Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

ٹرمپ کی جیت پر دنیا بھر میں مندی، سرمایہ کاروں کے اربوں ڈالر ڈوب گئے

$
0
0

امریکی صدارتی انتخابات کے ابتدائی نتائج کے سامنے آنے کے نتیجے میں
ایشیائی حصص بازار میں ہلچل نظر آئی ہے۔ جاپان اور آسٹریلیا کے حصص بازار ابتدا میں اگرچہ کل کی قیمتوں کے مقابلے زیادہ قیمتوں پر کھلے تاہم اس خطے کے بیشتر بازاروں میں گراوٹ نظر آ رہی ہے۔ کرنسی کی قیمتوں میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھا جا رہا ہے۔ میکسیکو کے پیسو کی قیمت میں کمی آئی ہے تو جاپان کی کرنسی ین کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ حصص بازار کے تاجروں نے ہلیری کی جیت کی توقع کی تھی ایسے میں اگر مقابلہ سخت بھی ہو تو بازار گراوٹ کا شکار ہو سکتا ہے۔ جاپان سٹاک ایکسچینج نیکئی میں 2.8 فیصد کی کمی آئی ہے جبکہ ہانگ کانگ کا بازار ہان سینگ 1.9 فیصد نیچے چلا گيا ہے اور شنگھائی کمپوزٹ 0.7 فیصد نیچے ہے۔ آسٹریلیا کے بازار اے ایس ایکس 200 میں 1.8 فیصد کی گراوٹ آئی ہے جبکہ جنوبی کوریا کے بازار کوپسی میں 1.6 فی صد کی کمی دیکھی جا رہی ہے۔
اس سے قبل وال سٹریٹ اور یورپی بازار اونچی قیمتوں پر بند ہوئے تھے۔
میکسیکو کی کرنسی میں ڈالر کے مقابلے میں آنے والے اتار چڑھاؤ کو بعض ماہرین امریکی انتخابی نتائج کے اشاریے کے طور پر دیکھ رہے ہیں کیونکہ اگر مسٹر ٹرمپ کی جیت ہوتی ہے تو میکسیکو کو نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ انھوں نے امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر ایک دیوار تعمیر کرنے اور تجارتی معاہدے کی بات کہی ہے۔ دوسری جانب جاپان کے پیسے میں مضبوطی کا مطلب یہ ہے کہ صارفین نے اس بین الاقوامی ہلچل کے دوران ین پر بھروسہ کیا ہے اور وہ ہلیری کی کامیابی کے امکان کو کم ہوتا دیکھ رہے ہیں۔


بوریوالہ

$
0
0

ضلع وہاڑی کا شہر اور تحصیل۔ وہاڑی سے ۳۵ کلومیٹر مشرق کی طرف لودھراں قصور ریلوے سیکشن پر واقع ہے اور بذریعہ سڑک ملتان، لاہور، ساہیوال اور فیصل آباد سے ملا ہوا ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی ۴۰۰ فٹ کے قریب ہے۔ بوریوالہ کے مشرق کی طرف عارفوالہ، شمال مشرق میں چیچہ وطنی، مغرب میں وہاڑی اور جنوب کی طرف دریا ستلج کے پار ضلع بہاولنگر ہے۔ یہ علاقہ کسی زمانے میں ایک وسیع جنگل تھا اور یہاں کی لکڑی دوسرے علاقوں میں بھیجی جاتی تھی۔ ۱۹۰۵ء میں اس قصبہ کی جدید آباد کاری سے قبل یہاں جو چھوٹی سی قدیم آبادی تھی اسے بوڑا سنگھ نامی شخص نے آباد کیا تھا۔ اسی نسبت سے اس کا نام بوریوالہ مشہور ہوا۔ ایک اور روایت کے مطابق یہاں کی دو قدیم بستیوں کے اردگرد خود رو درخت اُکاں اور لئی کثرت سے اُگتے اور ان پر بُور پھولوں کی صورت میں لگتا، جسے مقامی مویشی بصد شوق کھا کر اپنا پیٹ بھرتے، وہی بُور بعدازاں بُورا مشہور ہوگیا، جسے آج بورے والا کہتے ہیں۔
اس روایت پر زیادہ یقین نہیں کیا جاتا۔ حقیقت میں یہاں پہلے ’’چاہ بوڑے والا‘‘ کی بستی موجود تھی۔ انگریزی دور میں جب پاکپتن نہر جاری ہوئی، تو اس علاقے میں زراعت کا رواج ہوا اور جنگل صاف ہونا شروع ہوگیا اس طرح آبادی چکوک میں تبدیل ہوتی گئی۔ بوریوالہ کو EB/۴۳۹ کا نام دیا گیا، پھر یہاں ریلوے ا سٹیشن قائم ہو گیا اور رفتہ رفتہ اسے ایک زرعی منڈی کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ ۱۹۲۵ء میں یہاں منڈی قائم کی گئی۔ ۱۹۲۷ء میں اسے نوٹیفائیڈ ایریا کا درجہ حاصل ہوا۔ ۱۹۵۹ء میں میونسپل کمیٹی بنایا گیا جبکہ ۱۹۶۶ء میں میونسپل کمیٹی سکینڈ کلاس کا درجہ دیا گیا۔ ۱۹۴۲ء میں ۴۳۹ گائوں، یعنی ۸۰۴ مربع میل کا علاقہ میلسی سے الگ کر کے نئی تحصیل وہاڑی میں شامل کئے گئے، تو بورے والا وہاڑی کی سب تحصیل بن گیا۔ اس تحصیل کا رقبہ ۳۲۴۴۷۴ ایکڑ ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل اس علاقے میں زیادہ تر سکھ زمیندار تھے اور مسلمان ان کے مزارعے ہوتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہاں کافی تعداد میں مسلمان مہاجرین آکر آباد ہوئے۔ بھارت کے مشہور اداکار راجیش کھنہ کی پیدائش بوریوالہ کی ہے۔

ان کے والد ہیرا لال کھنہ قیامِ پاکستان سے قبل گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ علم وادب کے حوالے سے بوریوالہ میں کئی ادبی تنظیمیں اور شخصیات متحرک رہی ہیں۔ یہاں کے معروف ادیبوں اور شعراء میں غلام حیدر مستانہ، علی محمد ملوک، حکیم شہزاد اور اے غفار پاشا کے نام نمایاں ہیں۔ غلام حیدر مستانہ ۱۹۱۲ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۸۲ء میں وفات پائی۔ ’’گلزر سسّی‘‘ اور ’’کشکول مستانہ‘‘ ان کی تصانیف ہیں۔ علی محمد ملوک ۱۹۳۵ء میں پیدا ہوئے۔ بوریوالہ کے مشہور روحانی بزرگ اور صوفی شاعر بابا فقیر اللہ قادری کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور شعر وشاعری کا شوق پیدا ہوا۔ آپ نے پنجابی اور اُردو دونوں زبانوں میں شاعری کی۔ ان کی پنجابی غزلوں کا مجموعہ ’’مور مچلدیاں سوچاں‘‘، ’’ساہواں دور سمندر پنیا‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے۔ پنجابی اور اُردو کے شاعر اور ادیب فتح محمد ناز اور پروفیسر سیّد مسعود ہاشمی کا تعلق بھی بوریوالہ سے تھا۔ فتح محمد ناز کا انتقال ۱۹۷۸ء میں ہوا تھا۔ گلشن راز، حدیقہ راز، نوائے دلگداز آپ کی تصانیف ہیں جبکہ پروفیسر سیّد مسعود ہاشمی کی کتب پیش دستی، بیسویں صدی میں تنقید اور بارشوں کا مسافر (سفرنامہ) شائع ہوئیں۔

افسانہ نگار جمیل اور عدیل کا تعلق بھی بورے والہ سے ہے۔ موم کی مریم، زرد کفن میں نخل ایمن، بے خواب جزیروں کا سفر، سیاق و سباق، نایاب لمحے، تو جو ہم سفر ہو جائے، نفی اثبات، برجستہ، سرزمین آسمان میں چند روز، قیل و قال اور کانپتی شاخیں وغیرہ آپ کی تخلیقات ہیں۔ بوریوالہ کے دیگر شعراء میں محمود غزنوی، کاشف سجاد، پروفیسر جعفر سلیم، شبیر احمد جعفری، ڈاکٹر صفدر حسین برق، پروفیسر راشد سدھو، اقبال عاجز، فرہاد مغل، طاہرہ عروج، اکرم باجوہ، کلیم شہزاد، جاوید جوئیہ، عمران فہیم، افضل پارس، وحید اور بشارت کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ بوریوالہ کی آبادی ۱۹۷۲ء میں ۵۷۷۴۱، ۱۹۸۱ء میں ۸۶۳۱۱ اور ۱۹۹۸ء کی مردم شماری کے مطابق ۱۵۲۰۹۷ نفوس پر مشتمل تھی۔ اب اس کی آبادی دو لاکھ چالیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ 

اسد سلیم شیخ
(کتاب ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس)
 

