Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

پیچھتر لاکھ روپے میں ڈاکٹر موت تیار


ترکی‘ روس اور امریکہ

قلم کار کیسے بنیں؟

$
0
0

اکثر و بیشتر، بالمشافہ ملاقات، بذریعہ ای میل و موبائل فون اور فیس بک کے نوجوان طالب علم اس شوق کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ انھیں اخبار کے لیے مضمون لکھنے کا لگاؤ ہے اور لکھتے بھی ہیں لیکن وہ شایع نہیں ہوپاتے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ تو متعلقہ اخبار کے ایڈیٹر بتا سکتے ہیں البتہ میں اپنے محدود تجربے کی بنیاد پر قلم کاری کے لیے چند رہنما اصول بتاسکتا ہوں شاید ان پر عمل کرکے آپ کی تحریر میں کچھ بہتری آسکے۔

پہلی بات یہ ہے کہ قلم کاری کی صلاحیت قدرتی ہوتی ہے جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ آپ بھی اپنے اندر یہ جوہر تلاش کریں، ہوسکتا ہے کہ آپ میں بھی لکھنے کی صلاحیت موجود ہو۔ واضح رہے کہ مضمون نویسی ایک اہم فن ہے۔ اس کے ذریعے حقائق اور معلومات لوگوں تک پہنچائے جاتے ہیں۔ اگر آپ مضمون نویس بننا چاہتے ہیں تو ذیل کے چند اصول کو پیش نظر رکھیں۔

اچھا لکھنے کے لیے اچھا پڑھنا نہایت ضروری ہے۔ مطالعہ کرنے اور کچھ نہ کچھ لکھنے کی عادت اختیار کریں۔ دماغ میں موجود خیالات کو کاغذ کی زینت بنائیں۔ اپنے خیالات و افکار کو خوب صورت اور دل نشین انداز میں تحریر کریں۔ تحریر میں سادہ و آسان اور عام فہم الفاظ استعمال کریں تاکہ ہر طبقے کے لوگ اسے پڑھ اور سمجھ سکیں۔ سادہ کاغذ پر صرف ایک جانب اور ایک سطر چھوڑ کر خوش خط لکھیں۔ لکھنے سے پہلے موضوع کا تعین کریں کہ آپ کس موضوع پر لکھنا چاہتے ہیں۔ مذہبی، سیاسی، اقتصادی، تعلیمی، معاشرتی، بلدیاتی یا اسپورٹس کے حوالے سے۔
واضح رہے کہ ہر موضوع اپنے اندر مختلف پہلو لیے ہوتا ہے۔ لہٰذا جب آپ کسی موضوع پر لکھیں تو موضوع کے اہم ترین پہلوؤں پر لکھیں۔ موضوع کے متعلق ضروری مواد حاصل کرنے کے بعد اس موضوع سے تعلق رکھنے والے اہل علم و فکر اور ماہرین سے گفتگو اور تبادلہ خیال کریں۔ گفتگو کے دوران اہم اور ضروری نکات نوٹ کرلیں اور بعد میں انھیں الفاظ میں خوب صورت انداز میں تحریر کردیں۔کوشش کریں کہ فوری نوعیت (ایشوز) کے معاملات پر لکھیں۔ اپنی تحریر کا آغاز مختصراً تمہیدی کلمات سے کریں۔

 اپنی تحریر میں مستند اقتباسات اور حوالہ جات پیش کریں۔ موقع محل کی مناسبت سے مضمون میں حکایات اور اشعار بھی تحریر کیے جاسکتے ہیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ کسی بات یا کسی نکتے کو نہ دہرائیں۔ مضمون کے اختتامیہ میں مضمون کے مقصد اور مدعا کو بڑے دل نشیں اور پیغام آفریں انداز میں تحریر کریں تاکہ آپ کا مضمون پڑھنے والوں کو اپیل کرسکے۔ مضمون کو منطقی انداز میں ایک خاص ترتیب کے ساتھ آگے بڑھاتے جائیں۔

مضمون میں ہر نئی بات، نئے پیراگراف اور نئی لائن سے شروع کریں۔ کسی بھی مضمون میں سرخیاں یا عنوانات بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ اس لیے سرخی جاندار ہونی چاہیے۔ جب آپ نے کچھ لکھنا ہو تو اس کو فوری طور پر اخبار یا رسالے کے ایڈیٹر کو نہ بھیج دیں بلکہ اس پر بار بار نظرثانی کریں۔ بار بار پڑھیں، غلطیوں کو غور سے دیکھیں اور ان پر نشان لگادیں اور پھر دوبارہ لکھیں۔ اس مشق سے آپ کے ذہن میں نئے خیالات اور نئے الفاظ آئیں گے، اس لحاظ سے مضمون میں رد و بدل کریں۔ سینئر قلم کاروں سے مل کر ان سے اپنی تحریر کی خوبیاں اور خامیاں معلوم کریں تاکہ آپ کی تحریر میں بہتری آسکے۔ اردگرد کے معاشرتی حالات و واقعات کا جائزہ لیں اور انھیں قلم بند کریں۔

جس اخبار یا میگزین کے لیے لکھنا چاہتے ہیں اس کے مزاج کو دیکھیں، اس کی پالیسی معلوم کریں، اس کے پڑھنے والوں کا حلقہ کیسا ہے؟ وہ کوئی ادبی میگزین ہے، مذہبی ہے، سائنسی ہے، بلدیاتی ہے، اسپورٹس کے حوالے سے ہے، فلمی ہے یا کہ جنرل ہے غرض کہ اخبار و رسائل کے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے لکھیں۔ مضمون فیئر کرنے کے بعد متعلقہ اخبار یا رسائل کے ایڈیٹر کو بھیجیں۔ اپنی تحریر ایڈیٹر کو روانہ کرنے کے بعد انتظار کریں۔ چھپنے کی جلدی نہ کریں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کی تحریر ناقابل اشاعت ہو تو ایسی صورت میں مایوسی کا شکار ہوگئے تو آپ کبھی بھی قلم کار نہیں بن سکتے۔ہر مایوسی نئی قوت اور کوشش کا پیغام ہوتی ہے۔
کالم کیا ہے؟ کالم انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ستون، مینار اور کھمبے کے ہیں۔ لیکن صحافت میں کالم دو معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک مخصوص قسم کی تحریروں کے لیے دوسرے اخبار کے صفحے کے حصے کو بھی کالم کہتے ہیں۔ صحافت و ادب کی دنیا سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے اس کی تعریف اپنے اپنے انداز میں کی ہے۔ امریکا کے کالم نویس والٹرلپ مین جنھوں نے عالمی شہرت حاصل کی، کالم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’میں نے اپنی زندگی کا آغاز ایک اداریہ نویس کی حیثیت سے کیا اس لیے میں ایک کالم نویس کو بنیادی طور پر ہمیشہ نام کے ساتھ اداریہ لکھنے والا شخص سمجھتا ہوں‘‘ لیکن ایک دوسرے امریکی صحافی ڈائٹ ای سارجنٹ کے مطابق ’’کالم ادارتی صفحات پر شایع ہونے والی ایسی معاون تحریریں (ادارے کی) ہیں جن میں جائزے، تبصرے اور وضاحت پیش کی جاتی ہے۔

‘‘ کتاب ’’کمیونٹی جرنلزم‘‘ کے مصنف نے کالم کے بارے میں لکھا ہے ’’کالم کی مثال کسی ایک تحریر سے نہیں دی جاسکتی مختلف کالموں کا اسلوب ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ موضوع اور مواد کے لحاظ سے بھی ان پر کوئی پابندی نہیں ہوتی‘‘۔ ایکسپلورنگ جرنلزم میں کالم کی یہ تعریف کی گئی ہے ’’کالم کسی ذاتی خیال پر مبنی ہوسکتا ہے۔ اور دوسروں کے خیالات پر بھی۔ اس میں طب، سائنس اور فیشن وغیرہ کے تخصیصی موضوعات کچھ بھی لکھا جاسکتا ہے۔ اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ 

پاکستان کے سینئر اور بزرگ صحافی زیڈ اے سلہری نے کہا تھا کہ ’’کالم ایسی تحریر کو کہتے ہیں جسے ہر سوچنے سمجھنے والا شخص جس کے ذہن میں کچھ کہنے کو ہے لکھ سکتا ہے۔ بقول عطا الحق قاسمی کہ ’’کالم ایک تحریری کارٹون ہوتا ہے جس میں کالم نویس الفاظ سے خاکہ تیار کرتا ہے۔‘‘ عبدالقادر حسن نے کہا تھا کہ ’’جس موضوع پر خبروں یا اداریہ میں اظہار خیال نہ کیا جائے اس کے متعلق مستقل عنوان کے تحت کسی اخبار میں شایع ہونے والی تحریر کو کالم کہا جائے گا۔‘‘ بہرکیف کالم میں اداریے کی نسبت جانبداری سے کام لیا جاتا ہے۔ کالم میں پیش کی جانے والی مختلف تجاویز اور آرا ادارے سے زیادہ موثر ثابت ہوتی ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں پر عمل کرنے والے نئے رائٹرز سے یہ میری التماس ہے کہ وہ پہلے مطالعہ کی طرف توجہ دیں۔اور اچھی اچھی کتابوں کو سنجیدگی سے پڑھنے کی عادت ڈالیں،تب کہیں جاکر اچھی تحریر جنم لیتی ہے۔

شبیر احمد ارمان

تاریخ کو مسخ کرنے کا الزام - حقییقت کیا ہے ؟

تیسری دنیا کی ہجرت کب ختم ہوگی؟

$
0
0

نوبل انعام یافتہ برطانوی سائنس دان سر اینڈریو ہکسلے کا نام تو ہم میں سے بیشتر نے سنا ہوگا وہ رائل سوسائٹی لندن کے صدر بھی رہے۔ حال ہی میں ان کا ایک لیکچر پڑھنے کا اتفاق ہوا، عنوان تھا ’’سائنس اور سیاست‘‘ انہوں نے لکھا ہے کہ سائنس کی تحقیقات میں جو غیر معمولی وسائل در کار ہوتے ہیں وہ اس وقت صرف ترقی یافتہ ملکوں کو حاصل ہیں اور یہ سب کچھ صرف مغربی یورپ کے ممالک میں ’’اتحادی پروگرام‘‘ کے ذریعے ممکن ہواہے نہ کہ ذاتی وسائل کے ذریعے۔ 

