Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4346 articles
Browse latest View live

جانیے کہ انٹرنیٹ آپ کے بارے میں کیا جانتا ہے؟

$
0
0

کیا آپ کو کبھی یہ احساس ہوا ہے کہ کوئی آپ کو دیکھ رہا ہے؟ کتنا ڈراؤنا احساس ہوتا ہے، لیکن اگر ہم آپ کو بتائیں کہ آپ انٹرنیٹ پر جو کچھ کر رہے ہیں، ان سب کو دیکھا جا رہا ہے تو آپ کو کیسا لگے گا؟ اندازہ لگانا چاہتے ہیں تو ایک چھوٹا سا براؤزر ایکسٹینشن ’’گھوسٹری‘‘ ہے ،جو بتاتا ہے کہ کسی عام ویب سائٹ پر کتنے ٹریکنگ سکرپٹس ہوتے ہیں۔ صارفین کا یہ ڈیٹا حاصل کر کے یہ ویب سائٹس اشتہارات دینے والوں کو فروخت کرتی ہیں، لیکن کچھ کمپنیاں ایسی ہیں جو اسے بالکل نئے مقام تک لے جاتی ہیں۔ جیساکہ گوگل اور فیس بک۔ ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ پر خرچ ہونے والے ہر ایک روپے میں سے 60 پیسے ان کمپنیوں کی جیب میں جاتے ہیں۔ دونوں اپنے صارفین کی معلومات حاصل کرنے کی اعلیٰ ترین صلاحیتیں رکھتی ہیں۔ گوگل کی 79 سے زیادہ مصنوعات ہیں اور اس کا موبائل آپریٹنگ سسٹم اینڈرائیڈ اس وقت دنیا کی 70 سے 80 فیصد سمارٹ فون ڈیوائسز پر موجود ہے۔ 

آن لائن سرچ میں بھی لگ بھگ 79 فیصد گوگل کا قبضہ ہے۔ گوگل سالانہ اشتہارت سے 67 ارب ڈالرز سے زیادہ کماتا ہے۔ گوگل کا کہنا ہے کہ ہم صارف کی صرف تین قسم کی معلومات جمع کرتے ہیں، جو کام ہم کرتے ہیں، جو ہم تخلیق کرتے ہیں اور ہمیں ’’ہم‘‘ بنانے والے کام۔ ہم گوگل کی پروڈکٹس استعمال کرتے ای میل پڑھتے اور بھیجتے، ویب براؤزر استعمال کرتے ہیں، ایپ سٹور اور ایپس انسٹال کرتے ہیں اور موبائل پر آپریٹنگ سسٹم بھی اس کا استعمال کرتے ہیں۔ گوگل جانتا ہے کہ ہم دن کا بیشتر وقت کس جگہ پر گزارتے ہیں۔ ہماری تصاویر، ویڈیوز اور آواز تک کے بارے میں جانتا ہے ،جو ہم کبھی کبھار اپنے کیمرے سے ریکارڈ کرتے ہیں۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ ہم کون سا موبائل استعمال کرتے ہیں؟ 

ہمارے پاس کتنے موبائل ہیں؟ لیپ ٹاپ کون سا ہے؟ اگر ڈیسک ٹاپ استعمال کرتے ہیں ،تو اس کے اقوات کیا ہیں؟ ہم کون سے گانے سنتے ہیں؟ کون سی ویڈیوز میں دلچسپی رکھتے ہیں اور بہت کچھ۔ اس دوران ہماری ویب سرچ، براؤزنگ کے طریقے، دلچسپیاں اور سب کچھ گوگل کے پاس جمع ہوتا رہتا ہے اور وہ اپنے اشتہاری پروگرام ’’ایڈورڈز‘‘ کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اگر کسی موضوع پر ایک دوبار سرچ کر لیں، تو ہمیں اسی حوالے سے مختلف ویب سائٹس پر اشتہار نظر آنے لگتے ہیں۔ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ گوگل آپ کے بارے میں کیا کچھ جانتا ہے؟ تو گوگل پر ہی ’’Google Takeout‘‘ سرچ کریں۔ یہاں آپ کو وہ پیج ملے گا، جہاں آپ کا سارا ڈیٹا محفوظ ہے، جسے آپ ڈاؤنلوڈ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ ڈیٹا دیکھیں، یہ آپ کا نامہ اعمال ہے۔ 

(انٹر نیٹ سے ماخوذ)


گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی : ڈاکٹر صفدر محمود

پاکستانیوں کے لیے بھی امریکا کے دروازے بند ؟

$
0
0

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلم تارکین وطن کے ملک میں داخلے پر پابندی کے بعد واشنگٹن نے پاکستانیوں کے لیے بھی ویزے بند کرنے کا اشارہ دے دیا ہے۔ وائٹ ہائوس کے چیف آف اسٹاف رائنس پریبس  نے امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا کہ ہم نے پابندیوں کے لیے ان 7 ممالک کو چنا ہے جن کا انتخاب کانگریس اور اوباما انتظامیہ نے کیا، یہ وہ ممالک ہیں جن میں دہشت گردی کے خطرناک واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔
رائنس پریبس کا کہنا تھا صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلم اکثریت والے 7 ممالک ایران، عراق، لیبیا، سوڈان، یمن، شام اور صومالیہ پر امیگریشن پابندی عائد کرنے کے لیے ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس میں دوسرے ممالک کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے جہاں اسی طرح کے مسائل ہیں جیسا کہ پاکستان اور دیگر ممالک تاہم فوری طور پر ہم پاکستان جیسے ممالک کے شہریوں کو ویزے دیتے ہوئے کڑی جانچ پڑتال سے گزاریں گے ہمیں اس فہرست کو وسیع کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ ٹرمپ یہ اقدامات اپنے انتخابی وعدوں کے تناظر میں کر رہے ہیں۔

ہم اپنی نئی نسل کو کس طرف لے جا رہے ہیں ؟

مقدمہ جماعت اسلامی کا

$
0
0

جماعت اسلامی کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت کی حلیف ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جماعت اسلامی کی وجہ سے ہی کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت مستحکم ہے ورنہ جماعت اسلامی ہمیشہ ہی اس پوزیشن میں رہی ہے کہ اس حکومت کو ختم کر سکتی تا ہم اتنی اہم سیاسی پوزیشن کی وجہ سے بھی اس نے کبھی عمران خان کو سیاسی طور پر بلیک میل نہیں کیا۔ اس کو امیرجماعت  سراج الحق کی نرم مزاجی بھی کہا جا سکتا ہے اور شرافت بھی۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان بیک وقت ایک نفرت اور محبت کا رشتہ ہے۔
محبت اس لیے کہ کے پی کے کی حکومت قائم رہے اور نفرت اس لیے کہ جماعت اسلامی تحریک انصاف کی بی ٹیم بننے کے لیے تیار نہیں۔ اس نے دھرنے میں شریک ہونے سے انکار کر دیا اور وہ عمران خان کے ہر قدم کی تائید نہیں کر تی۔

اسی طرح جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان گزشتہ تین دہائیوں سے بیک وقت محبت اور نفرت کا رشتہ ہے۔ دونوں اتحادی بھی بن جاتے ہیں اور حریف بھی۔ لیکن دونوں ایک دوسرے پر اپنا حق سمجھتے ہیں اور یہ حق نہ ملنے پر ایک دوسرے کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔ آجکل بھی یہی صورتحال ہے ۔ جماعت اسلامی پانامہ میں فریق بن چکی ہے اور مسلم لیگ (ن) اس پر ناراض ہے‘  اسی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں سراج الحق پرسیاسی طعنوں کے تیر چلا ئے۔ خواجہ آصف کا موقف ہے کہ جماعت اسلامی ہمیشہ تاریخ کے غلط طرف کھڑی ہوتی ہے۔ خواجہ آصف کا موقف ہے کہ جب جماعت ا سلامی ہمارے ساتھ مل کر انتخاب لڑتی ہے تو پھر پانامہ کا کیس کیوں لڑ رہی ہے۔
جماعت اسلامی کے ترجمان امیر العظیم سے میں نے پوچھا کہ آپ کیوں تاریخ کی غلط سمت کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے کہ بس عمران خان کے شدید دباؤ کے باوجود دھرنے میں شریک نہ ہوئے اور تاریخ کی غلط طرف کھڑے ہو گئے۔ پرویز مشرف کے مارشل لا میں جب ن لیگ اکیلے الیکشن لڑنے سے ڈرتی تھی اور منصورہ کے طواف کرتی تھی تو ہم ان کے ساتھ کھڑے تھے اور تاریخ کی غلط طرف کھڑے تھے۔ جب مشرف کے مارشل لا کے بعد مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے ہم سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگی اور ہم نے معاف کر دیا اور ان کا ساتھ دیا ہم تاریخ کی غلط طرف ہی کھڑے تھے۔

جب پہلی دفعہ آئی جے آئی میں میاں نواز شریف کو وزیر اعظم بنانے کی مخالفت کی جا رہی تھی تو جماعت اسلامی نے ان کو وزیر اعظم بنانے کی حمایت کی تب بھی جماعت تاریخ کی غلط طرف ہی کھڑی تھی۔ جب مشرف دور میں ہم ن لیگ کے اتحادی بن گئے تھے تب بھی تو ہم تاریخ کی غلط طرف ہی کھڑے تھے۔ جب میاں نوازشریف میاں اظہر کا انتخاب ہرانے کے لیے جماعت اسلامی کے حافظ سلمان بٹ کو کھڑ اکرنے کی خواہش کرتے تھے ۔ تب بھی تو ہم تاریخ کی غلط طرف ہی کھڑے تھے۔

