Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

اب اقوام متحدہ میں بھی بد عنوانی


کشمیر: ’معصوموں کا قتل کب تک جائز رہے گا؟‘

$
0
0

 بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں گذشتہ برس تین نومبر کو فوج نے ایک چوکی کے قریب کار پر فائرنگ کی جس میں دو نوجوان برہان اور معراج ہلاک ہو گئے۔
مظاہروں کا دائرہ پھیلنے لگا تو فوج نے دعویٰ کیا کہ اس واقعے کی تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں اور ایک افسر سمیت نو فوجی اہلکاروں کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے ان کے خلاف کورٹ مارشل کی سفارش کی گئی ہے۔ جموں میں تعینات فوج کی شمالی کمان کا کہنا ہے کہ ’اس سفارش پر مشاورت ہو رہی ہے۔‘
  
ایک سال گزرنے کے بعد اس واقعے کے متاثرین کہتے ہیں کہ پولیس، فوج، ریاستی حکومت یا دہلی میں نریندر مودی کی حکومت پر سے ان کا اعتماد اُٹھ چکا ہے۔
15 سالہ برہان کے والد محمد یوسف ڈار کہتے ہیں: ’صرف بولتے ہیں کورٹ مارشل کیا۔ کہاں ہے کورٹ مارشل، کس کا کورٹ مارشل کیا۔ ارے صاحب وہ فوجی تو کسی کیمپ میں ہوگا، یا گھر میں آرام کر رہا ہو گا۔ میں پوچھتا ہوں یہاں معصوم کا قتل کب تک جائز رہے گا؟‘

اس واقعے میں مارے جانے والے ایک اور نوجوان معراج الدین کی بہن کہتی ہیں: ’ہم کو دس لاکھ روپے کی پیشکش کی گئی۔ بولا سرکاری نوکری دیں گے۔ ہمیں نوکری یا پیسہ نہیں انصاف چاہیے۔ میرا بھائی بندوق لے کر نہیں کتابیں لے کر جا رہا تھا۔ ایک سال ہو گیا، کسی نے پوچھا ہمیں؟ ہم انصاف کے لیے لڑتے رہیں گے۔ 
محمد یوسف ڈار کا کہنا ہے کہ جب حکومت نے ریاستی سرکار کی طرف سرکاری معاوضے کا اعلان کیا تو کیس کی نوعیت جاننے کے لیے تحصیل دار کے پاس گئے لیکن وہاں ان سے رشوت طلب کی گئی۔
  پولیس، فوج، ریاستی حکومت یا دہلی میں نریندر مودی کی حکومت پر سے ان کا اعتماد اُٹھ چکا ہے ان کا کہنا ہے کہ فوج سے کورٹ مارشل کے بارے معلومات لینے جب وہ فوجی ہیڈکوارٹر پر پہنچے تو انھیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

گذشتہ 25 سال میں یہ پہلاموقعہ ہے کہ فوج نے کسی واردات میں تین ہفتوں 
کے اندر اندر تحقیقات مکمل کی ہوں اور غلطی کا اعتراف کیا ہو۔

لیکن متاثرین کہتے ہیں کہ قصوروار فوجیوں کو عوام کے سامنے لایا جائے اور سول کورٹ میں ان پر مقدمہ چلایا جائے۔ لیکن یہاں پر نافذ آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ جیسے سخت فوجی قانون کی رُو سے قصوروار فوجیوں کا قانونی مواخذہ ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوگام کے مقتول نوجوانوں کے اہل خانہ کو مکمل انصاف کی امید نہیں ہے۔

متاثرہ خاندانوں کے کئی افراد کہتے ہیں: ’اگر یہ لوگ خود مانتے ہیں کہ ہمارے نہتے بچوں پر نو فوجیوں نے فائرنگ کی، تو ان قصورواروں کو میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے لایا جائے اور پھر ان کے خلاف یہاں کی عوامی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ ہم کو نقد معاوضہ یا ہمدردی کے بیانات نہیں مکمل انصاف چاہیے۔ 

واضح رہے کہ 2010 میں ایک فرضی تصادم میں فوج نے تین نوجوانوں کا قتل کیا تھا۔ اس سلسلے میں حالیہ دنوں فوج کی ایک عدالت نے پانچ اہلکاروں کو عمر قید کی سزا سنائی۔
   ایک فرضی تصادم میں فوج نے تین نوجوانوں کا قتل کیا تھا
تین نومبر کی شب سری نگر کے نواحی علاقہ نوگام کے رہنے والے پانچ دوست ایک کار میں عاشورہ کی تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے۔

ضلع بڈگام کے چھیترگام میں ہونے والی اس تقریب سے واپسی کے دوران ایک فوجی چیک پوائنٹ پر فوجی اہلکاروں نے کار پر فائرنگ کی جس میں 15 سالہ برہان اور 17 سالہ معراج مارے گئے۔ اس واقعے کے خلاف چار روز تک احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔

قابل ذکر ہے اس سال جولائی میں حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ایسے واقعات میں انصاف ناممکن ہے کیونکہ 25 سال سے کشمیر میں آرمڈفورسز سپیشل پاورز ایکٹ نام کا فوجی قانون نافذ ہے۔

اس قانون کی رُو سے کسی بھی قصوروار فوجی یا نیم فوجی کا عدالتی مواخذہ ممکن نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق فوج نے اعتراف کیا ہے کہ اسے زیادتیوں کی ڈیڑھ ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئی ہیں، لیکن اس میں سے صرف 54 کو درست مان کر 129 فوجیوں کا کورٹ مارشل کیا گیا۔ لیکن سزایافتہ فوجیوں کے نام کبھی مشتہر نہیں کیے گئے۔

ریاض مسرور
بی بی سی اردو ڈاٹ کام 

بھارت میں فاشزم آنے کو ہے

$
0
0

میرے خیال سے بھارت میں کسی نہ کسی قسم کی فاشزم ناگزیر طور پر آنے والی ہے جس کے نتیجے میں جمہوریت، اظہار رائے اور پریس کی آزادی اور شہری آزادی کو کچل دیا جائے گا۔

