Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان : ایک تاریخ ساز شخصیت

$
0
0

بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان 1918ء میں خان گڑھ میں پیدا ہوئے، آپ کا خاندان سرفضل حسین کی سربراہی میں یونیٹسٹ پارٹی سے وابستہ تھا، مگر نوابزادہ نصر اللہ خان نے اپنے خاندان کے بزرگوں کی سوچ سے ہٹ کر1930ء میں مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ یہ جماعت انگریز کی غلامی کے خلاف تھی اور انگریز کو برصغیر سے نکالنے کے لئے عملی جدوجہد کر رہی تھی۔اختلافات کے باوجود تحریک پاکستان کی حمایت کی اور23مارچ 1940ء کو قراردادِ پاکستان کی منظوری کے موقع پر نوابزادہ نصر اللہ خان نے آل انڈیا مسلم لیگ کے منٹو پارک لاہور (یاد گار قرارداد پاکستان گراؤنڈ) میں منعقد ہونے والے جلسۂ عا م میں شرکت کی۔ وہ اِس موقع پر ترکی ٹوپی،اچکن پاجامہ میں ملبوس تھے، حالانکہ اس وقت وہ ایک سرگرم احراری طالب علم رہنما کی حیثیت سے اپنی ایک الگ پہچان رکھتے تھے، اُن کی اِس تاریخ ساز جلسے میں شرکت اُن کی اعلیٰ سیاسی بصیرت کی مظہر ہے۔

مملکتِ خداداد پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد نوابزادہ نصر اللہ خان نے مجلس احرار اسلام کی فکر کو خیر باد کہہ دیا اور پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے1951ء میں خان گڑھ کے دو حلقوں سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، لیکن مسلم لیگ کے ساتھ آپ کا زیادہ عرصہ نباہ نہ ہو سکا۔ آپ اصولی اختلافات کے باعث مسلم لیگ سے الگ ہو گئے اور آخر کار انہوں نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان جمہوری پارٹی بنا لی، پھر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں رہنمائی کے ایسے چراغ روشن کئے جو آج بھی مُلک کی سیاسی قیادت کے لئے مشعل راہ ہیں۔ نوابزادہ نصراللہ خان (مرحوم) کو اللہ تعالیٰ نے علم و ادب اور سیاست کی اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا تھا، وہ میدانِ علم و ادب اور سیاست میں ممتاز اور منفرد نظر آتے ہیں۔ جہاں آپ سیاسی طور پر ایک مضبوط فکر کھتے تھے، وہاں مذہبی طور پر بھی وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے، تحریک ختم نبوت کے مجاہد اور بڑے رہنما تھے۔
اُن کی طبیعت میں بچپن سے ہی سنجیدگی تھی، اس وصف نے آپ کو تصوف کے قریب تر کر دیا تھا۔ برصغیر کے نامور خطیب، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی قربت اور تربیت نے سونے پر سہاگے کا کام کیا اور وہ مُلک کے سیاسی افق پر50 سال سے زیادہ عرصے تک روشن ستارہ بن کر چمکے، اپنی آخری سانس تک مُلک میں جمہوری اقتدار کے فروغ اور جمہوریت کے قیام کے لئے جدوجہد کی۔ انہوں نے ہمیشہ آمرانہ نظام حکومت کی مخالفت کی اور مُلک میں جمہوریت کی بحالی کے لئے چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کو متحد کر کے آمروں و ڈکٹیٹروں کے خلاف مضبوط سیاسی اتحاد بنائے اور مُلک کی سیاست میں حیران کن تبدیلیاں لا کر مُلک میں جمہوری عمل کو جاری رکھنے کی راہ ہموار کی۔
پاکستان میں جمہوریت، آئین اور پارلیمینٹ کی بالادستی کے لئے جدوجہد کو بابائے جمہوریت کی زندگی کی داستان کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ متعدد سیاسی دانشور کہتے ہیں کہ مُلک میں جب آمریت ہوتی تو نوابزادہ نصر اللہ خان جمہوریت کی بحالی کے لئے جدوجہد کرتے تھے اور جب مُلک میں جمہوریت ہوتی تو حقیقی جمہوریت کے نام پر سیاسی حکومت کے خلاف تحریک شروع کر دیتے تھے۔

دراصل یہ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کی دانائی، حکمت عملی اور سیاسی کرشمہ سازی تھی کہ جب وہ سیاسی حکومت کو جمہوریت کی پٹڑی سے پھسلتے دیکھتے تو وہ منتشر اور متحارب سیاسی قوتوں کو متحد کر کے آمریت کے سامنے ڈٹ جاتے۔ یہ میثاق جمہوریت کا ہی نتیجہ تھا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھ کر اپنی پانچ سالہ حکومت کی مدت پوری کی، جبکہ مُلک میں اب مسلم لیگ(ن) جمہوری انداز سے برسر اقتدار ہے۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان نے دُنیا بھر کی اقوام کی جمہوریت کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اپنی ایک مضبوط رائے قائم کی تھی کہ جمہوریت آنکھ جھپکنے سے نہیں، بلکہ ہمہ وقت سیاسی بیداری اور مسلسل جدوجہد سے آتے آتے آتی ہے۔

بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان 1962ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے،وہ جناح عوامی لیگ میں شامل ہوئے، جو بعد میں عوامی لیگ کہلائی، سید حسین شہید سہروری اس جماعت کے صدر اور نوابزادہ نصر اللہ خان نائب صدر تھے۔ حسین شہید سہروردی تحریک پاکستان میں قائداعظمؒ کے ہم رکاب رہے، اس حوالے سے ان کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان سیاسی اتحاد بنانے اور بحالی جمہوریت کی تحریک چلانے کی بے پناہ اہلیت رکھتے تھے۔ ایوب خان سے ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، محترمہ بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف تک کے خلاف ہر اتحاد میں ان کا کردار قائدانہ رہا۔ وہ مُلک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کو آپس میں سیکڑوں اختلافات کے باوجود، کم سے کم ایجنڈے پر متحد اور اکٹھا کر کے اپنی جماعت سمیت دینی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر تیرہ اور سترہ جماعتی اتحاد بنا لیتے اور ان اتحادوں میں انہیں ہمیشہ مرکزی حیثیت حاصل رہی۔

وہ سخت سیاسی مخالفین کو ملکی مفاد کی خاطر مشترکہ سیاسی پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے فن سے واقف تھے۔ انہوں نے ایم آر ڈی بنا کر ولی خان اور بیگم نصرت بھٹو کو ایک مشترکہ پلیٹ فام پر اکٹھا کر دیا اور پی ڈی ایف بنا کر ایئر مارشل اصغر خان اور بے نظیر بھٹو کو ایک میز پر بٹھا دیا۔ آپس میں شدید سیاسی مخالف جماعتوں، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کو اے آر ڈی میں اکٹھا کر لیا اور میثاق جمہوریت پر دستخط بھی کروا دیئے۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کی جمہوری نظام کے بارے میں بنیادی سوچ یہ تھی کہ پاکستان کی فیڈریشن صرف پارلیمانی جمہوریت سے ہی قائم رہ سکتی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ مُلک پر 33سال طالع آزماؤں نے زبردستی قبضہ کئے رکھا طالع آزما یہ سمجھتے رہے کہ قوم کے لیڈر کا فیصلہ انہوں نے کرنا ہے۔ اِس صورت میں مُلک پر آمریت اور مارشل لاء کے بادل منڈلاتے رہے اور جمہوریت کی کونپلیں پوری طرح پروان نہ چڑھ سکیں۔

بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان (مرحوم) نے32 نکلسن روڈ لاہور میں اپنی رہائش گاہ کو مُلک کے سیاست دانوں اور اپنی پارٹی کے کارکنوں کے لئے ایک مکمل سیاسی سیکرٹریٹ (تربیت گاہ) بنا رکھا تھا، جس کے دروازے ہر خاص وعام کے لئے دن رات کھلے رہتے تھے اور مُلک کی سیاسی قیادت سیاسی مشوروں اور مسائل کے حل کے لئے ان کے پاس حاضری دیتی تھی۔ نواز شریف جب دوسری بار برسر اقتدار آئے تو جنرل پرویز مشرف کو چیف آف آرمی سٹاف انہوں نے ہی بنایا تھا، بعد میں حکومت اور ان کے درمیان اختلافات میں اضافہ ہوتا گیا۔ 12اکتوبر 1999ء کو طالع آزما نے اقتدار پر قبضہ کر لیا، مُلک کا وزیراعظم گرفتار ہو کر اندھیری کوٹھڑی میں بند ہو گیا اور بعدازاں وہ اپنے خاندان سمیت جدہ بھجوا دیئے گئے۔ سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو آٹھ سال سے پہلے ہی طویل اور صبر آزما جلا وطنی کاٹ رہی تھیں۔

بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان نے اپنی بیماری اور بڑھاپے کی پروا کئے بغیر مُلک کی سیاسی کشتی کو اندھیرے بھنور سے نکالنے کے ساتھ طالع آزما جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف سیاسی اتحاد بنانے کے لئے طویل ملاقاتیں کیں اور ایک دوسرے کو ایک آنکھ نہ دیکھنے والی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کر لیا اور طائع آزما کی آمریت سے نجات کا راستہ ہموار کر دیا۔ میثاق جمہوریت کی بنیاد رکھ کر بابائے جمہوریت پاکستان پہنچ گئے۔ وہ فوراً سیاسی سرگرمیاں شروع کرنا چاہتے تھے۔ اِس سلسلے میں انہوں نے اے آر ڈی کا اجلاس 25 ستمبر کو اسلام آباد میں طلب کر لیا تھا، لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور دِل کا دورہ پڑنے کے باعث اُن کو الشفاء ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا اور اے آر ڈی کا اجلاس ملتوی ہو گیا۔ نوابزادہ نصراللہ خان کی طبیعت سنبھل کر دوباہ بگڑ گئی، 26اور 27 ستمبر کی شب وہ داعی اجل کو لبیک کہہ کر اِس دارِفانی سے کوچ کر گئے۔۔۔
(انا للہ وانا الیہ راجعون)۔۔۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے، آمین!

