Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

آئی ایم ایف کے ہاتھوں قومی اثاثوں کی چائنہ گٹنگ

$
0
0

بیسویں صدی میں ستر کی دہائی میں دو قطبی دنیا سیاسی و اقتصادی لحاظ سے دو بڑے بلاکوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ان میں سے ایک سرمایہ دارانہ نظام(کیپٹلزم)کا بلاک تھا اور دوسرا اشتراکی نظام (کمیونزم) کا بلاک تھا، لیکن ستر کی یہ دہائی اقتصادی ترقی کے لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل سمجھ جاتی ہے کیونکہ دونوں نظام میں بڑھوتری اور ترقی کا عمل تیزی سے جاری تھا، اِسی دہائی کے آغاز میں ایشیا میں فولاد سازی کا سب سے بڑا منصوبہ شروع کیا گیا، یہ منصوبہ سوویت یونین کی مدد سے کراچی میں ’’پاکستان اسٹیل ملز‘‘ کے نام سے اکتالیس سال پہلے 30 دسمبر 1973ء کو شروع کیا گیا۔ ’’تعمیر ِ ملت و خدمت ملت‘‘کے خوشنما سلوگن سے رو بہ عمل پاکستان اسٹیل ملز انیس ہزار ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے ، یہ اسٹیل ملزپچاس لاکھ ٹن سالانہ لوہا ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس ملز کو 16200جفاکش محنت کشوں کی افرادی قوت بھی میسر ہے اور یوں ہزاروں گھرانوں کے چولہے ہی اس مل کی بدولت نہیں چلتے بلکہ ہیوی مکینیکل کمپلیکس ٹیکسلا کی پیداوار اور فوجی اسلحہ سازی کا دارومدار بھی بڑی حد تک اسی مل میں ڈھلنے والے فولاد پر ہے۔
پرویز مشرف کے دور کے آغاز تک تو اس مل میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا، لیکن پھر شوکت عزیز کی صورت میں پاکستانی معیشت پر ایک قہر نازل ہوا۔ اقتصادی اصلاحات کے نام پر شوکت عزیز نے پاکستانی معیشت بالخصوص صنعتی شعبے کا حلیہ بگھاڑنے کے ساتھ ساتھ بھٹہ ہی بٹھا کر رکھ دیا۔ ملکی اقتصادی ڈھانچے کو سہارا دینے کے نام پر قومی اثاثوں کی نجکاری کا عمل تیز کردیا گیا اور فائدے میں چلنے والے قومی اداروں کی انتظامیہ اور پالیسیاں تبدیل کرکے اُن اداروں کے دامن میں خسارہ ہی خسارہ ڈال دیا گیا۔ یوں پہلی مرتبہ حکومتی سطح پر اداروں کو خسارے کا شکار ظاہر کرکے قیمتی اثاثوں کو اونے پونے داموں بیچنے کا عمل شروع ہوا،چھوٹے موٹے اداروں کی کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کے بعد شوکت عزیز کی لالچی نظریںاو جی ڈی سی ایل، پی آئی اے، پاکستان ریلویز اور پاکستان اسٹیل ملز جیسے اہم اور بڑے اثاثوں پر لگ گئیں، پاکستان اسٹیل ملز کو بیچنے کیلئے شوکت عزیز نے کسی طرح پرویز مشرف کو بھی شیشے میں اتار لیا اور سوچے سمجھے بغیر پاکستان کے اس بڑے اثاثے کی نجکاری کا عمل شروع کر دیا گیا، مزدور اس نجکاری کے خلاف عدالت چلے گئے، جہاں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالتی بنچ نے پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کے خلاف فیصلہ دے کر اچھی خاصی ہلچل مچادی، شوکت عزیز نے پھر مشرف کے کان بھرے اور یوں آنے والے دنوں میں جس طرح افتخار محمد چوہدری کو عہدے سے ہٹایا گیا، عدلیہ بحالی کی تحریک چلی اور مشرف دور کا خاتمہ ہوا،یہ سب تاریخ ہے، لیکن لگتا ہے کہ یہ تاریخ ایک مرتبہ پھر دہرائے جانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔
لیکن 2008ء کے انتخابات کے بعد زرداری دور میں ایک خاص سازش کے تحت پاکستان اسٹیل ملز کی ’’سلو پوائزننگ‘‘ شروع کردی گئی، یوں سی بی اے ،پاکستان اسٹیل ملز انتظامیہ اور حکومتی وزراء کی کرپشن نے مل کر شعوری طور پر اس منافع بخش ادارے کو تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کیا۔ اب حال یہ ہے کہ جو ادارہ ملکی خزانہ میں اڑھائی سو ارب روپے سے زیادہ ٹیکس دیتا تھا اب 250 ارب روپے سے زیادہ کے خسارے میں ہے، جس اسٹیل ملز کی روزانہ کی پیداوار اکانوے ہزار ٹن تک لوہا ڈھالنے کی تھی، اس ملز میں گزشتہ اکتوبر کے پورے مہینے میں دو ہزار ٹن لوہا بھی بمشکل ڈھالا جاسکا۔اب پاکستان اسٹیل ملز میں کام کرنے والے محنت کشوں کو گزشتہ پانچ سال سے ہر پانچ ماہ بعد 2 مہینے کی تنخواہ بھیک کی طرح دی جا رہی ہے، گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے ادارے کی پروڈکشن نہ ہونے کے برابر ہے، جس کی بنیادی وجہ ملز میں پلانٹ کی ناقص مرمت اور بحالی ہے، اندرونی انتباہ کے باوجود اس کے لیے درکار آپریٹنگ کا مقررہ طریقہ کار اور آپریشنل مینویل پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا۔ یہ وہ صورتحال ہے جس میں عالمی مالیاتی اداروں کے ’’احکامات‘‘ کی تکمیل کیلئے ایک مرتبہ پھر پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کیلئے نظریں گاڑ دی گئیں ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا اسٹیل ملز کو موجودہ مسائل اور بحران سے نکالنے کیلئے نجکاری کے سوا دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں تو جواب ہے کہ نیت ٹھیک ہونی چاہیے، آپشن تو ایک نہیں کئی ایک ہیں۔ مثال کے طور پر پہلا آپشن تو پاکستان کے دیرینہ دوست چین نے پیش کیا ہے۔وفاقی وزیر صنعت و پیداوار غلام مرتضیٰ جتوئی کے نام لکھے گئے خط میں چین کی سرکاری کمپنی ’’سائنو اسٹیل‘‘ کے صدر وانگ چنیو نے پیش کش کی ہے کہ (اول) پاکستان اسٹیل ملز کے مسائل کے حل کیلئے سائنو اسٹیل اپنی ہر طرح کی خدمات پیش کرسکتی ہے، (دوم) سائنو اسٹیل پاکستان اسٹیل ملز کو اپنے کنٹرول میں لے کر اس کی پیداواری صلاحیت پانچ گنا تک بڑھاسکتی ہے، (سوم)سائنو اسٹیل پاکستان اسٹیل ملز میں دو ارب ڈالر تک سرمایہ کاری کرکے اِسے اپنے پاؤں پر کھڑاسکتی ہے (چہارم)اگر حکومت پاکستان چاہے تو اسٹیل ملز کو پاک چین اقتصادی راہداری کے سلسلے میں چھیالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا حصہ بھی بنایا جاسکتا ہے اور (پنجم) سائنو اسٹیل پاکستان اسٹیل ملزکے بجلی اور گیس سے متعلق مسائل حل کرنے کو بھی تیار ہیں۔

قارئین کرام!! چینی کمپنی سائنو اسٹیل کی کریڈیبلٹی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سائنو اسٹیل چالیس ممالک میں میٹالرجیکل، انفراسٹرکچر، کان کنی اور توانائی کے شعبوں میں اپنی خدمات پیش کررہی ہے اور اس کمپنی کا سالانہ’’ ٹرن اوور‘‘ ستائیس ارب ڈالر ہے، یوں بھی چین ہمارا ایسا دوست ملک ہے، جس کی دوستی وقت کی ہر آزمائش پر پوری اُتری ہے، ایسے میں پاکستان اسٹیل ملز جیسے بڑے اور قومی اثاثے کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچنے کی بجائے سائنو اسٹیل کی پیشکش سے فائدہ اٹھانے میں کیا ہرج ہے؟ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ پاکستان اسٹیل ملز جیسا بڑاا دارہ سرکاری تحویل میں جہاں مقامی سرمایہ داروں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے وہیں سامراجی قوتوں کو بھی بری طرح کھٹک رہا ہے، یہی وجہ ہے آئی ایم ایف کی جانب سے حالیہ مذاکرات میں بھی پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کا عمل تیز کرنے پر زور دیا گیا۔ عالمی مالیاتی اداروں کی خواہش پر ہم نے اپنے بہت سے قیمتی اثاثے بیچ کر دیکھ لیا کہ ہماری معیشت کا کیا حال ہوا؟ اب اگر چین کی پیشکش پر اعتماد کرلیا جائے تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟ پاکستان کے فولادی بھائی چین کی پیشکش کے پانچوں نکات پاکستان اور پاکستانی معیشت کے حق میں جاتے ہیں، اس لیے بہتر ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں قومی اثاثوں کی چائنہ کٹنگ کی بجائے کیوں نہ قومی اثاثے چین کودے دیے جائیں!

نازیہ مصطفیٰ

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


ایک نظریاتی جرنیل

کالاباغ ڈیم کے دُشمن پاکستان کے دُشمن

$
0
0

مولانا جلال الدین رومیؒ اپنے شاگردوں کو روزمرہ معمولات سے ہٹ کر ایک کھیت میں لے گئے، مولانا کا پڑھانے اور پریکٹیکل کرانے کا اپنا ہی انداز تھا،وہ زندہ مقالوں کے ذریعے بغیر مارپیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ کے بڑے احسن طریقے سے بڑی سے بڑی اور باریک سے باریک بات سمجھا دیا کرتے تھے، اسی نقطہ نظر کے تحت مولانا صاحب اپنے شاگردوں کو کھیت میں لائے تھے، اس کھیت میں ایک نادان کسان پاگلوں کی طرح زمین کھودنے میں مصروف تھا، دراصل وہ کسان اپنے لیے ایک کنواں کھودنا چاہتا تھا 

مگر جب تھوڑی گہرائی تک زمین کھودنے سے پانی نہ نکلتا تو وہ اس جگہ کو چھوڑ کردوسری جگہ زمین کھودنے میں جُت جاتا، اور اس طرح وہ چار پانچ جگہوں سے زمین کھود چکا تھا مگر کچھ حاصل نہ ہوا،مولانا جلال الدین رومی ؒ نے اپنے شاگردوں سے پوچھا:کیا تم کچھ سمجھ سکتے ہو؟شاگردوں سے کچھ جواب نہ بن پایا، پھر مولانارومی شاگردوں کی جانب دیکھ کریوں گویا ہوئے’’اگر یہ آدمی اپنی پوری طاقت،ذہانت اور وقت صرف ایک ہی کنواں کھودنے میں صرف کرتاتو اب تک کافی گہرائی میں جاکراسے اپنی محنت کا پھل مل چکا ہوتا۔یعنی اب تک وہ پانی حاصل کرچکا ہوتا، لیکن یہ اس قدرمحنت کرکے بھی اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہا،وقت الگ رائیگاں ہوا‘‘۔