ہلیری کی شکست، آخر ہوا کیا ؟

$
0
0

حالیہ انتخاب بلاشبہ امریکی تاریخ کا سب سے غیر معمولی انتخاب ہے اور یہ سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک بغاوت بھی ہے۔ اور کچھ لوگ ان انتخابات کو سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے ناکامی کے طور پر دیکھتے اور اس ناکامی کی شبیہ انھیں ہلیری کلنٹن میں دکھائی دیتی ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران کروڑوں ناراض ووٹرز کے لیے وہ امریکہ کی ٹوٹی پھوٹی سیاست کا چہرہ بن گئی تھیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اتنی ریاستوں میں اتنے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے کہ وہ یہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔ وہ ایک احتجاجی امیدوار تھے۔ ہلیری سٹیٹس کو کی نمائندگی کرتی تھیں۔ ہلیری کلنٹن نے مسلسل دعویٰ کیا تھا کہ وہ سب سے زیادہ قابل امیدوار ہیں۔ انھوں نے مسلسل اپنے تجربہ کار ہونے کا ذکر کیا، بطور خاتون اول، نیویارک کی سینیٹر اور سیکریٹری خارجہ کا تجربہ۔

لیکن اس ہنگامہ خیر انتخاب میں، جہاں بہت زیادہ غصہ اور بے اطمینانی تھی، ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایتیوں نے تجربے اور قابلیت کو بہت بڑی منفی صفت کے طور لیا۔ انتخابی مہم کے دوران میں نے بہت سے لوگوں سے بات کی، خاص طور پر رسٹ بیلٹ کے علاقوں میں جہاں ایک عرصے سے بند پڑی بڑی بڑی فیکٹریاں زنگ آلود ہو چکی ہیں۔ ان علاقوں کے لوگ وائٹ ہاؤس میں ایک سیاستدان کے بجائے کاروباری شخص کو دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی واشنگٹن کے لیے نفرت واضح تھی۔ چنانچہ ہلیری کلنٹن کے لیے بھی نفرت تھی۔ یہ جیسے الہامی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ٹینیسی میں ایک درمیانی عمر کی خاتون سے بات کرتے ہوئے، ان کا جنوب سے تعلق خوشگوار انداز میں ٹپک رہا تھا، وہ اس سے زیادہ نرم گو نہیں ہو سکتی تھیں۔ لیکن جب ہلیری کلنٹن کا موضوع آیا تو وہ بالکل مختلف تھیں۔
ہلیری کلنٹن کا طویل عرصے سے اعتبار کا مسئلہ رہا ہے، یہی وجہ تھی کہ ان کا ای میل سکینڈل اتنا زیادہ بڑھا۔ ان میں کھرے پن کے حوالے سے مسئلہ ہے۔ انھیں امریکہ کے مشرقی ساحل کی اشرافیہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو مزدور طبقے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

وہ امیر لوگ جو کلنٹنز کے وائٹ ہاؤس سے جانے کے بعد سے ان کے ساتھ تھے ان کے مددگار ثابت نہیں ہوئے۔ اس جوڑے کو صرف’لیموزین لبرلز‘ یا بڑی بڑی کاروں میں سفر کرنے والے اعتدال پسند کے طور پر نہیں بلکہ لیئرجیٹ لبرلز یا نجی طیاروں میں سفر کرنے والے لبرل اشرافیہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسی لیے ان کی دولت مزدور طبقے کے ووٹوں کے درمیان حائل ہو گئی اگرچہ اسی طبقے نے بخوشی پراپرٹی کے بڑے کاروباری کو ووٹ دے دیا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں مردوں کے مقابلے میں کروڑوں خواتین ووٹ ڈالتی ہیں، یہ سمجھا جارہا تھا کہ اس سے ہلیری کلنٹن کو بڑا فائدہ حاصل ہوگا۔ لیکن اپنے حریف برنی سینڈرز کے خلاف پرائمریز کے تنائج سے واضح ہو گیا تھا کہ وہ نوجوان خواتین کو مائل کرنے میں کس قدر ناکام رہی ہیں، خاص طور پر ملک کی پہلی خاتون صدر بننے کے حوالے سے۔

ہلیری بہت ساری خواتین کا دل کبھی بھی نہیں جیت سکیں۔ کچھ کو ابھی بھی یاد ہے کہ ان کے بطور خاتون اول گھر میں رہ کر کوکیز نہ پکانے کے بیان کی تشریح تحقیرآمیز طور پر کی گئی تھی۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے ان پر اپنے شوہر کے معاملات میں دخل اندازی اور بل کلنٹن پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کرنے والی خواتین پر حملے کرنے کے الزامات عائد کیے تو بہت ساری خواتین نے اثبات میں سر ہلائے تھے۔  اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ صنفی امتیاز نے بھی اپنا کردار ادا کیا کہ بہت سارے مرد ووٹرز ایک خاتون کو صدر کے طور پر دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔
ایک ایسے وقت میں جب بہت سارے امریکی تبدیلی چاہتے تھے، انھوں نے پھر وہی پرانی باتیں دہرائی۔ کسی بھی پارٹی کے لیے وائٹ ہاؤس تک مسلسل تیسری بار فتح حاصل کرنا ایک مشکل کام ہے۔ ڈیموکریٹس 1940 کی دہائی سے اب تک ایسا نہیں کر سکے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت سارے ووٹرز کلنٹن خاندان سے بیزار ہوچکے تھے۔

ہلیری کلنٹن فطری طور پر ایک مہم کار نہیں ہیں۔ ان کی تقریریں عموما سپاٹ اور کسی حد تک روبوٹک ہوتی ہیں۔ ان کی آواز کچھ کانوں کو ناقابل بھروسہ محسوس ہوتی ہیں۔ ای میل سکینڈل کا دوبارہ سامنے آنا ایک بہت بڑا مسئلہ رہا اور انھوں نے اپنی انتخابی مہم کا اختتام ایک منفی نکتے پر کیا۔ انتخابی مہم کے دوران بھی انھوں نے کئی غلطیاں کیں۔ انھوں نے اپنے وسائل اور وقت ایسی ریاستوں میں ضائع کیے جہاں انھیں جیتنے کی ضرورت نہیں تھی، جیسا کہ شمالی کیرولینا اور اوہائیو۔ اس کے بجائے انھوں نے ان 18 ریاستوں پر توجہ نہیں دی جہاں سے ڈیموکریٹ گذشتہ چھ انتخابات سے جیت رہے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے سفید فام مزدور طبقے کے ووٹروں کے ساتھ پینسلوینیا اور وسکونسن سے بھی فتح حاصل کی جہاں سے سنہ 1984 کے بعد سے رپبلکن نہیں جیت سکے تھے۔ یہ صرف ہلیری کلنٹن کو مسترد کرنا نہیں بلکہ نصف سے زائد ملک کا براک اوباما کے امریکہ کو مسترد کرنا ہے۔

نک برینٹ
بی‌بی‌سی نامہ نگار، نیویارک


بھارت ، جہاں ہر روز 46 کسان خودکشی کرتے ہیں

$
0
0

بھارتی ریاست مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والا 42 سالہ کسان دتاترے گھدواج
چیخا کہ آسمان نے اسے دھوکہ دیدیا اور پھر اگلے ہی روز اس نے اپنے انگور کے باغ میں زہریلی دوائی  پی کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ اس نے  بنک سے ساڑھے 27 لاکھ روپوں کا قرضہ لے رکھا تھا، قرض لیتے ہوئے وہ انگوروں کی بہترین فصل کے خواب دیکھ رہا تھا لیکن پھر اس کے خواب بکھر گئے، وہ قرض کی ادائیگی نہ کرپایا تو بنک والوں نے اسے نوٹس پہ نوٹس بھیجنا شروع کردیا، وہ ایک طویل عرصہ تک اس امید پر جدوجہد کرتا رہا کہ انگوروں کی فصل اچھی ہوجائے اور وہ قرض لوٹا دے  تاہم مسلسل بارشوں  اور طوفانوں نے اس کی ساری فصل تباہ کردی۔

گھدواج  شدید معاشی اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوا، یہ فصل ہی اس کی واحد امید تھی تاہم طوفانوں نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا ۔ جب وہ اپنے انگوروں کے باغ میں مردہ پڑا ملا تو اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔ اس کے گھر والے کہتے ہیں کہ نریندرمودی حکومت نے  ایک لاکھ روپے کی امداد کا محض ایک وعدہ کیا تھا اور بس!  اگر یہ رقم مل بھی جائے تو اس سے گھر کے بلوں کی ادائیگی  بھی نہیں ہو سکتی۔ گھدواج کی بیوہ کہتی ہے کہ اب کون میری بیٹی سے شادی کرے گا؟  نوجوان کسی ایسے گھرانے میں شادی نہیں کرتے جو  بنکوں یا مقامی سود خوروں کا مقروض ہو،  وہ جانتے ہیں کہ اس گھرانے سے جہیز نہیں ملے گا جبکہ  لڑکی والے بھی کسی ایسے گھرانے میں  بیٹی کی شادی نہیں کرتے جو ان کا قرض ادا کرنے میں معاونت نہ کرے۔ گھدواج کی بیوہ کہتی ہے کہ بنک والے قرض ادا نہ کرنے کے سبب ہماری  زرعی زمین، مویشی اور یہ گھر  نیلام کردیں گے۔
مودی حکومت ہماری مدد نہیں کر رہی حالانکہ وہ چاہے تو ہمیں قرضوں کے چنگل سے نجات دلا سکتی ہے۔ کوئی وقت تھا کہ بھارتی ریاست مہاراشٹر کا علاقہ ودربھ کپاس کی کاشت یا ’سفید سونے‘ کی پیداوار کے حوالے سے خوب معروف تھا تا ہم آج یہ بھارت کے ان علاقوں میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ خودکشیاں ہورہی ہیں۔ ودربھ جین اندولن سمیتی،  ایک غیرسرکاری تنظیم جو گزشتہ پندرہ برس سے خودکشیوں کے واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہے، کے مطابق ودربھ کے چھ اضلاع  امروتی، یاوتمل ، وردھ ، وشم، اکول اور بلدھن میں سن 2012ء سے اب تک 6000 کسان خودکشی کرچکے ہیں۔ قریبی علاقے  ماراٹھود میں  بھی صورت حال ایسی ہی ہے۔ محض 10ہزار روپے کا قرض بھی کسان کو زندگی ختم کرنے پر مجبور کر دیتا ہے، پھر اس کے بیوی بچے حالات کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور نہایت بری زندگی گزارنے لگتے ہیں۔

