Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

لُڈن...ضلع وہاڑی کا مشہور قدیم قصبہ

$
0
0

ضلع وہاڑی کا مشہور قدیم قصبہ۔ دریائے ستلج سے قریباً ۸ کلومیٹر کے فاصلے پر شمال کی طرف وہاڑی حاصل پور روڈ، بوریوالہ اور کرم پور کے سنگم پر واقع ہے۔ پرگنہ لڈن میں اسلام کی اشاعت ۷۱۳ء میں محمد بن قاسم کی آمد ہی سے شروع ہو گئی تھی، جب محمد بن قاسم نے کھوتو وال موجودہ دیوان صاحب کے راجہ کو شکست دی اور شیخ چاولی مشائخ دیوان حاجی شیر صاحب مشرف بہ اسلام ہوئے۔ بعدازاں بابا فرید شکر گنج کی برکات سے علاقے کے تمام قبائل اسلام کی روشنی سے منور ہوئے۔ لُڈن میں مقیم دولتانہ خاندان جوئیہ قبیلہ کی مشہور شاخ ہے ۔ یہ خاندان یہاں کا قدیم رہائشی ہے۔ جوئیہ ان قبائل میں سے ہے، جو سکندر اعظم کے حملہ سے بھی پہلے دریائے ستلج کے کنارے آباد ہوئے۔ ماضی میں میلسی سے ۹ میل جنوب کی طرف دریائے ستلج کے قریب اکبری عہد میں فتح پور کا قصبہ جوئیہ خاندان کی ریاست کا صدر مقام تھا۔
اس ریاست میں موجودہ ضلع وہاڑی کا بھی سارا علاقہ شامل تھا۔ لُڈن اس دور سے بھی پہلے کا آباد شدہ قصبہ ہے۔ شیر شاہ سوری کے زمانے میں صوبہ ملتان اور دارالخلافہ دہلی کو ملانے والی جرنیلی سڑک لُڈن کے مقام سے گزر کر جاتی تھی اور یہاں جامع مسجد کے قریب ان کی ڈاک چوکی تھی۔ ۱۷۷۹ء میں نواب مظفر خان ملتان کا صوبیدار بنا تو اس نے زیر قبضہ علاقوں کو ۱۳پرگنوں میں تقسیم کیا، ان پرگنوں میں شجاع آباد، کروڑپکا، میلسی، تلمبہ، مظفر گڑھ کے ساتھ ساتھ ایک تعلقہ لڈن بھی تھا۔ بعدازاں یہ علاقہ سکھوں کے قبضہ میں آگیا۔ ۱۸۴۹ء میں جب انگریزوں نے اس سارے علاقے پر قبضہ کیا تو میلسی کو تحصیل کا درجہ دے کر ضلع ملتان میں شامل کیا گیا اور لُڈن ضلع ملتان کی سب تحصیل قرار پائی۔ یہ انتظام ۱۹۴۲ء تک قائم رہا، جب وہاڑی کو تحصیل میلسی سے علیحدہ کر کے نئی تحصیل بنائی گئی اور لُڈن کی سب تحصیل کی حیثیت ختم کر کے اسے وہاڑی میں ضم کر دیا گیا۔ اس علاقے کی زمین بہت زرخیز ہے۔ گندم، گنا اور کپاس اس کی اہم فصلیں ہیں۔ اس کے علاوہ سورج مکھی، مکئی، سبزیاں اور چارہ جات پیدا ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں کیلے، آم، امرود اور بیری کے باغات بھی پائے جاتے ہیں۔ لُڈن میں زرعی پیداوار کا لین دین وسیع پیمانے پر ہوتا ہے۔

اردگرد کئی جننگ فیکٹریاں کام کر رہی ہیں۔ جبکہ مقام طور پر مٹی کے برتن، زرعی آلات، زیورات اور لکڑی کے کام سے متعلقہ شعبوں سے بہت سے لوگ وابستہ ہیں۔ گھریلو دستکاریوں میں کپڑوں کی سِلائی کڑھائی کے علاوہ یہاں پر جوتے بنانے کی صنعت بہت اہم ہے۔ خصوصاً یہاں کے ’’کُھسّے‘‘ اور تِلہ کا کام بہت مشہور ہے۔ نیزشالیں، چادریں اور لاچے وغیرہ بھی بنائے جاتے ہیں۔ لُڈن کے علاقہ کی نیلی نسل کی بھینسیں بہت مشہور ہیں۔ خصوصاً سنپال قبیلہ کی بھینسیں اپنی پہچان آپ ہیں۔ یہاں ہر گھر میں بھینسیں، گائیں، بھیڑ بکریاں اور مرغیاں پالی جاتی ہیں۔ لُڈن میں ہر بدھ کو ایک منڈی مویشیاں لگتی ہے، جہاں پر سینکڑوں مویشیوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ جہاں تک علاقے کے ذرائع آبپاشی کا تعلق ہے تو ماضی میں غلام محمد خان دولتانہ نے دریائے ستلج سے نہر غلام واہ نکلوائی اور غلام مصطفی خاکوانی نے نہر حاجی واہ (دیوان واہ) نکلوائی تھی۔

علاو ہ ازیں کرم خان دا دپوترہ نے کرم واہ نکلوائی تھی جو کہ انگریزی نہری نظام آنے تک جاری رہیں۔ جن کی خشک گزرگاہیں آج بھی موجود ہیں۔ ہیڈ سلیمانکی اور ہیڈ اسلام بننے کے بعد ۱۹۲۹ء میں اس علاقے کو نہر پاکپتن کی ایک برانچ کھادر نہر اور اس کے سب مائنر سیراب کرنے لگے۔ جدید نظام آبپاشی کی بدولت علاقے میں خوشحالی اور ترقی کا دور دورہ ہوا۔ لُڈن دریائے ستلج کے کنارے پر واقع بہت قدیم گزرگاہ ہے، جہاں پر بہادر نڈر اور بے باک قومیں آباد ہیں جنہوں نے ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں اور غیر حکمرانوں سے پنجہ آزمائی کی اور علاقائی سلامتی کے لئے ہمیشہ افرادی قوت فراہم کی جن میں سرفہرست جوئیہ، دولتانہ، خاکوانی، سیّد، ارائیں، ورک، لنگڑیاں، سنپال، کملانہ، نونازی، سہو، بھٹی ، چدھڑا ور جٹ قبائل شامل ہیں۔ لُڈن کی قابل ذکر عمارات میں یہاں کی جامع مسجد، ڈیرہ میاں ممتاز خاں دولتانہ اور ڈیوڑھی میاں ریاض خاںدولتانہ شامل ہیں۔ ڈیرہ میاں ممتاز خاں دولتانہ کا لکڑی کا بہت بڑا گیٹ ہے جس پر بہت خوبصورت پچی کاری کی گئی ہے۔ گیٹ کے اندر رہائشی عمارتیں اور مہمان خانہ ہیں۔ جاگیردارانہ انتظام کے دور کی یادگار قید خانے کے کمرے ا ور ملحقہ باغ ہے۔ جبکہ ڈیوڑھی میاں ریاض دولتانہ میں خانگی رہائش گاہیں ہیں۔ جامع مسجد خوبصوت ٹائلوں سے مزین ہے جبکہ اس میں بہت بڑے محرابی گیٹ نصب ہیں۔ قریباً دس ہزار نمازیوں کے لئے گنجائش ہے۔

اسد سلیم شیخ

 (کتاب ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس) 


شاہ تراب الحق

$
0
0

شاہ تراب الحق حیدرآباد دکن کے شہر ناند ھیڑ کے مضافاتی علاقے کلمبر میں اپنے وقت کے معروف عالم دین سید شاہ حسین قادری کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن میں حاصل کی۔ سقوط حیدر آباد کے بعد وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آگئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی اور ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ سے دینی علوم سے بہرہ ور ہوئے۔ دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مختلف مساجد میں خطیب کے فرائض انجام دیئے اور آخری وقت تک ’’میمن مسجد‘‘ مصلح الدین گارڈن سابقہ کھوڑی گارڈن کے خطیب رہے۔

سول ملٹری روابط ’’ڈان‘‘ کی نظر میں

$
0
0

انگریزی روزنامہ ’’ڈان‘‘ لاہور کا 6 اکتوبر کا شمارہ میرے سامنے کھلا ہوا ہے۔ اس میں صفحہ اول پر ایک عجیب و غریب سٹوری شائع کی گئی ہے۔۔۔ لیکن جب آپ یہ کالم پڑھیں گے تو یہ موضوع میڈیا پر بہت رگیدا جا چکا ہوگا۔ تاہم مناسب ہوگا پہلے اس کا ترجمہ دیکھ لیا جائے۔

اسلام آباد: سویلین حکومت نے پاکستان کی فوجی قیادت کو ایک ایسی واشگاف اور بنی بنائی (Orchestrated) وارننگ دی ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی برادری میں پاکستان کی تنہائی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اسی وارننگ میں حکومت کی طرف سے بہت سے کلیدی اقدامات اٹھانے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی بات بھی کی گئی ہے۔

سوموار (3 اکتوبر 2016ء) کو جو آل پارٹی کانفرنس بلائی گئی تھی اس میں کم از کم دو ایسے ایکشن لینے پر رضامندی ظاہر کی گئی جن کو پبلک نہیں کیا گیا۔۔۔ پہلا اقدام یہ تھا کہ جنرل رضوان اختر ڈی جی آئی ایس آئی، قومی سلامتی کے مشیر ناصر خان جنجوعہ کو اپنے ہمراہ لیں اور چاروں صوبوں کا دورہ کریں اور وہاں کی صوبائی ایپکس کمیٹیوں اور آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈروں کو ایک پیغام پہنچائیں ۔۔۔۔ وہ پیغام یہ ہے کہ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے عسکریت پسند گروہوں کے خلاف کہ جن پر پابندی لگ چکی ہو اور جن کے خلاف سویلین اداروں کی طرف سے ایکشن لینا حدود باہر کر دیا گیا ہو، ان کے خلاف فوج کی طرف سے فراہم کردہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر کوئی مداخلت نہ کی جائے۔
اور اس پیغام کی دوسری شق یہ ہے کہ پٹھانکوٹ سانحے کی تحقیقات کی از سر نو تحقیق کی جائے اور ساتھ ہی ان ممبئی حملوں کے ٹرائل بھی دوبارہ شروع کئے جائیں جو راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت ہیں۔
یہ دونوں فیصلے اس غیر معمول زبانی گفتگو کے بعد لئے گئے ہیں جو پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے مابین ہوئی۔ یہ فیصلے مسلم لیگ نون کی حکومت کی ایک بالکل نئی سوچ اور اس کے اہم مفادات (ہائی سٹیکس) کے غماز بھی ہیں۔

