Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

شریعت میں کرپشن کی سزا


ماں مر گئی اور سب کچھ ختم ہو گیا

$
0
0

مصر میں ایک سکول کے بچے نے اپنے امتحانی پرچے میں ایک جملہ لکھا جس نے بہت سے لوگوں کے دلوں کو چھو لیا۔ اب اسامہ احمد حماد کی کہانی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔ مصر کے خطے جزیرہ نما سینا میں پانچویں کلاس میں پڑھنے والے احمد حماد نے امتحان میں ماں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں لکھا 

’میری ماں مر گئی، اور اس کے ساتھ سب کچھ ختم ہو گیا۔‘

احمد اسامہ کے پرچے کو چیک کرنے والے استاد نے جب یہ پڑھا تو انھوں نے اس کی تصویر کھینچ لی اور اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیا۔
اس کے بعد مصر میں سنی مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم جامعہ الازہر کے امام نے 11 سالہ احمد حماد کی پڑھائی کا سارا خرچ اٹھانے کی پیشکش کی ہے۔
اس کے ساتھ ہی انھیں ماہانہ وظیفہ بھی دیا جائے گا۔ اس سے پہلے صوبائی گورنر نے حماد کو قاہرہ کے سیاحتی مقامات کا دورہ کرنے کی پیشکش بھی تھی۔

کتابیں اور مطالعہ

ہیکنگ کس طرح ہوتی ہے؟

$
0
0

جیسے جیسے کمپیوٹر ٹیکنالوجی بہتر سے بہتر ہوتی جارہی ہے ویسے ہیکرز نے
بھی مختلف اکاؤنٹس ہیک کرنے کے نئے طریقے بھی دریافت کرلیے ہیں۔ یہ ہیکرز آپ کی مرضی کے بغیر آپ کی نجی معلومات تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں جس سے آپ پریشانی سے دوچار بھی ہوسکتے ہیں۔ان ہیکرز سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس بات کا پتہ لگایا جائے کہ ہیکرز کس طرح ہیکنگ کرتے ہیں۔ ہم آپ کو ان کے کچھ طریقوں کو بیان کررہے ہیں۔ ہیکرز پاسورڈ کیسے حاصل کرتے ہیں؟ ہیکرز کی جانب سے پاسورڈ حاصل کرلینا سب سے زیادہ عام تکنیک ہے۔

اسی سلسلے میں ایک تکنیک فشنگ (phishing) کہلاتی ہے جہاں ایک ہیکر آپ کو لاگ ان کرنے کے لیے ایک پیج بھیجے گا جو بالکل فیس بک یا جی میل یا کسی اور ویب سائٹ کے لاگ ان پیج جیسا ہی ہوگا۔ اگر آپ نے یہاں لاگ ان کیا تو آپ کا پاسورڈ ہیکر تک پہنچ جائے گا۔ ہیکرز ہیکنگ کیوں کرتے ہیں؟ ہیکرز لوگوں کے پاسورڈز مختلف وجوہات کی وجہ سے ہیک کرتے ہیں۔ سائبر کریمنلز ایسا پیسے کے لیے کرتے ہیں جبکہ دیگر صرف اپنے ہنر کی نمائش کے لیے بھی ایسا کرتے ہیں۔
 ہیکرز سے کیسے بچیں؟
٭ ہیکرز سے بچنے کے لیے پبلک وائی فائی استعمال کرنے سے گریز کریں اور بینکنگ اور ای میلز ہرگز ان پر استعمال نہ کریں۔
٭ کسی بھی ویب سائٹ پر جانے کے لیے HTTP کے بجائے HTTPS کا استعمال ویب سائٹ کے ایڈریس کے شروعات میں کریں۔
٭ ہمیشہ پاسورڈ درج کرنے سے قبل ایک مرتبہ اپنے پیچھے دیکھ لیں کہ کوئی آپ پر نظر تو نہیں رکھے ہوئے۔
٭ پاسورڈ مینجمٹ کے سافٹ ویئرز کا استعمال کریں۔ تاہم پریشانی کی بات اس وقت شروع ہوتی ہے جب کسی ہیکر کے ہاتھ آپ کی نجی نوعیت کی معلومات لگ جاتی ہیں۔

 ہیکرز کی کچھ تکنیکیں درج ذیل ہیں۔
 سوشل انجینئرنگ اس تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے ہیکر آپ کو پیغام بھیجے گا کہ فلاں فلاں شخص نے آپ کی ایک خراب تصویر پوسٹ کی ہے اور ساتھ میں ایک لنک ہوگا۔ جب آپ وہاں کلک کریں گے تو وہاں لاگ ان درکار ہوگا۔ اگر آپ یہاں پاسورڈ دینگے تو یہ ہیکر تک پہنچ جائے گا۔ شولڈر سرفنگ شولڈر سرفنگ کا مطلب کسی شخص کے پیچھے کھڑے ہوکر اس کے کی بورڈ پر نظر رکھتے ہوئے اس کا پاسورڈ حاصل کرنا ہے۔ یہ ہیکنگ کی بہت پرانی تکنیک ہے۔ اس لیے ہمیشہ اے ٹی ایم، سائبر کیفے، ایئرپورٹ یا دیگر مقامات پر اپنا پاسورڈ درج کرنے سے قبل دیکھ لیں کہ کوئی آپ پر نظر تو نہیں رکھے ہوئے۔

کی لاگرز اگر کی لاگرز آپ کے کمپیوٹر میں انسٹال ہوجائیں تو ہر بار اسٹارٹ اپ کے ساتھ یہ بھی سرگرم ہوجاتے ہیں اور آپ اپنے کی بورڈ کے ذریعے جو کچھ لکھتے ہیں، اس کی رسائی ہیکر کو ہوتی ہے۔ کچھ کی لاگرز تو ونڈوز کے 'پراسیسز'میں بھی نظر نہیں آتے۔ ان سے بچنے کا بہترین طریقہ آن لائن ورچوئل کی بورڈ کا استعمال ہے۔ ان کی بورڈز کا استعمال پے پال یا بینک اکاؤنٹ کے لیے پاسورڈ ٹائپ کرنے کے لیے کرسکتے ہیں۔ ریٹ اس تکنیک کے ذریعے ایک ہیکر بغیر آپ کی اجازت کے آپ کے کمپیوٹر سے منسلک ہوجاتا ہے۔ آپ جو کچھ اپنے کمپیوٹر میں کررہے ہوتے ہیں وہ ہیکر دیکھ سکتا ہے۔ اس میں کی لاگر کا فنکشن بھی موجود ہوتا ہے۔اس تکنیک کے ذریعے ہیکر آپ کے کمپیوٹر سے کوئی بھی فائل کاپی کرسکتا ہے اور یہ سب آپ کی مرضی کے بغیر ہورہا ہوتا ہے۔ ٹروجنز یہ مختلف قسم کی ویب سائٹس بالخصوص ٹارنٹس سائٹس کے ذریعے آپ کے کمپیوٹر میں انسٹال ہوجاتے ہیں۔ ان کے ذریعے بھی ہیکر آپ کی نجی معلومات تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔

ارسلان حیدر

قاتل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم

$
0
0

انسانی حقوق کی سرکردہ عالمی تنظیم ایمنٹسی انٹر نیشنل نے سال دو ہزار پندرہ میں سزائے موت دینے والے ممالک کی جو فہرست مرتب کی ہے اس میں چین اور ایران کے بعد پاکستان تیسرے اور سعودی عرب چوتھے نمبر پر ہے۔ چلیے پاکستان کسی شعبے میں تو ٹاپ تھری کی ورلڈ رینکنگ میں آیا۔ مچھر ضرور مارنے چاہئیں کیونکہ ان سے ملیریا اور گندگی پھیلتی ہے لیکن جن جوہڑوں اور نالیوں میں مچھر پیدا ہوتے ہیں وہ چند ہی دنوں میں مچھروں کی ایک نئی کھیپ تیار کردیتے ہیں اور ہم پھر انھیں مارنے پر لگ جاتے ہیں۔ جوہڑ اور نالیاں جوں کی توں رہتی ہیں۔ بالکل ایسے جیسے کنوئیں کو پاک کرنے کے لیے چالیس ڈول پانی نکال لیا جائے مگر کتا نہ نکالا جائے تو فائدہ ؟

ہم میں سے ہر شخص زندگی میں کم ازکم کسی ایک آدمی یا عورت کو کسی بھی سبب قتل کرنے کے بارے میں کبھی نہ کبھی سوچتا ضرور ہے۔ وہ الگ بات کہ کر نہیں پاتا یا اس خیال کو چند ہی لمحوں یا دنوں میں جھٹک دیتا ہے۔ نفسیات دان اور سماجی ماہرین کسی بھی قتل کی کوئی بھی ماہرانہ تاویل لاسکتے ہیں۔ مثلاً بچپن کی محرومیاں ، والدین کی بے توجہی ، بری صحبت ، اکیلا پن ، انتقامی جذبہ ، غصہ ،  اکساہٹ، ذاتی لالچ، پاگل پن وغیرہ وغیرہ۔ اگر ان اسباب و محرکات کو مان لیا جائے تو پھر بچپن کے سب ہی محروموں ، والدین کی عدم توجہی اور بری صحبت کے شکار ، آدم بیزار ، غصیلے اور کسی کی باتوں میں آجانے والے کچے کانوں اور لالچیوں وغیرہ کو بھی قاتل ہونا چاہیے۔ ایسا کیوں ہے کہ ان میں سے چند ہی قاتل بن پاتے ہیں اور باقی قتل کے بارے میں سوچتے رہ جاتے ہیں۔
چلیں مانے لیتے ہیں کہ زیادہ تر قاتل ان ہی وجوہات کے سبب پیدا ہوتے ہیں۔ تو پھر جو قاتل سیریل کلرز بن جاتے ہیں یا پھر وہ جو ان اجنبیوں یا شناساؤں کو اذیت دے دے کر مارتے ہیں جنھوں نے ان کا کبھی کچھ بھی نہیں بگاڑا۔ مثلاً انیسویں صدی کے آخر میں لندن پر ایک سیریل کلر کا خوف تین برس تک طاری رہا۔ وہ راہ چلتی طوائفوں کو گھیر گھار کر کسی تاریک گوشے میں لے جا کر گلا کاٹ دیتا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ کسی ایک یا دو طوائفوں نے اسے کبھی رنج دیا ہو مگر باقی نو کس چکر میں اس کے خنجر کا نشانہ بن گئیں۔ پولیس سمیت کسی کو بھی اس کا اصل نام  معلوم نہیں۔ تاریخ میں یہ قاتل جیک دی رپر کے فرضی نام سے جانا جاتا ہے۔آج سوا سو سال گذرنے کے بعد بھی  بحث جاری ہے کہ جیک دی رپر کون تھا ؟ ایک ہی قاتل تھا یا طوائف دشمن سیریل کلرز کا گروہ تھا۔ پھر جیک دی رپر کا کیا انجام ہوا ؟ تائب ہوا کہ مرگیا ؟