محمد سرور جالندھری


فیصلے کی گھڑی

$
0
0

لندن کے ایک معروف اخبار نے 24مارچ‘ 1933 کو ایک ہیڈ لائن لگائی جس نے

پورے یورپ میں ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ “Judea declare war on Garmany” (یہودیوں نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا)۔ خبر کی تفصیل بہت خوفناک ہے۔ دوسری ہیڈ لائن تھی، ’’دنیا بھر کے یہودی متحد ہو گئے اور انھوں نے جرمنی کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا‘‘۔ خبر بتاتی ہے کہ دنیا بھر کے یہودیوں نے جرمنی کے خلاف معاشی جنگ کا اعلان کیا ہے۔ ایک کروڑ چالیس لاکھ یہودی فرد واحد کی طرح اکٹھے ہو چکے ہیں۔ یہ سب یہودی ہر سطح پر جرمنی کا مقابلہ کریں گے‘ دکاندار‘ بینکر‘ تاجر یہاں تک کہ یہودی بھکاری بھی اپنا کشکول جرمنی سے جنگ کے لیے خالی کر دے گا۔ دنیا کے ہر بڑے شہر میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں‘‘۔ یہ خبر ٹھیک ایک دن کے بعد اخبار میں لگائی گئی کیونکہ 23مارچ کو ہٹلر کی نازی پارٹی اور اس کی شریک جرمن نیشنل پارٹی نے یہودیوں کی تفتیش کے لیے پہلا کنسٹریشن Concentration کیمپ قائم کیا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب نہ چوبیس گھنٹے کا ٹیلی ویژن ہوتا تھا اور نہ ہی سوشل میڈیا۔ لیکن اگلے دن ہی لندن کے اخبار نے یہودیوں کی طرف سے ہٹلر کے خلاف طبل جنگ بجا دیا اور پھراس قدر بجاتے رہے کہ پورے یورپ میں یہودیوں کے خلاف اور ان کی حمایت میں ایک فضا بن گئی۔

اس سارے کھیل کا مقصد یورپ میں صدیوں سے رہنے والے یہودیوں کو غیر محفوظ بنا کر اسرائیل کی سرزمین کی طرف دھکیلنا تھا جہاں پہلی جنگ عظیم کے بعد سے ہی وہ جا کر آباد ہونا شروع ہو گئے تھے۔ یہ معاشی بائیکاٹ اور وہ بھی یہودیوں کی جانب سے‘ کیا اتنا خطرناک تھا کہ حکومت گرا سکتا تھا۔ جی ہاں! اس لیے کہ یہ بائیکاٹ ان یہودی سود خور بینکاروں کی جانب سے تھا جنہوں نے پہلی جنگ عظیم میں اپنا سرمایہ لگایا‘ اور پھر اس سے کئی گنا زیادہ کمایا۔ پہلی جنگ عظیم کے بہت بڑے مورخ ایلن بروگر(Alan Bruger) کے مطابق ان عالمی سود خور بینکاروں نے محاذ جنگ پر مرنے والے ایک سپاہی کے عوض دس ہزار ڈالر کمائے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب 1913 میں امریکا کا کل بجٹ 714 ملین ڈالر تھا اور صرف ایک سرمایہ دار راک فیلر کی سلطنت 900 ملین ڈالر پر محیط تھی۔ 1913سے لے کر آج تک پوری دنیا کے بینکاری نظام پر آٹھ خاندانوں کا قبضہ ہے۔ روتھ شیلڈ (Roth Schid)‘ راک فیلر (Rock feller)‘ کوہن لوچ (Kuhn Loch)‘ لی مین (Lehman)‘ لزارڈ (Lazard) اور اسرائیل موسیز سیف (Israel Moses seif)۔ امریکا کا فیڈرل بینک یعنی ٹریژی بھی انھی  کے کنٹرول میں ہے۔ ایک عالمی جنگ ان سود خور بینکاروں کی ضرورت کیوں ہوتی ہے۔ ان سرمایہ دار سود خور بینکاروں کا پیٹ چھوٹے چھوٹے مقروض صنعتکاروں کی دولت سے نہیں بھرتا۔ یہ طریقہ ایک مستقل سردرد ہے چھان پھٹک کر قرض دینا اور اپنے قرضے کی واپسی۔ کس قدر بہتر ہے کہ حکومتوں کو مقروض کرو اور پھر وہ عوام کا خون نچوڑ کر قرض کی ادائیگی کریں۔ اس کے لیے دنیا بھر میں پہلا تجربہ جنگ عظیم اول تھی۔ کوئی مورخ آج تک اس گورکھ دھندے کو حل نہیں سکا کہ پہلی جنگ عظیم شروع کیسے ہوئی۔

سرائیگو میں ولی عہد فرڈنیڈ کے قتل کے بعد آسٹریا نے سربیا سے معافی مانگنے کو کہا‘ سربیا نے معافی نامہ لکھ کر بھیج دیا لیکن آسٹریا نے جنگ کا اعلان کر دیا۔ پورے یورپ کے اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ٹیکسٹ کی کتابوں میں یہی کہانی پڑھائی جاتی ہے۔ لیکن دنیا بھر کے سنجیدہ مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ قتل تو ایک بہانہ تھا اس کے پیچھے کئی سالوں کی جنگی تیاری تھی‘ اسلحہ خریدا جا چکا تھا۔ ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا طوفان عروج پر تھا۔ اس جنگ کو چھیڑنے کے عمل کو آٹھ بڑے سودی بینکار خاندانوں کا فارمولا کہا جاتا ہے جسے روتھ شیلڈ فارمولا کہتے ہیں یعنی’’اقوام کو اقوام کے خلاف کھڑا کرو تاکہ دونوں طرف قرضہ دے کر کماؤ۔‘‘ جنگ عظیم اول ختم ہوئی تو سب کو معلوم تھا کہ جرمنی کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔

لیکن یہ جنگ کسی کو تباہ کرنے کے لیے تھوڑا کی گئی تھی ۔ یہ تو انھیں لوٹنے کے لیے برپا کی گئی تھی۔ پہلے تو جنگ کے دوران بینکوں نے جرمنی کو اس کے خفیہ آپریشن کے لیے قرضہ فراہم کیا‘ پھر جب جرمنی ہار گیا تو اس پر بھاری تاوان جنگ ڈال دیا گیا۔ سب کو پتہ تھا کہ تباہ حال جرمنی جنگ کا تاوان اور قرضہ ادا نہیں کر سکتا۔ یہ سود خوربینکار سامنے آئے‘ جرمنی کو پہلے ڈاوس (Dawes) پلان‘ پھر (Yung) ینگ پلان کے ذریعے امریکیوں نے بھاری قرضے دیے گئے۔ 31اگست 1921ء کو جرمنی نے ایک ارب سونے کے مارک قرض اور سود کی صورت ادا کر دیے ۔ یہ منظر بھی دیکھنے کے قابل تھا جب سونے اور چاندی کے یہ سکے بکسوں میں بھر کر ریل کے ذریعے سوئٹزر لینڈ ‘ ڈنمارک اور ہالینڈ لے جائے گئے اور سٹیمر میں ڈال کر امریکا کے سود خور بینکاروں کے حوالے کیے گئے۔ یہ عالمی بینکاروں کا پہلا کامیاب تجربہ تھا۔

عالمی جنگ سے پیسہ کمانے کا عالمگیر تجربہ۔ اس کے بعد روتھ شیلڈ فارمولا کے تحت پوری دنیا کو دوسو کے قریب قومی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ پاسپورٹ‘ کرنسی‘ ویزا‘ جھنڈہ‘ ترانہ اور سرحد جیسے مقدس لفظ وجود میں آئے۔ ہر ملک کی مسلح افواج بنیں اور ہر ایک کا دشمن بھی تخلیق ہو گیا۔ اب تو جنگ بھی آسان ہو گئی اور اس سے منافع کمانے کا راستہ بھی ۔صرف پچیس سال کے اندر اندر دوسری جنگ عظیم برپا ہوئی۔ امریکا اتحادی فوج کا حصہ تھا لیکن آپ حیران ہوں گے کہ امریکا کی فورڈ کمپنی فرانس میں جرمن فوجیوں کو ٹرک بھیجتی رہی‘اسٹینڈرڈ آئل کمپنی سوئٹزر لینڈ کے راستے جرمنی کوتیل فراہم کرتی رہی۔ انٹرنیشنل امریکن ٹیلیفون کمپٹی ITTکا سربراہ سوستھینی بین Sosthene behn امریکا سے میڈرڈ گیا‘ وہاں سے جرمنی کے شہر برن پہنچا اور ہٹلر کے مواصلاتی نظام کو موثر بنایا اور ان کے ربورٹ بم کی صلاحیت کو بہتر کیا تاکہ وہ لندن پر بم برسا سکیں۔ اسی دوران بال بیرنگ بنانے والی کمپنیوں نے جنوبی امریکا کے ممالک کے ذریعے جرمنی کو بال بیرنگ مہیا کیے جب کہ امریکی افواج اس کی کمی کو شدت سے محسوس کر رہی تھی۔ اس جنگ کے بعد ان سودی بینکاروں نے تباہ حال یورپ سے جو کچھ وصول کیا اور آج تک کر رہے ہیں وہ ان کی مکمل تقدیر ہے۔ ان کو قرضے دے کر پاؤں پر اس لیے کھڑا کیا گیا کہ وہ دوبارہ قرض ادا کریں اور پھر قرض لیں۔

یورپ تباہ ہو گیا ‘ برباد ہو گیا‘ لٹ گیا‘ ہر کسی نے جنگ سے توبہ کر لی‘ ہر کوئی جنگ سے نفرت کر کے ان سودی بینکاروں کی تجوریاں بھرنے کے لیے دن رات کمائی کرنے لگا۔ لیکن کیا دنیا سے جنگ ختم ہو گئی… نہیں ہرگز نہیں… جنگ تو ان سود خوروں کا سب بڑا کاروبار ہے۔ جنگ ویت نام چلی گئی‘ کمبوڈیا اور لاؤس میں جا پہنچی چلی‘ نکارا گوا اور ہنڈراس میں آگ برسانے لگی‘ انگولا ‘ صومالیہ  اور پورے افریقہ میں تباہی پھیلانے لگی۔ افغانستان کو برباد کرتی ہوئی عراق جا نکلی اور اب شام کے افق پر روز بجلی کی طرح چمک رہی ہوتی ہے۔ کیا ان تمام جنگوں میں اسی پورپ کا سرمایہ اسلحہ اور فوجیں شامل نہیں تھیں‘ جنہوں نے جنگ سے توبہ کر لی تھی۔ تو بہ نہیں کی تھی‘ بلکہ یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اب جنگ ہم دوسرے کی سرزمین پرلڑیں گے‘ دوسروں کے سروں کی فصلیں کاٹیں گے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ان سودی بینکاروں نے جس قدر سرد جنگ کے 45سالوں میں کمایا ہے وہ پہلی دو جنگوں سے بھی زیادہ ہے ۔سامان جنگ نیا بھی ہے اور مہنگا بھی ۔ خوف کا عالم ویسے ہی ہے۔ پہلے نازی دہشت گرد تھے‘ پھر کمیونسٹ دہشت گرد اور اب مسلمان دہشت گرد۔ رنیڈ کارپوریشن نے 2009ء میں کہا تھا،’’ امریکی معیشت کو ایک عالمی جنگ ہی بچا سکتی ہے‘‘۔ میدان جنگ منتخب ہو چکے‘ شام اور ہندوستان ۔ان مضبوط معیشتوں کا بھی اندازہ کر لیا گیا ہے جو جنگ کا خرچہ اٹھاسکتی ہیں۔

