Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

رواں سال 3800 تارکین وطن بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے

$
0
0

اقوام متحدہ کے تارکین وطن کے لیے کام کرنےوالے ادارے (یواین ایچ سی آر) کا کہنا ہے رواں سال 3 ہزار 800 تارکین وطن یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک ہوگئے جو پرخطرراستوں میں ہونے والی سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔ خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے کے ترجمان ولیم اسپنڈلر کا کہنا ہے کہ 'ہم رواں سال میں 3 ہزار 800 تارکین وطن کی بحیرہ روم میں ہلاک ہونے یا غائب ہونے کی تصدیق کرسکتے ہیں،2016 میں ہونے والی یہ ہلاکتیں اب تک کی سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں'۔

گزشتہ سال ہلاک ہونے والے تارکین وطن کی تعداد 3 ہزار 771 تھی جبکہ گزشتہ سال دس لاکھ سے زائد افراد بحیرہ روم کے ذریعے یورپ پہنچے تھے لیکن رواں سال اب تک یورپ پہنچے والوں کی تعداد 3 لاکھ 30 ہزار سے کم ہے۔ تارکین وطن کی یورپ آمد میں ڈرامائی انداز میں کمی مارچ میں ترکی اور یورپی یونین کے درمیان یونان کے جزائر میں مہاجرین کو روکنے کے لیے ہونے والے معاہدے کے بعد شروع ہوئی۔ سب سے خطرناک راستہ لیبیا اور اٹلی کے درمیان ہے جہاں اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال یہاں سے پہنچنے والے ہر 47 لوگوں میں سے ایک کی ہلاکت ہوئی۔
یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ مختصر ترین راستہ ترکی سے یونان کے درمیان ہے جہاں 88 مہاجرین میں سے ایک کی ہلاکت ہوئی ہے۔ ایجنسی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مہاجرین کی آمد میں دو تہائی کمی کے باجود اموات کی شرح میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ اسمگلرز 'پست معیار اور کمزور جہاز استعمال کرتے ہیں جو سلامت منزل تک نہیں پہنچ پاتے'۔ یواین ایچ سی آر کا مزید کہنا تھا کہ اسمگلرز زیادہ منافع کمانے کے لیے کشتیوں میں بڑی تعداد میں لوگوں کو بٹھاتے ہیں تاہم رواں سال خراب موسم کی وجہ سے بڑے حادثات پیش نہیں آئے۔


ہوشیار انٹرنیٹ پورا جاسوس ہے

$
0
0

کیا آپ جانتے ہیں ہمارے زندگیوں کے لازمی جز کمپیوٹر اور اس کے بہت سے
آلات آپ کی لاعلمی میں ہر ممکنہ کوشش میں سرگرداں ہیں کہ ٓآپ کی شخصی معلومات اورحرکات و سکنات کچھ نامعلوم ذرائع کو فراہم کررہے ہیں ۔ اسے سنگین الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ تمام آلات اصل میں کسی اور کے آلہ کار ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ نے انکو اپنی خون پسینے کی کمائی سے خرید ا ہوا ہے۔ انٹرنیٹ پر شخصی جاسوسی کا جال پورے عالم کے لیے ایک درد سر بنا ہوا ہے اور فی الحال اسکے تدارک کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ سمارٹ فون اور سمارٹ ٹیبلٹس کی مقبولیت اور فنی ترقی کے پیش نظر یہ جاسوسی اب بہت بڑے پیمانے پراور بہت آسانی سے ممکن ہوگئی ہے ۔ 

انٹرنیٹ صنعت کاری میں جہاں نت نئے کاروباری قوالب بنے ہیں وہیں ایک یہ قالب شخصی جاسوی یا نگرانی بھی شامل ہے۔ کئی بڑی کمپنیاں اس دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے میں تمام اخلاقی حدود کودن دھاڑے روند رہی ہیں۔ یہ تمام باتیں جو مذکورہ بالا ہیں نئی نہیں ہیں ہم سے بہت سے لوگ اس سے واقف ہیں۔ ان دنوں جس نئی تکنیک کا استعمال کیا جا رہا ہے اس کو سن کر ایک عام انسا نی ذہن دنگ رہ جائے گا۔ بین آلاتی برتاؤ ایک نیا جنون ہے اس میکدے میں جہاں لوگوں کونت نئی اقسام کے خمار کا عادی بنا کر ان کی ہوش مندی اور بیہوشی کا خوب فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ بین آلاتی برتائو میں جس تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے اس میں ٹیلی ویژن، کمپوٹر، سمارٹ فون اور سمارٹ ٹیبلٹس سے بصری شعاعوں کا اخراج کیا جاتا ہے جو انسانی سماعت کے دائرے سے خارج ہوتی ہے جسکی مدد سے مختلف آلات ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوگر کوکیز کے ذریعے سے معلومات کی ترسیل کرتے ہیں۔
اس کو ایک مثال سے اچھی طرح واضح کیا سکتا ہے۔ مثلا جب آپ ٹیلی ویژن پر اپنے پسندیدہ پروگرام کے دوران آنے والے اشتہارات کے دوران کسی اشتہار کو دیکھ کر اپنے سمارٹ فون پر اس اشتہار میں پیش کیے گئے مصنوعات کو تلاش کریں تو ٹیلی ویژن سے خارج ہونے والی شعاعیوں آپ کے سمارٹ فون سے ہم آہنگ ہوکر تلاش کے مقصد سے کھولے گئے براوزر میں موجود کوکیز کی مدد سے یہ معلومات کی ترسیل کرتی ہیں۔ ابھی یہ تکنیک پوری طرح پختہ نہیں ہوئی لیکن بہت سی کمپینیاں اس دوڑ میں شامل ہیں کہ ان معلومات کو کس طرح یکجا کیا جائے تاکہ صارفین کی نفسیات اور دلچسپوں پر مکمل گرفت رکھی جائے اور ان معلومات کو دیگر تجاری دنیا کو فروخت کیا جائے۔ جو ان معلومات کے ذریعے بیش بہا فائدے اٹھا سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ بھی بہت سارے دل لگی اور تفریحی سوفٹ ویرپروگرام اس کھیل میں ملوث ہیں۔ فیس بک ، واٹس اپ ، گوگل جیسے کمپنیاں اس کاروبار میں اعلانیہ اور نمایاں طور پر حصہ لیتی ہیں۔ 

ملک محی الدین، ریاض

قتل و غارت کے وکیل

$
0
0

سگمنڈ فرائڈ وہ شخص ہے جس سے نفسیات کا علم منسوب کیا جاتا ہے۔ یوں تو انسانی نفسیات اور نفسیاتی  بیماریوں پر قدیم طب میں بہت سا مواد ملتا ہے لیکن جس شخص نے اپنے آپ کو انسانی ذہن اور نفسیات کے مطالعے کے لیے خاص کرلیا وہ سگمنڈ فرائڈ ہی تھا۔ وی آنا کے شہر میں پیدا ہونے والا یہ یہودی ہٹلر کے ظلم و بربریت کا گواہ بھی تھا اور اس کے وزیر گوئبلز کے پراپیگنڈے کا شکار، گوئبلز وہ شخص ہے جس نے اس دنیا کو یہ فقرہ تحفے میں دیا کہ ’’اس قدر جھوٹ بولو اور بار بار بولو کہ وہ سچ محسوس ہونے لگے‘‘۔ فرائڈ نے انسانی ذہن کو شعور،لاشعور اور تحت الشعور جیسی اصلاحات میں تقسیم کیا۔ اس کے نزدیک انسان کے ہر فعل کے پس پردہ جنسی جذبہ چھپا ہوتا ہے۔
اسی لیے خوابوں کی تعبیر کے بارے میں اس کی کتابیں ہر خواب کا تجزیہ کرتے ہوئے اس میں جنس ضرور ڈھونڈ نکالتی ہیں۔ ایک وسیع یہودی خاندان ہمیشہ اپنے زیر کفالت افراد کی تربیت اور تعلیم پر خصوصی توجہ دیتا ہے۔ فرائڈ کی زیر تربیت بھی صرف اس کی بیٹی اینا فرائڈ ہی نہیں بلکہ اور بہت سے لوگ شامل تھے۔ ان میں اس کا ایک دوسرے رشتے سے بھانجہ ایڈورڈ برنیز ”Edward Bernays” بھی شامل تھا۔ اس کی ماں فرائڈ کی بہن اور اس کا باپ فرائڈ کی بیوی کا بھائی تھا۔ اس کا خاندان جرمنی کی یہودی نفرت یلغار سے تنگ آکر امریکا جاکرآباد ہوگیا۔

وہ جنگ عظیم اول کے زمانے میں امریکی صدر کی پراپیگنڈہ مہم کا انچارج تھا۔ جنگ کے زمانے میں لوگوں کو جنگ پر آمادہ کرنا، اپنی فتوحات کا ڈھول پیٹنا، دشمن کو ظالم ثابت کرنا اور اپنی افواج کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے گئے افراد کو انسانیت کی بدترین مخلوق ثابت کرنا دراصل پراپیگنڈے کا حصہ بلکہ مقصد ہوتا ہے۔ فرائڈ کی محبت اور تربیت کے ساتھ ساتھ زرخیز یہودی ذہن کی وجہ سے اس نے جدید دور کی میڈیا انڈسٹری کو انسانی ذہنوں کو مسخر کرنے کی ایک سائنس بنا دی۔ اس نے پہلی دفعہ لفظ پبلک ریلیشنز استعمال کیا جو آج تک دنیا بھر میں مستعمل ہے۔ اس کے نزدیک پراپیگنڈہ یا میڈیا صرف خیالات کی ترویج کا نام نہیں بلکہ یہ لوگوں کی رائے بنانے، اسے تبدیل کرنے اور اسے اپنی رائے کے مطابق ڈھالنے کا نام ہے۔

امریکی صدر وڈرو ولسن کی جنگ عظیم اول کے زمانے کی پراپیگنڈہ ٹیم کے انچارج کی حیثیت سے اس نے امریکی عوام کو ایک نعرہ دیا کہ ’’امریکا اس لیے جنگ میں ممدو معاون ہے تاکہ پورے یورپ میں جمہوریت نافذ ہوجائے‘‘ یہ وہ زمانہ تھا جب عورتوں کی آزادی اور حقوق نسواں کی تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ اس نے مردوں سے آزادی کی علامت کے طور پر عورتوں کو مشورہ دیا کہ 1929ء میں جب ایسٹر پریڈ ہو تو عورتیں اس میں سگریٹ پیتی ہوئی شامل ہوں۔ اس طرح ان میں اور مردوں میں آزادی کا فرق نظر نہیں آئے گا۔ اسی کے پراپیگنڈے نے امریکی عوام کو جنگ عظیم اول کے دوران ہونے والے قتل و غارت پر قائل کرلیا۔ اپنے اس سارے منصوبے اور سوچ کو وہ ”Engineering Consent” کہتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ لوگوں کو میڈیا اور پراپیگنڈے کے زور سے ایک ایسی بات پر قائل کرنا جسے وہ نہیں چاہتے ہیں۔ ایڈورڈ برنیز کا یہ تصور آج بھی دنیا بھر میں میڈیا کی روح ہے۔