ان حقائق پر نظر ڈالیں 

موجودہ حکومت وکاس یا ترقی کے نعرے کے ساتھ برسراقتدار آئی۔ جس کا مطلب یہ ہے یا کم از کم یہ سمجھا گيا اب لاکھوں نوجوان کے لیے روزگار فراہم کیے جائیں گے، تاجروں اور دوسروں کے فائدے کے لیے صنعتی ترقی ہوگي اور عمومی طور پر خوش حالی آئے گي۔

بھارت میں غربت اور بے روزگاری کے خلاف مظاہرے ہوتے رہے ہیں
حکومت کو آئے ہوئے تقریباً ڈیڑھ سال ہو چکے ہیں لیکن ترقی کا کوئی نام نشان نظر نہیں آتا بلکہ اس کی جگہ صفائی مہم، گھر واپسی، گڈ گورنینس ڈے، یوگا ڈے جیسے کرتب نظر آتے ہیں۔

لیکن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کی موجودہ معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں مزید، کساد بازاری، بے روزگاری، غذائیت کی کمی، ہیلتھ کیئر کی کمی، کسانوں کی خودکشی اور عام غربت میں اضافہ ہوگا۔ البتہ چند تاجروں کو ضرور فائدہ پہنچے گا۔ دال اور پیاز جیسی ضروری اشیا کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں اور ان میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
اس کے نتیجے میں یہ حکومت دن بدن غیر مقبول ہوتی جائے گی۔ اور لوگ بطور خاص نوجوان یہ محسوس کریں گے کہ انھیں ٹھگ لیا گیا ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت ترقی کے نعرے پر برسر اقتدار آئی ہے
ٹھگے جانے کے احساس، شدید معاشی مشکلات، روز افزوں مہنگائي، بے روزگاری، غذائیت کی کمی، کسانوں کی خودکشی اور عام پریشانیوں کے نتیجے میں ملک بھر میں وسیع پیمانے پر احتجاج، پریشانیا اور شورش پیدا ہوں گی۔
ان سے نمٹنے کے لیے وہی کوششیں کی جائیں گی جو پہلے بھی کی جاتی رہی ہیں۔ جیسے عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنا اوراقلیتوں کو پریشانیوں کا سبب قرار دینا جس طرح یہودیوں کو نازی پریشانیوں کا سبب قرار دیا کرتے تھے۔
آپ کو یاد ہو کہ جرمنی اور اٹلی میں روز افزوں مہنگائی اور شدید بے روزگاری کے خلاف زبردست احتجاج کے نتیجے میں فاشزم سنہ 1920 اور 1930 کی دہائیوں میں آیا تھا۔

بھارت کی موجودہ معاشی پالیسی سے چند لوگوں کو فائدہ ضرور پہنچے گا
یہ اقدامات زیادہ دنوں تک موثر ثابت نہیں ہوں گے کیونکہ تھوڑے ہی وقت کے بعد خوراک اور نوکریاں لوگوں کو مذہب سے زیادہ عزیز ہوں گی۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے سخت اقدام کیے جائیں گے دوسرے لفظوں میں ایک قسم کی ایمرجنسی لگائی جائے گی جسے ہم سنہ 1975 سے 1977 کے درمیان دیکھ چکے ہیں جس میں تمام شہری حقوق، اظہار رائے اور پریس کی آزادی اور تمام جمہوری اقدار کو کچل دیا جائے گا۔

یہ فاشزم کون سی شکل لے گا ابھی یہ بتانا مشکل ہے لیکن میرے خیال سے ایک سال یا اس سے کچھ زیادہ عرصے کے اندر بھارت میں فاشزم کی آمد ناگزیر ہے۔

مارکنڈے کاٹجو
سابق جج، سپریم کورٹ آف انڈیا

ذہنی صحت پر بھی دھیان دیں

$
0
0

دن بھر میں آٹھ گھنٹے کی نیند لازمی لیں تاکہ دن بھر کی تھکاوٹ دور ہو سکے اور جسم و دماغ کھوئی ہوئی توانائی بحال کر لیں،کھانا آرام و سکون سے کھائیں، غصہ، حسد اور کینہ جیسی منفی عادات سے احتراز برتیں، غصے کے دوران ہمیشہ ضبط سے کام لیں، لوگوں سے ہمیشہ خوش اسلوبی سے ملیں اور چھوٹی موٹی باتوں کو درگزر کریں۔ہر بات کو اپنے ذہن پر سوار مت کریں، اگر کوئی ناموافق بات سنیں یا نظر آئے تو اسے بھلانے کی کوشش کریں، چھوٹوں سے پیار و محبت اور بڑوں کا ادب کریں۔ 

لالچ ، حرص و ہوس سے گریز کریں، ہر قسم کے نشہ سے دور رہیں ،احساسِ کمتری کو کبھی اپنے اوپر غالب نہ آنے دیں اور مراقبہ یعنی خاموشی و یکسوئی سے ارتکاز اور ورزش کی عادت ڈالیں جو ذہنی و جسمانی صحت کیلئے اکسیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان میں ذہنی امراض کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں ذہنی صحت کے حوالے سے شہریوں کی صورتحال اچھی نہیں ہے اور ملک میں ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 

اسی وجہ سے ملک میں خود کشیوں کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ ملک میں جاری دہشت گردی، بد امنی، خودکش بم دھماکے، غربت، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ اورخاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ کے علاوہ بے یقینی اور عدم تحفط کا بڑھتا ہوا احساس لوگوں میں اضطراب، بے چینی، چڑچڑاپن، غصہ اور ذہنی دباؤ پیدا کرنے کا باعث بنتا جا رہا ہے جو کہ ان کی جسمانی ، ذہنی و نفسیاتی صحت کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ یاد رکھیں کہ زندگی گزارنے کے لیے ہمیشہ پر امید اور مثبت انداز اختیار کریں۔  