ایک جائزہ کے مطابق خودکشی کرنے والوں میں 18 سے 30 برس تک کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد بھی غیرمعمولی حد تک  زیادہ ہے۔ غریب کسان سود خوروں سے انتہائی مہنگی شرح پر سودی قرضہ  لیتے ہیں لیکن پھر  واپس نہیں کر پاتے۔ وہ سودخوروں کے چُنگل میں اس قدر بری طرح پھنس جاتے ہیں کہ خودکشی ہی کو نجات کا واحد راستہ سمجھتے ہیں۔ ستم بالائے ستم کہ ان کے مرنے کے بعد خاندان کی قرض واپس کرنے پر ہی جان چھوٹ سکتی ہے، یوں خودکشی کرنے والے اپنے بیوی بچوں کو مزید مشکل زندگی میں پھنسا کرچلے جاتے ہیں، ان کی بیوائیں مزید قرض لینے پر مجبور ہوتی ہیں اور ظلم و استحصال کا یہ سفرجاری رہتا ہے۔

نریندر مودی کے ’’شائننگ انڈیا‘‘ میں گزشتہ 20برسوں سے قریباً 3 لاکھ کسان اپنی زندگیاں ختم کرچکے ہیں ۔ صرف ایک ریاست مہاراشٹر میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد 60 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ بحیثیت مجموعی ملک میں ہر روز 46 کسان خودکشی کرتے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں زراعت ہی روزگار کا سب سے بڑا سیکٹر ہے، ملکی جی ڈی پی میں اس کا حصہ 13.7 فیصد ہے، زراعت کے اندر سرمایہ کاری سب سے بڑا جوا ثابت ہورہا ہے۔ یہاں زیادہ تر کسان  بیج اور کھاد خریدنے، اجرت کی ادائیگی اور آب پاشی کا سازوسامان لینے کے لئے  بنک سے قرض لیتے ہیں۔

مقامی سودخور بھی ان کسانوں کی مجبوریوں کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں، ان کا سود سال بہ سال بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ یہ کسانوں کے لئے جال بُنتے ہیں اور پھر انھیں  اپنے دام میں پھنسا لیتے ہیں۔ کسان صرف اس امید پر قرض لیتا ہے کہ فصل اچھی ہوگی تو  قرض لوٹا دے گا تاہم طویل خشک سالی، کم پیداوار یا پھر غیر موسمی بارشیں اس کی سب امیدوں  پر پانی پھیر دیتی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 52 فیصد کسان مقروض ہیں۔ اس ضمن میں یہاں  روزانہ 2035 کسان زراعت کا پیشہ چھوڑ کر کسی دوسرے شعبے کی طرف منتقل ہورہے ہیں۔ مجموعی طور پر 76فیصد کسان کوئی دوسرا پیشہ  اختیار کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

لوگوں کا خیال ہے کہ زراعت اب منافع بخش شعبہ نہیں رہی۔ بھارت کی اپوزیشن پارٹیوں کا کہناہے کہ  کسانوں کو خودکشیوں کی روک تھام حکمرانوں کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں ہے۔ وہ ابھی تک یہی سمجھ نہیں پا رہی کہ  کسان کیوں خودکشی پر مجبور ہیں، اس کے ٹاسک فورسز قائم کی جارہی ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مودی حکومت کے اکانومک گروتھ ماڈل   میں  دیہاتی علاقوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ بھارتی کسان مودی حکومت کے بنائے ہوئے ایک قانون سے بھی سخت پریشان ہیں، اس کے مطابق حکومت کارپوریٹ سیکٹر کے لئے عام کسان کی زمین زبردستی حاصل کرسکے گی۔ ایسے میں یہاں کا کسان کیسے زراعت سے مزید جڑے رہنے کا سوچ سکتاہے، وہ  تن تنہا کھڑا ہے، مودی سرکار اسے کچھ دینے کے بجائے  اس کا سب کچھ ہتھیانے کے چکر میں ہے۔ یادرہے کہ بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اس قدر بڑی تعداد میں کسان خودکشیاں کررہے ہیں۔ آپ کو تحقیق کے نتیجے میں ایسا کوئی دوسرا ملک نہیں ملے گا جہاں کسانوں کو ایسے انجام سے دوچار ہونا پڑے۔

عبید اللہ عابد

سی پیک معاہدہ؛ چین کا پہلا تجارتی قافلہ گوادر پہنچ گیا

$
0
0

چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے مغربی روٹ کے ذریعے چینی
 مصنوعات کی برآمد کے لیے پہلا تجارتی قافلہ اور ایک چینی بحری جہاز گوادر کی بندر گاہ پہنچ گیا۔ سرکاری ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایک چینی بحری جہاز لنگر انداز ہوچکا ہے جبکہ ایک اور جہاز کے آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران آنے کی توقع ہے۔ اس کے علاوہ دوسرا تجارتی قافلہ بھی جلد گوادر بندرگاہ پہنچنے کا امکان ہے۔ چینی مصنوعات مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے ممالک کو برآمد کیے جائیں گے۔

اقتصادی راہداری کے ذریعے تجارتی سرگرمیوں کا باضابطہ افتتاح اتوار 13 نومبر کو پر وقار تقریب میں ہو گا جس میں وزیر اعظم نواز شریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی، وزیر اعلیٰ پنجاب نواب ثناء اللہ زہری اور 15 ممالک کے سفراء شریک ہوں گے۔ دریں اثناء گوادر یکجہتی کونسل نے سی پیک کی حمایت میں ایک ریلی کا بھی انعقاد کیا۔ گوادر پریس کلب کے باہر ریلی کے منتظمین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک خطے خاص طور پر بلوچستان کے لیے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے کیوں کہ یہ ترقی اور خوشحالی کی راہیں کھولے گا۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ سی پیک کی مخالفت کررہے ہیں وہ گوادر کے عوام کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ ایک مقرر کا کہنا تھا کہ ’ہمیں خوشی ہے کہ گوادر سی پیک کا مرکز ہے کیوں کہ اس سے غربت کا خاتمہ اور مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے‘۔ مقررین نے پاک فوج کے کردار کو بھی سراہا اور کہا کہ مسلح افواج کے تعاون کے بغیر اقتصادی راہداری مکمل نہیں ہوسکتی تھی۔
انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ کونسل گوادر کے عوام کے حقوق کا تحفظ جاری رکھے گی۔

Shah Noorani

$
0
0

This is the most famous Shrine of Hazrat Baba Shah Noorani, people come to visit this shrine from all over Pakistan,it is more than 500 years old, and has very wild and beautiful mountain scenes. I request people all over the world to come and visit this place as it has a very rich hidden History.




سی پیک کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا

$
0
0

پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت چین کا پہلا میگا پائلٹ تجارتی قافلہ
جو ایک روز قبل گوادر پہنچا تھا‘ گزشتہ روز گوادر بندر گاہ کے ذریعے اگلی منزل کو روانہ ہو گیا‘ اخباری اطلاعات کے مطابق پہلا میگا تجارتی قافلہ چین سے پاک فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی مکمل حفاظت اور نگرانی میں گوادر پہنچا‘ یہ چین کے شہر کاشغر سے چلا اور پاکستانی علاقے میں گلگت بلتستان سے ہوتا ہوا اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کے ذریعے گوادر پہنچا ہے۔
یوں سی پیک کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا ہے‘ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کاشغر سے چلنے والا تجارتی قافلہ بحفاظت گوادر پہنچا جس سے دنیا بھر کو ایک پرامن پاکستان کا پیغام ملا۔ تاریخی اعتبار سے یہ ایک نیا سنگ میل ہے۔ گوادر بندر گاہ سے ہر ماہ چینی کنٹینرز کی ایکسپورٹ کا منصوبہ بھی تیار کر لیا گیا ہے۔ بلاشبہ سی پیک پاکستان ہی نہیں بلکہ اس سارے خطے کے لیے گیم چینجر ثابت ہو گا‘ گزشتہ روز افتتاحی تقریب سے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے خطاب کیا‘ گوادر پورٹ سے چین اپنا تجارتی مال مشرق وسطیٰ اور افریقہ کی منڈیوں تک باآسانی پہنچا سکے گا۔

سی پیک کے مختلف روٹوں پر تجارتی قافلوں کی آمدورفت میں جتنا زیادہ اضافہ ہو گا‘ پاکستان میں روز گار کے مواقع بڑھیں گے اور تجارتی حجم میں اضافہ ہو گا۔اس روٹ کے ذریعے پاکستان کا تجارتی سامان بھی کم لاگت میں بین الاقوامی منڈیوں تک پہنچ سکے گا جس سے نہ صرف ہماری برآمدات میں بہتری آئیگی بلکہ پاکستان کے اندر بھی کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی۔

ایڈیٹوریل روزنامہ ایکسپریس

بس کچھ ایمبولینسیں بڑھا دیں...وسعت اللہ خان

$
0
0

عزت ماآب عالی جاہانِ پاکستان!