 پھر مولانا رومی ؒ نے اپنے شاگردوں سے پوچھا: ’’کیا تم بھی اس کسان کی پیروی کرنا چاہو گے، کبھی ایک راستے پر تو کبھی دوسرے راستے پر؟کبھی کسی کی بات مانو گے اور کبھی کسی کی؟اس طرح تم شاید بہت علم تو حاصل کرلوگے مگر وہ علم بے کا رہوگا‘‘۔ایک چھوٹے سے پریکٹیکل سے مولانا رومیؒ نے اپنے شاگردوں کو بہت بڑاسبق دے دیا، آج میں اس حکایت کوکالاباغ ڈیم سے منسوب کرنا چاہتا ہوں آج کالا باغ ڈیم ملکی ترقی کے لیے ناگزیربن چکا ہے،فرینڈ زآف پاکستان ڈیموکریٹک پاکستان  نے کچھ عرصہ پہلے کالا باغ ڈیم پراجیکٹ کا ترجیحی بنیادوں پر ازسرنوجائزہ لینے کی تجویز دِی تھی،جو ردکرکے ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی
 پچھلے 50برسوں میں ہماری جمہوری اورآمر حکومتوں نے آبی منصوبوں کے لیے دو چارچھوٹے چھوٹے ڈیمز بنائے ہیں ،جب کہ بھارت ان برسوں کے دوران پچیس سوسے زائدچھوٹے چھوٹے ڈیم بنا چکا ہے اوراب مزید 149کی تیزرفتار سے ڈیم پرڈیم بنائے جارہا ہے ، آبی جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے وطن عزیز کے حصے کا پانی روک کر ہمارے دریاؤں پر42ڈیم خلافِ معاہدہ بھی بنا رہا ہے، آج وطن عزیز کو،کالاباغ ڈیم کی اشد ضرورت ہے اور ہم کسان کی طرح اپنے کھیت جگہ جگہ کھود کر اپنا وقت اور قوم کے خون پسینے کی کمائی کو ضائع کررہے ہیں 

حالیہ مون سون کی بارشوں اوربرفانی تودوں کے پگھلنے سے وطن عزیز کے منی سوئیٹرزلینڈز چترال،اسکردواورگلگت کے لاکھوں لوگ سیلاب سے شدیدمتاثر ہوئے ہیں اورہزاروں بستیاں سیلابی پانی میں غرقاب ہیں ، چھوٹے بڑے برفیلے پہاڑوں کے پگھلنے کے نتیجے میں حاصل شدہ صاف شفاف پانی اورمون سون کی بارشوں سے لاکھوں کیوسک پانی سیلاب کی شکل اختیارکرکے لوگوں کونیست نابود کرتا ہوا ان کے گھروں کوصفحہ ہستی سے مٹاتا ہوا سمندر کے پیٹ میں اتر جاتا ہے 

اگرکالا باغ ڈیم بن گیا ہوتا تو یہی لاکھوں کیوسک پانی ہم کالا باغ ڈیم کے پیٹ میں ذخیرہ کرلیتے،جس سے لاکھوں ایکڑ رقبہ سرسبزوشاداب ہوتا،زرعی پیداوارمیں اضافہ ہوتااور ریگستان بہارِپاکستان بن جاتے اور آج اسی کالا باغ ڈیم سے ہمیں4500میگا واٹ کے قریب بجلی ایک روپے فی یونٹ سے بھی کم نرخ پرمہیا ہورہی ہوتی جب کہ کالاباغ ڈیم نہ بننے کی وجہ سے اب ہمیں بجلی پندرہ روپے فی یونٹ پڑرہی ہے۔ یہ ظلم نہیں تواورکیا ہے؟کالاباغ ڈیم کا 70فیصد کام مکمل ہوچکا ہے موجودہ حکومت اگر دل بڑا کرے تو یہ زیر تعمیرڈیم محض تین سے چار سال کی مدت میں مکمل ہوسکتا ہے اس کے برعکس دیامیربھاشاڈیم کو مکمل کرنے میں کم ازکم پندرہ سال تو کہیں نہیں گئے،ہمارے سیاسی پنڈتوں نے جان بوجھ کر ابھی تک کالا باغ ڈیم کو سیاست کی سُولی پرلٹکایا ہوا ہے

 پاکستان کی بقا ء اورسلامتی کا انحصار کالا باغ ڈیم کی تعمیراورکشمیر سے آنے والے دریاؤں پر ہے لیکن بدقسمتی سے ان دریاؤں پربھارت کا قبضہ ہے ستم ظریفی یہ کہ جب دریاؤں میں پانی کم ہوجاتا ہے تو بھارت جان بوجھ کر ہمارا پانی روک لیتا ہے اور جب سیلابوں کا موسم ہوتو پانی چھوڑ دیتا ہے، اس وقت بھارت میں مون سون زوروں پر ہے اوربھارت کے پاکستانی دریاؤں میں پانی چھوڑنے کے معاملے کو دیکھا جارہا ہے،بھارت نے پانی چھوڑدیا تو بڑے پیمانے پر تباہی کا خطرہ ہے ، رہی سہی کسر سابق پی پی پی حکومت نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر اور مسئلہ کشمیر کو ناقابل عمل قرار دے کر پوری کردی، یہ تلخ سچ پیش نظر رہے کہ کشمیر سے نکلنے والے تمام دریا بھارت کے قبضے میں ہیں 

اس کے باوجود بھارت نواز پارٹی اے این پی کے مٹھی بھر شرپسند عناصر کالا باغ ڈیم کے شدید مخالف ہیں ، جب کہ واپڈا کے سابق چیئر مین اور صوبہ سرحدکے سابق وزیر اعلیٰ پختون انجینئر شمس الملک نے کالاباغ ڈیم کے مخالفین کے اعتراضات پراس ڈیم کی افادیت واہمیت کے بارے میں مدلل دلائل سے ثابت بھی کیا کہ اس ڈیم کی تعمیر سے ملک میں پانی کی وافر مقدار میسر ہو گی اورسستی ترین بجلی پیداہوگی اور نوشہر ہ سمیت صوبہ سرحد کے کسی بھی شہر کو پانی میں ڈوبنے کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ نوشہر ہ، کالا باغ ڈیم سے تقریباً165فٹ کی بلندی پر قائم ہے، پھر انہوں نے تربیلا اور منگلا ڈیمز کی مثالیں بھی دیں کہ تربیلا سے کبھی کوہستان میں اور منگلا سے کبھی میرپورمیں سیلاب نہیں آیا

لیکن یہ باتیں کالاباغ ڈیم کے کٹرمخالفین’’اے این پی‘‘ کے سمجھنے کی ہیں جو وہ جان بوجھ کر سمجھنا نہیں چاہتے ،دلیل تو وہاں کارگر ہوتی ہے جہاں دل کے نہاں خانوں میں اخلاص کی رمق ہو، جب اپنے ہی ملک کے لوگ آستین کے سانپ بن جائیں تو پھر بھارتی دشمنوں کو وطن عزیز پرحملے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔؟، دراصل کالاباغ ڈیم کے دُشمن ہی پاکستان کے دُشمن ہیں، اقتدار کے بھوکوں نے دو دو بار کالا باغ ڈیم بنانے اور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے نام پر اقتدار حاصل کیا، لیکن دونوں مسئلے جُوں کے تُوں ہیں۔ 

عالمی بینک نے پاکستان کو سیلاب سے بچانے کے لیے رپورٹ پیش کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ سیلاب سے بچنا ہے تودریاؤں پر19ڈیم تعمیر کیے جائیں۔ سچ تو یہ ہے اگرچھوٹے یا بڑے ڈیمز ملکی ضروریات کے مطابق بنا دیے جاتے تو برفانی تودوں کے پگھلنے سے پیدا ہونے والے تندروپانی اوربارشوں کے سیلابی ریلے زحمت کے بجائے رحمت کا روپ دھارسکتے تھے۔اب موجوہ حکومت کو چا ہئے کہ وہ ضربِ عضب کے فیصلے کی طرح اپنے پانچ سالہ دورِ مدّ ت میں ہی کالا باغ ڈیم مکمل کر کے عوام پر احسان عظیم فرما کرثوابِ حاصل کر لے۔
 
رانا عامر جاوید


Pakistani snooker players

$
0
0
People from a nomad tribe play snooker in their neighborhood in Rawalpindi, Pakistan. These nomadic families earn their living collecting recyclable scrap to sell.

Famous Pakistani snooker players.

Khurram Hussain Agha

Hamza Akbar

Shokat Ali

Muhammad Asif

Saleh Mohammad

Naveen Perwani

Muhammad Yousaf  

مشاہداللہ کا استعفی - پس پردہ حقائق

مودی اور مزید حماقتیں

$
0
0

وزیراعظم مودی کی پیدائش پر ان کے ماں باپ بہت پچھتائے ہوں گے کہ بیچارے انجانے میں کیا کر بیٹھے ہیں کیونکہ ہرگندی اولاد کی طرح یہ صاحب بھی اپنے والدین کی پکڑ کا باعث بنیں گے۔ اگر آپ اس اجمال کی تفصیل جاننا چاہیں تو صرف اتنا ہی معلوم کر لیں کہ موصوف کو گجرات کا قصاب یعنی کیوں کہا جاتا ہے۔

خیر، بد نصیب والدین تو جو بھگتیں گے سو بھگتیں گے، بیچارے نا سمجھ بھارتی عوام اگلے 2 سال تک یاد بھی رکھیں گے اور ہاتھ لگا لگا کر دیکھتے بھی رہیں گے کہ کس نااہل شخص کو اتنے بڑے ملک کا وزیراعظم بنا بیٹھے تھے۔ ہندو گجرات کی مسلمان دشمنی تو خیراب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور اس میں بہت بڑا ہاتھ سومنات کے مشہور مندر کی پائیمالی کا بھی ہے کہ اس پر 17حملے گجرات ہی میں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سرزمین نے سردار ولاب بھائی پٹیل جیسے مسلمان دشمنوں کو جنم دیا۔ مگر خدا لگی بات تو یہ ہے کہ ہم سردار صاحب کی تمام تر مسلمان دشمنی کے باوجود ان کی ایک باوقار مخالف یا دشمن کے طور پر عزت کرتے ہیں اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ ان کی شان میں ’’غیر ضروری‘‘ گستاخی کم از کم ہم سے سرزد نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پٹیل ایک پڑھے لکھے اور زیرک کانگریسی تھے اور اپنی مخالفانہ گفتگو میں بھی آپ کو وہ روایتی پھکڑپن یا لچر انداز نظر نہیں آتا جو کہ اپنے مودی صاحب کی پہچان بنتا جا رہا ہے۔