انہوں نے لکھا ہے کہ اس معاملے میں سب سے زیادہ درد ناک صورت حال غیرترقی یافتہ ممالک کی ہے وہ سائنسی تحقیقات میں بہت پیچھے ہیں حالانکہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک بہترین صلاحیتوں کے مالک دماغوں کو غیرترقی یافتہ ممالک سے لے رہے ہیں۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جن نوجوانوں کے سرپرستوں نے مغربی قوتوں سے لڑائی کی تھی کہ وہ ان ملکوں کو لوٹ رہے ہیں اور جنہوں نے بے پناہ قربانیوں کے بعد ان کے قبضے سے آزادی حاصل کی تھی اب انہیں کی بہترین اولاد خود اپنی مرضی سے بھاگ بھاگ کر ان ملکوں میں جارہی ہے تاکہ وہ ان کی صلاحیتوں کو لوٹیں اور ان کے ذریعے اپنی عالمی قیادت کو برقرار رکھیں۔ 
اس لوٹ مار سے بچنے کی واحد صورت وہی ہے جس کو موجودہ زمانے میں برطانیہ نے اختیار کیا ہے یعنی ایشیا میں مختلف ممالک کےمشترکہ وسائل سے اعلیٰ ترین سائنسی تحقیق کا آغاز کرنا تاکہ ان ملکوں کے اعلیٰ سائنسی ذہنوں کو اپنے ملک میں کام کے وہی مواقع مل سکیں جس کے لئے وہ مغربی ملکوں میں جاتے ہیں یا مستقل ہجرت کرجاتے ہیں۔ غیر ترقی یافتہ ممالک یعنی تیسری دنیا میں دو ملک بھی ایسے نہیں ہیں جو حقیقی معنوں میں اتحاد و اشتراک کے ذریعے کام کرنے کیلئے تیار ہوں۔

 شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ تخریب کے عنوان پر لوگوں کومتحد کرنا سب سے زیادہ آسان کام ہے اور تعمیر کے عنوان پر متحد کرنا سب سے مشکل کام، کیسی عجیب تھی وہ آزادی جو خون بہا کے حاصل کی گئی تھی اور کیسی عجیب ہے وہ غلامی جو صلاحیتوں کے بہائو کے ذریعے دوبارہ ہماری طرف لوٹ آئی ہے۔ آپ اس تلخ حقیقت سے یقیناً واقف ہوں گے کہ ترقی پزیر ملکوں سے ہر سال پچاس ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین اور سائنس دان اپنے ملک کو خیرباد کہہ کر مغربی ممالک چلے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ’’تجارت اور ترقی‘‘ کی رپورٹ میں جو اعداد و شمار فراہم کئے گئےہیں وہ بے حد چونکا دینے والے ہیں۔
 رپورٹ کے مطابق 2005ء اور 2010ء کے عشروں میں تیسری دنیا کے پانچ لاکھ ماہرین نے ترقی یافتہ ملکوں کی طرف ہجرت کی ، یوں ان کی غریب قوموں کو ایک کھرب امریکی ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ دوسری طرف یہ مغربی ممالک ان ماہرین کے آنے سے 15 ارب ڈالر کی سالانہ بچت کرتے ہیں۔ صرف امریکہ میں بسنے والے اور کام کرنے والے غیرملکی ڈاکٹروں کی تعداد 72% ہے۔ ناسا جیسے اہم ادارے میں 42% صرف بھارتی افراد کام کرتے ہیں۔ امریکی ایوان نمائندگان کے امور خارجہ کے شعبے کے جاری کردہ ایک مطالعہ کے مطابق 1997-1996ء میں تیسری دنیا کی تربیت یافتہ افرادی قوت کی امریکہ منتقلی کی بنا پر امریکہ کو دو ارب ڈالر کا فائدہ پہنچا تھا، جسے ’’قابل قدر وسائل کا رضاکارانہ تحفہ‘‘ قرار دیا گیا تھا۔

ا قوام متحدہ کی ایک رپورٹ اس سے بھی زیادہ تشویش ناک ہے اس رپورٹ میں ٹھوس اعداد وشمار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 1981ء سے 1991ء کےدوران امداد دینے والے تین بڑے ملکوں امریکہ ، برطانیہ اور کینیڈا نے تیسری دنیا کے غریب ملکوں کو 46ارب ڈالر کی امداد فراہم کی دوسری طرف غریب قوموں کے ماہرین کی آمد سے ان تینوں ملکوں کو 62ارب ڈالر کا فائدہ پہنچا تھا۔ ابھی میں نے کہا ہےکہ 2005ء کے عشرے میں تیسری دنیا کے پانچ لاکھ ماہرین نے ترقی یافتہ مغربی ملکوں کی طرف ہجرت کی۔
 سائنس دانوں، انجینئروں، ڈاکٹروں اور بیشمار دیگر شعبوں کے ماہرین کی محض یہی تعداد ان ماہرین کی تعداد سے کم از کم ایک تہائی فی صد زیادہ ہے جنہوں نے مغربی دنیا کی کایا پلٹ دی تھی۔ ایشیا اور جنوبی امریکہ کے بہت سے ملکوں کی صورت حال یہ ہے کہ ہر سال جتنے ماہرین تیار ہوتے ہیں۔ ان کا 20 سے 70 فیصد مغربی ملکوں کی طرف ہجرت کر جاتا ہے یوں یہ ملک صنعتی دور میں داخل ہونے کیلئے لازمی سائنس اور فنی مہارت سے محروم کردیئے جاتے ہیں۔

 پاکستان تیسری دنیا کے ان بدقسمت ملکوں میں شامل ہے جس کے اعلیٰ تربیت یافتہ ماہرین کا ایک بڑا حصہ ترقی یافتہ ملکوں کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اس سے ملک اور قوم کو جو نقصان اٹھانا پڑتا ہے اس کا سائنسی انداز میں کبھی جائزہ نہیں لیا گیا۔ البتہ پاکستان کے وزرائےاعظم اپنی ہر دوسری پریس کانفرنس میں یہ ضرور بتاتے رہتے تھے کہ غیرملکوں میں مقیم پاکستانیوں سے کتنے کروڑ روپے کی آمدنی متوقع ہے۔ مغربی حکومتیں ماہرین کے اس بہائو پر دل ہی دل میں خوشی ہوتی ہیں لیکن جب ان سے اس کا ازالہ کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ اسے حیلے بہانوں سے ٹال دیتی ہیں۔

 یہ نقصان عارضی ہو تو شاید غریب قومیں اسے برداشت کرسکتی ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس کے اثرات بے انتہا دور رس ہیں وجہ یہ ہے کہ ماہرین کی ہجرت پسماندہ ملکوں کی تعلیمی پسماندگی کو برقرار رکھنے کا وسیلہ بن رہی ہے۔ تاہم ماہرین کی ہجرت روز بروز بڑھ رہی ہے ترقی یافتہ ملکوں نے اس سلسلے میں غریب قوموں کی مدد کرنے سے انکار کردیا ہے وہ یہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ ہم نے انہیں آنے پر مجبور تو نہیں کیا وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان ملکوں کے آپس کے جھگڑے ختم ہوں تو یہ ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہوں اور پھر تیسری دنیا کے حکمراں ماہرین کے لئے حالات کو سازگار بنائیں تو ہجرت خود بخود ختم ہوجائے گی۔

یہاں تک کالم لکھا تھا کہ آج کے ڈچ اخبار میں پاکستانی فوج کے سابق سربراہ اور سابق صدر پرویز مشرف کا یہ بیان نظر سے گزرا ’’کشمیر کا مسئلہ حل بھی ہوگیا تو بھی بہت سے مسائل باقی ہیں۔ 
یاد رہے کہ جنرل صاحب کے بیان کا میرے موجودہ کالم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اسد مفتی
بشکریہ روزنامہ  جنگ 


یہ آخری جنگ ہو گی

$
0
0

انسویں صدی کے آواخر میں یورپ میں سیاسی و علاقائی صورتحال تیزی سے بدلنے لگی تھی، جرمنی کی صنعتی ترقی نے اسے یورپ کی بڑی قوت بنادیا تھا اور جرمنی کے خوف سے یورپ کی دوسری بڑی قوت برطانیہ نے مختلف علاقائی طاقتوں کے ساتھ مل کر آنے والے سالوں کیلئے پیش بندی کرنا شروع کردی تھی۔ یوں خطے میں مختلف قوتوں کے درمیان نئے علاقائی اتحاد بننے شروع ہوگئے۔ 

برطانیہ نے پہلا اتحاد جاپان کے ساتھ 1902 میں کیا، جس کے بعد 1904 میں برطانیہ اور فرانس کے مابین بھی ایک معاہدہ ہوگیا جو اگرچہ باقاعدہ اتحاد تو نہیں تھا تاہم قریبی تعلقات کے فروغ اور ایک دوسرے کی مدد کیلئے بے حد اہمیت کا حامل معاہدہ ضرور تھا۔ اسی طرح کا دوستی کا ایک معاہدہ برطانیہ، فرانس اور روس کے مابین 1907 میں  کے نام سے ہوا، جس سے یورپ دو گروپوں میں تقسیم ہوگیا تھا، اس تقسیم کے ایک طرف جرمنی، آسٹریا ، ہنگری، سربیا اور اٹلی جبکہ دوسری طرف روس، فرانس اور برطانیہ کھڑے تھے۔ بنیادی طور پر یہ پہلی عالمی جنگ کی پیش بندی تھی جو کسی بھی وقت چھڑ سکتی تھی۔
پہلی عالمی جنگ کو بیسویں صدی کا پہلا بڑا عالمی تنازعہ بھی قرار دیا جاتا ہے ، لیکن بنیادی طور پر یہ کسی عالمی تنازعہ سے زیادہ بیسویں صدی کی سب سے بڑی عالمی سازش تھی جو اگرچہ اگست 1914 میں ہبزبرگ کے ایک شہزادے فرانز فرڈنینڈ کے قتل سے شروع ہوئی، لیکن اس جنگ کی بنیاد یورپ کی دو گروپوں میں تقسیم کی صورت میں انیسویں صدی کے اختتام پر رکھی جا چکی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحادی قوتوں (برطانیہ، فرانس، سربیا اور روس، جاپان، اٹلی، یونان، پرتگال، رومانیہ اور امریکہ) کا مقابلہ محوری قوتوں (جرمنی  آسٹریا، ہنگری اور بلغاریہ) سے تھا۔ خوف اور طاقت کے نشے میں دنیا کے بیشتر ممالک بھی اس جنگ کا حصہ بنتے چلے گئے لیکن جنگ کا ابتدائی جوش و جذبہ اس وقت ماند پڑگیا جب لڑائی ایک انتہائی مہنگی اور خندقوں کی ہولناک جنگ کی شکل اختیار کر گئی کیونکہ مغربی محاذ پر خندقوں اور قلعہ بندیوں کا سلسلہ 475 میل تک پھیل گیا تھا۔