آج ( 13نومبر ) ایک تاریخی دن ہے۔ یہ دن آنے والی نسلیں اس لیے یاد رکھیں گی کہ پاک چائنا اکنامک کاریڈور کا خواب شرمندہِ تعبیر ہوا اور پہلی بار دو بحری جہاز چین اور پاکستان کا مشترکہ مال لے کر گوادر سے عالمی منڈیوں کی جانب روانہ ہوئے۔ یوں خوشحالی کے طویل سفر کی جانب پہلا قدم اٹھا دیا گیا۔ دشمنوں نے اس کاریڈور کو ناکام بنانے کی بہت کوشش کی۔ مگر آپ کی ثابت قدم قیادت میں تمام سازشوں کا مقابلہ کیا گیا۔ گوادر کی بندرگاہ سے پھوٹنے والے خوشحالی کے سورج کی کرنیں روکنے کے لئے دشمنوں نے آخری کوشش کے طور پر بلوچستان کے ویرانے میں روحانیت کے مرکز شاہ نورانی پر دھمال کھیلنے والے بے گناہ زائرین کو بھی نشانہ بنایا۔

اگر دشمن سمجھتا تھا کہ گوادر بندرگاہ بین الاقوامی تجارت کے لئے کھولنے سے صرف ایک دن پہلے 54 بے گناہوں کو مار کر وہ پاکستان کی پرعزم قیادت کو گوادر کی افتتاحی تقریب سوگ کے نام پر ایک آدھ دن آگے بڑھانے پر مجبور کر سکتا ہے تو دشمن کو سخت ناکامی ہوئی۔ عزمِ مصمم کے اس اظہار سے یقیناً دشمن کے حوصلے پست ہوئے ہوں گے۔ چنانچہ مجھ جیسوں کی استدعا ہے کہ واجب الاحترام سرکار اسی حوصلہ مندی کا مظاہرہ کرتی رہے جس کا اظہار وہ گذشتہ تین ماہ کے دوران کوئٹہ سول اسپتال میں 70 سے زائد، کوئٹہ پولیس ٹریننگ اکیڈمی میں 61 اور شاہ نورانی کے مزار پر54 ہلاکتوں کے بعد سے کر رہی ہے۔
ہم افتادگانِ خاک کو احساس ہے کہ ان بے قصور ہلاکتوں کے سبب سرکار اور اس کے اداروں کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے مگر دل کی حالت چہرے سے ہرگز ہرگز عیاں نہیں ہونی چاہیے۔ معمولاتِ زندگی، کارِ سرکار اور عظیم منصوبوں کی تیز رفتار تکمیل کے ہدف میں کوئی تساہل نہیں آنا چاہیے۔ کہیں دشمن ہمارے دکھ کو بھی ہماری کمزوری نہ سمجھ لے۔ آزمائش کی اس طویل گھڑی میں ہر سانحے کے بعد چہرہ سپاٹ رکھنا بھی قومی خدمت ہے۔  سنیچر کی شام درگاہ شاہ نورانی میں بم دھماکے کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں کو کراچی منتقل کیا گیا.

حضورِ والان! آپ کو ایسے مٹھی بھر لوگوں کی بات پر بھی کان دھرنے کی ضرورت نہیں جو اس طرح کے سوالات اٹھا کر قومی مورال برباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جی پاکستان پچھلے 16 برس میں دہشت گردی کی ان گنت وارداتوں کا نشانہ بننے کے باوجود اب تک کسی موثر نیشنل ایکشن پلان پر کیوں عمل نہیں کر پا رہا، انٹیلیجنس نیٹ ورک کیوں بہتر اور جدید نہ بن سکا، مختلف ایجنسیوں کے درمیان موثر رابطہ کاری کا نظام کیوں وضع نہیں ہو پایا، عدالتی اصلاحات کیوں مسلسل ملتوی ہو رہی ہیں، پولیس اصلاحات میں اور کتنی دیر لگے گی، انسدادِ دہشت گردی کے سلسلے میں صوبوں اور وفاق کے درمیان پالیسی اور نیت کے فرق کو دور کر کے کون انھیں ایک چھتری تلے لائے گا وغیرہ وغیرہ۔
ایسے مفت کے مشوروں پر کان دھرنا بھی دراصل دشمن کے حوصلے بڑھانے کے برابر ہے۔ لہذا آئندہ بھی یہ یہی ظاہر کرنے کی پالیسی برقرار رہنی چاہیے کہ جیسے کچھ دیکھا ہی نہیں، کوئی چیخ سنی ہی نہیں، کوئی پلان سوچا ہی نہیں، دشمن کو سمجھا ہی نہیں۔

یہی وہ کیمو فلاج حکمتِ عملی ہے جس کے سبب ہمارے دشمن ایک نہ ایک دن ضرور اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ایسی قوم پر توانائی ضائع کرنے سے کیا فائدہ جو کسی بڑے سے بڑے سانحے پر بھی جنبش تک نہیں کرتی۔ یوں ایک دن دشمن مکمل مایوس ہو جائے گا اور دہشت گردی ختم ہو جائے گی۔ عالی جاہان! آپ تمام منصوبوں کو مکمل یکسوئی سے جامہ پہنائیے ۔ قوم کو آپ کی فراست اور کمٹمنٹ پر پورا اعتماد ہے۔ قوم نے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں اور آئندہ بھی دیتی رہے گی تاکہ آپ ’سرخ رو‘ رہیں۔ آپ کی سرخروئی ہی دراصل ہمارے چہرے کی تمتاہٹ ہے۔

بس اتنی سی بنتی ہے کہ اگر کبھی اسے اہم سمجھیں اور وسائل بھی اجازت دیں تو ایمبولینسوں کی تعداد تھوڑی سی بڑھا دیجئے گا۔ نجی بسوں اور ویگنوں کی چھتوں پرسامان کی طرح کھلے عام لاشیں لے جانے اور زخمیوں کو دور دراز ہسپتالوں تک پہنچانے کے لئے راہ گیروں کی خوشامد کرتے اچھا نہیں لگتا۔
ہم نہیں چاہتے کہ دشمن ایسے مناظر دیکھ کر ٹھٹھول کریں اور انھیں ہماری قومی کردار کشی کے لیے استعمال کریں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہ نکالیے گا کہ خدانخواستہ کہیں ہم مرنے سے ڈرتے ہیں۔ آخر 18 کروڑ اور کس کام کے لیے ہیں؟

