Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

حکیم لقمان


ساڑھے دس ہزار میٹر بلند لواری ٹاپ پر جیپ ریلی

ممتازقادری کی پھانسی، میڈیا دو واضح حصوں میں تقسیم

$
0
0

ممتازقادری کی پھانسی اور اس فیصلے خلاف احتجاج کی کووریج پر پاکستانی میڈیا دو حصوں میں منقسم ہوگیا۔ گزشتہ روز ہی میڈیا کو ہدایت کردی گئی تھی کہ ممتازقادری کی پھانسی کی خبر کو کم سے کم جگہ پر شائع کیا جائے چنانچہ آج کے روزنامہ جنگ، ایکسپرس، نئی بات اور خبرین نے تین کالمی خبر شائع کی جبکہ روزنامہ "دنیا"نے محض دو کالمی خبر غیرنمایاں انداز میں شائع کی۔

تاہم کراچی کے روزنامہ جسارت، روزنامہ امت نے اس ہدایت کو قبول کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے پھانسی اور اس کے خلاف احتجاج کی خبروں کو بھرپور کووریج دی۔ روزنامہ جسارت نے سب سے پہلے پھانسی کی خبر شائع کرنے کا اعزاز حاصل کیا اور گزشتہ روز یہ خبر شہ سرخی کے ساتھ شائع کردی تھی، روزنامہ امت نے آج بھرپور کورریج دی۔
 امت نے شہ سرخی لگائی کہ "عاشق رسول کی پھانسی پر قوم سوگ میں ڈوب گئی"۔ اخبار کے صفحہ اول میں ممتاز قادری کا یہ بیان بھی شامل ہے کہ "حرمت رسول پر جان دے رہا ہوں، اہل خانہ کو استقامت کی وصیت"۔ روزنامہ امت نے یہ خبر بھی نمایاں انداز میں شائع کی کہ شاتم رسول آسیہ مسیح کو پانچ برس بعد بھی پھانسی نہ دی جاسکی۔ روزنامہ پاکستان نے بھی شہ سرخی کے ساتھ اس خبر کو شائع کیا۔

جانے سب کے سب کہاں گئے

$
0
0

لالچی مزے
اسکول کے باہر ٹھیلے پر ایک بڑا سا جستی دیگچہ دھرا رہتا جس میں تخمِ ملنگ کا برفیلا شربت ٹھاٹھیں مارتا۔یہ تخم چھوٹے چھوٹے سیاہ بیج سے ہوتے جو مچھلی کے نوزائیدہ بچوں کی طرح شربت میں تیرتے رہتے۔ اتنے ملائم کہ دانتوں تلے آ کر پھسل پھسل جائیں۔ مگر ایک آنے کا گلاس بھر شربت تپتی دو پہر میں معدے کو ایرکنڈیشنڈ کر دیتا۔

تخمِ ملنگ والے کی بغل میں فالودے والا براجمان ہوتا۔ وہ ایک یخ مٹکے میں دھرے ٹین کے چھوٹے چھوٹے سانچے نکالتا اور سانچے کے اوپر منڈھے ربڑ کو اتار کے تام چینی کے پیالے میں قلفی ٹپکا دیتا۔ پھر چوبی رندے پر برف کا بڑا سا ٹکڑا کھڑچ کھڑچ کرکے برفیلا چورا پیالے میں ڈالتا اور ریڑھی کے دوسرے کونے پر بنے کھانچوں میں اٹکی گاڑھے شربت کی سبز ، پیلی اور سرخ بوتلوں کو پیالے پر چھڑکتا اور مٹی کی چاٹی میں سے فالودے کے بڑے بڑے مرمریں لچھے نکال  کے پیالہ لبالب کردیتا۔ جوں ہی یہ ٹھنڈا فالودہ گرم تالو سے لگتا۔ سورہِ رحمان کے معنی جھٹ سے پلے پڑ جاتے جنھیں سمجھانے کے لیے دینیات کے ماسٹر عنایت حسین نے ڈنڈہ اور بچوں کی چمڑی ایک کر رکھی تھی۔’’ اور تم خدا کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ‘‘۔
جو بچے چونی کا یہ فالودی پیالا افورڈ نہیں کرسکتے تھے، وہ پھر فالودے والے کیکڑچ کڑچ والے رندے پر برف کڑچوا  کر گولہ گنڈا بنوا لیتے۔ ٹھیلے والے کے پاس ڈیزائنر گولہ گنڈا بنانے کے تین جستی سانچے تھے۔ان سانچوں میں برف کا چورا ٹھونس کر اور بیچ میں سرکنڈے کا کانہ کھوب کر پھول ، گنبد یا دل کی شکل کا گنڈا باہر نکال کر اس پے گاڑھا ترنگا شربت چھڑکا جاتا تو بچوں کی باچھیں ندیدے پن سے کھلتی ہی چلی جاتیں اور ہم دیر تلک تین پیسے کے اس رنگین برفیلے طلسم میں کھوئے رہتے۔

فالودے والے کے برابر میں کھوئے والی قلفی کی تین پہیوں والی ریڑھی جمی ہوتی۔اس پرایک تین فٹ اونچی موٹی جستی قلفی کا سفید ماڈل ہوتا اور آزو بازو چھ آٹھ چوبی قلفیاں نصب ہوتیں۔ بڑی دو آنے کی اور چھوٹی قلفی آنے کی۔ قلفی پر ابھرے منجمد دودھیا دانوں سے بخوبی اندازہ ہوجاتا کہ قلفی میں اصلی کھوئے کی مقدار کتنی ہے اور دودھ کی کتنی۔
قلفی والے کے بالمقابل ایک شخص تیز دھوپ سے بچنے کے لیے چوخانہ صافہ سر پر منڈھے دو ٹانگوں والے فولڈنگ چوبی اسٹینڈ پر ایک پرات رکھ کے ڈنڈے سے بندھا کپڑا جھلتا رہتا۔ پرات کے نصف حصے پر لال املی والے گیلے چورن کی  پہاڑی چاندی کے اوراق سے ڈھنپی ہوتی۔ تین پیسے میں خریدا گیا کھٹا میٹھا چٹخاری چورن زبان لال کرنے کے لیے بہت ہوتا۔

چورن والے سے قدرے فاصلے پر نکڑ میں ایک صاحب ایک ہاتھ سے پیتل کی چھوٹی سی گھنٹی بجاتے رہتے اور دوسرے ہاتھ سے بانس تھامے رہتے جس پر چیونگم کی شوخ ترنگی پٹیاں لپٹی ہوتیں۔ برابر میں دھرے اسٹول پر گھی کے استعمال شدہ ڈبے میں بھری سرکنڈوں کی موٹی تیلیوں میں سے ایک عندالطلب نکالی جاتی اور ترنگی پٹی میں سے تھوڑی سی چیونگم توڑ کے اس کا مرغا ، طوطا یا پھول بنا کر تیلی میں اٹکا کے پیش کیا جاتا۔ بچے سے پانچ پیسے لیتے وقت چیونگم صاحب مسکراتے ہوئے کہتے اینجوائے یور سویٹ مائی سن 
اسکول کی چھٹی کے دس پندرہ منٹ بعد یہ چٹپٹا میٹھا پہیوں اور چوبی اسٹینڈز پے دھرا بازار اپنے کرداروں سمیت اگلی صبح تک غائب ہوجاتا۔ بچے گھروں کو لوٹ جاتے ، کھانا کھاتے اور سو جاتے اور پھر سہ پہر کے بعد فٹ بال گراؤنڈ کے اندر اور بار ایک نئی دنیا ابھرتی۔

دو ٹھیلے ٹھیک چار بجے کہیں سے نمودار ہوتے اور گراؤنڈ کے کنارے پر کھڑے ہوجاتے۔ دونوں ٹھیلوں پر برف کا ایک ایک بڑا بلوریں بلاک دھرا ہوتا۔ بلاک کو اندر سے کھوکھلا کر کے اس میں موسم کے مطابق کبھی کٹے تربوز یا آم کی موٹی موٹی قاشیں تو کبھی مالٹے ، موسمی وغیرہ بھری ہوتیں۔برف کے بلاکوں کے اندر سے جھانکتے پھلوں کا یخ منظر للچانے کے لیے اتنا کافی ہوتا کہ ان ٹھیلے والوں کو خریدار جمع کرنے کے لیے کبھی کسی نے آواز لگاتے نہیں سنا ۔
سبز مٹھوں کے موسم میں ایک تیسرا برفیلا ٹھیلا بھی گراؤنڈ سے متصل چوک میں آن کھڑا ہوتا۔ مگر مٹھوں کو کٹوانے کے فوراً بعدچوسنا پڑتا ورنہ ان میں کڑواہٹ پیدا ہونے لگتی۔انسدادِ کڑواہٹ کے لیے مٹھے کے ہر ٹکڑے پر کالی مرچ کا چھڑکاؤ گاہک خود ہی کر لیتا۔ ( مٹھے کا ترجمہ ممکن نہیں۔بس مالٹے کا دورپار کا ہریالا کزن سمجھ لیں جو سال میں چند دنوں کے لیے جھلک دکھلاتا ہے )۔