 یہ حالت مسلسل رہے تو آخر کار انسان ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو کر نہ صرف اپنی بلکہ اپنے پیاروں کی زندگی کیلئے بھی روگ بن جاتا ہے۔ ایک صحت مند جسم کے لیے صحت مند ذہن کا ہونا ضروری ہے۔ ایسی بے شمار بیماریاں جیسے سردرد‘ حافظے کی کمزوری‘ ذہنی تھکن‘ بصارت کی کمزوری‘ ہکلانے کی عادت‘ ذہنی تناؤ و دباؤ‘ احساسِ کمتری یا اس طرح کی دیگر بیماریاں جو کہ ذہنی و نفسیاتی ہوتی ہیں لیکن ان کی طرف سے لاپرواہی برتی جاتی ہے جو کہ بعدازاں جسمانی عوارض کا باعث بن کر کئی پیچیدگیاں پیدا کر سکتی ہیں۔

 اس لیے اگر ایسے امراض کا علاج کرنے کے لیے منفی نفسیاتی عناصر کا تدارک کیا جائے تو جسمانی بیماریاں خود بخود ور ہونے لگتی ہیں۔ پاکستان میں عمومی طور پر لاحق ہونے والے ذہنی و نفسیاتی امراض میںانزائیٹی ،فکر، تشویش‘ اعصابی دباؤ‘ احساسِ کمتری‘ اعصاب زدگی‘ الزائیمر‘ تنہائی پسندی‘بے خوابی وکم خوابی‘ بسیار خوابی و خراٹے لینا‘ نیند کے دوران سانس کا رکنا‘ پاگل پن‘ پارکنسن ڈیزیز‘رعشہ‘ حسد‘ حافظہ کی کمزوری‘ خوف کا فوبیا‘ خود اعتمادی کا فقدان‘ خیالات کا تسلط اور تکرارِ عمل ‘ ڈپریشن ،افسردگی ‘ ذہنی اضمحلال‘بائی پولر ڈس آرڈر‘ ذہنی تناؤ اور دباؤ‘ سردرد اور دردِ شقیقہ‘ شیزوفرینیا‘ فرسٹریشن  احساسِ محرومی‘ فالج و لقوہ‘ مرگی‘ وہم اور ہسٹیریا وغیرہ شامل ہیں۔

 یہ چند ایک بیماریاں ہیں جن کے متعلق عموماً معاشرے میں جنوں کے سایے کی باتیں کی جاتی ہیں حالانکہ یہ مکمل طور پر ذہنی و نفسیاتی عوارض ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ ان کی طرف دھیان دیا جائے اور ان کا مکمل علاج معالجہ کرایا جائے تو یہ افراد بھی معاشرے کے دیگر صحتمند افراد کی طرح بہتر ،خوشحال، قابلِ تکریم اور پْروقار زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ -  

مسجدالحرام میں تین نئے مؤذن حضرات کا تقرر، تعداد 18ہوگئی

$
0
0

 مسجد حرام اور مسجد نبوی کی انتظامی کونسل کے چیئرمین اور امام کعبہ ڈاکٹرعبدالرحمان السدید نے مسجد حرام کے لیے 3 نئے مؤذنین کے تقررکی منظوری دی ہے۔

مسجد حرام میں مؤذن کی خدمات انجام دینے والے نئے مؤذنین میں حسین بن حسن شحات، ہاشم بن محمد السقاف اور عمادی بن علی بقری شامل ہیں۔ نئے مؤذن حضرات کے تقرر سے قبل مسجد حرام میں 15  افراد اذان دینے کے فرائض انجام دیتے تھے اور 3 افراد کی تقرری کے بعد اب ان کی تعداد 15 سے بڑھ کر18 ہو گئی ہے۔
 
مسجد حرام میں اذان کے لیے آنے والے تمام مؤذنین کرام کو حرم شریف میں اذان کے لیے تمام ضروری شرائط پر پورا اترنا ضروری ہوتا ہے اورنئے مقرر کردہ مؤذن جلد ہی اذان کے اپنے فرائض سنبھال لیں گے جب کہ خانہ کعبہ میں اذان کی شرائط پر پورا اترنے والے نمایاں مؤذنین میں صلاح بن ادریس فلاتہ، محمد بن احمد باسعد، عبداللہ بن فیصل خوقیر اور سہیل بن عبدالملک حافظ شامل ہیں۔

واضح رہے کہ مسجد حرام میں مؤذن حضرات کی تقرری کا اختیار حرمین شریفین کی نگران کمیٹی کے چیئرمین کے پاس ہوتا ہے تاہم کسی بھی شخص کو اذان کے لیے کوالیفائی کرتے ہوئے خوبصورت آواز کے ساتھ تلفظ کی ادائیگی کو بھی شرائط و ضوابط کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

کوٹ ڈیجی - Kot Diji | archaeological site, Pakistan

$
0
0

خیرپور میرس سے تقریباً 15 میل کے فاصلے پر ہزاروں برس قبل کوٹ ڈیجی کی موجودہ بستی کے مغرب کی جانب ایک پہاڑی پر ایک چھوٹا سا حسین شہر آباد تھا جو ڈیجی رانی کے دور میں کافی مشہور تھا۔ یہ شہر تو آہستہ آہستہ ختم ہوگیا لیکن ڈیجی کے نام سے یہ پہاڑی قائم رہی جس کی چند برسوں قبل کھدائی مکمل ہوئی ہے اور آثار قدیمہ کے ماہرین نے اس میں سے بہت سی نادر اشیاء برآمد کی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ جگہ جہاں اب ’’کوٹ ڈیجی‘‘ ہے یہاں میر سہراب خان نے احمد آباد کی حفاظت کے لیے ایک قلعہ تعمیر کروایا تھا۔ 

سندھی زبان میں قلعہ کو ’’کوٹ‘‘ کہتے ہیں۔ چونکہ یہ قلعہ ڈیجی پہاڑی کی اسی پرانی بستی پر بنایا گیا اس لیے یہ ’’کوٹ ڈیجی‘‘ کہلایا۔ ایک سروے کے مطابق اس قلعہ کی لمبائی 5000 فٹ، چوڑائی3000 فٹ اور سطح زمین سے بلندی 70 فٹ ہے۔ اسے میرسہراب خان کے وزیر تعمیرات محمد صالح زہری بلوچ کی زیر نگرانی تعمیر کیا گیا اور اسے قلعہ احمد آباد کا نام دیا گیا۔ ہزاروں کاریگروں، مزدوروں اور ماہرین کی مدد سے اس قلعے کی تعمیر 26 برس میں مکمل ہوئی۔اس کا طول عرض 85,730مربع میٹر ہے اس کے اندر سات برج یا مینار ہیں۔ اس قلعے میں چاروں طرف فصیل اور پہاڑوں پر مورچے بنائے گئے تھے قلعے میں بڑی بڑی توپیں جن میں تین خاص طور پر مشہور ہوئیں۔

