Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

برطانوی معاشرے میں نسلی امتیاز ’سرایت کر گیا ہے

$
0
0

انسانی حقوق کی علمبردار ایک تنظیم نے خبردار کیا ہے کہ برطانیہ میں سیاہ فام
اور نسلی اقلیتوں کو اب بھی تعلیم اور صحت سمیت کئی شعبوں میں امتیازی سلوک کا سخت سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملازمت، مکانات، اجرت اور کرمنل جسٹس نظام پر نظر رکھنے والی تنظیم ’دی ایکوالٹی اینڈ ہیومن رائٹس کمیشن‘ نامی تنظیم کے ایک تجزیے سے اس بارے میں خطرناک تصویر سامنے آئی ہے۔ اس کے مطابق سفید فام نوجوانوں کے مقابلے میں سیاہ فام گریجویٹس کو اوسطاً 23 فیصد کم اجرت ملتی ہے جبکہ نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں بےروزگار ہیں۔

کمیشن کے چیئرمین ڈیوڈ آئزک کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کے فیصلے کے بعد نفرت پر مبنی جرائم، منظم طریقے سے ہونے والی دور رس بےانصافیوں اور نسلی امتیاز سے متعلق کئی باعثِ فکر پہلوں کا انکشاف کرتی ہے۔ انھوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں نسلی امتیاز کو قابو میں کرنے کے لیے فوری طور پر کوششیں دوگنا کرنے کی ضرورت ہے ورنہ معاشرے میں تفرقہ بڑھنے اور اور نسلی کشیدگی میں اضافہ ہونے کا خطرہ رہے گا۔‘ ان کا کہنا تھا: ’اگر جدید برطانیہ میں آپ سیاہ فام ہیں یا نسلی اقلیت، تو آپ اکثر محسوس کر سکتے ہیں کہ آپ کسی اور دنیا میں رہتے ہیں، کبھی آپ کو قومی معاشرے کا حصہ ہونے کا احساس نہیں ہو گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سماج میں کس قدر سخت اور دور رس نسلی امتیاز کی جڑیں پائی جاتی ہیں۔ کمیشن کے مطابق انگلینڈ میں کسی سفید فام شخص کے مقابلے میں سیاہ فام شخص کے قتل کا تین گناہ زیادہ خطرہ رہتا ہے۔ اسی طرح نسلی اقلیتوں میں بے روزگاری کی شرح دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ سفید فام لوگوں کے مقابلے میں نسلی اقلیت کے زیادہ لوگ غربت کا شکار رہتے ہیں، طاقتور اور بڑے عہدوں، جیسے ججوں اور پولیس سربراہ وغیرہ کے عہدوں پر نسلی اقلیتوں کے لوگوں کی نمائندگی بہت کم ہے۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق غریب سفید فام لوگ بھی اسی طرح کی مشکلات سے دوچار ہیں۔ کمیشن نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمان کی تعداد میں پہلے سے اضافہ ہوا ہے جبکہ نسلی گروپ کے لوگوں میں اعلیٰ تعلیم میں بھی پہلے سے بہتری آئی ہے اور اب ان میں سے زیادہ گریجویٹس نکلتے ہیں۔

ڈیوڈ آئزک کا کہنا ہے کہ ایسے سماج کے تعمیر، جس میں کسی کی نسل سے اس کی منزل کا تخمینہ نہ لگایا جائے، اور سماجی برابری کے لیے حکومت کو جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ادھر حکومت کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں حقیقی ترقی ہوئی ہے اور اگر گذشتہ 15 برسوں کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت سیاہ فام اور نسلی اقلیتوں میں روزگار کی شرح پہلے سے کہیں بہتر ہے۔ حکومت کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ واضح طور پر اس سمت میں اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اسی لیے حکومت اس سلسلے میں ایک جامع منصوبے پر کام کر رہی ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو


کشمیریوں کے خلاف بھارتی میڈیا کی جنگ

$
0
0

نعیم اختر مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت کے نہ صرف سینئر وزیرِتعلیم ہیں

بلکہ مقبوضہ کشمیر کی مخلوظ حکومت (پی ڈی پی+بی جے پی) کے ترجمان بھی ہیں۔ بھارت کے ممتاز اخبار ’’دی ہندو‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے نعیم اختر نے کہا ہے: ’’ہمیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ برہان وانی کی ہلاکت سے کشمیر میں اتنا فساد پھیلے گا اور اس کی موت پر کشمیری اتنے شدید ردِ عمل کا اظہار کریں گے۔‘‘ اس اعترافِ گناہ میں مقبوضہ کشمیر کے حکمرانوں کی تازہ دلی کیفیات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ، عمر عبداللہ، کے ٹویٹ میں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت پائی جاتی ہے۔ عمر نے اپنے ٹویٹر میں یہ لکھا: ’’حزب المجاہدین کے نوجوان کمانڈر، برہان وانی، کی (بھارتی فورسز کے ہاتھوں) موت سے پیدا ہونے والے ردِ عمل کا اندازہ لگانے میں محبوبہ مفتی کی حکومت قطعی ناکام رہی۔‘‘
واقعہ یہ ہے کہ بائیس سالہ کشمیری مجاہد، برہان مظفر وانی، کی بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں شہادت سے آج مقبوضہ کشمیر، بھارت اور پاکستان ہی نہیں گونج رہا بلکہ واشنگٹن، لندن، بیجنگ اور ماسکو میں بھی ان کا نام اور کام سنائی دے رہا ہے۔ بھارتی ظالم فوجوں نے اس بار نہتے کشمیری احتجاج کنندگان پر خاص قسم کی مہلک گولیوں سے فائرنگ کی ہے۔ یہ گولیاں دھماکے سے پھٹتی ہیں اور اس کے باریک باریک ہلاکت خیز ٹکڑے لوگوں کی آنکھوں میں چُبھ جاتے ہیں۔ (بھارت نے یہ ہتھیار اسرائیل سے لیے ہیں) ان گولیوں سے سیکڑوں کشمیری نوجوان اپنی بینائی سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئے ہیں۔ سری نگراور دہلی کے اسپتال زخمی آنکھوں والے ان کشمیریوں سے اَٹ گئے ہیں لیکن علی شاہ گیلانی کی خط کتابت کے باوجود عالمی ضمیر جاگ نہیں سکا ہے۔

بھارتی میڈیا اس پر مزید ستم ڈھا رہا ہے۔ بھارت کا تقریباً ہر ٹی وی، اخبار اور جریدہ اپنی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر مسلسل یہ دِل آزار پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ (مقبوضہ) کشمیر میں اٹھنے والی تازہ احتجاجی لہر ’’مُٹھی بھر دہشت گردوں‘‘ کی شرارت اور ’’اسے پاکستان کی پُشت پناہی حاصل ہے‘‘۔ بھارتی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کا یہ دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ برہان کے جنازے، جو لاکھوں کشمیریوں پر مشتمل تھا، میں ایک ہزار پاکستانی شامل تھے۔ نان سینس! آیا یہ کسی بھی طرح ممکن ہے کہ پاکستان راتوں رات اتنی بڑی تعداد میں اپنے ’’بندے‘‘ مقبوضہ کشمیر میں داخل کر سکے؟ اگر ایسا ممکن ہوا بھی ہے تو مقبوضہ کشمیر کے چپے چپے پر تعینات سات لاکھ بھارتی افواج اور ایک لاکھ CRPF (سینٹرل ریزرو پولیس فورس) کو اپنی نالائقیوں اور نااہلیوں پر ماتم کرتے ہوئے ڈوب مرنا چاہیے۔ اس ناممکن کو ممکن ثابت کرنے کے لیے بھارتی میڈیا مسلسل آتش بیانی کر  رہا ہے۔

اسی لیے مشہور بھارتی خاتون صحافی، تولین سنگھ، کو اپنی ایک معروف کتاب (Kashmir:  A  Tragedy  of  Errors) میں یہ لکھنا پڑا: ’’حکومت کی غلطیاں تو اپنی جگہ ہیں ہی لیکن کشمیر کے بارے بھارت بھر میں حالات اس لیے بھی خراب ہوئے ہیں کہ بھارتی میڈیا نے کشمیریوں کے مسائل اور دکھوں کے حوالے سے کبھی پورا سچ اپنے پڑھنے اور سننے والوں تک نہیں پہنچایا۔ اس کے کئی منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ایک منفی نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ ہندوستان کی مختلف حکومتوں نے کشمیر اور کشمیریوں کے بارے میں سنجیدگی اور فہمیدگی سے غور اور فیصلہ کرنے کا تکلف ہی نہیں کیا ہے۔

کشمیر میں حالات اس لیے بھی بھارت سرکار کے ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں۔‘‘ لیکن بھارتی فیصلہ ساز قوتیں تولین سنگھ ایسے اخبار نویسوں کے انتباہ اور تجزیوں پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں، بلکہ اس کے برعکس بھارتی اسٹیبلشمنٹ ہندوستان سے باہر نکل کر مغربی میڈیا میں بھی نفوذ کرتے ہوئے یہ کوششیں کرنے لگی ہے کہ آزادی پسند کشمیریوں اور کشمیری قیادت کو بدنام کیا جائے تا کہ کشمیری نوجوان اپنی حریت پسند قیادت سے بد دِل ہو جائیں۔ اس سلسلے کی تازہ کوشش 17 جولائی 2016ء کو سامنے آئی ہے جب برطانیہ کے معروف اخبار، سنڈے گارڈین، میں ایک اسٹوری شایع کروائی گئی۔

اس میں ممتاز کشمیری قیادت (مثلاً: سید علی شاہ گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، اشرف صحرائی اور آسیہ اندرابی) کا نام لے کر قارئین کو بتایا گیا ہے کہ ان کشمیری رہنماؤں کی اپنی اولادیں تو مقبوضہ کشمیر سے باہر ہیں، محفوظ ہیں، شاندار ملازمتیں کر رہی ہیں اور آرام دہ زندگیاں گزار رہی ہیں جب کہ حریت پسند قائدین مقبوضہ کشمیر کے غریب نوجوانوں کو بھارت سے لڑا کر مروا رہی ہے۔برطانوی اخبار میں شایع ہونے والی اس مفصل رپورٹ کی شر انگیزی واضح اور قابلِ فہم ہے۔ بھارت مقامی اور عالمی میڈیا کے پلیٹ فارم سے کشمیری نوجوان حریت پسندوں کو ناکام بنانے اور ان کے راستے مسدود کرنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے آزما رہا ہے مگر یہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوں گے۔ کشمیریوں کا خون رنگ لا کر رہے گا۔
 انشاء اللہ۔

