Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

نفاذ شریعت سے لبرل ازم تک


تعطیلات کے نقصانات

$
0
0

نومبرکو مصورپاکستان ڈاکٹر محمد اقبال کا دن منایا گیا۔ وفاقی حکومت نے یومِ اقبال کو ہمیشہ کی طرح باوقار طریقے سے منانے کا فیصلہ کیا مگر عام تعطیل کا فیصلہ منسوخ کردیا۔ عمران خان ہمیشہ اصولوں کی سیاست کرتے ہیں، ہر دم کرپشن کے خاتمے اور اچھی طرزِ حکومت کا درس دیتے ہیں،انھیں وزیر اعظم نواز شریف کا یہ فیصلہ پسند نہیں آیا اور صوبہ خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلیٰ کو فوری ہدایت کی کہ 9 نومبر کا دن مختلف ہے ،اس بناء پر پختون خواہ میں عام تعطیل ہونی چاہیے۔

وہ قومی اسمبلی میں اسپیکر کے انتخاب کے لیے ووٹ دینے اسمبلی میں آئے، ووٹ دینے کے بعد علامہ اقبال کا مشہور شعر ’’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘ بے ربط پڑھا اور فرمایا کہ یہ ان کا پسندیدہ شعر ہے۔
وفاقی حکومت کے یومِ اقبال کی تعطیل ختم کرنے کا مختلف صوبوں میں مختلف نوعیت کا اثر ہوا۔ سندھ میں حکومت نے بار بار واضح کیا کہ 9نومبر کو تعلیمی ادارے کھلے رہیں گے مگر سوشل میڈیا پر پہلے تو حکومت کا جعلی نوٹیفکیشن گشت کرتا رہا جس میں عام تعطیل ختم کرنے کا نوٹیفکیشن منسوخ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، وفاقی حکومت نے اس فیصلے کی مذمت شروع کردی۔

اس فیصلے کو تقریباً ملک سے غداری کے مترادف قرار دیا گیا۔ بعض ٹی وی چینلز کو بھی ایک نیا موضوع ہاتھ آگیا۔ ان چینلز کے ٹاک شوز اور دیگر پروگراموں میں تحریک ِانصاف والوں نے اس فیصلے کی خوب مذمت کی، یوں عوام کو گمراہ کرنے کا کوئی موقع ضایع نہ ہوا۔

پاکستان کا شمار دنیا کے غریب ممالک میں ہوتا ہے۔ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارتی ہے۔اس آدھی آبادی کے پاس تعلیم، صحت اور بنیادی ضروریات پوری کرنے کا تصور نہیں ہے۔ یہ لوگ محض خیرات میں ملی ہوئی امداد سے زندگی گزارتے ہیں۔ مہینے کے کچھ دنوں میں کوئی چھوٹا موٹا کام ملتے ہی روزانہ 2 ڈالر سے کم رقم حاصل کرتے ہیں یا تو آبادی کا بیشتر حصہ انتہائی کم آمدنی میں زندگی گزارتا ہے۔

یہ لوگ غیر رسمی صنعت سے منسلک ہوتے ہیں یا عارضی نوعیت کے کام کرتے ہیں۔ شہروں اورگاؤں میں ان کے بچے زیادہ تر مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جہاں رہائش اورکھانا آسانی سے میسر آتا ہے۔ حکومتوں کی کوششوں کے باوجود اسکول جانے والے طلبہ کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہورہا ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کی شرح کم ہے، یوں ملک میں چائلڈ لیبر کی شرح بھی کم نہیں ہوپا رہی ہے۔

بجلی اورگیس کے شدید بحران نے صنعتی ترقی کو تقریباً روک دیا ہے اور دہشت گردی کی صورتحال نے روزگارکے مواقعے کم کردیے ہیں۔ اب ماحولیات میں ہونے والی تبدیلیوں سے ملک کے غریب براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔گزشتہ دنوں صوبہ پختون خواہ، قبائلی علاقوں اورگلگت بلتستان میں شدید بارشوں، بے وقت برفباری اور زلزلے کے جھٹکوں نے ہزاروں افراد کی زندگی کو اجیرن کردیا ہے۔

کراچی میں جون کے مہینے میں ڈیڑھ ہزار افراد کی موت ماحولیات میں ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہوئی اور اس بارے میں توجہ نہیں دی گئی تو اگلے سال کراچی میں گرمیوں کے مہینوں میں پھر قیامت کا سماں پیدا ہوسکتا ہے۔ایک معتبر روزنامہ کی خبر ہے کہ ہر قومی تعطیل کے باعث ملکی معیشت کو 82 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے،تنخواہ دارطبقہ قومی تعطیل کی بھی تنخواہ وصول کرتا ہے لیکن پیداواری اور برآمدی یونٹس نقصان اٹھاتے ہیں۔

ملک کی اس صورتحال کے تدارک کے لیے اچھی طرز حکومت بنیادی شرط ہے مگر برسراقتدار آنے والی حکومتوں کے لیے اچھی طرز حکومت بنیادی ترجیح نہیں ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں توانائی کے بحران کے حل کے لیے ایک نیا فارمولا پیش کیا گیا۔ یہ فارمولا یہ تھا کہ ہفتے کو بھی عام تعطیل کی جائے۔ ماہرین نے بازار سرشام بند کرنے، شاہراہوں پر روشن رہنے والی ہورڈنگز پر پابندی لگانے، سرکاری دفاتر میں صبح 11 بجے تک ایئرکنڈیشنر کے استعمال پر پابندی عائد کرنے اور گریڈ 20 سے کم عہدے کے افسروں کے کمروں میں ایئرکنڈیشنر ہٹانے کے فیصلے شامل تھے۔

ملک بھر کے تاجر سرشام بازار بندکرنے کے خلاف متحد ہوگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے ان کا کاروبار متاثر ہوگا۔ ان تاجروں نے اس بات پر زور دیا کہ کراچی، اسلام آباد اور لاہور میں کاروبار دیر سے شروع ہوتا ہے۔ لوگوں کو اپنے کاموں سے دیر سے فرصت ملتی ہے اس لیے وہ شام کے بعد ہی خریداری کے لیے وقت نکالتے ہیں۔

حکومت تاجروں کے دباؤ میں آگئی۔ اسی طرح سرکاری دفاتر میں کچھ دن تک تو 11 بجے تک ایئرکنڈیشن کے استعمال پر پابندی پر عمل ہوا، پھر سب بھول گئے۔ مگر سرکاری شعبہ میں ہفتے کو تعطیل کے فیصلے پر علمدرآمد شروع ہوگیا۔ یوں اب کئی برسوں سے ہفتے کو تمام دفاتر، بینک اور تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں۔ صرف سندھ میں سرکاری اسکول و کالجوں میں ہفتے کو چھٹی نہیں ہوتی۔ اسی طرح سرکاری اسپتالوں میں بھی کام ہوتا ہے۔ ہفتے کی چھٹی عام آدمی کے لیے عذاب بن گئی ہے۔

سرکاری دفاتر میں صبح10بجے تک کام شروع ہوتا ہے، پھر ظہر کی نماز اور کھانے کے وقت کے بعد بہت سے ملازمین غائب ہوجاتے ہیں۔ چند دفاتر میں 4بجے تک باقاعدہ کام ہوتا ہے۔ جمعہ کا دن تقریباً چھٹی کا دن ہوتا ہے۔ جمعے کی نماز کے بعد کم ہی کام ہوتا ہے۔ بہت سے ملازمین تو جمعے کو اپنے دفاتر میں آتے ہی نہیں ہیں۔ اسی طرح عام آدمی کے لیے جمعرات ہی آخری ورکنگ ڈے ہوتا ہے۔ پھر اگر بدھ، جمعرات اور جمعہ کو تہوارآجائے یا قومی تعطیل ہوجائے تو پھر تقریباً پورا ہفتہ بغیرکام کے گزرتا ہے۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر دیگر شہروں سے آنے والے افراد ہوتے ہیں جنھیں کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور یا کوئٹہ میں ضروری کام کے لیے جانا پڑتا ہے۔ ان لوگوں کے لیے دوبارہ آنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

اس طرح اگلے ہفتے کام کی تکمیل ان کو مالیاتی بوجھ اور سیکیورٹی کے مسائل سے دوچا ر کردیتی ہے۔ کراچی میں وفاقی اردو یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے ایک استاد کاکہنا ہے کہ ہفتے کی تعطیل کی بناء پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے طے کردہ کریڈٹ آورز پورے نہیں ہوتے۔ جمعے کو بہت کم اساتذہ یونیورسٹی آتے ہیں اور جمعے کی نماز کے بعد کلاسوں کے انعقاد کی کوئی روایت نہیں ہے۔اس بناء پرکورس طریقہ کارکے مطابق مکمل نہیں ہوتا ہے۔
اس کا سارا نقصان طلبہ کو ہوتا ہے۔ سندھ حکومت چھٹیاں دینے کا کام فراخ دلی سے کرتی ہے۔ پہلے محرم میں ایک چھٹی ہوتی تھی اب 3 ہوتی ہیں۔ عیدالفطر اور عید الاضحی پر 4سے 5 چھٹیاں ہوتی ہیں۔ اسی طرح مختلف بزرگوں کے عرس کے موقعے پر بھی تعطیل ہونا بھی ضروری ہے۔

وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے اس سال ایک ہی سخت فیصلہ کیا۔ وہ فیصلہ یہ تھا کہ سیلاب کے ممکنہ امکانات کی بناء پر صوبوں کے تعلیمی اداروں میں گرمیوں کی تعطیلات میں 11 دن کی توسیع کی گئی تھی۔ وزیر اعلیٰ نے حکم جاری کیا تھا کہ جو نجی اسکول ان تعطیلات میں کھلا ہوا پایا گیا اس کے مالکان کو گرفتار کرلیا جائے گا۔ اس سال سندھ میں سیلاب نہیں آیا مگر وزیر اعلیٰ نے اسکولوں کو جبری طور پر بند کراکے صوبے میں اپنی رٹ قائم کی۔ اچھی طرز حکومت کے لیے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاستی اداروں میں زیادہ کام کرنے سے عوام کو مدد مل سکتی ہے۔

مذہبی امور کے ماہر پروفیسر سعید عثمانی کا کہنا ہے کہ کسی قومی شخصیت کا دن منانے کے لیے چھٹی ہونا ضروری نہیں، اصولی طور پر اس شخصیت کے کارنامے بیان کرنے کے لیے سیمینار ،کانفرنس اور جلسے منعقد ہونے چاہئیں، یوں قومی شخصیات کے کارناموں کا تنقیدی جائزہ بھی نئی نسل کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔کام کرنے کے لیے کم تعطیلات کا ہونا ضروری ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں جمعے کی تعطیل ختم کر کے اور اتوار کی تعطیل بحال کر کے پاکستان کا بین الاقوامی مارکیٹ سے رابطہ بحال کیا تھا۔ اب اگر حکومت ہفتے کی تعطیل ختم کردے اور قومی تعطیلات کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے قومی کمیشن قائم کرے اور سب اس کے فیصلے کی پابندی کریں تو خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارنے والی آبادی کے لیے کچھ بہتر ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر توصیف احمد خان

جدید منشیات کے سویلین و عسکری استعمالات

$
0
0

لگ بھگ تین ہفتے پہلے بیروت کے رفیق ہریری انٹرنیشنل ایرپورٹ پر اینٹی نارکوٹکس اسکواڈ نے ایک سعودی نجی جیٹ طیارے پر چھاپہ مار کے پچیس بکسوں سے تقریباً دو ٹن ایمفیٹا مائن کیپٹوگون ٹیبلٹس کی کھیپ پکڑ لی
 ۔لبنان میں کیپٹو گون منشیاتی فہرست میں شامل ہے اور لبنانی حکام کے مطابق ملکی تاریخ میں منشیات کی پکڑی جانے والی یہ سب سے بڑی کھیپ سعودی عرب لے جائی جا رہی تھی جس کی بین الاقوامی قیمت تین سو ملین ڈالر کے لگ بھگ بنتی ہے۔گذشتہ سال اپریل میں بیروت کی بندرگاہ سے پندرہ ملین کیپٹوگون ٹیبلٹس پکڑی گئیں۔

مگر کیپٹو گون ہے کیا بلا ؟ اسے سن ساٹھ کے عشرے میں مارکیٹ کیا گیا اور ڈاکٹر اسے بے چینی اور ڈیپریشن میں کمی کے لیے تجویز کیا کرتے تھے۔لیکن انیس سو اسی میں مغربی ممالک نے اسے دواؤں کی فہرست سے خارج کر دیا کیونکہ کیپٹوگون استعمال کرنے والے اکثر مریض عادی ہو جاتے تھے اور علاج مکمل ہونے کے بعد بھی بطور نشہ استعمال کرتے رہتے۔

کیپٹوگون کو بطور نشہ استعمال کیا جائے تو نیند نہیں آتی ، بھوک مرجاتی ہے مگر استعمال کرنے والا خود کو توانا اور خوش و خرم محسوس کرتا رہتا ہے۔چنانچہ لبنان میں انیس سو پچھتر سے انیس سو نوے تک جاری پندرہ سالہ خانہ جنگی کے دوران اکثر متحارب ملیشائیں حشیش کے علاوہ کیپٹوگون کو اسٹیمنا برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرتی رہیں اور لبنان کی وادیِ بقا میں کیپٹوگون تیار کرنے کی غیر قانونی صنعت پروان چڑھی۔
 انیس سو نوے میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد یہ صنعت بھی سکڑتی چلی گئی۔البتہ گذشتہ چار برس کے دوران شام کی خانہ جنگی نے کیپٹوگون کی مانگ کو پھر سے زندہ کردیا۔شامی بھلے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوں لیکن کیپٹوگون  داعش سمیت اکثر لڑاکوں کو محبوب ہے۔البتہ القاعدہ سے جڑے النصرہ فرنٹ کے چھاپہ ماروں میں اس کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

شام کے بعد کیپٹوگون کی سب سے زیادہ کھپت ان  خلیجی ممالک میں ہے جہاں شراب اور دیگر منشیات کی فراہمی خاصی مشکل اور خطرناک ہے۔چنانچہ کیپٹوگون شام سے براستہ لبنان بڑی مقدار میں اسمگل ہوتی ہے۔منشیات و جرائم پر نگاہ رکھنے والے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے کی سالِ گذشتہ کی رپورٹ کے مطابق کیپٹوگون کی پیداوار کی پچپن فیصد کھپت تین ممالک یعنی شام ، اردن اور سعودی عرب میں استعمال ہوجاتی ہے۔

