراپرٹیز کی نئی قیمتوں کا اعلان کیا تھا۔ تاہم پراپرٹی کی خریدوفروخت کے کاروبار سے وابستہ افراد اور تنظیموں کے جانب سے احتجاج کے بعد ابھی تک اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔ پانچ دسمبر کو فیڈریشن آف ریٹلرز اور اسلام آباد اسٹیٹ ایجنٹس ایسوسی ایشن نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کی اور حکومت کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ پراپرٹی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ اس ویلیوایشن میں فریقین سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ ایف بی آر کے اس فیصلے کے بعد مارکیٹ میں کاروباری سرگرمی میں کمی آئی ہے۔
ہم احتجاجاً پراپرٹی ٹرانسفر نہیں کرائیں گے
بحریہ ٹاؤن اسلام آباد میں پراپراٹی کے کاروبار سے وابستہ عمران عزیز نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر کہا کہ ’عمران خان نے ٹیکس دگنا کرنے کی بات کی لیکن انہوں نے اس کے لیے جو طریقہ اپنایا ہے یہ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافے کے بجائے کمی کا باعث بنے گا۔‘ ’ایف بی آر نے جو حالیہ ویلیوایشن کی ہے اس کی وجہ سے سرمایہ لگانے والوں نے مارکیٹ سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور ہماری کچھ تنظیموں نے کہا ہے کہ وہ احتجاجاً پراپرٹی ٹرانسفر نہیں کرائیں گے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ ایف بی آر نے بغیر کسی فارمولے کے زمینوں کی ویلیوایشن کی ہے۔ اس سے قبل محکمہ مال پراپرٹیز کو دیکھ بھال کر ان کی قیمت کا تعین کرتا تھا۔ اب ایف بی آر نے ویلیوایشن دگنی کر دی ہے اور بعض جگہوں پر تو 700 گنا بھی بڑھا دی ہے۔‘
’عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ ہم کنسٹرکشن انڈسٹری چلانا چاہتے ہیں، جب وہ چلنے لگی تو انہوں نے اس پر بم گرا دیا۔ یہ حکمت عملی اچھی نہیں۔ حکومت کو فوراً پیسے نکالنے کی پالیسی کے بجائے طویل المدت پالیسی بنانی چاہیے۔‘ اس سلسلے میں جب اردو نیوز نے ایف بی آر کے فیسیلیٹیشن اینڈ ٹیکس پیئرز ایجوکیشن (ایف اے ٹی ای) ونگ کے سیکریٹری تعلقات عامہ عدنان اکرم باجوہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے ایف بی آر کے موقف پر مبنی مراسلہ بھیجا۔ ایف بی آر کا موقف ہے کہ ’حالیہ پراپرٹی ویلیوایشن نہایت غوروخوض اور فیلڈ فارمیشن کی مشاورت کے بعد مقرر کی گئی ہے۔ پراپرٹی کی ویلیو میں اضافہ دنیا میں رائج بہترین طریقہ کار کو اپناتے ہوئے مارکیٹ قیمت کے قریب تر کیا گیا ہے۔‘ تاہم ایف بی آر نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ ’اسے مختلف حلقوں کی جانب سے یہ شکایات موصول ہوئی ہیں جن میں ایف بی آر کی پراپرٹی ویلیوایشن کو مارکیٹ قیمت سے زائد کہا گیا ہے۔‘
’شکایت کو رفع کرنے کے لیے ایف بی آر نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ٹاپ ویلیوایشن ماہرین سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ تمام سٹیک ہولڈرز بشمول ریئل اسٹیٹ ایجنٹس اور ٹاؤن ڈیویلپرز سے مشاورت کریں گے اور انفرادی طور پر کیسز کی جانچ پڑتال کے بعد اپنی سفارشات پیش کریں گے تاکہ کسی بھی قسم کی غلطی دور کر سکیں اور پراپرٹی کی ویلیو کو مارکیٹ قیمت کے قریب تر کر سکیں۔‘
’کچھ لوگ سازش کے تحت ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو بند کرانا چاہتے ہیں‘ گلبرگ گرینز اسلام آباد میں پراپرٹی کا کاروبار کرنے والے ملک نجیب کا کہنا ہے کہ ’حکومت نے بغیر سوچے سمجھے یہ ویلیوایشن کی ہے۔ مثال کے طور پر اگر اسلام آباد کے ایف سیون سیکٹر میں کسی اپارٹمنٹ کی قیمت چھ یا سات کروڑ تھی، انہوں نے اسے یکدم 35 سے 40 کروڑ کر دیا ہے۔‘
’اس وقت ملک میں صرف ریئل اسٹیٹ سیکٹر ہی چل رہا ہے لیکن کچھ لوگ سازش کے تحت اسے بھی بند کرانا چاہتے ہیں۔‘ ’حکومت کو پراپراٹی کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کے ساتھ مشاورت کرنا ہو گی اور اس مسئلے کا کوئی حل نکالنا ہو گا۔ اگر اس طرح کے فیصلے کیے گئے تو لوگ ٹیکس نہیں دیں گے۔‘ ملک نجیب نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے 5 دسمبر کو ہونے والے اجلاس میں ایف بی آر کو متعلقہ سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے لیے کہا گیا ہے۔ امید ہے کہ کچھ بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔‘
پراپرٹی ویلیوایشن کیا ہے؟
سادہ لفظوں میں پراپرٹی ویلیوایشن کا مطلب غیر منقولہ جائیدادوں کی حکومت کی جانب سے قیمت کا تعین ہے۔ پاکستان میں طویل عرصے تک غیر منقولہ جائیدادوں کی قیمت کا تعلق محکمہ مال کرتا رہا ہے۔ پراپرٹی کا کاروبار کرنے والے اسے ڈی سی ریٹ کہتے ہیں۔ اس حوالے سے پراپرٹی ڈیلر عمران عزیز نے بتایا کہ ’نواز شریف کے آخری دور حکومت میں ایف بی آر کو پراپرٹی ویلیوایشن کی جانب لانے کی کوشش کی گئی لیکن اس کے بعد سے کہیں ایف بی آر کی ویلیوایشن لاگو ہے تو کہیں محکمہ مال کی۔ ابھی تک یہ معاملہ بالکل واضح نہیں ہو سکا۔‘
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا فیصلہ
پراپرٹی ڈیلرز کے احتجاج کے بعد 6 دسمبر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و ٹیکس کا اجلاس ہوا جس میں ایف بی آر کے اس نئے ایس آر او کو معطل کرتے ہوئے جولائی 2019 کے ویلیوایشن ایس آر او کو بحال کرنے کا فیصلہ ہوا اور ایف بی آر کو ہدایت کی گئی کہ اس معاملے میں تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد 15 دن کے اندر اندر اپنی رپورٹ جمع کرائے۔ قائمہ کمیٹی نے ہدایت کی کہ ’نئی ویلیوایشن مقررہ وقت میں کی جائے اور اس میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر کی مشکلات اور رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔‘
فرحان خان،
بشکریہ اردو نیوز- اسلام آباد
↧
ٹیکس معافیوں سے پاکستان کو کتنا نقصان ہو رہا ہے؟
ہم اپنی آمدنیوں سے پیسے بچا کر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے لیے سب سے پہلے اپنی آمدنیوں کے رجحان کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ 19ء-2018ء میں سامنے آنے والے Household Integrated Economic Survey (HIES) کے مطابق ہماری اوسط سالانہ گھریلو آمدن 41 ہزار 545 روپے رہی جو 02ء-2001ء میں محض 7 ہزار 168 روپے تھی۔ مطلب یہ کہ گھریلو آمدن میں اوسط سالانہ اضافے کی شرح 10.9 فیصد رہی۔ اس عرصے کے دوران ہر 5 میں سے ایک غریب کی آمدن 4 ہزار 391 سے بڑھ کر 23 ہزار 192 تک پہنچ چکی ہے، یعنی 10.3 کا سالانہ اضافہ ہوا۔ اسی طرح ہر 5 میں سے ایک امیر ترین گھرانوں کی آمدن 11 ہزار 360 روپے سے بڑھ کر 63 ہزار 544 روپے پہنچ گئی ہے، یعنی 10.7 فیصد کا سالانہ اضافہ ہوا۔ اسی عرصے میں مہنگائی میں سالانہ اضافے کی اوسط شرح 7.9 رہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عرصے میں مہنگائی کی کٹوتیوں کے بعد بچنے والی حقیقی آمدنیوں میں اوسط کے اعتبار سے اضافہ ہوا ہے۔
یاد رہے کہ ہمارا ملک تقریباً 3 کروڑ 40 لاکھ گھرانوں پر مشتمل ہے۔ اگر مذکورہ بالا اعداد و شمار آپ کے تجربے سے مماثلت نہیں رکھتے تو آپ وہ خوش قسمت ہیں جو گھرانوں کے 5ویں حصوں میں سے ایک اعلیٰ حصے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر HIES کے سروے میں 10 یا ایک فیصدی لحاظ سے اعداد وشمار پیش کیے جاتے تو کئی قارئین خود کو پاکستان کے 10 یا 5 فیصد امیر ترین گھرانوں میں شمار کرتے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ بظاہر نظر آنے والی کم گھریلو آمدنیوں کو کمانے والا کوئی فرد واحد نہیں تھا۔ ایک اوسط گھرانہ 6.24 افراد پر مشتمل تھا اور ایک گھرانے میں کمانے والوں کی تعداد 1.86 فیصد تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گھریلو آمدن کے مقابلے میں کمانے والے ایک فرد کی اوسط آمدن کم رہی۔ ہماری قومی بچت کی کم شرح سے متعلق ہم سب جانتے ہیں جس کا 19ء-2018ء کی مجموعی قومی پیداوار میں حصہ 10.8 فیصد تھا۔ مگر چند ہی لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ اسی سال ماہانہ گھریلو کمائی میں سے نقدی یا ڈیپازٹس کی صورت میں اوسط ماہانہ بچت کی شرح 4.6 فصد رہی۔
اگر ہم جیولری اور دیگر مالی اثاثوں کی خریداری پر ہونے والے اخراجات کو جوڑ دیں تو 19ء-2018ء میں گھریلو بچت کی شرح 02ء-2001ء میں رہنے والی 6.3 فیصد شرح کے مقابلے میں 8.8 فیصد بنتی ہے۔ اگرچہ اس عرصے کے دوران ہماری بچت کی شرح بڑھی ہے لیکن اس معاملے میں ہماری بہتری کی رفتار بہت زیادہ سست رہی ہے۔ ہمارے ہاں بچت کا رجحان زیادہ نہیں پایا جاتا۔ اس کا تعلق ہماری میکرو ایکنامک پالیسیوں میں موجود بے ترتیبی سے بھی ہے کیونکہ ان پالیسیوں میں بچت سے زیادہ خرچ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ آپ سود کی شرح میں موجودہ اور ماضی کے رجحانات پر ہی نگاہ ڈال لیجیے۔ جب بھی شرح میں اضافہ ہوتا ہے تو احتجاجی مظاہروں کا شور شروع ہو جاتا ہے حالانکہ اس اضافے سے بچت کرنے والوں کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔ ہماری توجہ کا مرکز ہمیشہ 'غریب'قرض دار ہوتے ہیں حالانکہ وہ شرح کے اضافے سے بہت زیادہ متاثر نہیں ہوتے بلکہ ان کے منافع میں سے معمولی حصہ ہی کٹتا ہے۔
ڈالر کو سستا رکھنے کا ہمارا شوق بھی بچت کے بجائے خرچ کرنے کو فروغ دیتا ہے۔ کیا ہم بچت کرنے والوں کو مناسب معاشی مراعات دے رہے ہیں؟ بینک میں پیسے جمع کروانے والوں کے منافع کی شرح پر ہی نظر دوڑا کر دیکھ لیجیے۔ 02ء-2001ء سے 19ء-2018ء تک اس میں صرف 4 فیصد کا اوسط اضافہ ہوا۔ اب اس کا موازنہ اسی عرصے کے دوران رہنے والی افراطِ زر کی سالانہ 7.9 فیصد کی اوسط شرح سے کیجیے اور (یہ بھی یاد رہے کہ 2008ء سے 2012ء کے بیچ افراطِ زر دو ہندسوں میں تھی)۔ چنانچہ بینک میں رقم جمع کروانے والوں کے لیے حقیقی شرح بڑے فرق کے ساتھ منفی رہیں۔ پھر کم بچت پر رونا کیسا؟ اگر ہم درست شرح مبادلہ اور شرح سود رکھیں تو ان سے افراطِ زر کو کم رکھنے کے ساتھ بچت کو فروغ دینے میں بھی مدد ملے گی۔ تاہم ہمارے پاس خرچ کرنے کی نفی اور بچت (مالی پالیسیوں) کے فروغ کے لیے دیگر پالیسیاں بھی موجود ہیں۔ پاکستان میں گھرانے ایف بی آر کو بلاواسطہ اور بالواسطہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹیز گھرانوں کی جانب سے خریدی جانے والی مصنوعات کی قیمتوں میں ضم ہوتی ہیں۔ چنانچہ HIES سروے صرف انکم ٹیکس اور دیگر بلاواسطہ ٹیکسوں پر ہونے والے اخراجات کے تخمینے ہی فراہم کر سکتا ہے۔ ہمارے گھرانے کتنے ٹیکسوں کی ادائیگی کر سکتے ہیں؟ 18ء-2019ء میں ہمارے ایک اوسط گھرانے نے ماہانہ صرف 144.12 روپے بلاواسطہ ٹیکس ایف بی آر کو ادا کیا۔ یہ گھریلو آمدن کے ایک فیصد کے آدھے حصے سے بھی کم (0٫35 فیصد) رقم بنتی ہے! اگر 02ء-2001ء کی بات کریں تو اس وقت آمدن کا 0.38 فیصد حصے کے برابر ٹیکس ادا کیا گیا تھا۔ دنیا میں شاید ہی ایسے ملک ہوں گے جہاں کے گھرانے اس رقم سے کم بلاواسطہ ٹیکسوں کی ادائیگیاں کرتے ہوں گے۔ مثلاً، امریکا میں ایک اوسط گھرانے نے 2019ء میں اپنی آمدن کا 13.7 فیصد حصہ بلاواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں ادا کیا تھا۔ یقیناً یہ موازنہ غیر منصفانہ ہے!