امیر العظیم کا موقف ہے کہ مشرف کی صدارت کے انتخاب کے موقع پر جب مولانا فضل الرحمٰن مشرف کو صدر بننے دینا چاہتے تھے اور جماعت اسمبلی نے اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کے لیے متحدہ مجلس عمل ہی توڑ دی تب ن لیگ ہمارے صدقے واری جا رہی تھی لیکن شاید تب بھی ہم تاریخ کی غلط طرف ہی کھڑے تھے۔ جماعت اسلامی کو بھی ن لیگ سے کافی گلے شکوے ہیں۔ اور ن لیگ کو بھی جماعت اسلامی سے کافی گلے شکوے ہیں۔ ن لیگ کی خواہش ہے کہ جب بھی اس کو ضروت ہو جماعت اس کے ساتھ کھڑی ہو جائے۔ لیکن جواب میں جماعت اسلا می کوکچھ دینا نہ پڑے۔

دھرنے کے دنوں میں سراج الحق اور ن لیگ کے درمیان ایک بہترین انڈر اسٹینڈنگ قائم ہو گئی تھی۔ سراج الحق کے مصالحتی کردار کا ن لیگ کو فائدہ تھا۔ پانامہ کے شروع ہونے پر بھی خواجہ سعد رفیق منصورہ پہنچ گئے تھے۔ لیکن اس بار پانامہ میں سراج الحق نے مصا لحتی کردار کے بجائے فریق بننے کا فیصلہ کیا۔ جو ن لیگ کو پسند نہیں آ رہا۔ خواجہ آصف نے یہ انکشاف کیا ہے کہ دھرنے کے دنوں میں سراج الحق ان سے پوچھتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ ہے کہ نہیں۔ میں سمجھتا ہوں وہ ٹھیک ہی پوچھتے تھے کیونکہ دوسری طرف تحریک انصاف جو بار بار ان سے کہہ رہی تھی کہ  اسٹیبلشمنٹ  اس کے ساتھ ہے ۔ بس جماعت اسلامی دھرنے میں ساتھ شامل ہو جائے۔

اسلام آباد کے خیبر ہاؤس میں ہونے والی ایک میٹنگ میں عمران خان کئی گھنٹے سراج الحق کو یہ یقین دلاتے رہے کہ جماعت اسلامی اس دھرنے میں شریک ہو جائے جواب میں جماعت اسلامی کو جو چاہیے مل جائے گا۔ عمران خان ایک سیاسی بلینک چیک سراج الحق کو دے رہے تھے۔ لیکن سراج الحق نہ مانے۔ جس کے بعد ایک لمبے عرصہ تک سراج الحق اور عمران خان کے درمیان تعلقات میں سر د مہری رہی۔ جو شاید کہیں نہ کہیں آج بھی قائم ہے ۔ ابھی حال ہی میں جب عمران خان نے اسلام آباد کے لاک ڈاؤن کی کال دی تھی تب بھی  جماعت اسلامی نے اس لاک ڈاؤن میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔

میں نے جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے کئی بار پوچھا ہے کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ پانامہ میں فریق بن جاتے ہیں۔ لیکن اسلام آباد لاک ڈاؤن میں شریک نہیں ہو تے۔ دھرنے کی مخالفت کرتے ہیں لیکن ن لیگ کے ساتھ اتحاد نہیں بناتے۔ حکومت کو گرانے کی ہر تحریک کی مخالفت کرتے ہیں لیکن نواز شریف کو ناہل قرار دلوانے کے درپے ہیں۔ جماعت اسلامی کہتی ہے کہ اس نے جمہوریت کے خلاف سازشوں کو نا کام کیا ہے لیکن حکمرانوں کے تحفظ کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا۔ لیکن اپنی اس پالیسی سے جماعت اسلامی نے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو ناراض کر لیا ہے۔ اسی لیے جماعت اسلامی سیاسی تنہائی کا شکار ہے۔ یہ تنہائی اگلے انتخابات میں خطرناک بھی ہو سکتی ہے۔ تا ہم جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ ا ن دو نوں بڑی سیاسی جماعتوں نے گزشتہ انتخاب میں بھی جماعت اسلامی کو سیاسی طور پر تنہا چھوڑ دیا تھا۔ اس لیے اب جماعت اسلامی اس کی عادی ہو گئی ہے۔ اب ہمیں سیاسی تنہائی سے کوئی نہیں ڈرا سکتا۔ ہم اس کے عادی ہو گئے ہیں۔

مزمل سہروردی 

کیسی انوکھی بات رے : وسعت اللہ خان

$
0
0

جتنی کہانیاں امیر لوگ اپنے بارے میں مشہور کرتے ہیں۔ ان سے دس گنا کہانیاں غریب لوگ ان امیروں کے بارے میں مشہور کر دیتے ہیں۔ جیسے یہی افسانہ کہ بل گیٹس اگر سڑک پر جا رہا ہو اور اس کے بٹوے سے سو ڈالر کا نوٹ گر جائے تو وہ شائد اسے یونہی پڑا رہنے دے اور آگے بڑھ جائے۔ کیونکہ جتنی دیر میں وہ جھک کر یہ نوٹ اٹھا کے سیدھا ہوگا اتنی دیر میں اس کے اکاؤنٹ میں مزید پانچ سو ڈالر کا اضافہ ہو چکا ہوگا۔ تا ہم یہ افسانہ حقیقت سے کچھ اتنا دور بھی نہیں۔
یہ دنیا مائیکرو سافٹ ونڈو کی دنیا ہے۔

بل اگر اپنی تمام دولت لٹا دے تب بھی ایک عشرے میں اس کے پاس اتنی ہی دولت چل کے آجائے گی۔ بل گیٹس نہ صرف 86 ارب ڈالر کے اثاثوں کے سبب اس دنیا کا سب سے امیر ترین شخص ہے بلکہ غریب ممالک میں بل اینڈ ملنڈا فاؤنڈیشن کے تحت فلاحی منصوبوں کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کرنے کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ بل نے دو ہزار آٹھ میں مائیکرو سافٹ کی قیادت سے کنارہ کشی کے بعد خود کو عالمی سطح پر فلاح کے لیے وقف کر رکھا ہے ۔ یہ قلندرانہ چلن اختیار کرنے کے بعد بھی پچھلے آٹھ برس کے دوران بل کی دولت میں لگ بھگ بیس ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ دنیا کا تیسرے بڑے امیر وارن بفٹ کی دولت کا اندازہ 68 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ بفٹ نے بھی بل گیٹس کی طرح اپنی دولت کا بیشتر حصہ محروموں کی مدد کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ مگر ایسا کیوں ہے کہ اتنے خیراتی کاموں کے باوجود دنیا میں ارتکازِ دولت کئی ہاتھوں سے چند ہاتھوں میں تیزی سے منتقل ہو رہا ہے۔ جتنی عدم مساوات آج ہے پچھلے سات ہزار برس کی معلوم تاریخ میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ حتی کہ کارل مارکس نے بھی نہیں دیکھی۔
یعنی اس وقت دنیا کی ایک فیصد آبادی ( آٹھ لاکھ امرا) کے پاس جتنی دولت ہے وہ دنیا کی باقی ننانوے فیصد آبادی کے وسائل کے برابر ہے۔ اس دنیا کے آٹھ امیر ترین لوگوں کے پاس جتنا سرمایہ ہے وہ ساڑھے تین ارب انسانوں کے کل اثاثے کے برابر ہے۔ سائنس و ٹیکنولوجی کی تیز رفتار ترقی اور زرعی پیداوار میں پچھلے پچاس برس کے دوران کئی گنا اضافے کے باوجود جانے کیا بنیادی مسئلہ ہے کہ آج  دو ہزار سترہ میں بھی ہر نواں شخص رات کو بھوکا سو رہا ہے۔
ایسا کیوں ہے کہ پچھلے تئیس برس کے دوران دنیا کی دس فیصد غریب ترین آبادی کی آمدنی میں صرف تین ڈالر سالانہ کا اضافہ ہوا اور ایک فیصد امیر ترین لوگوں کے اثاثوں میں ایک سو بیاسی گنا اضافہ ہوا۔ آپ امیر ترین لوگوں کی فہرست اٹھا کر دیکھیں۔ بظاہر ان میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جنہوں نے غیر قانونی ہتھکنڈوں سے پیسہ بنایا ہو گا۔ کچھ کو موروثی دولت ملی اور بہت سوں نے نئے آئیڈیاز یا مصنوعات کو فروغ دے کر بقول شخصے حق حلال کا پیسہ کمایا۔ اگر بل گیٹس یا واران بفٹ یا فیس بک کا مالک مارک زکر برگ ( پچاس ارب ڈالر ) یہ کہتا ہے کہ ہماری دولت شفاف طریقوں سے کمائی ہوئی ہے تو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ لیکن کیا یہ دلیل دل کو لگنے کے باوجود اتنی ہی سادہ بھی ہے ؟

