Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

اپنے اپنے پائوں پر کلہاڑا؟


کرپشن بھی ملک سے غداری ہے

$
0
0

چیئرمین سینیٹ مشرف کے ملک چھوڑنے پر اس قدر اپ سیٹ (پریشان) ہوئے کہ
انھوں نے پارلیمنٹ سے کہا کہ وہ آئین میں ترمیم کر کے آرٹیکل 6 کو ختم کر دے جو غداری سے متعلق ہے کیونکہ اس آرٹیکل کے ذریعے نہ صرف یہ  کہ آئین کا تحفظ نہیں کیا جا سکا بلکہ یہ پارلیمنٹ اور جمہوریت کے تحفظ میں بھی ناکام رہا ہے۔ ڈکشنری میں غداری کی تعریف یہ ہے کہ ’’اپنے ہی ملک کے خلاف جنگ کرنا یا جان بوجھ کر اس کے دشمنوں کی مدد کرنا، یا اپنی ریاست کی حکومت کو گرانے کی کوشش کرنا جس کا وہ خود باشندہ ہو، یا اس کے حکمران کو خود ہلاک کرنا یا حکمران خاندان کو حملہ کر کے زخمی کر دینا‘‘۔ جنرل مشرف نے 2007ء میں ایمرجنسی نافذ کر کے آئین کو معطل کر دیا جو درست بات نہیں تھی لیکن سپریم کورٹ کے عزت مآب جج حضرات نے 1999ء میں پرویز مشرف کے اقدام کی توثیق کی تھی اور آئین میں ترامیم کی اجازت بھی دیدی تھی (جس کے نتیجے میں 100 ترامیم کی گئیں)۔

روس میں کرپشن کی سطح بہت بلند ہے۔ اس حوالے سے ’’روس میں کرپشن‘‘ کے عنوان سے 2013ء میں جاری کی جانیوالی رپورٹ پیش کی جا سکتی ہے جس پر روس کی قومی انسداد کرپشن کمیٹی کے سربراہ کیرل کابانوف (Kirill Kabanov) نے کہا تھا کہ ہمیں اس کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنا ہو گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کرپشن بدترین قسم کی غداری ہے لہٰذا جو بھی اس کا ارتکاب کرے یا ارتکاب کی کوشش کرے اس کا احتساب لازمی ہے اور اس کو وہی سزا دی جائے جو ملک سے غداری کی سزا ہوتی ہے۔ ’’کرپشن میں کمی کے ذریعے حکومت اپنی سماجی، اقتصادی ذمے داریاں پوری کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے اور وہ عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کے علاوہ ان کی صحت اور تعلیم پر بھی اخراجات کر سکتی ہے۔
کیا کوئی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ کرپشن پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے براہ راست کتنا بڑا خطرہ ہے۔ بہت سے تحقیقاتی ادارے اتنی مہارت رکھتے  ہیں کہ وہ آف شور کمپنیوں کے اکاؤنٹس کی فارنسک جانچ پڑتال کر کے یہ پتہ چلاسکتے  ہیں کہ ان میں جمع کرائی جانیوالی رقوم پر ان کے اپنے ملک میں ٹیکس ادا کیا گیا ہے یا نہیں۔ میں چونکہ ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کی گلوبل ایجنڈا کونسل (جی اے سی) برائے انسداد کرپشن اور ٹرانسپرنسی اور ڈبلیو ای ایف کی ایک اور کمپنی Partnering Against Corruption Initiative (پی اے سی آئی) کا کئی سال تک ممبر رہا ہوں اور میں نے بار بار  ای سی ڈی پر زور دیا ہے کہ برطانیہ کے حکام سے معلوم کریں  آیا منی لانڈرنگ کے خلاف قوانین موجود ہیں۔

جن کے ذریعے یہ پتہ چلایا جا سکے کہ پاکستان سے آنیوالے اکاؤنٹس پر متعلقہ شخص نے ٹیکس ادا کیا ہے یا نہیں۔ ٹریژر آئی لینڈ نامی کتاب کے مصنف نکولس شیکسن (Shaxson) نے اپنی کتاب میں آف شور ٹیکس ہیونز کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ لندن دنیا کے ٹیکس چوروں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ میں نے درجنوں بار لکھا ہے کہ لندن کی ہائیڈپارک کے اردگرد ایک مربع میل کے علاقے میں جہاں قانونی بزنس کرنے والے مقیم ہیں وہاں دنیا بھر کے سب سے بڑے ٹھگ بھی رہائش پذیر ہیں۔ جنہوں نے بہت بھاری رقوم کی خرد برد کی ہوئی ہے۔ ان کو بے نقاب  کیا جانا چاہیے تا کہ پانامہ میں جو اقتصادی کارپوریشنیں بہت بھاری رقوم کا ہیر پھیر کرتی ہیں ان کے معاملات کو شفاف بنایا جائے۔ اور ای سی ڈی کے سیکریٹری جنرل اینجل گوریا نے کہا ہے کہ پانامہ پیپرز کے انکشاف نے پانامہ کی ثقافت اور اس کی آزادی کو واشگاف کر دیا ہے۔ پانامہ ان ممالک کی خفیہ رقوم کو رکھنے والا اہم مرکز ہے جہاں ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر غیر قانونی رقوم رکھی جاتی ہیں۔

آخر رضا ربانی نے زرداری اور ان کے حواریوں کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ حالانکہ انھوں نے بڑی مہارت سے آئین کی خلاف ورزی کا ذکر کیا ہے۔ ان کے بیان کی اخبارات میں جو سرخی نکالی گئی ہے اس میں منافقت صاف نمایاں ہے کہ ’’پی پی پی کو پاکستان سے بھاری سرمائے کے غیر قانونی طور پر باہر جانے پر بڑی تشویش ہے‘‘ واضح رہے کہ تھوک کے حساب سے کرپشن منظم جرائم کا راستہ کھولتی ہے جس کے ذریعے دہشت گردی کے سہولت کار جان بوجھ کر یا انجانے میں مدد کرتے ہیں۔

وہ افراد جو اپنی سرکاری حیثیت کے ذریعے جرائم کی پردہ پوشی کرتے ہیں وہی درحقیقت آئین کی خلاف ورزی کرنیوالے ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کرپشن بھی غداری کے زمرے میں آتی ہے اور یہ ملک کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ 17 ستمبر 2015ء کو میں نے ’’کرپشن کا قلع قمع کرنا‘‘ کے عنوان سے آرٹیکل لکھا تھا کہ صرف منظم جرائم کے ذریعے ہی بہت بھاری مقدار میں رقوم جو کرپٹ لین دین کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں وہ آف شور کمپنیوں کے ذریعے بڑے بڑے بینکوں میں جاتی ہیں جن سے جائیدادیں خریدی جاتی ہیں۔ مشرف کے این آر او کے بعد کرپشن کی سطح میں حد سے زیادہ اضافہ ہو  گیا۔
یہ ہماری انتہائی بدقسمتی تھی کہ ہمیں کرپٹ حکمران مل گئے۔‘‘ اس سے بھی زیادہ برا وہ این آر او کو غیر قانونی قرار دینے کا فیصلہ تھا لیکن این آر او سے استفادہ کرنیوالوں کو کچھ نہ کہا گیا اور وہ بدستور اپنی کرپشن میں مصروف رہے۔

اس میں ہمارے بہت سے سیاست دان، بیورو کریٹس، بعض جج حضرات وغیرہ بھی شامل تھے جو مختلف پیمانوں پر کرپشن میں ملوث تھے جن کی کرپشن پر سیاسی، انتظامی اور عدالتی طور پر اس حوالے سے کرپشن کے انسد اد کی  کوئی نیت ہی نہیں تھی۔ آپ ان مقدس لوگوں کو کیا کہیں گے جو پارلیمنٹ میں جاتے ہیں لیکن کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں یا وہ ڈھٹائی سے کرپشن کے معاملات پر چشم پوشی کا ارتکاب کرتے ہیں۔

پانامہ لیکس نے پاکستان میں ایک طوفان برپا کر دیا ہے۔ آف شور کمپنیاں ٹیکس نادہندوں کے لیے راستہ کھولتی ہیں جو ٹیکس  قوانین کی خامیوں کا فائدہ اٹھا کر بھاری رقوم باہر پہنچاتی ہیں حالانکہ یہ  غیر قانونی کام ہے۔  نہ صرف غیر قانونی  بلکہ غیر اخلاقی بھی ہے۔ آف شور کمپنیوں میں جمع کرائی جانے والی رقوم منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہوتی ہیں جو ٹیکس کو غیر قانونی طور پر بچا کر  بھیجی جاتی ہیں۔ انگریزی کا محاورہ ہے کہ بہترین دفاع جارحیت میں مضمر ہے۔
اس کی مثال رانا ثنا اللہ نے پانامہ لیکس کو ’’پاجامہ لیکس‘‘ کہہ کر پیش کی۔

جب کہ دانیال عزیز اور مصدق ملک بھی وزیراعظم کی فیملی کے دفاع میں پیچھے نہیں رہے۔ وہ بڑی چالاکی سے تحقیقات کا ہدف آف شور اکاؤنٹس سے تبدیل کرنے کی کوشش کرتے رہے حالانکہ فارنسک آڈٹ کے ذریعے آف شور اکاؤنٹس کے بارے میں بآسانی سچائی تلاش کی جا سکتی ہے جب کہ حکومت کی طرف سے جان بوجھ کر توجہ منعطف کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے حتیٰ کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تہمینہ درانی نے بھی اپنی فیملی کی طرف سے اپنی پیٹھ موڑ لی ہے۔ اگر ان رقوم کا سراغ لگانے کی کوشش کی جائے تو نتیجہ بڑا دلچسپ برآمد ہو گا۔ جب حکمرانوں کی اولادیں بیرون ملک کاروبار کر رہی ہیں تو کیا وہ حکمران دوسروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب کر سکتے ہیں۔

یہ سوال ضرور ذہن میں اٹھتا ہے کہ غیر شفاف الیکشن کے راستے جب جمہوریت قائم ہوتی ہے اور جب اس کو معاشرے کے جرائم کی پردہ پوشی کے لیے استعمال کیا جائے تو کیا ہمیں اس آئین اور جمہوریت کی پاسداری کا دعویٰ زیب دیتا ہے؟
حکومت کے اخلاقی کردار اور اقدار کی بالادستی قائم رکھنے کے لیے یہ امر ناگزیر ہے کہ آئین کا غلط استعمال نہ کیا جائے۔ رضا ربانی تسلیم کرتے ہیں کہ آئین کی حفاظت نہیں کی جاتی۔ ہمارے حکمران بھی بخوبی جانتے ہیںکہ غداری کا مرتکب ہونا عوام اور ملک کے لیے سود مند نہیں۔ وہ اچھائی اور برائی میں تحریف کرنا جانتے ہیں۔

اکرام سہگل

تھر میں غیر سرکاری تنظیمیں اور حقائق

$
0
0

تھر، دنیا کا تیسرا بڑا عظیم صحرا جہاں کی 90 فیصد آبادی خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ جب وہاں جاکر لوگوں سے ملاقات ہوئی یہ احساس شدت سے ہوا کہ انہیں زندگی کے نام پر محض گھسیٹا جا رہا ہے۔ ان کی زرد آنکھیں، الجھے بال، خوشی سے عاری سپاٹ چہرے دیکھ کر دل میں سوز و گداز پیدا ہوتا چلا جاتا ہے کہ ارباب اختیار آخر انہیں نظر انداز کیوں کرتے چلے آرہے ہیں؟