پہلی جنگ عظیم میں اپنے اتحادیوں کی مدد کیلئے روس کو بالکنز کے علاقے اور بحیرہ روم کو عبور کرکے آگے جانا تھا۔ روس کی جانب سے اپنے علاقوں اور سرحدوں کی خلاف ورزی پر سلطنت عثمانیہ کو مجبورااِس جنگ میں کودنا پڑا اور سلطنت عثمانیہ نے اپنے علاقے بچانے کیلئے محوری قوتوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا، پہلی عالمی جنگ کے دوران مشرقی محاذ پر وسیع تر علاقے کی وجہ سے بڑے پیمانے کی خندقوں کی لڑائی تو ممکن نہ ہوئی لیکن اس لڑائی کی شدت مغربی محاذ کے برابر ہی تھی۔
 یہ چونکہ جنگ سے زیادہ ایک سازش تھی، اس لیے جنگ (سازش) آہستہ آہستہ کرکے یورپ کے دیگر علاقوں سے سمٹتی ہوئی سلطنت عثمانیہ کے علاقوں میں محدود ہوکر رہ گئی، مغربی محاذ پر بنیادی طور پر پہلی عالمی جنگ 11 نومبر 1918 کو صبح کے 11 بجے ختم ہو گئی، جرمنی کے جنگ سے نکلنے کے بعد محوری قوتوں کے اتحادیوں کو بھی شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا اور جنگ کے بنیادی مقصد کے تحت اتحادی قوتیں سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھیرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ اسلامی دنیا پر اس معاہدہ کا بہت برا اثر پڑا۔ چونکہ سلطنت عثمانیہ جرمنی کی اتحادی تھی اس لیے اُسے اس جنگ کی بڑی بھاری قیمت چکانا پڑی۔

انگریزوں نے عربوں کو ترکوں کے خلاف جنگ پر اکسایا اور اِس طرح سلطنت عثمانیہ میں مسلمانوں کے مابین قومیت کی بنیاد پر جنگیں شروع ہوگئیں۔ اِن جنگوں میں بہت سے عرب علاقے ترک سلطان کے ہاتھ سے نکل گئے اور اسی جنگ کے اختتام پر مسلمانوں کی وحدت کی علامت عظیم خلافت عثمانیہ کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ 96 برس قبل 28 جون 1919 کو فریقین کے مابین معاہدہ ورسائی کے بعد عالمی جنگ تو رُک گئی لیکن اس کے اثرات بین الاقوامی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی شعبوں میں آنے والی کئی دہائیوں تک جاری رہے۔

پہلی عالمی جنگ ظلم و بربریت کی داستانوں کو بڑھاتی اور برداشت و رواداری کے جذبوں کو مزید کم سے کم تر کرتی چلی گئی۔ اتحادی اور محوری قوتوں سے شروع ہونے والی اس لڑائی میں آہستہ آہستہ کرکے دنیا کی بیشتر اقوام بھی حصہ بنتی چلی گئیں اور یوں پوری دنیا اس جنگ کی آگ جھلستی چلی گئی۔ پہلی جنگ عظیم جدید تاریخ کی سب سے زیادہ تباہ کن لڑائی تھی، جس میں دنیا میں پہلی بار جدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی، پہلی بار دنیا نے کیمیائی اور زہریلی گیس کا استعمال دیکھا،یہ پہلی جنگ تھی جو سمندر کے علاوہ پہلی مرتبہ فضا میں بھی لڑی گئی۔ جنگ عظیم میں دونوں فریقوں کے تقریباًدو کروڑ سے زائد فوجی اور عام لوگ کام آئے اور دو کروڑ افراد کے لگ بھگ ہمیشہ کیلئے معذور یا ناکارہ ہوگئے۔

قارئین کرام!! پہلی جنگ عظیم کی وحشت اور درندگی ایک دفعہ پھر نظر آنے لگی ہے۔ وہ عالمگیر جنگ جس کا سبب اور محرک محض ایک شہزادے کا قتل تھا اور اس قتل کو بنیاد بنا کر ایک جانب دو کروڑ سے زیادہ لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا تو دوسری جانب جنگ سے گریز پا سلطنت عثمانیہ کو بھی جنگ میں گھسیٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ میں بھی روس نے ترکی کی سرحدوں کی خلاف ورزی کی اور ترکی کو جنگ میں گھسیٹ لیا اور پہلی عالمی جنگ کی طرح اب پھر ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے محض ایک روسی طیارہ کو گرائے جانے کے واقعہ کو بنیاد بنا کر نا صرف تیسری عالمی جنگ کی باتیں کی جا رہی ہیں بلکہ اسلامی دنیا کی اپنی قدموں پر کھڑی ہوتی ہوئی طاقت (ترکی) کو دوبارہ نیچے گرانے اور مزا چکھانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ایک سو سال پہلے یورپ کا مرد بیمار (ترکی) جنگ لڑنے کے بالکل بھی قابل نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ ترکی اتحادیوں کی سازشوں کا مقابلہ کر سکا نہ ہی اپنے علاقے بچا پایا، لیکن روس کو شاید معلوم نہیں کہ اب ترکی یورپ کا مرد بیمار نہیں ہے بلکہ جوہری طاقت نہ ہونے کے باوجود ترکی اپنی پالیسیوں اور معاشی استحکام کی وجہ سے اسلامی دنیا کا سرخیل ایک طاقتور ملک ہے۔ یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اب محض ایک واقعہ کو بنیاد بناکر تیسری عالمی جنگ نہیں چھیڑی جابسکتی، لیکن خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو یہ آخری جنگ ہوگی!
  
نازیہ مصطفیٰ
روزنامہ  نوائے وقت بشکریہ

سفید چھڑی کی ضرورت ریاست کو ہے

$
0
0

سندھ اسمبلی نے لگ بھگ دس ماہ پہلے خصوصی افراد (معذور)کے روزگار، بحالی و بہبود سے متعلق ایکٹ مجریہ دو ہزار چودہ منظور کیا۔ اس ایکٹ نے خصوصی افراد کی بحالی و بہبود سے متعلق وفاقی ایکٹ مجریہ انیس سو اکیاسی کی جگہ لے لی۔ سندھ اسمبلی کا ایکٹ سابق وفاقی ایکٹ کے مقابلے میں زیادہ جامع اور فلاحی ہے۔

مثلاً انیس سو اکیاسی کے ایکٹ میں معذوروں کے لیے تعلیمی اور روزگاری اداروں میں دو فیصد خصوصی کوٹہ رکھا گیا۔ لیکن اگر کوئی اس کوٹے کو نہ بھرے تو اس کے خلاف کوئی واضح تادیبی کارروائی نہیں ہو سکتی تھی۔ تاہم حکومتِ سندھ نے اس اہم شق کو موثر بناتے ہوئے نئے ایکٹ میں نجی و سرکاری اداروں کو پابند کیا ہے کہ جو ادارہ بھی معذوروں کا دو فیصد ملازمتی کوٹہ نہیں بھرے گا یا جزوی بھرتی کرے گا اسے بطور ازالہ خالی آسامیوں کی تنخواہ کے برابر رقم معذوروں کے بحالی فنڈ میں جمع کرانی ہو گی۔

حکومتِ سندھ کے اس ایکٹ کے تحت خصوصی طلبا و طالبات کو پچھتر فیصد تک فیس معافی ملے گی۔ خصوصی افراد کو ماہانہ گرانٹس ملیں گی اور ان کے بچوں کی شادی اخراجات کا ایک حصہ بھی حکومت برداشت کرے گی۔ خصوصی افراد کو معاشی خودکفالت کی خاطر چھوٹے کاروبار قائم کرنے کے لیے بلاسودی قرضے دیے جائیں گے۔ انھیں گھر بنانے کے لیے سرکاری اسکیموں میں پلاٹ رعائتی نرخوں پر ملیں گے۔
آپ نے دیکھا حکومتِ سندھ کس قدر انسان دوست ہے اور اسے اپنے معذور شہریوں کی ضروریات کا کتنا خیال ہے؟ بس ایک چھوٹی سی اڑچن آڑے آ گئی ہے۔ یعنی ایکٹ منظور ہونے کے دس ماہ بعد بھی وہ ذیلی ضابطے نہیں بن سکے جن کے ذریعے اس ایکٹ کا نفاذ ہو سکے۔ چونکہ ذیلی قوانین نہیں بن سکے اس لیے مختلف طبقہ ہائے زندگی کے نمایندہ معزز افراد پر مشتمل وہ کونسل بھی تشکیل نہیں پا سکی جو اس ایکٹ پر عمل درآمد کی نگرانی کرے۔ لہٰذا خصوصی افراد فی الحال یہی سوچ سوچ کے خوش ہو سکتے ہیں کہ ایکٹ کی پیدائش کاغذ پر تو ہو چکی مگر جب دادا مریں گے تب ہی بیل بٹیں گے۔

بس یہی المیہ ہے پاکستان جیسے ممالک کا جہاں قوانین تو ترقی یافتہ دنیا کے ہم پلہ ہیں لیکن عملی نفاذ کے لیے نسل در نسل انتظار بھی ناکافی ہے۔ یہ انتظار معذور اور غیر معذور میں مساوی بٹا ہوا ہے۔

کچھ سہولتیں دینے کے لیے کسی قانون یا ڈنڈے کی بھی ضرورت نہیں صرف کامن سینس استعمال کر کے معذوروں کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے۔ مگر کیا کریں کہ کامن سینس بھی بہت مہنگی ہے۔ مثلاً جب بھی سرکار کوئی فٹ پاتھ بناتی ہے تو ٹھیکیدار کو یہی تو کہنا ہے کہ بھائی فٹ پاتھ جہاں سے شروع اور جہاں پے ختم ہوتی ہے وہاں اینٹوں کو تھوڑا سا اور زمین میں دبا کے سلوپ سا بنا دو تا کہ وھیل چئیرز آسانی سے فٹ پاتھ پر چڑھ اتر سکیں۔ ایسا کرنے سے فٹ پاتھ کے بجٹ میں ایک پائی کا بھی اضافہ نہیں ہو گا مگر وہیل چئیرز استعمال کرنے والوں کی نقل و حرکت آسان ہو جائے گی۔ لیکن اس طرح سے سوچے کون؟