مودی کو ہم پچھلے 10 بارہ سال سے میڈیا میں بغور دیکھ رہے ہیں۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹرمنموہن سنگھ جیسے مدبر کے بعد کیسا عجیب الخلقت شخص ہمارے ہمسایہ ملک کا پردھان منتری بن بیٹھا ہے۔ یہ صاحب جب بھی منہ کھولتے ہیں، ان کی باتوں سے بدبو آتی ہے۔ دنیا کی ریت یہی ہے کہ لوگ ترقی کر کے اپنے آپ کو بہتر اور بڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر مودی نے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ اپنے اندر کے ایک جاہل ویٹراور ٹی بوائے کو کبھی سمجھدار نہیں ہونے دینگے۔ آر ایس ایس کی انسانیت سوز تعلیمات میں لتھڑے اور بھارتی گجرات کی مسلمان کش فضا میں پلے بڑھے مودی کو ما سوائے پاکستان کے اور کچھ سُجھائی ہی نہیں دے رہا۔ آپ انٹر نیٹ پر موجود ان کے درجنوں وڈیو کلپ دیکھ سکتے ہیں کہ موصوف کس مذہبی جوش و خروش کے ساتھ پاکستان کو نیست و نابود کرنے کا اعیادہ کرتے نظر آتے ہیں۔
قدم قدم پر بہادری کا دعویٰ کرنیوالے نریندر سنگھ مودی کی اپنی حالت یہ ہے کہ جس دن سے عوامی جمہوریہ چین اور پاکستان نے اقتصادی راہداری کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں، انھوں نے ایک ہاتھ میں اپنا دل اور دوسرے میں لوٹا تھام رکھا ہے۔ ان کے ذاتی اسٹاف کے مطابق آپ اپنا زیادہ تر وقت ٹائلٹ میں ہی گزارتے ہیں۔ لگتا ہے صبح صبح غورو فکر کا سلسلہ بھی آپ ٹائلٹ ہی میں شروع کرتے ہیں اور اس ماحول کا اثر آپ کی باتوں سے خوب جھلکتا ہے۔

متحدہ عرب امارات کے ساتھ 75 ارب ڈالر کا معاہدہ کر کے مود ی صاحب یوں اتراتے ہیں گویا دنیا ہی فتح کر لی ہو۔ ہمارے اپنے حساب کتاب سے تاحال یہ آپ کی سب سے بڑی سفارتی غلطی ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یمن، شام اور عراق میں اس وقت کیا کیا کچھ ہو رہا ہے۔ پاکستان اگر آپ جیسی ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ کرتا تو یقین کیجیے یہ شیوخ ہم پر بھی ایسے معاہدوںکی بھرمار کر دیتے۔ مگر حیرت انگیز طور پر ہمارے والے دوستوں نے شاید پہلی مرتبہ بھاڑے کے ٹٹو بننے سے انکار کیا ہے۔ انکا یہ انکار ہمارے قومی وقار میں بے پناہ اضافہ کا باعث بنا ہے۔

بہر حال، کاش کسی سیانے نے مودی کو اتنا ضرور بتایا ہوتا کہ مشرقِ وسطی کی وہ تمام ہتھ چھٹ قوتیں جنھوں نے شیوخ و ملوک کو تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے، اب بھارت کو بھی دشمن کی نظر سے دیکھنے لگیں گے۔ اس کے بعد اب مزید لکھنے کی گنجائش نہیں مودی صاحب، اس تھوڑے کہے کو کافی سمجھیں اور اگر آپ کو عرب شہزادوں کے واری صدقے جانے اور ان کے ملازمین کے ساتھ سیلفیاں اتروانے سے فرصت ملے تو براہ کرم ان چھوٹی چھوٹی گزارشات پر غور ضرور کر لیں۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بھارت میں اس وقت تقریباً 60 کروڑ شہری ٹائلٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔ مودی صاحب کو چاہیے کہ امارات سے آنے والی سرمایہ کاری کا بڑا حصہ عوامی بیت الخلا بنوانے پر صرف کریں تاکہ بیچارے 60 کروڑ غریب شہریوں کی حاجت رفع ہو سکے۔ جنگی تیاریاں بعد میں ہوتی رہیں گی، ہیں جی؟

مودی صاحب کو یہ بھی معلوم ہے اور اگر نہیں تو ہونا چاہیے کہ 29 کروڑ بھارتی زیور تعلیم سے محروم ہیں اور یہ تعداد دنیا میں پائی جانے والی قومی ناخواندگی میں سب سے بڑی ہے۔ عرب شہزادوں سے ملنے والی انوسٹمنٹ کا تھوڑا حصہ تعلیم اور صحت پر بھی ضرور خرچ کیجیے گا آپ کی بہت مہربانی۔ اس کے علاوہ ایک گزارش یہ بھی ہے کہ پچھلے 15برس میںملٹی نیشنل کمپنیوں کی بدمعاشی سے تنگ جن اڑھائی کروڑ کسانوں نے خود کشی کی ہے، تھوڑی بہت داد رسی ان کے بدنصیب خاندانوں کی بھی کر لیں، آپ کو دعائیں دینگے کہ آپ کو پھکی اور چورن وغیرہ کے بعد سب سے زیادہ ضرورت دعائوں کی ہے۔

مودی صاحب کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ گوگل نے جولائی 2015ء میں ایک سروے کروایا تھا جس کی رو سے موصوف کو دنیا کا بیوقوف ترین وزیراعظم قرار دیا گیا۔ اور آخر میں مشہور امریکی روزنامے نیویارک ٹائمز کی ایک حالیہ بات جو گوگل سروے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
”India has the most to lose if another war erupts with Pakistan”
یعنی ’’اگر ایک اور پاک بھارت جنگ چھڑ گئی تو بھارت کا نقصان کئی گنا زیادہ ہو گا‘‘۔

خالصتان سمیت 14 ریاستوں میں جو علیحدگی پسند معاملات چل رہے ہیں ان پر روشنی ہم اپنے ٹی وی شو میں ڈالیں گے چنانچہ ’’خبردار‘‘!!!!!!

آفتاب اقبال
بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"

کشمیری عوام نے پاکستان کے حق میں رائے دے دی

$
0
0

اگر کسی کو کشمیریوں کی پاکستان میں شمولیت پر شک و شبہ تھا تووہ مقبوضہ علاقے کے باشندوں کے 14 اگست کو اپنے گھروں، دکانوں، شاہراہوں، درختوں، اپنی گاڑیوں، سائیکلوں، تانگوں پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا کر اس کے ساتھ یکجہتی کے مظاہرے پر دور ہوجانا چاہیے اور یہ عوامی حمایت وادی پر قابض 6 لاکھ بھارتی فوج، نیم فوجی دستوں، پولیس کے سخت پہرے کے باوجود دیکھنے میں آئی۔ 

آسیہ اندرابی کا پاکستان کے جشن آزادی کے دن کھلے عام اس ریاست کا سرکاری پرچم لہرانا اس بات کا ثبوت ہے کہ نہ صرف مرد بلکہ کشمیری خواتین بھارت کی زنجیروں کو توڑ کر آزاد ہونا چاہتی ہیں اور یہ صورت حال ریاست جموں کشمیر پر بھارت کے 68 سالہ قبضے کے باوجود نہ صرف برقرار ہے بلکہ اس میں روز بروز شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے جبکہ بھارت نے کشمیر کو بذریعہ ریل خود سے مربوط کردیا ہے اور سکول، کالج، جامعات قائم کردی ہیں اور بظاہر کشمیر کو دوسرے صوبوں کے مقابلے میں خصوصی حیثیت دینے کا تاثر پیدا کرنے کے لیے آئین کی شق کے ذریعے قانونی ضمانت دے دی ہے۔

لیکن کشمیری عوام اس فریب میں نہیں آئے۔ لہٰذا انہوں نے اردو زبان کو ترک نہیں کیا۔ نہ ہی ہندی کو اپنایا۔ بھارت کے سرکاری و غیر سرکاری ذرائع ابلاغ غیر ممالک اور کچھ آزاد خیال پاکستانیوں کو مقبوضہ کشمیر میں ترقیاتی منصوبوں کے اعداد و شمار بتا کر ان کا مقابلہ آزاد کشمیر سے کر کے انہیں باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا مقبوضہ کشمیر آزاد کشمیر سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے لیکن وہ نہیں جانتے کہ ایسے دلائل برطانیہ، فرانس، ولندیزی، ہسپانوی، پرتگالی، اطالوی استعماری طاقتیں بھی اپنے اپنے افراشیائی لاطینی امریکی نو آبادیاتی روایات کے بارے میں دیا کرتی تھیں لیکن ان کا اثر مقامی آبادیوں پر بالکل نہیں پڑتا تھا۔
 کیونکہ مادی ترقی آزادی کا بدل ہو ہی نہیں سکتی۔ بھارت کے کھدر پوش حکمرانوں کو تو یاد ہوگا انگریز سامراج انہیں بار بار جتاتا رہتا تھا کہ کیا برطانوی قبضے سے قبل بھارت کے طول و عرض میں ریلوے کا جال بچھا ہوا تھا، کیا دریاؤں پر ایسے مستحکم پل پہلے کبھی تھے، کیا پنجاب جیسی نہریں شاہجہان کے زمانے میں کھودی گئی تھیں جنہوں نے بنجر زمینوں کو زرخیز بنا دیا، کیا پہاڑوں کو کاٹ کر ریل کی پٹریاں کبھی بچھائی گئی تھیں۔

کیا تار گھر اور ٹیلی فون کا مربوط نظام پہلے کبھی موجود تھا، کیا ایسی سائنسی تجربہ گاہیں تھیں، کیا جدید طبی و جراحی سہولتیں میسر تھیں، کیا آرٹس سائنس انجینئرنگ کی درسگاہیں تھیں، کیا مرکزی اور صوبائی ملازمتوں کے لیے پہلے مقابلے کے امتحانات اور قابلیت کی بناء پر تقرریاں ہوتی تھیں۔

یہاں تک کہ انگریزوں نے حالی سے بھی اپنے حسن انتظام کی بذریعہ نظم سند لے لی۔ خوشامدانہ نظم غاصب برطانوی استعمار کی شان میں قصیدہ نہیں تو اور کیا تھی جس کا صرف ایک شعر غلامانہ ذہنیت کا آئینہ دار ہے۔ ملاحظہ ہو

حکومت نے آزادیاں سب کو دی ہیں
ترقی کی راہیں سراسر کھلی ہیں

لیکن قوم مولانا حالی کی مجبوریاں سمجھتی تھی اس لیے اس نے اس نظم پر کان نہیں دھرے لیکن جب انہوں نے اپنی شہرہ آفاق نظم مدوجزر اسلام (جو مسدس حالی سے موسوم ہے) کہی تو ساری قوم گوش بر آواز ہوگئی۔ اسی طرح شیخ عبداللہ غلام محمد بخشی، افضل بیگ، فاروق عبداللہ مفتی وغیرہ جو بھی دعویٰ کرتے ہیں وہ کشمیر کے عوام کو ہر گز قائل نہیں کرسکتے کہ کشمیری آزاد اور خوشحال ہیں اور وہ پاکستان میں شمولیت نہیں چاہتے۔ اگر بالفرض وہ پاکستان کے اندرونی حالات اور امریکہ نواز خارجہ پالیسی سے بد ظن ہوں اور پاکستان میں شمولیت نہ چاہیں تو بھی وہ بھارت میں شمولیت کے مقابلے میں آزادی کو ترجیح دیں گے۔