آزادی حاصل ہونے کے طویل عرصے بعد بھی آج تک ہم اپنی سرحدوں پر بسنے والوں کو وہ اہمیت نہیں دے پائے جس کے وہ مستحق ہیں۔ ننگر پارکر جاتے ہوئے رینجرز کی چوکی پر معلوم ہوا کہ وہاں مقامی رہائشی کے گھر سے کچھ بھارتی پکڑے گئے ہیں۔ سماجی کارکن بن کر آنے والے ان بھارتیوں کو یہاں کے سادہ لوح مقامی افراد کچھ پیسوں کی آس پر اپنے گھروں میں رہنے کو جگہ دے رکھی تھی۔
سازشی کارستانیوں کی یہ داستاں کوئی نئی نہیں بلکہ تقسیم ہند کے بعد سے ہی بھارت اس خطے کوعدم استحکام دینے کی نیت کئے بیٹھا ہے، جس پر وہ گاہے بہ گاہے اپنے لوگ سماجی کارکنوں کے بھیس میں یہاں بھیجتا رہتا ہے اور یہ نام نہاد غیر سرکاری فلاحی تنظیمیں جہاں ایک طرف وطن عزیز کی سالمیت کو نقصان پہنچانے میں ملوث ہیں تو دوسری طرف ان کی اس حالات زار کو مقامی ایجنٹوں کے ذریعے کیش بھی کرا رہی ہیں۔ ایسے ہی ایک نام نہاد مقامی سماجی کارکن سے جو ان فلاحی تنظیموں کے ساتھ منسلک ہے۔ ہم نے مٹھی کے بازار میں ایک دوکاندار کے توسط سے ملاقات کی مگر مزید معلومات کے لئے جب ہم نے اس شخص کو دوبارہ زحمت دی تو موصوف نے بہانہ بنا کر ملنے سے معذرت کرلی، جس سے ہمیں بخوبی اندازہ ہوگیا کہ انسانیت کہ یہ سوداگر سادہ لوح تھریوں کو کس طرح بے وقوف بنا رہے ہیں۔

تھری عوام کی تصاویری شکل میں حالت زار دکھا کر دوسرے ممالک سے کروڑوں روپے بٹور رہے ہیں۔ یہ حضرات علاقے کی بہبود کے نام پر ملنے والی رقم سے عیاشی کرتے ہیں، جبکہ تھر باسی وہی سخت اور دشوار زندگی گزار رہے ہیں۔ صحرائے تھر میں مختلف این جی اوز کے نام کے بورڈز جگہ جگہ لگے نظر آتے ہیں، جن پر ان این جی اوز کی جانب سے تعمیر کئے گئے اسکول، ہنر مندی کے مراکز اور ڈسپینسریوں پر مشتمل مختلف قسم کے پروجیکٹس کے نام درج ہیں، مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ تمام پروجیکٹس اب بند پڑے ہیں۔ اس سلسلے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں سب برائے نام چلتا ہے، ان سے وابستہ افراد سال میں ایک دو بار یہاں آتے ہیں رجسٹر میں لوگوں کے ناموں کا اندراج کرتے ہیں اور پھر ایک لمبےعرصے کیلئےغائب ہوجاتے ہیں۔

جب ہم نے یہاں کے پرانے رہائشی اور ریسٹ ہاؤس کے ملازم مہا دیو کمہار سے ان بند اداروں سے متعلق جانچ پڑتال کی تو پتا چلا کہ ان دکھی تھریوں کا مداوا کرنے کیلئے بڑی تعداد میں غیر سرکاری تنظیمیں محض دکھاوے کی حد تک کام کرکے اپنے بینک بیلنس بنا رہی ہیں۔ یہاں یہ بات ضرور کہنا چاہیں گے کہ دھوکہ دہی کا معاملہ سب تنظیموں پر نہیں بلکہ اکثر تنظیموں پر لاگو ہوتا ہے۔ یہاں کے مقامی لوگوں کا بھی یہی کہنا تھا کہ اکثر این جی اوز نے اپنا الو سیدھا کرنے کیلئے خدمت اور انسانیت کے نام پر تھری عوام کی لاچاری کا سودا کر رکھا ہے۔ اس حقیقت کا اندازہ ایسے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈیپلو میں نمک جھیل سے واپسی پر ہم نے گلے میں کیمرا لٹکائے ایک موٹر سائیکل سوار شخص کو روک کر کچھ معلومات میں مدد چاہی تو پتہ چلا کہ وہ یہاں کے کھیتوں اور مویشیوں کی تصاویر اُتار کر ایک این جی او کو ای میل کر دیتا ہے، جس پر یہ نام نہاد این جی اوز اپنا گھناؤنا کاروبار چلاتی ہیں۔

اس کے ساتھ سانپ کے کاٹنے کی فری ملنے والی ویکسین این جی او کے مقامی کارندے پیسوں کے عوض لوگوں کو دیتے ہیں۔ تھر کے ایک اور مقامی چندر کمار کا کہنا تھا کہ پیسوں کی مدد کے بجائے یہاں کے لوگوں کو اس قابل بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی محنت سے کمانے کے قابل ہوجائیں۔ اب تک خشک سالی سے تھر کا 60 فیصد سے زائد حصہ متاثر ہوا ہے، جبکہ زیادہ تر افراد اپنے مال مویشی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں حالانکہ قدرتی آفات سے بچاؤ اور فوری امدادی سرگرمیاں انجام دینا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ مگر حکومتی کارندے زمینی حقائق کے برعکس چین کی بانسری اور سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہے ہیں۔

یہاں کے حکمراں اس صحرا کی بھوک و افلاس پر قابو پانا نہیں چاہتے ورنہ یہ نا ممکنات میں سے ہر گز نہیں ہے۔ یہاں سے اتنا زرمبادلہ پیدا کیا جاسکتا ہے جو کہ نہ صرف اس خطے کیلئے بلکہ آس پاس کے علاقوں کی ضروریات کو بھی پورا کرسکتا ہے۔ سرحدی علاقے ننگر پارکر میں کارونجھر جبل بھی اسی عظیم صحرا کی زینت ہے، جو قیمتی پتھر گرینائیٹ کا خزانہ لئے اپنی شان و شوکت دکھا رہا ہے۔ یہاں سے متعلق مشہور ہے کہ آتش فشاں نے ٹھنڈا ہونے اور جمنے کے بعد گرینائیٹ کی شکل اختیار کرلی تھی جو کم وبیش 27 مربع کلو میٹر رقبے پر 305 میٹر اونچائی پر محیط ہے۔

 کارونجھر پہاڑ کے قیمتی پتھر کو جدید طریقوں سے نکالنے، تھر کول منصوبے کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کرنے، شمسی توانائی کے منصوبے لگانے اور ترسیل کے لئے ریلوے لائن بچھانے جیسے انتظامات ہنگامی بنیادوں پر کر لئے جائیں تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہاں کے مقامی افراد کو سہل آمد و رفت کے ساتھ ساتھ معدنیات کی ترسیل بھی با آسانی ہوسکتی ہے۔ ایشیاء کے سب سے بڑے پانی کے آر او پلانٹ سے بھی صحیح معنوں میں فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر پانی کو دور افتادہ گاؤں تک پہنچانے کا معقول بندوبست کرلیا جائے، بند چھوٹے پلانٹس کو فعال بنالیا جائے تو وہاں کے لوگوں کی پریشانی بہت حد تک کم کی جاسکتی ہے۔

مٹھی سول اسپتال کو مزید بہتر بنا کر، سرکاری اسپتال ہر تحصیل میں قائم کرنے اور بڑے گوٹھوں میں ڈسپنسریاں قائم کرنے سے لوگوں کو طبی سہولیات کی فراہمی بھی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ تھرمیں پہلے سے جاری قالین بانی اور دستکاری کے کام کو صنعت کا درجہ دینے، اورعلاقے میں چھوٹی صنعتیں قائم کرنے سے روزگار کے محدود مواقع کو وسیع کیا جاسکتا ہے۔ جانوروں کی افزائش میں اضافہ کے لئے وسیع فارمز، دودھ محفوظ کرنے کے پلانٹس اور جانووں کی بیماریوں اور اموات کی روک تھام کیلئے ویٹرنری اسپتال اور پولٹری فارمز جیسے منصوبےعلاقے مقامی رہائشیوں کی ترقی میں سنگ میل ثابت ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب اسکولوں، کالجوں کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کی ذہن سازی کے لیے بھی ادارے قائم کیے جاسکتے ہیں جس میں لوگوں کی ذہنی اہلیت کو دیکھتے ہوئے انہیں بتایا جائے کہ وہ کس کا آغاز کریں، کونسا کام اُن کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ دنیا کا یہ تیسرا عظیم صحرا ارباب اختیار کی نظر کرم کا تاحال منتظر ہے۔

مزمل فیروزی

اور ملک دشمنی کیا ہوتی ہے

$
0
0

حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر یہ دو ایسے نام ہیں جن کے بارے میں منفی خبر ڈھونڈنے، جھوٹا پراپیگنڈہ کرنے اور انھیں دنیا کا خطرناک دہشت گرد ثابت کرنے کا ٹھیکہ بھارت کی حکومت، خفیہ ایجنسیوں اور میڈیا نے لے رکھا ہے اور اس معاملے میں ان کا آزاد اور خود مختار کہلانے والا میڈیا بھی حکومتی پالیسی کا زرخرید غلام محسوس ہوتا ہے۔

گزشتہ دنوں ایک بھارتی چینل پر جانے کا اتفاق ہوا تو یوں لگا کہ اس ملک کے تمام تجزیہ نگاروں، اینکر پرسنوں، ریٹائرڈ سفارت کاروں اور جرنیلوں کو صرف اور صرف حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کا بخار ہو چکا ہے۔ گفتگو تجارت پر ہو یا پٹھانکوٹ پر، کشمیر میں مظالم یا عوام میں پاکستانی پرچم لہرانے کی لہر پر بات ہو، بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے پکڑے جانے کا تذکرہ ہو یا نریندر مودی کا بنگلہ دیش بنانے میں بھارتی فوج کی مداخلت کے اعتراف کا بیان، وہ لوگ موضوع پر رہنے کے بجائے چار لفظوں کی گردان شروع کر دیتے ہیں۔
حافظ سعید، مریدکے اور مولانا مسعود اظہر، بہالپور۔ مولانا مسعود اظہر کے بارے میں بھارت کو گزشتہ دنوں عالمی سفارتی سطح پر ایک بہت بڑی ہزیمت اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بھارت نے پٹھانکوٹ کے دو جنوری کے حملے کے بعد فروری کے آغاز میں مولانا مسعود اظہر کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلیکٹ کمیٹی کو تحریر کیا کہ ان کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا جائے اور ان پر پابندی لگائی جائے۔
اقوام متحدہ کی کاؤنٹر ٹیررازم ایگزیکٹو ڈائریکٹوریٹ نے امریکا، برطانیہ اور فرانس کا بھارتی مؤقف کے حق میں ہونے کی وجہ سے اسے تمام ممبران کو ارسال کیا تاکہ مولانا مسعود اظہر پر پابندیاں لگائی جاسکیں۔ اگر کسی ملک کی جانب سے کوئی اعتراض نہ آئے تو ایک وقت مقررہ کے بعد اس شخص کا نام پابندی والی فہرست میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ بھارت کے لیے یہ اس وقت ہزیمت کا باعث بنا جب مقررہ وقت سے چند گھنٹے پہلے آرٹیکل 1267 کا استعمال کرتے ہوئے چین نے مولانا مسعود اظہر پر پابندی لگوانے کے عمل کو رکوا دیا۔ چین نے بھارت کی ایسی درخواستوں کو پانچ بار اقوام متحدہ میں رکوایا ہے۔