اگرچہ کیپٹوگون کی ایک گولی کی تیاری پر ایک ڈالر سے بھی کم لاگت آتی ہے مگر سعودی عرب جیسے ممالک میں سختی کے سبب اس کی قیمت بیس ڈالر فی گولی تک پہنچ جاتی ہے لہذا طاقتور اسمگلنگ سینڈیکیٹس خوب مال بناتے ہیں۔ سعودی قوانین کے تحت کیپٹوگون کو منشیات کی اس کیٹگری میں نہیں رکھا گیا جس میں ہیروئن ، چرس وغیرہ شامل ہیں اور جن کی برآمدگی کی سزا موت ہے۔ کیپٹو گون کے اسمگلروں کی پکڑ دھکڑ اور کھیپ کی ضبطی ضرور کی جاتی ہے لیکن استعمال کرنے والوں کو جیل میں ڈالنے کے بجائے بحالی مراکز میں بھیجا جاتا ہے۔

سماجی ماہرین کیپٹو گون کی بڑی مقدار کی سعودی عرب میں مقبولیت کی یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ وہاں باقی دنیا کے برعکس سینما اور تھیٹر سیمت ایسی تفریحی سہولتیں میسر نہیں جن کے سہارے نوجوان وقت گذاری کر سکیں۔نوجوان نسل میں بے روزگاری کی شرح بھی تیس فیصد کے لگ بھگ کہی جاتی ہے۔دل کی بھڑاس کھلے عام نکالی نہیں جا سکتی کیونکہ روائتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی حدود و قیود ہیں لہذا نوجوان فرار کے لیے کیپٹوگون سمیت ایسی سکون بخش ادویات کا سہارا لیتے ہیں جو  وقتی خوشی فراہم کرسکیں۔کیپٹوگون کے بارے میں یہ بھی مشہور کیا گیا ہے کہ موٹاپا کم کرتی ہے لہذا گھروں میں بیٹھے بیٹھے فربہ ہو جانے والی خواتین میں بھی استعمال بڑھ رہا ہے۔

جہاں تک جنگجوؤں میں منشیات اور سکون بخش جڑی بوٹیوں اور ادویات کے استعمال کا معاملہ ہے تو عارضی طاقت کے حصول اور محاذِ جنگ پر خود کو پرسکون اور بے حس رکھنے  کے لیے ان کا استعمال ہزاروں برس سے ہے۔
آریائی رتھ سوار دشمن پر ٹوٹ پڑنے سے پہلے خود کو سوم رس پی کر دھت کرلیتے تھے۔چونکہ سوم رس مقدس شراب تھی لہذا پینے کے بعد قتل و غارت بھی مقدس بن جاتی۔شمالی یورپ کے لحیم شہیم وائی کنگ جنگجو دشمن پر ٹوٹ پڑنے سے قبل مسکاریا نامی کھمبیاں چبایا کرتے تھے تاکہ عارضی طور پر اتنے ’’ وحشیا ’’ جائیں کہ حریف انھیں بڑے بڑے فولادی کلہاڑے لہراتے اپنی جانب جتھے کی صورت لپکتے دیکھ کر دم دبا کے سٹک لے۔

جنوبی افریقہ کے زولو ایک مقامی جڑی بوٹی کا پوڈر سونگھنے کے بعد اس قابل نہیں رہتے تھے کہ دشمن کے نیزے اور برچھے کا زخم محسوس کرسکیں۔ لہذا دشمن بالٓاخر ان پاگلوں سے گھبرا کے حوصلہ ہار دیتا تھا۔وسطی امریکا کے ان کا جنگجو دورانِ جنگ چاق و چوبند اور عدو سے خبردار رہنے کے لیے کوکا کے پتے چباتے رہتے۔منشیات کا سہارا تہذیبی ترقی کے ساتھ ساتھ گھٹنے کے بجائے اور بڑھتا چلا گیا اور جدت آتی گئی۔

اس موضوع پر صحافی ضرار کھوڑو کے ایک تحقیقی مضمون  کے مطابق انیسویں صدی میں پرشیا ( جرمنی ) کے سپاہی اپنا جنگی اسٹیمنا بڑھانے کے لیے کوکین سونگھتے تھے۔سکون بخش جڑی بوٹیوں کے ست کی سیرپ اور ٹیبلٹس کی شکل میں صنعتی پیمانے پر تیاری بھی انیسویں صدی کے جرمنی میں شروع ہوئی۔پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ( انیس سو انیس ) یہ ہنر جاپان تک پہنچ گیا۔اور جب دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو جرمنی اور جاپان نے اپنے فوجیوں کو اعصاب پرسکون رکھنے اور اسٹیمنا بڑھانے والی ادویات  ایمفیٹامائنز   کی وافر فراہمی شروع کردی۔

نازی حکومت سپاہیوں کو پرویٹن نامی ٹیبلٹس فراہم کرتی تھی جوفوجی یونٹوں میں پینزر چوکلاد ( ٹینک چاکلیٹ ) کے نام سے مقبول تھی۔جب سوویت یونین پر نازی فوج کشی کو روسی دستوں نے روک دیا تو ایک جرمن فوجی ڈاکٹر نے ڈائری میں لکھا کہ یونٹ کے سب فوجی مارے تھکن کے یکے بعد دیگرے برف پر ڈھیر ہوتے چلے گئے۔ جب پروٹین دی گئی تو آدھے گھنٹے میں ایسے چاق و چوبند ہوگئے جیسے تازہ تازہ محاذ پر پہنچے ہوں۔

جاپانی خود کش پائلٹوں ( کاماکازی ) کو سرفروش مشن پر روانگی سے قبل سکون بخش ادویات کے انجکشن لگائے جاتے۔ فوجیوں ، اسلحہ ساز کارخانوں کے ورکروں اور ملاحوں کو بھی سکون آور ادویات کی سپلائی مسلسل کی جاتی۔ہتھیار ڈالنے کے بعد عام جاپانیوں نے سکون بخش ادویات کے فوجی ذخائر لوٹ لیے کیونکہ ملک گیر غذائی قلت کے سبب ان ادویات کے استعمال سے بھوک مٹ جاتی تھی۔آج بھی جاپان میں سکون بخش ادویات کا بے تحاشا استعمال سنگین مسئلہ ہے۔

سترہ اپریل دو ہزار دو کو افغانستان میں کینیڈا کے ایک فوجی دستے پر امریکی فضائیہ کے ایک ایف سولہ طیارے کے پائلٹ نے غلط فہمی میں حملہ کر کے چار کینڈین فوجی مار دیے۔تحقیقات سے ظاہر ہوا کہ امریکی پائلٹوں کو ڈیکسٹرو ایمفیٹا مائن استعمال کروائی جاتی ہے تاکہ وہ خود کو دباؤ اور تھکن سے آزاد محسوس کرتے ہوئے طویل وقت تک کاک پٹ میں رہ سکیں۔امریکی پائلٹ اس گولی کو اسپیڈ یا گو پلز کے نام سے جانتے ہیں۔ گوپلز کے استعمال سے جسمانی اسٹیمنا بھلے بڑھ جاتا ہے مگر قوتِ فیصلہ بھی متاثر ہوتی ہے۔امریکی فوجیوں کو موڈافنل ٹیبلٹ بھی استعمال کروائی جاتی ہے جسے کھا کے وہ مسلسل اڑتالیس گھنٹے تک متحرک رہ سکتے ہیں۔

سری لنکا میں سابق تامل ٹائیگرز کے بعد افغانستان اور پاکستان میں متحرک خود کش بمباروں کے بارے میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ برین واشنگ کے ساتھ ساتھ انھیں مشن پر جانے سے پہلے مسکن ادویات استعمال کروائی جاتی ہیں تاکہ ذہن یک سمتی رہے اور دوسرا خیال نہ آئے

وسعت اللہ خان

علامہ اقبال کا خطبہ الہ آباد - ایک تاریخی نشان منزل

شکوہ، جواب شکوہ

$
0
0

شکوہ، جواب شکوہ ہو چکا۔ آئی ایس پی آر کے بیان پر حکومتی ترجمان کے محتاط ،مگر سخت جواب نے کئی حلقوں کو حیران کر دیا ہے۔ بعض ایسے بھی ہیں جو صورت حال کو اپنے حق میں کیش کرانے کے لئے من چاہی تاویلیں کررہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے کئی غیر سرکاری اور خودساختہ ترجمانوں میں سے ایک کا کہنا ہے ’’فوج پرعزم دکھائی دیتی ہے کہ براہ راست اقتدار نہیں سنبھالے گی، لیکن اگر اس کا احتجاج بے سود رہا؟ بے حسی اگر اسی شان سے باقی رہی تو ظاہر ہے کہ آویزش بڑھے گی اور کوئی فیصلہ انہیں صادر کرنا ہو گا‘‘۔

اس تجزیے یا اطلاع کو اگر درست مان لیا جائے تو کیا آپشن باقی ہیں؟ کیا پھر سے کوئی دھرنا وغیرہ دلوایا جائے گا؟ بظاہر ایسا دکھائی تو نہیں دیتا۔ حالیہ بیان بازی کے حوالے سے یہ تاثر بھی پایا جارہا ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت کو اب زیادہ کارآمد تصور نہیں کیاجارہا ہے۔ براہ راست بیان جاری کرنے کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کپتان کو اب ’’لنگڑا گھوڑا‘‘ تصور کیا جارہا ہے۔ اگر دھرنا بھی نہیں ہو گا تو کیا محض سیاسی حکومت کے میڈیا ٹرائل کے ذریعے ہی اس کی خبر لی جاتی رہے گی۔ یہ سلسلہ جاری بھی رہا تو حکمرانوں کو کس حد تک دباؤ میں لایا جا سکتا ہے؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ میڈیا کا ایک بڑا اور مؤثرحصہ اسٹیبلشمنٹ کا ماتحت بننے پر تیار نہیں۔
لڑائی آخر ہے کیا؟ وہی سول ملٹری تعلقات کا الجھا ہوا پرانا مسئلہ، جمہوریت کا تسلسل بعض حلقوں کے مفادات کے یکسر منافی ہے۔ سیاسی حکومتیں خواہ کمزور ہی کیوں نہ ہوں اسی انداز میں آگے بڑھتی رہیں تو ہو سکتا ہے کہ کم رفتار سے ہی سہی آئین کی بالادستی یقینی ہونے لگے۔ اس صورت میں من مانیوں کے مواقع محدود ہوتے جائیں گے۔ سو بہتر یہی ہے کہ وقفے قفے سے جھٹکے دئیے جاتے رہیں، لیکن اب شاید آسانی سے ایسا کرنا بھی ممکن نہیں۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ سیاسی جماعتیں یا سول ڈھانچہ غیر معمولی طور پر مضبوط ہو گیا ہے۔ یوں سمجھا جائے کہ حالات کی ستم ظریفی نے طاقتوروں کے لمبے ہاتھوں کو روک رکھا ہے۔کور کمانڈروں کی کانفرنس کے بعد سول انتظامیہ کو پریس ریلیز کے ذریعے گڈگورننس کی ’’ہدایت‘‘ کیوں کی گئی۔ یہ معاملات تو باہمی ملاقاتوں اور اپیکس کمیٹیوں کے ذریعے بھی اٹھائے جا سکتے تھے۔

 کیا عوام کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ ’’ہم ایک پیج پر نہیں‘‘ یا پھر ضرورت محسوس کی گئی کہ ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں کامیابیاں سمیٹنے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ’’ڈوز‘‘ دی جائے، جو بھی ہوا وہ مناسب نہیں تھا۔ سول حکومت کے پاس اور راستہ ہی کیا بچا تھا کہ کھل کر جواب دے۔ سو حکومتی ترجمان نے واضح کردیا کہ تمام ادارے آئینی حدود میں رہیں۔ ہو سکتا ہے کہ حکومتی ردعمل بعض سٹیک ہولڈروں کو گراں گزرا ہو، لیکن اسے یکسر جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ کامن سینس کی بات تو یہ ہے کہ اس مرحلے پر یہ کیسے تصور کر لیا گیا کہ حکومت کی سرعام’’کلاس‘‘ لی جائے گی اور وہاں سے کوئی چوں چراں بھی نہیں کرے گا۔

مانا کہ سول ڈھانچہ بالخصوص دھرنوں کے بعد خود کو بے حد دباؤ میں محسوس کررہا ہے ،لیکن یہ بھی سوچا جائے کہ اگر کسی کو دھکیل دھکیل کر دیوار کے ساتھ ہی لگا دیا جائے تو کسی نہ کسی صورت میں ردعمل تو دے گا، اس معاملے میں ایسا ہی ہوا۔ اب طرح طرح کے تبصرے ہورہے ہیں ،یہ بھی کہا جارہا ہے کہ آپریشن ضرب عضب مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں کرپایا ،سو آنے والے حالات کا اندازہ لگاتے ہوئے کارگل کی طرح یہ معاملہ بھی سول حکومت کے سر پر تھونپنے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن یہ بھی تو سوچا جائے کہ خدانخواستہ ایسی کوئی صورت بنی تو کوئی اور اس کا بوجھ کیوں اٹھائے گا ؟

یہ بات بالکل درست ہے کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن پوری قوم کا مشترکہ فیصلہ تھا اور ہے۔ اس کے نتائج کی ذمہ داری بھی پوری قوم اور تمام اداروں کو لینا ہو گی۔ زمینی حقائق سے تونہیں لگتا ہے کہ کوئی بھی سٹیک ہولڈر اس حوالے سے لاپروائی یا غفلت کا مرتکب ہورہا ہے۔ پارلیمنٹ نے فوجی عدالتیں بنانے کی منظوری دی تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی توثیق کر دی۔ کراچی سے پشاور تک پولیس سمیت تمام ادارے پوری طرح سے برسرپیکار ہیں۔ فوجی آپریشن کا دائرہ وسیع ہوتا گیا حتیٰ کہ سیاسی جماعتیں بھی لپیٹ میں آ گئیں۔ اس سے پہلے صرف مذہبی انتہا پسندوں کو نشانہ بنایا جارہا تھا۔ ان ساری کارروائیوں کے حوالے سے تمام ادارے ایک ہی پیج پر نظر آئے اس سے زیادہ تعاون اور کیا ہو سکتا ہے کہ سابق صدر پاکستان اور سندھ کی حکمران جماعت کا سربراہ مفروری کے عالم میں بیرون ملک مقیم ہے۔ خود سندھ حکومت کے بعض وزراء بھی روپوش ہو چکے ہیں۔