فلمی ڈھولچی
سینما پر آنے والی نئی فلم کی مارکیٹنگ کا ایک ہی طریقہ تھا۔ بڑے سے چوبی فریم پر کورا لٹھا کینوس کی طرح منڈھ  کر اس پر رنگین فلمی پوسٹر چپکایا جاتا۔کینوس کے چاروں طرف  رنگ برنگی جھلمل پنیاں لٹکائی جاتیں اور پھر یہ ہورڈنگ بانس پر ٹھونک کے سینما کے ڈھنڈورچی ڈھول گلے میں ڈال کے چھنکنا بجاتے گلیوں بازاروں میں نکل پڑتے اور کورس میں نعرے مارتے۔ پہلا شو تن وجے ، دوجہ شو چھ وجے ، کیہڑی فلم چن مکھنا…ڈن ڈن ڈن ڈن ڈن ڈنا ڈن چھو چھو چھو چھو چھوا چھو…

عید تہوار کے موقع پر جب قصبے کے تینوں سینماؤں کے مابین کاروباری رقابت شدت اختیار کر جاتی تو متحارب ڈھنڈورچی بھی تانگے پر سوار ہو جاتے۔ تانگے کے دائیں بائیں رسیلے فلمی ہورڈنگ فٹ ہوتے۔تانگے کی اگلی نشست پر ڈھولچی صاحب اور چھنکنا نواز اور عقبی نشست پر جستی بھونپو والا اعلانچی بیٹھتا اور پھر یہ بصری صوتی اشتہاری تانگہ شہر بھر میں دوڑتا پھرتا۔

سریلے ملنگ
یہ دو ملنگ عموماً عشاکے بعد بھیگتی رات میںنمودار ہوتے۔ نابینا ملنگ ایک ہاتھ بینا ملنگ کے کندھے پر دھرے رہتا اور دوسرے ہاتھ میں پکڑا ڈنڈہ وقفے وقفے سے زمین پے مارتا چلتا ۔ قطاری انداز میں رواںیہ سریلا جوڑا ہر گلی کے نکڑ پردو تین منٹ رک کر نعت ، حمد یا منقبت کا کوئی بند کورس میں گاتا اور آگے بڑھ جاتا۔آواز ایسی دردیلی اور طرز ایسی سریلی کہ تقریباً ہر گھر کا پٹ کھلتا اور کوئی نہ کوئی بچہ نابینا ملنگ کے ہاتھ میں سکہ خاموشی سے دھر کے پٹ بند کرلیتا۔ملنگوں کی جوڑی اپنا نغمگی کرب پیچھے چھوڑ جاتی جو اگر بتی کے دھوئیں کی طرح دھیرے دھیرے معدوم ہوتا جاتا۔

مائی آمنہ آ کھے حلیمہ نوں
ستے لیکھ جگا لے چپ کر کے 

وسعت اللہ خان


کی بورڈ کے ’’ایف‘‘ اور ’’جے‘‘ بٹن پر اُبھار کیوں ہوتے ہیں؟

$
0
0

عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ کی بورڈ کے ’’ایف‘‘ اور ’’جے‘‘ بٹن پر ابھار اس لیے ہوتے ہیں کہ نابینا افراد ان کی مدد سے بآسانی ٹائپنگ کر سکتے ہیں، تاہم ماہرین نے اس تاثر کو غلط قرار دیا ہے۔ ’’گارجین‘‘ کے مطابق ’’ایف‘‘ اور ’’جے‘‘ کے بٹن پر ابھار اس لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں کہ کمپیوٹر صارفین نیچے دیکھے بغیر درست کیز کا پتا لگاسکیں۔

 یہ ابھار صارفین کو اپنے ہاتھ بہتر ٹائپنگ پوزیشن پر رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ اگر آپ کی شہادت کی انگلیاں ان دونوں بٹنز پر ہوں، تو آپ کے بائیں ہاتھ کی باقی انگلیاں اے، ایس، ڈی اور ایف پر ہوتی ہیں جبکہ دائیں ہاتھ کی باقی انگلیاں جے، کے، ایل اور کولن پر ہوتی ہیں جبکہ دونوں انگوٹھے سپیس بار پر ہوتے ہیں۔ کیز پر یہ ابھار جون ای بوٹیش نے ایجاد کیے، تاکہ کی بورڈ استعمال کرنے والے افراد کی ٹائپنگ کی رفتار اور درستی میں اضافہ کیا جا سکے 

Mumtaz Qadri Life and History

$
0
0
Malik Mumtaz Hussain Qadri (1985 – February 29, 2016), better known as Mumtaz Qadri, was a Pakistani policeman and commando of Elite Police who was convicted of the assassination of Salman Taseer. 

Life and career 
Malik Mumtaz Hussain Qadri was born in Rawalpindi, Pakistan. He joined Punjab Police in 2002 and because of exceptional performance became member of Elite Police in 2007. In 2010, he joined the squad for the security of former Governor of Punjab, Salman Taseer. 

Murder 
On 4 January 2011, he opened fire and killed former Governor of Punjab Salman Taseer at Kohsar Market in Islamabad after he spoke in favor of Asia Bibi who was charged with blasphemy according to Law in Pakistan. Salman Taseer had freed Asia Bibi from Jail and helped her in escaping from Pakistan. He killed Taseer with 25 bullets when he was serving as his bodyguard. Immidiately after Killing Salman Taseer, Mumtaz Qadari sundered peacefully. After the death of Salman Taseer many people spoke in favour of Qadri because Taseer was accused of blasphemy. 

Arrest and execution 
Qadri was arrested and was sent to jail on five day physical remand on 6 January 2011. He appeared in court on 9 January 2011 and confessed that he killed Salman Taseer because of his statement in favour of Pakistani  Asia Bibi. During his appearance in court over 300 lawyers offered to do his case for free.  On 10 January 2011, he was sent to Adiala Jail on 14 day judicial remand. Due to security issues his case was held in Adiala Jail on 14 January 2011. He was charged with the murder of the Governor of Punjab. On 10 October 2011, court issued death warrant of Mumtaz Qadri. He filed an appeal against his death warrant in Islamabad High Court on 6 October 2011 and the appeal was admitted on 11 October 2011.  In 2014 a mosque was built in Islamabad after the name of Mumtaz Qadri.  The appeal filed by Qadri was rejected in December 2015. Mumtaz Qadri was executed on 29 February 2016 at 4:30 AM at Adiala Jail in Rawalpindi. 

Reaction to the execution 
Protests began immediately all over the country against the execution. Millions of people protested in major cities of Pakistan, including Islamabad, Karachi, Lahore and Peshawar. Lawyers in Islamabad called one day strike against the anti Islamic decision of Lahore High Court. Sunni Tehreek announced protests all over the country. Metrobus Rawalpindi-Islamabad was also suspended due to the protests in the city. Markets and business centres were closed and disturbance in traffic was reported in different locations of Lahore, Karachi and Islamabad. 


دیار غیر میں بہتر مستقبل کے خواب

ممتاز قادری کی پھانسی اتنی جلدی کیوں ؟


پاکستان میں مردم شماری کیوں ضروری ہے

یہ نجم سیٹھی کون ہیں؟

$
0
0

مصطفٰی کمال اور انیس قائم خانی ’’اچانک‘‘ کراچی آئے، انھوں نے ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کی اور سیاست میں طوفان برپا کر دیا۔ یہ پریس کانفرنس کتنی بھی اہم کیوں نہ ہو، اس کے اثرات بھلے دور رس نکلیں مگر ہمیں آج بھی کرکٹ پر بات کرنی ہے۔

ویسے تو ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں قومی ٹیم تسلسل کے ساتھ برا کھیل رہی ہے لیکن ورلڈ کپ ٹی ٹوئنٹی کے آغاز سے چند روز قبل ایشیا کپ میں اس کی جو درگت بنی ہے اس نے کرکٹ کے شائقین کو دکھی کر دیا ہے۔

بھارت کی عام سی بولنگ کے سامنے ہمارے بیٹسمین خزاں کے پتوں کی طرح جھڑ گئے، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی کمزور ترین ٹیم نے بھی ایک موقع پر ہمیں آگے لگا لیا اور پھر ٹورنامنٹ کے اہم ترین میچ میں بنگلہ دیش کی ٹیم نے اپنی وزیر اعظم حسینہ واجد کی موجودگی میں گھر واپسی کا پروانہ تھما دیا۔ اس ٹورنامنٹ کے لیے ٹیم میدان میں اتری تو ہمیں زُعم تھا کہ ہماری بولنگ کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔

پورے ٹورنامنٹ میں اگر کوئی میچ وننگ بولر نظر آیا تو وہ محمد عامر تھا جس کی ٹیم میں واپسی کی شدید مخالفت کی گئی۔ محمد سمیع کو پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں شاندار پرفارمنس پر ایشیا کپ کے لیے ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔ انھوں نے بھارت اور یو اے ای کے خلاف مناسب بولنگ کی اور بنگلہ دیش کے خلاف اپنے آخری اوور سے پہلے تک ٹھیک جا رہے تھے‘ پھر اچانک انھیں پتہ نہیں کیا ہوا کہ میچ کے اہم ترین اوور میں دو نو بالز کر دیں۔