وسعت اللہ خان
تجزیہ کار


’انڈین مسلمانوں میں بے روزگاری کا موذی چکر‘

$
0
0

وقار احمد 15 سال پہلے غربت زدہ مشرقی اترپردیش میں اپنا گھر بار چھوڑ کر
پڑھنے کے لیے دلی آئے تھے۔ آنکھوں میں بہتر مستقبل کے خواب تھے اور دل میں محنت کرنے کا عزم لیکن ان کی زندگی نہیں بدلی اور اب امید کا دامن بھی چھوٹتا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ '2006 میں اپنا ایم بی اے مکمل کرنے کے بعد محسوس ہوا کہ ہم مارکیٹ میں قدم جما سکتے ہیں اور گھر والوں کو بھی بہت امید تھی اس لیے لاکھوں روپیہ خرچ کر کے دہلی جیسے مہنگے شہر میں رکھا بھی اور پڑھایا بھی۔ دس سال ہو گئے ایم بی اے کیے ہوئے۔ چھوٹی موٹی کئی نوکریاں کیں، لیکن کچھ سالوں سے تو یہ مسلسل جاری ہے کہ ہمارے پاس بالکل جاب نہیں ہے اور اب تو یہ حالت ہے کہ امید ہی ختم ہوتی جا رہی ہے۔'وقار کی کہانی انڈیا میں لاکھوں مسلمان نوجوانوں کی کہانی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'پہلے میں سوچتا تھا کہ صرف میں ہی بے روزگار ہوں لیکن ایک حالیہ رپورٹ سے پتہ چلا کہ انڈیا کے مسلمانوں میں تو دو تہائی سے زیادہ لوگ کسی معاشی سرگرمی کا حصہ نہیں ہیں اور ایک طرح سے بے روزگار ہیں۔'
ان کے مطابق یہ مسئلہ اب فرد واحد کا نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑا ملکی اور ملی سطح کا مسئلہ ہے۔'ملک کی کسی بھی سرگرمی مسلمانوں کو شامل نہیں کیا جا رہا ہے، چاہے وہ بیوروکریسی ہو، چاہے عدلیہ ہو چاہے سیاست ہو، کہی ہماری شراکت داری نہیں ہے۔'انڈیا میں بےروزگاری ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن مسلمانوں کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ اپنی زبوں حالی کے لیے بہت سے لوگ حکومت اور مذہبی تعصبات کو ذمہ دار مانتے ہیں تو بعض مسلمانوں میں تعلیم کی کمی کو۔ دہلی میں طلبہ کی سرگرم کارکن اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طالبہ راحیلہ پروین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں میں جدید تعلیم کی کمی اس کا سبب ہے۔ وہ مدرسے کے روایتی نظام میں تبدیلی چاہتی ہیں کیونکہ ان کے خیال میں جدید دور میں مقابلہ سخت ہے اور مدرسے سے تعلیم حاصل کرنے والے کہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مدرسے کے تعلیمی نظام پر ایک لمبی بحث جاری ہے کہ اسے کس طرح جدید بنایا جائے اور سائنس اور ٹیکنالوجی سے جوڑا جائے۔ ان کے مطابق جدید تعلیم کے بغیر مدرسے سے پڑھ کر آنے والے طلبہ و طالبات ماڈرن کانونٹ سکول کے جدید تعلیم حاصل کیے ہوئے طلبہ سے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں اور پھر وہ اس دوڑ میں کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ تاہم دہلی کی معروف جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں شعبۂ سماجیات کے استاد تنویر فضل ان سے اتفاق نہیں کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ سکول جانے والی عمر کے مسلمان بچوں میں سے صرف چار فیصد ہی مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ سچر کمیٹی (سابقہ حکومت کی قائم کردہ کمیٹی) کے بعض جائزوں میں وہ بھی شامل تھے اور 'ہم نے دیکھا کہ مسلمانوں کے انھی علاقوں میں مدارس زیادہ ہیں جہاں ان کے لیے سکول دستیاب نہیں ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان کے اکثریتی آبادی والے علاقوں میں سکول قائم کرے کیونکہ مسلمان ان کی عدم موجودگی میں ہی مدرسوں کا رخ کرتے ہیں۔'تاہم ان دونوں ماہرین اس بات پر متفق تھے کہ مسلمانوں میں تعلیم ادھوری چھوڑنے والوں کا تناسب بہت زیادہ ہے اور دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم ترک کر دینے کی شرح لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ جبکہ شہروں میں یہ تناسب کم ہے۔

سنہ 2015 میں انڈیا کے نائب صدر حامد انصاری نے مسلمانوں کے حالات بہتر بنانے کے لیے حکومتی اور معاشرتی سطح پر مثبت اقدامات کیے جانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ اس سے پہلے حکومت کی قائم کردہ رنگناتھ مشرا کمیٹی نے مسلمانوں کو دس فیصد ریزرویشن دینے کی تجویز دی تھی۔ لیکن ان سفارشات پر کبھی عمل نہیں کیا گیا۔ حکومت کی قائم کردہ ایک نئی کمیٹی کا کہنا ہے کہ ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی بڑھی ہے لیکن خاطر خواہ نہیں۔ اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں تو اس میں اضافہ ہی نہیں دیکھا گیا ہے۔ کارپوریٹ شعبے میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم ہے لیکن عام تاثر یہ ہے کہ تعصب کی وجہ سے نہیں۔ ایک بین الاقوامی کمپنی کے لیے کام کرنے والے نوجوان محمد عبدالحفیظ کا کہنا ہے کہ وہ بھی بے روزگاری سے پریشان رہے ہیں لیکن اس شعبے میں تعصبات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ انھوں نے کہا: 'کارپوریٹ میں اگر آپ کے پاس صلاحیت ہے تو آپ کو کام مل جاتا ہے لیکن پھر بھی وہاں مسلمانوں کی نمائندگي بہت کم ہے۔'

ڈاکٹر تنویر فضل کا کہنا ہے مسلمانوں کی حالت زار کی بنیادی وجہ غربت ہے
تنویر فضل کا کہنا ہے کہ مسلمان روایتی طور پر ہنر اور کاریگری کے شعبے سے منسلک رہے ہیں۔ اور وہ جدید معاشی نظام کا حصہ نہیں بن پائے۔ ان کے خیال میں مسلمانوں میں بے روزگاری ایک ایسا موذی چکر ہے جس کا حل نہیں۔ یعنی مسلمانوں میں بے روزگاری اس لیے ہے کہ ان میں تعلیم نہیں اور تعلیم اس لیے نہیں کہ ان میں غربت ہے اور غربت کی وجہ بے روزگاری ہے۔ انھوں نے کہا کہ 'بنیادی مسئلہ غربت کا ہے اور اس کا تدارک کیے بغیر مسلمان کو مرکزی دھارے میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔'

دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے پاس ایک چائے خانے میں بیٹھے ایک نوجوان نے کہا کہ 'مسلمانوں کی ہر نسل صفر سے اپنا سفر شروع کرتی ہے۔ اور ہر نسل ایک ہی طرح کی جدوجہد کرتی نظر آتی ہے۔'وقار احمد کا کہنا ہے کہ 'مسلمان میں صلاحیت کی کمی نہیں، وہ اپنی صلاحیت، اپنا ہنر، اپنی تعلیم، اپنی وطن پرستی ہتھیلی پر لیے کھڑا ہے اور کہتا ہے کہ مجھ سے کام لو لیکن کوئی دست گیری کرنے والا نہیں، کوئی پرسان حال نہیں۔ نہ ہی حکومت اور نہ ہی کوئی اور۔'
گو کہ مسلمانوں کے لیے منزل ابھی دور ہے اور راستہ دشوار گزار ہے لیکن ان نوجوانوں نے ابھی ہمت نہیں ہاری ہے تاہم انتظار کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔

مرزا اے بی بیگ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دہلی

کشمیر ڈائری : ’یہ برابری کی جنگ نہیں ہے‘

$
0
0

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں تقریباً چار ماہ سے جاری احتجاج کی لہر، تشدد اور
کرفیو کا کشمیریوں پر کیا اثر پڑا ہے؟ بی بی سی اردو نے سرینگر کی رہائشی ایک خاتون سے رابطہ کیا جن کے تجربات و تاثرات کی دسویں کڑی یہاں پیش کی جا رہی ہے۔ کشمیر میں مواصلاتی بلیک آؤٹ جزوی طور پر ختم ہوا ہے۔ لینڈ لائن اور موبائل فون کی سہولت تو بحال کر دی گئی ہے لیکن موبائل انٹرنیٹ سروس بدستور بند ہے جس کی وجہ سے یہ تحریریں آپ تک بلاتعطل پہنچانے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ کشمیر میں سنہ 2016 کی مزاحمت پانچویں مہینے میں داخل ہو گئی ہے۔ آج اس کا 128 واں دن ہے۔ اس دوران ہماری ثابت قدمی اور ہمارے ارادوں کی مضبوطی کے کئی امتحان ہوئے۔ ہم تو امتحانوں کے عادی ہو گئے ہیں۔ اس دوران ہندوستان نے بھی بربریت کے نئے مقام سر کر لیے جس کے شکار چار سالہ بچے سے لے کر 80 سالہ بوڑھے بھی ہو گئے۔

جہاں ہندوستانی فوجیوں نے لوہے کی سلاخوں، چاقو اور ڈنڈے لے کر رات کے اندھیرے میں گھروں میں گھں کر بچوں اور بڑوں کی شدید پٹائئ کی، عورتوں کی بے عزتی کی اور سامان تہس نہس کیا، وہاں ہمارے رضاکاروں نے زخمیوں اور ان کے تیماداروں کے لیے ہسپتالوں میں مہینوں کھانا نہ کھایا۔ جہاں ہندوستانی فوجیوں نے ایک مہینے کے اندر 13 لاکھ چھرے نہتے لوگوں پر داغے اور سینکڑوں لوگوں کو اندھا بنایا، وہاں ہمارے ڈاکٹروں نے آنسو گیس سے بھرے ہسپتالوں میں دن رات ان چھروں اور گولیوں سے زخمی لوگوں کے علاج کیے۔
جہاں ایک طرف سے زخمیوں سے بھری ایمبولینس کے ڈرائیور پر گولی چلائی گئی وہاں اسی ڈرائیور نے اپنے زخموں کا خیال نہ کرتے ہوئے پہلے ایمبولینس میں پڑے زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا پھر اپنے زخموں کا علاج کروایا۔
جہاں حکومت نے لگاتار کرفیو لگا کر چھوٹے بچوں کو دودھ سے اور بیماروں کو ان کی دوا سے محروم کیا وہاں ہم نے ایکسیڈنٹ میں زخمی ہندوستانی یاتریوں کے زخموں پر مرہم لگائی۔ ہماری آزادی کی یہ جنگ برابری کی جنگ نہیں ہے۔ جہاں ہم اپنے جائز حق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں وہاں انڈیا کی سرکار کشمیر پر اپنے ناجائز قبضے کو قائم رکھنے کے لیے وحشیانہ طرز عمل کے سبب حدیں پار کر رہی ہے۔ کچھ دن پہلے ایک کتاب پڑھنے کے دوران اس میں ایک فقرہ نظر سے گزرا جسے پڑھ کر غصہ بھی آیا اور دکھ بھی ہوا۔ کشمیر کے سابقہ گورنر جگموہن نے سنہ 1990 میں کہا تھا 'کشمیر کا حل صرف گولی ہے۔'یہ وہی جگموہن ہیں جن کی بطور گورنر حلف اٹھانے کے ایک دن بعد سرینگر میں 'گو کدل'کا قتل عام ہوا جس میں 52 نہتے شہریوں کو ہندوستانی فوجیوں نے گولیاں برسا کر مار ڈالا۔