فوجی آپریشن پر پھر بھی زیادہ اعتراضات نہیں اٹھے۔ معاملہ خواہ کوئی بھی ہو اس کی ایک حد تو ہوتی ہی ہے۔ آپریشن بے شک جاری ہے ،لیکن اس کی آڑ میں نظام کو تو لپیٹا نہیں جا سکتا۔احتساب ضروری ،بلکہ لازمی ہے ،لیکن یہ شرمناک حقیقت سب کے سامنے ہے کہ آئین توڑنے سمیت کئی سنگین جرائم کرنے والے جنرل(ر) پرویز مشرف کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکا۔ کرپشن کے مختلف مقدمات میں ملوث فوجی افسروں کو انتہائی معمولی نوعیت کی سزائیں سنا کر انصاف اور احتساب کی درجہ بندی کی گئی۔

 ایسے میں بولنے والی زبانوں کو روک کون سکتا ہے؟ ایم کیو ایم جیسی جماعت کو پارلیمنٹ سے فارغ کر کے جمہوری نظام کیسے چلایا جا سکتا ہے۔ استعفے قبول کرنے کی روش اختیار کر لی جاتی تو سسٹم زمین بوس ہو جاتا۔ بعض چغد یہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ سیاستدانوں کو ملک لوٹنے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے اگر ان کی بات کو درست مان لیا جائے تو اس سوال کا جواب کون دے گا کہ فوجی آمریتوں کے ادوار میں کیا لوٹ مار بند ہو جاتی ہے۔

 خود ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق لوٹ مار کے حوالے سے پاکستان میں جنرل مشرف کا دور بدترین تھا۔ چینلوں پر بیٹھے یہ چغد کیا یہ چاہتے ہیں کہ بڑی سیاسی جماعتوں کی حکومتیں غیرآئینی طریقے سے ختم کر کے اقتدار سیاسی یتیموں اور تانگہ پارٹیوں کے سپرد کردیا جائے۔ ان مبصرین کی رائے مناسب لگتی ہے جن کا کہنا ہے کہ آئی ایس پی آر کو ایسا بیان دینا ہی نہیں چاہیے تھا، انہیں سوچنا چاہیے کہ اگر فوج سمیت دیگر اداروں کی سول قیادت ماتحتوں کے حوالے سے میڈیا میں ہدایات جاری کرے تو انہیں کیسا لگے گا۔ 

اگر سیکرٹری دفاع، وزیر دفاع یا وزیراعظم یہ بیان جاری کریں کہ فورسز اپنی کارکردگی بہتر بنائیں تو ردعمل کیا ہو گا؟ کوئی یہ کہہ دے کہ آپریشن ضرب عضب تو ڈیڑھ مہینے کے لئے تھا، لیکن یہ تو ڈیڑھ سال بعد بھی ختم ہوتا نظر نہیں آرہا تو یہ سچا تبصرہ تکلیف دہ ہو گا یا نہیں؟ مانا کہ قبائلی علاقوں میں پاک فوج بے پناہ قربانیاں دے رہی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق ہر ہفتے 20سے 25افسر اورجوان اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔ مانا کہ ہم ایک بڑی لڑائی میں پھنس چکے ہیں، لیکن اسے ادھورا تو چھوڑا نہیں جا سکتا۔ ایسے میں سب کا بھلا تو اسی میں ہے کہ ایک ہی پیج پر رہا جائے ورنہ گڑبڑ روکنا مشکل ہو گی۔ خصوصاً ان حالات میں کہ افغانستان کے اندر بھی طالبان کے دو بڑے گروپ بن کر آپس میں لڑپڑے ہیں۔ ایسے میں وہ گروپ بھی کمزور ہو سکتا ہے جو پاکستان کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتا ہے۔اگر ایسا ہو گیا تو پھر ہمارے پاس بیچنے کے لئے کیا سودا رہ جائے گا۔حیرانی تو اس بات پر ہے کہ اس سنگین علاقائی منظر نامے کے باوجود جناب وزیراعظم نواز شریف ہولی کے رنگ میں رنگنے کے لئے بے تاب ہورہے ہیں۔

 لبرل ازم کا بھوت ان کے سر پر سوار ہو چکا ہے۔ روشن خیالی کی شعاعیں ان کی آنکھوں سے آشکار ہیں۔ حکیم الامت علامہ اقبالؒ کے یوم ولادت کی چھٹی منسوخ کر کے اپنی نیت بھی ظاہر کر چکے۔ اب یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کسی روز قرارداد مقاصد کو آئین سے نکالنے کی کوئی قرارداد بھی آتی ہی ہو گی۔ اس صورتحال پر عام پاکستانی شدید اضطراب کا شکار ہے۔

 فوج سمیت دیگر اداروں سے بار بار ٹکرانے کا ریکارڈ رکھنے والے نواز شریف اس مرتبہ اپنی نظریاتی اساس کو ہی اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں تو یہ بھی یاد رکھیں کہ پکڑ ہوتے دیر نہیں لگتی۔ آپ کی بدن بولی بتارہی ہے کہ آپ بھی قائدؒ اور اقبالؒ کے پاکستان کو روشن خیال بنانے پر تل چکے ہیں۔ اس حوالے سے آپ میں اور مشرف میں فرق ہی کیا رہ جائے گا؟عرض صرف یہ ہے کہ عمر کے اس حصے میں روشن خیالی سے عشق کرنا کسی بھی طرح سودمند نہیں۔ بڑھاپے کا عشق ویسے بھی کسی عذاب سے کم نہیں۔ آپ کو یقین نہیں آتا تو عمران خان کا حال دیکھ لیں۔

نوید چودھری
 بشکریہ روزنامہ 'پاکستان'

پیرس، لاہور اور وزیرستان

دنیا کے عظیم الشان باغوں میں شمار ہونے والا شالا مار باغ

$
0
0

شالا مار باغ کا شمار دنیا کے عظیم الشان باغوں میں ہوتا ہے۔ مغل بادشاہ شاہجہان نے جب لاہور میں دربار لگایا تو علی مردان خان نے اسے بتایا کہ اس کے پاس ایک ایسا شخص موجود ہے ،جو نہر بنانے میں بڑی مہارت رکھتا ہے۔ شاہ جہاں نے خوش ہو کر حکم دیا کہ دریائے راوی سے ایک نہر نکال کر لاہور کے پاس سے گزاری جائے۔ شاہ جہان نے یہ نہر تیار کرنے کے لیے دو لاکھ روپے دیئے۔ 

ایک سال کے بعد جب شاہ جہاں دوبارہ لاہور آیا تو نہر مکمل ہو چکی تھی۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس نہر کے کنارے ایک وسیع و عریض اور بہت خوبصورت باغ تعمیر کیا جائے اور اس باغ میں بارہ دری، شاہی غسل خانے، فوارے اور جابجا پھلدار درخت لگائے جائیں۔ بادشاہ نے اس کام کے لیے خلیل اللہ خان کو مقرر کیا، لہٰذا خلیل اللہ خان نے ملک کے کئی اور افسروں کو ساتھ لگا کر اس باغ کی تعمیر شروع کر دی۔ باغ کے لیے درختوں کے پودے قندھار اور کابل سے منگوائے گئے۔ یہ باغ شالا مار تھا، جو اسی(80) ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا ہے۔
 اس باغ کا سنگ بنیاد 1637ء میں رکھا گیا۔ اس پر چھے لاکھ روپے کے لگ بھگ لاگت آئی اور یہ ڈیڑھ سال کے عرصہ میں مکمل ہوا۔ شاہ جہاں نے لاہور کے قریب جو باغ لگوایا، اس کا نقشہ کشمیر والے باغ کے مطابق تھا ،لہٰذا اس کا نام بھی شالامار باغ رکھ دیا گیا۔ شالامار باغ تین تختوں پر مشتمل ہے۔ تینوں تختے تین الگ الگ باغ ہیں، جن کے نام فیض بخش، حیات بخش اور فرح بخش ہیں۔ یہ تختے یا باغ ایک دوسرے سے بارہ یا تیرہ فٹ کی بلندی پر واقع ہیں۔ ہر اونچے تختے سے نیچے اترنے کے لیے خوبصورت سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ باغ میں ایک دلکش تالاب بھی بنا ہوا ہے، جس میں بہت سارے فوارے لگے ہوئے ہیں۔

 فواروں کا پانی سنگ مرمر کے حوضوں میں گرتا ہے۔ یہ فوارے گرمیوں کے موسم میں جگہ ٹھنڈی رکھنے کے لیے لگوائے گئے تھے۔ یہاں پر سنگ مرمر کی پانچ خوبصورت بارہ دریاں بنائی گئی ہیں۔ بادشاہ ان بارہ دریوں میں بیٹھ کر برسات کا نظارہ کیا کرتا تھا۔ باغ کے ایک حصے میں، جسے حیات بخش کہتے ہیں۔ سنگ ِمرمر کا ایک بہت ہی خوشنما تخت بنوایا گیا ہے۔ شاہ جہاں اس تخت پر بیٹھ کر اپنا دربار لگایا کرتا تھا۔ کچھ فاصلے پر سنگ ِمرمر کی ایک آبشار بنی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر کی بیٹی زیب النساء چونکہ شاعرہ تھی، اس لیے اکثر اس جگہ بیٹھ کر شعر کہا کرتی تھی۔
 شالا مار باغ میں شاہ جہاں نے اپنے لیے حمام بھی بنوایا تھا۔ حمام کے تین حصے تھے ۔ایک حصے میں دو فوارے اور دوسرے حصے میں حوض ہے۔ اس حوض میں گرم اور ٹھنڈا دونوں طرح کا پانی لایا جاتا تھا۔ سنگ ِمرمر کے کئی طاقچے چراغ رکھنے کے لیے بنوائے گئے تھے۔ جب یہاں چراغ جلائے جاتے تھے، تو حوض میں گرنے والا پانی بارش کا سماں پیدا کرتا اور چراغ کی روشنی بجلی کی چمک کی طرح معلوم ہوتی ۔ بادشاہ اس نظارے سے بہت لطف اٹھاتا تھا۔ باغ فرح بخش، جسے پائیں باغ بھی کہا جاتا تھا، حیات بخش سے نیچے بنا ہوا ہے۔شالا مار باغ میں بہت پھلدار درخت لگے ہوئے ہیں۔ شاہجہان جب لاہور آیا، تو امیروں اور وزیروں نے عرض کی کہ حضور! شالامار باغ مکمل ہو چکا ہے۔ 

بادشاہ باغ میں داخل ہوا، تو شالامار کا حسن دیکھ کر باغ باغ ہوگیا۔ اس وقت شاہجہان کے نائبین نے حاضر ہو کر مبارکبادیں اور سب نے مل کر شاہی حکومت کی بہتری اور برتری کے لیے دعائیں مانگیں۔ اس موقع پر ملک کے بڑے بڑے عالم، فاضل اور بزرگ موجود تھے۔ ان عالموں نے بادشاہ سے کہا کہ ہم نے آج تک ایسا خوبصورت باغ کہیں دیکھا نہ سنا ہے۔ لاہور کا شالا مار باغ دنیا کے عظیم الشان باغوں میں شمار ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب کسی دوست ملک کا سربراہ، بادشاہ یا کوئی نامور شخص پاکستان کے دورے پر آتا ہے، تو لاہور میں شالا مار باغ کی سیر ضرور کرتا ہے۔ اس باغ میں معزز مہمانوں کو شہریوں کی طرف سے استقبالیہ دیا جاتا ہے۔
 ہزاروں شہری معزز مہمان سے ملتے ہیں اور بات چیت کرکے محظوظ ہوتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد دوست ملکوں کے سربراہ اور نامور رہنماء اکثر یہاں آتے رہتے ہیں اور باغ میں استقبالیہ ان کے پروگرام کا لازمی جزو ہوتا ہے۔ معزز مہمانوں کو شالا مار باغ میں دعوت دینے کی رسم انگریزی حکومت کے زمانے میں بھی رائج رہی چنانچہ 1876ء میں شہنشاہ ایڈورڈ ہفتم جو اس وقت پرنس آف ویلز یعنی ولی عہد سلطنت تھے برصغیر کی سیاحت کے سلسلے میں لاہور آئے، تو ان کے اعزاز میں پنجاب کے گورنر نے شالا مار باغ میں رات کے وقت ایک عظیم الشان دعوت کا اہتمام کیا۔ شالا مار باغ کی شاہی حیثیت برس ہا برس پہلے ہی ختم ہو چکی تھی، لیکن اس عوامی سیرگاہ کی حیثیت لازوال ہے۔ 

باغ کی سیر کرنے کے لیے لوگ دور دراز سے آتے ہیں۔ بہار کے شروع میں یہاں میلہ چراغاں بھی لگا کرتا تھا، جو پنجاب کا سب سے بڑا میلہ خیال کیا جاتا ہے۔ اب یہ میلہ باغ کے باہر لگتا ہے۔ یہ باغ مغل بادشاہوں کی عظمت کی منہ بولتی تصویر ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اس کو عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس کی بقاء اور تحفظ کے لیے خصوصی مہم شروع کر رکھی ہے۔ 

شیخ نوید اسلم
 پاکستان کے آثارِ قدیمہ
 
 

زین قتل کیس، ملزمان طاقتور ہیں اکیلی نہیں لڑ سکتی : والدہ

$
0
0

  رواں سال 2 اپریل کی ایک عام سی رات تھی جب لاہور میں کیولری گراؤنڈ کے علاقہ میں معمولی سی بات پر جھگڑا شروع ہوا، اس جھگڑے میں ایک امیر زادے کی گاڑی کا شیشہ ٹوٹ گیا اور اس ٹوٹے شیشے کا بدلہ لینے کیلئے اس امیر زادے نے اپنی گاڑی سے گن نکالی اور ایک بے گناہ غریب لڑکے کو گولیوں سے چھلنی کر دیا، چونکہ جھگڑے کے وقت ایک مجمع اکھٹا تھا اور سب نے اپنی آنکھوں سے یہ پورا واقعہ دیکھا، واقعے کے بعد بیشتر لوگ وہاں سے فرار ہوگئے، ابھی اس امیر زادے کا ڈرائیور اور گارڈ وہیں موجود ہی تھے کہ پولیس آگئی اور گارڈ کو گرفتار کرلیا۔ جس کلاشنکوف سے فائرنگ ہوئی تھی، وہ بھی جائے وقوعہ سے قبضہ میں لے لی گئی۔ قتل ہونے والے لڑکے کی شناخت 15 سالہ زین کے طور پر ہوئی جو نویں جماعت کا طالبعلم تھا اور اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔  