آپ کس قدر آسانی سے امریکی، برطانوی، یورپی بلکہ پسماندہ ممالک کی اکثریت کو قائل کر لیتے ہیں کہ افغانستان کے دور دراز اور پسماندہ ترین ملک جہاں ٹیلیفون، ٹیلی ویژن اور ریلوے جیسی بنیادی چیزیں بھی میسر نہیں وہاں بیٹھے چند لوگوں نے ایک سازش تیار کی اور پھر نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر تباہ کردیا۔ اس کے بعد آپ دنیا کو اس بات پر بھی قائل کرلیتے ہیں کہ افغانستان میں بسنے والے انسانیت کے دشمن ہیں اور پھر جب امریکی جہاز ان پر بم برساتے ہیں، ٹینک ان کو روندتے ہیں یا گولیاں ان کے سینے چھلنی کرتی ہیں تو کسی کو ان سے ہمدردی نہیں ہوتی۔ یہی میڈیا دنیا بھر کو صدام حسین کے بارے میں جھوٹی اور من گھڑت رپورٹیں دکھا کر قائل کر لیتا ہے کہ عراق کے عوام کو مارنا اور ان کا خون بہانا جائز ہے۔ پھر جب کئی منزلہ عمارت پر امریکی میزائل آ کر گرتا ہے تو ہم ٹیکنالوجی کی داد دے رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ اس عمارت میں عورتیں بچے اور بوڑھے بھی تھے جو اس میزائل گرنے سے موت کی آغوش میں چلے گئے ہوں گے۔

جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنا اسی میڈیا کا کمال ہے۔ اس وقت گزشتہ کئی ہفتوں سے دو شہروں کا محاصرہ جاری ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ دنیا بھر کا آزاد میڈیا جسے آپ انسانیت کا فخر تصور کیا جاتا ہے۔ ان دونوں شہروں میں ایک شہر کے محاصرے کو جائز اور دوسرے شہر کے محاصرے کو ناجائز قرار دیتا ہے۔ ایک شہر ’’موصل‘‘ ہے اور دوسرا ’’حلب‘‘۔ دونوں پر اس میڈیا کے مطابق شدت پسند اسلامی گروہ قابض ہیں۔ لیکن موصل کا محاصرہ کرنے والے سرکاری فوجی انھیں شدت پسندوں سے آزادی دلانے کے لیے ان پر خوراک پانی اور دوائیں بند کررہے ہیں۔ انھیں چن چن کر مار رہے ہیں۔ پوری دنیا کا میڈیا لوگوں کو قائل کرنے میں مصروف ہے کہ یہ سب کچھ انسانیت، آزادی اور جمہوریت کی بالادستی کے لیے ہورہا ہے۔ مغربی صحافی جو عراقی افواج کے ساتھ ہیں وہ روز ان فوجیوں کی وکٹری کا نشان بنانے والی تصویریں اخباروں کے صفحہ اول پر لگاتے ہیں۔ دوسری جانب حلب ہے جہاں بشارالاسد کے سپاہیوں کو ظالم بنا کر پیش کیا جاتا ہے جنہوں نے حلب شہر کا محاصرہ کررکھا ہے۔

اسی میڈیا کے تحت حلب کے شدت پسند دراصل آزادی کے ہیرو ہیں جب کہ وہی شدت پسند موصل میں انسانیت کے دشمن۔ جان پجر Jahn Piger ان لوگوں میں سے ہے جو اس دنیا میں قتل و غارت اور بربریت کا ذمے دار میڈیا کو ٹھہراتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر اس قدر زور دار پراپیگنڈہ نہ ہوتا تو دنیا پر القاعدہ، داعش اور النصرہ کا وجود معمولی سا ہوتا اور آج عراق اور شام کے شہری اپنی جانیں بچانے کے لیے دنیا بھر میں دربدر نہ ہورہے ہوتے۔ لیبیا کی تباہی اور قدافی کی المناک موت صرف اور صرف میڈیا کی جنگ اور فتح ہے۔ ایک پر امن ملک جس کے شہری دنیا کے ہر جائزے کے مطابق مطمئن زندگی گزار رہے تھے۔ پہلے اسے دنیا کی نظروں میں ظالم بنایا گیا ، یورپ اور امریکا کے عوام کو فائل کیا کہ اب اس ملک کی تباہی انسانیت کے لیے بہترہے۔ اس کے بعد نیٹو کے جہاز نو ہزار سات سو دفعہ اڑے اور انھوں نے یورینیم وارڈ ہیڈز والے میزائل عوام الناس پر پھینکے۔ کوئی ایک آنسو ان معصوم عوام کی موت پر آنکھوں سے نہ نکلا، کوئی دل خوف سے نہ کانپا۔ کسی کو اندازہ تک نہ ہوا کہ وہاں کتنی معصوم جانیں موت کے گھاٹ اتار دی گئیں۔ اس لیے مغربی میڈیا پوری دنیا کو قائل کرچکا تھا کہ ان سب کیڑے مکوڑوں کی موت دنیا کے امن کے لیے ضروری ہے۔

یہ مغربی میڈیا امریکی انتخابات کے موقع پر اپنے جھوٹ اور پراپیگنڈہ تکنیک کے عروج پر ہوتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس کے نزدیک ڈونلڈ ٹرمپ جس نے ایک قتل نہیں کیا وہ خوفناک آدمی ہے جب کہ ٹرومین، کنیڈی، جانسن، بش وغیرہ امن کی فاختائیں ہیں۔ اوباما جس نے گزشتہ تیس سال میں خرچ ہونے والی رقم سے بھی زیادہ امریکی ایٹمی ہتھیاروں پر خرچ کی ہے جو ایک ہزار ارب بنتی ہے۔ وہ اس وقت منی ایٹم بم بنوا رہا ہے جنھیں B-61 اور ماڈل 12 کہا جاتا ہے۔ اس کے دور میں سب سے زیادہ ڈرون حملوں میں لوگ مارے گئے۔ وہ امن کا نوبل انعام حاصل کرتا ہے۔ لیکن میڈیا اس کے کسی جرم پر گفتگو نہیں کرتا۔ اسے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے بڑبولے اور منہ پھٹ نہیں چاہیں، ہیلری جیسے منافق چاہیں جس کے ہاتھ لیبیا کے عوام کے خون میں رنگے ہوں لیکن پھر بھی امن کی فاختہ دکھائی دے۔

اوریا مقبول جان

عارف والا : ضلع پاکپتن کا قصبہ اور تحصیل

$
0
0

ضلع پاکپتن کا قصبہ اور تحصیل۔ لاہو ر کے جنوب مشرق کی طرف ۲۱۰کلومیٹر اور ساہیوال سے ۴۵ کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے ستلج اور بیاس کے درمیانی علاقے میں واقع ہے۔ دریائے ستلج یہاں سے ۳۳ کلومیٹر جنوب کی طرف بہتا ہے۔ یہ علاقہ نیلی بار میں شامل ہے اور یہاں ہر طرف بے آباد زمینیں اور گھنے جنگل ہوا کرتے تھے۔ انگریزی عہد میں اس علاقے کی آباد کاری کے لئے آبپاشی کے منصوبے شروع کئے گئے اور مختلف مقامات سے نہریں نکالی گئیں اور علاقے کی زرعی ترقی کے لئے مختلف قصبے اور منڈیا ں قائم کی گئیں۔ عارفوالا بھی اسی نئی آبادکاری کے نتیجے میں وجود میں آ یا۔ انیسویں صدی کے آغاز تک عارفوالہ ایک چھوٹا سا گائوں تھا،جو چک نمبر EB/۶۱ کہلاتا تھا۔ بعدازاں یہ عارف والا کے نام سے مشہور ہوا کیونکہ یہاں کی زمینیں عارف نامی زمیندار کی ملکیت تھیں۔ یہ چاہ عارف والا کہلاتا تھا۔
اس وقت یہ کبیر ٹبی روڈ پر واقع تھا۔ ۱۹۰۸ء میں پنجاب کے ڈپٹی گورنرہر برٹ نے عارفوالہ کے نئے شہر کی بنیاد رکھی۔ مختلف علاقوں سے لوگ لا کر یہاں آباد کئے گئے۔ ۱۹۲۶ء میں ریلوے لائن بچھی اور ریلوے سٹیشن قائم ہوا۔ مکانات اور دکانیں تعمیر ہوئیں اور اسی دوران غلہ منڈی قائم ہوئی۔ انگریزوں نے یہاں ڈسپنسری، مڈل سکول شفا خانہ حیوانات ، تھانہ، عوامی سرائے اور افسران کے لئے ریسٹ ہائوس تعمیر کیے۔ ۱۹۳۱ء میں اس کی آبادی ۳۲۰۱ افراد تھی ۔ پہلے پہل اسے نوٹیفائیڈ ایریا قرار دیا گیا ،پھر ٹائون کمیٹی اور میونسپل کمیٹی کا درجہ حاصل ہوا۔ آج کل یہ شہر چار یونین کونسلوں پر مشتمل ہے جبکہ ۱۹۸۷ء سے تحصیل کا درجہ حاصل ہے۔ پہلے یہ ضلع ساہیوال میں شامل تھا ،پھر ۱۹۹۵ء میں پاکپتن کو ضلع ساہیوال سے الگ کر کے نئے ضلع کی حیثیت دی گئی، تو تحصیل عارفوالا کو پاکپتن کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ عارفوالا پولٹری کی صنعت کی وجہ سے مشہور ہے۔ مکئی، چاول اور کپاس علاقے کی اہم فصلیں ہیں جبکہ یہاں متعدد آئل، کاٹن اور رائس ملز موجود ہیں۔ یہاں کا خربوزہ بھی بڑا مشہور رہا ہے، جو دُور دُور تک فروخت ہوتا تھا۔

اس کی آبادی ۱۹۷۲ء میں ۲۸۱۷۱، ۱۹۸۱ء میں ۴۳۶۵۴اور ۱۹۹۸ء کی مردم شماری کے مطابق ۷۴۱۷۴نفوس پر مشتمل تھی۔ ۲۰۰۵ء میں اس کی آبادی ۹۵۷۱۴ نفوس تھی۔ اب اس کی آبادی ایک لاکھ دس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ عارف والا علمی و ادبی لحاظ سے بڑا مردم خیز خطہ ہے۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد یہاں ’’بزمِ ادب‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم ہوئی ،جس کے کرتا دھرتا اور روحِ رواں قاضی عبدالرحمن، صلاح الدین غازی اور ظفر علی ناصر تھے۔ کل پاکستان سطح کے مشاعروں کے علاوہ اس تنظیم کے ہفتہ وار اجلاس ٹائون ہال میں منعقد ہوئے۔ ۱۹۷۰ء کے اوائل میں یہاں کے نوجوانوں نے ایک اور تنظیم ’’مجلس فکرِ اقبال‘‘ کے نام سے قائم کی، جس کے بانیان رشید احمد طاہر، قاضی ظفراقبال، محمود فریدی اور غلام رسول اظہرؔ تھے۔ ایک عشرے تک یہ مجلس یہاں کے نوجوانوں کے لئے شعر و ادب کا ماحول فراہم کرتی رہی۔ ازاں بعد ’’بزمِ فکر و سخن‘‘ کے نام سے بھی ایک ادبی تنظیم قائم ہوئی۔ تنویر نقی، غضنفر عباس، قاضی حبیب 
الرحمن، سرفراز حسین اور یونس متین وغیرہ اس میں پیش پیش تھے۔ 

