Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

پاک چین اقتصادی راہداری: سیکیورٹی چیلنجز

$
0
0

یہ منصوبہ اقتصادی ترقی کے لیے بہت اہم ہے جس میں رابطہ سڑکوں کے ساتھ توانائی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر شامل ہے۔ تاہم اس کے لیے بہت سے داخلی اور خارجی سیکیورٹی چیلنجز بھی موجود ہیں۔ چینی صدر نے اس منصوبے کو ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کا نام دیا ہے جس کا مقصد چین کو ایشیا اور یورپ کی منڈیوں سے ملانا ہے۔ اس منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 46 ارب ڈالر ہے جب کہ اس منصوبے سے ملحقہ توانائی کے منصوبوں کی لاگت 36 ارب ڈالر تک ہو گی۔
 
 ارب ڈالر سڑکوں اور پلوں وغیرہ کی تعمیر پر صرف ہونگے۔ 3000 کلو میٹر لمبی سڑک گوادر بندر گاہ کو تین مختلف سڑکوں کے ذریعے حسن ابدال اور ایک سنگل سڑک بعدازاں گلگت اور تھاکوٹ کے راستے کاشغر سے ملائے گی۔کاشغر سے حسن ابدال براستہ تھاکوٹ‘ گلگت‘ ایبٹ آباد اور حویلیاں کا راستہ شمالی روٹ کہلاتا ہے جب کہ مغربی اور وسطیٰ روٹ دریائے سندھ کے مغربی کنارے کو الگ کریں گے۔

یہ راستہ حسن ابدال سے ڈیرہ اسماعیل خان تک جائے گا جس کے لیے اسے ’’انڈر ڈویلپڈ‘‘ علاقوں سے گزرنا پڑے گا۔ مغربی روٹ ژوب‘ قلعہ سیف اللہ‘ کوئٹہ‘ سہراب‘ بسیمہ‘ پنج گور‘ ہوشاب‘ تربت سے گزرتے ہوئے گوادر تک جائے گا جب کہ وسطی روٹ ڈیرہ اسماعیل خان کو ڈیرہ غازی خان‘ شکار پور‘ رتی ڈیرو‘ خضدار‘ آواران‘ ہوشاب‘ تربت اور گوادر کو ملائے گا۔ مشرقی روٹ موجودہ موٹروے کو وسعت دے گا جو ملک کے ترقی یافتہ علاقوں سے گزر رہی ہے اور دریائے سندھ کے مشرق میں حسن ابدال سے لاہور‘ ملتان‘ سکھر‘ حیدر آباد اور کراچی جاتی ہے۔
حکومت نے اس منصوبے کے حوالے سے صوبائی حکومتوں سے مطابقت نہیں کی جو مکمل شفافیت کے لیے ضروری تھا۔ مزید برآں اس کی تشہیر بھی بھرپور انداز سے نہیں کی گئی جس کی وجہ سے صوبوں کی طرف سے تنازعات پیدا ہوئے۔ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ عبدالمالک نے اس بات پر زور دیا کہ بلوچستان کے ان علاقوں کو بھی اس منصوبے سے منسلک کیا جائے جہاں آبادی بے حد کم ہے جب کہ زیادہ زور اس کے مغربی روٹ پر دیا گیا ہے لیکن اس کی مارکیٹوں تک رسائی کم ہے اور نہ ہی اس سے روز گار کے ذرایع میں اضافہ ہوتا ہے نیز تعلیمی اور طبی سہولتیں بھی ان علاقوں میں کم ہیں۔ اسی وجہ سے وہاں پر مخالفانہ تحریکیں چلتی ہیں۔ لہٰذا یہاں پر سیکیورٹی کے اخراجات کافی زیادہ ہونگے کیونکہ مغربی اور وسطی روٹ پر عسکریت پسندوں کی کارروائیاں ہوتی ہیں۔

بعض ممالک پاک چین اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) کو اپنے لیے تزویراتی خطرہ خیال کرتے ہیں جس سے کہ ان کے دفاعی اور اقتصادی مفادات پر ضرب پڑ  سکتی ہے نیز خطے میں ان کے اثرورسوخ میں بھی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ بھارت کو اس منصوبے پر سب سے زیادہ اعتراض ہے کیونکہ اس کے مکمل ہونے پر پاکستان کو جغرافیائی اور تزویراتی طور پر برتری حاصل ہو جائے گی اور پاکستان کو بحیرہ عرب کے ساتھ حکمت عملی کے حوالے سے منفعت بخش پوزیشن حاصل ہو جائے گی۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی را میں ایک خصوصی سیل قائم کر دیا گیا ہے جس کا تمام تر مقصد پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کے خلاف کام کرنا ہے۔

ہمارا ایک بہت قریبی دوست ملک گوادر کی بندر گاہ کو خلیج عرب اور براعظم ایشیا میں اپنی اجارہ داری کے لیے خطرہ محسوس کرتا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت ایران کی بندر گاہ چاہ بہار کو ترقی دینے کے لیے بھرپور اخراجات کر رہا ہے جو کہ گوادر کے قریب ہے اور وہ چاہتا ہے کہ یورپ اور وسطی ایشیا تک چاہ بہار بندر گاہ کے ذریعے رسائی حاصل کی جائے۔ یو اے ای کی طرف سے گوادر کی مخالفت بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

اس وقت تقریباً 8000 چینی کارکن پاکستان میں 210 منصوبوں پر کام کر رہے ہیں جب کہ مزید 7000 اضافی چینی افرادی قوت ان منصوبوں اور ان روٹس پر تحقیقاتی کام کرنے کے لیے متوقع ہیں۔ جب افغانستان میں چین کے مفادات بھارت کے ساتھ ٹکرائیں گے تو ان کا اثر افریقی ممالک پر بھی پڑے گا۔ چینی کارکنوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ اغوا بھی کیا جا رہا ہے۔ اپریل 2001 میں 9 چینی کارکنوں کو ہلاک اور 7 کو اغوا کر لیا گیا جو تیل کے فیلڈز میں کام کر رہے تھے۔ جون 2004میں ایتھوپیا میں 11 چینی کارکنوں کو جو سڑکوں کی تعمیر کا کام کر رہے تھے مار ڈالا گیا اور افغانستان میں قندوز‘ بغلان روڈ پراجیکٹ پر کام کرنے والے چینی کمپنیوں کے کارکنوں کو بھی بھارت کے ساتھ مسابقت کے جرم میں ہلاک کیا گیا۔

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے الگ ہونے والے جماعت الاحرار نامی گروپ نے چین کو دھمکی دی کہ وہ سنکیانگ کے مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں بند کرے ورنہ  پاکستان میں چین کے مفادات پر حملے کیے جائیں گے۔ مشرقی ترکستان میں اسلامی تحریک (ای ٹی آئی ایم) میں شامل عسکریت پسند گروپ جو ٹی ٹی پی‘ القاعدہ اور جند اللہ گروپ کے ساتھ کام کر رہے ہیں ان کی طرف سے چینی شہریوں پر حملوں کی دھمکی دی گئی۔ حیدر آباد مٹیاری اور سکھر میں حالیہ برسوں میں چینی کارکنوں پر حملے کیے گئے اور انھیں اغوا اور قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔

چینیوں کی حفاظت کے لیے خصوصی سیکیورٹی ڈویژن (ایس ایس ڈی) قائم کر دی گئی۔ جس میں 8000 فوجی جوانوں پر مشتمل آرمی کی9 بٹالین شامل ہیں جب کہ ایس ایس جی کمانڈوز کی تعداد 5000 ہے علاوہ ازیں پیرا ملٹری فورسز کے 6 ونگ بھی شامل ہیں جس میں ایس ایس جی کے 900 افسران شامل ہیں۔ فاٹا اور سوات وغیرہ میں پہلے ہی فوجی کارروائیاں جاری ہیں۔ اور انسداد دہشت گردی کے فوجی دستوں کوایسے دہشت گردوں کا سامنا ہے جو شہری علاقوں کے اندر ہی چھپے ہوئے ہیں۔

ایک چین پاکستان انسٹی ٹیوٹ کا پیپر جسے نوید الہی نے لکھا ہے وہ سی پی ای سی کو ٹھوس سیکیورٹی فراہم کرنے پر زور دیتا ہے جس کے لیے وہ تجویز کرتا ہے کہ -1 نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے -2 انسداد دہشت گردی کی قومی اتھارٹی (نیکٹا) کو فعال کیا جائے -3 پاک چین راہداری کی سیکیورٹی کے لیے سیکیورٹی کمیشن قائم کیا جائے جس میں اس راہداری پر ہونے والے ترقیاتی کام کی تشہیر الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر نمایاں طور پر کی جائے۔

اور پیمرا کو اس حوالے سے تمام منفی قسم کی خبروں پر سختی سے پابندی عائد کر دینی چاہیے۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ آئی ایس آئی‘ ایم آئی اور آئی بی کی معاونت سے تحفظ فراہم کرنے والی انٹیلی جنس کو ترتیب دیا جائے اور چین کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ بھی اس حوالے سے مکمل تعاون کیا جائے۔ نیکٹا کو تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں سے معلومات اکٹھی کرنے کے لیے ایک مرکز قائم کرنا چاہیے اور پھر ان معلومات کو قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے حوالے کر دینا چاہیے تاکہ ان پر سخت ایکشن لیا جا سکے۔ اس سلسلے میں میڈیا اور ماہرین تعلیم مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔

جس سے اس منصوبے کے خلاف کیے جانے والے بدنیتی کے پراپیگنڈے کا توڑ کیا جا سکے اور پاکستان کے لیے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔ اس منصوبے پر منفی پراپیگنڈے سے عام لوگوں کے ذہن میں عدم اعتماد پیدا ہو سکتا ہے۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کو دشمن کی سرگرمیوں کا موثر توڑ فراہم کرنا چاہیے۔

ایک موقر تعلیمی ادارے سے تعلق رکھنے والے ماہر تعلیم نے اقتصادی راہداری کے منصوبے کو درپیش چیلنجز پر ایک پینل مباحثے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس راہداری کا ایک پہلو شیخ چلی کے تصورات کی عکاسی کرتا ہے جس کے لیے اتنی زیادہ رقم کا خرچہ  ہمارے بس سے باہر ہو سکتا ہے۔ اس پر اسی ادارے کے ایک طالب علم نے بڑے احترام سے کھڑے ہو کر وضاحت کی کہ اس میں توانائی کے جو منصوبے شامل ہیں نیز جو شاہراہیں تعمیر ہونگی وہ اپنا خرچہ خود پورا کریں گی۔

