Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

قومی کرکٹ ٹیم کی پرائیویٹائزیشن کا فیصلہ

$
0
0

باخبر ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ موجودہ حکومت نے جس کے پاس ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے قومی کرکٹ ٹیم کو نجی ملکیت میں دینے کا فیصلہ کیا ہے اور بعض لوگ تو یہ تک کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے یہ فیصلہ اس کمیٹی کے مشورے پر کیا ہے جو قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں بہتری لانے کی غرض سے سفارشات پیش کرنے کے لیے تشکیل دی گئی تھی اور جس میں جھوٹی سچی اطلاعات کے مطابق محمد برادران کے علاوہ سلیم ملک، انضمام الحق، میانداد، وسیم اکرم، مصباح الحق اور یونس خان شامل تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جب سے پاکستانی ٹیم ایشیا کپ میں بنگلہ دیش سے ہاری ہے خود کرکٹرز تو اپنی جگہ رہے کرکٹ کی انتظامیہ اور حکومت کو جب کہ اس کا ذرا سا بھی قصور نہیں ہے خاصی صلواتیں سننی پڑ رہی ہیں حالانکہ اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ پاکستانی کرکٹرز کی کارکردگی زوال کا شکار ہوئی ہے اور وہ اس مرض کا شکار ہوئے ہیں کہ وہ ذرا سا پریشر برداشت نہیں کر پاتے اور ہاتھ پاؤں ڈال دیتے ہیں بلکہ اس کا سبب یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم نے اپنی کارکردگی کو زمین سے آسمان پر پہنچا دیا ہے۔
اب یہ بنگلہ دیش کی ٹیم وہ نہیں رہی جسے ٹیسٹ اسٹیٹس دلانے کے لیے پاکستانی ٹیم کو اس سے جان بوجھ کر ہارنا پڑا تھا اور لندن میں بنگلہ دیش پر پیسے لگا کر پاکستانی کرکٹرز نے کچھ رقم بھی کما لی تھی۔ یہ اب قومی جذبے سے سرشار ٹیم ہے جو اپنے پاڑے میں اور شیر ہو جاتی ہے بلاشبہ اس نے پاکستان سے ہی سیکھ کر اپنی بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ کو خاصا بہتر بنایا ہے حالانکہ یہ وہی علاقہ ہے جو کرکٹ کے معاملے میں اتنا بنجر ہوتا تھا کہ مشترکہ پاکستان میں اس کا کوئی ایک کھلاڑی بھی ٹیم میں نہیں آ پاتا تھا۔

شکست کے حوالے سے ایک کرکٹر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم کافی عرصے سے ہار رہے ہیں پتہ نہیں قوم کیوں اچانک جاگ گئی ہے اور اس نے ہماری شکست کو دل پر لے لیا ہے ہم تو زبردست اسپورٹس مین اسپرٹ کے ساتھ کھیلتے ہیں اور ہمارا نعرہ اکثر یہی ہوتا ہے کہ گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں۔ اگر ہمارا سب سے تجربہ کار بولر ہی سب سے کروشل اوور کی سب سے اہم گیند نو بال کر دے تو پھر وہی نتیجہ نکلے گا جو بنگلہ دیش کے خلاف نکلا۔
کھلاڑیوں میں ایسا لگتا ہے جیسے کوآرڈینیشن اور کمیونیکیشن کا فقدان تھا جیسا کہ ایک بیٹس مین نے کہا کہ ہمیں بتایا ہی نہیں گیا تھا کہ یہ میچ ہمیں جیتنا ہے۔ یہ اہم بات ہم سے آخر تک چھپائی گئی اور ہم ہارنے کے لیے کھیلتے رہے۔
بہرحال بہت سے لوگوں نے قومی کرکٹ ٹیم کی نجکاری کا خیرمقدم کیا ہے اور اسے صحیح سمت میں ایک اچھا قدم قرار دیا ہے تاہم قومی کرکٹرز میں جیسا کہ توقع تھی خوف اور تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور وہ اپنے غیر یقینی مستقبل کے بارے میں خاصے خدشات میں مبتلا ہو گئے ہیں۔

حکومت کے ایک ترجمان نے قومی کرکٹرز کو یقین دلایا ہے کہ وہ ٹیم کی نجکاری کے بعد بھی اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ کرکٹرز کی ملازمتیں محفوظ رہیں اور بغیر کسی معقول وجہ کے چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے کیونکہ زیادہ تر بیٹسمین یہ چاہتے ہیں کہ وہ جس پوزیشن پر اب کھیل رہے ہیں اسی پر کھیلتے رہیں اور انھیں بلاوجہ ’’ون ڈاؤن‘‘ نہ بھیج دیا جائے۔

نجکاری کی خبر کے ساتھ ساتھ یہ تشویشناک خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ بعض سینئر کھلاڑیوں کو جن میں مصباح الحق، شاہد آفریدی، شعیب ملک اور محمد سمیع شامل ہیں، گولڈن ہینڈ شیک دے کر رخصت کر دیا جائے گا۔ جیسا کہ حکومت کے ایک ترجمان نے یقین دلایا کہ نجکاری کے بعد بھی قومی کرکٹرز کی حیثیت پہلے جیسی برقرار رہے گی صرف اتنی تبدیلی آئے گی کہ وہ حکومت کی طرف سے سرکاری خرچے پر نہیں بلکہ اپنے اپنے اداروں سے چھٹیاں لے کر (یو اے ای) کی ٹیم کی طرح غیر ملکی دورے پر جایا کریں گے اور وہ جتنے رنز بنائیں گے اور جتنی وکٹیں لیں گے اسی شرح سے انھیں پے منٹ ہوا کرے گی۔

فی الحال ایک رن کی قیمت ایک ہزار اور ایک وکٹ کی قیمت ایک لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے جس میں مخالف ٹیم کی طاقت کو دیکھتے ہوئے کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ کرکٹرز کے ساتھ سانپ اور سیڑھی کا کھیل بھی کھیلا جا سکتا ہے ایک کیچ چھوڑنے پر وہ ساری رقم واپس ہو سکتی ہے جو رن بنانے یا وکٹ لینے پر انھوں نے کمائی ہو گی۔ قومی کرکٹرز کو سب سے زیادہ اعتراض نجکاری کے بعد لاگو ہونے والی اس شرط پر ہے کہ انھیں اسی صورت میں پے منٹ کی جائے گی جب وہ کوئی میچ جیت لیں گے ورنہ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے کے مصداق ہارنے پر ان سے اگلی پچھلی ساری رقم وصول کر لی جائے گی۔

ہاں زیادہ رنز بنانے اور وکٹیں لینے پر جن کرکٹرز کے حصے میں زیادہ رقم آئے وہ اپنی خوشی سے اس رقم کا کچھ حصہ ان کرکٹرز میں تقسیم کر سکتے ہیں جو صفر پر آؤٹ ہوں گے یا کوئی وکٹ نہیں لے سکیں گے۔ یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ کرکٹرز کو دیے جانے والے معاوضے کا انحصار میچ کے نتیجے پر ہو گا اگر کرکٹ ٹیم کوئی میچ جیتے گی تو رنز اور وکٹوں کی قیمت اسی حساب سے تقریباً دس گنا بڑھ جائے گی اور شکست فاش کی صورت میں کرکٹرز کو الٹا کچھ رقم کرکٹ انتظامیہ کو ادا کرنا پڑے گی۔

حکومت کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم کی نجکاری کا فیصلہ وسیع تر قومی مفاد میں اس کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد قومی ٹیم کی وجہ سے سرکاری خزانے پر پڑنے والے مالی بوجھ کو کم بلکہ ختم کرنا اور اس بدنامی کا تدارک کرنا ہے جو قومی ٹیم کے ہارنے کی وجہ سے حکومت وقت کو اٹھانی پڑتی ہے۔ اس سے قومی ٹیم بھی سرکاری پابندیوں سے آزاد ہو جائے گی اور سلیکشن سمیت تمام فیصلے آزادانہ طور پر کر سکے گی اور اس دباؤ سے نکلنے کے بعد قومی کرکٹ ٹیم کی پرفارمنس بہتر ہو جائے گی۔

تاہم قومی کرکٹ ٹیم کے ایک ترجمان نے حکومت کے اس دعوے کو جھٹلایا ہے کہ ٹیم کسی طور پر بھی قومی خزانے پر کوئی بوجھ بنی ہوئی تھی بلکہ ان کے بقول قومی ٹیم مسلسل ہارنے کے باوجود سرکار کو اچھی خاصی رقم کما کر دیتی تھی۔ ترجمان نے اس خوف سے اپنا نام نہیں بتایا کہ وہ ٹیم سے باہر ہو جائیں گے۔ تاہم ایک بار پھر یہ الزام دہرایا کہ حکومت آئی ایم ایف کے دباؤ میں ملک کے تمام منافع بخش ادارے اونے پونے داموں اپنے من پسند افراد کو فروخت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔

جس میں قومی کرکٹ ٹیم بھی شامل ہو گئی ہے۔ انھوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ پرائیویٹ ہوتے ہی قومی کرکٹ ٹیم میں چھانٹی شروع ہو جائے گی اور بہت سے ایسے محب وطن کرکٹرز کو فارغ کر دیا جائے گا جن کا صرف اتنا سا قصور ہے کہ وہ وطن سے سچی محبت کرنے والے آل راؤنڈرز ہیں نہ رن بناتے ہیں، نہ وکٹ لیتے ہیں، کیچ چھوڑ دیتے ہیں مگر ان کی حب الوطنی میں ذرا سا بھی شک نہیں کیا جا سکتا۔

کرکٹرز کے ترجمان نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر حکومت نے قومی کرکٹ ٹیم کی نجکاری کا فیصلہ واپس نہیں لیا تو وہ اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کریں گے اور کم از کم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ تک اسٹے آرڈر لے لیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہمارے قومی کرکٹرز نے اپنے چاہنے والوں کو لطف اور تفریح کے انگنت لمحات فراہم کیے ہیں ان کا ہر میچ ایک اچھی جذبات سے بھرپور اردو فلم کی مانند ہوتا ہے جس میں ہیرو بھی ہوتے ہیں اور ولن بھی۔ کریکٹر، ایکٹرز بھی۔ اور جو ہر عمر اور ہر وزن کے حامل کرداروں سے آراستہ ہوتی ہے اس میں خوشی کے مناظر بھی ہوتے ہیں اور غم کے بھی۔ یہ فلم ہنساتی بھی ہے اور رُلاتی بھی ہے۔ اس کا سنسنی خیز آغاز بھی ہوتا ہے کلائیمیکس بھی سسپنس بھی اور بالکل غیر متوقع اختتام بھی۔

ہمارے کرکٹ کے شائقین کو تو اپنی اس ٹیم کا شکرگزار ہونا چاہیے جو ورلڈ رینکنگ میں خواہ کتنے ہی نیچے چلی گئی ہو لطف اور تفریح کے انٹرٹینمنٹ سے بھرپور یادگار لمحات فراہم کرنے میں ابھی تک ٹاپ پر ہے اور اس کے بیشتر کھلاڑی اپنی اسی باکس آفس ویلیو کی وجہ سے سروائیو کر رہے ہیں۔

ساجد علی ساجد


واٹس ایپ نے پانچ نئے فیچرزمتعارف کرا دیئے

$
0
0

اپنی سروس کو جدت دینے اور صارفین کو مزید سہولت دینے کے لیے واٹس ایپ کئی نئے فیچرز متعارف کرا چکا ہے اور وقت کے ساتھ ان میں مزید جدت لارہا ہے اور اسی کوشش میں اب 5 نئے فیچرز متعارف کرائے جا رہے ہیں جو صارفین کو اپنے پیاروں سے رابطوں کو اور بھی قربت دے دیں گے۔

تصاویرکی شیئرنگ 
اس نئے فیچر میں صارف دوسری ایپس سے تصاویر کو واٹس ایپ کے ذریعے اپنے دوستوں تک شیئر کر سکتا ہے جب کہ ان تصاویر کو گوگل ڈرائیو، ڈراپ بکس، مائیکروسوفٹ ون ڈرائیو سے شیئر کیا جا سکتا ہے جس کے لیے صارف کو فوٹویا ویڈیو لائیبریری آپشن کو واٹس ایپ میں کھول کر دوسری ایپ کا انتخاب کرکے تصویر شیئر کرلیں۔

دستاویزات کو بھیجنا اور وصول کرنا
  اس نئے فیچر کی مدد سے اب آپ اپنے دوستوں تک اپنی دستاویزات بھیج سکیں گے اور اس کے لیے کسی ای میل کی بھی ضرورت نہیں رہے گی یعنی آپ پی ڈی ایف فائلز کو تیزی اور سادگی سے بات چیت کے دوران ہی بھیج سکتے ہیں۔ صارف اب پی ڈی ایف کو اپنی ایپس کے علاوہ آئی کلاؤڈ، گوگل ڈرائیو اور مائیکروسوفٹ ون ڈارئیو سے بھی بھیج سکیں گے۔
فکسڈ اسٹوریج ایشوز
 واٹس ایپ کے صارفین کے اکثر ایپس ان کے اسمارٹ فونز کی میموری کی بہت ساری جگہ لے لیتے ہیں لیکن اب کمپنی نے اس کا حل نکال لیا ہے اور ایپس کے لیے مطلوبہ اسپیس کو محدود کردیا ہے۔

