Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

پائیدار بھی حاضر ہے اور عارضی بھی...وسعت اللہ خان

$
0
0

برطانیہ کروڑوں ہندوستانیوں پر صرف ایک لاکھ بیس ہزار گوروں کی مدد سے نوے برس یوں موثر حکومت کر سکا کیونکہ اس نے برِصغیر میں بسنے والے بھانت بھانت کے انسانوں کی نسلی، مذہبی، سماجی اور نفسیاتی نزاکتوں کو نہ صرف سمجھنے کی کوشش کی بلکہ ان کا الگ الگ پروفائل بھی بنایا اور اس پروفائل کے مطابق ہر علاقے کے لیے مختلف اقتداری پالیسی اپنائی۔ کہیں ڈنڈا تو کہیں پیار تو کہیں پیسہ تو کہیں مروت تو کہیں اپنے حال پر چھوڑ دینے کی پالیسی۔

اس تناظر میں برطانوی سامراج کے مستشرقین، بیورو کریسی اور ماہرینِ سماجیات نے بلوچوں کا جو پروفائل تیار کیا وہ مختلف گزیٹیرز، روزنامچوں، یادداشتوں، سرکاری مراسلت اور کتابوں کی شکل میں بکھرا پڑا ہے۔ مگر لُبِ لباب یہ ہے کہ بلوچ طبعاً اتنے آزاد منش ہیں کہ ایک ہم نسل دوسرے ہم نسل کی اپنے معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کرتا اور زندگی اپنی مقامی و اندرونی شناخت کے سائے میں گزارنا پسند کرتا ہے۔ کئی اقوام پیسے یا طاقت سے رام ہو جاتی ہیں لیکن بلوچ کو رام کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ عزتِ نفس کا خیال رکھتے ہوئے اس کی بات توجہ سے سنی جائے اور ہر اس اندرونی معاملے اور رواج میں ٹانگ اڑانے سے پرہیز کیا جائے جس کا آپ سے براہ راست لینا دینا نہیں، حتیٰ کہ بلوچ خود آپ سے مشورہ لینے آئے۔

پچھلے انسٹھ برس میں اگر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ قومیتی نفسیات کے بارے میں انگریز کی چھوڑی علمی و مشاہداتی میراث کی سمری ہی پڑھ لیتی تو نہ صرف بنگال کو سمجھا جا سکتا تھا بلکہ یہ راز بھی کھولا جا سکتا تھا کہ بلوچ آخر ہر چند برس بعد ہتھیار کیوں اٹھا لیتے ہیں اور نہیں بھی اٹھاتے تب بھی شکوے شکایت کی مسلسل تسبیح کیوں پھیرتے رہتے ہیں؟ مگر اسٹیبلشمنٹ کو شاید انگریز کے تیار کردہ قومیتی پروفائلز پڑھنے کے محنت طلب کام سے زیادہ آسان یہ لگتا ہے کہ ڈنڈا ڈپلومیسی ہر مرض کے لیے اکسیرِ اعظم ہے۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا؟ مریض مر ہی جائے گا نا؟ مگر مرنا تو سب کو ہی ایک دن ہے چنانچہ کسی کی انفرادی و اجتماعی نفسیات سمجھنے کی ٹینشن کاہے کو لینا؟
لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ ون یونٹ کے نظریے کی تدفین کے چھیالیس برس بعد بھی وفاق کے ذہن پر ون یونٹ کا بھوت پوری طرح قابض ہے۔ اس عرصے میں اگر کسی فن میں مہارت حاصل کی گئی تو بس یہ کہ پہلے مرض پیدا کرو اور پھر علاج کرو اور اگر علاج نہ کر پاؤ تو توجہ ہٹانے کے لیے اس سے بھی بڑا مرض پیدا کر دو اور کسی موثر دوا یا ویکسین کی تیاری کے صبر آزما کام کے بجائے وائرس اور مریض کی بے احتیاطی وغیرہ وغیرہ کو ہی برا بھلا کہتے رہو۔

اس لمبی تقریر کے بعد دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ میں وہ کیا وجوہات ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی بلوچستان پالیسی میں ڈنڈے کے ساتھ گاجر بھی لٹکائی جا رہی ہے اور وہ کیا وجوہات ہیں کہ بلوچ علیحدگی پسندوں کے رویے میں سالِ گزشتہ کے مقابلے میں کچھ لچک دکھائی دے رہی ہے؟ بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک کا موجودہ باب نائن الیون کے بعد کھلا لیکن ابتدا میں اس کی نوعیت مسلح سے زیادہ شکایتی و احتجاجی تھی۔

اگر جنوری دو ہزار پانچ میں سوئی میں ڈاکٹر شازیہ ریپ کیس کسی عدالت کے سپرد کر دیا جاتا اور جنرل پرویز مشرف خود عدالت بنتے ہوئے اس کیس کے ایک ملزم کیپٹن حماد کی بریت کا ذاتی فتویٰ دینے سے پرہیز کرتے اور نواب اکبر بگٹی کی جانب سے اس کیس کی بابت بلند ہونے والی آواز کو ذرا سی بھی اہمیت دیتے اور اس قولِ زریں کو اپنے اندر ہی دبا لیتے کہ ’’ان قبائلیوں کو یہ بھی پتہ نہیں چلے گا کہ ان کے سر سے کیا شے ٹکرائی‘‘ اور ڈاکٹر شازیہ کو خوفزدہ کر کے ملک سے باہر نہ بھیجتے اور بگٹی علاقے کی ناکہ بندی کے ردِ عمل میں نواب صاحب کو پہاڑی غاروں کی جانب مراجعت پر مجبور نہ کرتے اور پھر بھی کوئی لچک دکھانے کے بجائے اکبر بگٹی کو ہلاک کر کے سینہ ٹھونک کر اپنے اقدام کا دفاع نہ کرتے اور بگٹی کی لاش کو تالے والے تابوت میں سپردِ خاک نہ کرواتے تو آج تک بلوچستان جس آگ میں جل رہا ہے اس کی شدت اتنی زیادہ نہ ہوتی۔ 