تنویر قیصر شاہد 

کرپشن کیخلاف جنگ : منطقی انجام ضروری

$
0
0

بھارتی حکمرانوں کا پاکستان کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اپنی جگہ، کشمیر کا مسئلہ
اپنی جگہ، امریکی امداد کا رک جانا اپنی جگہ، ملک میں غیرملکی جاسوسوں کا پکڑے جانا اپنی جگہ، افغانستان کی ہرزہ سرائی اپنی جگہ، پاک چین اقتصادی راہداری میں حائل رکاوٹیں اپنی جگہ، ایران کے ساتھ تعلقات اپنی جگہ، بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل اپنی جگہ اور اس طرح کے سینکڑوں مسائل اپنی جگہ لیکن ہمارے سیاستدانوں کی آپسی لڑائیوں کے موضوعات کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں، فلاں نے فلاں کیخلاف ریفرنس دائر کردیا۔ فلاں نے فلاں کو چت کر دیا۔ گزشتہ چار ماہ سے ٹی او آرز پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق نہیں ہو سکا۔ فلاں بن فلاں ایجنسیوں کا آدمی ہے اس لیے وہ ایسی باتیں کرتا ہے۔ فلاں ممبر پارلیمنٹ کا تعلق ’را‘ سے ہے اس لیے وہ کبھی بھارت کیخلاف بات نہیں کریگا۔ اب فیصلے سڑکوں پر ہونگے اور حکومت کیخلاف ہر شہر میں دما دم مست قلندر ہوگا۔ فلاں جماعت میں فارورڈ بلاک ہے جو کسی بھی وقت سامنے آسکتا ہے۔ 
فلاں سیاستدان کی بیرون ملک 25 کمپنیاں ہیں۔ اور فلاں حکمران کے بیرون ملک اثاثوں کی مالیت اربوں ڈالر میں ہے۔ الغرض روزانہ اخبار کھولیں آپ کو کم و بیش روزانہ 10سے 15 سیاسی لڑائیوں کی تفصیلات پڑھنے کو ملیں گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا پاکستان کی قسمت میں اسی طرح کی سیاست لکھی ہے؟ اور رہی بات اپوزیشن کی تو اگر صدق دل سے عمران خان کرپشن کیخلاف آواز اُٹھا رہے ہیں تو یہ کسی نہ کسی طرح اپنے منطقی انجام کو پہنچنی چاہیے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ملک دنیا کا واحد ملک ہو گا جس نے حالیہ اسمبلیوں سے کرپشن زدہ لوگوں کو نکال باہر کیا اس لیے مجھ سمیت ہر فکر مند پاکستانی یہ چاہتا ہے کہ کرپشن کیخلاف جنگ اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔ اور خدارا! عوام یہ لڑائیاں دیکھ دیکھ کر اور سُن سُن کر تنگ آچکے ہیں۔ عوام کے مسائل سننے والا کوئی نہیں ہے۔ عوام کے لخت جگر اُٹھائے جا رہے ہیں انہوں نے ہر گلی محلے میں اپنی عدالتیں قائم کرکے خود ساختہ سزا و جزا کا عمل شروع کر لیا ہے۔ یعنی ملک میں اتنے گھمبیر مسائل ہیں کہ اگر ہر سیاستدان اگلے 20 سال تک دن رات عوامی خدمت میں صرف کرے تب بھی یہ مسائل حل نہیں ہو سکتے لیکن یہ کیا یہاں تو ہمارے سیاستدان 5 سال تک عوام کو بے وقوف بنائے رکھتے ہیں اور نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا۔

اگر گزشتہ چند ماہ پر نظر ڈالیں تو پاکستان تحریک انصاف نے وزیراعظم نواز شریف کو بحیثیت رکن قومی اسمبلی نااہل قرار دینے کیلئے ریفرنس دائر کیا ہے۔ اس ریفرنس سے قبل حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے بھی پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کیخلاف ریفرنس دائر کیا تھا۔ اس سے پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس بھی شکایات موجود ہیں جن پر 6 ستمبر کو فریقین کو نوٹس بھجوائے جا چکے ہیں۔ پہلے قومی اسمبلی کی طرف آتے ہیں جہاں اسپیکر ایاز صادق کی میز پر اس وقت دو ریفرنس کی درخواستیں موجود ہیں، لہذا اب دیکھنا یہ ہے کہ ایاز صادق ان دونوں کے معاملات کو کیسے ڈیل کرتے ہیں۔ آئین کے تحت اگر اسپیکر قومی اسمبلی نے ان ریفرنسز پر کارروائی نہیں کی تو ایک ماہ بعد خود بخود یہ درخواستیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو منتقل ہوجائیں گی۔ 

قارئین کو یہ بھی علم ہو گا کہ پی ٹی آئی گزشتہ ماہ 25 جولائی کو وزیراعظم نواز شریف اور انکے اہل خانہ کیخلاف قومی احتساب بیورو (نیب) میں مبینہ کرپشن الزامات کے تحت بھی ریفرنس دائر کرچکی ہے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم نے ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا، تاہم اس کمیشن کے ٹی او آرز پر حکومت اور حزب اختلاف میں اب تک اتفاق نہیں ہو سکا۔ پاناما لیکس کے انکشافات کے بعد پی ٹی آئی سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم نواز شریف کے احتساب کا مطالبہ کیا تھا، تاہم پاناما لیکس کے حوالے سے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) پر اتفاق نہ ہونے پر تحریک انصاف نے 7 اگست کو احتساب تحریک کا آغاز کیا۔

اب وزیراعظم کی نااہلی کیلئے تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اورعوامی تحریک سمیت عوامی مسلم لیگ نے الیکشن کمیشن میں درخواستیں دے رکھی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاناما لیکس کے حوالے سے نااہلی کے ریفرنسز پر شریف فیملی کے تمام ارکان پارلیمنٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 6 ستمبر کو جواب طلب کرلیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔ اور تو اور شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں انصاف چاہتی ہیں۔ اگرعدالتوں سے انصاف نہ ملا تو ستمبر میں سڑکوں پر فیصلہ ہو گا۔ مختصر یہ کہ یہ ریفرنسز وغیرہ سب سیاسی جنگیں ہیں جو وقت گزاری کیلئے شروع کی گئی ہیں ان سے ملک کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہونیوالا لیکن ملکی مفاد میں وزیر اعظم اور انکے اہل خانہ کو بھی چاہئے کہ وہ بھی معاملات کو الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ میں ہی رکھیں۔ اور اب جب انکے مخالفین سڑکوں سے تنگ آکر عدالتوں میں پہنچ گئے ہیں تو انہیں عدالتوں سے بھاگنے نہیں دینا چاہئے۔ اس ملک میں پا نامہ سے پہلے دھاندلی کا ایک بہت بڑا بحران آیا تھا۔ جس نے اس ملک کی جمہوریت کی بقا کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ ایسا لگنے لگا تھا کہ جمہور یت دھاندلی کی نظر ہو جائیگی۔ جس طرح آج کہا جا رہا ہے کہ کرپشن اور جمہوریت اکٹھے نہیں چل سکتے تب کہا جارہا تھا کہ دھاندلی اور جمہوریت اکٹھے نہیں چل سکتے۔

اب کہا جا رہا ہے کہ کرپشن نے جمہوریت کو کھوکھلا کر دیا ہے تب کہا جا رہا تھا دھاندلی نے جمہوریت کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ کرپشن والی جمہوریت قابل قبول نہیں اور تب کہا جا رہا تھا دھاندلی والی جمہوریت قبول نہیں۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کرپشن کی وجہ سے کئی ممالک دنیا میں اپنی ساکھ برقرار نہ رکھ سکے اور تاریخ کے اوراق میں گم ہو گئے۔ اسی کرپشن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسی دیمک ہے جو معاشروں کو کھا جاتی ہے بدنصیبی ہے بیچارے غریب ممالک کی، کہ جن کے عوام دہرے عذاب سے گزرتے ہیں۔ ایک تو انکے حکمران ان کا خون نچوڑتے ہیں اور دوسرا انکے ٹیکس کی مد میں دئیے گئے پیسے کوبے دردی سے لوٹتے ہیں۔ میرے خیال میں سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر بھی احتساب کا عمل شروع کرنا چاہیے۔

جماعتوں کے اندر ایسا نظام موجود ہونا چاہیے جس سے پیسے والی یا بغیر پیسے والی شخصیت جب بھی کرپشن کرے اس پارٹی سے نہ صرف استعفیٰ دے دینا چاہیے بلکہ پارٹی کو بھی اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اس کا احتساب کرے لیکن بدقسمتی سے اس وقت پاکستان کی کوئی جماعت نہ ایسا نظام رکھتی ہے اور نہ ہی اس پر یقین رکھتی ہے بلکہ اسکے برعکس تمام سیاسی جماعتیں زیادہ پیسے والی شخصیات کو آگے لا کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنے اور کرپشن کے مواقع فراہم کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ پاکستان میں ہر پیدا ہوانیوالا بچہ مقروض ہے اسکے ذمے جو قرض ہے وہ ہر سال اسی عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ اس سب کی بڑی وجہ کرپشن ہے جو بڑھتی ہی جا رہی ہے آج حکومتی جماعت کے لیڈران کو پاکستانی عوام کے سوالوں کا جواب دینا ہوگا کہ کہ انکے پاس دولت کے انبار کہاں سے آئے اور وہ جو حلال دولت کی بات کرتے ہیں تو اس کا ریکارڈپیش کرنے سے کیوں قاصر ہیں۔ اب تمام جماعتیں اس ایشو پر حکومتی جماعت کیخلاف ہیں عوام کرپشن کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے۔ کرپشن اور حکمرانی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی کیونکہ جو حکمران ملکی دولت لوٹتا ہے پھر اگر اس پر ہاتھ پڑ جائے تو جمہوریت کے کھاتے میں ڈال کر خود کو جمہوریت کی آڑ میں معصوم بنا کر پیش کرتا ہے۔ ایسے حکمران کبھی نہ کبھی بے نقاب ہو کر سامنے آہی جاتے ہیں۔ آج کرپشن کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ تمام جماعتیں اپنے اندر بھی احتساب کا موثر نظام اپنائیں۔ کرپشن کا خاتمہ کرکے جمہوریت کو مضبوط بنانے کی کوششیں ہونی چاہئیں۔ اسکی آڑ میں کسی کو جمہوریت مخالف عناصر کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ عوام جمہوریت کا خاتمہ نہیں چاہتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نے جس ادارے کو کرپشن ختم کرنے پر لگایا ہو اہے اسے اتنا بااختیار بنایا جائے کہ وہ خود سے فیصلے لے سکے۔