اتنا تجربہ کار بولر اور ایک ہی اوور میں دو نو بالز، معاملہ سمجھ میں نہیں آتا۔ وہ تو شکر کریں محمد عامر سے نو بالز نہیں ہوئیں ورنہ طوفان کھڑا ہو جاتا۔ یہ ماننا پڑے گا کہ محمد سمیع کی نو بالز محمد عامر جیسی نہیں تھیں البتہ محمد آصف کی نو بالز کے قریب ضرور تھیں۔ بیٹنگ میں بھی شرجیل خان اور خرم منظور کی کارکردگی نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ شاہد آفریدی تو خیر مدت سے ایسے ہی کھیل رہے ہیں۔ انھیں اب شاید آفریدی کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ یعنی چل گئے تو ٹھیک ورنہ۔۔۔۔۔ ان سے کوئی سوال بھی تو نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ بے ہودگی کے زمرے میں آ سکتا ہے۔
قومی ٹیم کی ہار کے بعد مختلف تبصرے اور تجزیے جاری ہیں۔ ناقص کارکردگی کا تجزیہ کرنے کے لیے 5رکنی کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے۔ یہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی اپنی رپورٹ مرتب کر کے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے حوالے کر دے گی۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ وہی جو پاکستان میں کمیٹیاں بنائے جانے کے بعد ہوا کرتا ہے۔
اس لیے کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ سابق کرکٹروں سمیت متعدد شخصیات کے تبصرے نظر سے گذرے ہیں لیکن بنگلہ دیش سے شکست کے بعد پی سی بی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی کے ردعمل نے مجھے حیران کر کے رکھ دیا۔ سیٹھی صاحب فرماتے ہیں ٹیم کی مسلسل ناکامیوں سے مایوسی ہوئی، پی سی بی حکام کو ذمے داروں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ وہ ایک ٹی وی چینل پر بڑی بے اعتنائی سے فرما رہے تھے کہ ان کی ذمے داری تو پاکستان سپر لیگ ہے اور وہ اسی میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ان کا پی سی بی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، جو کچھ ہوا اس کے ذمے دار شہر یار خان ہیں۔ اگرچہ انھوں نے چیئرمین پی سی بی کا نام نہیں لیا مگر ان کا اشارہ واضح تھا۔

نجم سیٹھی نے جو کہا ممکن ہے وہی ٹھیک ہو لیکن ان کے دعوے کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں تھوڑا پیچھے جانا پڑے گا۔ وقار یونس قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ ہیں۔ ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ پلیئنگ الیون میں اپنی مرضی سے تبدیلیاں کراتے ہیں۔ جس کا چاہتے ہیں بیٹنگ آرڈر تبدیل کر دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں باہر بٹھا دیتے ہیں۔ وقار یونس کو مئی 2014ء میں قومی کرکٹ ٹیم کا کوچ بنایا گیا تو اس وقت پی سی بی کے چیئرمین نجم سیٹھی تھے۔

سیٹھی صاحب نے کوچ کا انتخاب کرنے کے لیے جو تین رکنی کمیٹی بنائی تھی وہ انتخاب عالم، ہارون رشید اور معین خان پر مشتمل تھی۔ ہارون رشید اس وقت چیف سلیکٹر ہیں، انتخاب عالم ٹیم کے مینجراور معین خان آیندہ کوچ کے امیدوار۔ نجم سیٹھی صاحب کے ہاتھوں قومی ٹیم کے کوچ بننے والے وقار یونس کو جب ٹیم سونپی گئی تو اس وقت عالمی رینکنگ میں ہماری ٹیم کی پوزیشن کچھ یوں تھی۔ ٹیسٹ میں ہم تیسرے، ون ڈے میں چھٹے اور ٹی ٹوئنٹی میں تیسرے نمبر پر تھے۔

آج جب لکھنے بیٹھا ہوں تو ٹیسٹ ٹیموں میں ہماری رینکنگ چوتھی، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں آٹھویں ہو چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب سے وقار یونس کوچ بنے ہیں عالمی درجہ بندی میں ہماری تنزلی کا سلسلہ جاری ہے۔ ون ڈے میں دو درجے اور ٹی ٹوئنٹی میں 5درجے تنزلی ہوئی ہے۔ ٹیسٹ رینکنگ میں زیادہ فرق نہیں پڑا تو اس میں وقار یونس کی ’’خوبی‘‘ سے زیادہ مصباح الحق کا ’’قصور‘‘ ہے۔

ٹی ٹوئنٹی میں کارکردگی بد سے بدترین ہو رہی ہے تو اس میں یقیناً کپتان شاہد خان آفریدی کا بھی ہاتھ ہے۔ سلیکشن کمیٹی کی کارکردگی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ چیف سلیکٹر ہارون رشید چونکہ خود ’’نوجوان‘‘ ہیں اس لیے وہ موجودہ دورکی کرکٹ کے تقاضوں سے بخوبی واقف ہوں گے۔ شہریار خان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ پی سی بی کے چیئرمین ہیں۔ وہ عمر کے جس حصے میں ہیں انھیں چیئرمین بنایا ہی اس لیے گیا تھا کہ کسی ’’اور‘‘ کے معاملات میں دخل اندازی نہ کریں۔

اس وقت حالت یہ ہے کہ تمام کامیابیوں کا سہرا نجم سیٹھی صاحب کے سر پر اور ساری ناکامیاں شہر یار خان کے کھاتے میں۔ پی سی بی کا موجودہ سیٹ اپ بنانے کا شاید مقصد ہی یہی تھا۔ وزیر اعظم کرکٹ بورڈ کے پیٹرن انچیف ہیں اس لیے وہ نہیں کہہ سکتے کہ کرکٹ کی موجودہ صورتحال کے وہ ذمے دار نہیں ہیں۔
اداروں میں اپنے بندے فٹ کرنے کا رویہ ہر ادارے کو تباہ کر رہا ہے۔

 میرٹ کس چڑیا کا نام ہے اور یہ کہاں پائی جاتی ہے اس کا علم کسی کو نہیں ہے۔ قومی کھیل ہاکی کا بیٹرہ غرق ہمارے سامنے ہوا ہے اس ملک میں کرکٹ بھی تباہ ہو جائے گی تو کسی کو کیا فرق پڑے گا۔ کیا ہم سب کے لیے یہ کافی نہیں کہ ملک میں جمہوریت قائم ہے اور ایک منتخب وزیر اعظم امور مملکت سنبھالے ہوئے ہے۔

سیٹھی صاحب کے رد عمل پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ پی سی بی میں یہ نجم سیٹھی کون ہیں اور وہاں کیا کر رہے ہیں؟۔

ایاز خان

کامیاب لیڈر بننے کی 30 خصوصیات

$
0
0

جب ہم جہاز، ریل گاڑی یا بس میں اپنی نشست پر بیٹھ جاتے ہیں تو ہم اپنے حصے کے فرائض کو پورا کرچکے ہوتے ہیں، یعنی ٹکٹ خریدنے سے لے کر ڈسپلن کے ساتھ اپنی مخصوص کردہ نشست پر بیٹھنے تک ۔ اب اس کے بعد ہم نے کچھ بھی نہیں کرنا ہوتا ہے، اب جو کچھ بھی کرنا ہوتا ہے وہ یا تو پائلٹ نے کرنا ہوتا ہے یا پھر ڈرائیور نے ۔ اب یہ ان کے تجربے، عقل و دانش، سمجھ بوجھ، ناگہانی صورت میں بروقت فیصلوں پر منحصر ہے کہ آیا ہم اپنی اپنی منزل پر پہنچتے ہیں یا پھر دائمی منزل پر یا پھر اسپتال یعنی اب آپ کی منزل پر پہنچنے کی ساری ذمے داری پائلٹ یا ڈرائیور کی ہوتی ہے، آپ کی نہیں ۔ بالکل اسی طرح کا منظر، رشتہ ، تعلق نظام جمہوریت میں آپ کے اور آپ کے چنے ہوئے لیڈر کے درمیان ہوتا ہے ۔

یعنی آپ کا کام اپنی مرضی کے مطابق بہت ساروں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا ہوتا ہے اور جب آپ اسے منتخب کر لیتے ہیں توآپ کا کام ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد آپ کے منتخب کردہ لیڈرکا کام شروع ہوجاتا ہے۔ اب اس کے تجربے ،عقل و دانش، سمجھ بوجھ اور اس کی ترجیحات پر منحصر ہے کہ آیا وہ آپ کو اور ملک کو درپیش مسائل کو حل کرتا ہے یا ان میں اور اضافہ کر دیتا ہے آیا وہ ملکی وسائل کا رخ آپ کو اور ملک کو فائدہ پہنچانے کی طرف کردیتا ہے یا اپنے اور اپنے ساتھیوں کی طرف کردیتا ہے یا تو آپ اسے دعائیں دے رہے ہوتے ہیں یا اپنے فیصلے پر ماتم کر رہے ہوتے ہیں ۔