یہ ہیں‘ روس‘ چین ‘ بھارت ‘عرب ریاستیں اور ایران ۔ یورپ کو بھی مسلمان دہشت گردوں سے خوفزدہ کر کے جنگ کے لیے تیار کر لیا گیا ہے۔ 1933ء میں ایک اخبار تھا جس نے ہیڈ لائن لگائی تھی ۔ اب پورا میڈیا ایک خوفناک جن بن چکا ہے۔ شام میں لڑائی چلتی رہتی ہے تو عرب کمزور ہوں گے اور روس اس بندرگاہ کو استعمال نہ کر سکے گا۔ ایک خود مختار کشمیری ریاست کی جدوجہد شروع ہوتی ہے اور وہ بن جاتی ہے تو چین کی معاشی ناکہ بندی ممکن اور پاکستان کا معاشی استحصال۔ صرف دو ماہ پہلے فلپائن کو چین کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں فتح دلوائی گئی کہ چین اپنے جنوبی سمندر کے جزیروں پر حق نہیں رکھتا۔ چین نے کہا ہم اس فیصلے کو نہیں مانیں گے۔

لوہا گرم‘ بھٹی چل پڑ ی ہے‘ کوئی ایک واقعہ‘ ایک حادثہ اس بارود کو آگ لگا دے گا۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ سیدالانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی آخری عالمی جنگ کے بارے میں انھی دو محاذوں کا ذکر کیا ہے۔ ’’شام و ہند‘‘ اور فتح کی بشارتیں دی ہیں۔ جو اللہ کے رسول ؐ پر ایمان رکھتے ہیں وہ بھی جان لیں کہ یہ جنگ رکنے والی نہیں ‘ اور جو عالمی نظام کو زر کو خدا مانتے ہیں‘ وہ بھی سمجھ لیں کہ جنگ آ رہی ہے۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ یہ جنگ ہم نے کس کے مفاد کے لیے لڑنا ہے‘ اللہ کے دین کی عظمت کے لیے یا عالمی استعمار کے ایجنڈے کے لیے… فیصلے کی گھڑی ہے۔

اوریا مقبول جان

بھارتی جنگی جنون حد سے باہر

فیس بُک انتظامیہ نے 7 فلسطینی صحافیوں کے اکاؤنٹس بغیر وجہ بند کردیئے

$
0
0

 فیس بُک نے گزشتہ ہفتے دو الگ الگ نیوز ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے
سات فلسطینی صحافیوں کے ذاتی اکاؤنٹس کوئی وجہ بتائے یا نوٹس دیئے بغیر بلاک کردیئے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق جن فلسطینی صحافیوں کے ذاتی فیس بُک  اکاؤنٹس بند کئے گئے ہیں ان کا تعلق شہاب نیوز ایجنسی اور قدس نیوز نیٹ ورک سے ہے۔ فیس بُک کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ غلطی سے ہوا ہے اور ان میں سے 6 صحافیوں کے اکاؤنٹس بحال کردیئے گئے ہیں۔ ساتویں فلسطینی صحافی کا فیس بُک اکاؤنٹ اب تک بحال نہیں کیا گیا ہے۔

اس کے برخلاف فلسطینی صحافیوں کا مؤقف ہے کہ ایسا کسی غلطی کے باعث نہیں ہوا بلکہ یہ فیس بُک کے اعلی عہدیداران اور اسرائیلی حکام کے مابین تل ابیب میں ہونے والی حالیہ ملاقات کا نتیجہ ہے۔ اس ملاقات میں فیس بُک نے اسرائیلی حکومت کے تعاون سے ایسا تمام مواد اس سوشل میڈیا سائٹ سے ہٹانے کا اعلان کیا تھا جو اسرائیل مخالف ہو یا اسرائیل میں تشدد کا باعث بن سکتا ہو۔ اس اعلان پر انٹرنیٹ ناقدین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ مذکورہ ’’تعاون‘‘ کا اصل ہدف وہ تمام لوگ بالخصوص فلسطینی اور عرب افراد ہوں گے جو سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیل کے خلاف احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ سات فلسطینی صحافیوں کے فیس بُک اکاؤنٹس لاک کرنے کی ’’غلطی‘‘ عملاً فیس بُک کی اسی پالیسی کو ظاہر کرتی ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے اسرائیل میں گزشتہ اکتوبر (2015) سے تشدد کی ایک نئی لہر پھیل رہی ہے جس میں اب تک سینکڑوں افراد قتل کئے جاچکے ہیں۔ لیکن ’’الجزیرہ‘‘ کے مطابق، اسرائیلی اعداد و شمار جھوٹ کا پلندہ ہیں کیونکہ اکتوبر 2015 سے جاری ’’الیکٹرونک انتفادہ‘‘ کے دوران اسرائیل میں اب تک 230 فلسطینی، 34 اسرائیلی، دو ا مریکی، ایک اردنی، ایک اریٹریائی اور ایک سوڈانی قتل ہوچکے ہیں۔ خود اسرائیلی فوج نے اعتراف کیا ہے کہ ’’تشدد/ بغاوت‘‘ پر اُکسانے والا مواد فیس بُک پر شیئر کرانے کی پاداش میں گزشتہ نومبر سے اب تک 100 سے زائد فلسطینیوں کو گرفتار بھی کیا جاچکا ہے جنہیں نظر بندی، کئی ماہ تک قیدِ بامشقت اور ہزاروں امریکی ڈالر کے مساوی جرمانوں جیسی مختلف سزائیں دی جاچکی ہیں۔

فیس بُک کی اسرائیل نوازی پر نکتہ چینی کرنے کے بعد الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں (فلسطینی صحافیوں کا حوالہ دیتے ہوئے) یہ بھی لکھا ہے کہ شہاب نیوز ایجنسی کے اکاؤنٹس ایک سال میں چار بار بند کئے گئے ہیں جن میں سے دو مرتبہ کی بندش عارضی تھی جبکہ دو مرتبہ یہ فیس بُک اکاؤنٹس مستقل بنیادوں پر ختم کردیئے گئے تھے جنہیں نئے سرے سے بنانا پڑا تھا۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فلسطینی صحافیوں کے اکاؤنٹس بند کرنے کا معاملہ کسی غلطی کا نتیجہ رہا ہو یا ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہو، ہر صورت میں اب انٹرنیٹ پر اظہارِ رائے کی آزادی محدود اور چند مخصوص ممالک کی پسند و ناپسند کے تابع ہونے جارہی ہے۔

سبی میلہ

$
0
0

یہ تاریخی میلہ ایک طویل عرصہ سے منعقد ہو رہا ہے۔ شہر سبی درہ بولان کے
دھانے پر واقع ایک قدیم شہر ہے۔ زمانہ قدیم میں یہ شہر برصغیر پاک و ہند میں داخلے کے لیے افغانیوں اور ایرانیوں کی گزر گاہ کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ انگریز دور حکومت میں یہ شہر افغانستان جانے کے لیے بھی استعمال ہوا۔ کچھ تاریخ دانوں کے مطابق اس خطہ میں اسلام سے پہلے یہ شہر قلات کے ساتھ ملحق تھا اور ہندو آبادی اسے ’’سیواس‘‘ کے نام سے پکارتی تھی۔ یہاں مشہور ہندو راجا سہرا رائے کی حکومت تھی اس کا دارالحکومت اسور شہر تھا یہ شہر موجود بھکر کے نزدیک تھا بعد ازاں مسلمانوں کے ساتھ مکران کے مقام پر جنگ میں یہ راجہ مارا گیا اور یہ حکومت مشہور راجہ داھرکے باپ کے ہاتھ میں چلی گئی 
محمد بن قاسم کے زمانے میں سبی مسلمانوں کے دائرہ حکومت میں شامل تھا۔
اس کے بعد اس شہر نے کئی دور حکومت دیکھے اور پھر 1739ء میں یہ برصغیر کے مغربی صوبوں کے ساتھ منسلک ہوگیا۔ خان آف قلات میر محبت خان کے دور حکومت میں شہر قلات میں شامل ہوا ان کے والد میر عبد اللہ خان سندھ حکمران نور محمد کلہوڑہ کے ساتھ ایک طویل لڑائی کے نتیجے میں مارے گئے تھے۔ کچھ تاریخ دانوں کی تحقیق کے مطابق سبی شہر کا نام ایک ہندو شہزادی سیوا رانی کے نام پر رکھا گیا، لیکن تاریخ میں اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔ اس شہر کے مقامی لوگ اب تک اس شہر کو سیوا کے نام سے ہی پکارتے ہیں۔ اس علاقے کے لیے خان آف قلات اور اس کی بہن شہزادی بہنجا نے 17 حملوں کا مقابلہ کیا۔ شہزادی اس شہر کے محاصرے کے دوران ہی وفات پاگئی۔ 1834ء میں انگریزوں نے اس علاقے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلی افغان جنگ میں اسے مرکز کے طور پر استعمال کیا۔ یہ تو ہوا اس شہر کا ایک مختصر سا تعارف، اب ذرا اس شہر کے مشہور سبی میلے کے تاریخی پس منظر کو بیان کریں اس میلے کے بارے میں بھی تاریخ دان مختلف الرائے ہیں کہ یہ کب اور کیسے شروع ہوا۔اشیاء کے بدلے اشیاء کے اصول پر اس میلے میں تجارت کی جاتی تھی۔

یہ شہر ایران، افغانستان، ترکی اور وسطی ایشیاء کے ممالک کے تاجر حضرات کے لیے ایک بہت بڑا مرکز تھا یہ تاجر اس شہر میں اپنا مال لے کر اکٹھے ہوتے اور اشیاء کا باہمی تبادلہ کر لیتے۔ کچھ کے خیال کے مطابق یہ میلہ بلوچستان کے عظیم ہیرو میر چاکر خان رند کے دور حکومت میں شروع ہوا، جو اکثر اس ماہ میں قبائل کو اکٹھا کرتے تھے تا کہ آپس کے تنازعات طے پاسکیں۔ ضلعی گزٹ کے مطابق 1885ء میں یہاں پہلا افغان گھوڑوں کی فروخت کا میلہ منعقد ہوا۔ میر چاکر خان رند نے سبی کو اپنا دارالحکومت بنایا اور یہاں ہر سال قبائلی سرداروں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور قابل تعریف افراد کو اکٹھا کیا جانے لگا۔ ان سربراہان کے ہمراہ بہت سے ملازمین اور کاروباری افراد آتے جو اپنی وقت گزاری کے لیے کچھ نہ کچھ شغل کرتے رہتے ،ان اوقات میں مقامی لوگوں کے علاوہ پنجاب اور سندھ کے تاجر حضرات بھی اپنے مویشیوں کے ہمراہ میلے میں شرکت کرنے لگے۔ آہستہ آہستہ یہ میلہ میلہ اسپاں و مویشیاں کی صورت اختیار کر گیا۔