ویڈیوز
  اس نئے فیچر میں صارف نہ صرف تصاویر بلکہ ویڈیو کو بھی زوم کر سکے گا اور اس کے لیے کوئی پیچیدہ طریقہ کار نہیں بلکہ صرف دو انگلیوں کی مدد سے اس فیچر سے فائدہ اٹھایا جا سکے گا۔

بلاک بیک گراؤنڈ
  اس نئی اپ ڈیٹس سے صارف ایک ہی بلاک بلیک گراؤنڈ سے چھٹکار پا سکے گا اور اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق رنگ کا انتخاب کر سکے گا۔

سہواگ نے جو کہا، کیا غلط کہا؟

$
0
0

گزرے ہوئے زمانے کی بات ہے کہ شاعر نے آسمان کو مخاطب کرکے کہا تھا، بدلتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے، شاعر اگر آج اِسی شعر کو لکھتا تو کچھ یوں ہونا تھا کہ 

بدلتے ہیں پاکستانی رنگ کیسے کیسے
کبھی بارڈر کے اِس پار کبھی بارڈر کے اْس پار

جی بالکل یہ صورتحال کسی ایک مخصوص شخص یا جماعت کی نہیں بلکہ رویہ بدلنے کا ایک ایسا مشترکہ عمل ہے جو متعدد دفعہ بارڈر کے اُس پار سے اِس پار نظر آجاتا ہے۔ ایسے ہی چند کردار ہماری کرکٹ ٹیم کے سابق سپر اسٹار بھی کہلاتے ہیں جن کے بارے میں بھارتی ٹیم کے جارحانہ بلے باز ویرندرا سہواگ نے ایک سچ اگلا ہے۔
یوں تو اِس بات سے انکار نہیں کہ سچ کڑوا ہوتا ہے لیکن اگر یہ دشمن کے منہ سے نکلے تو اس کڑواہٹ میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اب جبکہ یہ معاملہ میڈیا کی زینت بن ہی گیا ہے تو کیوں نہ اس کو جانچ لیا جائے کہ یہ اصل میں ہے کیا؟
تو جناب قصّہ شروع ہوتا ہے کرکٹ سے اور ختم ہوتا ہے کرکٹرز پر، بھارتی کھلاڑی وریندر سہواگ کے مطابق سابق پاکستانی کھلاڑی اس لئے بھارتی ٹیم کی تعریفوں کے پُل باندھتے ہیں کیونکہ اِنکو بھارت میں بزنس، پیسہ یا پھر ٹی وی پر جگہ چاہیئے ہوتی ہے اور اس معاملے میں جس کھلاڑی کا نام لیا ہے وہ کوئی اور نہیں ’’راولپنڈی ایکسپریس‘‘ کے ٹائٹل سے مشہور سابق فاسٹ باؤلر شعیب اختر ہیں، لیکن مزے کی بات یہ کہ وہ شعیب اختر پر نہیں رکے بلکہ وہ تو یہاں تک کہہ گئے کہ جن کو موقع نہیں ملا وہ بھی بھارت آنے کے لیے بے تاب ہورہے ہیں جن میں سرِفہرست محمد یوسف، ثقلین مشتاق اور رانا نوید الحسن ہیں۔ مزید یہ کہ اُن کی زبان اب بھی چل رہی تھی اور وہ یہاں تک کہہ گئے کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو اگر بھارت میں ایک لاکھ روپے بھی ملیں تو یہ رقم اُن کے ملک میں دو لاکھ بن جاتی ہے، اور اِس سے بڑھ کر کسی بھی کھلاڑی کو کیا چاہیے۔

اگر آپ کے اندر تھوڑی بہت بھی حب الوطنی ہے تو آپ کا دل کررہا ہوگا کہ سہواگ کا منہ توڑ دیا جائے، لیکن میرا پُرخلوص مشورہ ہے کہ ایسا کرنے سے پہلے ذرا اپنے کھلاڑیوں کی حرکتوں کا جائزہ لے لیجیے جو وہ بھارت میں بیٹھ کر کررہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی سرحدی حدود کی قید سے آزاد دنیا میں چیزیں، بیانات اور اسکینڈل چُھپے نہیں رہتے۔ منظرِعام پر آنے والی چیزوں میں بھارتی میڈیا کے درجنوں پروگرامز ایسے ہیں جن میں شعیب اختر وہاں کے اینکرز اور فنکاروں کے ساتھ مل کر پاکستانی کھلاڑیوں کا مذاق اڑاتے اور بےعزتی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

جی ہاں، وہی شعیب اختر جن کاغصّہ اور پارہ بھارت کے خلاف دیکھنے والا ہوتا تھا، اور سچن جیسے کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنا اور بھارت میں جا کر پاکستان کا نام روشن کرنا جن کا مقصد ہوتا تھا، وہی کھلاڑی آج سرحد پار بیٹھ کر ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ سننے والے کو یقین نہیں آتا۔
ایک پروگرام میں موصوف یہ کہتے پائے گئے کہ پاکستان کا ہرکپتان ’’پینڈو‘‘ ہوتا ہے اور اسے سمجھ نہیں ہوتی کہ کس طرح ٹیم کو ہینڈل کرنا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے اُس وقت کے سرپراہ اعجاز بٹ کے سربراہ کی ہرزہ سرائی کی گئی اور کپتان کی عمر کو لے کر جس انداز میں مذاق اڑایا گیا وہ سرحد کے اِس پار نا قابلِ برداشت تھا، مگر چند ایک میڈیا رپورٹس کے سوا اس پر کوئی ردِ عمل نہ ہوا۔
معاملہ صرف شعیب اختر تک محدود نہیں بلکہ ماضی میں دوسرے سینئر کھلاڑی بھی اسی طرح کے بیانات دیتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ کمال ہے کہ اپنے ملک میں درجنوں نیوز چینلز کے ہوتے ہوئے بھی ان کو اپنی ٹیم کی کوتاہیاں اور غلطیاں سرحد کے اس پار سے واضح نظر آتی ہیں۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں دور بیٹھ کر اپنوں پر تنقید کرنی آتی ہے اور اس سے بھی اچھا کام جو ہم کرسکتے ہیں وہ یہ کہ اپنے گندے کپڑے دوسروں کے گھر جا کر دھونے میں بہت مزہ آتا ہے۔ وہی شعیب اختر جو اپنے پورے کیریئر میں محض 46 ٹیسٹ میچ کھیل سکے اور ہر وقت کسی نہ کسی وجہ سے بورڈ سے حالتِ جنگ میں رہے، آج ٹیم کو ڈسپلن کے لمبے لمبے لیکچر دیتے نہیں تھکتے۔

بھارت نے پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ انڈین پریمئر لیگ (آئی پی ایل) میں جو سلوک روا رکھا اس کے باوجود ہم نے اپنے سابقہ کھلاڑیوں کو بھارت جانے سے روکا نہ وہاں کی ٹیموں کے ساتھ کام کرنے سے۔ یہ درست ہے کہ کھلاڑی کو ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی گزارنے کے لئے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے اور رزقِ حلال کمانا ہر شخص کا بنیادی حق بھی ہے۔

 مگر جب اِس کے عوض آپ اپنے وطن اور ہم وطنوں سے متعلق ہرزہ سرائی شروع کردیں تو پھر اُن کو تکلیف ہوتی ہے جن کے لئے یہ ملک سب کچھ ہے اور جس کے نام پر وہ بھارت کو ٹکر دیتے ہیں۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ نہیں ہورہی اور پھر یہاں جو ایک آدھ اسپورٹس چینل ہیں وہ ان کھلاڑیوں کی مانگ پوری نہیں کرسکتے، لیکن ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اگر بھارت جسے پاکستان کی اکثریت اپنا دشمن سمجھتی ہے وہ کبھی بھی ایک حب الوطن پاکستانی کو اپنے یہاں نوکری نہیں دے سکتا۔ اگر وہاں کوئی پاکستانی ٹی وی پر بیٹھ کر تجزیے کررہا ہے تو یقیناً یہ اتنا سادہ معاملہ نہیں ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ بھارت اور اُن کھلاڑی کے درمیان کوئی معاہدہ ہوا ہو کہ وہ بھارتی سرزمین پر قدم رکھتے ہی یہ بھول جائے کہ اُن کا تعلق پاکستان سے ہے۔ پھر ایسی صورت میں اگر پاکستان کے خلاف بات بھی کرنی پڑے تو کرنی ہوگی، بلکہ ایسی صورت میں ترقی کے امکان بھی شاید زیادہ ہوں۔

ہمارے ان نام نہاد بھلا چاہنے والوں کا حال یہ ہے کہ آج تک مڑ کر کبھی ٹیم کا حال نہیں پوچھا، کبھی اپنی خدمات تک پیش نہیں کیں بس کیا ہے تو اِتنا کہ سرحد پار بیٹھ کر تنقید برائے تنقید کے تیر چلائے ہیں۔ لہذا ایسے تمام کھلاڑیوں سے گزارش ہے جو ریٹائرمنٹ کے بعد آدھے ہندوستانی بن گئے ہیں کہ براہِ کرم اگر کچھ عزت اور تکریم باقی ہے تو براہ کرم واپس پاکستان آجائیے، اگرچہ یہ پیسہ کم ہے، لیکن یقین کریں بہت عزت والا ہے۔

میاں ذیشان عارف

مغوی چپ کیوں سادھ لیتا ہے

$
0
0

کچلاک کوئٹہ سے کوئی پچیس کلومیٹر دور ایک ایسا سنگھم ہے‘ جہاں سے ایک
سڑک سیدھی پشین اور چمن کے راستے افغانستان چلی جاتی ہے جب کہ دوسری سڑک زیارت اور لورالائی کے راستے ڈیرہ غازی خان کے پہاڑی مقام فورٹ منرو پر پنجاب میں داخل ہوتی ہے۔ یہی سڑک زیارت کے پہاڑی سلسلے سے ذرا پہلے مسلم باغ اور ژوب کی طرف مڑتی ہے جو خیبرپختونخوا میں ڈیرہ اسماعیل خان کے ضلع میں داخل ہوتی ہے۔ اسی لیے کچلاک میں ہوٹلوں‘ چائے خانوں اور دیگر سفری ضروریات کی چیزوں کی بہت سی دکانیں اور ریڑھیاں ہروقت موجود رہتی ہیں۔ یہاں کے ہوٹل تو دن رات کھلے ہوتے ہیں۔

80 کی دہائی میں جب بلوچستان پر امن و امان کا راج تھا تو ہم لوگ رات گئے جب
کوئٹہ شہر سناٹے میں ڈوب چکا ہوتا ‘ کچلاک میں چینک چائے پینے جایا کرتے تھے۔ پورے بلوچستان میں کچلاک کے ہوٹلوں کا ’’روش‘‘ مشہور ہے۔ یہ ایک طرح کا نمکین گوشت ہوتا ہے جسے صرف نمک میں پکایا جاتا ہے۔ یہ وہی ’’روش‘‘ ہے جسے سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر نے کھا کر ساڑھے تین سو روپے بل ادا کیا اور ہوٹل والے سے لاہور فون کرنے کے لیے موبائل مانگا جو اسے نہیں دیا گیا۔

وہ وہاں سے ہوٹل کے باہر چلا گیا۔ جہاں سیکیورٹی اداروں کے افراد نے اسے اٹھا لیا اور پھر  پورے ملک کے ٹیلی ویژن چینلز پر بریکنگ نیوز چلنے لگی۔ اس کی برآمدگی کے دعوے شروع ہو گئے۔ کچلاک سے برآمدگی ایک انتہائی حیران کن خبر تھی۔ اس لیے کہ کچلاک دراصل ایک چھوٹا سا بازار ہے جس میں کسی بھی قسم کی مجرمانہ سرگرمی یا کسی قسم کا خفیہ ٹھکانہ بنایا ہی نہیں جا سکتا۔ اس کے ارد گرد مختلف گاؤں ہیں لیکن وہاں بھی رہنے والے ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے اور ایک ہی قوم قبیلے کے افراد ہوتے ہیں۔ برآمدگی کا سہرا سر پر سجانے کی اس کارروائی نے مجھے اپنی نوکری کے بالکل آغاز کا ایک واقعہ یاد کروا دیا۔ اس کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا۔
وہ زمانہ تھا جب روس افغانستان میں موجود تھا اور افغان مہاجرین پاکستان میں۔ بلوچستان کے ساتھ لگنے والے بارڈر جس میں غزنی اور قندھار وغیرہ شامل ہیں ان پر نجیب اللہ کی جانب سے عصمت اللہ مسلم اچکزئی بارڈر ملیشیا کا جرنیل مقرر تھا۔ چمن کی سرحد کے اس پار اس نے اپنا ہیڈ کوارٹر بنا رکھا تھا جسے وہ ’’قرار گاہ‘‘ کہتا تھا۔ وہاں کئی کنٹینر رکھے ہوئے تھے۔