اس قسم کے پروفیسروں کی منفی گفتگو سے ہمارے نوجوانوں کے ذہن پر مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ کیا ایسے لوگوں کو خاص طور پر ان اونچی جگہوں پر تعینات کرایا گیا ہے؟ یہ کسی قسم کی منصوبہ بندی کا حصہ ہو سکتے ہیں۔ اس قسم کے اشتعال پیدا کرنیوالی باتیں سی پی ای سی کے منصوبے کو ناکام بنانے میں کردار ادا کر سکتی ہیں۔

خصوصی تخمینے کے مطابق یہ منصوبہ طویل مدتی عرصے میں پاکستان کے لیے اربوں ڈالر منافع کی گنجائش پیدا کرے گا۔ سی ایم پی آر یو کے چیئرمین ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی کے تحفظات بہت اہم ہیں۔ البتہ پسماندہ اضلاع میں ملازمتوں کی ’’بمباری‘‘ ڈرونز کی بمباری کی نسبت کہیں زیادہ مفید ثابت ہو گی۔

اکرام سہگل



کرکٹ جان کیوں لے لیتی ہے؟

$
0
0

ایک سرکردہ کرکٹ رائٹر ڈیوڈ فرتھ نے لکھا کہ کئی سابق کرکٹر خود کشی کر چکے ہیں۔
انھوں نے اس کے بعد مزید تحقیق کی اور انھیں اس بارے میں اور شہادتیں ملیں۔
کتاب چھپنے کے 25 سال بھی اس کتاب کے نتائج پر بحث ہو رہی ہے۔ لیکن اس بات پر کوئی شک نہیں کہ جس طرح کرکٹ ذہنی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے اس طرح کوئی اور کھیل نہیں ہوتا۔

لیکن کیا یہ اس کھیل کی فطرت ہے یا یہ اس قسم کے لوگوں کو ہی اپنی طرف متوجہ کرتا ہے؟

کرکٹرز کیوں اتنے غیر محفوظ ہیں؟
پوری دنیا میں ان کرکٹروں کے متعلق اعداد و شمار میں اتار چڑھاؤ ہے جو نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ لیکن اس پر کوئی شبہ نہیں کہ کسی اور کھیل کس نسبت نامور کرکٹروں کی ایک بڑی تعداد نے اپنی مشکلات اور جدو جہد کے متعلق زبان کھولی ہے۔
اس سے یہ سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا کرکٹ کی فطرت میں ایسا کچھ ہے جس سے اسے کھیلنے والے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں، اور بہت سے حالیہ اور سابق کرکٹر یہ سمجھتے ہیں کہ واقعی ایسا ہی ہے۔
انگلینڈ کے مشہور آل راؤنڈر اینڈریو فلنٹوف سمجھتے ہیں کہ کس طرح اس کھیل میں کامیابی اور ناکامی ان کے ذاتی تشخص پر اثر انداز ہوئی۔

انھوں نے 2007۔2006 میں انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان ہونے والی سیریز، جس میں وہ کپتان تھے، کے بارے میں بات کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا: ’جب چیزیں ٹھیک جا رہی ہوتی ہیں تو سب ٹھیک ہے۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو یہ آپ کی ذاتی شناخت کے لیے بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔ 

 میں ڈریسنگ روم میں ایسے شخص کی طرح بیٹھا تھا جو ہر کسی کو اپنے ساتھ نیچے کھینچنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اگر میں پیچھے مڑ کر دیکھتا اور کہتا:  دیکھو ساتھیو، میں واقعی بڑی مشکل میں ہوں، تو سب صدمے سے دو چار ہو جاتے۔ اس لیے میں نے سوچا کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ 
سابق کرکٹر جیمز گریم براؤن اب ایک ڈرامہ نویس بن گئے ہیں۔ وہ اپنی حالیہ پیشکش ’وین دی آئی ہیز گون‘ میں انگلینڈ کے ایک سابق کھلاڑی کولن ملبرن کی مثال پیش کرتے ہیں جن کی گیند لگنے سے ایک آنکھ میں بینائی کم ہو گئی تھی اور انھیں کھیل سے ریٹائر ہونا پڑا تھا۔

گریم براؤن کے اپنے ہی الفاظ میں کولن میلبرن نے اس وجہ سے شراب پی پی کر اپنے آپ کو مار دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کھیل کا یہ حصہ انتہائی ذاتی نوعیت کی جنگ ہے۔
  
سابق پروفیشنل کھلاڑی بتاتے ہیں کہ کرکٹ میں ہر وقت کھلاڑی کو دباؤ کا سامنا رہتا ہے
انھوں نے کہا: ’یہ ایک پر تجسس کھیل ہے۔ ویسے تو اس کھیل کے متعلق لگتا ہے کہ یہ ٹیم کا کھیل ہے لیکن اس کے باوجود حقیقت میں انفرادی پرفارمنس ہی نظر آتی ہے۔  جب آپ بیٹنگ کے لیے جاتے ہیں تو آپ کو خود ہی کرنا ہے، جب بولنگ کرتے ہیں تو آپ اپنے آپ پر ہی انحصار کر سکتے ہیں۔
 اگرچہ دوسرے لوگ آپ کے اردگرد موجود ہوتے ہیں لیکن آپ کسی اور کو گیند نہیں دے سکتے۔ سو کسی حد تک آپ دوسرے کھیل کھیلنے والے کھلاڑیوں کی نسبت زیادہ عیاں ہو جاتے ہیں۔ 
بیٹسمینوں کے لیے چاہے وہ جتنا اچھا ہی کھیل رہے ہوں، ایک شاٹ یا ایک اچھی گیند بری خبر ثابت ہو سکتی ہے۔ اور اسی وجہ سے ہر گیند بہت زیادہ دباؤ کا باعث بنتی ہے۔
نیوزی لینڈ کے کھلاڑی ایئن او برائن کرکٹ اور ذہنی دباؤ پر بلاگ لکھتے رہتے ہیں۔ وہ اس بات سے متفق ہیں کہ ’کرکٹر زیادہ وقت یہ سوچنے میں صرف کرتے ہیں کہ ان کی اگلی ناگزیر ناکامی کیا ہو گی نہ کہ اگلی کامیابی۔ 
 یہ کرکٹروں کی نفسیات ہے۔ 

دریں اثنا پیٹر ہیئٹر، جنھوں نے مشترکہ طور پر کرکٹر مارکوس ٹریسکوتھک کی سوانح عمری ’کمنگ بیک ٹو می‘ لکھی ہے، جس میں انگلینڈ کے سابق اوپنر نے اپنے ذہنی دباؤ کے متعلق واضح بتایا ہے، کہتے ہیں کہ انھیں یقین ہے کہ کرکٹ بڑی شدت والا کھیل ہے جو کھلاڑی کی زندگی پر اس طرح حاوی ہو جاتا ہے جس طرح کوئی اور کھیل نہیں ہوتا۔
 آپ اس کے متعلق ہر وقت سوچتے رہتے ہیں۔ 

 کرکٹر بڑے خود احتسابی ہوتے ہیں۔ ان کے حریف انھیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں یا بے عزت کرتے ہیں۔ یہ دو بدو تجربہ بہت ذاتی ہو جاتا ہے۔ 
ان کے مطابقٹوور کے دوران بڑے پیمانے پر تنہائی کا احساس ہوتا اور عالمی شہروں کے بہترین ہوٹل بھی فور سٹار جیلوں کا تصور دیتے ہیں۔
’یہ حقیقی زندگی نہیں ہے۔ آپ اپنے آپ کو منقطع کر لیتے ہیں۔ 
چیزیں کس طرح بدلی ہیں؟
ٹریسکوتھک کے اس بارے میں بولنے سے ہی اس مسئلے کے شدت کے متعلق آگاہی پیدا ہوئی۔ اس کے بعد اس کو تسلیم کیا گیا کہ یہ کھیل کھیلنے والے بھی ذہنی بیماری کے حوالے سے اتنے ہی غیر محفوظ ہیں جتنا کہ کوئی بھی۔
ہیئٹر کہتے ہیں کہ اس وقت کئی لوگوں کو یہ بات سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ کرکٹر کیوں ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، اور یہ ٹریسکوتھک کی کتاب تھی جس نے یہ تصور بدلا۔

اس کے بعد کئی اور کرکٹر بھی سامنے آئے اور اپنی ذہنی صحت کے مسائل کے بارے میں بات کی۔ ’انھوں نے بنیادی طور پر اس بحث کا آغاز کر دیا۔ 
گریم براؤن اس سے متفق ہیں اور کہتے ہیں کہ ٹریسکوتھک کی کتاب کے بعد اس مسئلے کے متعلق رویہ کافی بدلا ہے اور بعد میں دوسرے کھلاڑی سامنے آئے ہیں جن میں کوان اور او برائن اور مائیکل یارڈی اور جوناتھن ٹراؤٹ شامل ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ڈیوڈ فرتھ کی کتابیں بہت خوفناک ہے، لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ اس نے خودکشیوں کی تعداد کے حوالے سے کرکٹ پر ایک غیر منصفانہ ٹیگ بھی لگا دیا ہے۔

’ظاہر ہے کہ جنوری میں ٹام ایلن کی خود کشی کی خبر بہت تباہ کن تھی۔۔۔ ہم یہ سب کام کر کے اپنے بھولپن میں یہ امید کر رہے تھے کہ اب کوئی اور خود کشی نہیں ہو گی۔ 

چیزیں کس طرح بدلی تھیں؟
ٹریسکوتھک کی کتاب سے بھی پہلے انگلینڈ کی پرفیشنل کرکٹرز ایسوسی ایشن کے جیسن راٹکلف ان کرکٹروں کی مدد کر رہے تھے جنھیں ذہنی صحت کے مسائل تھے۔