تاہم یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے گھرانے پورا ٹیکس دینے سے بچ جاتے ہیں۔ مگر اسے بھی آدھا سچ قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ ٹیکسوں کی کم وصولی کی وجہ ہماری ٹیکس پالیسیاں ہیں۔ ہمارے مالی حکام اکثر و بیشتر انکم ٹیکس شرح کو گھٹانے اور انکم ٹیکس کی چھوٹ کا درجہ بڑھانے میں کنجوسی نہیں کرتے۔ ہمارے وزرائے خزانہ کے ذہنوں پر انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کو 'ریلیف'کی فراہمی کی فکر ہمیشہ سے سوار رہی ہے۔ مثال کے طور پر ایف بی آر ایئر بک 19ء-2018ء کے مطابق ٹیکس وصولی میں کمی کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ اس سال بجٹ میں اعلان کردہ انکم ٹیکس کی محدود شرح تھی۔ یہاں ہمیں Laffer curve (یہ ایک تھیوری ہے جو ٹیکس کی شرح اور حکومتوں کی طرف سے جمع کی جانے والی ٹیکس آمدنی کی مقدار کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتی ہے) کے حامیوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جو سوچتے ہیں کہ ٹیکس شرح کو گھٹانے سے ریونیو میں اضافہ ہو گا۔ (انکم ٹیکس سے لے کر زرعی و دیگر شعبوں میں) ٹیکس کی بے تحاشا چھوٹ دینے کے ساتھ ٹیکس کی شرح کو گھٹانا اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
ہم اپنی آمدن کا بیشتر حصہ نجی مصنوعات پر خرچ کرتے ہیں۔ مجموعی قومی پیداوار کے 93 فیصد سے زائد حصے کے برابر مصنوعات خریدیں، اس لحاظ سے ہم نجی مصنوعات استعمال کرنے والے کئی دیگر ملکوں سے آگے ہیں۔ مگر ہم سڑکوں، پلوں، صاف پانی کی فراہمی، نکاس آب، صفائی کے نظام، داخلی سیکیورٹی وغیرہ جیسی عوامی مصنوعات کی دستیابی اور معیار میں کوتاہی کا گلہ کرتے ہیں۔
ٹیکسوں کی ادائیگی ہی انفرااسٹرکچر کی دستیابی کو یقینی بنانے کا واحد ذریعہ ہے۔ ہم ایک طرف تو اپنی حکومتوں سے بہتر معیار کی عوامی مصنوعات کی فراہمی کا تقاضا کرتے ہیں لیکن دوسری طرف ہم بلاواسطہ ٹیکس ادا کرنے میں کافی ہچکچاتے ہیں، اور پھر ٹیکسوں کی وصولی میں ہماری حکومت کی غیر سنجیدگی بھی کم نہیں (جو متعدد ٹیکسوں میں مسلسل چھوٹ سے نمایاں ہے)۔ اس کا نتیجہ مالی حکام کے بظاہر ذی شعور اقدامات کی پُرکشش کرتبوں کی صورت میں برآمد ہوتا ہے جس سے تھوڑی بہت آمدن تو ہوتی ہے مگر اس کا حجم ٹیکس چھوٹ کے باعث ہونے والے ٹیکس خسارے کے مقابلے میں بہت ہی کم ہوتا ہے۔
FBR Tax Expenditure کی رپورٹ برائے 2021ء کے مطابق وفاقی ٹیکسوں میں معافیوں کے باعث ایک ہزار 314 ارب روپے کا خسارہ پیدا ہوا جو مجموعی قومی پیداوار کے 3.2 فیصد حصے کے برابر ہے۔ اس کے باوجود ہم اپنی غلطیوں (غافل میکرو اکنامک پالیسیوں) کے لیے غیر ملکیوں کو موردِ الزام ٹھہراتے رہتے ہیں۔ ہم خود کو تباہ کر رہے ہیں اور آنکھیں موندے ہوئے ہیں۔ مسئلہ ہماری تقدیر میں نہیں بلکہ ہمارے اپنے اندر ہے۔
ریاض ریاض الدین
یہ مضمون 6 دسمبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے نائب گورنر رہ چکے ہیں
بشکریہ ڈان نیوز
↧
بابا بُلّھے شاہ
اربوں کھربوں سال سے بنی اس دنیا میں وقت کی لہریں یوں ہی گزرتی رہی ہیں اور گزرتی جائیں گی۔ انسان بھی آتے ہیں اور لہروں کی طرح گزر جاتے ہیں لیکن ہمیشہ وہ انسان دنیا اور دلوں میں گھر بناتے ہیں جو اس دنیا میں کچھ کر جاتے ہیں۔ وہ چلے بھی جائیں لیکن دنیا انہیں ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔کبھی لفظوں میں کبھی یادوں میں اور کبھی مزاروں کی شکل میں، اور بزرگ برصغیر پاک و ہند میں بے شمار صوفی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے برصغیر کی اس سرزمین میں اسلام پھیلانے کیلئے آخری سانس تک بے شمار کوششیں کیں۔ وہ ساری کوششیں چاہے ان کی زندگی میں پوری نہ ہو سکیں لیکن ان کی تعلیمات اور کردار روشن ستاروں کی طرح اس دنیا میں قائم رہے۔ ان کی قبروں پر آج بھی لوگوں کا ہجوم رہتا ہے اور انہیں ایصال ثواب کرتا ہے۔ ان صوفیاء کرام نے جہالت ختم کرنے کیلئے اس سرزمین پر بے شمار کوششیں کیں، مشکلات برداشت کیں اور قربانیاں دیں جو لوگوں کے دلوں میں آج بھی زندہ و جاوید ہیں۔
انہی ناموں میں ایک نام حضرت بابا بلھے شاہ کا ہے۔ قصور شہر کا نام اور بابا بلھے شاہ کا نام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں جہاں قصور کا نام لیا جائے وہاں بابا بلھے شاہ کا نام بھی ساتھ ہی لیا جاتا ہے۔ کچھ دن پہلے ہمارا قصور جانے کا اتفاق ہوا، دل میں بہت شوق تھا کہ بابا بلھے شاہ کا مزار دیکھیں۔ لاہور سے 28 کلومیٹر دور قصور کا چھوٹا سا شہر ہے۔ قصور پہنچ کر چار پانچ کلومیٹر دائیں جانب ایک چھوٹا سا پسماندہ گاوں ہے جو آج بھی اتنا ہی پسماندہ ہے جتنا کہ بابا بلھے شاہ کے زمانے میں ہو گا۔ آج بھی سائیڈوں پر بنے ہوئے بنوں پر لوگ بے کار بیٹھے رہتے ہیں۔ کچے پکے راستوں اور کھیتوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ہم مزار شریف کے پاس پہنچے۔ مزار کے آس پاس ایک چھوٹا سا شہر آباد ہے جہاں زیادہ مچھلی اور فالودے کی دکانیں موجود ہیں۔ کار پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر کے کچی جگہوں کو پار کرتے ہوئے ہم نے مزار کا رخ کیا۔ ان کچی جگہوں پر زیادہ قبریں ہی بنی ہوئیں تھیں۔
ایک لمبی قطار کے ساتھ چلتے ہوئے ہم مزار کے احاطے میں داخل ہوئے۔ وہاں سے وضو کیا اور مزار کے اندر کا رخ کیا۔ بے شمار رش اور چاہنے والے روزانہ سیکڑوں کے حساب سے حاضری دینے آتے جاتے رہتے ہیں۔ مزار کے ایک طرف ایک کمرہ تعمیر ہے جہاں ہر وقت قوالی کا انتظام ہے جو موسیقی بابا بلھے شاہ کی زندگی کا حصہ تھی۔ وہ آج بھی وہاں پر اسی طرز پر چلتی رہتی ہے۔
نہ کر بندیا میری میری نہ تیری نہ میری
تو ایں خاک دی ڈھیری
کوٹھیاں بنگلے سب ٹر جانے
جدوں لیکھاں نے اکھ پھیری
پنجابی صوفی شاعر بابا بلھے شاہ کو بخاری سید بھی کہتے ہیں۔ ان کا نام عبداللہ شاہ تھا، ان کے والد کا نام شاہ محمد درویش تھا جو مسجد کے امام تھے۔ بابا بلھے شاہ کی پیدائش اوچ شریف میں ہوئی۔ ان کے والد بچوں کو قرآن پاک پڑھاتے تھے۔ بابا بلھے شاہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ قرآن، حدیث اور منطق کی تعلیم قصور سے حاصل کی۔ گلستان استاد بھی پڑھی۔ دنیا کے علم حاصل کر کے بھی ان کا دل مطمئن نہ ہوا۔ بابا بلھے شاہ حافظ غلام مرتضیٰ کے شاگرد بن گئے اور ان سے عربی، فارسی اور تصوف کی تعلیم بھی حاصل کی۔ وارث شاہ نے بھی حافظ غلام مرتضیٰ سے تعلیم حاصل کی۔
حافظ غلام مرتضیٰ کہا کرتے تھے۔ مجھے دو ایسے عجیب شاگرد ملے ہیں ایک بلھے شاہ ہے جو تصوف کی تعلیم حاصل کرے اس نے ایک ہاتھ میں سارنگی پکڑ لی اور دوسرا وارث شاہ جو عالم دین بن کر تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہیرا رانجھے کے گیت گانے لگا۔ بابا بلھے شاہ اپنی شاعری میں نہ صرف مذہبی ضابطوں پر تنقید کرتے بلکہ ترک دنیا کو بھی بھرپور انداز میں مذمت کرتے اور محض علم جمع کرنے کو وبال جان قرار دیتے ہیں۔ علم بغیر عمل کے بے کار ہے۔ بابا بلھے شاہ کے دور میں مغلیہ سلطنت داخلی اور خارجی مسائل کا شکار تھی، معاشرہ تباہی کے دہانے پر کھڑا تھا، انسان بے بس ہو چکا تھا۔ لوگ ایک خدا کی عبادت کرنے کی بجائے توہمات میں الجھے ہوئے تھے لیکن بابا بلھے شاہ کو اللہ کی طرف سے یہ خوبی عطا تھی کہ وہ انسان کو تصویر کا دوسرا رخ سمجھانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔ انہوں نے انسانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اے ابن آدم تو کچھ بھی نہیں تیری کوئی شناخت نہیں تو مٹی کی ڈھیری ہے بس وہ ایک درویش آدمی تھے۔
یہ درویشی صفت ساری عمر ان کے ساتھ رہی۔ بابا بلھے شاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور کے چشم دید گواہ ہیں۔ اس لیے مفتی ان کے خلاف تھے۔ انہیں کافر کہہ رہے تھے۔ مغل سکھوں کا قتل عام کر رہے تھے اور سکھ مغلوں کو مار رہے تھے۔ بلھے شاہ نے صوفیانہ شاعری کے ذریعے اورنگ زیب عالمگیر کی حکمرانی کو چیلنج کیا۔ مفتیوں نے فتوے دیئے کہ ان کی شاعری کافرانہ ہے اس لیے ان کو ملک بدر کر دیا جائے۔ بلھے شاہ کا انسانیت سے بھرپور کلام اپنے جوبن پر تھا۔ اس وقت بلھے شاہ قصور کو خیرباد کہہ کر لاہور آ گئے۔ عوام کو محبت اور انسانیت کا درس دینا شروع کیا۔ ایسے شخص کو کیسے ریاست اور اس کے حلقے بے باکی سے زندہ رہنے دیتے۔ یہ سچ کی ریاستوں کے ٹھیکیداروں کیلئے خطرناک تھا۔ اس لیے لوگوں کو یہ سمجھ آ رہا تھا کہ یہ درویش مختلف بات کر رہا ہے۔ مفتیوں کو چیلنج کر رہا ہے، عشق ان کی طاقت تھی۔ ان کو مارنا مشکل تھا۔
بابا بلھے شاہ کا انتقال 1757 عیسوی میں قصور میں ہوا اور یہیں دفن ہوئے۔ ان کے عقیدت مند آج بھی ان کے مزار پر ہر سال ان کی صوفیانہ شاعری گا کر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ مزار کے احاطے میں ایک طرف شیشے کے کیس میں بابا بلھے شاہ کا عمامہ شریف اور ستار بھی موجود ہے۔ ایک حصے میں ان کے کلام کو گا کر سنایا جاتا ہے اور لوگ بڑے اشتیاق سے سنتے ہیں۔ سارا دن لوگوں کے ہجوم آتے جاتے رہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کیلئے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی وہ اس دنیا کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں وہ کبھی بھی نہیں مرتے۔ قصوری میتھی ایک خاص سوغات ہے جو ان کے مزار پر لوگ کثرت سے خریدتے ہیں۔ ہم نے بھی فاتحہ خوانی کی اور سارا دن قصور میں گزارا اور یہ دن ہماری زندگی کا ایک بہت اہم اور یادگار دن تھا کہ ہم نے ایک صوفی شاعر کے مزار پر حاضری دی۔
روبینہ شاہین
بشکریہ روزنامہ جسارت
↧
↧
Justice Umar Ata Bandial
Born on 17.09.1958 in Lahore, Justice Umar Ata Bandial received his elementary and secondary education at different schools in Kohat, Rawalpindi, Peshawar and Lahore. He secured his B.A. (Economics) degree from Columbia University, USA followed by a Law Tripos degree from Cambridge University, UK and qualified as Barrister-at-Law from Lincoln’s Inn, London. In 1983, he was enrolled as an Advocate of the Lahore High Court and some years later, as an Advocate of the Supreme Court of Pakistan. In his law practice at Lahore, Justice Umar Ata Bandial dealt mostly with commercial, banking, tax and property matters. After 1993 until his elevation, Justice Umar Ata Bandial also handled international commercial disputes. He appeared in arbitration matters before the Supreme Court of Pakistan and also before international arbitral tribunals in London and Paris.
Justice Umar Ata Bandial was elevated as Judge of the Lahore High Court on 04.12.2004. He declined oath under PCO in November, 2007 but was restored as a Judge of the Lahore High Court as a result of the lawyers and civil society movement for revival of the Judiciary and Constitutional rule in the country. Later, he served for two years as Chief Justice, Lahore High Court until his elevation as Judge of Supreme Court of Pakistan in June 2014. During his career as Judge of the Lahore High Court and the Supreme Court of Pakistan, Justice Umar Ata Bandial has rendered judgments on a number of important public law and private law issues. These include pronouncements on civil and commercial disputes, Constitutional rights and public interest matters. Justice Umar Ata Bandial also taught Contract Law and Torts Law at the Punjab University Law College, Lahore until 1987 and remained a member of its Graduate Studies Committee while serving as Judge Lahore High Court.