اس کیلئے اگر کسی بڑے سے بڑے آدمی پر ہاتھ بھی ڈالا جائے تو کوئی شور شرابہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اسی پالیسی کی وجہ سے ماضی میں بھی کئی بار کرپشن کے خاتمے کیلئے چلائی جانے والی مہم متاثر ہوتی رہی ہے اور اس ملک کا سب سے بڑا المیہ ہی یہی ہے کہ جب بھی کسی باثر شخص پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو کئی طرح کے شوشے سر اٹھا لیتے ہیں جس کی وجہ سے مجبورا وہ مہم روک دینی پرتی ہے یا پھر ملتوی کر دی جاتی ہے۔ اور جو کرپشن کیخلاف جو مہم شروع کی جاچکی ہے یا تو اسے منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے یا آج ہی اسے ختم کرکے آئندہ کا مضبوط لائحہ عمل بنانا چاہیے۔ اسی میں ملک کی بہتری اور بقاء ہے۔

محمد اکرم چوہدری

خان گڑھ : ضلع مظفر گڑھ کا قصبہ

$
0
0

ضلع مظفر گڑھ کا قصبہ۔ شہر مظفر گڑھ سے علی پور جانے والی سڑک پر16 کلو میٹر کے فاصلے پر دریائے چناب کے کنارے واقع ہے۔ اس کے بارے میں مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں۔ ایک روایت ہے کہ یہ علاقہ نواب مظفر خان بانی مظفر گڑھ کے والد نواب شجاع نے اپنی بیٹی خان بی بی کو عطا کیا تھا۔ خان بی بی اپنے بھائی نواب مظفر خان کی فوج میں سپہ سالار تھی اور جنگ منکیرہ میں شہید ہو گئی تھی۔ اس کا مزار ملتان میں حضرت غوث بہاول حق کے مزار کے باہر واقع ہے۔ اسی خان بی بی نے قصبہ خان گڑھ کی بنیاد رکھی تھی۔ دوسری روایت کے مطابق اسے شجاع خان نے آباد کیا تھا، جس کا انتقال 1773ء میں ہوا تھا جبکہ تیسری روایت یہ ہے کہ یہ قلعہ نواب مظفر خان کی زیر نگرانی تعمیر ہوا تھا جب نواب شجاع خان نے انہیں مظفر گڑھ کے علاقے کا انتظام سونپا تھا۔

ان تمام روائتوں سے ہٹ کر مورخین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہاں کا قلعہ شجاع خان نے تعمیر کرایا، جو نواب مظفر خان کی نگرانی میں بنا اور خان بی بی کے نام پر اس کا نام خان گڑھ رکھا گیا۔ یہ قلعہ شہر کے مشرقی طرف دریائے چناب کے کنارے واقع تھا۔ خان بی بی کی شہادت کے بعد چناب میں سیلاب کی وجہ سے یہ قلعہ مسمار ہو گیا اور اس کا نام و نشان بھی باقی نہ بچا۔ 1811ء کے بعد نواب مظفر خان اور نواب بہاولپور کے درمیان تنازعات بڑھے ،تو نواب احمد خان نے خان گڑھ کو اپنامستقر بنا کر بہاولپور کے علاقے میں چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔ نواب صادق محمد خان نے تنگ آ کر فوجی افسر یعقوب کی سرکردگی میں ایک لشکر خان گڑھ روانہ کیا۔ یعقوب خان نے خان گڑھ کا محاصرہ کیا، تو احمد خان مقابلے کی تاب نہ لا کر فرار ہو گیا۔ 1818ء میں خان گڑھ پر سکھوں کا قبضہ ہو گیا۔ 1849ء میں انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی ،تو انہوں نے خان گڑھ کو ضلعی صدر مقام بنایا اور خان گڑھ، سیت پور اور رنگ پور کی تحصیلوں کو اس میں شامل کیا۔ اس وقت رنگ پور میں ضلع جھنگ کے علاقے گڑھ مہاراجہ اور احمد پور سیال بھی شامل تھے۔ 1850ء تک یہ ضلعی صدر مقام رہا، بعد ازاں مظفر گڑھ کو ضلع بنایا گیا اور خان گڑھ تحصیل اس میں شامل کر دی گئی۔ خان گڑھ تھانہ 1849ء میں بنا جبکہ آنریری عدالت 1893ء میں بن چکی تھی اور مرحوم سیاستدان نوابزادہ نصراللہ خان کے والد نوابزادہ سیف اللہ خان اس کے جج تھے۔ 

تھانہ، ڈاکخانہ، ٹاؤن کمیٹی اور ڈسپنسری بھی انگریزی دور میں بنے ۔1931ء کی مردم شماری کے مطابق خان گڑھ کی آبادی4402 نفوس پر مشتمل تھی۔ تجارتی لحاظ سے علاقے کا اہم مرکز ہے۔ کھجور، آم اور گندم کی پیداوار عام ہوتی ہے۔ محلہ ڈسکیاں والا، محلہ شیخاں، محلہ سیداں، محلہ توحید آباد، محلہ نواباں والا، نئی بستی، بستی کلاں اور رحمت کالونی یہاں کی رہائشی بستیاں ہیں جبکہ مین بازار اور بازار خواجگان تجارتی مراکز ہیں۔ پاسکو کے گودام بھی ہیں۔ پیر مہدی شاہ، پیر بالک شاہ اور پیر طالب شاہ کے مزارات ہیں۔ یہاں کا بُھنا کھویہ بہت مشہور ہے۔ شمس اور موج قصبہ خان گڑھ کے معروف شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ سیّد شمس الدین شمس یہاں 1865ء میں پیدا ہوئے اور1945ء میں وفات پائی۔ آپ سرائیکی زبان کے شاعر تھے۔

ایک غیرمطبوعہ مجموعہ یادگار چھوڑا۔ ان کے بیٹے سیّد غلام مصطفیٰ شاہ مست جن کا انتقال 1955ء میں ہوا تھا بھی سرائیکی شاعری کرتے تھے۔ شاہ مست کے بیٹے اور شمس کے پوتے سیّد کرم حسین شاہ گیلانی بھی یہاں کے اُستاد شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ حکیم شمشیر مرحوم اور سیّد غلام حسین شاہ مسکین بھی شاعر تھے۔ معروف سیاستدان نوابزادہ نصراللہ خاں بھی یہاں کے رہنے والے تھے  وہ شاعری بھی کرتے تھے۔ پاکستانی سیاست میں وہ بہت بلند مقام پر فائز رہے۔ اسی طرح فضل حسین بلوچ جو موج تخلص کرتے تھے نعت، قصائد، نوحہ، رباعیاں اور مُسدّس کی شکل میں شاعری کرتے تھے۔ 

(اسد سلیم شیخ کی تصنیف ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس) 

الطاف حسین کی تقریر پر سینئر صحافیوں کا شدید رد عمل

لندن میں بھی الطاف حسین کے خلاف شکایات کے انبار

$
0
0

پاکستان مخالف تقاریر اور میڈیا ہاؤسز پر حملے کے اشتعال انگیز بیانات کے بعد

سمندر پار پاکستانیوں نے بھی قائد ایم کیو ایم کے خلاف شکایات کے انبار لگا  دیئے۔ لندن کے ایک رہائشی محمد چوہدری نے ایک لاکھ سے زائد دستخط والی ایک شکایت لندن پولیس کو جمع کرائی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ الطاف حسین برطانیہ میں بیٹھ کر پاکستان میں موجود لوگوں کو اشتعال دلا رہے ہیں، ان کی اشتعال انگیزی سے پاکستان میں جانی و مالی نقصان کا باعث بن رہا ہے، انھیں فوری طور پر پاکستان بدر کیا جائے۔ اس کے علاوہ اولڈ ہم میں بھی پاکستانی نژاد راجہ نقاش نامی نے بھی ایم کیو ایم قائد الطاف حسین کے خلاف پولیس کو درخواست جمع کرائی۔ راجہ نقاش کا کہنا تھا کہ الطاف حسین نے پاکستانی اداروں کے خلاف بیان دے کر انھیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔
اس کے علاوہ اوور سیز پاکستانیوں نے میٹروپولیٹنس پولیس کو بذریعہ فون اور ای میل شکایات کے انبار لگا دیئے جب کہ پولیس اسٹیشن جا کر بھی شکایات درج کرائیں جس پر میٹرو پولیٹن پولیس کو شکایت درج کرانے کے لئے ای میل جاری کرنا پڑا۔ اوور سیز پاکستانیز نے ایم کیو ایم قائد کی اشتعال انگیز تقاریر میٹرو پولیٹن پولیس کو ارسال کیں جس کا ترجمہ پولیس خود کرائے گی۔ میٹروپولیٹن پولیس کا اسپیشل آپریشن 15 شکایات کا جائزہ لے گا، اسپیشل آپریشن 15 انسداد دہشت گردی کے معاملات دیکھتا ہے۔ اس کے علاوہ لندن میں پاکستانی کمیونٹی نے ایم کیو ایم قائد کے خلاف ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ کے سامنے احتجاجی مظاہرے کا اعلان بھی کیا ہے۔

ایم کیو ایم کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کے لیے درخواست دائر

When will the Kashmir killings stop?

$
0
0

A girl peers from her house as a member of the security forces patrols a street in Srinagar as the city remains under curfew following weeks of violence in Kashmir. 
A woman attempts to cover a tear gas canister fired by police at a crowd in Srinagar protesting against the recent killings in Kashmir.  

Relatives of Irfan Ahmed, who according to local media died after being hit by a tear gas canister fired by security forces, mourn his death in Srinagar as the city remains under curfew following weeks of violence in Kashmir.  