فرتھ کی تحقیق
اب تک 80 کھلاڑی خود کشی کر چکے ہیں
بعد میں 2008 میں آنے والی کتاب سائلنس آف دی ہارٹ میں 151 کھلاڑیوں کی شناخت کی گئی
خاص طور پر انھوں نے اس خوف کو اہم قرار دیا جو کھلاڑی کو کوچ سے اس کے متعلق بات کرنے سے روکتا ہے۔ انھوں نے ایک رازدارانہ ہیلپ لائن بھی قائم کی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نہیں سمجھتا تھا کہ لوگ ڈریسنگ روم میں اپنے مسائل کے متعلق بات کریں گے، کیونکہ وہاں مسابقتی ماحول ہوتا ہے۔ 
 ڈر کہ کوچ کیا سمجھے گا، اس بات کا خوف کہ یہ کانٹریکٹ پر کس طرح اثر انداز ہو گا، اور ڈریسنگ روم سے بات آسانی سے باہر جا سکتی ہے۔ آپ کسی کو رازداری میں کچھ بتاتے ہیں اور آخرکار وہ ہمیشہ باہر نکل جاتی ہے۔ 

ہیئٹر بھی سمجھتے ہیں کہ ڈریسنگ روم میں مسابقتی ماحول ایک بڑا مسئلہ ہے۔
’آپ نہیں چاہتے کہ کوچ کو پتہ چلے کہ آپ مشکل میں ہیں۔ اس طرح آپ کی ٹیم کے دوسرے ساتھی آپ کی اہم سپورٹ ہیں لیکن ساتھ ساتھ آپ ان سے اکثر ٹیم میں جگہ کے لیے مقابلہ بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ 

JNU to Kashmir : The anatomy of protests and right to freedom of speech

$
0
0
A Kashmiri Muslim protester engulfed in tear gas smoke shouts slogans against India during a protest in Srinagar, Indian controlled Kashmir. Government forces fired tear gas and pellet guns to stop hundreds of rock-throwing Kashmiri youths in Indian-controlled Kashmir after Friday prayers.

They were protesting the arrest of a Delhi University lecturer, S.A.R. Geelani, and a student leader of the Jawaharlal Nehru University (JNU) on charges of sedition for raising anti-India slogans. Geelani also allegedly criticized the 2013 hanging of a Kashmiri man Afzal Guru convicted of attacking Indian Parliament.  

اعلٰی تعلیم میں پاکستان کا 140 میں 124 واں نمبر

نیب کے عیب یا حکمرانوں کے.....؟

معاف کرنا سیکھیے

$
0
0

ستائیس برس جیل میں قیدکاٹنے کے بعد جب نیلسن مینڈیلاآزاد دنیا میں واپس آیا تو ہر چیز بدل چکی تھی۔ سب سے انقلابی تبدیلی جدوجہدکاکامیاب ہوناتھا جس کی بدولت سفید فام اقلیت کے ظلم اوراقتدارکاسورج غروب ہوچکا تھا۔ جنوبی افریقہ میں سیکڑوں برس کے بعد سیاہ فاموں کو اپنے ملک پرحکومت کرنے کاموقعہ ملاتھا۔ شہربدل چکے تھے۔ گھر بدل چکے تھے۔ لوگ بدل چکے تھے۔ مگرسب سے بڑی بات یہ تھی کہ نیلسن مینڈیلاخودبھی بدل چکاتھا۔
گورے خوف سے کانپ رہے تھے کہ ان کے ساتھ کیا سلوک روارکھاجائے گا۔ پورا ملک خاموش تھا۔ یہ گیارہ فروری 1990ء کادن تھا۔

نیلسن مینڈیلا’’وکٹرورسٹر‘‘جیل سے آزاد ہورہاتھا ۔ سب کواندازہ تھاکہ وہ ملک کاصدر ہوگا۔ جیلر سوچ رہاتھاکہ اب ملک سے فرارہوجاناچاہیے کیونکہ اس نے تنہائی، جسمانی اذیت اورذہنی  تشدد سمیت  نیلسن مینڈیلا کو ہر بلاکے سامنے ڈال دیاتھا۔ قیدخانے سے نکلتے وقت مینڈیلا واپس مڑا۔ جیلرسے ہاتھ ملایا۔ اس کے خاندان کی خیریت پوچھی ۔ شکریہ ادا کیا اور باہر آگیا۔ لاکھوں کا ہجوم اس کا منتظر تھا۔وقت نے اختیارات کی تلواراس کے نحیف ہاتھوں میں تھمادی تھی۔ اس کے ساتھ ہروہ زیادتی کی گئی جو ممکن تھی مگر مینڈیلا نے زندگی کاسب سے بڑاسبق سیکھ لیا تھا۔
ہرایک کو دل سے معاف کرکے اپنے ملک کو ترقی کی شاہراہ پرگامزن کرنے کاسبق۔ پرسی یوتر جنوبی افریقہ کاکامیاب ترین سفید فام وکیل تھا۔ وہ دل سے قائل تھاکہ کالوں کوحکومت کرنے کاکوئی حق نہیں۔1963ء میں پرسی نیلسن مینڈیلاکے خلاف حکومت کی طرف سے وکیل مقررہوا تھا۔ مشہورمقدمہ جسے رائے وؤنیاٹرائل کہاجاتاہے ۔ نیلسن مینڈیلاکوعمرقیدکی سزاسنائی گئی۔ اسے زنجیریں پہنادی گئیں اور روبن آئس لینڈ  کی اذیت گاہ میں منتقل کردیاگیا۔ فیصلے  کے بعد پرسی اپنے ملک کا نجات دہندہ قرار دیاگیا۔ ایک ایسا کامیاب وکیل جس نے دنیاکے خطرناک ترین ملزموں کوان کے منطقی انجام تک پہنچا ڈالا۔

نیلسن مینڈیلا کا صدربننا پرسی کے لیے موت کے پیغام جیسا تھا۔ وہ ملک سے بھاگنے کامنصوبہ بنارہاتھا کہ ایوان صدرسے پیغام آیا کہ صدر اس کے اعزاز میں کھانا دینا چاہتے ہیں۔ پرسی سمجھاکہ یہ ایک مذاق ہے۔ اپنے خاندان کوبتاکرگیاکہ اسے قصرِصدارت میں بلاکرقتل کردیاجائے گا یاجیل بھیج دیاجائے گا۔ مینڈیلا نے دروازے پر اسے خوش آمدیدکہا۔ سادہ سے کھانے کا اہتمام تھا۔ کھانے کے بعد مینڈیلا نے پرسی کا شکریہ ادا کیا اور اسے معاف کردیا اور یہ کہاکہ وہ تو محض وکیل کی حیثیت سے اپنے فرائض پورے کررہاتھا۔ پرسی کئی دن دھاڑیں مارمارکرروتارہا۔

کرسٹوبرینڈجیل کا ایک ملازم تھا۔ ایسا دیہاتی جوزیادہ تعلیم یافتہ بھی نہیں تھا تاہم  وہ سمجھتا تھا کہ جنوبی افریقہ میں امن صرف اس لیے ہے کہ وہاں انگریز حکومت کررہے ہیں۔ اس کا تبادلہ روبن آئی لینڈکی جیل میں کردیاگیا۔جب ڈیوٹی پرپہنچا توجیلرنے بتایاکہ جیل میں دنیا کے خطرناک ترین مجرم رکھے گئے ہیں۔ اسے حکم دیا گیاکہ جانورنماانسانوں سے کم سے کم رابطہ رکھنا چاہیے اوریہ کسی رعایت کے حقدارنہیں ہیں۔ کرسٹو انتہائی درشت رویہ کا حامل تھا۔ ڈیوٹی بی سیکشن میں لگادی گئی۔ یہاں کئی قیدی تھے۔ نیلسن مینڈیلاان میں سے ایک تھا۔جب وہ پہلی باراحاطے میں گیا توصبح کاوقت تھا۔

قانون کے مطابق تمام خطرناک قیدیوں کو ایک گھنٹے کے لیے کھولا گیا۔ مینڈیلاآہستہ آہستہ چلتا ہوا کرسٹو کے پاس آیااورپوچھنے لگاکہ تم نئے افسرہو۔کرسٹونے سختی سے جواب دیا’’ دفع ہوجاؤاوراپنے کام سے کام رکھو‘‘ مینڈیلا خاموشی سے اپنی کوٹھڑی کی صفائی میں مصروف ہوگیا۔ کئی دن گزر گئے۔ دونوں کے درمیان کوئی مکالمہ نہ ہوا۔ ایک دن مینڈیلا دوبارہ اس کے پاس آیا اور کہا کہ جیل کے احاطہ میں چندسبزیاں اورپودے لگانے کی اجازت دی جائے۔ کرسٹو نے پھراسکی بے عزتی کی اورانکارکردیا۔ گھر واپس آکر کرسٹو جیل کے قوانین کامطالعہ کرتارہا۔وہاں سبزیوں کے بیج فراہم نہ کرنے کے متعلق کوئی قانون نہیں تھا۔

کرسٹو نے خبطی بوڑھے کوچند بیج لادیے۔ مینڈیلانے مٹی میں کیاری بنائی اورکھرپہ سے تمام بیج لگادیے۔ کرسٹونے محسوس کیاکہ عجیب قیدی ہے۔ یا تومطالعہ کرتارہتا ہے یا پھر کیاریوں میں پودوں کی دیکھ بھال کرتا رہتا ہے۔ بہرحال قوانین کے مطابق خطرناک قیدی سے بہت کم باتیں کرتا تھا۔ کوئی ایسا ذہنی تشددنہیں جوکرسٹو نے منڈیلا پرنہ کیا ہو۔ جب مینڈیل صدر بنا، توکرسٹو کو بلوایا۔اس کے ساتھ ڈھیروں تصاویربنوائیںاور معاف کردیا۔معافی کی بازگشت پوری دنیامیں گونجی۔جنوبی افریقہ کے لوگوں میں صدرکا رویہ دیکھ کرصلح پسندی اور امن کے جذبات ابھرنے لگے۔