کسی بھی صوبے یا شہر کی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو بس یہی تو کہنا ہے کہ جب بھی کوئی پبلک یا کمرشل عمارت بنائی جائے تو بیرونی سیڑھیوں کے برابر میں یا سیڑھیوں کے درمیان ایک سلوپ بھی بنا دیا جائے تا کہ معذور افراد آسانی سے بلڈنگ کے اندر آ جا سکیں۔ اگر آپ نے چار واش روم نارمل لوگوں کے استعمال کے لیے بنائے ہیں تو پانچواں خصوصی افراد کی ضروریات کے حساب سے بھی بنا دیں۔ یہ سہولت دینے میں آخر کتنے اضافی پیسے لگیں گے۔ اگر کسی کثیر منزلہ عمارت میں لفٹ نہیں تو بجائے یہ کہ نابینا یا چلنے پھرنے سے معذور یا بیمار شہری اوپری منزلوں تک آنے جانے کے لیے کسی مددگار کو تلاش کرتے پھریں کیوں نہ گراؤنڈ فلور پر ہی ایک اہلکار بٹھا دیا جائے جو ان کے دستاویزی و دیگر مسائل حل کر دے اور معذور افراد کو اوپر جانے کا مشورہ دینے کے بجائے ان کی فائلیں اوپر بھیج دے۔ اس انتظام میں ادارے کے کتنے اضافی پیسے خرچ ہو جائیں گے؟ کیا بسوں اور ٹرینوں میں معذور افراد کے لیے چند سیٹیں خالی رکھنے سے کمپنی یا ادارے پر بہت بڑا مالی بوجھ پڑ جائے گا؟ کیا پارکنگ لاٹ میں ایک سیکشن معذوروں کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے لیے مخصوص کرنے سے پارکنگ لاٹ کا منتظم دیوالیہ ہو جائے گا؟

شناختی کارڈ ہر پاکستانی کا حق ہے اور کہنے کو پاکستان میں معذوروں کی آبادی ڈھائی فیصد کے لگ بھگ ہے۔ لیکن ایک موقر انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سال جنوری تک نادرا نے نو کروڑ کے لگ بھگ جو شناختی کارڈ جاری کیے ان میں معذوروں کو جاری ہونے والے شناختی کارڈوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے بھی کم تھی۔ سب سے گنجان صوبہ پنجاب جہاں معذوروں کا تناسب بھی آبادی کے اعتبار سے زیادہ ہونا چاہیے وہاں جاری ہونے والے شناختی کارڈوں میں سے صرف صفر اعشاریہ صفر آٹھ فیصد کارڈ معذورں کو دیے گئے، بلوچستان میں یہ شرح صفر اعشاریہ صفر نو، سندھ میں صفر اعشاریہ پندرہ اور خیبر پختون خوا میں صفر اعشاریہ چھیالیس فیصد رہی۔ (ہو سکتا ہے پچھلے دس ماہ کے دوران اس تعداد میں تھوڑا اضافہ ہو گیا ہو)۔

شناختی کارڈ کے بغیر کوئی سفری و غیر سفری دستاویز نہیں بن سکتی، تصدیق نہیں ہو سکتی، بینک اکاؤنٹ نہیں کھل سکتا، موبائل سم جاری نہیں ہو سکتی۔ جائداد خریدی بیچی نہیں جا سکتی، کرائے پر دی اور لی نہیں جا سکتی۔ اس تناظر میں صرف ایک فیصد سے بھی کم شناختی کارڈ اگر معذوروں کو جاری ہوں تو سوچئے ان کے پہلے سے موجود مسائل میں کتنے گنا اضافہ ہو جائے گا۔

لیکن معاملہ صرف شناختی کارڈ تک ہی تھوڑا ہے۔ ہر سرکار اپنے جوہر میں لکیر کی فقیر ہوتی ہے لہٰذا اسے معذوروں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے کوئی ٹھوس کاغذی ثبوت درکار ہوتا ہے۔ وھیل چئر پر بیٹھا یا بیساکھی ٹیکتا یا سفید چھڑی ہلاتا شخص سرکار کو تب تک دکھائی نہیںدیتا جب تک اس شخص کے ہاتھ میں ڈسٹرکٹ اسیسمنٹ بورڈ کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ نہ ہو کہ یہ شخص درحقیقت معذور ہے (کوئی بہروپیا نہیں) اور رعائتی تعلیمی سہولتوں یا روزگاری کوٹے کا مستحق ہے۔

اگر اسے کسی اسپتال میں رعائتی علاج کرانا ہو تو صرف اسیسمنٹ بورڈ کا سرٹیفکیٹ کافی نہیں جب تک متعلقہ اسپتال کا سرجن یہ نہ لکھ دے کہ یہ شخص واقعی معذور ہے (کوئی اداکار نہیں)۔ مگر آپ کسی بھی شہری سے پوچھ لیں بھائی یہ ڈسٹرکٹ اسیسمنٹ بورڈ کہاں بیٹھتا ہے؟ کوئی ٹھیک سے بتا دے تو میرا یہ قلم آپ کا۔ نتیجہ یہ ہے کہ عام لوگ تو خیر روزمرہ مسائل کے حل کے لیے جوتیاں چٹخاتے ہی ہیں مگر معذور متعلقہ سرٹیفکیٹ کے حصول کے لیے یہاں سے وہاں تک سفید چھڑی اور بیساکھی گھس لیتے ہیں۔

نتیجہ کیا ہے؟ اس وقت پاکستان میں اگر سو معذور افراد ہیں تو ان میں سے صرف چودہ کوئی کام کاج یا روزگار کر رہے ہیں۔ باقی اپنی روزمرہ زندگی کے لیے یا تو خاندان کے دستِ نگر ہیں یا پھر بھیک مانگنے سمیت ہر وہ کام کرنے پر مجبور ہیں جو عزتِ نفس کو کرچی کرچی کر کے سرمہ بنا دے۔

صرف دو فیصد معذور بچوں کی خصوصی تعلیمی اداروں تک اور باقی دو فیصد کی عمومی تعلیمی اداروں تک رسائی ہے۔ باقی چھیانوے فیصد کا اللہ حافظ ہے۔ گھر والے بھی معذور بچے کو کسی عام اسکول میں داخل کرنے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ انھیں ڈر ہوتا ہے کہ کہیں تضحیک کا نشانہ نہ بن جائے۔ خود اسکول کی انتظامیہ بھی ایسے بچوں کے داخلے کے لیے زیادہ پرجوش نہیں ہوتی۔ والدین کو پہلا مشورہ یہ دیا جاتا ہے کہ آپ اسے کسی اسپیشل اسکول میں کیوں نہیں داخل کراتے۔ حالانکہ دیکھا یہی گیا ہے کہ ایسے بچے عام بچوں کے مقابلے میں زیادہ محنت کرتے ہیں اور زیادہ اچھے نمبر لاتے ہیں۔

اور جب یہ معذور تنگ آمد بجنگ آمد اپنے ان حقوق کے لیے کوئی مظاہرہ کرتے ہیں کہ جن کا وعدہ حکومت نے کیا تھا تو کوئی ان کی بات ہمدردی سے سننے کے لیے اپنے دو منٹ ضایع کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ اس ناالتفاتی پر معذور زیادہ برہم ہو جائیں تو پولیس کے ڈنڈے نابیناؤں کے سر اور وہیل چئرز پر پڑتے ہیں۔
البتہ ہر حکمران معذوروں کے عالمی دن (تین دسمبر) پر ایک قومی پیغام خوشی خوشی جاری کر دیتا ہے اور یہ حوالہ دینا بھی نہیں بھولتا کہ ریاستِ پاکستان اقوامِ متحدہ کے عالمی کنونشن برائے معذوران کی دستخطی ہونے کے ناتے اپنے خصوصی شہریوں کی ہر ممکن مدد کر رہی ہے۔ یہ پیغام اس ریاست کو چلانے والے جاری کرتے ہیں جہاں آج تک یہی آفیشل ڈیٹا نہیں بن سکا کہ اس ملک میں کتنے لوگ کس کس طرح کی معذوری میں مبتلا ہیں۔

تو کیا یہ کہنا زیادتی ہو گی کہ سفید چھڑی کی ضرورت کسی نابینا سے زیادہ ریاست کو ہے۔

وسعت اللہ خان
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس 

پاکستانی کرکٹ کو بچائیں


پاک بھارت جنگ کیسے ہوگی؟

$
0
0

انیس اور بیس نومبر کو نئی دہلی میں جناح انسٹی ٹیوٹ اور سینٹر فار ڈائیلاگ ایند ری کنسلیشن  کے زیراہتمام ہونیوالے اس دو روزہ ڈائیلاگ میں افغانستان کے حالات اور دونوں ممالک کے میڈیا کے موضوعات پر اس طالب علم نے بولنا تھا۔ افغانستان کے موضوع پر جو کچھ عرض کیا اسکا مختصر خلاصہ یوں تھا کہ   ہندوستان اور پاکستان ، یوں افغان عوام کے مجرم ہیں کہ دونوں اپنی مشرقی سرحد کے تنازعات کی جنگ افغان سرزمین پر ، افغانوں کے کاندھوں کو استعمال کر کے اور ان کے خون کو بہا کر لڑ رہے ہیں لیکن پاکستان کا جرم نسبتاً یوں کم ہے کہ پاکستان، افغانستان کے حالات سے پہلے بھی متاثر ہوا اور آج بھی متاثر ہو رہا ہے لیکن ہندوستان دور سے آکر ٹانگ اڑا رہا ہے۔ 

ڈیورنڈ لائن کا تنازع افغانستان نے برقرار رکھا ہے اور اپنے مہاجرین کو افغان حکومت واپس نہیں لے جا سکتی ۔ اب جن دو ممالک کے درمیان روزانہ تیس سے پچاس ہزار لوگ بغیر ویزے اور پاسپورٹ کے آ جا رہے ہوں، تو وہ ایک دوسرے کے معاملات سے کس طرح لاتعلق رہ سکتے ہیں۔ اگر پاکستان چاہے بھی تو اس بارڈر اور روزانہ ہزاروں لوگوں کے بغیر دستاویزات کے سفراور طالبان کی آمد ورفت کو کیسے روک سکتا ہے لیکن ہندوستان کو افغانستان کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔

پاکستان نے افغان طالبان کے ساتھ بے وفائی کر کے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی مدد کی تھی اور2003ءتک افغانستان سیاسی استحکام کی طرف بڑھ رہا تھا لیکن جب امریکہ اور نیٹو نے پاکستان کے خدشات اور مفادات کو یکسر نظرانداز کیا اور افغانستان کو سنبھالے بغیر امریکہ نے عراق پر چڑھائی کا فیصلہ کیا تو چین، روس اور ایران کی طرح پاکستان کے بھی خدشات بڑھ گئے۔ مذکورہ تین ممالک نے بھی امریکہ کے ساتھ قلبی تعاون سے ہاتھ کھینچ لئے  خود ایرانی انٹیلی جنس نے بھی طالبان اور القاعدہ سے تعلقات استوار کرنے شروع کئے ۔
 اس تناظر میں پرویز مشرف کی حکومت نے بھی ڈبل گیم شروع کیا (اگرچہ ذاتی طور پر میں پھر بھی اس کو درست نہیں سمجھتا تھا) ۔ گویا پاکستان کا ڈبل گیم ہندوستان سے متعلق نہیں بلکہ امریکہ اور افغان حکومت کے رویے کے ردعمل میں تھا لیکن ہندوستان نے افغانستان میں جو کچھ کیا اور کررہا ہے، اس کا محور و مرکز پاکستان ہے۔ لیکن ہندوستان کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ وہی غلطی دہرا رہا ہے کہ جو ماضی میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے کی تھی۔ جس طرح ماضی میں عسکریت پسندی کی سپورٹ کے ذریعے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے گلے کے پھندے تیار کئے، اسی طرح ہندوستان آج خطے میں اپنے گلے کے پھندے تیار کر رہا ہے۔

ہندوستان کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ خطے میں آگ بھڑکی رہے گی تو اس کے شعلے ہندوستان تک بھی پہنچیں گے اور جو مذہبی عسکریت پسند ہیں وہ القاعدہ کے ساتھ ہوں یا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ، ان کی آخری منزل اور ٹھکانہ ہندوستان ہی ہے۔ وہ جس حدیث مبارک کو اپنی جدوجہد کی بنیاد بنا رہے ہیں، کا نام حدیث ہند ہے اور وہ اپنے جہاد کو غزوہ ہند کا نام دیتے ہیں۔ اگر پاکستان راہ میں نہ رہے تو یہ لوگ ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں دیر نہیں لگائیں گے ۔ اس لئے ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ باز آجائیں اور افغانستان کو اپنی جنگ کا میدان بنائے رکھنے کی بجائے اسے باہمی تعاون کا میدان بنا دیں۔

 دونوں عقل سے کام لیں تو افغانستان باہمی جنگ کی بجائے ان کےمابین صلح اورباہمی تعاون کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ افغان حکومت اور طالبان کے مذاکراتی عمل کیلئے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانا (بعض ہندوستانی شرکاء نے مجھ سے پہلے خطاب میں ایسا کیا تھا) بھی درست نہیں۔ یہ عذر بنایا گیا کہ اگر ملاعمر کے انتقال کی خبر مری مذاکرات کے دوسرے مرحلے کے بعد سامنے لائی جاتی تو افغان حکومت کیلئے خفت کا موجب بنتی لیکن کیا یہ اس کیلئے اور امریکہ وغیرہ کیلئے معمولی خفت ہے کہ اس کے مخالف گروپ کے سربراہ کے انتقال کا انہیں ڈھائی سال تک پتہ نہ چل سکاحالانکہ ماضی میں ملا عمر کی انتقال کے دعوے افغان انٹیلی جنس ہی کرتی رہی۔

طالبان کا جو دھڑا ملامحمد عمر کے انتقال کا دعویٰ کر کے کافی عرصے پہلے الگ ہو گیا تھا، وہ افغان انٹیلی جنس کے زیراثر ہے۔ اس لئے یہ دعویٰ سراسر جھوٹ ہے کہ افغان انٹیلی جنس کو ملامحمد عمر کے انتقال سے متعلق کچھ معلوم نہیں تھا۔ لیکن اگر ہم مان بھی لیں کہ مری مذاکرات پاکستان کی غلطی سے ناکام ہوئے تو بھی سوال یہ ہے کہ قطر مذاکرات کس کی وجہ سے ناکام ہوئے۔

 پہلے مرحلے کی حامد کرزئی صاحب نے جھنڈے اور امارت اسلامی کے نام کی وجہ سے مخالفت کر دی اور احتجاجاََ قطر سے اپنے سفیر کو بھی واپس بلا لیا جبکہ دوسرا سلسلہ اس لئے ناکام ہوا کہ امریکہ نے افغان طالبان قیدیوں کی گوانتانامو بے سے رہائی کا وعدہ پورا نہیں کیا۔ سب سے بڑی وجہ جس کا کوئی ذکر نہیں کرتا یہ ہے کہ اس وقت بدقسمتی سے افغانستان میں کوئی پیس لابی   ہےہی نہیں۔ غیرپختون افغانوں سے بڑھ کر افغان حکومت میں شامل پختون بھی طالبان کے ساتھ مفاہمت کے دلی خواہش مند نہیں ہیں۔

 کیونکہ طالبان کو حصہ ڈاکٹراشرف غنی جیسے پختون افغانوں کو دینا ہو گا نہ کہ رشید دوستم اور عبداللہ عبداللہ جیسے لوگوں کو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مری مذاکرات کے سب سے بڑے مخالف حامد کرزئی صاحب تھے اور بعض لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ اسی سوچ کے تحت شاید ملا محمد عمر کی موت کی خبر لیک کر کے اس کو خود موجودہ افغان حکومت نے ناکام بنا دیا۔ 

میڈیا کے سیشن میں اظہار خیال کرتے ہوئے عرض کیا کہ ’’دونوں ممالک (پاکستان اور ہندوستان) کے میڈیا کا کردار انتہائی منفی ہے۔ دونوں پاپولرازم کا شکار ہو کر جنگی فضا پیدا کر رہے ہیں اور اس طرح کے میڈیا کے ہوتے ہوئے نہ صرف یہ کہ تعلقات کی بہتری کا امکان نہیں بلکہ جنگ کا خطرہ بھی موجود ہے اور مجھے خدشہ ہے کہ حکومتوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی یہ میڈیا کسی وقت پاکستان اور ہندوستان کی جنگ کرا سکتا ہے۔

 ہوتا یوں ہے کہ ابتداء میں حکومتیں اور حکومتوں کے طاقتور عناصر میڈیا کو اپنی راہ پر لگا دیتے ہیں۔ تب میڈیا حکومتوں کے مہرے کا کردار ادا کرتا ہے لیکن میڈیا ان تصورات کو عوام میں لے جاتا ہے اور پھر میڈیا پاپولراز م کی وجہ سے خود ان عوامی تصورات کا یرغمال بن جاتا ہے ۔ میڈیا اگر چاہے بھی تو پھر پیچھے نہیں ہٹ سکتا ۔ دوسری طرف پھر ایک مرحلہ ایسا آجاتا ہے کہ حکومتیں اور اسٹیبلشمنٹ اس میڈیا کی یرغمال بن جاتی ہیں ، جس کو کسی زمانے میں خود انہوں نے اس راستے پر لگایا ہوتا ہے۔

میرے نزدیک ہندوستان اور پاکستان کے معاملے میں اب یہی ہورہا ہے۔ ہندوستانی میڈیا کو پاکستان دشمنی کا زہر خود یہاں کی حکومت اور پاکستان مخالف لابی نے منتقل کیا اور اسی میڈیا نے اس کو عوامی سطح پر پھیلا دیا۔ اب میڈیا چاہے بھی تو عوامی موڈ کی وجہ سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا اور حکومت چاہے بھی تو اپنے میڈیا کے خوف سے پاکستان کو کوئی رعایت نہیں دے سکتی۔ اسی طرح پاکستانی میڈیا کو اس راستے پر اس کی اسٹیبلشمنٹ نے لگادیا ہے لیکن اب پاکستانی میڈیا عوامی خوف سے اور اسٹیبلشمنٹ ، میڈیا کے خوف سے کوئی رعایت نہیں دے سکتی۔

 ان حالات میں غیرمعمولی فیصلے کرنے والی انقلابی سوچ کی حامل مقبول ترین قیادت ہی ہوا کے مخالف رخ جا سکتی ہے لیکن وہ قیادت اس وقت ہندوستان میں نظر آتی ہے اور نہ پاکستان میں۔ سردست دونوں ملکوں کا جنگ کا بھی کوئی ارادہ نہیں لیکن یہ خطرہ اپنی جگہ موجود ہے کہ کسی وقت حکومتوں کے نہ چاہتے ہوئے، غیرارادی طور پر یہی میڈیا ان دونوں کو لڑوادے اور خاکم بدہن اگر ممبئی جیسا کوئی واقعہ رونما ہوا تو یہ میڈیا جنگ کرائے بغیر اپنی حکومتوں کو نہیں چھوڑے گا۔ تاہم اگر انصاف سے کام لیا جائے تو یہاں بھی پاکستانی میڈیا کا جرم  بھارتی میڈیا کی نسبت کم ہے۔

ہم اگر میڈیا گروپس کے لحاظ سے دیکھیں تو پاکستان میں دونوں بڑے میڈیا گروپس یعنی جنگ گروپ اور ڈان گروپ، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ناقدر ہے ہیں۔ لیکن ہندوستان کے بڑے میڈیا گروپس میں ایک بھی اپنی حکومت کی جنگجویانہ پالیسیوں کا ناقد نہیں حالانکہ مضبوط پارلیمنٹ ، مضبوط عدلیہ اور مضبوط سول سوسائٹی کا تحفظ ہونے کی وجہ سے ہندوستانی میڈیا کیلئے یہ کام ، پاکستانی میڈیا کی بہنسبت بہت آسان ہے۔ 