عصمت اللہ کے لوگ چمن‘ پشین اور گردونواح سے لوگوں کو تاوان کے لیے اغوا کرتے اور انھیں وہاں کنٹینروں میں بند کر کے رکھا جاتا۔ چونکہ نجیب اللہ کے تعلقات بلوچستان کے پشتون قوم پرستوں کے ساتھ گہرے تھے‘ اس لیے لوگ‘ مصیبت کے مارے ان سے رابطہ کرتے اور پھر تاوان کی رقم ادا کر کے اپنے رشتے دار کو واپس لے آتے۔ کچلاک ان دنوں عصمت اللہ مسلم کے ایک دوست کے حوالے سے بہت مشہور ہوا جو مہترزئی قبیلے سے تھا۔ یہی زمانہ تھا جب پشتون علاقے کے علاوہ بلوچ علاقے میں آباد ہندوؤں کے بھی منظم اغوا برائے تاوان کا سلسلہ شروع ہوا۔

سب سے پہلے گردھاری لال بھاٹیہ کو اغوا کیا گیا اور اس زمانے میں نوے لاکھ روپے تاوان وصول کیا گیا۔ پھر آہستہ آہستہ پورے بلوچستان میں آباد اقلیتوں جن میں ہندو اور پارسی شامل تھے ان کے اغوا کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بلوچ علاقوں میں جتھے قبائل سرداروں کی سرپرستی میں کام کرتے اور وقت آنے پر قوم پرست سیاست کا علم اٹھا لیتے۔ پارسی کراچی ہجرت کر گئے اور ہندو بھارت کے شہر اندور میں جا کر آباد ہو گئے۔ انھی دنوں میری نوکری کا آغاز ہوا تھا اور میں چمن میں اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے تعینات تھا۔ 1988 کا اپریل‘ دو تاریخ۔ اچانک 
چمن کی سرحدی چوکی پر عصمت اللہ مسلم پاکستان میں داخل ہوا۔

اس زمانے میں بارڈر پر تین سیکیورٹی ایجنسیوں کی چوکیاں تھیں۔ لیویز‘ ایف آئی اے اور ایف سی۔ لیویز نے اسے پہچان لیا اور ایف آئی اے والوں نے اسے اپنی چوکی میں لا کر بٹھایا۔ ایف سی والوں نے اس کے بارے میں اپنے کمانڈنٹ سے رابطہ قائم کیا۔ کمانڈنٹ وہاں پہنچا اور اس نے حالات دیکھتے ہوئے کہا کہ اسے واپس سرحد کے پار بھیج دو۔ اس پر ایف آئی اے والوں نے کہا کہ ہم نے تو سارے ملک میں بتا دیا ہے کہ ہم نے اتنے بڑے اغوا کار کو پکڑ لیا ہے اور ساتھ ہی ہم نے غیر قانونی بارڈر کراس کرنے پر کیس بھی رجسٹرڈ کر لیا ہے۔ کمانڈنٹ کہنے لگا‘ اس کو چھوڑ دو ورنہ حالات خراب ہو جائیں گے۔

اب ایف آئی اے والوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، کہا گیا کیس رجسٹرڈ ہے‘ گرفتاری ڈالی جا چکی ہے۔ اب اسے صرف اسسٹنٹ کمشنر ہی ’’ڈی پورٹ‘‘ کر سکتا ہے۔ یوں مجھے خبر کی گئی۔ اس کے بعد کی کہانی بہت طویل ہے۔ عصمت اللہ مسلم کے ملیشیا کے لوگ آئے‘ انھوں نے پوسٹ کا گھیراؤ کیا اور اپنے جرنیل کو لے کر چلے گئے اور یوں ایف آئی اے کے اہل کاروں نے جو تمغہ اپنے سینے پر سجانا تھا وہ رہ گیا۔

اغوا برائے تاوان ایسا جرم ہے جس میں اکثریت ایسے افراد کی ہوتی ہے جو تاوان دے کر کسی نہ کسی طریقے سے گھر واپس لوٹتے ہیں ۔لیکن متعدد کیس ایسے ہوتے ہیں جن میں قانون نافذ کرنے والے اپنے سینوں پر برآمدگی کا تمغہ سجائے پھرتے ہیں۔ یہی کیفیت شہباز تاثیر کے معاملے کی ہے۔ معاملہ اس لیے الجھتا رہا ہے کہ پہلے دن ہی سے ہر کوئی مسئلے کو الجھاتا ہے۔ سچ ایک ایسی نایاب چیز ہے جو ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاں سے غائب ہوتی جا رہی ہے۔
اس کے بعد میڈیا ہر قسم کی خواہش کی خبر بنا کر بریکنگ نیوز چلا رہا ہوتا ہے۔ 

شام کو تبصرہ نگار بیٹھ کر عمیق تبصرے کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس میں کس کس کا ہاتھ ہے۔ پہلے دن سے سب کو علم تھا کہ شہباز تاثیر کو اغوا کرنے والے وہ ’’ایڈونچرز‘‘ قسم کے نوجوان تھے جنھیں لاہور کے راستوں سے زیادہ یہاں کے ماحول کا علم تھا۔ لیکن آپ اس زمانے کے تبصرے اور ٹی وی پروگرام نکال لیں‘ ہر کوئی ایک ہی طرف اشارہ کر رہا تھا اور وہ تھے طالبان۔ اس کے بعد طرح طرح کی چہ مگوئیاں شروع ہوئیں اور وہ بھی میڈیا پر‘ کوئی جائیداد کا شاخسانہ قرار دیتا‘ کوئی ممتاز قادری کے ساتھ تعلق جوڑتا‘ کسی کو طالبان کے گروہوں کے ہاتھ بار بار فروخت کی کہانی بنانا ہوتی۔ یہاں تک کہ اسے ڈرون حملے میں مار بھی دیا گیا۔

ادھر ہمارے سیکیورٹی انجینئرز کا حال یہ ہے کہ ان کی رسائی ہی ان علاقوں میں بہت کم ہے جہاں اس طرح کے لوگ اغوا برائے تاوان کے لیے رکھے جاتے ہیں۔ اکثر اہل کار قبائلی معاشروں سے نا آشنا ہوتے ہیں اور دوسرا ان کے لیے زبان کا اتنا بڑا مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ کئی واسطوں سے وہ بات کی تہہ تک پہنچتے ہیں۔ اسی لیے مسلسل جدوجہد اور تگ و دو صرف اس مغوی کا خاندان ہی کرتا رہتا ہے‘‘ جو اپنے عزیز کو واپس لانے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ان کا عزیز واپس آ جائے تو وہ خوف سے زبان نہیں کھولتا اور گھر والے بھی کسی مزید بکھیڑے میں پڑنے سے بہتر خیال کرتے ہیں کہ ان کے عزیز کی برآمدگی کا تمغہ کسی کے بھی سینے پر سج جائے‘ وہ لوگ آرام سے رہیں۔اس لیے کہ زبان کھولنے پر یہ تمغہ سجانے والے لوگ اسے کسی بھی خطرے میں مدد کو نہیں آئیں گے۔

قبائلی معاشروں میں ایک ’’خبر‘‘ یا ’’حال‘‘ ہوتا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ کوئی بات کبھی چھپی نہیں رہتی۔ قبائلی معاشرے میں اندھا قتل بھی چھپا نہیں رہتا کہ یہ ان کی روایات ہیں کہ چھوٹی سے چھوٹی خبر یا بات کو آگے تک پہنچانا ہے۔ کچلاک کے ارد گرد جو قبائل آباد ہیں اور پشین اور چمن کے ارد گرد کے لوگوں تک جو خبریں پہنچی ہیں اور ان کا ذکر زبان زد عام ہے۔ ان میں ایک یہ کہ چالیس کروڑ تاوان ادا کیا گیا ہے جب کہ پہلے دو ارب روپے مانگا جا رہا تھا۔ دوسری خبر یہ ہے کہ شہباز تاثیر ان گروپوں کے ہاتھ بیچا گیا تھا جو طالبان کی افغانستان میں موجود قیادت کے مخالف تھے۔

اس لیے طالبان نے ان کا تعاقب جاری رکھا ہوا تھا۔ وہ اس تعاقب کے خوف سے بھاگ رہے تھے۔ ایسے میں شہباز ان کے ہاتھ آیا جسے طالبان چند سو روپے دے کر کچلاک چھوڑ گئے۔ دونوں صورتوں میں تمغہ کسی کے سینے پر نہیں سجتا۔ لیکن صرف ایک تلخ حقیقت ہے جو اغوا برائے تاوان کے ہر کیس کے بعد سامنے آتی ہے۔ مغوی اپنی زبان نہیں کھولتا۔ وزیر داخلہ نے انکوائری کا حکم دیا ہے کہ اسے سچ نہیں بتایا گیا۔ لیکن انکوائری اس بات پر ہونی چاہیے کہ ریاست مغوی کے دل سے خوف ختم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے کہ ہر مغوی چپ سادھ لیتا ہے‘ کچھ بتاتا تک نہیں۔ یہی خوف اغوا برائے تاوان کرنے والوں کو حوصلہ دیتا ہے۔

اوریا مقبول جان

کیا سورج پیٹنٹ ہو سکتا ہے ؟ وسعت اللہ خان

$
0
0

کوئی بھی چھوٹا آدمی کوئی بھی بڑا کام کر سکتا ہے۔ بس تھوڑی سی دیوانگی چاہیے۔ ایسے دیوانوں کا کام خود بولتا ہے اور شہرت ان کے پیچھے بھاگتی رہتی ہے۔ لیکن شہرت کا قد بھی ایسے دیوانوں کے آگے اکثر چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ ایسے بیشمار دیوانے آئے، چلے گئے اور آتے رہیں گے مگر دنیا کو اپنی بساط سے ہزار گنا بہتر بنا گئے اور بناتے رہیں گے۔ آج نمونے کے طور پر ان ہزاروں میں سے پانچ پاگلوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔

یوناس سالک۔
یہ بھائی صاحب انیس سو چودہ میں نیویارک کے ایک غریب یہودی تارکِ وطن کے ہاںپیدا ہوئے۔ والدین انھیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے تا کہ کم از کم یوناس سالک کا معاشی مستقبل ہی سدھر جائے۔ مگر سالک نے ڈاکٹری کے منافع پر طبی تحقیق کے گھاٹے کا انتخاب کیا اور تحقیق میں بھی ایک مشکل ترین شعبے یعنی پولیو ویکسین بنانے کی مہم جوئی کو منتخب کیا۔

انیس سو باون میں صرف امریکا میں اٹھاون ہزار بچے پولیو وائرس کا شکار ہوئے۔ ان میں سے تین ہزار ایک سو پینتالیس مر گئے اور اکیس ہزار سے زائد اپاہج ہو گئے۔ اگر انیس سو باون میں امریکا جیسے ملک کی یہ حالت تھی تو اس سے آپ باقی دنیا بالخصوص ترقی پذیر دنیا کے حالات کا خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔
یہاں یہ بتانا بے جا نا ہو گا کہ دنیا میں پولیو کا سب سے مشہور مریض چار مرتبہ امریکی صدر منتخب ہونے والا فرینکلن ڈی روزویلٹ تھا۔ بہرحال انیس سو پچپن میں یوناس سالک کی کوششیں رنگ لائیں اور وہ پولیو ویکسین بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ آج ان کی ویکسین کی بدولت دو ممالک (پاکستان، افغانستان) کے علاوہ باقی دنیا سے پولیو کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ کہاں انیس سو اٹھاسی تک دنیا بھر میں ساڑھے تین لاکھ افراد پولیو کے سبب ہر سال اپاہج ہو رہے تھے اور کہاں آج یہ کیسز دو سو سے بھی کم رہ گئے۔

یوناس سالک کا انتقال انیس سو پچانوے میں ہوا۔ کسی صحافی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اس ویکسین کو اپنے نام سے پیٹنٹ کیوں نہیں کرایا۔ سالک نے الٹا سوال کر دیا کیا آپ سورج کو پیٹنٹ کروا سکتے ہیں؟ اگر سالک اس ویکسین کو پیٹنٹ کروا لیتے تو مرتے وقت وہ کم از کم سات ارب ڈالر کی رائلٹی کے مالک ہوتے۔
دشرتھ مانجی۔
دشرتھ انیس سو چونتیس میں بھارتی ریاست بہار کے ضلع گیا کے ایک انتہائی پسماندہ گاؤں گہلور میں پیدا ہوئے۔ بالکل ان پڑھ مزدور تھے۔ انیس سو ساٹھ کے ایک دن دشرتھ کی بیوی پلگن دیوی صرف اس لیے مر گئی کہ قریب ترین اسپتال گاؤں سے ستر میل دور تھا۔ کیونکہ پہاڑ درمیان میں حائل تھا۔ دشرتھ جب بیوی کے سوگ سے باہر نکلا تو اس نے کدال اٹھائی اور اس پہاڑ کو کاٹنا شروع کر دیا جو اگر بیچ میں نا ہوتا تو اس کی بیوی کی جان بچ سکتی تھی۔

لوگوں نے دشرتھ کا خوب مذاق اڑایا اور علاقے میں وہ دشرتھ پاگل کے نام سے مشہور ہو گیا۔ مگر دشرتھ نے گویا کان بند کر لیے اور چوبیس برس تک تنِ تنہا پہاڑ کاٹنے میں لگا رہا۔ انیس سو چوراسی میں دشرتھ نے پہاڑ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے تین سو ساٹھ فٹ لمبا اور تیس فٹ چوڑا راستہ نکال دیا ۔