ان میں کشمیری حریت پسند رہنما سید صلاح الدین، حافظ سعید، ذکی الرحمن لکھوی اور مولانا مسعود اظہر پر پابندی کی درخواستیں شامل ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ بھارت کا پورا میڈیا یکم اپریل سے چین کے خلاف چیخ رہا ہے لیکن آپ پاکستان کے میڈیا کو دیکھ لیں، پہلے تو پرنٹ میڈیا میں آپ کو خبر ڈھونڈنا پڑے گی اور بھارت کی اس سفارتی شکست پر ایک بھی ٹی وی ٹاک شو نظر نہیں آئے گا۔ بھارت سے ان کی محبت اپنی جگہ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ ایک مسجد کے امام یا مدرسے کے مہتمم کا نام پاکستان سے محبت کرنے والوں کی فہرست میں جگمگاتا نظر آتا ہے اور بھارت ان کے نام سے شدید نفرت کرتا ہے۔

مولانا مسعود اظہر کی پاکستان کے لیے کیا حیثیت ہے اس کا ادراک چین جیسے ملک تو ہے لیکن پاکستان کے میڈیا کو نہیں ہے۔ یہ مسئلہ پاکستانی میڈیا کا نہیں، عالمی سطح پر کارپوریٹ ایجنڈے پر چلنے والے ہر میڈیا کا ہے۔ ان کے نزدیک جب تک تین چیزوں کو ایک ساتھ بدنام نہ کیا جائے، اسلام کو بدنام کرنے کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ اسی لیے وہ جہاد سے دہشت گردی وابستہ کرتے ہیں اور پھر یہ تین ہدف ان کے سامنے ہوتے ہیں۔ ایک پاکستان، دوسرا مدارس اور تیسرا مولوی۔ گزشتہ دنوں وفاق المدارس کے سربراہ مولانا حنیف جالندھری غریب خانے پر تشریف لائے تو ان کے ہاتھ میں ایک غیر ملکی نیوز سروس کی جانب سے ایک خط تھا جس کا عنوان تھا”Your Support to Masood Azhar” اور اس میں کہا گیا تھا کہ آپ نے بہاولپور میں ایک تقریب میں خطاب کیا تھا اور ہماری تحقیقات کہتی ہیں کہ وہ جہاد کی ترغیب کے لیے مولانا مسعود اظہر کی تصنیف پر کتاب تھی۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ تقریب رونمائی 2008ء میں ہوئی اور یہ کسی عام کتاب نہیں بلکہ قرآن پاک کی تفسیر کی تقریب رونمائی تھی۔ ظاہر بات ہے قرآن پاک سے آپ جہاد کی آیت تو نکال نہیں سکتے لیکن چاہتے وہی ہیں کہ ہمارے نصاب تعلیم سے لے کر روزمرہ گفتگو تک بھی لفظ جہاد استعمال نہ ہو۔ نصاب تعلیم سے زرداری اور نواز شریف کی حکومتوں نے جہاد کا لفظ تو کیا مسلمانوں میں جہاد کے علمبردار صحابہ کا ذکر بھی کھرچ دیاگیا ہے۔ اب روزمرہ میں یہ لفظ یا تو مدارس میں باقی رہ گیا ہے یا مولوی کی تقریروں میں۔ یہ دونوں مغرب کا بھی ہدف ہیں اور میڈیا کا بھی۔

مسعود اظہر کے بعد دوسرا نام حافظ سعید کا ہے۔ بھارت میں یہ نام نفرت کی علامت ہے۔ لیکن پاکستان میں اس نام کو کیسے نفرت زدہ بنایا جائے، میڈیا کے لیے یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ملتا، طالبان اور القاعدہ سے دور کا واسطہ نہیں۔ اب حافظ سعید کو کیسے پاکستانیوں کی نظر میں رسوا کیا جائے۔ایک نجی ٹی وی نے اپنے ایک اینکر کے ذریعے ایک خبر چلائی کہ جماعت الدعوۃ نے متبادل عدالتی نظام قائم کر لیا ہے اور لوگ ان کے پاس اپنے مقدمات فیصلے کے لیے لے کر جاتے ہیں اور وہ لوگوں کو سمن وغیرہ بھی جاری کرتے ہیں۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ جماعت الدعوۃ کے لوگ بندوقوں کے سائے تلے شریعت نافذ کر رہے ہیں اور پاکستان کے عدالتی نظام کے مقابل اپنا ایک عدالتی نظام قائم کیے ہوئے ہیں۔

اگلے دن یہ اخبار میں شایع ہو گئی اور پھر اسی دن اسے بھارتی میڈیا نے اٹھا لیا اور چند دن بعد آپ اسے عالمی میڈیا میں بھی دیکھ لیں گے۔ جس معاملے کو عدالتی نظام کا متبادل بنا کر پیش کیا گیا اس طرح کے سیکڑوں نظام ہائے کار اس ملک کے گوشے گوشے میں رائج ہیں۔ بلوچ اور پشتون قبائل کے لوگ اپنے ہاں زمینیں، جائیداد، لین دین ہے کہ یہاں تک کہ قتل کے فیصلے بھی عدالتوں میں نہیں لے جاتے۔ انھیں معلوم پاکستان کا عدالتی نظام پولیس کی بددیانت تفتیش، رشوت خور پراسیکیوشن، جھوٹے گواہوں کی لعنت اور وکیلوں کی اجارہ داری سے مزین ہے۔ ایسے نظام سے انصاف تو دور کی بات ہے، اگر آدمی اپنی عزت اور جمع پونجی بھی بچا کر لے آئے تو وہ خوش قسمت ہو گا۔

لاہور سے لے کر کوئٹہ اور کراچی سے لے کر گلگت تک آپ کسی بھی مارکیٹ میں لین دین کے جھگڑوں کے تصفیے کے بارے میں معلوم کر لیں، کوئی کاروباری سول عدالتوں کے چکر میں نہیں پڑتا۔ دونوں جانب سے ثالث مقرر ہوتے ہیں تو فیصلہ ہو جاتا ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ سول عدالت میں اگر دادے نے مقدمہ درج کرایا تو پوتے بلکہ پڑپوتے تک کو بھی انصاف ملنے کی کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔

خاندانی جھگڑوں، طلاق، علیحدگی، بچوں کی نگہداشت، والدین کے حقوق جیسے مسائل بھی کبھی کوئی عدالت میں نہیں لے کر گیا۔ اس لیے کہ ان کو علم ہے اور ایسے بدقسمت لوگوں کا پتہ ہے جو خاندانی جھگڑے عدالت میں لے کر گئے تو پہلے وکیلوں کی جرح میں ذلیل ہوئے اور پھر میڈیا کے رپورٹر ان پر ایسے پل پڑے جیسے بھوکے بھیڑیے بکریوں کے گلے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت محلے یا خاندان کی کسی نیک پرہیزگار ہستی یا پھر کسی عالم دین یا پیر سے فیصلہ کروا لیتے ہیں۔ بلوچستان کا کونسا سردار، نواب، ٹکری، ملک یا معتبر ایسا نہیں جس کے پاس آج بھی لوگوں کے کیس فیصلے کے لیے نہ موجود ہوں۔ ان میں زمین کے جھگڑوں سے لے کر قتل کے مقدمے تک موجود ہوتے ہیں۔
لیکن حافظ سعید اور پھر کالعدم جماعت الدعوۃ کا نام لے کر متبادل عدالتی نظام چلانے سے اس کا تعلق جوڑنا، اس سب کا مقصد ہی کچھ اور تھا۔ جامعہ قادسیہ کے علاوہ پاکستان کے ہر مدرسے میں لوگ علماء سے اپنے جھگڑوں کے فیصلوں کے لیے آتے ہیں۔ لیکن کیا جامعہ قادسیہ میں کالعدم جماعت الدعوۃ کا دفتر ہے۔ وہاں تو نہیں ہے کیونکہ وہ کالعدم ہے۔

فلاح انسانیت اور جامعہ قادسیہ کا بورڈ دفتر ضرور ہے۔ اس ایک خبر میں ان دونوں کی جگہ بڑھا چڑھا کر جماعت الدعوۃ کا نام لینا، کسی اور کو نہ صرف خوش کرنا مقصود تھا بلکہ مملکت خداداد پاکستان کے خلاف ایسا مواد فراہم کرنا تھا جو بھارت اور مغربی ممالک کے میڈیا میں پاکستان مخالف مواد میں جان ڈال دے اور بھارت پاکستان کے خلاف اپنا کیس اس ایک خبر کی بنیاد پر مضبوط کرے کہ وہاں تو جماعت الدعوۃ ایک متبادل عدالتی نظام چلا رہی ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے اسے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ۔ ایسے میں بھارت یہ کیس بناسکتا ہے کہ اب ہائی کورٹ کے حافظ سعید کے حق میں فیصلے کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔ کس قدر ہوشیاری سے یہ تیر چلایا گیا ہے اور ملک دشمنی کیا ہوتی ہے اور غداری کس کو کہتے ہیں۔

التجا:زلزلے سے پہلے گزشتہ کئی کالموں میں اہل نظر کی جانب سے درخواست کرتا رہا ہوں کہ ہم اللہ مالک کی ناراضگی کو دعوت دیتے چلے آ رہے ہیں اور سیلابوں اور زلزلوں کی علامتیں واضح ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ حکمرانوں کا وبال رعایا پر اس وقت نازل ہوتا ہے جب وہ ان کی بداعمالیوں پر خاموش رہتی ہے۔ جو قوم گیس‘ پانی‘ بجلی پر صدائے احتجاج بلند کرسکتی ہو وہ اللہ کی نافرمانیوں پر خاموش رہنے کا کوئی عذر نہیں دے سکتی۔ چند ہفتے پہلے التجا کی تھی کہ اللہ کو راضی کرنے کے لیے اجتماعی استغفار کریں اور حکمرانوں کی ہدایت یا ان سے نجات کی دعا کریں۔ ایک دفعہ پھر التجا کر رہا ہوں۔ ورنہ اہل نظر جس ناراضگی کی شدت کو بیان کرتے ہیں اسے سوچ کر بھی خوف آ رہا ہے۔