اس کے لیے انہیں سلامتی کونسل یا کسی مالی ادارے کی نہ تو اجازت لینی ہے نہ ہی اس کی تحویل میں نامعلوم مستقبل میں کیے گئے ریفرنڈم کی ضرورت ہے کیونکہ آزادی ہر قوم کا پیدائشی حق ہے۔ جسے کسی سے مانگنے کی ضرورت نہیں ہے یہ تو حکومت پاکستان کا منصفانہ مؤقف تھا کہ تنازع کشمیر کے پر امن تصفیے کے لیے سلامتی کونسل کی قرار داد پر عمل درآمد کیا جائے لیکن فریق واحد کی نیک نیتی اس وقت کام آتی ہے جب فریق ثانی کی نیت بھی صاف ہو، لیکن حالات و واقعات شاہد ہیں بھارت ریاست جموں کشمیر کی شمولیت کی کونسل کی زیر نگرانی کرائی گئی رائے شماری کے نتائج پر مشروط قرار داد کو تسلیم کرنے کے بعد اس سے مخرف ہوگیا اور اس کو ضم کرنے کے بعد اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے۔

اس نے ایسی بد عہدی سوویت یونین کی شہہ اور امریکہ ویورپی برادری کی چشم پوشی پر کی۔ چنانچہ بھارت کی اس لاقانونیت کے خلاف عوامی رد عمل ہوا تو تحریک آزادی کو دہشت گردی قرار دیتا ہے۔ اس کے اس مؤقف کو امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے بلکہ بڑی طاقتیں مصلحت پسندی کے تحت پاکستان کو بھارت سے مذاکرات کرنے کی نصیحت کرتی ہیں۔ یہ بھی خوب ہے ایک فریق کہتا ہے کہ وہ کشمیر کو بھارت کا حصہ سمجھتے ہوئے اس کے بارے میں پاکستان سے بات چیت کرنے کو تیار ہے پھر کبھی سرحدی جھڑپوں تو کبھی کسی واردات میں پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام لگا کر مذاکرات کو موخر کردیتا ہے تاکہ ان تاخیری حربوں سے کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ پکا کرلے۔ ادھر صہیونی، نصرانی، میڈیا ڈیڑھ کروڑ کشمیری باشندوں کی حق خودارادیت کی جدوجہد کو بھارت کا علیحدگی پسندوں کا فیصلہ قرار دے کر یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ یہ اس کا اندرونی مسئلہ ہے جبکہ یہ بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف کشمیری عوام کی بھرپور جدوجہد آزادی ہے جس میں اب تک ایک لاکھ کشمیری بھارت کی قابض فوج کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے جبکہ ہزاروں کشمیری لا پتا ہیں۔

اگر ان کے DNA ٹیسٹ لیے جائیں یہ بات دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کے مصداق عیاں ہوجائے گی۔ متوفین اور لا پتا افراد میں کون کشمیری ہے اور کون درانداز۔ یہ تو سائنسی تفتیش کا دور ہے جس میں کسی کی شناخت چھپ نہیں سکتی لہٰذا کشمیریوں کو انسانی حقوق کونسل کی سطح پر مطالبہ کرنا چاہیے کہ ریاست جموں و کشمیر کی جدوجہد آزادی میں قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے افراد مقامی ہیں یا غیر ملکی، اس امر کے تعین کے بعد بھارت کا یہ پروپیگنڈا کہ ویسے تو راوی کشمیر میں چین لکھتا ہے لیکن پاکستان سے گھس بیٹھیے (در انداز) کشمیر میں داخل ہو کر دہشت گردی برپا کرتے ہیں تو بھارت کی قابض فوج کو مجبوراً گولی چلانا پڑتی ہے۔ 

جبکہ کشمیر کے عوام تو بھارت کے ساتھ ہیں۔ اگر وہ بھارت کے ساتھ ہوتے تو سری نگر اور وادئ کشمیر میں بھارت کی فوج کو 14 اور 15 اگست کو کرفیو کیوں نافذ کرنا پڑتا؟ کیا سری نگر، دوسرے قصبات میں مکانوں، دکانوں اور شاہراہوں پر سبز ہلالی پرچم لگانے والے سیالکوٹ یا مظفر آباد سے آکر وادی میں پاکستان کی پرچم کشائی کرتے ہیں؟
اور 15 اگست کو وادئ کشمیر میں سڑکیں کیوں ویران رہتی ہیں اور مقامی آبادی اپنی چھتوں پر سترنگا جھنڈا کیوں نہیں لگاتے؟

کیا یہ شواہد اور قرائن یہ ثابت نہیں کرتے کہ کشمیر کے عوام ریاست پر بھارت کے قبضے کے سخت مخالف ہیں اور اس سے جلد از جلد نجات چاہتے ہیں۔ ایسے میں تو ساری عالمی برادری کو ان کی حمایت کرنی چاہیے۔ چہ جائیکہ انہیں درانداز اور دہشتگرد گردانا جائے۔

تاریخ کے تناظر میں کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی امریکی اور یورپی نو آبادیات کی آبادی کی جدوجہد آزادی کا تسلسل ہے۔ لہٰذا اس پر نو آباد یات کی فوری آزادی پر مبنی اقوام متحدہ کی 1960ء کی قرار داد کا اطلاق ہوتا ہے۔ جس کی رو سے عالمی برادری کو کشمیری عوام کو بھارت کے فوجی قبضے سے آزاد کرانے کی جدوجہد کی حمایت کرنی چاہیے تاہم اگر عالمی برادری کسی مصلحت کے تحت ایسا نہیں کرتی تو کم از کم اسے کشمیریوں کو اپنی جنگ آزادی لڑنے سے روکنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ وہ اپنے کام سے کام رکھیں اور کشمیریوں کو اپنا کام کرنے دیں۔

پروفیسر شمیم اختر

بشکریہ روزنامہ نئی بات

حمید گل زندہ باد


این اے 122....

میڈیا کیلئے ضابطہ اخلاق کیوں ؟

نریندر مودی بمقابلہ میاں نواز شریف

اعلی تعلیم کی دگرگوں صورتحال

ٹیکس ادا نہ کرنے کا رجحان پاکستان کیلیے سب سے بڑا خطرہ

$
0
0

پاکستان میں ٹیکس نظام پر تحقیق کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے نے ٹیکس ادا نہ کرنے کے رجحان کو ملک کی بقا کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔
مالیاتی اور سماجی معاملات پر تحقیق کرنے والے ادارے ’رفتار‘ نے پاکستان کے ٹیکس نظام پر کی جانے والی حالیہ تحقیق میں بتایا ہے کہ پاکستان ان گنتی کے چند ملکوں میں شامل ہے جہاں ٹیکس دینے کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے۔
پاکستان میں صرف 0.3 فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں جن کی کُل تعداد پانچ لاکھ افراد بنتی ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں یہ شرح تین فیصد اور تعداد سوا تین کروڑ بنتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی قوم جس طرح ٹیکس دینے سے کتراتی ہے،   حکومتی دعوؤں کے باوجود پاکستان میں ٹیکس اکٹھا کرنے کی شرح میں گذشتہ 10 برس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ دس سال پہلے بھی ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدن مجموعی ملکی آمدن کا 9.4 فیصد تھا اور آج بھی یہ شرح اتنی ہی ہے۔
 
حکومت کے پاس ٹیکس آمدن کا صرف 28 فی صد رہ جاتا ہے جو کہ بجٹ کی تیاری میں حکومت کے پاس دستیاب ہوتا ہے
اس کے مقابلے میں ملکی اخراجات میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اخراجات اور آمدن میں یہ فرق حکومتیں قرض لے کر پورا کرتی رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق: ’یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ذمے قرض میں گذشتہ سات برسوں میں تین گنا اضافہ ہوا ہے اور یہ قرضے ان برسوں میں 630 ارب روپے سے بڑھ کر 1700 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ان قرضوں پر حکومت کو بھاری سود ادا کرنا پڑ رہا ہے اور ہر سال ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدن کا نصف تو ان قرضوں پر سود ادا کرنے میں خرچ ہوتا ہے جبکہ اس آمدن کا بڑا حصہ دفاعی اخراجات، ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن وغیر کی ادائیگی میں استعمال ہوتا ہے۔

ان اخراجات کے بعد، حکومت کے پاس ٹیکس آمدن کا صرف 28 فی صد رہ جاتا ہے جو کہ بجٹ کی تیاری میں حکومت کے پاس دستیاب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی ترقیاتی اخراجات کم ہوتے ہوئے سات سے ڈھائی فی صد تک پہنچ چکے ہیں۔

رپورٹ میں ان مسائل کا ایک حل تجویز کیا گیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ پاکستانی قوم زیادہ ٹیکس دینا شروع کرے۔ حکومت ٹیکس اصلاحات کے ذریعے عوام کو ٹیکس دینے میں مدد فراہم کر سکتی ہے۔

آصف فاروقی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام

چینی معیشت میں جمود و گراوٹ کا دھماکہ

$
0
0

ہاتھی کے پائوں میں سب کے پائوں والا محاورہ یاد ا ٓگیا کیونکہ چین گزشتہ کئی دہائیوں سے حیرت انگیز انداز میں اپنی معیشت کو سنوارتا اور پھیلاتا چلاگیا تھا۔ اپنے ہمسایہ ممالک میں اس کے اثرات، جو پاکستان جیسے نسبتاََ درمیانے درجے کی معیشت والے ممالک میں بھی محسوس کئے جاسکتے ہیں، بہت ٹھوس اور ہمہ گیر ہیں۔ چین کی حیران کن ترقی نے امریکہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک کو بھی اپنے حلقہ اثر میں لے رکھا ہے۔

کئی برسوں کی برق رفتاری مگر اب تھم سی گئی ہے۔ ماہرینِ معیشت گزشتہ کئی مہینوں سے چین میں اقتصادی جمود کا تذکرہ کررہے تھے۔ یک جماعتی نظام کے تحت کام کرنے والے ممالک کی حقیقتوں کو مگر وہاں کے میڈیا کے ذریعے جانا نہیں جاسکتا۔ حقیقت کسی دھماکے کے ساتھ ہی آشکار ہوتی ہے۔ چین میں یہ دھماکہ جون کے آخری ہفتوں میں ہوگیا۔ شنگھائی جو 24گھنٹے جاگ کر پوری دُنیا کی معیشت کو ریل کے کسی انجن کی مانند آگے بڑھاتا چلاجاتا ہے، اچانک کساد بازاری کا شکار نظر آنے لگا۔