جس کے سبب قریب ترین قصبے وزیر گنج کا راستہ پچپن کیلومیٹر سے گھٹ کے پندرہ کیلو میٹر رہ گیا۔ تب سے اب تک دشرتھ کے گاؤں کی کوئی عورت محض اسپتال نہ پہنچنے کے سبب نہیں مری۔ دشرتھ کا دو ہزار سات میں انتقال ہوا اور ریاستی حکومت نے پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ دشرتھ کی آخری رسومات ادا کیں۔ تب سے اب تک دشرتھ کی کہانی پر تین فلمیں بن چکی ہیں۔

پروین سعید۔
پروین نے سن اسی کے عشرے میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سماجی بہبود سے ایم اے کیا اور ایک فلاحی ادارے میں ملازمت شروع کر دی۔ پھر ایک دن انھیں خیال آیا کہ ہمیں تو تین وقت کی روٹی میسر ہے لیکن جنھیں ایک وقت کا کھانا بھی بمشکل میسر ہے ان کروڑوں لوگوں کا کیا قصور۔ انھوں نے اپنا دکھ اپنے شوہر خالد سعید پر ظاہر کیا اور پھر دونوں نے مل کے کراچی کے ایک غریب علاقے خدا کی بستی میں کھانا گھر کی بنیاد رکھی۔ حالانکہ وہ دونوں یہ بھی سوچ سکتے تھے کہ اگر ہماری کوششوں سے چند لوگوں کا پیٹ بھر سکتا ہے تو اس کا کیا فائدہ ہو گا۔، کروڑوں لوگ تو پھر بھی بھوکے رہیں گے۔

مگر دونوں میاں بیوی اس سوچ کو قطعاً خاطر میں نا لائے اور اپنی تھوڑی بہت ذاتی پونجی کھانا گھر پہ لگا دی۔ شروع کے چند برسوں تک ایک روپے میں سالن کی پلیٹ اور دو روٹی دیتے رہے پھر گرانی کے سبب تین روپے کا کھانا کر دیا۔ حالانکہ فی زمانہ سالن کی پلیٹ اور روٹی پر اصل لاگت بیس روپے آتی ہے۔
پروین کہتی ہے کہ اب اتنے مخیر لوگ ہماری مدد کر رہے ہیں کہ ہم مفت کھانا بھی دے سکتے ہیں لیکن علامتی قیمت اس لیے رکھی ہے تا کہ کسی کی عزتِ نفس مجروح نا ہو اور اسے اطمینان رہے کہ وہ کھانا خرید کے کھا رہا ہے۔ پروین ایسے لوگوں کے گھر بھی کھانا پہنچاتی ہیں جو سفید پوشی کے بھرم میں کھانا گھر تک آنے سے ہچکچاتے ہیں۔ سنا ہے ان دنوں پروین کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔

اکبر مخمور۔
ڈیرہ غازی خان کے کالج چوک میں سرائکستان ٹائر ورکس کے نام سے ایک ورکشاپ ہے۔ جس کے مالک اکبر مخمور ہیں۔ سن انیس سو چوراسی میں سعودی عرب میں دورانِ ملازمت انھیں سرائیکی اردو ڈکشنری کا خیال آیا۔ پھر وہ اس خیال کے ساتھ وطن آ گئے اور ٹائر بیچنے کے ساتھ ساتھ ڈکشنری مرتب کرنے کا کام جاری رکھا۔ یوں تیس برس کی محنت کے بعد چار ہزار صفحات پر مشتمل ڈکشنری تیار ہو گئی۔ اس وقت بازار میں جو سب سے ضخیم سرائیکی اردو ڈکشنری میسر ہے اس میں چھتیس ہزار الفاظ ہیں لیکن اکبر مخمور کی ڈکشنری میں ایک لاکھ پندرہ ہزار سرائیکی الفاظ و محاورے موجود ہیں۔

عقیلہ ناز۔
عقیلہ پنجاب میں خواتین کسانوں کی تنظیم پیزنٹ وومین سوسائٹی کی سربراہ ہیں اور گزشتہ سولہ برس سے کسان حقوق کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ابتدا میں وہ اوکاڑہ ملٹری فارمز کے مالکانہ حقوق سے محروم کسانوں کے لیے فعال انجمن مزارعینِ پنجاب کے پلیٹ فارم سے مردوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کرتی رہیں۔
تحریک کی قیادت میں خواتین بھی نمایاں تھیں۔ تاہم جب مالکانہ حقوق کے سوال پر بات چیت کے لیے لیڈر شپ کا سوال اٹھا تو مردانہ قدامت پرستی اور زنانہ ترقی پسندی میں ایکہ نہ رہا۔ مگر عقیلہ ناز نے اندرونی سیاست اور روائتی جوڑ توڑ کے آگے ہار نہ مانی اور بے زمین خواتین کسانوں کو منظم کرنے کا کام جاری رکھا۔ عقلیہ کہتی ہیں کہ بے زمین کسانوں میں آدھی تعداد عورتوں کی ہے اور جب تک زمین پر عورت کے مالکانہ حقوق بھی مردوں کے مالکانہ حقوق کے برابر 
تسلیم نہیں کیے جاتے کسان عورت خودمختار نہیں ہو سکتی۔

عقیلہ کا مطالبہ ہے کہ بلدیاتی ڈھانچے میں کسانوں کی نشستوں کے ساتھ ساتھ
 بے زمین خواتین ہاریوں کی نشستیں بھی مختص ہونی چاہئیں تا کہ خواتین کے سماجی، اقتصادی و سیاسی حقوق کی جدوجہد میں شہر اور دیہات کی عورت میں حائل تفریق کم سے کم ہوتی جائے اور دیہی عورت بھی پسماندگی کا جوا کاندھے سے اتارنے کے قابل بن سکے۔

عقیلہ نے جوانی کسان عورتوں کے حقوق کی جدوجہد میں کھپا دی۔ انھیں خود 
بھی بے زمینی کے کرب اور ریاستی و غیرریاستی دوہرے استحصال کا اندازہ ہے۔ ان کے باپ دادا اٹھارہ سو اسی سے جس زمین پر کام کرتے آئے اس کے مالکانہ حقوق کے انتظار میں کئی نسلیں کھپ گئیں۔ عقیلہ چاہتی ہیں کہ بے زمین کسانوں کی اگلی نسل اس کرب سے نہ گزرے۔ اسی لیے وہ اپنا آج کل پر قربان کر رہی ہیں۔

وسعت اللہ خان

وزیراعظم ،آرمی چیف کی روضہ رسول ﷺ پر حاضری

فلسطینی استانی کے لیے’گلوبل ٹیچر‘ ایوارڈ

عالم اسلام کی سب سے بڑی فوجی مشقیں

$
0
0

واللہ! نگاہیں خیرہ ہو گئیں۔ یہ امہ کی طاقت کاایک باجبروت مظاہرہ تھا، اکیس اسلامی ممالک کی افواج نے اس میں حصہ لیاا ور آخری روز کی مشقوں کا نظارہ ان ممالک کے راہنماﺅں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

ان مشقوں کا ایک ہی مقصد بتایا جارہا ہے کہ ہمیں اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف بھر پور تیاری کرنی ہے،سر دست یہ مشترکہ خطرہ دہشت گردوں کی طرف سے در پیش ہے جو مختلف ناموں سے خون ناحق بہانے میںمصروف ہیں ، افریقہ میں ان کا نام بوکو حرام ہے ، مڈل ایسٹ میں داعش کا چہرہ سامنے کر دیا گیا ہے، دنیا کے لئے وہ القائدہ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں اور پاکستان کے لئے انہوںنے ٹی ٹی پی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے ، ہو سکتا ہے کہ ان کی ڈور ہلانے والا مرکز کوئی ایک ہی ہو۔یہ بھی امکان ہے کہ ان میں سے ہر کوئی آزادانہ طور پر سرگرم عمل ہو مگر دیکھا جائے تو بحیثیت مجموعی ان کا طرز عمل ایک جیسا ہے، غیر مسلموں کے خلاف چند ایک ایکشن مگرمسلمانوں کا خون روزانہ بہایا جا رہا ہے۔

بظاہر لگتا ہے کہ امریکہ ان کا اصل دشمن ہے مگر لیبیا اور اب شام میں القائدہ 
اور داعش کی سرپرستی امریکی اور نیٹو فورسز کے ہاتھ میں ہے۔ کرنل قذافی کو تو ایک نیٹو میزائل نے نشانہ بنایا۔ اور شام میں داعش کے لشکر کو باقاعدہ امریکی کانگرس کی طرف سے منظور شدہ مالی ا ور اسلحی امداد ملتی ہے۔ بشا رالاسد کو ہٹانے کے لئے امریکی سربراہی میں ایک فوجی ا تحاد سرگرم عمل ہے جس میں ترکی کا کردار پیش پیش ہے۔ یہی ترکی نیٹوفورسز کے ساتھ افغانستان میں بھی چودہ برس سے موجود ہے۔
میں پہلے ایک ا عتراض کا جواب دے لوں، پھر بات آگے بڑھاﺅں گا۔
عام طور پر اسلامی ممالک میں انتشار او افراق کا رونا رویا جاتا ہے، یہ سوال بھی پوچھا جاتا ہے کہ اوا ٓئی سی کہاں سو رہی ہے، آر سی ڈی یا ایکو کا اتحاد کس خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے اور عرب لیگ یاخلیج تعاون کونسل کس مرض کی دوا ہے۔ ان سوالوں کا ایک ہی مطلب ہے کہ مسلمان ملک باہم متحد کیوںنہیںہوتے اور اغیار کے مقابل اپنی قوت کو مجتمع کیوںنہیں کرتے۔

اور اب اگر سعودی عرب نے بتیس اسلامی ملکوں کے ایک فوجی ا تحاد کا اعلان کر کے ان ممالک کی ا فواج کے ساتھ مشترکہ مشقیں کی ہیں تو ان پر طرح طرح کے سوالات داغے جا رہے ہیں۔کوئی کہتا ہے کہ یہ ایرا ن کے خلاف اتحاد ہے ، کوئی کہتا ہے کہ اس اتحاد کا مقصد شام کو فتح کرنا ہے، کوئی کہتا ہے سعودی عرب اصل میںیمن کو زیر کرنا چا ہتا ہے، جتنے منہ اتنی باتیں۔

تو پہلے یہ فیصلہ کر لیں کہ کیا مسلمان ممالک آپس میں بٹے رہیں، ایک دوسرے سے دور دور رہیں، یا ان میں اتحاد ہونا چاہئے،اور انہیں باہم مل کر اپنے مفادات کا تحفظ کرنا چاہئے۔
صاف ظاہر ہے کہ تنقید کرنےو الے کنفیوژن کا شکار ہیں یا جان بوجھ کر کنفیوژن پھیلا رہے ہیں۔

سعودی عرب نے بہر حال ایک انشی ایٹو لیا ہے اور یہ کمال کا انشی ایٹو ہے، اس اتحاد میں ملائیشیا بھی ہے، مصر بھی ہے، پاکستان بھی ہے،خلیجی ممالک بھی ہیں،سوڈان بھی ہے، ان ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت نے ان مشقوں کا معائنہ کیا ہے، یہاں پاکستان کے نواز شریف بھی تھے، سوڈان کے عمر البشیر بھی تھے۔ یمن کے عبدالہادی بھی تھے، ا ور مصر کے جنرل السیسی بھی ۔
ذرا دیکھئے کہ ان مشقوں میں کس فائر پاور کا مظاہرہ کیا گیا، ساڑھے تین لاکھ فوجی،بیس ہزار ٹینک، ساڑھے چار ہزار لڑاکا اور بمبار طیارے،اور چار سو ساٹھ ہیلی کاپٹر اس میں حصہ لے رہے تھے۔ اتنی بڑی فوجی مشق آج تک نہیں ہوئی، کم از کم عرب خطے میںنہیں ہوئی اور اگر یہ ہو گئی ہے تو اس پر تنقید کاہے کو، شکوک و شبھات کیوں۔

اس مشق کے منتظمین نے کسی وقت بھی یہ نہیں کہا کہ یہ ایران یا شام کے خلاف ہے یا عراق کے خلاف ہے ۔
مگر دھول بہت اڑائی گئی۔

یہاں تک کہا گیا کہ ا تنی بڑی فوجی طاقت کی مشق صرف مشق تک محدود نہیں رہے گی ، یہ درا صل شام میں ایڈوانس کی تیاری ہے۔ اسی لئے شامی وزیر خارجہ ولید المعلم نے دھمکی بھی دے ڈالی کہ جس کسی نے سرحد پار کرنے کی کوشش کی، وہ لکڑی کے تابوت میں واپس جائے گا۔

یہ بھی کہا گیا کہ اگر ہزاروں ٹینکوں کی مدد سے شام پر یلغار شروع کر دی گئی تو روس اسے اعلان جنگ تصور کرے گا اور یہ دور کی کوڑی لائی گئی کہ ٹینکوں کے ا س طوفان کو روکنے کے لئے روس مجبور ہو گا کہ ان کا راستہ روکنے کے لئے ٹیکٹیکل ایٹمی اسلحہ استعمال کرے۔اور فضائی حملہ آوروں کو تباہ و برباد کرنے کے لئے روس اپنے ایس 300 او ر ایس400 میزائلوںکا بے دریغ استعمال کرے جو فضا میں اڑنے والی ہر شے کو خاکستر بنا ڈالیں گے۔