جنوبی افریقہ میں سب سے مقبول کھیل رگبی تھا۔ وہاں  نام کی ایک سفیدفام ٹیم تھی۔ گہرے سبزرنگ کی بنیان پہنتی تھی۔ اس کے کھلاڑی سیاہ فام ٹیم سے نفرت کرتے تھے۔ رگبی کی اس ٹیم کوسفیدفام بالادستی کا نشان تصور کیا جاتا تھا۔ ٹیم سیاہ جلدوالوں کے لیے نفرت کانشان تھی۔ مینڈیلا کورگبی سے خاصا لگاؤتھا۔آزادی حاصل کرنے کے بعد ساؤتھ افریقہ میں رگبی کاورلڈکپ ہوا۔ پوری دنیاسے کھیل کی مایہ نازٹیموں نے حصہ لیا۔سب کاخیال تھاکہ ملک کاصدراس ٹیم کی حوصلہ افزائی نہیں کرے گا۔

بلکہ گمان تھاکہ اس ٹیم کو ٹورنامنٹ میں حصہ نہیں لینے دیا جائے گا۔مینڈیل انے سب کے اندازے غلط ثابت کردیے۔ میچ والے دن گہرے سبزرنگ کی شرٹ پہن کراسٹیڈیم میں آگیا۔ تماشائیوں کو سانپ سونگھ گیا۔

مینڈیلانے اسپرنگ بک کے حق میں نعرے لگانے شروع کردیے۔اس کے کپتان فرینکواس کوبلاکرگلے لگالیا۔ کہا کہ ٹیم اب جنوبی افریقہ کی ٹیم ہے۔ اسے ہرقیمت پرجیتناہوگا کیونکہ یہ پورے ملک کی عزت کا سوال ہے۔فرینکواس اوراس کی ٹیم اس جذبے سے کھیلی کہ ٹورنامنٹ جیت گئی۔ مینڈیلا سبزلباس پہنے میدان میں آیااور اپنے ہاتھوں سے کپتان کوٹرافی دی۔ اس نے دنیا کو پیغام دیا کہ وہ اپنے ملک کونسلی تعصبات سے آگے لے جانا چاہتا ہے اور اپنے دشمنوں کومعاف کرنے کاحوصلہ رکھتاہے۔

اب اپنے ملک  پرنظرڈالیے۔کسی شعبہ پرغور کیجیے۔ خواہ وہ سیاسی ہو،سرکاری ہو،سماجی ہو،مذہبی ہویااقتصادی ہو۔ ہرجگہ آپکودرشتی،انتقامی ذہنیت اوربے رحمی کے اوصاف نظر آئیںگے۔سب سے پہلے سرکاری شعبہ سے شروع کروں گا۔ صرف اس لیے کہ میراتعلق اسی شعبہ سے ہے۔ بہت سے ایسے افسروں کوجانتاہوں جنہوں نے اپنی پوری زندگی دوسروں کونقصان پہنچانے میں صَرف کردی ہے۔ اپنے سے پہلے موجود افسروں کی کمزوریاں نکال کرانھیں تکلیف پہنچانے کو ثواب سمجھتے ہیں۔عام لوگوں کوہروقت گالیاں دیتے ہیں۔ ان کی بے عزتی کرکے خوش ہوتے ہیں۔

سیاستدانوں کے عام سے سفارشی رقعوں کی فوٹوکاپیاں کراکراپنے جیسی منفی صفات کے مالک افسروں میں تقسیم کرتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ آج فلاں اہم آدمی کے کہنے کے باوجودکام نہیں کیا۔ یہ نہیں بتاتے کہ کام میرٹ پرہونے والاتھا یا نہیں۔ میرے پاس درجنوں افسروں کے نام ہیں جنہوں نے پوری زندگی خلقِ خداکے فائدے کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ وہ اذیت پسندی کا ایسا نشان ہیں جنھیں ہمار انظام اپنی کمزوری کی بدولت برداشت کررہاہے۔

آپ سیاست پرنظرڈالیے۔ تقریباًہرسیاستدان کی ایک معمولی سی خواہش ہے کہ اس کے مخالفوں کے سر درختوں سے لٹکے ہوں۔ مذہبی حلقوں نے اپنے اپنے مسلکی قلعے تیار کررکھے ہیں۔ہرفرقہ دوسرے کوکھرامسلمان نہیں سمجھتا۔ ایک دوسروں کوواجب القتل قراردیناعام سی بات ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کاروباری طبقہ بھی ایک دوسرے کے خلاف اسی طرح سربکف ہے۔ایک کانقصان دوسرے کا فائدہ ہے۔نجی شعبہ میں اقتصادی دشمنی عروج پرہے۔میں ہر شعبہ سے اَن گنت مثالیں دے سکتاہوں جہاں ایک دوسرے کے لیے صرف اور صرف انتقام اوربربادی کے جذبات ہیں۔

اپنے ملک کو ناکام ریاست بالکل نہیں سمجھتا۔ مگراسے ایک مشکل سماج ضرورگردانتاہوں۔ہرشخص کسی نہ کسی اندھے انتقام کی آگ میں جل رہاہے۔اس کے دل میں یہ احساس موجزن رہتاہے کہ اپنے مخالف کوسبق ضرور سکھائے۔ صاحبان! یہاں زخموں پرمرہم رکھنے والے لوگ بہت ہی کم ہیں یاشائد خاموش ہوچکے ہیں۔کسی شعبہ میں نیلسن مینڈیلا جیسا بے لوث انسان نظرنہیں آتا جو اذیت پہنچانے والے کو بھی معاف کرنے کا ظرف رکھتا ہو 

راؤ منظر حیات

پکاڈلی سرکس

$
0
0

پکاڈلی سرکس ویسٹ منسٹر شہر کی مغربی حد پر واقع مختلف سڑکوں کے اتصال کا نام ہے اور لندن والوں کے لیے تفریحی مقام ہے۔ یہ ریجنٹ سٹریٹ اور پکاڈلی کو آپس میں ملانے کے لیے 1819ء میں بنائی گئی تھی۔ اگر پکاڈلی سرکس کے سیاق و سباق میں دیکھیں، تو سرکس لفظ لاطینی زبان میں سرکل یعنی دائرے کو کہا جاتا ہے اور یہ گولائی میں سڑکوں کا اتصال ہے۔ 

پکاڈلی سیدھا سافٹ بری ایونیو کے تھیٹرز کو ملاتے ہوئے ہی مارکیٹ، کیونٹری سٹریٹ (بعض ادارے لایسیٹرسکوائر) اور گلاس ہائوس سٹریٹ کو چلی جاتی ہے۔ یہ شہر کی مغربی حد کے تمام بڑے شاپنگ سنٹر اور تفریحی مقامات کے بہت قریب ہے۔ بہت بڑا سڑکوں کا جال بچھا ہونے کی وجہ سے پکاڈلی میٹنگ پلیس اور سیاحوں کے لیے پرکشش مقام بن گیا ہے۔
 یہ خاص طور پر نیون سائن، اشتہارات کی ویڈیوز اور برقی روشنیوں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ یہاں پر شافٹ بری میموریل کے چشمے اور سیاحوں کے مجسمے بھی ہیں۔ اس کے اردگرد کافی مشہور عمارات ہیں، جن میں لندن پیویلین، کری ٹیرین ریسٹورنٹ اور کریٹیرین تھیٹر شامل ہیں اور پلازہ کے نیچے پکاڈلی سرکس ٹیوب سٹیشن ہے۔ 

(سفرنامہ ’’بستی بستی پھرا مسافر:انگلینڈ،سکاٹ لینڈ،کینیڈا‘‘ سے ماخوذ)

عبدالمجید خاں

جنرل (ریٹائرڈ) ذوالفقار علی بھٹو

$
0
0

اسلام آباد کی جو زیریں عدالت پچھلے ڈھائی برس سے لال مسجد کے منتظم غازی عبدالرشید کے مقدمۂ قتل کی سماعت کر رہی ہے اس مقدمے میں مطلوب واحد ملزم جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو آج تک اپنے روبرو نہیں دیکھ سکی۔ حالانکہ یہ عدالت اس عرصے میں تین بار جنرل صاحب کے ناقابلِ ضمانت گرفتاری وارنٹ نکال چکی ہے۔

تازہ وارنٹ گذشتہ روز جاری کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پرویز قادر میمن نے کہا کہ ملزم جان بوجھ کر عدالت میں پیش نہیں ہو رہا اور اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر انصاف کا طلب گار ہے۔

یہ مقدمہ بھی شاید درج نہ ہوتا اگر اسلام آباد ہائی کورٹ ستمبر دو ہزار تیرہ میں پرچہ کاٹنے کا حکم نہ دیتی۔ پولیس نے اس حکم کی بادلِ نخواستہ تعمیل تو کر دی لیکن عدالت کے روبرو جو چالان پیش کیا اس میں واحد ملزم پرویز مشرف کا نام چالان کے کالم نمبر دو میں ڈالا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ تحقیقاتی افسر تو ملزم کو بے قصور سمجھتا ہے، آگے عدالت کی مرضی۔ اتنے رعایتی چالان کے باوجود ملزم نے عدالت میں پیش ہونا تضیحِ اوقات سمجھا۔

جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کا آرٹیکل چھ توڑنے کے الزام میں جو مقدمہ زیرِ سماعت ہے ۔ وہ بہت پہلے ہی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جا چکا اور مدعی (حکومت) بھی اب اس بارے میں ذکر کرتے لجاتا ہے۔

اکبر بگٹی قتل کیس میں جنرل صاحب ایک پیشی بھگتے بغیر بری ہوگئے۔ مقتول غازی عبدالرشید کے بھائی عبدالعزیز جنرل مشرف کو معاف کر چکے ہیں مگر غازی کا بیٹا ہارون رشید مقدمہ چلوانے پر کمر بستہ ہے۔
ذولفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمے میں سزائے موت دی گئی تھی
پاکستان نہ تو چلی ہے جہاں جنرل پنوشے کو وہیل چئیر پر بٹھا کر عدالت میں پیش کیا جائے، نہ ترکی ہے جہاں سابق فوجی جنرلوں کو تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں سلاخوں کے پیچھے کر کے مقدمہ بھگتنے پر مجبور کیا جائے اور نہ ہی کوئی ٹوٹتا ہوا سوویت یونین جہاں جنرل تین دن حکومت کرنے کے بعد ہانپ جائیں اور خود کو عارضی معزول صدر گوربچوف کے حوالے کر دیں۔