اوریا مقبول جان

وٹس ایپ کی بے پناہ مقبولیت

$
0
0

اگر آپ موبائل پر انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور خاص طور پر اگر سمارٹ فون کے مالک ہیں ،تو لازمی طور آپ وٹس ایپ کے صارف بھی ہوں گے۔ وٹس ایپ نے ایک کراس پلیٹ فارم میسجنگ سروس کی حیثیت سے اپنے سفر کاآغاز کیا اورقریباً ہر موبائل پلیٹ فارم پر دستیاب ہونے کی وجہ سے یہ آج ہر موبائل صارف کی ضرورت بن گئی ہے۔ وٹس ایپ کو استعمال کرتے ہوئے صرف انٹرنیٹ کنکشن کے ذریعے آپ کسی بھی وٹس ایپ صارف کے ساتھ ٹیکسٹ میسج، تصاویر  وڈیوز اور وائس کال کا فوری تبادلہ کر سکتے ہیں۔

یہاں ہم اس انتہائی مقبول انسٹنٹ میسجنگ سروس کے بارے میں کچھ دلچسپ حقائق بیان کرتے ہیں۔

 وٹس ایپ : سب سے زیادہ استعمال ہونے والی میسجنگ ایپ 1۔ 19 ارب ڈالر میں فیس بُک کو فروخت دو سال قبل فروری 2014ء میں وٹس ایپ کی مقبولیت کی وجہ سے فیس بک نے اس کو 19 ارب ڈالر کی ناقابل یقین قیمت میں خریدلیا تھا۔ 19 ارب ڈالر کتنی بڑی قیمت ہے ؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ نوکیا جیسی معروف کمپنی کا موبائل ڈویژن مائیکروسافٹ نے قریباً ساڑے 7 ارب ڈالر میں خریدا تھا۔ اس کے علاوہ گوگل نے ایک اور موبائل ساز ادارے مٹرولا موبلیٹی کو صرف پونے 3 ارب ڈالر میں چینی کمپنی لینوو کے ہاتھ بیچا تھا۔ اسی وجہ سے وٹس ایپ کی فروخت ٹیکنالوجی کی دنیا کی آج تک کی سب سے مہنگی قیمت میں ہوئی ہے۔ وٹس ایپ اب فیس بک کی ملکیت ہے۔

2۔ وٹس ایپ نے اعلان کیا ہے کہ وٹس ایپ کے فعال صارفین کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کر چکی ہے،یعنی دنیامیں ہر 7 میں سے ایک آدمی کے پاس وٹس ایپ کا اکاؤنٹ موجود ہے۔ یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ ایک سال پہلے کمپنی نے 50 کروڑ صارفین حاصل کرنے کا سنگ میل عبور کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف ایک سال میں وٹس ایپ پر 50 کروڑ افراد نے اکاؤنٹ بنایا ہے، یعنی اس ایپ کی مقبولیت مزید تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

3۔ روزانہ 42 ارب پیغامات کی ترسیل وٹس ایپ کے مطابق اس ایپلی کیشن کے صارفین روزانہ 42 ارب میسجز کا تبادلہ کرتے ہیں یہی نہیں بلکہ وٹس ایپ کے پلیٹ فارم کے ذریعے ہر 24 گھنٹوں میں ڈھائی کروڑ وڈیوز بھی ایک دوسرے سے شیئر کی جاتی ہیں۔

4۔ بالکل مفت سروسوٹس ایپ کی خاص بات یہ ہی کہ اب یہ سروس بالکل مفت دستیاب ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک اس سروس کی فیس صرف ایک ڈالر سالانہ تھی، مگر کمپنی نے جنوری 2016ء سے وہ بھی ختم کر دی ہے اور اب ہر صارف زندگی بھر بغیر کسی فیس اور اشتہارات کی جھنجٹ کے وٹس ایپ استعمال کر سکتا ہے۔

5۔ وٹس ایپ وائس کا لوٹس ایپ نے کتوبر 2014ء میں مفت وائس کال فراہم کرنے کی سروس کا آغاز کیا ہے اور بہت سے لوگوں کیلئے اب یہ فون کال کا متبادل ہے اورمفت انٹرنیٹ وائس کال فیچر کی وجہ سے یہ مائیکروسافٹ کی مقبول عام سروس ’’سکائپ‘‘کے بالمقابل بھی آ چکی ہے۔

6۔ اگرچہ وٹس ایپ بین الاقوامی طور پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والی میسجنگ سروس ہے، لیکن اس کے باوجود بہت سے ملکوں مقامی میسجنگ ایپس کی حکمرانی ہے۔ جیسا کہ میسجنگ ایپ’’ وی چیٹ‘‘ کے چین میں 50 کروڑ صارفین ہیں۔ اسی طرح ’’لائن ‘‘ جاپان جبکہ ’’کاکیو ٹک ‘‘کوریا میں مقبول ترین میسجنگ ایپس ہیں۔

7۔ پیسے بنانے کی نرم پالیسی وٹس ایپ میں دیگر ایپس کی طرح سب سکرپشن فیس،اشتہارات یا سٹکرز بیچ کر پیسے نہیں کمائے جاتے بلکہ اس کی ایک ڈالر سالانہ قیمت کو بھی وٹس ایپ جنوری 2016ء سے ختم کر دیا ہے ، یوں یہ اب ایک بالکل مفت سروس بن گئی ہے۔ کمپنی کے بانی کم جان قوم کا کہنا ہے کہ ہماری کوشش ہے کہ ہر انسان کو قابل بھروسہ اور کم خرچ سروس کی ذریعے دنیا بھر سے رابطہ رکھنے کے قابل بنایا جائے‘‘۔

8۔آغاز اور فروخت کی دلچسپ کہانی وٹس ایپ کے بانی جان کوم اور برائن ایکٹن نے 2007ء میں یاہو میں ملازمت سے استعفیٰ دیا اور اس کے بعد انہوں سے فیس بک میں ملازمت کیلئے درخواست دی ،جس کو نظر انداز کر دیا گیا۔ فروری 2009ء میں انھوں نے وٹس ایپ کا آغاز کیااور صرف پانچ سال بعد فیس بک نے ان کی بنائی ہوئی ایپ کو 19 ارب ڈالر میں خریدا، جن میں سے 4 ارب کیش جبکہ باقی رقم فیس بک شیئر کی صورت میں دی گئی ،یوں اب یہ دونوں فیس بک میں 12 فیصدشیئر کے مالک ہیں۔    

قوم سے خطاب

میاں صاحب کی بیماری …حکیم زرداری

خود ریلیکس، عوام پر ٹیکس

$
0
0

وزیرِ اعظم نواز شریف کے لیے ایک سوال: جب آپ کے اپنے بیٹے اور بیٹی
(اطلاعات کے مطابق) برٹش ورجن آئلینڈز میں ٹیکس بچانے کے لیے پیسہ منتقل کر رہے ہیں تو آپ کس طرح پاکستان کے لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ملا کر ان کو اپنے حصے کا ٹیکس دینے کا کہہ سکتے ہیں؟

جیسے جیسے پاناما پیپرز کے انکشافات سے گرد چھٹ رہی ہے، ویسے ویسے یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ شریف خاندان کے افراد کا استعمال کردہ طریقہ کوئی منفرد نہیں تھا۔ اس کے بجائے نہایت غیر اخلاقی اور قانونی لحاظ سے مشتبہ طریقے کے تصویر ابھر کر سامنے آ رہی ہے، جس کا استعمال پاکستان میں موجود سیاسی اور معاشی صفوں میں نمایاں نام رکھنے والے لوگ وسیع پیمانے پر منظم انداز میں کر رہے تھے۔

سابق وزیرِ اعظم بینظیر بھٹو کے حسن علی جعفری (ان کے بھانجے) اور سینیٹر رحمان ملک کے ساتھ اس پیٹرولیم کمپنی کے واحد شیئر ہولڈرز ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے، جس کے بارے میں اقوام متحدہ نے پایا تھا کہ اس نے سابق عراقی آمر صدام حسین کو ٹھیکے حاصل کرنے کے بدلے میں رشوت دی تھی۔
اطلاعات ہیں کہ سینیٹر عثمان سیف اللہ اور ان کا گھرانہ برٹش ورجن آئیلنڈ اور سیشلز میں 34 کمپنیوں کا مالک ہے۔ دیگر پاکستانی حکام بھی ٹیکس سے مستثنیٰ ممالک میں آف شور کمپنیوں کے مالکان کی فہرست میں شامل ہیں، اور جہاں تک بات کاروباری شخصیات کی ہے، تو ان کی فہرست تو کافی طویل ہے۔
یہ تمام انکشافات بہت سارے قانونی سوال کھڑے کرتے ہیں۔
ٹیکس سے مستثنیٰ ممالک میں آف شور کمپنیاں ہونا کوئی جرم نہیں مگر پاکستان کی ممتاز سیاسی اور معاشی شخصیات ان ممالک میں بینک اکاؤنٹ اور کمپنیاں قائم کرنے کے کیوں اتنے خواہشمند ہوتے ہیں جہاں پر تھوڑا یا بالکل بھی ٹیکس نہیں دینا پڑتا، جہاں بینک کاری کے کڑے مخفی قانون ہوتے ہیں، اور جب ان سے منی لانڈرنگ یا ٹیکس چوری جیسے مسائل کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ پاکستانی یہاں تک کہ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بھی اپنے بدنام زمانہ عدم تعاون کا مظاہرہ کرتے ہیں؟

مثلاً اگر شریف خاندان کے افراد واقعی اپنی قانونی دولت سے لندن میں 6 فلیٹ خریدنا چاہتے تھے اور صاف نیت سے اپنے ٹیکس گوشواروں میں اپنی تمام ملکیت ظاہر کرنے کا پختہ ارادہ رکھتے تھے، تو انہوں نے براہِ راست خریدنے کے بجائے برٹش ورجن آئلینڈز میں کمپنیوں کو ذریعہ بنا کر ہی کیوں خریدا؟
مسئلے کا قانونی جواز کوئی بھی ہو، ایک بات پر کوئی شک نہیں ہونا چاہیے، اور وہ یہ کہ ہمارے ملک کا بالائی ایک فیصدی طبقہ، جس کی دولت تمام واجب الادا ٹیکس ادا کرنے کے باوجود بھی کم نہیں ہوگی، وہ بھی اگر ٹیکس بچانے کے لیے نت نئے طریقوں کی تلاش میں رہیں تو یہ اخلاقی دیوالیے پن کی وہ پستی ہے جس سے نیچے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

ہمارے ٹیکس محصولات کی 68 فیصد رقم ایندھن، خوراک اور بجلی پر عائد کیے جانے والے بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل ہوتی ہے، جس کا تمام تر بوجھ غریب کی آمدن پر پڑتا ہے۔ اگر ہمارے امراء اپنی دولت بہاماس منتقل کرنے میں مصروف نہ ہوں تو ہوسکتا ہے کہ یہ شرح 68 فیصد سے کافی کم ہو۔ ایندھن پر ٹیکس شاید 35 فیصد سے کم ہوسکتا ہے، 100 روپے کے ہر موبائل ریچارج پر شاید ہمارے 42 روپے سے کم کاٹے جائیں، اور شاید خطے میں ہمارے پاس بجلی کے نرخ سب سے زیادہ نہ ہوں۔