جولائی انیس سو پچانوے میں دو امریکیوں ٹموتھی میک وے اور ٹیری نکولس کو اگر مقامی حکومت سے کوئی پرخاش تھی تو انھوں نے اس کا بدلہ اس عمارت میں موجود سات سو سے زائد لوگوں سے ٹرک بم ٹکرا کر کیوں لیا ؟ چھ سال قبل نیو نازی نظریات سے متاثر آندرے بریوک نے ناروے کے ساحل کے قریب چھوٹے سے جزیرے اوٹویا میں جاری ایک سمر کیمپ میں فائرنگ کرکے ستتر لوگوں کو کیوں قتل کر دیا؟ کیا قاتل کی اس ظاہری منطق پر یقین کرنا کافی ہوگا کہ وہ یورپ میں آباد مسلمان تارکینِ وطن اور ان کی دہشت گردانہ سوچ کے خلاف ہے۔ مگر مرنے والوں میں تو ایک بھی مسلمان نہیں تھا۔

انفرادی قاتل ہو کہ اجتماعی ، دنیا کا کوئی سماج  دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہاں کوئی  قاتل پیدا نہیں ہوگا۔ سن اسی کے عشرے میں کراچی میں ایک شخص یا گروہ نمودار ہوا جس کی دلچسپی بس اتنی تھی کہ فٹ پاتھ پر سوئے  لوگوں کا سر کچل دیا جائے۔ایک درجن سے زائد ایسی وارداتیں کرنے کے بعد یہ فرد یا گروہ اچانک رک گیا۔حکومت سے لے کر عام شہری تک کوئی بھی بتیس برس گذرنے کے باوجود نہیں جانتا کہ ہتھوڑا گروپ کون تھا ،کہاں سے آیا،کدھرگیا وہ۔
دسمبر ننانوے میں لاہور کے ایک سیریل قاتل جاوید اقبال نے خود ہی ایک اخبار کو اعترافی خط بھیجا کہ وہ  سو سے زائد لاوارث بچوں سے جنسی زیادتی کے بعد قتل کرکے ان کے باقیات اپنے ہی گھر میں رکھے گئے تیزاب کے ڈرم میں گھلا چکا ہے۔اس اعترافی خط سے پہلے نہ تو کبھی جاوید اقبال کے اہل ِ محلہ کو شک ہوا ، نہ ہی پولیس کو۔ اور گمشدہ بچوں کے وارث بھی پریشان نہیں ہوئے کہ یہ بچے کہاں غائب ہوگئے۔

لیکن اعترافی خط کے بعد پولیس نے بھی ’ ایفی شنسیاں ’ دکھائیں اور مفرور سیریل قاتل کے فلیٹ سے تین لوگوں کو پکڑا۔ ان میں سے ایک تو دورانِ تفتیش ہی ہلاک ہوگیا مگر دوسرے نے جاوید اقبال کا ٹھکانہ بتا دیا۔عدالت نے دونوں کو سزائے موت سنائی لیکن اس سے پہلے کہ سرکار اس سزا پر عمل کرتی دونوں مجرموں نے بڑے اطمینان سے ہائی سیکیورٹی جیل میں چھت سے لٹک کر خود کشی کرلی۔ اپریل دو ہزار چودہ میں مری کے ایک رہائشی ندیم نے اپنے پیر صاحب کے مشورے پر زندگی خوشگوار بنانے کے لیے اپنے ہی دو بھتیجوں کو اغوا کرکے ذبح کردیا۔ قاتل کی زندگی تو خیر کیا خوشگوار ہوتی خود پیر صاحب بھی پولیس کے ہتھے چڑھ گئے۔

بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ انفرادی و اجتماعی قتل کو بھلے آپ اسباب و محرکات کے کتنے اور کیسے ہی لبادے پہنا دیں۔ مگر اس سوال کا کیا جواب ہے کہ اگر کوئی دماغی کمی یا محرومی ہی انسان کو قاتل بناتی ہے تو پھر دنیا کی آٹھ ارب آبادی میں سے آدھے یا ایک چوتھائی یا دس فیصد  لوگ قاتل کیوں نہیں ؟
آبادی کے اعتبار سے دنیا کے چھٹے بڑے ملک پاکستان میں اس وقت کوالیفائیڈ ماہرینِ نفسیات کی تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہے۔ جب کہ ایک دوسرے سے بیگانہ ہمسائیوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ایسے میں کون کون قاتل آپ کے پڑوس میں رہ رہا ہے، کیا آپ جانتے ہیں؟جب آپ جانتے ہی نہیں تو اسباب پر خاک غور ہوگا۔ بس سزا دیتے چلے جائیں اور اگلے برس پھر اتنی ہی قاتل کھیپ کی مزید فصل کاٹتے جائیں۔

قاتل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا

وسعت اللہ خان

سوشل میڈیا کے بے پناہ امکانات

پا ک چین دوستی کا لازوال سفر

$
0
0

پاکستان اور چین کے مابین لازوال دوستی کا سلسلہ گزشتہ 65 برسوں سے جاری
ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ دوستی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔ 1951 میں پاکستان اور چین کے مابین سفارتی تعلقات کا قیام عمل میں آیا۔ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے چین کو تسلیم کیا اس سے پاکستان اور چین کے مابین نئے باہمی تعلقات کا آغاز ہوا جو دونوں ملکوں کے رہنماوں اور عوام کی سطح پر مضبوط تر ہوتے چلے گئے دنیا اور خطے میں سیاسی تغیرو تبدل سے بالاتر دونوں ملکوں کی دوستی پروان چڑھتی رہی جو دیگر ممالک کیلئے ایک مثال ہے پاکستان نے تائیوان، تبت و دیگر مسائل پر ہمیشہ چین کے اصولی موقف کی تائید کی۔ چین نے بھی پاکستان کی علاقائی سلامتی، آزادی اور حفاظت کیلئے کھلے دل کے ساتھ پاکستان کی حمایت کی اور مخلصانہ خود غرضی سے پاک مالی معاونت کے ذریعے پاکستان کی معاشی اور معاشرتی ترقی کے حصول اور استحکام کے لیے پاکستان کی مدد کی۔

اِس سے قبل کہ پاکستان کے چین کے ساتھ حالیہ تعلقات کا جائزہ لیا جائے بہتر ہوگا کہ سفارتی تعلقات کے قیام سے اُن منصوبوں کا ذکر کیا جائے جو چین نے پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے شروع کیے۔ اِن منصوبوں میں پہلا منصوبہ ہیوی مکینیکل کمپلیس ٹیکسلا کا قیام ہے جس نے پاکستان کی معاشی ترقی میں بے مثال کردار ادا کیا۔ پاکستان میں جتنی صنعتی ترقی ہوئی یا ہو رہی ہے وہ مکینیکل کمپلیکس ٹیکسلا کی ہی مرہون منت ہے۔ قراقرم ہائی وے کا ذکر کیا جائے تو یہ شاہراہ دونوں ممالک کے مابین دوستی کا ایک اہم سنگ میل قرار دی جاسکتی ہے۔ قراقرم ہائی وے جسے دنیا کا آٹھواں بڑا عجوبہ بھی کہا جاتا ہے نے نہ صرف دونوں ملکوں کی تجارت بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ گلگت بلتستان کی ترقی میں بھی اِس شاہراہ کا اہم کر دار ہے۔ پاکستان کو توانائی کے مسائل پر قابو پانے کیلئے بھی چین کی کوششوں اور سرمایہ کاری سے انحرا ف نہیں کیا جاسکتا۔
گلگت، بلتستان اور کشمیر میں انرجی سیکٹر میں بہت سے منصوبے شروع کے گئے ہیں۔ چین نیوکلئیر پاور سیکٹر میں بھی پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔ 330 میگاواٹ کا چشمہ پاور پلانٹ پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے جبکہ چشمہ کے مقام پر ہی چین کی مدد سے دو ا یسے ہی پاور پلانٹ چشمہ4, اور5پر بھی کام جارہی ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ یہ منصوبہ 2017 میں مکمل ہو جائے گا یہ دونوں منصوبے نیشنل پاور گرڈ میں کئی سو میگاواٹ کا اضافہ کریں گے جِس سے توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں کافی مدد ملے گی ۔ چین اور پاکستان کے مابین تجارت کو بھی توسیع دی جارہی ہے۔ چین پاکستانی مصنوعات کا پانچواں بڑا درآمد کنندہ ہے اس کے علاوہ چین کی مختلف کمپنیاں تیل وگیس ، آئی ٹی انجینئرنگ مائنز سیکٹر اورہاوسنگ و مواصلات کے شعبہ میں بھی 300 ملین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔

پاکستان اور چین کے تعلقات ہر نشیب وفراز سے بالاتر مستحکم سے مستحکم تر ہوتے جارہے ہیں یہ دوستی صرف دونوں ممالک کی حکومتوں تک ہی محدود نہیں بلکہ دونوں ہمسایہ ممالک کے عوام بھی ایک دوسرے سے گہری محبت اور پیار رکھتے ہیں۔ قدرتی آفات میں بھی دونوں ممالک نے دل کھول کر ایک دوسرے کی مدد کی ہے ۔ پاکستان اور چین کی یہ دوستی نہ ختم ہونے والی دوستی ہے۔ وزیراعظم پاکستان محمد نوازشریف نے اسی دوستی کے ناطے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد اپنے غیر ملکی دورہ کیلئے جس ملک کا انتخاب کیا وہ چین ہی تھا ۔ اس دورہ کے دوران پاکستان سے اقتصادی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کیلئے نئی راہیں تلاش کرنے پر اتفاق کیا گیا جن کے نتائج آج چین پاکستان اقتصادی راہداری کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔

پانچ جولائی 2013کو چین اور پاکستان نے 46ارب ڈالر کی چین پاکستان اقتصادی راہداری کی منظوری دی ۔ اس منصوبہ کے تحت بحیرۂ عرب پر واقع پاکستان کی گوادر بندر گاہ کو چین کے شہر کا شغر سے ملانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے ۔ 24دسمبر 2013کو چین نے کراچی میں 1100میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے دو ایٹمی ری ایکٹر ز لگانے کا وعدہ کیا جن پر لاگت کا تخمینہ ساڑھے چھ بلین ڈالر ہے اور یہ فنڈز چین فراہم کرے گا ۔ 2014میں چین کے وزیراعظم نے پاکستان میں توانائی ، بنیادی ڈھانچہ اور گوادر بندرگاہ کی توسیع کے لیے 31.5بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا جبکہ ابتدائی طور پر پندرہ سے بیس بلین ڈالر کے منصوبوں جن میں لاہور کراچی موٹروے ، گوادر بندر گاہ کی توسیع اور توانائی کے بڑے منصوبے جن میں گڈانی اورر تھر کول فیلڈ کے نزدیک توانائی کے چھ منصوبے لگانے کی ابتدا کی گئی ۔ اسی دوران صدر پاکستان جناب ممنون حسین نے چین کا پہلا سرکاری دورہ بھی کیا ۔ جبکہ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے 9سے 11اپریل تک باؤ فورم برائے ایشیاء میں شرکت کی ۔صدر پاکستان نے دوبارہ چین کا دورہ کیا اور سیسا (CICA)کا نفرنس 2014 میں شر کت کی ۔

22 مئی 2014 کو حکومت پاکستان اور چین کے مابین لاہور میں 27.1کلومیٹر لمبے لاہور میٹرو ٹرین پروجیکٹ جس پر لاگت کا تخمینہ 1.27بلین ڈالرہے کے معا ہدے پر دستخط ہوئے نو مبر 2014میں وزیر اعظم محمد نواز شریف نے چین کا ایک اور دورہ کیا اس دورہ کے دوران چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت 19معاہدوں پرد ستخط ہوئے جس کے تحت چین پاکستان میں مختلف منصوبوں پر 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا ۔20اپریل 2015کو چین کے صدر نے پاکستان کا دورہ کیا چین کے صدر کا نو سال بعد پاکستان کا پہلا غیر ملکی دورہ تھا ۔ اس دورے میں چین پاکستان اقتصادی راہداری سمیت 51 یادواشتوں پر دستخط ہوے ۔اقتصادی تعلقات کے علاوہ چین نے ہر بُرے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا 2005میں چین میں زلزلہ اور 2008میں پاکستان میں زلزلہ کے وقت دونوں ملکوں نے وسائل سے بڑھ کر ایک دوسرے کی مدد کی ۔ چین نے 2008کے زلزلہ میں پاکستان کیلئے 6.2ملین ڈالر کی امداد فراہم کی جبکہ ڈیڑ ھ لاکھ کے قریب کمبل 3380خیمے و دیگر سامان فراہم کیا گیا جس کی مجموعی مالیت 20.5ملین ڈالر ہے اسی طرح چین میں مئی 2008میں زلزلہ آیا تو حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتوں نے خیمے، کمبل اور جان بچانے والی ادویات بھیجیں اسی طرح 2010کے سیلاب میں نقصانات کے ازالہ کیلئے چین نے پاکستان کو 250ملین ڈالر کی امداددی یہ کسی بھی ملک کی طرف سے پہلی مرتبہ اتنی بڑی امداد تھی ۔

چین نے پاکستان کے ساتھ دفاعی شعبہ میں بھی بہت تعاون کیا ۔ چین نے نہ صرف پاکستان کو اسلحہ فراہم کیا بلکہ دفاعی طور پر پاکستان کو مضبوط بنانے کیلئے پاکستان کے اندر بھی اسلحہ کی تیاری کیلئے اسلحہ ساز فیکٹریوں کے قیام میں معاونت کی جن میں پاکستان ایرونائیکل کمپلیکس ، ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا، پاکستان آرڈیننس فیکٹریز،پاکستان نیوی کے دفاعی منصوبے اور میزائل فیکٹریاں بھی چین کے تعاون سے کام کر رہی ہیں ۔

پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ میں جے ایف 17تھنڈر فائٹر طیاروں کی تیاری بھی پاک چین دوستی کی ایک زندہ مثال ہے یہ طیارے برآمد بھی کیے جاسکیں گے ۔ قطر اور سری لنکا نے اِن طیاروں کی خریداری میں دلچسپی کا بھی اظہار کیا ہے اس طرح پاکستان کثیر زرمبادلہ بھی کما سکے گا ۔ 1965اور1971کی جنگوں میں چین نے بھر پور طریقے سے پاکستان کی اخلاقی ،سفارتی اور مالی امداد کی ۔ چین نے نہ صرف کشمیر پر پاکستان کے بھر پور موقف کی حمایت کی بلکہ بھارت کے کشمیر پرظالمانہ قبضہ کی مخالفت اور مذمت کی ہے ۔ اس کے علاوہ بہت سے ایسے منصوبے ہیں جو پاکستان اورچین کے اشتراک سے جاری ہیں اس کے علاوہ بے شمارایسے منصوبے ہیں جو یا تو چین کی مدد سے مکمل ہو چکے ہیں یا زیر تکمیل ہیں۔

چین اور پاکستان نہ صرف ہمسایہ ملک ہیں بلکہ ان کی مضبوط دوستی کی لمبی تاریخ ہے عالمی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بہت کم ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ پاکستان اور چین کی دوستی کی طرح کوئی اور مثال مل سکے۔ ہمیں پاک چین تعلقا ت کی 65ویں سالگرہ مناتے ہوئے اِن دوستی کے رشتوں کو اور مضبوط بنانا ہے اور دنیا پر ثابت کرنا ہے کہ دونوں ملکوں کی حکومتوں اور عوام کے دلوں میں پائی جانے والی یہ دوستی اور محبت مضبوط تو ہو سکتی ہے اسے ختم نہیں کیا جاسکتا ۔

ارشد بشیر

افغانستان میں نیا گیم پلان

$
0
0

ملا منصور کی موت کی خبر پر پوری دنیا یقین کر رہی ہے، اب تو امریکی صدر
نے بھی کہہ دیا ہے، پاکستان ابھی تحقیق کر رہا ہے۔ ایک دوست نے مجھے فون کر کے بہت غصہ کیا کہ اس میں تحقیق کرنے والی کونسی بات ہے، مر گیا تو مر گیا۔ جب امریکی کہہ رہے ہیں تو مان لیں۔ میں نے کہا کہ ابھی طالبان نے نہیں مانا، شائد اس لئے پاکستان انتظار کر رہا ہے کہ طالبان پہلے اعلان کر دیں کہ واقعی ملااختر منصور مر گیا،تو میرے دوست نے کہا طالبان کا تو اس ضمن میں ٹریک ریکارڈ زبردست ہے۔ انہوں نے تو دو سال تک ملا عمر کی موت تسلیم نہیں کی تھی اور ایک مرے ہوئے امیر کے ساتھ ہی دو سال تک نہ صرف لڑائی چلائی بلکہ امن عمل کو بھی بہت آگے بڑھا دیا۔ ان کے لئے اب بھی کیا مشکل ہے کہ اگر وہ کچھ دن خاموش رہیں اور ابہام کو باقی رکھیں۔

ویسے تو امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ملا اختر منصور کو ڈرون حملہ سے نشانہ بنانے کی بنیادی وجہ یہ بتائی ہے کہ وہ افغان امن عمل کے مخالف تھے، اس لئے ان کو نشانہ بنا یا گیا۔ لیکن اس ضمن میں واحد سوال یہ ہے کہ یہ بات تو تسلیم کی جا رہی ہے کہ ملا عمر کی موت کی خبر کو ملا اختر منصور نے ہی دو سال تک پوشیدہ رکھا، اور دراصل ملا اختر منصور دو سال تک اپنے احکامات کو ملا عمر کے احکامات ظاہر کر کے افغان طالبان کو چلا تا رہا۔ اسی دوران پاکستان کے علاقہ مری میں جو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات ہوئے تب بھی ملا عمر تو انتقال کر چکے تھے، اور ملا اختر منصور ہی دراصل ان مذاکرات کو گرین سگنل دے رہا تھا، تا ہم جب مذاکرات کامیاب ہو تے نظر آئے تو سی آئی اے نے ملا عمر کے انتقال کی خبر بریک کر دی اور اس طرح امن مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے۔
کہا جاتا ہے کہ ملا اختر منصور ملا عمر کے انتقال کی خبر کے باہر آنے کے خلاف تھے کیونکہ اس سے طالبان میں انتشار پیدا ہوا اور وہ اس پر سی آئی اے سے نا لاں بھی تھے کہ سی آئی اے نے طالبان کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے بعد سے امریکہ اور ملا منصور کے تعلقات کشیدہ تھے، یہی کشیدہ تعلقات دراصل افغان امن عمل کی بحالی میں رکاوٹ تھے۔ امریکہ ملا منصور کے ساتھ اعتماد کا رشتہ بحال کرنے میں نا کام رہا، لیکن یہ کہنا کہ ملا منصور امن عمل کی راہ میں رکاوٹ تھے درست نہیں کیونکہ ملا منصور اور طالبان کا موقف تھا کہ سی آئی اے خود امن عمل کی مخالف ہے ۔ جس کا ثبوت ملا عمر کی موت کی خبر کو غلط موقع پر بریک کرنا ہے۔