اسی طرح اگر بڑے اینکرزمیں دیکھا جائے تو پاکستان میں اگر پچاس فیصد اینکرز جنگجویانہ سوچ پھیلانے والے ہیں تو پچاس فیصد برعکس بات بھی کرتے ہیں لیکن ہندوستانی اینکرز میں یہ تناسب دو فی صد بھی نہیں۔ اگر کالم نگاروں کی طرف آجائیں تو پاکستانی سائیڈ پر جنگ کی بجائے امن کی بات کرنے والوں کا تناسب پچاس فی صد سے بھی زیادہ ہے لیکن ہندوستان میں یہ تعداد، آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ۔

 پاکستانی میڈیا ، ایک جنگجویانہ ماحول اور سوسائٹی میں کام کر رہا ہے لیکن ہمارے میڈیا میں جنگجویانہ فکر کے علمبردار زیادہ سے زیادہ پچاس فی صد ہوسکتے ہیں لیکن جمہوری اور سیکولر ماحول میں کام کرنے والا بھارتی میڈیا مجموعی طور پر جنگجویانہ سوچ کا علمبردار ہے ۔ یوں بھی اگر مجرم دونوں جانب ہیں تو ہم کم اور آپ ہندوستانی زیادہ مجرم ہیں ۔

سلیم صافی
‘‘ بشکریہ روزنامہ"جنگ"

بلدیاتی سیاست میں کون کس کا سگا ؟

$
0
0

  چاروں صوبوں میں سال بھر پر پھیلا ہوا بلدیاتی انتخابی عمل مکمل ہوا۔گذشتہ برس بلوچستان نے پہل کی، پھر خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات ہوئے اور پچھلے ایک ماہ کےدوران پنجاب اور سندھ میں بھی تین مرحلوں میں یہ عمل پایۂ تکمیل کو پہنچنے کو ہے۔

قطع نظر ان انتخابات میں کس کی ہار کس کی جیت ہوئی۔ کچھ رجحانات واضح طور پر سامنے آئے۔

مثلاً کہنے کو خواتین ووٹروں کی تعداد کم و بیش نصف ہے لیکن بلدیاتی انتخابات کے آخری مرحلے کو کسوٹی مان لیا جائے تو انتخابی عمل میں خواتین کی شرکت آج بھی ووٹ دینے سے آگے نہیں بڑھی۔ اگر بلدیاتی ایوانوں میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کا کوٹہ نہ ہو تو شاید حالات اور بھی ابتر نظر آئیں۔

مثلاً سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے آخری انتخابی مرحلے میں 12 اضلاع کی جنرل سیٹوں پر 31 ہزار 848 امیدوار کھڑے ہوئے ۔ان میں خواتین امیدواروں کی تعداد 90 تھی۔ ضلع رحیم یار خان میں تو ایک خاتون امیدوار نے بھی جنرل سیٹ پر الیکشن نہیں لڑا۔

پاکستان کے سب سے بڑے، گنجان اور خواندہ شہر کراچی عرف منی پاکستان میں بھی حالات ایسے ہی رہے۔ یہاں کے چھ اضلاع میں کل امیدوار پانچ ہزار484 تھے۔ان میں خواتین امیدواروں کی تعداد 133 تھی۔یہ الگ بات کہ کراچی میں درجن بھر قابلِ ذکر سیاسی جماعتیں اور اتحاد ایک دوسرے کے مدِ مقابل تھے اور ان میں سے کوئی جماعت بھی ایسی نہیں جس نے خواتین کی برابری اور ان کے حقوق کا علم بلند نہ کر رکھا ہو۔
کراچی میں تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے تقریباً چار ہزار ووٹر بستے ہیں۔ حالانکہ 2011 میں سپریم کورٹ نے تیسری برادری سے امتیازی سلوک کو کالعدم قرار دے دیا تھا لیکن انتخابی امیدواروں کے فارم میں تیسری جنس کا خانہ ہی نہیں تھا۔ نہ ہی کوئی یہ بتانے والا کہ ان کا ووٹ مردوں کے پولنگ اسٹیشن پر ہے یا خواتین کے۔
 
کراچی میں تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے تقریباً چار ہزار ووٹر بستے ہیں
تیسری جنس کے حقوق کی آواز بلند کرنے والی ایک سرکردہ شخصیت بندیا رانا کا کہنا ہے کہ اب تک نادرا نے کراچی میں بسنے والی خواجہ سرا برادری کے چار ہزار ارکان میں سے لگ بھگ آدھوں کو شناختی کارڈ جاری کیے ہیں مگر ہمارے ووٹروں کے لیے علیحدہ سے انتظامات نہیں کیے گئے لہذا ہم انتخابی عمل کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔

بندیانے 2013 کے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے سے انتخاب لڑا لیکن اب ان کا مطالبہ ہے کہ جب تک ان کی برادری کو خواتین، اقلیت، مزدوروں، کسانوں اور نوجوانوں کی طرح بلدیاتی اداروں میں مخصوص نشستیں نہیں دی جاتیں وہ انتخابی عمل سے الگ تھلگ رہے گی کیونکہ کوئی نہیں جو خود ان کے علاوہ ان کے حقوق اور مسائل سمجھ کے ان کے لیے آواز اٹھا سکے۔
جہاں تک غیر مسلم پاکستانیوں کی بلدیاتی انتخابی عمل میں شرکت کا معاملہ ہے تو کراچی میں صورتِ حال اس لحاظ سے حوصلہ افزا رہی کہ لگ بھگ سو غیر مسلم امیدواروں نے جنرل نشستوں پر آزاد حیثیت میں یا پارٹی ٹکٹ پر قسمت آزمائی کی ۔
ان میں زیادہ تر امیدواروں کا تعلق ہندو برادری سے تھا۔ پنجاب کے 12 اضلاع میں 51 غیر مسلم امیدوار تیسرے مرحلے میں کھلے مقابلے والی نشستوں سے کھڑے ہوئے۔گو بہت کم کو کامیابی کی امید تھی مگر سماجی حالات دیکھتے ہوئے فی الحال اتنا بھی غنیمت ہے۔ البتہ اوکاڑہ میں ایک عیسائی بلدیاتی کونسلر ایسے حلقے سے کامیاب ہوا جہاں 93 فیصد ووٹر مسلمان ہیں۔

اگرچہ بلدیاتی اداروں میں غیر مسلموں کے لیے پانچ فیصد مخصوص نشستیں بھی ہیں لیکن اقلیتی برادری والے مطمئن نہیں کیونکہ ان کے بقول ان نشستوں پر منتخب ہونے والے زیادہ تر کونسلر خود کو نامزد کرنے والی جماعتوں کے احسان تلے اتنے دب جاتے ہیں کہ اپنی کمیونٹی کے حقیقی مسائل کے لئے آواز بلند کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
 
ضلع رحیم یار خان میں تو ایک خاتون امیدوار نے بھی جنرل سیٹ پر الیکشن نہیں لڑا
ایک رجحان یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ مدِمقابل جماعتوں کے امیدواروں نے انفرادی سطح پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے سمجھوتے بھی کیے اور ان سمجھوتوں کی راہ میں سیاسی و نظریاتی رکاوٹیں بھی خاطر میں نہیں لائی گئیں۔

مثلاً کراچی کے ضلع ملیر کی مظفرآباد یونین کونسل میں راہِ حق پارٹی عرف اہلِ سنت والجماعت عرف کالعدم سپاہِ صحابہ کے امیدوار مولانا محی الدین نے یونین کونسل کی چیرمین شپ کے لیے پیپلز پارٹی کے حمایت یافتہ امیدوار مثال خان کو وائس چیرمین کا امیدوار بنایا۔ دونوں امیدواروں نے جو پوسٹر چھاپے ان میں اہلِ سنت والجماعت کے رہنما ضیا الرحمان فاروقی اور ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ساتھ دکھایا گیا۔ جب پیپلز پارٹی کراچی کی توجہ مبذول کرائی گئی تو جواب یہ تھا کہ ہمارے امیدوار نے اہلِ سنت سے نہیں بلکہ راہِ حق پارٹی سے ایڈجسٹمنٹ کی ہے۔
ضلع کورنگی کی یونین کونسل 14 میں مسلم لیگ نواز کے عبدالرحمان نے تحریکِ انصاف کے یاسر بلوچ کے ساتھ چیئرمین اور نائب چیئرمین کا انتخابی جوڑا بنا کے شیر کے مشترکہ نشان پر الیکشن لڑا۔

کراچی کے ضلع شرقی کی یونین کونسل پانچ میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے مشترکہ امیدوار فراز آفریدی نے چیئرمین اور غلام علی نے نائب چیرمین کے لئے شیر کا مشترکہ نشان چنا۔
 
بلدیہ ٹاؤن کی یونین کونسل 34 میں جماعتِ اسلامی نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی تصویر بھی عمران خان اور سراج الحق کے ساتھ چھاپ دی
ضلع شرقی کی یونین کونسل 15 میں جمیعت علمائے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی کے مشترکہ امیدواروں نے لالٹین کے نشان پر اپنا انتخابی جوڑا بنایا۔
کراچی کے ڈسٹرکٹ ویسٹ کی یونین کونسل 25 میں نصیر احمد نے چیئرمین شپ کے لیے اور حبیب الرحمان نے نائب چیئرمین شپ کے لیے تحریکِ انصاف، جماعتِ اسلامی، پیپلز پارٹی، جمیعت علمائے اسلام اور اہلِ سنت والجماعت کی مشترکہ حمایت سے انتخاب لڑا۔

ڈسٹرکٹ ویسٹ میں بلدیہ ٹاؤن کی یونین کونسل 34 میں جماعتِ اسلامی کے امیدوار کو ترازو کا نشان پوسٹر پر چھاپنے سے بھی تسلی نہیں ہوئی تو انھوں نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی تصویر بھی عمران خان اور سراج الحق کے ساتھ چھاپ دی ۔کچھ امیدواروں نے فرطِ محبت میں جنرل راحیل شریف کی تصویر بھی چھاپ دی لیکن جب انھیں سمجھایا گیا کہ فوج سیاسی جماعت نہیں ہے تو انھیں بادلِ نخواستہ نئے پوسٹر چھپوانے پڑے۔

تو یہ ہے جماعتی بنیادوں پر پہلی بار ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی جمہوریت کا مقامی حسن۔