اصول کی بات یہ ہے کہ خطہ عرب میں نہ روس کو دخل اندازی کرنی چاہئے۔ نہ امریکہ ا ور نیٹو کو، اس علاقے کو ا سکے حال پہ چھوڑ دینا چاہئے ، تاکہ یہ اپنے مسائل کا حل خود تلاش کرے، بات چیت سے کر لے تو بہتر ہے ا ور اگر کوئی فریق دہشت گردی کا راستہ ترک کرنے پر آمادہ نہ ہو تو اسے طاقت سے کچل دیا جائے۔ سعودی عرب کی حالیہ مشقوں میں ا سی مہارت ا ور طاقت کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔

کیا مٹھی بھر دہشت گردوں کے بس میں ہے کہ وہ ساڑھے تین لاکھ فوج کو شکست دے سکیں، چوبیس ہزار ٹینکوں کو بھسم کر سکیں اور ساڑھے چار ہزار لڑاکااوربمبار طیاروں،اور چار سو ساٹھ ہیلی کاپٹروں کے بیڑے کے سامنے دم بھی مار سکیں۔ پاکستان کی فوج ا سکا عشر عشیر بھی نہیں لیکن اس نے دہشت گردوں کو کچل کر رکھ دیاہے ا ور اب ان کی آخری پناہ گاہوں کو راکھ کیا جارہا ہے،ا سکے لئے ہمیں مزید ایف سولہ کا ا نتظار ضرور ہے جوا مریکہ نے مستقبل قریب میں دینے ہیں مگر جن کی ڈیلوری پر بھارت واویلا مچا رہا ہے، بھارت کا واویلا سمجھ میں آتا ہے کیونکہ اس کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کا نام ونشان مٹ گیا تو پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کر نے کے لئے ا س کے سارے خواب مر جائیں گے۔

سعودی عرب میں الرعد الشمال نامی مشقوں میں جنرل راحیل شریف کی شرکت معنی خیز ہے، پوری دنیا میں ان کی دھاک بیٹھ چکی ہے کہ وہ دہشت گردوں کا قلع قمع کئے بغیر چین سے نہیں بیٹھتے،اور خاطر جمع رکھئے۔ اللہ اس عرب اتحاد کو سلامت اور برقرار رکھے، اس خطے میں کوئی دہشت گرد داخل ہوتے وقت کانوں کو ہاتھ لگائے گا کہ ان کا اصل مقابلہ جنرل راحیل شریف کی تربیت یافتہ فوج سے ہو گا۔
اسد اللہ غالب 



تحفظ نسواں قانون کو اسلامی بنانے کے لیے پنجاب حکومت تیار

کی بورڈ کے 14 بہترین شارٹ کٹس

$
0
0

کمپوٹر کا استعمال تو آج کل بہت عام ہے اور پاکستان جیسے ملک میں بھی
کروڑوں افراد اسے روزمرہ کے کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
تاہم اگر آپ کے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کا ماﺅس خراب ہوجائے تو صرف کی بورڈ سے اسے سنبھالنا کافی مشکل ہوجاتا ہے۔
تو اگر آپ کو یہ چند کی بورڈ شارٹ کٹس معلوم ہو تو آپ انٹرنیٹ اور دیگر کاموں کو محض اپنی انگلیوں کی مدد سے بھی کرسکتے ہیں۔
بک مارک ایڈ کرنا

اپنی کسی پسندیدہ ویب سائٹ کا پیج محفوظ کرنا ہو تو ماﺅس کو حرکت دینے کی بجائے کی بورڈ پر بس Ctrl + D دبا دیں اور بس۔

ہمیشہ کے لیے ڈیلیٹ کرنا
جب آپ کسی فائل کو ہمیشہ کے لیے کمپیوٹر سسٹم سے باہر کرنا چاہتے ہو یعنی ری سائیکل بن میں جائے بغیر غائب کردینا چاہتے ہو تو Shift + Delete کلک کریں۔

براﺅزر بند کرنا
اگر تو دفتر میں گیم کھیل رہے اور باس آجائے یا کسی بھی وجہ سے دوسروں کی نظر سے اپنی ویب سرگرمیوں کو بچانا چاہتے ہو تو Alt + F4 آپ کے کام آئے گا۔

ڈیسک ٹاپ لانا
اگر تو آپ نے کمپیوٹر پر بہت زیادہ ونڈوز کھول رکھی ہو اور فوری طور پر ڈیسک ٹاپ پر رسائی چاہتے ہو تو Window key + D سے ایسا ممکن ہے۔

فائل یا فولڈرز کی تلاش
کسی ایک فائل کے لیے تمام فولڈرز میں سرچ کرنے کی زحمت میں نہ پڑیں بلکہ Window key + F کے شارٹ کٹ کو استعمال کرکے بھی ایسا ممکن ہے۔

زوم لیول بدلنا
اگر کسی ویب یا کسی اور پروگرام میں کام کرتے ہوئے اس میں زوم ان یا آﺅٹ کرنے کی ضرورت ہو تو Ctrl + scroll mouse wheel کو استعمال کریں۔

براﺅزر میں بند ہوجانے والے ٹیب کو ری اوپن کرنا
کیا آپ نے غلطی سے کسی ایسی براﺅزر ٹیب کو بند کردیا ہے جس کو آپ دیکھ رہے تھے اور اس کی دوبارہ تلاش کافی مشکل ہے ؟ تو اس پیج کو ری اوپن کرنے کے لیے Ctrl + Shift + T کو آزما کر دیکھیں۔

کھلے ہوئے پروگرامز میں سوئچ کرنا
یہ شارٹ کٹ لگ بھگ سب کو ہی معلوم ہوگا یعنی Alt + Tab کی مدد سے ایک سے دوسری ونڈو پر جایا جاسکتا ہے تاہم ونڈوز سیون میں Window key + Tab کے ذریعے بھی یہ کام کیا جاسکتا ہے۔

اسکرین شاٹ لیں
اسکرین پر موجود کسی بھی چیز کی فوری تصویر یا اسکرین شاٹ کے لیے Print Screen کے بٹن کو دبا دیں یہ شارٹ کٹ ان ویب پیجز کے لیے کارآمد ہے جہاں کاپی اور پیسٹ کی اجازت نہیں ہوتی۔

ویب پیج کو ریفریش کرنا
آپ کو کسی تازہ اپ ڈیٹ کے بارے میں جاننا ہے تو اسکرین کو ریفریش کرنے کے لیے F5 یا Ctrl + R سے اسے ریفریش کرلیں۔

براﺅزر پیج کو بیک کرنا
براﺅزر پر آپ نے پہلے گوگل کو اوپن کیا اور پھر اس کی جگہ فیس بک کھول لی مگر اب واپس گوگل پر جانا چاہتے ہیں تو Alt + ← مددگار ثابت ہوگا۔

اسپیلنگ یا گرامر چیک
بہترین اسپیلنگ اور گرامر کو یقینی بنانے کے لیے F7 کا بٹن مددگار ثابت ہوتا ہے۔

http://www کا اضافہ کرنا
ویب براﺅزر پر بس ویب سائٹ کا نام لکھیں جیسے گوگل اور پھر Ctrl + Enter دبائیں، http://www اور .com خود ہی شامل ہوجائیں گے۔

ایڈریس بار پر جانا
اگر ماﺅس کام نہیں کررہا اور فوری طور پر کوئی نیا ویب لنک براﺅزر پر ڈالنا چاہتے ہیں تو Ctrl + L یا F6 کی مدد لیں۔

پنجاب بڑے دل کا بڑا صوبہ ہے

$
0
0

ایک عام امریکی شہری زیادہ سے زیادہ اپنے شہر ، بہت ہوا تو اپنی ریاست اور بہت ہی تیر مارا تو کینیڈا ، میکسیکو اور اسرائیل کے نام سے واقف ہوتا ہے۔ باقی دنیا میں کون کیا کیوں ہے ؟ پاکستان کوئی ملک ہے کہ صوبہ ، پہاڑ یا دریا؟ مڈویسٹ کے امریکی کسان کی بلا سے۔ حالانکہ ہمیں تو امریکی محکمہ خارجہ کے نہ صرف موجودہ بلکہ سابق ترجمان کا نام، اسلام آباد میں متعین امریکی سفیرکا برتھ ڈے اور وائٹ ہاؤس کے ساؤتھ اور نارتھ بلاک کے کمروں کی تعداد تک یاد ہے 

سمجھ میں نہیں آتا کہ اس عمومی امریکی بیگانگی پر اتنا بل کھانے کی کیا بات ہے۔ بھلا سپرپاور کے کسی شہری کو کیا ضرورت کہ وہ جاننے کی کوشش کرے کہ ہر چپٹا چینی نہیں ہوتا۔ پانامہ کوئی نہر نہیں ملک ہے۔ ہنڈوراس میں کیلوں کے علاوہ انسان بھی ہوتے ہیں۔ بھارت اور انڈیا دو الگ الگ ملک نہیں۔ ایران میں ایرانی نہیں فارسی بولی جاتی ہے اور بن لادن سے سعودی عرب کا نہیں بلکہ سعودی عرب سے بن لادن کا تعلق ہے ؟

اس قسم کی معلومات صاحبوں کی نہیں محکوم طبیعت ضرورت مندوں کی ضرورت ہیں تاکہ وہ صاحبوں کی پسند ناپسند ، رنگوں ، مزاج ، مشاغل ، رشتے داریوں اور نجی و غیر نجی مصروفیات کا رضاکارانہ ریکارڈ سینہ پھلا کر ایک دوسرے کو دکھاتے پھریں۔ ویسے بھی اشرافی شجرے یاد رکھنا مراثی کا کام  ہے۔ کسی چوہدری سے کسی مراثی کا شجرہ سنا ؟

بعض حاسد پنجابی اشرافیہ کے بارے میں بھی یہی کہتے ہیں کہ اس کا اندازِ بیگانگی امریکیوں جیسا ہے۔ اور یہ کہ اس اشرافیہ کے پہلے پانچ صوبے تھے، اب چار ہیں۔

اور یہ کہ ہمیں تو یہ تک یاد رکھنا پڑتا ہے کہ میاں صاحب نے آج کس رنگ کی ٹائی کیوں پہنی۔ منشا چنیوٹی کو ان دنوں کون سا مارملیڈ پسند ہے اور جنرل گوجرخان کتنی نسلوں سے سپاہ گر ہیں۔ مگر وسطی و شمالی پنجاب کو بالکل ضرورت نہیں کہ وہ بلوچ اور بلوچی ، تھر اور تھر پارکر ، مالاکنڈ اور سوات ، بابا فرید اور خواجہ فرید میں فرق کرتا پھرے۔
کیا اتنا جاننا کافی نہیں کہ سوئی گیس بلوچستان کے کسی علاقے سے آتی ہے اور ختم ہوگئی تو ایران اور ترکمانستان سے اور سوئی گیس آجائے گی۔ یہ نہ جاننے سے صحت پر کیا مضر اثرات پڑیں گے کہ میرپور خاص سندھ میں ہے اور کشمیر کے میرپور سے الگ بھی ہے اور میر پور ماتھیلو کا اپنا تشخص ہے۔ کیا اتنی معلومات کافی نہیں کہ باڑہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کبھی سستا اسمگل شدہ سامان ملتا تھا، اب پورا پاکستان چینی سامان کا باڑہ ہے۔

مگر میں رحیم یار خان کا پیدائشی ہونے کے ناطے ایسی جلی کٹی ایک کان سے سنتا اور دوسرے سے نکال دیتا ہوں کیونکہ جانتا ہوں کہ جس طرح پسماندہ اقوام امریکا کی فراست، ترقی اور طاقت سے جلتی ہیں اسی طرح  بچارے چھوٹے صوبوں اور چھوٹی قومیتوں کی پنجاب کے بارے میں سوچ بھی چھوٹی رہے گی۔
کوئی نہیں جاننا چاہتا کہ پنجاب کا دل اس کے رقبے اور آبادی سے بھی بڑا ہے۔ اس نے قومی یکجہتی کی خاطر اپنی ماں بولی اردو کو دان کر دی تاکہ چھوٹے بھائیوں کو عرض گذاری میں آسانی رہے۔

 پنجاب نے نہ کسی آنے والے کو کبھی روکا نہ جانے والے کو۔ پھر بھی آپ کو لاہور ، سیالکوٹ ، گوجرانوالہ ، فیصل آباد اور پنڈی وغیرہ میں دیگر صوبوں کے لوگ اس لیے خال خال بسے نظرآئیں گے کیونکہ انھیں پنجاب کے خلاف مسلسل بہکایا جاتا ہے۔ جب کہ پنجاب کو ایسا کوئی احساسِ کمتری نہیں اسی لیے جیوانی سے سکردو تک سارا جہاں ہمارا۔

ایک عام پنجابی کو کیا پڑی کہ وہ دوسروں کے معاملات میں دخل در معقولات کرتا پھرے۔ وہ تو خیر ہو جذبہ ِ انسانیت سے سرشار پنجابی اشرافیہ کی جو اپنے نادان بھائیوں کی ترقی کے لیے نہ صرف افسر شاہی ، ٹیکنو کریسی اور علماء کی شکل میں علم و ہنر بانٹتی ہے بلکہ برادرانِ یوسف کو عملاً ڈیمو دکھاتی ہے کہ ڈیم اور موٹر وے ایسے بنتے ہیں ، کانکنی یوں ہوتی ہے ، بندرگاہیں اس طریقے سے چلتی ہیں۔ لا اینڈ آرڈر ایسے برقرار رکھا جاتا ہے۔