انگریزوں کے دور میں سبی حکومت کا سرمائی دارالحکومت بن گیا۔ انہوں نے علاقے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے اس میلے کو استعمال کیا اور اس میلے کے شرکاء اور معززین کو نقد رقوم اور اعزازت سے بھی نوازا جانے لگا۔ علاقے کے سرداروں کے لیے لازم کر دیا گیا کہ وہ اپنی بگھی کو میلے میں خود کھینچیں ،اکثر نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس فیصلے کو قبول کیا ،لیکن چند سرداروں نے اسے بے عزتی قرار دیا اور انکار کر دیا۔ گورنر جنرل کا علاقائی ایجنٹ ایک سالانہ شاہی جرگہ بلاتا اور ان قبائلی سرداروں کو اعزازی تلوار یں اور انعامات دیئے جانے لگے جو برطانوی حکومت کے لیے خدمات انجام دیتے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ سلسلہ بدستور جاری رہا شاہی جرگے کا نام بدل کر سبی دربار رکھ دیا گیا۔

شیخ نوید اسلم

 (پاکستان کی سیر گائیں)

اتر پردیش میں بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے

ستر فیصد کشمیری بھارت سے آزادی چاہتے ہیں

پاکستان دھشت گردی کا شکار یا دہشت گرد ملک


پاکستان کی مشہور بندرگاہیں

$
0
0

سون میانی
یہ بندرگاہ ضلع لسبیلہ کے ساحل پر واقع ہے، جو کراچی سے بذریعہ خشکی 45 میل کے فاصلے پر ہے۔ انگریزوں سے پہلے پورے وسط ایشیاء میں اس کا شہرہ تھا۔ یہاں سے بڑی بڑی بادبانی کشتیاں جن کو بلوچی میں ’’بوجھی‘‘ کہتے ہیں، ہندوستان، عرب، افریقا اور خلیج فارس کی بندرگاہوں تک جاتی آتی تھیں۔ راجہ داہر کے خلاف کارروائی کے لیے عربوں نے اسی بندرگاہ پر اپنا لشکر اتارا تھا۔ 19ویں صدی کے آغاز تک بلخ و بخارا افغانستان و ایران کا تجارتی مال کا رواں کے ذریعے اس بندرگاہ میں آتا اور یہاں سے ترکمان اور بلوچی گھوڑے بردباری اور اونٹ سبھی سونمیانی سے باہر بھیجے جاتے۔ اُن دنوں، بولان اور مولہ کے راستے غیر محفوظ خیال کیے جاتے تھے۔ 1805ء میں پرتگالی بحری قزاقوں نے یہ بندرگاہ لوٹ کر اسے آگ لگا دی۔ گل جنید نے جو کلمتی ہوت بلوچوں کا سردار اور ماہر جہاز ران تھا، ان بحری قزاقوں سے یہاں کئی لڑائیاں لڑی۔ برطانوی تسلط کے بعد اس بندرگاہ کی اہمیت ختم ہوگئی۔ انگریزوں نے کراچی کی بندرگاہ کو جدید بنیادوں پر ترقی دی اور ریل کے ذریعے اسے اندرون ملک بڑے بڑے شہروں سے ملا دیا۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی سرحدوں کا تعین ہوا، جس سے کارواں کی آمدروفت رک گئی، جس کے نتیجے میں بندرگاہ آہستہ آہستہ اُجڑ گئی ۔آج کل سون میانی ماہی گیری کے لیے مشہور ہے۔ یہاں بڑے بحری جہاز لنگر انداز نہیں ہوسکتے کیونکہ ساحل کے نزدیک پانی کی گہرائی کم ہے۔ 
اورماڑا
یہ بندرگاہ پہلے ریاست لسبیلہ میں شامل رہی ہے، مگر آج کل مکران ڈویژن کا حصہ ہے۔ 1938ء تک برٹش انڈیا سٹیم نیو یگشین کمپنی کے جہاز ہر پندرھواڑ لے یہاں ساحل سے قریباً تین میل کے فاصلے پر لنگر انداز ہوتے تھے۔ بیرون ممالک خصوصاً سری لنکا اور جاپان سے تجارتی سامان آتا اور یہاں سے زیادہ تر خشک مچھلی اور پیش کی چٹائیاں دساور کو جاتیں ،مگر اب وہ صورتحال باقی نہیں رہی ہے۔

پسنی 
یہ بندرگاہ کراچی سے براستہ خشکی دو سو میل کے فاصلے پر ہے، پہلے یہ ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بستی تھی، لیکن 1931ء میں خان قلات میر محمود خان دوم کی وفات کے بعد ان کے جانشین میر احمد یار خان کو اپنے اختیارات کا علم ہوا، تو انہوں نے بیرون ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کا آغاز کیا۔ اس مقصد کے لیے پسنی کی بندرگاہ قلات کی دوسری بندرگاہوں کے مقابلے میں زیادہ کار آمد ثابت ہوئی چنانچہ سندھ اور بلوچستان کے تاجروں جن میں اکثریت ہندوؤں کی تھی، یہاں سے تجارتی مال درآمدو برآمد کرنے کی طرف توجہ دی اور دیکھتے ہی دیکھتے ماہی گیروں کی یہ چھوٹی سی گمنام بستی وسط ایشیاء میں شہرت حاصل کر گئی۔ جاپان سے ریشمی سوتی اور اونی کپڑے اور کیوبا سے چینی بڑی مقدار میں درآمد ہونے لگی اور یہاں سے خشک مچھلی اور پیش کی چٹائیاں وغیرہ ہندوستان کی بندرگاہ اور کولمبو کو برآمد کی جانے لگی۔ اس درآمد و برآمد سے ریاست قلات کی آمدنی میں چار پانچ لاکھ روپے سالانہ کا اضافہ ہوگیا۔ اس کے علاوہ پسنی سے درآمد شدہ مال مکران، ساراوان، جھالاوان اور کچھی کے علاقوں میں راہداری اور سنگ بھی وصول کیا جانے لگا ،جس کی مجموعی آمدنی پندرہ بیس لاکھ روپے سالانہ سے کم نہ تھی۔ ان دنوں 1939ء میں پسنی کی آبادی دس ہزا ر نفوس پر مشتمل تھی، جن میں اکثریت ’’میلا‘‘ شاہی بلوچوں کی تھی۔ 

1898ء میں مکران کی بغاوت فرو کرنے کے لیے انگریزی فوج کرنل مین کے زیر کمان اس بندرگاہ میں اتری تھی۔ یہ فوج ذحانی جہاز میں کراچی سے روانہ ہو کر پسنی پہنچی اور پھر یہاں سے کوچ کر کے 30جنوری 1898ء کو کپروش کے مقام پر بلوچ مجاہدوں سے جا ٹکرائی۔ اس لڑائی میں میر بلوچ خان نو شیروانی اور کئی دوسرے نامی گرامی بلوچ شہید ہوئے۔ 1942ء میں پسنی میں ایک شدید زلزلہ آیا۔ سمندری موجوں نے تمام شہر تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ قیام پاکستان کے بعد ون یونٹ قائم ہوا، تو پسنی بھی دوسری بندرگاہوں کی طرح مرکزی حکومت کی تحویل میں چلی گئی۔ 

جیونی 
یہ بندرگاہ خلیج گوادر کے دائیں کنارے واقع ہے۔ دشت ندی یہاں سمندر میں گرتی ہے۔ اس کے بیس میل شمال مغرب سے ایرانی بلوچستان کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ جیونی، بلوچستان کی موزوں ترین بندرگاہ ہے۔ اس بندرگاہ پر چودھویں صدی عیسوی تک جدگالوں کا قبضہ رہا ہے۔ اس کے شمال مغرب میں ایرانی بلوچستان کا علاقہ دشتواری ہے،جہاں جدگال قبائل آباد ہیں۔ سردار جیون خان جدگال کا صدر مقام ہونے کی مناسبت سے ان کا نام جیونی پڑگیا۔ کلمت بندر پسنی اور اورماڑا کے درمیان یہ بندرگاہ یعنی خلیج کے سرے پر واقع ہے اور ماکولہ کی شمالی پہاڑیوں کے ذریعے طوفانی ہواؤں سے محفوظ ہے۔ بڑے بڑے جہاز یہاں لنگر انداز نہیں ہوسکتے، لیکن ماہی گیر کشتیوں کے لیے ساحل بلوچستان پر یہ محفوظ ترین ٹھکانہ ہے۔ شکار کے خاص موسم، آڑنگا میں کراچی اور خلیج فارس کی دوسری بندرگاہوں سے ماہی گیر یہاں آکر کھر ماہی یعنی کاڈ کا شکار کرتے ہیں۔ کلمت بندر کے مغرب میں گزدان کی مشہور چراگاہ ہے، جہاں ایک خاص قسم کی گھاس بکثرت اُگتی ہے اور مقامی آڑنگا کے دنوں میں خشکی سے آنے والی شمالی ہوائیں اس گھاس کا بیج سمندر میں پھیلا دیتی ہیں جو کچھ مچھلیوں کی من بھاتی خوراک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مچھلیاں غول در غول سمندر کے اس حصے میں آپہنچتی ہیں اور انہیں شکار کرنے کے لیے ماہی گیروں کے جتھے ادھر اُمنڈ آتے ہیں۔ سُر بندر بلوچستان کی جنوبی پٹی پر ساحل مکران، بحیرہ عرب کے ساتھ 754 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔

گو ساحلی آبادیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے کوئی پختہ سڑک موجود نہیں ،لیکن روزانہ کی پروازوں کی بدولت ان دیہاتوں اورڈیروں کا آپس میں رابطہ قائم رہتا ہے۔ بحیرۂ عرب کا نیلگوں پانی جب گوادر، پسنی اور ارماوا کے چمکتے ریتلے ساحلوں سے ٹکراتا ہے، تو یہ منظر بے حد خوبصورت ہوتا ہے ۔ اس ساحلی پٹی پر الگ تھلگ ساحلی علاقے میلوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ علاقے اپنی خوبصورتی اور قدیم روایات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ جب کوئی سیاح ان علاقوں میں آنکلتا ہے تو وہ ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ آوارہ پھرتے ہوئے اونٹ کھجور کے درختوں کے خوبصورت جھنڈ، چھوٹی چھوٹی ندیاں اور ٹھنڈی گدگداتی اور آلودگی سے پاک ہوا یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسان صدیوں پہلے کی کسی الف لیلیٰ کی داستان کا حصہ ہے۔ 

اس علاقے کو قدرت کے کئی قسم کے امتزاج کی سر زمین کہا جا سکتا ہے۔ اس علاقے میں صحرا اور بنجر پہاڑ بھی ہیں اور ندی نالے بھی۔ یہاں کے لوگ بے حد جفاکش اور محنتی ہیں۔ یہاں ان کی قدیم تہذیبی روایات بے حد مشہور ہیں گوادرکی پر اسرار پہاڑیوں سے پرے کھجور کے درختوں کے جھرمٹ میں گھرا گرم چشموں کے قریب ایک غیر معمولی اور انوکھا قصبہ سربندر ہے، جو اپنی مثال آپ ہے۔ گوادر کی سڑک پندرہ میل دور رہ جاتی ہے اور قصبے تک پہنچنے کے لیے بلند و بالا پہاڑیوں کے پر پیچ اور خم کھانے والے راستے سے آنا پڑتا ہے، جو بے حد شکستہ اور خراب ہے ۔ جیپ بے حد آہستگی سے یہ خطرناک راستہ طے کرتی ہے۔ 

 شیخ نوید اسلم

(پاکستان کی سیر گاہیں سے مقتبس)
 

امریکا بھارت گٹھ جوڑ

$
0
0

بھارتی پارلیمنٹ، ممبئی اور پٹھان کوٹ کے بعد اب اڑی حملے کے ڈرامے نے
بھارت کی چالاکیوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا ہے۔ ان تمام ڈراموں کا مقصد صرف اور صرف کشمیریوں کی جدوجہد آزادی سے عالمی توجہ ہٹانا تھا۔
وزیراعظم میاں نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیریوں کے کیس کو جس مدبرانہ اور بے باکانہ طریقے سے پیش کیا ہے اس پرکشمیریوں سمیت پوری پاکستانی قوم کو اطمینان نصیب ہوا ہے مگر تشنگی یہ رہ گئی کہ پاکستان کے طول وعرض میں بھارت نے جو دہشتگردی کا بازار گرم کر رکھا ہے اس کا انھوں نے کوئی ذکر نہیں کیا۔ بھارت اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بلوچستان اورکراچی میں دہشتگردی سے جو تباہی ڈھا رہا ہے اس کا درد وہاں کے عوام ہی جانتے ہیں خاص طور پر اس نے کراچی کی معیشت کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ روز روز کی ہڑتالوں اور قتل و غارتگری اور بھتہ خوری نے کراچی کی کاروباری اور صنعتی سرگرمیوں پر جمود طاری کردیا جس سے کراچی کے بیشتر خاندانوں کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ اس شہرکو شہر مہاجرین ہونے کا اعزاز حاصل ہے چنانچہ سراسر نقصان مہاجرین کا ہوا۔

افسوس اس امر پر ہے کہ دشمن کے اشارے پر مہاجروں کو درپردہ پاکستان بنانے کا سبق سکھایا گیا۔ یہ تو حقیقت ہے کہ مہاجروں نے قیام پاکستان میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا تھا اور ہندو سامراج کو وہ شکست دی تھی جس کا بدلہ لینے کے لیے وہ برسوں سے تڑپ رہا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد مہاجر بزرگ پاکستان کی انمٹ محبت دل میں لیے آہستہ آہستہ گزرتے گئے۔ دشمن نے موقع غنیمت جان کر مہاجرین کی نئی نسل کے کچھ لوگوں کو ورغلا کر کراچی اور پاکستان کو وہ نقصان پہنچادیا جس کی بھر پائی برسوں بعد ہی ہو سکے گی۔ بظاہر دشمن نے اپنا بوجھ ہلکا کرلیا ہے لیکن اس کی پیاس ابھی بھی نہیں بجھی ہے وہ آدھا پاکستان توڑنے کے بعد باقی ماندہ پاکستان کو بھی برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں ہے مگر اب حالات بدل چکے ہیں اس نے کراچی میں جو سرمایہ کاری کر رکھی تھی وہ اب یقینا ضایع ہو چکی ہے اس لیے کہ اب محب وطن مہاجر نوجوانوں نے بھارتی مکروہ عزائم کو خاک میں ملاکر رکھ دیا ہے۔
22 اگست کے بعد پاکستان مردہ باد کہنے والوں کا دور ختم ہوچکا ہے۔ اب پاکستان مردہ باد کہنے والوں کا ساتھ دینا ملک سے غداری کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ اب جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے وہاں کے عوام بھارت نواز سرداروں کو پہلے ہی الوداع کہہ چکے ہیں۔ بھارت کے اشارے پر وہاں جو بھی تخریبی کارروائیاں ہو رہی ہیں ان میں ان ہی سرداروں کے نوکر چاکر حصہ لے رہے ہیں اور وہ نوجوان جو ملک کے باہر پاکستان کی مخالف اور بھارت کے حق میں بیانات داغ رہے ہیں وہ بھی ان ہی سرداروں کی اولاد ہیں۔ عام بلوچ اس لیے بھی ان سے ہمیشہ دور رہے ہیں کیونکہ ان کی پسماندگی کی اصل وجہ یہی مفاد پرست سردار ہیں۔ براہمداغ اور دیگر بلوچ باغی نوجوانوں کو بھارت کی جانب سے شہریت دینے کی پیشکش سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ وہ بلوچوں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ پہلے وہ بلوچستان میں اپنی تخریب کاری سے صاف انکار کردیتا تھا مگر اب اس کے ’’را‘‘ کے ایک افسر کے بلوچستان سے گرفتار ہونے کے بعد بھارت کی تخریب کاری کے نیٹ ورک کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے۔ وزیر اعظم کو ’’را‘‘ کی پاکستان میں کھلی دہشتگردی کا کھل کر ذکر کرنا چاہیے تھا۔

کشمیر کا بدلہ بلوچوں سے لینے کے لیے انھیں پاکستان سے بدظن کرنے کے لیے وہ جو دیدہ دلیرانہ سازشیں کر رہا ہے وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت ہے۔ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہے اگر دنیا میں یہی طریقہ چل پڑا تو دنیا کا نظام ہی درہم برہم ہوکر رہ جائے گا۔ پھر اڑی ڈرامے کو بہانہ بناکر پاکستان پر حملے کی صرف دھمکیاں ہی نہیں دی جا رہی ہیں بلکہ وہ اپنی فوجوں اور بھاری فوجی ساز و سامان کو سرحدوں پر لے آیا ہے۔ ساتھ ہی پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کے لیے مناسب وقت کا انتظار کیا جا رہا ہے اس طرح مودی نے اپنے جنگی جنون سے جنوبی ایشیا کے امن کو داؤ پر لگادیا ہے۔

مودی کو اپنی بدحواسی کو قابو میں رکھنا چاہیے کیونکہ صرف بھارت ہی نہیں پاکستان بھی ایٹمی طاقت ہے اگر ان کی حماقتوں کی وجہ سے دونوں ممالک میں جنگ چھڑ گئی تو نوبت ایٹمی جنگ تک جاسکتی ہے جس سے کروڑوں لوگوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ اقوام متحدہ کو جنگجو مودی کو ان کے سابقہ انسانیت کش ریکارڈ کی بنیاد پر ناپسندیدہ شخصیت قرار دے دینا چاہیے۔ جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر پاکستان کی سفارتکاری کی کمزوری اس وقت کھل کر سامنے آگئی جب سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اپنی تقریر میں دنیا کے سارے مسائل کا ذکر کیا مگر اس میں کشمیر کا کوئی ذکر نہ تھا۔ یہ دراصل بھارتی سفارتکاروں کی محنت کا نتیجہ تھا۔ پاکستانی سفارتکار ایسے اہم موقعے پرکیوں خواب غفلت میں غلطاں تھے؟

بہرحال خوشی اس بات کی ہے کہ بھارت پاکستان کو تنہا کرنے کی جس خوش فہمی میں مبتلا ہے اس کا جنازہ نکل گیا۔ دنیا کے کئی ملکوں کے سربراہوں نے میاں نواز شریف سے نہ صرف ملاقاتیں کیں بلکہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو سنجیدگی سے سنا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ روس کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی علامات واضح ہوگئی ہیں۔ بھارت کے امریکا کی گود میں بیٹھ جانے نے روس کو پاکستان کی جانب مائل کردیا ہے۔ خطے میں امریکا بھارت گٹھ جوڑ نے امن کے لیے جو خطرات پیدا کردیے ہیں پاکستان روس اور چین مل کر اس کا بہتر طریقے سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔

عثمان دموہی

پاک فوج نے لائن آف کنٹرول سے بھارتی فوجی پکڑ لیا

$
0
0

لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کے بعد پاک فوج نے دشمن ملک کی فوج کے  ایک اہلکار کو اسلحہ سمیت پکڑ لیا۔ غیرملکی خبررساں ادارے رائٹر کے مطابق پاک فوج نے لائن آف کنٹرول کے چمب سیکٹر سے ایک بھارتی فوجی کو حراست میں لے لیا۔ گرفتار کئے گئے فوجی کا تعلق 37 راشٹریا رائفل سے ہے جسے سرحد پار کرنے پر پاکستانی حدود سے گرفتار کیا گیا۔ دوسری جانب بھارتی میڈیا نے تصدیق کی ہے کہ سرحد پار ایک فوجی کو حراست میں لیا گیا ہے جس کا نام بابو لال ہے جو غلطی سے پاکستانی حدود میں داخل ہوگیا تھا جب کہ بابو لال کے سرحد پار کرنے سے متعلق پاکستان کے ڈی جی ایم او کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ بھارتی فوج نے رات گئے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور گولہ باری کی جسے بھارتی میڈیا میں سرجیکل اسٹرائیک قرار دیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں پاک آرمی کے 2 جوان شہید ہوگئے جب کہ جوابی کارروائی کے نتیجے میں کئی بھارتی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں جن کی ویڈیوز بھی جاری کی گئی ہیں تاہم بھارت کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیک کے کوئی ثبوت پیش نہیں کئے گئے۔