جگموہن کا دور کشمیر کا ایک سیاہ دور تھا۔ یہی جگموہن جو سابقہ افسر شاہی کا فرد تھا اب بی جے پی کے ممبر بن گئے ہیں۔ انھیں کو سنہ 2016 کے شروع میں بی جے پی سرکار نے ہدوستان کے دوسرے بڑے اعزاز پدما ویبھوشن سے بھی نوازا۔ جس ملک کی سرکار اور اس کے حرکاروں کی ایسی سوچ ہو اس ملک سے جمہوریت یا انسانیت کی آپ کیا امید کر سکتے ہیں؟ جیسا کہ میں نے کہا یہ برابری کی جنگ نہیں ہے۔


پاکستان میں ذیابیطس کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے

Why Pakistan is just as beautiful as Switzerland

$
0
0

The country's attraction range from the ruin of the Indus Valley Civilization such as Mohenjo-daro, Harappa and Taxila, to the Himalayan hill stations, which attract those interested in winter sports. Pakistan is home to several mountain peaks over 7000 m, which attracts adventurers and mountaineers from around the world, especially K2. The north part of Pakistan has many old fortresses, ancient architecture and the Hunza and Chitral valley, home to small pre-Islamic Animist Kalash people community. The romance of the historic Khyber Pakhtunkhwa province is timeless and legendary, Punjab province has the site of Alexander's battle on the Jhelum River and the historic city Lahore, Pakistan's cultural capital, with many examples of Mughal architecture such as Badshahi Masjid, Shalimar Gardens, Tomb of Jahangir and the Lahore Fort. Before the Global economic crisis Pakistan received more than 500,000 tourists annually.















گوادر پورٹ دبئی پورٹ کا متبادل

طیب اردوان پہلے عالمی رہنما ہیں جو تیسری بار پاکستان پارلیمنٹ سے خطاب کریں گے

$
0
0

ترک صدر رجب طیب اردوان پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنیوالے 19ویں عالمی رہنما ہوں گے، رجب طیب اردوان پہلے عالمی رہنما ہیں جو تیسری بار پاکستان پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس، قومی اسمبلی یا سینیٹ سے اب تک 18 ممالک کے سربراہ خطاب کر چکے، سب سے پہلے ایران کے شاہ نے 15مارچ 1950 میں پارلیمنٹ کے مشترک اجلاس سے خطاب کیا تھا۔ 3 جولائی 1962 میں ایرانی شاہ نے دوبارہ قومی اسمبلی کا دورہ کیا اورکارروائی دیکھی۔ فلپائن کے صدر ڈیاڈس مکا پاگل نے قومی اسمبلی سے 15 جولائی 1962 کو خطاب کیا تھا۔
انڈونیشیا کے صدراحمد سوئیکارنو نے قومی اسمبلی سے 26 جون 1963 کو خطاب کیا تھا، سری لنکا کے وزیر اعظم باندرانائیکے نے 5 ستمبر 1974 ،ترک صدر کیونان ایورن نے 15نومبر 1985، فلسطین کے صدریاسر عرفات نے قومی اسمبلی سے 24 جون 1989، فرانس کے صدرفرانکوئزمٹرانڈ نے20 فروری 1990۔ ایران کے اسپیکر حجۃ الاسلام علی اکبر ناتیج نوری نے11 اپریل 1994 میں، چینی صدر جیانگ زمن نے سینیٹ کے خصوصی اجلاس سے 2 دسمبر 1996 ، کوئین الزبتھ ٹو نے 8اکتوبر 1997 کو، ترک وزیر اعظم طیب اردوان  نے 26اکتوبر 2009 میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا تھا۔

چین کے وزیراعظم وین جیاباؤ نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے 19 نومبر 2010 کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کیا تھا، ترک وزیر اعظم طیب اردوان نے 21 مئی 2012 میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے، چینی وزیراعظم لی کی گیانگ نے سینیٹ کے خصوصی اجلاس سے 23 مئی 2013۔ چینی صدرزی جنگ پنگ نے 21 اپریل 2015 میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا تھا، ترک صدرطیب اردوان مسلسل تیسری باراور چوتھے ترک سربراہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے جمعرات 17نومبر کو خطاب کریں گے۔

ملک سعید اعوان

دفتر میں چند باتیں ہرگز نہ کریں : ورنہ نقصان کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے

$
0
0

ویسے تو ملازمت کرنے والے تمام افراد اس بات سے اتفاق کریں گے کہ دفتر میں موجود سٹاف ہماری فیملی جیسے ہی بن جاتے ہیں، تاہم زندگی کی ایسی بہت سی باتیں ہیں، جو ان کے سامنے نہیں کی جا سکتیں۔ کامیاب افراد کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ وہ اپنی باتیں ہر کسی سے شیئر نہیں کرتے، لہٰذا کوشش کریں کہ آپ بھی اپنے دفتر میں چند کام بالکل بھی نہ کریں۔ وہ چند کام کون سے ہیں؟ آئیے جانتے ہیں: 
اپنے سیاسی خیالات اگر آپ ملازمت کرتے ہیں، تو بہتر ہے کہ اپنے دفتر میں اپنے سیاسی خیالات کا ذکر نہ کریں، بہت سے افراد کے سیاسی خیالات ان کی شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں اور پھر دوسرے ان خیالات کو جان کر آپ کو جانچنے لگتے ہیں۔ سیاست کو سمجھنے کا انداز ہر کسی کا مختلف ہوتا ہے اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ہر کوئی آپ سے اتفاق نہ کرے۔ بہت سے افراد سیاست کو بے حد سنجیدگی سے لیتے ہیں اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جو آپ پسند کرتے ہوں وہ دوسرا پسند نہ کرے اور جو دوسرا پسند کرتا ہو ،وہ آپ کو پسند نہ ہو، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اپنے سیاسی خیالات کا ذکر کبھی اپنے دفتر میں نہ کیا جائے کیونکہ کبھی کبھی آپ کو اس کا نقصان بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

کسی کو نااہل نہ سمجھیں
ہر دفتر میں ایسے کئی افراد موجود ہوتے ہیں، جو شاید بہت سے کاموں میں نااہل ہوں، لیکن اگر آپ ان کی مدد نہیں کرسکتے، ان کو نوکری سے نکال نہیں سکتے تو سب کے سامنے ان کی نااہلی ظاہر کرنے کی بھی کوشش نہ کریں۔ ایسا کرنے سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ دوسروں کو ایسا محسوس ہوسکتا ہے کہ آپ خود کو بہتر ثابت کرنے کے لیے کسی دوسرے کو کمتر پیش کررہے ہیں۔ 

اپنی تنخواہ کا ذکر نہ کریں
آپ کے والدین تو ضرور جاننا چاہیں گے کہ آپ اپنے پورے مہینے میں کتنا کما لیتے ہیں، لیکن اس کا ذکر اپنے دفتر میں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، اپنے ساتھیوں کو اپنی تنخواہ بتانا آپ کے لیے مشکل کھڑی کرسکتا ہے کیونکہ پھر ہر کوئی آپ کی تنخواہ سے اپنی تنخواہ کا موازنہ شروع کردے گا اور جب سب کو اس بات کا اندازہ ہوجائے گا کہ آپ کتنا کماتے ہیں تب ہر کوئی آپ کے کام کو آپ کی تنخواہ سے جوڑنا شروع کردے گا۔ 

کبھی یہ نہ بتائیں کہ آپ کو اپنی نوکری پسند نہیں
آپ کے دفتر میں موجود لوگوں کو یہ سن کر بے حد مزہ آتا ہے کہ آپ کو اپنی نوکری پسند نہیں اور اگر یہ بات سب کے درمیان مشہور ہوجائے تو آپ کی ایک منفی شکل سب کے سامنے پیش ہوگی۔ یاد رکھیں کہ دفتر میں ہمیشہ ہی ہر کوئی تیار رہتا ہے کہ وہ آپ کی جگہ لے سکے اس لیے کوشش کریں کہ اپنے خیالات کو سب کے سامنے پیش نہ کریں۔ اپنی ذاتی زندگی اور ماضی کی باتوں سے گریز کریں ویسے تو ہم اپنے دفتر میں اتنا وقت گزارتے ہیں کہ وہاں کے افراد ایک طرح سے ہماری فیملی جیسے ہی بن جاتے ہیں، لیکن کوشش کریں کہ آپ اپنی ذاتی زندگی اور ماضی کی باتیں اپنے دفتر میں ہر کسی سے نہ کریں۔ یہ ضروری نہیں کہ دفتر میں موجود ہر شخص آپ کا دوست ہو اور وہ آپ کی باتوں کو اسی انداز سے سمجھے جیسے آپ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں، اپنی ذاتی باتیں صرف اپنے قریبی افراد سے شیئر کریں تاکہ یہ آپ کے خلاف نہ جائیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ کی ماضی کی زندگی سب کو پسند آئے اس لیے بہتر ہے کہ آپ اس کے بارے میں بات کرنے سے گریز کریں۔