ہوسکتا ہے کہ یہ اعداد ہم میں سے کچھ لوگوں کے لیے اتنی معنیٰ نہ رکھتے ہوں، لیکن یہ ان لوگوں کی زندگی میں ایک تبدیلی لاسکتے ہیں جن کا اس ملک میں زندہ رہنا بھی ایک جدوجہد بن چکا ہے۔ اور جہاں تک سیاستدانوں کی بات ہے ۔۔۔ ہائے ہمارے سیاستدان۔ ان کی بے پناہ منافقت تو چونکا دینے والی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم ٹیکس نیٹ میں خامیوں کی وجہ سے کھربوں روپے ضائع ہونے کی بات کرتے ہیں، جبکہ ان کے گھرانے کے اپنے افراد اس مسئلے کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔

سینیٹر عثمان سیف اللہ ٹیکس اصلاحات کمیشن کے رکن ہیں ''جسے حکومت کی جانب سے ٹیکس چوری روکنے، محصولات کے دائرے میں توسیع اور ٹیکس وصولی کی اصلاح کرنے کے لیے''قائم کیا گیا تھا، جبکہ ان کا اپنا خاندان 34 آف شور کمپنیوں کا مالک ہے — یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔ اور سینیٹر رحمان ملک جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ تمام کہانی ایک منصوبہ بندی کے تحت را کی جانب سے گھڑی گئی ہے؟ بحرحال ان صاحب کے بارے میں تو بات نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ سالہا سال ہمارے قانون ساز، جن کا ایک تہائی حصہ ٹیکس ادا ہی نہیں کرتا، انہوں نے پاکستان میں بالواسطہ ٹیکس مزید بڑھانے کے لیے قانون سازی کی ہے جبکہ وہ خود اور ہمارے ملک کی اشرافیہ بڑے پیمانے پر قابل ٹیکس اثاثے بیرونی ملک منتقل کرنے میں شامل ہیں۔

یہ دونوں ساتھ مل کر چوری کی حوصلہ افزائی کرنے والے نظام سے استفادہ حاصل کرتے ہیں جہاں امراء اور طاقتور جو مرضی چاہیں وہ کر سکتے ہیں۔
اور ہمیشہ کی طرح ان سب چوریوں کا بوجھ غریبوں پر ہی پڑتا ہے۔

اسد پبانی
بشکریہ ڈان نیوز اردو


Rage in Kashmir over killing of youths by Indian army

$
0
0
Kashmiri Muslim men carry a coffin containing the body of Raja Begum, a civilian, during her funeral in Langate, north of Srinagar. Hundreds of Kashmiris participated in the funeral prayers of Begum who was wounded after Indian security forces fired on protesters in north Kashmir's Handwara town, local media reported. Begum passed away in a hospital.

کیا گھر کے فیصلے غیروں کے در پر ہونگے ؟

$
0
0

ڈاکٹر حسین احمد پراچہ


اقتدار میں رہنے کا اخلاقی جواز کیا ہے؟

لندن چلو

میں میں تو تو کی یہ سیاست اور عوام

پاکستان کا مجموعی قرضہ 18 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا

$
0
0

وزارتِ خزانہ نے پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینٹ کو بتایا ہے کہ پاکستان کا مجموعی قرضہ 180 کھرب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ چیئرمین رضا ربانی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران وزارت خزانہ نے سینیٹ میں تحریری بیان میں بتایا کہ پاکستان کا مجموعی غیر ملکی قرضہ 55 کھرب روپے سے زائد ہے جبکہ مقامی قرضوں کی مد میں 131 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔

’تین برس میں ملک مزید پانچ ارب ڈالر کا مقروض‘مہنگے قرضے بوجھ بنتے ہیں
سراج الحق کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت مالیاتی خسارے میں چل رہی ہے لہذا ملکی قرضہ واپس کرنے کے لیے مقامی مارکیٹ سے نئی شرائط پر دوبارہ قرضہ لیا گیا۔ تحریری جواب میں سینیٹ کو بتایا گیا کہ جون سنہ 2013 سے جنوری 2016 کے دوران حکومت نے 10 ارب73 کروڑ ڈالر مالیت کی غیر ملکی قرضہ واپس کیا ہے جس میں سے 4 ارب 41 کروڑ روپے عالمی مالیاتی فنڈ کو قرضے کی مد میں چکائے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ اس سے قبل قومی اسمبلی میں حکومت نے کہا تھا کہ پاکستان کے ذمے مجموعی واجب الادا بیرونی قرض 53 ارب 40 کروڑ ڈالر ہے۔ قومی اسمبلی کو بتایا گیا تھا کہ جب موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو یہ قرضے 48 ارب دس کروڑ ڈالر تھے۔ موجودہ حکومت کے دور میں بیرونی قرضوں میں پانچ ارب 30 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا۔
 قومی اسمبلی میں حکومت نے کہا تھا کہ حکومت مالیاتی خسارہ 8.4 فیصد سے کم ہو کر 5.5 فیصد ہو گیا ہے اور رواں مالی سال کے دوران مالیاتی خسارہ مزید 5.1 فیصد تک کم کیا جائے گا۔ سینٹ کے اجلاس میں وزیر خزانہ نے تحریری بیان میں کہا ہے کہ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے مجموعی طور پر 72 ارب 86 کروڑ ڈالر وطن بھجوائے ہیں۔ سال 2014 -2015 میں ترسیلاتِ زر کی مد میں 18 ارب 72 کروڑ ڈالر بھجوائے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ پاکستان میں قرضوں سے متعلق قانون سازی کے مطابق ملک کا مجموعی قرضہ خام ملکی پیداوار یعنی جی ڈی پی کے 60 فیصد سے تجاوز نہیں کر سکتا ہے۔ لیکن اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بیرونی قرضوں کی بوجھ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اگر قرضے لینے کا رجحان ایسے ہی جاری رہا اقدامات نہ کیے گئے تو موجودہ حکومت کی مدتِ ملازمت ختم ہونے تک قرضوں کا حجم خام ملکی پیداوار کے 65 فیصد تک پہنچ جائے گا۔

سارہ حسن
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

ہے کوئی نجی جامعات سے پوچھنے والا ؟

$
0
0

چند روز قبل ایک ایسا واقعہ رونما ہوا، جس نے سوچ کا رخ مختلف سمتوں میں موڑ دیا ہے۔ کراچی کے ایک نجی یونیورسٹی کے طالب علم کی خود کشی نے جہاں والدین اور احباب کو غمگین اور کرب میں مبتلا کر دیا ہے، وہیں اس اقدام خودکشی نے نظام تعلیم اور خصوصاً نجی جامعات کی ساکھ  سے متعلق بہت سے سوالوں کو بھی جنم دیا ہے۔ طالب علم کی خود سوزی کے پس پردہ محرکات کی چھان بین ابھی جاری ہیں لیکن اس خود سوزی کے بعد جن خیالات نے میرے ذہن میں جگہ بنائی یقیناً ایسا ہی آپ سب کے ساتھ بھی ہوا ہوگا۔

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں نوجوانوں کی تعداد کل آبادی کا 40 فیصد ہے، بیشتر تو تلاش ِ معاش میں الجھ کر اعلیٰ تعلیم حاصل کر ہی نہیں پاتے، اور جو تعداد اس سطح تک پہنچتی ہے وہ بھی نشستوں کی کمی اور ناقص و پیچیدہ داخلہ جاتی کارروائیوں کے سبب سرکاری جامعات میں داخلہ حاصل نہیں کر پاتے۔ نتیجتاً انہیں اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے نجی جامعات کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کی لاپرواہی اور طلبا کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھایا سرمایہ دار طبقہ نے اور تعلیم کے شعبے کو بھی کاروبار کا ذریعہ بنا لیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں جامعات قائم ہوگئیں، جہاں بھاری بھرکم رقومات ہر سیمسٹر پر طلبہ سے اینٹھی جاتی ہیں۔
تعلیم کے نام پر جاری اس منافع بخش کاروبار کو روکنے میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا کوئی کردار نظر نہیں آتا کیونکہ ایسے بییشتر واقعات ہیں کہ لاکھوں روپوں کی ادائیگی کے بعد  جب ڈگری لینے کا وقت آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ لاکھوں روپے جس تعلیمی سند کے حصول کیلئے لٹائے جا چکے وہ تو سرکار کی جانب سے تصدیق شدہ ہی نہیں، اور اس ڈگری کی وقعت کاغذ کے ٹکڑے سے کچھ زیادہ نہیں۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق تقریباً 173 ایسی جامعات ہیں جو حکومت کی جانب سے منظور شدہ نہیں ہیں۔

اس کے علاوہ بھی ایسے بہت سے ہتھکنڈے ہیں جن کے ذریعے پیسہ کھینچا جاسکتا ہےاور جا رہا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی ڈگری پر طالب علم کا پورا مستقبل انحصار کرتا ہے، اور اس کی پروفیشنل زندگی کی کامیابی بھی ڈگری کی متقاضی ہوتی ہے، میڈیکل، انجنئیرنگ، کمپیوٹر کے ساتھ ساتھ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے، یہ اسناد اس وقت  لوگوں کی ضرورت بن گئیں جب سرکاری و نجی ملازمتوں اور پروموشنز کے لیے ان ڈگریوں کی شرط عائد کر دی گئی۔ اس ضرورت کا سب سے زیادہ فائدہ بھی نجی یونیورسٹیز نے اُٹھایا اور ایم فل اور پی ایچ ڈی کے پارٹ ٹائم  پروگرام متعارف کروائے گئے۔

اور جب جامعات کا حال ایسا ہو تو پھر اساتذہ کیوں پیچھے رہیں؟ تو بھائی انہوں نے بھی اس کمائی مہم میں بھرپور حصہ لیا ہے۔ ذاتی تجربات کی بنا پر میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مختلف نوعیت کے اسائنمنٹس اور خاص کر تھیسسز کی تیاری کے مرحلے میں سپر ویژن کی آڑ میں خوب جیب گرم کی جاتی ہے اور اس کے علاوہ اگر زیر شامت محقق کا تعلق صنف مخالف سے ہو تو پھر مطالبات کی نوعیت مختلف بھی ہوسکتی ہے۔

ان سب وجوہات کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ کافی حد تک نجی جامعات تعلیم کے پس پردہ اپنا الو سیدھا کرنے میں مصروف ہیں۔ اور حکومت کی بے توجہی کے باعث افسوس کہ پاکستان کی جامعات کا معیار عالمی سطح پر پست ہے، اس سلسلے میں ماہر تعلیم اور طبعیات کے محقق ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا کہنا ہے کہ پاکستان کا تعلیمی نظام مضبوطی سے کافی دور ہے۔ اندازے کے مطابق 40 فیصد طلبا میٹرک، انٹر، اور یونیورسٹی کے امتحانات میں نقل کرتے ہیں۔ اساتذہ بھی دکانداروں، پولیس اہلکاروں، سیاستدانوں، ججوں، اور جنرلوں سے زیادہ اخلاقی نہیں ہیں۔ ریسرچ پیپرز کے مصنفین اور پی ایچ ڈی سپروائزرز کو پروموشن اور کیش انعامات دینے کی پالیسی نے ہماری جامعات کو کچرا ریسرچ پیپرز اور پی ایچ ڈیز پیدا کرنے والے اداروں میں تبدیل کردیا ہے۔

ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور حکومت ذرا غفلت کا پردہ آنکھوں سے ہٹائے، ایک طالب علم کی خود سوزی جھنجھوڑنے کیلئے کافی ہے کہ ان وجوہات کو سامنے لایا جائے جو تعلیم کو کمانے کا دھندا سمجھے ہوئے ہیں، طالب علم، ان کا مستقبل، جذبات ان کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ ان کا مقصد زیادہ سے زیادہ پیسہ بٹور کر ایک ڈگری کا ٹھپہ لگائے شخص معاشرہ کو دینا ہے، اس کی تخلیقی صلاحیتوں، شعوری تعمیر اور انسانی ہمدردی سے ان نجی اداروں کو کوئی سروکار نہیں ہے۔

خرم زکی


مہنگی نظر آنے والی سستی گھڑی

$
0
0

چاہے فون نے کئی چیزوں کی ضرورت کا خاتمہ کردیا ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کلائی پر گھڑی باندھنے کا فیشن اب بھی جوں کا توں قائم ہے بلکہ اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔اس کی وجہ سادہ سی ہے۔ مرد کوئی دوسرا زیور تو پہنتا نہیں اور واحد مردانہ زیور یہی ہے، جسے قبولیت عام حاصل ہے۔ ورنہ انگوٹھی یا کانوں میں کچھ پہننے کو عام طور پر اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اس لیے کلائی کی گھڑی کے معاملے میں آج بھی مرد کافی سنجیدہ ہیں،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ فیشن کی علامت سمجھی جانے والی گھڑیاں بہت مہنگی ہیں۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کئی سستی گھڑیاں بھی مارکیٹ میں موجود ہیں، لیکن سادہ سی بات ہے، وہ سستی ہیں اور غیر معیاری بھی۔

اگر آپ کو کم قیمت میں معیاری گھڑی درکار ہے ،تو آپ کو تلاش بسیار کے بعد ہی کوئی ایسی گھڑی مل پائے گی۔ رولیکس اور پیٹک فلپس خریدنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس لیے زیادہ تر افراد ٹائمیکس، نکسن اور ڈینیل ویلنگٹن جیسی گھڑیوں کا رخ کرتے ہیں، جو اتنی سستی تو نہیں ہیں، لیکن جس معیار کی ہیں، اس میں قیمت بنتی ضرور ہے۔ لیکن اگر آپ اسی جیسی گھڑیاں پسند کرتے ہیں اور 100 ڈالرز یعنی 10 ہزار روپے بھی خرچ نہیں کرنا چاہتے تو بیلجیئم کی کومونو گھڑیاں بہترین برانڈ ہیں۔ خوبصورت، سادہ اور بظاہر بہت مہنگی نظر آنے والی کومونو گھڑیاں 100 ڈالرز سے کہیں کم قیمت میں دستیاب ہیں۔

 کومونو کا ایک برانڈ میگنس ہے، جس کی یہ سرمئی و ارغوانی رنگ کی گھڑی ہمیں بہت پسند ہے۔ گو کہ میگنس گھڑی کئی رنگوں اور چمڑے کے پٹوں میں دستیاب ہے، جیسا کہ سیاہ و بھورے میں، لیکن دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ اس کی قیمت 60 ڈالرز سے بھی کم ہے، یعنی 6 ہزار روپے سے بھی۔ اگر آپ روایتی اور سادہ لیکن خوبصورت گھڑی کی تلاش میں ہے، جو آپ کی جیب پر بھی بھاری نہ پڑے تو ابھی ایمیزن کا رخ کیجیے اور یہ خوبصورت گھڑی تین رنگوں میں حاصل کیجیے

فوج میں احتساب

$
0
0

بلا تفریق احتساب کے بیان کے ایک ہی دن بعد جنرل راحیل شریف نے اپنے عزم کی پختگی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک تھری اسٹار جنرل، ایک ٹو اسٹار جنرل، تین بریگیڈیئرز اور ایک کرنل کو ملازمت سے فارغ کر دیا۔ برطرفی کی خبر نے سیاسی بحث میں جگہ ضرور بنانی تھی، اور بنائی بھی۔ مگر کہیں کوئی کمی نظر آتی ہے، اور شاید ایک سوچی سمجھی کمی — ہر معاملے پر فوری ردِعمل دینے والا پاک فوج کا شعبہء تعلقاتِ عامہ اس معاملے پر خاموش رہا۔

باقاعدہ بیان جاری کرنے کے بجائے میڈیا کو گمنام فوجی افسران نے غلط معلومات فراہم کیں۔ ابتدائی خبروں میں افسران کی ایک بڑی تعداد کو کرپشن میں ملوث قرار دیا گیا، مگر بعد میں کارروائی کا نشانہ بننے والے افسران کی تعداد کے حوالے سے وضاحت کر دی گئی۔ لیکن پھر بھی اس حوالے سے کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں کہ افسران کا جرم کیا تھا، یا تحقیقات کے دوران کیا انکشافات ہوئے تھے۔
لیکن پھر بھی، یہ ایک ابتداء ہے — مجرمان کو اپنے ادارے کی جانب سے ہی مجرم قرار دیا جانا پروفیشنلزم اور احتساب کے ایک نئے عزم کی نشانی ہے۔
اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ فارغ کیے گئے افسران اس صوبے میں تعینات تھے جہاں فوج کے ہی مطابق کئی ریاستی و غیر ریاستی، اور اندرونی و بیرونی عناصر مل کر ملکی سلامتی اور استحکام کے خلاف تاریخی خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
فوج نے بلوچستان میں خود جو سکیورٹی ذمہ داریاں اٹھا رکھی ہیں، اور سینیئر افسران جنہیں زندگی و موت کے درمیان فرق بننے والے فیصلے صبح و شام لینے پڑتے ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے یہ لازم ہے کہ صوبے میں ایسے افسران کو تعینات کیا جائے جن کی شہرت پر کوئی داغ موجود نہ ہو، اور جو اعلیٰ معیار و کردار کے حامل ہوں۔

جی ایچ کیو کو چاہیے کہ صوبے میں سرحد پر اور مقامی لوگوں کے ساتھ ہونے والی طرح طرح کی کرپشن کی افواہوں کی بھی وسیع پیمانے پر تحقیقات کرے۔
اگر ہمیں بیرونی عناصر کو شکست دینی ہے اور مقامی لوگوں کا دل جیتنا ہے تو فوج کی شہرت ہر طرح سے بالکل بے داغ ہونی چاہیے۔

لیکن یہاں پر ملکی سیاسی قیادت کے لیے بھی ایک سبق ہے۔ تاریخی اور ادارہ جاتی وجوہات کی وجہ سے سول ملٹری تعلقات میں فوج کا پلڑہ بھاری رہتا ہے۔
فوج کے سب سے بڑے اثاثوں میں سے ایک یہ ہے کہ اسے عوامی مزاج کی مکمل سمجھ ہے، اور یہ خود کو اس مزاج کے مطابق ڈھال سکتی ہے۔ پاناما پیپرز کے اسکینڈل سے پردہ فاش ہوئے کئی ہفتے گزر چکے ہیں لیکن اب بھی ایسا کچھ نہیں کیا گیا ہے جس سے یہ واضح ہو کہ سویلین قیادت کرپشن کے خلاف اقدامات میں سنجیدہ ہے۔

دوسری جانب فوج کی ایک اندرونی تحقیقات، جو کہ تقریباً ایک سال سے جاری تھیں، ان سے اچانک پردہ اٹھا اور انہیں فوج کے خود کو کرپشن سے پاک رکھنے کے عزم کی مثال کے طور پر پیش کر دیا گیا۔ سیاستدانوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ حکومت کرنے کا جواز صرف الیکشن جیتنا نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے گورننس بہتر کرنی پڑتی ہے اور جمہوریت کا معیار بلند کرنا پڑتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ پاک فوج نے بار بار یہ ثابت کیا ہے کہ اس کی سیاسی فہم ملکی سیاستدانوں کی سیاسی فہم سے کہیں زیادہ گہری ہے۔

بشکریہ ڈان نیوز اردو

طالبعلموں کی خودکشی اور تعلیمی اداروں کی بے حسی

$
0
0

ہمارے ملک میں خودکشی کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے، آئے دن ایسے سانحات منظر عام پر آتے ہیں جنھیں سن کر، پڑھ کر اور دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔ کیا ہم نے ان حالات کے تناظر میں یہ بات سوچنے کی کوشش کی کہ آخر وہ کیا عوامل یا ایسے معاملات ہیں، جن کے باعث لوگ خودکشی کو ترجیح دیتے ہیں۔ بظاہر جو وجوہات سامنے آتی ہیں، بس ان کو ہی مدنظر رکھا جاتا ہے کہ اگر ایسا ظلم نہ ڈھایا جاتا یا بے انصافی متوفی کے ساتھ نہ کی جاتی تب وہ اپنی جان نہ گنواتا، خودکشی کو روکنے کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے جاتے ہیں، سوائے المیہ منظرنامہ پیش کرنے کے۔

خودکشی کرنے کی بنیادی اور ٹھوس وجہ تو یہ ہے کہ آج کے والدین اپنے بچوں کو اعتماد میں نہیں لیتے ہیں، انھیں اپنا دوست اور رازدار نہیں بناتے ہیں، ان رشتوں کو قائم کرنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، لیکن فی زمانہ وقت کی بے حد کمی ہے، اپنی اولاد کے لیے بھی اتنا وقت میسر نہیں ہے کہ اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے دان کردیں۔ والدین سے اچھے تو پھر وہ دہشت گرد ہوئے جو چند ہی ماہ میں مغوی بچوں کو اپنے اعتماد میں لے لیتے ہیں اور پھر وہ جو چاہتے ہیں ان معصوم بچوں سے کرواتے ہیں۔ یہ معصوم طلبا استاد کے فرمانبردار، جنت اور حوروں کے طالب، باغات و میوہ جات، دودھ کی نہروں کے تمنائی، بادلوں پر سفر کرنے کے لیے اپنی مرضی سے قربان ہوجاتے ہیں اور اپنے ساتھ درجنوں افراد کو خون و خاک کے جنگل میں اتار دیتے ہیں۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ والدین اپنے فرائض انجام نہیں دے پاتے ہیں، بلکہ تدریس کے لیے اجنبی لوگوں کے پاس اعتماد سے چھوڑ آتے ہیں اور پھر چند روٹی کی ٹکڑوں کی خاطر ان کی خبر بھی نہیں لیتے، انھیں اطمینان ہوتا ہے کہ ان کا بچہ مدرسے میں پڑھ بھی رہا ہے اور بھوکے شکم کو رزق بھی مل رہا ہے۔ اکثر اوقات غربت اور پیسے کے لالچ میں اپنی تنگدستی کو دور کرنے کے لیے دہشت گردوں سے پیسے بھی وصول کرلیتے ہیں، وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ یہ نذرانہ ان کے لخت جگر کو اس کے ہی خون میں ڈبو کر دیا ہے، اس کی نسلوں کو برباد اور نیست و نابود کیا۔ اگر والدین خود تعلیم یافتہ ہوں تو اپنی اولاد کے دماغ کی سلیٹ پر ایسے حروف لکھ دیں جو ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتے ہیں، دماغ میں پیوست ہوجاتے ہیں، اجالے، اندھیرے اور صدق وکذب کی شناخت میں مددگار ہوتے ہیں، تب یہ بچے اور ان کے والدین تخریب کاروں کے گھناؤنے اور قاتلانہ کھیل میں کبھی شریک نہ ہوں۔

