Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

کل بھوشن کے پاس مبارک حسین کے نام کا پاسپورٹ کیوں؟

$
0
0

سیکیورٹی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے گرفتار بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ایجنٹ کل بھوشن یادیو کو دہشت گردی کا نیٹ ورک پنجاب تک پھیلانے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ ’’را‘‘ کی اعلیٰ کمانڈ پنجاب میں تخریب کاری شروع کرنا چاہتی تھی تاکہ خطے میں بھارت کے توسیعی عزائم میں کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکے۔ یادیو نے بلوچستان میں درجنوں مقامی دہشت گردوں کی مدد سے نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا۔ اِسی طرح کراچی میں بھی دہشت گردانہ حملوں کے لئے 100سے زائد سلیپر یونٹس قائم کر رکھے تھے۔ یادیو کراچی واٹر بورڈ کے سلیپر سیلز کو فنڈز کے علاوہ تربیت کے لئے مدد کرتا تھا۔

 کراچی اور بلوچستان میں نیٹ ورک چلانے کے ساتھ اس ایجنٹ کے پنجاب، بلوچستان اور سندھ کے سرحدی علاقوں میں کالعدم مذہبی تنظیموں اور جرائم پیشہ لوگوں کے ساتھ رابطے تھے۔ اب یہ تعین کرنا ہے کہ اس ایجنٹ نے پنجاب میں تخریب کاری کے لئے کتنے منصوبے بنائے تھے؟ یادیو نیٹ ورک کے بدنام زمانہ ارکان ،جو آپریشن کے دوران گرفتار ہوئے تھے، ان میں ندیم عرف انکل، خالد امان عرف داد، عبدالجبار عرف ظفر ٹینشن، محسن خاں عرف کاشف، ذیشان عرف حسن اور شفیق خاں عرف پپو شامل ہیں۔’’را‘‘ نے کراچی سے تعلق رکھنے والے اپنے ایجنٹوں کے لئے جنوبی افریقہ، ملائشیا، بنکاک اور دبئی میں بھی رہائش اور دیگر سہولتوں کا انتظام کیا تھا۔ ان ایجنٹوں کو بسنت پور، دہرادھن، جودھپور، راجستھان، فرید پور، کولکتہ اور دیگر بھارتی علاقوں میں جدید اسلحہ کی تربیت دی تھی۔ تربیت دینے والوں میں ’’را‘‘ آفس کا میجر بھی شامل ہوتا تھا۔
یادیو نے بتایا کہ بلوچستان فرنٹس پر وہ بلوچ باغیوں کی تربیت اور فنڈز کی فراہمی کے حوالے سے معاملات ہینڈل کرتا تھا تاکہ کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں کو نشانہ بنایا جا سکے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے لئے افغانستان کے علاقے قندھار کے ’’نوگو ایریاز‘‘ میں سیکیورٹی چیف کمانڈر عبدالرزاق اچکزئی کی مدد سے تربیت دی جاتی تھی۔ یادیو کراچی میں عدم استحکام کے لئے کالعدم مذہبی تنظیموں بشمول ٹی ٹی پی اور بلوچ تنظیموں کے ارکان کو استعمال کر رہا تھا۔ یادیو نے مزید انکشاف کیا کہ ’’را‘‘ کے اعلیٰ حکام نے کہا تھا کہ بلوچستان اور کراچی کو جلائے رکھنا ہے۔ پنجاب میں تخریب کاری کا ٹاسک دیا گیا۔ سی پیک اور پاکستانی بندرگاہوں کو مفلوج کرنے کا کہا گیا تھا۔ 

 پاکستان کا ازلی و ابدی دشمن بھارت ہے، جس کے لئے پاکستان کا وجود ناقابلِ برداشت ہے۔ وہی پاکستان کی سلامتی و سالمیت کے لئے ہمہ وقت خطرہ ہے۔ بھارت پاکستان کو برباد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ وہ پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کی سازشیں کرتا رہتا ہے۔ اس کے لئے پاکستان کے پڑوسی ممالک بشمول ایران کی سرزمین بھی استعمال ہوتی ہے۔ آرمی چیف راحیل شریف نے صدر روحانی سے ملاقات کے دوران ’’را‘‘ کی طرف سے پاکستان کے خلاف ایران کی سرزمین استعمال ہونے کے بارے میں بات کی۔

 آرمی چیف نے ایرانی صدر کو بتایا کہ ’’را‘‘ پاکستان میں بہت سے واقعات میں ملوث ہے، خاص طور پر بلوچستان میں را کی سرگرمیوں پر بہت تشویش ہے۔ ’’را‘‘ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے برادر مُلک ایران کی سرزمین استعمال کرتی ہے۔ حالیہ دنوں میں بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو بلوچستان سے گرفتار ہوا۔ وہ ایرانی ویزے پر پاکستان آیا، جہاں وہ دہشت گردی میں ملوث رہا۔ ایران کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کا یہ ناقابل تردید ثبوت ہے۔

ایران بھارت کو برادر مُلک سمجھتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ بھارت ایران کو پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال کرے۔ ایران بھارت کو واضح طور پر بتائے کہ وہ ایران کی سرزمین استعمال کرنے سے باز رہے۔ آرمی چیف نے صدر روحانی کے ساتھ جو بات چیت کی اور جس طرح پاکستان کے تحفظات سےآگاہ کیا، یہ پوری قوم کی آواز ہے۔ بھارت ایران کی سرزمین پاکستان میں تخریب کاری کے لئے ایران کی خواہش کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے تو اس کا ایران کی طرف سے ردعمل میں علم ہو جائے گا، جس کی دنیا منتظر ہے۔ بھارتی جاسوس کی پاکستان کے خلاف ایران میں سرگرمیوں سے ایران کی نیک نامی نہیں بدنامی ہوئی۔ اس کے بعد بھی ایران بھارت کو برادر مُلک قرار دینے پر قائم رہتا ہے تو پاک ایران تعلقات کشیدگی سے مبرا نہیں رہ سکتے۔

 خطے کے امن اور خوشحالی کے لئے پاکستان ایران تعلقات میں سرد مہری کی نہیں گرم جوشی کی ضرورت ہے، یقیناًاس کا ایرانی قیادت کو ادارک ہو گا۔ چاہ بہار میں پاکستان مخالف نیٹ ورک پر پاکستان نے ایران کو قانونی مراسلہ بھیجنے کا فیصلہ کر لیا۔ بلوچستان سے پکڑے گئے ’’را‘‘ کے ایجنٹ کل بھوشن کا ساتھی راکیش عرف رضوان اب چاہ بہار میں ’’را‘‘ کا سیکنڈ ان کمانڈ ہے۔ پاکستان نے ایران سے ’’را‘‘ کی سرگرمیوں اور نیٹ ورک کی تفصیلات دینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ پاکستان نے مطالبہ کیا ہے کہ ایران میں ’’را‘‘ کی سرگرمیوں اور نیٹ ورک کی معلومات فراہم کی جائیں، جبکہ بلوچستان میں پکڑا جانے والا ’’را‘‘ کا ایجنٹ کل بھوشن یادیو چاہ بہار سے پاکستان آیا تھا۔ کل بھوشن یادیو کا ساتھی راکیش عرف رضوان اب بھی چاہ بہار میں موجود ہے، جبکہ چاہ بہار میں بھارتی ایجنٹ راکیش عرف رضوان وہاں ’’را‘‘ کا سیکنڈ ان کمانڈ ہے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار نے ایرانی ہم منصب عبدالرضا سے ملاقات میں ’’را‘‘ کا معاملہ اٹھایا۔

بھارتی اخبار’’انڈین ایکسپریس‘‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ کل بھوشن یادیو ایک تاجر ہے اور اس کا اپنا ایک چھوٹا بحری جہاز ہے اوروہ اکثر پاکستانی سرحد کے ساتھ ایرانی بندرگاہ پر اپنا کارگو لے کر جاتا تھا۔ اس کا بھارت کی بیرونی انٹیلی جنس ایجنسی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن اس سوال کا جواب کوئی بھارتی ہی دے سکتا ہے کہ اس کے پاس مبارک حسین پٹیل کے نام کا بھارتی پاسپورٹ کیوں ہے؟اخبار کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ یہ معاملہ زیر تفتیش ہے کہ وہ اتفاقی طور پر پاکستانی پانیوں میں بہک گیا یا کوئی لالچ اسے پاکستان لے گیا۔

 یادیو کابلوچستان جانا کوئی لالچ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ ریٹائرڈ نیوی افسر ہے جو ایران میں کارگو کے ایک کاروبار کا مالک ہے۔ اس کے پاس اپنا چھوٹا جہازہے اور مختلف مقامات پر ایران میں بندر عباس اور چاہ بہار بندرگاہ اور دیگر ملحقہ علاقوں سے کارگو لے جانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ گزشتہ روزبھارت نے تسلیم کیا کہ گرفتار شخص نیوی کا ملازم تھا، لیکن حکومت کے ساتھ تعلق کی تردید کی تھی۔ اسے سدھیر یادیو کے بیٹے کے طور پر پہچانا گیا۔ سدھیر یادیو تقریباً آٹھ سال قبل ممبئی میں پولیس کے ایک اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر ریٹائر ہوگئے تھے۔

 اس کے چچا سبھاش یادیو 2002ء میں باندرہ پولیس سٹیشن کے انچارج تھے، جہاں ’’رن اینڈ ہٹ کیس‘‘میں بالی وڈ اداکار سلمان خان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ اس کا خاندان ممبئی کے پوش مضافاتی علاقے پووائی کے ہر ناندانی گارڈنز میں رہائش پزیر ہے۔ بلوچستان سے گرفتار ہونے والے بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے ایجنٹ کل بھوشن یادیو کے والدین اور بچوں کو ممبئی میں اس کی اقامت گاہ سے غائب کر دیا گیا۔ بھارتی بحریہ میں حاضر سروس ہونے کی مخالفت کرتے ہوئے بھارت نے دعویٰ کیا ہے کہ کلبھوشن یادیو اپنے ذاتی بحری جہاز کے ذریعے کارگو سروس چلاتا تھا، اِس لئے اس نے چاہ بہار میں اپنا دفتر قائم کیا تھا، لیکن تجزیہ کار دعویٰ کر رہے ہیں کہ اگر وہ بزنس مین تھا اور کارگو سروس چلاتا تھا تو اس نے ایران کا جعلی پاسپورٹ کیوں بنوا رکھا تھا؟

اصل میں کل بھوشن یادیو بلوچستان اور پاکستان کے مختلف حصوں میں تخریب کاری کا نیٹ ورک چلا رہا تھا، جس کے بارے میں وہ تحقیقاتی اداروں کو بتدریج معلومات فراہم کر رہا ہے۔ بلوچستان میں پکڑے گئے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ایجنٹ، بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر کل بھوشن یادیو نے سارا بھانڈا پھوڑ دیا۔ دہشت گرد کل بھوشن کا تعلق ممبئی سے ہے، پونے سے کمیشن حاصل کیا۔ جعلی نام حسین مبارک پاٹیل سے ایرانی ویزا لگوا کر چاہ بہار میں پاکستان کے خلاف کارروائیاں کیں۔2013ء سے بلوچستان آ گیا،اس کا ایجنڈا کراچی اور بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی تھا۔

 دورانِ حراست بھارتی ایجنٹ نے انکشاف کیا ہے کہ وہ بلوچستان کے علاقے وڈ میں حاجی بلوچ سے رابطے میں تھا۔ حاجی بلوچ کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں کو بھی مالی اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کے علاوہ کراچی میں داعش کا نیٹ ورک مضبوط کر رہا تھا۔ بھارتی ایجنٹ نے انکشاف کیا ہے کہ سانحہ صفورا کے ماسٹر مائنڈ بھی بلوچستان میں حاجی بلوچ سے رابطوں میں تھے۔ کراچی میں اس سانحے میں 45 اسماعیلی افراد کو بس کے اندر گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔ کل بھوشن یادیو نے انکشاف کیا کہ کراچی میں فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کے لئے مقامی دہشت گردوں کی مدد لی گئی۔

ریاض احمد چودھری


دوسرا ’بنگلہ دیش‘ ہرگز نہیں

$
0
0

دنیا میں شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جس کو خود اس کے باشندوں کی مدد سے توڑا جا سکتا ہو البتہ پاکستان واقعتاً ایک ایسا ملک ہے جس کو اس کے اپنے باشندوں کے ذریعے توڑا جا چکا ہے اور دشمنوں کے جاسوس اب باقی ماندہ کو توڑنے کے لیے کوشاں ہیں اور وہ یہ کام اپنے پاکستانی ایجنٹوں کے ذریعے کر رہے ہیں۔

اس سے پہلے وہ مشرقی پاکستان کو ملک سے علیحدہ کر چکے ہیں یعنی نصف پاکستان کو پاکستان سے الگ کر دیا اور اس میں انھیں خود پاکستانیوں کی امداد حاصل تھی اور پاکستانی سیاست دان ارادتاً یا حماقتاً ان کے آلہ کار تھے۔ یہ ابھی کل کی بات ہے اور آج جب ہم کسی بھارتی جاسوس کو پکڑتے ہیں تو وہ اعتراف کرتا ہے کہ اب وہ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کے مشن پر تھا۔ پاکستان کو مزید توڑنے کا مشن ایک ممکن مشن ہے اور خود پاکستان کے اندر سے یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ ہم پاکستان کی فرمانروائی سے تنگ ہیں، ہمیں اس سے الگ کر دو۔