اس اعتبار سے پاکستان کی اپنی شناخت ہے۔ یہ مصر، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، سابق گورے جنوبی افریقہ اور نائجیریا کے درمیان کی کوئی ملغوبائی انتظامی شکل ہے۔ یہ منتخب احتساب کی مملکت ہے جہاں طے ہے کہ کون کس کے احتساب کا پیدائشی مجاز ہے۔ احتسابی چھوت چھات کا یہ نظام اس قدر شفاف ہے کہ کوئی نابینا بھی دیکھ سکتا ہے کہ برہمن کون کون ہے اور کھشتری، ویش اور شودر کون۔

حالانکہ ریاستی تخت کے چاروں کھونٹوں پر سونے کے پانی سے ’وفاق‘ کندہ ہے۔ سریر آرائے تخت کے ماتھے پر آئینی بالادستی کا جھومر بھی ہے اور قانون کی نظر میں سب کی برابری کا مورچھل بھی مسلسل جھلا جا رہا ہے۔ مگر یہ شیر کا دربار ہے۔ جہاں ہر شکار کے تین حصے برابر برابر کیے جاتے ہیں۔ ایک حصہ شیر کا، دوسرا شیر کے حقیقی و منہ بولے بچوں کا اور تیسرا سامنے دھرا ہے۔ جس عدالت، پارلیمنٹ یا عام آدمی میں ہمت ہو اٹھا لے جائے۔

کون سا آرٹیکل چھ، کیسا نیب، کس کے گرفتاری وارنٹ، کدھر کی پیشی۔ سوچیے اگر بھٹو صاحب جنرل (ریٹائرڈ) ذوالفقار علی بھٹو ہوتے تو ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا؟

وسعت اللہ خان


Kashmir : Valley of Tears

$
0
0
A relative of Abdul Ghani Mir, who was killed in the cross fire between government forces and rebels, cries during his funeral at Pinglan some 38 kilometers (23.75 miles) south of Srinagar, Indian-controlled Kashmir.

ٹرمپ، مائنڈ سیٹ اور امریکی مسلمان ؟

ہمارے معاشرے کا زوال اور سماجی رویے

$
0
0

ہمارے معاشرے میں گھریلو لڑائی جھگڑے یا خاص طور پر ساس اور بہو کی روایتی لڑائیاں ایک بہت لمبی اور افسوس ناک داستان رکھتی ہیں جن کا نہ یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ شروع کب ہوئیں اور نہ یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ ختم کب ہوں گی۔ اور نہ یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ شروع کیوں ہوئیں۔ ایک اہم نکتے کو ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ سب سے اہم رشتے اللہ تعالیٰ نے بالکل منفرد بنائے ہیں۔ جیسے بچوں کیلئے ماں باپ کا رشتہ اور ماں باپ کیلئے بچوں کا رشتہ، جن کے آپس کے تعلق میں ہم کسی صورت بھی کسی قسم کا ردوبدل نہیں کر سکتے۔ 

آپ جس کی اولاد ہیں، اس کی ہی رہیں گے دوسرے کی کسی طرح نہیں بن سکتے، چاہے آپ کا اس سے رشتہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو کیونکہ یہی چیز فطرت کے قانون کے مطابق ہے اور آپ فطرت کو کسی صورت دھوکہ نہیں دے سکتے۔ اکثر خرابی یہاں پیدا ہوتی ہے کہ ہم خود تو کسی کو کچھ دینے کے اہل ہوتے نہیں لیکن دوسرے سے ہر وقت جائز و نا جائز مطالبے اور توقعات رکھتے ہیں جن کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں اور ان کا فوری اثر ہمارے اپنے رویوں اور بچوں کی تربیت پر آتا ہے۔

 اکثر مرد حضرات (تعلیم یافتہ یا ان پڑھ دونوں) کے ذہنوں پر یہ چیز ہر وقت حاوی رہتی ہے کہ وہ چونکہ مرد ہیں، اس لیے ان کی عورتوں کو ہر صورت میں ان کے جائز یا نا جائز مطالبے کو فوراً کسی تا خیر کے بغیر پورا کرنا چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں وہ ان کے نزدیک لونڈیوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اب اس بنیادی اختلاف کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان اکثر معاملات پر انڈر سٹینڈنگ پیدا نہیں ہو پاتی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید خرابی کا باعث بن جاتی ہے‘ اس کا سب سے زیادہ نقصان ان کی اگلی نسل کا ہوتا ہے جو روزانہ اپنے ماں باپ کو معمولی معمولی بات پر جھگڑتے دیکھ کر ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔

 میاں بیوی کی اپنی صحت بھی ان لڑائی جھگڑوں کی بنا پر بلڈ پریشر جیسی مہلک بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس طرح اس خاندان کے تمام افراد کے رویوں میں ہر وقت تلخی نمایاں رہتی ہے۔ میاں بیوی کے درمیان انڈر سٹینڈنگ نہ ہونے کی بے شمار وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ساری عمر لڑائی جھگڑوں میں گزر جاتی ہے لیکن اکثر خواتین اپنے بچوں کی وجہ سے ہر طرح کا ظلم و ستم برداشت کرتی ہیں۔ ہمارے معاشرے کا ر ویہ اتنا زیادہ زوال پذیر ہے کہ اب گھر کے نارمل جھگڑے بھی تیزی کے ساتھ پر تشدد رخ اختیار کر گئے ہیں اور مردوں کا خواتین پر جسمانی تشدد کرنا اتنا عام ہو گیا ہے کہ ہمارے معاشرے میںایسا کوئی تشدد کا واقعہ انوکھا بالکل محسوس نہیں ہوتا۔

 حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان واقعات میں تعلیم یافتہ لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ اس طرح ان تمام لڑائی جھگڑوں کے اثرات ہماری اگلی نسل میں منتقل ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر بچے چھوٹی عمر ہی سے چڑچڑے پن کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کے رویے مستقل طور پر زیادہ تر منفی ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو عملی زندگی میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔

گھریلو لڑائی جھگڑوں کی ایک اہم وجہ خاندانی جائیداد پر قبضہ کرنا یا اس میں سے فوری طور پر اپنا حصہ لینا ہوتا ہے جس کی زیادہ اہم وجہ معیشت کی خرابی اور اچھے روزگار کا نہ ہونا ہے اور یہ ایسا خوفناک معاملہ ہے کہ اس کا انجام اکثر اوقات قتل و غارت کی شکل میں نکلتا ہے ۔ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ ہمارے معاشرتی رویے کس حد تک گر چکے ہیں جن کو ان کی نارمل پوزیشن پر لانا مشکل بلکہ نا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔

 (ہمارے معاشرے کا زوال اور سماجی رویے از محمد شاہد عادل)    

لندن اسکول آف اکنامکس کا قائد اعظم کی عظمت کو خراج تحسین

$
0
0

بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی قائدانہ صلاحیتوں اور عظمت کے احترام میں لندن اسکول آف اکنامکس ( ایل ایس ای) نے انسٹی ٹیوٹ میں ’’ جناح چیئر‘‘ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایل ایس ای کے سربراہ اور پروفیسر کریگ کولہن نے وزیرِ اعظم نواز شریف سے ملاقات کے دوران چیئر کے قیام کا اعلان کیا جب کہ اس موقع پر وزیرِ اعظم نے اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے ایل ایس ای اور مقامی جامعات کے درمیان مزید تعاون اور اشتراک پر زور دیا۔

لندن اسکول آف اکنامکس کے سربراہ نے پاکستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے امید افزا قرار دیا جب کہ ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان میں سیکیورٹی اور معاشی صورتحال کی بہتری دیکھ رہے ہیں اور یہ سب پاکستان کے مثبت تصور کو اجاگر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو اقتصادی لیڈر بنانے اور اس کی پالیسی سازی میں مدد کریں گے۔
پروفیسر کریگ کولہن سے گفتگو میں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف پرعزم ہے اور ملک ترقی کی درست سمت میں جارہا ہے اس کے علاوہ پاکستان خطے میں امن و امان کے قیام کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ہرکونے میں چھپے دہشت گردوں اور شرپسندوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔

قوم کسی خوش فہمی میں نہ رہے

$
0
0

پاکستانی قوم کی یہ بد قسمتی ہے کہ اُسے لوٹنے اور تباہ و برباد کرنے والے کوئی اور نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جنھیں عوام بڑی آرزؤں اور تمناؤں کے ساتھ اِس اُمید پر اپنا رہنما منتخب کرتے ہیں کہ وہ اُنہیں غربت و پسماندگی سے باہر نکال کر ترقی یافتہ اور خوشحال قوم بنائیں گے، لیکن یہی لوگ ملک و قوم کے حالات بدلنے کی بجائے صرف اپنے حالاتِ بدلنے کی تدبیریں کرتے ہوئے، امیر سے امیر ہوتے چلے گئے اور ملک و قوم کو مفلس اور قلاش کر کے رکھ دیا۔ پھر اُس پر طرّہ یہ کہ بھولے بھالے عوام کو ہر بار یہ یقین دلایا جاتا رہے کہ ملکی دولت لوٹنے والوں اور کرپشن کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔

پرویز مشرف کے دور میں تو اِسی کو بنیاد بنا کر ایک سات نکاتی ایجنڈا بھی ترتیب دیا گیا تھا اور اِسی کے سہارے اُنہوں نے اپنے اقتدار کے نو سال بھی گزار لیے۔ کسی بڑے اور با اثر کرپٹ شخص کو وہ سزا کیا دلاتے بلکہ اُنہیں کرپشن کے الزامات سے بری کرنے کے لیے ملکی تاریخ کا بدنام ترین فرمانِ  بھی جاری کر دیا جس کی کراماتی خصوصیات کی بدولت ہزاروں ملزم اپنے جرائم کی سزا بھگتے بناء ہی معصوم اور بے گناہ قرار پا گئے۔