صحرائی ، بنجر اور پہاڑی زمینیں ایسے ایسے الاٹ ہو کے شاد آباد ہوتی ہیں ، جہاد کیسی کیسی شکلوں میں اور کہاں کہاں کن کن کے خلاف ممکن ہے۔ پاکستانیت کے اظہار کے موثر طریقے کیا کیا ہیں۔اچھے اور برے ملک دشمنوں میں کیسے تمیز کی جائے اور پھر ان سے کیسے کیسے نمٹا جائے یا نہ نمٹا جائے۔( پرانے زمانے میں اس کیفیت کو وائٹ مینز برڈن کہتے تھے)۔

مگر افسوس اشرافِ پنجاب کے اخلاصِ بے غرض کی قدر کرنے والا کوئی نہیں۔چنانچہ باپ کی عدم موجودگی میں پھر یہ بڑے بھائی کی ذمے داری بن جاتی ہے کہ ایسے کور چشم چھوٹوں کو مجبوراً عقل کا جلاب ویسے ہی دے جیسے مائیں ناسمجھ بچوں کو پیٹ اور طبیعت کی صفائی کے لیے کاسٹر آئل پلاتی ہیں۔
ان تنگ نظروں کو تو طوطے کی طرح بس ایک ہی رٹ لگی  ہے کہ پنجاب کو ہمارے لیے بس وہی بہتر لگتا ہے جو وہ اپنے لیے بہتر سمجھتا ہے۔

اوپر سے یہ جلن کہ دیگر صوبوں میں اس قدر بدامنی ہے تو پنجاب کیسے محفوظ ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ جب افریقہ ، مشرق ِ وسطیٰ اور افغانستان جل رہا ہے تو امریکا دوسرے نائن الیون سے کیسے بچا ہوا ہے۔ مگر ان بیوقوفوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جس طرح امریکا نے دنیا میں جگہ جگہ اپنے جوان فائر بریگیڈ کے طور پر بھیج رکھے ہیں اسی طرح پنجابی اشرافیہ بھی اپنے فرائض سے ایک لمحے کے لیے غافل نہیں۔

اس قدر نری خالص بکواس سننے کے بعد بھی یہ شیردل پنجاب کا بڑا پن ہی تو ہے کہ ہر بار ایسے زبان درازوں پر ترس کھا کے ہنس پڑتا ہے۔کیونکہ جو وہ جانتا ہے وہ یہ پگلے نہیں جانتے۔

اشرافِ پنجاب اگر ہر انگلے کنگلے کی بات سنجیدگی سے لینے لگیں تو پھر تو ہوگیا کلیان۔ یہاں تو اقبال تک ’’ ایک پنجابی مسلمان سے خطاب ‘‘ کے باوجود ناکام ہوگیا۔

بازوئے شمشیرزن کو سادہ بات سمجھانے کے لیے بھی آدمی کا کم ازکم سکندر، چندر گپت ، اشوک ، غوری، غزنوی،  اکبر، ابدالی، رنجیت سنگھ ، وکٹوریہ یا طالبان ہونا ضروری ہے۔

وسعت اللہ خان 

سید علی گیلانی کی تحریک آزادی کشمیر میں خدمات

$
0
0

کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی کی صحت بہتر ہونے پر نئی دہلی کے ہسپتال کے ڈاکٹروں نے انہیں انتہائی نگہداشت یونٹ سے عمومی وارڈ میں منتقل کر دیا،جبکہ علی گیلانی نے گزشتہ رات طبیعت میں بہتری محسوس کی اور بہتر نیند لی۔ علی گیلانی کو سانس لینے میں دقت اور سینے میں درد کے باعث جمعرات کے روز ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔

 ہسپتال میں سید علی گیلانی کے کچھ ضروری ٹیسٹ کرائے گئے۔ ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ حریت چیئرمین اب خطرے سے باہر ہیں اور تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے ہسپتال میں علی گیلانی سے ملاقات میں وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے نیک خواہشات کا پیغام پہنچایا اور پاکستانی عوام کی طرف سے علی گیلانی کی جلد صحت یابی کی نیک خواہشات بھی پہنچائیں۔

سید علی گیلانی کی ساری زندگی جدوجہد سے تعبیر ہے۔ آزادی اور حق خود ارادیت کی جدوجہد میں عمر کا زیادہ حصہ بھارتی جیلوں میں گزارا ہے۔ بھارت نے حریت قائد کی آزادی کی آواز دبانے کے لئے ظلم و جبر کے تمام ہتھکنڈے آزمائے لیکن وہ حریت قائدین کے عزم و حوصلے کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ ماضی میں پاکستان کے حکمرانوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے مختلف آپشنز پیش کئے،اگر ان آپشنز اور فارمولوں کے سامنے کوئی ڈٹا رہا تو وہ سید علی گیلانی تھے، جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کو دو ٹوک جواب دیا تھا کہ کشمیر کے لاکھوں شہداء نے اپنا خون بھارت کے غاصبانہ قبضہ سے آزادی کے لئے پیش کیا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کر کے کوئی دوسرا فارمولا تحریک آزادی کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں سید علی گیلانی کے اس موقف کو بعض دانشوروں نے ہٹ دھرمی قرارد یا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ثابت ہوا کہ سید علی گیلانی کا موقف بالکل درست تھا۔ آج حکومت پاکستان اسی موقف کو لے کر چل رہی ہے جو سید علی گیلانی کا موقف تھا۔ سید علی گیلانی ہمیشہ سے یہ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ بھارت مکر و فریب کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے اور اول روز سے بھارت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے تضادات اور دو عملی کی پالیسی پر چل رہا ہے۔

 سید علی گیلانی کا موقف تھا کہ جب تک بھارت کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم نہیں کرتا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے آمادہ نہیں ہوتا اس وقت تک بھارت سے کسی طرح کے مذاکرات کا ر لاحاصل ہیں۔محض پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی و ثقافتی وفود کے تبادلے آلو ،پیاز کی تجارت اور امن کی آشا سے کشمیریوں کے دکھوں کا مداوا نہیں ہو سکتا۔ تاریخ نے سید علی گیلانی کے موقف کو درست ثابت کر دیا ہے۔

بھارتی حکمران ابھی تک کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم پاکستان سے مذاکرات کے لئے تیار ہیں، لیکن یہ مذاکرات آزاد کشمیر پر ہوں گے۔ کبھی بھارت کہتا ہے کہ ہم تجارت کے لئے مذاکرات کر سکتے ہیں۔ تجارتی و ثقافتی وفود کے تبادلے ہو سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکمران اصل تنازعہ کے حل کے بجائے دیگر امور کو درمیان میں لے آتے ہیں اور غیر ضروری امور پر بات چیت کے لئے آمادگی ظاہر کر دیتا ہے، جبکہ کشمیریوں نے یہ ساری قربانیاں نہ تو تجارتی و ثقافتی وفود کے تبادلے کے لئے پیش کی ہیں نہ ہی امن کی آشا کے لئے دی گئی ہیں، بلکہ کشمیری بھارت کے غاصبانہ قبضے سے آزادی چاہتے ہیں۔ جب تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق ،یعنی حق خودارادیت نہیں دیا جاتا اس وقت تک کشمیریوں کی آزادی کی تحریک جاری رہے گی۔

مقبوضہ جموں و کشمیر کی حریت قیادت نے سید علی گیلانی کی قیادت میں متحد ہو کر انتہائی مثبت اور تعمیری قدم اٹھایا ہے اور پوری دُنیا کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سید علی گیلانی کا موقف ہی پوری کشمیری قوم کا موقف ہے جن تحریکوں کے پیچھے کوئی نظریہ نہیں ہوتا ،وہ تحریکیں کامیاب نہیں ہوتیں ۔کشمیر کی آزادی کی تحریک ایک نظریے کے تحت کام کررہی ہے۔ یہ نظریہ اسلام، آزادی اور تکمیل پاکستان ہے۔

 اسی نظرئیے کو بنیاد بنا کر مقبوضہ جموں و کشمیر میں تاریخ کا عظیم جہاد برپا ہے۔ آج تک لاکھوں شہداء نے اپنا لہو آزادی کے لئے پیش کیا ہے۔ ہزاروں لو گ اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے ہیں۔ ہزاروں زخمی اور معذوری کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہزاروں پس دیوار زنداں ہیں۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ تحریک آزادئ کشمیر کے اس نازک موڑ پر کشمیری قیادت اتحاد و یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھے اور ون پوائنٹ ایجنڈے کے تحت ، کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دیا جائے ہر سطح پر جدوجہد کو تیز تر کیا جائے متحد و منظم ہو کر ہی اس تحریک کو کامیابی کی منزل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب پاکستان جو کشمیریوں کا حقیقی وکیل ہے اسے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی۔ سفارتی سطح پر اپنے سفارت خانوں کو متحرک کرنا ہو گا۔ بھارت کے تحریک آزادی کشمیر کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے توڑ کے لئے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ بھارت بین الاقوامی برادری کو گمراہ کرنے کے لئے تحریک آزادئ کشمیر کو دہشت گردی سے تعبیر کرتا ہے اور بین الاقوامی دُنیا آنکھیں بند کر کے بھارت کے اس منفی پروپیگنڈے سے متاثر ہو رہی ہے دنیا کو معلوم ہونا چاہے کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی ،دراصل حق خودارادیت کی تحریک ہے۔ کشمیری اپنے پیدائشی حق کے لئے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو دہشت گردی سے جوڑنا سراسر ناانصافی اور ظلم ہے۔ امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کو اپنے دوہرے معیارات ختم کر کے کشمیریوں کو ان کا حق آزادی دلانے کے لئے بھارت پر دبا بڑھانا چاہئے۔

سید علی گیلانی کو بھارتی حکومت نے پاسپورٹ جاری کرنے سے انکار کردیا تا کہ وہ کسی دوسرے مُلک میں نہ جا سکیں اور دُنیا کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم اور بھارت کا اصل چہرہ دکھا سکیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ’’بھارتیہ جنتا پارٹی‘‘ کے ترجمان نے اپنے سرپرستوں کے اشارے پر اعلان کیا ہے کہ: ’’ سید علی گیلانی کو اس وقت تک پاسپورٹ جاری نہیں کیا جائے گا، جب تک وہ بھارت کے خلاف جاری کئے گئے اپنے 25سالہ بیانات پر بھارتیوں سے معافی نہیں مانگ لیتے۔ پہلے وہ تسلیم کریں کہ وہ انڈین ہیں، پھر انہیں بھارتی پاسپورٹ جاری کیا جائے گا خود کو بھارتی نہ ماننے اور بھارت کی سرعام مذمت کرنے والے شخص کو بھارتی پاسپورٹ کیسے جاری کیا جاسکتا ہے؟‘‘ دیکھتے ہیں مقبوضہ کشمیر میں پاکستان سے اٹوٹ محبت کرنے اور سبز ہلالی پرچم بلند کرنے والے بزرگ لیڈر سید علی گیلانی ،کی آزمائشوں کے دن کب ختم ہوتے ہیں۔

ریاض احمد چودھری

محبت کا پیغام دیا تھا : شاھد آفریدی

آپ کے دماغ کی صلاحیت پورے انٹرنیٹ جتنی

$
0
0

تازہ ترین تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسانی دماغ ابتدائی اندازوں سے 10 گنا زیادہ معلومات اپنے اندر محفوظ کر سکتا ہے، یعنی لگ بھگ اتنی معلومات جتنی پورے انٹرنیٹ پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ نئی دریافت ظاہر کرتی ہے کہ انسانی دماغ اللہ کی کتنی بڑی تخلیق ہے۔ یہ معلومات سائنس دانوں کو بہتر کمپیوٹر بنانے میں مدد دے سکتی ہے اور ساتھ ہی انسانی دماغ کس طرح کام کرتا ہے، اس بارے میں بہتر معلومات دے سکتی ہے۔

 سالک پروفیسر ٹیری سینوسکی نے کہا کہ ہم نے دماغی نیورونز کے کم توانائی، لیکن زبردست طاقت کے ساتھ کام کرنے کے انداز کو دریافت کیا ہے۔ ایک برقی و کیمیائی سرگرمی جو دماغ میں ہوتی ہے، دو عصبیاتی خلیوں کے درمیان بہتی ہے۔ ہمارا ڈیٹا بتاتا ہے کہ یہ اس سے 10 گنا زیادہ ہے۔

 (اُردو ٹرائب سے ماخوذ)  

تحفظ نسواں ایکٹ ۔ غیر ضروری قانون

$
0
0

بات سادہ تو یہی ہے کہ تحفظ نسواں ایکٹ غیر ضروری تھا۔ ابھی اس کی فوری ضرورت نہیں تھی۔ یہ کوئی فوری نوعیت کی قانون سازی نہیں تھی۔ اس سے زیادہ کئی اہم معاملات زیر التوا ہیں ۔ جس پر فوری قانون سازی کی ضرورت ہے۔ فوری انصاف کے لئے بہتر قانون سازی کی جا سکتی تھی۔ لیکن تحفظ نسواں ایکٹ شاید اتنا ضروری نہیں تھا۔