ایم کیو ایم کا آغاز اور انجام

$
0
0

میرا ذاتی تعلق ایم کیو ایم کے قائدین سے بڑا طویل پس منظر رکھتا ہے۔ 1988ء
میں ایک دفعہ میاں نواز شریف نے اپنے گھر ماڈل ٹاؤن میں الطاف حسین سے میرا تعارف کروایا۔ الطاف حسین نے اپنی عادت کے مطابق میاں نواز شریف سے کہا میاں صاحب آپ جس شخص کا مجھ سے تعارف کروا رہے ہیں اس کی زیر قیادت ہم نے جمہوریت کی بحالی اور بنگلہ دیش نا منظور کی تحریکیں چلائی ہوئی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے پر جب ساری اپوزیشن بیٹھ گئی تو صرف ایک ہی آدمی آمریت کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا اور یہ حقیقت ہے کہ بھٹو کے دور میں قائد حزب اختلاف کا کردار بھی تمام مشکلات اور مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے جاوید ہاشمی نے ادا کیا۔ میں تو ان کا ایک کارکن تھا۔ ایم کیو ایم کے ساتھ ایک متوسط طبقات کی جنگ لڑنے والی طاقت تھی۔ ان کے جتنے ایم این اے 1985ء سے اسمبلی میں آئے ہیں وہ انتہائی غریبوں کے بچے ہیں۔ مجھے ایم کیو ایم سے جتنی ہمدردی تھی وہ الطاف حسین کے 30 سالہ رویے نے ختم کر دی۔
قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے آنے والے مسلمان مشرقی پاکستان سمیت تمام صوبوں میں آکر آباد ہوئے۔ مقامی لوگوں نے اپنے بھائیوں کو خوش آمدید کہا۔ 

شروع شروع میں ہجرت مدینہ کی مواخات کے مناظر چاروں طرف نظر آئے۔ قیام پاکستان سے پہلے پنجاب اور سندھ کے اکثر بڑے شہروں میں ہندؤں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ تھی۔ چونکہ شہر تجارت کے مرکز ہوتے تھے اس لیے تجارت پر بھی ہندوؤں کا مکمل قبضہ تھا۔ مسلمان اس میدان میں خال خال نظر آتے تھے۔ جب مہاجرین ہندوستان سے آئے تو خالی شہر اور تجارتی مراکز اُن کے استقبال کے لیے موجود تھے لیکن یہ حقیقت ہے کہ آنے والوں کی اکثریت اپنا سب کچھ قربان کر کے اپنی خوابوں کی سرزمین پر پہنچی تھی۔ اُن کے ذہنوں میں اُس وقت اپنے دین اور اپنی اقدار کے تحفظ کے علاوہ کوئی اور جذبہ موجود نہ تھا۔ نہ ہی انہیں یہ معلوم تھا کہ انہوں نے کسی شہر میں رہنا ہے یا دیہات میں۔ جسے جہاں سر چھپانے کی جگہ ملی اس نے اسے خوش دلی سے قبول کر کے خدا کا شکر ادا کیا۔

کراچی کو ملک کا دارالحکومت بنایا گیا تو یہ چھوٹا شہر کروڑوں لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ دلّی جیسے دارالحکومت کے رہنے والوں نے اسے اپنی توجہ کا مرکز بنایا توحیدر آباد دکن جیسے پایہ تخت کے لوگ بھی یہیں کھچے چلے آئے۔ ممبئی جیسے بندرگاہ والے مسلمان شہریوں کا مسکن بھی اب پاکستان کی واحد بندرگاہ کا درجہ رکھنے والا یہی شہر تھا۔ کراچی میں سرمائے کی ریل پیل ہونے لگی تو اندرون ملک کے لوگ بھی روزگار کی تلاش میں یہاں آکر بس گئے۔ صوبہ سندھ کا سب سے بڑا شہر حیدرآباد ہندوؤں کے جانے کی وجہ سے خالی ہوا تو وہاں بھی ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کو آباد کر دیا گیا۔ اس طرح دو بڑے شہر ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کے بڑے مرکز بن گئے۔ کچھ عرصہ تک تو مؤاخات (اسلامی بھائی چارے) کا جذبہ موجود رہا پھر زمینی حقیقتوں نے سر اُٹھانا شروع کر دیا۔ مہاجر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو چکے تھے بلکہ اپنی اہلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر قومی دھارے میں خون کی طرح گردش کر رہے تھے۔ پاکستانی قوم کا تشخص اُبھر کر سامنے آرہا تھا۔ جو خواب دیکھا گیا اس کی تعبیر میں رنگ بھرے جارہے تھے ایک نوزائیدہ مملکت شاہراہ ترقی پر گامزن ہو چکی تھی۔ یہ صورت حال پاکستان کے بدخواہوں کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ انہوں نے پاکستان کے ناکام ہونے کے جو دعوے کیے تھے وہ خاک میں ملنے لگے تو انہوں نے پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال پھیلا دیئے۔

اس سلسلے میں پاکستانی قیادت سے بھی کوتاہیاں ہوئیں جس کی وجہ سے مقامی آبادیوں اور مہاجرین میں فاصلے بڑھنے لگے اور صوبائیت پرستی ایک فضول نعرہ بن کر اُبھری۔ اس کا سامنا کرنے کے لیے ایک غیرا علانیہ پنجابی مہاجر اتحاد سامنے آگیا جس میں صوبہ سرحد کے پختونوں اور ہزارہ والوں کا ایک بڑا حصہ بھی شامل ہو گیا۔ اس اتحاد کو مضبوط مرکز کا محافظ قرار دے دیا گیا۔ علماء کی تنظیموں کی پشت پناہی سے یہ اتحاد وفاق اور اسلامی جمہوریہ کی علامت بن گیا ۔ سول بیورو کریسی اور فوج اس اتحاد کی فطری حلیف تھی۔ بنگالی، بلوچ  سندھی اور نیشنلسٹ پختون اپنے آپ کو اس اتحاد سے غیر محفوظ سمجھنے لگے۔ اس سلسلے میں ان کے خدشات مبنی بر حقیقت تھے۔ کیونکہ مرکز کی مضبوطی کے نعرے میں عام آدمی کے لیے کشش موجود ہونے کے باوجود اُن کو بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا اور عملی طور پر وہ خود کو مملکت کے معاشی دھارے سے الگ محسوس کرنے لگے۔

جوں جوں صوبائی آزادی اور صوبائی قومیت کے نعرے میں تیزی آتی گئی مہاجروں کو اپنے وجود کو منوانے کی فکر پڑ گئی۔ وہ پہلے ہی دارالحکومت کو اسلام آباد لے جانے پر برہم تھے۔ اس تازہ صورت حال میں اُن کے سامنے اس کے سواکوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ اپنا الگ تشخص منوانے کے لیے آگے بڑھیں۔ اس سلسلے میں اُن کا پہلا ٹکراؤ سندھ کے پرانے باسیوں کے ساتھ ہو گیا۔ پیپلز پارٹی نے پرانے سندھیوں کو اہمیت دی تو کراچی اور حیدرآباد آگ کی لپیٹ میں آگئے۔ اس ٹکراؤ نے آگے کئی رُخ بدلے مگر مہاجرین کی وفاق کے ساتھ وفاداری میں کمزوری نہ آسکی۔ البتہ یہ سوچ تقویت حاصل کرنے لگی کہ مہاجرین اب معاشی سہارے کے متلاشی نہیں بلکہ وہ پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن کی آمدنی کے ذرائع پر دوسرے صوبوں کی معیشت چلائی جارہی ہے۔ اِس سوچ کے حوالے سے انہوں نے پرانے سندھیوں کے ساتھ بقائے باہمی کے اُصول کے طور پر مل جل کر فیصلے کرنے کی کوششیں کیں لیکن وہ اس سلسلے میں اُن کا اعتماد حاصل نہ کر سکے۔ کراچی کی اکثریت کا دعویٰ رکھنے والی قومی قیادت نے بھی اِس سوچ کو پروان نہ چڑھنے دیا اور وفاق پاکستان کے حوالے سے سیاست کرنے کو ترجیح دی مگر قومی قیادت مہاجرین کی محرومیوں کے خاتمے کے سلسلے میں کوئی ٹھوس منصوبہ پیش نہ کر سکی۔

ضیاء الحق کا دور آیا تو جماعت اسلامی نے شروع میں اُن کا ساتھ دیا بلکہ تمام مہاجرین بھٹو کے خلاف تحریک میں ہر اول دستہ کا کردار ادا کر رہے تھے۔ اگرچہ ضیاء الحق خود بھی مہاجر تھا کراچی اور مہاجرین نے اُس کا ساتھ بغض معاویہ میں دیا۔ جب ضیاء الحق نے اپنی کابینہ کی تشکیل کی تو اس میں کراچی سے پروفیسر غفور، پروفیسر خورشید احمد، محمود ہارون اور محمود اعظم فاروقی کے پاس اہم وزارتیں تھیں۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں بھی کراچی کے عوام نے جمعیت علمائے پاکستان کے نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گروپ اور جماعت اسلامی کو حق نیابت عطا کیا۔ یہ تمام اقدامات بھی کراچی کے لوگوں کو پیپلز پارٹی کے لگائے گئے گھاؤ کا مداوا نہ کر سکے اور وہ نفسیاتی طور پر عدم تحفظ کا شکار رہنے لگے۔

1986ء میں یہ لاوا اُس وقت پھٹ پڑا جب ایک بچی بشریٰ زیدی ایک پٹھان ویگن ڈرائیور کی شقاوت قلبی کا شکار ہو گئی۔ سارے شہر میں ایسی آگ بھڑکی جو آج تک نہیں بجھ سکی۔ اس آگ کی راکھ سے ایم کیو ایم کی چنگاری بھڑک اُٹھی جواب شعلہ بن کر کراچی اور حیدرآباد تک محدود نہیں بلکہ صوبہ اور وفاق کے ایوانوں کو اپنی تمازت سے جھلسا رہی ہے۔ وہ کراچی پر صرف اپنا کنٹرول چاہتے ہیں خواہ اس کے لیے اُنہیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ اُنہوں نے نہ صرف پنجابیوں ، پٹھانوں اور سندھیوں سے جنگیں کیں بلکہ اس ٹکراؤ میں قتل ہونے والوں کی بہت بڑی تعداد خود مہاجرین کی ہے ۔ اس الزام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ملکی اور غیر ملکی ایجنسیاں اس خونی کھیل میں مرکزی کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ یہ بات بھی اظہر من الشمس ہو چکی ہے کہ یہی ایجنسیاں ایم کیو ایم کو جب حکم دیتی ہیں کہ وہ قومی انتخاب میں شامل نہ ہوں وہ نہیں ہو سکتے اور جب اشارہ ملتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے باہر ہو جائیں تو وہ اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ 