بلوچستان کے صوبے سے ایک مدت سے علیحدگی کی باتیں سامنے آ رہی ہیں اور بھارت کو شہ مل رہی ہے کہ وہ اپنے جاسوسوں اور ایجنٹوں کے ذریعے بلوچستان میں علیحدگی کے جذبات کو عملی شکل دینے کی کوشش کرے۔ پاکستان میں اس کا جاسوس پکڑا گیا ہے جو اسی مشن پر تھا اور پرامید تھا۔ اس نے جو کچھ بتایا ہے وہ بھارت کی پاکستان دشمنی کے ثبوت کے لیے کافی ہے لیکن پاکستانی بے چارے کیا کریں کہ ان کے اعلیٰ ترین لیڈر جب الیکشن میں بھاری اکثریت لے کر آتے ہیں تو برملا کہتے ہیں کہ ہمیں پاکستانی عوام نے بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات یعنی دوستی بنانے کے لیے ووٹ دیے ہیں۔
ہمارے سیاسی فہم سے محروم تجارت پیشہ لیڈر پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچ کر بھارت کے دورے پر جاتے ہیں تو وہاں کے (فولاد) اسٹیل کے بہت بڑے تاجر سے اس کے ہاں کھانے پر ملاقات کرتے ہیں، اپنے بیٹے کو بھی لندن سے بلا کر اس فولادی کاروباری میزبان سے ملاتے ہیں اور یوں اس سے ایک خاندانی تعلق قائم کرتے ہیں۔ اب اسی قدیمی دشمن بھارت کا کوئی جاسوس جب ہمارے ہاں آتا ہے تو بے دھڑک ہو کر کھل کر باتیں کرتا ہے اور پاکستان کے خلاف اپنے پروگرام کا ذکر کرتا ہے۔

پاکستان کو مزید کمزور کرنے اور اس کے کسی حصے کو اس سے الگ کرنے میں بھارت سے بڑھ کر کون خواہشمند ہو سکتا ہے چنانچہ بلوچستان کو بنگلہ دیش پر قیاس کیا جا رہا ہے اور اس صورت حال کے پیدا کرنے میں بڑا حصہ پاکستان کی حکومتوں کا ہے جنہوں نے اس صوبے میں سرداری نظام کو نہ صرف برداشت کیا ہے بلکہ اس کو ترقی دی ہے۔ بھٹو صاحب نے سرداری نظام کو ختم کرنے کی بات کی تھی مگر یہ سردار ان کے پیچھے پڑ گئے۔ مرحوم اکبر بگٹی جو خود ایک سردار تھے، ایک بار مجھ سے کہنے لگے کہ سرداری تو اب الزام بن کر رہی گئی ہے۔

ہمارے ہاں سالانہ چند روپوں کے سرکاری وظیفے والے سردار بھی ہیں جو اس وظیفہ کو خواہ وہ کتنا ہی حقیر کیوں نہ ہو اس پر اکڑتے رہتے ہیں اور اسے بھی اپنی سرداری کا ایک ثبوت سمجھتے ہیں جب کہ بلوچستان کے عوام کے مسائل اور مشکلات کا ذمے دار یہی سرداری نظام ہے مثلاً بلوچستان میں ایک بڑی تعداد چرواہوں کی ہے، وہ جب اپنے ریوڑ کے ساتھ چراگاہوں کی تلاش کرتے ہیں تو راستے میں متعلقہ سردار کے کارندے ان کا راستہ روک کر ایک دو بکرے یا مینڈھے پکڑ لیتے ہیں اور اس سرداری تاوان پر احتجاج نہیں ہوتا۔ یہ ایک معمول ہے۔

اسی طرح بلوچستان کے کاشتکاروں کی آمدنی میں بھی سردار کا حصہ ہوتا ہے بلکہ کسی ملازم کی تنخواہ میں بھی سردار حصہ دار بن جاتا ہے۔ اگر اس سرداری لوٹ کھسوٹ سے کوئی انکار کرے تو سرکار دربار میں بااثر سردار اس پر جینا حرام کر دیتا ہے۔

اس طرح بلوچستان کے صوبے میں ایک مختلف پاکستان ہے اور جب کبھی اس صوبے میں اصلاحات کی کوشش کی جاتی ہے تو وہاں کے بااثر لوگ متحدہ مزاحمت کرتے ہیں۔ یہ سرداری نظام جو اس صوبے کا اصل مرض ہے، مدتوں سے رائج ہے۔آپ یوں سمجھیں کہ صوبہ بلوچستان ابھی آزاد نہیں ہوا اور اس برطانوی سرکار کی حکومت ہے جس کے اپنے مقاصد ہیں اور بلوچستان ابھی تک ایک انگلش سرکار کی ریاست ہے۔

اگر بھارت ایسے صوبے بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنا چاہتا ہے تو یہ کام اس کے لیے کتنا آسان ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ بھارت کو اب پاکستان کے خلاف جنگ کرنے کی ضرورت نہیں، خود پاکستانی حکمران اور سیاست دان بندیا اور ساڑھی پر مرتے رہیں گے۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد ہم نے خود رکھی تھی۔ ان کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا تھا اور ان کی معاشی ترقی پر توجہ نہیں دی تھی بلکہ ان کی پیداوار پٹ سن کو برآمد کر کے اس کا زیادہ تر زرمبادلہ ہم نے استعمال کر لیا تھا۔ ڈھاکا کے ایک صحافی کے ساتھ میں مال روڈ لاہور سے گزر رہا تھا جہاں الفلاح نام کی بلڈنگ نئی نئی بنی تھی تو اس صحافی نے بے ساختہ کہا کہ اس پر پٹ سن کی آمدنی لگی ہے۔

یہ بات واقعتاً غلط تھی مگر ایسے موقعوں پر ہر طرح کی بات کی جا سکتی ہے۔ جو کچھ بھی تھا بھارت کو ہم نے ایک موقع فراہم کر دیا تھا جس کا اس نے بڑی دانش مندی کے ساتھ فائدہ اٹھایا اور اندرا گاندھی کو یہ کہنے کا موقع دیا کہ ہم نے مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لے لیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم اندرا کے یہ الفاظ ہر پاکستانی کو یاد رکھنے چاہئیں کہ اس کی غیرت جاگتی رہے۔

عبدالقادر حسن

ڈی چوک پر دھرنا

$
0
0

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے ڈی چوک میں ممتاز قادری کے حامیوں کا چار روز سے جاری احتجاجی دھرنا حکومت کے ساتھ ’کامیاب‘ مذاکرات اور ایک سات نکاتی معاہدے کے نتیجے میں بدھ تیس مارچ کی شام اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔










پاکستانی کرکٹ کا جنازہ نکل چکا لیکن اہم عہدوں پر موجود حضرات کرسی چھوڑنے کیلیے کسی طور تیار نہیں

$
0
0

ذرائع کے مطابق وقار یونس نے بورڈ کیخلاف اعلان جنگ وقتی اشتعال کے تحت
نہیں کیا بلکہ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھا اور اس کا اسکرپٹ بورڈکے ایک ناراض آفیشل نے تیارکیا ہے۔ ملاقات کے لیے نہ بلانے پر وقار یونس نے اظہار ناراضی کرتے ہوئے چیئرمین پی سی بی شہریارخان اورایگزیکٹیوکمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا. اس وقت یہ تاثر سامنے آیا کہ شاید وہ غصے میں ایسی باتیں کر گئے مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا۔

بورڈ وقار یونس کو فارغ کرنے کا فیصلہ کرچکا مگر وہ آسانی سے یہ پوسٹ چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں. وقار یونس چاہتے ہیں کہ وہ دورہ انگلینڈ تک کوچنگ کے فرائض انجام دیں. کچھ ایسا ہی حال شاہد آفریدی کا ہے جو کپتانی سے دستبردار ہو چکے ہیں لیکن کھلاڑی کے طور پر ٹیم کا حصہ رہنا چاہتے ہیں .محمد حفیظ اور شعیب ملک گروپنگ کے سرخیل سمجھے جاتے ہیں لیکن وہ دونوں اگلا کپتان بننا چاہتے ہیں .شہریا خان نے مستعفی ہونے کی بات کی پھر چپ ہو گئے .

دہشت گردی : اسباب و سدباب - حافظ محمد سعید

$
0
0

گلشن اقبا ل پارک،علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ
نے پوری قوم کو رنجیدہ اور سوگوار کردیا ہے۔یہ المناک واقعہ اتوار کے روز شام سات بجے کے قریب پارک کے اس مین داخلی دروازے کے اندر پیش آ،یا جہاں خواتین اور بچوں کا سب سے زیادہ رش ہوتا ہے۔دھماکہ میں 74سے زائد افراد جاں بحق 350کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں ۔ جاں بحق ہونے والوں میں 29 معصوم بچے اور 24خواتین ہیں۔ دھماکے کی شدت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اس کا نشانہ بننے والوں کے اعضاء دور دور تک بکھر گئے،جھولوں  درختوں اور بجلی کی تاروں پر لٹکتے نظر آئے۔

 پبلک مقام پر دہشت گردی کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے،یعنی زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کر کے لوگوں میں خوف وہراس پیدا کرنا۔ بلاشبہ دھما کہ سے جانی نقصان تو بہت ہوا ہے لیکن دشمن پاکستانی عوام میں خوف وہراس پیداکرنے میں ناکام رہا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جیسے ہی دھماکے کی خبر عام ہوئی  لوگ ڈرکر گھروں میں چھپنے کی بجائے زخمیوں کو خون دینے ہسپتالوں میں پہنچ گئے، یہاں تک کہ خون دینے والوں کی لائنیں لگ گئیں۔ ہسپتالوں میں جو زخمی مسیحی بچے ،خواتین اورمرد داخل تھے، مسلمان نوجوانوں نے ان کو خون دے کر ثابت کیا کہ اقلیتوں کی جانیں بھی اتنی ہی قیمتی ہیں ،جتنی ایک عام پاکستانی شہری کی۔
حالیہ المناک سانحہ پر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردوں کے حملے سے جاں بحق ہونے والوں کے ہر قطرہِِ خون کا انتقام لیا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سفاک درندوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے دکھ کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے کہ دہشت گردوں کا تمام صوبوں میں پیچھا کیا جائے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میںآپریشن کا فیصلہ کیا گیا ،جبکہ حالیہ سانحہ کی تحقیقا ت کے لئے حسب سابق جوائنٹ تحقیقاتی کمیٹی بھی بن چکی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ لوگوں کے جان و مال کی حفاظت ریاست کی اولین ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے ہر ممکن اقدامات ضروری ہیں،لیکن کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے حکمرانوں کے تمام تر دعوؤں کے باوجوددہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کوششیں بار آور کیوں نہیں ہورہیں؟ 

  وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی سمت درست نہیں۔ وہ سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور سائے کے تعاقب میں ہیں،جبکہ منزل پر پہنچنے اور مسائل و مشکلات پر قابو پانے کے لئے جذبات کی بجائے حقائق کا ادراک ضروری ہے۔سچی بات ہے کہ گلشن اقبال لاہور میں 74افراد کی اموات پرپورا ملک غم میں ڈوبا ہوا ہے ،لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں، جس کا سامنا ہماری قوم کو کرنا پڑا ہو ،بلکہ اس سے قبل بھی دہشت گردی کی بہت سی سنگین وارداتیں ہو چکی ہیں۔ تاریخ کی ایک بدترین دہشت گردی آج سے 69سال پہلے ہوئی تھی، جس میں 15لاکھ پاکستانی بڑے ہی بہیمانہ اور ظالمانہ طریقے سے شہید کر دیئے گئے تھے۔

 پاکستانیوں کی لاشوں کے اس قدر ڈھیر لگ گئے کہ دریا سرخ ہوگئے اور فضا متعفن ہو گئی تھی۔ یہاں تک کہ دہشت گردوں نے حاملہ ماؤں کے پیٹ چاک کر کے بچوں کو نکالا،نیزوں پر اچھا لا اورمیخوں میں پرو کر مساجد کے منبر ومحراب میں گاڑ کر نیچے لکھ دیا تھا۔   ’’یہ ہے پاکستان‘‘۔ تاریخ کی سب سے بڑی اس دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈجواہر لال نہرو،گاندھی اور کانگریس کے دیگر رہنما تھے ۔ انہوں نے پاکستان مخالف بیانات دیئے ،پھر دنوں ،مہینوں میں اپنے بیانات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے 15لاکھ مسلمانوں کو شہید کر کے ثابت کر دکھایا کہ وہ پاکستان دشمنی میں شرافت اورانسانیت کی تمام حدیں پامال کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد سے اب تک بھارت میں 35ہزار سے زائد مسلم کش فسادات ہو چکے ہیں۔یہ فسادات ہمیشہ بھارتی حکمرانوں کی سرپرستی میں ہوتے ہیں جن میں متعصب اور جنونی ہندوؤں کے علاوہ فوج اور پولیس بھی حصہ لیتی ہے،اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ فسادات نہیں ،بلکہ دہشت گردی کے واقعات ہیں۔

دہشت گردی کا ایک اور بدترین واقعہ 1971ء میں پیش آیا تھا،جس میں ڈیڑھ لاکھ پاکستانی شہید کر دیئے گئے تھے۔ آج ہماری نوجوان نسل کو معلوم نہیں کہ دہشت گردوں کانشانہ بننے والوں میں مولوی فریداحمد بھی شامل تھے۔ پاکستان کا پرچم لہرانے کی پاداش میں مولوی فرید احمد کا جب ایک ہاتھ کاٹ دیاگیا تو انہوں نے دوسرے ہاتھ میں پرچم تھام لیا،جب دوسرا ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا تو زبان سے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے لگے، حتیٰ کہ بے رحم دہشت گردوں نے ان کی زبان بھی کاٹ دی تھی۔ سلہٹ کے رہنے والے جمال احمد سفید ریش بزرگ اور محب وطن شخص تھے۔ مشرقی پاکستان کے گورنر منعم خان کی کابینہ میں وزیر بھی رہ چکے تھے۔ پاکستان کے ساتھ محبت کی پاداش میں جمال احمد کی ٹانگوں کے ساتھ رسے باندھے گئے،رسوں کو دو جیپوں کے ساتھ باندھا گیا اورجیپوں کومخالف سمت میں چلا دیا گیا جس سے جمال احمد کا جسم دوحصوں میں چر گیا۔

آہ،افسوس صد افسوس! آج ہم دہشت گردی کے یہ تمام ا لمناک سانحات بھول چکے اور دشمن کی شناخت بھی کھو بیٹھے ہیں،جس کا نتیجہ ہے کہ غلطی پر غلطی کر ر ہے اور منزل سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی گذشتہ سال ڈھاکہ کی سرزمین پر کھڑے ہو کر سینہ تان کر اور خم ٹھونک کر کہہ چکے ہیں۔۔۔ہاں یہ ہم ہیں جنہوں نے یہ سب کچھ کیا۔۔۔ہم ہیں جنہوں نے دہشت گردی کو فروغ دیا۔ ہم ہیں جنہوں نے پاکستان توڑااور آئندہ بھی ہم یہ سب کچھ کریں گے۔