اگر ایسا ہی ہے تو پھر ورلڈ اکنامک فورم کے پچھلے چار برس کے سالانہ اجلاسوں میں اس نکتے پر لگاتار اتفاقِ رائے کیوں ہے کہ دنیا میں اس وقت جتنی بھی سماجی اتھل پتھل ہے اس کا بنیادی سبب معاشی عدم مساوات ہے۔ بارک اوباما کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے آخری خطاب کے دوران کیوں کہنا پڑ گیا کہ جس دنیا میں ایک فیصد لوگ ننانوے فیصد دولت کنٹرول کرتے ہوں وہ دنیا مستحکم نہیں رھ سکتی۔ اس پہلو دار خاردار مسئلے کا یک لفظی جواب ہے ٹیکس۔ دنیا بھر میں ارتکازِ دولت کا جدید سبب یہ ہے کہ کم و بیش ہر ملک نے ٹیکسیشن کا نظام کچھ اس طرح وضع کیا ہے کہ جو جتنا امیر ہے اسے اپنی دولت کے تناسب سے اتنا ہی کم ٹیکس دینا پڑ رہا ہے اور جو جتنا غریب ہے وہ اتنا ہی براہِ راست اور بلاواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دب کر مزید ادھ موا ہوتا جا رہا ہے۔ ہر ملک جو اپنے ہاں سرمایہ کاری چاہتا ہے وہ سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے ٹیکس کی اتنی ہی چھوٹ دینے پر مجبور ہے۔

اس وقت دنیا کی دس بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشنز کے پاس جتنے وسائل ہیں وہ دنیا کے ایک سو اسی ممالک کی مجموعی معاشی حجم سے بھی زیادہ ہیں۔ اس قدر مالی طاقت چند ہاتھوں میں مرکوز ہونے کا مطلب کیا ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ یہ طاقتور کارپوریشنز ہر ملک میں اپنی مرضی کے مالیاتی قوانین بنوا سکتی ہیں یا ان میں لچک پیدا کروا سکتی ہیں۔ یوں پیسے کو پیسہ کھینچتا ہے۔ اس کام میں ہر ملک کا حکمران طبقہ طفیلی سرمایہ کار کا کردار نبھاتا ہے۔ وہ سستی لیبر اور ملکی وسائیل کو ان کارپوریشنز کی قربان گاہ تک بکرے کی طرح کھینچ کے لاتا ہے اور یوں اس بکرے میں سے اپنا حصہ پاتا ہے۔ اس کام میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک اور ان کے حکمران طبقات کی کوئی قید نہیں۔ مثلاً  نائجیریا کی مثال لے لیں۔ اتنا تیل ہے کہ سترہ کروڑ کی آبادی اس تیل کی آمدنی سے مڈل کلاس میں آ سکتی ہے۔ مگر وہاں کے قانون سازوں اور قانون سازی پر بین الاقوامی تیل کمپنیوں کا اتنا اثر ہے کہ اسی فیصد آمدنی کے ثمرات کبھی نیچے تک آ ہی نہیں سکتے اوپر ہی اوپر بٹ بٹا جاتے ہیں۔ وہاں اگر بوکو حرام جیسے گروہ پیدا نہ ہوں تو پھر کیا پیدا ہو ؟

سالِ گذشتہ کینیا کی حکومت نے کارپوریٹ سیکٹر کو ٹیکسوں کی مد میں ایک ارب ڈالر سے زائد کی چھوٹ یا استثنیٰ دیا۔ یہ چھوٹ کینیا کی ساڑھے چار کروڑ آبادی کے صحت بجٹ سے دوگنی ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کا حال بھی زیادہ مختلف نہیں۔ مثلاً انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مشہورِ عالم کمپنی ایپل کے یورپئین ڈویڑن نے دو ہزار پندرہ میں جتنا منافع  کمایا اس پر تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے صفر اعشاریہ صفر صفر صفر پانچ فیصد کارپوریٹ ٹیکس دیا۔ جس کے پاس جتنی دولت ہے اس کے پے رول پر اتنے ہی بہترین ٹیکس ماہرین اور قانونی دماغ ہیں۔
چلیے آپ نے پیسہ کما لیا کوئی بات نہیں۔ مگر اپنے منافع میں سے کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی کس قدر پوری کی جاتی ہے۔ اس اصطلاح کا آسان مطلب یہ ہے جیسے آپ نے ایک کروڑ روپیہ کما کر چاول کی آٹھ دیگیں داتا صاحب پر بانٹ دیں اور پھر شکرانے کے عمرے پر روانہ ہو کر دل و دماغ پر اگر کوئی بوجھ تھا تو وہ بھی اتار دیا۔ مگر کتنے امرا یا ادارے ہیں جنہوں نے اپنے بے تحاشا منافع سے کوئی فلاحی کام کیے ہوں۔ اسپتال ، اسکول ، ہنر سکھانے کا کوئی ادارہ ، اسکالر شپس وغیرہ۔ اگر یہ سب رئیس ترین اپنے منافع کا آدھا فیصد بھی کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی کی مد میں دان کر دیں تو غربت اور عدم مساوات میں کم ازکم ایک چوتھائی کمی آ سکتی ہے۔ مگر ایسا ہوتا تو پھر بات ہی کیا تھی۔

سب کا حق لے کے بھی محروم نظر آتا ہے
اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے

اس دنیا میں جس نے جتنا پیسہ کمایا اس میں سے ساڑھے سات ٹریلین ڈالر پانامہ سے ورجن آئی لینڈ تک ان جزائر میں جمع ہے جنھیں عرفِ عام میں ٹیکس کی آف شور جنت کہا جاتا ہے۔ یہ رقم دنیا کی دوسری بڑی معیشت یعنی چین کے زرِ مبادلہ کے ذخائر سے دوگنی ہے۔ یقیناً اس میں چوروں کا پیسہ بھی شامل ہے مگر زیادہ تر پیسہ قانونی طور پر کاروبار کرنے والوں کے منافع کا ہے۔ لیکن اگر یہی رقم آف شور ٹیکس جنت کے بجائے اس امیر آدمی یا کارپوریشن کے اپنے ملک کے بینک یا اس ملک کے کسی مالیاتی ادارے میں جمع ہو جہاں یہ منافع کمایا گیا  تو اس رقم سے سالانہ کم ازکم ایک سو ارب ڈالر کے ٹیکسز وصول ہو سکتے ہیں۔اتنی رقم اگر سالانہ درست طریقے سے خرچ ہو جائے تو عالمی غربت ہماری اگلی نسل کے لیے محض قصے کہانیوں میں رہ جائے۔ مگر ایسا کیسے ہو گا اور کون کرے گا ؟ حیرت یہ نہیں کہ ارتکازِ دولت دو ہزار دس میں ڈیڑھ سو ہاتھوں سے کم ہوتا ہوتا دو ہزار سولہ میں صرف آٹھ ہاتھوں میں آ چکا ہے۔ بلکہ حیرت اقوامِ متحدہ پر ہے جس نے انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ عدم مساوات کا سامنا کرنے والی ہماری اس دنیا کو دو ہزار تیس تک غربت سے نجات دلانے کا ہدف دیا ہے۔ کاش یہ معجزہ ہو جائے ورنہ اسد محمد خان کے گیت کا یہ مکھڑا  تو بہرحال دو ہزار تیس میں بھی بجے گا.

انوکھا لاڈلا ، کھیلن کو مانگے چاند ، کیسی انوکھی بات رے…

(اس مضمون کی تیاری میں عدم مساوات سے متعلق آکسفیم کی تازہ رپورٹ سے
خوب استفادہ ہوا)۔

وسعت اللہ خان

گڑھ مہاراجہ

$
0
0

ضلع جھنگ، تحصیل احمد پور سیال کا ایک قصبہ، یہ دریائے چناب کے مغربی کنارے پر جھنگ سے ۹۰ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ احمد پور سیال سے اس کا فاصلہ ۲۰ کلو میٹر ہے۔ لیہّ، ملتان اور مظفر گڑھ کو یہیں سے سڑکیں جاتی ہیں۔ یہ تاریخی حیثیت کا حامل قصبہ ہے۔ جب شہاب الدین غوری نے ملتان پر حملہ کیا اور اس غرض کے لیے وہ شور کوٹ پہنچا تو اس نے پہلی فوجی چھاؤنی گڑھ مہاراجہ کے میدان میں ڈالی تھی۔ ملتان کی فتح کے بعد اپنی اس فوجی چھاؤنی کو باقاعدہ شہر میں بدلا اور اس کا نام شاہ نگر رکھا۔ بعد میں یہ شہر مختلف جنگوں کی زد میں آ کر تباہ و برباد ہو گیا۔ یہاں سے تین کلو میٹر کے فاصلے پر حضرت سلطان باہوؒ کا مزار ہے۔ مغلوں کے عہد میں یہ قلعہ قہر گان کا علاقہ کہلاتا تھا۔

مغل بادشاہ شاہجہان نے حضرت سلطان باہو ؒ کے والد محترم سلطان بازید کو ان کی فوجی اور تبلیغی خدمات کے صلہ میں قلعہ قہرگان کے قریب دریائے چناب کے کنارے جاگیر عطا کی تھی۔ یہ علاقہ اس وقت ملتان صوبے کے ماتحت اور اورنگ زیب کی جاگیر میں تھا۔ ۱۶۴۸ء میں اورنگ زیب نے قہرگان (گڑھ مہاراجہ) میں دریائے چناب کے کنارے مضبوط قلعہ تعمیر کروایا کیونکہ اس زمانے میں بلوچوں نے ہلچل اور شورش پیدا کر رکھی تھی۔ وہ خود بھی دو مرتبہ یہاں قیام پذیر ہوا اور حضرت سلطان باہوؒ کی مجلس عرفان سے فیض یاب ہوا۔ بعد میں یہ قلعہ شکستہ ہو گیا تو نواب ولی داد خان کے عہد میں کوڑا رام نے اس کی دوبارہ مرمت کرائی اور شہر بسایا اور اس کا نام راج گڑھ رکھا۔