اسد سلیم شیخ
(کتاب ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس) 

اسلام آباد دھرنا : تحریک انصاف اور حکومت کی 'تیاریاں'جاری

$
0
0

پاکستان تحریک انصاف 2 نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کرچکی ہے جبکہ پارٹی چیئرمین عمران خان کی رہائشگاہ بنی گالہ میں کارکنوں  کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ جس کے خلاف پولیس کی جانب سے کریک ڈاﺅن کرکے متعدد افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔ اس حوالے حکومت راولپنڈی اور اسلام آباد میں تحریک انصاف کے حامیوں کو پہنچنے سے روکنے کے لیے کنٹینرز اور دیگر ذرائع کو بھی استعمال کررہی ہے۔ یہاں اس سیاسی کشیدگی کی تصویری جھلکیاں پیش خدمت ہیں۔
 






پاکستان : 33 لاکھ بچے جبری مشقت کرتے ہیں

$
0
0

وفاقی وزیر محنت و افرادی قوت  نے وقفہ سوالات کے دوران قومی اسمبلی کو بتایا کہ ملک میں تینتیس لاکھ بچے جبری مشقت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جبری مشقت کرنے والے بچوں میں سے ستر فیصد صرف تین شعبوں زراعت، ماہی گیری اور جنگلات کے شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ جبکہ ان کے مطابق انیس فیصد صنعتی شعبہ اور گیارہ فیصد سیلز کے شعبے میں جبری مشقت کرتے ہیں۔ 

آمنہ بھٹی گذشتہ پچاس برس سے گیلی مٹی کو اینٹوں میں تبدیل کر رہی ہیں۔ ان کے بقول ان کے والدین نے اینٹوں کے بھٹے کے مالک سے کچھ رقم ادھار لی تھی اور وہی بوجھ اتارتے اتارتے انہیں نصف صدی گزر چکی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ صرف دس برس کی تھیں جب انہیں جبری مشقت کی اس بھٹی میں جھونک دیا گیا تھا۔ ان پر ڈھائی لاکھ روپے کا قرضہ تھا اور ابھی تک وہ صرف ایک لاکھ روپے واپس کر پائی ہیں۔ بارہ برس قبل ان کے شوہر بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ شوہر کے انتقال کے بعد انہوں نے اپنے آجر سے مزید رقم ادھار لے لی۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آمنہ بھٹی شاید زندگی بھر قرضے کے اس بوجھ سے نجات حاصل نہیں کر پائیں گی۔
آمنہ بھٹی نے بتایا کہ ہم بہت غریب لوگ ہیں اور ہم زندگی بھر غریب ہی رہیں گے۔ جب انسان اس راستے پر چل نکلے، تو مرنے کے بعد ہی اسے اس سے چھٹکارا نصیب ہوتا ہے۔ پاکستان میں صرف اینٹوں کے بھٹوں پرکام کرنے والے افراد کا ہی یہ حال نہیں بلکہ زرعی زمینوں پر اور اسی طرح کے دیگر کام کرنے والے کارکن بھی اپنے آجروں سے لیے جانے والے ادھار کو اتارتے اتارتے زندگی ہی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ پاکستان میں اکثر ایسے واقعات منظر عام پر آتے رہے ہیں، جن میں والدین اپنا قرضہ اپنی اولاد کے سپرد کر دیتے ہیں اور بعض اوقات تو جبری مشقت کا یہ سلسلہ نسل در نسل جاری رہتا ہے، لیکن ادھار ہمیشہ اپنی جگہ واجب الادا رہتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بھٹہ مزدوروں کو ایک دن میں ساڑھے تین سو روپے تک ادا کیے جاتے ہیں۔

ان مزدوروں کو اکثر انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزارنا پڑتی ہے اور انہیں زندہ رہنے کے لیے بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں ہوتیں۔پاکستان میں جبری مشقت کے شکار افراد کی اصل تعداد کے حوالے سے سرکاری سطح پر کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ، تاہم مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق ملک کے مختلف علاقوں میں کھیتی باڑی، قالین بافی، اینٹوں کے بھٹوں اور اسی طرح کے دیگر شعبوں میں کام کرنے والے ایسے مزدوروں کی تعداد لاکھوں میں ہے، جو اپنے آجرین سے رقم ادھار لینے کے بعد غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے پاکستانی شہریوں کی زندگی میں استحصال کے تسلسل کی کوئی کمی نہیں ہوتی اور قرض لی گئی، رقوم کی مکمل ادائیگی کا عملاًکوئی امکان نہیں ہوتا ہے۔

عدنان اسحاق

نواز حکومت ، فنا اور بقا کے دوراہے پر

$
0
0

ڈان میں سیرل المیڈا کی خبر نے جو فتنہ جگایا تھا وزیر اطلاعات و نشریات پرویز
رشید کو فارغ کرنے سے کیا وہ ختم ہو گیا ہے یا فتنہ سامانی کا سلسلہ مزید پھیلے گا۔ حکومتی پارٹی کے اہم رکن مشاہد اللہ خان نے جب کہا حکومت اور فوج ایک صفحہ پر نہیں ہیں تو اس پر مثبت ، منفی انداز میں مختلف تبصرے ہوئے ۔ تاہم اس بیان میں اس حد تک صداقت ضرور تھی کہ حکومت اور فوج میں وہ ہم آہنگی نہیں جو آصف زرداری کے دور میں جنرل اشفاق پرویز کے حوالے سے فوج کے ساتھ تھی یا جنرل پرویز مشرف کی وساطت سے ق لیگ کی تھی ۔ وزیراعظم نواز شریف نے فوج کے ہاتھوں جو دکھ اٹھائے اگرچہ اس کا کوئی کردار اب اپنی اس پوزیشن میں نہیں ہے لیکن ناخوشگوار لمحات کی تلخ یادوں نے ان کے دل و دماغ پر بدستور سایہ کر رکھا ہے اس پر گذشتہ دو ادوار جیسی ہم آہنگی اگر نہیں ہے تو یہ کوئی اچنبے کی بات نہیں ۔ تاہم اس نیم ہم آہنگی میں بھی بہت بڑی دراڑ پڑ گئی ۔

جب مشترکہ اجلاس کے حوالے سے ڈان میں خبر خاص پیرائے میں شائع ہوئی جسے قومی سلامتی کے منافی سمجھا گیا اور یقینا یہ خبر اپنے اندر سنگینی کی صورت رکھتی ہے ۔ قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ خبر کیوں شائع کرائی گئی ۔ اس خبر کی اشاعت سے کس مقصد کا حصول پیش نظر تھا اور کون کون اس کا ذمہ دار ہے فوج کی جانب سے اس وضاحت کے لیے اصرار تھا۔ اس معاملہ پر ’’مٹی پائو‘‘ کی آخری کوشش وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار ، وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی آرمی ہائوس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات تھی ۔ ڈیڑھ گھنٹے جاری رہنے والی اس ملاقات میں حکومتی وفد اپنا مقصد حاصل نہ کر سکا ۔ ذرائع کے مطابق حکومتی سفارشات قبول نہیں کی گئیں اور یہ خبر جسے پلانٹڈ قرار دیا گیا ہے کے اصل کرداروں کو سامنے لانے پر اصرار برقرار رہا۔
فوج ایک منظم ادارہ ہے اس کا ہر کام نہایت باریک بینی سے ہوتا ہے ۔ سب سے پہلے اس سلسلے میں شواہد اکٹھے کئے گئے جن میں خبر کی اشاعت کے ذمہ دار سیرل المیڈا سے تمام تفصیلات کا حصول بھی شامل ہے ۔ جس کے بعد اسے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی فوج کی جانب سے تحقیقات کا دائرہ بڑھایا گیا تو یہ انکشاف ہوا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے بلکہ ملکی اور غیر ملکی میڈیا کو اسی نوعیت کی آڈیو اور وڈیو ٹیپس بھیجی جاتی رہی ہیں اس مقصد کے لئے سرکاری اور غیر سرکاری لوگوں پر مشتمل ایک گروپ جو حکومتی پے رول پر ہے بروئے کار لایا جا رہا ہے ۔ آرمی ہائوس میں ہونے والے اجلاس میں حکومتی وفد کو اس حوالے سے تمام شواہد فراہم کر دیئے گئے جن میں موبائل فون ، وائبر اور واٹس اپ کے ذریعہ سازش کے کرداروں کے باہمی رابطوں کی ریکارڈنگ شامل ہے ۔ بتایا گیا ہے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے یہ ’’کارنامہ‘‘ انجام دیکر حکومتی حلقوں کو یہ باور کرایا کہ ماسٹر سٹروک کھیل کر پہلی بار عسکری قیادت کو بیک فٹ کر دیا گیا ہے اور یہ کہ جنرل راحیل شریف ریٹائر ہونے والے ہیں اور جو بھی نیا چیف آئے گا اس حوالے سے وہ اور آئی ایس آئی دفاعی پوزیشن میں آ جائیں گے اور اس طرح من مرضی کے فیصلے ممکن ہوں گے ۔

اعلیٰ حکومتی حلقوں کے لئے اس میں یقینا آسودگی کے پہلو ہیں مگر معاملہ ’’ الٹی ہو گئیں سب تدبیریں‘‘ والا بن گیا ہے کیونکہ ہدف کوئی سیاسی قوت نہیں فوج جیسا منظم ادارہ ہے جس نے جنگی بنیادوں پر تمام متعلقہ شواہد اکٹھے کئے اور حکومتی وفد کے سامنے رکھ دیئے ۔ حکومتی وفد نے یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ اس میں وزیراعظم نواز شریف کا ہاتھ نہیں ہے جس پر کہا گیا کہ اس سازش کے کردار اب بھی حکومت میں شامل ہیں ۔ جس پر وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کو فارغ کر دیا گیا ایک اطلاع کے مطابق سیرل المیڈا نے اس خبر کے سلسلے میں پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری سے بھی رابطہ کیا تھا ۔ اعزاز چودھری کے حوالے سے وفاقی دارالحکومت کے صحافتی و سیاسی حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ وہ امریکہ میں سفیر بننے کے آرزو مند ہیں ۔ ان دونوں کے ساتھ پنجاب کے آئی جی کو بھی تحقیقاتی کمیٹی طلب کر سکتی ہے پنجاب میں جن کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کے لئے فہرست دی گئی تھی ۔ ایک سال بعد بھی کارروائی نہیں ہو سکی ہے جبکہ پنجاب حکومت نے صوبے میں رینجرز کو بھی آپریشن سے روکا ہوا ہے ۔ یہ سارے معاملات کیونکہ قومی سکیورٹی سے متعلق ہیں اس لئے فوج اس سلسلے میں کوئی سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ہے۔ 