اس ہفتے جو بڑی اہم (Crucial) ملاقاتیں ہوئیں ان کی تفصیل ذیل میں دی جا رہی ہے۔ یہ تفصیلات اُن حضرات نے روزنامہ ’’ڈان‘‘ کو بتائیں جو وہاں موقع پر موجود تھے۔ تاہم ان سب نے اپنا نام ریکارڈ پر لانے سے منع کر دیا اور جن اشخاص کے بارے میں یہ باتیں اور خبریں منسوب کی گئیں انہوں نے بھی ان کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا:

سیکرٹری خارجہ کی پریذنٹیشن
منگل وار کو جو آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی اس میں سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے وزیراعظم کے دفتر میں سول اور ملٹری آفیسرز کے ایک چھوٹے سے گروپ کو ایک الگ اور خصوصی پریذنٹیشن دی۔ اس اجلاس کی صدارت وزیراعظم نے کی۔ اس میں وفاقی اور صوبائی کابینہ کے سینئر افسروں نے شرکت کی۔ اور فوج کی طرف سے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل نے اپنے وفد کی قیادت کی۔

سیکرٹری خارجہ نے پاکستان کی طرف سے سفارتی سطح پر کی جانے والی مساعی کا اجمالاً ذکر کیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان کو سفارتی تنہائی کا مسئلہ درپیش ہو رہا ہے اور حکومت اس کے جواب میں جو کچھ بتا رہی ہے اس کو بڑے بڑے ممالک زیادہ درخوراعتناء نہیں گردان رہے۔۔۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو روابط زیادہ بگڑ چکے ہیں اور خدشہ ہے کہ مزید بگڑیں گے کیونکہ امریکہ مطالبہ کررہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف ایکشن لیا جائے ۔ اور بھارت کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر چودھری نے کہا کہ پٹھانکوٹ کی تحقیقات ابھی پایہ ء تکمیل کو نہیں پہنچیں اور نہ ہی جیشِ محمد کے خلاف کوئی ایکشن ابھی تک لیا گیا ہے۔ اور انڈیا کے یہی دو بڑے مطالبات ہیں۔

اس کے بعد کمرے کی فضا پر اس وقت مکمل سکوت چھا گیا جب مسٹر چودھری نے یہ کہا کہ اگرچہ چین، پاکستان کو سپورٹ کرتا ہے لیکن چین بھی یہ چاہتا ہے کہ پاکستان کو اپنا راستہ تبدیل کرنے کو ترجیح دینی چاہیے خاص طور پر ایسے پس منظر میں کہ جب چین نے جیشِ محمد کے لیڈر پر اقوام متحدہ کی طرف سے پابندیاں لگانے کی قرارداد کو ملتوی کروا دیا ہے۔ چین بارہا یہ کہہ چکا ہے کہ پاکستان اپنے روئیے میں تبدیلی کی آپشن پر غور کیوں نہیں کرتا؟

غیر معمولی نوک جھونک
سیکرٹری خارجہ کے ان غیر متوقع اور منہ پھٹ (Blunt) استخراجات (Conclusions) نے ڈی جی آئی ایس آئی اور بہت سے سویلین افسروں کے مابین ایک حیرت انگیز اور ایک بہت بڑی تبدیلی ء فکر و نظر کو ہوا دے دی۔سیکرٹری خارجہ کے استخراجات کا جواب دیتے ہوئے جنرل اختر نے پوچھا کہ پاکستان کو تنہائی کی طرف لڑھکنے سے بچانے کے لئے کیا اقدامات اٹھائے جائیں؟ مسٹر چودھری کا جواب بڑا زور دار بھی تھا اور دوٹوک بھی۔ انہوں نے کہا: ’’بین الاقوامی برادری کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ مسعود اظہر اور جیشِ محمدکے خلاف ایکشن لیا جائے اور حافظ سعید اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھی!‘‘۔

یہ سن کر جنرل اختر نے جواب دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ اس کے خیال کے مطابق جو بھی قصوروار ہو اس کو گرفتار کر لے۔ تاہم جب جنرل اختر یہ بات کہہ رہے تھے تو معلوم نہ ہو سکا کہ ان کا اشارہ کس طرف تھا۔ کیا وہ ان لوگوں کی طرف اشارہ کر رہے تھے جن کے گروپوں پر پابندیاں لگی ہوئی ہیں یا وہ ایک عمومی بات کر رہے تھے کہ حکومت جس کو مجرم سمجھتی ہے، اس کو گرفتار کرلے؟۔۔۔ اس موقع پر غیر متوقع طور پر اور اچانک وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کی طرف سے ایک بے باکانہ (Bold) مداخلت نے تمام حاضرین کو مزید ششدر کرکے رکھ دیا!

چھوٹے شریف نے جنرل اختر کو مخاطب ہوتے ہوئے شکائت کی کہ جب بھی سویلین حکام کسی گروپ کے خلاف ایکشن لیتے ہیں، سیکیورٹی کے ادارے (فوج) پردے کے پیچھے کارروائی شروع کر دیتے ہیں کہ گرفتار شدگان کو کیسے رہا کروایا جائے۔ یہ سننا تھا کہ تمام ماحول پر ایک دم وہی گہرا سکوت چھا گیا جو بالعموم اس قسم کی غیر معمولی اور غیر متوقع نوک جھونک کے بعد دیکھنے میں آتا ہے۔ اس صورت حال میں رفعِ کشیدگی کے لئے خود وزیراعظم آگے بڑھے اور جنرل اختر سے براہِ راست مخاطب ہوئے اور کہا کہ ماضی میں جن پالیسیوں پر عمل کیا جاتا تھا وہ ریاست کی اجتماعی ذمہ داری تھی ۔ لیکن موجودہ واقعات و حالات کے تناظر میں ڈی جی آئی ایس آئی کو الزام نہیں دیا جا رہا۔

وزیراعظم کی حکمت عملی
سوموار کو جو یہ ناقابلِ یقین واقعات پیش آئے ان کو بچشمِ خود دیکھنے والے حضرات کا کہنا ہے کہ سیکرٹری خارجہ کی یہ پریذینٹیشن اور وزیراعلیٰ شہبازشریف کی یہ مداخلتِ بے جا خود وزیراعظم کی ایماء پر ہوئی تاکہ فوج کو ایکشن لینے پر اکسایا جائے۔ اور اس کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا گیا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کو بین الصوبائی دوروں پر بھیجا جائے۔

لیکن جن لوگوں نے یہ کیفیت دیکھی تھی انہوں نے روزنامہ ’’ڈان‘‘ کے ساتھ اپنے خیالات شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی اور سویلین حکام کے مابین اس آویزش نے زیادہ تلخ مزاجی اور تندخوئی کا روپ نہ دھارا۔ اس سے پہلے اسی ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی، جنرل اختر نے کہا کہ نہ صرف فوج کی پالیسی یہ ہے کہ عسکریت پسند گروپوں میں کوئی امتیاز روا نہ رکھا جائے۔ بلکہ فوج اس پالیسی پر عملدرآمد کرنے کے سلسلے میں بھی پوری طرح کوشاں (Comitted) ہے۔ تاہم آئی ایس آئی چیف نے بہت سے گروپوں کے بارے میں ایکشن لینے کی ٹائمنگ پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایکشن لیتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا جائے کہ یہ ایکشن بھارتی دباؤ کی وجہ سے تو نہیں لیا جا رہا یا ایسا تو نہیں کہ ہم کشمیریوں کو تنہا چھوڑ رہے ہیں۔

بہت سے حکومتی اہلکاروں کا کہنا یہ ہے کہ سوموار والا یہ ’’آمنا سامنا‘‘ وزیراعظم کی طرف سے کھیلا جانے والا ایک بڑا جواء ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان پر بڑھتے ہوئے سفارتی دباؤ کو ٹالنے کی کوشش کی جائے۔ یہی اہلکار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایک اور الگ ملاقات میں وزیراعظم نے آرمی چیف کو زیادہ زور دار اور زیادہ توانا الفاظ میں کہا ہے کہ اگر موجودہ پالیسی میں ردوبدل نہ کیا گیا تو پاکستان کو مزید تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تا ہم اس بارے میں سرکاری اہلکاروں کی رائے منقسم ہے کہ وزیراعظم کا یہ جواء کامیاب بھی ہو گا یا نہیں۔ ایک اہلکار نے ڈی جی آئی ایس آئی کے تبصرے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’اسی تبصرے کو تو سننے کے لئے ہم نے ساری زندگی انتظار کیا ہے ۔دیکھتے ہیں اب کیا ہوتا ہے!‘‘۔۔۔ ایک اور حکومتی اہلکار نے یہ تبصرہ بھی کیا: ’’نومبر تک انتظار کرو کہ کیا ایکشن لیا جاتا ہے۔۔۔ تب تک بہت سی باتوں کا فیصلہ ہو جائے گا!‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے ڈان کے صفحہ اول پر شائع ہونے والی اس چار کالمی سٹوری کا ترجمہ پڑھا۔ بہتر ہوگا اگر اصل سٹوری بھی پڑھ لیں تاکہ تفہیمِ مطالب میں کوئی ابہام نہ رہے۔ ویسے میں نے اپنی سی کوشش کی ہے کہ ترجمہ میں متن کی روح کو مجروح نہ ہونے دوں۔ اس سٹوری کے مصنف مسٹر سائرل المیڈا (Cyril Almeida) ہیں جو ’’ڈان‘‘ کے سٹاف پر ہیں۔ ان کے کالم اسی اخبار میں شائع ہوتے رہتے ہیں اور اخبار کی انتظامیہ کی اوور آل پالیسیوں کے غماز ہوتے ہیں۔ یہ سٹوری پڑھ کر دو تین سوال میرے ذہن میں ابھرتے ہیں۔مثلاً:

اگر کسی ایک یا ایک سے زیادہ چشم دید حضرات نے سائرل صاحب کو اس سٹوری کی روئیداد سنائی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ ہمارا نام شائع نہ کیا جائے تو اس خبر کو صفحہ اول پر لگانے کی کیا ضرورت تھی؟۔۔۔دوسرے یہ کہ اوڑی پر حملہ اور اس پر بھارتی وزیراعظم کا ردعمل تو ان ایام میں پہلے ہی اخباری خبروں اور تبصروں کا موضوع بنا ہوا ہے! ایسے میں پاکستانی قوم کو بھارت کے خلاف اتفاق رائے کی اشد ضرورت ہے نہ کہ اختلافِ رائے کی۔ ہم جانتے ہیں ایک طویل عرصے سے سول اور ملٹری روابط میں کشیدگی کا بیرومیٹر مختلف ریڈنگ ظاہر کرتا رہتا ہے۔ لیکن آج ایسے موقع پر کہ آرمی کی چوٹی کی قیادت کو ایک آدھ ماہ بعد تبدیل ہو جانا ہے، آئی ایس آئی اور سویلین قیادت کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کوئی ایسی مستحسن کوشش شمار نہیں ہوگی۔