ملا اختر منصور اور سی آئی اے کے درمیان یہی سرد جنگ گلبدین حکمت یار کی افغان امن عمل میں انٹری کا باعث بنی ورنہ یہ وہی گلبدین حکمت یار تھے جن کو امریکہ نے پہلے پاکستان سے نکلوایا اور وہ ایران میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے او ر بعد میں امریکہ نے گلبدین کو ایران سے بھی نکلوایا۔

1998 میں تہران میں گلبدین حکمت یار سے ملا اور میں نے ان کا ایک طویل انٹرویو کیا۔ میں جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کا رقعہ لیکر گیا تھا، جس کی وجہ سے وہ مجھ سے ملے۔ وہ طالبان کے سخت خلاف تھے، ان کے طرز حکومت کو غیر اسلامی اور افغانستان کے لئے زہر قاتل سمجھتے تھے۔ وہ ملا عمر کو کسی بھی طرح امیر المومنین ماننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ وہ پاکستان کے سخت مخالف ہو چکے تھے کہ پاکستان نے ان کو رد کر کے طالبان کو افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے میں مدد دی ہے۔ مجھے ان سے تب ملکر اندازہ ہو اکہ وہ پاکستان کے سخت مخالف ہو چکے تھے۔ ان کے خیال میں پاکستان نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے، وہ سمجھتے تھے کہ ضیاء الحق کی موت دراصل افغانستان کے لئے زہر قاتل تھی۔

آج ملا ختر منصور کو ڈرون حملہ میں ہلاک کر کے گلبدین حکمت یار کو امن عمل میں شامل کرنا دراصل پاکستان کی افغانستان میں عملداری کو ختم کرنے کی ایک اور سازش ہے۔ یہ طالبان میں سے پاکستان کی حمائت ختم کرنے کی سازش ہے اور طالبان میں سے ایک ایسے دھڑے کو آگے لانے کی سازش ہے جو پاکستان مخالف ہو، اسی لئے پاکستان کوئی بھی رد عمل دینے میں محتاط ہے۔ گلبدین اب پاکستان نہیں ایران کے حامی ہیں، ان کو جب سے پاکستان نے نکالا ہے وہ ایران کے در پر ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس وقت ایران میں ہیں، انہوں نے افغان ایران بھارت ٹریڈ معاہدہ بھی کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایران بھارت افغانستان میں ایک ہیں اور پاکستان دوسری طرف ہے، ایران شروع سے طالبان کے خلاف رہا ہے، اسی لئے اس نے گلبدین کو پناہ بھی دی تھی۔ اب جب ایران کی امریکہ سے صلح ہو گئی ہے تو گلبدین بھی امریکہ کوقا بل قبول ہو گیا ہے۔

امریکہ مسلسل پاکستان سے ناراضگی کے سگنل دے رہا ہے، پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، ایف سولہ روک دئے گئے، امداد روک دی گئی،۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا معاملہ غیر ضروری اہم کر دیا گیا۔ سب کو نظر آرہا تھا کہ امریکہ ناراض ہے، اب ملا اختر منصور کو ماردیا گیا ہے، یہ سب سی آئی اے کا آئی ایس آئی کو پیغام ہے اور یہ سی آئی اے اور آئی ایس آئی کی ہی لڑائی ہے اور ان دونوں نے ہی اس کو حل کرنا ہے، کیونکہ ملا اختر منصور کو آئی ایس آئی کا حمائتی کہا جاتا تھا اور اس کی وجہ سے پاکستان کی طالبان پر گرفت تھی۔ نئے امیر کے آنے تک ابہام رہے گا اور شائد آئی ایس آئی اس وقت نئے امیر کے عمل میں مصروف ہے، اسی لئے سب کچھ جامد نظر آرہا ہے۔

مزمل سہروردی


پاناما لیکس اور عالمی تغیر وتبدل : پروفیسر خورشید احمد

$
0
0

تین اپریل 2016ء کو ایک ایسی خبر نے پوری دنیا میں ایک ہیجان برپا کر دیا، جس کے بارے میں کسی کو کوئی وہم و گمان بھی نہ تھا اور جو قدرت کا ناگہانی تازیانہ بن کر نازل ہوئی۔ جرمنی کے ایک اخبار نے ’پاناما لیکس‘ (Panama Leaks) کے نام سے عالمی سطح پر کالے دھن کے کاروبار، اس کی وسعت اور ستم کاریوں کے بارے میں ایک کروڑ سے زیادہ دستاویزات کا راز فاش کیا۔ اس خبر نے دنیا کے گوشے گوشے میں، مالیاتی اور سیاسی میدانوں میں زلزلے کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ 2 لاکھ 24 ہزار نمایشی کمپنیاں ہیں اور کم از کم 32 ٹریلین ڈالر (32 کھرب ڈالر) کا سرمایہ 30 ٹیکس چوری کی پناہ گاہوں میں ہے جو دنیا کی کُل سالانہ دولت کا ایک تہائی ہے۔ جو نمایشی کمپنیاں ہر طرح کے ٹیکس اور ریاستی نگرانی کے نظام سے بالا ہو کر اپنا کھیل کھیل رہی ہیں، انہیں پاناما میں قانون کا تحفظ حاصل ہے۔ حیرت انگیز طور پر 146 عالمی لیڈر اس کالے کھیل میں بلاواسطہ یا بالواسطہ ملوث ہیں، اور مزید سیکڑوں چہروں سے پردہ اُٹھنے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔

’آف شورکمپنی‘ کا لفظ جو ایک محدود حلقے ہی میں پہچانا اور بولا جاتا تھا، اب زبانِ زد عام وخاص ہے۔ ٹیکس سے بچاؤ کی پناہ گاہیں (Tax Havens) جو سرمایہ داروں، بڑی بڑی کارپوریشنوں اور بنکوں کی کمین گاہیں بن گئی تھیں، اب وہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہیں۔ بڑے بڑے سیاست دانوں، تاجروں، صنعت کاروں، حتیٰ کہ ججوں اور خیراتی اداروں کو بھی کالے دھن کے تاجروں اور پجاریوں کی صف میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس انکشافی آندھی سے ابھی تو ڈیڑھ سو کے قریب عالمی شخصیات کے چہروں سے پردہ اُٹھا ہے۔ یہ صرف پہلی قسط ہے، جسے سمندر میں تیرتے ہوئے برف کے پہاڑ کا محض چھوٹا سا حصہ کہا جا رہا ہے۔ بس بارش کے چند پہلے قطرے۔ موسلادھار بارش کی پیش گوئیاں تو ۹مئی سے بعد کے زمانے سے منسوب کی جا رہی ہیں۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
آئس لینڈ کے وزیراعظم، یوکرین کے صدر، اسپین کے وزیر صنعت و حرفت، FIFA (’فیفا‘ فٹ بال کی بین الاقوامی اتھارٹی) کے سربراہ اور نصف درجن اربابِ اقتدار مستعفی ہو چکے ہیں۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی اخلاقی ساکھ بُری طرح متاثر ہوئی ہے اور اپنے سارے حسابات پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کے باوجود، ان کا قد کاٹھ کم ہوا ہے اور وہ دفاعی پوزیشن میں آ گئے ہیں۔ وہ مالیات کی نگرانی کے نظام اور خصوصیت سے کارپوریشنوں اور آف شور کمپنیوں کے کردار میں بنیادی تبدیلیوں کے باب میں فوری اقدام کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

ان کے علاوہ ڈیوڈ کیمرون کے وزیرخزانہ، پارلیمنٹ میں لیڈرآف دی اپوزیشن اور متعدد اہم شخصیات نے اپنی آمدنی، ٹیکس ادایگی کی تفصیلات اور ذاتی مالی صورتِ حال، تحریری شکل میں، رضاکارانہ طور پر پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے پیش کردی ہے۔ اس طرح انھوں نے بجا طور پر ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو جواب دہی سے بالاتر نہیں سمجھ رہے۔ یہاں پر یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ جمہوریت کی جو بھی خوبیاں اور خامیاں ہوں، ان میں سب سے اہم چیز قیادت کی اخلاقی ساکھ ہوتی ہے۔ سر آئیور جنگز کی کتاب Cabinet Government (کیمبرج یونی ورسٹی پریس،1959ء) علمِ سیاسیات میں کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ: جمہوریت میں اصل چیز قیادت کی اخلاقی ساکھ ہے۔ اگر اس پر حرف آ جائے تو پھر حکمرانی کا جواز باقی نہیں رہتا۔ ہمارے دستور میں بھی ایک دفعہ سیاسی قیادت کے صادق اور امین ہونے کے بارے میں ہے۔ لیکن افسوس کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو اپنے دستور کا یہ حصہ یاد رکھنے کی فرصت ہی نہیں!