اس لئے اس معاملہ کے تمام کرداروں کو سامنے لایا جانا یقینی امر ہے جن پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چل سکتا ہے ۔ جس کی سزا وارننگ سے قید اور موت بھی ہے اس لئے ممکن ہے بعض کرداروں کو قید اور بعض کو وارننگ دے دی جائے لیکن یہ امر طے ہے کہ یہ معاملہ منطقی انجام تک ضرور پہنچے گا ۔ تحقیقاتی ٹیم کی خاص بات یہ ہے کہ آئی ایس آئی ، آئی بی اور ایم آئی پر مشتمل ہے اس میں کوئی سول ایجنسی شامل نہیں ہے ۔ بعض حلقے وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کو بھی ملوث کر رہے ہیں کیونکہ وزیراعظم ہائوس میں قائم میڈیا سیل کی سربراہ ہیں البتہ میں ذاتی طور پر خوش گمانی رکھتا ہوں کہ ایک سابق فوجی آفیسر کی شریک حیات ہونے کے ناطے وہ فوج کے لیے منفی جذبات نہیں رکھتیں ۔ بیگم کلثوم نواز کی تحریک کے دوران جب (ن) لیگ کے کچھ کارکن ’’وردی والا ، وردی والا ‘‘ کے نعرے لگاتے تو کیپٹن صفدر فوری رد عمل ظاہر کرتے ’’یارو ، وردی والا نہیں صرف مشرف کا نام لو ‘‘مجھے لگتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ وفادار کام دکھا گئے یا انہیں استعمال کر لیا گیا اصل صورتحال کیا ہے یہ تو تحقیقات کے بعدہی سامنے آئے گی۔ جبکہ بعض حلقے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ مریم نواز نے اس خبر کے اہم نکات وزیراعظم کے پریس سیکرٹری محی الدین وانی سے تیار کروائے اور وزیراطلاعات و نشریات پرویز رشید نے پرنسپل انفارمیشن آفسیر رائو تحسین کے ذریعہ اشاعت کا اہتمام کیا۔

جہاں تک پرویز رشید کا تعلق ہے ۔ پلانٹڈ خبر کے علاوہ ان کے فوج کے خلاف جارحانہ بیانات کو بھی عسکری حلقوں میں ناپسندیدگی سے دیکھا جا رہا ہے جس میں کسی فوجی آفیسرز یا جنرل نہیں بلکہ بطور ادارہ فوج کو ہدف تنقید بنایا گیا ۔ وزیراعظم سے ملاقات میں جنرل راحیل شریف نے پرویز رشید کے اس بیان کا بھی حوالہ دیا تھا جس میں کہا گیا تھا ۔ فوجی جرنیل ملک کو برباد کرتے ہیں پھر نواز شریف سے کہتے ہیں اسے دوبارہ مل کو پائوں پر کھڑا کرو ۔ اس بیان کی بھی وضاحت طلب کی گئی تھی جس کے بعد پرویز رشید نے اپنی سرگرمیاں محدود کر دی تھیں اور گذشتہ دو چار روز سے وہ اپنے دفتر میں نہیں جا رہے تھے ۔ علاوہ ازیں بعض ذرائع کے مطابق متذکرہ خبر کے علاوہ بعض دیگر معاملات میں بھی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی شکایات ہیں ۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے اتحادی محمود خان اچکزئی کو کابل بھیجا تھا تو انہوں نے کچھ ایسی باتیں کی تھیں جبکہ محمود خان اچکزئی نے قومی اسمبلی میں بھی ایسا خطاب کیا تھا جس پر ملک بھر میں شدید غاضبانہ رد عمل کا مظاہرہ کیا گیا تھا ۔ یہ بھی غور طلب ہے کہ اعلیٰ سطح اجلاس وزیراعظم ہائوس کی بجائے آرمی ہائوس میں ہوا اور حکومتی وفد کو آرمی ہائوس جانا پڑا ۔ بعض حلقوں کی اس رائے پر غور کیا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم کی حکومت کو فی الحال خطرہ نہیں ہے مگر اسے مزید برقرار رکھنے یعنی 2018ء تک حکومتی تسلسل جاری رکھنے کے لئے اپنے روائتی طرز عمل کو تبدیل کرنا ہو گا ۔ امریکہ کا طاقتور صدر بھی خارجہ پالیسی میں پینٹا گون کے مشوروں کو بنیاد بناتا ہے اس کے علاوہ وزیراعظم کی سیاسی بقا اس میں مضمر ہے کہ وہ حکومتی قوت کی بجائے (ن) لیگ کو مضبوط بنا کر اپنی سیاسی قوت میں اضافہ کریں۔

 اسرا ر بخاری


قومی احتجاج کے ساتھ کچھ اور کرنے کے کام

$
0
0


ڈاکٹر مجاہد منصوری



Islamabad Dharna : Clashes, Blockades and Tear Gas

$
0
0

Police and Frontier Constabulary personnel used tear gas shells to disperse thousands of Pakistan Tehreek-i-Insaf (PTI) protesters in Khyber Pakhtunkhwa's Swabi en route to Islamabad to join the party's planned Nov 2 'lockdown' of the capital. Around 5,000 stick-wielding party workers are trying to remove barricades put in place by police using cranes near the Swabi Interchange, while law enforcement personnel are using tear gas shelling and rubber bullets to stop the protesters. The PTI protesters have vowed to move on undeterred towards the federal capital, they are trying to remove containers using cranes as the night falls. Some protesters also fainted due to the shelling, while others were injured by rubber bullets. Those affected were taken to hospitals, DawnNews reported. 






 



کشمیر میں سکول کیوں جل رہے ہیں؟

$
0
0

چند ہفتوں میں کشمیر کے مختلف مقامات پر دو درجن سے زیادہ سرکاری سکول
پراسرار آتشزدگی کے باعث خاکستر ہوگئے ہیں۔ یہ وارداتیں ایسے وقت ہو رہی ہیں جب حکومت علیحدگی پسندوں کی کال پر جاری ہڑتال کا زور توڑنے کے لیے سکول کھولنے اور امتحانات منعقد کرنے پر بضد ہے۔ اس دوران حکومتِ ہند نے بھی کشمیر کی انتظامیہ کو واضح ہدایات دی ہیں کہ فوری طور پر سکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں بحال کی جائیں، جس کے بعد پولیس نے سکول کھولنے کے لیے ایک ’ایکشن پلان‘ مرتب کیا ہے۔ اس حوالے سے حزبِ اختلاف کے رہنما اور سابق وزیراعلی عمرعبداللہ کہتے ہیں کہ ’سکول کھولنے کا عمل حالات ٹھیک ہونے کی علامت نہیں ہونا چاہیے۔‘ لیکن اس پیچیدہ پس منظر میں اہم سوال یہ ہے کہ سکول کیوں جل رہے ہیں؟

علیحدگی پسند پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ’سکولوں کو نذرآتش کرنے والے تحریک کے ہمدرد نہیں ہوسکتے۔‘ لیکن ہند نواز سیاسی حلقوں اور بعض سماجی تنظیموں نے حریت کانفرنس کے اس بیان کو ناکافی اور مبہم قرار دیا ہے۔ عمرعبداللہ کی نیشنل کانفرنس کا کہنا ہے کہ جہاں ایک طرف حکومت سکولوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہے وہیں دوسری طرف علیحدگی پسند براہ راست ایک جُرم کی مذمت کرنے کے بجاے محض دامن جھاڑنے پر اکتفا کر رہے ہِیں۔ حالیہ دنوں رہا کیے گئے علیحدگی پسند رہنما اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما یاسین ملک نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کیا کہ سکولوں کو جلانے میں وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اور ان کے وزیرتعلیم نعیم اختر کا ہاتھ ہے۔
32 سال قبل جنوبی کشمیر میں پراسرار واردات میں خاکستر ہوئے بعض مندروں کی مثال دیتے ہوئے یاسین ملک نے کہا کہ جن لوگوں کو اُس واقعے میں ملوث کے لیے سزا ہوئی تھی وہ محبوبہ مفتی کے والد اور سابق وزیراعلی مفتی محمد سعید کے کارکن تھے۔ یاسین ملک کے بقول ’مفتی صاحب اُس وقت کے وزیراعلی جی ایم شاہ کی حکومت گرانا چاہتے تھے۔ اگر اُس وقت حکومت گرانے کے لیے آپ مندر جلا سکتے ہو، تو آج تحریک کو بدنام کرنے کے لیے آپ سکول کیوں نہیں جلاسکتے۔

ظاہر ہے کہ یہ ایک سنگین الزام ہے۔ اس کے جواب میں وزیرتعلیم اور حکومت کے ترجمان نعیم اختر نے کہا کہ یاسین ملک نے دراصل سکولوں میں آتشزدگی کے لیے طلبہ کو ہی بالواسطہ طور پر قصور وار ٹھہرایا ہے۔ سخت ترین الفاظ والے استعمال کرتے ہوئے نعیم اختر کا کہنا تھا ’یہ بالکل غلط بات ہے کہ امتحانات نے طلبا کو سکول جلانے پر مجبور کیا۔ طلبا نے تو کئی مقامات پر آگ بجھانے میں مدد کی۔ دراصل یہ یاسین ملک جیسے لوگوں کے امتحان کی گھڑی ہے، کیونکہ مسٹرملک اور ان جیسے لوگوں کو اب عوام کے ان سوالات کا سامنا ہے کہ آخر کیوں وہ لوگوں کو اقتصادی بدحالی اور ناخواندگی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔‘
نعیم اختر کا مزید کہنا تھا کہ علیحدگی پسند شیر پر سوار ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح کشیدگی جاری رہے۔

اس دوران ریاست کی عدالت عالیہ نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ فوری طور اس معاملے کی تحقیقات کرے اور سکولوں کو تحفظ فراہم کرے۔ عدالتی حکم نامے کے فوراً بعد پولیس نے سکول جلانے کے الزام میں دس افراد کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے، جبکہ مزید 16 افراد کو حراست میں لے کر ان سے پوچھ تاچھ کی جارہی ہے۔ ادھر پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں مقیم کئی مسلح گروپوں کے اتحاد ’متحدہ جہاد کونسل‘ نے بھی سکولوں کو عوامی اثاثہ قرار دے کر آتشزدگی کی وارداتوں کا الزام سیکورٹی ایجنسیوں پر عائد کیا ہے۔

 دریں اثنا انسانی حقوق کے عالمی ادارے ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے ایک بیان میں حکومت ہند سے کہا ہے کہ سکولوں میں مقیم فوج اور نیم فوجی اہلکاروں کو واپس بلایا جائے، طالب علموں اور اساتذہ پر حملوں کو روکا جائے اور تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے سلامتی کا مناسب ماحول قائم کیا جائے۔ تنظیم کی ترجمان میناکشی گانگولی کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں بھارت اور پاکستان کی حکومتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ بچوں کی تعلیم کے لیے محفوظ ماحول قائم کرکے ’سیف سکول ڈیکلیریشن ‘ نامی عالمی قرارداد کی عملاً توثیق کریں۔

ایچ آر ڈبلیو کے مطابق بچوں اور اساتذہ پر حملے، سکولوں کو فوجی کیمپ میں تبدیل کرنا یا بچوں کو جنگجو بنانے پر آمادہ کرنا ایسے عوامل ہیں جن سے بچے تعلیم حاصل کرنے کے حق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ فی الوقت چار ہزار سکولوں میں سولہ لاکھ طلبہ و طالبات زیرتعلیم ہیں۔ ان سکولوں میں سرکاری سکولوں کی تعداد دو ہزار سے زیادہ ہے۔ غور طلب ہے کہ سینکڑوں نجی سکول وادی کے چپے چپے پر ہیں، آتشزنی کے لیے تخریب کاروں کو سرکاری سکول ہی کیوں ملتے ہیں؟ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ سکول جلانے کے پیچھے جو بھی ہاتھ کارفرما ہوں، لیکن یہ طے ہے کہ اس صورتحال پر سیاست ہورہی ہے۔