انڈیا کچھ روز اکڑ دکھائے گا پھر آ جائے گا

$
0
0

انڈیا اور پھر دیگر تین ممالک کی جانب سے سارک اجلاس میں شرکت کرنے سے
انکار کے بعد تنظیم کے 19 ویں اجلاس کو ملتوی کیے جانے سے کیا پاکستان کو خطے میں پاکستان کو تنہا کرنے کی انڈیا کی مہم کا حصہ ہے اور پاکستان پر سفارتی سطح پر کتنا دباؤ پڑے گا؟ تاہم یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ انڈیا کی وجہ سے سارک کا اجلاس ملتوی ہوا ہو۔ اس سے قبل 1999 میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد انڈیا نے کٹھمنڈو 26 سے 28 نومبر کا اجلاس ملتوی کرنے کے لیے درخواست کی تھی۔  اجلاس کے ملتوی ہونے سے پاکستان پر سفارتی دباؤ کے حوالے سے سابق سفارت کار عزیز خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ انڈیا کی وجہ سے سارک کا اجلاس منسوخ ہوا ہو۔  انھوں نے مزید کہا کہ ’انڈیا کچھ روز اکڑ دکھائے گا اس کے بعد آ جائے گا۔ یا تو وہ یہ کہہ دے کہ آٹھ جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم سارک ہی کو ختم کر دیا جائے تو وہ الگ بات ہے۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پر کوئی سفارتی دباؤ نہیں پڑتا کیونکہ سارک کے اجلاس پہلے بھی ملتوی ہوتے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا: ’افغانستان بھی خفا پھر رہے ہیں لیکن اجلاس ملتوی ہونے سے تنہائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘ کیا یہ انڈیا کی جانب سے پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کی کوشش کی کڑی ہے؟ وزیر اعظم نریندر مودی کہہ چکے ہیں کہ انڈیا پوری دنیا میں پاکستان کو الگ تھلگ رہنے پر مجبور کردے گا۔ اگر دیکھا جائے تو ایران نے حال ہی میں چین پاکستان اقتصادی راہداری میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا ہے، روس نے پاکستانی فوج کے ساتھ اپنی فوجی مشقیں منسوخ کرنے سے انکار کر دیا اور پہلی بار روسی فوج پاکستان میں مشترکہ فوجی مشقوں کے لیے آئی ہے۔ سابق سفیر ظفر ہلالی کا کہنا ہے کہ ایران کی پاکستان اقتصادی راہداری میں شمولیت کی خواہش، روسی فوج کی پاکستان میں مشقوں کے لیے آنا چند مثالیں ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان تنہا نہیں ہو رہا۔

’سارک اجلاس ملتوی ہونے سے پاکستان پر سفارتی طور پر کوئی دباؤ نہیں پڑے گا اور تنہائی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سارک ایک غیر موثر تنظیم ہے۔‘ سابق سفیر نجم الدین شیخ کا کہنا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے اوڑی سیکٹر میں حملے کے بعد سارک اجلاس کا ملتوی ہونا تو واضح تھا۔ ’سارک چارٹر کے مطابق ایک رکن اجلاس میں نہیں آتا تو اجلاس ملتوی ہو جاتا ہے۔ تین دیگر ممالک کی جانب سے اجلاس میں شرکت میں انکار سے انڈیا کو خطے کی بڑی طاقت کے طور پر پیش کرنا ہے۔ لیکن اگر مغرب کی جانب دیکھیں تو وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کو بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے چاہیے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ جو خبریں انڈین میڈیا پر آ رہی ہیں تو اس سے لگتا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں مظاہرے وغیرہ اسی شدت سے جاری ہیں جو شدت پہلے دن تھی۔ ’سارک میں شرکت نہ کرنے کی وجہ کشمیر کی صورت حال سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ پہلی بار نریندر مودی نے عوام کے ردعمل کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنی تقریر میں پاکستان کو تنہا کرنے کا کہا اور اب بھی سارک میں شرکت نہ کرنا عوام کو خوش کرنے اور عالمی توجہ کو کشمیر میں بگڑی ہوئی صورت حال کے واقعات سے ہٹانے کی کوشش ہے۔‘

رضا ہمدانی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

بھارت کبھی جنگ کا خطرہ نہیں مول لے گا

ایم کیو ایم لندن کا فاروق ستار کو بنیادی رکنیت سے فارغ کرنے کا اعلان

پاک چین دوستی زندہ باد : چین کا پاکستان کے حق میں اقدام

$
0
0

چین نے ایک بار پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مولانا مسعود اظہر کو
دہشت گرد قرار دلوانے کی بھارتی کوشش کو ناکام بناتے ہوئے تکنیکی رکاوٹ میں توسیع کر دی۔ بھارت نے مارچ میں سلامتی کونسل کی 1267 کمیٹی میں مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کی قرار داد پیش کی تھی جس کی سلامتی کونسل کے 14 ارکان نے حمایت کی تھی جب کہ صرف چین نے تکنیکی رکاوٹ ڈالی تھی جس کی مدت آج (پیر) کو ختم ہورہی ہے‘ اس دوران چین کی جانب سے مزید اعتراضات نہیں اٹھائے گئے‘ اس صورتحال میں ڈیڈ لائن ختم ہونے پر بھارتی قرارداد خود بخود منظور ہو جاتی مگر چین نے ایک روز قبل تکنیکی رکاوٹ میں مزید 6 ماہ کی توسیع کر دی۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق چین کا ہمیشہ سے ہی یہی موقف رہا ہے کہ 1267 کمیٹی کو اپنے اصولوں پر قائم رہنا چاہیے اور ٹھوس شواہد کی بنیاد پر سلامتی کونسل کے تمام ارکان سے مشاورت کے بعد اپنا فیصلہ دینا چاہیے‘ اپنے تحریری جواب میں چین کا کہنا تھا کہ مسعود اظہر کے خلاف قرارداد کے حوالے سے اعتراضات موجود ہیں‘ قرار داد کو مزید چھ ماہ کے لیے تکنیکی بنیادوں پر روکنے کا مقصد کمیٹی کو وقت دینا ہے تاکہ متعلقہ فریقین کے ساتھ سنجیدگی سے بات چیت کی جا سکے۔
بھارت پاکستان کے خلاف روز نت نئے شوشے چھوڑتا رہتا ہے‘ کبھی وہ سلامتی کونسل میں مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دلانے کے لیے قرارداد پیش کرتا ہے تو کبھی اوڑی سیکٹر پر حملے کی آڑ میں سرحدوں پر فائرنگ اور گولہ باری شروع کر کے سرجیکل اسٹرائیکس کا دعویٰ کر ڈالتا ہے تو کبھی سندھ طاس معاہدہ توڑ کر پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیتا ہے۔ جب سے مودی برسراقتدار آئے ہیں انھوں نے پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی دعوت کا کبھی مثبت جواب نہیں  دیا۔ پہلے انھوں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ اگر مذاکرات کرنے ہیں تو کشمیر کو اس میں سے مائنس کر دیا جائے پھر انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے الیکشن جیتنے کی ہر ممکن کوشش کی‘ اس دوران ایسی خبریں سامنے آئیں کہ مودی مقبوضہ کشمیر کو آئینی طور پر بھارت کا مستقل حصہ بنانے کے لیے سرگرم ہیں مگر مقبوضہ کشمیر کے ہونے والے الیکشن میں شکست نے ان کے ان ارادوں پر پانی پھیر دیا۔ پاکستان کا پانی روکنے کی دھمکیاں منظرعام پر آنے کے بعد چین نے بھارت پر واضح کر دیا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو وہ بھی دریائے برہما پترا کا پانی روک لے گا‘ اب ایسی خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ چین نے دریائے برہما پترا کے معاون دریا کا پانی بند کر دیا جس سے بھارت اور بنگلہ دیش متاثر ہونگے‘ چین ایک منصوبے کے تحت اس دریا کا پانی آبپاشی کے لیے استعمال کرنے کے علاوہ یہاں بجلی پیدا کرے گا‘ یہ زیر تعمیر ہائیڈرو پروجیکٹ 2019 میں مکمل ہو گا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق اس منصوبے کی تعمیر سے دریائے برہما پترا کے پانی میں 36 فیصد کمی واقع ہو گی جس کے نتیجے میں بھارت کی ارونچل پردیش سمیت پانچ بڑی ریاستوں میں پانی کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی۔ ادھر بھارت کنٹرول لائن پر اپنی جارحیت سے باز نہیں آیا اور اس نے ہفتے کی صبح بھمبر سیکٹر میں شہری آبادی پر بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیا جو چار گھنٹے جاری رہا‘ پاک فوج کی جانب سے بھرپور جوابی کارروائی کے باعث بھارتی توپیں خاموش ہو گئیں۔ پاک فوج کی جانب سے پاکستانی میڈیا کے نمایندوں کو ہفتے کو کنٹرول لائن کا دورہ کرایا گیا‘ اس موقع پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے سرجیکل اسٹرائیکس کے بھارتی دعوے کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ سیز فائر کی خلاف ورزی پر بھارتیوں کو جو جواب ملا اس میں ان کی ہلاکتیں بھی ہوئیں لیکن بھارت اسے چھپا رہا ہے۔

اقوام متحدہ مبصرین صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں اگر بھارت نے نقصان پہنچایا تو دکھائے وہ کہاں ہے۔ چین نے ہر مشکل موقع پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے بھارت کی طرف سے پاکستان کو جنگ اور پانی بند کرنے کی دھمکیوں کے جواب میں چین نے واضح کر دیا کہ وہ ایسا ہونے کی صورت میں پاکستان کا ساتھ دے گا۔  بھارت کے جارحانہ اور جنگی عزائم کے باعث پورے خطے کی سلامتی خطرے میں پڑ چکی ہے‘ تناؤ اور کشیدگی کی اس صورت حال کو ختم کرنے کے لیے عالمی قوتیں بھی کوئی موثر کردار ادا نہیں کر رہیں۔ بھارت کو اس کے جارحانہ عزائم سے روکنے کے بجائے پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے جب کہ یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر پہلے ہی سے جنگ لڑ رہا ہے۔ رہی سہی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغانستان اور خطے کے دیگر ممالک کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا‘ صرف پاکستان پر الزامات لگانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