Courtesy : The News Karachi
↧
ٹیکس وصولی کا ناقص نظام
حکمران ملک کےعوام کیلئے ہمیشہ باپ کا درجہ رکھتے ہیں، وہ عوام کو دھونس اور دھمکیاں نہیں دیتے جب کہ کچھ دن قبل ملک کے وزیر خزانہ یہ کہتے پائے گئے کہ ہم ٹیکس نہ دینے والوں سے ٹیکس لے کر رہیں گے، کس کے پاس کتنی دولت ہے ہمیں علم ہے، اب ہم نوٹس نہیں بھجیں گے بلکہ ان سے ٹیکس وصول کریں گے ان کا لب ولہجہ بتا رہا تھا کہ وہ ٹیکس کی وصولی کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کریں گے۔ جس جماعت میں مالی معاملات میں خورد برد پر شور ہو رہا ہے وہ جماعت یا اس کا کوئی بھی رہنما کیسے عوام کو دھمکیاں دے سکتا ہے؟ خیر اس بات میں تو کوئی شک و شبہ نہیں کہ ملک میں ٹیکس کا نظام ناقص ہے جبکہ ملکی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ٹیکسوں کی وصولی کا نظام درست ہو اور ٹیکس ادا کرنے کے قابل ہر شہری اپنے ذمہ واجب الادا ٹیکس قواعد و ضوابط کے مطابق ادا کر رہا ہو پھر ہمیں اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے کشکول نہیں اٹھانا پڑے گا۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ حکمرانوں کا تعلق ایک خاص طبقے سے رہا ہے۔ ان میں بیشتر پر کرپشن کے الزامات لگتے رہے اور جب یہ حکومت میں آئے تو ایسا تاثر دیا جیسے یہ پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہوں اور سب سے زیادہ ایماندار ہوں۔ غریب عوام کو یہ ٹیکس چور قرار دینے سے باز نہیں آتے، اس کی مثال موجودہ حکمرانوں کی تقریریں ہیں۔ ہمارے پالیسی سازوں اور حکمرانوں نے کبھی ٹیکس سسٹم کو ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا اور نہ ہی ان انڈسٹریز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے اقدامات کئے جن پر اربوں روپے ٹیکس چوری کے الزامات ہیں، ایک ایسا ہی شعبہ سگریٹ انڈسٹری ہے جس کے مالکان پر اربوں روپے ٹیکس چوری کا الزام لگا مگر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اگر بات ٹیکس چوری کی ہو تو اربوں ڈالر کی انڈسٹری رکھنے والے بعض لوگ پارلیمنٹ کا حصہ ہیں جو ٹیکس کی خورد برد میں ملوث ہیں، جو خود بھی ٹیکس ادا نہیں کرتے اور چونکہ یہ افسر شاہی کا حصہ ہیں لہٰذا یہ ٹیکس نظام کو بہتر اور مربوط بنانے کے خلاف سازشیں بھی کرتے رہتے ہیں۔
قارئین کے ذہن میں سوال تو آتا ہو گا کہ اربوں روپے ٹیکس کہاں سے آتا ہے؟ تو جناب ایک عام آدمی جب 5 روپے کے بسکٹ خریدتا ہے تو اس پر بھی وہ ٹیکس دیتا ہے جب کہ قومی خزانے میں ٹیکسوں کی مد میں جو رقوم آتی ہیں وہ زیادہ تر تنخواہ دار طبقے کی تنخواہوں میں سے ازخود انکم ٹیکس کی کٹوتی کی صورت میں حاصل ہونے والی رقوم ہیں یا پھر وہ چھوٹے تاجر جن سے زبردستی ٹیکس لیا جاتا ہے۔ عوام جو ٹیکس دیتے ہیں بدلے میں حکومت انہیں کیا دے رہی ہے؟ کیا صحت کا نظام بہتر ہے؟ کیا علاج مفت ہوتا ہے؟ کیا تعلیم کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے؟ کیا سڑکیں بہتر ہوئیں؟ کیا ٹیکس دینے والےعوام کو کوئی سبسڈی ملتی ہے؟ یہاں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ واقعی تماشا ہے کہ پورا پورا ٹیکس ادا کرنے والے یہ لوگ زندگی کی بنیادی ضرورتوں اور سہولتوں سے بھی محروم ہیں جبکہ بجلی، گیس اور دیگر بلوں، ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور اشیائے خور ونوش کی خریداری کے وقت ان کے نرخوں میں جنرل سیلز ٹیکس شامل ہوتا ہے جو ان سے جبری طور پر وصول کیا جاتا ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ عوام ٹیکس چور ہیں۔
اسی طرح وسائل سے محروم یہ طبقات براہ راست اور بالواسطہ ٹیکس ہر صورت ادا کرنے پر مجبور ہیں جو دہرے ٹیکسوں کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے نہ اپنا مکان بنا سکتے ہیں نہ بچوں کو بہتر تعلیم دلوا سکتے ہیں۔ دوسری طرف نظر دوڑائیں تو عوام کا خادم ہونے کا دعویٰ کرنے والے، انڈسٹری کے مالک، صنعت کار اور دیگر مراعات یافتہ طبقات نہ صرف ٹیکس چوری میں ملوث ہیں بلکہ اپنے اختیارات اور اثرو رسوخ کے بل بوتے پر واجب الادا ٹیکسوں میں چھوٹ بھی حاصل کر لیتے ہیں اور انہیں ریفنڈ کے نام پر یہ ٹیکس واپس بھی کر دیا جاتا ہے، کیا عوام کا دیا ہوا ٹیکس کبھی ریفنڈ ہوا؟ ایسا کیوں ہے کہ ہماری ریاست ان مراعات یافتہ افراد کو جو ٹیکس دیتے ہیں، ٹیکس ریفنڈ کر دیتی ہے یعنی ایک ہاتھ سے ٹیکس دو اور دوسرے سے لے لو۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ سب سے پہلے ان مراعات یافتہ طبقات کو مکمل طور پر ٹیکس نیٹ میں لانے اور ان سے واجب الادا ٹیکس بلاامتیاز وصول کرنے کے لئے متعلقہ حکومتی، انتظامی مشینری کو متحرک کیا جائے، پارلیمان میں بیٹھے افراد جن پر ایک روپے بھی ٹیکس چوری کا الزام ہے انہیں تاحیات نااہل کر دیا جائے ٹیکس چوروں کے خلاف کارروائی اگر ان سے شروع ہو گی تو عوام کو بھی یقین آئے گا کہ اس ملک میں قانون سب کے لئے یکساں ہے۔
حال ہی میں ایک رپورٹ سامنے آئی ہے کہ پارلیمنٹ کے 100 سے زیادہ ارکان ایسے ہیں جن کے 35، 35 ارب کے اثاثے ہیں مگر یہ ٹیکس دینا تو دور کی بات، ایف بی آر میں رجسٹرڈ تک نہیں ہیں۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مبینہ طور پر 700 سے زائد پارلیمنٹیرینز ایسے ہیں جو ٹیکس کی مد میں ایک روپیہ بھی نہیں دیتے مگر ہمارے حکمران عوام کو ٹیکس چور کہتے نہیں تھکتے، پاکستان کی معیشت کا سارا بوجھ ان افراد کے کندھوں پر ہے جو اپنی تنخواہ اور کاروبار میں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ازخود انکم ٹیکس کی کٹوتی کرا کے ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں۔ ٹیکس ریٹ میں اضافے کا شکار وہ لوگ ہی ہوئے جو آج تک ایمانداری سے اپنا ٹیکس جمع کروا رہے ہیں۔ خدارا ٹیکس دہندگان کی ایمانداری کا مذاق نہ اُڑائیں ۔ ٹیکس دینے والے کو سہولت دیں اور جو ٹیکس نہیں دے رہے خصوصی طور پر مراعات یافتہ طبقہ، ان سے ٹیکس لینے کیلئے موثر اقدامات کریں۔
محمد خان ابڑو
بشکریہ روزنامہ جنگ
↧
او آئی سی کانفرنس خوش آیند مگر حاصل کچھ نہیں
پاکستان آج اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی) کے 48ویں وزرائے خارجہ کونسل اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔ او آئی سی کے رکن اور مبصر ممالک کے وزرائے خارجہ اور اعلیٰ شخصیات وزرائے خارجہ کے کونسل اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ وہ بطور مہمان اعزازی 23 مارچ 2022 کو یوم پاکستان پریڈ کا بھی مشاہدہ کریں گے۔ اس اجلاس میں سیاسی، سیکیورٹی، سماجی اور اقتصادی میدانوں میں مسلم دنیا کے سامنے مواقعے اور چیلنجوں کو ڈسکس کیا جائے گا۔ جیسے فلسطین‘ افغانستان اور جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ دیرینہ یکجہتی اور حمایت کی توثیق کی جائے گی۔ بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے عزم کا اعادہ اور ایس ڈی جیز کے حوالے سے پیش رفت میں موسمیاتی تبدیلی، ویکسین کی عدم مساوات اور زمین کے کٹاؤ کے اثرات کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال ہو گا۔ گزشتہ اجلاس بھی پاکستان میں منعقد ہوا تھا مگر اُس میں کورونا کی وجہ سے متعدد شرکاء نے آن لائن ہی شرکت کی تھی لیکن اس مرتبہ سبھی وزرائے خارجہ اپنے اپنے ملک کی نمایندگی کے لیے پاکستان میں موجود ہوں گے۔
ادھر ان دنوں اسلام آباد کی سیاسی فضا بھی بہت کشیدہ ہے۔ سیاسی محاذ آرائی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔ اپوزیشن اور حکومتی رہنمایان اشتعال انگیزی پھیلانے سے پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں۔ بہر حال ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حالیہ وزرائے خارجہ اجلاس ایک غیر معمولی ایونٹ ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جو معاشی طور پر کمزور ہے۔ اس طرح کے ملک میں دنیا کے امیرممالک کے وزرائے خارجہ کا جمع ہونا ایک اعزاز کی بات ہے۔ کاش ملک کے سیاسی حالات ایسے ہوتے کہ حکومت اور اپوزیشن اس معاملے میں ایک ہوتے۔ وزیراعظم یا صدر کی طرف سے دیے جانے والی استقبالی تقریبات میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا۔ اس طرح دنیا میں اتحاد اور اتفاق کا پیغام جاتا۔ اسلام آباد میں قائم اسلامی ممالک کے سفارت خانے لمحے بہ لمحے اپنی حکومتوں کو پاکستان کے بحران کے بارے میں آگاہ کر رہے ہوں گے۔ بے یقینی کی موجودہ کیفیت میں اوآئی سی وزرائے خارجہ بھی سوچتے ہوں کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ او آئی سی کا اجلاس اسلام آباد میں ہو تو جائے گا لیکن وزیراعظم عمران خان سمیت کوئی بھی پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ اس میں شرکت کر سکے گا اور نہ ہی اسے پاکستان کے لیے مفید بنایا جا سکے گا۔ کاش! پیپلزپارٹی، نون لیگ اور جمعیت علمائے اسلام حالات کی نزاکت کا کچھ خیال کرتیں اور چند دن اور انتظار کرلیتیں۔ تاکہ ہم او آئی سی کانفرنس کے ثمرات سمیٹ سکتے۔
بہرکیف اُمید ہے کہ اس کانفرنس میں معقول فیصلے کیے جائیں گے جس کے بعد مسلم اُمہ کی گرتی ہوئی ساکھ سنبھل سکے گی، کیوں کہ اس سے پہلے اس تنظیم کی جانب سے جتنے بھی فیصلے کیے گئے اُن کا معیار یہ تھا کہ اُس میں سے 99 فیصد آج بھی زیر التوا ہیں۔ اور پھر یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ یہ پلیٹ فارم دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی اجتماعی آواز ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے مسائل کو اُجاگر کرنے، انھیں حل کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس تنظیم کے بڑے بڑے ممالک خود مختار ہونے کے بجائے مغربی قوتوں کی چھتر چھایہ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حالانکہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین، ترکی، ملائیشیا، پاکستان اور انڈونیشیا وغیرہ جیسے امیر اور اسلحہ سے مالا مال ممالک بھی مغربی ممالک کے مرہون منت ہیں۔ معذرت کے ساتھ یہ تنظیم اسلام کے نام پر بنی لیکن اس میں موجود تمام اسلامی ممالک کے دوسرے ملکوں کے ساتھ مفادات جڑے ہیں اور یہ ممالک انھی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے اس تنظیم کی کارکردگی اُتنی اچھی نہیں ہے جتنی دنیا کی دیگر ذیلی تنظیموں کی ہے۔ او آئی سی کی غیر فعالیت کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس تنظیم میں موجود ہر ملک اپنے مفادات کی تلاش میں اجتماعی مفادات کی اہمیت کو کھو بیٹھا ہے۔
بہت پہلے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی ایک بہت موثر اور طاقتور پلیٹ فارم ہوا کرتی تھی، جس کا اجلاس ہوتا تو دنیا کے طاقتور ممالک کو کسی بڑے ردعمل کی فکر ہو جاتی۔ تیل کا ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی کارگر ہوتی اور مغرب اپنی معاندانہ سوچ، اپنی اوچھی حرکتوں اورخاص طور پر اسرائیل کی حمایت سے کسی حد تک ہاتھ کھینچ لیتا تھا، مگر پھر رفتہ رفتہ سب نے دیکھا کہ او آئی سی ایک بے جان تنظیم بن کر رہ گئی۔ اس کا ثبوت اس کے حالیہ اجلاسوں سے بھی مل جاتا ہے۔ جن میں کشمیر، فلسطین جیسے دیگر متنازعہ علاقوں کے بارے میں صرف رسمی بات چیت کی گئی۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ او آئی سی یہ اعلامیہ جاری کرے کہ اسرائیل سے پوری مسلم اُمہ اُس وقت تک بائیکاٹ کرے گی جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہوتا، پھر بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بھی اسی قسم کا فیصلہ کرے، اور پھر افغانستان کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ تمام اسلامی ممالک افغانستان کی معیشت کی بحالی کے لیے مل کر کام کریں گے، اور جو ملک ان فیصلوں سے پیچھے ہٹے اُس کے ساتھ تجارت ختم کر دی جائے اور اُسے تنظیم سے نکال دیا جائے۔ لیکن افسوس ایسے فیصلے محض خام خیالی ہیں، اس کی فی الوقت توقع بھی نہیں کی جاسکتی ۔
علی احمد ڈھلوں
بشکریہ ایکسپریس نیوز
↧
ٹوئٹر پر ڈاکٹر اسرار احمد کے یوٹیوب چینل کو بحال کرنے کی مہم
ٹوئٹر پر ’ری اسٹور ڈاکٹر اسرار احمد یوٹیوب چینل‘ کا ٹرینڈ ٹاپ پر آگیا اور لوگوں نے اسٹریمنگ ویب سائٹ کے منتظمین نے اسلامی اسکالر کے چینل کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔ ’ری اسٹور ڈاکٹر اسرار احمد یوٹیوب چینل‘ کے ٹرینڈ پر نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت سمیت دیگر ممالک کے صارفین نے بھی ٹوئٹس کیں۔ زیادہ تر لوگوں نے اسٹریمنگ ویب سائٹ انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر اسرار احمد کا یوٹیوب چینل بحال کیا جائے، کیوں کہ وہ واحد اسلامی اسکالر ہیں جو کسی طرح کا پرتشدد مواد شیئر نہیں کرتے۔ بعض لوگوں نے ڈاکٹر اسرار احمد کے یوٹیوب چینل کو بند کیے جانے پر ٹوئٹ کیں کہ ڈاکتر اسرار احمد کے چینل کو تو بند کیا جا سکتا ہے مگر ان کے معلومات کو بند نہیں کیا جا سکتا۔ بصیر احمد نے بھی ڈاکٹر اسرار احمد کے یوٹیوب چینل کو بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے لکھا کہ اسلامی اسکالر کے چینل کو بحال کیا جائے تاکہ لوگ رمضان المبارک میں ان کی تعلیمات سے مستفید ہو سکیں۔