ذرائع ابلاغ سے لے کر سوشل میڈیا تک اس قتل کی بازگشت سنی گئی، اِس پر پولیس کچھ فعال ہوئی اور اِس امیر زادے کا پیچھا کرتے کرتے خوشاب تک جا پہنچی جہاں سے اُسے گرفتار کرلیا گیا۔ اِس امیر زادے کی شناخت ’’مصطفی کانجو‘‘ کے نام سے ہوئی اور یہ سابق وزیر مملکت ’’صدیق کانجو‘‘ کا صاحبزادہ تھا۔ روایتی طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے پہل مصطفی کانجو اپنے اس فعل سے انکاری رہا۔ پھر اس نے پینترا بدلا اور معاملہ اپنے سیکورٹی گارڈ پر ڈال دیا کہ زین سیکورٹی گارڈ کی فائرنگ سے ہلاک ہوا (یہاں پر مصطفی کانجو نے یہ اعتراف کرلیا کہ زین اسی کے اسکواڈ کے ہاتھوں قتل ہوا تھا، اب صرف یہ طے ہونا باقی تھا کہ کس کی بندوق سے نکلنے والی گولیاں لگنے سے زین کی ہلاکت ہوئی) پولیس نے مصطفی کانجو کو ریمانڈ پر لیا تو نازو نعم سے پلا یہ لڑکا چند دن بھی جیل کی مہمان نوازی برداشت نہ کر سکا اور چند ہی دنوں میں اعترافِ جرم کر لیا کہ
 زین کو میں نے ہی قتل کیا تھا، میں غصے میں بدحواس ہوگیا تھا، میرا ارادہ زین کو قتل کرنا نہ تھا اور نہ ہی میں زین کو زخمی کرنا چاہتا تھا، میں ہوائی فائرنگ سے اسے وہاں سے بھگانا چاہتا تھا مگر نجانے کس طرح گولیاں سیدھی نکلیں اور اس کے جسم میں پیوست ہوگئیں‘‘۔
اسی دوران فنگر پرنٹس رپورٹ میں بھی کلاشنکوف پر موجود نشانات مصطفی کانجو کی انگلیوں کے نشانات سے مل گئے جس سے تصدیق ہوگئی کہ فائرنگ خود مصطفی کانجو نے ہی کی تھی۔

ایک عام آدمی کی نظر سے تو کیس یہیں پر ختم ہوجاتا ہے کہ جب ملزم اعترافِ جرم کرلیتا ہے، آلہِ قتل پر اس کی انگلیوں کے نشانات مل جاتے ہیں اور جائے وقوعہ پر موجود درجنوں لوگ اس کی شناخت کرلیتے ہیں مگر قانونی موشگافیاں جاننے والے سب چور راستوں سے واقف تھے، لہٰذا انہوں نے یہیں سے اپنا اصل کھیل شروع کیا۔ سب سے پہلے انہوں نے مخالفین کو یعنی زین کے گھر والوں کو دھمکانا شروع کیا۔ انہیں فون کیے گئے، ڈرایا گیا، حتیٰ کہ بیٹیوں کو اٹھانے تک کی دھمکیاں دی گئیں مگر پولیس بھی سوئی رہی اور قانون بھی جامد رہا، البتہ مدعی ڈٹے رہے اور پیشی پر پیشی، تاریخ پر تاریخ مگر کیس آگے بڑھتا رہا۔

پھر اس کیس کو کمزور بنانے کیلئے دوسرا وار کیا گیا اور گواہان کی بولیاں لگنا شروع ہوئیں اور آہستہ آہستہ سب گواہ ’’خرید لیے گئے‘‘ اور معذرت! میں جذبات کی رو میں بہہ گیا، میڈیا اطلاعات کے مطابق سب گواہ ’’منحرف‘‘ ہوگئے اور مصطفی کانجو کو پہچاننے سے انکار کردیا، حتیٰ کہ زین کے ماموں نے بھی بطور مدعی کیس کو کمزور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ (اب جس مقتول کا ماموں ہی قاتلوں کے ساتھ مل جائے اسے انصاف کیونکر مل سکتا تھا) ٹرائل کورٹ کے جج نے مصطفی کانجو کو بے گناہ پایا اور رہا کردیا۔ عدالت نے یہ تو بتادیا کہ مصطفی کانجو نے زین کو قتل نہیں کیا مگر سوال یہ تھا کہ،
 WHO KILLED ZAIN
 DID NO ONE KILL ZAIN

زین قتل ہوا تھا، یہ تو سب جانتے ہیں اگر بالفرض اعترافِ جرم کرنے والے مصطفی کانجو نے اسے قتل نہیں کیا تھا تو پھر کس نے اسے قتل کیا تھا؟ کیس تو ابھی بھی ادھورا ہے، اسی جواب کی تلاش میں غالباً چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے اس پر سو موٹو ایکشن لیا اور جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ تشکیل دیا جس نے گذشتہ روز لاہورمیں زین قتل کیس پر ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف از خود نوٹس کی سماعت کی۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کی جانب سے گواہان کے بکنے کی بات اور مقتول زین کی والدہ کی جانب سے یہ بیان کہ 

’’زین کے ماموں خود اس کیس میں مدعی بنے، میں نے اجازت نہیں دی‘‘۔
نے پورے کیس کو عیاں کردیا۔ باقی جہاں تک عدالتی معاملات اور انصاف کے تقاضوں کی بات ہے تو جو کچھ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ٹرائل کورٹ کے جج کے بارے میں کہا اگر کوئی عام شخص کہے تو یقیناً ساری عمر توہینِ عدالت کے مقدمات بھگتا رہے۔ جسٹس امیر کے ان الفاظ سے کہ 
’’جس جج نے فیصلہ دیا اس نے زیادتی کی، ذیلی عدالت کے مقدمے میں لگتا ہے کہ انصاف نہیں ہوا‘‘۔
جہاں ایک اُمید کی کرن نظر آئی وہیں زین کی ماں کے چند جملوں نے ہر دل کو پارہ پارہ کر دیا۔ وہ الفاظ دکھ، کرب، اذیت اور نااُمیدی و یاسیت کا کھلم کھلا اظہار تھے کہ
’’مجھ میں مقدمہ لڑنے کی سکت نہیں، بیٹے کے قتل اور ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو اللہ تعالی کی رضا سمجھ کر قبول کرلیا‘‘۔

پھر میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ کہنا کہ
’’مجھ پر کسی کا کوئی دباؤ نہیں، امید ہے کہ عدالت انصاف کرے گی، اگر سماعت شروع ہوئی تو پیروی نہیں کروں گی تاہم بیٹے کا قتل معاف نہیں کیا لیکن تنہا کیس نہیں لڑسکتی  

ظاہر کر رہے ہیں کہ اس ماں پر کس قدر بوجھ ہے، اسے بیٹے کے قتل کا کیس واپس لینے کیلئے کس قدر ستایا جا رہا ہے۔ ایک ماں اپنا خون تو معاف کرسکتی ہے مگر اپنی اولاد کے قاتلوں کو کبھی بھی معاف نہیں کرسکتی۔ وہ کیسے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بیٹے کے قاتل کو دندناتا دیکھ سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ پھر کیا وجوہات تھیں کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئی؟ یہ وہی جان سکتا ہے کہ جس کا بیٹا چلا گیا اور اس کے کاندھوں پر دو بیٹیوں کا بوجھ ہو۔ مخالفین طاقتور، با اثر اور حکومت میں ہوں، پیسے کے زور پر گواہان کی بولیاں لگ رہی ہوں اورملزم اعترافِ جرم کے باوجود آنکھوں میں دھول جھونک کر باعزت بری ہوجائیں۔

جہاں تک گواہوں کے بکنے کی بات ہے تو سب سے پہلے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ گواہی کو چھپانا گناہِ کبیرہ ہے اور جھوٹی گواہی دینا تو ساتوں آسمانوں اور زمینوں کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ گواہان کے بکنے میں بھی سب سے بڑا کردار پولیس کا ہے، پہلے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے گواہوں کو تحفظ فراہم کیا گیا تھا، یا انہیں ملزم پارٹی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ جس طرح مرضی انہیں ڈرا دھمکا کر انہیں من پسند بیان دینے کیلئے راضی کرلے؟

جوان بیٹے کا چِھن جانا ایسا دکھ ہے جو لفظوں کی قید سے ماورا ہے، یہ بس محسوس کرنے والا ہی جان سکتا ہے کہ اس پر کیا کچھ بیتا مگر جوان بیٹے کے قاتلوں کو چاہتے ہوئے بھی کیفرِ کردار تک نہ پہنچا سکنا وہ کرب ہے جو دنیا میں رہتے ہوئے بھی کسی جہنم سے کم نہیں ہے۔ آج لوگوں کیلئے تماشا شاید یہیں تک ہو کہ مصطفی کانجو پیسے کے زور پر رہا ہوگیا ہے مگر اُس ذوالجلال کی عدالت میں نہ روپوں کے زور پر کسی کو خریدا جا سکتا ہے اور نہ طاقت کے بل پر کسی کو دھمکایا جاسکتا ہے اور ان پیسے والوں کو انصاف کے ترازو میں زر تولتے ہوئے ڈرنا چاہئے کہ اُس کے میزان میں فرق نہیں آتا اور جب وہ بے سہاروں کا سہارا بنتا ہے تو سب ٹھاٹ پڑے رہ جاتے ہیں۔

رہے عوام تو وہ تو تماشائی ہیں، انہیں کسی سے کیا غرض؟ کل شاہ رخ جتوئی عدالت سے وکٹری نشان بنا کر پیسے کے قالین پر چل کر رہا ہوا تھا، اس سے پہلے ریمنڈ ڈیوس نے پیسوں کے پل سے قانون کا دریا عبور کیا تھا، آج مصطفی کانجو بھی چھوٹ جائے گا، اور پرسوں کوئی اور بگڑا ہوا امیر زادہ اٹھے گا اور ان بھیڑ بکریوں میں سے ایک پسند کرے گا اور اسے مار کر آرام سے قیمت ادا کرنے کے بعد چلتا بنے گا۔ عوام یونہی تماشا دیکھنے میں مصروف رہیں گے پھر کوئی زین مرے گا تو شاید امیرزادوں اور مقتول کے ورثاء کے درمیان ’’گلاب گینگ‘‘ والے یہ ڈائیلاگ ذرا سی ترمیم کے ساتھ سننے کو ملیں گے۔
قتل کے لئے کیا ریٹ دیا ہم نے اس سال؟
پورے 2لاکھ سر
ارے یہ تو مائنر ہے
او! سوری سر، 3لاکھ روپے
آہ ہا! یہ مہنگائی بھی کیا چیز ہے، پھر کوئی قدموں سے چل کر آجائے تو۔۔۔
 لاکھ روپے۔ گن کر پورے 5لاکھ روپے 
منظور ہیں تو بولو، ورنہ ۔۔۔ سُنا ہے تمھاری ابھی دو بیٹیاں بھی ہیں‘‘۔

اویس حفیظ


یورپ‘ عالمی جرائم اور دہشت گردوں کی جنت

$
0
0

پندرہ سال کے کشت و خون اور لاکھوں انسانوں کی لاشوں کے ڈھیر پر کھڑے ہو کر کس قدر ڈھیلے منہ سے ٹونی بلیئر نے کہا کہ عراق میں فوج داخل کرنے پر میں معافی مانگتا ہوں۔ ہمیں غلط اطلاعات دی گئی تھیں۔

یہی کیفیت امریکی انتظامیہ کی ہے جس کا ہر بڑا کہتا پھرتا ہے کہ دنیا صدام حسین کے زمانے میں کس قدر پرامن تھی۔ اسامہ بن لادن کا کس قدر ہاتھ گیارہ ستمبر کے واقعات میں تھا‘ اس کے شواہد آج تک دنیا کے سامنے تو ایک طرف خود امریکی انتظامیہ اور امریکی نظام انصاف کے سامنے بھی پیش نہ ہو سکے لیکن اس کے باوجود افغانستان جیسے بے یار و مدد گار اور بے سروسامان ملک پر آگ اور خون کا عذاب مسلط کر دیا گیا۔ جس وقت گیارہ ستمبر ہوا تھا تو پوری دنیا کے میڈیا پر گفتگو کرنے والے عالی دماغ تجزیہ نگار اور دانشور اور اخباروں میں حالات و واقعات کا جائزہ لینے والے صحافی صرف ایک جانب انگلیاں اٹھاتے تھے اور وہ افغانستان تھا۔

کہتے تھے کہ یہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں۔ اس ملک کو تہس نہس کر دو۔ حالانکہ گیارہ ستمبر میں شریک لوگوں میں سے کسی ایک کا تعلق بھی افغانستان سے نہیں تھا۔ آج پندرہ سال بعد بھی نہ تجزیہ نگاروں کے تجربے میں فرق آیا ہے اور نہ ہی تبصرہ نگاروں کے تبصرے میں۔ مغرب کے حکمرانوں کی منطق بھی وہی ہے کہ یہ سب تو شام اور عراق میں جنم لینے والی دولت اسلامیہ کی وجہ سے ہے اور اگر اسے تباہ و برباد کر دیا جائے تو یورپ اور امریکا امن و سکون کی دوبارہ زندگی بسر کرنا شروع کر دیں گے اور ان کے سروں سے خوف کے سائے ہٹ جائیں گے۔ کیا حیران کن منطق ہے۔

ایک جانب ٹونی بلیئر‘ امریکی اعلیٰ حکام یہ اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگ رہے ہیں کہ اگر ہم عراق پر حملہ نہ کرتے تو آج داعش وجود میں نہ آتی۔ دنیا جہاں کے مبصرین عرصہ عرب بہار سے پہلے کے دنوں کو یاد کرتے ہیں جب لیبیا‘ مراکش‘ تیونس‘ یمن اور شام میں سکون تھا۔ باقی ممالک تو پھر سنبھل گئے لیکن جہاں عالمی طاقتیں حملہ آور ہوئیں وہ ملک ایک زرخیز زمین بن گئے جہاں یہ افراد بدلے کی آگ میں جلتے ہوئے میدان جنگ میں کود گئے۔ اس کی مثال عراق‘ شام‘ لیبیا اور افغانستان ہیں۔