1993ء میں تو یہ مضحکہ خیز صورت حال بھی تھی کہ قومی انتخابات میں بائیکاٹ کیا اور صوبائی انتخابات میں اُنہیں بھرپور فتح دلوائی گئی۔ کیونکہ قومی سطح پر یہ سیٹیں پیپلز پارٹی کو دلوا کر نواز شریف کے برابر لانا تھا اور صوبے میں پیپلز پارٹی پر کنٹرول کے لیے اُن کا وجود سندھ اسمبلی میں ضروری تھا۔
1996ء کے انتخابات میں ایم کیو ایم پارلیمنٹ سے باہر جاچکی تھی۔ کراچی کا میئر بھی جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والا تھا۔ نعمت اللہ خاں اگرچہ ISI کے سابقہ اہلکار تھے مگر انہوں نے اپنی کارکردگی سے ایشیا بھر کے میئروں میں خود کو منوا لیا۔ 2002ء کے انتخابات میں پرویز مشرف کو ایک کلیدی اتحادی کی ضرورت تھی وہ ایم کیو ایم کو پچھلی صفوں سے نکال کر آگے لے آئے۔ الطاف حسین جو بارہ سال سے لندن میں بیٹھ کر حالات پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ اُن کے لیے یہ ایک سنہری موقع تھا تا کہ وہ دوبارہ کراچی اور حیدرآباد کاکنٹرول سنبھا لیں۔ جنرل پرویز مشرف نے وہ کچھ دیا جو اُن کے تصور میں بھی نہیں تھا۔اس سب کے باوجود الطاف حسین جانتے ہیں کہ پرویز مشرف نے ہمیشہ کے لیے نہیں رہنا لہٰذا وہ اپنے پرانے خواب کی تعبیر دیکھنے کے لیے اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے تھے۔ 

ان کا خواب کراچی اور حیدر آباد کے ساحلی علاقوں پر مشتمل ایک الگ ملک کا ہے جس کے بارے میں اطلاعات مختلف ذرائع سے اخبارات میں آتی رہی ہیں۔ الطاف حسین کوکراچی کے وکلاء کی تحریک اپنے دشمنوں کی تحریک لگتی ہے۔ الطاف حسین سے اختلاف کرنے والوں کو مہاجر قوم کا غدار سمجھا جاتا ہے۔ وہ مہاجر عوام کو دوبارہ اس کو وفاقی اتحاد کی علامت نہیں بنانا چاہتے جس نے انہیں بیچ منجدھارکے چھوڑ دیا تھا۔ وہ ہر اس مہاجرکی آواز کو دبانا چاہتے ہیں جو ان کے عزائم کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ مہاجرین کے خون کی ندیاں بہانے کے لیے بھی تیار ہیں وقتی طور پر انہیں پاکستان سے دلچسپی نہیں۔ پاکستان کے جب ٹکڑے ہوں گے انہیں ان کا حصہ ضرور ملے گا وہ سمجھتے ہیں وہ امیدیں اب پوری ہونے والی ہیں۔ 12مئی کوایم کیو ایم نے کراچی پر مکمل کنٹرول کرنے کی ریہرسل کی تھی۔ یہ How to Capture Karachi منصوبے کا حصہ تھا۔ اُس دن کراچی کا ملک سے رابطہ کاٹ دیا گیا۔ ایئرپورٹ، ریلوے، ٹی وی سٹیشن، ہسپتال پر اُن کا مکمل قبضہ ہو چکا تھا۔ کراچی کے جن علاقوں سے مزاحمت ہو سکتی تھی، وہاں کی آبادیوں کا محاصرہ کر کے انہیں گولیوں سے بھون ڈالا گیا اور وہ آبادیاں اپنے گھروں میں محصور ہو گئیں۔ سارے شہر کے محاصرے سے پہلے سیکرٹریٹ اور گورنر ہاؤس مکمل قبضے میں لے لیے گئے۔ پولیس، رینجرز کو تھانوں اور چھاؤنیوں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ عوامی لیگ کے ڈھاکہ کے محاصرے اور ایم کیو ایم کے کراچی کے محاصرے میں بالکل مماثلت نظر آتی تھی۔ 12 مئی کو ریہرسل کامیاب ہو گئی اب مکمل خود مختاری کو کیسے روکا جاسکے گا۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس اندھیرے میں روشنی کی کرن بھی موجود ہے۔ ایم کیو ایم نے وقت سے پہلے خود کو Expose کرلیا ہے۔ کراچی کے وکلا کی بھاری اکثریت نے ثابت کر دیا ہے کہ مہاجرین کسی صورت میں الطاف حسین کی سوچ کے ساتھ نہیں وہ ملک میں قانون اور آئین کی بالادستی چاہتے ہیں اور وہ کسی صورت میں قومی دھارے سے نہیں کٹنا چاہتے۔ 12 مئی 2007ء کو ہائی کورٹ کے ججوں اور کراچی ہائی کورٹ بار کے عظیم ارکان نے ایک بار پھر پاکستان کے وجود کی بنیادوں کو اپنے آہنی جذبوں سے مضبوط کر دیا۔ میں سمجھتا ہوں 12 مئی کے دن اہل کراچی کا یہ کردار اتنا ہی عظیم ہے جتنا اُن کے آباؤ اجداد نے پاکستان بنانے کے لیے ادا کیا تھا۔ میں اہل کراچی کو ایک مرتبہ پھر سلیوٹ کرتا ہوں۔ موجودہ کرائسسزکے اندر بھی کراچی کے لوگ ہمیشہ کی طرح پا کستان کی ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوں گے۔ پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگانے والی تنہا آواز کو کراچی کا ایک شہری بھی اہمیت نہیں دے گا۔ 

مخدوم جاوید ہاشمی
(مخدوم جاوید ہاشمی کی زیر تصنیف کتاب سے ماخوذ)

فاروق ستار کا اعلان تعلقی۔ ناکافی۔ نا قابل قبول

$
0
0

یہ کہا جا رہا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان ایک بند گلی میں پہنچ گئی تھی۔ اس کے
پاس اور کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔ الطاف حسین سے اعلان لا تعلقی ہی واحد راستہ تھا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا فاروق ستار نے جو کہا ہے وہ قابل قبول ہے؟ کیا صرف مذمت اور معافی کافی ہے۔ میری رائے میں اگر فاروق ستار اور ایم کیو ایم پاکستان واقعی الطاف حسین کے بیان سے اعلان لاتعلقی کرنا چاہتے ہیں ۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ وہ اوپر سے یہ گند اٹھا کر پھینک دیں تو انہیں خود الطاف حسین کے خلاف غداری کے مقدمہ کا مدعی بننا چاہئے۔ ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے صرف اعلان لا تعلقی کافی نہیں۔ انہیں الطاف حسین کے خلاف مدعی بننا ہو گا۔

یہ کیسی بات ہے کہ آپ اعلان تعلقی کی پریس کانفرنس میں بھی الطاف حسین کو قائد تحریک کے لقب سے ہی بلائیں۔ ان کے جرائم کو ان کی بیماری کی وجہ بتائیں۔ اور مبہم اعلان لاتعلقی کریں اور چاہیں کہ قوم اس کو قبول کر لے۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ جب سے الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف تقریر کی ہے تب سے سوشل میڈیا پر بھی ایک شور مچا ہوا ہے۔ ایم کیو ایم کا سوشل میڈیا سارا دن میڈیا ہاؤسز پر ہونے والے حملوں کی توجیح یہ پیش کرتا رہا کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی دھرنوں کے دوران پی ٹی وی پر حملہ کیا تھا تو کیا ان دونوں پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ صرف میڈیا ہاؤسز پر پابندی اکیلا ایسا کوئی جرم نہیں جس پر الطا ف حسین یا ایم کیو ایم پر پابندی لگا دی جائے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے بھی تو سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا۔ کیا اس پر پابندی لگا دی گئی۔ لیکن شکر ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کو یہ احساس ہو گیا کہ صرف میڈیا ہاؤسز پر حملہ اتنا بڑا جرم نہیں۔ کیاایم کیو ایم پاکستان کا صرف اعلان تعلقی ہی کافی ہے۔ کیا ایم کیو ایم پاکستان را سے فنڈنگ کی تحقیقات کی مدعی بھی بننے کو تیار ہے۔ کیا فاروق ستار ریاست پاکستان کے ساتھ ایم کیو ایم کے اندر سے را کے ایجنٹوں کی تحقیقات کے لئے تعاون کے لئے تیار ہیں۔ صرف تحقیقات میں تعاون کافی نہیں بلکہ فاروق ستار کو اس ضمن میں مدعی بننا ہو گا۔ صرف اعلان لا تعلقی کافی نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ فاروق ستار کا اعلان لا تعلقی آگے کیا رنگ لائے گا۔ کیا فاروق ستار پوری کی پوری ایم کیو ایم پر قبضہ کر سکیں گے۔ کیا پوری کی پوری ایم کیو ایم فارو ق ستار کی قیادت قبول کر لے گی۔ ویسے تو پریس کانفرنس میں پلس فائیو کا ذکر اس بات کا اشارہ تھا کہ صرف ان کی قیادت قبول نہیں۔ وہاں ایک سے زیادہ لیڈر موجود ہیں۔ سب ہی خود کو الطاف حسین کا وارث سمجھتے ہیں۔ اس لئے وہ اکیلے فاروق ستار کو کیسے وارث بننے دیں۔ فاروق ستار کی پریس کانفرنس پر سب سے خوبصورت تبصرہ یہی ہوا ہے کہ بچوں نے والد کو عاق کر دیا ہے۔ بات تو یہی لگ رہی ہے کہ بچے کہہ رہے ہیں کہ ابا بہت بیمار ہو گئے ہیں۔ اب کاروبار کو نہیں سنبھال سکتے۔ ان کا دماغ کام نہیں کرتا۔ اس لئے اول فول باتیں بولتے رہتے ہیں۔ اس لئے اب ابا کو کاروبار بچوں کے حوالے کرکے گھر بیٹھ جانا چاہئے۔

فاروق ستار کی اس توجیح کو بھی مضحکہ خیز ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ چونکہ الطاف حسین کا ذہنی توازن خراب ہو گیا ہے ۔ اس لئے وہ ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ لہذا ان کا علاج ہونا چاہئے۔ لیکن میں تو یوم پاکستان اور اکثر دیگر قومی تقریبات پر فاؤنٹین ہاوس اور دیگر ایسے اداروں میں گیا ہوں جہاں ذہبی معذور لوگ رکھے جاتے ہیں۔ یہ لوگ ڈپریشن سمیت تمام ذہنی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں ۔ لیکن یہ پاکستان سے محبت کے گیت گاتے ہیں۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ یہ کیسی ذہنی بیماری ہے جس میں بندہ پاکستان کے خلاف نعرے لگانا شروع کر دیتا ہے۔ را سے فنڈنگ مانگنا شروع کر دیتا ہے۔ فوج کو گالیاں دیتا ہے۔ یہ ذہنی بیماری نہیں ملک دشمنی ہے۔ جس کی سزا کوئی علاج نہیں۔ بلکہ اس پر قانون کو حرکت میں آنا چاہئے۔