خواتین پر تشدد کی کوئی بھی حمایت نہیں کر سکتا۔ جولوگ تحفظ نسواں ایکٹ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ وہ بھی خواتین پر کسی بھی قسم کے تشدد کی حمایت نہیں کر سکتے۔ لیکن ہمارے ملک میں جب خواتین کو مغرب کی سطح کے حقوق دینے کی کوشش کی جا تی ہے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں مغرب نواز این جی اوز خواتین کے حقوق کے معاملہ کو ایک ایسے انداز میں لیتی ہیں۔ جو شاید ہمارے معاشرتی سیٹ اپ سے مطابقت نہیں رکھتا۔

اس ضمن میں مختاراں مائی کیس ایک عمدہ مثال ہے۔ مختاراں مائی کیس کو ایک این جی او نے اٹھایا۔ سب این جی اوز نے اس کو اپنا لیا۔ مختاراں مائی کو عالمی سطح پر غیر ضروری شہرت ملی۔ مظلومیت کی ایک داستان بن گئی۔ اقوام متحدہ میں خطاب کے لئے بلا لیا گیا۔ نیو یارک سٹاک ایکسچینج میں کاروبار کے آغاز کے لئے گھنٹی بجانے کا اعزاز دینے کے لئے بلا لیا گیا۔ سپین میں خواتین کی عالمی کانفرنس کی صدارت کے لئے بلا لیا گیا۔ مختاراں مائی پاکستان کی پہچان بن گئی۔ جیسے کہا جا رہا ہے کہ آجکل شرمین عبید دو آسکر لیکر پاکستان کی پہچان بن گئی ہے۔ لیکن کیا ہوا۔ ساری کہانی جھوٹی نکلی۔ پہلے لاہور ہائی کورٹ میں جھوٹی نکلی۔ پھر سپریم کورٹ میں جھوٹی نکلی۔ اور آج مختاراں مائی ایک گمنام داستان ہیں۔
اسی طرح جب بھی مغرب کا خواتین کے حقوق کے حوالہ سے ایجنڈافالو کرنے کی کوشش کی گئی ہے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ اگر تحفظ نسواں ایکٹ کی بجائے یہ قانون سازی کی جاتی کہ جو لڑکیاں ڈاکٹر ، انجینئر، یا کوئی اور پروفیشنل ڈگری کر لیتی ہیں۔ ان کے لئے اس شعبہ میں دس سال کام کرنا لازمی قرار دیا جائے۔ پاکستان اور بالخصوص پنجاب میں میڈیکل کالجوں میں لڑکیوں کی شرح لڑکوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔

 پنجاب میں لڑکیاں بہت بڑی تعداد میں ہر سال ڈاکٹر بن رہی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان لڑکیوں کی اکثریت ڈگری لینے کے بعد گھر بیٹھ جاتی ہے۔ یہ اعداد وشمار بھی موجود ہیں کام نہ کرنے والی ان لڑکیوں میں بھاری اکثریت ان امیر گھروں کی لڑکیوں کی ہے جن کے والدین کا تعلق اپر مڈل کلاس سے ہے۔غریب اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کی بڑی تعداد ڈاکٹر بننے کے بعد کام کرتی ہے۔ اس ضمن میں وفاقی حکومت نے پنجاب حکومت کو باقاعدہ یہ تجویز دی ہے کہ وہ میڈیکل کالجوں میں لڑکوں کی سیٹیں مختص کرے کیونکہ لڑکے ڈاکٹر بننے کے بعد کام کرتے ہیں۔

 قانون سازی تو یہ کرنی چاہئے کہ ڈاکٹر بننے والی لڑکیاں دور دراز کے دیہات و قصبوں میں جا کر کام کریں تا کہ پاکستان میں زچہ و بچہ کی اموات کی شرح پر قابو پا یا جا سکے۔ قانون سازی تو اس پر ہونی چاہئے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیاں دور دراز کے سکولوں میں جا کر کام کریں تا کہ ہر لڑکی کو تعلیم مل سکے۔ لیکن شاید مغرب کو اس قانون سازی کی سمجھ بھی نہ ہو کیونکہ یہ اس کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ مغرب کے مسائل نہیں ہیں۔ وہاں خواتین پر تشدد ، بچوں پر تشدد اس لئے بڑے مسائل ہیں کیونکہ وہاں شراب عام ہے۔ لوگ گھروں میں رات کو شراب پیتے ہیں اور پی کر تشدد کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ اس لئے مغرب میں خواتین اور بچوں پرتشدد ایک اہم معاشرتی مسئلہ ہے۔

مغرب اور مشرق کی خاندانی روایات میں بھی بہت فرق ہے۔ خاندانی نظام میں بھی فرق ہے۔ شادی کے بندھن میں بھی فرق ہے۔ بچوں کی تربیت کے طریقہ کار میں فرق ہے۔ پھر قانون سازی ایک جیسی کیسے ہو سکتی ہے؟ بہر حال پنجاب حکومت کو یہ بات ماننی چاہئے کہ اس بل کے حوالہ سے عوامی رائے عامہ بھی اتنی مثبت نہیں ہے جتنی سمجھی جا رہی ہے۔

جہاں تک دینی جماعتوں کا تعلق ہے ۔ تو ان کا اس حوالہ سے موقف ٹھیک ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تحفظ نسواں ایکٹ نے دینی جماعتوں کو ایک ایجنڈہ پر اکٹھے ہونے کا سنہری موقع فراہم کر دیا ہے۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اس موقع کو نہایت خاموشی سے متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے لئے بھی استعمال کر لیا ہے۔ جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر منصورہ میں تحفظ نسواں ایکٹ کے خلاف ہونے والے اجلاس نے دراصل متحدہ مجلس عمل کی جماعتوں کو ایک عرصہ بعد دوبارہ اکٹھے ہونے کا موقع دیا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید صرف اس میں ایک اضافہ تھے۔ لیکن ان کو بھی حکومت نے اس قدر دیوار کے ساتھ لگا دیا ہوا ہے کہ شاید وہ بھی اب متحدہ مجلس عمل میں شامل ہونے کا سوچ ہی لیں۔

مولانا فضل الرحمٰن منصورہ پہنچ گئے۔ حالانکہ قاضی حسین احمد کی جانب سے متحدہ مجلس توڑنے اور سید منور حسن کی جانب سے متحدہ مجلس کے خلاف سخت ترین موقف کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کا منصورہ پہنچنا بھی ایک سیاسی معرکہ ہی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن پر منصورہ کے دروازے کھلنے کے بعد متحدہ مجلس عمل کے بھی بند دروازے کھل گئے ہیں۔ مولانا سمیع الحق بھی پہنچ گئے ہیں اور پروفیسر ساجد میر بھی پہنچ گئے ہیں۔ پرو فیسر میر کا بھی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد ختم ہی ہو رہا ہے۔ جب سے انہوں نے پرویز رشید کے خلاف خطرناک بیان بازی کی ہے۔ وہ کنارے لگ چکے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین اہل تشیع کی نمائندگی کے لئے پہنچ گئی ہے۔ اور مولانا شاہ احمد نوارنی کے بیٹے بھی پہنچ گئے ہیں۔ سب پہنچ گئے ہیں۔

حکومت نے دینی جماعتوں کو حلوہ فراہم کر دیا ہے۔ اس لئے وہ حلوہ کے گرد جمع ہو گئی ہیں۔ تحفظ نسواں ایکٹ کے خلاف تحریک کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔ مدرسوں پر پہلے ہی سختی ہے۔ وہ بھی ساتھ ہو نگے۔ اس لئے دینی جماعتیں سمجھ رہی ہیں کہ یہ ان کے پاس ایک سنہری موقع ہے ۔ اور وہ اس سے بھر پور فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ حکومت نے یہ کہہ کر کہ وہ اس ایکٹ میں ترامیم کرنے کے لئے تیار ہے۔ پسپائی شروع کر دی ہے۔ لیکن شاید دینی جماعتوں کو علم ہو گیا ہے کہ حکومت پسپائی اختیار کر رہی ہے۔ اس لئے وہ مکمل سرنڈر سے کم نہیں مانیں گی۔ شاید اس بار مولانا فضل الرحمٰن بھی حکومت سے زیادہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی کو ترجیح دیں۔ کیونکہ انہیں بھی ماضی سے سبق سیکھنا ہو گا۔

مزمل سہروردی


ارب پتی فاشسٹ, مسلم خاتون اور سرتاج عزیز؟

$
0
0

امریکہ کو اپنا جمہوری استحکام ،سیاسی رواداری ، جغرافیائی و سعت و یگانگت  نسل و رنگ سے بالا تر سیاسی نظام اور عالمی امیج کو بنانے اور منوانے میں کئی عشرے لگ گئے۔ مگر ’’ارب پتی فاشسٹ‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ کی سنسنی خیز انتخابی سیاست نے صرف چند مہینوں میں نہ صرف اپنی گرینڈ اولڈ پارٹی (G.A.P) کی تنظیم اور قیادت کو اپنا یرغمال بنا لیا ہے بلکہ ری پبلکن پارٹی کے تمام متوازن قائدین کو بھی اتنا بے بس اور سیاسی طور پر فیصلوں کی قوت سے وقتی طور پر محروم کر رکھا ہے۔

 صرف یہی نہیں بلکہ ڈیمو کریٹک صدارتی امیدوار اور پارٹی قیادت بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ کی انتخابی سیاست میں پیدا کردہ ’’زہریلے ماحول‘‘ سے متاثر ہوئی ہے۔ ری پبلکن صدارتی امیدوار اور اہم ریاست اوہائیو کے گورنر جان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اس زہریلے سیاسی ماحول ‘‘ کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ پارٹی سے نامزدگی حاصل کر پائے یا ناکام رہے۔وہ صدر کا الیکشن جیتیں یا ہاریں۔ انہوں نے امریکہ میں نسلی ،جغرافیائی ،ثقافتی اور سیاسی منافرت کے جو بیج بو دیئے ہیں وہ الیکشن کے بعد بھی آنے والے وقت میں اپنا اثر دکھاتے رہیں گے۔

ہمارے محترم بزرگ مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز تو واشنگٹن میں امریکی میڈیا کو کمال بے نیازی سے ٹرمپ کے اشتعال انگیز بیانات اور انتخابی وعدوں کو پاکستانی سیاسی انتخابی وعدے، سمجھ کر یہ تبصرہ کر کے اسلام آباد چلے گئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اگر صدارتی الیکشن جیت بھی گئے تو پاکستان پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا ۔ کیونکہ الیکشن کے بیانات اور وعدوں سے عملی حقیقت مختلف ہوتی ہے۔
شاید سرتاج عزیز، امریکہ کی انتخابی سیاست میں آنے والے ’’ٹرمپ سونامی‘‘ کی اب تک تباہ کاریوں، مسلم دنیا اور امریکہ کے مسلمانوں کے لئے خوف وہراس اور صدر بن کر مسلمانوں کا داخلہ بند کرنے اور طوفانوں سے دوچار کرنے کی پیشگوئی پر مبنی بیانات پر توجہ نہیں دے سکے۔ سرتاج عزیز میرے بڑے محترم و مشفق اور کرم فرما ہیں مگر ان کا ٹرمپ کے حوالے سے یہ بیان امریکہ کے مسلمانوں بالخصوص پاکستانی امریکیوں کیلئےحیران کن اور حقیقت سے لاتعلق بیان ہے۔ سرتاج عزیز نے تو کم از کم یہ بیان دے ڈالا ہے ورنہ مسلم دنیا کے حکمراں تو خوف سے زبانیں گنگ کر کے خاموشی سے اپنے اقتدار و آمریت کی مدت بڑھانے کیلئے مصروف ہیں۔

ہاں! اپنے مفادات حکمرانی کا تقاضا ہو تو پھر ہمارے مسلمان حکمران اپنے سفارت خانوں کے ذریعے امریکی مسلمانوں کے قائدین کو اپنی پسند نا پسند اور ترجیحات سے مطلع کر کے ووٹ ڈالنے کیلئے دبائو ڈالتے ہیں۔ بش جونیئر کے پہلے صدارتی الیکشن میں یہی کچھ تو ہوا۔ امریکہ میں آباد مسلمان جائز طور پر ٹرمپ کی سیاست سے پیدا شدہ ماحول میں پریشان ہیں لیکن انہیں منظم ہو کر اپنی نئی نسل کی خاطر آگے بڑھ کر منظم انداز میں ایک اقلیت کے طور پر بڑی ذہانت سے اپنا رول ادا کرنا ہو گا ورنہ وہ ٹرمپ کی متعصبانہ سیاست کا پہلا شکار ہوں گے۔ ابھی تک امریکہ میں مسلمان قیادت منظم نہیں ہو پائی۔ وقت کم اور چیلنج تاریخی اور بہت سخت ہے۔

اب اپنے محترم مشیر امور خارجہ اور قارئین کی توجہ کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ کے ایسے بیانات کا مختصر ذکر جو انہوں نے پاکستان مسلم دنیا اور امریکہ کے مسلمانوں کے حوالے سے دیئے ہیں۔ سائوتھ اور مڈویسٹ کی امریکی ریاستوں بشمول ’’بائبل بیلٹ‘‘ کے علاقوں میں ٹرمپ کی مقبولیت اور کامیابی کی ایک بڑی وجہ ٹرمپ کے یہ بیانات بھی ہیں مذہبی انتہا پسند مبلغوں ،نسلی انتہا پسند اور امیگرینٹ آبادی کے مخالفین کی ٹرمپ کے لئے پرجوش حمایت کا ریکارڈ اور مظاہرہ دنیا کے سامنے ہے۔