لیکن اس ساری ’’دہشت گردی‘‘ کا تارپود تو پورے یورپ میں پھیلا ہوا ہے۔ جب یورپ کے 23 ممالک سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ داعش کے ساتھ لڑنے جا رہے تھے تو وہ اس تصور سے بخوبی آشنا تھے کہ انھوں نے وہاں امریکا اور یورپ کی اتحادی بلکہ ٹوڈی عراق اور شام کی حکومتوں سے لڑنا ہے۔ یہ سب کے سب یورپی یونین ممالک اور برطانیہ کے شہری تھے۔ یورپ میں کونسا مدرسہ تھا جو انھیں جہاد کا درس دیتا تھا۔ کیا وہاں بھی کوئی شمالی وزیرستان تھا جہاں ان کے ٹریننگ کیمپ کھلے ہوئے تھے۔ کیا یورپ کے ممالک میں کالعدم تنظیمیں تھیں جو ان لوگوں کو منظم کرتی تھیں۔
یہ سب تو دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے پڑھے ہوئے نوجوان تھے جنھیں سیکولر نظام تعلیم نے مذہب سے نفرت کی لوریاں سنائیں تھیں۔ یہ سب ایسے یورپ کے ممالک میں نکل کر عراق اور شام کی جانب گئے جیسے وہ دولت اسلامیہ کے قیام کا مدتوں سے انتظار کر رہے تھے۔ آج یہ منطق پیش کی جاتی ہے کہ یہ وہاں سے جہادی جذبے کے ساتھ دہشت گردی کی تربیت لے کر آئے ہیں لیکن فرانس میں پیرس کے حملے سے پہلے کہا جاتا تھا کہ یورپ سے گئے ہوئے مجاہدین داعش کو ساری ٹیکنالوجی سکھا رہے ہیں اور داعش کا طرز حکومت اور لڑائی کا اندازہ ان یورپی مجاہدین کی وجہ سے انتہائی بہتر طور پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے اور اس پر فتح حاصل کرنا دن بدن مشکل ہو رہا ہے۔

پیرس حملے نے ایک ایسی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ جس کے تصور سے ہی یورپ کے تمام ممالک کانپ رہے ہیں لیکن وہ اس حقیقت کا اعتراف نہیں کر رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب یورپ کے جہادی گروہوں کا ایک مضبوط نیٹ ورک وجود میں آ چکا ہے اور اسے کسی بھی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں۔ موجودہ پیرس حملہ بیلجیئم کے اندر موجود وہاں کے شہریوں کے ایک نیٹ ورک نے کیا اور اس کی تمام منصوبہ بندی فرانس کے شہریوں کی مدد سے ہوئی۔ بیلجیئم کی حکومت کے مطابق اس وقت 494 بیلجیئم کے شہریوں کا ایک گروہ ہے جو دہشت گردی کے لیے منظم ہے۔ ان میں سے 272 داعش کے ساتھ لڑنے گئے ہیں۔

134 واپس آ چکے ہیں۔ 75 کے بارے میں خبر ہے کہ وہ وہاں لڑتے ہوئے جاں بحق ہو گئے جب کہ  13 نوجوان ایسے ہیں جو بیلجیئم سے شام کے لیے روانہ ہوئے لیکن وہاں پہنچے نہیں۔ پیرس کی پولیس موقع واردات پر موجود ایک گاڑی میں پائی جانے والی ٹریفک چالان کی رسید سے صرف پتہ کرنے کے لیے بیلجیئم پہنچی کیونکہ یہ چالان وہاں سے کٹا ہوا تھا‘ تو حیران رہ گئی۔ ان کے لیے یہ کس قدر حیران کن تھا کہ وہاں میڈ ان یورپ خود کش جیکٹوں سے لے کر بلقان کی ریاستوں سے صرف تین سو یورو میں کلاشنکوف مل جاتی ہے اور یہ تمام کے تمام یورپی جہادی اسلحہ چلانے اور فن سپہ گری اور گوریلا جنگ کے ماہر ہیں۔ انھیں یہ سب کسی مدرسہ نے نہیں سکھایا بلکہ انھوں نے انٹرنیٹ اور دیگر کتب سے خود یہ معلومات حاصل کیں۔

یہ سب کے سب ایک شخص خلیفہ ابراہیم کی ٹیم ہیں جس کے بارے میں ابھی تک صرف اتنی اطلاعات میسر ہیں کہ وہ یورپ کے کسی ملک کا پیدائشی شہری ہے۔ فرانس کا ادارہ  ان تمام یورپی جہادیوں کے سوشل نیٹ ورک تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ عبدالماجد الصبور اور ابو عمر المالکی جیسے چہرے ان کو نظر آتے ہیں جو ان کے یورپی کلچر میں پلے بڑھے ہیں۔ انھی کی زبان اور انھی کا محاورہ بولتے ہیں اور مسکراتے ہوئے مختلف سوشل میڈیا پر انٹرویو دے رہے ہوتے ہیں، یہ کون ہیں، کہاں ہیں کیا کر رہے ہیں اور کب سے کر رہے ہیں، ان سوالوں کا جواب ابھی تک یورپ کے کسی ملک کے پاس نہیں ہے۔

لیکن وہ سب ان لوگوں سے خوفزدہ ہیں کیونکہ یہ اس معاشرے میں اجنبی نہیں۔ یہ سب جانتے ہیں۔ وہ واقف ہیں کہ کہاں کیسے اور کس طرح حملہ کیا جاتا ہے، پولیس سے چھپا جاتا ہے اور کیسے ایک عام شہری کی طرح ہجوم میں گم ہوا جا سکتا ہے۔ تفتیش والے حیران ہیں کہ تمام گواہان کہتے ہیں کہ حملہ آور ایک مرسیڈیز کار میں سوار آئے اور مرسیڈیز کار کسی کیمرے میں نظر نہیں آ رہی۔ یعنی ان لوگوں کو کیمروں کے مقام کا بھی بخوبی اندازہ ہو گا۔ فرانس کے حکام کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اس نیٹ ورک میں پانچ کے قریب نوجوان ہیں جو کسی بھی جگہ اور کبھی بھی حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن تمام یورپی ممالک کو ملایا جائے تو ان کی تعداد ہزاروں میں بنتی ہے۔ نہ یہ طالبان کی طرح پگڑیاں پہنے ہوئے ہیں اور نہ ہی داش کی طرح راکٹ لانچر کندھوں میں اٹھائے ہوئے ہیں۔ یہ سب تو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔

یورپی لباس پہنتے ہیں، ایسا ہی کھانا کھاتے ہیں، وہی زبان اور محاورہ استعمال کرتے ہیں۔ ان میں مسلمان ملکوں سے ہجرت کر کے آنے والے بھی ہیں اور یورپ کے نو مسلم بھی۔ یہ سب سوچ سمجھ کر اس جانب آئے ہیں۔ وہ انتقام ہو یا کوئی اور جذبہ لیکن یہ سب یورپ کے ممالک کے حکمرانوں اور عوام سے ان کے مظالم کی وجہ سے نفرت کرتے ہیں۔ صرف پیرس واقعہ کو لے لیں، جہاں یہ بیلجیئم میں بنائے جانے والے منصوبے سے پردہ اٹھاتا ہے وہاں یہ بھی راز کھلتا ہے کہ وہ تین بھائی جو اس سارے حملے کے ماسٹر مائنڈ تھے وہ الجزائر سے خاندانی تعلق رکھتے تھے۔ میں الجزائر کی کئی سو سال پرانی تاریخ میں نہیں جاتا، جب فرانس نے اس پر قبضہ کیا تھا۔ صرف چند دہائیاں پہلے 1991ء میں جب الجزائر کے الیکشن کے دو مرحلوں پر اسلامک فرنٹ کو اکثریت حاصل ہو گئی تھی تو یقین تھا کہ تیسرے مرحلے میں جمہوری طور پر ایک اسلامی حکومت بن جائے گی۔

فرانسیسی افواج الجزائر میں داخل ہوئیں۔ جنگی جہازوں نے بمباری شروع کی اور لاکھوں انسانوں کا مقتل  اس ملک کو بنا دیا گیا۔ دنیا کو نہ جمہوری طور پر قائم ہونے والی اسلامی حکومت چاہیے اور نہ ہی اسلحے کے زور پر قائم ہونے والی دولت اسلامیہ تو پھر کیا چاہیے جو چاہیے وہ تو شاید نہ ملے لیکن اب یورپ کا مقدر اپنے ہی گھر میں لڑنا ہے۔ اب ملک تباہ کر کے معافی مانگنے کے زمانے گزر گئے۔ اب اپنے گھروں میں لگی آگ کو بجھاؤ، یورپ میں موجود نیٹ ورک سے نبرد آزما ہو جاؤ پھر دنیا کو طعنہ دینا کہ کہاں دہشت گردوں کی جنت ہے۔ پہلے اپنے ہاں کی دہشت گردوں کی جنت کا مزہ تو چکھ لو۔

اوریا مقبول جان


اشتیاق احمد ایوارڈ کے محتاج کیسے گۓ ؟

سب دھوکا ہے

$
0
0

پاکستان کے فوجی حکمرانوں کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کی اتنی ضرورت نہیں تھی جتنی غیر جماعتی بلدیاتی اداروں کی۔ تا کہ ایک احسان مند تابعدار متوازی قیادت قومی و صوبائی سیاست پر عشروں سے قابض سیاسی مگر مچھوں کے مقابل اتاری جا سکے اور یہ بھی اندازہ ہوتا رہے کہ نچلی سطح پر عام آدمی فوجی حکمرانوں کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔ جواز یہ پیش کیا گیا کہ جب تک نچلی سطح پر جمہوری کلچر پیدا نہیں ہو گا تب تک قومی و صوبائی اسمبلی کے پتوں کو پانی دینے سے کچھ حاصل نہ ہو گا اور جمہوریت کی روح اوپر کے دو پنجروں میں ہی پھڑپھڑاتی رہے گی اور ووٹر صرف وہ اے ٹی ایم مشین بنا رہے گا جس سے اوپر کے دو بادلوں ( مرکز اور صوبہ ) پر رہنے والے مقتدر خاندان حسبِ ضرورت و منشا ووٹ بینک سے نوٹ نکالتے رہیں۔

ہر فوجی دور کے بعد جب جب بھی سیاسی حکومتیں آئیں انھوں نے بلدیاتی اداروں کو فوجی ادوار کی باقیات سمجھ کر فوجی حکمرانوں کا بلدیاتی نظریہ دانستہ یا نادانستہ طور پر درست ثابت کیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دو تہائی اکثریت سے آنے والی حکومتوں سے بھی جب بلدیاتی سطح تک اختیارات کا بٹوہ ڈھیلا کرنے کا مطالبہ کیا جاتا تو یا تو بات بدل دیتے یا اس طرح کی بہانہ سازیوں پر اتر آتے کہ ’’ابھی مناسب وقت نہیں آیا، کروا لیں گے جلدی کیا ہے، آپ کو آخر اتنی دلچسپی کیوں ہے بلدیاتی نظام سے۔ اس ملک میں اور بھی تو مسائل ہیں وغیرہ وغیرہ وغیرہ 

مجھ جیسوں کو آج بھی حیرت ہے کہ جمہوریت پسندوں کو جب بلدیاتی نظام سے اتنی ہی چڑ تھی تو انھوں نے انیس سو تہتر کے آئین میں لوکل گورنمنٹ کے قیام کے لیے خود کو پابند کیوں کیا اور جب پابند کر ہی لیا تو پھر یہ آئینی ذمے داری پوری کیوں نہ کی۔ وہ تو بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے الیکشن کمیشن اور منتخب صوبائی حکومتوں کو گردن سے پکڑ کے اڑسٹھ برس میں پہلی بار بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر مجبور کر دیا۔

یہ وہی صوبائی حکومتیں ہیں جنہوں نے ہمیشہ بین کرتے ہوئے زانو پیٹے کہ پاکستانی فیڈریشن کا بس نہیں چلتا کہ وہ صوبوں کو بالکل بے دست و پا کر کے رہے سہے اختیارات بھی اپنے ہاتھوں میں جمع کر لے۔ جب تک مرکز سے صوبوں کو اختیارات و وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو گی تب تک نہ انصاف ہو گا اور نہ ہی صوبوں کی اختیاراتی و مالیاتی بے بسی دور ہو گی اور نہ ہی یکسوئی سے ترقی ہو گی۔ خدا خدا کر کے زرداری حکومت نے متفقہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کا یہ رونا بھی کسی حد تک ختم کر دیا۔

 لیکن ہوا کیا؟ صوبوں نے مرکز سے ملنے والے اختیارات اپنے پاس رکھ لیے۔ اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے چار برس بعد بس اتنا فرق پڑا کہ پہلے اختیارات کے خزانے پر مرکز کا چوکیدار بیٹھا ہوا تھا اب اس خزانے پر چار اور چوکیدار بھی موٹا ڈنڈا لے کے بیٹھ گئے ہیں۔ جیسے مرکز صوبوں کو ترساتا تھا اب صوبے بلدیاتی اداروں کو اسی طرح ترسانے کا لطف لے رہے ہیں۔

یقین نہ آئے تو چاروں صوبوں کے بلدیاتی اختیارات کا ڈھانچہ دیکھ لیجیے۔ صوبائی حکومتوں کے مرتب و منظور کردہ بلدیاتی مسودوں میں انتظامی و مالیاتی اختیارات اور محکمہ جاتی فرائض کی تقسیم کا فارمولا دیکھ لیجیے۔ آپ کو یوں لگے گا کہ عوام کو نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کے نام پر بلدیاتی اختیار کی تمام سڑکیں صوبائی گھنٹہ گھر سے شروع ہوتی ہیں اور وہیں پر ختم ہوتی ہیں۔ ایک ہاتھ سے اختیار دیا جا رہا ہے اور دوسرے ہاتھ سے اس کا استعمال روکا جا رہا ہے۔

جس طرح منتخب وفاقی حکومت کی سمت درست رکھنے کے لیے ایک سپر گورنمنٹ (عسکری اسٹیبلشمنٹ) گردن پر گرم گرم سانس چھوڑتی رہتی ہے اسی طرح منتخب بلدیاتی اداروں کے سر پے ڈپٹی کمشنر سمیت صوبائی بیورو کریسی  کی صورت میں ایک سپر گورنمنٹ بلدیاتی اداروں میں صوبائی مداخلت یقینی بنانے اور انھیں جا بجا گدگدی کرنے پر مامور  ہے۔ یعنی بلدیاتی عہدیدار ایک جانب اپنے ووٹروں کو جوابدہ ہیں اور دوسری جانب معمولی مالیاتی و انتظامی نقل و حرکت کے لیے صوبائی مشینری کی خوشامد اور چشمِ ابرو پر نگاہ رکھنے کے بھی پابند۔

صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کو اختیارات کی منتقلی کے تصور سے اس قدر بدظن نظر آتی ہیں کہ خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت نے اپنے بلدیاتی اداروں کے لیے رولز آف بزنس انتخابات سے پہلے بنانے کے بجائے بعد میںانتخابی نتائج کے حقائق کی روشنی میں مرتب کیے ہیں۔ جب کہ سندھ اور پنجاب میں رولز آف بزنس اس وقت بھی زیرِ تعمیر ہیں۔ جب پورے نتائج آ جائیں گے، تمام کامیاب آزاد امیدوار بھی صوبوں پر حکمران جماعتوں کے تانگے میں سوار ہو جائیں گے اور یہ اطمینان ہو جائے گا کہ بلدیاتی ادارے ایک فرمانبردار بہو کے طور پر اپنی پانچ سالہ مدت گزاریں گے تب انھیں صوبائی کچن میں گھس کے مانگے تانگے کے برتن میں اپنی کھیر پکانے کی محدود اجازت دان کر دی جائے گی۔ سرتابی کی صورت میں خرچہ بند، مزید سرتابی کی صورت میں طلاق کی دھمکی۔۔۔