ڈاکٹر اسرار احمد کے یوٹیوب چینل کو بند کیے جانے پر آن لائن مہم بھی شروع کر دی گئی اور لوگوں نے آن لائن پٹیشن میں لوگوں کو سائن ان کرنے کی اپیل بھی کی۔ ڈاکٹر اسرار احمد کے یوٹیوب چینل کو بند کیے جانے پر ان کے ادارے ’تنظیم اسلامی‘ کی جانب سے بھی بیان جاری کر کے یوٹیوب کے عمل کو ’اسلامو فوبیا کی خطرناک شکل قرار دیا گیا‘۔ تنظیم اسلامی کے بانی ڈاکٹر اسرار احمد کا یوٹیوب چینل بند کیے جانے پر اسٹریمنگ ویب سائٹ کے خلاف قانونی کارروائی کا عندیہ بھی دیا۔ یوٹیوب پر ڈاکٹر اسرار احمد کے آفیشل یوٹیوب چینل کے 35 لاکھ سے زائد سبسکرائبرز تھے، جہاں پر ان کے پرانے لیکچرز موجود تھے، جنہیں مجموعی طور پر کروڑوں بار دیکھا جا چکا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد کے لیکچرز اردو سمیت انگریزی میں بھی موجود ہیں اور ان کے لیکچرز پاکستان کے علاوہ بھارت، مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکا میں بھی دیکھے اور سنے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر اسرار احمد نہ صرف پاکستان بلکہ برصغیر پاک و ہند، مشرق وسطیٰ، یوپ و امریکا سمیت عالم اسلام کے مانے جانے اسکالر تھے جو اپریل 2010 میں لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ انہیں ان کی دینی خدمات پر حکومت پاکستان نے 1981 میں ستارہ امتیاز ایوارڈ سے بھی نوازا تھا، ان کی پیدائش متحدہ ہندوستان میں حالیہ بھارت میں ہوئی تھی اور تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان آئے تھے۔
بشکریہ ڈان نیوز
↧
↧
پاکستان سعودی عرب کے درمیان منفرد، گہری اور پائیدار شراکت
مملکت سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان غیر معمولی تعلقات ہیں جن کی جڑیں دونوں کے عوام کے درمیان محبت میں گڑی ہیں اور اسی وجہ سے قیادت میں ہونے والی تبدیلیوں سے محفوظ ہیں۔ یہ رشتہ گذشتہ کئی دہائیوں میں سیاسی، سلامتی، اقتصادی اور ثقافتی تعاون کے شعبوں میں مستحکم ہوتا رہا ہے، اور اس کو پاکستان کے نو منتخب وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کی کرشماتی قیادت میں مزید فروغ ملے گا۔ شہباز شریف جلد ہی عمرہ ادا کرنے کے لیے مملکت کا دورہ کریں گے۔ اس موقعے پر سعودی قیادت سے ان کی ملاقات بھی متوقع ہے تاکہ برادرانہ تعلقات کو مزید فروغ دیا جا سکے۔ پاکستان میرا دوسرا گھر ہے۔ میں نے اپنے سفارتی کیریئر کا بہترین وقت 2001 سے 2009 تک تقریباً ایک دہائی تک اسلام آباد میں سفیر کی حیثیت سے گزارا۔ کچھ سالوں تک میں نے اس کی سفارتی کور کے ڈین کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ میں تین بار پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ کی حیثیت سے وزیراعظم شریف کی انتظامی مہارت سے بخوبی واقف ہوں۔ اس دوران انہوں نے لاہور اور باقی صوبے کی شکل بدل کر رکھ دی۔
ان کے بڑے بھائی نواز شریف نے تین بار وزیراعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، اور پاکستان کے پارلیمانی اداروں کو ترقی دینے اور اسے مسلم دنیا کی واحد جوہری ریاست بننے کے قابل بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان آج نازک موڑ پر ہے۔ بیرونی طور پر اسے امریکی انخلا کے بعد افغانستان کے ساتھ مغربی سرحد پر غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے۔ جبکہ مشرقی سرحد کے پار، بھارت کی ہندو قوم پرستی لہر سے کشمیری مسلمانوں کی مستقبل کو خطرہ ہے۔ اندرونی طور پر سنگین خراب معاشی حالات نہ صرف سیاسی عدم استحکام کا سبب ہیں بلکہ بیرونی چیلنجوں سے نمٹنے کی ملک کی صلاحیت کو بھی محدود کر دیتے ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف میں پاکستان کو تعمیری طور پر آگے لے جانے کی صلاحیت، ہمت اور ارادے موجود ہیں۔ مجھے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ اس مقصد کے لیے غیر متزلزل سعودی حمایت پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔
ایک قابل فخر تاریخ
سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی معیشت، استحکام اور اس عوام کی فلاح و بہبود میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہ ایک قابل فخر روایت ہے جو آزادی سے بہت پہلے کی بات ہے۔ 1940 میں جس سال قرارداد پاکستان منظور ہوئی، اس وقت کے ولی عہد سعود بن عبدالعزیز نے کراچی کا دورہ کیا اور مرزا ابوالحسن اصفہانی سمیت مسلم لیگ کے رہنماؤں نے ان کا گرم جوشی سے خیرمقدم کیا۔ 1943 میں جب بنگال میں قحط پڑا تو شاہ عبدالعزیز آل سعود نے قائد اعظم کی اپیل کے جواب میں بہت بڑا عطیہ دیا تھا۔ 1946 میں جب اصفہانی کی قیادت میں انڈین مسلم لیگ کے وفد نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر کا دورہ کیا تو شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز نے ایک استقبالیے کا اہتمام کیا تاکہ وہ پاکستان کے مقصد کے لیے لابنگ کر سکیں۔ سعودی عرب اقوام متحدہ کے پہلے رکن ممالک میں شامل تھا جنہوں نے پاکستان کو تسلیم کیا۔ 1950 میں اس نے پاکستان کے ساتھ دوستی کا ایک معاہدہ بھی کیا۔ 1954 میں شاہ سعود بن عبدالعزیز نے پاکستان کے سابق دارالحکومت کراچی میں ایک ہاؤسنگ سکیم کا سنگ بنیاد رکھا جس کا نام ان کے نام پر سعود آباد رکھا گیا۔
سنہ 1960 کی دہائی میں سعودی عرب اور پاکستان نے 1965 کی پاک بھارت جنگ اور 1967 کی عرب اسرائیلی جنگ کے دوران ایک ساتھ کام کیا۔ 1969 میں اس وقت کے سعودی وزیر دفاع اور ہوا بازی شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز نے دو طرفہ دفاعی تعاون کے پروٹوکول کو حتمی شکل دینے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا۔ پاک سعودی تعلقات کا ایک شاندار باب 1970 کی دہائی میں شاہ فیصل بن عبدالعزیز اور وزیر اعظم ذولفقارعلی بھٹو کی قیادت میں شروع ہوا۔ اس کی خاص بات 1974 میں اسلامی ممالک کی تنظیم کا لاہور میں ہونے والا اسلامی سربراہی اجلاس تھا جس کی علامتی قدر دونوں ممالک کی اجتماعی یادداشت میں آج بھی زندہ ہے۔ پاکستانی عوام شاہ فیصل بن عبدالعزیز سے محبت کرتے تھے۔ اسلام آباد کی فیصل مسجد، فیصل آباد شہر اور کراچی میں شارع فیصل سب ان کے نام پر ہیں۔
یہ وہ وقت تھا جب سعودی عرب نے پاکستانی افرادی قوت کے لیے اپنے دروازے کھول دیے اور بھارت کے جوہری عزائم کو ناکام بنانے کے لیے بھٹو حکومت کو مالی امداد فراہم کی۔ پاکستانی عوام شاہ فیصل بن عبدالعزیز سے محبت کرتے تھے۔ اسلام آباد کی فیصل مسجد، فیصل آباد شہر اور کراچی میں شارع فیصل سب ان کے نام پر ہیں۔ سعودی عرب اور پاکستان کمیونسٹ مخالف سرد جنگ اتحادوں کے سرکردہ ارکان تھے جن میں سینٹو اور سیٹو شامل تھے۔ چنانچہ 1980 کی دہائی میں انہوں نے افغانستان پر سوویت قبضے کے خلاف بین الاقوامی جنگ کی حمایت کے لیے ہاتھ ملایا جس نے بالآخر دنیا کو کمیونزم کی لعنت سے نجات دلائی۔ 1982 میں انہوں نے دو طرفہ سلامتی تعاون کا معاہدہ بھی مکمل کیا جس کے تحت پاکستان سعودی عرب کی فوجی تربیت اور دفاعی پیداواری صلاحیتوں میں مدد کرتا ہے۔ 1989 میں جب کویت پر عراقی حملے سے مملکت کی علاقائی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان نے سعودی سرحدی علاقوں میں دفاع کی پہلی لائن کے طور پر کام کرنے کے لیے فوجی ڈویژن بھیج کر بین الاقوامی اتحاد میں حصہ لیا۔
سنہ 1990 کی دہائی میں جب افغان مجاہدین کے دھڑے آپس میں لڑ رہے تھے تو دونوں ممالک بین الاقوامی عالمی امن کوششوں میں سب سے آگے تھے۔ 1997 میں پاکستان نے اپنی آزادی کی گولڈن جوبلی کے موقعے پر او آئی سی کی غیر معمولی اسلامی سربراہی کانفرنس کا اہتمام کیا۔ اس موقعے پر اس وقت کے ولی عہد عبداللہ بن عبدالعزیز نے شرکت کی۔ 1998 کے جوہری تجربات کے بعد جب پاکستان بھاری مغربی پابندیوں کی زد میں آیا تو مملکت نے ایک سال تک موخر ادائیگی پر پاکستان کو تیل فراہم کیا جن میں سے بیشتر کو بعد میں گرانٹ میں تبدیل کر دیا گیا۔ ایک ہنگامہ خیز دور میں پاکستان میں سعودی سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے باعث مجھے دہشت گردی کی سنگینی اچھی طرح یاد ہے جس کا سامنا 11 ستمبر کے بعد ہمارے دونوں ممالک کو کرنا پڑا تھا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دور میں ہم نے مل کر اس خطرے کا سامنا کیا تھا۔ میں نے اپنی قیادت کی ہدایات اور رہنمائی سے پاکستان کے استحکام اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے سویلین اور فوجی قیادت کے ساتھ قریبی بات چیت برقرار رکھی۔ آزاد جموں و کشمیر میں جب تباہ کن زلزلہ آیا تو سعودی عرب پہلا ملک تھا جس نے اس کے متاثرین کو ہنگامی امداد فراہم کرنے کے لیے فضائی راہداری قائم کی تھی، پیشہ ور سعودی ڈاکٹرز دو جدید ترین مکمل فیلڈ اسپتال چلاتے تھے۔ او آئی سی کے ذریعے ہم نے مل کر اس قدرتی آفت سے نمٹا اور اقوام متحدہ اور دیگر عالمی پلیٹ فارموں پر اسلامی امن کے مقصد کی حمایت کی۔
ایک اہم موڑ
ایک دہائی بعد جنوری 2019 میں میں لبنان میں سفارتی فرائض انجام دینے اور سفارتی کیریئر سے سبکدوش ہونے کے بعد اسلام آباد واپس آیا۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ پاکستان نے نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے دہشت گردی کی لعنت کو کامیابی سے شکست دی ہے۔ دانشور اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کے ساتھ بات چیت سے انکشاف ہوا کہ پاکستانی عوام ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے تحت سعودی جدت کی مہم کے متعلق پرجوش تھے۔ ایک ماہ بعد فروری 2019 میں نوجوان سعودی رہنما پاکستان کے ساتھ بڑی تبدیلی کا اعلان کرنے اسلام آباد پہنچے۔ اس سے چند ماہ قبل نومبر 2018 میں ولی عہد نے پاکستان کے لیے 6.2 ارب ڈالر مالیت کے ہنگامی اقتصادی امدادی پیکج پر دستخط کیے تھے جس میں اگلے تین سال کے لیے سالانہ بنیادوں پر تین ارب ڈالر کا قرض اور 3.2 ارب ڈالر کا تیل شامل ہے تاکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھایا اور ادائیگیوں کے توازن کے بحران کو روکا جا سکے۔
متحدہ عرب امارات نے بھی اسی طرح کے اقتصادی تعاون کے پیکیج کا اعلان کیا۔ یہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لیے موجودہ چھ ارب ڈالر کے بیل آؤٹ کی منظوری سے کئی ماہ پہلے کی بات ہے۔ سعودی قیادت نے ہمیشہ پاکستانی عوام کے اپنے رہنماؤں، سویلین یا فوج کے انتخاب کے حق کا احترام کیا ہے۔ اس نے ہمیشہ ان کے ساتھ احترام اور وقار کے ساتھ ہے۔ گذشتہ حکومت کے ساتھ بھی اسی طرح کا معاملہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مملکت سب سے پہلے پاکستان کی مدد کے لیے آئی اور اس کے مستقبل میں بھی سرمایہ کاری کی۔ پاکستان میں 20 ارب ڈالر مالیت کی سب سے بڑی سعودی سرمایہ کاری کے سودوں کی تکمیل شائد ولی عہد کے دورے کا سب سے اہم فائدہ تھا۔ جس میں اسٹریٹجک بندرگاہ گوادر شہر میں 10 ارب ڈالر کی آرامکو آئل ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل کمپلیکس بھی شامل ہے۔ ولی عہد نے پر مسرت انداز میں عمران خان سے کہا کہ ’میں سعودی عرب میں آپ کا سفیر ہوں۔‘ اسی سال کے آخر میں انہوں نے نیویارک جانے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لیے سابق وزیراعظم کو اپنے ذاتی طیارے کی پیشکش کی۔
سنہ 1998 کے جوہری تجربات کے بعد جب پاکستان بھاری مغربی پابندیوں کی زد میں آیا تو مملکت نے ایک سال تک موخر ادائیگی پر پاکستان کو تیل فراہم کیا جن میں سے بیشتر کو بعد میں گرانٹ میں تبدیل کر دیا گیا۔ منطقی طور پر اگلا قدم یہ ہوتا کہ پاکستان میں سعودی اقتصادی منصوبوں کے لیے مشترکہ طور پر ترقیاتی منصوبوں پر کام کیا جاتا۔ بدقسمتی سے مسلم دنیا میں سعودی عرب کی منفرد حیثیت کی مخالف بین الاقوامی قوتوں نے سعودی پاک تعلقات میں جغرافیائی سیاست سے جیو اکنامکس میں ابھرتی ہوئی منتقلی کو تہہ و بالا کرنے کی سازش کی۔ اس کا پس منظر واضح تھا کہ چین سعودی تیل کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے اور سعودی عرب چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں شرکت کے ذریعے اپنے عالمی اقتصادی روابط کو متنوع بنا رہا ہے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری بی آر آئی کا فلیگ شپ منصوبہ ہے جو سعودی آرامکو آئل ریفائنری کی مجوزہ جگہ گوادر پر ختم ہوتا ہے۔ یہ سازش اس وقت عیاں ہوئی جب 57 مسلم ممالک کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم او آئی سی کی حیثیت کو کمزور کرنے اور کشمیری مسلمانوں کے حق خودارادیت کے علمبردار کے طور پر اس کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگانے کے لیے ایک حریف مسلم بلاک بنانے کی مسلسل کوششیں کی گئیں۔ خوش قسمتی سے سعودی پاک تعلقات میں فطری لچک سے اس سازش کو شکست ہوئی۔ گذشتہ دو سالوں میں یہ تعلقات ایک بار پھر پٹری پر آ گئے ہیں۔ دسمبر 2021 میں پاکستان کو سعودی عرب کی جانب سے تین ارب ڈالر مالیت کا مالی امدادی پیکیج ملا۔
آگے کا راستہ