ریاض مسرور
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سرینگر


اے عمران تجھے تو اللہ پوچھے : وسعت اللہ خان

$
0
0

ہم میڈیا والوں نے کتنی آس اور امید کے ساتھ تیاریاں کی تھیں کہ کم از کم اگلے

دو تین ہفتے تک مفت میں چینل کا نشریاتی پیٹ بھرے گا۔ دو دو منٹ کے کروڑوں روپے کے سرکاری اشتہارات کی برسات جاری رہے گی۔ ہمارے مالکان نے اینکرانِ کرام کے لیے کتنے ارمانوں سے نئی وارڈ روب تیار کروائی تھی۔ میڈیائی ڈرونز کے پرزوں کو پٹرول سے دھلوا کر پھر جڑوایا تھا۔ پورے پورے سٹوڈیوز کو 'لاک ڈاؤن کنٹرول روم'میں بدلنے کے لیے سیٹ ڈیزائنرز اور ترکھان طلب کر لیے تھے۔

کنٹنیر کی طرز پر خصوصی فائر پروف میز کی ارجنٹ تیاری کا آرڈر بھی دے دیا تھا تاکہ منہ سے نکلنے والے تجزیاتی شعلوں سے سیٹ آگ نہ پکڑ لے۔ ڈی ایس این جیز کے سب ٹائر تک بدلوا لیے تھے۔ حتیٰ کہ ایکسکلیوسیو کوریج کا منجن رکھنے کے لیے بڑے بڑے جار تک راستے میں تھے۔ غرض ہم نے عمران تمہارے لیے کیا نہیں کیا۔ مگر دو ہفتے کیا تم تو دو نومبر سے پہلے ہی پش اپس لگاتے لگاتے خود ہف گئے۔ عمران تمہیں اللہ پوچھے۔ تاریخ تمہیں معاف کر دے گی مگر ہم شاید تمہیں نشریاتی منجن کا اگلا ایکسائٹمنٹ سے بھر پور کنسائنمنٹ آنے تک بالکل معاف نہیں کریں گے۔
عمران خان کیا تمہیں معلوم ہے کہ کل دوپہر تک میڈیا کی حالت اس دلہن کی تھی جو بڑے ارمانوں سے سج دھج کے بیٹھی ہو۔ من ہی من میں لڈو پھوٹ رہے ہوں۔ کھڑکی سے باجوں تاشوں کی آواز بھی چھن چھن کے آ رہی ہو۔ اور پھر پتہ چلا کہ خوابوں کے شہزادے کی بارات الٹے قدموں لوٹ گئی۔ عمران تمہیں اللہ پوچھے۔
اب یہ دلہن کبھی دھوکا نہیں کھائے گی۔ بس یہی گائے گی۔ 'نہ بھیج نہ چینل مجھ کو، میں نئیں جانا نئیں جانا، میں نئیں جانا دھرنے دے نال'۔ تمہیں ذرا سا بھی آئڈیا ہے عمران کہ تم نے کیسا کیسا کس کس کا نقصان کیا۔ ابھی تو مولانا فضل الرحمٰن کو بیسیوں جگتیں لگانی تھیں۔ ابھی تو مسلم لیگ نواز کے ورکر نما وزرا کے سینوں میں جو نت نئی گالیاں عنفوانِ شباب میں داخل ہو رہی تھیں لبوں پر آنے سے پہلے ہی چل بسیں۔

ابھی تو شیخ رشید کو چلتی موٹر سائیکل پر سگار سلگا کر وکٹری کا نشان بناتے ہوئے فیض آباد چوک پر جلتے ہوئے رنگ سے پار ہونا تھا۔ ابھی تو علامہ طاہر القادری کو فوری وطن واپسی کی ایک اور دھمکی کی وصولی کرنی تھی۔ سب کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا ۔ تم نے کیا کیا عمران۔ جن جن رہنماؤں کو اپنے اپنے علاقوں سے کارکن لے کر اسلام آباد کی جانب مارچ کرنا تھا انہیں بنی گالا میں روٹیاں توڑنے کے لیے پہلے سے کیوں بلا لیا۔ میر صاحب نے تو بس اتنا ہی کہا تھا کہ
سب پے جس بار نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا

میر صاحب کا یہ مطلب تھوڑا تھا کہ تم اس شعر کا وزن چیک کرنے کے لیے سارا بھار پرویز خٹک پر ہی ڈال دو۔ اور آخر میں سب کچھ سپریم کورٹ ہی نے کرنا تھا تو پھر تم نے جو کیا وہ کیوں کیا؟ اس بات پر مجھے وہ پھٹیچر لطیفہ یاد آ رہا ہے کہ پرویز خٹک جیسے ایک نوجوان نے تم جیسے ٹین ایجر رہنما سے پوچھا استاد جی بگلہ پکڑنے کا سب سے موثر طریقہ کیا ہے؟ رہنما نے کہا جہاں بگلہ دیکھو ایک لمبا چکر کاٹ کے آہستہ آہستہ کہنیوں کے بل بگلے کے پیچھے پہنچو اور اس کے سر پر موم رکھ دو۔ جب سورج موم کو پگھلائے گا تو بگلے کی آنکھیں اس موم سے بند ہو جائیں گی۔ فوراً بگلہ پکڑ لو۔ نوجوان نے پوچھا استاد جی جب میں بگلے کے عین پیچھے پہنچ ہی جاؤں گا تو پھر موم سر پر کیوں رکھوں سیدھے سیدھے گردن ہی کیوں نہ دبوچ لوں؟ رہنما نے کہا 'بیٹا جی آپ بالکل دبوچ سکتے ہو پر یہ استادی تو نہ کہلائے گی۔'

شاید یہی استادی دکھانے کے لیے آپ پاناما گیٹ کی چھان بین کے لیے ڈائریکٹ سپریم کورٹ جانے کے بجائے براستہ لاک ڈاؤن پلان عدالت کی سیڑھیوں تک گئے۔ ہو سکتا ہے بہت سے لوگ کہیں کہ میں کیا اناپ شناپ بک رہا ہوں۔ مجھے تو خوش ہونا چاہیے کہ بحران ٹل گیا، جمہوریت بچ گئی، سانپ بھی مرگیا لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔ فریقین نے آخری وقت میں عدالت کو ساکھشی مان کے سیاسی بلوغت کا ثبوت دیا۔ بھاڑ میں گئی آپ کی نصیحت۔ میں تو ایسے ہی جلی کٹی سناؤں گا۔ کیا آپ میں سے کسی کا میڈیا ہاؤس ہے؟ کیا آپ نے 'خصوصی لاک ڈاؤن ٹرانسمیشن'کے پیشگی انتظامات پر دو چار کروڑ روپے خرچ کیے؟ نہیں نا؟ تو پھر آپ کو مجھے مفت کے مشورے اور غصہ تھوک دینے کی صلاح دینے کا کوئی حق نہیں۔ عمران خان تجھے تو اللہ پوچھے گا۔

وسعت اللہ خان
تجزیہ کار


Explosion in Gadani Ship breaking yard several injured

$
0
0
Security officials carry the body of a victim of an explosion at a Gaddani ship-breaking yard.

بھوپال میں 'پولیس مقابلے'پر سوالیہ نشان

$
0
0

انڈیا میں کالعدم اسلامی جماعت سِمی سے تعلق رکھنے والے آٹھ قیدیوں کے بھوپال کی انتہائی سکیورٹی والی جیل سے فرار اور ہلاکتوں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ بھوپال پولیس کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ قیدی ایک محافظ کو ہلاک کرنے کے بعد جیل سے فرار ہو گئے تھے۔ پیر کے روز پولیس نے بتایا تھا کہ کالعدم اسلامی جماعت سِمی (سٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا) کے آٹھ 'انتہائی خطرناک'قیدی بھوپال میں قائم انتہائی سکیورٹی کی جیل توڑ کر فرار ہو گئے تھے۔ تاہم بی بی سی ہندی کے ونیت کھرے کے مطابق چند گھنٹوں کے بعد اعلان کیا گیا کہ سب کے سب قیدی پولیس مقابلے میں مارے گئے۔
ریاست کے وزیرِ اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان نے فوری طور پر پولیس کی کارروائی کو سراہا لیکن ساتھ ہی جیل کے سینیئر حکام کو معطل کر دیا اور قیدیوں کے فرار کی تحقیقات کا اعلان کیا۔ لیکن اس واقعے کے بعد 'پولیس مقابلے'سے پہلے اور بعد کی کئی غیر تصدیق شدہ ویڈیوز سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر سامنے آئیں۔ ایک ویڈیو میں ایک پولیس آفیسر کو کسی کا نشانہ لیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سے اگلے فریم میں کچھ افراد کو نیچے لیٹے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ان ویڈیوز سے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کم از کم ایک شخص کو حراست میں لے کر گولی ماری گئی۔
 
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیوز غیر مصدقہ ہیں اور وہ تحقیقات کر رہی ہے۔ ان ویڈیوز کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے اور ان کے اصل ذریعے کے متعلق بھی نہیں پتہ چلایا جا سکا۔ انڈیا میں زیرِ حراست قیدیوں کی پولیس مقابلوں میں ہلاکتوں کا مسئلہ نیا نہیں ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن اس پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکن الزام لگاتے ہیں کہ یہ درحقیقت ماورائے عدالت قتل ہیں۔ حالیہ واقعے میں حکام کے بیانات میں تضاد کی وجہ سے مسئلہ کھڑا ہوا ہے۔ 'پولیس مقابلے'کے تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ایک ٹی وی چینل نے ریاستی وزیرِ داخلہ سے منسوب ایک بیان میں کہا کہ 'سِمی کے ارکان کے پاس بندوقیں تھیں، پولیس کے پاس ان کو مارنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔'

اسی شام ایک سینیئر پولیس آفیسر نے صحافیوں کو بتایا کہ ہلاک ہونے والے قیدیوں کے قبضے سے آتشی اسلحہ اور تین تیز دھار والے ہتھیار برآمد ہوئے تھے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس نے اس وقت ردِعمل کا اظہار کیا جب ان پر گولیاں چلائی گئی تھیں اور آٹھ قیدی مقابلے کے بعد ہلاک ہوئے۔ پولیس کے مطابق وہ اس بات کی تحقیق کر رہی ہے کہ ان قیدیوں کے پاس اسلحہ کہاں سے آیا تھا۔
بھوپال کی جیل کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ وہاں سب سے محفوظ سہولیات ہیں اور وہاں 40 سے زیادہ کیمرے لگے ہوئے ہیں، لیکن جہاں ان قیدیوں کو رکھا گیا تھا وہاں اس رات مبینہ طور پر چار کیمروں نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔ یہ بھی سوال کیا جا رہا ہے کہ قیدی اپنی کوٹھڑیوں سے کس طرح باہر نکلے؟