بعد ازاں یہ علاقہ رجب سیال کی جاگیر میں مل گیا اوریہ علاقہ گڑھ مہر رجب کے نام سے مشہور ہو گیا۔ سکھوں کے عہد میں یہاں شدید سیلاب آیا جس سے عمارتیں منہدم ہو گئیں چنانچہ دیوان مولراج کے عہد نظام میں نوازش علی خان کے دادا نے ۱۸۴۳ء میں موجودہ قصبہ کی بنیاد ڈالی اور یہ علاقہ پھر آباد ہوتا چلا گیا۔ سکھوں کے بعد انگریزی دَورمیں بھی قصبہ آبادی کے لحاظ سے ترقی کرتا رہا۔ ۱۸۴۸ء میں پنجاب پر انگریزوں کے قبضے کے بعد گڑھ مہاراجہ کا علاقہ ضلع مظفرگڑھ میں شامل کیا گیا۔ ۱۸۶۱ء میں نئے بندوبست کے تحت اسے ضلع جھنگ کی تحصیل شور کوٹ میں شامل کر دیا گیا۔ ۱۹۱۹ء کی ایک سرکاری دستاویز کے مطابق اس وقت یہاں تھانہ اور ڈاکخانہ موجود تھے۔

کپاس اور گندم علاقے کی اہم زرعی پیداوار ہیں۔ واجد علی واجد یہاں کے معروف شاعر ہیں۔ ان کا مجموعہ ساغر شائع ہوا۔ معروف پنجابی گلوکار منصور ملنگی کا تعلق بھی اسی قصبے سے ہے۔ گڑھ مہاراجہ کی آبادی ۱۹۸۱ء میں ۱۶۲۳۳ اور ۱۹۹۸ء میں ۲۵۰۹۴ نفوس پر مشتمل تھی۔ اب اس کی آبادی ۳۴ ہزار کے لگ بھگ ہے۔

( اسد سلیم شیخ کی کتاب ’’نگر نگر پنجاب: شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس - 

سخت سردی میں پاکستانی مزدور کی محنت

$
0
0

کون نہیں چاہے گا کہ سخت سردی میں کمرے میں لحاف میں بیٹھ کر گرم چائے کا  مزہ نہ لے یا پھر صبح دیر تک سو کر سستا رہے۔ لیکن پاکستان میں موجود غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے ہر موسم ایک سا ہی ہے۔
شدید سردی ہو، طوفانی بارش یا پھر جلا دینے والی گرمی ہو، دو وقت کی روٹی کمانے کی خاطر کوئی سڑک پر جوتے مرمت کرتا ہے، تو کوئی سبزی بیچتا نظر آتا ہے۔ ایسے ہر فرد کی اپنی ہی ایک کہانی ہے، اور اس کہانی سے طویل جدوجہد کی عکاسی ہوتی ہے۔

 










Bullock Cart Racing in Punjab, Pakistan

$
0
0

A bullock cart or ox cart is a two-wheeled or four-wheeled vehicle pulled by oxen (draught cattle). It is a means of transportation used since ancient times in many parts of the world. They are still used today where modern vehicles are too expensive or the infrastructure does not favor them. Used especially for carrying goods, the bullock cart is pulled by one or several oxen (bullocks). The cart (also known as a jinker) is attached to a bullock team by a special chain attached to yokes, but a rope may also be used for one or two animals. The driver and any other passengers sit on the front of the cart, while load is placed in the back. Traditionally the cargo was usually agrarian goods and lumber.

فیس بک کا استعمال بند کر دینا چاہیے، کیوں؟

$
0
0

آپ نے اکثر مضامین میں یہ پڑھا ہو گا کہ سوشل میڈیا کا استعمال کس طرح خود اعتمادی کو بری طرح نقصان پہنچاتا ہے اور احساس کمتری پیدا کرتا ہے، لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ صرف ایک ہفتے تک فیس بک کا استعمال ترک کر دینا دماغی صحت کو کافی بہتر بنا سکتا ہے۔ سائبر سائیکولوجی نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ڈنمارک کے 1100 افراد کو ایک ہفتے کے لیے فیس بک ترک کرنے یا اس پر مسلسل موجود رکھنے کے لیے چنا گیا۔ تحقیق سے پہلے اور بعد میں شرکا سے چند سوالات کیے گئے، جس میں پوچھا گیا کہ وہ زندگی سے کتنے مطمئن ہیں اور تنہائی، خوشی، پریشانی اور جوش جیسے جذبات کی سطح کو کتنا محسوس کرتے ہیں۔ تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ لوگوں کا سوشل میڈیا استعمال کرنے کا انداز نتائج پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے۔

رضا کاروں کی جانب سے فیس بک پر صرف کیے گئے وقت اور ان کے دوستوں کی تعداد طے کرتی ہے کہ وہ سائٹ کتنی استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سروے میں پوچھا گیا کہ فیس بک رضاکاروں کو حاسد بناتا ہے اور آیا وہ زیادہ پوسٹ کرتے ہیں یا ایسے ہی سکرول کرتے رہتے ہیں۔ ایک ہفتے بعد جو سائٹ سے دور رہے، انہوں نے زندگی میں اطمینان اور جذبات میں ٹھہراؤ میں بہتری ظاہر کی جبکہ سوشل میڈیا زیادہ استعمال کرنے والوں نے ذہنی صحت میں سب سے زیادہ مدد حاصل کی جبکہ کبھی کبھار اپنے پیجز دیکھنے والوں میں کوئی تبدیلی نہیں دکھائی دی، تو اس سے پہلے کہ آپ فیس بک کا ’’ڈی ایکٹیویٹ بٹن ڈھونڈیں۔ یہ جان لیں کہ یہ تحقیق کافی محدود تھی۔

رضاکاروں کو معلوم تھا کہ انہیں فیس بک کا استعمال ترک کرنا ہے یا جاری رکھنا ہے۔ اس لیے ہو سکتا ہے، پہلے سے ہی ان کا ذہن بنا ہوا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے سو فیصد سچ نہ بولا ہے۔ اس کے باوجود اگر آپ خود پر غور کریں، تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ فیس بک کی وجہ سے حسد اور عداوت بڑھ رہی ہے۔ خاص طور پر ان فیس بک صارفین نے، جو بہت زیادہ سماجی معلومات پیش کرتے ہیں اور یوں تقابل کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ 

کشمیر ڈائری : ’بیٹی کی موت میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہی‘

$
0
0

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گذشتہ چھ ماہ کے دوران انڈیا مخالف مظاہروں کے دوران سکیورٹی فورسز اور پولیس کی کارروائیوں میں تقریباً 100 عام شہری ہلاک ہوئے اور ہزاروں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ اس وقت ہزاروں کشمیری نوجوان جیلوں میں قید ہیں اور کشمیری صنعت پر بھی اس کا برا اثر پڑا ہے۔ ان حالات سے کشمیری لوگ ایک عجیب سی ذہنی الجھن کا شکار ہیں اور ماہرین کے مطابق بڑی تعداد میں لوگ ذہنی امراض میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں۔ بڑی تعداد میں کشمیری خواتین کو طرح طرح کی ذہنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ایسی خواتین کی تعداد میں حالیہ دنوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے.
ماہرین کے مطابق گذشتہ چھ ماہ کے حالات نے تو صورت حال کو ابتر کر دیا ہے اور اس سے خواتین بہت زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ ضلع کلگام کے دمہال ہانجی پورہ کی رہنے والی نسیم بیگم کی 16 سالہ بیٹی یاسمین جان نو جولائی کو اپنے گھر کے باہر سیکورٹی فورسز کی گولی سے ہلاک ہو گئی تھیں۔ اس دن سے لے کر آج تک نسیمہ صدمے میں ہیں۔ ان کے گھر کے باہر سناٹا ہے۔ جہاں نسیمہ اب پوری طرح خاموش رہتی ہیں وہیں ان کے شوہر غم سے نڈھال ہیں۔

سسکتی لیتی ہوئی وہ کہتی ہیں: 'میں اس لمحے کو کیسے بھول سکتی ہوں جب میری بیٹی کی لاش کو گھر لایا گیا۔ وہ تو اپنے بھائی کو تلاش کرنے نکلی تھی اور واپس اس کی لاش آئی۔ یہاں ہر طرف گولیوں اور آنسو گیس کی بوچھاڑ ہو رہی تھی۔ ہر طرف خوف تھا۔‘ انھوں نے بتایا کہ کچھ دن پہلے ان کی بیٹی کا 12 ویں جماعت کا نتیجہ آیا۔ وہ پاس ہو گئیں لیکن انھیں نیند کے لیے دوائیں لینی پڑتی ہیں۔ 'اس دن سے خوف اور میری بیٹی کی موت میرا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہے۔'
نسیمہ کے شوہر عبد الرحمن وانی بیٹی کی موت سے نڈھال اور بیوی کے ذہنی الجھن کی وجہ سے کافی پریشان ہیں۔ وہ کہتے ہیں: 'میری بیوی اس دن سے صرف رو رہی ہیں۔ اب یہ امراض قلب کا شکار ہو چکی ہیں۔'