سپریم کورٹ زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتی تھی کہ وہ صوبوں کو بلدیاتی اتتخابات کروانے پر مجبور کر دے۔ سو اس نے مجبور کر دیا۔ والدین بچے کو زبردستی کھانے کی میز پر تو بٹھا سکتے ہیں لیکن کھانا رغبت سے کھانے پر بہرحال مجبور نہیں کر سکتے۔ چنانچہ جو اختیارات صوبوں نے مرکز سے اپنا حق سمجھ کے وصول کیے ان میں سے کچھ اختیارات اگر بلدیات کو منتقل کیے بھی جا رہے ہیں تو احسانیہ بھیک سمجھ کے۔ وہی اختیارات دیے جا رہے ہیں جن سے صوبے کی آمریت پر کوئی فرق نہ پڑے۔ جیسے ہم میں سے اکثر لوگ وہی پرانے کپڑے لتے مستحقین میں بانٹتے ہیں جو گھر والوں کے کسی کام کے نہیں رہتے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کو بے دست و پا رکھ کے دراصل انھی ووٹروں کی توہین کر رہی ہیں جنہوں نے ان حکومتوں کو مرکز اور صوبوں میں اپنے ووٹ کے طفیل عزت بخشی۔ لیکن جب انھی ووٹروں نے بلدیاتی انتخابات کی شکل میں اپنی ہی منتخب اوپر کی حکومتوں سے صرف اتنے اختیارات مانگنے کی خواہش ظاہر کی جن کے ذریعے گلی محلے صاف رہ سکیں، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے بارے میں فیصلہ مقامی سطح پر ہو سکے اور شہری و دیہی ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن پر براہِ راست نگاہ رکھی جا سکے تو ان ووٹروں کو انھی کے ووٹوں کی احسان مند حکومتیں لنڈے کی اختیاراتی اترن تھما رہی ہیں۔

یہ کون سیاستدان ہیں جنھیں کسی بھی قومی و صوبائی انتخاب میں در در جا کے ووٹ کی بھیک لیتے شرم نہیں آتی مگر اس ووٹ کے عوض اپنی تجوری سے اختیارات کے چند بلدیاتی سکے بھی ووٹروں کی جانب اچھالتے ہوئے بے حسی اوڑھ لیتی ہے۔
 کچھ حیا ہوتی ہے، کچھ شرم ہوتی ہے، کوئی تہذیب ہوتی ہے، کوئی تمیز ہوتی ہے‘‘۔ ( قولِ خواجہ آصف کہ جن کی مسلم لیگ ن نے پنجاب کا بلدیاتی قلعہ فتح کر لیا)۔
 پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ پیپلز پارٹی غریبوں اور مظلوموں کے دلوں میں بستی ہے اور باقی جماعتیں ان غریبوں اور مظلوموں کے دلوں میں بسنے کا ڈرامہ کرتی ہیں‘‘۔ ( قولِ آصف علی زرداری کہ جن کی پیپلز پارٹی نے سندھ کا بلدیاتی قلعہ فتح کر لیا)۔

 پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں عوام نے حکومت نہیں کی بلکہ ہمیشہ عوام کے نام پر حکومت کی گئی‘‘۔ (قولِ عمران خان کہ جن کی تحریکِ انصاف نے خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات میں اکثریت حاصل کی)۔
 بلوچستان کے لوگوں سے ہمیشہ سوتیلے پن کا سلوک کیا گیا۔ یہ آخری موقع ہے کہ اس سلوک کو بدلا جائے‘‘۔ (قولِ وزیر ِاعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک)۔

وسعت اللہ خان


سول اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے والوں کو بے نقاب کریں ؟

صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے

آرمی چیف کا دورہ امریکا: کیا کھویا؟ کیا پایا ؟

$
0
0

پاکستان آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا دورہ امریکہ پروٹوکول سے لے کر امریکیوں سے ملاقات ومذاکرات اور طے پانے والے نکات تک ہر لحاظ سے پاکستان کے لئے اہم دورہ تھا، گوکہ پاکستانی سائیڈ سے ان ملاقاتوں اور دورے کی مصروفیات کا ’’سنگل سورس‘‘ یعنی واحد ذریعہ آئی ایس پی آر کے مختصر ٹوئٹ تھے اور باقی ہر طرح کی احتیاط اور خاموشی کی حکمرانی رہی مگر امریکی نظام کی راہداریوں سے واقف چند تجربہ کار پاکستانی صحافی گاہے بگاہے امریکی ذرائع سے خبریں نکالنے میں کامیاب رہے۔

 یہ دورہ تو اب نہ صرف مکمل ہوچکا بلکہ دونوں طرف سے اس وقت تک دورہ واشنگٹن کے حوالے سے رپورٹیں، سفارشات اور عملی اقدامات کے بارے میں تجاویز بھی تیار کرکے بھجوائی جا چکی ہوں گی۔ پاکستان کے عسکری اور سیاسی حلقوں میں ابھی تک اس دورہ واشنگٹن کے مقاصد و نتائج کے حوالے سے ایک بحث جاری ہے کہ’’ کیا کھویا؟ کیا پایا؟‘‘ کسی تمہید کے بغیر میرے مشاہدہ کے مطابق حقائق کچھ یوں ہیں۔

  جن حلقوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ امریکی عسکری قائدین کو اس دورے سے زیادہ دلچسپی نہیں اور جنرل راحیل شریف خود امریکہ آئے ہیں۔ اس بات کی حقیقت جنرل راحیل شریف کو ملنے والے پروٹوکول اور 16 نومبر کو امریکی سی آئی اے کے سربراہ جان برینن سے ملاقات کرکے دورہ واشنگٹن کے آغاز نے ہی واضح کردی۔ امریکی محکمہ دفاع ایشٹن کارٹر،ا سٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں وزیر خارجہ جان کیری، نائب وزیر دفاع، جوائنٹ چیفس آف اسٹاف اور اپنے ہم منصب سے ملاقاتیں ہی یہ واضح کررہی ہیں کہ یہ دورہ صرف پاکستانیوں کے لئے ہی نہیں بلکہ امریکیوں کے لئے بھی اہم تھا۔
 صرف عسکری قیادت ہی نہیں بلکہ سویلین منتخب امریکی قیادت یعنی منتخب امریکی سینیٹرز اور بعدازاں اراکین کانگریس کے ساتھ حساس امور پر بند کمروں میں گفتگو ہوتی رہی۔ نائب صدر جوزف بائیڈن اور وہائٹ ہائوس میں نیشنل سیکورٹی اور ہوم لینڈ سیکورٹی کے اعلیٰ حکام سے بھی ملاقات یہ واضح کررہی ہے کہ امریکی عسکری قیادت، منتخب قیادت اور اوباما ایڈمنسٹریشن کی قیادت نے اس دورے کو نہ صرف اہمیت دی بلکہ راحیل شریف کو ایک ذمہ دار عسکری نمائندہ سمجھ کر مذاکرات کئے ہیں۔

 پاکستانی ذرائع کو چھوڑئیے صرف امریکی ترجمانوں کے بیانات اور تبصروں پر نظر ڈال کر خود رائے قائم فرمائیں کہ یہ دورہ واشنگٹن کیسا رہا؟ پینٹاگون کے ترجمان راجر کیبی نس نے دورے کے آغاز پر کہا کہ امریکی وزیر دفاع، نائب وزیر دفاع اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف (یہ تمام امریکی عہدے پاکستانی چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے سے پروٹوکول میں اعلیٰ ہیں) آرمی چیف آف اسٹاف کا خیرمقدم کرتے ہیں اور دو طرفہ دفاعی تعلقات پر تعمیری گفتگو کے منتظر ہیں۔ ساتھ ہی امریکی ترجمان نے اس بات پر شکریہ ادا کیا کہ جنرل راحیل شریف گفتگو میں ذاتی طور پر حصہ لے رہے ہیں۔

 امریکی سینیٹ کی آرمڈسروسز کمیٹی کے چیئرمین ری پبلکن سینیٹر جان مکین نے ’’جنرل راحیل شریف کے دورے اور تعمیری ملاقات کا شکریہ ادا کیا۔ اُن کی لیڈر شپ اور دہشت گردی کے خلاف پاکستانی فوجیوں کی بہادری اور قربانیوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔میٹنگ افغان صورتحال اور داعش کے خلاف جنگ پر مرکوز رہی اور دونوں ملکوں کے درمیان دہشت گردوں کے خلاف تعاون اور روابط کو مزید بہتر بنانے کے بارے میں بات چیت ہوئی۔‘‘ امریکی نائب صدر جوزف بائیڈن نے جنرل راحیل شریف سے اپنی 19 نومبر کی میٹنگ میں 22 اکتوبر کو وزیر اعظم نواز شریف سے اپنی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے پاک امریکہ تعلقات کی مضبوطی کی کوششوں کا ذکر کیا اور جنرل راحیل شریف کا انسداد دہشت گردی کے لئے امریکہ سے تعاون کا شکریہ ادا کیا۔

بیان کے مطابق امریکی نائب صدر اور جنرل راحیل شریف نے افغانستان میں امن کا اعادہ کرتے ہوئے پاکستان اور افغانستان کے اہم رول کے ذریعے مل کر مصالحت کے عمل میں تعاون اور خطے میں سیکورٹی کو مستحکم کرنے کا وعدہ دہرایا۔‘‘ امریکہ کے فوجی، پارلیمانی اور انتظامی قائدین کے بطور نمونہ یہ بیانات بہت کچھ سمجھنے میں رہنمائی کرتے ہیں کہ اس دورے کے امریکی کتنے منتظر تھے اور پاکستان کے علاوہ امریکہ کو بھی اس دورے کی اتنی ضرورت کیوں تھی؟ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی ملاقات اور ترجمانوں کے بیانات بھی اسی سمت میں ہیں۔
۔ 16نومبر تا 19 نومبر جنرل راحیل شریف کی امریکیوں سے ملاقات کی تفصیل، اتفاق کے نکات اور اختلافی امور کے بارے میں پاکستان کی جانب سے خاموشی اور مختصر ٹوئٹ کے نظام پر عمل کیا جاتا رہا۔ 19 نومبر کی شام پاکستانی سفارتخانے کی عمارت میں منتخب پاکستانیوں کا دعوت ناموں کے ذریعے ایک کمیونٹی ڈنر ہوا جس سے آرمی چیف نے مختصر سا خطاب کیا۔ جبکہ پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی نےجنرل راحیل کا خیرمقدم کیا ۔

 اس اجتماع میں مدعو صحافیوں کو فون، کاغذ پین لانے کی ممانعت اور آرمی چیف کی تقریر بھی ’’آف دی ریکارڈ‘‘ تھی۔ مگر ایک نوجوان رپورٹر نے اخلاقی پابندی کی حدود کو توڑ کر اس تقریر کے نکات کو ’’آن دی ریکارڈ‘‘ کرکے وہاں موجود صحافیوں کے لئے شرمندگی کا ماحول پیدا کردیا۔ کسی بھی صحافی کے لئے ’’آف دی ریکارڈ‘‘ کی پابندی انتہائی ناپسندیدہ ہوتی ہے مگر جب اس اخلاقی پابندی کو تسلیم کرکے شرکت کریں تو پھر اس پابندی کا احترام لازم ہونا چاہئے۔ 

خیر ہم صحافیوں کو شروع ہی سے اس دورے کی کوریج کی پاکستانی حکمت عملی پر شکایت تھی مگر 19 نومبر کے کمیونٹی ڈنر کے ساتھ ہی آئی ایس پی آر کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے اپنی محتاط عملی کے تمام بندھن توڑ دیئے۔ دوران ڈنر صحافیوں کی ٹیبل پر آ کر انہوں نے دورے کے مختلف پہلوئوں پر بات کی، سوال و جواب بھی ہوئے۔ ڈنر کے بعد ایک تفصیلی پریس کانفرنس بھی کی اور مختلف چینلوں کو انٹرویوز بھی دیئے۔ جس سے دورہ واشنگٹن کے مختلف پہلو مزید اجاگر ہوئے۔ ڈنر کے دوران خود آرمی چیف تمام مہمانوں کی ٹیبل پر جا کر ملے۔ اُن کے سوالات کے جواب بھی دیئے، اپنی مختصر اور بامقصد تقریر پر تبصرے بھی سنے۔ جی ہاں اُن کی تقریر کا ایک جملہ سب کی توجہ کا مرکز بنا کہ  میں نے آگے جانے کا راستہ نکالا ہے۔

میری دانست میں انہوں نے یہ بات پاک امریکہ تعلقات میں موجود مسائل و مشکلات کے تناظر میں کہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اُن کے دورے کا گرمجوشی کے ساتھ خیرمقدم امریکیوں نے کیا ہے اور بامقصد بات چیت بھی ہوئی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ خیر مقدمی بیانات، قربانیوں کی تعریف اور دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کا اعادہ اور نوید باہمی عزت و احترام بڑھانے کا کام دیتے ہیں لیکن اصلی اور عملی حقائق کہاں اور کس نوعیت کے ہیں؟

 اس دورے میں کیا معاملات طے پائے ہیں؟ پاکستان نے امریکہ کے کون سے مطالبے تسلیم کیے اور امریکہ نے پاکستان کے کن مطالبات کو تسلیم کیا ہے؟ کیا سمجھوتہ ہوا، کیا ڈیل ہوئی؟ خطے میں پاک بھارت کشیدگی ختم کرنے کے بارے میں کیا طے پایا؟ نیوکلیئر معاملات پر ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اس دورے میں دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعلقات کو فروغ دینے کے بارے میں کیا فیصلے ہوئے؟ ملک کی داخلی صورتحال میں سویلین اور دفاعی قیادت کو ’’ایک پیج پر‘‘ رکھ کر دہشت گردی کے خاتمے کی حکمت عملی کیا ہے؟ عوام میں مقبول آرمی چیف اس حوالے سے عوام کی رہنمائی کریں۔  

عظیم ایم میاں
بشکریہ روزنامہ 'جنگ 

سانحہ پیرس اور مسلمان تارکین وطن

$
0
0

پیرس میں دہشتگردی کی وجہ سے جو سانحہ پیش آیا اس کے اثرات پورے یورپ اور امریکہ میں محسوس کئے جارہے ہیں۔ تارکین وطن کی ہر جگہ شامت آئی ہوئی ہے۔سب سے زیادہ مسلم دشمن انتہا پسند رجحانات امریکہ کے دائیں بازو کے حلقوں میں پائے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود صورت حال ایسی نہیں کہ کہیں بھی کسی مسجد پر حملہ کیا گیا ہو یا مسلمانوں کو گروہی سطح پر پریشان کیا جا رہا ہو۔ اس کےبرعکس پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ 