یقیناً وزیراعظم شہباز شریف کی فوری ترجیح اپنے ملک میں بے معاشی بحران پر قابو پانا ہے جس کے لیے میں سمجھتا ہوں کہ وہ اضافی سعودی امداد لینا چاہیں گے۔ مجھے کوئی وہم نہیں ہے کہ سعودی قیادت پاکستان کو کبھی مایوس نہیں کرے گی۔ اس سے آئندہ عام انتخابات سے قبل مخلوط حکومت کے لیے مستحکم سیاسی ماحول کو یقینی بنایا جائے گا جو پائیدار معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ سعودی معیشت کے جاری تنوع میں پاکستان کی ہنرمند افرادی قوت کے لیے آئی ٹی، سیاحت اور مالیاتی خدمات کے شعبوں میں بے پناہ مواقع حاصل ہیں۔ مملکت میں 20 لاکھ سے زائد پاکستانی کارکن رہتے ہیں اور یہ پاکستان کے لیے ترسیلات زر کا واحد سب سے بڑا ذریعہ ہے (اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2019 سے اپریل 2020 کے دوران 4.4 ارب ڈالر)۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر غیر ہنرمند یا نیم ہنر مند مزدوروں کے زمرے میں آتے ہیں۔
میں موجودہ حکومت کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ وہ ہنرمند افرادی قوت کی تربیت کے لیے پیشہ ورانہ ادارے بنانے پر توجہ مرکوز کرے تاکہ پاکستان تیزی سے مسابقتی سعودی لیبر مارکیٹ میں کامیاب ہو سکے۔ سعودی وژن 2030 کا مقصد سعودی عرب کو عالمی اقتصادی مرکز بنانا ہے جس میں 500 ارب ڈالر کے نیوم شہر جیسے گیگا ترقیاتی منصوبے ہوں گے۔ پاکستان کے پاس سعودی عرب کی ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے کافی ہنرمند نوجوان ہیں اور اس کے نتیجے میں ترسیلات زر میں اضافے کے ذریعے وہ اپنے کرنسی کے ذخائر کو بھی بڑھا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں پہلا قدم پاکستانی افرادی قوت کی بھرتی اور ہنرمندی کی تصدیق کے متعلق دو طرفہ معاہدوں کے ذریعے پہلے ہی اٹھایا جا چکا ہے جس سے مملکت میں متنوع پیشوں کے لیے ہنرمند اور مصدقہ کارکنوں کی برآمد کےعمل کو ہموار کیا جائے گا اور ان کے مناسب حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ اس کے لیے پاکستان کا نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن اور سعودی حکومت کا ذیلی ادارہ تاکامول مشترکہ طور پر کام کریں گے۔
اس سے متوقع پاکستانی افرادی قوت سعودی ترقیاتی شعبے میں کامیاب بھرتی کے لیے بھارتی اور دیگر غیر ملکی امیدواروں کے ساتھ مقابلہ کر سکے گی۔ سرمایہ کاری اور تجارت اقتصادی تعاون کے دو دیگر اہم شعبے ہیں جہاں دونوں ممالک کے چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کو متعلقہ سرکاری وزارتوں کی مدد سے اپنی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ سعودی حکومت پہلے ہی پاکستان میں ریفائنری، پیٹرو کیمیکل کمپلیکس اور کان کنی اور قابل تجدید توانائی کے شعبوں کی ترقی کے لیے 20 ارب ڈالر خرچ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ لیکن پاکستانی معیشت کے دیگر شعبوں میں سعودی نجی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کی بہت گنجائش ہے۔ سیالکوٹ شہرعالمی سطح پر کھیلوں کے سامان اور آلات جراحی کا مرکز ہونے کی وجہ سے مشہور ہے اور یہ سعودی سرمایہ کاری کے لیے ایک مثالی جگہ ہو گی۔ اس مقصد کے لیے کراچی اور فیصل آباد میں صنعتی زونز کا انتخاب بھی کیا جا سکتا ہے۔ پہلے سے طے شدہ ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل منصوبے سعودی سرکاری شعبے کی سرمایہ کاری کو سی پیک کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں۔
اقتصادی راہداری کے ساتھ ساتھ متعدد خصوصی اقتصادی زونز کی منصوبہ بندی بھی، جو سنکیانگ سے شروع ہوتی اور گوادر پر ختم ہوتی ہے، سعودی نجی سرمایہ کاری کو راغب کر سکتی ہے۔ اس لیے دونوں ممالک میں چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے نمائندوں کو زیادہ سے زیادہ بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی حکومت کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی سرمایہ کاری کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری قانونی اصلاحات کر کے نجی سعودی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان کے معروف کاروباری خاندانوں کے لیے بھی سعودی عرب میں ریئل اسٹیٹ، سیاحت اور خدمات کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی زبردست گنجائش ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں میں پاکستان نے زبردست شہری ترقی کی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بیرون ملک تک اپنا دائرہ کار بڑھایا جائے جس کے لیے سعودی عرب سب سے زیادہ محفوظ ماحول فراہم کرتا ہے۔
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان سیاسی اور ثقافتی طور پر اتنے قریب ہونے کے باوجود بدقسمتی سے دو طرفہ تجارت انتہائی کم ہے۔ فی الحال یہ تخمینہ تین ارب ڈالر سالانہ لگایا گیا ہے، آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کے لیے مذاکراتی عمل جلل مکمل کر کے دو طرفہ تجارت کو وسعت دینی ہو گی۔ ایف ٹی اے پر بات چیت 2018 میں شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد دونوں جانب سے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے نمائندوں دورے کیے ہیں۔ تاجروں اور کاروباری افراد کے درمیان ملاقاتوں کے لیے باضابطہ سپانسرشپ کی فوری ضرورت ہے تاکہ اضافی شعبوں کی نشاندہی کی جا سکے جہاں ہر فریق کو تقابلی فائدہ حاصل ہو اور قابل تجارت مصنوعات تلاش کی جائیں۔ اقتصادی تعاون بھی اسی طرح ہونا چاہیے جس طرح سیکورٹی ڈومین میں مستقل تعلقات ہیں۔ حرمین شریفین کے تقدس کا دفاع کرنے سے لے کر دہشت گردی کے ناسور کو شکست دینے تک پاکستان ہمیشہ سعودی عرب کا ایک اہم شراکت دار اور ایک بڑا اہم مسلم ملک رہا ہے۔
دونوں ممالک کے دفاعی اداروں کے فوجی تربیت اور مشاورتی شعبوں میں غیر معمولی قریبی تعلقات ہیں۔ سعودی اور پاکستان کے فوجی رہنماؤں اور سیکورٹی حکام کے باہمی دورے ایک معمول ہیں۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوا کئی بار مملکت کا سفر کر چکے ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد اور ریاض میں نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان سے بات چیت کی ہے۔ ان کے پیشرو جنرل راحیل شریف نے ریاض میں واقع 41 رکنی اسلامی فوجی انسداد دہشت گردی اتحاد کی کمان سنبھالی ہے جو ان کے قریبی فوجی اشتراک کی عکاسی کرتا ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان متعدد علاقائی اور عالمی قابل تشویش امور پر بھی قریبی تعاون کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ افغانستان اور کشمیر میں امن و استحکام کے حصول اور مسلم دنیا کے لیے اسلاموفوبیا جیسے گہری تشویش کے باعث عالمی مسائل سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کیا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان حال ہی میں دو بار اسلام آباد آچکے ہیں: گذشتہ دسمبر میں انہوں نے افغانستان میں انسانی بحران کے ردعمل میں منعقدہ او آئی سی کی وزرائے خارجہ کونسل کے کامیاب خصوصی اجلاس میں شرکت کی تھی۔
اس کے بعد گزشتہ ماہ انہوں نے وزرائے خارجہ کی کونسل کے 48 ویں اجلاس میں شرکت کی تاکہ مسلم دنیا کو درپیش اہم چیلنجوں بشمول مسئلہ کشمیر سے نمٹا جا سکے۔ سٹریٹجک معاملات میں سعودی پاک ہم آہنگی کو مزید فروغ دینا ہو گا۔ میں اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ ہمارے تاریخی تعلقات بہت آگے بڑھ چکے ہیں اور اس کا موجودہ ارتقا مستقبل کی مضبوط ترقی کے وسیع راستے کھول رہا ہے۔ دونوں ممالک کو دوستی کا ایک نادر جذبہ اکٹھا کرتا ہے جس میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ ہر سال لاکھوں پاکستانی حج اور عمرہ کرنے کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتی دہائی کے دوران سیاسی، سلامتی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں باہمی تعاون میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ برادرانہ رشتہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں نئی بلندیوں کو چھولے گا۔ اللہ تعالیٰ سعودی عرب اور پاکستان کو روشن مستقبل کے لیے ان کے مشترکہ مقصد میں برکت دے۔
مصنف کے بارے میں
ڈاکٹر علی عواد العسیری نے 2001 سے 2009 تک پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور سعودی پاک تعلقات کو فروغ دینے میں خدمات پر پاکستان کا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ ہلال پاکستان حاصل کیا۔ انہوں نے بیروت عرب یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ہے اور ’دہشت گردی کا مقابلہ: دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کا کردار‘ نامی کتاب لکھی ہے۔ وہ رصانہ، انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ایرانی سٹڈیز، ریاض میں بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن ہیں۔
ڈاکٹر علی عواد العسیری
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
↧
تاریخی پاک ترکی تعلقات، تجارتی تعاون پر ایک نظر
ترکی، ایران اور پاکستان کے درمیان 21 جولائی 1964 کو علاقائی تعاون برائے ترقی کا ایک معاہدہ ہوا جسے مختصراً آر سی ڈی کہا جاتا ہے۔ تینوں ملکوں نے آپس میں معاشی تعاون کے ذریعے علاقائی تجارت کے فروغ کے لیے ایسے موثر طریقے اختیار کیے تھے جس پر مکمل عمل درآمد ہو جاتا تو ایسی صورت میں تینوں ممالک میں سے پاکستان کو معاشی ترقی کی صورت میں زیادہ فوائد حاصل ہوتے۔ ایران ، پاکستان ، ترکی کے درمیان جن اشیا کی تجارت ممکن تھی، ان کی مکمل فہرست تیار کر لی گئی تھی۔ برآمدی اشیاء میں اضافے کے لیے تینوں ممالک نے مشترکہ کوششیں تیز کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ آر سی ڈی کا چیمبر آف کامرس تیار کرلیا گیا تھا تینوں ممالک کے درمیان درآمد برآمد کے قواعد و ضوابط بھی تیار کر لیے گئے تھے تینوں ممالک کے معاشی حکام نے بڑی محنت سے اس سلسلے میں اپنا کام مکمل کر لیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک وزارتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ علاقائی منصوبہ بندی کمیٹی قائم ہو چکی تھی۔ مستقل کمیٹی بنا دی گئی تھی۔ 29 اگست 1964 کو تہران میں مرکزی دفتر قائم کر دیا گیا تھا۔
انقرہ تہران اور کراچی کو ملانے کے لیے 5500 کلومیٹر طویل شاہراہ (RCD) کی تعمیر کا آغاز کر دیا گیا۔ کراچی، حب سے ہوتے ہوئے آر سی ڈی شاہراہ ایران جاتی ہے۔ پھر ایران کی طویل سرحد ترکی سے ملتی ہے اور کئی راستے ایران اور ترکی کو آپس میں ملاتے ہیں۔ اسی طرح RCD ریلوے تکمیل کے مراحل طے کر رہا تھا۔ پاکستان سے ایران کی سرحد کے قریب زاہدان تک ریل جاتی تھی، لیکن 1979 میں یہ تنظیم ایران نے منسوخ کر دی تھی۔ پھر تینوں ملکوں نے آر سی ڈی کی تجدید کر کے نیا نام اقتصادی تعاون تنظیم جسے ECO کہا جاتا ہے قائم کی، اس تنظیم میں وسطی ایشیا کے نو آزاد ممالک کو شامل کیا گیا اس طرح ایکو کے ممبران کی تعداد اب 10 ہے۔ اگر افغانستان میں بدامنی کی صورت حال پیدا نہ ہوتی اور دہشت گردی کی فضا پروان نہ چڑھتی تو یہ 10 ممالک جن کی سرحدیں ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی ہیں۔ یعنی پاکستان، ایران ، ترکی، افغانستان اور پھر اس سے آگے وسطی ایشیا کے ممالک کی سرحدیں افغانستان اور ترکی اس طرح صرف بذریعہ سڑک ہی یورپی یونین کی طرز پر ایک زبردست قسم کا تجارتی بلاک عالمی معیشت میں اپنا بڑا حصہ قائم کرنے میں کامیاب ہو سکتا تھا۔ جس سے پاکستان بہت زیادہ فوائد سمیٹ سکتا تھا۔
اس تاریخی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے اب ہم پاکستان اور ترکی کے تجارتی تعاون پر نظر ڈالتے ہیں۔ رواں سال دونوں برادر ممالک سفارتی تعلقات کی پچھترویں سالگرہ بھی منا رہے ہیں۔ پاکستان کا کوئی بھی حکمران ہو وہ ترکی ایک بار یا کئی بار ضرور جاتا ہے۔ پاکستان کے نئے وزیر اعظم کو ترکی کے صدر نے دورے کی دعوت دی۔ وزیر اعظم نے ترک صدر وزرا سرمایہ کاروں اور مختلف بڑی کمپنیز کے سربراہوں سے ملاقاتیں کیں اور اس موقع پر یکم جون 2022 پاکستان اور ترکی کے درمیان تعاون کے 7 سمجھوتوں پر دستخط ہوئے۔ اس موقع پر صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ کشمیر پر پاکستان کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ جن ایم او یوز پر دستخط کیے گئے ان میں نالج شیئرنگ، ہائی وے انجینئرنگ، تجارت و تکنیکی معاونت، قرض مینجمنٹ، ماحولیات، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے علاوہ مشترکہ ٹاسک فورس قائم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ دونوں ممالک نے تعاون اور تعلقات بڑھانے کا عزم و ارادہ کیا۔ اقتصادی تعاون کو ترجیح دی گئی۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے اس موقع پر کہا کہ ای کامرس، انفرا اسٹرکچر کے شعبے میں ترک تجربات سے بھرپور استفادہ کیا جائے گا۔