اِسی ’’این آر او‘‘ کی برکات کے طفیل زرداری صاحب بھی نہ صرف اِس ملک میں بلاتاخیر اور بلاروک ٹوک واپس آ گئے بلکہ اپنی ذہانت اور قابلیت کے بل بوتے پر ملک کے سب سے اعلیٰ عہدے پر بھی براجمان ہو گئے۔ آئین و دستور میں دیے گئے صدر کی حیثیت میں اپنے استثنائی حق کو پانچ سال تک اُنہوں نے خوب استعمال بھی کیا۔ وہ جب تک بر سراقتدار رہے، بڑے اطمینان اور سکون سے اپنے دن گزارتے رہے۔ دنیا کی کوئی عدالت اور کوئی عدالتی نظام اُن کا کچھ بگاڑ نہیں سکا۔ سوئٹزر لینڈ میں رکھے تمام شواہد اور ثبوت کس طرح راتوں رات بکسوں میں بند کر کے غائب کر دیے گئے اور کوئی اُنہیں روک نہ سکا۔
اُن کے پانچ سالہ دور میں کروڑوں اور اربوں روپے کے گھپلے اور اسکینڈلز سامنے آتے رہے۔ کبھی ای او بی آئی، کبھی اوگرا، کبھی این آئی سی ایل، کبھی رینٹل پاور اور کبھی حج کرپشن کا بڑا چرچا ہوا لیکن کسی ذمے دار کو کوئی سزا نہیں ملی۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ اور اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا لیکن وہ اُن کا بال بھی بیکا نہیں کر پائے۔ وہ آج بھی اُس عہدے کے لوازمات سے لطف اندوز اور بہرہ مند ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے دستور کے مطابق کوئی بھی شخص جب اِس عہدے پر ایک بار بیٹھ جاتا ہے وہ زندگی بھی اِس کی مراعات اور ثمرات سے تاحیات فیضیاب ہوتا رہتا ہے۔

’’پہلے احتساب اور پھر انتخاب‘‘ کا پُر فریب نعرہ اور سلوگن ہم سب نے ضیاء دور میں بھی بڑے شدومد کے ساتھ سنا تھا۔ نوے دنوں کے لیے اقتدار میں آنے والوں نے کس طرح اپنے مذموم عزائم اور مکروہ ارادوں کے لیے اُسے استعمال کیا۔ گیارہ سال تک وہ اقتدار میں رہے لیکن کسی بھی کرپٹ اور بدعنوان شخص کا وہ احتساب نہیں کر پائے اور نہ کسی کو کوئی سزا دے پائے۔ بلکہ اپنے دور اقتدار کو تحفظ اور دوام بخشنے کے لیے وہ جنرل مشرف کی طرح اِنہی کرپٹ لوگوں کو اپنے ساتھ ملاتے رہے۔

اِسی طرح آج ایک بار پھر کڑے احتساب کی باتیں ہو رہی ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت کراچی میں امن قائم کرنے کی غرض سے جہاں دہشت گرد عناصر کی گرفت کی گئی وہاں اُن کے سہولت کاروں کے نام پر کرپٹ مافیا کے کچھ لوگوں پر بھی ہاٹھ ڈالا گیا۔ اِسی دوران اسلام آباد ائیر پورٹ پر ہماری ایک ماڈل گرل کو 5 لاکھ ڈالر غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک لے جاتے ہوئے رنگِے ہاتھوں پکڑ لیا گیا۔ ایان علی پر منی لانڈرنگ کا الزام لگایا گیا۔ نوید سنائی گئی کہ اِس واقعے کے پس پردہ افراد بھی اب بہت جلد بے نقاب ہونگے۔

عوام سمجھنے لگے کہ شاید کچھ بااثر سیاسی شخصیات کے نام سامنے آئیں گے۔ تحقیقات شروع کردی گئیں۔ عدالت نے صرف فردِ جرم عائد کرنے میں چھ ماہ سے زائد کا عرصہ لے لیا۔ دیکھتے دیکھتے پھر اُس کی ضمانت بھی ہو گئی اور پاسپورٹ بھی واپس کر دیا گیا۔ ہوسکتا ہے ایک روز ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں سے بھی اُس کا نام خارج ہو جائے اور وہ غیر معینہ مدت کے لیے بیرونِ ملک بھی چلی جائیں۔ پھر اُس کے خلاف نہ کوئی عدالتی کارروائی ممکن ہو پائے گی اور نہ 5 لاکھ ڈالر کے اصل مالکان کا پتہ لگے گا۔ رفتہ رفتہ لوگ اِس واقعے کو بھی دیگر واقعات کی طرح بھول جائیں گے اور معاملہ بلدیہ ٹاؤن کراچی میں گارمنٹ فیکٹری کے واقعے کی مانند مجبوریوں اور مصلحتوں کے گرداب میں پھنس کر رہ جائے گا۔

ڈاکٹر عاصم حسین کو گزشتہ برس بدعنوانی کے کچھ ایسے ہی الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا۔ اُنہیں بھی آج گرفتار ہوئے چھ ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے اور ابھی تک صرف ابتدائی تحقیقات ہی ہو رہی ہیں۔ کچھ واضح نہیں ہو پایا ہے کہ وہ واقعی مجرم ہیں یا بس یونہی بلاوجہ زیرِ عتاب ہیں۔ آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ اُن سے اب تک کچھ بھی معلوم نہیں ہو سکا ہے۔ لہذا وہ مظلوم و بے قصور ہیں۔ قرینِ قیاس ہے کہ وہ بھی ایان علی کی طرح ایک روز ضمانت پر رہا ہو جائیں گے اور بڑے دھڑ لے سے دن کے اُجالے میں اپنے سرپرستوں کی مانند ایک روز ملک سے باہر چلے جائیں گے۔

ہماری قوم اُن کی گرفتاری سے بھی اِس خوش فہمی میں مبتلا تھی کہ اب بہت سے بڑے بڑے نام سامنے آئیں گے اور نئے نئے انکشافات ہونگے، مگر جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے عوام کی توقعات اور اُمیدوں پر برف جمتی جا رہی ہے۔ معاملہ ہنوز تفتیش اور تحقیق تک ہی محدود ہے۔ کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہو پایا ہے۔ ہاں البتہ اتنا ضرور ہوا کہ کسی انجانے خوف اور ڈر کے باعث پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ اہم رہنماء ایک ایک کر کے ملک سے غائب ہوتے جا رہے ہیں اور اُنہیں باہر جانے سے کوئی روک بھی نہیں رہا۔

ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد اب لیاری گینگ وار کے ایک پرانے رکن اور لیاری امن کمیٹی کے سربراہ عذیر بلوچ کی گرفتاری کی خبر بھی آ گئی ہے۔ اُنہیں مبینہ طور پر گرفتار تو بہت پہلے ہی کر لیا گیا تھا مگر اُن کی گرفتاری کو ظاہر اب کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی وہ کئی ماہ سے ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں کی تحویل میں تھے تو اب تک تو شاید بہت سے رازوں سے پردہ اُٹھ چکا ہو گا۔ اُن کے اقبالی بیانوں میں پسِ پردہ سرپرستوں اور کئی اعلیٰ شخصیات کا ذکر بھی ہو گا تو پھر اُن پر ہاتھ ڈالنے میں اب قباحت کیا ہے؟ قوم نیشنل ایکشن پلان کو مکمل ہوتا دیکھنے کے لیے بہت مضطرب اور بے چین ہے۔

بلا وجہ کی تاخیر اور ڈھیل دلوں میں وسوسے پیدا کر رہی ہے۔ لگتا ہے ملزمان اتنے طاقتور اور بااثر ہیں کہ کوئی بھی اُن کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ غیر متزلزل اور فولادی عزم والا شخص بھی اُن کے آگے بے بس و مجبور ہے۔ لوگوں کو توقع تھی کہ کراچی اور سندھ کے بعد یہ نیشنل ایکشن پلان پنجاب کا رخ بھی کرے گا اور شاید کرپٹ عناصر کو سخت سے سخت سزائیں ملیں گی لیکن حقائق اور نتائج اِس کے برعکس ہی دکھائی دے رہے ہیں۔

ابھی تو صرف سندھ ہی میں صفائی کا عمل مکمل نہیں ہو پایا بلکہ تقریباً ناکام ہو چکا ہے تو بھلا دیگر صوبوں میں یہ کیسے فعال اور کارگر ہو پائے گا۔ کرپٹ مافیا اور بدعنوان لوگوں کو پکڑنا کوئی اتنا آسان کام نہیں ہے۔ خاص کر جب اُن کا تعلق اشرافیہ یا معاشرے کے مقتدر اور بااثر طبقے سے ہو۔ بلاامتیاز، بلاتفریق اور سخت گیر احتساب کا نعرہ ہمارے کانوں کو بہت اچھا لگتا ہے لیکن جب عملی جامہ پہنایا جائے تو ہر طرف سے دھمکیاں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے ہمیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔

کرپشن کے خلاف کارروائی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہی نہیں ہے۔ کوئی کہتا ہے سرکاری دفتروں میں گھس کر فائلیں ٹٹولنا اور اُنہیں اپنے ساتھ لے جانا رینجرز کا مینڈیٹ ہی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ نیب اپنا قبلہ درست کر لے ورنہ ہمیں بھی کوئی ایکشن لینا پڑے گا۔ جب حالات ایسے ہوں تو پھر کیسا احتساب اور کس کا احتساب۔ قوم اِس خوش فہمی میں نہ رہے کہ لوٹ کا مال کھانے والوں کو ہمارے یہاں کبھی پکڑا بھی جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر منصور نورانی

سیاسی جماعتیں یا خاندانی جاگیریں ؟

زرداری صاحب کا فن...وسعت اللہ خان

$
0
0

جو لوگ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو والی پیپلز پارٹی کی لالٹین پکڑ کے آصف زرداری میں بھٹو ازم تلاش کرنے میں لگے پڑے ہیں انھیں پورا حق ہے کہ وہ زرداری صاحب کو ایک زیرک سیاسی معمہ سمجھتے رہیں۔ مگر جن لوگوں کا خیال ہے کہ موجودہ پیپلز پارٹی اصلی پیپلز پارٹی کی فرنچائز ہے انھیں آصف زرداری کے اس فن پر قطعاً حیرت نہیں کہ وہ اچانک مالکونس گاتے گاتے راگ جھنجوٹی پر کیسے اتر آتے ہیں اور پھر اسی اعتماد کے ساتھ مالکونس پر کیسے پلٹ جاتے ہیں۔