اس کی یہ مندی وقتی ثابت نہ ہوئی۔ شیئرز کی قیمتیں مسلسل گرتی رہیں۔ لاکھوں تنخواہ دار لوگ جنہوں نے بینکوں سے قرضے لے کر کچھ کمپنیوں کے حصص خریدے تھے۔ اداس وپریشان ہوگئے۔ دنیا کے سامنے مگر ان کی مصیبتیں پوری طرح سامنے نہ آسکیں۔

دُنیا کو چینی معیشت میں جمود اور گراوٹ کا اصل احساس بالآخر اس وقت ہوا جب وہاں کی حکومت 20سال کی طویل مزاحمت کے بعد رضاکارانہ طورپر اپنی کرنسی کی قدر کو نمایاں نظر آنے والی حد تک کم کرنے کومجبور ہوئی۔ قدر کی یہ کمی چینی برآمدات کی موجودہ سطح کو کسی نہ کسی حد تک برقرار رکھے گی۔ مگر اس سے آگے بڑھنے کی امید نظر نہیں آرہی۔ ناامیدی کی یہ لہر اب دنیا کے دیگر ممالک تک بھی پہنچ گئی ہے۔
پیر کے دن پاکستان شدید مندی کا شکار ہوا۔ ڈالر روپے کے مقابلے میں مہنگا ہونا شروع ہوگیا۔ بھارت کی صورتِ حال بھی مختلف نہ رہی۔ پاکستان اور بھارت جیسے ملکوں میں لیکن سیاستدان اور ان کے پالتو صحافی کنوئیں کے مینڈک ہوا کرتے ہیں۔

پاکستان کے بارے میں یہ تھیوری اختراع ہوئی کہ ’’کراچی آپریشن کے خوف سے‘‘ سیٹھوں نے ہاتھ کھینچ لئے ہیں۔ وہ اپنے حصص بیچ کر ڈالر خریدنا شروع ہوگئے ہیں اور ان ڈالروں کی بدولت غیر ملکوں میں سرمایہ کاری کے لئے تیار۔
بھارت میں کانگریس کے چاہنے والوں نے کہانی یہ بنائی کہ چونکہ اب ڈاکٹر من موہن سنگھ جیسے ماہر معیشت کے بجائے گجرات سے آیا بڑھک باز مودی دلّی سرکار چلارہا ہے۔ اس لئے بھارتی معیشت بے لگام ہوکر پستی کی طرف جانا شروع ہوگئی ہے۔

بھارت میں جو بے سروپا کہانیاں بُنی جارہی ہیں مجھے اس سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ ایک پاکستانی ہوتے ہوئے میرا اصل دُکھ تو یہ ہے کہ میرا ملک پہلاتھا جس نے 60ء کی دہائی کے شروع میں جب چین عالمی تنہائی کا شکار تھا اس ملک سے اپنے روابط کا آغاز کیا۔ چین کے ساتھ ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری تصور کی جاتی ہے۔ سرکاری ایوانوں میں گزشتہ کئی دہائیوں سے گونجتے ان نعروں کے باوجود مجھے کسی ایک پاکستانی مصنف، صحافی یا تبصرہ نگار کا نام بتادیجئے جو چینی زبان اور ثقافت کو ایک ماہر کے طورپر جانتا ہو۔ میں اپنا کالم لکھنے یا ٹی وی پر بھاشن دینے سے پہلے اس سے رجوع کروں تو چین کے حالاتِ حاضرہ کو تھوڑا بہت سمجھ پائوں؟

چینی معیشت میں جمود اور گراوٹ کی خبر مجھے صرف اس وجہ سے ملنا شروع ہوئی کہ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میرے پسندیدہ اخباروں میں سے ایک ہے۔ میں معیشت جیسے خشک مضمون کے بارے میں تقریباََ جاہل ہوتے ہوئے بھی اس اخبار کے صفحہ اوّل پر چینی معیشت کے بارے میں مسلسل چھپنے والی خبروں کی وجہ سے دھماکے کے ساتھ نمودار ہونے والے جمود اور گراوٹ کو وقت سے قبل تھوڑا بہت سمجھ سکا۔

آج بھی جدید چین کے عالمی سیاست کے حوالے سے ابھرنے والے رویوں کو تاریخی تناظر میں رکھتے ہوئے کچھ جاننے کی خواہش مچلے توپہلی کتاب ڈاکٹر کیسنجر کی اٹھاتا ہوں۔ اس کیسنجر نے چین کا پہلا دورہ 1970ء میں یحییٰ خان کی حکومت کے دوران اسلام آباد سے خاموشی کے ساتھ روانہ ہوکر کیا تھا۔ کیسنجر کو چین تک پہنچانے والے پاکستان کے کسی شہری کو وہ ملک سمجھنے کے لئے جب اس کی کتاب پڑھنا مجبوری بن جاتی ہے تو دُکھ ہوتا ہے۔

علم کو ہم مومن کی کھوئی ہوئی میراث کہتے ہیں۔ علم حاصل کرو خواہ اس کے لئے تمہیں چین جانا پڑے والی مبارک حدیث میں بچپن سے سنتا چلاآرہا ہوں۔ علم کے حصول کی حقیقی تڑپ مگر اپنے دیس میں مجھے نظر نہیں آتی۔ تاریخ ’’سمجھانے‘‘ کو ہمارے ہاں تحقیقاتی کتابیں نہیں ناول لکھے گئے ہیں۔ ناول خواہ وہ کتنا ہی سطحی کیوں نہ ہو لکھنے کے لئے وقت، محنت اور تنہائی درکار ہوتی ہے۔ زمانہ ویسے بھی آج کل ’’کالم نگاروں‘‘ کا ہے۔ بس قلم اٹھائیے اور کسی بھی موضوع پر وعظ فرمادیجئے۔ ایسا وعظ فرمانے کے لئے بھی قلم اٹھانا، تھوڑا سوچنا اور زبان وبیان کی حدود کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ 24/7ٹی وی نے اس اذیت سے بھی جان چھڑادی ہے۔

 کوئی اچھا سا کوٹ پہن کر رنگ دار سموسہ دکھتی ٹائی لگائیں اور سرخی پائوڈر کے ذریعے اپنا چہرہ چمکائیں۔ بالوں کو رنگ کر خود کو جوان دکھائیں اور آجائیں ٹی وی سکرین پر۔ اپنے لوگوں کو بس یہی تو بتانا ہے کہ چین اقتصادی حوالوں سے زقندیں بھرتا ہوا دُنیا کی سب سے بڑی قوت کے طورپر اُبھررہا ہے۔ اس کی قوت ہماری قوت ہے۔ کیونکہ چین اپنا یار ہے اس پر جاں نثار ہے۔ اسے بس گوادر سے کاشغر تک والا روٹ بنالینے دیں۔ پھر ہم تم ہوں گے۔ کاروبار کی ریل پیل ہوگی اور ہمارے دشمنوں کے دل اور چہرے حسد سے کالے ہوجائیں گے۔

اپنے دشمنوں کے ممکنہ حسد سے لطف اٹھاتے ہم اکثر بھول جاتے ہیں کہ چین خود بھی ایک ’’دشمن دار‘‘ ملک ہے اور چین کے دشمنوں کی اصل وجہ زر، زمین اور زن کے جھگڑے نہیں۔ ایک سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ اس نظام کے اپنے تقاضے ہیں۔ صارف اور منڈی اس نظام کے اصل اہداف ہوتے ہیں۔ چین آج بھی خود کو ایک سوشلسٹ ملک کہتا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کی وہاں آمرانہ حکومت ہے۔ اس یک جماعتی نظام کو برقرار رکھتے ہوئے مگر ڈینگ سیائو پنگ جیسے رہ نمائوں کی بدولت چین نے صارفین اور منڈیوں پر زیادہ سے زیادہ قبضے کے کھیل میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔

چینی مزدور بہت کم اُجرت پر دیوانوں کی طرح دن رات کام کرتا ہے۔ وہاں کے مزدور کو ٹریڈ یونین اور ہڑتالوں وغیرہ کی ’’عیاشی‘‘ میسر نہیں۔   آئی فون کو ایجاد امریکہ میں بیٹھا سٹیوجابز کرتا ہے مگراس کی عالمی دنیا میں کھپت کے لئے یہ فون چین کی فیکٹریوں میں بنائے جاتے ہیں۔ یہی عالم دنیا بھر میں معروف  والی بے تحاشہ اشیاء صرف کے ساتھ ہوا۔ چارسو عالم میں  کی دھوم مچ گئی۔ مگر جو اشیاء اس لیبل کے ساتھ فروخت ہوتی ہیں انہیں ’’ایجاد‘‘ ہمیشہ امریکہ یا یورپ کی کمپنیوں نے کیا۔

معاشی رونقوں کی کلید ’’ایجاد‘‘ ہے  ۔ کسی قوم میں ’’ایجاد‘‘ کی عادت حکومتیں نہیں تعلیمی ادارے پروان چڑھایا کرتے ہیں۔ ان اداروں میں رٹے نہیں لگائے جاتے۔ نہ ہی استاد کی بتائی اور کتاب میں لکھی ہر بات کو غلامانہ انداز میں’’اٹل‘‘ مانا جاتا ہے۔ تخلیقی صلاحیتیں مسلسل سوالات اٹھاتے ہوئے نئے نظریات اور ایجادات کی طرف لے جاتی ہیں۔ آکسفورڈ، کیمبرج یا ہارورڈ کی یونیورسٹیاں آپ کو سوالات اٹھانے پر اُکساتی ہیں۔ ہمارے ہاں سوال اٹھائو تو کفر اور غداری کے فتوے لگ جاتے ہیں۔ اس حوالے سے سرسید اور اقبال تک نہ بخشے گئے۔ ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔

اپنی فطری بزدلی کی وجہ سے میں بھی اس کالم میں کوئی سوال اٹھانے کی کوشش نہیں کررہا۔ التجابس اتنی ہے کہ اپنے ’’یار جس پر جاں بھی نثار ہے‘‘ والے ملک میں ہونے والی تبدیلیوں پر بھی تھوڑی سی نگاہ ڈال لیں۔ چین میں ان دنوں جو کچھ ہورہا ہے اس پر غور کرتے ہوئے ہمارے لئے ہدایت کے بہت دیئے روشن کئے جاسکتے ہیں۔ ایسے چراغوں کو ڈھونڈ کر انہیں لودینے کی کوشش کیجئے۔

نصرت جاوید

بہ شکریہ روزنامہ نوائے وقت

چین پاکستان کے ذریعے ایشیا میں اثرورسوخ چاہتا ہے


پاکستان سٹاک ایکسچینج کیا ہے؟

$
0
0

ایک ایسے وقت میں جب چین کی معیشت میں سست رفتاری سے دنیا بھر کے بازارِ حصص میں مندی کا رجحان ہے، ایسے میں پاکستان میں سٹاک مارکیٹس کے نگران ادارے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی پی) نے ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے سٹاک ایکسچینجز کو آپس میں ضم کر کے ’پاکستان سٹاک ایکسچینج‘ بنانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