اور تیسرے ڈان اخبار کا ایک بڑا نام ہے اور نہ صرف پاکستان بلکہ انڈیا میں بھی سب سے زیادہ پڑھا جانا والا پاکستانی اخبار یہی ہے۔ ایسے میں یہ فیصلہ میں قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ اخبار کے ایک سینئر صحافی اور کالم نگار نے امروزہ ہنگام میں جس پاکستانی ’’سول ملٹری آویزش‘‘ کو موضوعِ سخن بنایا ہے کیا اس سے پاکستانی قارئین کی ڈھارس بندھے گی یا بھارتی قارئین کے من میں لڈو پھوٹیں گے؟

لیفٹیننٹ کرنل (ر)غلام جیلانی خان

جس دن بالاکوٹ کی موت ہو گئی

$
0
0

یہ ہفتے کا دن تھا، رمضان کا مہینہ، اور بی بی سی اسلام آباد میں میری ہفتہ وار تعطیل تھی۔ صبح 8 بج کر 50 منٹ پر زلزلے کے ایک جھٹکے نے مجھے بستر سے باہر نکال پھینکا۔ تھوڑی ہی دیر میں ٹی وی چینلز پر مارگلہ ٹاورز کے منہدم ہوجانے کی خبریں چلنا شروع ہوگئیں۔ میں فوراً اس جگہ پہنچا تو دیکھا کہ میرے ساتھی صحافی وہاں پہلے ہی پہنچ چکے تھے، چنانچہ میں گھر واپس آگیا۔ اس وقت تک اموات کی تعداد 20 تھی۔ 11 بجے کے قریب مجھے بی بی سی کے دفتر سے فون آیا اور مجھے فوری طور پر دفتر پہنچنے کی ہدایت کی گئی۔ میں وہاں پہنچا تو ایک گاڑی مجھے زلزلے سے متاثرہ شمالی علاقوں تک لے جانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ کسی کو بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ کتنی تباہی ہوئی ہے کیونکہ مواصلاتی نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا۔ اس بدقسمت دوپہر میں شمال کی جانب نکلا تو مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں بالاکوٹ کی تباہی رپورٹ کروں گا، جہاں ایک دن میں دس ہزار اموات ہو چکی تھیں۔

حکومت میں کسی کو یہاں ہونے والی تباہی کا ذرا بھی اندازہ نہیں تھا۔ تباہی کے آثار ایبٹ آباد سے ہی نظر آنے شروع ہوگئے تھے جہاں میں افطار کے لیے رکا تھا۔ زیادہ تر لوگوں نے مجھے مانسہرہ جانے کے لیے کہا۔ میں نے افطاری وہیں چھوڑی اور مانسہرہ کی راہ لی جہاں ضلع کا مرکزی ہسپتال پہلے ہی اپنی استعداد سے دوگنا زخمیوں اور لاشوں کو سنبھالے ہوئے تھا۔ ہسپتال کے پاس عارضی کیمپ قائم کیے گئے تھے۔ وہاں کئی لوگوں نے مجھے بتایا کہ سب سے زیادہ تباہی بالاکوٹ میں ہوئی ہے مگر مانسہرہ سے آگے کی سڑک مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھی اس لیے میں نے پیدل جانے کا فیصلہ کیا۔
میں رضاکاروں کے ایک گروہ میں شامل ہوگیا جو بالاکوٹ جا رہے تھے۔ جب ہم اپنی منزل تک پہنچے تو رات کی سیاہی چاروں طرف پھیل چکی تھی۔ تقریباً تمام گھر منہدم ہو چکے تھے جبکہ ہزاروں لوگ ملبے تلے دبے ہوئے تھے۔
ایک چوک پر زخمی اور مردہ میرے سامنے پڑے تھے، لوگ میرے سامنے دم توڑتے رہے۔ ایک مقامی رہنما نے مجھے بتایا کہ کوئی مدد اب تک نہیں پہنچی تھی۔ کئی لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ اگر میں بالاکوٹ پہنچ سکتا ہوں تو امدادی ٹیمیں اور فوج اب تک کیوں نہیں پہنچی ہے؟ مجھے جھوٹ بولنا پڑا کہ وہ بس پہنچ ہی رہے ہیں، جبکہ مجھے کسی امدادی منصوبے کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ 

میں نے شہر کا چکر لگانا شروع کیا تو کچھ والدین مجھے ایک جگہ لے گئے جہاں کبھی مقامی کالج ہوا کرتا تھا اور اب ملبے کا کا ڈھیر بن چکا تھا۔ سامنے عمارت کا ایک بڑا ٹکڑا پڑا تھا، جو کہ چھت کا حصہ تھا۔ مقامی لوگ نہایت پریشانی کے عالم میں اسے ہاتھ آنے والی ہر چیز یہاں تک کہ پتھروں سے کاٹنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ملبے کے نیچے سے مجھے بچوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ جب میں ملبے کے قریب گیا تو پیچھے سے ایک خاتون چلائیں: "پیچھے ہٹو، میرا بچہ اندر ہے۔"میں فوراً واپس آگیا؛ وہ چیخ اب تک میرے کانوں میں گونجتی ہے۔

اگلے چند گھنٹے عذاب تھے۔ میں بچ جانے والوں کی دہائیاں ریکارڈ کرتا رہا۔ پھر میں مانسہرہ کے لیے نکل گیا، اسلام آباد واپس آیا، زلزلے کے بارے میں رپورٹ کیا، اور اگلی صبح ایک بار پھر بالاکوٹ کے لیے نکل گیا۔ اگلی صبح تک بھی کوئی امدادی ٹیم نہیں پہنچی تھی، مگر آس پاس کے دیہاتوں سے لوگ خوراک، کپڑوں اور دواؤں کے ساتھ پہنچ رہے تھے۔ چند فوجی اہلکار وہاں پر تباہی کا جائزہ لینے پہنچے تو لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور ان سے اپنے پیاروں کو بچانے کی التجائیں کرنے لگے، اس وقت تک زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی اور شاید کچھ لوگ زندہ ہو سکتے تھے۔ مگر انہیں صاف الفاظ میں بتا دیا گیا کہ یہ ٹیم صرف سروے کے لیے آئی ہے اور امداد تب تک نہیں آ سکتی جب تک کہ وہ تباہی کی رپورٹ نہ تیار کریں۔ لوگ غصے میں آ گئے اور نعرے بازی شروع ہوگئی، جو جلد ہی ماتمی صداؤں میں تبدیل ہوگئی کیونکہ فوجی اہلکار اس دن زیادہ کچھ کیے بغیر ایبٹ آباد میں اپنے بیس کیمپ روانہ ہو چکے تھے۔

زلزلے کے چند ماہ بعد اس وقت کی حکومت نے 'نیو بالاکوٹ سٹی'آباد کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا اور اس کے لیے زمین بھی مختص کی۔ دس سال گزرنے کے باوجود بہت کم لوگ ہی نئے شہر منتقل ہوئے ہیں۔ بالاکوٹ میں آج زندگی معمول کے مطابق چل رہی ہے اور مقامی لوگ سیاحوں کا گرمجوشی سے استقبال کرتے ہیں۔ سیاح ناران جاتے ہوئے دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے اکثر یہاں رکتے ہیں۔
اس ڈیوٹی نے مجھے زندگی بھر کے لیے جذبات سے عاری کر دیا۔ ستر ہزار لوگوں کی جان لینے والے زلزلے سے زیادہ بڑی آفت کوئی نہیں ہو سکتی۔ اس کے بعد میں نے دہشتگردوں کے ہاتھوں سوات، فاٹا اور اسلام آباد میں بے رحم قتل و غارت کی رپورٹنگ سپاٹ چہرے کے ساتھ کی۔ پاکستان میں ایک صحافی کی زندگی یہی ہے۔

مبشر زیدی
یہ مضمون ڈان اخبار میں 8 اکتوبر 2015 کو شائع ہوا۔

پاکستان میں اینٹی بائیوٹکس ادویات کے استمال کا رجحان بڑھ گیا

پاکستان میں دو کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں

سندھ کےمری گورکھ ہل کی حالت نہ بدلی

انڈیا کے اندر بھی ایک جنگ چل رہی ہے

$
0
0

انڈیا میں حزب اختلاف کی جماعتیں بر سر اقتدار جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی پر الزام
لگا رہی ہیں کہ وہ کنٹرول لائن پر مشتبہ شدت پسندوں کے خلاف فوج کے مبینہ سرجیکل آپریشن سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اتر پردیش اور پنجاب کے کئی قصبوں اور شہروں میں گذشتہ دنوں بی جے پی کےمقامی رہنماؤں اور اس کے حامیون کے ذریعے بڑے بڑے بینر لگائے گئے ہیں۔ اس میں سرجیکل آپریشن کے لیے وزیر اعظم مودی کی جرات کی تعریف کی گئی ہے۔ کئی بینرز میں انھیں ہندوؤں کے دیوتا رام کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف رامائن کے برائی کے کردار راون کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ ان پوسٹروں اور بینروں میں وزیر اعظم کو اس آپریشن کے لیے مبارکباد دی گئی ہے۔ ان دونوں ریاستوں میں آئندہ چند مہینوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور یہ انتخابات مودی کی جماعت کےمستقبل کے انتخابی منصوبوں اور کامیابیون کےلیے انتہائی اہم ہیں۔

کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے وزیر اعظم مودی پر الزام عائد کیا کہ وہ اوڑی میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی موت پر سیاست کررہے ہیں۔ سرجیکل آپریشن پر تنازع وزیر دفاع منوہر پریکر کےاس بیان سے شروع ہوا کہ مودی کی حکومت کے جرات مندانہ فیصلے سے یہ آپریشن ممکن ہو سکا۔ اس کے جواب میں کانگریس نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ ماضی میں کانگریس کی حکومتوں کے دوران اس طرح کے سرجیکل آپریشن کئی بار ہو چکے ہیں لیکن اس وقت کی حکومتوں نے ان کارروائیوں کا کو عام نہیں کیا کیوں کہ بقول ان کے یہ آپریشن سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے نہیں کیے گیے گئےتھے۔
سرجیکل آپریشن پر ملک کے اندر مچی اس سیاسی جنگ میں میڈیا خاص طور سے ٹی وی چینلز سب سے آگے ہیں۔ ایک چینل نے گذشتہ دنوں سابق وزیر داخلہ پی چدامبرم کا انٹرویو نشر ہونے سےروک دیا۔ اس چینل نے اعلان کیا گیا کہ وہ ایسا کوئی سیاسی بیان نہیں نشر کرے گا جس سے قومی سلامتی کو نقصان پہنچتا ہو۔ چدامبرم نے اس انٹرویو میں کشمیر کے حوالے سے حکومت کی ہینڈلنگ پر تنقید کی تھی۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اسی چینل نے چند گھنٹے بعد بی جے پی کے صدر کی پریس کانفرنس براہ راست نشر کی جس میں بنیادی طور پر انھوں نے سرجیکل آپریشن کے حوالے سے مخالفین کو ہدف بنایا تھا۔