فاروق ستار کو یہ جاننا ہو گا کہ صرف اعلان تعلقی کافی نہیں۔ یہ کیسی چالاکی ہے کہ وہ آخری دن تک الطاف حسین کے وفادار رہے۔ بلکہ خاص وفادار رہے۔ اور اب یک دم اعلان لا تعلقی کر دیا۔ یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ باپ کا کاروبار بچانے کے لئے بیٹے نے وقتی طور پر باپ سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر جب گھر کا کوئی فرد کسی جرم میں پھنس جائے تو باقی لوگ قانون سے بچنے کے لئے اس سے اعلان لا تعلقی چھپوا دیتے ہیں۔ تا کہ جب قانون نافذ کرنے والے ادارے اان کو پکڑیں تو وہ اعلان لاتعلقی دکھا کر بچ سکیں۔ یہ چالاکی شاید چھوٹے موٹے جرائم میں تو چل سکے۔ لیکن فاروق ستار کو سمجھنا ہو گا کہ اتنے بڑے معاملہ میں اتنی چھوٹی چالاکی سے گزارا ممکن نہیں۔
حکومت کو ایم کیو ایم کے خلاف اپنی کارروائی جاری رکھنی چاہئے۔ ریاست کو حرکت میں رہنا چاہئے۔ قانون کو حرکت میں رہنا چاہئے۔ یہ اعلان تعلقی قانون کے راستہ کو نہیں روک سکتا۔ بلکہ یہ اعلان تعلقی اس راستہ کو روکنے کی ایک مذموم کوشش ہے۔ جس کو نا کام بنانا ہو گا۔

مزمل سہروردی

بنانے اور بگاڑنے کا ذمہ دار ایک ہی شخص

کیا آخرکار روہنجیا مسلمانوں کی سنی گئی؟

$
0
0

گذشتہ چار سالوں کے دوران برما کے روہنجیا مسلمانوں کو خوشی کے لمحات خال
ہی نصیب ہوئے ہیں۔ ملک میں آنے والی ڈرامائی سیاسی تبدیلیوں سے انھیں کچھ حاصل نہیں ہوا، کیونکہ اعلیٰ تر جمہوریت سے آنے سے ملک میں روہنجیا مسلمانوں کے انسانی حقوق کی پاسداری میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ لیکن روہنجیا ریاست کے لیے تشکیل دیا جانے والا مشاورتی کمیشن تاریک حالات میں گھرے مسمانوں کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ برما کی حکومت نے ملک کو درپیش سب سے پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی سفارتی مہارت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ برما کی حکومت کے رویے میں ایک اہم تبدیلی ہے کیونکہ سالوں تک برما کی حکومت یہ کہتی رہی ہے کہ ’کوئی غیر ملکی ممکنہ طور پر رخائن کے مسائل کو نہیں سمجھ سکتا‘۔ اقوامِ متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان کو اس نو رکنی کمشن کا سربراہ بنایا گیا ہے جس کا کام روہنجیا مسلمانوں کے مسائل کا از سرنو جائزہ لینا ہے۔

 دوہزار بارہ کے پرتشدد واقعات کے بعد ایک لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی رپورٹ رخائن اور روہنجیا مسلمانوں سے متعلق لکھی گئی متعدد رپورٹوں میں ایک اور اضافہ ہو لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اس سارے قصے میں ایک اہم موڑ ثابت ہو۔ تو اس سارے معاملے کا پس منظر کیا ہے؟ آئندہ ہفتے اقوام متحدہ کے سیکریٹی جنرل بان کی مون برما کا دورہ کرنے والے ہیں جبکہ ستمبر میں آنگ سان سوچی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکہ جا رہی ہیں جہاں وہ صدر اوبامہ سے بھی ملیں گی۔
نوبل اعزاز یافتہ برمی رہنما کو اندازہ ہے کہ اس دوران ان سے پوچھا جائے گا کہ انھوں نے برما کی مسلم اقلیت اور خاص طور پر آٹھ لاکھ روہنجیا مسلمانوں کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیوں نہیں کیے۔ لیکن اس نئے کمیشن کی تشکیل کے بعد ان کے لیے ایسے سوالوں کا سامنا کرنا آسان ہو گا۔ لیکن اس اقدام کے اور مضمرات بھی ہیں۔ اس کمیشن کی تشکیل سے آنگ سان سو چی نے عندیا دیا ہے کہ اگرچہ ان کے پاس سب سوالوں کے جواب نہیں ہیں لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے نئے امکانات پر غور کر سکتی ہیں۔ کوفی عنان اگرچہ 78 سال کے ہیں لیکن اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل ہونے کی بنیاد پر یہ واضح ہے کہ ایک آزادانہ سوچ کے حامل ہیں۔

اس کمیشن کی رپورٹ کو اگست 2017 کو حتمی شکل دی جائے گی اور امید یہی کہ اس میں ایسے اقدامات کی تجویز دی جائے گی جنھیں کئی برمی شہری ناقابل قبول سمجھتے ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ یہ کمیشن اپنی رپورٹ میں اس بات پر زور دے گا کہ روہنجیا مسلمانوں کے بنیادی انسانی حقوق کا احترام کیا جائے۔ کمیشن اپنی رپورٹ میں برما کی حکومت کو اس بات کی تجویز بھی دے سکتا ہے کہ وہ ان کو شہریت دینے کے لیے کسی بہتر راستے کی پیش کش کرے۔ برما کے موجودہ سیاسی حالات میں آگ سان سو چی کے لیے یہ مشکل ہو گا کہ وہ ان تجاویز کو غور کے لیے آگے لائیں۔ انھیں ایک طرف بدھ آبادی کی سخت تنقید کا سامنا ہے جبکہ دوسری طرف انھیں اپنی جماعت کے اندر موجود کئی رہنماؤں کی بھی مخِالفت کا سامنا ہے۔ کوفی عنان اور ان کی رپورٹ سے یہ فائدہ ہو سکتا ہے کہ وہ اندہ ہی اندر غیر محسوس طریقے سے کام دکھائے اور اس تجویز پر قومی سطح پر ایک بحث کے آغاز کا موجب بن جائے۔

جونا فِشر
بی بی سی نیوز، برما

یورپ میں آباد پاکستانیوں کی خواہش

$
0
0

یورپ کی گلیوں میں گھومتے ہوئے آج پانچواں دن ہے۔ انقلاب فرانس کے مرکز پیرس میں اترا تو ٹھیک پانچ سال بعد یہاں آنے کے بعد ایک احساس ایک دم دل و نگاہ سے چھوگیا۔ سب کچھ وہی ہے، ایفل ٹاور، شانزے لیزے، گمنام سپاہی کی  قبر والا وہ دروازہ جو کئی سڑکوں کے بیچوں بیچ ہے، پہاڑی پر قدیم گرجا بھی ویسا ہی ہے اور نوٹرے ڈیم کے چرچ کے مجسمے بھی ویسے ہی قائم ہیں لیکن جو پیرس پانچ سال پہلے نظر آتا تھا اب وہ کہیں کھوگیا ہے۔ خود پیرس کے لوگ حیرت میں گم ہیں۔ جنگ عظیم دوم کی تباہ کاریوں سے جب یورپ نکلا تو یوں لگتا تھا کہ ساری کی ساری آبادی ایک کھنڈر پر کھڑی ہے۔

لوگوں نے مل کر اس اجڑے گھر کو تعمیر کیا۔ ہر ملک برباد تھا اور ہر شہر ویران، یوں تو امریکی اسے اپنا احسان عظیم کہتے ہیں کہ انھوں نے یورپ کی تعمیر نو کے لیے سرمایہ فراہم کیا لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہاں کے رہنے والوں نے اسے خود تعمیر کیا۔ اس تعمیر نو میں عمارات تو کھنڈر سے بدل کر اصلی مقام پر آگئیں لیکن سرمائے کی دوڑ نے معاشرے کو ایک دوسرے کھنڈر میں بدل دیا۔ وہ کھنڈر جس میں اقدار، اخلاق، روایات، مذہب اور سب سے بڑھ کر خاندان کی اینٹیں گری پڑی ہیں اور کوئی ان اینٹوں کو اکٹھا کرکے دوبارہ تعمیر میں مصروف نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف ماتم کرتا چلا جارہا ہے۔ گزشتہ سو سال سے صرف ایک ہی ماتم ہے، ہمارا خاندان کہاں چلاگیا۔
یہ سب تو پیرس شہر میں گزشتہ سو سال سے چلا آرہا ہے، تو پھر وہ کونسا پیرس ہے جو پانچ سال پہلے تھا اور آج نہیں ہے۔ پانچ سال پہلے کا پیرس نسبتاً مرنجا مرنج یعنی ”Cave Free” پیرس تھا اور آج کا پیرس خوفزدہ ہے، ڈرا ہوا۔ اس شہر کی گلیوں میں جنگ عظیم دوم کے بعد پہلی دفعہ فوج کے دستے گشت کرتے ہوئے نظر آئے۔ شروع شروع میں جب کارٹون بنانے والے اخبار چارلی ہبیڈو پر حملہ ہوا، لوگ مارے گئے تو پیرس میں غم و غصہ تھا۔ پوری قوم یک جہتی کے اظہار کے لیے سڑکوں پر نکل آئی۔ ایسے میں کسی نے اس غصے میں دبی ہوئی حملہ آور کی آواز کو یاد تک نہ کیا کہ ’’میں الجزائر سے ہوں اور یہ میرا بدلہ ہے‘‘ اسلام اور مسلمان دونوں ہدف تھے۔ میڈیا نے اس یک جہتی کو کھول کھول کر بیان کیا اور بار بار دکھایا۔