18 فروری 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس کے المناک سانحہ کو یاد کرکے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جب آناََ فاناََ خوفناک آگ نے ٹرین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ،پھر بند ڈبوں میں بچے ،بوڑھے ،جوان اور عورتیں سوکھی لکڑی کی طرح جل کر کوئلہ ہو گئے تھے۔اس حادثے کا مجرم کوئی عام آدمی نہیں ،بلکہ بھارتی فوج کا حاضر سروس کرنل پروہت تھا، جس نے دھماکہ خیز مواد فوجی کیمپ سے حاصل کیاتھا۔ اب بھارت کا ایک اور دہشت گرد ’’را‘‘ کا ایجنٹ ’’کل بھوشن یادیو‘‘ بلوچستان سے پکڑا گیا ہے۔ یادیو اپنے اعترافی بیان میں تعیناتی سے لے کر اب تک پاکستان میں کی جانے والی دہشت گردی و تخریب کاری کی تمام کاروائیوں اورمستقبل کے اپنے پاکستان دشمن منصوبوں سے بھی پردہ اٹھاچکاہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ’’را‘‘ نے نیول کمانڈر کو دہشت گردی کے لئے پاکستان کیوں بھیجا ؟جواب واضح ہے کہ ’’را‘‘ کا بڑا ٹارگٹ گوادر بندرگاہ اور اقتصادی راہداری منصوبہ ہے۔’’را‘‘ کے دہشت گرد کی گرفتاری بلاشبہ اہم کارنامہ ہے اور یہ کارنامہ انجام دینے والے پوری قوم کی طرف سے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ہمارے وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ بھوشن کی گرفتاری سے ہمارے ہاتھ پکا ثبوت آگیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے اداروں کے پاس بھارت کی پاکستان میں دہشت گردی کے پہلے سے جو ثبوت ہیں، ان کا کیا بنا؟۔ مودی کا ڈھاکہ کی سرزمین پر کھڑے ہو کر علی الاعلان پاکستان توڑنے کا اعتراف ۔ کیا یہ ثبوت کافی نہیں تھا کہ اب ہم خود کو بہلانے کے لئے مز ید شواہد کی تلاش میں ہیں۔

 بھارت پاکستان کے ساتھ جو کچھ کررہا ہے ،اس کا تقاضہ ہے کہ ہم سرابوں اور خوابوں سے نکلیں۔معاملہ بھارتی ہائی کمشنر کی وزارت خارجہ میں طلبی اور مراسلہ تھمانے سے آگے نکل چکا ہے ،لہٰذادہشت گردی کے اسباب کے سد باب کے لئے ضروری ہے کہ ہم کل بھوشن یادیو کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھائیں اور دنیا کو پاکستان کے خلاف بھارتی دہشت گردی سے آگاہ کریں۔ بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کا یہ بیان کہ’’گرفتار ہونے والا ہمارا قابل احترام فوجی آفیسر ہے اور اس کی رہائی کے لئے ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ ہماری اسی خاموشی کا نتیجہ ہے۔ سوان حالات میں خاموشی ’’مصلحت ہے نہ سیاست، بلکہ مداہنت ہے اور مداہنت ہمیشہ جارحیت کا باعث بنتی ہے‘‘۔

حافظ محمد سعید

Schools without roofs: the state of govt-run schools in Balochistan

$
0
0
Located almost two kilometres east of the Quetta-Chaman national highway, Machka Killa Abdullah primary school was established in 2003 during Pervez Musharraf's regime for the children of the poor neighbourhood. -Photo by Asmatullah Khan



قومی اداروں اور انکی ساکھ کی تباہی

$
0
0

اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ جمہوری ادوار میں ہمیشہ قومی اداروں کو

تباہ کیا جاتا ہے کیونکہ سیاسی‘ سفارشی اور راشی افراد کو میرٹ سے ہٹ کر اور ضرورت سے زیادہ تعداد میں بھرتی کرکے اداروں پر مالی بوجھ بڑھایا جاتا ہے جبکہ نااہل افراد کیخلاف قانون بھرتی ہونے سے اداروں کی کارکردگی بدترہوتی چلی جاتی ہے جس کے باعث آج ہمارے قومی ادارے پی آئی اے‘ اسٹیل ملز‘ پی ایس او اور ریلوے تباہی کے کنارے پہنچ چکے ہیں۔  2008ءکے بعد ان اداروں کی تباہی کا اس وقت آغاز ہوا جب پیپلزپارٹی نے حکومت سنبھالی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

 پی آئی اے کی نجکاری کیلئے حکومت نے مکمل تیاری کرلی ہے اسی طرح اسٹیل ملز کی نجکاری کیلئے بھی کوششیں جاری ہیں۔ پی ایس او جیسے میگا قومی ادارے کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ گزشتہ دنوں ہی ایک بہت ہی چھوٹی آئل مارکیٹنگ کمپنی سے انہوں نے 10 ہزار ٹن پیٹرولیم مصنوعات قرض پر خریدنی پڑیں کیونکہ پی ایس او کے اربوں روپے سرکاری اداروں خصوصاً تھرمل پاور اسٹیشنز پر واجب الادا ہیں لیکن بروقت ادائیگی نہ ہونے کے باعث یہ قومی ادارہ مالی مشکلات کا شکار ہے۔
ایک بار پھر پیٹرولیم مصنوعات کی قلت کا بھی خدشہ پیدا ہوچکا ہے۔ پی آئی اے کو جان بوجھ کر تباہ کیا جارہا ہے تاکہ اپنے من پسند افراد کو اونے پونے فروخت کیا جاسکے حالانکہ پی آئی اے کی بحالی کیلئے خلوص نیت سے کوششیں کی جائیں تو بلاشبہ یہ ادارہ ایک بار پھر دنیا میں اپنا نام پیدا کرسکتا ہے۔ پی آئی اے کے اضافی ملازمین کو گولڈن شیک ہینڈ اسکیم کے ذریعے باہمی رضامندی سے گھر بھیجا جاسکتا ہے جبکہ ادارے کی بحالی کیلئے ضروری ہے کہ حالیہ دور حکومت میں بھاری تنخواہوں پر بھرتی کئے گئے افراد کو بھی نکالا جائے اور بورڈ آف ڈائریکٹر میں ایوی ایشن صنعت سے تعلق رکھنے والے افراد ہی مقرر کئے جائیں۔

NLC اور FWO میں چند ناتجربہ کار افراد کی بھرتیوں اور ان اداروں کے کمرشل آپریشنز کے باعث یہ ادارے پاکستان کی مسلح افواج کےلئے بدنامی کا باعث بنتے چلے جارہے ہیں۔ NLC کو چاہئے کہ کمرشل بنیادوں پر صرف اتنے ہی کنٹریکٹ لے جتنا اس کا اپنا Fleet ہو اور اگر انکے پاس اپنی گاڑیاں دستیاب نہ ہوں تو انہیں کنٹریکٹ لینا ہی نہیں چاہئے اگر پھر بھی NLC اپنے کنٹریکٹرز کے ذریعے کمرشل بزنس کررہی ہے تو اپنے کنٹریکٹرز کو بروقت ادائیگیاں ہر صورت یقینی بنانی چاہئیں کیونکہ NLC نے اپنے کنٹریکٹرز کو گزشتہ 7-8 سال سے ادائیگیوں کیلئے تنگ کر رکھا ہے اور NLC کے اسی رویئے کی وجہ سے پاکستان کی مسلح افواج کی ساکھ مجروح ہورہی ہے۔

 NLC اپنے کنٹریکٹرز کو شاید اسی لئے 7-8 سال سے کروڑوں روپے کی ادائیگیاں نہیں کررہی کہ واجب الادا کروڑوں روپے کی رقم اپنے اکا¶نٹ میں دکھاکر ادارے کا استحکام دکھانا مقصود ہو حالانکہ NLC نے 7-8سال سے اپنے چند کنٹریکٹرز کے کروڑوں روپے روک رکھے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کو چاہئے کہ NLC کو پابند کریں کہ اپنے کنٹریکٹرز کو تمام ادائیگیاں بروقت یقینی بنائے اور جن کنٹریکٹرز کے 7-8 سال سے کروڑوں روپے کے واجبات رُکے ہوئے ہیں انہیں فوری طور پر اداہونے چاہئیں۔

FWO نے کراچی حیدرآباد موٹروے کا کنٹریکٹ لیا ہے لیکن اس ملٹری ادارے میں ایسے ناتجربہ افراد براجمان ہیں جو اس ادارے اور مسلح افواج کی ساکھ کو خراب کر رہے ہیں۔ کراچی سے حیدرآباد کیلئے سڑک ”سپر ہائی وے“ جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں تعمیر ہوئی تھی۔اس سڑک کے دونوں اطراف گزشتہ 30-35 سال سے ہزاروں افراد مختلف کاروبار کر رہے ہیں جن میں ریسٹورنٹ‘ پیٹرول پمپ‘ دکانیں اور سروس اسٹیشن قابل ذکر ہیں۔

 30-35 سال سے قائم پیٹرول پمپوں نے تمام سرکاری اداروں کی رائج فیس اداکرکے اجازت نامے لیکر اپنا کاروبار شروع کیا اور مسلسل سرکاری اداروں کو ادائیگیاں کر رہے ہیں، سپر ہائی وے پر پیٹرول پمپوں کی منظوری نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا کام ہے جس نے N.O.C. کیلئے رائج فیس وصول کرکے اجازت نامے جاری کئے تھے۔اب FWO نے تعمیراتی منصوبوں کے ٹھیکے لینے کے ساتھ ساتھ ایک نیا کام بھی شروع کردیا ہے، سپرہائی وے پر موجود پیٹرول پمپوں کو نوٹس بھیج کر پابند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ 60 لاکھ روپے فی پیٹرول پمپ ادائیگی کرے تاکہ کراچی حیدرآباد موٹروے کیلئے انہیں منظوری مل سکے۔

FWO کے اعلیٰ افسران اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اس بارے میں سخت نوٹس لینا چاہئے اور بہتر تو یہی ہے کہ پیٹرول پمپوں کی تنصیب کی اجازت اور NOC کا اجراءنیشنل ہائی وے اتھارٹی کے پاس ہی رہے اور 30-35 سال سے قائم پیٹرول پمپوں کو زد نہ کیا پہنچائی جائے اگر FWO کراچی حیدرآباد موٹروے کیلئے ریگولیٹری اتھارٹی کا کام اپنے ذمہ لے رہی ہے تو پھر صرف ان پیٹرول پمپوں سے فیس لینے کا ہی اختیار دیا جاسکتا ہے جو کراچی حیدرآباد موٹروے کی تعمیر کے بعد نئے قائم ہوں۔

میں اس سلسلے میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے اپیل کر تا ہوں کہ خدارا NLC اور FWO کے موجودہ طرز عمل کی درستگی کیلئے سخت نوٹس لیں اور NLC کو پابند کیا جائے کہ تمام کنٹریکٹرز کی 1 سال سے زائد عرصے سے واجب الادا تمام رقوم جاری کی جائیں اور FWO کو بھی کراچی حیدرآباد موٹروے کی تعمیر میں انصاف پر مبنی فیصلے کرنے چاہئیں، نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی اجازت سے سالہا سال سے قائم پیٹرول پمپوں سے مزید ادائیگیوں کا مطالبہ ترک کردینا چاہئے کیونکہ FWO کے سول ملازمین اور چند مافیا ز مل کر کاروباری افراد کو تنگ کر رہے ہیں اور FWO کی جانب سے طلب کی گئی رقم سے بھی اضافی ادائیگیوں پر مجبور کیا جارہا ہے اور ہزاروں کاروباری افراد پریشان ہیں۔

رحمت خان وردگ 

واٹس ایپ میں ایک اور بڑی تبدیلی

$
0
0

واٹس ایپ نے آخر کار اپنے صارفین کو اپنا ٹیکسٹ فارمیٹ کرنے کی سہولت فراہم کردی ہے۔ جی ہاں واٹس ایپ نے خاموشی سے ایک نیا فیچر متعارف کرادیا ہے جس کی مدد سے صارفین اپنے ٹیکسٹ کو بولڈ، اٹالک یا اسٹرائیک تھرو کرسکتے ہیں۔ اس فیچر کو بیٹا ورژن میں آزمایا گیا مگر آئی او ایس اور اینڈرائیڈ ایپ کو اپ ڈیٹ کرنے پر تمام صارفین اسے استعمال کرسکتے ہیں۔ بیشتر افراد کے واٹس ایپ میں تو یہ اپ ڈیٹس خودکار طور پر انسٹال ہوگئی ہیں۔

اس اقدام کا مقصد واٹس ایپ کو تمام فیچرز سے لیس کمیونیکشن ٹول بنانا اور دفتری استعمال کے لیے بہترین بنانا ہے۔ اس کی مثال اس وقت بھی سامنے آئی تھی جب گزشتہ ماہ اس میں لوگوں کو دستاویزات شیئر کرنے کا آپشن فراہم کیا گیا تھا۔

استعمال کرنے کا طریقہ
یہ فیچر کسی بٹن کو کلک کرنے سے کام نہیں کرتا بلکہ یہ ایپ کے اندر چھپا ہوا ہے اور مخصوص الفاظ پر آن ہوجاتا ہے۔ بولڈ : کسی لفظ کو بولڈ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے آگے اور پیچھے * لگادیں مثال کے طور پر * سلام * ۔
اٹالک : اپنے لفظ کے شروع اور آخر میں _ کا اضافہ کریں جیسے _ سلام _ ۔
اسٹرائیک تھرو : اپنے لفظ کے شروع اور آخر میں ~ کا اضافہ کردیں جیسے ~سلام~ ۔ 
یہ تینوں فیچرز اکھٹے بھی کام کرسکتے ہیں اور آپ کسی ایک لفظ پر بھی انہیں آزما کر دیکھ سکتے ہیں۔