 بعض چینل کے اینکر اور پیشکار حب الوطنی کے جذبے میں پروگرام کی ابتدا اور اختتام پر 'جے ہند'کا نعرہ بلند کرنے لگے۔ ایک اینکر نے سٹوڈیو میں باقاعدہ وار روم بنا کر فوجی وری جیسے کپڑے پہن کر پروگرام پیش کیا۔ ان پروگراموں میں جو بھی حکومت کے تصورات سے اتفاق نہیں کرتا انھیں اینٹی نیشنل یعنی ملک دشمن قرار دے دیا جاتا ہے۔ بھارتی چینلوں اور سوشل میڈیا پر جارحانہ قوم پرستی کی ایک لہر چلی ہوئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس سرجیکل آپریشن نے یک لخت سارے مسئلے حل کر دیے ہوں۔ قوم پرستی کی اس بحث میں اس پہلو پر کوئی بات نہیں ہو رہی کہ سرجیکل آپریشن سے کیا مقصد حاصل ہوا ہے۔ کیا اب حملے رک گئے ہیں؟ اس آپریش کے بعد بھی تقریباً روزانہ کہیں نہ کہیں دہشتگردوں کے حملے ہو رہے ہیں۔

کیا پاکستان اس آپریشن سے ڈر گیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو آخر جوابی کارروائی کے اندیشےسے سرحدی علاقے خالی کیوں کرائے گئے اور جوابی کارروائی کا جواب دینے کے لیے چوکسی کیوں ہے؟ حقیقت یہ ہے پاکستان سےتعلقات اب مزید خراب ہو چکے ہیں۔ اور بات چیت کے سارے راستے بند ہیں۔ یہ تنازع جہاں سے شروع ہوا تھا وہاں کی صورتحال اب بھی جوں کی توں ہے۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر اب بھی کشیدگی اور ٹکراؤ کی گرفت میں ہے۔ وادی میں آج بھی ایک بچے کی ہلاکت ہوئی ہے۔ اور جنازے کے ساتھ آج بھی مظاہرہ ہوا ہے۔ بھارت میں ان حقائق پر بھلے ہی بحث نہ ہو لیکن ان زمینی حقیقتوں کو فراموش تو نہیں کیا جا سکتا۔

شکیل اختر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی


شاہ فیصل مسجد اسلامی فن تعمیر کا شاہکار

$
0
0

مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع، وفاقی دارالحکومت اسلام آبادکی عظیم الشان فیصل مسجد یہاں کا امتیازی نشان بن چکی ہے۔ تکونی خیموں جیسی اس مسجد کا اپنے پس منظر میں ابھرتی پہاڑیوں اور ملحقہ وادیوں کے حسن سے عجیب رابطہ پیدا کیا گیا ہے۔ منفرد تعمیراتی حسن کی حامل اس خوبصورت مسجد کی تعمیر کا منصوبہ بہت عرصہ قبل بنایا گیا تھا۔ عزت مآب شاہ فیصل شہید کو ان کے دورہ پاکستان کے دوران اس مجوزہ مسجد کے متعلق بتایا گیا، تو انہوں نے خوش ہوتے ہوئے اس مسجد کی اپنے ذاتی خرچ سے تعمیر کرنے کی حامی بھری۔اسی مناسبت سے اس کا نام فیصل مسجد رکھا گیا ہے۔ سب سے پہلے 1969ء میں دنیا کے اعلیٰ ماہرین تعمیرات کی یونین نے حکومت سعودی عرب کے ایک نمائندے سمیت جیوری کے ایک پینل کی تشکیل کی۔

مسجد کے ڈیزائن کا مقابلہ صرف اسلامی ممالک کے نقشہ سازوں کے درمیان ہوا چنانچہ اسلامی ملک کے ماہرین تعمیرات میں سے ترکی کے وحدت ولوکے کا ڈیزائن متفقہ طور پر منتخب ہوا اور انہی کی زیر نگرانی مسجد کی تعمیر کے کام کا آغاز ہوا۔ اس کی تعمیر کا ٹھیکہ پاکستانی فرم ’’نیشنل کنسٹرکشن کمپنی‘‘ کو دیا گیا۔ مسجد قدیم و جدید کا حسین امتزاج، ماضی و حال کا لاجواب سنگم، فن تعمیر کا بے مثال نمونہ اور ذوق جمال کا نادر اظہار ہے۔ مسجد کا کام دو مراحل میں مکمل کیا گیا ۔اس کی خشتِ اوّل 12اکتوبر 1976ء کو شاہ خالد بن عبد العزیز کے ہاتھوں رکھی گئی۔ مسجد 146 ایکڑ مربع پر محیط ہے۔ اس کی تعمیر میں بے شمار تعمیری اور تکنیکی خوبیاں موجود ہیں۔ مسجد کے ہال میں جو بغیر کسی سہارے کے بنایا گیا ہے، صرف چار بڑے بڑے لوہے اور کنکریٹ کے شہتیروں پر پوری چھت کو سہارا دیا گیا ہے ،جو باہر سے دیکھنے پر بڑے کھلے معلوم ہوتے ہیں۔

 ہال میں خواتین کے نماز پڑھنے کے لیے خاصی بڑی گیلری بھی بنائی گئی ہے۔ اس گیلری میں مغلیہ طرز کی جالیاں لگائی گئی ہیں۔ گیلری کے شاندار دروازے پر خط کوفی میں ’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے‘‘ کے علاوہ اور بھی آیات لکھی گئی ہیں۔ ہال میں دس ہزار سے زائد برآمدوں میں چوبیس ہزار اور میدانوں میں بھی ہزارہا افراد بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس گنجائش کو مزید بڑھایا بھی جاسکتا ہے۔ یہ مسجد اپنی کشادگی کے لحاظ سے بھی اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ مسجد میں روشنی کا بڑا عمدہ انتظام ہے۔ دُور سے دیکھنے پر مسجد روشنی کا منبع لگتی ہے۔ ہال میں قریباً ساڑھے چھ ٹن وزنی فانوس کے علاوہ دیگر چھوٹی لائٹیں بھی لگائی گئی ہیں۔ ہر لائٹ کے ساتھ آواز پہنچانے کے لیے دو چھوٹے چھوٹے سپیکر بھی نصب کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی آواز پہنچانے کے لیے سپیکر لگے ہوئے ہیں۔ واعظ کرنے اور اذان دینے کے لیے ایک اونچا پلیٹ فارم بنایا گیا ہے۔ یہاں حسن قرات وغیرہ کے مقابلے بھی منعقد کروائے جاتے ہیں۔

ہال کے چوبی اور ایلومنیم کی کھڑکیاں اور دروازے بھی بڑی مہارت سے بنائے گئے ہیں۔ مسجد کے حسن کو بڑھانے کے لیے طرح طرح کے رنگین شہتیروں، عمدہ ٹیلوں اور نفیس ترین شیشوں سے مرصع کیا گیا ہے۔ مسجد کی شکل کی ایک خوبی خیمے سے مشابہت بھی ہے کیونکہ حضور نبی کریمﷺ نے سب سے پہلے نماز خیمے میں ہی ادا فرمائی تھی چنانچہ یہ شکل اس واقعہ کو مدنظر رکھتے ہوئے دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ مسجد میں اعتکاف کے لیے حجرے بھی بنائے گئے ہیں۔ وضو کے لیے اعلیٰ پائے کی ٹوٹیاں اور اس کے علاوہ غسل خانے بھی بنائے گئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ مسجد کے 285 فٹ اونچے چار مینار اس کی رونق اور حسن کو دوبالا کرتے ہیں۔ میناروں کے193 فٹ بلندی پر مشاہداتی گیلریاں بھی بنائی گئی ہیں، جہاں سیڑھیوں کے علاوہ لفٹ کا بھی بندوبست ہے ۔

مینار پر لگے سونے کے ہلال سے ان کا حسن اور بھی نکھر جاتا ہے۔ مسجد کی ظاہری شان و شوکت اور حسن و خوبی کے ساتھ ہی اس کی پائیداری پر بھی خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ زمین کی تبدیلیوں، زلزلوں اور دیگر ممکنہ حادثات سے بچاؤ کے لیے جدید سائنسی اصولوں اور اعلیٰ تکنیکی و تحقیقی مہارتیں بھی اپنائی گئی ہیں۔ نمازیوں کی سہولت کے لیے یہاں سینکڑوں گاڑیاں اور ہزاروں موٹر سائیکلوں و سائیکلوں کے لیے بھی سٹینڈ بنائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلامی ریسرچ سینٹر، میوزیم، لائبریری، پرنٹنگ پریس، کیفے ٹیریا، انتظامی دفاتر اور انتظامیہ کی رہائش گاہوں کے علاوہ دیگر عمارتیں بھی اس کے حصے میں شامل ہیں۔ مسجد کے خوبصورت سبزہ زار بنفشی درو دیوار فوارے، راہ داریاں، برقی قمقمے، سونے کے چاند، میدان اور دالان دودھ جیسے فرش اور جدید سڑکیں سب مل کر دیکھنے والے کو مسحور کر دیتے ہیں۔

 مسجد کا اندورنی سامان اندرون اور بیرون ملک سے حاصل کیا گیا۔ 800 سے زائد کارکنوں کی شب و روز محنت جو انہوں نے دس برس سے زائد عرصہ میں کی ہے، یہ شاہکار عالم اسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی بھی شاہ فیصل مسجد کے ساتھ منسلک ہے ۔ یہاں ہزاروں کی تعداد میں بیرون ممالک سے لڑکے اور لڑکیاں اسلامی تعلیمات کے حصول کے لیے کھچے چلے آتے ہیں۔ اس یونیورسٹی کی اپنی ایک منفرد خصوصیت ہے ۔اس کا معیار تعلیم پوری اسلامی اُمہ میں جانا پہچانا جاتا ہے۔ یہاں سے فارغ التحصیل طلبا کی ایک کثیر تعداد پوری دنیا میں اسلام کے فروغ اور تبلیغ کا باعث ہے۔ اندازاً مسجد پر 50کروڑ روپے سے زائد یا اس کے لگ بھگ روپیہ خرچ ہوا۔ زیادہ رقم حکومت سعودیہ نے فراہم کی ،تاہم پاکستان نے بھی خلوص و محبت کے پھولوں کے ساتھ اپنی طرف سے خدا کے گھر کے لیے خرچ کیا ہے۔

 پاکستان میں جہاں بادشاہی مسجد، داتا گنج بخش، بھونگ مسجد اور مسجد طوبی جیسی بے شمار خوبصورت او ربڑی بڑی مسجدیں موجود ہیں، وہاں یہ مسجد ان میں ایک خوبصورت اضافہ ہے، جس پر نہ صرف پاکستان بلکہ تمام دنیا کو ناز ہے۔ دعا ہے کہ مسجد اپنے اصل مقاصد اتحاد و یکجہتی اخوت و مساوات ہمدردی و بھائی چارہ او راطاعت کے جذبے تمام مسلمان دنیا میں اجاگر کرے اور یہ عظیم مسجد تمام عالم اسلام کے اتحاد کا نشان ثابت ہو۔ 