لوگ چین کی نیند سوگئے۔ لیکن اس کے بعد انھیں پھر کسی زور دار دھماکے میں مرنے والوں کی چیخوں نے جگایا تو کہیں ٹرک ڈرائیور کے انسانوں کے خوفناک طریقے سے کچلنے نے بیدار کیا۔ لیکن اب یہ جاگنا یک جہتی کا جاگنا نہیں ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے خوف میں نیند اڑجاتی ہے۔ ٹیلی ویژن پروگراموں میں صرف ایک بحث ہے کہ ایسا ہمارے ساتھ کیوں ہورہا ہے۔ ہم تو پر امن تھے، اپنی دھن میں مگن تھے۔ ہمارے بازاروں میں رونق تھی، لاکھوں سیاح روز ہمارے شہروں کو آباد کرتے تھے۔ دونوں طرف بولنے والے موجود ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اسلام، القاعدہ، داعش اور دہشت گردی کی رٹ لگاتے ہیں۔ لیکن دوسرے وہ ہیں جو اس خطرے سے پورے مغرب کو ڈرا رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں تم نے اسلحہ بیچنے کی ہوس میں جتنے لاکھ لوگوں کو مسلم دنیا میں قتل کیا ہے۔ اگر ان کے دس فیصد لوگوں کی اولادیں اپنا بدلہ لینے تمہاری سمت چل پڑیں تو تم کئی صدیاں امن کوترس جاؤ گے۔ فرانس کا ’’مشعل اکشود‘‘ نامی مصنف جو ٹیلی ویژن چینلوں پر مقبول ہورہا ہے۔ وہ یہی کہتا ہے، تم نے الجزائر میں ایک اسلامی حکومت کے قیام کو روکنے کے لیے لاکھوں انسانوں کا خون بہایا، اب یہ خون تمہارے گھروں میں انتقام کے پتھر لے کر آگیا ہے۔ حیرت میں گم پیرس کے سامنے ایک اور سوال ہے۔ ہم تو سیکولرازم اور لبرل ازم کے بانی تھے۔ ہماری نسلوں نے انقلاب فرانس کے بعد مذہب کو اجتماعی زندگی سے نکال دیا تھا۔ لیکن یہ کیا ہوگیا۔ شام میں جاکر لڑنے والوں میں سب سے زیادہ لوگ فرانس سے جارہے ہیں اور وہاں لڑائی میں مرنے والوں میں دس ایسے فرانسیسی ہیں جو نسل در نسل فرانسیسی ہیں۔ جن کی رگوں میں صدیوں سے فرانسیسی خون دوڑ رہا ہے۔

خوف اور تذبذب کی یہی فضا اگلے دن مجھے برسلز میں نظر آئی۔ جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے ایک مسجد کی تلاش مجھے مولن بیک ”MOLEN BEEK” کے علاقے میں لے آئی۔ یہ بیلجیئم کی اس آبادی کا مرکز ہے جو نسلی طور پر مراکش سے تعلق رکھتی ہے۔ چاروں جانب حجاب اور عبایا میں ملبوس خواتین مسجدوں کی طرف جارہی تھیں اور مرد عربی لباس پہنے نظر آرہے تھے۔ ایک اور حیرت، وہاں آکر آپ کو بیلجیئم میں بولی جانے والی فرانسیسی زبان نہیں آتی تو انگریزی نہیں چلے گی۔ البتہ آپ عربی میں ٹوٹی پھوٹی بات چیت بھی کریں تو آپ کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ دونوں ملک اپنے ٹیلی ویژن چینلوں پر ایک دفعہ پھر سے اس سین کو دہرا رہے ہیں کہ 1905ء میں جو سیکولرازم اور لبرل ازم کا دور شروع ہوا تھا، اس میں زوال آگیا ہے۔ ہمیں اپنی اس روح کو اپنے آپ جدا نہیں کرنا۔

اگلے تین دن اٹلی کے شہر میلان اور اسپین کے شہر بارسلونا میں گزرے، ان چاروں شہروں، پیرس، برسلز، میلان اور بار سلونا میں پاکستانی آبادی سے ملاقات اس لیے ہوئی کہ تقریبات میں جمع تھے۔ لیکن ان کا خوف دہرا ہے۔ ان کا المیہ اور دکھ بھی دہرا ہے۔ جس وطن کو چھوڑ کر وہ یہاں آئے ہیں انھیں وہاں تبدیلی کی کوئی امید نظر انھیں آتی۔ میں گزشتہ پندرہ سال سے مسلسل مغرب میں آباد پاکستانیوں سے مل رہا ہوں لیکن یہ پہلی دفعہ ہے کہ ان میں اپنے وطن واپس لوٹنے اور اسے دوبارہ تعمیر کرنے کی خواہش شدید ہے۔ ان کا المیہ دہرا ہے جس یورپ کو وہ خون پسینہ دے کر تعمیر کرہے ہیں وہ ان کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے اور جس پاکستان میں وہ خون پسینے کی کمائی بھیجتے ہیں وہاں ان کی کمائی سے عیاشیاں کی جاتی ہیں۔ وہ پاکستان میں ایسا سب کچھ دیکھنا چاہتے ہیں جو انھیں یورپ میں نظر آتا ہے لیکن ایسا خواب وہ یہیں بیٹھ کر دیکھتے ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جس طرح یورپ تباہ ہوا اور یورپ والوں نے اسے تعمیر کیا۔ یہاں کے پاکستانی ویسا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ البتہ انتظار کرتے ہیں، دعا کرتے ہیں، خواہش کرتے ہیں کہ پاکستان بدل جائے اور وہ واپس اپنے جہلم، گجرات، مردان وغیرہ چلے جائیں۔

جہاں وہ معاشی طور پر مطمئن بھی ہوں اور کوئی انھیں بار بار گفتگو میں اللہ کا لفظ استعمال کرتے سنے اور پیرس میں پولیس کو رپورٹ کرنے کی طرح گرفتار نہ کرادے۔ اسپین کے ساحلوں پر حجاب والی خاتون کے گرد جیسے پولیس والے جمع ہوگئے اور کہا یا تو سوئمنگ سوٹ پہنو یا یہاں سے بھاگو۔ ایسا کچھ اس نئے پاکستان میں نہ ہو۔ ایسا پاکستان ان کی کمائی سے نہیں صرف اور صرف ان کے خون پسینے سے بن سکتا ہے۔ لبنان میں چالیس لاکھ لوگ آباد ہیں جب کہ ایک کروڑ بیس لاکھ لبنانی ملک سے باہر ہیں۔ کما کر ہر سال بیس ارب ڈالر بھیجتے ہیں لیکن لبنان کی حالت نہیں بدلتی۔ قومیں سرمائے سے نہیں انسانوں سے بدلتی ہیں۔

اوریا مقبول جان


ایم کیو ایم خود کو اپنے قائد سے الگے کرے،حکومتی تنبیہہ

$
0
0

حکومت نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو خبردار کیا ہے کہ وہ خود کو اپنے قائد الطاف حسین سے الگ کرے، ورنہ اسے خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
وزیر اعظم کے ترجمان مصدق ملک نے ڈان نیوز کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں خصوصی گفتگو کے دوران واضح کیا کہ ایم کیو ایم کو بطور سیاسی جماعت پاکستان میں سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی جائے گی، لیکن اس کے لیے ایم کیو ایم کو اپنے آئین میں ترمیم کرکے تمام فیصلے پاکستان میں کرنے ہوں گے اور خود کو الطاف حسین سے الگ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مہاجر پاکستان کا اثاثہ ہیں اور صرف قائد متحدہ کی وجہ سے کراچی کے مہاجروں کو دیوار سے نہیں لگایا جاسکتا۔

الطاف حسین کی اشتعال انگیز اور پاکستان مخالف تقریر کا معاملہ برطانوی حکومت کے سامنے اٹھانے کے حکومتی فیصلے کے حوالے سے مصدق ملک نے کہا کہ حکومت نے برطانیہ سے ناصرف حکومتی سطح پر الطاف حسین کا معاملہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، بلکہ اس حوالے سے اسکاٹ لینڈ یارڈ کو باضابطہ درخواست بھی دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت سے قائد ایم کیو ایم کی حوالگی کا مطالبہ بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کے لیے ہمیں کچھ قانونی تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ نفرت انگیز تقریر برطانیہ میں بڑا جرم ہے اور امید ہے کہ برطانوی حکومت قائد متحدہ کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔
خیال رہے کہ 22 اگست کو الطاف حسین نے کراچی میں پریس کلب کے باہر ایم کیو ایم کے بھوک ہڑتالی کیمپ سے خطاب کیا تھا جس میں انہوں نے پاکستان مخالف نعرے لگوائے تھے جبکہ کارکنان کو مختلف ٹی وی چینلز پر حملوں کے لیے بھی اکسایا تھا۔  الطاف حسین کے اس خطاب کے بعد ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی گرفتاریاں شروع ہوگئی تھیں جبکہ ایک روز بعد ہی کراچی میں موجود رابطہ کمیٹی کے فیصلے سے فاروق ستار نے الطاف حسین کے پاکستان مخالف بیان سے اعلان لاتعلقی کردیا اور ایم کیو ایم کو پاکستان سے چلانے کے فیصلے کا اعلان کیا۔ بعد ازاں الطاف حسین نے اپنی تقریر میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بشمول آرمی چیف جنرل راحیل شریف، ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر اور پاکستان کے خلاف الفاظ استعمال کرنے پر معافی مانگتے ہوئے کہا تھا کہ اپنے کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل، مسلسل گرفتاریوں اور ان کی مشکلات دیکھ کر وہ شدید ذہنی تناؤ کا شکار تھے اور شدت جذبات سے مغلوب ہوکر جو الفاظ وہ ادا کر بیٹھے، وہ انہیں ہرگز استعمال نہیں کرنے چاہیے تھے۔

سرائے سدھو قبل ازمسیح کا تاریخی قصبہ

$
0
0

سرائے سدھو قبل ازمسیح کا تاریخی قصبہ ہے جو کہ دریائے راوی سے ایک کلو
میٹر دور جنوب میں واقع ہے تاریخ یہ بھی بتاتی ہے 325 قبل از مسیح سکندر اعظم فتوحات کرتا ہوا جب ملتان پہنچا تو وہ بیمار ہوگیا توا س کا معالج سرائے سدھو سے ملتان منگوایا گیا تھا 2500 سال پہلے نورالدین جہانگیر کے دور میں سرائے سدھو تلمبہ میں شامل تھا تلمبہ ،سرائے سدھواور مخدوم پور کی تہذیب اور قصباتی بناوٹ ایک جیسی ہے تو قیاس آرائی کی جاسکتی ہے کہ یہ تینوں شہر 2500 سال پہلے آباد تھے۔ سرائے سدھو کو شاہجہاں کے دور میں تلمبہ سے الگ کر دیا گیا ،تاریخی اہمیت کا حامل قصبہ ضلعی صدر مقام خانیوال سے چالیس کلومیٹر دور شمال کی جانب دریائے راوی کے جنوبی کنارے آباد ہے۔ سرائے سدھو کے تاریخی شواہد آج بھی قدم قدم پر موجود ہیں رام ً لچھمنً اور سیتا نے اپنے جلاوطنی کے کم و بیش دس سال دریائے راوی کے کنارے سرائے سدھو کے نزدیک گزارے جن کے آثار اب بھی موجود ہیں۔