کون سا بھٹو، کس کا بھٹو؟

$
0
0

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے 38 برس کے دوران جنم لینے والی تیسری نسل کے لیے بھٹو پاکستانی تاریخ کے ایک ذیلی حاشیے، بےنظیر کے والد اور بلاول کے نانا سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر بھٹو ازم تھا بھی تو اب وہ کسی مقدس صندوقچی میں بند ہے جس کا دیدارِ عام پیشہ ور مرثیہ خوان سال میں بس دو دن (پانچ جنوری اور چار اپریل) کرواتا ہے ۔
(جیسے جناح صاحب کی اہمیت اتنی رہ گئی ہے کہ 25 دسمبر کو چھٹی ہوتی ہے اور اقبال کی تو اتنی بھی نہیں رہی)۔

جو سیانے سمجھتے ہیں کہ تاریخی عمل کی گاڑی میں ریورس گئیر نہیں ہوتا، انھیں اپنے مفروضے کی اوقات دیکھنی ہو تو پاکستان سے بہتر مثال کہاں۔ پاکستان کا مولوی بھٹو کی معزولی کے 40 برس بعد بھی 77 جیسی تحریک چلانے کی دھمکی دے رہا ہے۔ اسے بھٹو کی پھانسی کے 38 اور پھانسی دینے والے ضیا الحق کی موت کے 28 برس بعد بھی سیکولر لبرل ڈراؤنے خواب آ رہے ہیں۔ اور اسی بھٹو کے آئین کے تحت قائم اسلامی نظریاتی کونسل کے چوبارے سے 38 برس بعد بھی ’جاگدے رہنا ، ساڈہے تے نہ رہنا‘ کے انتباہات بھی تسلسل سے جاری ہو رہے ہیں۔
عام آدمی کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اصلی باتصویر مسائل کی جانب دھیان نہیں بھٹکتا اور سائے کے تعاقب کی عادی سیاسی و مذہبی قیادت کا ذہنی کھوکھلا پن بھی سادہ لوح اکثریت سے پوشیدہ رہتا ہے۔
بھٹو کو دنیا سے ہٹانے کے حق میں ایک تاویل یہ پیش کی جاتی تھی کہ اس جیسوں کے ہوتے پاکستان اپنی نظریاتی منزل کبھی حاصل نہ کر پائے گا۔ لیکن پھانسی کے 38 برس بعد بھی کسی ماتھے پر عرقِ ندامت نہیں کہ نام نہاد نظریاتی ٹرے میں سجے بنیادی مسائل ریلے ریس کے ڈنڈے کی طرح لایعنیت کے ٹریک پر بھاگتی ایک نسل سے دوسری نسل کو جوں کے توں تھمانے کے سوا کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

البتہ اتنی پیش رفت ضرور ہوئی کہ وہ پاکستان جو دولختی کے باوجود بھٹو دور تک بطور ایک سخت جان سٹیٹ جانا جاتا تھا، اگلے 38 برس میں یہ پاکستان نان سٹیٹ اور ریل اسٹیٹ ایکٹرز میں بٹ بٹا گیا ۔

38 برس پہلے کی نوجوان نسل کا آئیڈیل بھٹو تھا، 38 برس بعد ممتاز قادری ہے۔ 38 برس پہلے مولوی اپنے پہ بنائے لطیفے بھی خوش دلی سے سنایا کرتا تھا، 38 برس بعد مذہب کے ٹھیکیداروں نے نے سماج کو ہی زندہ لطیفہ بنا ڈالا۔
38 برس پہلے باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی تاریخ خطِ مستقیم میں سفر کرنے کی عادی تھی، آج گول گول گھوم کے تھکنا سفر کہلاتا ہے۔
رہے بھٹو کے گدی نشین، تو ان کے لیے بھٹو کوئی شخصیت نہیں ایک ٹکسال ہے جو 24 گھنٹے چلنے کے باوجود مالی و اقتداری شکم کی آگ بجھانے میں ناکام ہے۔
 
بھٹو کا دوسرا نام کئی برس سے ’چلو چلو لاڑکانہ چلو‘ پڑ چکا ہے۔ بھٹو سالگرہ کے کیک اور برسی کی بریانی میں پایا جاتا ہے۔ بھٹو کہنہ سال پیپلز فورٹ میں مقید نکمے شہزادوں کی سیاسی پنشن بک ہے۔ بھٹو پیپلز پارٹی کے میوزیم میں سجا مجسمہ ہے جیسے لاہور میوزیم میں فاسٹنگ بدھا۔

اچھا ہوا بھٹو کو 38 برس پہلے پھانسی لگ گئی۔ کم ازکم یہ تو معلوم ہے کس نے لٹکایا۔ بھٹو کی بیٹی کو تو قاتل کا نام جاننے کی لگژری بھی نصیب نہ ہو سکی۔
ان 38 برسوں میں بتدریج ذہنی ٹریجڈی پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوئی جو آج گلی گلی کھلے بالوں گھوم رہی ہے ’میں زندہ ہوں ، میں زندہ ہوں۔‘ کوئی نہیں جو اسے ایدھی شیلٹر ہوم کا راستہ ہی سجھا دے۔

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

پانامہ لیکس کے انکشافات نے تہلکہ مچا دیا

$
0
0

ویکی لیکس کے بعد پانامہ لیکس کے انکشافات نے تہلکہ مچا دیا ہے۔ پانامہ لیکس نے اس راز سے پردہ اٹھایا ہے کہ متعدد پاکستانیوں نے بیرون ملک آف شور کمپنیاں بنائیں، یہ کمپنیاں رکھنے والوں میں پاکستانی سیاست دان، کاروباری شخصیات، بینکرز، حاضر سروس اور ریٹائرڈ جج بھی شامل ہیں تاہم میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف کی ملکیت میں براہ راست کوئی کمپنی نہیں جبکہ حسین نواز، حسن نواز، اور شہبازشریف کے رشتہ داروں کے نام پر آٹھ کمپنیاں ہیں ۔

 آف شور کمپنیوں کے مالکان میں بے نظیر بھٹو، جاوید پاشا، رحمان ملک، سینیٹر عثمان سیف اللہ اینڈ فیملی، چودھری برادران کے رشتہ دار وسیم گلزار، حج اسکینڈل کے شریک ملزم زین سکھیرا بھی شامل ہیں۔ غیر ملکی کمپنیاں بنانے والوں میں پاکستان کی کئی اہم کاروباری شخصیات کے نام بھی شامل ہیں۔ اس فہرست میں بارایسوسی ایشن کے ارکان، ایک حاضر سروس جج اور ریٹائرڈ جج ملک قیوم کے نام بھی درج ہیں۔ پاکستانی شخصیات میں سب سے زیادہ آف شور کمپنیاں سیف اللہ خاندان کی ہیں۔  

آف شور کمپنیاں

$
0
0

دنیا میں دو امریکا ہیں، شمالی امریکا اور جنوبی امریکا، یونائیٹڈ اسٹیٹس آف
امریکا (یو ایس اے) شمالی امریکا میں ہے جب کہ جنوبی امریکا چھوٹے بڑے 14ممالک پر مشتمل خشکی کا ایک بڑا ٹکڑا ہے۔

ان دونوں امریکاؤں کے دونوں طرف دو بڑے سمندر ہیں، پیسفک اوشین (بحرالکاہل) اور اٹلانٹک اوشین (بحراوقیانوس)۔ ان دونوں امریکاؤں کو خشکی کی ایک لمبی پٹی آپس میں ملاتی ہے، اس پٹی پر چھ چھوٹے چھوٹے ملک واقع ہیں، یہ چھ ملک ایک طرف سے میکسیکو سے ملتے ہیں، میکسیکو شمالی امریکا کا پہلا ملک اور امریکا کا ہمسایہ ہے، یہ چھ ملک دوسری طرف سے کولمبیا سے ملتے ہیں اور یہ جنوبی امریکا کا پہلا ملک ہے، پانامہ دونوں امریکاؤں کو آپس میں ملانے والی اس پٹی پر آباد ہے، امریکا کے دو بڑے شہر سان فرانسسکو اور نیویارک الگ الگ سمندروں کے کناروں پر واقع ہیں۔

نیویارک اٹلانٹک اوشین پر ہے اور سان فرانسسکو اور لاس اینجلس پیسفک اوشین میں۔ ان دونوں کے درمیان چھ ملکوں کی یہ بڑی پٹی آتی ہے، پچھلی صدی کے شروع تک سان فرانسسکو سے بحری جہاز چلتے تھے اور پورے جنوبی امریکا کے گرد 22 ہزار کلو میٹر کا سفر طے کر کے نیو یارک پہنچتے تھے اور اس میں عموماً 15 دن لگ جاتے تھے۔

امریکا نے پچھلی صدی کے شروع میں یہ فاصلہ کم کرنے کا فیصلہ کیا، پانامہ دونوں امریکاؤں کے درمیان واحد ایسا ملک تھا جہاں دونوں سمندروں کا درمیانی فاصلہ کم ہو جاتا ہے، امریکا نے اس قدرتی تحفے کا فائدہ اٹھایا اور 1904ء میں پانامہ میں 77 کلو میٹر لمبی نہر کھود دی، یہ نہر پانامہ نہر کہلاتی ہے اور اس نے دونوں سمندروں کو آپس میں جوڑ دیا، یہ نہر سو سال سے پانامہ کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اس سے سالانہ نو لاکھ بحری جہاز گزرتے ہیں اور پانامہ اس سے اربوں ڈالر کماتا ہے۔

پانامہ کی نہر نے جہاں نیویارک اور سان فرانسسکو کا فاصلہ 22 ہزار کلو میٹر سے کم کر کے ساڑھے نو ہزار کر دیا وہاں یہ نہر ملک کیلیے کمرشل ازم کا نیا ریلا بھی لائی، پانامہ کی زیادہ تر تجارتی کمپنیاں شروع میں بحری جہازوں سے وابستہ ہو گئیں لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد کاروبار کے نئے ذرائع سامنے آنے لگے، عرب ملکوں نے تیل کی تجارت میں چھلانگ لگا دی، وسائل سے مالامال ملکوں میں آمریت نے پنجے گاڑھ دیے۔

سوویت یونین اور امریکا کے درمیان کولڈ وار شروع ہوئی اور دنیا میں ہتھیاروں کی تجارت ہونے لگی، ویتنام اور افغانستان کی جنگوں نے منشیات کو انڈسٹری بنا دیا اور ایشین ٹائیگرز نے سر اٹھایا اور دنیا میں کرپشن اور رشوت کا بازار گرم ہو گیا، ساٹھ سے اسی کی دہائی کے درمیان دنیا کے 37 ممالک میں فوجی انقلاب اور باوردی حکومتیں آئیں، ان حکومتوں نے لوٹ مار شروع کر دی اور نوے کی دہائی میں دنیا میں کارپوریٹ انقلاب آ گیا، ہزاروں لاکھوں کمپنیاں بنیں اور ان کمپنیوں نے ٹیکس چوری شروع کر دی۔

یہ نئے ٹرینڈز پانامہ سمیت دنیا کے غریب اور چھوٹے ملکوں کیلیے نعمت ثابت ہوئے اور یہ سرمایہ کاری اور ٹیکس فری جیسے خوبصورت لفظوں کے ذریعے دنیا بھر کے اسمگلروں، مافیاز، آمروں، ٹیکس چوروں، اسلحہ فروشوں اور شاہی خاندانوں کی ’’لانڈری‘‘ بن گئے، آپ اگر نقشہ دیکھیں تو آپ دیکھیں گے، پانامہ کی سرحدیں کولمبیا سے ملتی ہیں اور کولمبیا منشیات فروشوں اور مافیا لارڈز کی جنت ہے، پانامہ کے دو وکیلوں جارجن موزیک (Jurgen Mossak) اور رومن فانسیکا نے دنیا کی ان تبدیلیوں پر نظر رکھی ہوئی تھی۔

انھوں نے صورتحال کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور پانامہ میں 1977ء میں ’’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘‘ کے نام سے لاء فرم بنا لی، یہ فرم شروع میں کولمبیا کے منشیات فروشوں اور مافیا لارڈز کیلیے ’’آف شور کمپنیاں‘‘ بناتی تھی، پانامہ نے ان دنوں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کیلیے ’’ٹیکس فری‘‘ اصلاحات متعارف کرائی تھیں، دنیا کا کوئی بھی امیر شخص پانامہ میں کمپنی بنا سکتا تھا، بینک اکاؤنٹ کھول سکتا تھا اور اس اکاؤنٹ میں جتنی چاہے رقم جمع کر سکتا تھا، حکومت اس سے ’’سورس‘‘ نہیں پوچھتی تھی، موزیک فانسیکا اینڈ کو نے کلائنٹس کیلیے پانامہ کے ہزاروں شہریوں کے شناختی کارڈ جمع کیے، بینکوں کو ساتھ ملایا اور دھڑا دھڑ آف شور کمپنیاں بنانے لگی۔

لاء فرم کے کلائنٹس ان کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں اپنی ’’بلیک منی‘‘ ڈالتے تھے اور پھر اس رقم سے یورپ، مشرق بعید اور امریکا میں جائیدادیں بھی خریدتے تھے، کاروبار بھی کرتے تھے، فیکٹریاں بھی لگاتے تھے اور عیاشی بھی کرتے تھے، یہ لوگ رشوت اور کک بیکس بھی ان اکاؤنٹس کے ذریعے لیتے ہیں، رشوت دینے والی پارٹیاں ان آف شور کمپنیوں کے نام پر تجارتی سامان خریدتیں، یہ سامان دوسرے ملکوں میں بیچ دیا جاتا اور رقم کمپنی کے اکاؤنٹ میں آ جاتی، یہ لوگ مختلف ملکوں کی ٹیکس رعایتوں، اسٹاک ایکسچینجز اور اسٹے بازی کا فائدہ بھی اٹھاتے تھے اور یوں ان کی بلیک منی بھی وائٹ ہو جاتی تھی اور دولت میں بھی دن دگنا اور رات چوگنا اضافہ ہو جاتا تھا۔