یورپ کے پانچ ممالک اور دنیا کے 30 سے زیادہ ممالک کے نظامِ احتساب و اصلاح میں تبدیلیوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ آف شور کمپنیوں کو قانون کی گرفت میں لانے اور کالے دھن کو قابو میں کرنے کی بات اب سر فہرست آ گئی ہے۔ ایک طرف احتساب کا عمل ہے، جو حرکت میں آرہا ہے، تو دوسری طرف کالے دھن کا پورا تصور، ٹیکس سے چھوٹ کے مراکز (Tax Haven) کا وجود، اس سلسلے کے قانونی، سیاسی اور اخلاقی پہلوؤں پر سوچ بچار اور مالی معاملات میں شفافیت (transparency) کی ضرورت کو وقت کے اہم ترین مسئلے کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ ہزاروں افراد اور اداروں سے جواب طلبی ہو رہی ہے۔ دنیا کے پورے مالی دروبست اور ٹیکس کے نظام پر بنیادی نظرثانی کی ضرورت کو اُجاگر کیا جارہا ہے۔ یہ کوئی معمولی تبدیلی نہیں۔ ایک شر سے بہت سے خیر کے رُونما ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں، حتیٰ کہ امریکا جس کی نصف درجن ریاستیں ٹیکس سے چھوٹ کے مراکز کا درجہ رکھتی ہیں اور جس کے نتیجے میں وہ دنیا کے ان 30 ممالک میں، جو ٹیکس چوری کی پناہ گاہ ہیں اور تیسرے نمبر پر ہے (یعنی پاناما سے بھی اُوپر ہے) اس کے صدر بارک اوباما کو کہنا پڑا ہے کہ:
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ عالمی سطح پر ٹیکس کی ادائیگی سے بچنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہمیں اسے اس لیے قانونی نہیں بنانا چاہیے کہ محض ٹیکسوں کی ادایگی سے بچنے کے لیے رقوم کی منتقلی (transactions) میں مصروف ہوا جائے، جب کہ اس پر زور دیا جانا چاہیے کہ اسے یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہرشخص ٹیکس کے سلسلے میں اپنا مناسب حصہ ادا کرے۔ (دی گارڈین، 5؍اپریل 2016ء)

امریکی اٹارنی براے مین ہیٹن، مسٹر پریٹ بھرارے نے امریکا کی ان تمام کمپنیوں، جن کا نام موجودہ فہرست میں آیا ہے اور جن کی تعداد 200 ہے ، ان کے بارے میں کہا ہے کہ ان 200کمپنیوں کے بارے میں باقاعدہ تفتیش اور تحقیقات کا آغاز کیا جا رہا ہے (واضح رہے کہ پاکستانی میڈیا پر کہا جارہا ہے کہ ’’امریکا کی کوئی کمپنی اس فہرست میں شامل نہیں‘‘، یہ درست بات نہیں ہے)۔ (دیکھیے: دی انڈی پنڈنٹ، لندن،20؍اپریل 2016ء)

بلاشبہ پاکستان کی بڑی سیاسی قیادت، کاروباری شخصیات، حتیٰ کہ ایک سابق اور ایک موجودہ جج تک آف شور کمپنیوں کے اس انکشاف کی زد میں ہیں اور یہ ایک بڑا اہم مسئلہ ہے۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ پورے مسئلے کو اس کے عالمی تناظر میں دیکھا جائے اور وہ راستہ اختیار کیا جائے، جس کے نتیجے میں ایک طرف کالے دھن کا کاروبار کرنے والے افراد اور اداروں پر ریاست کی اور عالمی احتسابی نظام کی بھرپور گرفت ہوسکے، تو دوسری طرف ظلم اور استحصال کے اس نظام کا ملک ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر قلع قمع کیا جاسکے، جس کی وجہ سے کرپشن، معاشی دہشت گردی اور لوٹ مار کی لعنت نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں مفادپرستی، نفع اندوزی، دولت کی شرم ناک عدم مساوات (obscene inequalities) اور انسانوں کے بڑے طبقے کی محرومیاں زندگی کی تلخ حقیقت بن گئی ہیں۔

اگر یہ کھیل قانون کی کھلی کھلی خلاف ورزی کر کے انجام دیا جائے، تو اسے ’فرارِمحاصل‘ یا فرارِ ٹیکس (Tax Evasion) کہتے ہیں اور اگر اس حوالے سے قانون کے کسی سقم سے راستہ نکالا جائے تو اسے ’اجتنابِ ٹیکس‘ (Tax Avoidance) کہتے ہیں۔ آف شور کمپنیوں کے ذریعے دونوں ہی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ نیز آمدنی اور اس کے اصل ذرائع کو مخفی (secret) رکھا جاتا ہے، اور حسابات اور مالی معاملات کو اس طرح مرتب کیا جاتا ہے کہ اصل نفع راز بھی رہے اور ٹیکس کی مشینری کی گرفت میں بھی نہ آئے۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ کھلے کھلے دھوکے کا ایک ’خوش نما‘ نام ہے اور ہاتھ کی صفائی کی جادوگری ہے۔ قانون کو ہوشیاری سے توڑا جائے یا قانون کو بھونڈے طریقے سے توڑا جائے، اخلاقی طور پر دونوں قبیح فعل ہیں اور اپنی روح کے اعتبار سے جرائم ہیں۔ اس لیے قانون کے باب میں کہا جاتا ہے کہ اس کی پاس داری لفظی اور معنوی اعتبار سے (in letter and spirit) کی جانی چاہیے۔

آج پاکستان میں ملکی سطح پر نگاہ ڈالیں یا عالمی سطح پر نظر دوڑائیں تو ہرطرف تبدیلی کی لہریں موج زن نظر آ رہی ہیں۔ صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ پرانا نظام دم توڑ رہا ہے اور زمانہ نئے نظام کو دعوت دے رہا ہے۔ لیکن یہ بھی اللہ کا قانون ہے کہ بہتر تبدیلی اس وقت آتی ہے، جب افراد اور اقوام ایسے تاریخی لمحات کے موقعے پر خاموش تماشائی نہیں بنتے، بلکہ حق و انصاف کے حصول اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے صحیح خطوط پر مؤثر اور قرار واقعی جدوجہد کرتے ہیں، قربانیاں دیتے ہیں، اور بدی کو نیکی، خیر اور حسن سے بدلنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں۔

اس وقت پاکستان، عالمِ اسلام اور پوری دنیا ممکنہ تبدیلی کے ایک ایسے ہی تاریخی لمحے کے موڑ پر کھڑی ہے۔ کیا ہم تاریخ کی پکار پر لبیک کہنے کو تیار ہیں؟

 پروفیسر خورشید احمد
بشکریہ روزنامہ "نئی بات"


بس ڈرائیور کا پاکستانی بیٹا لندن کا میئر

$
0
0

 برطانوی لیبر پارٹی کے پاکستانی نژاد رکن صادق خان لندن کے میئر بن گئے۔ غیرسرکاری حلقوں نے انتخابات کے نتائج سے قبل ہی اس استحقاقی جیت کا ذکر کر دیا تھا۔ بس ڈرائیور کا بیٹا یورپ کے اس اہم ترین دارالحکومت کا میئر بن گیا جو ایک طویل سامراجی اور تہذیبی تاریخ رکھتا ہے۔ تاہم صادق خان اپنی شناخت، مذہب یا پاکستانی نژاد ہونے کی بنیاد پر نہیں جیتا بلکہ ایک ایسے برطانوی ہونے کی بنیاد پر کامیاب ہوا جس کی اپنی اور کسی بھی دوسرے برطانوی کی ہم وطنی میں کوئی فرق نہیں۔ وہ ریاست، ہم وطنی اور ذاتی اہلیت کے حقیقی معنی کے ضمن میں جیت کا مستحق ٹھہرا۔
تقریبا دو دہائیوں سے یورپ اپنے افکار اور نظریات کے ذریعے ریاست کے معنی کی پختہ سالی میں مصروف عمل ہے۔ ہم وطنی کے تحت "سماجی معاہدے"کو زیربحث لا کر اس آئندہ معنی کو واضح کیا گیا۔ وہ معنی یہ ہے کہ انسان اپنی وابستگی کے مقام کی یا اپنی پیدائش کی بنیاد پر نہیں پرکھا جاتا بلکہ زمینی حقائق کی بنیاد پر جانچا جاتا ہے۔ صادق خان کی جیت ان ہزاروں افراد اور پناہ گزینوں کے سامنے ایک کامیاب اور شاندار نمونہ پیش کرتی ہے جو اچھی زندگی گزارنے کے واسطے یورپ کا رخ کرتے ہیں۔ یہ جیت اس بات کا پیغام ہے کہ یہ ممالک مضبوط اداروں اور نظام کے پابند ہیں اور یہ کہ اپنی مستقبل کی شناخت میں ضم ہو جانے سے آپ کے لیے اس ملک کے اصل باشندوں کے مساوی مواقع یقینی ہو جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ قوانین، نظام اور ثقافت کی پاسداری کے ذریعے حاصل ہونے والے میل ملاپ، شناخت کی سمجھ بوجھ اور ہم وطنیت کے اثبات کا نتیجہ ہے۔

صادق خان، بس ڈارئیور کا بیٹا، مسلمان، پاکستان سے ہجرت کرنے والا، یہ تمام عوامل اسے انگریزوں کا مقابلہ کرنے اور اہل وطن کے ووٹوں کے ذریعے اس منصب تک پہنچنے سے نہ روک سکے۔ یہ ریاست سے تعلق، ہم وطنی کو یقینی بنانے اور میل ملاپ اور گھل مل جانے کی سادہ سی مثال ہے۔

بشکریہ روزنامہ "عکاظ "

ترکی الدخیل
(ترکی الدخیل العربیہ نیوز چینل کے جنرل مینجر ہیں)