(کتاب ’’پاکستان کی سیر گاہیں‘‘ سے مقتبس) 

گگو منڈی...ضلع وہاڑی اور تحصیل بوریوالہ کا قصبہ

$
0
0

ضلع وہاڑی اور تحصیل بوریوالہ کا قصبہ، بوریوالہ سے عارفوالہ جانے والی سڑک پر ۱۶کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جبکہ عارفوالہ سے اس کا فاصلہ ۲۵ کلومیٹر ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کاقدیم نام گنگو تھا، جو ہندو عورت تھی ، رفتہ رفتہ یہ گنگو سے گگو بن گیا۔ پہلے یہ تحصیل میلسی اور ضلع ملتان کا حصہ تھا۔ وہاڑی کے ضلع بننے کے بعد یہ بوریوالہ تحصیل میں شامل ہوا۔ اب یہ قصبہ بوریوالہ کی سب تحصیل ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے یہاں ریلوے سٹیشن قائم ہوا، جو پاکپتن لودھراں ریلوے لائن پر ہے ۔ یہاں کی آبادی بنیادی طور پر پانچ دیہات یا چکوک میں تقسیم ہے۔ بازار چک ۱۸۷/ای بی میں واقع ہے۔ 
بڑی بستی محمد پورہ چک ۲۳۵/ ای بی اور چک ۲۴۷/ ای بی میں واقع ہے جبکہ کچھ علاقہ ۱۸۵/ای بی اور ۱۹۵/ای بی میں شامل ہے۔ عمر پور کا تاریخی مقام گگو سے جملیر ا روڈ پر چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں ایک قدیم قلعہ کے آثار پائے جاتے ہیں۔ قادریہ کالونی، سیٹیلائٹ ٹائون، نیو سٹی سکیم، ڈگوڈھاریاں، گگو گارڈن اور کالو کالونی یہاں کی رہائشی بستیاں جبکہ غلہ منڈی، مین بازار اور ہسپتال روڈ یہاں کے تجارتی مراکز ہیں۔ یہاں تھانہ، دفتر نائب تحصیلدار، طلبا کا ہائیر سکینڈری سکول، طالبات کا ڈگری کالج، متعدد سرکاری و پرائیویٹ پرائمری سکول موجود ہیں۔ یہاں متعدد کاٹن، جننگ اور آئل فیکٹریز بھی ہیں۔ کپاس، گندم، چاول، گنا اور مکئی یہاں کی اہم فصلیں ہیں۔ 

اسد سلیم شیخ
کتاب ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس 

آزادی کی امید ابھی زندہ ہے

$
0
0

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں تقریباً تین ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری احتجاج کی لہر، تشدد اور کرفیو کا کشمیریوں پر کیا اثر پڑا ہے؟ بی بی سی اردو نے سرینگر کی رہائشی ایک خاتون سے رابطہ کیا جن کے تجربات و تاثرات کی پانچویں کڑی یہاں پیش کی جا رہی ہے۔ کشمیر میں مواصلاتی بلیک آؤٹ کی وجہ سے یہ تحریریں آپ تک بلاتعطل پہنچانے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ کچھ دن پہلے کسی کو لینے ایئرپورٹ جانا تھا۔ سورج طلوع ہوتے ہی گھر سے نکلنا پڑا۔ سفر تو خیر سے گزرا مگر اس بات کا احساس ہوا کہ اب راستے میں آئے کئی مقامات سے نئی یادیں وابستہ ہوگئی تھیں۔

وہ نکڑ جہاں صحافی کو پیٹا گیا تھا، وہ چوراہا جہاں اکثر آنسو گیس فائر کی جاتی ہے، وہ گلی جو اس جگہ جاتی ہے جہاں ایک نوجوان کو گولی ماری گئی تھی، وہ محلہ جس کے مکانوں کی کھڑکیاں فوجیوں کے ڈنڈوں کی نظر ہو گئیں اور ایک سابقہ اذیتی مرکز جو اب حکومتی مرکز بن گیا ہے۔ یہ نئی یادیں ہر جگہ ہیں۔ ہمارے گھر میں ایک گملے میں گہرے سرخ رنگ کے پھول نکلے ہیں۔ ان کو دیکھ کر وہ نوجوان یاد آ جاتے ہیں جن کا لہو ہماری گلیوں میں بہت بہہ چکا ہے۔ آج کل تو سرخ رنگ کہیں بھی دیکھیں تو یہی چہرے سامنے آ جاتے ہیں جو اپنے وقت سے بہت پہلے ایک خون کے دریا میں بہہ گئے۔ ان ظلم بھری یادوں سے نقصان بھی ہوتا ہے۔ جب انسان ظلم کے ماحول میں گرفتار ہو اور اپنے اردگرد ظلم اور جبر کی انتہا دیکھے تو اس کا اظہار صرف غصے ہی کی صورت میں نہیں ہوتا بلکہ اس انسان میں اکثر ایک کڑوا پن بھی آ جاتا ہے اور امید ختم ہو جاتی ہے۔
مظلوم لوگوں کی جھولی میں ظلم کا یہ بھی ایک تحفہ ہے۔ مجھے اس بات کا خیال تب آیا جب میرا شوہر میرے لیے باغ سے دل کی شکل کا ایک پتھر لایا- مجھے خوش کرنے کے لیے۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب ہم سب پر کرفیو آٹھ دن سے نافذ تھا اور درجنوں کشمیری ہلاک اور سینکڑوں زخمی کر دیے گئے تھے۔ مجھے یہ بات موزوں لگی کہ ہمارے پتھر محبت کی نشانی بن گئے تھے چاہے یہ کسی کی محبت کی ترجمانی کر رہے ہوں یا اس جذبے کی جو گذشتہ 70 برس سے ہمارے دلوں میں زندہ ہے۔ ہمارا سب سے بڑا پتھر ہندوستان کے لیے یہی ہے کہ ہم امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے چاہے وہ ہم پر کتنے بھی ظلم کرے۔
یہی امید ہے کہ جو ہمارے لوگوں کو بار بار سڑک پر ایک پرامن جلوس کی صورت میں لاتی ہے۔ ان کے نعروں کی بلندی میں اور ان کی ثابت قدمی میں امید ہی کا تو شرارہ ہوتا ہے۔

کبھی یہ امید ایک چھرّوں سے زخمی بچے کی ماں کی لوری میں ڈھل جاتی ہے اور کبھی اس باپ کی بند مٹھی میں جو اپنے جوان بیٹے کی قبر پر مٹی ڈال رہا ہے اس دعا کے ساتھ کہ کسی اور باپ کو ایسا نہ کرنا پڑے۔ کبھی اس امید نے آنسو گیس سے بھرے آپریشن تھیٹر میں سرجن کے ہاتھوں کو لرزش سے بچایا اور کبھی اس نے اس عورت کو ہمت بخشی جو برسوں سے اپنے گمشدہ شوہر کو تلاش کر رہی ہے۔ ہماری امید کے کئی رنگ ہیں جو اس ظلم اور جبر کے ماحول میں ہمیں جِلا بخشتے ہیں۔ انھی رنگوں کی قوسِ قزح سے ابھی تک امیدِ آزادی تابناک ہے۔

راول جھیل : مارگلہ کی پہاڑیوں کے وسط میں واقع خوبصورت مقام

$
0
0

راول جھیل اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں کے وسط میں واقع خوبصورت تفریحی مقام ہے۔ خاص طور پر غروب آفتاب کا منظر دیکھنے کے لیے ہر روز بیشمار لوگ یہاں جمع ہوتے ہیں۔ راول جھیل سردیوں میں مہاجر پرندوں کے لیے پرکشش جگہ ہے۔ راول جھیل پر ڈیم بھی بنایا گیا ہے، جہاں سے راولپنڈی اور اسلام آباد کو پانی مہیا کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بیشمار تفریحی مقامات ہیں جو تازگی کا احساس دلاتے ہیں اور انسان ان کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر تمام تر تھکاوٹ اور پریشانیاں بھولنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ایک ایسا ہی تفریحی مقام راول جھیل ہے۔ یہ ایک بڑی مصنوعی جھیل ہے ، جو اسلام آباد کے قریب مارگلہ کی پہاڑیوں میں واقع ہے۔ راول جھیل 8.8 مربع کلومیٹر کے علاقے پر محیط ہے۔ جھیل کے ساتھ ایک خوبصورت پارک بنایا گیا ہے، جس میں خوبصورت پھولدار پودے اور درخت لگائے گئے ہیں، جو نہایت خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔
باغ کو سیر و تفریح کے لیے بہترین جگہ تصور کیا جاتا ہے، جہاں پر ہر روز ہزاروں لوگ سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں۔ یہاں پر بہت سے لوگ مچھلیوں کا شکار اور کشتی رانی بھی کرتے ہیں۔ باغ میں بنائے گئے چبوترے نما حصے سے روال جھیل کا خوبصورت نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ جھیل کے مغرب میں اسلام آباد کلب بنایا گیا ہے جو کھیلوں کی مختلف سہولیات فراہم کرتا ہے۔ راول جھیل پر ایک ڈیم بھی بنایا گیا ہے جہاں سے راولپنڈی اور اسلام آبادکو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ راول جھیل کے پانی کو آبپاشی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس ڈیم کی بلندی 133.5 فٹ ہے اور پانی جمع کرنے کی آخری حد 47 ہزار 500 ایکڑ فٹ ہے۔ ڈیم سے دو کم لمبائی والی نہریں بھی نکالی گئی ہیں۔

پانی کا یہ ذخیرہ موسم سرما میں مہاجر پرندوں کے لیے بہترین جگہ ہے۔ اس کے علاوہ مقامی جانوروں میں لومڑی، سیہ، جنگلی بلی، گیڈر اور ابابیل قابل ذکر ہیں جو اردگرد کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ راول ڈیم سے قریباً پانچ سو ایکڑ زرعی اراضی سیراب کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جھیل سے راولپنڈی کو یومیہ 19.5 ملین گیلن اور اسلام آباد کو 2.5 ملین گیلن پینے کا صاف پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ راول جھیل کے مقام پر غروب آفتاب کا منظر بہت دلکش ہوتا ہے، جس کو دیکھنے کے لیے بہت سے لوگ یہاں آتے ہیں۔ سیاحوں کی سہولت کے لیے پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کی طرف سے ایک ریسٹورنٹ بھی بنایا گیا ہے۔ حال ہی میں کیپٹل اتھارٹی کی طرف سے جھیل کے قریب ہی تعمیراتی کام کا آغاز کیا گیا ہے جس میں ایک سیرگاہ بنائی جائے گی، جس میں اوپن ایئرہال، کشتی رانی کے لیے مخصوص جگہ اور ہرے بھرے گھاس کے میدان بنائے جائیں گے۔ ان ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل سے یہ جگہ مزید خوبصورت اور پرلطف ہو جائے گی۔ 