’’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘‘ کا کاروبار چل پڑا، یہ فرم آہستہ آہستہ پانامہ سے باہر نکلی اور دنیا کی چوتھی بڑی لاء فرم بن گئی، دنیا میں اس وقت ’’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘‘ کے پچاس کے قریب دفاتر اور 500 اعلیٰ پائے کے مستقل وکلاء ہیں، اس فرم نے دنیا کے سو سے زائد ممالک میں جزوقتی وکلاء کا بندوبست بھی کر رکھا ہے اور اب اس کے کلائنٹس میں صرف مافیاز اور منشیات فروش شامل نہیں ہیں بلکہ یہ اب دنیا جہان کے امراء کی لاء فرم ہے، یہ ان کیلیے آف شور کمپنیاں بھی بناتی ہے، ان کیلیے عارضی دفاتر کا بندوبست بھی کرتی ہے۔

ان کیلیے جعلی اسٹاف بھی بھرتی کرتی ہے، ان کو ٹیکس سے بھی بچاتی ہے اور انھیں سرمایہ کاری کے نئے طریقے بھی بتاتی ہے، یہ فرم اس قدر مضبوط ہے کہ یہ چھوٹے ملکوں میں حکومتیں بدل دیتی ہے، یہ پھر ان حکومتوں سے ٹیکس اصلاحات کے نام پر سسٹم تبدیل کراتی ہے، اپنے کلائنٹس سے وہاں سرمایہ کاری کراتی ہے اور آخر میں ان ملکوں کا سارا سرمایہ سمیٹ کر غائب ہو جاتی ہے، یہ فرم ہمارے ملک کے نظام میں بھی خوفناک حد تک دخیل ہے، کیسے؟ میں اس کیلیے صرف دو مثالیں پیش کروں گا، ہمارے ملک میں شوکت عزیز نام کے ایک وزیراعظم ہوا کرتے تھے، یہ کہاں سے آئے، یہ چند ہفتوں میں وزیر خزانہ کیسے بن گئے۔

یہ وزیراعظم کیسے بنے، ان کے دور میں ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ کیسے ہوا، پاکستان کی پیداوار تاریخ کی بلند ترین سطح پر کیسے پہنچی، ڈالر کی قیمت کیسے مستحکم رہی اور پھر یہ 2008ء میں اچانک کہاں غائب ہو گئے اور ان کے جانے کے چند ماہ بعد ملکی خزانہ کیسے خالی ہو گیا؟ اس کا جواب ’’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘‘ کے پاس ہے، کیوں؟ کیونکہ انھیں یہ فرم پاکستان لائی تھی، اسی نے انھیں وزیراعظم بنوایا تھا، اسی نے اپنے کلائنٹس کے ذریعے پاکستان میں سرمایہ کاری کرائی تھی اور اسی نے شوکت عزیز کے ذریعے اپنے کلائنٹس کا کالادھن سفید کرایا تھا اور ان کے اثاثوں میں اضافہ کیا تھا، دوسری مثال پاکستان کے تمام بااثر خاندان ہیں۔

یہ خاندان مختلف جماعتوں سے تعلق کے باوجود اس لاء فرم کے کلائنٹ ہیں اور یہ وہ کمزوری ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں کرپشن اور منی لانڈرنگ کے کسی مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوتا، کیوں؟ کیونکہ ملک کی ہر حکومت اور ہر اپوزیشن کے ڈانڈے پانامہ کی اس فرم سے جا کر مل جاتے ہیں، ملک میں مقدمے بنانے، تحقیقات کرنے اور فیصلے کرنے والے بھی اس فرم کے کلائنٹ ہیں، شوکت عزیز ہوں، شریف خاندان ہو، بھٹو فیملی ہو، چوہدری ہوں، سیف اللہ خاندان ہو، ملک کے جرنیل ہوں، جج ہوں، میڈیا مالکان ہوں یا پھر بیوروکریٹس ہوں یہ تمام لوگ ایک خاص مقام کے بعد ایک ہو جاتے ہیں، یہ ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں، آپ کو یقین نہ آئے تو آپ شوکت عزیز کے دور کا تجزیہ کر لیں، شریف خاندان اور بھٹو فیملی یہ دونوں اس دور میں ایک طرف حکومت کا ٹارگٹ تھے اور دوسری طرف ان کے کاروبار، ان کے اثاثوں اور ان کی دولت میں اضافہ ہو رہا تھا، کیسے؟ اس کیسے کا جواب ’’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘‘ ہے۔

یہ فرم چل رہی تھی لیکن پھر اچانک پچھلے سال اس کا ڈیٹا چوری ہو گیا، کمپنی کے مین سرور سے ایک کروڑ پانچ لاکھ ڈاکومنٹس نکلے اور یہ سیدھے جرمنی کے شہر میونخ کے مشہور اخبار زیتوشے زائتونگ(Süddeutsche-Zeitung) جا پہنچے، یہ میونخ کا سب سے بڑا اخبار ہے، یہ روزانہ ساڑھے گیارہ لاکھ کی تعداد میں چھپتا ہے، یہ یورپ کے سو بڑے اخبارات میں بھی شمار ہوتا ہے، یہ نیویارک ٹائمز کا ایڈیٹوریل پارٹنر بھی ہے، یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی کا پہلا اخبار تھا جسے امریکا نے اشاعت کی اجازت دی تھی، یہ تحقیقاتی صحافت میں پوری دنیا میں مشہور ہے۔ ’’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘‘ کا خفیہ ڈیٹا اخبار تک پہنچا تو ادارے میں سراسیمگی پھیل گئی۔

کیوں؟ کیونکہ یہ دنیا کا سب سے بڑا سکینڈل تھا، اس سکینڈل میں دنیا کے 143 اہم لوگ، ان کے خاندان اور ان کے فرنٹ مین شامل تھے، ان میں حکمران بھی تھے، شاہی خاندان بھی، بزنس گروپس بھی، اعلیٰ سرکاری عہدیدار بھی، کھلاڑی بھی، اداکار بھی اور این جی اوز بھی۔ یہ ایک بڑی خبر تھی لیکن اخبار نے یہ ’’کیک‘‘ اکیلا کھانے کی بجائے دنیا کے ان 76 ممالک کے صحافیوں کو ساتھ شامل کرنے کا فیصلہ کیا جن کی اعلیٰ شخصیات کے نام اس ڈیٹا میں موجود تھے، اخبار نے ڈیٹا کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا اور اسے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیشن جرنلزم (آئی سی آئی جے) کے ساتھ شیئر کر دیا، یہ ڈیٹا ملنے کی دیر تھی۔

دنیا کے 76 ممالک کے صحافیوں نے تحقیقات شروع کر دیں، اس ڈیٹا میں ابتدائی طور پر دو سو پاکستانی خاندانوں کے نام سامنے آئے، ان میں بھٹو فیملی بھی شامل تھی، شریف فیملی بھی، چوہدری صاحبان بھی، سیف اللہ خاندان بھی اور بے شمار بزنس مین اور اعلیٰ شخصیات بھی، ڈیٹا میں میاں نواز شریف کے دونوں صاحبزادے حسین نواز اور حسن نواز اور صاحبزادی مریم نواز جب کہ میاں شہبا زشریف کے خاندان سے ان کی اہلیہ تہمینہ درانی اور برادر نسبتی الیاس معراج کے نام شامل ہیں، تہمینہ درانی کے نام پر آخری کمپنی 2010ء میں اس وقت رجسٹر ہوئی جب میاں شہباز شریف کو وزیراعلیٰ بنے دو سال ہو چکے تھے۔
یہ کمپنیاں کیوں بنائی گئیں، یہ میں اگلے کالم میں بیان کروں گا۔

جاوید چوہدری

’’اب کیا خیال ہے اے اقبال کے شاہینو‘‘

$
0
0

جو قحطِ رزق میں گذرے تھے جاں سے
اب ان کی خاک پے فصلیں کھڑی ہیں
( محشر بدایونی)

میری تربیت اس ماحول میں ہوئی جہاں روٹی کا ٹکڑا زمین پر گرجاتا تو اسے چوم کر واپس چنگیر میں رکھ دیا جاتا۔ بوٹی یا آلو نیچے گر جاتا تو اسے دھو کے کھا لیا جاتا۔ مگر وہ ماحول، وہ دنیا، وہ تربیت کچھ اور تھی۔ پاکستان کے شہروں میں ایسا کون شخص ہے جس نے ایک بار بھی یہ منظر نہ دیکھا ہو کہ کوئی بوڑھا، جوان، بچہ، عورت، لڑکی کچرے کے ڈھیر سے گلی سڑی سبزی یا پھل کو الٹ پلٹ کر قابلِ خورد ٹکڑا تلاش کر رہے ہوں اور پاس ہی ایک کتا یا بلی بھی اسی کام میں مصروف ہو۔

ہم میں سے لاکھوں لوگ روزانہ یا تو کسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے ہیں، یا کسی تقریب میں جبلی ہوس کے ہاتھوں مجبور ہو کر بریانی اور قورمے کے پہاڑ اپنی پلیٹ میں بناتے ہیں اور آدھا پہاڑ اسی پلیٹ میں چھوڑ کے میٹھے پر لپک پڑتے ہیں۔ کبھی سوچا کہ جو کھانا ضایع ہوتا ہے یا استعمال نہیں ہو پاتا وہ کہاں جاتا ہے ؟

عالمی ادارہِ خوراک نے تین برس پہلے غیر استعمال شدہ کھانے کے بارے میں جامع رپورٹ شایع کی۔اس کے مطابق دنیا میں ہر رات لگ بھگ ستاسی کروڑ افراد بھوکے سوتے ہیں (ممکن ہے پچھلے تین برس میں یہ تعداد بڑھ کے ایک ارب تک جا پہنچی ہو)۔ رپورٹ کے مطابق دنیا میں جتنی خوراک تیار ہوتی ہے اس میں سے تینتیس فیصد استعمال ہوئے بغیر ضایع ہو جاتی ہے۔ یعنی ہم ہر سال ساڑھے سات سو ارب ڈالر مالیت کا ایک اعشاریہ تین ارب ٹن کھانا ضایع کر دیتے ہیں۔ اس مسترد کھانے کے گلنے سڑنے سے سالانہ تین اعشاریہ تین بلین ٹن گرین ہاؤس گیسز پیدا ہو کر خلا میں پہنچتی ہیں اور عالمی درجہ حرارت کے اضافے میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ یعنی یہ ضایع کھانا اس کرہِ ارض کو چار سو تیس ارب ڈالر سالانہ کا ماحولیاتی نقصان پہنچاتا ہے۔
جو ایک تہائی کھانا ہم ضایع کر دیتے ہیں اس کی تیاری میں جتنا پانی خرچ ہوتا ہے وہ روس کے سب سے بڑے دریا وولگا کے سالانہ بہاؤ کے برابرہے۔ ایک کلو چاول جو استعمال ہوئے بغیر ضایع ہوگیا اس کی پیداوار پر دو ہزار لیٹر پانی صرف ہوتا ہے۔ ایک کلو بیف جو ہم کوڑے میں پھینک دیتے ہیں اس کی نمو پذیری پر پندرہ ہزار لیٹر پانی صرف ہوتا ہے۔ جو کھانا ہم کبھی چکھتے بھی نہیں اسے پیدا کرنے میں کل عالمی زرعی رقبے کا اٹھائیس فیصد استعمال ہوتا ہے اور اسے قابلِ خورد بنانے پر بیالیس ارب ڈالر کا ایندھن صرف ہوتا ہے۔

پاکستان میں دو ہزار تیرہ کے قومی غذائی سروے کے مطابق اٹھاون فیصد خاندانوں کو یا تو پوری خوراک نہیں ملتی یا ناقص خوراک ملتی ہے۔ پانچ برس سے کم عمر کے چوبیس فیصد بچے یعنی ہر چوتھا پاکستانی بچہ ناکافی غذائیت کا شکار ہونے کے سبب فطری جسمانی و ذہنی نشوونما سے محروم ہے۔ پاکستان نے ازخود اقوامِ متحدہ سے سن دو ہزار میں وعدہ کیا کہ اگلے پندرہ برس میں ناکافی غذائیت کے بحران کو کم از کم پچاس فیصد تک کم کرنے کیلیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔اب یہ ہدف دو ہزار تیس تک بڑھا دیا گیا ہے۔ مگر دو ہزار تیس تک بھی یہ ہدف کیسے حاصل ہو پائے گا ؟

جرمن واچ گلوبل کلائمٹ انڈیکس کے مطابق پاکستان میں ماحولیاتی ابتری کے نتیجے میں پانی کی کمی کے سبب دو ہزار تیس تک زرعی پیداوار میں پچاس فیصد تک کمی کا خدشہ ہے۔ اس کمی کو یقینی بنانے کے لیے پاکستانیوں کی پوری کوشش ہے کہ زرعی رقبہ بڑھانے کے بجائے اور گھٹایا جائے اور اس کا ایک طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ بڑھتی آبادی کی رہائشی ضروریات پوری کرنے کے لیے بنجر قطعاتِ زمین پر بستیاں بسانے کے بجائے پھیلتے شہروں اور قصبوں کے نزدیک کی زرخیز زرعی زمینوں کو ہی رہائشی کالونیوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے تاکہ فوراً کروڑ پتی بنا جائے۔آیندہ نسلوں کے ساتھ کیا ہوگا آیندہ نسلیں جانیں۔
اور آیندہ نسل کا انتظار کرنے کی بھی کیا ضرورت ہے ؟ پاکستان میں دنیا کے بہترین پھل اور سبزیاں پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن درجہ اول کی معیاری زرعی اجناس بیرونِ ملک برآمد ہو جاتی ہیں۔ پاکستانیوں کو صرف بی اور سی درجے کا پھل اور سبزی درجہ اول کے نرخوں پر میسر ہے۔
ان حالات میں کاشتکار بھی کیوں نہ نقد آور فصلوں میں دلچسپی لے جب وہ یہ دیکھے کہ آڑھتی اس سے پانچ روپے کلو آلو خرید کر منڈی میں دس روپے کلو سپلائی کررہا ہے اور منڈی سے پرچون والا وہی آلو خرید کے اس صارف کو بیس تا پچیس روپے کلو بیچ رہا ہے جو صارف بذاتِ خود ناکافی غذائیت اور غذائی عدم تحفظ کے نرغے میں ہے۔ یعنی کھیت سے آلو ڈھائی سو فیصد زائد قیمت پر صارف کے کچن تک پہنچ رہا ہے۔