سندہ میں خشحالی لانے والا سکھر بیراج ، انگریز دور کی یادگار

شدید گرمی کی لہر... اس سے بچنے کے لیے کیا کریں؟

$
0
0

رواں سال موسم گرما کا آغاز ایک شدید لہر کے ساتھ ہوا ہے۔ گذشتہ برس رمضان المبارک کے آغاز میں ہی ملک بھر میں گرمی کی سخت لہر آئی تھی، جس میں ڈیڑھ سے دو ہزار افراد جان سے چلے گئے تھے۔ اس مرتبہ بھی رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور اس سے پہلے ہی بڑے شہروں میں درجہ حرارت 40 سے 50 درجہ سینٹی گریڈ کے درمیان ہے جبکہ گرمی کے لیے مشہور مقامات یعنی جیکب آباد، سبی وغیرہ میں تو ففٹی مکمل ہو چکی ہے۔ اتنے شدید گرم موسم میں کئی امراض ہو سکتے ہیں، جن کے بارے میں آگاہی بہت ضروری ہے تا کہ ہنگامی صورت میں انہیں پہچانا جا سکے اور فوری طور پر طبی امداد دی جا سکے: گرمی دانے یہ دانے گرمی کے موسم میں کسی کوبھی بے حال کر دیتے ہیں۔ یہ گرم موسم میں حد سے زیادہ پسینہ بہنے کی وجہ سے نکلتے ہیں اور خاص طور پر بچوں کو پریشان کرتے ہیں۔

علامات:ننھے سرخ رنگ کے دانے یا ان کے گچھے، خاص طور پر گردن، بالائی سینے اور بازوؤں وغیرہ پر نکلتے ہیں۔ کیا کریں:اگر ممکن ہو، تو کسی ٹھنڈے اور خشک ماحول کا رخ کریں۔ دانے کی جگہوں کو خشک رکھیں، اس میں پاؤڈر کام آ سکتا ہے اور کسی بھی مرہم یا کریم سے اجتناب کریں کیونکہ یہ جسم کو گرم اور نم رکھتی ہیں، جس سے گرمی دانے مزید بڑھ سکتے ہیں۔ پانی کی کمی یہ تب واقع ہوتی ہے جب عام افعال انجام دینے کے لیے جسم میں کافی پانی نہیں بچتا۔ علامات:چکر آنا، تھکن، چڑ چڑاپن، پیاس، پیلے رنگ کا پیشاب، بھوک کا مٹ جانا، سستی وغیرہ کیا کریں:پانی یا پھلوں کے ہلکے رس پئیں اور چائے، کافی اور دیگر مشروبات سے مکمل اجتناب کریں۔ کسی ٹھنڈی جگہ پر منتقل ہو جائیں، ترجیحاً ایئرکنڈیشنڈ ماحول میں اور اگر ممکن ہو، تو پانی سے بھری ایک سپرے بوتل ساتھ رکھیں تا کہ پھوار کے ذریعے ماحول کو ٹھنڈا رکھ سکیں۔

اگر پھر بھی طبیعت نہ سنبھل رہی ہو ،تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ پٹھوں کا اکڑنا یہ عام طور پر ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے ،جو سخت مشقت کرتے ہیں ،جس کے دوران بہت پسینہ بہتا ہے اور جسم سے نمکیات اور پانی ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے پٹھے اکڑنے لگتے ہیں۔ علامات:پٹھوں میں درد اور اینٹھن۔ یہ گرمی سے ہونے والی تھکان کی ابتدائی علامت بھی ہو سکتی ہے۔ کیا کریں:سب کام روک دیں اور فوری طور پر کسی ٹھنڈی جگہ کا رخ کریں، ترجیحاً ایئرکنڈیشنڈ جگہ کا اور یہاں اپنی ٹانگوں کو تھوڑا سا اوپر اٹھا کر لیٹ جائیں۔ پانی پئیں یا ہلکے پھلوں کے رس کا استعمال کریں۔ نہائیں، پٹھوں کی ہلکی پھلکی مالش کریں تا کہ اینٹھن کم ہو اور کول پیک کا استعمال کریں۔ چند گھنٹوں تک دوبارہ اس سرگرمی میں ہاتھ نہ ڈالیں ،چاہے اینٹھن کم ہی کیوں نہ ہو جائے۔ اگر یہ درد ایک گھنٹے سے زیادہ جاری رہے، تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

تھکان جسم سے پسینے کی صورت میں نمکیات اور پانی کے اخراج کے بعد یہ جسمانی رد عمل ہوتا ہے۔ علامات:بہت زیادہ پسینہ آنا، جلد پیلی ہو جانا اور نبض کی رفتار کم پڑ جانا، تیز اور معمولی سانس پٹھوں میں کمزوری یا اینٹھن، تھکاوٹ اور کمزوری، چکر آنا، سر درد، قے یا متلی وغیرہ کیا کریں:کسی ٹھنڈی جگہ کارخ کریں، ترجیحاً ایئرکنڈیشنڈ ہو اور لیٹ جائیں۔ اضافی کپڑے اتار دیں، ٹھنڈے پانی کے ہلکے ہلکے گھونٹ لیں اور نہائیں۔ بغلوں، گردن کے پچھلے حصوں اور ٹانگوں کے درمیان کول پیک رکھیں۔ اگر علامات ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک برقرار رہیں، تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ ہیٹ سٹروک، یعنی لو لگنا جب جسم کے درجہ حرارت کو مناسب حد تک نہ رکھا جائے اور یہ 40.5 درجہ سینٹی گریڈ سے تجاوز کر جائے ،تو ہیٹ سٹروک ہو جاتا ہے، جسے عام طور پر لولگنا کہتے ہیں۔ یہ گرمی کے موسم کا سب سے خطرناک مرض ہے کیونکہ اس سے جان بھی جا سکتی ہے۔ جسم کے درجہ حرارت کو فوری طور پر کم کرنے کے لیے طبی امداد بہت زیادہ ضروری ہے۔

علامات:جسم کے درجہ حرارت میں یکدم اضافہ ہو جانا، جلد کا سرخ، گرم اور خشک ہو جانا (کیونکہ پسینہ رک جاتا ہے) خشک اور سوجی ہوئی زبان، تیزی سے چلتی ہوئی نبض، تیز لیکن معمولی سانس، شدید پیاس، سردرد، قے اور متلی، چکر آنا، گھبراہٹ، بات کرنے میں مشکلات اور الٹی سیدھی باتیں یا عجیب و غریب رویہ، ہوش کھو بیٹھنا، دورہ پڑنا یا کومے میں چلے جانا،وغیرہ۔ کیا کریں:فوری طور پر ہنگامی مدد طلب کریں، ریسکو 1122 یاایمبولنس کو طلب کریں۔ اضافی کپڑے اتار دیں اور اگر مریض ہوش میں ہو، تو اسے پانی کے ہلکے ہلکے گھونٹ پلائیں۔ جتنی جلدی اور جس طرح ہو سکے، جسم کا درجہ حرارت کم کرنے کی کوشش کریں، جیسا کہ سپرے بوتل سے پانی کا چھڑکاؤ کریں ۔ کپڑے پانی سے تر کر دیں یا جسم پر ٹھنڈا پانی ڈالیں۔ بغلوں، رانوں کے درمیان اور گردن کے پیچھے کول پیک رکھیں۔ ڈسپرین یا پیراسیٹامول ہر گز نہ دیں، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ الٹا مزید نقصان دیں گی۔ 

(اُردو ٹرائب سے مقتبس) 

یوم تکبیر : 28 مئی 1998ء کی روداد

اڑے او امریکہ انکل : وسعت اللہ خان

$
0
0

اڑے او امریکہ انکل ۔۔۔ تو کسی گھمنڈ میں نہ رہنا۔ ہم اپنا اچھا برا خوب جاننے
لگے ہیں۔ وہ دن گئے انکل جب تم ہماری کم سنی و بھول پن کا ناجائز فائدہ اٹھا کے ’چجی‘ دلانے کے بہانے کبھی سیٹو اور کبھی سینٹو میں ورغلا کے لے جاتے تھے اور ہمیں بتایا تک نہیں کہ یہ دونوں تنظیمیں چین اور روس کے ہانکے میں استعمال ہوں گی۔ جانِ جگر انکل! اب ہم اتنے بے وقوف نہیں رہے کہ تمھیں پہلے کی طرح بڈابیر، شمسی، جیکب آباد کے اڈے فضائی حدود سمیت دے دیں۔ خوب سمجھتے ہیں کہ دوستی اور خودمختاری میں کیا فرق ہوتا ہے۔

ہم کل کی طرح اس ڈراوے میں نہیں آئیں گے کہ بچو تم نے ہمارا ساتھ نہ دیا تو سوویت انکل افغانستان کے بعد تمھیں بھی بغیر ڈکارے چٹ کر جائے گا ۔ ہم بڑے ہوگئے ہیں می لارڈ۔ کسی دھونس یا لالچ میں آن کر کسی ایمل کانسی، ملا بدالسلام ضعیف، عافیہ صدیقی یا ریمنڈ ڈیوس کو آئندہ تمھارے حوالے نہیں کریں گے۔ تپڑ ہے تو شکیل آفریدی چھڑا کے لے جاؤ۔ انکل دھیان سے۔ ایک بھی ایبٹ آباد دوبارہ ہوا نا تو ایسا جوابی ردِ عمل دیں گے کہ تمہارے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔ کیا سمجھے؟