 ایک ’’مریم توپ‘‘ جسے شاہ پرتگال اپنے ساتھ لایا تھا اور اسے روہڑی کے قریب دریائے سندھ پر چھوڑا کر چلا گیا تھا۔ میر سہراب خان نے ہاتھیوں کے ذریعے اس توپ کو کوٹ ڈیجی پہنچا دیا۔ دوسری توپ ’’صنعا صنعا‘‘ اور تیسری ’’ملک میدان‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ شروع میں تو اس بستی کا نام احمد آباد ہی تھا لیکن جب خیرپور کے میروں نے قلعہ کوٹ ڈیجی کو اپنا دارالخلافہ بنایا تو امیروں اور وزیروں کے محلات اور مکانات یہاں تعمیر ہونے شروع ہوئے اور آس پاس کے رہنے والے لوگ سرکاری کام کاج کے لیے یہاں آنے لگے۔ جب ان سے کوئی پوچھتا کہ’’کہاں جا رہے ہو تو وہ جواب میں کہتے ’’کوٹ ڈیجی‘‘ یوں آہستہ آہستہ اس پوری بستی کا نام ہی ’’کوٹ ڈیجی‘‘ پڑ گیا۔ 1845ء تک کوٹ ڈیجی کو بڑی اہمیت حاصل تھی لیکن اس کے بعد جب انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی اور سرچارلس نیپئر اس علاقے کے ریذیڈنٹ تعینات ہوئے تو کوٹ ڈیجی کی جگہ خیرپور نے لے لی۔ 

اس قلعے کی چار دیواری پکی اینٹوں کی بنی ہوئی ہے اور اس میں داخل ہونے کے لیے صرف ایک ہی بڑا سا دروازہ ہے جو مضبوط لکڑی کا بنا ہوا ہے دیواروں پر چڑھنے کے لیے اندر بنی ہوئی سیڑھیاں اور مورچے قابل دید ہیں۔ اوپر کے حصے میں سفید پتھروں سے ایک بارہ دری بنائی گئی ہے جس میں میر اپنا دربار لگایا کرتے تھے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس کے اندر یا باہر کبھی کوئی جنگ نہیں لڑی گئی۔ روایت ہے کہ مریم نامی توپ میں دو ایسے کڑے لگے ہوئے ہیں جو ہر سال اپنی جگہ بدلتے رہتے ہیں اگر وہ ایک سال اوپر کے حصے میں ہوں تو اگلے سال نچلے حصے میں نظر آئیں گے۔

 انگریزوں نے اس بعید کو جاننے کی سرتوڑ کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ جب مریم توپ کو چلایا گیا تو اس سے نکلا ہوا گولہ چودہ میل کے فاصلے پر جا کر گرا جس سے ایک راہ گیر اور گدھا ہلاک ہوگیا۔ گولے کے دھماکے سے تمام شہر اور پہاڑیاں اس طرح کانپ اٹھی تھیں جیسے شدید زلزلہ آیا ہو۔ کوٹ ڈیجی کا قلعہ دفاعی اور انتظامی مقاصد کے لیے مخصوص کیا گیا تھا اور یہاں ایک سالار کی نگرانی میں 500 سپاہیوں کا دستہ 100 توپوں کے ساتھ تعینات کیا گیا تھا یہ سلسلہ کم و بیش 1843ء تک جاری رہا۔ 

قلعے کے رہائشی علاقے تک پہنچنے کے لئے تین بڑے ہال نما دروازوں کو عبور کرکے آنا پڑتا ہے۔ تینوں دروازے انتہائی مضبوط لکڑی سے بنائے گئے ہیں۔ ہاتھیوں کے حملے سے بچائو کے لیے اس پر آہنی کیلیں ٹھونکی گئیں ہیں۔ یہ آہنی نوک دار کیلیں دروازے سے اس طرح ابھری ہوئی ہیں کہ ایک بار ٹکرانے کے بعد شاید ہی کوئی ہاتھ دوسری بار ٹکرانے کی کوشش کرے۔ پہلے دروازے سے گزر کر سامنے چھوٹے میدان میں پہنچتے ہی بائیں طرف کنواں نظر آئے گا اس کنوئیں سے ان دنوں پانی کی ضرورت پوری کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ سامنے ہی ایک کمرہ نظر آئیگا جس کی آج چھت نہیں ہے اس کمرے کے سامنے والی دیوار میں 1000 سوراخ بنائے گئے ہیں جن میں چراغ رکھے جاتے تھے یعنی یہ جگہ گودام کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔

 گودام کے پاس کھڑے ہو کر بائیں جانب دیکھنے سے نگاہ ایک حوض پر پڑتی ہے جس کی گہرائی 12 فٹ لمبائی 37 فٹ اور چوڑائی 33 فٹ ہے۔ یہ حوض قلعے کے اندر پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ قلعے کے مشرقی سمت میں سب سے اونچا برج واقع ہے جسے فتح برج قرار دیا گیا ہے مرکزی دروازے سے کچھ ہی فاصلے پر شمال کی جانب سابق والئی ریاست کی عارضی رہائش گاہ واقع ہے اس کی بیرونی چار دیواری اور باورچی خانے والا حصہ کچی اینٹوں سے بنا ہوا ہے جبکہ اندرونی رہائشی حصہ پختہ اور مغلیہ طرز پر محرابی دروازوں اور خوبصورت نقش و نگار پر مشتمل ہے۔ قلعے کے اندر شمالی حصے میں ایک اونچے اور پختہ چبوترے پر والئی ریاست کے لیے بنائی گئی پتھر کی تخت گاہ فن سنگ تراشی کا ایک خوبصورت اور بیش قیمت نمونہ ہے۔ 