اس فارمولے کو آپ ہر سبزی اور پھل پر لاگو کر لیں۔ اگر حکومت مڈل مین کو بیچ میں سے نکال کر فارمر اور کنزیومر کو براہ راست رابطے کی سہولت فراہم کرے جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں رجحان ہے تو کاشتکار کو بھی اپنی فصل کی اچھی قیمت مل سکتی ہے اور صارف کو بھی یہ اشیا آدھی قیمت میں دستیاب ہوسکتی ہیں۔مگر حکومت یہ غیر ضروری کام کرے کیوں ؟ دودھ بچے کی جسمانی و ذہنی نشو و نما میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان دودھ کی پیداوار کے عالمی چارٹ میں پانچویں نمبر پر ہے۔اس کے باوجود کوئی یہ المیہ سمجھنے پر تیار نہیں کہ سب سے کم دودھ پاکستانی بچے کو ہی میسر آتا ہے اور اس کے اثرات جسم تاحیات بھگتتا ہے۔

بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں گاؤں سے چالیس تا ساٹھ روپے لیٹر دودھ خرید کے یہی دودھ ڈبہ پیک کر کے اسی کسان کو ایک سو بیس روپے فی لیٹر میں واپس کر رہی ہیں۔ مگر ادھار کا مارا اور ترس ترس کے پیسے وصول کرنے کا عادی خوار کسان ملٹی نیشنل کارپوریشن سے چالیس تا ساٹھ روپے نقد اور فوری ملنے پر اتنا خوش ہے کہ اس کی نگاہ طویل المیعاد نقصانات تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔
یہ بات سمجھ سے بالا ہے کہ جسمانی نشو و نما کے لیے لازمی پوٹاشیم کا خزانہ بہترین پاکستانی کیلا ایکسپورٹ ہو رہا ہے اور بھارت کا کیلا پاکستان میں امپورٹ ہو رہا ہے۔ کہنے کو پاکستان غذائی توانائی کے خزانے یعنی کھجور کی پیداوار کے لحاظ سے عالمی رینکنگ میں پانچویں نمبر پر ہے مگر مکران کی بیگم جنگی کھجور کو پیک کر کے مارکیٹ کرنے کا کوئی انتظام نہیں اور ایرانی کھجور ہر جگہ دستیاب ہے۔

بچپن میں جو دیسی رسیلی ناشپاتی کھائی اس کا سوچ کے آج بھی منہ میں پانی بھر آتا ہے۔ لیکن اب اس ناشپاتی کو چین سے آنے والی ناشپاتی نے بری طرح بیدخل کردیا ہے۔ یہ سیکڑوں میں سے چند مثالیں ہیں۔ گویا ہمارا حقِ انتخابِ غذا بھی اب غیروں کے ہاتھوں مقامی کاروباریوں کے توسط سے گروی ہو گیا ہے۔

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ ِنازک پے آشیانہ بنے گا ، ناپائیدار ہو گا
کہا تو یہ شعر اقبال نے مغرب کے لیے تھا۔ لیکن اب اپنے بارے میں کیا خیال ہے اے اقبال کے شاہینو؟

وسعت اللہ خان

Rains, flash floods cause havoc in Khyber Pakhtunkhwa

$
0
0
 Heavy rains cause flooding on the outskirts of Peshawar.





ملک کے لیے کچھ کرنا چاھتا ہوں - مگر؟

ایک اور جیوڈیشل کمیشن ۔۔ وزیر اعظم اور کیا کر سکتے تھے؟

$
0
0

پانامہ لیکس پر کافی شور تھا۔ چوبیس گھنٹے سے دنیا بھر میں ایک طوفان ہے۔ کئی ممالک میں تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے ۔ ایک دو ممالک میں پارلیمنٹ بھی تحلیل کر دی گئی ہیں۔ اس لئے ایسا کیسے ممکن تھا کہ ہمارے ملک میں کچھ نہ ہو تا۔ لہذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کے پاس بھی جیوڈیشل کمیشن بنانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔ وہ بھی عالمی رد عمل اور قومی رد عمل کے تناظر میں ایک بند گلی میں پہنچ چکے تھے۔ اس لئے جیوڈیشل کمیشن ہی واحد راستہ تھا۔

جس حد تک قومی سیاست کا تعلق ہے تو اپوزیشن اس جیوڈیشل کمیشن کو مسترد کر دے گی۔ یہ اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے کہ ریٹائرڈ جج کو کیوں اس کا سربراہ بنا یا جا رہا ہے۔ حاضر سروس جج کو بنا یا جا نا چاہئے۔ کچھ اپوزیشن رہنما یہ کہیں گے کہ جب تک وزیر اعظم میاں نواز شریف وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہیں۔ کوئی بھی جیوڈیشل کمیشن آزادانہ تحقیقات نہیں کر سکتا۔ لہذا ایک مرتبہ پھر استعفیٰ کی رٹ شروع ہو جائے گی۔ کچھ دوست یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ معاملہ فوج کو دے دینا چاہئے۔ فوج ہی اس کی تحقیقات کرے۔ فوجی عدالت میں ہی مقدمہ چلے یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ سابق چیف جسٹس (ر) افتخار چودھری نے اس معاملہ میں پہلے ہی اپنی رائے کا اظہار کر دیا۔ اور اس طرح شاید وہ اب اس کمیشن کے سربراہ نہیں ہو سکتے۔ ورنہ اپوزیشن شور مچا دیتی کہ افتخار چودھری کو سربراہ بنا یا جا رہا ہے۔ بہر حال افتخار چودھری نے جو کہا ہے وہ کسی حد تک قانونی دائرہ میں درست بھی ہے۔ لیکن شاید ان کا موقف سیاسی طور پر قبو ل نہ ہو۔ شاید اس معاملہ میں قانون اور سیاست کا اختلاف ہی اصل تنازعہ کی وجہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ جو لوگ آج میاں نواز شریف کے بچوں پر بیرون ملک کاروبار کرنے کے حوالے سے تنقید کر رہے ہیں۔ وہ اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ بارہ اکتوبر کو جب فوج نے میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تھا۔ تو ان کے بچوں کو کیوں گرفتار کیا گیا تھا۔ حسین نواز کو کیوں گرفتار کیا گیا۔ حسن نواز کو کیوں لندن میں محصور کر دیا گیا۔ کیوں ایسا ماحول بنا دیا گیا تھا کہ اگر حسن نواز بھی ملک میں واپس آجائے تو اسے بھی گرفتار کر لیا جائے گا۔ فوج جب تختہ الٹتی ہے تو سیاستدانوں کے بچوں کو بھی کیوں پکڑ لیتی ہے۔ کیوں جب جمہوریت کا تختہ الٹا جا تا ہے تو سیاستدانوں کو ملک سے باہر جانے پر مجبور کیا جا تا ہے۔ کیا کوئی آج اسٹبلشمنٹ سے سوال کر سکتا ہے کہ کس قانون کے تحت میاں نواز شریف کے گھر کو اولڈ ہوم بنا دیا گیا تھا۔

پاکستان کے سیاسی حالات کا مضبوط جمہوری ممالک کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ کیا ان ممالک میں سیاستدانوں کو یہ خطرہ ہو تا ہے کہ ان کے جرائم کی سزا ان کی اولاد کو بھی بھگتنا ہو گی۔ جب جمہوریت کا بستر گول ہو گا۔ ان کی اولاد بھی پابند سلاسل ہو جائے گی۔ صرف میاں نواز شریف ہی نہیں بھٹو کی اولاد کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو پہلے جیل میں رکھا گیا۔ پھر ملک سے باہر جانے پر مجبور کیا گیا۔ بھٹو کے بیٹوں کے لئے بھی ملک واپسی مشکل کر دی گئی۔ آجکل سابق صدر آصف زرادری ملک سے باہر ہیں۔ ان کی واپسی میں بھی وہی عوامل رکاوٹ ہیں۔ جو پہلے میاں نواز شریف کی واپسی میں رکاوٹ تھے۔

بلاول اگر ملک میں واپس بھی آئے ہیں تو غیر ملکی ہی ہیں۔ ابھی بھی وہ اپنی مٹی سے اٹوٹ رشتہ نہیں بنا سکے۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو بھی ملک سے باہر ہی جانا پڑا۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان کے لئے تو اسٹبلشمنٹ نے خود ملک سے باہر جانے کے راستہ کا انتخاب کیا۔ اسی طرح سابق وزیر اعظم شوکت عزیز بھی ملک واپس نہیں آسکتے۔ خیر وہ تو پہلے بھی ملک میں نہیں رہتے تھے۔ اسی طرح کئی ریٹارئرڈ جرنیل اور بیورو کریٹ بھی اپنے اپنے حصہ کا مزا لوٹنے کے بعد ملک کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ وہ بھی ملک سے ہی سرمایہ باہر لیکر جاتے ہیں۔

آجکل اس ضمن میں عمران خان نے بہت شور مچایا ہوا تھا۔ ان کے نزدیک پانامہ لیکس کرپشن کے ثبوت ہیں۔ اس لئے اب میاں نواز شریف کے پا س حکومت کرنے کا کائی جواز نہیں ہے۔ لیکن کوئی عمران خان سے یہ پوچھنے کی جسارت نہیں کر سکتا کہ خان صاحب آپ کے بچے پاکستان میں کیوں نہیں رہتے۔ وہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تعلیم کیوں نہیں حاصل کر رہے۔ ان کا پاکستان کی مٹی سے کوئی رشتہ کیوں نہیں ہے۔ وہ پاکستان کے شہری کیوں نہیں ہیں۔ ان کو اردو کیوں نہیں آتی۔ وہ نہ تو ہماری زبان سمجھتے ہیں۔ نہ ہی انہیں ہمارے کلچر اور ثقافت کی سمجھ ہے۔ وہ کل کو باہر کاروبار بھی کریں گے۔

اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک کی دولت ہمارے ملک میں رہے۔ تو ہمیں اپنے ملک کو محفوظ بنانا ہو گا۔ ہمیں اپنے لوگوں کو ایسا قانونی تحفظ دینا ہو گا کہ کوئی یہاں خود کو غیر محفوظ نہ سمجھے۔ کوئی بھی حکومت چاہے وہ جمہوری ہو یا غیر جمہوریاتنی طاقتور نہ ہو کہ کسی سے اس کی دولت چھین سکے۔ کاروبار اتنا شفاف ہو کہ حکومتیں اس پر اثر نہ رکھ سکتی ہوں۔ کسی بھی حکومت کو منشا یا ملک ریاض رکھنے کی ضرورت نہ ہو۔ لیکن جب تک ایسا نہیں ہو گا۔ دولت مند اپنی دولت کو محفوظ کرنے کے چکر میں آف شور کمپنیاں بناتے رہیں گے۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی اولاد یں ملک سے باہر کاروبار کریں گی۔

تا ہم اس ساری بحث میں ایک دلیل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جو ممالک محفوظ ہیں وہاں کے حکمرانوں نے بھی آف شور کمپنیاں بنائی ہیں۔ اس کا کیا جواز ہے۔ لیکن شاید دولت کے حوالہ سے وہ ممالک بھی محفوط نہیں ہیں۔وہاں ٹیکس چوری ممکن نہیں۔ کا لا دھن رکھنا ممکن نہیں۔ پاکستان میں تو ٹیکس چوری بھی آسان ہے۔ کا لادھن رکھنا بھی آسان ہے۔ عدلیہ بھی کمزور ہے کسی کو کوئی سزا نہیں دیتی۔ اس لئے پکڑے جانے کے بعد بچ جانا بھی آسان ہے۔ نیب بھی پلی بارگین کر لیتی ہے۔ پھر بھی پاکستان دولت کے حوالہ سے کیوں غیر محفوظ ہے۔ شاید جیوڈیشل کمیشن اس کا جواب بھی ڈھونڈ لے۔ جہاں تک جیوڈیشل کمیشن سے آنے والے فیصلے کا تعلق ہے تو مجھے اس حوالہ سے کسی بڑے فیصلے کی کوئی امید نہیں۔ اگر میاں نواز شریف نے جیوڈیشل کمیشن بنا یا ہے تو سوچ سمجھ کر ہی بنا یا ہو گا ۔ وہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اس لئے شاید اپوزیشن بھی کمیشن کا بائیکاٹ ہی کر دے۔

مزمل سہروردی


حضور - جواب تو آپ پر فرض ہے

$
0
0

یہ آف شور کمپنیاں کیا ہوتی ہیں، ہم جیسے عام پاکستانیوں کے لئے تو ایسی کمپنیوں کا نام ہی غیر قانونی لگتا ہے۔ ’آف شور‘ سے لفظی طور پر مراد’ ساحل سے دور‘ ہے، اس کا ترجمہ ’غیر ملکی‘ کے طور پر زیادہ بہتر قرار دیا جا سکتا ہے۔ عمومی تصور یہی ہے کہ ایسی کمپنیاں کسی ایسے دوسرے ملک میں قائم کی جاتی ہیں جہاں ٹیکس کی چھوٹ ہی نہیں ہوتی بلکہ نہ تو یہ پوچھا جاتا ہے کہ ان کے اصل ، حقیقی مالک کون ہیں اور وہ یہ سرمایہ کہاں سے لائے۔ کاروباری دنیا کے اصولوں اور مفادات کو مدنظر رکھا جائے تو ہر سرمایہ کار کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے سرمائے کے تحفظ کے ساتھ ساتھ کم سے کم ٹیکس ادا کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ قانونی منافع حاصل کرنے کے لئے دنیا میں کہیں بھی کاروبار کرے۔