سیکڑوں جانیں بچ جاتیں اور محرومی اور ناسپاسی کا گھاؤ ایسا گہرا بھی نہ ہوتا۔
لیکن تاریخ میں اگر مگر کی کوئی حیثیت ہوتی تو تاریخ بے وقوفیوں سے پاک مضمون ہوتا۔ حیرت یہ ہے کہ مشرف کے جانے کے بعد بھی ’’مشرفی ذہن‘‘ بلوچستان کی بابت فیصلہ سازی پر حاوی رہا بلکہ جبری گمشدگی، مسخ لاشوں اور ذیلی طفیلی تنظیموں کی ’’تشدد آمیز وفاداری‘‘ کو اور بڑھاوا ملا۔

لیکن اس سال ایسا کیا ہو گیا کہ مرکز کی یہ پالیسی بھی بدل گئی کہ علیحدگی پسند جب تک ہتھیار نہیں ڈالیں گے ان سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی اور ایسا کیا ہوا کہ جون میں عام معافی کا اعلان کیا گیا اور پھر ایسا کیا ہوا کہ بیرونِ ملک مقیم خان آف قلات میر سلمان داؤد سمیت محبِ وطن بلوچوں کو بھڑکانے والے ’’مٹھی بھر غیر ملکی ایجنٹ‘‘ رہنماؤں سے خفیہ و ظاہری اور براہِ راست و بلا واسطہ رابطہ کاری کا سلسلہ شروع ہوا۔

وجہ شائد یہ احساس ہو کہ طاقت سے آپ زمین تو لیول کر سکتے ہیں مگر انسانوں سے مکمل صاف نہیں کر سکتے۔ چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور اگر طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق وجود میں آنا ہے تو پھر ڈنڈے، گاجر اور لچک سمیت ایک تازہ پالیسی اپنانی ہو گی اور بنیادی اسٹیک ہولڈرز کو ہم نوا نہ بھی بنایا جا سکے تو انھیں نیوٹرل ضرور کرنا ہو گا۔ لہذا پچھلے چند ماہ میں جبری گمشدگیاں گزشتہ برس کے مقابلے میں نسبتاً کم ہوئی ہیں اور آپریشن کا زور بھی ان جنوبی علاقوں میں زیادہ ہے جو کاریڈور کا مجوزہ روٹ ہیں۔ طفیلی پرتشدد تنظیموں کو بھی فی الحال آگے پیچھے کر دیا گیا ہے۔ پبلک ریلیشننگ کی میڈیائی مہم میں بھی زور آ گیا ہے اور جلا وطن بلوچ قیادت کو براہ راست مجرم قرار دینے کے بجائے بلوچستان کی بدامنی کا فوکس بھارت پر شفٹ ہو گیا ہے۔

چار روز پہلے علیحدگی پسند بلوچ رہنما براہمداغ بگٹی نے مسئلے کے سیاسی حل کے لیے جس لچک کا عندیہ دیا اس کا خیر مقدم فی الحال بلوچستان کے قوم پرست وزیرِ اعلی ڈاکٹر مالک بلوچ تک ہی محدود ہے۔ مرکز کی خاموشی کی وجہ شائد یہ ہو کہ فی الحال جلا وطن بلوچ قیادت سے بات چیت کی نوعیت غیر رسمی ہے۔ جب کہ جلا وطن قیادت منتظر ہے کہ اعتماد سازی کے لیے وفاق اور اس کے ادارے آپریشن اور جبری گمشدگیوں کے انسانی مسئلے کے بارے میں کیا نئے پالیسی خطوط وضع کرتے ہیں۔ یہ خطرہ بھی ہے کہ وفاقی پالیسی ساز اس گھمنڈ کے اسیر نہ ہو جائیں کہ سختی ہی دراصل بلوچ علیحدگی پسند قیادت کو ’’نرم‘‘ کر رہی ہے۔

اچھا تو وہ بلوچ جو آزادی سے کم کسی بات پر راضی نہیں اب ان میں سے بھی کچھ سرکردہ لوگ شاخِ زیتون کی اہمیت کے قائل ہوتے کیوں نظر آتے ہیں۔ پہلی وجہ شائد یہ ہے کہ پچھلے دس برس کے دوران مشترکہ ہدف کے باوجود بلوچ مزاحمتی قیادت کسی ایک پلیٹ فارم پر خود کو منظم نہیں کر سکی۔ وقت کے ساتھ ساتھ باہمی شکوک و شبہات اور حکمتِ عملی کا گہرا اختلاف ایک لمبی تحریک کو بھی بیزاری، جھنجھلاہٹ اور تھکن کی دھند میں لپیٹ لیتا ہے۔ اندرونی تحریکی بحران اور بڑھ جاتا ہے جب ایک فریق کے پاس بے پناہ ترغیب و طاقت ہو اور دوسرا فریق انتہائی کم وسائل اور محدود نظریاتی حدود میں جکڑا ہوا ہو۔

دوسری وجہ شاید یہ ہے کہ گزشتہ ادوار کے برعکس تازہ مزاحمتی دور میں مسلح تحریک کی عملی قیادت روایتی خانوادوں سے نکل کے مڈل یا لوئر مڈل کلاس کی نئی بلوچ نسل کے ہاتھ میں آ گئی۔ مگر یہ تازہ قیادت اپنے طور پر سیاسی سودے بازی کا وہ تجربہ نہیں رکھتی جیسا تجربہ روایتی قیادت کے پاس ہے۔ چنانچہ نوجوان قیادت کو کسی بھی ڈیل کے لیے بالاخر ’’بزرگوں‘‘ کا ہی سہارا لینا پڑے گا۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کے معاملے میں ’’آزاد میڈیا‘‘ پر ریاستی کنٹرول تقریباً مکمل ہے اور خود قوم پرست بلوچوں نے اپنے کاز سے نابلد پاکستان کی نان بلوچ اکثریت کو وسائل، پہنچ اور اس پہنچ کی اہمیت نہ سمجھنے کے سبب اپنا کیس سمجھانے کی شعوری کوشش نہیں کی۔ الا یہ کہ ماما قدیر کی تحریک اور انسانی حقوق کے چند سر پھرے کارکنوں اور لکھاریوں نے اپنے طور پر بلوچستان کرائسس سے باقی پاکستان کو متعارف کروانے کی اپنی سی ہمت کی۔
لیکن ان تمام تاویلات سے قطع نظر مختصر بات یہ ہے کہ ایک ایسا امن ہاتھ آنے کا امکان ہو جس میں طے شدہ بنیادی حقوق کی پاسداری باہمی عزت و احترام کی بحالی کے ساتھ ممکن ہو سکے تو پھر یہ موقع بے وقوفی یا گھمنڈ کے ہاتھوں گنوانا نہیں چاہیے۔ 