پچھلے 12 سال کے دوران پرانی راہ و رسم کی مروت میں رفعِ شر کی خاطر 423 ڈرون حملوں پر 423 بار تم سے پرزور احتجاج کیا۔ مگر تم شاید ہمارے صبر کو ہمارے عزم و ایمان کی کمزوری سمجھتے رہے ہو۔ اب اگر ایک ڈرون بھی ہماری حدود میں بھنبناتا نظر آیا تو پھر تم دیکھنا کہ ہم اس کے ساتھ کیا کیا نہیں کرتے۔
یہ انیس سو پچاس، ساٹھ، اسی، نوے نہیں حضور کہ ہم پیسے کی دمک اور نوٹ کی خوشبو پر لہلوٹ ہوجاتے تھے۔ یہ دو ہزار سولہ ہے انکل، اب ہمیں کسی اچھے خان کی ضرورت نہیں، اپنے پاؤں پر انکل چین کی مدد سے کھڑے ہونا خوب جانتے ہیں۔
اور تو بھی سن ابے او پڑوسی ملک۔ کیا نان سٹیٹ ایکٹر ویکٹر کی ٹر ٹر لگا رکھی ہے۔ خود انھیں گھسنے سے کنٹرول نہیں کرسکتا اور تڑیاں ہمیں دیتا ہے۔ ابے چل  بہت بکواس سن لی۔ باسٹھ میں انکل چین سے پٹنے کے بعد پینسٹھ، اکہتر، ننانوے میں ہمارے ہاتھوں اپنی ٹھکائی بھول گیا کیا؟ کیا کہا؟ بکواس کر رہا ہوں؟ کبھی درسی کتابیں پڑھی ہیں ہماری؟ بچہ بچہ جانتا ہے کہ تیرے ساتھ ہم نے کیا کیا کیا اور سن ہم اس دھونس میں نہیں آنے کے کہ انکل امریکہ نے اب تیرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ واہ میرے سورما! کیا ایران اور افغانستان کو ساتھ ملا کر ہمیں گھیرے گا زنخے؟ مرد کا بچہ ہے تو اکیلا آ نا ۔ 

اوئے افغانی؟ ہماری بلی ہمیں کو میاؤں ۔۔۔ چل تو بھی ارمان پورا کر لے۔ امریکہ کے کندھے پر بیٹھ کر ایران اور انڈیا کے ساتھ امن کے گیت گا بجا لے۔ کل کو آنا تو ہمارے پاس ہی ہوگا نا۔ تب کر لیں گے تجھ سے حساب کتاب۔ یہ جو تیرے لاکھوں ہوتے سوتے ہمارے ہاں بس گئے ہیں ان کا حساب کتاب ہی تیرے حواس ٹھیک کرنے کو کافی ہوگا۔ اوئے ایرانی ۔۔۔ سوری ۔۔۔ محترمِ برادرِ من ۔۔۔ آپ سے ایسی توقع نہ تھی آغا کہ آپ بھی ازقسمِ ممالکِ ہائے ٹچگان کے بہکاوے میں آجائیں گے۔ وہ شعر تو آپ نے سنا ہی ہوگا آغا کہ دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف وغیرہ وغیرہ ۔ ٹھیک ہے برادر ۔۔۔ سب ہماری طرف انگلیاں اٹھا رہے ہیں تم بھی اٹھالو ۔۔۔ تم بھی ایک ہاتھ مار لو ۔۔۔ کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں ۔۔۔

لیکن لیکن اگر تم میں سے کسی نے بھی ہماری سالمیت، خودمختاری اور آزادی اور خوداری کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش بھی کی تو ہم ۔۔۔تو ہم ۔۔۔ ارے ۔۔۔ یہ بھی اتنی جلدی خالی ہوگئی ۔۔۔ کیا ٹائم ہوا ہے دوست؟ یارو ایک سگریٹ ہی پلا دو ذرا۔۔۔

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

حضرت عثمان مروندی لال شہباز قلندر رحمت اللہ علیہ

$
0
0

لال شہباز قلندر جن کا اصل نام سید عثمان مروندی تھا، سندھ میں مدفون ایک
مشہور صوفی بزرگ تھے۔ ان کا مزار سندھ کے علاقے سیہون شریف میں ہے۔ وہ ایک مشہور صوفی بزرگ، شاعر، فلسفی اور قلندر تھے۔ ان کا تعلق صوفی سلسلہ سہروردیہ سے تھا۔ ان کا زمانہ اولیائے کرام کا زمانہ مشہور ہے۔ مشہور بزرگ شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی، شیخ فرید الدین گنج شکر، شمس تبریزی، جلال الدین رومی اور سید جلال الدین سرخ بخاری ان کے قریباً ہم عصر تھے۔ حضرت شیخ عثمان مروندی المعروف لال شہباز قلندر کا 571 واں عرس مبارک ہر برس شعبان کی اٹھارہ تاریخ سے سہیون شریف میں ہوتاہے , سندھ کی تاریخ میں بالعموم اور پاک و ہند کی تاریخ میں بالخصوص عرس لال شہباز قلندر بہت بڑی ثقافتی , مذہبی اور سماجی سرگرمی ہے جس میں پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ ہر سال شریک ہوتے ہیں , یہ عرس مبارک پاکستان بھر میں قلندری صوفی سلسلے سے وابستہ درویشوں اور فقیروں کے باہم میل ملاقات کا سبب بھی بنتا ہے۔
حضرت شیخ عثمان مروندی کے آباء و اجداد بغداد سے ہجرت کرکے افغانستان کے علاقے مروند میں آباد ہوئے تھے اور ان کے والد محترم شیخ کبیرالدین سلسلہ سہروردیہ کے مشایخ میں شمار ہوتے تھے خود حضرت شیخ عثمان مروندی بھی سلسلہ سہروردیہ سے وابستہ تھے۔ شیخ عثمان مروندی شہباز قلندر 1196 کے آس پاس افغانستان سے پاکستان آئے اور انہوں نے اس دوران سہیون میں قیام کیا اور یہ زمانہ محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری کے خاندانوں کی حکمرانی کا زمانہ تھا۔ شیخ عثمان مروندی صاحب جذب و وجدان تھے اور انہوں نے سندھ میں قیام کے ساتھ ہی سندھ کی عوام کے درمیان محبت , امن ,آشتی , مل جل کر ر ہنے اور صلح کل کا پیغام عام کیا۔

شیخ عثمان مروندی لال شہباز قلندر کو سندھ میں صوفیانہ شاعری , صوفی کلچر اور سندھ کو عدم تشدد کے راستے پر گامزن کرنے والے وہ صوفی تھے جن کی وجہ سے سندھی کلچر ایک واضح شکل وصورت اختیار کرپایا , ان کے شاگردوں میں مخدوم بلاول , شاہ لطیف بھٹائی اور سچل سرمست شامل تھے جن کے بنا سندھی ثقافت و صوفی شاعری کے خدوخال ترتیب نہیں پاسکتے تھے۔ شیخ عثمان مروندی رحمت اللہ علیہ نے 1214 کے درمیان ہی کسی سال ملتان , اچ شریف اور پاکپتن کا دورہ کیا اور اس دوران اپنے زمانے کے تین بڑے ہم عصر صوفیوں سے ملاقات کی جن حضرت سید جلال بخاری اچ شریف . حضرت بہائوا لدین زکریا ملتانی اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر شامل ہیں اور یہ ملاقات بعد ازاں گہری دوستی میں بدل گئی۔

شیخ عثمان مروندی اکثر سرخ لباس زیب تن کیے رکھتے تھے , جس کی وجہ سے ان کا نام لال شہباز قلندر پڑگیا۔ صوفی کلچر پاک و ہند کے اندربقائے باہمی کا ایک ایسا معاہدہ عمرانی ہے جس نے پاک و ہند کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ پرامن طور پر رہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کی وجہ بنا ہوا ہے۔ معروف ماہر تعمیرات سہیل بھیانوی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ وادی سندھ ہو یا وادی گنگ و جمنان دونوں وادیوں میں تصوف نے علامات , امیجز اور کیلی گرافی کے ساتھ کام لیتے ہوئے کٹھ ملائیت کا مقابلہ کیا اور عوامی بولی کے اندر لوگوں کو خدا کے قریب کیا اور وہ سندھو وادی میں لال شہباز قلندر کو اس حوالے سے بذات خود ایک نئے مکتب کی بنیاد رکھنے والا بتاتے ہیں اور اسی بات کو رضا رومی معروف کالمسٹ بھی اپنے ایک مضمون میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لال شہباز قلندر بجا طور پر سندھ وادی کے اندر صلح کلیت کو عروج پر لے جانے والے صوفی کے طور پر سامنے آئے۔

 خالد نورانی


آصف نواز جنجوعہ

$
0
0

پاکستان کی بری فوج کے سابق چیف آف اسٹاف۔ چکری راجگاں، ضلع جہلم میں پیدا ہوئے۔ سینٹ میری اسکول راولپنڈی میں تعلیم حاصل کی۔ پھر سینڈھرسٹ (برطانیہ) میں رائل ملٹری اکیڈمی سے بنیادی فوجی تربیت مکمل کرنے کے بعد مارچ 1957ء میں پاکستان آرمی میں بطور کمیشنڈ آفیسر بھرتی ہوئے، وہ سولجرز کی چوتھی جنریشن سے تعلق رکھتے تھے۔ کمیشن ملنے کے بعد پنجاب رجمنٹ کی شیر دل بٹالین میں شامل ہوئے۔ 1972ء میں اپنی پیرنٹ بٹالین کی کمان کی۔ 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ اور نیشنل ڈیفنس کالج راولپنڈی سے بھی گریجویشن کی۔ 1978ء میں بریگیڈیئر اور 1982ء میں میجر جنرل کے عہدے پر ترقی ملی۔ 