 شیخ نوید اسلم کی کتاب ’’پاکستان کے آثارِ قدیمہ‘‘ سے ماخوذ   

کمزور، لاچار اور بے اختیار عدالتی نظام

$
0
0

یوں لگتا ہے کہ پاکستان میں سب سے بے بس، کمزور، لاچار اور بے اختیار عدالتی نظام ہے۔ اس نظام کے سامنے روز ایسے ملزم پیش ہوتے ہیں جن کے بارے میں ججوں کو سو فیصد یقین ہوتا ہے کہ ان سے جرم سرزد ہوا ہے لیکن وہ انھیں سزا نہیں دے سکتے۔کہتے ہیں اس کے خلاف صفحۂ مثل پر کچھ نہیں، ہم سزا کیسے دیں۔ یہ صرف چند ہفتے پہلے کی بات ہے کہ مشہور ممبر قومی اسمبلی اس بنیاد پر نااہل قرار دے دیا گیا کہ اس کی ڈگری جعلی ہے۔

 موصوف ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں پیش تھے۔ اینکر نے سوال پوچھا، آپ نے کس مضمون میں ایم ا ے کیا ہے۔ کہنے لگے یار تیرہ چودہ سال پرانی بات ہے، اب یاد تھوڑا رہتا ہے۔ اینکر کے بار بار اصرار کرنے پر بتایا کہ اتنا یاد ہے کہ میں نے ایم اے آرٹس کے مضمون میں کیا ہے۔ یہ اینکر اگر مزید دو تین سوال اور کرتا تو پاکستان بھر میں مناسب سی تعلیم رکھنے والا شخص بھی یہ فیصلہ کر سکتا تھا کہ اس ممبر اسمبلی کی ایم اے کی ڈگری جعلی ہے۔ لیکن کس قدر بے بس ہے ہمارا عدالتی نظام کہ موصوف کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر کے اس کے مضمون کے مطابق چند سوال پوچھ کر یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ اس کی ڈگری جعلی ہے۔

اس کا یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ اگر ہم نے ایسا کرنا شروع کر دیا تو پھر ایک لائن لگ جائے گی۔ یعنی آپ اس خوف سے درست فیصلہ نہیں کرتے کہ آپ کو ایسے ہزاروں درست فیصلے کرنا پڑ جائیں گے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ڈگری تصدیق کرنے والے محکمے کے پاس بھیجو، تصدیق کر دے تو مان لو بے شک سامنے کھڑا شخص جاہل مطلق ہی کیوں نہ نظر آ رہا ہو۔ ایسا بہت کچھ روز عدالت کے سامنے ہو رہا ہوتا ہے۔ قانون میں ایک لفظ ’’alibi‘‘ ایلی بائی ہے جس کا مطلب ہے کہ فلاں شخص جس پر قتل یا کسی اور جرم کے ارتکاب کا الزام ہے وہ تو موقع پر موجود ہی نہیں تھا۔

 روزانہ عدالتوں میں جعلی سرٹیفکیٹ پیش ہوتے ہیں، جعلی جہاز کی ٹکٹیں اور بورڈنگ پاس دکھائے جاتے ہیں، کئی دفعہ تو یوں ہوتا ہے کہ کسی کرائے کے پیشہ ور قاتل کی گرفتاری ڈالی جاتی ہے، پھر اسے خاموشی سے چند گھنٹوں کے لیے حوالات سے نکالا جاتا ہے۔ وہ قتل کر کے واپس حوالات آ جاتا ہے۔ موقع پر دس لوگ موجود ہوں، وہ سب کے سب گواہی دیں، لیکن کس قدر بے بسی ہے عدالت کی کہ وہ صفحۂ مثل پر آئی ہوئی اس  پر خود تحقیق کا آغاز نہیں کر سکتی۔

روزانہ عدالت کے روبرو پیش ہونے والے گواہوں کو کہیں پیسے دیکر اور کہیں ڈرا دھمکا کر بیان بدلنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اسے بیرون از عدالت تصفیہ بھی کہتے ہیں۔ اکثر بااثر قاتل گھرانے کے لوگ مقتول کے گھرانے کو دھونس، جبر یا پھر ان کی غربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرمائے کا استعمال کر کے گواہوں کو بٹھاتے ہیں اور عدالت کس قدر بے بس ہو جاتی ہے کہ اس کو علم بھی ہو کہ اس شخص نے قتل کیا ہے، وہ اسے باعزت بری کر دیتی ہے۔ پاکستان کی جیلوں میں روزانہ ایسے ہزاروں افراد قید کر دیے جاتے ہیں جن کا نام دشمنی کی بنیاد پر ایف آئی آر میں لکھا جاتا ہے۔

 چالان پیش ہونے تک یہ عدالت کی دسترس میں نہیں آ پاتے، البتہ عدالتیں ہی انھیں ریمانڈ بھی دے رہی ہوتی ہیں۔ اگر کسی طرح ان بے گناہوں کے خلاف چالان بھی مکمل ہو جائے تو مقدمے کی آخری عدالت کی فیصلے کی بنیاد پر پھانسی پر بھی جھول جاتے ہیں۔ ایک دندناتے ہوئے مجرم کا عدالت کے ہاتھوں سے نکل جانا اور ایک بے گناہ کا سزا پا جانا ہمارے عدالتی نظام پر ایک سوال ہے جس کا جواب کوئی تلاش نہیں کرتا۔ البتہ اس عدالتی نظام کو مضبوط کرنے کے خواہش مند آپ کو ہر طبقۂ خیال میں ملیں گے۔

عدلیہ کی آزادی پر گھنٹوں دلائل دینے والوں میں وکیلوں کی فوج ظفر موج سے لے کر دانشور، سیاست دان اور صحافی سب شامل ہیں۔ ان سب کے سامنے گزشتہ دنوں سرمایہ اور طاقت کے نشے میں دھت بااثر لوگوں کی اولادوں نے قتل کیے۔ میڈیا کی چکا چوند روشنی میں مائیں اپنے لخت جگر کا ماتم کرتی نظر آئیں۔ لوگ باقاعدہ قاتلوں کی نشاندہی کرتے رہے۔ کراچی میں شاہ زیب اور لاہور میں زین کا قتل ایسے روز روشن کی طرح واضح حقیقتوں میں سے تھے کہ ان میں مجرم کا بچ نکلنا کسی کے تصور میں بھی نہیں آ سکتا تھا۔