اسی دنیا میں طاقت اور کمزوری کی بنیاد پر بھی بے شمار سمجھوتے ہوئے ہیں مگر ایسے سمجھوتے کرتے وقت یہ یاد رہنا چاہیے کہ ان معاہدوں کی نوعیت وقتی ہوتی ہے اور اصل مرض کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ دو گنی قوت سے حملہ آور ہوتا ہے۔

وسعت اللہ خان
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس


کیا آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں ؟

$
0
0

کیا آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں ؟ اگر آپ کا جواب ہاں ہے تو پھر آپ کو ’’ خوشی اور ‘‘ کامیابی ‘‘ کی وہ تعریف بیا ن کرنا ہوگی جو آپ کے خیال میں درست ہو ۔ ایک رائے کے مطابق خود اعتمادی سے کامیابی اور کامرانی حاصل کی جا سکتی ہے اور خوشی کیلئے آپ کو پر اعتماد ہونا ہوگا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایک چیز کسی کی خوشی کا سبب ہوتی ہے تو کسی کیلئے نہیں ہوتی لیکن یہ آپ کا اعتماد ہے جو آپ کو خوش کر سکتا ہے۔ 

پُر اعتماد لوگ ہی کامیاب ہوتے ہیںاور خوش بھی ۔ وہ اپنے آپ پر بھروسہ رکھتے ہیں اور وہ کسی ایسی سرگرمی میں ملوث نہیں ہوتے جو ان کی روح کو مجروح کرے۔ آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ پُر اعتماد لوگ کیا نہیں کر تے یعنی ان کی عادات میں کونسی چیزیں شامل نہیں ہوتیں اور وہ انہی کی بنا پر خوش رہتے ہیں ۔ 1۔کسی کا امتحان نہیں لیتے :۔پُر اعتماد لوگ جیو اور جینے دو کی پالیسی پر کار بند ہوتے ہیں ۔ وہ نہ کسی کا امتحان لیتے ہیں اورنہ ہی کسی کے بارے میں منفی رائے دیتے ہیں یا کسی کی رائے پر تبصرہ کرتے ہیں ۔

 وہ کسی غیر ضروری ڈرامے کا حصہ نہیں بنتے اور نہ ہی اپنے دوستوں کی بد خوہیاں کرتے ہیں ۔ پیٹھ پیچھے برائی کرنے کا تصور ان کے ہاں نہیں ہوتا۔ پُر اعتماد لوگوں کا ہی کہنا ہوتا ہے کہ سب کو پُر اعتماد ہونا چاہیے بلکہ وہ اعتماد سازی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں ۔ 2۔خود نمائی سے اجتناب :۔ خود نمائی اور دکھاوا ہمارے معاشرے کی وہ بیماریاں ہیں جو اندر ہی اندر دیمک کی طرح خاندان کو کھا جاتی ہیں ۔ اس دکھاوے میں اخراجات کرنے کے بعد بھی لوگ دھوکے میں ہی رہتے ہیں اور اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں لیکن افسوس کہ حقیقی خوشی سے دور رہتے ہیں ۔
 پُر اعتماد لوگوں کی ایک بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اس دکھاوے سے دور رہتے ہیں اور حقیقت کے آئینے سے ہی سب کو دیکھتے ہیں ۔ یہ حقائق انہیں حقیقی خوشی دیتے ہیں ۔ 3۔آسیب اورتوہمات سے دور:۔پُر اعتماد لوگ اپنے اوپر کسی وہم و خیال کو مسلط نہیں کرتے اور نہ ہی کسی ایسی رائے پر بے قرار ہوتے ہیں جو لوگوں نے ان کے بارے میں قائم کی ہوئی ہوتی ہے ۔ ایسے لوگ اپنا احتساب خود کرتے ہیں اور اس کے کڑے امتحان سے گزرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں اصل شکل کی آگاہی حاصل ہوتی ہے ۔ 

ان کے مقابلے میں اعتماد سے عاری لوگ دوسروں کے منہ کی طرف دیکھتے ہیں کہ کوئی ان کی تعریف کرے اور وہ آگے بڑھیں گویا بے اعتماد لوگوں کو آگے بڑھنے کے لیے سہارا درکار ہوتا ہے جبکہ پُر اعتماد لوگ کسی کے سہاروں کی بجائے اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔ 4۔اقدار کے موازنے سے اجتناب :۔ اگر آپ پُر اعتماد ہیں تو پھرآپ کے عقائد بھی مضبوط ہوں گے ۔ ایسے لوگ اپنے راستوں کا خود تعین کرتے ہیں اور کچھ سنہری اصولوں کو اپنی اقدار کا حصہ بنا لیتے ہیں اور پھر ساری زندگی ان اقدار کی حفاظت میں جتے رہتے ہیں ۔

 یہ بہت ہی دلچسپ امر ہے کہ اعتماد کی دولت سے مالا مال ایسے لوگ اپنی ان اقدار کاموازنہ کسی دوسرے سے نہیں کرتے، نہ وہ اپنی اقدار کو سر عام کرتے ہیںاور نہ ہی کسی کو کرنے دیتے ہیں، ان کی اس خوبی کی وجہ سے انہیں فطری خوشیوں کا ادراک رہتاہے ۔ 5۔منفی رویوں سے اجتناب :۔ اوپرے ونفرے کہتی ہیں ’’ اگر آپ اپنی زندگی میں جو کچھ موجود ہے ،کو دیکھتے ہیں تو آپ کو مزید بھی ملے گا لیکن اگر آپ کی نظر ایسی چیزوں پر ٹکتی ہے جو آپ کی زندگی کا حصہ نہیں تو سمجھ لیں آپ خالی ہاتھ ہیں اور رہیں گے ۔ ‘‘اس خوبصورت قول کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ پُر اعتماد لوگوں کے لیے ہے جو ہر طرح کے منفی رویوں سے دور رہتے ہیں، ہمیشہ روشن خیال رہتے ہیں،جس کی وجہ سے وہ اپنی اور لوگوں کی سچی خوشیوں سے محظوظ رہتے ہیں ۔ 6۔خود کو ہمہ وقت درست خیال نہیں کرتے :۔ پُر اعتماد لوگوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ہمہ وقت خود کو بھی صحیح اور درست خیال نہیں کرتے ۔