ایک بہت ہی دلچسپ مشاہدہ ہماری 68 سالہ تاریخ میں بار بار دیکھنے کو نصیب ہوتا آیا ہے۔ ہم سب اپنی زندگی کے تمام چھوٹے بڑے معاملات میں بڑی سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہیں اور تو اور ہم اگر روزمرہ کی کوئی چیز بھی خریدتے ہیں تو اس کی اچھی طرح سے چھان بین کرتے ہیں۔
اس کا بغور معائنہ کیا جاتا ہے، اسے اچھی طرح ٹٹولا جاتا ہے اور اپنے اطمینان کے بعد اس کی خریداری کرتے ہیں ۔ اگردوائی بھی خریدتے ہیں تو اس کی میعاد ضرور دیکھتے ہیں ، کسی سے رشتہ قائم کرتے ہیں تو اس کی مکمل معلومات حاصل کرتے ہیں ، اپنوں سے مشورہ کرتے ہیں اور تو اور استخارہ بھی نکلواتے ہیں ، لیکن معاف کیجیے گا ہم اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ یعنی اپنے لیڈر کو منتخب کرنے کرتے وقت کوئی چھان بین نہیں کرتے ہیں، یعنی اس کے کردار، ذہانت ، سمجھ بوجھ ، عقل و دانش فیصلے کرنے کی صلاحیت ، ایمانداری، دیانت داری، تجربے کو ذرا برابر اہمیت نہیں دیتے اور نہ ہی اس کے ماضی کو خاطر میں لاتے ہیں، کبھی یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں کہ اس کا ویژن کیا ہے۔

داخلی اور خارجی معاملات میں اسے کتنی مہارت حاصل ہے، آیا اس کی سوچ اور ویژن سطحی ہے یا چیزوں پر اس کی گہری نظر ہے، آیا وہ تاریخ معاشیات ،قانون، اقتصادیات ، سیاسیات ، سائنس، فلسفے ، نفسیات کا طالب علم ہے بھی یا نہیں ۔ اس میں کتنا تحمل ، صبر برداشت، حوصلہ موجود ہے آیا اسے اپنے ملک اور اپنے لوگوں سے محبت ہے بھی یا نہیں۔ جب کہ ہمارے برخلاف دوسری طرف دنیا بھر کے تمام جمہوری ممالک میں لوگ اپنے لیڈر کو منتخب کرتے وقت ان میں تمام صلاحیتوں کی موجودگی کا بغور مطالعہ کرتے ہیں اور پھر اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ کرتے ہیں ۔

عظیم ماہر نفسیات ڈاکٹر نپولین ہل نے ڈیل کارینگی سے جب یہ سوال کیا کہ آپ ایک اچھے اورکامیاب لیڈر کی ذات میں کن خصوصیات یا خوبیوں کا ہونا ضروری سمجھتے ہیں تو کارینگی نے جواب میں کہاایک کامیاب لیڈر میں 30 خصوصیات کا ہونا ضروری ہے وہ یہ ہیں (1)’’تعین مقصد ‘‘ اور اس کو حاصل کرنے کے لیے خاکہ تیار کرنا (2) ایک ایسے مقصد کا انتخاب جو ہم کو مسلسل جدوجہد پر اکسا سکے کیونکہ دنیا میں کوئی کامیابی اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک ہم کسی خاص مقصد کے پیش نظر کام کرنا نہ سیکھیں (3) اشتراک عمل کے اصول پر عمل کرنا

(4) اپنے مقصد کی تکمیل کے سلسلے میں جس خود اعتمادی کی ضرورت ہو اس کو اپنے اندر پیدا کرنا (5) تربیت نفس جو شخص اپنے نفس کو قابو میں نہیں رکھ سکتا وہ دوسروں کو قابو میں رکھنے میں ناکام رہتا ہے(6) صبرو تحمل (7) سوچنے کی صلاحیت (8) صحیح اور بروقت فیصلہ کرنے کی عادت (9) واقعات پر رائے قائم کرنا (10) لوگوں میں جوش پیدا کرنے اور ان کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت (11) ہر حال میں راست باز اور دیانتدار ہونا (12) رواداری (13) معاوضہ سے بے نیاز ہوکر زیادہ کام کر نے کی عادت (14) مصلحت وقت کا خیال کرنا اور موقع محل کی نزاکت کو سامنے رکھ کر کام کرنا (15) بولنے سے زیادہ سننے کی عادت ڈالنا (16)جزئیات کا مطالعہ کرنا (17) استقلال (18) بلا جوش میں آئے تنقید برداشت کرنے کی صلاحیت (19) کھانے پینے اورتمام دوسر ی چیزوں میں اعتدال (20) جن لوگوں کی وفاداری ضروری ہے ان کے ساتھ وفادار رہنا

(21) جو لوگ مستحق ہیں ان سے سچائی اور صاف بیانی سے کام لے بات کو ٹالنے یا پہلو بچانے کے لیے حیلہ و بہانہ کرنا اچھا نہیں (22) انسان کی 9 بنیادی کمزوریوں سے واقفیت ،(23) جذبہ محبت ، (25) مالی منفعت کی خواہش ، (26) حفظ نفس، (27) آزادی کی خواہش، (28) آزادی تحریر و تقریر کا جذبہ، (29) حیات بعد ممات کی خواہش ، (30) جذبہ غیض وغضب، جذبہ خوف ۔ جو شخص انسان کے ان جذبات کو پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا وہ کامیاب لیڈر نہیں بن سکتا ۔ جاذب نظر شخصیت کا مالک ہونا ، ایک وقت میں ایک کام کر نے کی عادت ڈالیے جو افراد ہر فن مولا بننے کی کوشش کرتے ہیں وہ کسی فن میں کامیاب نہیں ہوتے ، غلطیوں سے سبق حاصل کرنا خواہ وہ غلطیاں اپنی ہوں یا غیروں کی  

اپنے ماتحت کام کر نے والوں کی غلطیوں کی خود ذمے داری لے لینا کوئی چیز لیڈری کے لیے اس سے زیاد ہ مہلک نہیں کہ انسان اپنی ذمے داری کو دوسروں کے کاندھے پر دھکیل دے ، دوسرے آدمیوں کے اچھے اوربہترکاموں کا اعتراف کرنا، کامیابی کے اصولوں کو سمجھنا اور ان پر عمل پیرا ہونا ، مثبت انداز فکر پیدا کرنا دنیا میں ایسے آدمیوں کو کبھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور ایسا آدمی کبھی کامیاب لیڈر نہیں ہوسکتا جس میں مثبت انداز فکر نہ ہو، ہر کام میں پورے جوش ، دیانت داری اور ذمے داری کا مظاہر ہ کرنا یہ وہ عادت ہے جو انسان کو ہر ہر قدم پر کام آتی ہے۔ اب آپ ہی فیصلہ کر لیں کہ آپ کا اپنے لیڈر کو منتخب کرنے کا طریقہ کار صحیح اور درست ہے یا پھر آپ کو دنیا بھر کے دیگر لوگوں کی طرح اپنا لیڈر منتخب کرتے وقت ان میں کارنیگی کی بتائی گئی 30 خصوصیات کو سامنے رکھنا چاہیے۔

آفتاب احمد خانزادہ

میڈیا نے خود مصیبت مول لی ہے

$
0
0

کراچی اور لاہور میں مشتعل مظاہرین نے نمازِ جمعہ کے بعد نجی ٹی وی چینل آج نیوز کے دفاتر پر بعد حملہ کیا اور حیدر آباد پریس کلب کا ایک ہزار سے زائد مظاہرین نے محاصرہ کیا۔

ایکسپریس نیوز چینل کی نشریاتی گاڑی (ڈی ایس این جی) پر بھی حملہ ہوا۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کے حامی دراصل ممتاز قادری کی پھانسی اور جنازے کے مبینہ میڈیائی بلیک آؤٹ پر غصہ نکال رہے تھے۔

اس سے قبل اتوار کو ممتاز قادری کی پھانسی اور منگل کو راولپنڈی میں جنازے کے موقع پر کئی میڈیائی کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا اور مارپیٹ و آلات کی توڑ پھوڑ بھی ہوئی۔
کراچی، لاہور اور چند دیگر شہرں میں بھی پچھلے چھ روز کے دوران یہی عمل دھرایا گیا۔
خود نشانہ بننے کے باوجود میڈیا نے اپنے پر ہونے والے حملوں کی خبر محتاط انداز میں نمک مرچ کے بغیر پھیکی پھیکی نشر کی۔

تازہ چلن یہ ہے اب مسلح افراد یا دہشت گردوں کے علاوہ ڈنڈہ بردار مشتعل ہجوم بھی میڈیا کو اطمینان سے زد و کوب کرتا ہے اور صحافتی تنظیمیں یومِ سیاہ منانے، ایک آدھ احتجاجی ریلی نکالنے یا بازو پر سیاہ پٹی باندھنے تک محدود ہو گئی ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ جس تنظیم کی خبر سنگل کالمی لگ جاتی یا ایک آدھ منٹ چینل پر نشر ہوجاتی تو وہ شکریہ ادا کرتے نہیں تھکتا تھا لیکن آج حملہ آوروں کی تشفی معمولی کوریج سے کیوں نہیں ہو پاتی ؟ اس معاملے کو دیکھنے کے دو طریقے ہیں۔

اول یہ کہ خود کو تسلی دے لی جائے کہ میڈیا پر حملہ کوئی نئی بات نہیں۔ گذشتہ چند برس کے دوران کیا سٹیٹ اور کیا نان سٹیٹ ایکٹرز، جس کا جہاں داؤ لگا میڈیا کو کم یا زیادہ ٹھوک ڈالا۔ خود کو یہ تسلی بھی دی جاسکتی ہے کہ چونکہ سوسائٹی میں ہی عدم برداشت بڑھ گئی ہے لہذا اس کی لپیٹ میں میڈیائی کارکنوں کا آنا بھی فطری عمل ہے۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے کہ خود پر آئی مصیبت کو دعوت دینے میں خود میڈیا کتنا قصور وار ہے اور کیوں میڈیا کے خلاف پرتشدد عمل اور ردِ عمل بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان پچھلے کئی برس سے صحافیوں کے لیے پانچ خطرناک ممالک میں شامل ہے۔