پولیس کا دعویٰ ہے کہ قیدیوں نے لکڑی اور ٹوتھ برشوں کو کاٹ کر چابیاں بنائیں اور پھر بیڈ شیٹوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھ کر جیل کی دیوار پھاندی۔ تاہم ان کے اس دعوے پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سابق وزیرِ داخلہ دگوجے سنگھ نے ٹویٹ کی کہ 'کیا یہ لوگ خود ہی فرار ہوئے تھے یا انھیں کسی منصوبے کے تحت بھاگنے دیا گیا تھا؟'حزبِ اختلاف کے ایک اور سیاست دان یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سبھی قیدیوں کو ایک ساتھ کیوں رکھا گیا تھا جبکہ مبینہ طور پر ان میں سے تین قیدیوں نے تین سال قبل جیل سے فرار کی کوشش کی تھی؟ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ تحقیقات کر رہی ہے لیکن ساتھ ساتھ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ تمام ویڈیو فوٹیج غیر مصدقہ ہے۔ پولیس نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ ہلاکتوں کو جان بوجھ کر اس طرح دکھایا گیا ہے کہ یہ پولیس مقابلہ لگے۔ لیکن کئی سیاستدان کہہ رہے ہیں کہ بحث سچ کے متعلق نہیں بلکہ پارٹی کی سیاست کے متعلق ہے۔

خزیمہ کی موت : خوابوں کی تابوت میں واپسی

$
0
0

انسان اس دنیا میں بہت سی خواہشات لے کر آتا ہے، اس کی بہت سی خواہشات پوری بھی ہوجاتی ہیں لیکن کبھی کبھار موت انسان کو اجازت نہیں دیتی۔ ایسا ہی کچھ ہوا 25 سالہ خزیمہ نصیر کے ساتھ بھی، جو پنجاب کے شہر ڈسکہ سے تلاش روزگار کے سلسلے میں جرمنی گیا لیکن وہاں کینسر جیسے موذی مرض نے اسے آ لیا اور وہ وطن واپس آنے، اپنوں سے ملنے کی خواہش لیے اس دنیا سے چل بسا۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈوئچے ویلے کی خصوصی رپورٹ کے مطابق پاکستانی پناہ گزین خزیمہ نصیر کا انتقال جمعہ 4 نومبر کو صبح 10 بج کر 48 منٹ پر جرمنی کے شہر کولون کے ایک ہسپتال میں ایسے حالات میں ہوا کہ اس کے پاس اس کا کوئی اپنا، کوئی رشتہ دار موجود نہیں تھا۔

جرمنی جانے سے قبل خزیمہ ڈسکہ میں اپنی ریڈی میڈ گارمنٹس کی دکان چلاتا تھا، لیکن بہتر مستقبل کی خاطر اس نے گذشتہ برس دیارِ غیر کا سفر اختیار کیا، مگر یہاں شاید قسمت نے اس کا ساتھ نہ دیا اور وہ ہڈیوں کے کینسر میں مبتلا ہوگیا۔ خزیمہ کو اپنی بیماری کا علم جرمنی آنے کے تقریباً 8 یا 9 ماہ بعد اُس وقت ہوا، جب اسے اچانک بہت تیز بخار رہنے لگا تھا، وہ تقریباً 5 ماہ جرمنی کے دو مختلف ہسپتالوں میں زیرعلاج رہا۔ 31 اکتوبر کو ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ بیماری کے باعث خزیمہ کسی بھی قسم کے سفر کے قابل نہیں رہا، جبکہ اس سے ایک ماہ قبل تک اس کا ہر قسم کا علاج بند کر کے اسے صرف درد دور کرنے والی ادویات دی جارہی تھیں۔
انتقال سے دو روز قبل خزیمہ نے تیمم کر کے اپنے بستر پر ہی اشاروں سے عشاء کی نماز ادا کی، اگلے روز وہ کوما میں چلا گیا اور اس کے بعد ایک دن سے بھی کم عرصے میں وہ خالق حقیقی سے جاملا۔ رپورٹ کے مطابق 'خزیمہ ہسپتال میں جس بھی کمرے میں ہوتا تھا، وہ اکتوبر نومبر کے دوران بھی کھڑکی ہمیشہ کھلی رکھواتا تھا، شاید اس کی وجہ کینسر کی رسولیوں کی وجہ سے اسے محسوس ہونے والی گرمی ہوتی تھی یا پھر وہ گرمی اس جوان خون اور مضبوط ارادے کی تھی، جس کے ساتھ وہ مہینوں تک موت سے لڑتا رہا تھا۔

'خزیمہ کی شدت سے یہ خواہش تھی کہ وہ اپنا آخری وقت اپنے والدین کے ساتھ گزارے، حتیٰ کہ اس کی والدہ کو جرمنی بلانے کے لیے ویزے کے حصول کی کارروائی بھی شروع کی گئی تھی، لیکن مختلف وجوہات کی بناء پر ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ پاکستانی نوجوان کے آخری لمحات میں اس کے ساتھ کوئی اپنا نہیں تھا لیکن اس کے ساتھ موجود دیگر پاکستانی پناہ گزین اور ہسپتال میں اس کی نگہداشت کرنے والے ڈاکٹر اور نرسیں سب ہی اس کی موت پر آبدیدہ تھے۔ خزیمہ کی میت کو واپس پاکستان پہنچانے کے انتظامات شروع کیے جا چکے ہیں اور آئندہ چند روز میں اس کی میت تدفین کے لیے واپس ڈسکہ میں اس کے گھر پہنچا دی جائے گی۔

رائے ونڈ میں سالانہ عالمی تبلیغی اجتماع

$
0
0

زبان پر ذکر الٰہی ، آنکھوں میں شب بیداری کے آثار، پیشانیوں پر سجدوں کے
نشان، کاندھوں پر بستر، ایک ہاتھ میں ضروری سامان اور دوسرے ہاتھ میں تسبیح لیے بے شمار قافلے اپنے مخصوص انداز اور ترتیب سے آج پوری دنیا میں ملک ملک شہر شہر، نگرنگر اور قریہ قریہ اپنے قدموں کو دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کیلئے اللہ کے راستہ میں بڑی دلسوزی کے ساتھ گرد آلود کرتے ہوئے امت کے ایک ایک فرد کے دروازے پردستک دیتے ہوئے نظر آئیں گے، ان قافلوں کو عرف عام میں ’’تبلیغی جماعت‘‘ کہا جاتا ہے چوبیس گھنٹوں میں کوئی ایسا وقت اور لمحہ نہیں گزرتا جس میں تبلیغی جماعت کی نقل وحرکت پوری دنیا میں کہیں نہ کہیں جا ری نہ ہو، رائونڈ میں منعقد ہونے والا اجتماع حج کے بعد مسلمانوں کا دوسرا بڑا اجتماع ہے جس میں پوری دنیا سے لاکھوں مسلمان شرکت کر رہے ہیں. 

حسبِ سابق اس مرتبہ بھی تبلیغی اجتماع کے دو سیشن ہونگے پہلا سیشن 3 نومبر2016 کی شام سے شروع ہوگا اور 8 نومبر بروز اتوار پہلا سیشن اجتماعی دُعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا اور تبلغی اجتماع کا دوسرا سیشن 10 نومبرکی شام سے 13 نومبربروز اتوار تک ہو گا اوریہ سیشن بھی اجتماعی دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا۔ اس عالمی اجتماع میں پاکستان سمیت پوری دنیا سے لاکھوں مسلمان شریک ہوں گے اور آخری روز ’’اجتماعی دعا‘‘ میں یہ تعداد مزید بڑھ جاتی ہے۔ آج جس تبلیغی تحریک کی سارے عالم میں صدائے باز گشت ہے اس کے بانی حضرت مولانا محمد الیاسؒ ہیں جن کے مجاہدوں، ریاضتوں اور روحانیت واخلاص سے اس تحریک کی ابتداء ہوئی۔ 
بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ کا گھرانہ ان خوش قسمت خاندانوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے مقبولیت و محبوبیت سے خوب نوازا تھا۔ اس خاندان کی بنیاد کچھ ایسے صدق و اخلاص پر پڑی تھی کہ صدیوں تک یکے بعد دیگرے نسل درنسل اس خاندان میں علماء وفضلاء، اہل کمال، مقبولین اور اللہ والے لوگ پیدا ہوتے رہے۔ جہاں اس خاندان کے مردوں میں جذبہ جہاد، تقویٰ ونیکی، دین کی اشاعت و ترویج کا عام رواج تھا وہاں ان کی عورتیں بھی دینداری، عبادت گزاری، شب بیداری اور ذکر و تلاوت میں پیچھے نہ تھیں بلکہ اس خاندان کی عورتوں میں بھی قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر اور احادیث کے مطالعہ کی عام عادت تھی۔ آپؒ کے والد مولانا محمد اسماعیلؒ ولی کامل اور والدہ محترمہ بھی ’’رابعہ سیرت‘‘ خاتون تھیں جنہو ں نے آپؒ کی پرورش و تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑی، چھوٹی عمر میں ہی قرآن مجید اور دینی علوم کی تعلیم احسن طریقہ سے امتیازی شان اور نمایاں اندازمیں مکمل کر لی تھی، نیکی و تقوی کی صفات بچپن میں ہی آپؒ کے اندر نمایاں اور خاندان میں آپؒ کی شہرت ولی کامل کی تھی۔ آپؒ نے جہاں شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ جیسے مجاہد عالم دین سے علم حاصل کیا وہاں دوسری طرف آپ ؒ نے اپنے وقت کے قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے تصوف و سلوک کی منازل تیزی سے طے کیں۔

ایک مرتبہ آپؒ نے اپنے پیر و مرشد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ سے عرض کیا کہ حضرت ذکر کرتے ہوئے میرے دل پر بوجھ محسوس ہوتا ہے حضرت گنگوہیؒ یہ سن کر متفکر ہوئے اور فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ نے اپنے مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے اس قسم کی شکایت کی تھی توحاجی امداد اللہ صاحبؒ نے جواب فرمایا کہ’’اللہ تعالیٰ آپؒ سے کام لیں گے‘‘۔ بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاسؒ نے جب اپنے گردوپیش کا جائز ہ لیا تو ہر طرف دین سے دوری عقائد کی خرابی اور اعمال و عقائد کا بگاڑ دیکھا کہ لوگ شرک و بدعت، جہالت اور ضلالت و گمراہی کے ’’بحرظلمات‘‘ میں ڈوبے ہوئے ہیں تو ان کے دل پر چوٹ لگی اور وہ امت محمدیہ ﷺ کی اصلاح کے سلسلہ میں متفکر و پریشان دیکھائی دینے لگے.