یہاں تک تو موازنہ درست ہے کہ اصلی پیپلز پارٹی بھی ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی تھی اور فرنچائزڈ پیپلز پارٹی بھی ایک خاندانی میراث ہے۔ مگر اصلی پیپلز پارٹی کی خاندان ہونے کو پارٹی ورکر ایک مقبول ناگزیر مجبوری سمجھتا تھا اور موجودہ خاندانیت پاپولر توثیق کے راستے کے بجائے ’دریافتی وصیت‘ کی سیڑھی سے پارٹی پر نازل ہوئی ہے۔

اصلی پیپلز پارٹی میں بھلے رسمی طور پر ہی سہی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کی ایک علامتی اہمیت تھی اور اہم پالیسی فیصلے سنٹرل ورکنگ کمیٹی سے ’صلاح مشورے‘ کے بعد ہی کیے جاتے تھے۔ کیا آج کی فرنچائزڈ پیپلز پارٹی کا عام کارکن (اگر کوئی ہے ) جانتا ہے کہ سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے ارکان کون کون ہیں اور جب سے زرداری صاحب نے باگ ڈور سنبھالی ہے تب سے سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے کتنے اجلاس ہوئے اور کتنے اہم ترین نظریاتی و سیاسی فیصلوں کی توثیق اس سے کروائی گئی۔
اصلی پیپلز پارٹی میں سب جانتے تھے کہ بھٹو صاحب ہی چیئرمین ہیں اور ان کے بعد بے نظیر بھٹو ہی چیئرپرسن تھیں۔ آج پارٹی سربراہ کون ہے؟ زرداری یا بلاول یا پھر زرداری اور فریال؟ یا پھر بلاول زرداری فریال ٹپی؟ کیا آئیڈلسٹ کچے پن کے شکار بلاول اور انتہائی عملیت پسند زرداری موجودہ فرنچائز بزنس کو چلانے کے بنیادی اصولوں کی بابت ایک پیج پر ہیں؟ اور یہ پیج کس کے ہاتھ میں ہے؟
 
بھٹو خاندان کا مسئلہ یہ تھا کہ آڑے وقت کے لیے عوامی مقبولیت کے خزانے کو بہر طور بھرا رہنا چاہیے۔ موجودہ فرنچائز قیادت کی ترجیح یہ ہے کہ آڑے وقت کے لیے ’خزانہ‘ کسی قیمت کم نہیں رہنا چاہیے۔اور اگر قلفی کا ٹھیلا الٹ بھی جائے تو عملیت پسندی کا تقاضا ہے کہ اسے شرارتی بچوں سے آزاد کروا کے سیدھا کرنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے الٹے ٹھیلے سے ٹپکنے والی قلفی جتنی خود کھا سکتے ہو وہی تمہاری ہے۔

نظریاتی پیپلز پارٹی اپنی طبعی عمر کے دوسرے حصے میں بھی عوامی امنگوں کی ترجمانی اور اسٹیبلشمنٹ سے علامتی فاصلے کے سٹیکرز سنبھالتی رہی۔ مگر فرنچائزڈ پیپلز پارٹی نے ان سٹیکرز کے اوپر نیلے تھوتھے کی لئی سے یہ نظریہ چسپاں کردیا کہ عملیت پسندی ہمارا دین ہے، عملیت پسندی ہماری سیاست ہے، عملیت پسندی ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سرچشمہ عملیت پسندی ہے۔ سیاست سیاست ہے کوئی قرآن و حدیث نہیں۔
میرے ایک ساتھی صحافی نے توجہ دلائی کہ چار اپریل ( بھٹو کی برسی ) اور 27 دسمبر ( بے نظیر کی برسی ) کو آصف زرداری کی گڑھی خدا بخش کی سالانہ تقاریر اٹھا کے دیکھ لیں۔ ایک تقریر میں میں وہ چی گویرا دکھائی دیتے ہیں اور دوسری میں چوہدری شجاعت حسین۔ اگر 27 دسمبر کو انقلابی شعلہ بیانی کی ہے تو اس پر ٹھنڈا پانی ڈالنے کے لئے چار اپریل کو متصادم نظریات کے حامل لوگوں کو ایک ساتھ گلے لگانے کا پیغام پکا اور اگلی تقریر دوبارہ مار دھاڑ سے بھر پور۔

تازہ ترین مثال راحیل شریف ساگا ہے۔ پہلے اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی پھر راحیل شریف کی جانب سے ایکسٹینشن نہ لینے کے اعلان کی اصولی حمایت کی اور پھر دونوں اینٹوں کو بجا کے اوپر تلے رکھا اور اس پر ایڑیوں کے بل راحیل شریف سے کہہ رہے ہیں ’ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر، ابھی تو دل بھرا نہیں۔‘
 
اور اس بیان پر نواز شریف کے نو رتنوں کی حیرت و پریشانی دیدنی ہے۔ کیونکہ نواز شریف کا نفسیاتی مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہی مقرر کردہ چیف سے اگلے دن ہی اشاروں کنایوں میں کہنا شروع کردیتے ہیں کہ اب آ تو گئے ہو جاؤ گے کب؟
ہاں میرے جیسے مان لیتے کہ ’عوامی امنگوں کی روشنی میں چیف کو توسیع ملنی چاہیے‘ والا بیان آصف زرداری کا نہیں اگر وہ تیرے میرے سے ٹویٹری تردید کرانے کے بجائے فوری طور پر ذاتی تردید جاری کرتے اور اگلے ہی دن پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی جانب سے یہ قرار داد پیش ہونے سے روک دیتے کہ اس ایوان کی رائے میں راحیل شریف کی مدتِ ملازمت میں توسیع ازبس ضروری ہے۔

 اب پنجاب اسمبلی پیپلز پارٹی کی قرار داد متفقہ طور پر منظور کر لے اور سندھ اسمبلی میں یہ قرار داد پیش نہ ہو تو زرداری صاحب کو اچھا لگے گا؟
پیپلز پارٹی چار بار برسرِ اقتدار آئی۔ بھٹو صاحب ٹکا خان سے بہت خوش تھے مگر توسیع نہیں دی۔ بے نظیر بھٹو نے اسلم بیگ کو تمغہِ جمہوریت دے دیا مگر توسیع نہیں دی۔ یہ زرداری حکومت تھی جس نے کیانی کی شکل میں کسی سپاہ سالار کو پہلی بار توسیع تھمائی۔

وہ فرنچائز ہی کیا جو سب کاروباری انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھ دے۔ وہ فرنچائز ہی کیا جو پھانسی کے رسے کا چھت پر چڑھنے، پھر اترنے اور پھر چڑھنے کا کرتبی استعمال نہ دکھا پائے۔
’آپ سب لوگوں کو کچھ عرصے کے لیے اور کچھ لوگوں کو مستقل بیوقوف بنا سکتے ہیں مگر سب لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف نہیں بنا سکتے۔‘
 ( ابراہام لنکن )

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی



Afghan casualties hit record high 11000 in 2015

$
0
0
The UN says more than 11,000 civilians were killed or wounded in violence in Afghanistan in 2015, making it the worst year for civilian casualties since the organisation began compiling statistics in 2009.





اور اب کپاس کا بحران

$
0
0

موسمیاتی تبدیلی کہہ لیں، ایل نینیو کو الزام دے لیں، زرعی انتظامی مسائل کے سر منڈھ دیں مگر نچوڑ یہ ہے کہ دنیا بھر میں اس برس کپاس کی فصل میں نو فیصد اور طلب میں کم ازکم دو فیصد تک کمی ہوئی ہے ۔
گذشتہ برس کی ایک سو چھ ملین گانٹھوں کے مقابلے میں اس سال کی عالمی پیداوار سو ملین کے آس پاس رہنے کا خدشہ ہے۔ یہ عالمی پیداواری خسارہ سالِ 2008 کے بعد سب سے زیادہ کہا جا رہا ہے۔

پاکستان کہ جس کی معاشی ریڑھ کی ہڈی زراعت سے بنی ہے اور سب سے بڑی درآمد ہی کپاس اور اس سے بننے والی نیم تیار و تیار اشیا ہیں۔ اس کے لئے کپاسی بحران کی نوعیت بقول منیر نیازی

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

دنیا میں جو دس ممالک کپاس کی پیداوار میں اس وقت سرِ فہرست ہیں ان میں چین، بھارت اور امریکہ کے بعد چوتھا نمبر پاکستان کا ہے۔ ( بعد ازاں برازیل، ازبکستان، آسٹریلیا، ترکی، ترکمانستان اور یونان ہیں۔ یہ درجہ بندی سال بہ سال بدلتی رہتی ہے )۔
چین اور بھارت کپاس کی نصف عالمی پیداوار فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں گذشتہ برس کی فصل خاصی بہتر رہی اور 14.6 ملین گانٹھیں حاصل ہوئیں ( ایک گانٹھ میں 340 پونڈ کپاس ہوتی ہے )۔
اس سال کی فصل کا ٹارگٹ 15 ملین گانٹھوں کا تھا۔ مگر بے وقت بارشوں اور کہرے سمیت متعدد قدرتی و غیر قدرتی وجوہات کے سبب کاٹن اسیسمنٹ کمیٹی کو تین بار پیداواری ہدف پر نظرِ ثانی کرنا پڑ گئی اور اب اندازہ ہے کہ بہت ہی تیر مارا تو 9.6 ملین گانٹھیں حاصل ہو جائیں گی ۔ یعنی گذشتہ فصل سے بھی پانچ ملین کم ۔ سنہ 1998 کے بعد پاکستانی کپاس کی پیداوار میں یہ سب سے بڑی کمی بتائی جا رہی ہے۔

مگر بات صرف کپاس کی پیداوار میں 33 تا 35 فیصد کمی کی نہیں۔ پاکستان کو اپنی ٹیکسٹائل صنعت کی مانگ پورا کرنے کے لیے چار ملین گانٹھیں درآمد کرنا ہوں گی۔ اگر پانچ ملین کی پیداواری کمی اور چار ملین کی اضافی درآمد کو جوڑا جائے تو اس نو ملین گانٹھ خسارے کی 65 تا 67 سینٹ فی پونڈ کے حساب سے قیمت لگ بھگ دو بلین ڈالر بیٹھتی ہے۔