سری نگر کے بیمنا کی رہائشی 48 سالہ شمیم ​​بھی اپنے بیٹے کی جدائی اور اس کی گرفتاری کا بوجھ برداشت نہیں کر پا رہیں۔ سکیورٹی فورسز نے ان کے بیٹے کو گرفتار کیا تھا اور تب سے وہ بہت پریشان ہیں۔ ان کا 18 سالہ بیٹا گذشتہ تین ماہ سے جموں کے کوٹ بلوال جیل میں سنگ بازی کے الزام میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قید ہے۔ وہ کہتی ہیں: 'جب سے میرا بیٹا گرفتار کیا گیا تب سے میں سو نہیں پاتی۔ مجھے دوا کا سہارا لینا پڑتا ہے، خاص طور پر امراض قلب کی دوائیں۔ بیٹے کی گرفتاری سے پہلے میں بالکل ٹھیک تھی۔ اب کئی بیماریوں نے مجھے گھیر لیا ہے۔'ان کا کہنا تھا کہ 'جس رات پولیس آئی اور بیٹے کو لے کر گئی، پورے محلے میں خوف کا ماحول تھا۔ میرے دماغ میں اب بھی وہ چیخ پکار گونج رہی ہے۔ مجھے کئی ڈاکٹروں کے پاس علاج کے لیے لے جایا گیا ہے۔'

نفسیاتی امور کے سرکاری ہسپتال کے سابق سربراہ ڈاکٹر مشتاق مرغوب کہتے ہیں کہ گذشتہ 28 سالوں سے پہلے ہی جو ذہنی الجھنیں خواتین میں تھیں ان میں اب بہت اضافہ ہوا ہے۔'وہ کہتے ہیں: 'گذشتہ چار یا پانچ مہینوں میں کشمیر کے جو حالات رہے، ان میں کرفیو بھی تھا، ہڑتال بھی تھی، تشدد بھی تھا۔ کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا تو ایسی صورت حال میں کشمیری خواتین میں ذہنی تناؤ بڑھنے کا خدشہ زیادہ ہے۔'ڈاکٹر مرغوب بھی کہتے ہیں کہ وہ تو اب مریض کو دیکھنے کی بجائے کمیونٹی میں جاتے ہیں جہاں ان کو یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ مریض کون نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا: 'یقینی طور پر جن مریضوں کو میں نے دیكھا ہے اس میں ‎وہ خواتین زیادہ ہیں جو گذشتہ چھ ماہ کے حالات کی داستانیں لے کر آئی ہیں۔'

ایسے جو لوگ ذہنی امراض میں مبتلا ہیں وہ ماہرین نفسیات کے پاس جانے سے بھی ڈرتے ہیں کیونکہ اس سے انھیں سماج میں بدنامی کا خوف رہتا ہے۔
سری نگر میں نفسیاتی امور کے ماہر ڈاکٹر مقبول احمد کہتے ہیں کہ وہ 'گذشتہ کچھ مہینوں سے جن مریضوں کو دیکھ رہے ہیں ان میں 60 فیصد خواتین ہیں۔'
ڈاکٹر مقبول کے اعداد و شمار کے مطابق اپریل 2016 سے اکتوبر 2016 تک ان کے دو ہسپتالوں میں تقریباً 46،000 مریض آئے۔

ماجد جہانگير
بی بی سی، سرینگر

پانچ فروری : یوم یکجہتی کشمیر کا پیغام

مردان اور آثارِ قدیمہ

$
0
0

مردان پاکستان کا تاریخی شہر ہے یکم جولائی 1988ء کو صوبہ خیبرپختونخوا کے تاریخی شہر مردان کو ڈویژن کا درجہ ملا۔ اس طرح خیبر پختونخوا میں چھٹا ڈویژن مردان ڈویژن ہے۔ مردان کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بزرگوں کا کہنا ہے کہ اوائل میں اس علاقہ کو ایک ممتاز روحانی پیشوا مردان شاہ کے نام سے موسوم کیا گیا حتیٰ کہ یہ سارا علاقہ ہی مردان کے نام سے پکارا جانے لگا۔ مردان، خیبر پختونخوا کے صدر مقام پشاور سے 40 میل دور شمال مشرق میں واقع ہے۔ مردان دور غلامی میں پشاور کی تحصیل تھا جسے یکم جنوری 1937ء میں ضلع کا درجہ دیا گیا۔ پاکستان کے ایک سابق صدر سکندر مرزا مرحوم ضلع مردان کے پہلے ڈپٹی کمشنر مقرر کیے گئے۔ ضلع مردان کے تاریخی مقامات شہباز گڑھی، گڑھی، اور تخت بھائی ایک دوسرے سے 9 میل کے فاصلے پر ہیں یہاں کے آثار قدیمہ مردان کی تاریخی عظمت کا تعین کرتے ہیں۔
مردان کا علاقہ بیرونی حملہ آوروں کے ہاتھوں کئی مرتبہ شکست و ریخت سے گزرا اور محمود غزنوی سے احمد شاہ ابدالی تک تمام مسلمان سلاطین ہندوستان پر لشکر کشی کے دوران ان علاقوں سے گزرے۔ مردان چھائونی کی تاریخ خاصی طویل ہے 1850ء میں سب سے پہلے یہاں گائیڈوں نے ڈیرہ جمایا اور بعدازاں یہ فوجی دستے بغداد اور گوجر گڑھی تک پھیل گئے دسمبر1853ء میں مردان قلعے کی تعمیر شروع ہوئی جس میں 1200 مقامی مزدوروں نے حصہ لیا۔ مردان میں جگہ جگہ تاریخی آثار پائے جاتے ہیں۔ سوتی مردان سے 9 میل دور، مردان مالاکنڈ روڈ پر ایک پہاڑی پر جو سطح سمندر سے کوئی 2ہزار فٹ بلند ہے قدیم زمانہ کے کھنڈرات پائے جاتے ہیں۔ پہاڑ کی عین چوٹی پر بودھوں کی ایک عبادت گاہ اور درس گاہ کے آثار موجود ہیں۔ مردان سے 8 میل مشرق کو صوابی جانے والی شاہراہ پر شہباز گڑھ کا تاریخی قصبہ واقع ہے شہنشاہ بابر نے تزک بابری میں اس کا ذکر کیا ہے کہ قصبے نے موجودہ نام شہباز قلندر نامی ایک بزرگ سے پایا ہے۔

جو بابر کی آمد سے 30 برس پیشتر فوت ہو چکے تھے۔ مردان صوابی روڈ پر شہباز گڑھ سے کوئی 12 میل شمال مشرقی کو اسوڑ قصبہ ہے یہاں سے ایک ذیلی سڑک شیوہ کو بھی نکلتی ہے اس جگہ پتھروں کی بنی ہوئی ایک قدیم عمارت کے آثار ملے ہیں۔ محققین کہتے ہیں کہ پتھر کی یہ عمارت ایک قدیم عبادت گاہ تھی جہاں سورج دیوتا کی پرستش کی جاتی تھی۔ تخت بھائی کے قدیم قصبے سے دو ڈھائی میل جنوب مغرب میںساری بہلول کا گائوں ایک اونچے ٹیلے پر ہے۔ ساری بہلول خیبرپختونخوا میں گندھارا آرٹ کا بہت بڑا خزینہ ہے، مردان سے 20 ,21 میل مشرق میں سنگھائو کے مقام سے ملنے والے پتھر کے اوزار آج سے 40 ہزار برس پہلے کی انسانی آبادی کا پتہ دیتے ہیں۔ مردان کو تاریخی اور تجارتی لحاظ سے خیبرپختونخوا کے اہم شہر کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ شہر اپنے دامن میں اتنی داستانیں پنہاں کیے ہوئے ہے جتنی کسی قدیم شہر کی ہو سکتی ہیں لیکن کسی نے ان تاریخی مقامات اور یاد گاروں کے پیچھے چھپی ہوئی داستانیں پڑھنے کی کوشش نہیں کی۔

اس خطے میں بدھ مت کے کھنڈرات، محمود غزنوی، نادر شاہ، احمد شاہ ابدالی، مغلوں، درانیوں، سکھوں اور انگریزوں کی فتوحات اس بات کی آئینہ دار ہیں کہ یہ علاقہ ماضی میں مختلف تہذیبوں کا مسکن رہا ہے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ 326ء ق م میں یونان شہنشاہ سکندر اعظم سوات اور بونیر کے راستے سے ہوتا ہوا مردان کے علاقے آیا اور اٹک سے 20 میل شمال مشرق میں ہنڈ نام کا ایک شہر بسایا جو برسوں وادی گندھارا کا دارالحکومت رہا۔ مردان کینٹ کے علاقے میں برطانوی دور حکومت کی قائم کردہ ایک یادگار عمارت موجود ہے جسے 1892ء میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا انگریزی اقتدار کی حفاظت کرتے ہوئے کوئین اون کیولری کے سپاہیوں کے دستے جس میں سکھوں اور ہندوئوں کے علاوہ مسلمان سپاہی بھی شامل تھے۔ 3 ستمبر1879ء کو کابل ریذیڈنس پر افغانوں کی یلغار پر کندہ ہیں اس یادگار عمارت کے دائیں جانب پہلی منزل پر چند سیڑھیاں چڑھنے کے بعد ایک چوبی تختہ دیوار کے ساتھ سیڑھیوں میں نسب کیا گیا ہے۔

عام طور پر لوگ اس تختے کے بارے میں نہیں جانتے حالانکہ یہ تختہ ہماری تاریخ کا روشن باب ہے اس تختے کے پیچھے صوبہ خیبرپختونخوا کے نپولین عمرا خان کا چہرہ چھپا ہوا ہے جس نے ماضی میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی یہ مضبوط چوبی تختہ جس کی موٹائی 4 انچ ہے منڈا قلعہ، دیر کے اس دروازے کا حصہ ہے جسے سر کرنے کی مہم میں انگریزوں کو قدم قدم پر خیبرپختونخوا کے مجاہدوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ عمرا خان، منڈا قلعہ کا سردار تھا اس کی بے مثال بہادری اور شجاعت کی داستانیں آج بھی یہاں کے بچے بچے کی زبان پر ہیں۔ انگریز قلعے کے دروازے کا ایک حصہ فتح کی نشانی کے طور پر اُکھاڑ کر مردان لے آئے مالا کنڈ کی جنگ میں عمرا خان کے خلاف استعمال کی جانے والی توپیں بھی مردان میں تعمیر کی جانے والے میوزیم میں یاد گار کے طور پر رکھ دی گئیں۔ آج بھی یہ توپیں عمرا خان کی توپوں کے نام سے مشہور ہیں۔ 