آپؒ نے محسوس کیا کہ عام دینداری جو پہلے موجود تھی اب ختم ہوتی اور سمٹتی چلی جا رہی ہے، پہلے یہ دین داری خواص تک اور مسلمانوں کی ایک خاص تعداد میں رہ گئی تھی پھر اس کا دائرہ اس سے بھی تنگ ہوا اور ’’اخص الخواص‘‘ میں یہ دینداری باقی رہ گئی ہے پہلے جو خاندان اور قصبات و علاقے اور شہر ’’رشد و ہدایت‘‘ کے مراکز سمجھے جاتے تھے ان میں بھی اس قدر تیزی کے ساتھ انحطاط و زوال ہوا کہ اب ان کی ’’مرکزیت‘‘ ختم ہوتی جارہی ہے جہاں پہلے علم و عمل کی قندیلیں روشن رہتی تھیں اب وہ بے نور ہیں، دوسری بات انہوں نے یہ محسوس کی کہ علم چونکہ ایک خاص طبقہ تک محدود رہ گیا ہے اس لیے آپؒ یہ چاہتے تھے کہ عوام الناس میں پھر سے دینداری پیدا ہو، خواص کی طرح عوام میں بھی دین کی تڑپ اور طلب پیدا ہو، ان میں دین سیکھنے سکھانے کا شوق و جذبہ انگڑائیاں لے، اس کے لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ ہر ایک دین سیکھے، کھانے، پینے اور دیگر ضروریات زندگی کی طرح دین سیکھنے او اس پر عمل کرنے کو بھی اپنی زندگی میں شامل کریں.

اور یہ سب کچھ صرف مدارس و مکاتب اور خانقاہی نظام سے نہیں ہوگا کیونکہ ان سے وہی فیضیاب ہو سکتے ہیں جن میں پہلے سے دین کی طلب ہواور وہ اس کا طالب بن کر خود مدارس و مکاتب اور خانقاہوں میں آئیں، مگر ظاہر ہے کہ یہ بہت ہی محدود لوگ ہوتے ہیں اس لیے مولانا الیاس کاندھلویؒ ضروری سمجھتے تھے کہ اس ’’دعوت و تبلیغ‘‘ کے ذریعہ ایک ایک دروزاہ پر جا کر اخلاص و للہیت کے ساتھ منت و سماجت اور خوشامد کر کے ان میں دین کے ’’احیاء‘ کی طلب پیدا کی جائے کہ وہ اپنے گھروں اور ماحول سے نکل کر تھوڑا سا وقت علمی و دینی ماحول میں گزاریں تا کہ ان کے دل میں بھی سچی لگن اور دین سیکھنے کی تڑپ پیدا ہوا اور یہ کام اسی دعوت والے طریقہ سے ہو گا جو طریقہ اور راستہ انبیاء کرام علیہم السلام کا تھا اور جس پر چلتے ہوئے صحابہ کرامؓ جیسی مقدس اور فرشتہ صفت جماعت پوری دنیا پر اسلام کو غالب کرنے میں کامیاب ہوئی اور پھر جب اس دعوت و تبلیغ سے عام فضاء دینی بنے گی تو لوگوں میں دین کی رغبت اور اس کی طلب پیدا ہوگی تو مدارس و خانقاہی نظام اس سے کہیں زیادہ ہو گا بلکہ ہر شخص مجسمِ دعوت اور مدرسہ و خانقاہ بن جائے گا۔

حضرت مولانا محمد الیاسؒ کی دین کے لیے تڑپ و بے چینی اور درد و بے قراری دیکھنے میں نہیں آتی تھی ، مسلمانوں کی دین سے دوری پر آپؒ انتہائی غمگین و پریشان اوراس فکر میں ڈوبے رہتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر کسی طرح دین دوبارہ زندہ ہو جائے۔ بعض اوقات اسی فکر میں آپؒ ’’ماہی بے آب‘‘ کی طرح تڑپتے آہیں بھرتے اور فرماتے تھے میرے اللہ میں کیا کروں کچھ ہوتا ہی نہیں۔کبھی دین کے اس درد وفکر میں بستر پر کروٹیں بدلتے اور جب بے چینی بڑھتی تو راتوں کو فکر سے اٹھ کر ٹہلنے لگتے۔۔۔ ایک رات اہلیہ محترمہؒ نے آپ ؒ سے پوچھا کہ کیا بات ہے نیند نہیں آتی؟۔۔۔ کئی راتوں سے میں آپؒ کی یہی حالت دیکھ رہی ہوں۔۔۔، جواب میں آپؒ نے فرمایا کہ! کیا بتلاؤں اگر تم کو وہ بات معلوم ہو جائے تو جاگنے والا ایک نہ رہے دو ہو جائیں۔۔۔ 

صرف آپؒ کی اہلیہ محترمہؒ ہی نہیں بلکہ آپؒ کے سوز و درد کا اندازہ ہر وہ شخص آسانی کے ساتھ لگا سکتا تھا جو آپؒ کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا اور باتیں سنتا تھا، آپؒ کا بس نہیں چلتا تھا کہ سب لوگوں کے دلوں میں وہی آگ پھونک دیں جس میں وہ عرصہ سے جل رہے تھے۔۔۔ سب اس غم میں تڑپنے لگیں جس میں وہ خود تڑپ رہے تھے، سب میں وہی سوز و گداز پیدا ہو جائے جس کی لطیف لمس سے آپؒ کی روح جھوم اٹھتی تھی جب ایک جاننے والے نے خط کے ذریعہ آپ سے خیریت دریافت کی تو آپؒ نے سوز ودرد میں ڈوبے ہوئے قلم کے ساتھ جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ ’’طبیعت میں سوائے تبلیغی درد کے اور خیریت ہے‘‘۔ اور پھر مولانا محمد الیاسؒ خود سراپا دعوت بن کر ’’دعوت و تبلیغ ‘‘ والے کام کو لے کر بڑی دلسوزی کے ساتھ دیوانہ وار ’’میوات‘‘ کے ہر علاقہ میں پھرے ہر ایک کے دامن کو تھاما، ایک ایک گھر کے دروازہ پر دستک دی کئی کئی وقت فاقے کیے، گرمی و سردی سے بے پرواہ ہو کر تبلیغی گشت کیے۔

اور جب لوگوں نے آپؒ کی حسب خواہش آپؒ کی آواز پر ’’لبیک‘‘ نہ کہا تو آپؒ بے چین و بے قرار ہو کر راتوں کو خدا کے حضور روتے گڑگڑاتے اور پوری امت کی اصلاح کے لیے دعا کرتے۔۔۔ اور پھر اپنی ہمت و طاقت ، مال و دولت سب کچھ ان میواتیوں پر اور ان کے ذریعہ اس تبلیغی کام پر لگا دیا۔۔۔ اس دوران اپنے رفقاء اور ساتھیوں کو ایک خط میں آپؒ تحریر فرماتے ہیں کہ! تم غور کرو، دنیائے فانی میں کام کیلئے تو گھر کے سارے افراد ہوں او ر اس دعوت و تبلیغ کے کام کے لیے صرف ایک آدمی کو کہا جائے اور اس پر بھی نباہ نہ ہو تو آخرت کو دنیا سے گھٹایا ،یا نہیں گھٹایا؟۔ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ اپنے ایک مکتوب میں میواتی حضرات کو تحریر فرماتے ہیں کہ ’’میں اپنی قوت و ہمت کو تم میواتیوں پر خرچ کر چکا ، میرے پاس بجز اس کے کہ تم لوگوں کو قربان کردوں کوئی اور پونجی نہیں ہے۔۔۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ میواتی حضرات نے اپنے جان و مال اور زندگیوں کو اس کام پر قربان کر دیا۔۔۔ اور پھر ایک ایک گھر سے ایک ہی وقت میں کئی کئی افراد دین کے کام کے لیے باہر نکلنے لگے۔

اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ ابتداء میں یہی میواتی لوگ جن کو اپنے گھر اور گاؤں سے نکلنا مشکل تھا اب وہ مولانا الیاسؒ کی محنت سے اس دعوت و تبلیغ کی فکر لے کر ملک ملک، شہر شہر دین کی خاطر پھرنے لگے۔۔۔ مولانا الیاسؒ کی یہ عالمگیر’’احیائے اسلام کی تحریک‘‘ جسے ظاہر میں لوگ صرف کلمہ و نماز کی تحریک کہہ کر اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوش کرتے ہیں یہ کوئی معمولی کام اور تحریک نہیں بلکہ یہ پورے دین کو عملی طور پر زندگی میں نفاذ کی تحریک ہے۔۔۔ اس تحریک اور جماعت کے بانی حضرت مولانا الیاس ؒ خود اپنی اس تحریک کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’میرا مدعا کوئی پاتا نہیں‘‘ لوگ سمجھتے ہیںیہ’’تحریکِ صلوٰۃ‘‘ ہے میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ ہر گز تحریکِ صلوٰۃ نہیں ہے بلکہ ہماری جماعت اور تحریک کا ایک خاص مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو حضورﷺ کا لایا ہوا دین پورا کا پوراسکھا دیں، یہ تو ہے ہماری تحریک کا مقصد، رہی تبلیغی قافلوں کی چلت پھرت، تو یہ اس مقصد کے لیے ابتدائی ذریعہ ہے اور کلمہ و نماز کی تلقین گویا ہمارے پورے نصاب کی الف، ب، ت ہے۔ 

مولانا مجیب الرحمن انقلابی



آئندہ سگریٹ سلگانے سے پہلے یہ ضرور پڑھ لیں

$
0
0

روزانہ ایک پیکٹ سگریٹ پھونک دینا ہر سال پھیپھڑوں کے کینسر میں 150 اضافی تغیرات یا تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے اور یہ تو بس آغاز ہے۔ جی ہاں پہلی بار سائنسدانوں نے سگریٹ نوشی کے نتیجے میں جینیاتی نقصان کے مکمل نقشے کا انکشاف کیا ہے۔ امریکا میں ہونے والی تحقیق میں پہلی بار بتایا گیا ہے کہ یہ عادت پھیپھڑوں کے ساتھ ساتھ جسم کے متعدد اعضاء کے جینز میں بھی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے۔ لاس الموز نیشنل لیبارٹری کی تحقیق کے مطابق سگریٹ نوشی کے نتیجے میں پھیپھڑوں، گلے، نرخرے، منہ، مثانے اور جگر کے جینیاتی عمل کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ تبدیلیاں کینسر کا خطرہ بڑھاتی ہیں۔ خیال رہے کہ تمباکو نوشی کے نتیجے میں ہر سال دنیا بھر میں کم از کم 60 لاکھ افراد ہلاک ہوتے ہیں اور یہ عادت 17 مختلف اقسام کے کینسر کا باعث بتائی جاتی ہے۔ اس تحقیق سے پہلے سائنسدانوں کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ آخر تمباکو نوشی اتنے زیادہ اقسام کے سرطان کا باعث کیوں بنتی ہے۔ 

تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ ڈی این اے میں جینیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں خلیات قابو سے باہر ہوجاتے ہیں اور سگریٹ میں موجود سات ہزار سے زائد مختلف کیمیکلز اس عمل کو تیز کردیتے ہیں۔ محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ تمباکو نوشی کو کینسر کا حقیقی ذمہ دار قرار دیا جا سکے مگر اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے استعمال کے نتیجے میں انسانی ڈی این اے بدل جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر کینسر کا جینوم ریکارڈ فراہم کرتا ہے، جبکہ ڈی این اے کوڈ بھی تحریر ہوتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جینز میں کس حد تک تبدیلیاں آئی ہیں۔ محققین کے بقول تمباکو نوشی کے باعث کینسر کے شکار افراد کے ڈی این اے کو دیکھ کر جانا جاسکتا ہے کہ یہ کس طرح تشکیل پاتا ہے اور کس طرح اس کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔

یہ تحقیق طبی جریدے جرنل سائنس میں شائع ہوئی

فتح پور

$
0
0

ضلع وہاڑی اور تحصیل میلسی کا یہ قصبہ دریائے ستلج کے کنارے میلسی کے جنوب مشرق کی طرف ۱۳کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ شہنشاہ اکبر کے زمانے میں ستلج دریا کے اس علاقے پر جوئیہ خاندان کی حکومت تھی اور فتح پور اس کا صدر مقام تھا، جسے فتح خاں جوئیہ نے آباد کیا تھا۔ اسی کے نام پر اس کا نام فتح پور مشہورہوا۔ مغلو ں کے عہد میں اسے ایک پرگنہ کی حیثیت حاصل تھی۔ یہاں فتح خاں کا تعمیر کردہ ایک قلعہ بھی تھا جو رفتہ رفتہ اپنا نام و نشان اور آثار کھو بیٹھا۔ یہاں شاہی زمانے کی بنی ہوئی عیدگاہ، کئی غیرآباد مساجد اور عمارتیں اپنے ماضی کی داستان سناتی نظرآتی ہیں۔ یہاں موجود کئی کھنڈر اپنے ماضی کو سینے سے لگا کر کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔
تاریخی مسجد فن تعمیر کا نادر نمونہ ہے۔ یہاں کے زیادہ گھر چھوٹی اینٹ کے بنے ہوئے ہیں۔ گلیاں تنگ اور ٹیڑھی ہیں۔ اس کے بانی فتح خاں جوئیہ کا مزار بھی یہاں موجود ہے۔ یہ مقبرہ چھوٹی اینٹ کا بنا ہوا ہے۔ اس کی تعمیر میں نقش و نگار والی اینٹیں استعمال ہوئی ہیں اور یہ گنبد نما ہے۔ مقبرے کے احاطے میں دو قبریں اور بھی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فتح خاں جوئیہ کے دو بھائیوں محمد خاں جوئیہ اور علی محمد جوئیہ کی ہیں۔ احاطے کے باہر دیگر قبریں بھی ہیں۔ رفتہ رفتہ یہ مقبرہ شکستہ ہوتا جارہا ہے۔ یہاں کھجور کے درخت عام ہیں۔ لوگ کھجی کاوان، صفاں اور مُصلے بناتے ہیں۔ طلبا و طالبات کے لئے سکول اور صحت کی سہولتیں موجود ہیں۔

اسد سلیم شیخ
 (کتاب ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس)
 

ماحولیاتی آلودگی کے خوفناک اثرات

امریکی مسلمانوں کے ون ملین ووٹ

ٹرمپ ہاریں یا جیتیں، نقصان تو ہو چکا

$
0
0

آٹھ نومبر کو چاہے جو نتیجہ نکلے، ایک بات یقینی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی نامزدگی امریکی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہے جس کی بازگشت سالہا سال تک سنائی دیتی رہے گی۔ اگر یہ کہا جائے تو بےجا نہیں ہو گا کہ ٹرمپ کی صدارتی مہم نے امریکہ کا سیاسی اور سماجی نقشہ تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ سیاسی میدان میں دیکھیں تو ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالفین اور مداحوں دونوں کی کوئی کمی نہیں اور دونوں ایک جیسے پرجوش اور سرگرم ہیں۔ ایک طرف ایسے لوگ ہیں جو انھیں امریکہ کے لیے 'باعث شرم'قرار دے رہے ہیں، دوسری جانب ٹرمپ کے کروڑوں حامی سمجھتے ہیں کہ وہ امریکہ کو پھر سے عظیم طاقت بنانے کی 'آخری امید'ہیں۔

ان دونوں انتہاؤں پر موجود دھڑوں میں ایک بات مشترک ہے۔ دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی صدارتی انتخابات میں آج تک ٹرمپ جیسا کوئی امیدوار نہیں آیا۔
ٹرمپ نے تجارت، امیگریشن، بین الاقوامی معاہدوں، اسلحے، جنگ اور روس امریکہ تعلقات کے بارے میں نہ صرف وسیع تر امریکی روایات بلکہ خود اپنی ہی جماعت رپبلکن پارٹی کی پالیسیوں سے انحراف کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں کبھی اتنے سینیئر رہنماؤں نے اپنی ہی جماعت کے امیدوار کی اس قدر کھلم کھلا مخالفت نہیں کی جس قدر رپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ کی کر رہے ہیں۔
 
امریکی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور الزامات لگانے میں کسی دوسرے ملک سے کم نہیں رہیں، لیکن کم از کم کسی نے نظام پر انگلی نہیں اٹھائی تھی۔ ٹرمپ نے سیاسی اور عدالتی نظام، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ میڈیا تک کو بدعنوان قرار دے کر اپنی راہ الگ نکالی ہے۔ واشنگٹن میں مقیم صحافی اور تجزیہ کار واجد علی سید کہتے ہیں کہ 'بات یہیں نہیں رکے گی، کیوں کہ جو تباہی ہونا تھی وہ پہلے ہی ہو چکی ہے۔'انھوں نے کہا کہ ٹرمپ نے نسل پرستانہ، زینوفوبیا (اجنبیوں سے نفرت) پر مبنی، اسلامو فوبیا پر مبنی، افریقی امریکیوں کے خلاف، میکسیکنز کے خلاف، حتیٰ کہ نظام کے خلاف جو بیانات دیے ہیں اب وہ ہاریں یا جیتیں، اب اس سے فرق نہیں پڑے گا، کیوں کہ لوگ مشتعل ہو چکے ہیں۔'

امریکی جمہوریت کی روایت رہی ہے کہ ہارنے والا امیدوار نتائج کا اعلان ہوتے ہی تقریر کر کے اپنے فاتح حریف کو مبارک باد دیتا ہے۔ لیکن ٹرمپ نے پہلے ہی سے عندیہ دے دیا ہے کہ ممکن ہے وہ اپنی شکست ماننے سے انکار کر دیں۔
لیکن اگر انھوں نے ایسا کیا تو ان کا اگلا لائحۂ عمل کیا ہو گا؟ کیا وہ عدالت میں جائیں گے یا پھر اپنے کروڑوں حامیوں کو اکسانے والا کوئی بیان دے دیں گے؟
ہلیری کلنٹن کو سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ مسلمانوں کی بھی حمایت حاصل ہے
واجد کہتے ہیں کہ 'خطرہ لگ رہا ہے کہ کہیں لوگ ان کے ہارنے کی صورت میں سڑکوں پر نہ آ جائیں۔ انھوں نے لوگوں کے اندر نفرت پیدا کر دی ہے اور یہ ابھی دیکھنا ہے کہ اسے کیسے ختم کیا جا سکے گا۔'

انتہاپسندانہ تشدد کے تحقیق کار جوناتھن مورگن اپنی ویب سائٹ پر لکھتے ہیں کہ 'جب ڈونلڈ ٹرمپ لوگوں سے کہتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہو گی تو وہ ان پر یقین کرتے ہیں۔'مورگن نے سوشل میڈیا پر ٹرمپ کے دھاندلی کے الزامات پر مبنی پوسٹس کی حمایت کرنے والے سینکڑوں ایسے افراد کی نشاندہی کی ہے جو مختلف مسلح گروپوں سے وابستہ ہیں۔ ایک ایسے ہی شخص نے فیس بک پر لکھا:'ہلیری امریکہ کو مسلمانوں سے بھرنا چاہتی ہیں۔ اگر وہ جیت گئیں تو پھر وہ انقلاب کا وقت ہو گا۔ باتیں بہت ہو گئیں، بلاگوں میں سختی دکھانے کا وقت گزر گیا، اب اصل زندگی میں سخت ہونے کا وقت ہے۔'امریکی ادارے ایس پی ایل سی لا سینٹر کی ایک رپورٹ میں ٹرمپ کی تقاریر و بیانات کا طلبہ پر اثرات کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ فیس بک، انسٹاگرام اور سنیپ چیٹ کے اس دور میں وہ امریکی نوجوان جو سیاست سے بڑی حد تک بیگانہ رہتے تھے، اب دو تہائی سے زیادہ اساتذہ کے طلبہ نے تشویش ظاہر کی ہے کہ اگر ٹرمپ صدر بن گئے تو ان کا اور ان کے خاندانوں کا کیا بنے گا۔ ان طلبہ کی اکثریت کا تعلق سیاہ فام برادری سے یا پھر مہاجرین کے خاندانوں سے ہے۔

امریکہ کے سیاہ فام میں ٹرمپ کے منتخب ہونے کی صورت میں خدشات ہیں
اسی سروے کے مطابق سیاہ فام طلبہ کی بڑی تعداد کو خدشہ ہے کہ کہیں انھیں واپس افریقہ نہ بھیج دیا جائے، حالانکہ ان کے خاندان امریکہ کی آزادی سے پہلے وہاں آئے تھے۔ آج سے دو ہفتے قبل تک ہلیری کلنٹن کو ٹرمپ پر واضح برتری حاصل تھی، لیکن پہلے ایف بی آئی کی جانب سے کلنٹن کے خلاف ای میلز کیس کھولنے اور پھر اسے یکایک بند کر دینے سے کنفیوژن کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔
اب بھی بیشتر مبصرین کا یہی خیال ہے کہ کلنٹن ہی جیتیں گی، لیکن ان کی جیت اب اس قدر یقینی نہیں رہی جتنی چند روز قبل دکھائی دے رہی تھی۔ اور اگر وہ آٹھ نومبر کو فاتح ٹھہرتی ہیں تب بھی بعد از انتخابات حالات کے سامنے سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے۔

اگر ٹرمپ ہار کی صورت میں انتخابات کے نتائج ماننے سے انکار کر دیں تو کیا ہو گا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ عمران خان کی طرح دھاندلی کا نعرہ لگا کر لوگوں کو اکٹھا کر کے دھرنا دے بیٹھیں؟ ٹرمپ اس سے پہلے ایک تقریر میں اشارہ دے چکے ہیں کہ اسلحے کے حامی کلنٹن کا راستہ روک سکتے ہیں۔ کلنٹن مہم نے الزام لگایا تھا کہ وہ لوگوں کو تشدد پر اکسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ واجد کہتے ہیں کہ چونکہ امریکہ میں ادارے بہت مضبوط ہیں اس لیے اس بات کا امکان تو نہیں کہ بڑے پیمانے پر ہنگامے ہوں اور فوج بلانی پڑ جائے، لیکن یہ ضرور ممکن ہے کہ ٹرمپ کی شکست کی صورت میں مختلف علاقوں میں مظاہرے ہوں، خاص طور پر نیویارک میں جو دونوں امیدواروں کا گڑھ ہے۔ اگر نیویارک کی مسافروں سے کھچا کھچ بھری سب میں ٹرمپ کے کسی حامی نے فقرہ کس دیا، یا پھر شکاگو کے ڈاؤن ٹاؤن میں سیاہ فاموں کی تنظیم 'بلیک لائیوز میٹر'کے ایک کارکن نے ٹرمپ کے کسی ووٹر کو طعنہ دے دیا تو اس سے چنگاری پھوٹ سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ امریکی سیاست اور تاریخ دونوں کا ایک اور نیا موڑ ہو گا۔

ظفر سید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

Viewing all 4315 articles
Browse latest View live