بابری مسجد کا مقدمہ

کھربوں کی ٹیکس چوری میں حکومتیں معاون و مددگار

مہنگاٰئی، قرضے اور غربت کے تحفے

پاکستان دنیا کی 25 ویں سب سے بڑی معیشت

دُنیا کوجنگیں نہیں امن درکار ہے


کیلیفورنیا واقعہ - پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش

’پاؤں آئی ای ڈی پر آیا اور دھماکہ ہوا‘

$
0
0

پاکستان کی فوج اپنی ہی سرحدوں میں چھپے دشمن کے خلاف جنگ کی جو قیمت ادا کر رہی ہے اس کی واضح تصویر آرمڈ فورسز انسیٹیٹوٹ فار ری ہیبیلٹیشن میڈیسن میں دیکھی جاسکتی ہے۔

یہ ہپستال ملک میں مصنوعی اعضا کا سب سے بڑا اور جدید مرکز ہے جہاں خاص طور پر محاذ جنگ پر زخمی ہونے والے فوجیوں کا علاج کیا جاتا ہے۔
اس وقت ہسپتال میں سینکڑوں ایسے فوجیوں کا علاج ہو رہا ہے جو اس جنگ میں معذور ہو چکے ہیں اور ان میں قابلِ ذکر تعداد آپریشن ضربِ عضب میں زخمی ہونے والے فوجیوں کی بھی ہے۔

یہ ہپستال ملک میں مصنوعی اعضا کا سب سے بڑا اور جدید مرکز ہے جہاں خاص طور پر محاذ جنگ پر زخمی ہونے والے فوجیوں کا علاج کیا جاتا ہے
یہ آپریشن گذشتہ برس جون میں شروع ہوا تاہم 16 دسمبر سنہ 2104 کو پشاور کے آرمی سکول پر طالبان کے حملے کے بعد ملک میں موجود مسلح گروہوں اور شدت پسندوں کے خلاف اس آپریشن کو تیز کر دیا گیا۔
اس آپریشن میں اب تک 450 فوجی ہلاک جبکہ 1700 کے قریب زخمی ہو چکے ہیں اور محمد یاسر بھی انھی میں سے ایک ہیں۔
یاسر پاکستان فوج میں لانس نائیک ہیں وہ ستمبر میں خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ میں ایک پہاڑی دشمن سے خالی کرواتے ہوئے زخمی ہوئے
یاسر پاکستان فوج میں لانس نائیک ہیں وہ ستمبر میں خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ میں ایک پہاڑی دشمن سے خالی کرواتے ہوئے زخمی ہوئے۔
وہ ایک وارڈ میں اس حالت میں اپنی نئی مصنوعی ٹانگ سے چلنے کی کوشش کرتے دکھائی دیے کہ انھیں دو مددگاروں نے تھام رکھا تھا۔
ان کی ٹانگ گھٹنے سے اوپر تک کاٹی جا چکی ہے اور سٹیل کی بنی ہوئی اس ٹانگ پر وہ بوجھ ڈالتے تو ہیں لیکن پوری طرح نہیں۔
اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دشمن نے آئی ای ڈی لگائی ہوئی تھی اور پہاڑی پر مورچے بنا رکھے تھے۔ جوں جوں ہم پیش قدمی کررہے تھے ان کی فائرنگ تیز ہو رہی تھی۔ آمنے سامنے مقابلہ ہو رہا تھا۔ میرا پاؤں آئی ای ڈی پر آیا اور دھماکہ ہوا۔

وہ کہتے ہیں ’جب مجھے ہوش آیا تو میں نے اپنی ٹانگ کی طرف دیکھا۔ میرے ساتھ نائب صوبیدار تھا اس نے مجھے بتایا کہ تمہاری ٹانگ کٹ چکی ہے۔
یہ کہہ کر یاسر اپنی نئی مصنوعی ٹانگ کی طرف غور سے دیکھنے لگے اور پھر مسکرا کر کہا ’شکر ہے اس مالک کا۔ کیا ہوا اگر ٹانگ کٹ گئی ہے۔ کٹی تو اللہ کی راہ میں ہی ہے۔

سنہ 2003 سے پاک افغان سرحد کے قریب شدت پسندوں سے لڑتے ہوئے جہاں سینکڑوں پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے ہیں وہیں یاسر جیسے سینکڑوں ایسے ہیں جن کے اعضا ضائع ہو چکے ہیں۔

آرمڈ فورسز انسٹیوٹ آف ری ہیبیلٹیشن میڈیسن کے قریب ہی راولپنڈی کے اڈیالہ روڈ پر کیپٹن جمیشد انور اپنی یونٹ کے جوانوں سے سلامی لیتے ہوئے ملے۔
ہشاش بشاش کپٹین کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان کی ایک ٹانگ مصنوعی ہے۔ جمشید انور جنوبی وزیرستان میں پاک افغان سرحد کے قریب انگور اڈہ کے علاقے میں پاکستانی طالبان کے ساتھ لڑائی میں زخمی ہوئے تھے۔

جمشید نے بتایا ’اس وقت میری منگنی ہوئی تھی۔ مجھے اپنی منگیتر کا خیال آیا کہ معلوم نہیں میں اب کھڑا ہو سکوں گا یا نہیں۔ مجھے اس کو چھوڑ دینا چاہیے۔ لیکن پھر ہسپتال میں اپنے اردگرد دیکھا۔ حوصلہ کیا۔ آج وہ سب کچھ کر رہا ہوں جو عام لوگ کرتے ہیں۔ 

بظاہر تو کیپٹن جمشید کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن اب وہ ایک عام فوجی کی طرح اگلے محاذ پر جنگ نہیں لڑ سکتے۔
 فوج کے دو رخ ہوتے ہیں۔ اگلے محاذ پر لڑنا اہم ہے۔ اب میں لڑائی میں براہ راست تو شریک نہیں لیکن پیچھے بیٹھ کر ایک دوسرے رخ سے اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔ 

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاکستان کے اتنے فوجی جنگوں میں ہلاک یا معذور نہیں ہوئے جتنے حالیہ برسوں میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن میں ہوئے ہیں اور بہت سے لوگ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ ملک میں اس دشمن کو اتنے طویل عرصے تک کھلے عام پنپنے کا موقع کیسے ملا۔

تاہم ہسپتال کے کمانڈانٹ میجر جنرل طاہر مختار سید کا ماننا ہے کہ معذور ہونے کے باوجود ان فوجیوں میں سرحدوں کے اندر جاری اس لڑائی سے متعلق کوئی شکوک وشبہات موجود نہیں۔
 ان فوجیوں کو معلوم ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اس جنگ میں ان کے اپنے ساتھی، اپنے بچے شہید ہوئے ہیں۔ وہ اسے اپنی جنگ سمجھتے ہیں انھیں کوئی شک نہیں کہ وہ کیوں لڑ رہے ہیں۔ 

آپریشن ضرب عضب کو شروع ہوئے 18 ماہ ہو چکے ہیں۔ یہ کب تک جاری رہے گا اور مزید کتنے فوجی یہاں اپنے اعضا کاٹے جانے کے بعد علاج کے لیے لائے جائیں گے اس کا جواب تو فی الحال کسی کے پاس نہیں ہے۔

شمائلہ جعفری
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، راولپنڈی

پاکستان اور بھارت کا امن

$
0
0

برصغیر تاریخ کے اعتبار سے ہمیشہ دنیا کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ دنیا کے تمام بڑے فاتحین نے اس خطے کو عبور کرتے ہوئے اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا۔ رام چندر، کرشن مہاراج ،گوتم بدھ ،بال میک کے حوالے سے معروف یہ خطہ زمانہ قدیم سے ہی حملہ آوروں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ آریائی ، افغان، تاتاری، یونانی، ترک، ولندیزی، پرتگالی اور انگریزسب نے اس خطے پر اپنا حق گردانا۔ شمشیر ثناء اول کی بات برصغیر کے تناظر میں درست معلوم ہوتی ہے۔ 

اس خطے سے میر عرب کو اس نسیم کی ٹھنڈک محسوس ہوئی جس نے اسلام کی حقانیت کا بول بالامسلمانوں کے عروج کی صورت میں فراہم کیا۔بڑے بڑے اولیا  اور بزرگ اس خطے میں پیدا ہوئے۔ حضرت علی ہجویری، حضرت بہاءالدین ذکریا، سید جلال الدین بخاری، حضرت عثمان بروندی، حضرت معین الدین چشتی، حضرت بابا فرید، حضرت مجددالف ثانی اور اسی سلسلے کے گوہر ذی قدر جن کی موجودگی سے ظلمت کدہ ہند میں انسانیت نے فروغ پایا۔ اکبر جیسے لوگ بھی اس خطے نے پیدا کئے جنہوں نے تہذیبوں کے ملاپ کیلئے نئے مذہب کی بنیاد ڈالی۔ 

مگر یہ سب ماضی کی دلکش یادیں ہیں۔ تاریخ کا اس سے بڑا امتحان کیا ہوگا کہ آج انسان تو انسان اس تاریخی خطے میں پانی نے بھی مذہب اختیار کرلیا ہے۔ مسلمان پانی یا پھر ہندو پانی۔ دوسری طرف یہ بھی قائد اعظم محمد علی جناح کی عظیم جدوجہد تھی کہ رب ذوالجلال کی عظمت کے صدقے اسلامیان ہند کو پاکستان جیسا خوبصورت ملک عطا ہوا۔ اسی پاکستان نے مسلمانوں کو ایک خودمختار شناخت دی۔ فرقہ ورانہ سوچ اپنی جگہ کہ موہن داس کرم چند گاندھی نے بھی اعتراض کیا کہ اپنا مذہب بدلنے والے کیسے ایک نئے ملک کا تقاضا کرسکتے ہیں۔ صوامی شردانند کی جانب سے شدھی اور سنگھٹن کی تحریکیں شروع کی گئیں کہ مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنایا جائے۔

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج پاکستان ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ بھارت اور پاکستان کی تاریخ کے کشیدہ ترین تعلقات اور پھر انہی حالات میں بھارتی وزیرخارجہ کا پاکستان تشریف لانا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں بھارت سمیت تمام ممالک کی نمائندگی ہونا پاکستان کی جمہوری حکومت کے دیرینہ موقف کی جیت ہے کہ خطے کے مسائل کا حل مذاکرات اور امن سے جڑا ہوا ہے۔ اگرچہ گزشتہ اڑسٹھ سالوں میں اس خطے نے جنگ کی غارت گری ،دہشت گردی اور بد اعتمادی سبھی کچھ دیکھا۔بحرانوں کا سامنا کیا،آمروں کے سامنے ڈٹا رہا مگر اپنے وجود کو قائم رکھا۔
ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا اسلام آباد میں انعقاد خوش آئندہے۔گزشتہ کچھ عرصے سے پاک بھارت تعلقات میں جو ایک تناؤ کی سی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ وزیراعظم نوازشریف کی بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے پیرس میں ہونے والی مختصر ملاقات کے بعد حالات بہتری کی طرف بڑھنا شروع ہوئے۔ اطلاعات ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف کی مدلل گفتگو نے بھارتی وزیراعظم کو مجبور کیا کہ معاملات بات چیت سے آگے بڑھائے جائیں۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا حالیہ دورہ پاک بھارت تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوسکتا ہے۔