خیبر پختونخوا، فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں کئی صحافی اور میڈیائی عملہ دہشت گردی اور مسلح حملوں کا نشانہ بنے ہیں اور بن رہے ہیں ۔ ان میں سے بیشتر ٹارگٹ کلنگ یا ٹارگٹڈ دہشت گردی کی زد میں آئے ہیں۔
تازہ چلن یہ ہے اب مسلح افراد یا دہشت گردوں کے علاوہ ڈنڈہ بردار مشتعل ہجوم بھی میڈیا کو اطمینان سے زد و کوب کرتا ہے اور صحافتی تنظیمیں یومِ سیاہ منانے، ایک آدھ احتجاجی ریلی نکالنے یا بازو پر سیاہ پٹی باندھنے تک محدود ہو گئی ہیں۔
بات یہ ہے کہ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے دھرنوں کی میڈیا نے جس طرح از خود یا کسی کے کہنے پر یا پھر ریٹنگ کے چکر میں دن رات اندھا دھند کوریج کی اور اس سے پہلے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی بیشتر تقاریر کو براہ راست دکھانے کا ناظر کو جس طرح عادی بنایا اس کے بعد ہر جانب سے تشہیری کوٹے کی ڈیمانڈ میں اضافہ تو ہونا ہی تھا۔

ہر تنظیم اور گروہ کے منہ کو کوریج کا خون تو لگنا ہی تھا۔ چنانچہ انھوں نے میڈیا سے منہ در منہ پوچھنا شروع کردیا کہ آپ جن چہیتوں کو دن رات دکھا رہے ہیں ان میں کون سے سرخاب کے پر ہیں جو ہم میں نہیں۔ ہمیں صرف ایک آدھ منٹ کی خبر یا پریس کانفرنس کی محض دس پندرہ منٹ کی لائیو کوریج پر آخر کیوں ٹرخایا جا رہا ہے؟

ان تنظیموں اور گروہوں پر جلد آشکار ہوگیا کہ تفصیلی کوریج کرانی ہے تو میڈیا کے سر پر ڈنڈہ مسلسل لہرانا پڑے گا۔ چنانچہ دوسروں کی لمبی لمبی اور اپنی مختصر مختصر کوریج کا موازنہ کرنے والے جوشیلوں نے دھمکی، پتھراؤ اور تشدد کا راستہ چن لیا۔

ریٹنگ کے چکر
بات یہ ہے کہ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے دھرنوں کی میڈیا نے جس طرح از خود یا کسی کے کہنے پر یا پھر ریٹنگ کے چکر میں دن رات اندھا دھند کوریج کی اور اس سے پہلے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی بیشتر تقاریر کو براہ راست دکھانے کا ناظر کو جس طرح عادی بنایا اس کے بعد ہر جانب سے تشہیری کوٹے کی ڈیمانڈ میں اضافہ تو ہونا ہی تھا۔

اب معاملہ اتنا آگے چلا گیا ہے کہ ایک سادہ سی خبر کو کوئی گھاس نہیں ڈالتا۔ ہر وہ تنظیم اور گروہ جس کے پاس ریڈی مسٹنڈوں کا انتظام ہو مسلسل لائیو کوریج، ٹاک شوز میں نمائندگی اور اپنے پریس ریلیزوں کی من و عن اشاعت کا پیکیج چاہتے ہیں۔

جس وقت میڈیا لندن سے ہونے والا براہِ راست خطاب اور پھر اسلام آباد کے قادروی و عمرانی دھرنے زوق و شوق سے کور اور نشر کر رہا تھا اس وقت شاید اس کو احساس بھی نہیں تھا کہ آنے والے دنوں میں یہی شوق گلے کا ہار ہو جائے گا۔ چنانچہ ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد منہ مانگے کوریج کی ڈیمانڈ پوری نہ کرنے والے میڈیا کی گردن میں اب ’نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن‘ کا رسہ فٹ ہو چکا ہے۔

شوق زدہ میڈیا نہ اس صورت حال سے نمٹ پا رہا ہے اور نہ سہہ پا رہا ہے۔ ایک طرف پیمرا تو دوسری طرف بلوائی کا ڈنڈہ۔ گویا ’کھاؤں کدھر کی چوٹ بچاؤں کدھر کی چوٹ۔ 

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


مصطفیٰ کمال سوالات کی روشنی میں ؟

$
0
0

سوال یہ ہے کہ کیا مصطفیٰ کمال سچ بول رہے ہیں؟
سوال یہ بھی ہے کہ کیا مصطفیٰ کمال اسٹبلشمنٹ کے اشارے پر بول رہے ہیں؟
سوال یہ بھی ہے کہ مصطفیٰ کمال کو کب علم ہوا کہ الطاف حسین را کے ایجنٹ ہیں؟
سوال یہ بھی ہے کہ یہ جاننے کے بعد کہ الطاف حسین را کے ایجنٹ ہیں۔ مصطفیٰ کمال اتنا عرصہ کیوں خاموش رہے؟ 
سوال یہ بھی ہے کہ مصطفیٰ کمال نے بطور نا ظم کراچی الطاف حسین کے کہنے پر را کے کیا کیا کام کئے؟
سوال یہ بھی ہے کہ مصطفیٰ کمال اور الطاف حسین کے درمیان اختلافات را پر تو نہیں تھے؟
سوال یہ بھی ہے کہ یہ جاننے کے بعد مصطفیٰ کمال خود کو تفتیش کے لئے حساس اداروں کو پیش کیوں نہیں کرتے؟ 
سوال یہ بھی ہے کہ حساس اداروں نے ابھی مصطفیٰ کمال کو گرفتار کیوں نہیں کیا؟ 
سوال یہ بھی ہے کہ مصطفیٰ کمال کی واپسی کی ٹائمنگ کس نے طے کی؟
سوال یہ بھی ہے کہ اسٹبلشمنٹ مصطفیٰ کمال، عشرت العباد اور دیگر کو اکٹھا کب کرے گی؟
سوال یہ بھی ہے کہ کراچی کے عوام مصطفیٰ کمال پر اعتبار کیوں کریں؟ 
سوال یہ بھی ہے کہ سچ فورا بولنا چاہئے یا سوچ سمجھ کر موقع دیکھ کر ؟
سوال یہ بھی ہے کہ مصلحت کی خاموشی کے دن کس طرح جائز قرار دیے جا سکتے ہیں؟
سوال یہ بھی ہے کہ اگر مصطفیٰ کمال سچ بھی بول رہے ہیں تو وہ شواہد لیکر عدالت میں کیوں نہیں جا رہے؟ 
سوال یہ بھی ہے کہ کیا اسٹبلشمنٹ ایم کیو ایم پر پابندی لگانے کا سوچ رہی ہے؟
سوال یہ بھی ہے کہ کیا حکومت ایم کیو ایم کے خلاف غداری کا مقدمہ بنائے گی؟ 
سوال یہ بھی ہے کہ عدلیہ مصطفیٰ کمال کے بیان پر سو موٹو لے گی ؟
سوال یہ بھی ہے کہ مصطفیٰ کمال اکیلے یہ جنگ کیسے لڑیں گے ؟
سوال یہ بھی ہے کہ فاروق ستار کب تک الطاف حسین کے ساتھ کھڑے رہیں گے؟
سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے خلاف بولنے پر مصطفیٰ کمال کو کراچی کے عوام سے محبت ملے گی یا نفرت؟
سوال یہ ہے کہ مصطفیٰ کمال ایم کیو ایم سے لئے گئے فائدے کس طرح واپس کریں گے؟ 
سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کون را کا ایجنٹ اور کون محب وطن ؟
سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم کی باقی قیادت کیوں مصطفیٰ کمال کے ساتھ کھڑی ہونے کو تیار نہیں ؟ 
سوال یہ ہے کہ مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس کے بعد الطاف حسین کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں عوام کی کم تعداد میں شرکت کیوں؟ 
سوال یہ بھی ہے کیا مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس کے بعد پر تشدد احتجاج ایم کیو ایم کی درست حکمت عملی ہے۔ 
سوال یہ بھی ہے کہ کیا خورشید شاہ درست کہہ رہے ہیں کہ مصطفیٰ کمال کے الزامات کے باوجود کچھ نہیں ہو گا۔ 
سوال یہ بھی ہے کہ کیا مصطفیٰ کمال لیٹ نہیں ہو گئے۔ کیا انہوں نے بہت زیادہ دیر نہیں کر دی؟ 
سوال یہ بھی ہے کہ کیا مصطفیٰ کمال ذوالفقار مرزا سے معافی مانگیں گے؟
سوال یہ بھی ہے کہ کیا ذوالفقار مرزا مصطفیٰ کمال کو معاف کردیں گے؟ 
سوال یہ بھی ہے کہ مصطفیٰ کمال نے رینجرز کا کام آسان کیا ہے یا مزید مشکل کر دیا ہے؟ 
سوال یہ بھی ہے کہ مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس کا لاہور ہائی کورٹ میں الطاف حسین کی کوریج پر پابندی کے مقدمہ پر کیا اثر ہو گا؟
سوال یہ بھی ہے کہ حکومت مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس پر کب تک خاموش تماشائی بنی رہے گی؟ 
سوال یہ بھی ہے کہ رحمٰن ملک پر کوئی سختی کیوں نہیں آئے گی؟ وہ کیسے بچ جائیں گے؟ 
سوال یہ بھی ہے کہ اگر امریکی ایجنٹ ہونا جرم نہیں تو را کا ایجنٹ ہونا جرم کیوں؟
سوال یہ بھی ہے کہ کیا مصطفیٰ کمال بھی قومی مجرم نہیں؟ انہیں کیوں معاف کیا جائے؟ 
سوال یہ بھی ہے کہ کیا مصطفیٰ کمال کو وعدہ معاف گواہ کی حیثیت ملنی چاہئے؟ اگر ہاں تو کیوں؟