ایس ای سی پی اور سٹاک مارکیٹس کی مشترکہ کمیٹیوں کے مابین طے پانے والے معاہدے کے تحت ’بازارِ حصص میں شفافیت لانے اور کارکردگی بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ بین الاقومی معیار متعارف کروانے کے لیے انھیں ایک پلیٹ فارم کے تحت اکٹھا کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کی تین سٹاک مارکیٹس کو آپس میں ضم کر کے پاکستان سٹاک ایکسچینج بنانے کا فائدہ کیا ہو گا اور اس کا مطلب کیا ہے؟
یہ جاننے کے لیے میں نے سٹاک مارکیٹ میں کام کرنے والی کمپنی عارف حبیب لمیٹڈ کے چیف اکانومسٹ خرم شہزاد سے بات کی۔

پاکستان سٹاک ایکسچنیج

سٹاک مارکیٹ کے انضمام یا ڈی میچولائیزیشن کا قانون سنہ 2012 میں منظور کیا گیا تھا، جس کے تحت کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے تین سٹاک ایکسچنج اپنے 40 فیصد تک حصص سرمایہ کاروں کو فروخت کریں گے اور یہ سرمایہ کار سٹرٹیجک سرمایہ کار‘ جیسے بیرونی سٹاک ایکسچنج بھی ہو سکتا ہے۔ تینوں سٹاک ایکسچنجز کے ارکان 40 فیصد کے مالک ہوں گے جبکہ باقی 20 فیصد حصص فروخت کے لیے عوام کو پیش کیے جائیں گے۔

خرم شہزاد نے کہا کہ یہ اقدام پاکستان میں سٹاک مارکیٹ میں اصلاحات کی جانب پیش رفت ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستانی سٹاک مارکیٹ بھی ایک ہی پلیٹ فارم سے کام کر سکے گی اور اس طرح سے مارکیٹ میں نئے سرمایہ کار آئیں گے نئے ٹیکنالوجیز متعارف کروائی جائیں گی۔

انھوں نے کہا کہ لاہور کراچی اور اسلام آباد سٹاک ایکسچینج کی بجائے ایک ہی سٹاک مارکیٹ ’پاکستان سٹاک ایکسچینج‘ ایک کمپنی کی طرز پر کام کرے گی، جس کے اپنے شیئر ہولڈز ہوں گے، بورڈ آف ڈائریکٹرز ہوں گے جو شیئر ہولڈرز کو جوابدہ ہوں گے اور اس طرح سے مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے لیے نئی مصنوعات متعارف کروائی جا سکتی ہیں۔
 
سٹاک مارکیٹ کے انضمام یا ڈی میچیولائیزیشن  کا قانون سنہ 2012 میں منظور کیا گیا تھا، جس کے تحت کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے تین سٹاک ایکسچینج اپنے 40 فیصد تک حصص سرمایہ کاروں کو فروخت کریں گے اور یہ ’سٹرٹیجک سرمایہ کار‘ بیرونی سٹاک ایکسچینج بھی ہو سکتے ہیں۔
تینوں سٹاک ایکسچینجز کے ارکان 40 فیصد کے مالک ہوں گے جبکہ باقی 20 فیصد حصص عوام کو فروخت کے لیے پیش کیے جائیں گے۔

تاہم سٹاک مارکیٹ کے سرمایہ کار عقیل کریم ڈھیڈی نے 40 فیصد تک حصص کی سٹرٹیجک سرمایہ کاروں کو فروخت کرنے کی شرط کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا کہ ریگولیٹر کو اپنے سرمایہ کاروں پر بھروسہ کرنا چاہیے اور انھیں بھی سٹاک مارکیٹ کے حصص خریدنے کی اجازت دینی چاہیے۔

ایک بازارِ حصص

پاکستان سٹاک ایکسچنج ایک کمپنی کی طرز پر کام کرے گی، جس کے اپنے شیئر ہولڈز ہوں گے، بورڈ آف ڈائریکٹرز ہوں گے جو شیئر ہولڈرز کو جوابدہ ہوں گے اور اس طرح سے مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے لیے نئی مصنوعات متعارف کروائی جا سکتی ہیں۔

ماہر اقتصادیات خرم شہزاد

عقیل کریم ڈھیڈی کا کہنا ہے کہ ’پاکستان سٹاک ایکسچینج کے قیام سے ملک کے بازارِ حصص کو ریگولیٹ کرنا آسان ہو جائے اور اس سے مارکیٹ میں رِسک اور مینیجمنٹ بہتر ہو گی اور مارکیٹ کی آمدن میں اضافہ ہو گا۔

کراچی سٹاک ایکسچینج ہنڈرڈ انڈیکس کا شمار دنیا میں تیزی سے ابھرتی ہوئی مارکیٹس میں ہوتا ہے لیکن حالیہ دنوں میں چینی معیشت کی سست رفتاری اور کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس میں بھی مندی کا رجحان ہے۔

ماہر اقتصادیات خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ سٹاک مارکیٹ کی ڈی میچیولائیزیشن سے مارکیٹ کا حجم بڑھے گا اور نئی اصلاحات سے ریگولیشنز مضبوط ہوں گی اور سرمایہ کاری کو محفوظ بنایا جا سکے گا۔

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان سٹاک ایکسچینج بھی ایسے ہی ہو گا جیسے نیویارک کا نیس ڈیک سٹاک ایکسچینج یا ممبئی سٹاک ایکسچینج۔ اس طرح ایک سٹاک ایکسچینج پورے ملک کے بازارِ حصص کو ظاہر کرے گا، جس میں انڈیکس تو الگ الگ ہو سکتے ہیں لیکن سٹاک ایکسچینج ایک ہی ہو گا، جس سے بلاشبہ بازارِ حصص میں بہتری آئے گی۔

بشکریہ
سارہ حسن
بی بی سی اردو

مودی کا گجرات کیوں جل رہا ہے؟

$
0
0

دو مہینے پہلے تک کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے خود ان کی اپنی ریاست گجرات سے ایک بڑا چیلنج کھڑا ہوسکتا ہے اور بغاوت کا پرچم بلند کرنے والا ایک اکیس سال کا نوجوان ہوگا۔
گجرات کی سڑکوں پر 13 سال کے بعد تباہ کاری کے ایسے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ سینکڑوں بسیں نذر آتش کی جاچکی ہے، جگہ جگہ سے آگ زنی کے واقعات کی اطلاعات ہیں، تشدد میں کم سے کم نو لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ اور اس مرتبہ سڑکوں پر ا ترنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ سے بی جے پی اور نریندر مودی کی مضبوطی کے ساتھ حمایت کی ہے۔

گجرات کی پٹیدار یا پٹیل برادری خوشحال بھی ہے اور سیاسی اعتبار سے طاقتور بھی۔ گجرات کا شمار ملک کی سب سے خوشحال ریاستوں میں ہوتا اور وہاں کاروبار اور صنعت پر پٹیل برادری کا غلبہ ہے۔ ملک کے پہلے وزیر داخلہ ’مرد آہن‘ سردار ولبھ بھائی بھی پٹیل تھے اور موجودہ وزیر اعلیٰ اور نریندر مودی کی معتمد آنندی بین کا تعلق بھی اسی برادری سے ہے۔ ریاست میں ان کی آبادی تقریباً پندرہ فیصد ہے۔ بی جے پی کے 120 اراکین اسمبلی میں سے چالیس پٹیل۔
لیکن برادری کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ دوسرے پسماندہ طبقات کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں حاصل ریزرویشن کی سہولت کی وجہ سے پٹیل نوجوان محرومی کا شکار ہیں، نہ انہیں نوکریاں ملتی ہیں نہ پروفیشنل کالجوں میں داخلے۔

دو مہینے پہلے تک نہ یہ مطالبہ کبھی سنجیدگی سے اٹھایا گیا تھا اور نہ کسی کو یہ اندازہ تھا کہ چند ہی ہفتوں کے اندر ریزرویشن کے لیے پٹیلوں کی تحریک اتنی شدت اختیار کر لے گی۔
تحریک کی کمان ہاردک پٹیل نے سنبھال رکھی ہے جو صرف 21سال کے ہیں۔ ان کے والد بی جے پی سے وابستہ رہے ہیں اور کچھ عرصہ پہلے تک وہ ’سبمرسبل پمپ‘ کے کاروبار میں اپنے والد کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔
لیکن جب انہوں نے ایک چھوٹے سے پلیٹ فارم سے ریزرویشن کا مطالبہ کیا تو اچانک لوگ ان کے ساتھ جڑنا شروع ہوگئے۔ ان کے آخری دو جلسوں میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی اور احمدآباد کی ریلی کے بعد جب پولیس نے انہیں گرفتار کیا تو پوری ریاست میں تشدد کی لہر دوڑ گئی۔

خوشحال برادریوں کی جانب سے ریزرویش کے مطالبات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ حال ہی میں راجستھان میں بھی پرتشدد تحریک کے بعدجاٹوں اور گوجروں کو ریزرویش دیا گیا تھا لیکن سپریم کورٹ کے احکامات کی وجہ سے ملازمتوں اور کالجوں میں پچاس فیصد سے زیادہ سیٹیں ریزرو نہیں کی جاسکتیں۔

گجرات میں پہلے سے ہی پسماندہ طبقات (او بی سی) کو 27 فیصد ریزرویشن حاصل ہے، اس کے علاوہ پسماندہ ذاتوں کو ساڑھے سات فیصد اور قبائلیوں کو 15 فیصد ریزرویشن کی سہولت پہلے سے ہی حاصل ہے۔ ایسے حالات میں مزید برادریوں کے لیے ریزرویشن کی گنجائش پیدا کرنا مشکل ہے۔ اور اگر قانون میں کسی قسم کی ترمیم کی کوشش بھی کی گئی تو جو لوگ ریزرویشن کے دائرے سے باہر ہیں، یا پٹیلوں کو ریزرویشن دینے کی وجہ سے جن کا حصہ کم ہوجائے گا، وہ سڑکوں پر اتر سکتے ہیں۔

گجرات کے پٹیلوں کی تحریک وزیر اعظم نریندر مودی اور ریاست میں بی جے پی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ وہ اگر بی جے پی کا ساتھ چھوڑ دیں تو لمبے عرصے کے بعد ریاست میں بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس سے خود وزیر اعظم کو بھاری سیاسی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
 
اس لیے حکومت نہ پٹیلوں کا مطالبہ آسانی سے منظور کر سکتی ہے اور نہ مسترد۔ یہ سوال بھی اٹھائے جارہے ہیں کہ آخر ہاردک پٹیل اچانک اتنے مقبول کیسے ہوگئے؟ کیا ان کے پیچھے کسی دوسری سیاسی طاقت کا ہاتھ ہے؟ اتنی بڑے جلسے کرنے کے لیے انہیں فنڈز کون فراہم کر رہا ہے؟ حکمت عملی کون وضع کر رہا ہے اور کیا یہ ممکن ہے کہ خود بی جے پی یا ہندتوا پریوار کے کچھ ناراض حلقے ان کی پشت پناہی کر رہے ہوں؟