عالمی فورمز پر دونوں ممالک مختلف معاملات میں یکساں موقف رکھتے ہیں۔ ترکی نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کو بحری جہازوں کی تیاری میں ہر ممکن تعاون فراہم کر رہے ہیں۔ پاکستان کو سیاحت کے شعبے میں ترکی سے بھرپور تعاون حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کے لاکھوں سیاح ہر سال ترکی آتے ہیں۔ پاکستان میں بے شمار تاریخی اور سیاحتی مقامات ہیں، لیکن کچھ مسائل ایسے ہیں جن کا حل ڈھونڈنے کے لیے ترکی کا تعاون حاصل کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ سیاحت کے شعبے میں ترکی ایک طویل تجربہ رکھتا ہے۔ پاکستان میں غیر ملکی سیاح کسی نہ کسی وجہ سے اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے۔ کچھ آئے دن یہاں پر دہشت گردی کے واقعات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیاحتی مقامات پر پہنچنے کے راستے ابھی تک شدید دشوار گزار ہیں۔ پاکستان نے ہائی وے انجینئرنگ سے متعلق جو ایم او یوز پر دستخط کیے ہیں اس کا رخ سیاحتی مقامات کی طرف موڑنے کی ضرورت ہے تاکہ ان مقامات تک پہنچنے کے لیے راستہ انتہائی سہل اور آسان بنایا جائے۔
بعض مقامات کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ دور دراز دشوار گزار راستوں کے باعث وہاں تک پہنچنا مشکل ہے۔ یہ اکیسویں صدی ہے ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ایسی کیا مشکل پیش آ رہی ہے؟ بس صرف بات یہ ہے کہ ترجیح نہیں ہے، توجہ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ ترکی عالمی تجارت میں اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے، اس کی ٹیکسٹائل مصنوعات اور دیگر بہت سی اشیا دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ ترکی کے طالب علم اردو سیکھنے اور پڑھنے میں دلچسپی لیتے ہیں اور وہاں طویل عرصے سے سرکاری سطح پر اردو کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ ترکی نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اس کی مدد کی ہے۔ ترک عوام پاکستانیوں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت کی ملاقات ستمبر میں پھر اسلام آباد میں ہو گی۔ ترکی کا ایک تجارتی وفد جون میں پاکستان آنے والا ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم پاکستان نے دونوں ملکوں کے درمیان آیندہ تین برسوں میں تجارتی حجم کو 5 ارب ڈالر تک بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا۔ دو طرفہ باہمی تجارت کو 5 ارب ڈالر تک بڑھانا کوئی مشکل ہدف نہیں ہے۔
محمد ابراہیم خلیل
بشکریہ ایکسپریس نیوز
↧
شہباز گل : حقائق کیا ہیں؟
کیا واقعی شہباز گل پر تشدد ہوا ہے یا عمران خان کو الجھایا جا رہا ہے اور وہ شوق سے الجھتے جا رہے ہیں؟ کیا انہیں معلوم ہے اس دام میں الجھ کر وہ جتنی شجاعت دکھائیں گے اس کا براہ راست فائدہ مسلم لیگ ن کو ہو گا؟ شہباز گل پر تشدد کی جو کہانی عمران خان بیان کر رہے ہیں وہ خوفناک ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ اس کہانی میں سچائی کتنی ہے؟ معاملہ بد گمانی کا نہیں، مشاہدے کا ہے۔ عمران خان صاحب کے کتنے ہی دعوے تھے وقت نے جنہیں غلط ثابت کر دیا۔ اب ایک نئے دعوے کا اعتبارکیا صرف اس لیے کر لیا جائے کہ راوی عمران خان ہیں؟ مسئلہ مگر یہ ہے کہ دوسری جانب بھی ایسے ہی سوالات کھڑے ہیں؟ زیر حراست تشدد کا یہ پہلا الزام تو نہیں۔ ایسے مظاہر تو ہمارے ہاں جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔ کون ہے جو دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہے کہ ہماری پولیس تو تشدد کا سوچ بھی نہیں سکتی؟ کیا تشدد اور تذلیل کی کچھ کہانیاں خود حکومتی اتحاد کے اراکین بھی نہیں سناتے؟
اس ملک میں صحافت ہو یا سیاست، کسی کا بھی اب اعتبار نہیں رہا کہ خبر واحد پر یقین کر لیا جائے۔ سیاست یہاں مفادات کو خبر بناتی ہے اور صحافت میں چونکا دینے کی خواہش میں ندرت خیال کو بھی خبر بنا دیا جاتا ہے۔ جب بات نکلتی ہے تو پھر ’جونیئر تجزیہ کار‘ بھی اپنے یو ٹیوب چینلز سمیت آپ کو یوں تفصیل فراہم کرنے آجاتے ہیں جیسے وہ وقوعہ میں شریکِ جرم نہ سہی تو عینی شاہد ضرور تھے۔ دعوے یہ لوگ ایسے کرتے ہیں جیسے یہ چشم دید گواہ ہوں لیکن بے نیاز یہ اتنے ہیں کہ ریاستی ادارے اشتہارات شائع کر رہے ہوتے ہیں کہ کسی کے پاس شہباز گل صاحب پر کسی بھی قسم کے تشدد کا کوئی ثبوت ہے تو پیش کیجیے لیکن یہ ثبوت پیش نہیں کرتے۔ یہ کیسی تحقیق ہے جو دعویٰ تو کر دیتی ہے لیکن ثبوت نہیں دیتی؟ یہی سوال عمران خان صاحب سے ہے۔ جب وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس ویڈیو اور تصاویر کی شکل میں ثبوت موجود ہیں تو وہ یہ ثبوت سامنے کیوں نہیں لا رہے؟
پولیس پر اعتبار نہیں تو وہ یہ ثبوت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ یا چیف جسٹس آف پاکستان کو پیش کر سکتے ہیں۔ ان حالات میں، سوال اب یہ ہے کہ جب بزم ناز سے یار الگ الگ خبر لا رہے ہوں اور شواہد دستیاب نہ ہوں یا پیش نہ کیے جا رہے ہوں تو پھر کیا کیا جائے؟ مناسب یہی ہوتا ہے کہ اس صورت میں واقعاتی شہادتوں کو دیکھنا چاہیے۔ آئیے واقعاتی شہادتوں کو ان کی ترتیب کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ شہباز گل صاحب گرفتار ہوئے اور ان کے ڈرائیور کی ویڈیو سامنے آئی جس میں اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور وہ تشدد کا شکوہ کر رہا تھا۔ بعد میں ایک اور ویڈیو سامنے آ گئی جو گرفتاری کے بعد کی تھی اور اس میں ان کے کپڑے سلامت تھے۔ چنانچہ سوشل میڈیا پر ان کے ناقدین کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جاتا رہا کہ وقوعے کے بعد پہلی ویڈیو میں کپڑے سلامت تھے تو دوسری میں پھٹ کیسے گئے؟ یہ دوسرا وقوعہ کہاں ہوا؟
اخباری اطلاعات کے مطابق شہباز گل نے عدالت کو بتایا کہ انہیں جیل میں ساری رات جگائے رکھا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اڈیالہ جیل تو پنجاب میں ہے اور پنجاب میں ان کی اپنی حکومت ہے تو وہاں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان سے پوچھا جاتا رہا عمران خان کھاتے کیا ہیں؟ سوال یہ ہے کہ یہ بھی کوئی راز ہے جو ان سے پوچھا گیا ہو۔ ایک شخص جو وزیر اعظم رہ چکا ہو کیا حکومتی اداروں کو نہیں معلوم وہ کھاتا کیا ہے اور پیتا کیا ہے؟ شہباز گل صاحب نے پیشی کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان سے پوچھا جاتا رہا جنرل فیض سے کتنی بار ملے ہو؟ سوال یہ ہے کہ یہ سوال ان سے کوئی کیوں پوچھے گا؟ کیا حکومتی اداروں کو اتنے اہم شخص کے معمولات کا بھی علم نہیں ہو گا اور اس کے لیے وہ شہباز گل سے معلومات طلب کریں گے؟ پھر یہ کہ ایسی بات کر کے شہباز گل کیا ثابت کرنے جا رہے تھے؟ کیا یہ کم و بیش ویسا ہی غیر ذمہ دارانہ رویہ نہ تھا جس نے انہیں یہ دن دکھائے؟
عمران خان کے تازہ ٹویٹ بڑے غور طلب ہیں۔ اس میں وہ اسلام آباد پولیس کا موقف بظاہر تسلیم کر رہے ہیں کہ اس نے شہباز گل پر تشدد نہیں کیا۔ ساتھ وہ کہہ رہے ہیں کہ عوام میں بڑے پیمانے پر یہ تاثر موجود ہے کہ ایسا بھیانک تشدد کون کر سکتا ہے اور یہ ہمارے ذہنوں میں بھی ہے، یعنی معاملہ وہی ہے کہ الفاظ کے پردے میں وہ جن سے مخاطب ہیں، سب جان گئے ہوں گے کیوں نام لیا جائے۔ ایک طرف وہ اسٹیبلشمنٹ کو دعوت عام دے رہے ہوتے ہیں کہ نیوٹرل نہ رہا جائے بلکہ نواز شریف اور زرداری وغیرہ کے خلاف ان کا ساتھ دیا جائے۔ (یعنی ان کا مسئلہ آئین یا آئینی دائرہ کار نہیں ان کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ ان کا ساتھ دیا جائے) اور دوسری طرف وہ بین السطور اسی اسٹیبلشمنٹ سے مخاصمت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ن لیگ اور اتحادیوں کو اور کیا چاہیے؟ کیا عمران کو اس بات کا احساس ہے؟ کیا لا شعوری طور پر وہ ن لیگ کی وکٹ پر کھیل رہے ہیں اور انہیں خود سمجھ نہیں آ رہی ان کا حریف کون ہے؟ یا ان کے رفقا میں سے کوئی ہے جو انہیں اس طرف دھکیل رہا ہے؟
یا پھر کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنے گرد حفاظتی حصار قائم کرنے کے لیے وہ اسی کو ٹیسٹ کیس بنانا چاہتے ہوں اور انہیں اس بات سے کوئی غرض نہ ہو کہ اس کی زد میں ’کون‘ آتا ہے، شہباز شریف آتا ہے یا شہباز گل؟ شہباز گل بھی عمران خان کا ٹویٹ پڑھ کر سوچتے ہوں گے: ’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔‘
آصف محمود
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
↧
ملک سیاسی غیر یقینی کی معاشی قیمت ادا کر رہا ہے
آئی ایم ایف کی جانب سے بیل آؤٹ پیکج ملنے کی امید پر مارکیٹ کی صورتحال بہتر تو ہوئی ہے، تاہم ملک میں جاری سیاسی انتشار کی وجہ سے ملک کے سیاسی اور معاشی مستقبل کے حوالے سے کوئی مثبت امید نہیں رکھی جاسکتی۔ اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ قرض پروگرام کی منظوری کے لیے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس آئندہ ماہ ہو گا۔ اس خبر کے نتیجے میں روپیہ مضبوط ہوا اور مارکیٹ کا اعتماد بحال ہوا۔ اس کے علاوہ اسٹاک مارکیٹ میں بھی یہ ہفتہ بہتر رہا۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے غیر ملکی جریدے دی اکانومسٹ میں ایک مضمون لکھا ہے جس میں انہوں نے آئی ایم ایف پروگرام کو ‘محفوظ راستہ’ قرار دیا ہے۔ تاہم سیاسی کشیدگی اس معیشت کو متاثر کر رہی ہے جبکہ معیشت کی بحالی اور سیاسی عدم استحکام کے درمیان تعلق کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل کو اپنی جماعت اور اہم اتحادیوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تاہم وہ سخت مگر ضروری فیصلے لے رہے ہیں تاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پاجائے اور ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا امکان بھی ختم ہو جائے۔
اسٹیٹ بینک کے قائم مقام گورنر مرتضٰی سید نے بھی اس مشکل صورتحال میں بہترین کردار ادا کیا ہے۔ ان کی نگرانی میں مرکزی بینک نے نہ صرف ذمہ دارانہ بیانات جاری کیے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ شرح مبادلہ مارکیٹ پر منحصر رہے۔ ساتھ ہی اسٹیٹ بینک نے شرح سود کے حوالے سے درست لیکن سیاسی طور پر غیر مقبول فیصلے بھی لیے۔ جواب ہے جی ہاں! وزیرِ خزانہ نے اپنی جماعت کے اندر سے ہونے والی تنقید کا سامنا تو کیا لیکن انہوں نے معاشی بحران کو روکنے کے لیے حکومت کی جانب سے کیے جانے والے کفایت شعاری کے اقدامات پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ مگر ملک کی سیاسی صورتحال معاشی استحکام کے حکومتی مقصد کے آڑے آرہی ہے۔ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت آنے کے بعد اتحادی حکومت اور عمران خان کے درمیان جاری محاذ آرائی مزید خطرناک ہو گئی ہے۔ مرکز اور صوبے کی حکومتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آکھڑی ہوئی ہیں اور ایک دوسرے کے اقدامات کے بدلے میں کیے جانے والے اقدامات سے مزید سیاسی انتشار پھیل رہا ہے۔
اس کی ایک مثال شہباز گِل کی تحویل کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورتحال ہے۔ اسی طرح کی مثال پنجاب حکومت کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے گھروں پر پڑنے والے پولیس چھاپے ہیں جن کی وجہ سے وہ رہنما صوبہ چھوڑ چکے ہیں۔ دوسری جانب وفاقی حکومت بھی فارن فنڈنگ کیس کے حوالے عمران خان پر دباؤ بڑھا رہی ہے۔ حکومت ایف آئی اے کو پی ٹی آئی کے ‘ممنوعہ فنڈز’ پر تحقیقات شروع کرنے کی ہدایات دے دی ہیں۔ دوسری جانب سرکاری افسران کے تبادلوں پر بھی تنازع برقرار ہے۔ مرکز اور صوبے کے درمیان ایک دوسرے سے بدلہ لینے کی سیاست نے ملک کو عدم استحکام اور غیر یقینی کے بھنور میں پھنسا دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہورہا ہے۔ مخالفین کی جانب سے لگائے گئے الزامات عمران خان کو متاثر نہیں کر رہے کیونکہ انہیں جلسوں میں آنے والے عوام کی تعداد سے حوصلہ مل رہا ہے اور وہ سیاسی تناؤ کو کم کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ یہی صورتحال شہباز حکومت کی بھی ہے۔
اگرچہ وزیرِاعظم نے معاشی چارٹر پر اتفاق رائے کے لیے ‘نیشنل ڈائیلاگ’ کی ضرورت پر زور دیا ہے لیکن ان کی حکومت نے اس مقصد کے حصول کے لیے خاطر خواہ کوشش نہیں کی ہے۔ شاید وہ موجودہ صورتحال میں اسے لاحاصل کوشش سمجھتے ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری موجودہ سیاست معاشی خطرے کو بڑھاتی رہے گی، مارکیٹ میں غیر یقینی کا باعث بنے گی اور سرمایہ کاروں کو بھی تذبذب کا شکار کیے رکھے گی۔ مزید یہ کہ مسلم لیگ (ن) اور اتحادی حکومت کے اندر معیشت کے حوالے سے موجود تنازعات سے یہ شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں کہ آیا حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر قائم رہے گی یا نہیں۔ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے پاکستان کا ریکارڈ اچھا نہیں رہا اور بار بار معاہدوں پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے یہ ایسے ملک کے طور پرمشہور ہو گیا ہے جسے صرف ایک ہی قسط جاری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ بھی آئی ایم ایف پروگرام کے مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کسی بھی صورت میں معاشی استحکام کی ضمانت نہیں ہوتا اور معاشی بحالی کا تو بالکل بھی نہیں۔ اس پروگرام کے لیے صرف ابتدائی اقدامات لینا ہی ضروری نہیں ہوتا بلکہ معاہدے پر قائم رہنا، وقت کے ساتھ ساتھ وعدہ کیے گئے اقدامات اٹھانا اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا اعتماد حاصل کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف پہلے ہی حکومت کو متنبہ کر چکا ہے کہ ‘عالمی معیشت اور مالیاتی مارکیٹس میں بڑھتی ہوئی غیر یقینی کے باعث’ حکومت کو اضافی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ پاکستان نے ماضی میں بھی ادائیگیوں کے توازن اور لکویڈٹی بحران کا سامنا کیا ہے لیکن جب بھی ملک کو مالی بحران کا سامنا ہوا کبھی بھی بیرونی حالات اتنے سخت نہیں تھے۔ ان حالات میں کورونا وبا کے آفٹر شاکس اور روس-یوکرین جنگ عالمی منڈیوں اور سپلائی چین پر اثر انداز ہورہی ہے۔توانائی اور خوراک کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں اور عالمی سطح پر افراطِ زر میں اضافہ ہورہا ہے جس سے پاکستان کی مالی مشکلات بھی بڑھ رہی ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب عالمی سطح پر شرح سود بڑھ رہی ہے اور خاص طور پر مقروض ممالک کی مشکالات میں اضافہ ہورہا ہے۔