شیخ نوید اسلم
(پاکستان کے آثارِ قدیمہ) 

کشمیر ہماری شہ رگ ہے

$
0
0

5 فروری کو قوم سڑکوں پر آ کر بھارتی ظلم و استبداد اور جبروتشدد کے شکار خون میں لت پت کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتی ہے جس میں دنیا کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ "مسئلہ کشمیر "اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے ۔ اقوام متحدہ کے ریکارڈ پر سب سے قدیم اس مسئلے کو ایک مخصوص منصوبہ بندی کے تحت دو ملکوں کا زمینی تنازعہ بنا نے کی کوشش جاری ہے ۔ یہ دو ممالک کا تنازعہ نہیں، بلکہ سوا کروڑ کشمیریوں کے مستقبل کا مسئلہ ہے، جس میں ان کے عقیدے، ثقافت اور رضامندی کے خلاف زندگیاں گزارنے پر مجبور کیا جا رہا ہے ۔ ان کی آبادی کو کم کیا جا رہا ہے ، بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں معمول بن چکا ہے، مہذب دنیا کے ملکی قانون کے مطابق کسی فرد کو تحریری وجہ بتائے بغیر گرفتار نہیں کیا جا سکتا ، لیکن بھارت میں جمہوریت کی دیوی کا ظہور ہونے کے باوجود نہ صرف لوگوں کو بغیر کسی وجہ کے گرفتار کیا جاتا ہے، بلکہ ان کو قتل کر دیا جاتا ہے یا نا معلوم گڑھوں میں پھینک دیا جاتا ہے ۔ یہاں جنگل کا قانون ہے جو خونخوار اور وحشی درندوں کے ہاتھوں میں ہے ۔

اسی وحشت، سفاکیت،چنگیزیت ، جارحیت اور جبر کے خلاف مظلوم کشمیری سات دہائیوں سے احتجاجی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ جب سے اس تحریک نے زور پکڑا ہے پاکستانی عوام کشمیریوں سے یک جہتی کے اظہار کے طور پر ملک کے طول و عرض میں ہر سال پانچ فروری کویہ دن مناتے ہیں ۔ اس کا ایک اہم مقصد عالمی ضمیر کو بیدار کرنا بھی ہے، جس نے کشمیریوں کی طرف سے پُر اسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔ دوسرا بھارت کے دعوے کو "جس میں وہ کشمیر کو اٹوٹ انگ سمجھتا ہے "غلط ثابت کرنا ہوتا ہے ۔

پاکستان نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ کشمیریوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا، کیونکہ دونوں لازم و ملزوم ہیں ۔ پاکستان ایک جسم ہے اور کشمیر اس کی شہہ رگ ہے ۔ فطرت نے کشمیر کی تمام وادیوں ، دریاؤں، شاہراہوں اور گزرگاہوں کا دروازہ پاکستان کی طرف کھول کر شہہ رگ سے جسم کو جوڑ دیا ہے ۔ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ ایک حصے کو تکلیف ہو تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے۔ یہی درد پاکستان بھی محسوس کرتا ہے ۔ بھارتی درندوں نے آج پوری وادی کو حصار میں لے رکھا ہے۔ امت کی بیٹیوں کی ردائے عصمت تار تار کی جاتی ہے نوجوانوں کو پکڑ کر عقوبت خانوں میں بند کر دیا جاتا ہے، جہاں وہ تڑپ تڑپ کر جان اور جسم کا رشتہ توڑ دیتے ہیں ۔ان مصائب، تکالیف اور درد سے جہاں کشمیری تڑپتے اور بلکتے ہیں، وہاں پاکستانیوں کے دل بھی کڑھتے اور خون کے آنسو روتے ہیں ۔ پانچ فروری کو پاکستانی کشمیری بھائیوں کے کرب اور تکلیف کو بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔

کشمیری بھائیوں کے حق میں آواز بلند کرنا پاکستانی اپنا فرض سمجھتے ہیں ، لیکن ازلی دشمن (بھارت) بڑی عیاری اور مکاری سے اپنے قبضے کو طوالت دیتا جا رہا ہے ۔ اس سلسلے میں دنیا بھر میں ایک بھر پور قسم کی بیداری مہم کی ضرورت ہے ۔ پانچ فروری کا احتجاج بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ تحریک جنوبی ایشیائی یا بین الاقوامی تحریکوں کی طرح نہیں، جہاں محروم طبقات اپنے حقوق کے لئے جدو جہد کر رہے ہیں، بلکہ یہ بھارت کے سامراجی ہتھکنڈوں کے خلاف ایک آواز ہے ، امت مسلمہ کی گئی ایک فریاد اور عالمی اداروں کے لئے یاد دہانی ہے ۔ دیگر تحریکیں وطنیت اور مخصوص علاقوں کی بنیاد پر جاری ہیں، لیکن کشمیر کی تحریک دو قومی نظریے کی بنیاد پر جاری ہے، جہاں ایک طرف بھارتی بالادستی کا استرداد ہے اوردوسری طرف غاصبانہ بھارتی قبضے کے خلاف ایک احتجاج ہے ۔

کشمیریوں کے پاس اپنی سر زمین موجود ہے، جہاں وہ اپنی صدیوں پرانی روایت، مذہب اور ثقافت کے مطابق زندگیاں گزارنے کا پیدائشی حق رکھتے ہیں ۔ اس سے انکار غیر فطری اور غیر منطقی ہے ۔ اگر یہ تحریک نظریے کے بجائے کسی دوسری بنیاد پر استوار ہوتی توکب کی ختم ہو چکی ہوتی ۔ نظریات کی تحریکوں کا دورانیہ طویل وقت پر محیط ہوتا ہے اور لازمی طور پر اپنی منزل کو پا لیتی ہیں ۔ مزید یہ کہ دونوں طرف کے کشمیریوں کو جوڑنے کی اساس چونکہ لا الہ الا اللہ ہے، اس لئے اسے کامیابی سے ہمکنار ہونے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔ 80کے عشرے کے آخری سالوں میں مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں نے ریاست میں جاری نام نہاد سیاسی نظام کا حصہ بننا چاہا تو دہلی میں بیٹھے سیاسی پنڈتوں کو یہ پسند نہ تھا کہ مسلم جماعتوں کا اتحاد کامیاب ہو ۔ ریاستی حکومت سمیت سب ہندوؤں کو خدشہ تھا کہ مسلمان جموں و کشمیر اسمبلی میں اکثریت حاصل کر کے ان کو کسی بحران سے دو چار نہ کر دیں ، لہٰذا جیسے تیسے بھی ہو انتخابات (1987ء) میں اس اتحاد کو کامیاب نہ ہونے دیا جائے ۔ ان انتخابات میں وسیع پیمانے پر رگنگ کر کے جس بد دیانتی کا مظاہرہ کیا گیا، اس کے خلاف کشمیریوں نے شدید احتجاج کیا اور تحریک آزادی کو ایک نیا رنگ دیتے ہوئے بھارتی فوجی درندوں کے خلاف ڈٹ گئے ۔

1988ء کے بعد بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف جاری تحریک میں یہ ایک نیا موڑ تھا۔ کشمیریوں نے اس ریاستی اقدام کے خلاف احتجاج اور مظاہروں میں بہت چھو ٹے پیمانے پر طاقت کو استعمال کرنا شروع کر دیا ۔ اس کا سبب بھی 1987ء میں ہونے والے ریاستی انتخابات تھے، جن کے دوران کچھ سیاسی جماعتوں نے اپنے مسلح ونگ تشکیل دیئے۔ بھارتی افواج کو کشمیر میں احتجاج کرنے والوں کو ریاست میں غیر ملکی عنصر قراردے کر قتل کرنے کی کھلی چھٹی دی گئی تھی۔ سیاسی جماعتوں کے ان غنڈوں اور انتہا پسند ہندو گروپوں نے ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کو قتل کیا جن میں ریاستی فوج اور انتظامی محکموں کے سرکاری اہلکاروں کی معاونت بھی شامل تھی ۔ وسیع پیمانے پر بڑھتے ہوئے ریاستی تشدد اوربنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، خصوصاََ مذہبی اور سیاسی حقوق کی پامالی نے جلتی ہوئی آگ پر تیل کا کام کیا ۔ مقامی لوگوں کا مذکورہ ریاستی اقدام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا بھارت کو سخت ناگوار گزرا ۔ پاکستان کی طرف سے کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری تھی ۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کی شمولیت کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور اس پر کشمیری مجاہدین کی مدد کا الزام بھی لگایا گیا۔ ان حالات میں پاکستان نے پانچ فروری کے دن کو کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس دن پاکستان کے تمام حلقے کشمیریوں سے مکمل یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کے ان تمام حیلوں بہانوں سے پردے اٹھتے جا رہے ہیں، جن کی بنیاد پر بھارت نے قبضے کا ڈرامہ رچایا تھا۔ پاکستان کے علاوہ کشمیر کا کوئی مستقبل نہیں ۔ تمام سیاسی جماعتیں اس دن بڑھ چڑھ کر اس مسئلے پر اتحاد کا مظاہرہ کرتی ہیں کہ کشمیر ہر لحاظ سے پاکستان کا حصہ ہے، جسے بھارت نے ایک فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر رکھا ہے ۔ دونوں ملکوں میں کشیدگی کی بنیادی وجہ کشمیر ہے، جس سے بھارت کو ایک دن دست بردار ہونا پڑے گا اور اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں پر عمل درآمد کروانے کے لئے کشمیری عوام کو حق خودارادیت دینا ہو گا۔