 حیرت کی بات ہے زین کے قتل کے وقت وہ تمام گواہان جو انگلیاں اٹھا اٹھا کر صدیق کانجو کے بیٹے مصطفی کانجو کی فائرنگ کو زین کے قتل کی وجہ بتاتے تھے عدالت میں پلٹ گئے جیسے یہ سب ہوا ہی نہیں تھا۔ اب فیصلہ یوں ہے کہ وہاں گولیاں بھی چلیں، آپس میں لڑائی بھی ہوئی، سنسناتی گولی زین کے سینے میں اتری لیکن ان تمام لوگوں کی موجودگی کے باوجود عدالت کے سامنے یہ ثابت نہ ہو سکا کہ کس کی گولی زین کو موت کے گھاٹ اتار گئی۔ سب باعزت بری۔ یہ ہے ہمارے عدالتی نظام کی بے بسی۔

لیکن میرا المیہ یہ نہیں ہے کہ اس عدالتی نظام کا ماتم کروں جسے اینگلوسیکسن قانون کہتے ہیں اور جسے ہمارا آئین تحفظ دیتا ہے۔ میرا ماتم یہ ہے کہ یہی آئین اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ اس ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا۔ اس اینگلوسیکسن قانون کے تحت اگر روز گواہ بیٹھ جائیں اور مجرم عدالت سے باعزت بری ہو جائے تو کوئی اس نظام پر انگلی نہیں اٹھاتا۔ لیکن اس ملک میں اللہ کے بتائے ہوئے اس اصول قصاص و دیت کے تحت اگر کوئی وارث اپنے مقتول کے قاتل کو معاف کر دے تو اخبارات کے صفحے اس قانون کے خلاف کالے ہونے لگتے ہیں۔ 

رات کو ٹاک شوز میں دانشور اسلام کے اس قانون کے خلاف آستین چڑھا لیتے ہیں، صدیوں سے پاکستان کے قبائلی معاشرے میں یہ اصول رائج ہے کہ جب جرگہ کسی قتل کا فیصلہ کرنے بیٹھتا ہے تو وہ یہ طے کر لیتے ہیں کہ ہم قتل کے بدلے قتل کروا کر دشمنی کو مزید ہوا نہیں دینا چاہتے۔ اس لیے خوں بہا لے کر صلح اور امن کی رسم کا آغاز کیا جائے۔ اسلام کے اس بنیادی اصول کو اپناتے ہوئے انھوں نے صدیوں پرانی دشمنیوں کو ختم کیا۔ لیکن ہم وہ بدقسمت ’’پڑھے لکھے‘‘ لوگ ہیں جو ایسے عدالتی نظام کا دفاع کرتے ہیں جہاں دھونس، دباؤ اور لالچ سے عدالت کے سامنے جھوٹ بول کر قاتل کو چھڑا لیا جائے لیکن اسلام کے اصولوں کے تحت کسی کو معاف کر کے دنیا میں امن اور آخرت میں اجر عظیم کا سودا نہیں کرنے دیتے۔

ہماری منافقت اور اسلام سے دشمنی کا یہ عالم ہے کہ روزانہ ہزاروں بے گناہ غلط ایف آئی آر درج ہونے کی وجہ سے جیل میں پھینک دیے جاتے ہیں لیکن کسی وکیل، انسانی حقوق کے چیمپئن یا این جی او کے کرتا دھرتا نے یہ آواز نہیں اٹھائی کہ پاکستان کے ضابطہ فوجداری میں ترمیم کی جائے اور اس وقت تک کسی کو گرفتار نہ کیا جائے جب تک تفتیش مکمل نہ ہو جائے۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں کو آج تک ایسے ہزاروں لوگ نظر نہیں آئے جو صرف ایف آئی آر میں نام درج ہونے کی وجہ سے سالوں جیل میں سڑتے رہتے ہیں۔ لیکن جیسے اسی ضابطۂ فوجداری کی وجہ سے توہین رسالت کا مقدمہ درج ہوتا ہے تو سب کی آنکھیں غصے سے ابلنے لگتی ہیں۔ 

ہر کوئی الفاظ کے تیر لے کر سامنے آ جاتا ہے۔کسی میں اتنی جرأت تو ہے نہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین کو جرم قرار نہ دے، اسے کبھی آمر کا بنایا ہوا قانون کہہ کر بات کی جاتی ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ ضابطہ فوجداری کا قانون بدل دیا جائے۔ ہزاروں بے گناہ مجرم جیل کی سلاخوں کے پیچھے اس نظام کی بھینٹ چڑھ رہے ہوتے لیکن سب کو توہین رسالت کے مجرم ہی مظلوم نظر آتے ہیں لیکن جیلوں میں موجود ہزاروں بے گناہ یاد نہیں آتے۔ صرف وہی لوگ یاد آتے ہیں جن پر سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی توہین کا الزام تھا۔ کیا ایسا کرنا بذات خود توہین رسالت کی سزا کا تمسخر اڑانا نہیں ہے۔

کس نے قانون کو ہاتھ میں لیا اور کون بے گناہ مارا گیا، کس پر الزام جھوٹا اور کون عالمی ایجنڈے پر اس قانون کے خلاف بول رہا تھا، یہ سب کچھ سپریم کورٹ اور پاکستان کے بے بس عدالتی نظام میں زیربحث آتا ہے۔ فیصلے ہوتے ہیں لیکن ایک عدالت اس سے بالاتر ہے۔ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و آلہ و سلم بازار سے گزر رہے تھے کہ مکہ کے لوگوں نے اشارہ بازی شروع کی اور کہا یہ شخص کہتا ہے کہ اس کے پاس جبریل آتا ہے (نعوذ باللہ) جبرائیل علیہ السلام خود شریف لائے اور ان کی جانب انگلی کا اشارہ کیا تو ان کے جسم سے خون بہنے لگا اور ایسی بدبو آئی کہ ان کے قریب کوئی نہ جاتا تھا (طبرانی الاوسط)۔