سیاسی غیر یقینی نے پہلے سے ہی مشکلات کا شکار معیشت پر مزید تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔ شرح مبادلہ اس غیر یقینی کا ایک پیمانہ ہے۔ یہ معاشی بنیادوں اور جذبات دونوں کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ غیر یقینی شرح مبادلہ کو متاثر کرتی ہے کیونکہ اس سے ملک میں آنے والا سرمایہ (بیرونی سرمایہ کاری، ترسیلاتِ زر اور برآمدات سے حاصل ہونے والی رقم) اور ملک سے جانے والا سرمایہ (درآمدات اور سرمایہ کاری) کا تعلق جذبات سے ہوتا ہے۔ حالیہ مہینوں میں دیکھا گیا کہ اس کے نتیجے میں روپے کی قدر کم ہوئی۔ روپے کی قدر میں ہونے والی کمی کی وجہ سے مہنگائی اور قرضوں میں بھی اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ نجی سرمایہ کاری کی سطح بھی اس بات کا اشارہ ہوتی ہے کہ کوئی ملک درست سمت میں جارہا ہے یا نہیں۔ سخت ترین پالیسی ایکشن کے باوجود بھی سیاسی عدم استحکام سرمایہ کاری کے ماحول کو متاثر کر سکتا ہے۔
ملک کے وفاقی نظام میں سیاسی تفریق بھی معیشت پر منفی اثرات مرتب کررہی ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں سرمایہ کاری کے ماحول کو مختلف حوالوں سے ریگولیٹ کرتی ہیں۔ وفاقی حکومت ٹیکس استحکام فراہم کرتی ہے، مرکزی بینک بیرونی استحکام پر توجہ دیتا ہے جبکہ صوبے سرمایہ کاری کے لیے محفوظ ماحول تشکیل دیتے ہیں۔ لیکن جب سیاست اس قدر تقسیم ہو اور صوبے اور مرکز ایک دوسرے سے لڑرہے ہوں تو یہ نجی شعبے کے لیے نقصاندہ ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں نجی شعبہ سرمایہ کاری سے کتراتا ہے۔ اس طرح پائیدار معاشی بحالی کے امکانات بھی کم ہوتے ہیں کیونکہ ان کا انحصار نئی سرمایہ کاری پر ہوتا ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ تمام ہی جماعتیں معاشی پالیسی کے بنیادی عناصر پر متفق ہیں۔ ان عناصر میں برآمدات کے ذریعے حاصل ہونے والی نمو، مالی خسارے کو کم کرنا، سادہ اور منصفانہ ٹیکس نظام کو تشکیل دینا، ٹیکس کی ادائیگی یقینی بنانا، کاروبار دوست ماحول تیار کرنا، مارکیٹ پر منحصر شرح مبادلہ کو تسلیم کرنا، دیوالیہ ہو چکے ریاستی اداروں کی نجکاری کرنا، مہنگائی کم کرنا، قرضوں میں کمی لانا اور حکومتی اخراجات کو محدود کرنا شامل ہے۔ تاہم سیاسی جماعتیں اس اتفاق کے باوجود سیاسی فوائد کے حصول کے لیے مختلف سمت میں سفر کررہی ہیں اور اس کی قیمت ملک کو معاشی عدم استحکام کی صورت میں ادا کرنی پڑرہی ہے۔
ملیحہ لودھی
یہ مضمون 22 اگست 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
↧
↧
تھر کوئلہ : بجلی کا عظیم منصوبہ
یہ تو سب جانتے ہیں کہ پاکستان ہر طرح کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے مگر انہیں بروئے کار نہ لانے کا نتیجہ یہ ہے کہ 23 کروڑ کی آبادی میں سے کم و بیش 8 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے فلاکت زدہ زندگی گزار رہے ہیں۔ ملک کے ہر علاقے میں سیال اور غیر سیال معدنی دولت کے خزانے دفن ہیں جنہیں تلاش کیا جائے تو ملک غربت اور پسماندگی کے اندھیروں اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کی محتاجی سے آزاد ہو سکتا ہے ایسا ہی ایک بہت بڑا خزانہ کوئلے کی شکل میں سندھ کے صحرائے تھر میں موجود ہے مگر وہاں کے لوگ ملک میں سب سے زیادہ غریب اور زندگی کی ضروری مادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ تھر میں کوئلے کے 175 ملین ٹن ذخائر موجود ہیں جن سے تین سو سال تک ایک لاکھ میگا واٹ بجلی تیار کی جا سکتی ہے۔ اس سے سالانہ 6 ارب ڈالر زرمبادلہ کی بچت ہو گی اور فی یونٹ بجلی کی قیمت صرف دس روپے ہو گی۔
یہ جدید ٹیکنالوجی سے مکمل ہونے والا ملکی ترقی و خوشحالی کا عظیم منصوبہ ہے جس سے ماحولیاتی آلودگی بھی پیدا نہیں ہو گی۔ اس سے پوری طرح استفادے کیلئے ملک میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے تمام پاور پلانٹس کو تھر کوئلے پر منتقل کرنا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ تھر کوئلے کا استعمال نہ کرنا بہت بڑی اجتماعی غلطی ہے۔ انہوں نے سی پیک کے تحت توانائی کے شعبے میں چینی سرمایہ کاری کو پاکستان کیلئے عظیم الشان تحفہ قرار دیا اور کہا کہ ریلوے لنک قائم ہونے سے تھر کوئلے کی ملک بھر میں ترسیل آسان ہو جائے گی۔ اس حوالے سے چین سے سنگل لائن معاہدہ ہو گیا ہے۔ کوئلے سے حاصل ہونے والی سستی بجلی سے صنعتیں ترقی کریں گی کیونکہ ان کی مصنوعات سستی ہوں گی۔ سندھ کے علاوہ پنجاب، خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی قدرتی وسائل کے بے پناہ ذخائر موجود ہیں جنہیں کھوجنے کی ضرورت ہے۔
ملک کا سب سے پسماندہ صوبہ بلوچستان زیر زمین ہی نہیں، زیر سمندر بھی اتنے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے کہ اکیلا پاکستان کی معیشت کو سنبھال سکتا ہے، پہاڑی علاقوں کے علاوہ بلوچستان کا ساحل بھی سمندر میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر لئے ہوئے تلاش کرنے والوں کے انتظار میں ہے جیالوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق ساحل مکران کے آس پاس گیس کے 9 کھرب کیوبک فٹ ذخائر موجود ہیں جبکہ بحیرہ عرب کیساتھ ہمارے سمندر میں 6 ارب بیرل تیل موجود ہے۔ملک میں پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی درآمد پر اربوں ڈالر خرچ کئے جا رہے ہیں جبکہ اپنے ذخائر سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ سونے تانبے اور لوہے کے ذخائر کی تلاش کیلئے دئیے جانے والے ٹھیکے مقدمے بازی کی نذر ہو گئے۔ حکومتیں اور سیاسی قیادتیں اقتدار کی رسہ کشی میں الجھی ہوئی ہیں۔ انہیں قدرتی ذخائر کی مدد سے عوام کی تقدیر بدلنے کیلئے کام کی فرصت ہی نہیں۔ تھر کوئلے کے ساتھ ملک کے دوسرے علاقوں میں قدرت کے خزانوں سے استفادے کیلئے جامع منصوبے بنانے کی ضرورت ہے جن پر حکومت کو توجہ دینی چاہئے۔ اس سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور مہنگائی پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
↧
پاکستان کے خارجہ اقتصادی تعلقات
2021ء میں طے پانے والی قومی سلامتی پالیسی نے جیو اکنامکس کو اپنا بنیادی محور بنایا ہے۔ ضروری ہے کہ ایک مربوط اور جامع انداز میں دیکھا جائے کہ اس ہدف کے حصول کے لیے پاکستان کے دیگر ممالک کے ساتھ معاشی تعلقات کس نہج پر استوار کیے جائیں۔ خارجہ اقتصادی پالیسی وضع کرتے وقت ہمیں یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ایسی پالیسی ملک کی خارجہ اور ملکی اقتصادی پالیسیوں کی ضمنی پیداوار ہو گی۔ مثال کے طور پراگر کسی خاص ملک یا ممالک کے گروپ کے ساتھ خارجہ پالیسی غیر فعال، دوغلی یا لاعلمی پر مبنی ہے تو پھر اس ملک یا گروپ کے ساتھ مضبوط اقتصادی تعاون پرمبنی پالیسی نہیں بنائی جا سکتی۔ اسی طرح اگر ملکی اقتصادی پالیسی مالیاتی مسائل کی وجہ سے محدود ہو تو بین الاقوامی منڈیوں میں پاکستانی اشیا کو فروغ دینے کے لیے مالی سہولت فراہم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ مستقبل کے تعلقات طے کرنے کیلئے کس قسم کے اہداف ہونے چاہئیں؟
چین نے ابھرتے ہوئے صنعتی ممالک اور مشرقی ایشیا سے بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزشتہ 25 برسوں میں 1.2 بلین افراد کی حقیقی فی کس آمدنی میں چار گنا اضافہ کیا اور غربت کو 50 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد تک لے آیا۔ ایک اور ملک، بھارت، جس کی آبادی ایک ارب سے تجاوز کر چکی اور جو افراتفری اور ناقص جمہوریت رکھتا ہے، نے اپنے تمام تر مسائل کے باوجود گزشتہ 15 سال میں 6 فیصد کی سالانہ شرح نمو سے ترقی کی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے بھارت غربت کی سطح کو کم کر کے 23 فیصد تک لے آیا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب بھارت نے تجارت کو آزاد کر دیا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے آسانیاں پیدا کیں۔ ضروری ہے کہ ہم بہت احتیاط سے ان عوامل کا انتخاب کریں جو ہماری معیشت کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور ان سے بچیں جو اتار چڑھاؤ اور مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ میری نظر میں، کم از کم مختلف درجے اور فعالیت رکھنے والے دس ممکنہ عوامل ہیں :
-1 عالمی منڈیوں میں تجارتی اشیا کی برآمدات میں اضافہ کریں اور علاقائی تجارت کو فروغ دیں۔
2۔ سروسز، خاص طو ر پر آئی ٹی اور پیشہ ور سروسز میں اضافہ کریں ۔
3۔ دیگر ممالک کو تجارت کیلئے ٹرانزٹ راہ داری، انفراسٹرکچر اور سروسز فراہم کریں۔
4۔ آلات اورپرزوں کی فراہمی کے ساتھ عالمی سپلائی چین کا حصہ بنیں ۔
5۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو خاص طور پر برآمدات اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں ترغیب دیں۔
6۔ پاکستانی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ اپنا سرمایہ بیرونی ممالک میں رکھ کر بیرونی ٹھیکے حاصل کریں۔
7- کثیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ مل کر مشترکہ منصوبے شروع کیے جائیں۔
8۔ پاکستانی کمپنیوں کو ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی حوصلہ افزائی کریں، اور پاکستانی کمپنیوں کو عالمی سطح پر اپنا مقام بنانے کی سہولت فراہم کریں۔
9۔ اُن ممالک میں افرادی قوت بھیجنے کے لیے اپنے افراد کو تربیت دیں جنھیں افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے بیرونی دنیا سے بھجوائی گئی رقوم کے حجم میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کریں۔
10۔ اعلیٰ مہارت رکھنے والے ٹیکنیکل اور فنانشل ماہرین کی بیرونی دنیا کو فراہمی ممکن بنائیں۔
مندرجہ بالا فریم ورک دیکھتے ہوئے ہم مندرجہ ذیل ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کی نوعیت جا ئزہ لیتے ہیں : امریکہ، چین ، خلیجی ریاستیں، جنوبی ایشیا، افغانستان۔ وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کا بہت حد تک دارومدار افغانستان کے حالات اور ایران کے ساتھ مغربی دنیا کے رویے پر ہے۔
امریکہ: امریکہ اقتصادی، فوجی اور انسانی بنیادوں پر امداد کا ایک بڑا فراہم کنندہ رہا ہے۔ 2014 کے بعد سے اس امداد میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے جو امریکہ اور پاکستان دونوں کے لیے ایک خوش آئند اقدام ہے ۔ دراصل امریکی امداد دونوں ممالک میں مختلف تاثرات رکھنے کی وجہ سے ایک متنازعہ مسئلہ بنی رہی ہے ۔ امریکی امداد زلزلے اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کے لیے زیادہ مؤثر اور فعال ثابت ہوئی ۔ متاثرین نے اسے سراہا ہے۔ 2022 کے سیلاب کے لیے بروقت امداد اس کی ایک مثال ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے بجا طور پر اپنی توجہ تجارت، سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کی منتقلی پر مرکوز کر دی ہے۔ یہ ایک بہتر تبدیلی ہے بشرطیکہ اس حکمت عملی کو بھرپور طریقے سے فعال کیا جائے۔ ماضی میں ایسی کوششیں کامیاب نہیں ہوئی تھیں۔ امریکی چیمبر آف کامرس بجا طور پر پاکستانی ٹیکسٹائل کی امریکی منڈیوں تک رسائی کو آسان بنانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔
پاکستان کی نمایاں برآمدات پر امریکی محصولات اوسطاً تقریباً 10 فیصد ہیں، جو دوسرے ممالک سے درآمدات پر امریکی ٹیرف کی اوسط شرح سے چار گنا زیادہ ہیں۔ ٹیرف کی شرح میں کمی پاکستانی برآمد کنندگان پر کوئی احسان نہیں کرے گی بلکہ انہیں برابری کا میدان فراہم کرے گی۔ ایک ایسے ملک کے لیے جو بازار میں مسابقت پر پختہ یقین رکھتا ہے، یہ ایک اصلاح ہے نہ کہ رعایت۔ پاکستان کو توانائی کی ترسیل اور تقسیم، گیس پائپ لائنز، تیل اور ایل این جی ٹرمینلز، ریفائننگ کی صلاحیت، پیٹرو کیمیکل کمپلیکس سمیت دیگر شعبوں میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ امریکی سرمایہ کاروں کو ایکسپورٹ امپورٹ بینک کے قرضوں اور اوورسیز پرائیویٹ انویسٹمنٹ کارپوریشن کی پاکستان کے توانائی کی ترقی کے منصوبوں میں شرکت کی ضمانتوں کے ذریعے حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