طارق احسان غوری





سندھ کی قدیم تہذیب کے لوگوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کیا، تحقیق

$
0
0

 آج کی دنیا میں آب و ہوا میں تبدیلی (کلائمٹ چینج) زراعت سے لے کر طرزِ زندگی تک ہر معاملے پر اثر انداز ہو رہی ہے لیکن اب 7 سالہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ قدیم وادی سندھ کے لوگ موسموں کے بدلتے ہوئے مزاج سے نہ صرف آشنا تھے بلکہ خود کو اس لحاظ سے ڈھالنے کی کئی عملی تدابیر بھی اختیار کی تھیں۔
کرنٹ اینتھروپولوجی نامی تحقیقی جریدے نے فروری میں ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا ہے جس میں جنوبی ایشیا کی عظیم موہن جو دڑو اور ہڑپہ تہذیب پر موسمیاتی اثرات اور اس پر عوامی ردِعمل کو نوٹ کیا گیا ہے۔ 3 ہزار قبل مسیح سے لے کر 1300 قبل مسیح تک پروان چڑھنے والی یہ تہذیب پاکستان سے ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی جب کہ اس کے مسقط سے بھی روابط تھے۔
یونیورسٹی آف کیمبرج اور بنارس یونیورسٹی بھارت کے ماہرین نے 2007 سے 2014 تک بھارت میں وادی سندھ کے مشہور آثار کوٹلہ ڈاہر اور اس کے نزدیک واقع ایک گہری جھیل اور اس کے اطراف آبادی میں پانی، زراعت اور زمین پر تحقیق کی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق تمام آبادیوں میں پانی کو مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے، موہن جو دڑو کی تہذیب قدیم بھی ہے اورپیچیدہ بھی، جہاں 2500 سے 1900 قبل مسیح تک مون سون بارشوں میں کمی واقع ہوئی اور جھیل کی سطح کم ہوئی۔

اس کا مقابلہ کرنے کے لیے وادی سندھ کے لوگوں نے زراعت میں تبدیلی کی، چاول، دالیں اور باجرہ کی کاشت جاری رکھی۔ ان میں سے چاول کے لیے بہت پانی درکار ہوتا ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلی کے باوجود قدیم لوگوں نے کسی نہ کسی طرح پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے رکھا۔ اس کے علاوہ دیگر شواہد سے بھی معلوم ہوا ہے کہ وادی سندھ کے لوگ تیزی سے بدلتے ہوئے موسم کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔


پاکستان سے جُڑنے کیلئے چین کا مزید سرمایہ کاری کا فیصلہ

$
0
0

چین کو پاکستان سے بہتر طریقے سے جوڑنے کے لیے چینی حکومت نے مزید 24.8 ارب ڈالر کی سرمایہ کا فیصلہ کر لیا۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے مطابق چینی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے مسلم اکثریتی والے صوبے سنکیانگ میں شاہراہوں کا جال بچھانے کے لیے 24.8 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔ واضح رہے کہ سلک روڈ اکنامک بیلٹ کے ذریعے دیگر ممالک سے چین کا جو صوبہ جڑے گا وہ سنکیانگ ہو گا لہٰذا چینی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ یہاں بہترین سڑکیں تعمیر کی جائیں تا کہ پاکستان اور دیگر ممالک کے درمیان بہتر طریقے سے آمد و رفت ہو سکے۔
مختص کی گئی رقم سنکیانگ میں رواں برس ہی استعمال کی جائے گی جو کہ 2016 کی نسبت 6 گنا زیادہ ہے۔ سنکیانگ کے معاشی منصوبہ بندی کے اعلیٰ عہدے دار نے بتایا کہ انفرااسٹرکچر کے نئے منصوبوں کی بدولت علاقے میں سیکڑوں لوگوں کو روزگار ملے گا۔ سنکیانگ ڈویلمپنٹ اینڈ ریفارم کمیشن کے ڈائریکٹر ژینگ چن لن نے بتایا کہ اس خطے میں اس سے قبل اتنے بڑے پیمانے پر کبھی بھی سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ سنکیانگ میں 1.18 ارب ڈالر ریلوے جبکہ 0.7 ارب ڈالر ایوی ایشن کے شعبے میں بھی خرچ کیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ اس وقت سنکیانگ کے 40 فیصد شہر اور قصبے ایسے ہیں جو ہائی وے کے ذریعے منسلک نہیں۔

ژینگ کا کہنا ہے کہ 'ہائی ویز کے بغیر سنکیانگ کا تیل، کوئلہ اور زرعی اجناس بہتر طریقے سے صوبے سے باہر نہیں جا سکتا اور ذرائع نقل و حمل ہموار نہ ہونے کی وجہ سے لاگت بھی کئی گنا بڑھ جائے گی'۔ فی الوقت صرف ایک ہائی وے ایسی ہے جو سنکیانگ کو چین کے دیگر مشرقی حصوں سے جوڑتی ہے اور وہ سڑکیں جو اس وقت چین کے پڑوسی ممالک کو سنکیانگ سے جوڑتی ہیں وہ اس قابل نہیں کہ مستقبل میں ہونے والی تجارتی سرگرمیوں کا بوجھ برداشت کرسکیں۔ ژینگ کا کہنا ہے کہ بہتر ٹرانسپورٹیشن کے بغیر سلک روڈ اکنامک بیلٹ کے تحت سنکیانگ کا معاشی حب بننا ممکن نہیں لہٰذا سنکیانگ کو اس چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

چینی حکومت اکنامک بیلٹ کے حوالے سے سنکیانگ کو انتہائی اہم تجارتی مرکز تصور کرتی ہے جس کی سرحدیں قازقستان، پاکستان اور منگولیا سے ملتی ہیں۔
واضح رہے کہ سلک روڈ اکنامک بیلٹ چینی صدر شی جن پنگ کا 'ایک خطہ ایک سڑک'وژن کا حصہ ہے جو انہوں نے 2013 میں پیش کیا تھا اور اس کا مقصد قدیم تجارتی راہداری کو بحال کرنا ہے۔ اس سلسلے میں چین پاکستان میں بھی چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پر 46 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

پاکستان میں ہر سال 240 ارب روپے کی خیرات

$
0
0

پاکستان میں ہر سال انفرادی سطح پر دی جانے والی خیرات کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ملک کے 98 فیصد گھرانے جو رقم خیرات، صدقات اور عطیات کی صورت میں دیتے ہیں اس کی کل مالیت 240 ارب روپے بنتی ہے۔ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) میں منگل کو ایک تقریب میں پیش کی جانے والی اس رپورٹ کے مطابق پاکستانی شہری ہر سال مختلف معاشرتی اور مذہبی وجوہات کی بنا پر دل کھول کر خیرات کرتے ہیں۔ یہ رپورٹ انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے اور اس کے خاص نکات میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 1998 سے لے کر سنہ 2014 تک سالانہ دی جانے والی خیرات کی رقم میں تین گنا اضافہ ہوا ہے اور یہ 70 ارب سے بڑھ کر 240 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔

رپورٹ سے اخذ کیے گئے نتائج میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ انفرادی سطح پر دی جانے والی خیرات کا 68 فیصد حصہ براہ راست ضرورت مند رشتہ داروں، معذور افراد اور بھکاریوں کو دیا جاتا ہے۔ مدرسوں اور مساجد کو ملنے والی خیرات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ خیراتی اداروں کی طرف سے صرف تین فیصد حصہ مساجد اور مدرسوں کو ملتا ہے جبکہ رپورٹ کے مطابق نجی طور پر دی جانے والی خیرات کا تقریباً 30 فیصد مساجد اور مدرسوں کے حصے میں آتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے زیادہ تر لوگ مذہبی بنیادوں پر خیرات کرتے ہیں جب کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کی جانے والی خیرات اس کے بعد آتی ہے۔
اس رپورٹ میں ملک کے مختلف صوبوں سے دی جانے والی خیرات کے اعداد و شمار دیے گئے ہیں اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہر سال 113 ارب کی خیرات دی جاتی ہے جبکہ سندھ میں 78 ارب روپے، خیبر پختونخوا سے 38 ارب روپے اور بلوچستان سے 10 ارب روپے کی خیرات دی جاتی ہے۔ رپورٹ میں زکوٰۃ اور زکوٰۃ کے علاوہ دی جانے والی خیرات کے اعداد و شمار بھی ہیں جن کے مطابق زکوٰۃ کی مدد میں 25 ارب روپے جبکہ زکوٰۃ کے علاوہ تقریباً 71 ارب روپے دیے جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کھالوں کی صورت میں جو خیرات ہوتی ہے اس کی مالیت پانچ ارب روپے بنتی ہے جبکہ ملک کے مختلف حصوں میں قائم مزاروں اور درباروں کو ساڑھے چھ ارب روپے خیرات اور صدقات کی صورت میں ملتے ہیں۔