 ان کے خیال میں ان کی اپنی رائے غلط رہنے کا امکان رہتا ہے اور جہاںمحسوس ہوتا ہے کہ وہ غلط ہیں وہ فوراََ ہی اس غلطی کو تسلیم کرتے ہیں اور اس ساری صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ غلطی کیوں کر ہوئی ہے ۔ جب کوئی اس طرح کی سائنسی طرز زندگی کو اپناتے ہیں تو پھر اس صورت میں ان کے دکھی ہونے کے چانسز سکڑ جاتے ہیں ۔ 7۔صورتحال کو پیچیدہ نہیں کرتے :۔ لوگ عام سی صورتحال کوگمبھیربنانے کی عادت میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ 

معمولی سی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے اور ایسا تجسس برپا کر دیتے ہیں کہ ہر کوئی اس کی لپیٹ میں آ کر خوفزدہ ہو جاتا ہے ۔پُر اعتماد لوگ ہربُری صورتحال کا سامنا ’’ کچھ نہیں ہوتا ‘‘ سب ٹھیک ہو جائیگا ‘‘ جیسے جملوں سے کرتے ہیں ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آدمی کی ٹینشن ختم ہو جاتی ہے ۔ گویا صورتحال کو پیچیدہ بنانے سے اجتناب برتا جائے تو کامیابی اور دکھ کی جگہ سکھ مل سکتا ہے یہی فلاسفی پُر اعتماد لوگوں کی ہے ۔ 8۔اول فول نہیں بکتے :۔ اخلاقیات کا شاندار اور مطمئن زندگی سے چولی دامن کا ساتھ ہے ۔

ایک مہذب آدمی اپنے اخلاقی رویوں سے انتہائی نفیس زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں اعتماد سے عار ی لوگ ہر طرح کی اخلاقیات سے دور ہو تے ہیں ۔سرِراہ آپ کوکئی ایسے کردار ملیں گے جو بات بات پر سیخ پا ہوجاتے ہیں اور گالیاں بکنا شروع کر دیتے ہیں ۔ ان کے منہ سے الفاظ نہیں بلکہ آگ کے شعلے نکلتے رہتے ہیں جس سے ایسی آگ بھڑک اُٹھتی ہے کہ کبھی کبھی تو جان کے لالے بھی پڑ جاتے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں پُر اعتماد لوگ ہمیشہ دھیمے لہجے میں رہتے ہیں اور اول فول بکنے سے اجتناب برتتے ہیں ۔ 9۔اندھا اعتماد نہیں کرتے :۔ اندھا اعتماد سے مراد ایسی صورتحال ہے جس میں کوئی بھی آنکھوں پر پٹی باندھ کر سڑک کراس کرے ۔

 ایسی تصویر میں سو فیصد حادثے کا خدشہ ہوتا ہے اور حادثے ہمیشہ نقصانات کا سبب بنتے ہیں ۔ یہ اصول پُر اعتماد لوگوں کی زندگی کا خاصا ہوتا ہے ۔ وہ کسی کی نصیحت کو بلا چو ں چراں نہیں قبولتے بلکہ ہر بات کو سائنسی اپروچ سے پرکھتے ہیں ۔ 10۔خوفزدہ نہیں ہوتے :۔ اندیشے اور ان دیکھے واقعات خوف کی کیفیت پیدا کرتے ہیں ۔ عام لوگ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے ڈر جاتے ہیں ۔ ہارجانے کا احساس ایسے لوگوں کو آگے بڑھنے ہی نہیں دیتا جبکہ پرُ اعتماد لوگوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا ۔

 یہاں مثال پولیس اور فوج کے محکموں کی دی جاتی ہے ۔ عمومی رائے ہے کہ فوج کے اہلکار پُر اعتماد ہوتے ہیں اور ان کی فیصلہ سازی کی قوت زیادہ مضبوط ہوتی ہے اس لیے کہ یہ ادارہ اپنے لوگوں کو اعتماد کی دولت سے مالا کرتا ہے اس کے مقابلے میں پولیس والوں کا یہ رویہ نہیں ہے ۔ یہاں کسی محکمہ کی تضحیک کرنا مطلوب نہیں بلکہ حقیقت بیان کرناہے کہ دونوں اداروں میں اعتماد سازی میں فرق ہے ۔ یہی فرق پُر اعتمامد لوگوں کو ممتاز کرتا کرتاہے۔

عبدالستار ہاشمی

A Kashmiri rows his boat, during sunset at the Dal Lake

$
0
0
A Kashmiri fisherman rows his Shikara, or traditional boat, during sunset at the Dal Lake in Srinagar, Indian controlled Kashmir. Nestled in the Himalayan mountains and known for its beautiful lakes and saucer-shaped valleys, the Indian portion of Kashmir, is also one of the most militarized places on earth. 

بڑے ملک کا چھوٹا وزیراعظم

$
0
0


یہ 19 مئی 2014ءکا ایک گرم دن تھا، جب بھارتی فوج کی جانب سے بتایاگیا کہ جموں و کشمیر میں اکھنور کے مقام پراُن کا ایک فوجی ”بھکالے اتم بھالو“ بارودی سرنگ کے پھٹنے سے ہلاک ہوگیا۔ بھارت نے الزام لگایا کہ یہ بارودی سرنگ پاکستانی بارڈر ایکشن ٹیم نے بچھائی تھی۔ بھارت نے یہ الزام تو لگایا ہی لیکن میڈیا پر اِس الزام کا واویلہ بھی بہت مچایا مگر اپنے اس الزام کی حمایت میں بھارت کوئی ثبوت فراہم نہ کرسکا۔

اگرچہ یہ کوئی بہت بڑا واقعہ نہ تھا لیکن جس انداز میں بھارت میں اس واقعہ کی تشہیر اور پراپیگنڈا کیا گیا تھا، یہ ضرور غیر معمولی تھا، اِس واقعہ کے بعد بھارت نے ایک عرصہ سے خاموش مغربی محاذ کو اچانک گرم کر دیا اور ورکنگ باو¿نڈری اور لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ کو معمول ہی بنالیا۔ پاکستان نے عالمی سرحد، ایل او سی یا ورکنگ باو¿نڈری پر جب بھی جذبہ خیر سگالی کا مظاہرہ کیا تو بھارت نے اس کا جواب منفی اور شرمناک انداز میں دیا۔