اس بار پاکستان نے قومی پیداوار میں اضافے کا ہدف پانچ فیصد سالانہ مقرر کیا ہے۔ مگر کپاس کی پیداوار میں ایک تہائی سے زیادہ کمی اور اس کمی کے لوڈ شیڈنگ سے جوجنے والی ٹیکسٹائیل انڈسٹری پر مزید منفی اثرات کے سبب کیا پانچ فیصد گروتھ کا ٹارگٹ حاصل ہو پائے گا؟

صرف ایک امید ہے کہ جادوگر اسحاق ڈار اعداد و شمار کو ڈبے میں ڈال کر زور زور سے ہلانے کے بعد شماریاتی خرگوش نکالیں اور معیشت کپاس کے سنگین پیداواری بحران کے باوجود پہلے سے زیادہ بولڈ اینڈ بیوٹی فل نظر آئے۔

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


پاک بھارت میچ کے لیے ریکارڈ رجسٹریشن

آصف زرداری نے کوئی سبق نہیں سیکھا

$
0
0

سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نے پہلے بھی لوگوں کو اپنے بدلتے بیانات کے ذریعے حیرت زدہ کیا ہے۔ حالیہ وقتوں میں زرداری صاحب نے قومی سیاست، اداروں کے مابین تعلقات اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر ایسے بیانات دیے ہیں جنہوں نے ان کی اپنی جماعت کو بھی ورطہء حیرت میں ڈال دیا ہے۔

مگر شاید کبھی بھی انہوں نے ملک اور اپنی جماعت کو اس قدر حیرت میں نہیں ڈالا جتنا کہ منگل کے روز دیے گئے ان کے تازہ ترین بیان نے۔
دو روز قبل میڈیا اور سیاسی قائدین نے کئی گھنٹوں تک زرداری صاحب کے اس بیان کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی جس میں بظاہر انہوں نے جنرل راحیل شریف سے نومبر میں ریٹائر ہونے کے فیصلے پر نظرِثانی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
یہ ایک پریشان کن بیان تھا جو کہ ان کے اپنے ایک ماہ پہلے کے بیان سے متصادم تھا۔ سابق صدر آخر کیا سوچ رہے تھے؟

مگر یہاں پر ایک بات ضرور واضح ہے کہ جب ان کے قائد خودساختہ جلاوطنی کے دوران بیرونِ ملک سے بیٹھ کر پارٹی معاملات چلانے کی کوشش کر رہے ہیں، تو ان کی جماعت میں ہم آہنگی موجود نہیں ہے۔
اور نہ ہی بظاہر زرداری صاحب اپنے ایک بیان پر قائم رہنے کے قابل نظر آتے ہیں خاص طور پر اس وقت جب ان کے ذاتی ترجمان فرحت اللہ بابر ان کے الفاظ اور بیانات پر نظرِثانی کے لیے قریب موجود نہیں ہوتے۔
قومی سیاست اور خود پیپلز پارٹی کے لیے بھی افسوسناک بات یہ ہے کہ جو جماعت صرف تین سال قبل مرکز میں حکومت میں تھی، اور اب بھی سندھ میں حاکم ہے، اپنا تماشہ بنا چکی ہے۔

اب جبکہ زرداری صاحب نے منگل کے روز دیے گئے اپنے بیان کے سب سے اہم نکتے سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے اور ان کی جماعت کے ترجمان نقصان کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں، تو اس وقت ہمیں جنرل راحیل شریف کی مدتِ ملازمت میں ممکنہ توسیع کے بارے میں زرداری صاحب کے خیالات کے نتائج پر بھی غور کرنا چاہیے۔

شاید سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ زرداری صاحب خود اس بات سے لاعلم ہیں کہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع پر اگر آج ملک میں بحث جاری ہے، تو اس میں ان کا کتنا کردار ہے۔

پانچ سال قبل زرداری صاحب نے ریٹائرمنٹ تک پہنچ چکے اور طاقت کے خواہشمند جنرل اشفاق پرویز کیانی کی بات پست ہمتی سے تسلیم نہ کی ہوتی، تو آج سویلین دورِ حکومت میں ایک آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا تصور بھی ممکن نہیں ہوتا۔

ہوسکتا ہے کہ اس وقت زرداری صاحب نے حساب لگایا ہو کہ کیانی صاحب کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے پی پی کا اپنا مدتِ اقتدار مکمل کرنا یقینی ہو سکے گا، جو کہ ملک کے بار بار مداخلت سہنے والے جمہوری نظام میں بلاشبہ ایک بے مثال کامیابی ہے۔

مگر پھر بھی توسیع کے چند ماہ بعد ہی میموگیٹ اسکینڈل نے پی پی کو ہلا کر رکھ دیا، اور جلد ہی یہ واضح ہوگیا کہ ہدف زرداری صاحب اور ان کے خود منتخب کردہ سفیر حسین حقانی کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔

پریشان کن بات ہے کہ بظاہر آصف زرداری صاحب نے توسیع اور اس سے جنم لینے والے اداراتی مسائل پر اپنے تجربے سے کچھ نہیں سیکھا ہے۔
کیا زرداری صاحب بدلے میں سندھ میں اپنی حکومت کے لیے امان کی امید کر رہے تھے؟ یا پھر وہ وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان تعلقات میں دراڑ ڈالنا چاہ رہے تھے؟ اور اگر ایسا ہے، تو کیوں؟
آصف علی زرداری کے اقدامات واقعی پراسرار بن چکے ہیں۔

بشکریہ ڈان نیوز اردو

کرکٹ کا گرگٹ...وسعت اللہ خان

$
0
0

کرکٹ اور وہ بھی انڈیا اور پاکستان کے مابین میچ ایسا آئینہ ہے جس میں ہم سب ایک دوسرے کو صاف صاف دیکھ سکتے ہیں۔ کل سے اب تک میں نے سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں کی پٹیاں اور تبصرے کھنگال کر آپ کے لیے یہ کچھ نکالا ہے ۔( تاکہ میں خود تبصرہ کرنے سے بچ جاؤں )۔

میچ شروع ہونے سے پہلے
( کمپیوٹر اور ٹی وی سکرین شانت مگر پرجوش ہے۔)
 پیاری لڑکیو اگر تم میں سے کسی کا بوائے فرینڈ آج بھی شام سات سے 11 بجے کے درمیان ملنے کا وعدہ کرلے تو پلیز اس بے وقوف سے آنکھ بند کر کے شادی کرلینا۔ 
 ہلو بوائز ! آج میچ کے درمیان تمہاری گرل فرینڈ تم سے بات کرنے کی ضد کرے تو وہ اس قابل نہیں کہ تم اس کے ساتھ زندگی تو کیا ایک لمحہ بھی گذار پاؤ۔ 
 
 پیارے پاکستانیو ! موبائل فون آف کردو ، ٹی وی ریموٹ غائب کردو ، دعائیہ سوئچ آن کرلو اور بیلٹ کس لو۔ تھوڑی دیر بعد زندگی اور موت کا رن پڑنے والا ہے۔ 
 آج پاکستانی بولنگ کی میزائیل بیٹری بھارتی بلے بازوں کی سیسہ پلائی دیوار پاش پاش کردے گی۔ 
 پاک شاہین بھارتی سورماؤں پر جھپٹنے کے لیے بے چین۔ 
 اے ایشیا کپ تیار رہنا ہم آ رہے ہیں۔ 
 بوم بوم آفریدی ریٹائرمنٹ سے پہلے قوم کو شاندار الوداعی تحفہ دینے کے لیے تیار۔ 

میچ کے فوراً بعد
( اسکرین کا رنگ پیلا ، پھر لال اور پھر نیلا ہوتا گیا )
 
 شاہد آفریدی وہ بندوق ہے جو ڈاکو دیکھ کے ٹھس ہو جاتی ہے البتہ صفائی کرتے وقت ضرور چل جاتی ہے۔ 
 حافظ سعید کوچ اور اظہر مسعود مینجر ہوتے تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔بھارت کا ایک علاج الجہاد الجہاد ۔۔۔۔ 
  کیا نواز شریف کرکٹ ٹیم کو نیب سمجھ کر اس کے پیچھے نہیں پڑ سکتے؟ 
 اگر خواتین انکلوژر بیٹسمین کے عین پیچھے اور بولر کے عین سامنے ہو تو رنز بنانےمیں کوئی دقت نہیں ہوگی اور بولنگ بھی کراری ہوتی چلی جائے گی۔ 
 ٹیم خود چنتے ہو مگر جیت کے لیے آسمان کی طرف دیکھتے ہو۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟ خدا کو بیچ میں لاؤ نہ تم خدا کے لیے۔ 
 اگر 11 مجاہدین کو صرف 83 رنز ہی بنانے ہیں تو پھر میں پاکستانی ٹیم سے باہر کیوں بیٹھا ہوں؟ 
 اگلے میچ میں یہ بات ضرور نوٹ کیجیے گا کہ بولر گیند اتنی زیادہ رگڑ لیتے ہیں کہ پانچواں اوور آتے آتے سلائی ادھڑنے سے سوئنگ ختم ہوجاتی ہے۔ 
 ڈھاکہ کے میدان میں45 سال بعد بھارت کے ہاتھوں پاکستان کی دوسری عظیم فتح۔ 
 
 جس دن پاکستانیوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا چھوڑ دی اس دن وہ عظیم قوم بن جائیں گے۔ اگر کرکٹ واقعی کوئی ڈھنگ کا گیم ہوتا تو امریکہ ، روس ، چین ، جاپان اور فرانس اس میں آگے آگے ہوتے۔ جو گیم انگریز کو زوال سے نہ بچا سکا وہ ہمیں کیا دے دے گا۔ 
 یہ قوم نماز ایسے پڑھتی ہے جیسے پہلی بار پڑھ رہی ہو اور کرکٹ میچ ایسے دیکھتی ہے جیسے آخری بار دیکھ رہی ہو۔ 
 لگتا ہے یہ پاکستان نہیں کرکٹستان ہے جس میں بسنے والے شائقین گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔ 
 آج عالمِ کرکٹ کو ایک حجاج بن یوسف، محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی اور محمود غزنوی کی ضرورت ہے۔ 
 کیا راحیل شریف اب بھی ریٹائرمنٹ کے فیصلے پر نظرِ ثانی نہیں کریں گے؟ 

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


Viewing all 4315 articles
Browse latest View live