فراز ہاشمی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام

واٹس ایپ کے 6 چھپے فیچرز جن کا آپ کو علم نہ ہو گا

$
0
0

اگر آپ کے پاس اسمارٹ فون ہے اور آپ اس میں انٹرنیٹ بھی استعمال کرتے ہیں تو یقینا آپ واٹس ایپ نامی ایپلی کیشن سے بخوبی واقف ہوں گے۔ بذریعہ انٹرنیٹ مفت پیغام رسائی کے لیے دنیا بھر میں استعمال ہونے والی اس مقبول ترین موبائل ایپ کو قریباً دس سال پہلے پیش کیا گیا تھا۔ ابتداء میں یہ ایپ صرف لکھے ہوئے پیغام بھیجنے اور وصول کرنے کے لیے استعمال کی جاتی تھی لیکن وقت کے ساتھ اس میں آڈیو پیغامات، تصاویر بھیجنے سے لے کر ویڈیو کال اور فائلز کی منتقلی تک بہت کچھ شامل کیا جاتا رہا ہے۔ واٹس ایپ کے چند فیچرز ایسے بھی ہیں کہ جن سے عام لوگ واقف نہیں حالانکہ ان کے استعمال سے واٹس ایپ کو زیادہ بہتر انداز سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس مضمون میں ہم انہی چند فیچرز کو بیان کر رہے ہیں جو بظاہر بہت معمولی لیکن حقیقت میں بڑے کام کے ہیں۔ شور مچانے والا گروپ ’’خاموش‘‘ اکثر اوقات واٹس ایپ گروپس میں ایسی گفتگو یا بحث چھڑ جاتی ہے کہ جس سے آپ کا لینا دینا نہیں ہوتا مگر نوٹیفکیشن آپ کو خاصہ تنگ کر کے رکھ  دیتے ہیں۔ لیکن چونکہ گروپ کئی اعتبار سے آپ کے لیے مفید ہے اس لیے آپ وہاں سے راہ فرار بھی اختیار نہیں کر سکتے۔ ایسی صورتحال میں آپ گروپ کو کچھ وقت کے لیے خاموش کر سکتے ہیں۔ ایپل آئی فون استعمال کرنے والوں کے لیے واٹس ایپ کے گروپ انفومیں "Mute"کا آپشن موجود ہے جبکہ اینڈرائیڈ صارفین کو گروپ چیٹ میں جا کر منیو بٹن دبانے پر یہ آپشن نظر آئے گا۔ 
انٹرنیٹ کا محدود استعمال اگر آپ اسمارٹ فون میں موبائل انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں تو جان لیں کہ واٹس ایپ بہت زیادہ انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے۔ چونکہ واٹس ایپ پر موصول ہونے والا ہر پیغام، تصویر، آڈیویا ویڈیو فائل از خود آپ کے فون میں ڈاؤنلوڈ ہو جاتی ہے اس لیے انٹرنیٹ کی کھپت بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اگر آپ کے پاس لا محدود انٹرنیٹ موجود نہیں اور آپ اپنے پیسے بچانا چاہتے ہیں تو ابھی اپنے واٹس ایپ کی سیٹنگز میں جائیں اور Data usage آپشن پر کلک کریں۔ یہاں آپ کو مختلف آپشن نظر آئیں گے جن میں تصاویر ، آڈیو اور ویڈیو فائل ازخود ڈاؤنلوڈ بند کرنے کا آپشن بھی موجود ہو گا۔ ڈاؤنلوڈنگ صرف وائی فائی پر محدود کر دیں یا پھر بالکل بند کر کے اپنا خرچہ بچائیں۔ 

پیغامات کا منفرد انداز یوں تو واٹس ایپ پر سادہ پیغام ہی بھلا لگتا ہے لیکن اگر آپ لمبے اور طویل پیغام کرنے کی عادت رکھتے ہیں اور اس میں چند باتوں کو زیادہ واضح کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے اپنے الفاظ زیادہ گہرے یعنی bold اور ترچھے یعنی italic بھی کر سکتے ہیں۔ بس آپ کو کرنا یہ ہے کہ جس الفاظ یا جملے کو نمایاں کرنا ہے اس کے شروع اور آخر میں ’’اسٹیرک‘‘ بنا دیں۔ اسی طرح جس الفاظ کا جملے کو ترچھا انداز دینا ہو اس کے شروع اور آخر میں ’’-لائن-‘‘ بنا دیں۔

منتخب پیغام کو سنبھالنا واٹس ایپ پر دوست و احباب یا کسی گروپ میں بے تحاشہ پیغامات آتے رہتے ہیں۔ ایسے میں اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ آپ بات چیت کے دوران بہت سے اہم پیغامات نہ ڈھونڈ پائیں۔ اس مسئلہ کا آسان حل یہ ہے کہ اس میسج کو "Star"کر دیں۔ یہ ایک طرح کا فولڈر ہے جہاں صرف وہی پیغامات نظر آئیں گے کہ جنہیں آپ سنبھال کر رکھنا چاہتے ہیں۔ بعد میں ضرورت پڑنے پر واٹس کے سینکڑوں پیغامات کو چھاننے کی ضرورت نہیں بلکہ starred message میں جائیں اور اپنا محفوظ شدہ پیغام پائیں۔ کسی بھی پیغام کو Star کرنے کے لیے اس پر کچھ دیر انگلی رکھیں اور آپشن نمودار ہونے پر ستارے کو منتخب کریں۔ 

تمام روابط کو ایک ساتھ پیغام بھیجنا اگر آپ ایک ہی میسج اپنے تمام دوستوں، عزیزوں اور رشتہ داروں کو بھیجنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے واٹس ایپ پر گروپ بنانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔ جس طرح ای- میل کرتے ہوئے آپ تمام ای میل ایڈریس ایک ساتھ لکھ کر بھیج سکتے ہیں، اسی طرح واٹس ایپ پر ایک ہی پیغام دو یا زائد روابط کو بھیجنا بھی ممکن ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر شخص کے پاس آپ کا پیغام آپ ہی کے نمبر سے جائے گا اور اس میں کوئی ایسا اشارہ موجود نہ ہو گا کہ یہی پیغام کسی اور کو بھی بھیجا گیا ہے۔ واٹس ایپ میں یہ سہولت Broadcast کے نام سے دی گئی ہے جسے ایپ کے منیو سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

واٹس ایپ کمپیوٹر اسکرین پر واٹس ایپ نے موبائل پیغامات کو کمپیوٹر اسکرین پر پڑھنے اور ان کا جواب دینے کی سہولت بھی فراہم کی ہوئی ہے۔ اسے استعمال کرنے کے دو طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ اپنے کمپیوٹر کے آپریٹنگ سسٹم کے مطابق واٹس ایپ کی ویب سائٹ پر موجود سافٹ ویئر ڈاؤنلوڈ کر کے انسٹال کر لیں۔ دوسرا طریقہ نسبتاً واٹس ایپ کا ہے جسے web.whatsapp.com پر بغیر کسی قسم کی ڈان لوڈنگ اور انسٹالیشن استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان دونوں ہی طریقوں میں واٹس ایپ براہ راست کمپیوٹر اسکرین سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بس ابتداء میں اپنے فون سے صرف پہلی مرتبہ QR کوڈ اسکین کرنا ہو گا اور پھر آپ کے گھر والے پریشان ہوں گے نا ہی دفتر والے۔ 

دانش احمد انصاری

ٹرمپ سوشل میڈیا ایپ پر بھی نفرت کی علامت

$
0
0

 امریکی انجینئر کی جانب سے دو لوگوں کی مشترکہ نفرت کی بنا پر انہیں دوست بنانے والی ایپ تیار کی گئی ہے لیکن اس میں دلچسپ بات یہ ہےکہ ایپ میں نفرت کی علامت کے طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تصویر کو شامل کیا گیا ہے۔
’’ہیٹر‘‘ (Hater) نامی یہ ایپ جو ایپل آئی ٹیون اور گوگل پلے اسٹور سے مفت میں ڈاؤن لوڈ کی جا سکے گی، 2 افراد کو مشترکہ ناپسند یا نفرت کی بنیاد پر آپس میں دوست بناتی ہے۔ اسے برینڈن ایلپر نامی امریکی انجینئر نے تیار کیا ہے۔
برینڈن کا کہنا ہے کہ ’’ہیٹر‘‘ بھی دراصل ان کی حس مزاح کا نتیجہ ہے جسے انہوں نے امریکا میں بڑھتی ہوئی نفرت کے پیش نظر تیار کیا ہے تاکہ ناپسندیدگی کی بنیاد ہی پر سہی لیکن لوگ ایک دوسرے سے محبت کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔ یہ ایپ ایک طرح سے امریکی صدر کی پالیسیوں اور فیصلوں کے خلاف احتجاج بھی ہے کیونکہ اس میں نفرت کی علامت کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کو سب سے زیادہ نمایاں کیا گیا ہے۔

انجینئر کا خیال ہے کہ دوسرے احساسات اور جذبات کی طرح نفرت بھی ہماری زندگی کا ایک اہم جزو ہے لیکن عام طور پر ہم اسے دوسروں سے چھپاتے ہیں تاکہ دوسروں کے سامنے اچھے نظر آئیں۔ ان کا کہنا ہےکہ یہ ایپ کسی بھی انسان کے سچے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے اور اسے استعمال کرتے ہوئے 2 افراد ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں، اس طرح ان میں دوستی یا محبت بھی زیادہ حقیقی بنیادوں پر قائم ہوسکے گی۔

میاں صاحب اس کام میں تختی نہیں لیکن

Viewing all 4346 articles
Browse latest View live