مزمل سہروردی

کالاباغ ڈیم سالانہ 20 ارب یونٹ بجلی پیدا کرسکتا ہے

$
0
0

سندھ طاس واٹر کونسل پاکستان کے چیئرمین محمد سلمان خان کا کہنا ہے کہ کالاباغ ڈیم سالانہ 20ارب یونٹ بجلی پیدا کرسکتا ہے، جس کی آئندہ 5 سال تک اوسط لاگت 3 سے 5 روپے فی کلو واٹ ہوگی ،جس سے سالانہ 300 ارب روپے کی بچت ہوگی جو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے خاتمے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور روپے کی قدر مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔۔۔ ماہرین عرصہ دراز سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر زور دے رہے ہیں ،لیکن نہ تو سیاستدانوں نے اورنہ ہی حکومتوں نے اس پر کوئی توجہ دی ،جس کی وجہ سے ملک کی بقا داؤ پرلگی ہے۔

کالاباغ ڈیم وہ واحد پراجیکٹ ہے جس سے نہ صرف 5 سال کے قلیل عرصے میں انتہائی سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے ،بلکہ وسیع تر معاشی فوائد بھی حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ کالاباغ ڈیم کی مدد سے صوبہ سرحد کی 8لاکھ ایکڑ زمین کو زیرِکاشت لایا جاسکے گا جو دریائے سندھ کی سطح سے سو ڈیڑھ سو فٹ بلند ہے۔ یہ زمین صرف اسی صورت میں زیر کاشت لائی جاسکتی ہے، جب دریا کی سطح بلند ہو اور یہ کالاباغ ڈیم کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ اس کامتبادل ذریعہ دریا کے پانی کو پمپ کرکے اوپر پہنچانا ہے ،جس پر 5ہزار روپے فی ایکڑ سالانہ لاگت آئے گی ،جبکہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے بعد نہر کے ذریعے پانی ملنے سے یہ لاگت صرف 400روپے فی ایکڑ سالانہ رہ جائے گی۔

 سندھ میں آبپاشی کا نظام سکڑ رہا ہے، سندھ کے آبی قلت کے شکار علاقوں کو صرف کالاباغ ڈیم کے ذریعے ہی پانی کی فراہمی ممکن ہے۔ یہ اہم منصوبہ سندھ کی معیشت کو مستحکم کرنے، بڑے پیمانے پر روزگار کی فراہمی، زرعی پیداوار میں نمایاں اضافے اور دیہی علاقوں سے غربت کے خاتمے میں بہت اہم کردار ادا کرے گا۔
کالا باغ ڈیم بلاشبہ پاکستان کی ترقی، خوشحالی اور سلامتی کا ضامن منصوبہ تھا، لیکن اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے سپیشل ڈیسک قائم کر کے اربوں روپے کے فنڈز مختص کر دیے۔ اِس فنڈ کی مدد سے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے والے سیاستدانوں اور خلاف لکھنے اور بولنے والے نام نہاد دانشوروں کی ’’ضروریات‘‘ پوری کی جاتی تھیں۔ یہ ماننے میں کوئی مرج نہیں کہ ہمارے سیاستدانوں اور دانشوروں کی کم عقلی اور ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے دشمن 30 سال سے اپنے مقصد میں کامیاب چلا آ رہا ہے اور کالا باغ ڈیم منصوبے کی پہلی اینٹ بھی نہیں رکھی جا سکی، بلکہ اس منصوبے کو ہی متنازعہ بنا دیا گیا 

  بھارتی خفیہ ادارے کے ٹکڑوں پر پلنے والوں نے اِسے پاکستان توڑنے سے ہی تعبیر کر دیا،یوں یہ منصوبہ شروع ہونے سے پہلے ہی متنازع ہوکر ایسا اچھوت بن گیا ،جسے چْھونے سے اس کے حمایتی بھی خوف کھانے لگے، حالانکہ ماہرین آج بھی متفق ہیں کہ اگر یہ منصوبہ مکمل ہو جائے تواس منصوبے کے ذریعے 3600 میگاواٹ بجلی پیدا کر کے عوام کو محض ڈھائی روپے فی یونٹ میں فراہم کی جا سکتی ہے۔

 اس کے علاوہ کالا باغ ڈیم کی جھیل میں اتنا زیادہ پانی ذخیرہ کیا جا سکے گا کہ اس میں سے زرعی مقاصد کے لئے سندھ کو 4 ملین ایکڑ فٹ، خیبر پختونخوا کو 2.2 ملین ایکڑ فٹ، پنجاب کو 2 ملین ایکڑ فٹ اور بلوچستان کو 1.5 ملین ایکڑ فٹ پانی مل سکے گا۔ کالا باغ ڈیم کی جھیل کے پانی سے چاروں صوبے خوراک میں بھی خود کفیل ہو سکتے ہیں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی بچ سکتے ہیں۔

ماہرین کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا موجودہ تخمینہ 9 ارب ڈالر کے لگ بھگ لگاتے ہیں ،جبکہ یہ لاگت 2010ء کے سیلاب میں ہونے والے ساڑھے نو ارب ڈالر اور 2014ء کے سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے 20 ارب ڈالر کے نقصانات سے کہیں کم ہے۔ بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے گاہے بہ گاہے جو پانی دریاؤں میں چھوڑتا ہے، وہی پانی پاکستان میں سیلاب کا باعث بن کر ہر دو تین سال بعد اربوں ڈالر کا نقصان پہنچاتا ہے۔

 ذرا سوچیں کہ اگر پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے والے کالا باغ ڈیم جیسے آبی ذخائر موجود ہوں تو پاکستان محض بھارت کے چھوڑے ہوئے پانی کو ذخیرہ کر کے 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے اور بجلی کی یہ پیداوار ہماری موجودہ ضروریات اور بجلی پیدا کرنے کی موجودہ صلاحیت سے تین گنا زیادہ ہو گی۔ صرف یہی نہیں ،بلکہ اگر ہم پانی سے سستی بجلی پیدا کرنے کی کوشش کریں تو موجودہ حالات میں 220 ارب روپے سالانہ بچائے جا سکتے ہیں، لیکن افسوس کہ ہم کالاباغ ڈیم منصوبے کی حفاظت نہ کر سکے ،یوں اس منصوبے سے حاصل ہو سکنے والے فوائد بھی محض خواب بن کر رہ گئے۔

پانی کو محفوظ کرنے کے لئے بڑے ڈیم تعمیر نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان کی لاکھوں ایکڑ زمین بنجر ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہر سال خوراک کی درآمد پراربوں روپیہ ضائع کر رہا ہے۔ پانی کی شدید قلت کی وجہ سے بجلی کی پیداوار اتنی متاثر ہو چکی ہے کہ ملک میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 18 سے 20 گھنٹوں پر محیط ہو چکا ہے۔ بجلی کے بحران نے پاکستان کے اہم بڑے صنعتی یونٹوں سمیت ہزاروں کارخانوں و ملوں کو تالے لگوا دیئے ہیں۔ملوں و کارخانوں کی تالابندی نے نہ صرف غریبوں کے چولہے ٹھنڈے کر دیئے ہیں ،بلکہ اس سے بیروزگاروں کی ایک بڑی فوج بھی تیار ہو چکی ہے جو باعزت روزگار نہ ملنے کی وجہ سے ملک دشمنوں و دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ کر چند کوڑیوں کے عوض اپنے ہی وطن کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ 

پانی زندگی ہے، جہاں پانی نہیں، وہاں زندگی بھی نہیں۔ جب کبھی زلزلوں نے دریاؤں کے رْخ موڑے تو ان کی پرانی گزرگاہوں کے دونوں اطراف میں سرسبز و شاداب لہلہاتے کھیت دیکھتے ہی دیکھتے بے آب و گیاہ صحراؤں میں بدل گئے۔ انسان آج بھی کرۂ ارض سے زندگی کی تلاش میں سرگرداں سیاروں پر کمند ڈالنے میں کوشاں ہے۔بجلی اور گیس کی قلت کی وجہ سے ملک کو بھاری نقصان کا سامنا ہے، لیکن بدقسمتی سے کالاباغ ڈیم کو سیاسی ایشو بنا دیا گیا ہے، حالانکہ یہ سیاسی ایشو نہیں ،بلکہ معاشی بقا کا معاملہ ہے۔ غربت کے خاتمے اور ملکی ترقی و خوشحالی کے لئے کالاباغ ڈیم ناگزیر ہے ،لہٰذا اس کی فوری تعمیر کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں۔