 قبیلہ بنونجار کا ایک شخص مسلمان ہوا، کاتب وحی مقرر ہوا، پھر نصرانی ہو گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مذاق اڑاتا کہ میں نے وحی میں بہت سی ایسی باتیں لکھ دیں جن کا انھیں پتہ نہ چلا۔ کچھ دن بعد اس کی گردن ٹوٹ گئی۔ لوگوں نے دفن کیا، لاش کو زمین نے قبول نہ کیا۔ صبح باہر پڑی تھی، اگلی صبح اور نیچے دفن کیا، پھر ایسا ہوا، پھر کیا، آخر لاش ویرانے میں پھینک دی گئی (مسلم) آپ فیصلے کرتے جاؤ، اینگلوسیکسن قانون کا تحفظ اور اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کا تمسخر اڑاتے جاؤ لیکن جان رکھو کہ اس کائنات کی آخری عدالت وہ قادر مطلق کی ہے جو جب، جہاں، جس وقت چاہے اپنے فیصلے کا اعلان کر دے اور ہماری چیخ و پکار سننے والا بھی کوئی نہ ہو۔

اوریا مقبول جان

Snowfall, Rain in Kashmir


قلعہ بالا حصار- Bala Hissar fort, Peshawar 1878

$
0
0

قلعہ بالا حصار، پشاور کا سب سے قدیم اور تاریخی مقام ہے یہ قلعہ اتنا پرانا ہے جتنا کہ پشاور کا شہر، قلعہ کی زمین سے مجموعی بلندی بانوے فٹ ہے اس کی دیواریں پختہ سرخ اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں قلعہ کی اندرونی دیوار کی بلندی پچاس فٹ ہے۔ دوہری دیواروں والے اس قلعہ کا کل رقبہ سوا پندرہ ایکڑ رقبہ پر محیط ہے جبکہ اس کا اندرونی رقبہ دس ایکڑ بنتا ہے ایک پختہ سڑک بل کھاتی ہوئی قلعہ کے اندر تک جاتی ہے۔

 پشاور شہر، جنوبی ایشیا میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ہندوستان کا گیٹ وے تھا اور ہر نئے آنے والے حملہ آوروں کا پہلا پڑائو تھا اس لیے ہر حملہ آور نے اس قلعہ کو مسمار کیا ہوگا اور ہر مرتبہ یہ ازسرنو تعمیر ہوا ہوگا۔ اس قلعہ کا واحد دروازہ ہندوستان کے راستے کے رخ پر ہے۔ ڈاکٹر احمد حسن دانی، قلعہ بالا حصار کے متعلق ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں؛630ء میں جب چینی سیاح ہیون سانگ نے پشاور کا دورہ کیا تو اس جگہ شاہی رہائشگاہ کے متعلق بات کی وہ چینی زبان کے لفظ ’’کن شنگ‘‘ کو تعریفی کلمات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ 

وہ کہتا ہے کہ قلعے کی بلند و بالا دیواروں والا حصہ شاہی رہائش گاہ سب سے اہم اور خوبصورت مقام ہے ہیون سانگ شہر کے علیحدہ حصے کا بھی ذکر کرتا ہے جو قلعہ بند نہیں تھا لیکن حصار شہر کے مرکز میں تھا جس کی حفاظت کے لیے شہر کے گرد خندق بنی ہوئی تھی۔ جب غزنی کے امیر سبکتگین نے 988ء میں پشاور کو فتح کیا تو اس کے دس ہزار گھڑ سواروں کے ساتھ یہاں پڑائو کیا۔ سبکتگین اور اس کے گیریژن نے یقینا اس قلعے میں قیام کیا ہوگا۔ سلطان محمود غزنوی نے 1001ء سے 1008ء تک پشاور کے ہندو راجاوئوں جے پال اور انند پال کو شکست دی۔ 

ان راجاوئوں کی فوجوں نے بھی بالا حصار سے پشاور شہر کا دفاع کیا ہوگا، اس وقت یہ شہر دریائے باڑہ کی وجہ سے محفوظ تھا۔ پشاو کی اہمیت کے پیش نظر شہاب الدین غوری نے 1179ء میں اس قلعہ پر قبضہ کیا مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر نے اپنی خودنوشت ’’تزک بابری‘‘ میں قلعہ بالا حصار کا ذکر کیا ہے۔ وہ باگرام (پشاور) کے قریب اپنی فوجوں کے اترنے اور شکار کے لیے روانگی کا ذکر کرتا ہے۔ جب مغل بادشاہ ہمایوں نے افغان بادشاہ شیر شاہ سوری سے شکست کھائی تو افغانوں نے قلعہ بالا حصار کو تباہ کر دیا

 جب ہمایوں نے شاہ ایران کی مدد سے اپنا کھویا ہوا تخت دوبارہ حاصل کر لیا تو اس نے کابل سے واپسی پر پشاور میں قیام کیا اور قلعہ بالا حصار کو دوبارہ تعمیر کروایا اس نے قلعہ میں ایک بڑا فوجی دستہ تعینات کیا اور ایک ازبک جرنیل سکندر خان کو قلعہ کا نگران مقرر کیا۔ پہلی مرتبہ قلعے میں یہاں توپیں نصب کی گئیں۔ طبقات اکبری کے منصف نظام الدین کے مطابق 1585ء میں جب قلعہ بالاحصار آتشزدگی سے تباہ ہوگیا جس میں ایک ہزار کے قریب اونٹوں پر لدا ہوا سامان تجارت بھی ضائع ہوگیا۔ نادر شاہ درانی نے جب درہ خیبر کے راستے سے ہندوستان پر حملہ کیا تو سب سے پہلے اس نے پشاور کی وادی مغلوں سے چھین لی۔ نادر شاہ نے پشاور میں اپنا گورنر مقرر کیا جس نے قلعہ بالا حصار میں رہائش اختیار کی۔