اگر پاکستان یا دوسرے مسلمان ملکوں میں اقلیتوں کے ساتھ یہی سلوک جاری رکھا گیا تو وہ دن دور نہیں جب دوسرے ملکوں میں بھی ہمارے ساتھ یہی سلوک کیا جائے گا۔اب اگر پاکستان میں ایسے ہی رویے اپنائے گئے تو ہمارے نام نہاد دانشور کس منہ سے ہندوستان کی مودی سرکار کی مسلم کُش پالیسی کے خلاف شور مچا سکیں گے؟

امریکہ میں مسلمان مخالف رجحانات رپبلکن پارٹی کے کچھ صدارتی امیدواروں کے بیانات سے سامنے آرہے ہیں۔ مثلاً صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں سب سے آگے ڈونلڈٹرمپ ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ مسلمانوں کی علیحدہ رجسٹری ہونی چاہئے اور ان کے لئے خصوصی شناختی کارڈ جاری کئے جائیں جس پر ان کا مذہب بھی لکھا ہوا ہو (امریکہ میں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ یا کسی سرکاری دستاویز میں کسی شخص کے مذہب کی نشاندہی نہیں کی جاتی) ۔انتہا پسند ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر وہ صدر بن گئے تو بہت سی مساجد کو تالے لگادیں گے۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے اشتعال انگیز بیانات سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

رپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدواروں میں مقبولیت کے لحاظ سے سیاہ فام بن کارسن دوسرے نمبرپر ہیں۔ وہ نسلی پہلو سے خود اقلیتی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن وہ مسلمان دشمنی میں سفید فام امیدواروں کو پیچھے چھوڑدینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے تو یہ انتہائی بیان دیا کہ امریکی آئین میں یہ بھی شامل کیا جائے کہ کوئی مسلمان امریکہ کا صدر نہیں بن سکتا۔ سانحہ پیرس کے بعد شامی پناہ گزینوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے مزید اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مہاجرین ایسے ہی ہیں جیسے گلی میں کوئی بائولا کتا آجائے اور کوئی ایسے باولے کتے کو اپنے گھر یا گلی میں گھسنے نہیں دیتا۔
رپبلکن پارٹی میں تیسر ے مقبول ترین امیدوار مارکوروبیو ہیں۔ وہ تو جوش خطابت میں یہاں تک بڑھ گئے کہ انہوں نے کہا کہ نہ صرف مذہبی مراکز کو بلکہ ہر اس جگہ (کیفے، ہوٹل وغیرہ) کو بند کر دینا چاہئے جہاں دہشت گردی کی سازش بن سکتی ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلمانوں کے کاروباروں پر بھی پابندی لگا دینی چاہئے۔

 ایک اور صدارتی امیدوار کا کہنا ہے کہ حکومت کو ایسا محکمہ قائم کرنا چاہئے جو اس امر کو یقینی بنائے کہ امریکہ میں ہر شہری عیسائی اور یہودی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کا پابند ہو۔ غرضیکہ صورت حال اس قدر بھیانک ہے کہ اب صدر بش کو معتدل مزاجی کے نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ صدر جارج ڈبلیو بش نے نو گیارہ کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں چند دہشتگرد وں کا بدلہ عام امریکی مسلمان سے نہیں لینا چاہئے۔

پیرس سانحے کے بعد قدامت پرست امریکیوں میں مسلمان مخالف جذبات کافی ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ رپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدواروں کی مسلمان دشمن بیان بازی اسی جذبے کے حامل ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ہے اور وہ اس میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ شامی مہاجرین کے داخلے پر پابندی کی قرارداد کانگریس میں کافی بھاری اکثریت سے منظور کی گئی۔ لہٰذا یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ امریکہ میں چودہ سال پہلے ہونے والے نو گیارہ کے سانحے کے بعد جس طرح کی مسلمان دشمنی کی سطح تھی اس میں اضافہ ہوا ہے:پیرس سانحے کے بعد امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف جوش و جذبات پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔

پیرس سانحے سے ایک دن پہلے بیروت میں داعش نے اسی طرح کی دہشتگردی کی تھی ۔ نائیجیریا میں بوکو حرام (داعش کی اتحادی) اسی طرح کی دہشتگردی کا ہر دوسرے دن ارتکاب کرتی ہے۔ اب مالی کے ایک ہوٹل پر دہشتگرد حملہ کرکے دو درجن کے قریب بے گناہوں کوقتل کردیا گیاہے۔ ہمارے دانشوروں کا یہ اعتراض بھی قابل فہم ہے کہ مسلمان ممالک میں دہشت گردی میں بے گناہوں کی شہادت پر مغرب میں وہ واویلا نہیں مچتا جو پیرس سانحے کے بعد سامنے آیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پیرس سانحے کے بعد فرانسیسی قوم نے جس طرح سوگ منایا اور دہشتگردی کا شکار ہونے والوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا ویسا مسلمان ممالک میں نہیں ہوتا۔مثلاً بیروت سانحے کے بعد لبنان سمیت کتنے مسلمان ملکوں میں اس کا سوگ منایا گیایا اس کے خلاف آواز اٹھائی گئی؟

 بشکریہ روزنامہ 'جنگ

ڈاکٹر منظور اعجاز


ممنون صاحب - سود سے عشق ممنوع ہے

$
0
0

کچھ لوگوں پر لازم ہے کہ وہ خاموش ہی رہا کریں کیونکہ اُن کا بولنا اور منہ کھولنا پرسکون ماحول کو کسی بھی لمحے مکدر کردینے کے لئے کافی ہوتا ہے....اور پھر ویسے بھی جب بولنے کے لئے کچھ نہ ہو تو لازم ہے کہ زبان پر جو’’آئینی قفل‘‘ ہے اُسے ’’چوری‘‘ سے کھولنے کی قطعاً کوشش نہ کی جائے ورنہ سوائے ہزیمت کے کچھ حاصل نہیں ہو گا.... ویسے بھی ہمارے صدر مملکت کی یہی شان ہےکہ وہ ’’چُپ‘‘ رہا کریں

 کیونکہ کسی بھی جانب سے’’چُپ رہو!‘‘ کا تحکمانہ انداز بلاشبہ اُن کی حرمت کے خلاف ہی نہیں بلکہ اُن کے آئینی منصب کی تضحیک کے بھی مترادف ہے....گزشتہ روز عزت مآب نے علمائے کرام کی موجودگی میں ایک کنونشن سے خطاب فرماتے ہوئے فقہ و اجماع کے رہنماؤں سے یہ اپیل کر ڈالی کہ ’’سود کے معاملے میں تھوڑی سی گنجائش پیدا کریں

ممنون صاحب! سود سے عشق ممنوع ہے ، حرام ہے ،گناہِ بے لذت ہے اور اللہ اور اُس کے رسول سے کھلی جنگ کے مترادف ہے ....آج آپ علمائے کرام سے سود کے معاملے میں گنجائش پیدا کرنے کی اپیل کر رہے ہیں اور کل آپ کہیں یہ نہ فرمادیں کہ ’’طبقہ اشرافیہ میں زنا ایک فیشن اختیار کرگیا ہے، اگر علمائے کرام تھوڑی سی گنجائش اِس میں پیدا کرلیں تو کیا ہی اچھی بات ہوگی‘‘....اِسی طرح آپ کے چال چلن اور کھلتے ہوئے ’’کھلن‘‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے عین ممکن ہے کہ بعض شرابی وزرا اور حکومتی زعما آپ کے پاس کسی وفد کی صورت میں آئیں اور آپ سے درخواست کریں کہ ’’حضورِ والا! آپ کی تو بہت سنی جاتی ہے،

 آپ کے التجائی جملوں سے اسلام کی تشریح کرنے والے علمائے کرام کا دل ایسا پگھلا کہ اُنہوں نے سود جیسے معاملے میں ’’اعتدال‘‘ کی راہ نکال لی تو پھر کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم جو کہ ’’ٹُن پارٹیاں‘‘ ہیں اُن کے لئے بھی ایک ایسی ہی اپیل ہوجائے، ہمیں یقین ہےکہ شارح شریعت کے امین اِس پر ضرور غور فرمائیں گے اور ہمیں پینے پلانے کی ’’آفیشل‘‘ سہولت دستیاب ہو جائے گی....
اب اگر آپ یہ فرمائیں گے کہ عامر لیاقت صاحب! میں نے یہ سب تو نہیں کہا تھا، آپ کس قدر مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں....تصورات کی دنیا میں آپ نے نفرت کے کینوس پر میری کتنی کریہہ تصویر بنا ڈالی ہے ، میں نے ایسا کب کہااور میرا یہ مقصد تو ہر گز نہیں تھا....آپ نے بات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا، یہ تو نہایت ہی نامناسب اور غیر اخلاقی انداز ہے وغیرہ وغیرہ.... اور میں جانتا ہوں کہ یہ بات کہنے کے لئے کون فون کرسکتا ہے لیکن اِس سے پہلے ہی میں اِس شکوے، شکایت یا احتجاج کا جواب آپ کو یوں دیئے دیتا ہوں کہ ’’پیارے ممنون صاحب! زنا، شراب اور حرابہ جیسے جرائم ’’سود‘‘ کی گنجائش نکالنے کی درخواست کے سامنے ’’پالنے میں ٹانگیں ہلاتے بچے‘‘ سے بھی چھوٹے ہیں، میں تو حیران ہوں کہ آپ نے یہ انتہائی گری ہوئی بات کہہ کیسے دی؟ سود تو ایسا حرام عمل ہے کہ جس کا سب سے ہلکا درجہ قولِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق ’’اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے‘‘  استغفر اللہ 

اور یہ علما کون ہوتے ہیں گنجائش نکالنے والے؟اور جناب! کیوں نکالیں گے گنجائش؟ اب کیا احکاماتِ قرآنی اور احادیثِ مبارکہ کو ’’بشار الاسد‘‘ کی طرح اپنی مرضی کے مطابق چھپوایاجائے گا؟.... کیا اسلام اتنا ’’غریب‘‘ ہوگیا ہے کہ جس کا جی چاہے اپنی سہولت کے مطابق معاذ اللہ قرآن چھپوالے اور پھر اپنے کیے ہوئے حلال کو حلال اور اپنے کہے ہوئے حرام کو حرام مان کراِسے قوم پر نافذ بھی کردے

جنابِ صدر! آپ نے معمولی بات نہیں کی ہے ، جس کو بھی سود کی تباہ کاریوں اور قرآن میں اِس کی شدید ترین مذمت کے بارے میں علم ہے اُس کا دل دہل کر رہ گیا ہے .... دل تو میرا بھی دہلا ہوا ہے کہ علمائے کرام کیوں خاموش ہیں؟.... کدھر ہے وفاق المدارس؟ کہاں ہیں تنظیماتِ مدارسِ دینیہ؟....مدارسِ اہل سنت سے آواز کیوں نہیں اُٹھی؟ اہلِ حدیث کیوں خاموش ہیں؟ اور اہل تشیع نے چُپ کیوں سادھ لی ہے ؟ کیا سود کی گنجائش پیدا کرنے کی درخواست اُس حلف سے غداری نہیں جو ممنون حسین صاحب نے پاکستان کے صدر کی حیثیت سے ’’خاموش رہنے ‘‘ کے لئے اُٹھایا تھا 

اور اگر کوئی اظہارِ مذمت نہیں کرتا یا صدر صاحب اپنے الفاظ سے رجوع نہیں کرتے توپھر مجھے لکھنے دیجیے، کہنے دیجیے کہ قیامت قریب آن پہنچی ہے ....خدا کی قسم! قرآن حجت ہے اور حدیث اُس کی تشریح، لہذا اللہ اور اُس کے حبیب نے جسے حرام قرار دے دیا وہ قیامت تک کے لئے حرام ہے، جب خلفائے راشدین جیسی عظیم المرتبت ہستیاں جنہیں اُن کی حیات ہی میں جنت کی بشارت عطا فرما دی گئی تھی، وہ گنجائش نہیں نکال سکتیں تو علمائے کرام تو اُن کے در کے بھکاری سے زیادہ کچھ نہیں اور میں علما کی چوکھٹ پر ایک فقیر سے زیادہ کچھ نہیں

صدر صاحب! جو ہستی گنجائش نکال سکتی تھی (صرف سمجھانے کے لئےکہہ رہا ہوں ورنہ میرے آقا تو وہی ارشاد فرماتے ہیں جو اُن پر وحی کی جاتی ہے ) اُسی پیارے مصطفی نے حجۃ الوداع کے موقع پر صاف اور واضح ارشاد فرما دیا تھا کہ ’’ میں تمام سود باطل قرار دیتا ہوں....اور سب سے پہلے اپنےچچا عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے سود کو باطل قرار دیتا ہوں‘‘.... وہ کہ جن کی رضا خدا چاہتا ہے اور وہ کہ جو خدا کی ہی رضا چاہتے ہیں جب اُنہوں نے اِسے ’’جنگ‘‘ قرار دے دیا اور وہ بھی کس سے ؟ دنیا یا دنیا والوں کے قوانین سے سے نہیں بلکہ اللہ اور اُس کے رسول سے جنگ....یعنی بتلانا یہ مقصود تھا کہ تم شاید تمام جنگیں جیت لو لیکن اللہ اور اُس کے رسول سے جنگ کرو گے تو کبھی کامیاب نہیں ہوگےِ

کبھی فلاح نہیں پاؤ گے اور بالآخر ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا کردیے جاؤ گے 
صدر صاحب!فربہ جسم پر شیروانی چڑھا لینے سے اسلام شناخت نہیں بنتا، ملا فضل اللہ لاکھ عمامے پہنے، ابوبکر البغدادی لاکھ بار اپنے آپ کو ابوبکر کہہ کر دین کا اصل محافظ ثابت کرے یا کوئی غلام احمد بن کر ختم نبوت پر وار کرے، سب ایک ہی صف میں کھڑے ہیںکیونکہ اِنہوں نے اپنے فہم ، دیوانگی اور جنون کو اپنے پیروکاروں پر مسلط کر کے اُسے اسلام کا نام دے دیا ہے لیکن اسلام تو وہی ہے جسے اللہ نے پسند کیا ہے اور اللہ نےاُسی اسلام کو پسند کیا جسے اللہ ہی کے حکم سے اُس کے پیارے، اُس کے محبوب اور اُس کے بھیجے ہوئے خاتم نےکہ جن کے بعد بے شک کوئی نبی نہیں انسانوں میں متعارف کرایا اور اپنے اعلیٰ اخلاقِ حسنہ سے اِس طرح پھیلایا کہ بڑائی کی بنیاد امارت و غربت نہیں بلکہ تقویٰ قرار پایا اور وہ بھی ایسا تقوی کہ کوئی دعویٰ نہ کرے کہ ’’میں متقی ہوں‘‘ بلکہ اللہ ہی بہترجانتا ہےکہ کون متقی اور پرہیزگار ہے  