زرتاشیہ میر


عیدی امین کسی کو یاد نہیں آ رہا : وسعت اللہ خان

$
0
0

جب برطانیہ سے آزادی کے بعد یوگنڈا کے پہلے صدر ملٹن اوبوتے کا جھکاؤ
سوویت یونین کی جانب ہونے لگا تو مغربی طاقتوں کی بلا واسطہ رضامندی کے ساتھ یوگنڈا کی مسلح افواج کے سربراہ عیدی امین نے جنوری انیس سو اکہتر میں اس وقت اوبوتے کا تختہ الٹ دیا جب وہ دولتِ مشترکہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے سنگاپور میں تھے۔ اگست انیس سو بہتر میں صدر امین نے غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کی پالیسی کا اعلان کیا۔ اور سب سے زیادہ نزلہ نوآبادیاتی دور سے یوگنڈا میں آباد اسی ہزار ایشیائیوں (گجراتیوں )  پر گرا۔ صرف یہ اجازت ملی  کہ غیر ملکی ڈاکٹر ، وکلا اور اساتذہ معینہ مدت کے لیے قیام کر سکتے ہیں۔ باقیوں کو نوے دن کے اندر ملک چھوڑنا تھا بصورتِ دیگر منقولہ و غیر منقولہ املاک کی ضبطی کے ساتھ بے دخلی کا مڑدہ سنایا گیا۔

چنانچہ برطانوی نوآبادیاتی دور کے پاسپورٹ یافتہ ایشیائیوں نے جنوبی افریقہ، کینیا، بھارت، پاکستان، آسٹریلیا ، امریکا اور کینیڈا کی راہ لی۔ ان میں سے تیس ہزار برطانیہ جا کر بس گئے۔ غیرملکیوں کی بے دخلی کی پالیسی کی وضاحت اور دفاع کرتے ہوئے عیدی امین نے کہا ’’ ہمارا مقصد یوگنڈا کے عام باشندوں کو اپنی قسمت کا مالک بنانا ہے تاکہ وہ ملکی دولت میں پورے حصے دار ہو سکیں۔ یوگنڈا کی معیشت یوگنڈا کے باشندوں کے کنٹرول میں ہونی چاہیے۔ ہمارے لیے پہلے یوگنڈا ہے بعد میں کچھ اور ‘‘. امریکی سفیر تھامس پیٹرک میلاڈی نے امریکی محکمہ خارجہ سے سفارش کی کہ امین حکومت سے تعلقات پر نظرِ ثانی کی جائے۔ کیونکہ یہ حکومت نسل پرست ، ظالمانہ ، نا اہل ، غیر عاقلانہ ، اشتعال انگیز ، ناقابلِ اعتبار عسکری سوچ پر مبنی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ چنانچہ کمپالا میں امریکی سفارتخانے کو تالا لگا کے سفارتی عملہ روانہ ہو گیا۔ اس کے بعد امین نے ’’خون چوس ‘‘ مغربی باشندوں کو بھی قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔
چنانچہ اسرائیل سمیت بیشتر ’’ مہذب ‘‘ دوستوں نے امین حکومت کا عالمی بائیکاٹ کردیا۔ برطانیہ سمیت یورپ کے کئی ممالک اور امریکا میں عیدی امین کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی کیونکہ ان کی پالیسیاں اقوامِ متحدہ کے چارٹر برائے انسانی حقوق سے براہِ راست متصادم تھیں۔ عیدی امین کو مغربی ذرائع ابلاغ میں قصائی ، جنسی درندہ ، مخالفین کے خون کا پیاسا ، پاگل ، ابلیس ، کالا جادوگر ، مسخرہ ، بن مانس اور جانے کیا کیا قرار دیا گیا۔ انیس سو اٹھہتر میں عیدی امین کو تنزانیہ میں جلا وطن معزول صدر ملٹن اوبوتے کے دستوں نے مغربی تائید سے معزول کردیا۔ امین نے پہلے لیبیا  اور پھر جدہ میں پناہ لی اور دو ہزار تین میں وہیں انتقال ہو گیا۔

یوگنڈا میں تو یوگنڈائی ہزاروں برس سے رہ رہے ہیں۔ مگر عالمی تاریخ میں غیرقانونی تارکینِ وطن نے امریکا نامی ایک پورا براعظم تخلیق کیا۔ اس براعظم میں داخل ہونے والا پہلا غیرقانونی تارکِ وطن کولمبس نامی ایک شخص تھا۔ مگر کولمبس کی آمد کے بعد کے اگلے ساڑھے چار سو برس کے دوران امریکا ’’ غیر قانونی تارکِ وطن ‘‘ کی اصطلاح سے نا واقف رہا۔ جب کہ پچانوے فیصد ریڈ انڈین اس اصطلاح کا پورا مطلب سمجھنے سے پہلے ہی ختم ہو گئے اور جو آج تبرکاً موجود بھی ہیں وہ اپنے ہی وطن میں تارک الدنیا  ہیں۔ سفید امریکا کی ڈکشنری میں ’’ غیر قانونی ‘‘ تارک ِ وطن کی اصطلاح پہلی بار انیس سو چوبیس میں متعارف ہوئی جب امیگریشن ایکٹ نافذ ہوا اور یورپ سے آنے والے مہاجروں کا سالانہ داخلہ کوٹہ مقرر ہوا۔ مگر غیر یورپی مہاجرین کے لیے کوئی کوٹہ مقرر نہیں کیا گیا تا کہ ان کی قانونی آمد کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ امریکی ریاست ٹیکساس ، نیو میکسیکو ، ایریزونا اور کیلی فورنیا ڈیڑھ سو برس پہلے تک میکسیکو کا حصہ تھیں۔ انھیں فوج کشی کر کے امریکا میں شامل کیا گیا اور اس فعل کو قانونی تصور کیا گیا۔

انیس سو بیس کے عشرے تک میکسیکو کے باشندے آزادانہ ان سابق میکسیکن ریاستوں میں صنعتی و زرعی مزدوری کے لیے آیا جایا کرتے تھے۔ بالکل ایسے ہی جیسے نیپالی بغیر ویزے کے بھارتی ریاستوں میں آ جا سکتے ہیں یا کچھ عرصے پہلے تک یمنی سعودی عرب میں مزدوری کر سکتے تھے۔ مگر انیس سو چوبیس میں امیگریشن ایکٹ کے نفاز کے بعد حالات بدل گئے۔ انیس سو انتیس میں جب امریکا عظیم کساد بازاری کی لپیٹ میں آیا تو اس کا نزلہ پہلی بار تارکینِ وطن پر گرا جو اب تک سرحد پار سے امریکا میں آنے جانے کے لیے قانونی دستاویزات سے نا واقف تھے۔

صدر ہربرٹ ہوور نے انیس سو انتیس تا تینتیس چار سالہ دور میں عظیم کساد بازاری سے تباہ حال امریکیوں کا دل جیتنے کے لیے ایک لاکھ اکیس ہزار میکسیکن باشندوں کو سرحد پار دھکیل دیا۔ دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد صدر ٹرومین نے چونتیس لاکھ تارکینِ وطن  ( میکسیکنز ) کو واپس بھیج دیا کیونکہ جنگ کے بعد خود امریکی باشندوں کے لیے بھی روزگار پیدا کرنا تھا۔ ٹرومین کے بعد آنے والے صدر آئزن ہاور نے بھی اپنے دور میں تیرہ لاکھ تارکینِ وطن کو غیر قانونی قرار دے کر ہنکال دیا۔ ان کے بعد آنے والی حکومتوں نے ملی جلی پالیسی اختیار کی۔ کبھی سختی تو کبھی نرمی۔ آخری بار بل کلنٹن کے دور میں دس برس سے زائد عرصے سے قیام پذیر غیر قانونی تارکینِ وطن کو امریکی شہریت ملی۔اس سے تقریباً ایک ملین لوگوں کو فائدہ ہوا۔

دو ہزار آٹھ میں جب امریکا ایک بار پھر اقتصادی بحران کی زد میں آیا تو توجہ دوبارہ تارکینِ وطن کی جانب مڑ گئی کیونکہ انھیں قربانی کا بکرا بنانا آسان ہوتا ہے۔ کسی غیر قانونی باشندے کو جرائم پیشہ ، ریپسٹ ، کاہل ، امریکا کو نقصان پہنچانے والے اور ٹیکس دہندگان کے خون پر پلنے والا کہنے سے کسی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ غیر قانونی تارکِ وطن اپنی توہین کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کر سکتا۔ غیر قانونی تارکینِ وطن کو جزا و سزا کے پل صراط پر لٹکائے رکھنے کے کئی فائدے ہیں۔ ان سے قانونی باشندے زرعی و صنعتی بیگار لے سکتے ہیں۔ ان کی روک تھام کے قوانین بنانے والے ارکانِ کانگریس ، سرکاری اہلکار ، سرمایہ دار اور سیاستدان وغیرہ چوری چھپے گھریلو ملازم رکھ سکتے ہیں اور جب ووٹ بٹورنے ہوں تو انھیں جمہوریت کی قربان گاہ پر موقع پرستی کی چھری تلے با آسانی لٹانا بھی آسان ہے۔