دنیا بھر میں ممالک سرمایہ کاروں کو اس حوالے سے پرکشش پیش کشیں کرتے رہتے ہیں مگر ترقی پذیر ممالک کے حکمرانوں سمیت دیگر بااختیار لوگوں کے ایسے کاروباروں کو عمومی طور پر سوئس اکاونٹس کی طرح ہی سمجھا جاتا ہے یعنی کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی بینک میں اپنا سرمایہ محفوظ کرے مگر جب وہ ایسے بینک کا چناو کرے گا جہاں اس سے آمدنی کے ذرائع کے بارے نہیں پوچھا جائے گا اوروہ بینک اسے خود اس کے اپنے ملک کے قانونی اداروں سے تحفظ دیں گے تو یقینی طور پر شک پیدا ہوگا کہ یہاں سرمایہ جمع کرنے یا سرمایہ کاری کرنے والوں کے اصل مقاصد کیا ہیں۔ خاص طور پر جب ہم حکمرانوں کی بات کرتے ہیں تو ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا بھر سے سرمایہ کاروں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کے لئے دعوت دیں تاکہ ملکی معیشت بہتر ہو، عوام کو روزگار ملے مگر جب سرمایہ کاروں کو علم ہوگا کہ فلاں ملک کا حکمران خاندان خود اپنے ملک میں سرمایہ کاری کو محفوظ نہیں سمجھتا تو وہ ایسے ملک میں سرمایہ کاری کا رسک کیسے لیں گے۔
پانامہ لیکس میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور ان کی اولاد کے ساتھ ساتھ دیگر بااثر لوگوں کی آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ سامنے آ گیا ہے۔ حکمران خاندان اور جماعت سے وابستہ لوگ اس امر کی وکالت کر رہے ہیں کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سے وابستہ لوگوں نے کسی قسم کی کوئی غیر قانونی ٹرانزیکشنز نہیں کیں ۔ ماضی میں یہ معاملہ اس وقت خرا ب ہوا تھا جب موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے سمدھی اور قائد بارے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے غیر قانونی طریقے سے رقوم پاکستان سے باہر منتقل کی تھیں۔ پاکستان میں عمومی طور پر سیاسی اور کاروباری اخلاقیات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔

یہ بھی پاکستان میں ہوا کہ ایک سیاسی رہنما نے عوام سے قانونی ذرائع کی بجائے ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک رقوم بھیجنے کی اپیل کی تاکہ اس کی نظر میں حکومت کو نقصان پہنچایا جا سکے مگر حقیقت میں ایسا کوئی بھی کام اصل میں ریاست کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ امر آف شور کمپنیوں کا سوئس اکاونٹس کو جواز دینے کے لئے ہرگز بیان نہیں کیا جا رہا مگر زمینی حقیقت یہی ہے کہ ہمارے بہت سارے سیاستدان پے در پے لگنے والے مارشل لاوں کے بعد اپنا اور اپنے بچوں کا مالی مستقبل پاکستان میں غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کسی بھی سیاسی اور غیر سیاسی حکومت کے دوران ملک سے بھاگنا پڑ سکتا ہے اور ایسے میں ان کے پاس بیرون ملک اتنے ذرائع اور وسائل ضرور ہونے چاہئیں کہ وہ نہ صرف ’’ عزت‘‘ کی زندگی گزار سکیں بلکہ اس دولت اور سرمایے کے ذریعے وہ اپنی سیاسی زندگی کو بھی تحفظ دے سکیں۔

پاکستان میں میڈیا عمومی طور پر سیاسی لوگوں پر زیادہ چڑھائی کا عادی ہے ورنہ اس میں بیوروکریٹوں اور ججوں سمیت بڑی بڑی مقدس گاؤں کے نام بھی شامل ہیں جن کو بوجوہ گالیاں نہیں دی جا سکتیں۔ وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے بھی اپنی آف شور کمپنیوں کے بارے کچھ اسی قسم کے دلائل دئیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب پرویز مشرف کے دور میں انہیں جلاوطن کیا گیا، ان کے مطابق وزیراعظم کے صاحبزادے ہونے کے باوجود وہ ایک غیر سیاسی شخصیت تھے، انہیں کئی ماہ تک قید میں رکھا گیا اور جب ملک سے جانے کی اجازت دی گئی تو پاسپورٹ تک ساتھ نہیں لے جانے دیا گیا۔ اب اگر ان کے بیرون ملک کاروباروں بارے پوچھا جاتا ہے تو وہ بھی سوال کرتے ہیں کہ جب ان کے خاندان نے بیرون ملک رہنا تھا تو اگر وہ کاروبار نہ کرتے تو پھر اپنے اخراجات کیا بھیک مانگ کے پورے کرتے۔

وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے سعودی عرب میں قرض لے کر ایک اسٹیل ملز قائم کی اور پھر ان کے خاندان نے اسے بیچ کر برطانیہ میں کاروبار شروع کیا۔ سوال یہ ہے کہ جب انہیں سعودی عرب بھیجتے وقت ایک روپیہ بھی نہیں لے جانے دیا گیا تو پھر انہوں نے سعودی عرب میں کس گارنٹی پر کتنا قرض لیا، کتنے میں اسٹیل ملز لگی اور کتنے میں فروخت ہوئی، کتنی رقم سعودی عرب سے برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں منتقل ہوئی، ان تمام سوالوں کو وہ اپنا مقدس کاروباری راز قرار دیتے ہیں۔ وزیراعظم کے دوسرے صاحبزادے حسن نواز کے نام کے ساتھ بھی برطانیہ میں انتہائی قیمتی جائیدادوں کی ملکیت جڑی ہوئی ہوئی ہے، وہ اس کی وضاحت دیتے ہیں کہ حسن نواز لندن میں پرانی جائیدادیں خریدنے ،ان کی تعمیر و مرمت کرنے، انہیں خوبصورت بنانے کے بعد فروخت کرنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ 

ان جائیدادوں کی ملکیت کاروباری نوعیت کی ہے۔ حکومتی نمائندے کہتے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف کا کوئی کاروبار اور اثاثے بیرون ملک نہیں ہیں مگر دوسری طرف وزیراعظم کے سیاسی مخالفین ان کی اولاد کی بیرون ملک کمپنیوں، اثاثوں اور کاروباروں کو بھی ان کی ذات اور مفادات سے ہی وابستہ قرار دیتے ہیں۔ اگرہم ہلکے پھلکے انداز میں تبصرہ کرنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی شخص کا سب سے بڑا اثاثہ اس کی اولاد ہوتی ہے ، حسین اور حسن نواز کے ساتھ ساتھ اب تو مریم نواز شریف کا نام بھی آف شور کمپنیاں قائم کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے اور اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ ایک میڈ ان پاکستان پرائم منسٹر کے اصل اثاثے تو اس وقت بھی ملک سے باہر ہی ہیں،اسی ہلکے پھلکے انداز میں عمران خان صاحب بارے بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کے بیٹوں کی صورت میں ان کے اصل اثاثے بھی برطانیہ میں ہی ہیں۔

میں اس تمام صورت حال کے باوجود ان اصحاب کی ملک سے محبت کے بارے سوال نہیں اٹھاتا، ہمارے بہت سارے پاکستانی جو بیرون ملک آباد ہو چکے، ان کے بچوں کے پاس وہاں کی شہریتیں ہیں اور ان میں سے ننانوے فیصد کبھی دوبارہ پاکستان میں آباد ہونے کا آپشن زیر غور نہیں لاتے، وہ بھی پاکستان سے محبت کرتے ہیں مگر ایک بات ضرور کہوں گا کہ ان کی ملک کے بارے محبت اور یہاں کے مسائل بارے وہ تشویش نہیں ہوسکتی جویہاں رہنے اور اپنے بچوں کا مستقبل پاکستان میں دیکھنے والوں کو ہو گی کہ ان کے پاس پاکستان کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔

یہ عین ممکن ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی اولاد نے تمام سرمایہ قانونی طور پر پاکستان سے باہر منتقل کیا ہو یا بیرون ملک سے ہی محنت کر کے کمایا ہو مگر کیونکہ ان کے والد پاکستان کے وزیراعظم ہیں لہذا ہم حسین نواز ، حسن نواز اور مریم صفدر کی صورت میں کاروباری شخصیات نہیں بلکہ اپنے وزیراعظم اور ان کی اولاد سے سوال پوچھنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں کہ انہوں نے بیرون ملک کمپنیاں اور جائیدادیں کیسے بنائیں۔ میں صرف اسلام کی سنہری روایات کی بات نہیں کرتا جس میں ایک خلیفہ سے عوام کے سامنے جواب مانگ لیا جاتا ہے کہ اس کا لباس تو ایک چادر میں نہیں بن سکتا تھا، یہ دوسری چادر کہاں سے آئی، میں آج کے دور کے غیر اسلامی مگر مہذب ممالک کی بات کر لیتا ہوں جہاں یہ سوال اپنے رہنماوں سے باقاعدہ طور پر پوچھے جاتے ہیں اوروہاں کسی حسین نواز کو ان سوالوں کے جواب چھپانے پر اصرار کا حق نہیں ۔

مجھے کہنے دیجئے کہ یہ وہی انداز و اطوار ہیں جنہوں نے پاکستان کے سیاستدانوں کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یقینی طور پرہم میڈیا والوں کوسیاستدانوں کی طرح بہت ساری مقدس گاؤں کے بارے اس طرح تبصرے اور سوال کرنے کا حق حاصل نہیں اور اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ جب سیاستدانوں کے جائز اور آئینی اقتدار کو ختم کیا جاتا ہے، انہیں پھانسیاں دی جاتی ہیں، انہیں جلاوطن کیا جاتا ہے تو پھرہم عام پاکستانی اسے قدرت کی طرف سے انصاف سمجھ کر خاموش ہوجاتے ہیں، مارشل لاوں کو اپنے نصیب کی کنجی سمجھ لیتے ہیں۔

نجم ولی خان

نااہل کون؟

$
0
0

کبھی کبھی آپ کو پہلے سے واضح باتیں دوبارہ کہنی پڑتی ہیں۔ دہشتگردی ایک
قومی مسئلہ ہے اور یہ پاکستان کے تحفظ اور سلامتی کو لاحق سب سے فوری اور بڑا خطرہ ہے۔ دہشتگردی ایک صوبے کا مسئلہ نہیں، اور نہ ہی یہ ایک سیاسی جماعت کے بارے میں ہے۔ اور اس کا مقابلہ بھی صرف ایک ادارہ اکیلے نہیں کر سکتا۔ مگر لگتا ہے کہ یہ تمام حقائق پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت اور فوجی قیادت پر واضح نہیں ہیں۔

گذشتہ ہفتے سیاسی اور سویلین قیادت کے لیے متحد ہو کر کھڑے ہونے اور قوم کو اعتماد میں لینے کا ایک اچھا موقع تھا۔ اس کے بجائے افراتفری اور خفیہ طور پر آدھی رات کو ملاقاتیں دیکھنے میں آئیں۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کی جنرل راحیل شریف سے ملاقات میں زیرِ بحث آنے والے نکات کے بارے میں عوام بہت ہی کم جانتے ہیں۔ عوام کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس ملاقات کو خفیہ رکھنے کی آخر کیا ضرورت تھی۔ جو بات معلوم ہے وہ یہ کہ جب بھی ان دونوں کے باس نواز شریف کے عسکری قیادت سے تعلقات تناؤ کا شکار ہوتے ہیں، تو یہی دونوں شخصیات ثالث کا کردار ادا کرتی ہیں۔
لیکن سول ملٹری اختلافات پر توجہ دینا ہمارے سامنے موجود خطرے، یعنی پنجاب میں دہشتگردی، سے نظر چرانا ہوگا، جسے جماعت الاحرار نے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے اور صوبے میں موجود دیگر دہشتگرد تنظیمیں جس میں حصہ لینے کے لیے پر تول رہی ہیں۔ پنجاب میں دہشتگردی کو فوری اور مؤثر طور پر شکست دینی ہے تو سیاسی اور عسکری قیادت کو کوتاہ بینی اداراتی مفادات کو ایک طرف رکھتے ہوئے کام کرنا ہوگا۔

فوج کے بارے میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ وہ ہر جگہ، ہر دائرہ کار میں زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہتی ہے۔ یہ پریشان کن ہے۔ فوجی عدالتوں سے لے کر گرفتار کرنے اور حراست میں رکھنے کے غیر معمولی اختیارات، اور بحالی اور اصلاحات کے عمل تک، فوج نے ریاست کے سویلین حصے میں بھی خاصی جگہ بنا لی ہے۔
سویلین حکومت کو پسِ پشت ڈالنے کی یہ بدقسمت وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ ہمیں تیزی کی ضرورت ہے، اور سویلین اداروں میں ہمت و عزم اور صلاحیت کی کمی ہے، مگر اس کا اثر انتہائی خطرناک ہوگا۔ سکیورٹی پالیسی پر عسکری اداروں کی اجارہ داری طویل مدت میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لیے نقصاندہ ثابت ہوگی۔

مگر مجموعی طور پر سیاسی طبقے اور خصوصی طور پر پاکستان مسلم لیگ ن کے بارے میں کیا؟ ضربِ عضب اور نیشنل ایکشن پلان نے سویلین سائیڈ کو انسدادِ دہشتگردی کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کے لیے کوئی تحرک فراہم نہیں کیا۔ نیکٹا کو ہوا میں معلق چھوڑ دیا گیا، قانونی اصلاحات کو نظرانداز کر دیا گیا اور عدالتی اصلاحات پر بھی کوئی کام نہیں کیا گیا۔

صرف وفاقی حکومت ہی نہیں، بلکہ صوبائی حکومتوں میں بھی دور اندیشی نظر نہیں آئی۔ سندھ اور خیبر پختونخواہ کی ترجیحات میں پولیس اصلاحات شامل نہیں، جبکہ بلوچستان علیحدگی پسندوں سے لڑنے میں مصروف ہے۔ اس دوران پارلیمنٹ مفلوج نظر آتی ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے ایک جوائنٹ سیشن فوراً بلایا جا سکتا ہے مگر کوئی بھی جماعت سکیورٹی پالیسی پر بحث یا قانونی اصلاحات نہیں کرنا چاہتی۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ممتاز قادری کے حامی مظاہرین کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ ن اب انسدادِ دہشتگردی قوانین پر بھی نظرِثانی کرنے کے لیے تیار ہے۔

فوج بھلے ہی اپنے دائرہ کار سے تجاوز کر رہی ہے، مگر یہ سویلین سائیڈ ہے جو خود اپنے اختیارات سے دستبردار ہو رہی ہے۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 4 اپریل 2016 کو شائع ہوا۔