جنابِ صدر! میری آپ سے گزارش بھی ہے اور مشورہ بھی، ملتمس بھی ہوں اور ملتجی بھی کہ آپ اپنے کہے سے رجوع فرما لیجیے اور کیونکہ آپ نے یہ بات ایک کنونشن میں کہی ہے اِسی لئے علما کو اپنے ہاں دعوت دے کر اُن کے سامنے رجوع فرما کر میڈیا پر اِس کی تشہیر کردیں....مجھے یقین ہے کہ آپ نے جو کچھ بھی فرمایا لاعلمی میں فرمایا میں اپنے آقا کریم کی تعلیمات کے مطابق ہر مسلمان کے لئے حسنِ ظن رکھتا ہوں اور یہی حسن ظن آپ کے لئے بھی ہے .... مجھے اُمید ہے کہ آپ اپنے حلف کا پاس رکھتے ہوئے اُن سنگین جملوں سے اعلانیہ لاتعلقی کا اظہار کریں گے جن کے سبب صدارت تو شاید برقرار رہے لیکن رب کی ’’عدالت‘‘ میں کوئی معافی نہیں

 بشکریہ روزنامہ 'جنگ 

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین

صدرپاکستان کا خطاب

ڈونالڈ ٹرمپ کو شرم آنی چاہیے

پاک چائنا اکنامک کاریڈور۔ ایک قابل عمل فارمولا

$
0
0

احمق ہیں وہ لوگ جو چین پاکستان اکنامک کاریڈور کو محض ایک بڑا پروجیکٹ قرار دے رہے ہیں۔ یہ محض ایک پروجیکٹ نہیں بلکہ خطے کے لئے گیم چینجر ہے۔ یہ پاکستان کی سماج، سیاست اور بالخصوص معیشت میں مثبت انقلاب کی کنجی ہے اور اس سے بڑھ کر یہ خود چین کی معیشت اور تزویراتی اہداف کے لئے اب اس کی سب سے بڑی ضرورت اور مجبوری ہے۔ اس پروجیکٹ کا دوست چین اور پاکستان کا دوست اور اس کا دشمن، ان دونوں کا دشمن ہے۔

 جو اس کو متنازع بناتا ہے، وہ ان دونوں ممالک بلکہ خطے کے روشن مستقبل کو متنازع بناتا ہے اور جو اس کی روح کے مطابق اس کی جلد از جلد تکمیل کو ممکن بنانے میں حصہ ڈالتا ہے ، وہ ان دونوں ممالک اور خطے کے عوام کا محسن قرار پاتا ہے لیکن بدقسمتی سے کوئی اور نہیں بلکہ خود موجودہ حکمران، اپنی چند ذاتی خواہشات، علاقائی مفادات اور مخصوص تعصبات کی وجہ سے اسے متنازع بنا کر چین اور پاکستان بلکہ خطے کے ساتھ بے وفائی اور ظلم کے مرتکب ہورہے ہیں۔
 وہ شخص پاکستانی کہلانے کا مستحق ہی نہیں جو اس کے مشرق اور مغرب میں تفریق کرے اور جو اس کے ایک حصے کی خوشحالی کو دوسرے حصے کی خوشحالی نہ سمجھے لیکن وسائل کی تقسیم میرٹ اور برابری کی بنیاد پر نہ ہوتو سگے بھائی بھی الجھ پڑتے ہیں۔ بات بڑی سادہ ہے۔ شمالی اور جنوبی پاکستان، مشرقی سمت میں جی ٹی روڈ کی شکل میں ایک خوبصورت سڑک کے ذریعے بھی ایک دوسرے سے منسلک ہیں، ریلوے لائن کے ذریعے بھی اور اب الحمد للہ موٹروے کے ذریعے بھی لیکن مغرب کی طرف پشاور کو گوادر یا پھر اسلام آباد کو کوئٹہ سے ملانے کی لئے کوئی روڈ نہیں تھا۔
ہندوستان کے ساتھ جنگوں کے دوران جب اس کی فوجوں نے جی ٹی روڈ کو بند کرکے پاکستان کے شمال کو جنوب سے کاٹنا چاہا تو اس وقت مغربی سمت میں انڈس ہائی وے کی تعمیر کا خیال سامنے آیا لیکن آج تک اسے جی ٹی روڈ کی طرح دو رویہ نہیں بنایا جاسکا۔ پاکستان جیسے ملک میں تو کبھی یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ چین کی طرز پر شمال اور مشرق سے وسائل اٹھاکر اسلام آباد سے گوادر تک یا پھر چترال سے گوادر تک موٹروے تعمیر کی جاتی لیکن چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور کی صورت میں یہ موقع میسر آیا تھا کہ چین کے تعاون سے ایسا کیا جائے لیکن افسوس کہ حکمرانوں نے اس حوالے سے غلط بیانی اور جھوٹ سے کام لے کر لاہور کو ہی کاریڈور کا مرکز بنانے کی سازش کی ۔

 جب ہم جیسے چند دل جلوں نے پہلے خلوتوں میں اور پھر جلوتوں میں فریا د شروع کی تو حکومتی ترجمانوں نے روایتی چالاکی سے کام لینا شروع کیا۔ پہلے ایک موقف اپنایا گیا ، پھر دوسرا اور پھر تیسرا۔ جب پلاننگ کمیشن کا ایک ایک جھوٹ اور غلط بیانی دلائل اور شواہد کے ساتھ آشکار ہونے لگی اور بلوچستان یا پختونخوا تو کیا سندھ سے بھی آوازیں بلند ہونے لگیں تو مجبور ہوکر آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی ۔

اس میں وزیراعظم نے قوم اور سیاسی رہنمائوں سے یہ وعدہ کیا کہ مغربی روٹ کو ترجیح دی جائے گی لیکن اب سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی ، نگرانی کے لئے قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی اور اے پی سی میں شریک بیشتر سیاسی قائدین پکار اٹھے ہیں کہ ان سے جھوٹا وعدہ کیا گیا ۔ ایک طرف تو حویلیاںکو موٹروے کے ذریعے سیدھا اسلام آباد میں لاہور موٹروے سے جوڑا جارہا ہے ۔ دوسری طرف رتوڈیروکو گوادر سے موٹروے کے ذریعے ملایا جارہا ہے اور دونوں پر بڑی تیزی کے ساتھ کام جاری ہے لیکن حسن ابدال سے براستہ میانوالی ، ڈی آئی خان  ژوب تاگوادر موٹروے پر رتی برابر کوئی کام نہیں ہورہا ۔

 نہ تو اس کی فیزیبلٹی بنائی جارہی ہے ، نہ اس کے لئے بجٹ میں کوئی رقم مختص کی گئی ہے اور نہ اس حوالے سے کوئی اور سرگرمی نظر آرہی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ ا س وقت لاہور اور اسلام آباد کے مابین جی ٹی روڈ کا فاصلہ بہت کم ہے۔ وہ چار لائن کی سڑک ہے اور نہایت ہموار ہے۔ اس پر موٹروے کی طرح کوئی ٹیکس بھی نہیں لیا جا رہا ہے۔

دوسری طرف اسلام آباد لاہور موٹروے کا فاصلہ اس کے مقابلے میں تقریباً سو کلومیٹر زیادہ ہے اور اس پر کئی سو روپے ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے لیکن لاہور اور اسلام آباد کے درمیان سفر کے لئے ہر کوئی موٹروے کا استعمال کرتا ہے۔ اب جب ایبٹ آباد(حویلیاں)سے لے کر گوادر تک براستہ لاہور موٹروے موجود ہو تو کسی ڈرائیور کا دماغ خراب ہے کہ وہ میانوالی اور ڈی آئی خان وغیرہ کے راستے تنگ سڑک پر گوادر جائے ۔ دوسری طرف اکنامک زونز کے بارے میں بھی ابھی تک پراسراریت اور دوغلے پن سے کام لیا جارہا ہے ۔

 دوسری طرف حکومتی بدنیتی عیاں ہوتے ہی بلوچستان اور پختونخوا میں عوامی غیض وغضب میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اے این پی ، جماعت اسلامی اور جے یو آئی سے بڑھ کر عمران خان صاحب مغربی روٹ کے حق میں میدان میں نکل آئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے بھی وزیراعظم کواس حوالے سے خط لکھ دیا ہے۔ دوسری طرف چینی حکومت کی تشویش رو ز بروز بڑھ رہی ہے ۔ وہاں کی قیادت پروجیکٹ کے متنازع بن جانے سے شدید پریشان ہے ۔

یہاں خود حکمران پاکستان میں چین کی دوستی اور تعاون کو متنازع بنانے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش کررہے ہیں ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ حکمران مغربی روٹ کے حامی سیاسی رہنمائوں کے سامنے غلط بیانی کرکے یہ عذر پیش کررہے ہیں کہ یہ تو چین کا منصوبہ ہے اور یہ چینیوں کی خواہش ہے کہ مغربی کی بجائے مشرقی روٹ کو ترجیح دی جائے۔ اسی طرح یہ غلط بیانی بھی کی جارہی ہے کہ اکنامک زونز اور انرجی پروجیکٹ کی ترجیحات چینی حکومت اور کمپنیوں نے متعین کرنی ہیں۔

 حالانکہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور کوئی بھی ملک ، کسی دوسرے ملک کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ اپنے ہاں ترجیحات کا تعین وہ کرے اور چین تو قطعاً ایسا نہیں کرتا ۔ لیکن اپنی خواہشات کے لئے کئے جانے والے ان اقدامات کے لئے جب حکومتی لوگ وہاں کے عوام اور سیاستدانوں کے سامنے چین کاسہارا لیتے ہیںتو لوگوں کی نظروں میں اس کی حیثیت متنازع بنتی ہے ۔ اس لئے اب چین اور پاکستان کی دوستی کی مٹھاس کو برقرار رکھنے کا بھی تقاضا یہ ہے کہ حکمران اپنی ضد اور چالاکی چھوڑ دیں ۔

 انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ایشوکم ازکم پختونخوا اور بلوچستان میں عوامی سطح پر ذہنوں میں اتر چکا ہے ۔ حکمران اگر خلوتوں میں بلوچ اور پختون رہنمائوں کو منا بھی لیں تو عوام ان کو معاف نہیں کریں گے ۔ اگرتو مغربی روٹ کو اپنایا گیا تو ناراض بلوچوںا ور محروم پختونوں کو بھی راضی کیا جاسکے گا لیکن اگر حکومتی ہٹ دھرمی جاری رہی تو راضی بلوچ بھی ناراض ہوجائیں گے اور پاکستان کے شیدائی پختون بھی بگڑ جائیں گے۔

موجودہ حکمرانوں کے بارے میں پہلے سے یہ تاثر عا م ہے کہ وہ دوستوں کو رسوا کرتے ہیں۔ پہلے ایک برادر عرب ملک جیسے دوست اور ذاتی محسن کو یمن کے معاملے پر پاکستان میں رسوا کیا گیا۔ ترکی کے وزیراعظم اور ان کے خاندان کو پاکستانی طرز سیاست سکھا کر انہیں پاکستان میں متنازع کیا گیا اور اب لگتا ہے کہ چین جیسے غیرمتنازع دوست کی دوستی اورتعاون کو پاکستان میں متنازع بنایا جارہا ہے۔ اس لئے وزیراعظم صاحب لفاظی چھوڑ کر اور سازشی مشیروں سے کم ازکم اس معاملے میں جان چھڑا کر چین پاکستان اکنامک کاریڈور منصوبے کو آئینی فورم یعنی مشترکہ مفادات کونسل میں لے آئیں۔

 مغربی روٹ پر موٹروے کی تعمیر کے لئے فنڈز دے کر اس پر کام کا آغاز کردیں ۔جب تک مغربی موٹروے مکمل نہیں ہوتی تب تک بے شک مشرقی اور وسطی روٹ کو استعمال کیا جائے۔ نگرانی کے لئے تمام جماعتوں کے رہنمائوں پر مشتمل ایسی کمیٹی بنائی جائے جس میں بلوچستان کا حصہ سب سے زیادہ ہو اور جس میں گلگت بلتستان کے نمائندے بھی شامل ہوں۔

 آئینی، اخلاقی اور سیاسی ہر حوالے سے گوادر سے متعلقہ کسی بھی منصوبے پر سب سے زیادہ حق بلوچوں کا ہے۔ اس لئے صرف وزیراعلیٰ بلوچستان اور محمود خان اچکزئی کو رام کرنے پر اکتفا کرنے کی بجائے بلوچستان کے ہر طرح کے رہنمائوں کو ہر حوالے سے اعتماد میں لیا جائے۔ اکنامک زون کم ازکم پچاس فیصد بلوچستان کو دئیے جائیں۔اس کے بعد گلگت بلتستان اور پھر پختونخوا کو حصہ دیا جائے۔ انرجی پروجیکٹس میں سندھ اور جنوبی پنجاب کو ترجیح دی جائے۔

وسطی پنجاب کی ترقی بھی ہماری ترقی ہے لیکن قوم کے وسیع تر مفاد میں اگر اس ایک منصوبے میں وہ قربانی دے دے تو کوئی قیامت نہیں آئے گی ۔ ہاں البتہ ٹھیکے اور کمیشن بلاشبہ حسب منشا وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سرمایہ داروں اور حکمرانوں کو دئیے جائیں ، جن کو نوازنے کے لئے یہ سب جتن کرکے منصوبے کو متنازع بنایا رہا ہے۔ پختون، سندھی اور بلوچ قوم پرستوں نے پچھلے سالوں میں بہت کما لیاہے۔ اس لئے چین پاکستان اکنامک کاریڈور میں وہ ٹھیکوں اور کمیشنوں سے دستبردار ہوجائیں اور باقی حوالوں سے وسطی پنجاب کی مسلم لیگی قیادت قربانی دے دیں۔یہ پاکستان پر بھی احسان ہوگا اور چین پر بھی۔

سلیم صافی
 بشکریہ روزنامہ 'جنگ 

مذاہب کا تصادم اور دہشت گردی - ڈاکٹر عبدالقدیر خان

Viewing all 4315 articles
Browse latest View live