 احمد شاہ ابدالی نے بھی وادی پشاور مغلوں سے چھین لی تھی۔ احمد شاہ ابدالی کے فرزند تیمور ابدالی نے پشاور کو اپنا سرمائی دارالخلافہ بنالیا۔ اس نے قلعہ بالا حصار میں اپنی رہائش کے لیے محلات تعمیر کروائے اور اپنے حفاظتی دستے کے لیے ایرانی اور تاجک سپاہی بھرتی کیے۔ جب 1779ء میں ارباب فیض اللہ خان نے قلعہ بالا حصار پر یلغار کی تو اسی حفاظتی دستے نے تیمور شاہ کی حفاظت کی۔ 1793ء میں تیمور شاہ کی وفات کے بعد شاہ زمان سریر آرائے سلطنت ہوا۔ اس کے دور میں سکھ پنجاب پر قابض ہوگئے۔1834ء میں سکھوں نے پشاور پر قبضہ کر لیا پہلے تو سکھوں نے قلعہ بالا حصار کی اینٹ سے اینٹ بجا دی لیکن جلد ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔

 ہری سنگھ نلوہ اور سردار کھڑک سنگھ نے اس قلعہ کی اہمیت کے پیش نظر اسے دوبارہ تعمیر کرایا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے حکم پر شیر سنگھ نے قلعہ بالا حصار کچی اینٹوں سے بنوایا اور اس قلعے کا نام سمیر گڑھ رکھا۔ سکھوں کے دور کی ایک لوح آج بھی قلعہ بالا حصار کی مرکزی دیوار میں نصب دیکھی جا سکتی ہے۔ 

(شیخ نوید اسلم کی کتاب ’’پاکستان کے آثارِ قدیمہ‘‘ سے ماخوذ)  

طیب اردوان اور محمد نواز شریف

انتہا پسندی اور دہشت گردی - امن کا حصول کیسے ممکن ؟

انتہاپسندی مودی کولےڈوبی، انتخابات میں بی جے پی کوبدترین شکست

$
0
0

 نریندر مودی کے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد جہاں لائن آف کنٹرول میں بھارتی جارحیت بڑھی وہیں ملک میں انتہا پسند ہندوؤں کے حوصلے بھی بڑھ گئے جس کی وجہ سے کہیں گائے کے گوشت پر پابندی لگی تو کہیں صرف شبے کی بنیاد پر مسلمانوں کو قتل کردیا گیا لیکن اب مودی کی پالیسیوں کے نتائج بی جے پی کو ملنا شروع ہوگئے ہیں اور اس کی تازہ مثال ریاست بہار کے انتخابات ہیں جس میں اسے بدترین شکست ہوئی ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق بہار میں لالو پرساد یادو اور نتیش کمار کے سیاسی اتحاد نے بی جے پی کی سربراہی میں سیاسی اتحاد این ڈی اے کو بدترین شکست سے دوچار کیا ہے، ریاست کی 243 نشستوں میں سے 157 پر جنتا دل اتحاد نے کامیابی حاصل کرلی ہے جب کہ بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو 75 نشستیں ہی مل پائی ہیں ، اس کے علاوہ دیگر جماعتوں نے 11 نشستیں اپنے نام کرلی ہیں۔
ریاست کے دارالحکومت پٹنہ میں جے ڈی یو کے وسیع اتحاد کے دفتر کے سامنے جشن کا ماحول ہے۔ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں ریاست کے عوام کا زبردست حمایت کے لیے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اپنی فتح کے باوجود باوقار رہیں گے جب کہ کانگریس کے رہنما احمد پٹیل نے کہا ہے کہ راشٹریہ جنتا دل اور جنتا دل یونائٹیڈ نے محنت کی اور این ڈی اے کے جھوٹے دعووں کو شکست دے دی۔
بھارت کے سرکاری میڈیا کے مطابق نریندر مودی نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو فون کرکے انھیں جیت پر مبارک باد دی ہے۔

ریاست میں پہلی مرتبہ انتخابی عمل کا حصہ بننے والی جماعت آل انڈیا اتحاد بین المسلمین کے رہنما اسد الدین اویسی نے کہا ہے کہ بہار میں شکست بی جے پی کی نہیں نریندر مودی کی ہار ہے کیونکہ بھارتی تاریخ میں مودی وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے بہار میں 35 سے زائد عوامی اجتماعات میں شرکت کی لیکن پھر بھی شکست کھائی۔

شیشہ کلچر کے خلاف پاکستانی عدالت عظمیٰ کا تاریخی فیصلہ

$
0
0

پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے پنجاب اور سندھ میں شیشہ کیفے کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔
صوبوں سے شیشہ کلچر کے خاتمے کے حوالے سے از خود نوٹس کی سماعت سپریم کورٹ میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی۔

سماعت کے موقع پر اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ پنجاب میں شیشہ کیفیز سے متعلق بل اسمبلی میں زیر التواء ہے جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شیشے سے متعلق بل تو 2014ء سے زیر التواء ہے، کسی سطح پر تسلی بخش اقدامات نہیں کئے جا رہے، کیا اداروں کو جوں کا توں ہی رکھا جائے گا؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شیشہ کلچر میں نشہ آور ادویات بھی استعمال بھی کی جاتی ہیں اس لئے ان کے کے خلاف کارروائی ناگزیر ہے۔، شیشہ کیفیز کے خلاف کارروائی انتظامی معاملہ ہے مگر عدلیہ کو عوامی مفاد میں مداخلت کرنا پڑ رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اداروں نے سوچ لیا ہے کہ کارکردگی میں کوئی بہتری نہیں لانی۔ عدالت نے صوبوں سے شیشہ سینٹرز کے خلاف کارروائی کی رپورٹس آئندہ سماعت پر طلب کر لی۔

جنوبی ایشیا میں چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ

اسلامی بھٹو، لبرل شریف


بھارت کا گوربا چوف

اقبال کا پاکستان

بڑے عہدوں پر چھوٹے لوگ

جماعت اسلامی کی نئی سیاست

حکمتِ دعا

Viewing all 4315 articles
Browse latest View live