اس دوران سب سے افسوسناک واقعہ تو اُس وقت پیش آیا جب 31دسمبر کو پاکستانی سیکیورٹی حکام معمول کی فلیگ میٹنگ کے سلسلے بھارتی سیکیورٹی آفیسرز سے ملنے جارہے تھے کہ بھارتی سیکیورٹی اہلکاروں نے پاکستان رینجرز کے دونوں آفیسرز پر فائر کھول دیا۔ جس سے دونوں پاکستانی افسر شہید ہوگئے، اس جارحانہ واقعہ کے جواب میں بھی بھارتی حکام نے پاکستان پر فائر بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے اپنے ایک فوجی کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔
بھارتی جارحیت سالِ گزشتہ کی بات ہی نہیں بلکہ یہ سلسلہ رواں برس بھی جاری ہے۔

 مثال کے طور پر بھارت نے نئے سال کا آغاز ہی ننگی جارحیت سے اِس طرح کیا کہ 2 جنوری کو سیالکوٹ کے شکرگڑھ سیکٹر پر بھارتی گولہ باری سے ایک تیرہ سالہ بچی سمیرہ جاں بحق جبکہ پانچ سالہ بچہ مرسلین شدید زخمی ہو گیا۔ 5 جنوری کو بھارتی فوج کی جانب سے شکر گڑھ اور ظفروال سیکٹرز میں بلا اشتعال فائرنگ سے پانچ شہری شہید ہوگئے اور 14 فروری کو ایک ساٹھ سالہ ضعیف شخص فائرنگ سے جاں بحق ہوگیا۔ مارچ اور اپریل میں بھارتی گنیں قدرے خاموش رہیں لیکن یکم مئی کو بھارتی بی ایس ایف کی بلا اشتعال فائرنگ سے ایک پاکستانی شہری امانت علی شکرگڑھ سیکٹر میں جاں بحق ہوگیا۔
بھارت کی جانب سے تاریخ کا سب سے بڑا ڈرامہ اُس وقت سامنے آیا جب 3 مئی کو بھارتی شہر پٹھانکوٹ کی پولیس نے ایک مبینہ پاکستانی کبوتر کو ”گرفتار“ کر لیا۔ اردو میں کچھ اعداد اور الفاظ کے ساتھ ساتھ انگریزی میں اس پرندہ کے جسم پر شکرگڑھ اور نارووال لکھا تھا، بھارت نے الزام لگایا کہ اس کبوتر کو پاکستان جاسوسی کے لیے استعمال کر رہا تھا، لیکن اُس کے بعد بھارت کو خود ہی یہ الزام واپس لینا پڑ گیا۔جون کے گرم مہینے میں محاذ پھر ٹھنڈا رہا ۔ 11 جولائی کو پاکستانی رینجرز نے دریائے چناب میں ڈوب جانے والے جموں کے نوجوان کنٹ لال کی میت بھارتی سرحدی سیکیورٹی حکام کے حوالے کی تو 15 جولائی کو بھارت نے پاکستان کی سرحدی چوکیوں کی تصویر کشی کیلئے جاسوس ڈرون بھیج دیا، جسے پاکستان نے بھمبر کے علاقے میں مار گرایا۔ اگلے روز 16 جولائی کو بھارتی فوج نے سیالکوٹ کے چپرار سیکٹر میں فائرنگ کرکے 5 پاکستانیوں کو شہید کردیا، اسی طرح 25 جولائی کو آزاد کشمیر میں شریکوٹ سیکٹر میں بھارتی فوج کی فائرنگ سے ایک نوجوان محمد وسیم شہید ہوگیا۔ 

بھارتی جارحیت کے حوالے سے اگست کا مہینہ سب سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوا۔
مثال کے طور پر 4 اگست کو ورکنگ باو¿نڈری پر سیالکوٹ کے نزدیک سکھیال سیکٹر میں دو پاکستانی شہری جاں بحق ہوئے، 7 اگست کو مظفر آباد میں ہیلان سیکٹر میں بھارتی کھلونا بم سے ایک بچہ شہید ہوگیا، 9 اگست کو بھارتی فائرنگ سے شدید زخمی ہونے والی خاتون فریدہ 11 اگست کو جاں بحق ہوگئی۔ بھارت نے پاکستان کے یوم آزادی پر بھی اپنی توپوں کے دہانے بند نہ کیے، اُس روز نیزاپیر سیکٹر میں بھارتی فوج کی فائرنگ سے منیرہ اختر نامی خاتون شہید ہوگئی۔ 15 اگست کو بھارتی فوج کی فائرنگ سے محمد شفیع اور شاہ پال خان شہید ہوئے، 17 اگست کو نکیال سیکٹر میں ایک خاتون جبکہ 18 اگست کو ایک اور شہری شہید ہوگیا۔ 22 اگست کو بٹل سیکٹر میں ایک نوجوان محمد اختر بھارتی فائرنگ سے شہید ہوا۔ بھارتی فائرنگ سے 28 اگست کو اِس سال اور مہینے کی سب سے زیادہ شہادتیں ہوئیں، اُس روز بھارتی فوج نے ورکنگ باؤنڈری پر آباد نہتے پاکستانی شہریوں پر بے رحمانہ گولہ باری کی جس سے دس افراد جاں بحق اور 22 خواتین سمیت پچاس شہری زخمی ہوگئے۔

قارئین کرام! بلاشبہ بھارت کی اس بے رحمانہ کارروائی کے نتیجے میں اب تک سینکڑوں پاکستانی شہری شہید اور زخمی ہوچکے ہیں، لیکن بہت سے لوگوں کو ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ گزشتہ برس مئی کے بعد اچانک ہوکیا گیا کہ عرصہ سے خاموش بھارتی توپوں کے دہانے کھل گئے ، جس سے پاکستان اور آزاد کشمیر کے شہر ی اِس ننگی جارحیت کا نشانہ بن کر شہید ہونے لگے؟حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ مئی میں بھارت کے ساتھ بڑی بدقسمتی ہوئی کہ بھارت جیسے بڑے ملک نے ایک ”چھوٹے“ ّآدمی کو اپنا پردھان منتری چننے کی غلطی کرلی۔
جی ہاں گزشتہ برس مئی میں یہ نریندرا مودی جیسا ”چھوٹا“ شخص ہی تھا، جسے بھارتی عوام نے اپنا پردھان منتری منتخب کرلیا۔ یہ چھوٹا شخص کبھی ”سیلفیز“ سے باہر نہیں نکلتا اور کبھی نہتے عوام پر جارحیت کا ارتکاب کرکے اپنے سینہ چوڑا کرنا چاہتا ہے۔اِس چھوٹے آدمی کی وجہ سے بھارت جنگی جنون میں مبتلا ہوتا نظر آتا ہے، لیکن جنگ اور جنون کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ افسوس اس کا کہ ایک چھوٹے آدمی کو اندازہ ہی نہیں
 