والدین کی توجہ، محبت، درس، اخلاقی تقاضے، عفو و درگزر، جزا و سزا کا سبق بچے کی زندگی کو بدل دیتا ہے، پھر وہ کبھی مایوس ہوکر خودکشی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ دکھ سکھ، غم اور خوشی، شکست و ریخت زندگی کا حصہ ہیں، ہر رات کے بعد صبح کا روشن اجالا نئی امیدیں ساتھ لے کر آتا ہے، لہٰذا بہادری و جرأت و شجاعت کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی صبر و شکر کے ساتھ گزاری جائے اور اپنی زندگی کی کشتی کو ساحل پر لانے کے لیے تگ و دو کی جائے تو یقیناً محنت اور جدوجہد سے ساحل ضرور ملے گا۔

پچھلے دنوں کئی طالب علموں کی خودکشیاں اخبارات کی شہ سرخیاں بنیں، الیکٹرانک میڈیا پر چھائی رہیں اور لوگوں کو خون کے آنسو رلاتی رہیں۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے جب ایبٹ آباد کے عبدالمبین ولد سردار محمد رفیق نے خودکشی کرلی، یہ بچہ ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ عمر بمشکل 11 یا 12 سال ہوگی، وہ ہاسٹل میں رہنا نہیں چاہتا تھا، اس کی وجہ استاد کا رویہ ظالمانہ اور اس کی تذلیل کا باعث تھا۔ جسے اس کا ننھا ذہن برداشت نہ کرسکا۔ فرار کی جب اسے کوئی راہ نظر نہ آئی، تب اس نے اپنے آپ کو ختم کرنے اور دنیا سے رخصت ہونے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے سے قبل اس نے اپنی ماں کو خط لکھا۔ وہ ماں جو دنیا کی سب سے زیادہ شفیق ہستی ہوتی ہے جس کی کل کائنات اس کی اولاد ہوتی ہے، اولاد کے لیے جینا مرنا زندگی کا نصب العین سمجھتی ہے۔

عبدالمبین کے بعد از مرگ اس کی جیب سے ایک خط برآمد ہوا۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’ماں! تم میرے جانے کے بعد بہت روؤ گی، لہٰذا میری قبر پر آکر رو لینا اور میری الماری میں ایک ڈائری رکھی ہے اسے ضرور پڑھ لینا، ماں! مجھے دنیا سے بڑا پیار تھا، مگر مجھے یہ ہاسٹل کی وجہ سے کرنا پڑ رہا ہے۔ منیبہ اور مانی کو ہاسٹل داخل نہ کرانا اور میری چیزیں ہاسٹل سے لے آنا۔ عبدالمبین نے کس دل گردے کے ساتھ یہ تحریر لکھی ہوگی، یہ تو وہی جانتا ہوگا۔ معصوم بچے نے ماں کو زیادہ نہ رونے کی بھی تاکید کی۔ عبدالمبین کے والد سردار محمد رفیق نے پولیس کو بتایا کہ اس کی ٹیچر اسے چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر سزا دیتی تھی، میرے بیٹے کی موت کی ذمے دار ٹیچر ہی ہے۔

اس کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ ہمیں انصاف ملے۔ یقیناً بچے کا خط پڑھ کر صاحب اولاد کا دل بھر آتا ہے، کاش کہ بچے کے والدین اس کی شکایت کا نوٹس لیتے، نقصان ہوجانے کے بعد ایک لفظ باقی رہ جاتا۔ وہ ہے ’’کاش‘‘۔ کاش یہ ہوجاتا، کاش وہ ہوجاتا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ واقعہ بھی دو ماہ قبل کا ہی ہے۔ جب قلعہ عبداللہ ڈسٹرکٹ بلوچستان میں ثاقبہ نامی طالبہ نے پرنسپل کے ظالمانہ سلوک کی بنا پر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔ اس کا تعلیمی کیریئر بہت شاندار تھا، کالج کی پرنسپل نے انٹرمیڈیٹ کا ایڈمیشن فارم نہیں بھیجا تھا، پرنسپل کے اس رویے سے یقیناً وہ امتحان میں نہیں بیٹھ سکتی تھی، یقیناً یہ اس کے ساتھ بہت بڑا ظلم تھا۔ لہٰذا اس جواں سالہ لڑکی نے خودکشی کو ترجیح دی۔

اس حادثے نے اہل دل کو خون کے آنسو رلا دیا اور خوشیوں بھرا گھر ماتم کدہ بن گیا۔ اس نے بھی اپنے پیغام میں پرنسپل کو ہی اپنی خودکشی کا ذمے دار ٹھہرایا تھا۔ 12 اپریل 2016 کو ایک ڈینٹل کالج کے طالب علم عبدالباسط کی خودکشی نے پورے شہر کو اداس کردیا۔ ہر شخص کو اس کی موت کا صدمہ تھا اور ہونا چاہیے۔ ایک گھرانے کا چراغ گل ہوگیا اور روشن گھر، خوشیوں سے بھرا گھر اندھیروں اور دکھوں میں ڈوب گیا۔

ہمارے شہر کراچی میں ٹرانسپورٹ کے بے حد مسائل ہیں، رش کے باعث ٹریفک جام ہوجاتا ہے، ایمبولینسیں پھنس جاتی ہیں اور جاں بلب مریض دم توڑ جاتے ہیں لیکن عبدالباسط کے ساتھ یہ مسئلہ نہیں تھا، اس بے چارے مظلوم نوجوان کی گاڑی خراب ہوگئی تھی اور وہ اسے خود ٹھیک کرتا رہا یا کسی مکینک کو دکھانے میں اتنا وقت بیت گیا کہ امتحان کا مقررہ وقت ختم ہوگیا اور ممتحن حضرات پرچے اپنے ساتھ لے گئے، بے شک ہر ادارے کے اپنے قوانین اور اصول و ضوابط ہوتے ہیں لیکن ساتھ میں انسانیت کی بقا اور علم و اخلاق کے تقاضے بھی کچھ ہوتے ہیں، کسی کی ختم ہوتی زندگی اور ذہنی تکلیف اور مستقبل کی بربادی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر قانون ہیچ ہے۔

ویسے بھی ہمارے ملک میں قانون کو مٹی کے برتنوں کی طرح بے دردی کے ساتھ توڑ دیا جاتا ہے۔ اپنے ارادوں اور اصولوں میں لچک دکھانا اور بگڑتے حالات کو سنوارنا ایک تعلیم یافتہ شخص کا پہلا اصول ہوتا ہے، لیکن ڈینٹل کالج کے اساتذہ و منتظمین نے تمام اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر عبدالباسط کو مایوسی اور شکست کی دلدل میں دھکیل دیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا معلمین اس کے سر پر ہاتھ رکھتے، اسے حوصلہ دیتے کہ تمھارا پرچہ آج یا کل ضرور لے لیا جائے گا۔ چونکہ عبدالباسط گزشتہ دو سال سے اسی پرچے میں فیل ہورہا تھا تو نتیجہ اس کا الٹ ہوتا۔ انسانیت کی جیت ہوجاتی۔

نسیم انجم

دی گریٹ بل فائٹر نواز شریف : وسعت اللہ خان

$
0
0

نواز شریف حکومت پاناما لیکس کی غیرجانبدار و شفاف چھان بین میں کس قدر سنجیدہ ہے اس کا انداز چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھے گئے خط میں مجوزہ کمیشن کی شرائطِ کار (ٹرمز آف ریفرنس) کو دیکھ کر ہو جاتا ہے۔ یعنی کمیشن بطور عدالت کام کرے گا۔ معاونت کے لیے کسی بھی شہری، عہدیدار، مالیاتی ماہر یا کسی بھی ادارے کی کوئی بھی دستاویز طلب کر سکے گا۔ حتمی رپورٹ مرتب کرنے کے لیے کمیشن اپنی معیاد خود طے کرے گا۔

کمیشن ان تمام پاکستانی شہریوں اور سمندر پار پاکستانیوں کے بارے میں چھان بین کرے گا جن کی یا اہلِ خانہ کی آف شور کمپنیاں اب تک سامنے آئی ہیں۔ کمیشن ان تمام بینک قرضوں کو بھی پھٹکے گا جو سرکاری عہدوں پر فائز سابق و حاضر شخصیات یا اہلِ خانہ نے معاف کروائے۔ کمیشن پاکستان سے بیرونِ ملک منتقل ہونے والی ان تمام رقومات کا بھی سراغ لگائے گا جو بدعنوانی، کمیشن یا رشوت خوری سے وصول کی گئیں۔

یعنی کمیشن کو اتنے بڑے دائرے میں دھکیل دیا گیا ہے کہ اسے کسی حتمی نتیجے پر پہنچ کے لگ بھگ سوا آٹھ لاکھ صفحات کی رپورٹ مرتب کرنے کے لیے کم ازکم دو سو سال درکار ہیں۔ حالانکہ اس میں سے بیشتر چھان پھٹک کوئی بھی مستعد حکومت اپنے طور پر کر سکتی ہے، مگر پھر عدالتی کمیشن کیا کریں گے؟ حکومت نے پاناما لیکس کے نام پر کمیشن کا دائرہ کار اسی طرح طے کیا ہے جس طرح تھانیدار ایک من ککڑی چوری کرنے والے کسی ملزم پر شہر بھر کی چوریاں، ڈکیتیاں، دھماکے اور دہشت گردیاں لاد دیتا ہے تاکہ اپنے سر سے بلا ٹلے اور ملزم زندگی بھر پِھرکی بنا رہے۔
پاناما لیکس کے کھیل میں منتشر الخیال حزبِ اختلاف پی آئی اے کے اس مسافر کی طرح ہے جو ہمت کر کے تیسری بار پانی مانگ لے تو اکتائی جھنجھلائی ایئر ہوسٹس اس کے آگے لبالب جگ زور سے دھر دیتی ہے۔ یعنی لے مر پی!
شکر ہے ٹرمز آف ریفرنس میں شام کی خانہ جنگی، سعودی امریکہ تعلقات میں کشیدگی، بلوچستان میں مبینہ بھارتی مداخلت اور ایکواڈور میں آنے والے زلزلے کے پاناما لیکس سے تعلق کی تحقیقات کا کام شامل نہیں کیا گیا۔ ٹرمز آف ریفرنس میں سبھی کچھ ہے علاوہ شریف خاندان پر عائد الزامات کی براہِ راست ترجیحاتی چھان پھٹک کی واضح خواہش کے۔

یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ بل فائٹنگ سپین اور اس کی سابق نوآبادیات میں کتنا مقبول کھیل ہے۔ جونئیر بل فائٹر کو توریرو کہتے ہیں اور استاد بل فائٹر کو میٹا ڈور۔ لوگ باگ اپنی ذات اور مسائل میں اس قدر غرق ہیں کہ شاید ہی کسی کا دھیان اس جانب گیا ہو کہ پاکستان میں بل فائٹنگ کا کھیل باضابطہ طور پر نواز شریف نے متعارف کرایا۔ ان سے پہلے مرغوں کی لڑائی و بٹیر بازی سے جی بہلایا جاتا تھا، لیکن نواز شریف نے بل فائٹنگ کی تربیت اور میچوں کے لیے پہلا خصوصی ایرینا اپنے چاؤ سے بنوایا۔ اس ایرینا کا سنہری موٹو ہے ’آ بیل مجھے مار۔۔۔‘
ایرینا میں چاروں طرف بڑی بڑی پینٹنگز آویزاں ہیں۔ ایک میں میٹا ڈور نواز شریف اپنے وقت کے چیمپیئن سانڈ غلام اسحاق خان کو لال کپڑا دکھا رہے ہیں۔ دوسری پینٹنگ میں جہانگیر کرامت کے دھڑ پر چھوٹے چھوٹے نیزے گاڑ کے فاتحانہ دیکھ رہے ہیں۔ تیسری پینٹنگ میں پرویز مشرف نامی طاقتور بیل نے نواز شریف کو سینگوں میں پرو کے ہوا میں اٹھا رکھا ہے۔ چوتھی پینٹنگ میں نواز شریف پرویز مشرف کو سینگوں سے پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر پیر ہوا میں ہیں۔

پانچویں پینٹنگ میں مسکراتے نواز شریف لال کپڑا لہرا لہرا کر ایک تنومند خاکی بیل کو اشتعال دلانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر وہ بیل ان کی طرف دیکھ ہی نہیں رہا۔ ان دنوں ایرینا کی چھٹی پینٹنگ پر کام ہو رہا ہے۔ نتھنوں سے بھاپ اور کھروں سے چنگاریاں نکالتا بیل پوری طاقت سے میٹا ڈور نواز شریف کی جانب بڑھ رہا ہے اور نواز شریف اس سے ڈرنے کے بجائے مسکرا رہے ہیں۔ بیل کے ایک سینگ پر پاناما اور دوسرے پر لیکس لکھا ہے۔

ایک اچھے بل فائٹر کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے بجائے سانڈ کو تھکانے کی کوشش کرے اور جب سانڈ تھک کے گر پڑے تو کام اتار دے۔ پاناما لیکس کے بھینسے کے ساتھ بھی یہی حکمتِ عملی اپنائی جا رہی ہے۔ یعنی کبھی یکطرفہ کمیشن کا رومال دکھاؤ، کبھی نئے کمیشن کی یکطرفہ شرائطِ کار کے لال کپڑے سے مشتعل کر کے اپنے پیچھے دوڑواؤ ۔ حتٰی کہ بھینسا تھکن سے لڑکھڑانے لگے۔

جیت گئے تو فاتح، روندے گئے تو پھر مظلوم۔

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


’’مجھ سے امیر شہر کا نہ ہو گا احترام‘‘

$
0
0

چھبیس دنوں میں وزیراعظم کے قوم سے تین دفعہ خطاب نے ہر پاکستانی کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کچھ ہونے والا ہے ۔ کیا واقعی کچھ ہونے والا ہے؟ یا پھر یہ کہ پانامہ لیکس کا فتنہ، کچھ ہی دنوںمیں اپنی موت آپ مرنے والا ہے، پھرگو نواز گو کا خطرہ ٹل جائے گا،اور قوم حسب معمول کسی اور خبر کی جانب نکل پڑے گی۔ جتنے منہ اتنی باتیں لیکن وزیراعظم کو بار بار سرکاری ٹی وی پر نمودار ہو کر قوم کو اپنی اور خاندان کی صفائی دینے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟یہ بھی سمجھ نہیں آرہی کہ حکمران اتنے معصوم کیوں بن جاتے ہیں اور یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ’’میں نے کچھ نہیں کیا‘‘۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ کچھ نہیں کیا… اگر واقعی کچھ نہیں کیا تو ملکی اداروں کا بیڑہ غرق کیوں ہو چکا ہے۔

منٹو پارک میں چار ہاکی کے گراؤنڈز ہوا کرتے تھے۔ آج قومی کھیل تباہ ہو چکا ہے کیا یہ کرپشن نہیں ہے؟ نوجوان نسل کو کھیل سے نکال کر جرائم کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، یہ کرپشن نہیں ہے؟ تعلیمی ادارے تباہ کر دیے گئے ، کیا یہ کرپشن نہیں ہے؟ اسپتال تباہ کر دیے گئے، یہ کرپشن نہیں ہے؟… ملک کے ادارے تباہ کر دیے گئے ،کیا یہ کرپشن نہیں ہے؟ آف شور و ان شور ذاتی ادارے تو دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں مگر ملک کے ادارے ڈوب رہے ہیں۔
اربوں روپے میں بنی ہوئی ملتان روڈ کو دوبارہ سے اُکھاڑ کر منصوبے بنا نا کیا، اسے کس نام سے پکارا جائے۔ گریڈ 18کے افسرکو گریڈ 20میں لگا دینا کونسا میرٹ ہے ؟ ذاتی سیکیورٹی کے لیے پنجاب بھر کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو تعینات کر دینا اور عوام کو جرائم پیشہ افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا کیا ہے؟ 
گزشتہ 7سال سے رنگ روڈ نہیں بننے دی گئی…؟ ’’ڈولفن فورس‘‘ کا کام اسٹریٹ کرائمز روکنا ہے، دن کی روشنی میں مذکورہ فورس باہر آتی ہے اور رات کے اندھیرے میں غائب ہو جاتی ہے جب کہ رات کو کرائم ریٹ 90فیصد ہوتا ہے۔
مجھے بتائیے کیا یہ کرپشن نہیں ہے؟ ایک جانب اربوں روپے کے ٹیکے لگ رہے ہیں جب کہ ہمارا ایک کانسٹیبل پچاس پچاس روپے کی کرپشن کر کے اپنا گزر بسر کرے۔ پولیس کے شہداء کو طبقاتی شہید بنا دیا گیا۔ مخصوص لوگوں سے اپنی تعریفیں کروانا اور صحافیوں کو خریدنا کیا، دہشت گردی کو فروغ دینا اور چھوٹو گینگ سمیت سیکڑوں گینگز کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ، ملکی سیاست سے اپوزیشن کو ختم کر دینا ،کیا یہ کرپشن نہیں ہے؟ ملک میں گزشتہ کئی سالوں سے ایک بھی ڈیم نہ بنانا ، نان کرکٹرز کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین لگانا ، غیر ملکی سرمایا کاروں کو پاکستان میں لانے کے لیے اقدام کرنا اور اپنا پیسہ باہر رکھنا کیا یہ کرپشن نہیں ہے؟ الغرض یہ کہ پاکستان کی سیاست کو پیسے کی مداخلت نے تباہ کر کے رکھ دیا ہے، اسی کی وجہ سے سیاست میں Criminalistaion غالب ہے ۔ کالے دھن نے سیاست کو ایک منافع بخش انڈسٹری کا درجہ دے دیا ہے۔

جس ملک میں منافقت اور جھوٹ عام ہو جائے وہاں ویلیوز یا سماجی اقدار کا انحطاط معاشرے کو لے ڈوبتا ہے، اسی لیے دوسرے جمہوری ممالک میں عوامی نمایندے جھوٹ بولتے ہوئے پکڑے جائیں تو نہ صرف انھیں اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑتا ہے بلکہ ان کا سیاسی کیریئر ختم ہو جاتا ہے۔ برازیل میں خاتون وزیراعظم کے خلاف میگا کرپشن اور اقرباء پروری کے الزامات میں عوامی احتجاج کی ہمہ گیر لہر کے بعد پارلیمنٹ نے ان کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر رکھی ہے۔ جہاں امید ہے انھیں شکست ہو جائے گی۔

برازیل کے ارکان پارلیمنٹ نے ثابت کردیا ہے کہ وہ وزیراعظم کے بجائے اپنے ملک اور اپنے عوام کے مفاد کو زیادہ مقدس سمجھتے ہیں۔ امریکی صدر نکسن کے خلاف مواخذہ کی تحریک پیش ہوئی تھی اس کی وجہ واٹر گیٹ اسکینڈل نہیں تھا جس میں ان پر الزام تھا کہ وہ اپنے مخالفین کے ٹیلی فون ٹیپ کراتے تھے بلکہ مواخذہ اس بات پر تھا کہ انھوں نے کانگریس کے سامنے جھوٹ بولا تھا ۔ اسی طرح جب بِل کلنٹن صدر تھے اور ان پر وائٹ ہاؤس کی ایک ملازم کے ساتھ جنسی تعلقات کا معاملہ سنگین ہو گیا تو مواخذہ اس بات پر نہیں تھا کہ وہ بداخلاقی کے مرتکب ہوئے ہیں بلکہ الزام یہ تھا کہ انھوں نے عدالت کے سامنے جھوٹ بولا تھا۔

انگلینڈ میں اگر کوئی وکیل اپنے مؤکل کے دفاع میں ایسی بات کرتا ہے جو جھوٹ ثابت ہو جاتی ہے تو اس صورت میں اگر عدالت کے نوٹس میں آجائے کہ مذکورہ وکیل نے اپنے مؤکل کو بچانے کے لیے دانستہ جھوٹ بولا ہے تو اس وکیل کا عدالتی کیریئر ختم ہو جاتا ہے لیکن پاکستان کی معاشرتی اور اخلاقی روایات اس درجے پر نہیں پہنچ سکیں کہ یہا ں جھوٹ بولنے پر کوئی گرفت ہو یا ضمیر پر کوئی بوجھ ہو یا عوامی سطح پر ٹھکرائے جانے کا خطرہ ہو۔

غلام رسول چھوٹو نہایت بے وقوف تھا جس نے ڈاکا زنی کے ذریعے کروڑوں روپے کمائے مگر جب وہ گرفتار ہوا تو سکندراعظم کی طرح اس کے دونوں ہاتھ خالی تھے۔ راجن پور کے ڈاکوؤں کی فیملیوں خواتین اور بچوں پر نظر دوڑایں تو ایک قابلِ رحم تصویر سامنے آتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اربوں روپے کے جرائم میں ملوث چھوٹو گینگ کا پیسہ کہاں گیا جب اس کا سراغ لگائیں گے تو اس پیسے کا کھُرا سندھ اور پنجاب کے بہت سے ارکانِ پارلیمنٹ کے گھروں تک جائے گا جو چھوٹو کو تحفظ دینے کے بدلے میں اُسے اپنا آلۂ کار بنا کر استعمال کرتے رہے۔ چھوٹو کو چاہیے تھا کہ لوٹ کے مال سے آف شور کمپنی بناتا اور چوری کا مال پانامہ منتقل کردیتا۔ یہ کوئی زیادہ مشکل کام نہ تھا۔

میرا مشورہ ہے کہ اگر عوام کے لیے کچھ کرنا مقصود ہے تو نیت کو صاف رکھ کرکریں ، سب آپ کا ساتھ دیں گے اور اگر ٹی وی پر آکر قوم سے معصومیت سے کہیں گے کہ ’’مجھے اس مٹی سے عشق ہے‘‘۔ مجھے یقین ہے، یہ سن کر یہ مٹی بھی کہے گی ، میں نہیں مانتی، خیر کالم کی وسعت کم ہے ورنہ بقول شاعر

لفظوں کوبیچتا ہوں پیالے خرید لو
شب کا سفر ہے کچھ تو اجالے خرید لو
مجھ سے امیر شہر کا نہ ہو گا احترام
میری زباں کے واسطے تالے خرید لو

علی احمد ڈھلوں

Viewing all 4315 articles
Browse latest View live