ساڑھے 3 سال تک ایک انفنٹیری ڈویژن کی کمان کی۔ بعد ازاں کا کول ملٹری اکیڈمی کے کمانڈنٹ بنا دیے گئے۔ 1988ء میں انہیں لیفٹیننٹ جنرل اور مارچ 1991ء میں جنرل بنا دیا گیا۔ 11 جون 1991ء کو انہیں پاکستان آرمی کا چیف آف اسٹاف بنا دیا گیا۔ انہوں نے 16 اگست 1991ء کو یہ عہدہ سنبھالا، ہلالِ امتیاز، ستارہ بسالت اور بار کے اعزازات حاصل کیے۔ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی، تا ہم ان کی بیوی کے اس انکشاف پر کہ انہیں ہلاک کیا گیا ہے حکومت نے کمیشن مقرر کیا اور امریکا میں ان کے سیل بند نمونوں کی تحقیق کی گئی لیکن یہ الزام ثابت نہ ہوا۔ 

گوادر پورٹ : فکر کی کوئی بات نہیں ہے ؟

حکمرانی مذاق نہیں

ہندوستان میں ایک کروڑ سے زائد افراد غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور

$
0
0

آسٹریلیا میں حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم کے سروے کے مطابق دنیا میں اس وقت بھی ساڑھے چار کروڑ لوگ ’جدید دور کے غلام‘ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ سڈنی میں قائم واک فری فاونڈیشن کے سنہ 2016 کے لیے غلاموں سے متعلق عالمی انڈیکس کے مطابق یہ وہ ’غلام‘ ہیں جن سے اس جدید دور میں بھی جبری طور پر فیکٹریوں، فارمز اور کانوں میں جبری مشقت کروائی جاتی ہے یا پھر انھیں جنسی مقاصد کے لیے زبردستی استعمال کیا جاتا ہے۔
ان میں مردوں کے علاوہ خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس قسم کی غلامی میں پھنسے ہوئے سب سے زیادہ افراد ایشیا میں ہیں اور اس سے متعلقہ فہرست کے پہلے پانچ ممالک اسی خطے سے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق انڈیا دنیا میں غلامی میں جکڑے ہوئے ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کی وجہ سے پہلے نمبر ہے۔ دوسرے نمبر پر چین ہے جہاں 30 لاکھ سے زیادہ افراد اس قسم کی جبری مشقت کر رہے ہیں جبکہ پاکستان 20 لاکھ سے زائد ایسے ’غلاموں‘ کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش بھی پہلے دس ممالک میں شامل ہے۔
 
یہ تنظیم ایک آسٹریلوی ارب پتی اور مخیر شخصیت اینڈریو فارسٹ نے سنہ 2012 میں اس مسئلے کی جانب توجہ دلانے کے لیے قائم کی تھی۔ اس تازہ سروے کے لیے اس تنظیم نے 167 ممالک میں 53 زبانوں میں 42 ہزار انٹرویوز کی بنیاد پر رپورٹ تیار کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق دو سال قبل کے اندازوں کے مقابلے میں ایسے افراد کی تعداد میں 28 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس رپورٹ میں جدید غلامی کی تشریح کچھ اس طرح سے کی گئی ہے کہ ایک شخص دھونس یا دھمکیوں، تشدد، طاقت کے غلط استعمال یا دھوکے کی وجہ سے کام نہیں چھوڑ سکے اور قرض دار ہونے کی وجہ سے اسے ذاتی ملازم بنا کر رکھا جائے۔
دنیا کے 124 ممالک نے انسانی سمگلنگ کو اقوام متحدہ کے پرٹوکول کے تحت غیرقانونی قرار دیا ہوا ہے اور قومی ایکشن پلان بھی بنائے ہوئے ہیں لیکن فارسٹ کے مطابق یہ کافی نہیں ہیں۔’ان کا کہنا ہے کہ ’ہم دنیا کی دس بڑی معیشتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے قوانین متعارف کروائیں جو کم از کم برطانوی ماڈرن سلیوری ایکٹ 2015 جیسا سخت ہو تاکہ اداروں کو اپنے سپلائی چین میں غلامی کے لیے جواب دہ بنایا جا سکے اور آزادانہ نگرانی کی جا سکے۔ 

تاریخ کی مہنگی ترین عمارات

$
0
0

عمارتوں کو کسی بھی ملک کی ترقی اور شان و شوکت کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ جدید عہد میں دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک نے اپنی معاشی طاقت کا اظہار بلند بالا اور مہنگی عمارتوں کے ذریعے ہی کیا ہے۔ اگر مختلف اوقات میں بننے والی عمارتوں پر آنے والی لاگت کا جائزہ لیں اور موجودہ دور کے حساب سے ان کی قیمت لاگئیں تو کون سی عمارات ہوں گی جو آج مہنگی ترین میں شمار ہوں گی؟

 آئیے آپ کو ایسی 10 عمارتوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔:

10۔ وائن لاس ویگاس، امریکا، 3.3 ارب ڈالرز: وائن کو دنیا کے بہترین ہوٹلوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، جسے قریباً تمام ہی ریٹنگ ایجنسیوں نے فائیو سٹار کا درجہ دیا ہوا ہے۔ یہ دنیا کی پہلی بلند عمارت ہے، جس میں کھڑکیوں کے شیشے صاف کرنے کا خودکار طریقہ موجود ہے۔

9۔ فریڈم ٹاور، نیویارک، امریکا، 4ارب ڈالرز: اس کا سرکاری نام ون ورلڈ ٹریڈ سینٹر ہے، جسے 11 ستمبر 2001ء کے حملوں میں تباہ ہونے والے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاورز کی جگہ پر تعمیر کیا گیا۔ 2014ء میں افتتاح کے ساتھ ہی یہ نیویارک کی بلند ترین عمارت بنی۔

8۔ کوسموپولیٹن، لاس ویگاس، 4.1 ارب ڈالر: امریکا کا سب سے مہنگا کیسینو ریزورٹ۔ اس کے دو ٹاورز میں 3 ہزار کمرے اور ساتھ ہی نائٹ کلب اور ڈے کلب بھی ہیں۔

7۔ پارلیمنٹ ہاؤس، کینبرا، آسٹریلیا، 4.2 ارب ڈالر: آسٹریلیا کا پارلیمنٹ ہاؤس 1988ء میں مکمل ہوا تھا اور اس وقت اس پر ایک ارب آسٹریلوی ڈالرز لاگت آئی تھی۔ آج یہ رقم 4 ارب امریکی ڈالرز سے زیادہ بنتی ہے۔ یہ عمارت 4700 کمروں پر مشتمل ہے اور مکمل طور پر شمسی توانائی سے بجلی حاصل کرتی ہے۔

6۔ ریزورٹس ورلڈ سینٹوسا، سنگاپور، 5.4ارب ڈالر: ایشیا کے مشہور ترین ریزروٹس میں سے ایک ریزورٹس ورلڈ سینٹوسا میں یونیورسل سٹوڈیو پارک ہے، ایک ایڈونچر کوو واٹر پارک اور دنیا کی سب سے بڑی بحری مطالعہ گاہ ہے۔ اسے روزانہ 10 ہزار ملازمین کی مدد سے چلایا جاتا ہے۔

5۔ امارات پیلس، ابوظہبی، متحدہ عرب امارات، 6 ارب ڈالرز: دنیا کا مہنگا ترین ہوٹل جس سے زیادہ لاگت کسی ہوٹل کی تعمیر پر کبھی نہیں آئی۔ امارات پیلس کا افتتاح 2006ء میں ہوا، جس کا مقصد عربی ثقافت کو دنیا بھر کے سامنے لانا ہے۔ یہ اتنا شاندار ہوٹل ہے کہ خود کو ’’فائیوسٹار سے بھی آگے‘‘ کہتا ہے۔

4۔ مرینا بے سینڈز، سنگاپور، 8ارب ڈالرز: تاریخ کا مہنگا ترین جواخانہ، مرینا بے سینڈز ایک سال کی تاخیر سے 2010ء میں مکمل ہوا۔ اس کا شاندار ’’سکائی پارک‘‘ اور چھت پر موجود سوئمنگ پولز لا جواب ہیں۔

3۔ ٹوکامک ری ایکٹر، فرانس، 14ارب ڈالرز: فہرست میں موجود عمارت جو تحقیقی نوعیت کی ہے۔ یہ ہلالی شکل کے ایک گولے کو استعمال کرتی ہے تا کہ پلازما کو مستحکم اور محدود کرنے کے لیے طاقتور مقناطیسی میدان تخلیق کر سکے۔ اب دنیا بھر میں ایسے متعدد ری ایکٹرز موجود ہیں۔

2۔ ابراج البیت، مکہ، سعودی عرب، 15 ارب ڈالر: مکہ مکرمہ میں مسجد حرام کے قریب واقع یہ بلند و بالا عمارت 2012ء میں مکمل ہوئی۔ دو وجوہ کی بنیاد پر اس پر اعتراض اٹھائے گئے، ایک تو مقدس ترین مقام کے سامنے اتنی بلند عمارت سب سے زیادہ نمایاں ہو رہی ہے اور دوسرا یہ کہ اس کی تعمیر میں عثمانی دور کے قدیم قلعے اور مقامات کو مسمار کر دیا گیا۔

1۔ مسجد حرام، مکہ، سعودی عرب، 30 ارب ڈالرز سے بھی زیادہ: دنیا کا مقدس ترین مقام دنیا کی سب سے مہنگی تعمیر کا بھی حامل ہے۔ گو کہ مسجد حرام کی تعمیر کئی بار ہو چکی ہے اور حقیقی لاگت کا اندازہ لگانا کچھ مشکل ہو گا، لیکن 2011ء میں 40 لاکھ مربع فٹ جگہ کے اضافے کے لیے 10 ارب ڈالرز کے منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس وقت یہ 88 ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور لاکھوں حجاج کرام اور عمرہ کرنے والوں کی میزبانی کرتی ہے۔

(اُردو ٹرائب سے ماخوذ) 

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live