شیر شاہ سوری جب اپنے لشکر کے ہمراہ سرائے سدھو سے گزرتے توا ن کا کئی کئی ماہ برگد کے درخت کے نیچے قیام ہوتا تھا۔ اپنی عبادت کے لیے انہوں نے مسجد بنوائی جو کہ آج کل پریس کلب سرائے سدھو کا حصہ ہے۔ پانی نکالنے کے لئے انہوں نے ایک کنوا ں کھدوایا جو کہ مٹی ڈال کے بند کر دیا گیا اوراس دور کے ہندوئوں کی عبادت کے لیے مندر بھی تعمیر کروایا جو کہ اب خستہ حال ہوچکا ہے۔ اسی دور میں شیرشاہ سوری نے لاہور براستہ سرائے سدھو متی تل سڑک بنوائی جو کہ شیرشاہ سوری جرنیلی سڑک کہلواتی ہے۔ شہر کے درمیان معروف بزرگ بابا ارجن شیر بخاری کا مزار ہے مزار کے عقب میں موجود مسجد ہے جس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ ہندو مسلم فساد کھڑا ہو گیا کہ ہندومندر تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ مسلمانوں نے راتوں رات مسجد کھڑی کر دی جو کہ آج بھی موجود ہے۔ سرائے سدھو کے آس پاس کے لوگ اس وقت ہندوئوں کے مقروض ہوتے تھے اور ہندو اپنا کاروبار کرتے تھے ۔

1825 میں تھانہ سرائے سدھو کا وجود عمل میں آیا اور برگد کے درخت کے نیچے پولیس افسران کچہریاں لگا کر لوگو ں کو انصاف مہیا کر تے تھے۔ اس دور سے 1985 تک تھانہ سرائے سدھو کا حدود اربعہ وسیع و عریض تھا، شمال میں درکھانہ بار ، جڑالہ پل ، 25 پل، جنوب مغرب میں نواں شہر ، بند بوسن ، سردار پور ، رنگ پور تک ملتا تھا اور مشرق میں عبدالحکیم پر مشتمل تھا ۔آج قدیم تھانہ کے مزید تین تھانے وجود میں آچکے ہیں جن میں تھانہ نواں شہر ، تھانہ عبدالحکیم اور حویلی کورنگا ہے، جن کا شمار ماڈل تھانوں میں کیا جاتا ہے۔ قدیم تھانہ حدود اربعہ کے لحاظ سے پنجاب بھر میں سب سے بڑا تھانہ تھا۔ 1849میں جب ملتان کا ایسٹ انڈیا کمپنی سے الحاق ہوا تو اس وقت سرائے سدھو ملتان کی عمل داری میں شامل تھا، انگریز حکومت نے الحاق کے فوراً بعد سرائے سدھو کو تحصیل کا درجہ دے دیا۔ 

1889 میں جب کبیروالا کو تحصیل کا درجہ دیا گیا تو سرائے سدھو کی تحصیلی حیثیت ختم کر کے کبیروالا میں شامل کر دیا۔ 1850 میں سرائے سدھو میں پہلا پرائمری سکول بنایا گیا سرائے سدھو میں تاریخی ورثہ کے حوالے سے عمارتیں اب بھی موجود ہیں۔ تھانہ کے سامنے ریسٹ ہاوس تھا جس کی دیکھ بھال نہ ہونے کیوجہ سے اس کو ختم کر دیا گیا جو کہ سرائے سدھو کی تاریخ کا ایک حصہ تھا۔ اب موجودہ دور میں تاریخی گورنمنٹ ہائی سکول کی عمارت کو ختم کر کے گرلز ہائی سکول بنا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے سرائے سدھو ایک تاریخی عمارت سے محروم ہوگیا ۔ موجودہ دور میں گورنمنٹ ڈگری کالج ، آر ایچ سی ہسپتال ، ویٹرنری ہسپتال ، ڈاکخانہ، دفتر زراعت، ٹیلی فون ایکسچینج و دیگر سہولیات تو مہیا کر دی گئیں لیکن سرائے سدھو کی تاریخی حیثیت کسی نے بحال نہ کی۔

غضنفر مہدی لنگاہ


مارگلہ کی غاریں : جو قریب دو ہزار چار سو سال پرانی ہیں

$
0
0

شاہ اللہ دتہ غاریں
اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں شاہ اللہ دتہ نامی گاؤں میں یہ غاریں اللہ دتہ کی غاریں بھی کہلاتی ہیں، جو قریب دو ہزار چار سو سال پرانی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صدیوں پہلے ان غاروں کا شاید کوئی اور نام تھا لیکن مغلیہ دور کے بعد اس جگہ کا نام ایک درویش شاہ اللہ دتہ سے موسوم ہو گیا تھا۔ شاہ اللہ دتہ مارگلہ کی پہاڑیوں میں واقع ایک بہت ہی خوبصورت گاؤں ہے، جس کے رہائشی بہت مہمان نواز ہیں۔ 

پتھریلی مٹی کی پہاڑیاں
شاہ اللہ دتہ گاؤں میں یہ غاریں دور سے دیکھنے پر صاف نظر نہیں آتیں کیونکہ زیادہ تر پتھریلی مٹی والی پہاڑیوں میں بنی ان غاروں کو صدیوں پرانے بہت سے درختوں نے قدرتی طور پر اپنے پیچھے چھپا رکھا ہے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کے سلسلے میں یہ غاریں خان پور کو جانے والی سڑک سے کچھ ہی دور واقع ہیں۔ 

خستہ دہانے اور دیواریں
ان غاروں کے دہانوں اور ان کی بیرونی دیواروں کی حالت کافی خستہ ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہزاروں سال تک مختلف طرح کے شدید موسمی حالات نے ان پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان غاروں کو قریب سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان تاریخی باقیات کو محفوظ کرنے کی کتنی اشد ضرورت ہے۔ 

دعوت اور پراسراریت
یہ غاریں دور سے دیکھنے والوں کو قریب آنے کی دعوت دیتی محسوس ہوتی ہیں اور قریب جائیں تو دیکھنے والوں پر تاریخ کی پراسراریت غالب آ جاتی ہے۔ 1850 سے یہ غاریں ایک خاندان کے زیر انتظام ہیں۔ 

سیاحوں کے لیے پرکشش
ان قدیم غاروں کو دیکھنے کے لیے چھٹیوں کے دوران بڑی تعداد میں مقامی سیاح قریب سات سو سال پرانے گاؤں شاہ اللہ دتہ کا رخ کرتے ہیں۔ ان سیاحوں کے لیے وہاں ایک چھوٹا سا چائے خانہ بھی موجودہے۔ ان غاروں کو دیکھنے کے لیے آنے والے غیر ملکی مہمانوں میں اکثریت بدھ مت کے پیروکاروں کی ہوتی ہے، جس کی وجہ کچھ ہی فاصلے پر موجود ایک قدیم بدھ اسٹوپا کی باقیات بھی ہیں۔ 

غار کا اندرونی منظر
اس تصویر میں شاہ اللہ دتہ کی غاروں میں سے ایک کا اندرونی منظر دیکھا جا سکتا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ دو ہزار سال سے زائد کے عرصے میں یہ جگہ شکست و ریخت کے کس عمل سے گزری ہے۔ کئی جگہوں پر بوسیدہ اور غیر محفوظ قدرتی ڈھانچوں کی وجہ سے ان غاروں میں داخل ہونا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ 

بحالی اور صفائی کی ضرورت
ان غاروں میں سے چند ایک کی بیرونی دیواروں میں سوراخ بھی ہیں۔ یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں ان غاروں کو ممکنہ انہدام سے بچانا اور وہاں صفائی اور دیکھ بھال کے معیاری انتظامات بھی لازمی ہوں گے۔ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے ان غاروں کی بحالی کے لیے چار کروڑ روپے مالیت کا ایک منصوبہ تیار کیا ہے، جس پر اسی مالی سال کے دوران عمل شروع ہو جائے گا۔ 

چشمے پر تالاب
ماضی میں اس علاقے کا ایک نام گڑیالہ بھی تھا، جہاں کبھی تیرہ کنال پر پھیلا ہوا پھل دار درختوں والا ایک باغ تھا، جو ’بدھو کا باغ‘ کہلاتا تھا۔ یہ باغ سی ڈی اے نے 1983 میں اپنی ملکیت میں لیا، جو اب ختم ہو چکا ہے۔ تصویر میں نظر آنے والا تالاب غاروں کے قریب سے گزرنے والے ایک قدیم چشمے کی گزرگاہ پر بنایا گیا ہے۔ یہی چشمہ اور تالاب پورے گاؤں کو سیراب کرتا ہے۔ 

منہ چڑاتا ہوا سنگ بنیاد
پوٹھوہار کے علاقے میں شاہ اللہ دتہ گاؤں ایک ایسے راستے پر واقع ہے، جسے صدیوں تک شاہی قافلے اور فوجی لشکر ہندوستان اور افغانستان کے درمیان آمد و رفت کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ 2011 میں سی ڈی اے نے ’’سادھو باغ‘‘ کی بحالی کا ایک منصوبہ بنایا تھا۔ اس منصوبے کا سنگ بنیاد اس ادارے کے ایک چیئرمین نے رکھا تھا، لیکن بعد میں اس پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔

عصمت جبین، اسلام آباد

سول سروس سسکیاں لے رہی ہے

An Indian soldier stands guard during curfew in Srinagar

$
0
0
An Indian paramilitary trooper stands guard during curfew in downtown Srinagar. Indian-administered Kashmir has been in the grip of almost daily anti-India protests and rolling curfews.

کیا قصور صرف ایم کیو ایم کا ہے ؟

ایم کیو ایم پر پابندی کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر

$
0
0

سپریم کورٹ میں ایم کیو ایم پر پابندی عائد کرنے کیلئے درخواست دائر کر دی گئی
جس میں متحدہ قائد کی واپسی کی بھی استدعا کی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کو رٹ میں بیرسٹر ظفراللہ خان اوروطن پارٹی کے ہاشم شوکت خان نے درخواست دائر کی ہے جس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ پاکستان اور اس کے معتبر اداروں کے خلاف نازیبا کلمات ادا کرنے پر ایم کیو ایم پر پابندی لگائی جائے۔ قائد متحدہ کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کر کے لایا جائے۔ پیمرا کو ہدایت جاری کی جائے کہ ایم کیو ایم کی سرگرمیوں کی نشرواشاعت پر پابندی عائد کرے،سہولت کاروں پر بھی غداری کا مقدمہ درج کیا جائے۔

Viewing all 4315 articles
Browse latest View live