ایڈیٹوریل ایکسپریس نیوز


پلیجو صاحب کی واپسی : وسعت اللہ خان

$
0
0

رسول بخش پلیجو سے ہزاروں لوگوں کی طرح میرا تعلق بھی نیاز مندانہ ہے۔ شائد ہمارے مابین ایک غیر تحریری معاہدہ ہے کہ جب بھی ملاقات ہو گی سیاست کے سوا ہر موضوع پر بات ہوگی۔ خیر بات کیا ہوتی ہے میں تو انھیں بس ایک آدھ سوال کر کے چھیڑ دیتا ہوں اور پھر ساٹھ برس سے زائد پر پھیلے سیاسی ، سماجی ، عمرانی ، نظریاتی ، ادبی و رومانی مشاہدہ کار کی گفتگو  کے دانے اپنی ذہنی مالا میں پروتا چلا جاتا ہوں۔ اس تعلق کی کیمسٹری کچھ ایسی ہے کہ پلیجو صاحب کو کبھی یہ نہیں پوچھنا پڑتا کہ یہ جو تم نے سوال اٹھایا ہے اس کی مزید وضاحت کرو۔ یا مجھے کہنا پڑے کہ آپ کی یہ بات پوری طرح میری سمجھ میں نہیں آئی اس سے آپ کی کیا مراد ہے۔

اسی کمیسٹری کے ساتھ دو ہزار تیرہ کے کسی دن حیدرآباد کے نسیم نگر کے پلیجو ہاؤس میں علیل پلیجو صاحب کی عیادت کے لیے گیا تو بنا سیاق و سباق  میں نے پہلی بار ایک سیاسی سوال پوچھا۔آپ تو ایسے نہ تھے یہ آپ نے کیا کیا ؟کہنے لگے انسان سے کچھ باتیں سرزد ہو جاتی ہیں وجہ بعد میں ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ سوال کا سیاق و سباق کیا تھا اور پھر جواب میں کیا پوشیدہ  تھا۔ عرض یہ ہے کہ یہ سوال اپنے صاحبزادے ایاز لطیف پلیجو کو پارٹی قیادت سونپنے کے بارے میں تھا۔ نہ میں نے سوال میں کسی کا نام لیا نہ پلیجو صاحب نے جواب میں کسی کا نام لیا اور بات بھی ہوگئی۔ یہ تھی کیمسٹری۔
گذشتہ روز اس سوال کا تفصیلی جواب بغیر پوچھے ایک بار پھر مل گیا۔ جب اچانک رسول بخش پلیجو نے ایک پریس کانفرنس میں یہ بم پھوڑا کہ قومی عوامی تحریک پر دشمن قوتوں کا براہِ راست و بلا واسطہ قبضہ ہو چکا ہے۔ لہذا اب سابق عوامی تحریک کو بحال کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ آج کے بعد میرا اور ساتھیوں کا ایاز لطیف سے کوئی تنظیمی تعلق نہیں رہا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ہم کشمیریوں کے حقِ خوداردایت کے لیے جاری جدوجہد کی مکمل حمائت کرتے ہیں۔چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور منصوبے میں سندھ کو شامل کرتے ہوئے اس کا دائرہ کیٹی بندر تک بڑھایا جائے۔ پاکستان کو کثیر قومی ریاست قرار دے کر سندھی پشتو ، پنجابی ، بلوچی اور سرائیکی کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔ بحال شدہ عوامی تحریک کا تنظیمی کنونشن اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں حیدرآباد میں ہوگا وغیرہ وغیرہ.

مجھے پارٹی کے اندرونی حالات تو نہیں معلوم مگر ایک نہ ایک دن باپ کے آئیڈیل ازم اور بیٹے کی سیاسی عملیت پسندی میں ٹکراؤ ہونا ہی تھا سو ہوگیا۔ اس ٹکراؤ اور طلاق کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کے ڈائنو سار کے سامنے موہن جو دڑو کے آثار کی طرح بکھری پڑی پیر پرست ، قوم پرست و لبرل سیکولر تنظیموں اور گروہوں کی سیاست مزید کمزور ہوگی یا اس میں طاقت کا انجکشن لگے گا فوری طور پر بتانا کسی کے لیے بھی مشکل ہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور تک سندھ کی سیاست میں صف بندی شیشے کی صاف تھی۔ پیپلز پارٹی سندھ کا سیاسی چہرہ تھی اور اب بھی ہے مگر عوامی تحریک جیسی تنظیمیں سندھ کی امنگوں کا چہرہ تھیں۔ اس کا واضح ترین اظہار انیس سو تراسی کی تحریکِ بحالیِ جمہوریت میں سندھ کے مجموعی جدو جہدی کردار کی شکل میں اب تاریخ کا حصہ ہے۔ مگر جب مشترکہ دشمن سامنے سے ہٹ گیا تو سیاست بھی پتوں کی طرح اڑنے لگی۔ پیپلز پارٹی تو اپنی روائیتی قلعہ بندی بچانے میں کامیاب رہی البتہ فاضل راہو کی شہادت کے سبب عوامی تحریک جیسی منظم جماعت گویا انجن سے محروم ہوگئی اور جوش و جذبہ اور چہروں پر مستقبل کی چمک ماند پڑتی گئی۔

جی ایم سید کی زندگی میں ہی یہ ہوگیا کہ جئے سندھ کے مختلف دھڑے کیا چاہتے ہیں ؟ کچھ پتہ نہیں چلتا تھا اور آج تو جئے سندھ کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ کہاں سے آیا کدھر گیا وہ۔ قادر مگسی کیوں آئے ، کیا کیا ، کیوں سائیڈ لائن ہوگئے۔عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ۔ پیسے کی چمک ، قبائلی عصبیت ، بھتہ خوری ، جرم اور سیاست کی انڈر ہینڈ ڈیلنگ، ایجنسیوں کا کردار، زرداریانہ پیپلز پارٹی کی منڈیانہ و کاروباری حکمتِ عملی ، با اثر روحانی و سیاسی خانوادوں کی نئی نسل کی تیزی سے بدلتی ترجیحات ، ٹنل ویژن ، کتاب سے اجنبیت ، غرض آج کا سندھ اس سیاسی گودام جیسا ہے جہاں تاروں کے گھچے کچھ اس طرح پڑے ہیں کہ کچھ پتہ نہیں چلتا کونسی تار کا کنکشن کہاں جڑا ہوا ہے ، کونسی بیچ میں سے ٹوٹی ہوئی ہے اور کونسی بالکل ناکارہ ہوچکی ہے اور کون سی نہ نظر آنے والی تار سے کس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔

اس گودام کی چھت دیکھیں تو اس پر پیسے ، موقع پرستی اور شارٹ کٹ کی چمگادڑیں الٹی لٹکی دکھائی دیں گی۔ چمگادڑ کی تشبیہہ میں اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ اس کے بارے میں یہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ پرندہ ہے یا جانور یا کوئی بیچ کی چیز۔ چمگادڑ اندھیرے میں رہنے کی عادی ہوتی ہے۔ روشنی کو دشمن سمجھتی ہے۔ گویا چمگادڑ کے لیے اندھیرا ہی روشنی ہے۔ مجھے رسول بخش پلیجو جیسے کلاسیکی دور کے سیاستدان و عالم کے متحرک ہونے پر خوشی بھی ہے اور یہ دکھ بھی کہ جو عمر گاؤ تکیے سے ٹیک لگا کر نوجوانوں کا جمگھٹا آراستہ کر کے انھیں تاریخ ، سیاست اور ادب کے اسباق و تجربات منتقل کرنے کی ہے ، انھیں یہ بتانے کی ہے کہ جدوجہد کے راستے میں قید و بند انسان کو کتنا کمزور یا طاقت ور بناتی ہے اور سیاست محض لیپ ٹاپ ، ٹویٹر ، فیس بک ، کنسرٹس اور آٹھ تا بارہ بجے تک کے چینلی اکھاڑوں میں زور آزمائی سے آگے نہیں بڑھتی بلکہ پیدل چلنے ، دروازہ کھٹکھٹانے ، کسی محروم کو گلے لگانے اور بغیر ٹوکے پوری بات سننے سے ہی آگے بڑھتی ہے۔ اس عمر میں رسول بخش پلیجو کو ایک بار پھر گھر سے باہر نکلنا پڑ رہا ہے۔

لوگ کہتے ہیں سندھ اب ستر ، اسی اور نوے کی دہائی کا سندھ نہیں رہا۔ نئی نسل اپنی مالک آپ ہے۔اس کے آدرش اور خیالات بالکل مختلف ہیں۔ اس کی زندگی میں آئیڈیل ازم بس اتنا باقی ہے جو کسی کیرئیرسٹ نسل کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ پلیجو صاحب کو چھیاسی برس کی عمر میں یہ سب نہیں کرنا چاہیے۔ ان کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن اگر انھوں نے یہ انتہائی قدم اٹھایا ہے تو سوچئے ناامیدی کا اندھیرا کس قدر گہرا ہے۔

 بقول جون ایلیا
ہم جو دنیا سے تنگ آئے ہیں
تنگ آتے چلے گئے ہوں گے

وسعت اللہ خان 

غربت بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے : عالمی بینک

پاکستان مہاجرین کو پناہ دینے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک : ایمنسٹی

$
0
0

انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان غیر ملکی مہاجرین کو پناہ دینے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ ادارے کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 16 لاکھ پناہ گزین رہ رہے ہیں جبکہ اردن میں 27 اور ترکی میں 25 لاکھ پناہ گزین مقیم ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے الزام عائد کیا ہے کہ دنیا کے امیر ممالک اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ ادارے کے سیکریٹری جنرل سلیل شیٹی نے امیر ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ زیادہ تعداد میں پناہ گزینوں کو جگہ دیں۔ سلیل شیٹی نے کہا ہے کہ برطانیہ اس ناکامی کی ایک مثال ہے۔
برطانیہ نے سنہ 2011 سے صرف آٹھ ہزار شامی پناہ گزینوں کو پناہ دی ہے جبکہ اس کے برعکس اردن میں اس وقت تک 6 لاکھ سے زیادہ شامی پناہ گزین موجود ہیں۔ ایمنسٹی نے امیر عرب ریاستوں پر بھی پناہ گزینوں کو جگہ نہ دینے پر تنقید کی ہے۔ ادارے کی رپورٹ کے مطابق 56 فیصد پناہ گزین اس وقت دنیا کے دس ممالک میں رہ رہے ہیں۔ سلیل شیٹی کے بقول چند ممالک پر زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا ہے اور امیر ممالک صرف امداد بھیج کر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا نہیں ہو سکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ'وقت آگیا ہے کہ عالمی رہنما اس سلسلے میں سنجیدہ اور تعمیری بحث کریں کہ ہمارے معاشرے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونے والوں کی کیسے مدد کریں گے؟'یاد رہے کہ پاکستان میں گزشتہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے افغان پناہ گزین آباد ہیں اور جن کی تعداد چند سال قبل تک 30 لاکھ کے قریب تھی۔