ریاض احمد چودھری

کیا بنگلہ دیش دائرہ اسلام سے خارج ہو جاۓ گا ؟


تھر بھوک اور افلاس کا صحرا

$
0
0

تھرایک صحرا نہیں سمندر جیسی وسعتوں کا حامل عظیم ریگستان ہے، جس کے بے شمار رنگ اور روپ ہیں، یہ اسرارورموزکی دنیا ہے، ہر موسم میں، ہر سفر میں اس کے نئے نئے رنگ وروپ کھلتے ہیں اورہر بار ہر رت میں،اس کا اک نیا انداز اس کے عاشقوں پرمنکشف ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی پورے صحرائے تھر میں زندگی نام کی کوئی چیزنظر نہیں آتی، جہاں بھی قدم رکھو مصائب میں مبتلا اور موت کے خوف سے ہمکنار فضاء آپ کو اپنے آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔

انسان سر تا پا گھائل ہوجاتا ہے، ہر تھری ایک الگ داستان ہے جنھیں سن کر درد مند د ل انسان اپنا درد بھلا دیتا ہے اور ایک نئے کرب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ سینئر صحافی سعید خاور نے تھر پر لکھی گئی اپنی تصنیف ’’پیاس اور افلاس کا صحرا   مجھے عنایت کی توسچ پوچھے جب میں اسے پڑھنے لگا تو پڑھتا ہی گیا ۔ 

بلاشبہ یہ ایک منفرد اور تحقیقی کتاب ہے ۔ جس پر میں خود کو تبٖصرہ کرنے کے قابل نہیں سمجھتا ، اس لیے اس کتاب کی کچھ چیدہ چیدہ اقتباسات کو جوڑکر اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں ۔
سعید خاور لکھتے ہیں کہ ’’ میں نے کئی بارصحرائے تھرکا سفرکیا ، میں جب بھی جھڈو سے نوکوٹ پہنچا ہوں تو مجھے پیاس کا پہلا استعارہ ملا ۔ نوکوٹ سے دائیں جانب ایک خاتون پیرکی خانقاہ ہے، اس درگاہ میں سجادہ نشین ہمیشہ خاتون ہوتی ہے، اسے بچپن میں ہی سجادگی کے لیے نامزدکردیا جاتا ہے اور اپنی نامزدگی کے بعد وہ خاتون اپنے ہر محرم کے لیے غیرمحرم بن جاتی ہے، وہ جس عمر میں بھی نامزدکردی جائے وہ اپنے باپ، بھائی، چچا، ماموں، دادا، نانا، غرض ہر ایک رشتے دارکے لیے اجنبی بن جاتی ہے ، وہ پردے میں چلی جاتی ہے ۔

اسے زندگی بھرکوئی بھی مرد نہیں دیکھ سکتا، سجادہ نشین خاتون کی جانشین بھی خاتون ہوتی ہے،اس طرح وہ دونوں ساتھ رہتی ہیں ۔ کیا یہ پیاس کا استعارہ نہیں ہے۔ میں جب بھی نوکوٹ سے مٹھی کی طرف چلا ہوں مجھ پر ہمیشہ ایک وجد اور سرشاری کی کیفیت طاری رہی، شایدگھا گھرا مل جائے ، شاید ہاکڑا بہتا ہو   شاید پران رخ بدل کر مٹھی آن پہنچا ہو مگر یہاں پہنچ کر صرف اپنی آنکھ کا آنسو بہتا ہے ۔
شاید ماضی کے کسی ایوب خان نے گھاگھرا کو بیچ دیا تھا اور اب پھر ماضی قریب کے فیلڈ مارشل ایوب خان نے تین دریا بیچ دیے ۔ اب راوی ، ستلج ، بیاس کی گزرگاہیں مٹنے لگی ہیں تو گھاگھرا بہت یاد آتا ہے ،راوی اور تھرکو گھاگرا کی موت نے صحرا بنایا ۔ اب دیکھیں کتنے بھالوا، اسلام کوٹ ،چھاچھرو، عمر کوٹ اورننگر پارکر تھر اور روہی کا روپ دھارکر ریت کی چادراوڑھتے ہیں ۔

مٹھی سے اسلام کوٹ اور وہاں سے ننگر پارکر تک آپ کو ان گنت مور،کالے اور بھورے ہرن، بارہ سنگھے، تلوراوردوسرے چرند پرند نظر آئیں گے ۔ آپ کو ننگر پارکر کے قریب وہ درخت بھی مل جائے گا جس درخت کی بے رحم شاخ کو ننگر تختہ دار بنا کر رو پلوکو ہی کو پھانسی دی گئی تھی اور ننگر پارکر کے مشرقی حصے میں صحرا کی ریت میں دفن اس مسکین جہان خان کھوسوکی قبر بھی مل جائے گی جو مٹھی، اسلام کوٹ،میر پورخاص، عمرکوٹ اورچھاچھرو میں ان غریب تھریوں کی بلامعا وضہ درخواستیں لکھتا جو سرکارکے دربار میں تحریری عرض گزاری کے قابل نہیں تھے ۔

تھر لوک ادب کے علاوہ سندھ کا وہ خطہ ہے جو معدنی دولت سے مالا مال ہے لیکن اس کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی،اس لیے بھوک اور افلاس کا صحرا بن گیا ۔ مملکت کے سربراہان کی یہ پالیسی ہوتی ہے کہ وہ سرحدی علاقوں پر خاص توجہ دیتے ہیں،ان کے مسائل کو حل کرکے انھیں خوشی اور خوشحالی دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے وطن کے وفادار رہیں،لیکن بدقسمتی سے تھر ہر دور میں بھوک اور افلاس کا صحرا بنا رہا ۔ قرض پر چلنے والی سرکار بیچارے تھریوں کی کیا مدد کرسکتی ہے ۔

بیرونی امداد سے چلنے والی کچھ این جی اوز اور سیاسی و سماجی ادارے تھریوں کی پیاس ، بھوک اور افلاس دور کرنے کے لیے کیا کردار ادا کررہے ہیں ؟ اس حوالے سے سعید خاور لکھتے ہیں کہ قدرت اور حکومت نے پیاس اور افلاس کے اس صحرا سے منہ موڑ لیا ہے ۔ کچھ این جی اوز اور سیاسی و سماجی ادارے انفرادی سطح پر تھر میں زندگی کو بچانے کے لیے کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں لیکن ان میں سے کئی ایک کردار سوالیہ نشان ہے۔

میں کئی ایسی تنظیموں اور اداروں کو جانتا ہوں جو امداد کی رقم سے زیادہ روپے خبروں اور تصویروں کی نمائش پر خرچ کردیتے ہیں ۔ وہ سستی شہرت کی بیساکھیوں پرکھڑے ہوکر بلند قامت نظر آنے کی کوشش میں رہتے ہیں ۔ ان کا خیال آتے ہی خون کھولنے لگتا اور میں نے من ہی من میں انھیں خوب سنائیں ۔

خشک سالی میں حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات سے نہ تھری خوش ہیں اور نہ ہمیں ان اقدامات سے کوئی اطمینان ملا ہے ۔تھری قحط کے عالم میں ہیں اور ریاست کا کردار، سب کچھ نعرے بازی اوردکھاؤے تک محدود ہے ۔ غربت کے مارے تھری بچے اوران کے والدین بھی کھیت مزدوروں کی طرح ساہوکاروں کے پھیلائے ہوئے پرفریب اورگنجلک قرضوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ان سیٹھوں اور ان کے گماشتوں نے وڈیروں کی طرز پر تھری خاندانوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے، قالین سازسیٹھ ان خاندانوں کو قرض کی کچھ رقم فراہم کرتا ہے اور ان کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے کہ اس عوض ان کے خاندان کے تمام افراد بشمول کم عمر بچے ان کی کھڈیوں میں کام کریں گے ۔

قرض اورلین دین کی یہ شکل تھر میں غریب خاندانوں کے مستقل استحصال کا سبب بن گئی ہے ۔ اگر کوئی خاندان کسی سیٹھ سے دس ہزار روپے قرض اٹھاتا ہے تو وہ پانچ سال بعد پچاس ہزار روپے تک جا پہنچتا ہے ۔ معصوم بچے جو اچھے کپڑے پہن کر اسکو ل کی زینت بننے چاہیئیں وہ کھڈیوں کی دھول کھا کر بیمارہوجاتے ہیں ۔ میرے تھر کے یہ معصوم دوست ( بچے ) مرنا نہیں پڑھنا چاہتے ہیں ۔ زمانے والو ، آگے بڑھو اور خدارا میرے ان کمسن کھڈی مزدور دوستوں کے لیے کچھ کرو ۔

تھر اپنے پرایوں سب کا زخم خوردہ ہے،انتخابات کے موسم میں ان کے ووٹوں کے لیے وڈیرے ، جاگیردار، تاجر، صنعتکار، سیاست دان اور سیاسی جماعتیں مارووں کے گاؤں گوٹھوں کا طواف کرکے ان کی زندگیاں بدلنے کے وعدے کرکے کامیابیاں حاصل کرتے ہیں لیکن مارووں سے کیے گئے وعدے کبھی پورے نہیں کرتے ۔ تھرکا المیہ یہی ہے کہ اس کی نمایندگی کرنے کے دعویدار خود تو خاصے متمول اور موثر ہیں لیکن ان کے مارووں کی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔

ان کی تقدیر بدلنے کے دعویدار اسمبلیوں تک رسائی حاصل کرنے کے بعد اگلے انتخابات تک کہیں کھوجاتے ہیں ۔ تھرکے ( مارو ) ان فصلی بیٹروں کے ہاتھوں ہمیشہ تماشہ بنتے رہتے ہیں ۔ تھر میں حالیہ خشک سالی بھوک اور بیماری کے متاثرین کے لیے عالمی اداروں سے ملنے والی خطیر رقم امداد نے ایک بار پھر بعض این جی اوز کے کارندوں کو امتحان میں ڈال دیا ہے کہ یہ رقم ہضم کیسے کی جائے کہ پھرکہیں ان ہی ڈونرز سے اینٹی ڈائریا نہ طلب کرنی پڑے ۔ یہاں مجھے حکیم بوعلی سینا کا یہ قول یاد آرہا ہے کہ (اتنا کھاؤ، جتنا ہضم کرسکو ) ۔ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر تھریوں سے محبت جتانے والو ! تمہیں کیا پتہ کہ تھرکے عوام کے درد کیا ہیں ۔

تمہیں کیا پتہ کہ لو اورگرمی میں تپتی ریت پر ننگے پاؤں چلنے پر کیا گزرتی ہے ؟ غریبوں کو سکھ دینے کے جھوٹے دعویدارو، تم نے کبھی اپنے گریبان میں جھانکا ہے کہ تم کیا کررہے ہو،کیا تم کوکبھی اپنے بچوں کے لیے کھلونے خریدتے وقت یہ سوچتے ہو کہ بھوک اور بیماری میں مبتلا ہوکر مرنے والے تھریوں کے یتیم بچوں کو اپنا جسم ڈھانپنے کے لیے کپڑے کا ٹکڑا تک میسر نہیں ہے اور تھریوں کے واحد ذریعہ معاش مویشی بھی مررہے ہیں ، ان کے لیے تم نے کبھی سوچا ہے۔

اے صاحب بہادرو! حکومت کے پاس تو پہلے ہی اندھیر نگری چوپٹ راج والا معاملہ ہے جس میں بہت سے ڈاکٹرز تنخواہیں تو سرکاری خزانے سے لیتے ہیں مگرکام مختلف این جی اوز میں کررہے ہیں مگر صاحبو تم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ تھر کے باسیوں کو میسر صحت کی سہولیات جو بہت تھوڑی ہے تم وہ بھی چھین رہے ہو ۔اے منرل واٹر پینے والو پیاسے تھریوں کے بارے میں بھی سوچو این جی اوزکیا تھیں اورکیا بن گئی ہیں؟

شبیر احمد ارمان

Thousands attended the funeral of Hizb militant Sheikh Dawood

$
0
0
Thousands of people on Monday participated in the funeral prayers of Hizb militant Dawood Ahmad Sheikh at his native village of Qaimoh. Sheikh died in a brief gunbattle with government forces in Buchroo village of the district last night.

Defying curfew-like restrictions, thousands of people from Qaimoh and adjoing villages marched towards the family home of Sheikh to take part in his funeral prayers. The mourners, shouting slogans for freedom, carried the body of Sheikh in a huge procession to the local graveyard where he was laid to rest. The funeral prayers of the deceased were offered in three shifts due to a huge rush of people.

Meanwhile, clashes broke out in Khudwani area of Kulgam against the killing of Sheikh. Youth pelted stones on the police and paramilitary forces who responded with teargas shells, witnesses said.
At least seven protesters were injured in clashes with government forces in Khudwani area of south Kashmir’s Kulgam district on Monday. One of the protesters was hit by pellets while the rest suffered injuries due to teargas shells.—GK

Dal Lake : Jewel of Kashmir

$
0
0
Dal Lake is a lake in Srinagar, the summer capital of Jammu and Kashmir. The urban lake, which is the second largest in the state, is integral to tourism and recreation in Kashmir and is named the "Jewel in the crown of Kashmir" or "Srinagar's Jewel". The lake is also an important source for commercial operations in fishing and water plant harvesting. 
The shore line of the lake, is about 15.5 kilometres (9.6 mi), is encompassed by a boulevard lined with Mughal era gardens, parks, houseboats and hotels. Scenic views of the lake can be witnessed from the shore line Mughal gardens, such as Shalimar Bagh and Nishat Bagh built during the reign of Mughal Emperor Jahangir[6] and from houseboats cruising along the lake in the colourful shikaras. During the winter season, the temperature sometimes reaches −11 °C (12 °F), freezing the lake.
The lake covers an area of 18 square kilometres (6.9 sq mi) and is part of a natural wetland which covers 21.1 square kilometres (8.1 sq mi), including its floating gardens. The floating gardens, known as "Rad" in Kashmiri, blossom with lotus flowers during July and August. The wetland is divided by causeways into four basins; Gagribal, Lokut Dal, Bod Dal and Nagin (although Nagin is also considered as an independent lake). Lokut-dal and Bod-dal each have an island in the centre, known as Rup Lank (or Char Chinari) and Sona Lank respectively.
At present, the Dal Lake and its Mughal gardens, Shalimar Bagh and the Nishat Bagh on its periphery are undergoing intensive restoration measures to fully address the serious eutrophication problems experienced by the lake. Massive investments of around US$275 million (₹ 11 billion) is being made by the Government of India to restore the lake to its original splendour.
History 
Dal lake is mentioned as Mahasarit in ancient Sanskrit texts. Ancient history records mention that a village named Isabar to the east of Dal Lake was the residence of goddess Durga.[citation needed] This place was known as Sureshwari on the bank of the lake, which was sourced by a spring called the Satadhara. 

During the Mughal period, the Mughal rulers of India designated Kashmir, Srinagar in particular, as their summer resort. They developed the precincts of the Dal lake in Srinagar with sprawling Mughal-type gardens and pavilions as pleasure resorts to enjoy the salubrious cool climate. After the death of Aurangzeb in 1707, which led to the disintegration of the Mughal Empire,  Pashtun tribes in the area around the lake and city increased, and the Durrani Empire ruled the city for several decades.  In 1814 a significant part of the Kashmir valley, including Srinagar, was annexed by Raja Ranjit Singh to his kingdom, and the Sikhs grew in influence in the region for 27 years.
Topography 
The lake is located within a catchment area covering 316 square kilometres (122 sq mi) in the Zabarwan mountain valley, in the foothills of the Zabarwan Range, which surrounds it on three sides. The lake, which lies to the east and north of Srinagar city covers an area of 18 square kilometres (6.9 sq mi), although including the floating gardens of lotus blooms, it is 21.2 square kilometres (8.2 sq mi) (an estimated figure of 22–24 square kilometres (8.5–9.3 sq mi) is also mentioned).  The main basin draining the lake is a complex of five interconnected basins with causeways; the Nehru Park basin, the Nishat basin, the Hazratbal basin, the Nagin basin and the Barari Nambad basin. Navigational channels provide the transportation links to all the five basins. 

The average elevation of the lake is 1,583 metres (5,194 ft). The depth of water varies from 6 metres (20 ft) at its deepest in Nagin lake to 2.5 metres (8.2 ft), the shallowest at Gagribal. The depth ratio between the maximum and minimum depths varies with the season between 0.29 and 0.25, which is interpreted as flat bed slope. The length of the lake is 7.44 kilometres (4.62 mi) with a width of 3.5 kilometres (2.2 mi). The lake has e basin hava shore length of 15.5 kilometres (9.6 mi) and roads run all along the periphery. Irreversible changes through urbanThe lake is located within a catchment area covering 316 square kilometres (122 sq mi) in the Zabarwan mountain vaplaced further restrictions on the flow of the lake and as a result, marshy lands have emerged on the peripheral zones, notably in the foothill areas of the Shankaracharya and Zaharbwan hills. These marshy lands have since been reclaimed and converted into large residential complexes.

Uses and attractions 
The lake is popular as a visitor attraction and a summer resort. Fisheries and the harvesting of food and fodder plants are also important on Dal Lake. Weeds from the lake are extracted and converted into compost for the gardens. It also serves as a flood lung of the Jhelum River. Swimming, boating, snow skiing (particularly when the lake is frozen during the severe winter), and canoeing are amongst some of the water sports activities practised on the lake.

The lake has numerous sites and places of interest, many of which are important to the cultural heritage of Srinagar. Aside from the Shalimar Bagh and Nishat Bagh, some of the other places frequented by tourists are the Shankaracharya temple, the Hari Parbat, the Nagin Lake, the Chashme Shahi, the Hazratbal Shrine, and the Mazar-e-Shura cemetery containing the graves of famous Mughal-era poets. Visitors and native alike also enjoy relaxing on the water in a houseboat or a shikara boat, often called "the Gondola of Kashm

را سے روابط - چیف جسٹس اذ خود نوٹس لیں

کیا معیشت کی سمت درست ہے ؟ ڈاکٹر شاہد حسن

Viewing all 4315 articles
Browse latest View live