سپریم کورٹ کہاں ہے؟

پاکستان کا حکمران خاندان اور پاناما لیکس

تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام

$
0
0

دنیا بھر میں شور مچا ہوا ہے‘ عوام کی دولت لوٹ کر کالے دھن کو آف شور کمپنیوں کے ذریعے مقید کیا جاتا ہے اور پھر ان کے ذریعے دنیا بھر کے سیاست دان‘ منشیات کا دھندا کرنے والے‘ عورتوں کو اسمگل کر کے ان کا جسمانی کاروبار کرنے والے‘ بھتہ خور‘ مافیا کے ارکان یہاں تک کہ بڑی کاروباری شخصیات اور میڈیا ہاؤس کے مالکان سب کے سب ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اور یہ صف ہے ٹیکس چوری کرنے اور اپنے کالے دھن کو سفید کرنے کی صف۔ دنیا کے جن ممالک میں بھی ایسے ’’ عزت دار ‘ لوگوں کے نام آئے ہیں وہاں کے ان چوروں‘ لٹیروں اور بددیانتوں کے خلاف ہاہا کار مچ چکی ہے۔ ہر کوئی ان کے بارے میں وضاحتیں تحریر کر رہا ہے‘ ٹیلی ویژن پر مذاکرے ہو رہے ہیں اور ان کی کرپشن پر ڈاکومینٹریاں بنا کر پیش کی جا رہی ہیں۔

ہر کوئی ان چوروں کو بے نقاب کرنے کی جدوجہد میں لگا ہوا ہے۔ لیکن کوئی اس پورے جدید معاشی جمہوری نظام کے بارے میں ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالتا جس کی کوکھ سے یہ سارے چور‘ لٹیرے‘ بددیانت‘ اسلحہ کے اسمگلر‘ خواتین کا دھندا کرنے والے اور بھتہ خور اپنے سرمائے کو تحفظ دیتے ہیں‘ پہلے عزت دار دولت مند کہلاتے ہیں اور پھر اسی سرمائے کے زور پر کسی ملک کی کانگریس یا پارلیمنٹ پر قبضہ کر کے اس کے سربراہ تک بن جاتے ہیں اور اپنے اس سرمائے کو تحفظ دینے کے لیے خود ہی قوانین بناتے ہیں۔

اپنی اس مکروہ دولت کے لیے آف شور کے نام سے محفوظ جنتیں تخلیق کرتے ہیں اور پورے کا پورا جدید معاشی جمہوری نظام ان کو تحفظ دیتا ہے۔ ان پر تنقید کرنے والے‘ ان کے خلاف دلائل لے کر آنے والے‘ ان کے خلاف گفتگو کرنے والے میڈیا کے افراد اور ان کے مخالف سیاسی یا کاروباری لوگ سب ان کے زر خرید غلام ہیں۔ جس کو جتنا بولنے کی اجازت ہوتی ہے اتنا ہی بولتا ہے۔ ہر دفعہ کچھ عرصے کے بعد ایک بڑی چوری کا سکینڈل نکل آتا ہے اور پھر ایک بحث کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔
چند لوگوں کا منہ کالا کر دیا جاتا ہے‘ ان کی جگہ نئے لوگ آ جاتے ہیں جو اگلے کتنے سالوں تک اسی گندے اور مکروہ نظام کا تحفظ بھی کرتے ہیں اور مال بھی بناتے ہیں۔ بینکاری کا سودی نظام اور اس کے ساتھ کارپوریٹ سسٹم کا سیکیورٹی ایکسچینج جو کمپنیاں رجسٹرڈ کرتا ہے اور لوگوں کے سرمائے سے کُھل کھیلتا ہے یہ دونوں اس پورے نظام کے اصل محرک ہیں۔ ان کے ذریعے سرمایہ کا ایک پہاڑ بنایا جاتا ہے اور اس پہاڑ میں سے چند ارب ڈالر سیاسی پارٹیوں کے فنڈ‘ میڈیا ہاؤس کے اخراجات‘ عالمی انسانی حقوق کی انجمنوں اور این جی اوز وغیرہ کو دیے جاتے ہیں۔

یہ سب کے سب اس جدید جمہوری معاشی نظام کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں۔ اسے دنیا کا اعلیٰ ترین اور کامیاب ترین تصور حکومت بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس نظام سے اگر چند ڈکٹیٹر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں تو پھر ڈکٹیٹر یا آمر کو نہیں پوری آمریت کو گالی دی جاتی ہے۔ حیران ہونے کی بات ہے کہ ’’ٹیکس چوروں کی یہ جنتیں‘‘ ساری کی ساری جمہوری ممالک میں قائم ہیں۔ پانامہ لیکس میں جس برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے والد کا ذکر ہے اور ساتھ ہی کئی سو برطانوی سیاستدانوں کا، تاجروں کا تذکرہ ہے۔

وہی کیمرون اس وقت دنیا بھر میں ٹیکس چوروں کے خلاف مہم کی قیادت کر رہا ہے اور منافقت کا عالم یہ ہے کہ برطانیہ ہی وہ ملک ہے جس کے ماتحت ایک جزیرہ جسے ایک نیم خود مختار حکومت کا درجہ دیا گیا ہے یعنی ’’ورجن آئی لینڈ Vingin lsland‘‘ وہ ٹیکس چوروں کی دنیا بھر کی چند بڑی جنتوں میں سے ایک ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں اس بڑی فرم موسیک فونسیکا Mossack Fonseca کی زیادہ تر کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔

یہ صرف پانامہ لیکس کی بات نہیں امریکا جو دنیا کی سب سے مضبوط جمہوریت اور سودی معیشت کا ہیڈ کوارٹر ہے وہاں تو یہ راز عرصے سے ایک راز نہیں کہ وہاں کے سرمایہ داروں نے ٹیکس چوری کرنے کے لیے امریکا کی کل آمدنی سے کئی گنا زیادہ سرمایہ ان آف شور کمپنیوں کے ذریعے امریکا سے باہر رکھا ہوا ہے اور یہ وہ جزیرے ہیں جن پر کسی ملک کا معاشی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ کس قدر مجرمانہ ذہنیت ہے اس جدید مغربی جمہوری معاشی نظام کی کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنا ہوں تو گوانتانامو بے کا جزیرہ رکھو اور معاشی اصولوں کی خلاف ورزیاں کرنا ہوں تو اپنے ہی زیر اثر جزیرے بناؤ جن میں قانون امریکی‘ برطانوی‘ فرانسیسی وغیرہ لاگو نہ ہوتا ہو اور جہاں ایسے چوروں اور لٹیروں کی ایک جنت آباد ہو۔

ٹیکس جسٹس نیٹ ورک جو ایک اہم امریکی ادارہ ہے اس کی 2012ء کی رپورٹ کہتی ہے، اس وقت 32 ہزار ارب ڈالر کا سرمایہ امریکی سرمایہ داروں نے ٹیکس چوری کرنے کے لیے ایسی آف شور کمپنیوں میں رکھا ہوا ہے۔ اگر یہ سرمایہ امریکا میں ہوتا تو تقریباًِ 200 ارب سالانہ ٹیکس اکٹھا ہوتا۔ لندن اسکول آف اکنامکس کے گبریا زک مین Gobria Zucman کی سربراہی میں ٹیکس چوری کے اس نیٹ ورک کا مطالعہ کروایا۔ اس کے مطابق سات ہزار چھ سو ارب ڈالر کا سرمایہ ہالینڈ، لکسمبرگ اور آئرلینڈ کے زیر اثر ایسے جزیروں پر رکھا گیا ہے جہاں کے جمہوری حکمرانوں نے چوروں اور لٹیروں کے لیے نرم قانون بنائے ہوئے ہیں۔

سوئٹزرلینڈ جسے دنیا کے سامنے خوابوں کی دنیا بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ وہاں کی طرز زندگی کو دیکھو‘ وہاں کی خوشحالی کو دیکھو‘ اس ملک میں اس رپورٹ کے مطابق صرف امریکا کے ٹیکس چوروں کا دو ہزار چار سو ساٹھ ارب ڈالر سرمایہ پڑا ہوا ہے جس کے سود سے یہ ملک امیر ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کی 2012ء کی رپورٹ کے مطابق امریکا کی ساٹھ بڑی کمپنیوں نے ایک سو چھیاسٹھ ارب ڈالر ان ٹیکس چوروں کی جنت میں رکھا ہوا ہے۔

1999ء میں جرنل آف پبلک اکنامکس نے رپورٹ شایع کی کہ 60 فیصد امریکی فرموں نے اپنا سرمایہ اسی طرح باہر رکھا ہے تا کہ ٹیکس چوری کر سکیں۔ پوری دنیا میں ہر ملک کو ایک (Financial Secrecy Index FSI) دیا جاتا ہے کہ وہ ملک کاروباری دولت کو کس حد تک چھپاتا ہے۔ یہ ملک معلومات خفیہ رکھیں تو ٹیکس چوروں‘ بھتہ خوروں‘ عورتوں کا دھندہ کرنے والوں‘ اسمگلروں‘ منشیات فروشوں اور ایسے دیگر افراد کو اپنا سرمایہ رکھنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔
اس لیے یہ جرائم پیشہ افراد اور بددیانت سیاست دان بھی اپنا سرمایہ ایسے ملکوں اور جزیروں میں رکھتے ہیں تا کہ ان کی چوری کے بارے میں معلومات نہ افشاء ہو سکیں۔ دنیا بھر میں ایسے 82 ملک اور جزیرے ہیں۔ خوش ہو جائیے‘ ناچیئے‘ دھوم مچایئے کہ ان میں اکثریت وہ ہیں جہاں جدید جمہوری معاشی‘ سیاسی اور سودی نظام رائج ہے۔

ان میں سرفہرست سوئٹزرلینڈ ہے جس کا 17652 FSI ہے اس کے بعد لکسمبرگ (14544)‘ ہانگ کانگ(12834)‘ کیمن آئی لینڈ (12335)‘ سنگا پور (12168)‘ امریکا (12129)‘ لبنان (7478)‘ جرمنی (7383)‘ جرسی (5912)‘ جاپان (5131)جمہوریت کی والدہ محترمہ برطانیہ اکیسویں نمبر پر ہے۔ یہ وہ 82 ممالک اور جزیرے ہیں جہاں آپ دولت لے جائیں‘ خواہ کیسے کمائی ہو‘ جیسا چاہے کاروبار کریں آپ کے سارے کاروبار کو تحفظ حاصل ہو گا اور آپ کی معلومات کسی کو نہیں دی جائیں گی۔

اب ذرا طریق کار ملاحظہ فرمائیں۔ یہ بددیانت اور چور پہلے اس ملک یا جزیرے میں رہائش پذیر ہونے کی اجازت لیتے ہیں۔ ان میں اکثر ایسے ہیں کہ سال میں چند دن ہی وہاں رہیں تو وہ رہائشی کہلاتے ہیں‘ پھر آپ کے بزنس کی ایک شاخ وہاں کھولی جا سکتی ہے جو آپ کو وہاں کے رہائشی بنانے میں مزید آسانی پیدا کرتی ہے۔

اس کے علاوہ ان جزیروں پر کمپنیاں یا ٹرسٹ بنا کر رجسٹرڈ کروائے جاتے ہیں۔ آپ دنیا میں کہیں بھی کاروبار کریں آپ کا سرمایہ اسی جزیرے سے جاتا ہے اور یہیں واپس نفع کما کر آ جاتا ہے۔ یہاں اول تو ٹیکس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی اور اگر ہوتی ہے تو بہت کم۔ یہ لوگ اپنے اس کالے دھن سے دنیا بھر کے پورے جمہوری نظام کو مستحکم کرتے ہیں۔ وہ نظام جو ان کی سرپرستی کر رہا ہوتا ہے۔ ان کا سرمایہ پارٹی فنڈنگ میں جاتا ہے۔ اوباما کو یہ لوگ سات ارب ڈالر دیتے ہیں تو وہ اس قابل ہوتا ہے کہ الیکشن لڑ سکے۔ ہمارے ایک وزیر نے ایک دفعہ کیسا سچ بول دیا تھا کہ نواز شریف صاحب تو اب حسین نواز سے خرچہ منگواتے ہیں۔
اسی قسم کے خرچے پوری دنیا کے جمہوری نظام کو چلاتے ہیں۔ ایسے ہی خرچے ہیں جس سے اس پوری دنیا کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا چلتا ہے۔ نوم چومسکی نے اپنی کتاب Mannufacturing Consert میں دنیا کے بڑے میڈیا ہاؤسز کی لسٹ دی ہے۔ کمال کی بات دیکھیں کہ کرپشن کے خلاف سب سے بڑی عالمی این جی او ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل ہے۔ چلی میں اس کے صدر گونزیلو ڈیلو Gonzalo Delaveau کا نام بھی پانامہ لیکس میں آیا ہے جس نے اپنا سرمایہ چھپانے کے لیے آف شور کمپنی بنائی۔

چند دن شور مچے گا۔ وہ دیکھو آئس لینڈ کا وزیراعظم مستعفی ہو گیا‘ تمام ملکوں نے تحقیقات شروع کر دیں۔ دنیا کے جمہوری ملکوں کی اخلاقی حالت دیکھو کس قدر عظیم ہے۔ چوروں کو ٹھکانے لگایا جائے گا۔ اس کے بعد نئے لوگ ان جمہوری مسندوں پر بیٹھ جائیں گے اور اس جمہوری چھتری میں ان کا عظیم سودی معاشی نظام ٹیکس چوروں کی نئی جنتیں قائم کرتا رہے گا۔ یہی 82 جمہوری ملک چوروں‘ ڈاکوؤں‘ بھتہ خوروں‘ عورتوں کا کاروبار کرنے والوں اسمگلروں‘ اسلحہ اور منشیات بیچنے والوں کے سرمائے کا تحفظ کرتے رہیں گے۔ چور مردہ باد‘ چوروں کا تحفظ دینے والا جدید جمہوری معاشی سودی نظام زندہ بادہ۔ اقبال نے کہا تھا

تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر

اوریا مقبول جان

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live