ابصار قدیر

سرینگر : بھارتی فوج 48 گھنٹے بعد بھی 2 مجاہدین سے سرکاری عمارت کا قبضہ نہ چھڑا سکی

$
0
0

بھارتی میڈیا کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں سری نگر کے ضلع پامپور میں سرکاری عمارت پر 2 مسلح افراد نے حملہ کر کے قبضہ کرلیا، بھارتی فورسز نے سرکاری عمارت سے قبضہ چھڑانے کے لئے کارروائی شروع کی لیکن کئی گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی 2 دوطرفہ فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے اور وقفے وقفے سے دھماکوں کی آوازیں بھی آ رہی ہیں۔ مسلح افراد سے فائرنگ کے تبادلے میں 3  بھارتی فوجی زخمی ہوئے جب کہ عمارت میں بھی آگ بھڑک اٹھی۔ پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کے بھونڈے دعوے کرنے والی بھارتی فوج اور صرف 2 مسلح افراد کے درمیان یہ مقابلہ گزشتہ روز سے جاری ہے جس میں بھارتی فوج ان حملہ آوروں کو قابو کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔ حملہ آوروں نے سرکاری عمارت پر قبضہ کرلیا ہے۔







ہیلری، ٹرمپ انتخابات اور پاکستانی امریکن

مسلمان دہشت گرد نہيں؟

$
0
0

”سارے مسلمان تو دہشت گرد نہیں لیکن سارے دہشت گرد مسلمان ضرور ہیں“ یہ
بات بالکل درست نہیں چونکہ دہشت گردی مسلمانوں کا خاصہ بالکل نہیں پچھلے 250 سالوں میں بے گناہ انسانوں کا قتل جو عیسائیوں کے ہاتھوں سے ہوا ہے پوری انسانی تاریخ میں کسی دوسرے مذہب کے لوگوں کے ہاتھوں سے ایسا ظلم نہیں ہوا؟ دوسری جنگ عظیم میں ساٹھ لاکھ یہودی گیس چیمبرز میں ڈال کر جلا دئیے گئے؟ بش اور بلیر کے مظالم آپ کے سامنے ہیں جرمن نازیوں کے علاوہ کسی پر بھی جنگی جرائم کی وجہ سے بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمات نہیں چلائے گئے؟ آج بھی امریکی قیادت اور ان کے سپاہیوں کی سفاکانہ کارروائیوں کی طرف انگلی اٹھانے والا کوئی نہیں؟ جاپان کے شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرا کر معصوم بچوں‘ عورتوں‘ بوڑھوں اور بے گناہ لوگوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کرنا اگر دہشت گردی نہیں تو اور کیا تھا اور کیا اس ساری دہشت گردی کے پیچھے کوئی ایک بھی مسلمان تھا؟

قارئین ان خیالات کا اظہار ہندوستان کے ایک 70 سالہ نہایت تجربہ کار کالم نگار اور بین الاقوامی سطح کے صحافی سوامی ناتھن ایار (Swaminathan Aiyar) نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کیا؟ ایار ایک معروف ہندو قلم کار ہیں جو اکنامک ٹائم کے ایڈیٹر ہی نہیں بلکہ ٹائمز آف انڈیا میں باقاعدہ کالم لکھتے ہیں؟ یہ دو کتابوں Towards Globalisation اور Swaminomics کے مصنف بھی ہیں؟ قلم کار کے مطابق جب آپ سیاسی مفادات کی خاطر سویلین کو قتل کرتے ہیں تو اس کو دہشت گردی کہا جاتا ہے؟ 1881ء میں روس کے حاکم الیگزینڈر دوئم کو اکیس ساتھ کھڑے لوگوں سمیت ہلاک کر دیا گیا؟ 1901ءامریکی صدر Mckinley اور اٹلی کے بادشاہ Humbert کو قتل کیا گیا 1914ءمیں آسٹریا کے آرکڈیوک فرڈینیڈ کی جان لے لی گئی جس سے پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی؟ ان میں سے کوئی دہشت گرد بھی مسلمان نہ تھا؟ ہندو قلم کار کے مطابق انگریز راج میں آزادی کی جنگ لڑنے والے چندرا سیکر اور بھگت سنگھ کو انگریزوں نے دہشت گرد کہا یہ بھی مسلمان نہیں تھے؟

دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد فلسطین پر انگریزوں کا قبضہ تھا؟ یہودی انتہا پسند اپنی آزاد بستی بنانے کیلئے انگریزوں پر بموں سے حملے کرتے؟ ہوٹل تباہ کرتے اور لوگوں کو قتل کرتے تھے؟ انگریز ان کو دہشت گرد کہتے تھے؟ اس وقت کے مشہور یہودی دہشت گردوں میں موشے دایان‘ رابن‘ بیگن اور شیرون جیسے لوگ شامل تھے جو بعد میں اسرائیل کے وزیر دفاع وزیراعظم اور صدر بنے؟ حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے اپنی آزادی کی جنگ لڑنے والے فلسطینیوں کو دہشت گرد کہہ کر چن چن کر مارنا شروع کر دیا؟ اب اسرائیل یہ سننے کو تیار نہیں کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں یہ ریاستی دہشت گردی ہے؟
جرمنی میں 1968ءسے لیکر 1992ءتک Meinhoffgang نے بہت لوگ قتل کئے؟ اٹلی کے ریڈ برگیڈ نے وزیراعظم Ardo Moro کو ہلاک کیا؟ جاپان میں ریڈ آرمی نے قتل و غارت کی اسی طرح ایک اور گروپ نے 1995ء میں ٹوکیو میٹرو کے اندر زہریلی گیس چھوڑ کر لوگوں کو ہلاک کیا؟ یورپ میں آئرلینڈ کے کیتھولک عیسائی دہشت گردوں نے تباہی مچائی اور انگلینڈ میں سینکڑوں لوگ ہلاک کئے؟ افریقہ کے اندر دہشت گردی روز کا معمول ہے؟ سپین اور فرانس میں ETA اور Basgne دہشت گردوں کا راج ہے؟ یوگنڈہ کی سالویشن آرمی بچوں کو دہشت گردی کیلئے تربیت دیتی ہے؟

خودکش حملوں کا رواج سری لنکا کے ہندو تامل ٹائیگرز نے ڈالا اور انہوں نے 2003ءسے 2007ءتک 400 خودکش حملے کر کے افغانستان اور عراق کو بھی مات کر دیا پنجاب کا جرنیل سنگ بھنڈرانوالہ اور آسام کے یونائیڈ لبریشن فرنٹ اور ناگاز کے علاوہ جن Maoist دہشت گردوں کا ہندوستان کے 600 اضلاع میں سے 150 اضلاع پر کنٹرول ہے؟ سب غیر مسلم لوگ ہیں ہندو قلم کار نے لکھا؟
" These are secular terrorists and are far ahead of Muslim terrorists ۔"

یعنی یہ سب سیکولر دہشت گرد ہیں اور یہ مسلمان دہشت گردوں سے بہت آگے ہیں؟ ہندو صحافی کے خیال میں مذکورہ بالا حقائق کے باوجود ہم صرف مسلمانوں کو دہشت گرد دو وجوہات کی بنا پر کہتے ہیں ایک تو یہ ہے کہ ہندوستان میں برگر اور روسٹڈ گوشت کھانے والے کالے انگریز مسلمانوں کے خلاف مغربی پراپیگنڈے کو آنکھیں بند کرکے قبول کر لیتے ہیں؟ ہندوستان کی سلامتی کو سب سے بڑا خطرہ Maoists کی طرف سے ہے جو ہندوستان کے تیسرے حصے پر اپنا اثرورسوخ رکھتے ہیں؟ لیکن ہندوستان کے لوگ صرف مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگاتے ہیں؟ ہندو صحافی نے لکھا؟

"The root of the post war resurgence in terrorism whether one likes it or not started and happens to be the plight of the six million Palestinians who have been made homeless and humiliated for the last six decades۔"

یعنی آپ پسند کریں یا نہ کریں دہشت گردی کی جڑیں دراصل ساٹھ لاکھ فلسطینیوں کی حالت زار میں ہیں جن کو بے گھر کرکے بے عزت کیا گیا؟ قارئین مغربی بے رحم سماج جو مرضی ہے کہہ لے فلسطین کی سرزمین کی خون سے آبیاری کرنے والے مسلمان دہشت گرد نہیں؟ نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں اپنی ماں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت کی حفاظت کی خاطر جان کی بازی لگانے والے ٹیررسٹ ہیں؟ اسی طرح اپنی سرزمین سے حملہ آوروں کو باہر دھکیلنے کیلئے مزاحمت کرنے والے افغانیوں کو Militant کہنا بھی حقائق سے روگردانی کے مترادف ہو گا؟ اس وقت دنیا میں قبائلیوں پر ڈرون حملے کرنے والے فلسطینیوں پر ہوائی حملوں کے مجرم اور پاکستان کے اندر معصوم شہریوں کی جان لینے والے دہشت گرد ہیں؟ مسلم امہ اور خصوصاً پاکستانی قوم کو نہایت صبر اور حوصلے سے اس بربریت کا مقابلہ کرنا چاہئے؟ مستقل مزاجی سے یکجا کھڑے ہو کر ہم بیرونی اور اندرونی خطرات کا مقابلہ کر سکتے ہیں خوف خدا ملک سے محبت‘ دیانتداری‘ ثابت قدمی اور حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کا حوصلہ رکھ کر ہم پاکستان کی فلاح کا راستہ نکال سکتے ہیں جس سے امن اور خوشحالی کے چشمے پھوٹ سکتے ہیں؟ کالم کا اختتام ان چند اشعار:

اپنا قافلہ اسی عزم و یقین سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے راستہ وہیں سے نکلے گا
وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ہے چشمہ یہیں سے نکلے گا۔

لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم
بہ شکریہ روزنامہ نوائے وقت