انڈین مواد نشر کرنے پر لائسنس کی فوری منسوخی کا فیصلہ

$
0
0

پاکستان میں میڈیا کے نگراں ادارے پیمرا نے ملک میں انڈین چینلز اور انڈین مواد

دکھائے جانے پر ایسا مواد نشر کرنے والی کمپنی کا لائسنس بغیر کسی نوٹس کے فوری طور پر معطل یا منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان منگل کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگیولیٹری اتھارٹی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کیا گیا ہے۔ بیان کے مطابق یہ فیصلہ پیر کو ہونے والے اجلاس میں کیا گیا اور اس کے مطابق اتھارٹی نے چیئرمین پیمرا کو یہ اختیارات تفویض کیے ہیں کہ خلاف قانون انڈین چینلز اور انڈین مواد کو دکھائے جانے کی صورت میں وہ بنا اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیے اور سماعت کا موقع فراہم کیے کمپنی کا لائسنس فوری طور پر معطل یا منسوخ کر سکتے ہیں۔
پیمرا کے مطابق انڈین مواد سے متعلق قواعد و ضوابط کا اعلان 31 اگست کو کر دیا گیا تھا اور اب ان کا اطلاق رواں ماہ کی 16 تاریخ سے ہو گا اور ادارہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کر سکے گا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے مابین حالیہ کشیدگی کے باعث عوام بھی پرزور مطالبہ کر رہے ہیں کہ انڈین چینلز اور ڈرامے مکمل بند کر دیے جائیں۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جولائی سے جاری مظاہروں کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کے پہلے سے سرد تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے تاہم اس موقع پر پاکستان میں انڈین مواد پر پابندی کے بارے میں زیادہ اقدامات سامنے نہیں آئے۔

تاہم گذشتہ ماہ اوڑی میں فوجی کیمپ پر حملے کے بارے میں تعلقات میں تلخی آئی اور بعد میں انڈیا کی جانب سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سرجیکل سٹرائیکس کے دعوے کے بعد یہ حالات مزید بگڑ گئے۔ انڈیا کے اس دعوے کے بعد سے پاکستان میں جہاں سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فام پر متحد ہوئی ہیں وہیں مقامی سینیماز کے مالکان اور کیبل آپٹرز بھی انڈیا کی فلموں اور دیگر تفریحی مواد پر پابندیاں لگا رہے ہیں اور اب پیمرا نے سرکاری طور پر پہلے سے موجود قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذیشان ظفر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

میلسی : ماضی میں اس شہر کے چار دروازے ہوتے تھے

$
0
0

ضلع وہاڑی کی تحصیل، ملتان سے ۵۴ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ شہر قصور سے کراچی جانے والی سڑک اور ریلوے لائن کے ذریعے ملک کے کئی اہم شہروں سے ملا ہوا ہے۔ مغلیہ عہد کے دوران پتھورا اور راجہ بیکانیر کی اولاد میں سے کھچی خاندان کے دو بھائی محمد علی خاں اور فدا حسین خاں یہاں ہجرت کرکے آئے۔ محمد علی خاں عرف میلسی خاں نے میلسی شہر کی بنیاد رکھی اور فدا حسین خاں کے نام پر میلسی کا نواحی موضع ’’فدہ‘‘ آباد ہوا۔ بعد میں کھچی خاندان کے دوسرے افراد میلسی کے گردونواح میں پھیل گئے۔ ماضی میں اس شہر کے چار دروازے ہوتے تھے، جو بیکانیری دروازہ ، ملتانی دروازہ، لوہاری در وازہ اور کہر وڑی دروازہ کے نام سے مشہور تھے۔

ریاست بہاولپور سے فتح پنجاب کے بعد یہ علاقہ انگریزوں نے نواب بہاولپور سے بہاولنگر کے بدلے میں لیا تھا۔ ۱۸۴۸ء میں اس علاقہ کو ریاست بہاولپور میں تحصیل کا درجہ دیا گیا۔ شہر کے گرد فصیل کو از سر نو قابل حفاظت بنا یا گیا۔ دریائے ستلج سے پانی کا انتظام کیا گیا۔ ۱۸۴۹ء میں میلسی کو ملتان میں شامل کر کے تحصیل کا درجہ دیا گیا۔ ۱۹۴۲ء میں جب وہاڑی کو تحصیل بنایا گیا ،تو تحصیل میلسی کا علاقہ کم ہوگیا۔ ۱۹۲۹ء میں میلسی میں تھانہ اور ۱۹۲۷ء میں ریلوے سٹیشن قائم ہوا۔ اسی سال سے منڈی ٹائون، ۱۹۵۸ء میں ٹائون کمیٹی، ۱۹۶۳ء میں سب ڈویژن اور ۱۹۶۶ء میں میونسپل کمیٹی کا درجہ دیا گیا۔ یہاں کے لوگوں کی زندگی، معاشرت تمدن اور زبان پر ملتانی اور بہاولپوری رنگ کی جھلک واضح طور پر نظر آتی ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل یہاں ہندو کافی تعداد میں آباد تھے۔ وہ یہاں کی تجارت پر چھائے ہوئے تھے۔

۱۹۴۷ء سے قبل یہاں کی دونوں کاٹن فیکٹریاں ہندوئوں کی ملکیت میں تھیں۔ ایک رام نارائن بھولا ناتھ کاٹن فیکٹری جبکہ دوسری رابرٹس کاٹن فیکٹری کے نام سے مشہور تھی۔ یہاں چوہدری بالک رام کا تعمیر کردہ ’’چشمہ بائولی‘‘ کنواں اب بھی خستہ حالت میں موجود ہے۔ سیّد نتھے شاہ گردی نامی بزرگ کا سینکڑوں برس پُرانا مزار بھی ہے۔ میلسی میں طلبا کا پرائمری سکول ۱۸۶۴ء میں قائم ہوا تھا جو ۱۹۲۰ء میں مڈل اور ۱۹۴۰ء میں ہائی ہوا۔ لڑکیوں کا پرائمری سکول ۱۸۹۰ء میں قائم ہوا جو ۱۹۷۲ء میں ہائی ہوا۔ لڑکوں کا انٹر کالج ۱۹۷۶ء میں جبکہ لڑکیوں کا انٹر کالج ۱۹۸۰ء میں قائم ہوا۔ یہ دونوں کالج ۱۹۹۵ء میں ڈگری ہوئے جبکہ یہاں کا کمرشل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ۱۹۸۶ء میں قائم ہوا۔ یہاں سے ریل گاڑی وہاڑی، بوریوالہ، ساہیوال اور لاہور جبکہ دوسری طرف سمہ سٹہ کے راستے کراچی تک جاتی ہے۔ اس علاقے میں کھچی قوم کی اکثریت ہے جبکہ بورانہ، جھنڈیر، آرائیں، مترو، خاکوانی، راجپوت، ملینرئی اور سندھڑ قوموں کے افراد بھی آباد ہیں۔

سرکلر روڈ، شنکر پورہ، دھرم پورہ، پکا بازار اور پرانی آبادی وغیرہ یہاں کی رہائشی بستیاں جبکہ مین بازار، تحصیل بازار، پیپل بازار، پکا بازار، فدہ بازار، تھانہ بازار، قائداعظم روڈ، ملتان روڈ، کالونی روڈ، بلدیہ مارکیٹ ، پیلس سٹیٹ سنٹر، غلہ منڈی اور سبزی منڈی یہاں کے اہم تجارتی مراکز ہیں یہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے الگ الگ ڈگری کالج، کامرس کالج، لڑکیوں کا ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ اور متعدد سرکاری و غیر سرکاری سکول موجود ہیں۔ یہاں کپاس اوٹنے اور تیل نکالنے کے درجنوں کارخانے ہیں۔ یہاں گلشن ٹیکسٹائل ملز کے علاوہ تین فلورملز بھی ہیں۔ اتفاق کاٹن فیکٹری، یار کاٹن فیکٹری، محفوظ کاٹن فیکٹری اور رحیم بخش کاٹن فیکٹری یہاں کے اہم صنعتی یونٹ ہیں۔ یہا ں کپاس، کھجور، تمباکو، گندم، لہسن اور سرخ مرچ کی پیداوار بکثرت ہوتی ہے۔

فتح پور کا تاریخی قصبہ میلسی سے ۱۳کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جبکہ ایک تاریخی مسجد میلسی کے مشرق کی طرف قریباً ۸ کلومیٹر کے فاصلے پر موضع ملک واہن میں موجود ہے۔ یہ مسجد اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے کی تعمیر شدہ ہے۔ اس کا طرزِ تعمیر اور خوبصورتی بہت دلکش ہے۔ اس مسجد کے مین دروازے کے دونوں طرف دو چھوٹے چھوٹے دروازے ہیں۔ اس کا ایک بڑا اور دوچھوٹے گنبد ہیں جبکہ دیواریں پانچ چھ فٹ چوڑی ہیں۔ اس کی آبادی ۱۹۷۲ء میں ۲۱۳۱۸، ۱۹۸۱ء میں ۳۳۶۵۲ اور ۱۹۹۸ء کی مردم شماری کے مطابق ۵۵۴۳۴ نفوس پر مشتمل تھی۔ اب اس کی آبادی ۸۰ہزار کے لگ بھگ ہے۔ میلسی میں زیادہ تر لوگ سرائیکی، پنجابی اور ہریانوی لہجہ بولتے ہیں۔ ادبی اعتبار سے یہاں کی مرحوم شخصیات میں نعمت علی جگر، سیّد علی اطہر اثر، عبدالرحمن خالد، میاں صادق محمد، معین نجمی، الطاف بسمل، منظور اسد اور حشمت اللہ دہلوی کے نام نمایاں ہیں۔

ان میں نعمت علی جگر جو ۱۹۴۷ء میں یہاں آکر مقیم ہوئے نے ادارہ علم و فن پاکستان کی میلسی میں شاخ قائم کی، اُن کا انتقال ۱۹۹۱ء میں ہوا۔ سیّد علی اطہر اثر نے یہاں بزم ادب میلسی کی بنیاد رکھی۔ وہ ۱۹۹۷ء میں فوت ہوئے۔ عبدالرحمن خالد جن کا انتقال ۲۰۰۲ء میں ہوا، کے چار شعری مجموعے کلیاں میرے گلشن کی، خیاباں خیاباں ارم، چراغ اوّل شب اور اک جہاں اندر جہاں شائع ہوئے۔ منظور اسد کا سرائیکی شعری مجموعہ ’’چھمکاں‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ انگریزی کے معروف اُستاد محقق اور شاعر محمد اسماعیل بھٹی کا تعلق میلسی سے ہے۔ 

(اسد سلیم شیخ کتاب ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس)

Viewing all 4315 articles
Browse latest View live