نازیہ مصطفیٰ

بشکریہ روزنامہ  نوائے وقت 

تارکین ِ وطن کا نہ ختم ہونے والا بحران

بی جے پی فیصلہ کر چکی؟

$
0
0

کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کتنی تیز ہو گئی ہے۔ ایک ہی دن میں نو دس شہری شہید اور پچاس سے زیادہ زخمی کر دیئے ۔ پاکستان نے بھی بہر حال اپنی ذمہ داری ادا کی اور دفتر خارجہ میں بھارتی سفارت کار کی طلبی کر کے منہ توڑ احتجاج ، منہ توڑ احتجاجی مراسلہ اسکے ہاتھ میں تھما دیا۔

بھارت سرحدوں پر جو کچھ کر رہا ہے، وہ محض سرحدی اشتعال انگیزی نہیں ہے، یہ جنگ کا دیباچہ سمجھئے۔ پاکستان میں فیصلہ کن جنگ بی جے پی کا مذہبی اور سیاسی عقیدہ ہے اور وہ جنگ کی تیاری کر چکا ہے۔ تیاری کے اس فیصلے کے پیچھے چند مفروضے ہیں جو بھارتی حکومت نے قائم کر رکھے ہیں۔
پہلا مفروضہ یہ ہے کہ اندرون صورتحال کی وجہ سے پاکستان اس وقت اپنی کمزور ترین پوزیشن میں کھڑا ہوا ہے۔ وہ ملک کے اندر تنازعات میں الجھا ہوا ہے اس لئے بھارت کے خیال میں فضا بہت سازگار ہے۔

دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ امریکہ جنگ کی صورت میں پاکستان کو ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں کرنے دے گا اور فیصلہ فوجی نفری کی برتری کرے گی۔
تیسرا مفروضہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر قومی یکجہتی موجود نہیں رہی۔ سندھ کی دونوں نسلی آبادیاں یعنی سندھی اور ہاجر وفاق سے خائف ہیں۔ بلوچستان میں علیحدگی کے جذبات زوروں پر ہیں، پختونخواہ کے پختون بھی وفاق سے نالاں ہیں۔

چوتھا مفروضہ ماضی کے برعکس ، مشرف اور کیانی کی مہربانی سے افغان سرحد محفوظ نہیں رہی۔ ماضی کی ساری جنگوں میں افغان حکومت اور عوام کی ہمدردی پاکستان کے ساتھ رہی۔ حتیٰ کہ بھارت نواز ظاہر شاہ بھی اندر سے پاکستان کے ساتھ تھا۔ یہ تاریخ میں درج ہے کہ 65ء کی جنگ میں اس نے پاکستان کو مغربی سرحدوں کے بارے میں پوری طرح بےفکر رہنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
پانچواں مفروضہ ماضی میں پاکستان کا دوست ایران اب بھارت کا تحادی ہے۔ گزشتہ مہینوں جب عالمی ادارے میں پاکستان بحری حدود میں توسیع کیلئے رائے شماری ہوئی تو صرف دو ملکوں نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا۔ ایک بھارت تھا دوسرا ایران۔ گوادر پراجیکٹ کی وجہ سے بھارت کو امید ہے کہ مہم جوئی میں ایران اسکا عملی ساتھ دے گا۔

چھٹا مفروضہ صرف ہمارے مہربانوں نے دنیا میں ایک بھی ملک ایسا نہیں رہنے دیا جسے ہم دوست کہہ سکیں۔ واحد ملک جو جنگ میں ہمارا ہر طرح سے ساتھ دیتا ، وہ سعودی عرب تھا ۔ اسے ہم نے غیر دوست ملک بنا دیا ہے۔ نواز شریف کو تاریخ ہمیشہ سنہرے الفاظ سے یاد رکھے گی جنہوں نے سعودی عرب کی مدد سے انکار کیا تو کیا، قومی اسمبلی سے اسکے خلاف قرارداد بھی منظور کروا دی۔ دوسرا دوست ملک ترکی تھا جو سعودی عرب جتنی مدد تو نہیں کرتا تھا لیکن کچھ نہ کچھ مدد ضرور کرتا تھا۔ اب اسے بھی اجنبی ملک بنا دیا گیا ہے۔ چین کے ساتھ ہماری دوستی بلاشبہ ہمالیہ پہاڑ سے اونچی اور بحیرہ عرب سے زیادہ گہری ہے لیکن اسکی مدد مخلصانہ مشورے تک محدود رہتی ہے۔ اسکی پالیسی دوسرے ملکوں کے تنازعات میں عدم مداخلت کی ہے اور دوستی خواہ کتنی ہی اونچی اور کتنی ہی گہری ہو، قومی پالیسی کی خلاف ورزی نہیں کر سکتی۔

یاک اور پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے مسئلے پر بھارتی لابی کا غلبہ ہے۔ جب سعودی عرب کے خلاف قومی اسمبلی نے قرارداد منظور کی تو الیکٹرانک میڈیا پر منایا جانے والا جشن عالبا الیکٹرانک میڈیا کی عالمی تاریخ کا سب سے بڑا جشن تھا۔ یہی میڈیا جشن آزادی کی دھوم دھام میں قوم کو گم کرنے میں مصروف رہا۔ ظاہر ہے ، اس طرح کے جشن قوم کو سلائے رکھنے میں تیر بہدف ہوا کرتے ہیں۔ یہی میڈیا مقبوضہ کشمیر کے مظاہروں میں پاکستانی پرچم لہرائے جانے کی خبروں کو بہت خوشی سے اچھالتا ہے جسکی حقیقت کچھ اور ہے۔ وہ حقیقت کیا ہے؟ سنئے 