 لہٰذا ان بیانات کو محض انتخابی سیاسی نعرے سمجھ کر نظر انداز کر نا مناسب نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے بارے میں کہہ چکے ہیں:
1۔ پاکستان کی امداد بند کی جائے تاوقتیکہ پاکستان اپنا ایٹمی اسلحہ ختم نہ کر دے۔
2۔ وہ (پاکستانی) ہمارے دوست نہیں ہیں۔ بہت سے دہشت گرد پاکستان میں ہیں۔
3۔ پاکستان ایک غیر محفوظ کھلا ٹارگٹ ہے.
4۔ امریکہ کو افغانستان میں اپنی فوجیں مزید عرصےکیلئے رکھنا ہوں گی کہ اس کے ساتھ ہی ایٹمی ہتھیاروں والا پاکستان ہے۔ اور ایٹمی ’’ہتھیار گیم‘‘ کو تبدیل کر سکتے ہیں۔
5۔ پاکستان کو ’’چیک‘‘ کرنے کے لئے بھارت سے تعاون لیا جا سکتا ہے۔ پاکستان ایک ’’سیریس پرابلم‘‘ ہے۔
6۔ بھارت بھی ایک ایٹمی ملک ہے مگر اسکی فوج مضبوط ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں ٹرمپ کے متعصبانہ بیانات کی بھرمار کا علم سب کو ہے انہوں نے نہ صرف امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ بند کرنے کا انتخابی وعدہ کر رکھا ہے۔ بلکہ اب اس میں شدت پیدا کرنے کے لئے امریکہ میں مسلمانوں کے لئے خصوصی شناختی کارڈ پہننے کی تجویز، بلا امتیاز دہشت گرد قرار دینے کا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔

حقائق اور ریکارڈ یہ ہے کہ امریکہ میں آباد مسلمان اقلیت وہ کمیونٹی ہے جس میں کرائم کی شرح سب سے کم، تعلیم سب سے زیادہ اور خواتین میں بھی تعلیم کی شرح سب سے زیادہ ہے معاشی طور پر بھی یہ خوشحال اور پرامن کمیونٹی ہے۔ ٹرمپ کے تعصب کا اندازہ ان کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ فلپائن کے صوبہ مورو میں1909میں متعین امریکی جنرل بلیک جیک پرشنگ کے حوالے سے ایک ایسا اشتعال انگیز واقعہ سنایا ہے جس سے خود امریکی مورخ واقعہ انکاری ہیں مگر ٹرمپ کا تعصب ملاحظہ ہو کہ وہ اس غیر مصدقہ واقعہ کو کئی بار عوام میں بیان کر کے اپنی مسلم دشمنی کا اپنے سر پرستوں کو یقین دلا رہے ہیں۔

امریکی جنرل جان جوزف (بلیک جیک) جو فلپائن کے صوبہ مورو کے گورنر بھی رہے جہاں فلپائنی مسلمانوں کی بڑی آبادی تھی اور ہے مسلمانوں کی جانب سے یورش کا جواب دیتے ہوئے 50 مسلمانوں کو گرفتار کیا اور اپنے فائرنگ اسکواڈ کو حکم دیا کہ وہ اپنی پچاس گولیاں سو ر کے خون میں ڈبو کر نکالیں اور پھر ان گولیوں سے فائرنگ کر کے 49 مسلمانوں کو شہید کیا اور ایک مسلمان کو زندہ چھوڑتے ہوئے کہا کہ وہ واپس جا کر یہ واقعہ مورو کے مسلمانوں کے سامنے بیان کرے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ پھر اگلے 25 سال تک مورو کے مسلمانوں کو جرات نہ ہوئی۔ حالانکہ مورو کے مسلمانوں کو سلطنت عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید دوم نے سولو مورو کو خط لکھا تھا کہ وہ امریکیوں سےمزاحمت نہ کریں حالات مسلمانوں کے حق میں نہیں۔ سولو مورو نے سلطان کی بات مان کر ڈپلو میسی کو اپنایا۔

مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ جو کچھ کرنے کا اعلان کر رہا ہے وہ عرب، حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کی بجائے خوف سے آنکھیں بند، ذہن مفلوج اور زبان گنگ کرنے کا کام کر رہا ہے۔ رہی بات امریکہ کے مسلمانوں کی تو ان کے پاس صرف اور صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ پرامن اور مہذب انداز میں امریکہ کے سیاسی نظام کا حصہ بن کر قانون کا پابند شہری ہو کر ایک اقلیت کے طور پر اپنی شناخت اور موقف پر ڈٹے رہیں۔

ٹرمپ کے پیدا کردہ اس’’زہریلے سیاسی ماحول‘‘ میں خود الیکشن لڑنے کے خواہشمند مسلمان اس بار دیگر اقلیتوں مثلاً لاطینی، افریقی اور دیگر اقلیتوں سے تعاون بڑھائیں، ان کے امدادی اداروں سے تعاون اور مشترکہ ایجنڈا اپنا کر دوسروں کا اعتماد بھی حاصل کریں اور اپنی نئی نسل کے لئے مواقع تیار کریں یہ وقت خود میدان میں آگے آ کر کسی سیاسی جنگ کیلئے مناسب نہیں بلکہ خود کو امریکی معاشرے اورسیاسی نظام کا ایک باعزت حصے کے طور سے منوانے کا ہے۔ اسی امریکہ میں ایک بہت بڑی اکثریت ٹرمپ کے ارادوں، بیانات اور فلسفہ کی سخت مخالف ہے۔

سائوتھ کیرولینا میں ٹرمپ کے جلسے میں ا سکارف پہن کر ’’سلام میں پرامن ہوں‘‘ کے نعرے کی ٹی شرٹ کے ساتھ اپنی مسلم شناخت اور مسلمانوں سے امتیازی سلوک کے خلاف بیج لگا کر شریک ہونے والی 56 سالہ مسلم خاتون روز حمید کو سلام کہ جب اسے ٹرمپ کے سیکورٹی والوں نے بلا جواز ہال سے نکالا تو وہ خاموش اور پرامن رہی اور پھر امریکی میڈیا میں انتہائی باوقار انداز سے اپنا موقف پیش کیا اسی طرح شکاگو میں ٹرمپ کی آمد کے خلاف ریلی میں چند مسلمان بچیوں اور نوجوانوں نے بلا اشتعال جس طرح خود کو ہزاروں کے اس اجتماع میں نمایاں اور باوقار رکھا اور اس کا جو اثر ہوا ہے وہی امریکہ کے مسلمانوں کیلئے راستہ ہے ۔ ان پرامن نوجوانوں کو بھی سلام۔

عظیم ایم میاں
 بشکریہ روزنامہ جنگ  
 

 

مودی کو اللہ یاد آ گیا

آسکر تو مل گیا نا

جہاز کی سیڑیاں چڑھنے، اترنے والا مریض پاکستان میں ہی مل سکتا ہے

بہت اچھا ہوا جنرل صاحب چلے گئے

$
0
0

محترم جنرل پرویز مشرف پاکستان کے ایک عام شہری نہیں کہ سویلین حکمران ان سے بے تکلفی کر سکیں۔ جنرل صاحب نے ہمیں یہ بھی یاد دلایا ہے کہ ہماری غلامی جو ہماری نام نہاد آزادی سے پہلے ڈیڑھ سو برس تک جاری رہی صرف اس وقت ختم ہوئی جب ہمارے حاکم تھک گئے اور ان کے حکمران وزیراعظم نے اپنی سامراجی حکمرانی کا مزید بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا تب ہمارے انگریز حکمرانوں نے ہمارے ہاں سے واپسی کا سامان باندھنا شروع کر دیا۔ اور کوئی چالیس ہزار کے قریب کل انگریزوں کا سامان بھی کتنا ہو گا وہ مسافرانہ حکمرانی کرتے رہے۔

بہر کیف عالمی حالات ان کے موافق نہ رہے تو وہ برصغیر کی وسیع عریض سرزمین آزاد کر کے اپنے مختصر سے جزیرے میں لوٹ گئے لیکن اپنی طویل حکمرانی کے دوران انھوں نے ایک کام بڑی احتیاط کے ساتھ کیا کہ یہاں اپنا وفادار ایک ایسا طبقہ چھوڑ گئے جو برطانوی روایات بلکہ زبان اور لباس تک میں اپنے حکمرانوں کی نقل کرتا رہا۔ ہم آزاد ہو گئے لیکن انگریزوں کا تربیت یافتہ طبقہ ہمارا حکمران بن گیا اور اس کے اندر وہ تمام صفات اور عادات اپنی غلامی کا رنگ دکھاتی رہیں۔
انھیں کالا انگریز کہا جاتا تھا جن کی حکومت اپنے سے زیادہ طاقت ور مانتی تھی اور انگریز طرز کے مطابق اپنے ہموطنوں پر حکومت کرتی تھی ان کے ہموطن بھی کسی کی مکمل حکمرانی کو برداشت کرنے کے عادی تھے  چنانچہ وہ انگریزوں کی جگہ اپنے کالے انگریزوں کی غلامی میں خوش و خرم رہنے لگے۔
نئے زمانے کی ہوائیں ہمارے کالے انگریزوں کو پریشان کرنے لگیں اور رفتہ رفتہ وہ کسی نیم جمہوری حکومت پر راضی ہو گئے اور اب تک راضی چلے آ رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہماری جو بھی حکومت آتی ہے وہ جمہوری کم اور آمرانہ زیادہ ہوتی ہے۔ جو مزا کسی آمریت میں ہے وہ جمہوریت میں کہاں جس میں ہر آدمی مداخلت اپنا حق سمجھتا ہے۔

چنانچہ اس عوامی دباؤ سے آزاد رہنے کے لیے انھوں نے بھی اپنے طاقت ور ساتھیوں کا گروہ تیار کیا اور اسے اپنے ساتھ حکومت میں شامل کر لیا۔ کوئی وزیر بنا کوئی مشیر بنا اور کوئی تنخواہ داری پر خوش ہو گیا لیکن ایک مرض کا علاج ایسے حکمرانوں کے پاس نہیں تھا وہ تھی فوج کی بالادستی جس کا ایک نظارہ ہم نے جنرل پرویز مشرف کی مرضی اور آئین کی بے بسی کی صورت میں کیا۔ جنرل نے ایک بار ایک آئین کو توڑا اور اس کے بعد دوسرے آئین کا احترام کیے بغیر وہ آئین کی کسی بھی شق سے آزاد ہو کر بیرون ملک چلا گیا۔

وجہ ان کی بیماری تھی لیکن دبئی پہنچ کر یعنی پاکستان سے دور اور اس کی حکومت سے آزاد ہو کر اس کی بیماری اچانک ٹھیک ہو گئی اور یہ دلچسپ خبر بھی آئی کہ انھوں نے بیماری کا علاج ملتوی کر دیا ہے یعنی اختیار کا یہ عالم کہ بیماری بھی ان کا حکم مانتی تھی وہ اب ایک آزاد زندگی بسر کر رہے تھے۔ دبئی کے ایک فیشن ایبل علاقے میں ان کا فلیٹ ہے جو مالک کی تشریف آوری پر خوش ہے۔ بیمار جنرل جہاز سے اتر کر اپنے گھر پہنچے اور مکمل صحت مند ہو گئے۔

اب انھیں پاکستان کے کسی حکمران اور کسی آئین کا کوئی ڈر نہیں ہے۔ انھوں نے آئین توڑا مگر ان کے طاقت ور سرپرستوں اور ساتھیوں نے کہا کہ آئین کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہوئی اور جنرل صاحب کی طرح صحت مند اور  بحفاظت ہے اور اپنے دوستوں سے ملاقاتیں کر رہے رہا ہے۔ ہماری فوج کے ایک سابق سربراہ نے آئین اور ملکی قانون کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ دنیا کی بہترین فوج جس کی پشت پر ہوا سے کیا پروا۔ آئین وغیرہ ان کے بوٹ کی ایک ٹھوکر بھی برداشت نہیں کر سکتے اور یہی ہوا ہے۔

جنرل صاحب کے باہر جانے کے جو مخالف تھے وہ سب اب خاموش ہیں اور لگتا ہے ان کی مخالفت ایک جعل سازی تھی یا جو کوئی ان کی پشت پر تھا وہ اب توبہ تائب ہو گیا ہے۔ پاکستانیوں کو پتہ چل گیا ہے کہ کون ان کا حاکم ہے اور کسے وہ سیلوٹ ماریں گے۔ آئین وغیرہ کا تکلف اب ختم ہو گیا اور جس میں جتنی طاقت وہ اتنا ہی زندہ اور محفوظ ہے۔

جن لوگوں پر آئین کی حفاظت کی ذمے داری تھی انھوں نے ہی جنرل صاحب کو گارڈ آف آنر دے کر الوداع کیا ہے اس لیے عرض یہ ہے کہ کوئی قائداعظم لاؤ جو آپ کے ملک کے قیام کی طرح آپ کی آزادی کی حفاظت کا سامان بھی کر دے ورنہ یہی کالے انگریز ہی حکمران رہیں گے اور ملک کے ساتھ کھیل کود جاری رہے گا بس رہے نام اللہ کا۔

عبدالقادر حسن


Viewing all 4314 articles
Browse latest View live