دنیا بھر میں 80 کروڑ افراد بھوک کا شکار پاکستان 11ویں نمبر پر

$
0
0

انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے بھوک کا شکار ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے جس میں پاکستان 11 ویں نمبر پر ہے۔ ادارے کی جانب سے گلوبل ہنگر انڈیکس 2016 میں مختلف ممالک کے لوگوں کو خوراک کی دستیابی کی صورتحال کے مطابق انھیں صفر سے 100 پوائنٹس کے درمیان تقسیم کیا گیا ہے۔ پاکستان 118 ممالک میں 11 ویں نمبر پر ہے اور اس کے 33.4 پوائنٹس ہیں۔ پاکستان سے صرف 11 ملک ایسے ہیں جہاں بھوک کا شکار لوگوں کا تناسب زیادہ ہے۔ بتایا گیا ہے کہ دنیا کے کل 70 کروڑ 95 لاکھ افراد بھوک کا شکار ہیں۔ سنہ 2008 میں پاکستان کے پوائنٹس 35 اعشاریہ ایک تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب یہاں بھوک میں کمی کچھ کم ہوئی ہے۔ لیکن درجہ بندی سے معلوم ہوتا ہے کہ اب بھی غذا کی قلت کے شکار ممالک میں پاکستان تشویشناک صورتحال سے دوچار ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان میں کل آبادی کا 22 فیصد حصہ غذا کی کمی کا شکار ہے اور آٹھ اعشاریہ ایک فیصد بچے پانچ سال سے کم عمر میں ہی وفات پا جاتے ہیں۔
افغانستان کا نمبر آٹھواں جبکہ انڈیا کا نمبر 22 واں ہے۔ انڈیا، نائجیریا اور انڈونیشیا سمیت 43 ممالک بھی تشویشناک کیٹیگری میں شامل ہیں۔ 2016 کے انڈیکس کے مطابق سات ممالک میں بھوک کی صورتحال خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ ان میں صحارا، وسطی افریقہ، چاڈ، میڈاگاسکر، سیرالیون اور زمبیا شامل ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ سنہ 2000 سے لے کر اب تک بھوک کی شرح میں 29 فیصد کمی ہوئی ہے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی ترقی پذیر ملک غذائی قلت کی وجہ سے شدید خطرے سے دوچار نہیں ہے۔ 13 ممالک ایسے ہیں جہاں سے ڈیٹا اکھٹا نہیں کیا جا سکا ان میں سے دس ممالک ایسے ہیں جہاں بھوک و افلاس کی صورتحال شدید خطرناک ہے ان میں شام، سوڈان اور صومالیہ شامل ہیں۔ 118 ممالک میں سے نصف ایسے ہیں جو بھوک کے شکار ہونے والوں میں ’خطرناک‘ یا ’تشویشناک‘ کیٹیگری میں شامل ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ سنہ 2030 تک دنیا سے بھوک کا خاتمہ کرنے کا ہدف تب ہی حاصل ہوسکتا ہے جب سیاسی طور پر اس کے حصول کی کوشش کی جائے اور جنگ و جدل کا خاتمہ ہو۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کو 100 روز مکمل، 110 سے زائد کشمیری شہید

کرپشن سے نجات کیسے ممکن ہے؟

$
0
0

وطن عزیز کا قیام قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں قوم نے بے شمار قربانیوں کی داستانیں رقم کرتے ہوئے ممکن بنایا۔ اسلام کے نام پر حاصل کئے جانے والے اس خطے کے حصول کے وقت پیش نظریہی تھا کہ اس کو اسلام کا مرکز و محور اور نمونہ بنائیں گے، تاکہ مسلمان اس میں ایک سچے مسلمان کی طرح زندگی گزار سکیں۔ اسلام ، اسلامی نظام زندگی کو پھر سے زندہ وتازہ کر سکیں اور اسلام کی بنیاد پر اسلامی تہذیب و تمدن کی عمارت استوار کر سکیں۔پاکستان کی عمارت سرا سر دین پر استوار ہے اور اس نے اہل پاکستان کو ایک قوم بنایا ،اسے متحد کیا اور ملت واحدہ کی صورت دی۔ آج جب پاکستان کے قیام کو سات دہائیوں سے زائد عرصہ گزر چکاہے ، قیام پاکستان کے مقاصد ہنوز تشنہ تکمیل ہیں اور سفر جاری ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان اس وقت گوناگوں مسائل اور مشکلات کا شکار ہے۔ بدامنی ، دہشت گردی ،بے روزگاری،بجلی ،پانی ، گیس اور توانائی کابحران ہے۔ فکری ونظریاتی انحطاط ،سیاسی و معاشی انتشار تہذیبی زوال، طبقاتی تقسیم در تقسیم اور تصادم ، اسٹیبلشمنٹ سے نفرت ، اداروں میں ٹکراؤ اور کشمکش، صوبہ جات میں باہم کشمکش اور تناؤ ،تعلیم و صحت کاغریب کی دسترس سے باہر اور سہولیات کا ناپید ہونا،عوام الناس کی زبوں حالی اور پریشان خیالی ،اعتماد کافقدان روز بروز بڑھ رہا ہے۔
حکومت وسائل کو منظم کرکے عوام کے مسائل کو حل کرتی ہے اور’’ گڈ گورننس‘‘ کے ذریعے عوام الناس کے دُکھ درد دور کئے جاتے ہیں، لیکن بد قسمتی سے مسلم لیگ کا دور حکومت ہو یا پیپلزپارٹی کا،یہ برسراقتدار گروہ مثبت صلاحیتوں سے عاری رہے اور نہ صرف خود بلکہ ان کے حواریوں نے بڑھ چڑھ کر لوٹ کھسوٹ میں حصہ لیا،اس طرح بُرے طرز حکمرانی کو رواج دیا ۔ جس کے باعث آج پاکستان کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ پاکستان کا ہر پیداہونے والا بچہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے کا مقروض ہے ، ایک سابق چیئرمین نیب کے مطابق پاکستان میں روزانہ 12 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ اس طرح ملک میں ہونے والی کرپشن کا تخمینہ لگایا جائے تو سرکاری ادارے اور حکمران سالانہ 43 کھرب 80 ارب روپے کی کرپشن کرتے ہیں، جو نہایت پریشان کن اور تکلیف دہ صورت حال ہے۔ پرویز مشرف دورحکومت میں اکتوبر 2005ء کے زلزلے کے بعد پوری دنیا سے 5ارب ڈالر (5کھرب 23ارب 92لاکھ 50ہزار روپے) کی امدادی رقم متاثرین کے لئے موصول ہوئی۔ یہ امداد اصل متاثرین تک پہنچنے کی بجائے کہیں اور پہنچ گئی اور اصل متاثرین محروم رہے۔ اسی طرح اُس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے عام شہری کو انصاف فراہم کرنے کے نام پر ایشیائی ترقیاتی بینک سے 135ارب روپے قرض لیا۔ اس کے نتیجے میں عام آدمی کو انصاف تو فراہم نہیں ہوسکا، لیکن آج تک قوم اس قرضے کی اقساط ادا کرنے پرمجبور ہے۔ نیب صدر آصف علی زرداری کے غیر قانونی طور پر ڈیڑھ کھرب روپے اور 22ارب روپے کمانے کے الزامات کی تحقیق کر رہا ہے،جبکہ اس سے قبل ان پر سرے محل، ایس جی ایس کو ٹیکنا، منی لانڈرنگ، عوامی ٹریکٹر سکیم کے تحت 800 ٹریکٹر کی خریداری پر کمیشن بنانے اور فرانسیسی کمپنی سے معاہدے میں بھی کمیشن وصول کرنے کا الزام ہے۔

سینٹ کی فنانس کمیٹی میں سٹیٹ بینک نے انکشاف کیا کہ آصف علی زرداری کے دور میں ایک کھرب روپے کی غیر قانونی ادائیگی براہ راست آئی پی پیز کو کی گئی۔ آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ڈاکٹر عاصم حسین نے 460 ارب روپے کی کرپشن کی ہے۔ سابق وفاقی وزیر مواصلات ارباب عالمگیر نے ایک چینی کمپنی کو ٹھیکہ دیتے ہوئے24 لاکھ ڈالر (25کروڑ 14لاکھ84ہزار) کمیشن لیا، جس سے لندن میں 4 فلیٹ خریدے ہیں۔ جب سے میاں نواز شریف وزیراعظم بنے ہیں، تب سے قوم کو معاشی خوشحالی کی نوید سنائی جارہی ہے، لیکن گورننس کا حال یہ ہے کہ 15 لاکھ نئے بیروزگاروں کااضافہ ہو چکا ہے، پاکستان کا ہر شہری ایک لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہوچکاہے۔ برطانوی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق نواز دور حکومت میں پنجاب اور سندھ کو 70 کروڑ پاؤنڈ، یعنی ایک کھرب 6 ارب 93 کروڑ 62 لاکھ 36 ہزار کی امداد دی گئی جو کرپشن کی نذرہو گئی۔ سندھ میں امداد سے چلنے والے 5 ہزاراسکول اور 40 ہزار اساتذہ جعلی نکلے۔

قومی اسمبلی میں جمع کرائی گئی ایک دستاویز کے مطابق میاں محمد نواز شریف نے 2009ء سے 2016ء تک، 7 سال سے ٹیکس ادا نہیں کیا۔ غریب قوم کے صدر، صدرپاکستان ممنون حسین کی سیکیورٹی پر ایک سال میں ایک ارب روپے کے لگ بھگ خرچ کئے جا رہے ہیں، اسی دوران انہوں نے قومی خزانے سے 60 ہزار ڈالر (62لاکھ87ہزار روپے) کی ٹپ بیرونی ممالک کے دوروں میں اپنی خدمت پر مامور خادموں کو عنایت کر دی،جبکہ گزشتہ تیس برسوں میں 430 ارب روپے کے قرضے معاف کرائے گئے ہیں۔ پانامہ لیکس کے ذریعے ایک بڑا دھماکہ ہوا جس میں کل 479 بڑے پاکستانیوں کے نام شامل ہیں،جن میں وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے خاندان اور دوست احباب سرفہرست ہیں، انہوں نے ٹیکس سے بچنے کے لئے غیر قانونی طریقے اختیار کئے اور وطن عزیز کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ اس کے علاوہ اڑھائی ہزار پاکستانیوں کے نام دبئی لیکس میں بھی شامل ہیں جنہوں نے دبئی میں ایک کھرب روپے سے زیادہ کی جائیداد خرید رکھی ہے۔ ان میں سب سے بڑا نام موجودہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا ہے جو وزیراعظم کے قریبی عزیز ہیں۔ حکومتی ترجیحات کا یہ عالم ہے کہ صرف لاہور شہر کے ایک حصے پر بننے والی اورنج لائن ٹرین کا بجٹ (162ارب روپے ہے) جو صحت کے کل بجٹ سے تقریباً آٹھ گنا زیادہ ہے۔یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے وفاقی بجٹ میں صحت کے لئے محض 22 ارب 40 کروڑروپے مختص کئے تھے۔ اس کے مطابق ہر پاکستانی کی صحت کے لئے حکومت کا مختص کردہ بجٹ 110 روپے سالانہ اور 9روپے ماہانہ فی کس بنتا ہے۔