ان میں سے ایک شعبہ ایسا ہے جس کی کارکردگی میں کوئی اور ملک بہتر نہیں ہے۔ اکیسویں صدی میں صنعتی معیشت کی جگہ ڈرامائی طور پر علم پر مبنی معیشت نے لے لی۔ اگلی دہائی میں یہ عملی طور پر کس حد تک حاصل کیا جا سکتا ہے اس کا انحصار ان بنیادوں پر ہوگا جن پر ہماری معیشت کھڑی ہے، یعنی سائنسی اور تکنیکی افرادی قوت کی مقدار اور معیار۔ ہم دوسرے ہم مرتبہ ممالک سے پیچھے ہیں، اسلئے ہمیں بہت کچھ کرنا ہے۔ امریکہ اعلیٰ تعلیم اور سائنسی اور تکنیکی تحقیق میں دنیا میں سرفہرست ہے۔ ہمیں امریکہ کے سرکردہ اداروں میں اپنے اساتذہ اور سائنسدانوں کو تربیت دلوانے، پاکستانی اور امریکی یونیورسٹیوں کے درمیان روابط اور اسکالرز کے تبادلے اور زراعت، آبی وسائل، قابل تجدید توانائی اور کم توانائی کے شعبوں میں ہماری تحقیقی تنظیموں کی استعداد کار کو مضبوط بنانے کیلئے ان سے رابطہ کرنا چاہیے۔
پاکستان خلیجی ریاستوں کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ امارات کے حکمرانوں کی پہلی نسل کے پاکستان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے کیونکہ انھیں اپنے ملک کی جدید کاری کے سفر میں پاکستان سے بہت تعاون ملا تھا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بڑی تعداد میں پاکستانی کارکنوں کو افرادی قوت کے طور پرملازمتیں دیں۔ یہ دو ممالک آج بھی ہمارے ترسیلات زر کے چوٹی کے ذرائع ہیں۔ متحدہ عرب امارات بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے اور سعودی عرب اور کویت پیٹرولیم مصنوعات اور خام تیل فراہم کرنے والے ملک ہیں۔ قطر کے پاکستان کے ساتھ ا یل این جی کے طویل المدتی معاہدے ہیں۔ جب بھی پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا سامنا ہوا، یہ ممالک اس کی مدد کرتے رہے ہیں۔
تاہم مستقبل میں ان تعلقات کومستحکم اور پائیدار بنانے کیلئے ان کا از سرنو تعین ضروری ہے کیوں کہ عالمی تعلقات یک طرفہ راستہ نہیں ہوتے۔ متحدہ عرب امارات اور قطر، دونوں نے پاکستانی حکام سے اپنی حالیہ ملاقاتوں میں نقد رقوم، اشیا یا کیش ڈپازٹ رکھوانے کی بجائے پاکستان کے مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ان ریاستوں کا مصر میں 22 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا منصوبہ ہے جو خلیجی ریاستوں کی امداد کا روایتی وصول کنندہ رہا ہے۔ ہماری نئی حکمت عملی بھی یہی ہونی چاہیے ۔ سعودی عرب نے 2019 میں گوادر میں آئل ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل کمپلیکس بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن تین سال گزرنے کے باوجود بیوروکریسی کا سرخ فیتہ، پیچیدہ اور وقت طلب طریقہ کار اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان رابطوں کا فقدان اس میں حائل بڑی رکاوٹ ہیں۔
جنوبی ایشیا
معاشی تاریخ دانوں اور تجزیہ کاروں کیلئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ جنوبی ایشیا، جو چند دہائیاں قبل تک ایک واحد بڑی منڈی تھی، جس میں اشیا، خدمات، سرمایہ کاری اور ہنر مند وں کی فراوانی تھی ۔ نئے آزاد ممالک ، انڈیا اور پاکستان، یہ وراثت رکھتے تھے۔ لیکن یہ مشترکہ تاریخی، قانونی، ثقافتی اور انتظامی پس منظر رکھنے والا خطہ آج نہ ہونے کے برابر باہمی تعلقات رکھتا ہے ۔ دوسری طرف مشرقی ایشیائی ممالک بے حد مختلف پس منظر رکھتے ہیں۔ ان کے درمیان مشترکہ تاریخی روابط نہ ہونے کے برابرتھے۔ لیکن وہ یورپی یونین کے بعد دنیا کا سب سے زیادہ مربوط خطہ بن چکے ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کے ماہرین معاشیات کے درمیان کم و بیش اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ان کے باہمی تجارتی تعلقات دونوں کیلئے مساوی معاشی فوائد کا باعث بنیں گے۔ ان کے معاشی تعلقات استوار نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان سیاسی تنائو ہے۔
گزشتہ دہائی کے دوران انڈیا ایک اہم اقتصادی طاقت کے طور پر ابھرا ہے۔ پاکستان جو 1990 تک آگے تھا، جانی پہچانی وجوہات کی بناپر پیچھے رہ گیا جس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اقتصادی توازن میں یہ تبدیلی انڈیا اور پاکستان کے تعلقات پر بنیادی نظر ثانی کا مطالبہ کرتی ہے۔ خطے کی 80 فیصد آبادی اور 85 فیصد جی ڈی پی رکھنے والا انڈیا خطے کی بالا دست قوت ہے۔ لیکن پھرموجودہ جمود سے نکلنے کی بڑی ذمہ داری بھی اسی پرعائد ہوتی ہے۔ انڈیا کو معاشی عروج کی طرف اپنا سفر جاری رکھنے کی جستجو میں محفوظ اور محفوظ سرحدوں، پرامن اور خوشحال پڑوسیوں اور ایک متحرک علاقائی ادارہ جاتی ڈھانچے کی ضرورت ہے جس میں چھوٹے ممالک کا کردار بھی شامل ہو۔ اگر اس کے ہمسائے مسلسل خوف و ہراس کا شکار رہیں گے تو اس کی اقتصادی طاقت بننے کی خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی۔ جنوبی ایشیا میں ایک اہم کھلاڑی کی حیثیت سے اس کی ذمہ داریاں، ردعمل اور طرز عمل اس کے سائز اور حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔
حساب برابرکرنے کی ماضی کی پالیسی کی بجائے خطے کے دیگر ممالک کو سیاسی اور معاشی طور پر برداشت کرتے ہوئے بڑے پن ، کھلے ذہن اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ ایشیا کپ کے تحت کرکٹ کھیلنے کے لیے اگلے سال پاکستان آنے سے انکار ان مطلوبہ اوصاف کے منافی ہے۔ درمیانی اور طویل المدتی فوائد کو دیکھا جائے اقتصادی اہداف کا ممکنہ حصول بتاتا ہے کہ تعلقات کی بہتری میں انڈیا کو زیادہ فائدہ حاصل ہو گا۔ ایک ایسے ملک کیلئے جس کے پاس سب سے زیادہ ترقی پسند کاروباری افراد، سرکردہ دانشور، پیشہ ور، اختراع کار اور سائنس دان ہوں، عالمی سطح پر مسابقتی انسانی وسائل سب سے اوپر ہیں، قدرتی وسائل کی بہت زیادہ مانگ ہے، یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ وہ پیش قدمی سے گریزاں کیوں ہے۔ پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو معمول پر لانا علاقائی تجارت میں اضافہ، غربت میں کمی اور غذائی تحفظ کیلئے بہت سے امکانات کی کھڑکی کھولتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کے غیر ملکی اقتصادی تعلقات کو جیو پولیٹکس کی بجائے جیو اکنامکس کی طرف تبدیل کرنے کیلئے پاکستان کی ملکی اقتصادی پالیسیوں کو مستحکم اور پیش قیاسی، نظم و نسق اور گورننس کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کی ضرورت ہو گی۔ مسلسل سیاسی عدم استحکام، پالیسیوں کے بارے میں غیر یقینی صورتحال اور مسلسل معاشی بحران موجودہ جمود سے کوئی تبدیلی نہیں لائے گا۔ ہم مسلسل امداد مانگ کر اپنی عزت کھونے والے ایک معمولی کھلاڑی رہیں گے۔ آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے ہمہ وقت مدد کے لیے رجوع کرنا مذکورہ بالا تجاویز پر پانی پھیر دے گا۔ ہمیں جس بڑے مسئلے کا سامنا ہے وہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے تشخیص یا نسخوں کی کمی نہیں ہے بلکہ سوچ کی تنگ نظری ہے جہاں طریق کار کو نتائج پر فوقیت دی جاتی ہے۔ جب تک ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سمیت کسی بھی غیر ملکی کیلئے اندرونی نفرت کو دور نہیں کرتے، ہم ترقی کی اس لہر سے مزید دور ہوتے جائیں گے جس سے دوسرے ترقی پذیر ممالک کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ہمیں دنیا کی مفلوج معیشتوں کے بجائے جنوبی کوریا، چین، انڈونیشیا، ملائیشیا اور ویتنام کو رول ماڈل کے طور پر اپنانا چاہئے۔
ڈاکٹر عشرت حسین
بشکریہ روزنامہ جنگ
↧
قومی ڈائیلاگ اور عوامی مشکلات
پاکستانی قوم میں نفرتوں کے بیج بونے والے ملک و قوم کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ اس وقت فہم و فراست سے کام لیا جائے اور تمام معاملات کو افہام و تفہم سے حل کیا جائے۔ وطنِ عزیز کے اندرونی حالات سے دشمن ممالک میں خوشی کے شادیانے تو بچ سکتے ہیں مگر کوئی ایک بھی محبِ وطن شخص اس سے خوش نہیں ہو سکتا۔ حکومت اور اپوزیشن کو اس وقت قومی ڈائیلاگ کی طرف جانا ہو گا۔ ملک کو سوچی سمجھی سازش کے تحت بند گلی کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ اعظم سواتی کے معاملے پر بھی فوری تحقیقات ہونی اور اصل حقائق سامنے لائے جانے چاہئیں۔ قومی سیاست میں گھنائونے و غیراخلاقی اقدامات کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح سیاسی اجتماعات میں اداروں کا نام لے کر تنقید بھی درست اور مناسب نہیں ہے۔ اس سے ملک کمزور اور قومی اداروں میں اضطراب اور بے چینی کی کیفیت پیدا ہو گی اور نفرتوں کی آگ پھیلے گی۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال سے عالمی میڈیا میں بھی پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔
احتجاج ہر سیاسی جماعت کا حق ہے۔ پاکستان کا آئین ہر شہری کو حدود وقیود میں رہ کر احتجاج کی اجازت دیتا ہے مگر احتجاج کی آڑ میں املاک کو نقصان پہنچانا اور عوام کے لئے مشکلات پیدا کرنا کسی طور پر بھی درست نہیں۔ ان حالات میں سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو عام آدمی کی مشکلات کا ادراک کرنا ہو گا۔ ملک وقوم اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتے جب تک آئین کا احترام اور سیاسی استحکام نہیں آجاتا۔ اس وقت عوام بدحال ہیں، کسی کو بھی ان کی پروا نہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری اورلاقانونیت نے حالات کو پہلے سے زیادہ خراب کر دیا ہے۔ جب سے اتحادی حکومت برسراقتدارآئی ہے، کوئی ایک بڑا منصوبہ بھی مکمل نہیں ہوا۔ صوبائی حکومتیں اور وفاق کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل جاری ہے۔ جھوٹے بیانیے دے کر عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے جس کے باعث حقیقی تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے۔ سیاسی انتشار، افراتفری کے خاتمے اور بے یقینی کی صورتحال پر قابو پانے کے لئے فوری طورپر انتخابی اصلاحات ناگزیر اور ملک و قوم کوعام انتخابات کی طرف جانا ہو گا۔
ملک وقوم کسی بھی قسم کی محاذ آرائی کے خوفناک نتائج کے متحمل نہیں ہو سکتے جس کے باعث یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز دانشمندانہ فیصلے کریں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر وزیرآباد میں قاتلانہ حملہ بھی انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت ہے۔ سوال یہ ہے کہ چیئرمین عمران خان کو اگرمعلوم تھا کہ ان پر حملہ ہو گا تو پھرلانگ مارچ کو جاری رکھ کر لوگوں کی زندگی کے ساتھ کیوں کھیلا گیا؟ وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے لانگ مارچ کے شرکاء کی حفاظت کے لئے کیوں سیکورٹی کے فول پروف اقدامات نہیں کئے؟ اس افسوسناک واقعے میں ایک شخص جاں بحق اور 14 افراد زخمی ہوئے۔ اس واقعہ کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہئیں اور مجرمانہ غفلت برتنے والے سیکورٹی افسروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس کی حراست میں ملزم کی ویڈیو کس کے کہنے پر منظر عام پر آئی؟ عمران خان کو گولیاں لگنے کے حوالے سے پی ٹی آئی کے دیگر رہنمائوں ا ور پارٹی چیئرمین کے بیانات میں تضاد نے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔
اس واقعہ کی جوڈیشنل انکوائری کروا کے نتائج عوام کے سامنے لائے جائیں۔ حکومت اور اپوزیشن کو اس نازک موڑ پر تحمل و بردباری کا مظاہرہ کر کے ملکی حالات کو بہتری کی طرف لے کر جانا چاہئے۔ ایسے لگتا ہے کہ ملک دشمن بیرونی قوتیں بھیانک سازش کے تحت ملک میں حالات خراب کرنا چاہتی ہیں۔ اس وقت ملک کے مختلف شہروں میں پر تشدد احتجاج سے صورت حال مزید بگڑرہی ہے۔ ملک کی سیاسی صورتحال میں خرابی کے ساتھ ساتھ عوامی مشکلات میں بھی آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ملک بھر میں گیس کی قلت کی وارننگ بھی تشویشناک ہے۔ اس وقت ملک میں گیس کی طلب 2500 ملین کیوبک سے زیادہ ہے جب کہ سپلائی 1700 ملین کیوبک ہے۔ ملک بھر میں گیس کا 8 سو ملین کیوبک کا شارٹ فال ہے۔ سردیوں میں اضافے کے ساتھ ہی طلب میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے اگر بروقت اقدام کیا ہوتا تو آج صورت حال اس قدر گھمبیر نہ ہوتی۔
قلت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایران اور روس سے گیس کے حصول کو یقینی بنایا جائے۔ آنے والے دنوں میں جہاں عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، وہاں صنعتیں اور کاروبار بھی متاثر ہوں گے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ حکمران اور اپوزیشن دونوں کو ہی عوام کے مسائل کے حل سے کوئی غرض نہیں ہے۔ بدقسمتی سے دونوں ہی اپنے مفادات کے حصول کی خاطر محاذ آرائی پر اتر آ ئے ہیں۔ ہمارے ملک میں ستر برسوں سے جاری فرسودہ نظام نے صرف اشرافیہ کو ہی مضبوط کیا ہے۔ عوام ہر دورمیں پستے چلے آرہے ہیں۔ اتحادی حکومت مہنگائی کے خاتمے اور عوام کو ریلیف دینے کا ایجنڈا لے کر اقتدار میں آئی تھی مگر بد قسمتی سے پی ڈی ایم حکومت بھی سابقہ حکومت کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ ملک بھر میں سطحٔ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی شرح 33 فیصد تک جاپہنچی ہے۔
محمد فاروق چوہان
بشکریہ روزنامہ جنگ
↧