کیونکہ بھارت کی طرف سے اپنی اہم شخصیت کو پاکستان بھیجنا دو باتوں کی عکاسی کرتا ہے۔ایک تو بھارت نے برف پگھلانے میں پہل کی ہے جبکہ دوسری طرف اسلام آباد آکر پاکستان کے موقف کی بھی توثیق کی ہے کہ بھارت کو شدت پسندانہ رویئے کو ترک کرکے لچک کا مظاہر ہ کرنا ہوگا۔ بھارت میں مودی سرکار کے آنے کے بعد بھارتی پالیسی میں غیر معمولی تبدیلی دیکھنے کو ملی تھی۔ مودی پاکستان کے ساتھ جارحانہ رویہ رکھنے والی سوچ کے نمائندے کے طور پر ابھر کر سامنے آئے تھے۔ 

مگر بھارت سمیت دنیا بھر سے جس انداز میں بھارتی سرکار کو ردعمل کا سامنا کرنا پڑا اس نے نریندر مودی جیسے شخص کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا کہ خطے کا امن پاکستان اور بھارت کے بہتر تعلقات سے ہی جڑا ہے۔ یہ تو صرف دونوں ممالک کی سرکار کی بات ہوئی۔ اگر سرحد کے دونوں اطراف رہنے والی جنتا کے رویوں اور سوچ کا جائزہ لیا جائے تو معاملات یکسر مختلف ہیں۔ دونوں ممالک کے عام آدمی کی ایک ہی سوچ ہے کہ مذہب کا فرق ہونے کے باوجود ہمسائے ہونے کے ناطے بہتر تعلقات ہونے چاہئیں۔

 صاحب الرائے یہ محسوس کرتے رہے کہ ہماری بقا امن میں ہے جنگ میں نہیں۔ کیونکہ جنگ ہمیشہ امن پر ہی اختتام پذیر ہوتی ہے۔ دونوں ہمسایہ ممالک کے لوگ جن کا سیاست یا راج نیتی سے نہ تو کوئی تعلق ہے اور نہ کوئی رشتہ۔ جو روٹی کے چکر سے ہی فراغت پاتے ہیں اور نہ ہی مکتی پرابت کرتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ ’جو کرے کرتار‘ بابا نانک نے کیا خوبصورت بات کی کہ نانکھ دکھیا سب سنسار۔ یہ ہماری تہذیب کا حصہ رہا ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے جائیں اور ہمارا مذہب دین کامل اسلام بھی اسی کا درس دیتا ہے۔ مگر دوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ سفر بہت طویل معلوم ہوتا ہے۔

بھارت کی موجودہ حکومت کی طرف سے گزشتہ چند ماہ میں جو کچھ کیا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ مودی سرکار نے سیکولر بھارت کا چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ مسلمانوں سمیت دیگر مذاہب کے افراد سے بھارت میں جو کچھ کیا گیا اس پر قومی و بین الاقوامی میڈیا بہت کچھ لکھ چکا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت پسندی مودی سرکار کی نظریں جھکانے کے لئے کافی ہے۔پاکستان میں موجود جمہوری حکومت کی ہمیشہ ترجیح رہی کہ بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے خوشگوار تعلقات ہونے چاہئیں مگر تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔جب آپ ایل او سی پر گولیوں کی بوچھاڑ کریں گے تو کیسے ایک منتخب وزیراعظم مذاکرات کی بات کرسکتا ہے۔

حتی کہ موجودہ حالات میں آپ نے کھیل کو بھی نہیں بخشا۔کبڈی کی ٹیم ہو، ہاکی گراؤنڈ میں کھلاڑیوں سے بدتمیزی یا پھر کرکٹ سیریز کا انعقاد۔بھارت کی طرف سے افسوسناک رویہ سامنے آیا۔ مگر آج ہمیں مثبت اقدام کا بہتر انداز میں جواب دینا ہوگا ۔بھارتی وزیرخارجہ کا دورہ صرف ہارٹ آف ایشیاء تک محدود نہیں ہونا چاہئے۔ امن کا سفر انتہائی طویل، نامساعد حالات میں دشوار محسوس ہوتا ہے،مگر سرحد کے دونوں طرف بسنے والے مثبت سوچ کے حامل اور مہا پرشوںکی ذمہ داری ہے کہ اس نئے سلسلے کودو خوشبودار پھولوں کی طرح ایک لڑی میں پروئیں جنہوں نے درخت کی ایک ہی شاخ سے ایک ہی دن جنم لیا۔

سرحد بھی بے شک ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ لیکن اس میں ایسے ہوا دار سوراخ اور طاقچےضرور رہنے چاہئیں کہ ہم عید ،شب برات ،دیوالی پر حلوے مٹھائی یا کسی سوغات کا تبادلہ کرسکیں۔محبت اور امن کی یہ ٹھنڈی ہوا پاکستان کی طرف سے سرحد پار جارہی ہے ۔امن اور صلح کے پیغام کے ساتھ شاید یہ باد نسیم بارود اور بداعتمادی کے کثیف ماحول کو اڑا دےکہ مطلع صاف ہوجائے۔ اعتماد کا ایسا سورج طلوع ہو کہ جس کی کرنیں دونوں اطراف اجالا بکھیر دیں۔

محبت دوستی اور سکھ چین کے ولیوں ،دریشوں کے اس خطے کو امن کی سوغات نصیب ہوجائے ۔بھارت او ر پاکستان کو خطے میں دائمی استحکام کے لئے مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔دونوں ممالک کے وزراعظم کی پیرس میں ہونے والی ملاقات سے جو سلسلہ شروع ہوا ہے اسے آگے بڑھتے رہنا ہوگا۔
جاتے جاتے ایک شعر قارئین کے گو ش گزار کرتا چلوں

انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کے اترجائے تیرے دل میں میری بات

حذیفہ رحمان
بشکریہ روزنامہ 'جنگ'

جلاؤ گھیراؤ میں میڈیا کا کردار

$
0
0

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں عموماً سیاسی جماعتوں اور دیگر مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں کی جانب سے سڑکوں پر مظاہروں اور جلسے جلوسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جس سے اکثر اوقات عوام بالخصوص مریضوں کو کئی قسم کے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ان مظاہروں کی وجہ سے بیشتر اوقات شہر میں گھنٹوں ٹریفک کے آمد و رفت میں بند رہتی ہے جس کے باعث بعض اوقات سارے شہر کا پورا نظام درھم برھم نظر آتا ہے۔

ایسے ناخوشگوار اور پر تشدد واقعات میں میڈیا کے کردار کیا ہونا چاہیے اس ضمن میں خیبر پختونخوا پولیس کی جانب سے صحافیوں کی تربیت کےلیے ایک روز سیمنار کا اہتمام کیا گیا۔ سیمنار پولیس سکول آف پبلک ڈس آرڈر اینڈ رائیٹ مینجمنٹ مردان میں منعقد کیا گیا جس میں خیبر پختونخوا پولیس کے سربراہ ناصر خان درانی نے بحثیت مہمان خصوصی شرکت کی۔

سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس ناصر خان درانی نے کہا کہ پولیس اور میڈیا ایک ہی کشتی کے دو مسافر ہیں اور دونوں کا منزل و مقصود ایک اور دونوں کی مثبت کردار کی ادائیگی سے ملک کی ترقی و خوشحالی کو ممکن بنایا جاسکتاہے۔
ناصر خان درانی کے مطابق ہڑتال کرنے والے سڑکوں کو بلاک کرکے عوام کے لیے مشکلات اور تکالیف پیدا کرتے ہیں
انھوں نے صحافیوں پر زور دیا کہ وہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال اور پر تشدد واقعات کی کوریج کے دوران ملک کے وسیع تر مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے دہشت گرد عناصر کی حوصلہ شکنی پر توجہ مرکوز کریں۔ آئی جی پی نے کہا کہ احتجاج کرنا ہر ایک انسان کا حق ہے لیکن اس کو طریقے اور سلیقے سے کرکے بھی مطلوبہ اہداف و مقاصد کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔

ناصر خان درانی کے مطابق ہڑتال کرنے والے سڑکوں کو بلاک کرکے عوام کے لیے مشکلات اور تکالیف پیدا کرتے ہیں جس سے معمول کی روزمرہ زندگی معطل ہوکر رہ جاتی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کےلیے تین طریقے استعمال کیے جاسکتے ہیں جس میں پہلا یہ کہ میڈیا ہڑتال کرنے والوں کی رہنمائی کرتے ہوئے ان میں شعور اُجاگر کرنے کی کوشش کریں اور اس وقت تک انھیں کوریج نہیں دینی چاہیے جب تک وہ پُر امن طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ نہیں کرتے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت فوری طور پر احتجاج کرنے والوں کے مسائل کے حل کے لیے ایک مکنیزم تیار کریں جو کہ حکومت کی ذمہ داری بھی ہے۔
تقریب میں پشاور اور مردان سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافیوں اور عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علموں نے شرکت کی

آئی جی پی کے مطابق تیسرا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ کہ موقع پر موجود پولیس افسروں کو فوری طور پر طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے بلکہ وہاں موجود افسروں کو اپنا دماغ استعمال کرتے ہوئے احتجاج کرنے والوں کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مسئلے کو گفت و شنید کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔

تقریب میں پشاور اور مردان سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافیوں، کالم نگاروں اور عبدالولی خان یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے طالب علموں نے شرکت کی۔
واضح رہے کہ پولیس سکول آف پبلک ڈس آرڈر اینڈ رائٹ منیجمنٹ جنوری 2015 میں پولیس اسٹیشن طورو مردان میں قائم کیا گیا ہے۔ یہ ادارہ پرسٹن یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کے تعاون سے کام کر رہا ہے۔

 رفعت اللہ اورکزئی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور

ہم تو کرپشن کرے گا

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live