بی جے پی مقبوضہ کشمیر کی وہ خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنا چاہتی ہے جسکے تحت دوسرے بھارتی علاقوں سے لوگ یہاں آ کر آباد نہیں ہو سکتے۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ دوسرے علاقوں سے 15, 20 لاکھ ہندو یہاں لا کر آباد کئے جائیں تو مقبوضہ کشمیر مسلم اکثریتی صوبہ نہیں رہے گا۔ اس وقت مقبوضہ ریاست کی آبادی سوا کروڑ ہے جس میں 80 لاکھ کے قریب مسلمان اور 45 سے 50 لاکھ کے قریب ہندو، بدھ، سکھ وغیرہ ہیں۔ آئینی شق ختم کرنے کیلئے بھارت میں فضا زیادہ ہموار نہیں۔ کشمیریوں کے مظاہروں میں بی جے پی کے کارکن منصوبے کے تحت پاکستانی پرچم لہراتے ہیں، بھارتی میڈیا انہیں خوب کوریج دیتا ہے اور یوں بھارت میں فضا بنتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمان حد سے نکل رہے ہیں، کشمیر کی آئینی تحفظ والی شق ختم کر کے انہیں قابو میں لایا جانا چاہیے۔ لگ رہا ہے کہ بی یجے پی اپنے ہدف کے قریب ہے، ہوتا کیا ہے، خدا کو معلوم ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھارت سے نفرت کرتے ہیں اور پاکستان کے دل گرفتہ ہیں۔ 80 لاکھ مسلمان آبادی میں سے ایک لاکھ 20 ہزار نوجوان بھارتی فوج شہید کر چکی ہے گویا ہر مسلمان گھرانہ ایک نوجوان سے محروم ہوچکا ہے۔ ہر مسلمان گھرانہ ماتم کدہ ہے۔ 1999ء میں پاکستان نے کشمیر کاز کو ڈمپ کر دیا۔ اس سے پہلے خالصتان کے کاز کو ڈمپ کیا گیا تھا۔ گزشتہ ہفتے ممتاز دانشور لال خان نے لکھا کہ کچھ برس قبل پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کشمیر کاز سے دستکش ہو گئ تھی۔ کچھ برس پہلے نہیں، ٹھیک 16 برس پہلے 1999ء میں جب کارگل پر باڑ لگانے کی اجازت دی گئی، دستے مشرق سرحدوں سے اٹھا کر مغربی سرحدوں پر لگا دیئے گئے اور کیانی صاحب نے بیان دیا کہ ہمیں باہر سے کوئی خطرہ نہیں۔ باہر کون ہے؟

ظاہر ہے کہ بھارت ہے۔ سری لنکا یا بھوٹان تو نہیں ہو سکتے۔ اس صورتحال میں کشمیر کے اندر فضا بدل گئی ہے اور اب سید علی گیلانی کی بات سننے کیلئے بہت کم لوگ آتے ہیں۔ وہی سید علی گیلانی جنکا سری نگر کے چھوٹے سے شہر میں خطاب ہوتا تھا تو لاکھوں لوگ امڈ آتے تھے۔

بہر حال اس دکھ بھرے منظر نامے میں مزاحیہ ایکٹ اس وقت شامل ہوجاتا ہے جب بعض حلقے پاکستانی حکومت پر یہ کہہ کر حملہ کرتے ہین کہ اس نے فلاں ملاقات میں مسئلہ کشمیر کیوں نہیں اٹھایا۔ یاد ہوگا مشرف نے آگرہ جا کر کس طرح واجپائی کے گھٹنے چھوئے تھے۔ سنا ہے کہ وہ تو سجدہ کرنے پر اڑ گئے تھے لیکن واجپائی نے منع کر دیا یہ کہہ کر کہ سجدہ صرف بتوں کو جائز ہے، میں تو زندہ ہوں، بت نہیں ہوں۔

صورتحال سچ مچ سے بھی آگے بڑھ کر تشویشناک ہے لیکن ماضی میں معجزے ہوتے رہے ہیں تو آگے بھی کیوں نہیں ہو سکتے، معجزوں کا انتظار کیجئے۔ خدا کے فضل سے ایک بات انشاء اللہ یقینی ہے کہ بھارت نے حملہ کیا تو قوم کی اندرونی ناراضگیاں دور ہو جائیں گی اور وہ متحد ہو جائے گی۔ ہوسکتا ہے مودی کو کچھ اور ہی دیکھنے کو ملے اور پاکستان زیادہ مضبوط ہو جائے لیکن (آمین) کہنے کی بات یہ ہے کہ ہماری حکومت کو اتنا مست قلندر نہیں ہونا چاہئے کہ جتنی وہ ہو چکی ہے۔

بھارت کا ذکر آیا ہے تو اسکی تازہ مردم شماری پر بھی بات ہوجائے اس مردم شماری کے نتائج کے مطابق بھارت کی آبادی ایک ارب 20 کروڑ ہوگئی ہے اور تاریخ میں پہلی بار ہندو آبادی کی شرح 80 فیصد سے کم ہوگئی ہے۔ پچھلے اور اس مردم شماری کے درمیان عرصے میں فیصد کم ہوئی ہے۔ گویا مسلمان بقدر ڈیڑھ فیصد کے ہندوؤں سے بڑھ گئے۔

بھارت میں مسلمانوں کی آبادی مسلسل بڑھی ہے۔ 51وار میں پہلی مردم شماری کے وقت مسلمان 9.92 فیصد تھے ، 1961ء میں 10.69 فیصد ہو گئے 1971ء میں مزید بڑھ کر 11.21 فیصد ہوگئے اور 1981ء میں یہ ساڑھے تیرہ فیصد اور اب 14.23 فیصد ہوگئی۔ اس وقت بھارت میں 97 کروڑ ہندو، 18 کروڑ مسلمان ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مردم شماری کے نتائج میں کچھ کمی کر دی جاتی ہے ورنہ مسلمان 20 کروڑ سے بھی زیادہ ہیں۔ مجموعی طور پر ہندو آبادی 17 فیصد اور مسلمان 25 فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے ۔ آبادی بڑھنے میں ایک وجہ غیر مسلموں کا قبول اسلام بھی ہے۔