اس وقت کرپشن کی وجہ سے وطن عزیز کی صورت حال یہ ہے کہ یوتھونومیکس گلوبل انڈیکس 2015ء نے پاکستان کو 25سال سے کم عمر نوجوانوں کے لئے دنیا کا بدترین ملک قرار دیا ہے۔ 2015ء میں دس لاکھ پاکستانی روزگارکی تلاش میں اپنا مُلک چھوڑ چکے ہیں، 1971ء سے اب تک 90 لاکھ پاکستانی اپنے وطن کو خیرباد کہہ کر دوسرے ملکوں میں جاچکے ہیں۔ پاکستان سے نقل مکانی کی بنیادی وجہ یہاں روزگارکی کمی ہے۔ ڈاکٹر سرکاری ملازمت کو خیرباد کہہ کر بین الاقوامی تنظیموں کا حصہ بن رہے ہیں۔ سوشل پالیسی ڈویلپمنٹ سنٹر(ایس پی ڈی سی ) کے تازہ سروے کے مطابق پاکستان میں 30 لاکھ  سے زیادہ نوجوان بے کاری کی زندگی بسرکررہے ہیں۔ نوجوانوں کی 54فیصد آبادی کسی بھی تعلیمی یا جسمانی سرگرمی میں مشغول نہیں ہے۔۔۔ نیب کرپشن کے خاتمے کے لئے بنا۔ اس میں گزشتہ 16سال میں نیب نے309,000 شکایات سرکاری و غیر سرکاری محکموں سے وصول کیں اور 6300 انکوائریوں کو مکمل کیا،جبکہ اس دوران اربوں روپے کی مبینہ کرپشن کے ڈیڑھ سو بڑے مقدمات کی رپورٹ ملکی سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی ہے،جبکہ اس دوران 150 میں سے 71 مقدمات کی انکوائری مکمل کی گئی ہے، 41 مقدمات کی تحقیقات تکمیل کے مرحلے میں ہیں، جبکہ 38 کی تحقیقات مکمل کرکے ریفرنس احتساب عدالتوں کو بھجوائے جا چکے ہیں۔

اس وقت حکمرانوں پر ٹیکس چوری کے الزامات اور ناقص پالیسیوں کے باعث ایف بی آر تمام ترکوششوں کے باوجود تاجروں کو ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں کر سکا۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں ہانگ کانگ دنیا کا کرپٹ ترین خطہ تھا، لیکن آئی سی اے سی کے قیام کے محض 5 سال کی قلیل مدت میں کرپشن کے عفریت پر قابو پا لیا گیا۔ اسی طرح 1959ء میں برطانوی استعمار سے آزادی حاصل کرنے والا ’’سنگاپور‘‘ کرپشن کی بدترین مثال تھا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سروے کے مطابق آج کا سنگا پورسب سے کم کرپشن والے ممالک میں تیسرے نمبرپر ہے۔۔۔Political Economic And Risk Consultancy (PERC)۔۔۔ کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ گزشتہ 10 سال کے اعداد وشمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کرپشن کے ناسورپر کامیابی سے قابوپانے والے دنیا بھر کے ممالک میں ایشیائی ملک سنگا پور پہلے نمبر کے ساتھ سرفہرست ہے۔ پانامہ پیپرز لیکس، دبئی پراپرٹی لیکس ، قرضے معاف کرانے اور سینکڑوں میگا سیکنڈلز کی فہرستیں منظر عام پر آنے کے بعد ، جماعت اسلامی کی ’’کرپشن فری پاکستان ‘‘ تحریک کا مطالبہ ’’کرپشن کاخاتمہ‘‘ قوم کی آواز بن گیا ہے ، عوامی دباؤ پر ماحول تو یہ بن گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی سطح کاعدالتی کمیشن بنے اور بلاامتیاز تحقیقات اور احتساب ہو، لیکن سیاسی، جمہوری ، سول ملٹری صفوں میں بیٹھے افراد،جو کرپشن میں ملوث ہیں، انہوں نے پوری مہارت کے ساتھ عدالتی کمیشن اور احتساب کے مطالبہ لینے کارخ موڑ کر عملاً معاملہ سرد خانے کی طرف دھکیل دیا، لیکن اب ملک میں نظریاتی ، اخلاقی ، معاشی اور انتخابی کرپشن کے خاتمہ کامطالبہ سرد نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ریاستی اداروں اور حکومت نے بلاامتیاز احتساب کا معاملہ تقریباً مفلوج کردیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے متفقہ ٹی او آرز کی بنیاد پر چیف جسٹس آف پاکستان ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیں۔ اس وقت جو کیفیت ہے، اس میں سیاسی بحران اور بے یقینی کی فضا قائم رہے گی اور ملک و ملت کو لاحق خطرات اور نقصانات کی ذمہ داری سرا سر وفاقی حکومت پرہوگی۔ کرپشن کے خاتمے کے لئے سب سے اہم چیز پختہ ارادہ اور خلوصِ نیت ہے۔ قانون سازی، عملدرآمد اور سزاؤں کے نفاذ کی مربوط اور جامع حکمت عملی ترتیب دینا بہت ضروری ہے، لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہو تو یہ سارا عمل بے کار مشق بن جاتاہے۔ ایمان دارسیاسی قیادت، ترجیحات کے تعین، دیانت دارافسران اور عوام کی تائیدسے کرپشن کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتاہے۔

لیاقت بلوچ

چینی صدر کی بھارت آمد : پاکستان کے ساتھ چین کے پرچم بھی لہرا دیے گئے

پی آئی اے ، اسٹیل ملز اور ریلوے کا خسارہ 705 ارب روپے

$
0
0

پاکستان کے تین بڑے سرکاری اداروں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے)، پاکستان اسٹیل ملز اور پاکستان ریلوے کا گزشتہ تین برسوں کے دوران خسارہ 705 ارب روپے تک جا پہنچا۔ اس کے علاوہ پاور سیکٹر کی کئی کمپنیوں کے اکاؤنٹس بھی 660 ارب روپے کے قرضوں سے بھرے ہوئے ہیں جن میں سے 348 ارب روپے کے قرض گزشتہ تین برسوں میں لیے گئے حالانکہ اس دوران کنزیومر ٹیرف میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔ واضح رہے کہ نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کی بحالی تین سالہ معاشی اصلاحات پروگرام کا مرکزی خیال رہا ہے۔

اگر مذکورہ سرکاری اداروں اور پاور کمپنیوں کے خساروں کا یکجا کیا جائے تو اس کا حجم 1.365 کھرب روپے بنتے ہیں جو کہ ملک کے موجودہ سالانہ ترقیاتی پروگرام 1.25 کھرب روپے سے بھی زیادہ ہے۔ یہ اعداد و شمار عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کے ساختیاتی اصلاحات پروگرام کے اسکور کارڈ میں جاری کیے گئے جس کا آغاز آئی ایم ایف کے تین سالہ توسیعی سہولت فنڈ کے تحت کیا گیا تھا جو 30 ستمبر کو ختم ہوگیا۔ آئی ایم ایف کے مطابق گزشتہ تین برسوں کے دوران گیس کے شعبے میں بھی خسارے کے حجم میں 11.5 فیصد اضافہ ہوا۔ قدرتی گیس سسٹم کو ہونے والے سالانہ نقصان کا تخمینہ 6 ارب روپے لگایا گیا تاہم اس عرصے کے دوران گیس کی قیمتوں میں 20 فیصد تک اضافہ ہوا۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ رواں ماہ نرخوں میں مزید اضافہ کرے گی۔

آئی ایم ایف کے مطابق صارفین تک پہنچائی جانے والی بجلی 35 فیصد مہنگی ہونے کے بعد 11.9 روپے فی یونٹ ہوگئی۔ رپورٹ کے مطابق 13-2012 میں مذکورہ تینوں سرکاری اداروں کے مجموعی خسارے کا حجم مجموعی قومی پیداوار کا 1.7 فیصد تھا جو 16-2015 میں بڑھ کر جی ڈی پی کا 2.3 فیصد ہوگیا جبکہ جی ڈی پی کا حجم بھی اب کافی بڑھ چکا ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اچھی بات یہ ہے کہ پی آئی اے، اسٹیل ملز اور ریلوے کے سالانہ خسارے میں اضافے کی رفتار گزشتہ تین برسوں میں کم ہوئی ہے اور اس میں سالانہ 95 ارب روپے کے بجائے 61 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ سرچارج لگاکر کنزیومر گیس ٹیرف 540 روپے فی یونٹ سے بڑھا کر 647 روپے کردیا گیا جبکہ پاور سیکٹر کے واجب الادا رقم کا حجم بھی جی ڈی پی کے 2.2 سے 2.3 فیصد تک ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق پاور سیکٹر کے بقایا جات کا بڑا حصہ جون اور اگست 2013 میں ادا کردیا گیا تھا لیکن واجب الادا رقم کا حجم دوبارہ بڑھ گیا تاہم اس کی رفتار کم ہوگئی ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاور سیکٹر کا ترسیلی خسارہ کم ہوکر 17.9 فیصد رہ گیا جبکہ وصولیاں بھی 5 فیصد اضافے کے بعد 92.6 فیصد ہوگئی ہیں۔ اس کے علاوہ پاور سیکٹر کو دی جانے والی سبسڈیز بھی جی ڈی پی کے 2 فیصد سے کم ہوکر 0.6 فیصد ہوگئیں جبکہ صنعتی علاقوں میں ہونے والی لوڈ شیڈنگ بھی 9 گھنٹوں سے کم ہوکر یومیہ ایک گھنٹہ رہ گئی۔ شہری علاقوں میں بھی بجلی کی یومیہ بندش کا دورانیہ کم ہوکر 5 گھنٹے رہ گیا جو 2013 میں 8 گھنٹے تھا۔

آئی ایم ایف نے زور دیا کہ سرکاری اداروں کی بحالی کے لیے ان کی تعمیر نو اور پرائیوٹ سیکٹر کی شراکت داری ضروری ہے تاکہ ان مالی ذمہ داریاں پوری ہوسکیں اور مالیاتی اخراجات کم ہوسکیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ قانون سازی کے ذریعے پی آئی اے کے زیادہ تر شیئرز اور انتظامی کنٹرول حکومت کے پاس رکھا گیا لیکن حکومت پی آئی اے میں نجی شعبے کی شراکت داری کو یقینی بنانے کے لیے پر عزم ہے۔ آئی ایم ایف نے زور دیا کہ پی آئی اے کے مالیاتی اور آپریٹنگ خسارے کو کم کرنے کے لیے اسی طرح کے مزید اقدامات جاری رہنے چاہئیں۔ اس کے علاوہ پاکستان اسٹیل ملز کا کنٹرول صوبائی حکومت کو منتقل کرنے کے حوالے سے مذاکرات بے نتیجہ ثابت ہونے کے بعد حکومت نے نجکاری کا عمل دوبارہ شروع کردیا ہے اور جون 2017 تک پیشکشیں جمع کرانے کا عمل مکمل کرنا چاہتی ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان ریلویز کی آمدنی میں بہتری کو سراہا اور ریلویز کو مزید بہتر بنانے کے لیے حکومتی عزم کی تعریف کی۔

یہ خبر 17 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


Viewing all 4315 articles
Browse latest View live