فی الحال ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں، لیکن گجرات کی سڑکوں پر 13 سال بعد فوج گشت کر رہی ہے۔ 2002 کے فسادات آج تک نریندر مودی کے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں، وہ دعا کر رہے ہوں گے ہاردک پٹیل جلد سے جلد گھر لوٹ کر دوبارہ اپنے والد کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹانا شروع کردیں۔

سہیل حلیم
بی بی سی اردو ڈاٹ کام

ایک ایماندار جج کے چھ سوالات

$
0
0

آج ایک ایسے شخص کی وکالت میں مجھے قلم اٹھانا ہے‘ ایسے فرد کے کردار کی گواہی دینا ہے کہ جس کے بارے میں میرا یقین ہے کہ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو روز حشر مجھ سے ضرور سوال کیا جائے گا۔

مجھے سید الانبیاء ﷺ کی حدیث میں درج اس انجام کا بھی خوف ہے جو ہادی برحقؐ نے اس شخص کے بارے میں فرمایا۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے ’’اگر کسی نے اپنے مومن بھائی کی اس وقت مدد نہ کی جب اس کو بے آبرو کیا جا رہا تھا تو اللہ اس کو ایسے وقت میں تنہا چھوڑ دے گا جب اسے بے آبرو کیا جا رہا ہو اور وہ مدد کے لیے لوگوں کی جانب دیکھ رہا ہو‘‘۔

مجھے پاکستان کی عدلیہ کے ایک ایسے باکردار‘ منصف مزاج‘ ایماندار اور صالح شخص کے حق میں ایسے وقت میں گواہی دینے کا شرف حاصل ہو رہا ہے جب جمہوری اقدار کے پروانے اور آزادی اظہار کے دیوان اس کی کردار کشی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اللہ مجھے اس ذمے داری کا حق ادا کرنے کی توفیق دے کہ مجھ سے دہرا سوال ہو گا۔ مجھے اللہ نے قلم کی طاقت عطا فرمائی اور پھر اسی اللہ نے اس طاقت کو پذیرائی بخشی۔ اللہ میری خطاؤں کو معاف فرمائے اور اس دوران میں جو لکھوں اس پر فیصلہ کرتے ہوئے میرے حسن ظن اور نیک نیتی کو سامنے رکھے۔

آج سے تقریباً دو دہائیاں قبل گوجرانوالہ میں ایک سیشن جج کے خلاف وہاں کے وکلاء نے ہڑتال کر دی اور اس کے تبادلے کے لیے سرگرم ہو گئے۔ پنجاب ہائی کورٹ کی سربراہی اس وقت جسٹس فلک شیر کے پاس تھی۔ وکلا تنظیموں کا بڑا گٹھ جوڑ ہوتا ہے اور انصاف تو بنچ اور بار کا یرغمال ہے۔ کس کو کب‘ کیسا‘ کتنا مہنگا اور کتنی دیر میں انصاف ملے گا اس کا فیصلہ بنچ اور بار مل کر کریں گے۔
اس جج نے اس روایت کو توڑنے کا اعلان کیا اور کہا کہ بحیثیت سیشن جج میری ذمے داری سستا اور فوری انصاف فراہم کرنا ہے۔ پنجاب کے موجودہ انسپکٹر جنرل پولیس اس وقت گوجرانوالہ میں ڈی آئی جی تھے۔ تمام تھانوں کے سربراہوں کو بلایا گیا اور جج صاحب نے ان سے کہا کہ آپ بلاوجہ تعمیل میں دیر نہیں کریں گے اور گواہوں کو غیر ضروری طور پر پیشی سے نہیں بھگائیں گے اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ کسی وکیل کو بلاوجہ تاریخ نہیں دوں گا۔

اس کے بعد کیسوں کے فیصلے ہونا شروع ہوئے۔ گوجرانوالہ کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ ایک قتل کے کیس کا فیصلہ کم سے کم تین اور زیادہ سے زیادہ چار دن میں کیا جانے لگا۔ صرف چند مہینوں کے اندر تمام وکلا اپنے چیمبرز میں ہاتھ پہ ہاتھ ڈالے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہڑتال شروع ہوئی۔ جسٹس فلک شیر تک اس ہڑتال کی گونج پہنچی۔ پوچھا مسئلہ کیا ہے۔ وکیلوں کی زبان میں کہا‘ یہ سیشن جج ہمیں ’’ریلیف‘‘ نہیں دیتا۔ ’’ریلیف‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جو پاکستان کے عدالتی نظام میں سکہ رائج الوقت ہے۔

وکیل عدالت سے پیشیاں اور تاریخیں لینے جب تک اپنے موکل کو ہلکا نہ کر لیں‘ ان کو مقروض نہ بنا لیں‘ ان کی جائیداد بکوا لیں نہ ان کی وکالت کا رعب پڑتا ہے اور نہ ہی ان کی زندگی خوشحال ہوتی ہے۔ فلک شیر بھی خوش قسمتی سے ایسے چیف جسٹسوں میں سے تھا جن پر بار کا ناجائز رعب نہیں چلتا تھا۔ کاظم علی ملک نے کہا میں نے گزشتہ پندرہ سال سے التواء کا شکار مقدمے ختم کر دیے۔ لوگوں ایک جانب ہو گئے۔

جو مطمئن تھے وہ چین سے سو گئے اور جو غیر مطمئن تھے وہ اپیل میں چلے گئے۔ فلک شیر کا اگلا سوال وکلا سے تھا‘ اب صاف صاف بتاؤ‘ کچھ صاف گو   وکلا نے کہا ہم چیمبر بند کر کے چابیاں آپ کو دے دیتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ کاظم علی ملک نے کہا کہ جتنے لیڈر میرے خلاف ہڑتال کر رہے ہیں وہ مجھے پہچانتے تک نہیں۔ وہ آج تک میری عدالت میں پیش تک نہیں ہوئے۔ یہ میرا اس انسان سے ایک غائبانہ تعارف تھا۔ ان دنوں میں خود ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت پر فائز تھا۔ یوں لگا جیسے کسی نے میرے راستے کے آگے آگے مشعل رکھ دی ہو اور اس مشعل کو کاظم علی ملک نے تھاما ہوا تھا۔ میں اس شخص کی ٹوہ میں لگ گیا۔ اسے جاننے کی کوشش کرنے لگا۔

ضلع خوشاب کے قصبے نور پور تھل میں یکم اکتوبر 1949ء کو پیدا ہونے والے کاظم علی ملک نے جوہر آباد ڈگری کالج سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ یہ زمانہ طلبہ یونینوں کا زمانہ تھا۔ وہ 1968ء میں کالج یونین کا صدر بھی منتخب ہوا۔ پنجاب یونیورسٹی سے قانون کا امتحان پاس کرنے کے بعد اس نے جوہر آباد اور سرگودھا میں وکالت شروع کر دی۔

اسے ایڈیشنل سیشن جج مقرر کیا گیا۔ یہاں سے ماتحت عدلیہ میں ایک قابل فخر سپوت کی آمد ہوئی۔ چھوٹے چھوٹے شہروں میں اس کا مقدمات کو فیصلے کرنے کا انداز وہی تھا جو گوجرانوالہ میں تھا۔ پنجاب میں بھلوال ان تحصیلوں میں سے ہے جہاں جرائم کی کثرت ہے۔ تین ماہ بعد بھلوال کے تمام زیر التوا مقدمات کے فیصلے ہو چکے تھے۔ انھیں کہا گیا آپ سرگودھا کا بھی چارج ساتھ ہی رکھ لیں۔ 
یہ اور ایسی کہانیاں میانوالی اور لیہ میں بھی عوام آپ کو سنائیں گے۔

 وہ منزلیں طے کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے جج بن گئے۔ عدلیہ کی آزادی کا غلغلہ تھا۔ مشرف اور پھر زرداری کے بنائے ہوئے ڈوگر عدالت کے جج ایک ہی فیصلے سے ختم کر دیے گئے۔ کاظم علی ملک کا یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے کہ کیا یہ اس کے بس میں تھا کہ وہ اس سال اپنی پرموشن کی سطح پر پہنچتا کہ جب ڈوگر چیف جسٹس تھا۔ واپس سیشن جج بنے‘ ریٹائر ہوئے اور پنجاب میں ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن لگا دیے گئے۔ یہاں بیوروکریسی سے ان کی ٹھن گئی۔

کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا عہدہ جسے بیوروکریسی نے اس لیے تخلیق کیا ہو کہ ان کی مرضی کی کارروائیاں ہوں‘ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جائے کہ ہم کرپشن کے خلاف بہت کچھ کر رہے ہیں۔ ایک ایسا چیف سیکریٹری ان کے خلاف ہوا جو ہمیشہ سیاست دانوں کی آنکھ کا تارا رہا ہے اور جس کے ہاں اطاعت گزاری ہر اصول پر فوقیت رکھتی تھی۔

صرف ایک فقرہ کافی تھا کہ اگر کاظم علی ملک اینٹی کرپشن کے محکمے میں رہا تو جس طرح بیورو کریسی پر وہ ہاتھ ڈال رہا ہے‘ آیندہ الیکشنوں میں آپ اپنا انجام سوچ لیں۔ یہ فقرہ کسی بھی وزیراعلیٰ کے پاؤں تلے سے زمین نکالنے کے لیے کافی تھا۔ ہٹا دیے گئے کہ اس تباہ حال سسٹم میں ایماندار اور با اصول شخص کا یہی انجام ہوتا ہے۔

میں ٹیلی ویژن پر ایک پروگرام متبادل کے نام سے کرتا ہوں۔ جس میں موجودہ نظام کی ناکامی پر بحث کے بعد ایک متبادل دیا جاتا ہے۔ عدلیہ کے حوالے سے کاظم علی ملک میرے مہمان تھے۔ ان کا ایک ایک فقرہ عدلیہ کی تاریخ بدل سکتا ہے۔ کہا اگر واقعی ہمارے جج ایمانداری سے کام کریں اور وکیلوں کے رزق میں اضافہ کرنے کے لیے تاریخیں نہ دیں تو عدالتوں پر اتنا کم بوجھ ہے کہ آدھے جج فارغ کرنا پڑیں گے۔

آدھے سے زیادہ سول کیس صرف ایک پیشی پر ختم کیے جا سکتے ہیں اور قتل جیسا مقدمہ بھی تین دن لگاتار شنوائی کے بعد فیصلے تک جا پہنچتا ہے۔ کہا‘ دیکھو لوگوں کو عدالتوں میں بلاؤ فیصلوں کے لیے‘ اپنے برآمدوں کی رونق بڑھانے کے لیے نہیں۔ اللہ جس کو عدل کی کرسی پر بیٹھ کر انصاف کی توفیق دے‘ اس کا اپنے کردار پر اعتماد دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔

میں نے آج سے چھ ماہ قبل اسی پروگرام میں این اے 122 کے بارے میں سوال کیا۔ میں نے اتنا کہا کہ میرے ماں باپ کی تربیت‘ اور میرے اللہ کا کرم یہ ہے کہ اللہ نے مجھ سے غلط کام کرنے کی توفیق ہی چھین لی ہے۔ فیصلے پر کوئی تبصرہ نہ کیا۔ لیکن فیصلہ آنے کے بعد مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ فیصلہ کیا آیا۔ مجھے اس فیصلے کے آغاز میں جسٹس کاظم علی ملک نے جو چھ سوال خود سے کہے ہیں وہ اس قوم کے سامنے رکھنا ہیں۔

ان سوالات میں ایک درد بھی چھپا ہے اور آپ اس دباؤ کا بھی اندازہ کر سکتے ہیں جو اس صاحب ایمان جج پر تھا۔ کاظم علی ملک لکھتے ہیں۔ فیصلے سے پہلے میں نے اپنے ضمیر سے چھ سوال کیے۔ -1 کیا میں صرف خور و نوش کے لیے پیدا کیا گیا ہوں۔ -2 کیا میں کھونٹے پر بندھے اس جانور کی طرح ہوں جسے اپنے چارے کی فکر ہوتی ہے۔-3 کیا میں ایک بے لگام درندہ ہوں جسے کھانے کے سوا اور کسی چیز سے سروکار نہیں ہوتا۔-4 کیا مجھ میں دین‘ ضمیر یا اللہ کا خوف نہیں ہے۔-5 کیا مجھے اس کائنات میں بلا روک ٹوک ہر طرح کی آزادی حاصل ہے۔
-6 کیا مجھے یہ حق ہے کہ میں صراط مستقیم کو چھوڑ کر باطل قوتوں کی راہوں میں بھٹکتا رہوں۔ یہ چھ سوال پاکستان کے ہر اس فرد کو اپنے آپ سے ضرور کرنا چاہئیں جو اس مکروہ اور گلے سڑے نظام میں اس بات پر جھک جاتا ہے‘ حق کی راہ میں ہٹ جاتا ہے کہ اقتدار پر قابض افراد اس کی اور اس کے خاندان کی جانوں کے دشمن ہو جائیں‘ انھیں کی زندگیاں مشکل کر دیں گے‘ انھیں بے موت مار دیں گے۔

اگر ان کا ضمیر ان کا جواب نفی میں دے تو سمجھو وہ اس دنیا میں بھی سرخرو اور آخرت میں بھی۔ جسٹس کاظم علی ملک نے لکھا میرے ضمیر نے ان سوالوں کا جواب نفی میں دیا تو میں نے نظریہ ضرورت کو پس پشت ڈال کر تلخ سچ بول دیا۔ سچ کی تلخی وہ کڑوی دوا ہے جو اس قوم کی تمام امراض کا علاج ہے۔

اوریا مقبول جان

بجلی کے نرخوں میں 30 فیصد اضافہ

ایک نئی دھمکی

$
0
0

سچے پاکستانیوں کو تو بھارت کی پروا نہیں۔ وہ بھارت کے خلاف تین چار باقاعدہ جنگیں لڑ چکے ہیں اور انھوں نے بھارت کی جواں مردی کو اچھی طرح دیکھ لیا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے حکمران بھارت کی دلجوئی میں مصروف رہتے ہیں یا پاکستانیوں کے سینے پر مونگ دلتے رہتے ہیں۔

وہ بھارت کو خوش رکھنے کے لیے پاکستانیوں کے ساتھ کوئی سلوک بھی کر سکتے ہیں اور آلو پیاز کی سیاست اور تعلقات پر بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بھارت کے ایٹمی بموں کے بارے میں ہم کچھ کہیں تو یہ ایک متعصبانہ بات ہو گی لیکن جب امریکا جیسے ملک سے کوئی خبر آتی ہے تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہوتا۔

ایک امریکی تھنک ٹینک نے رپورٹ دی ہے کہ پاکستان بھارت سے بہت آگے نکل گیا ہے اور آیندہ دس برسوں میں پاکستان ایٹمی ہتھیار بنانے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہو گا۔ امریکا اور روس کے بعد پاکستان کے ایٹمی ہتھیار 120 ہیں جب کہ بھارت کے پاس ایک سو۔ پاکستان ہر سال جس قدر ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے اس کے مطابق بھارت بہت پیچھے چلا گیا ہے اور پاکستان کے مقابلے میں پیچھے ہی رہے گا بلکہ پاکستان تو دنیا کے بڑے ایٹمی ملکوں میں شامل ہو رہا ہے۔

یہ چند سطریں محض پاکستانی حکام اور رؤساء کو حوصلہ دلانے کے لیے نقل کر دی ہیں ورنہ سچے پاکستانی تو وہ لوگ ہیں جو بے تیغ بھی لڑا کرتے ہیں اور معافی چاہتا ہوں ان الفاظ کے لیے کہ ہندو کی مجال نہیں کہ وہ کسی برتر اسلحہ کے بعد ہمارے ساتھ جنگ کر سکے اس کے دست و بازو ہمارے ساتھ جنگ نہیں کر سکتے صرف اسلحہ لہرا سکتا ہے اور جب ہمارے پاس اسلحہ اعلیٰ ترین درجہ کا ہو تو بھارت ہمارے سوداگروں اور تاجروں کو قابو کر سکتا ہے جو جنگ تو بڑی بات ہے کسی ملک کی حکومت بھی نہیں چلا سکتے اس لیے عام پاکستانی جن کا اوڑھنا بچھونا پاکستان ہے وہ بھارت سے خالی ہاتھ بھی جنگ پر تیار رہتے ہیں۔ کجا کہ ان کے پاس بھارت سے اعلیٰ ترین درجے کا موجود ہو ایسا اسلحہ جو مہا بھارت کو آن واحد میں بھسم کر ڈالے۔

پاکستان کی طاقت اگر اس ملک کے مسلمان شہری ہیں اور اعلیٰ ترین اسلحہ ہے لیکن اس ملک کو اپنے اندر سے بھی کئی آزار لاحق ہیں اور ان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آپ نے لندن میں مقیم پاکستانیوں کی پاکستان دشمن تقریریں سن لی ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ ہمارے حکمران کس طرح ان بڑھکوں کو ہضم کر گئے ہیں اور اب برطانیہ کی حکومت سے عرض کر رہے ہیں کہ مہربانی کر کے آپ اپنے ان مہمانوں اور اپنے نئے شہریوں کو ہمارے خلاف تقریریں کرنے سے روک دیں۔
ہمیں ڈر لگتا ہے۔ اس ڈر کا نتیجہ مسلسل نکل رہا ہے اور اب جناب آصف علی زرداری صاحب کے ترجمان نے کہا ہے کہ اگر زرداری صاحب کے خلاف کسی کارروائی کی کوشش کی گئی تو یہ ایک نئی جنگ کی ابتداء ہو گی۔ ہمارے مہربان جناب خورشید شاہ صاحب نے کہا ہے کہ اگر آصف علی زرداری پر ہاتھ ڈالا گیا تو یہ جنگ کی ابتدا ہو گی۔ ہم وزیر اعظم کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے پر تیار ہیں کہ وہ پاکستان کو رکھنا چاہتے ہیں یا اسے غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔
کسی مشہور پاکستانی کی طرف سے پاکستان کو جنگ کی یہ نئی دھمکی ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور پاکستان کے بڑے لوگوں نے وطن عزیز کو اس قدر کمزور اور لاچار کر دیا ہے کہ جو بھی اٹھتا ہے وہ اپنی کسی ناکامی کا غصہ پاکستان پر نکالتا ہے اور اس ملک کو ختم کرنے کی بات کرتا ہے۔ سیدھی سادی بات تو یہ ہے کہ ایسی زبان استعمال کرنا ملک کے خلاف غداری کے سوا اور کچھ نہیں۔ انتظامیہ فوج کی طرف سے حوصلہ پا کر بڑے بدعنوانوں پر ہاتھ ڈال ہی ہے اور چونکہ بدعنوانی میں سرفہرست یہ بڑے لوگ ہیں جنہوں نے رشوت اور کرپشن کی حد کر دی ہے۔

اس لیے خطرہ پیدا ہوا ہے کہ ان بڑوں کے بڑے بھی کسی زد میں نہ آ جائیں چنانچہ پارٹی کے نمبر دو لیڈروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے بڑوں کے خلاف سرکاری کارروائیوں کی مزاحمت پر تیار ہو جائیں چنانچہ شاہ صاحب کی طرف سے زرداری کے خلاف کسی کارروائی کو جنگ قرار دیا ہے۔ یعنی مزاحمت کا آخری درجہ۔ جہاں تک میرے جیسے ایک عام پاکستانی کا تعلق ہے وہ نہیں سمجھتا کہ زرداری پر ہاتھ ڈالا جائے گا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نمبر دو قسم کے سابق حکمرانوں سے انتظامیہ فارغ ہو گی تو آگے بڑھے گی اور ان نمبر دو کی تعداد ماشاء اللہ بہت زیادہ ہے۔

کوئی اینٹ اٹھائیں تو نیچے سے ایک سابق حکمران نکلتا ہے۔ کمال ہے کہ یہ لوگ وزیر اعظم تک رہے ہیں۔ اس سے زیادہ وہ کیا چاہتے تھے لیکن ہوس کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے چھوٹی بڑی کسی قسم اور درجے کی بدعنوانی کو بھی مایوس نہیں کیا اور اب جن لوگوں کے نام اخباروں میں چھپ رہے ہیں وہ وزیر اعظم بھی تھے اور ان کے نمبر دو بھی۔ عام وزیروں کا تو شمار ہی نہیں ہے۔ جتنی تعداد میں وزیر تھے اللہ ماشاء اللہ اللہ اتنی ہی تعداد میں رشوت خور بھی ہیں میں نے پاکستان کے بانی اور قائد اعظم کی زندگی کے بارے میں جتنا کچھ پڑھا ہے اس کو سامنے دیکھیں تو یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مستقل نہیں تو وقتی طور پر پاکستان کی تحریک تو موخر کر دیتے۔

اس قدر صاف ستھرا آدمی اتنے گندے اور غلیظ لوگوں کی حکمرانی کے لیے پاکستان نہیں بنا سکتا تھا البتہ قائد کی زندگی کی ایک بات ایسی دکھائی دیتی ہے کہ ان کے تجربے مشاہدے اور رائے کے مطابق اگر اس خطے میں پاکستان نہ بنا تو ہندو یہاں آباد مسلمانوں کو قتل کر دیں گے اور اس کا اظہار انھوں نے قاہرہ کی ایک تقریر میں کر دیا تھا۔ بہر کیف اس پاکستان کے کرپٹ حکمرانوں کو پکڑا جا رہا ہے تو اس پر یقین نہیں آتا۔ اگر یہ واقعہ ہے اور یہ سلسلہ جاری رہ سکتا ہے تو پھر جنگ کی دھمکی درست معلوم ہوتی ہے۔

عبدالقادر حسن
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

Viewing all 4315 articles
Browse latest View live