اگر غیر قانونی تارکینِ وطن ہی امریکا کا خون چوس رہے ہوتے اور امریکیوں کو ان کی آمد سے سراسر نقصان ہی ہوتا تو آج اسی امریکا میں ایک کروڑ دس لاکھ غیر ملکی چوری چھپے نہیں رہ رہے ہوتے۔ یقیناً یہ ان فضائی ، بحری اور بری سرحدوں سے گذر کے امریکا میں داخل ہوئے جن کی نگرانی چاق و چوبند ادارے چوبیس گھنٹے کرتے ہیں۔ ان میں سے باون فیصد غیر قانونی تارکینِ وطن میکسیکن ہیں۔ ناجائز تارکینِ وطن کی کل تعداد کا ساٹھ فیصد چھ امریکی ریاستوں (کیلی فورنیا ، ٹیکساس ، فلوریڈا ، نیویارک ، نیو جرسی اور الی نائے ) میں پایا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ ان چھ ریاستوں کے امیگریشن اور پولیس حکام کی نگاہ خاصی کمزور ہے۔ اس بار غیرقانونی تارکینِ وطن کو بطور سواری استعمال کرنے کی ضرورت ڈونلڈ ٹرمپ کو پڑ گئی۔ وہ ایسے امریکی صدر کے طور پر یاد رکھے جانے کے خواہش مند ہیں جس نے سب سے زیادہ غیر ملکی تارکینِ وطن ( کم ازکم تیس لاکھ ) نکالنے کا  فیصلہ کیا ہو۔ ٹرمپ پر بھی جنسی ابتری ، نسلی تعصب، گروہی نفرت اور جنگجویانہ خیالات پھیلانے کا الزام لگایا گیا۔ مگر انھیں ایک سہولت ہمیشہ حاصل رہے گی۔ کوئی بھی انھیں امریکا کے عیدی امین کا لقب نہیں دے گا۔ کیونکہ عیدی امین امریکا اور یورپ میں نہیں پائے جاتے۔

وسعت اللہ خان

اشرافیہ کی معیشت اور ہماری قومی سلامتی : ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی

$
0
0
Read dr-shahid-hasan-siddiqui Column ashrafia-ki-maeshat-aor-hamari-qaumi-salamti published on 2016-11-17 in Daily JangAkhbar

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی


عمران خان اپنا طرز سیاست بدلیں گے ؟

تیمر کے جنگلات

$
0
0

اگر صرف تیمر اور اس سے متعلق ماحولیاتی نظام کا جائزہ لیا جائے، تو معلوم ہوگا کہ پاکستان کے ساحلی علاقوں میں جہاں یہ قدرتی جنگلا ت موجود ہیں قریباً بارہ لاکھ افراد آباد ہیں، ان میں سے نوے ہزار افراد صرف دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے علاقے میں بستے ہیں ۔ اس دیہی آبادی میں سے ایک لاکھ پینتیس ہزار سے زیادہ افراد اپنی ضروریات زندگی تیمر اور ان سے متعلق ذرائع سے حاصل کرتے ہیں ۔ ان قدرتی جنگلات کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ بہت سی آبی حیات اپنی زندگی کا خاصا حصہ ان ہی علاقوں میں گزارتی ہیں۔ ان میں مچھلیاں، کیکڑے اور خول دار جانور ( جھینگا) وغیرہ شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے علاقے میں موجود تیمر کے جنگلات سے جو مختلف قسم کی مچھلیاں حاصل کی جاتی ہیں، ان کی مالیت قریباً بیس ملین یا دو کروڑ ڈالر سالانہ ہے۔

انہی علاقوں سے چھوٹا جھینگا بھی خاصی مقدار میں حاصل کیا جاتا ہے اور اس کی مالیت کا تخمینہ ستر ملین یا سات کروڑ ڈالر ہے جبکہ اس کی برآمدی قیمت اس سے بھی ڈیڑھ گنا بڑھ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کیکڑے کی برآمد سے بھی کوئی تیس لاکھ ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے اور یہ سب علاقائی اقتصادیات کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ جنگلات یہاں کی بیشتر دیہی آبادی کے لیے گھریلو ایندھن کا بھی کام دیتے ہیں اور اندازہ ہے کہ ان سے اٹھارہ ہزار ٹن ایندھن جلانے کی لکڑی حاصل ہوتا ہے ،جس کی مالیت کا اندازہ چار لاکھ ساٹھ ہزار ڈالر سالانہ ہے ۔ تیمر کی لکڑی کے علاوہ اس کے پتے اور ٹہنیاں بھی گائے بھینسوں او بھیڑ بکریوں کے لیے چارے کے طور پر استعمال ہوتی ہیں ،اس طرح اگر تیمر سے علاقائی ماحول اور معاشیات کو ہونے والے فوائد کو دیکھا جائے، تو کہا جاسکتا ہے کہ کوئی 67000 ٹن پتیاں اور بیس ہزار ٹن گھاس ( چاول جو گھاس کی شکل میں اگتے ہیں) وغیرہ ہر سال مویشیوں کے چارے کے طور پر حاصل ہوتا ہے اور اس کی مالیت کا اندازہ ساڑھے تیرہ لاکھ ڈالر ہے۔

ایک اور مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ ان ہی علاقوں میں تیمر کو پہنچنے والے نقصانات سے کوئی ایک لاکھ پینتیس ہزارنفوس کا روزگار متاثر ہوا ہے اور یوں ایندھن، چارہ اور ساحلی اور آبی حیات کے نقصانات کا سالانہ انداز اٹھارہ لاکھ ڈالر کے قریب ہے۔ ان علاقوں سے صرف مچھلی کی برآمدی مالیت ساڑھے بارہ کروڑ ایک سو پچیس ملین ڈالر ہے، جو موجودہ حالات میں ایک بڑا نقصان تصور کیا جاتا ہے۔ انڈس ڈیلٹا میں لاکھوں ایکڑ رقبے پر تیمر کے جنگلات واقع تھے ،تا ہم میٹھے پانی کے اخراج میں کمی کا اثر ان پر بھی پڑا ہے اور اندازہ کیا جاتا ہے کہ ان جنگلات کی تعداد میں 40 فی صد سے زائد کمی ہوئی ہے۔ 1978ء میں ڈیلٹا کا کل مجموعی رقبہ جو تیمر کے درختوں سے ڈھکا ہوا تھا، وہ دو لاکھ 63 ہزار ہیکٹر تھا، جو 90 کی دہائی کے اختتام تک سمٹ کر صرف ایک لاکھ 58 ہزار 300 مربع ہیکٹرز تک رہ گیا اور اب یہ باقی ماندہ رقبہ بھی مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ 

1998ء میں سٹیلائٹ کی مدد سے کیے گئے ایک مشاہدے کے نتیجے میں یہ معلوم ہوا کہ ڈیلٹا کے علاقے میں تیمر کے جنگلات کم ہو کر 4لاکھ ایکڑ رہے گئے ہیں۔ ان میں سے بھی صرف ایک لاکھ 25 ہزار ایکڑ پر واقع درخت بہتر حالت میں ہیں جبکہ مزید ایک لاکھ 25ہزار ایکڑ پر مشتمل جنگلات زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ 1999ء میں زیر یں سندھ میں آنے والا خوفناک سمندری طوفان صرف تیمر کے جنگلات کی وجہ سے کراچی تک نہیں پہنچ پایا تھا۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق تیمر کے یہ جنگلات ڈیلٹا میں رہائش پذیر ایک لاکھ 20 ہزار نفوس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے لکڑی اور اینڈھن فراہم کرتے ہیں۔ 

آبی حیات کی مختلف انواع کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ تیمر کے یہ جنگلات 44 اقسام کی تجارتی سمندری غذا کے لیے نرسری کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔ اس علاقے میں ٹائیگر، شرمپ، پلہ مچھلی، ڈانگری، اور بڑا منڈی سمیت مختلف انواع، جو پہلے نہایت وافر مقدار میں پائی جاتی تھیں، اب ان کی تعداد دن بد دن کم ہو رہی ہے۔ یہ ہمارا اولین فرض ہے کہ تیزی سے معدوم ہوتے ہوئے ان قدرتی جنگلات اور انواع و اقسام کے حامل خزانوں کو مزید دست برد ہونے سے بچایا جا سکے تا آنکہ ہم یہ ورثہ اور اثاثہ بلاشبہ آئندہ آنے والی نسلوں کو منتقل کر سکیں۔

 (بحوالہ NCS جریدہ) -

بھارت میں نوٹوں کی تبدیلی، ہلاکتوں کا سبب بن گئی

$
0
0

انڈیا میں دس دن قبل پانچ سو اور ہزار روپے کے نوٹوں کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے بعد سے ملک میں کرنسی کا بحران جاری ہے۔


















Viewing all 4314 articles
Browse latest View live