مسلمانوں کا زیادہ تر ارتکاز شمال کی پٹی میں ہے۔ جنوبی ریاستوں کے مسلمان مقابلتا مسلم کش فسادات سے زیادہ محفوظ ہیں۔ وسطی ریاستیں خاص طور پر گجرات اور مہاراشٹر مسلمانوں کیلئے زیادہ خطرناک ہیں۔

مسلمانوں کی گنتی ڈیڑھ گنا بڑ گئی جبکہ آبادی اڑھائی گنا ہو گئی لیکن وہ پہلے سے زیادہ کمزور ہیں۔ پہلے آبادی مخلوط تھی یعنی ایک محلے میں آٹھ گھر ہندوؤں کے تو تین مسلمانوں کے مگر اب ہندو آبادیوں مین مسلمانوں کو رہنے نہیں دیا جاتا۔ انکی سرکاری ملازمتیں بھی کم ہوگئی ہیں اور وہ بازاروں میں نکلتے ہیں تو عام لباس پہن کر تاکہ کسی کو معلوم نہ ہو سکے کہ دیکھو وہ مسلمان جا رہا ہے۔

عبداللہ طارق سہیل

بشکریہ روزنامہ خبریں 

گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا

$
0
0

ہم میں سے بھلا کون ہے جو بچپن سے نہیں سن رہا کہ علم حاصل کرو بھلے چین جانا پڑے یا حصولِ علم ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ یا غور و تدبر کرو اور کائنات مسخر کرو وغیرہ وغیرہ۔چنانچہ جب طلوعِ اسلام کے لگ بھگ دو سو برس بعد سماجی و سائنسی علوم کی یونانی کلید مسلمانوں کے ہاتھ آئی تو انھوں نے کئی ایسے انسانی و کائناتی عقدے حل کیے جن کی بنیاد پر یورپ میں جدیدیت کی عالمانہ عمارت کھڑی ہوئی اور بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئی۔

آج کیا حالات ہیں ؟ اس کا تھوڑا بہت اندازہ دی ٹائمز ہائر ایجوکیشن ورلڈ یونیورسٹی کی تازہ ترین ریٹنگ سے ہوسکتا ہے۔سال دو ہزار پندرہ کی ریٹنگ کے مطابق دنیا کی چوٹی کی انیس معیاری یونیورسٹیوں میں صرف امریکا اور برطانیہ کی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی تیرہ برس سے پہلے پائیدان پر ٹکی ہوئی ہے۔

اگر دنیا کی چوٹی کی ایک سو یونیورسٹیاں دیکھی جائیں تو ان میں سے اکیاون امریکی، نو برطانوی ، کینیڈا ، جرمنی ، سوئٹزلینڈ کی چار چار ، آسٹریلیا اور فرانس کی تین تین سویڈن ، ڈنمارک اور اسرائیل کی دو دو ، بلجئیم ، روس ، فن لینڈ اور ناروے کی ایک ایک یونیورسٹی شامل ہے۔

جب کہ دنیا کی پانچ سو چوٹی کی یونیورسٹیوں میں بھی آپ کو امریکا ، برطانیہ ، کینیڈا ، جرمنی ، سوئٹزرلینڈ ، آسٹریلیا ، فرانس ، سویڈن ، ڈنمارک ، بلجئیم ، آئر لینڈ ، اسپین ، پرتگال ، یونان ، چیک ری پبلک، روس، آسٹریا ، اٹلی ، فن لینڈ ، آئس لینڈ ، ناروے ، جاپان ، چین ، مکاؤ ، ہانگ کانگ ، تائیوان ، جنوبی کوریا ، نیوزی لینڈ ، تھائی لینڈ ، بھارت ، اسرائیل ، برازیل ، چلی اور جنوبی افریقہ چھائے ہوئے ملیں گے۔مسلمان ممالک کی تعداد پچاس سے زائد بتائی جاتی ہے لیکن ٹاپ پانچ سو یونیورسٹیوں میں بس دو مسلمان ممالک یعنی ترکی کی پانچ اور ایران کی ایک یونیورسٹی شامل ہے۔

مسلمان ممالک میں اعلیٰ تعلیمی روایات نہ پنپنے کے اسباب پر پاکستان کے معروف سائنسداں اور استاد ڈاکٹر عطا الرحمان بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔مگر میرا مقدمہ یہ ہے کہ سوچ پر طرح طرح کے شعوری و لاشعوری پہروں کے ہوتے اعلیٰ تجزیاتی سوچ کی حوصلہ افزائی کرنے والے بین الاقوامی معیار کے تعلیمی ادارے کیسے وجود میں آ سکتے ہیں ؟

ٹاپ فائیو ہنڈرڈ کی فہرست میں آنے والی جتنی بھی یونیورسٹیاں ہیں ان میں جہاں وسائل،کوالیفائیڈ فیکلٹی اور اکیڈمک خود مختاری کا کلیدی کردار ہے۔ وہیں یہ قدر بھی مشترک ہے کہ ان یونیورسٹیوں میں مکھی پر مکھی مارنے کے رواج کے بجائے منطقی انداز سے علمی عقدوں کو کھولنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ہر ایک کی طرح اس فقیر کی بھی بہت خواہش ہے کہ اگر بھارت کی چھ ، ترکی کی پانچ اور ایران کی ایک درس گاہ ٹاپ فائیو ہنڈرڈ میں آ سکتی ہے تو پاکستان کی ایک بھی یونیورسٹی کیوں نہیں ؟ مگر ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پے دم نکلے۔

پاکستان کے تعلیمی بزرجمہروں کا خیال ہے کہ اگر یونیورسٹیوں کی فنڈنگ بہتر ہوجائے اور وہاں سے دھڑا دھڑ پی ایچ ڈی پیدا ہونے لگیں تو معیار بہتر ہوجائیگا۔کسی کا دھیان اس جانب نہیں کہ ایسے پی ایچ ڈیز کا کیا فائدہ کہ جن کی ننانوے فیصد کھپت صرف اندرونِ ملک ہو اور بقیہ ایک فیصد باہر جائیں تو انھیں اپنی قابلیت ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑے۔ا

ور انھیں بیرونِ ملک فیکلٹی یا کسی اور ادارے میں ملازمت دینے والے کے لاشعور میں یہ بات کلبلاتی رہے کہ اچھا تو یہ پاکستان کا ڈگری یافتہ ہے ، وہی پاکستان نا جہاں جعلی ڈگریوں کا سب سے بڑا اسکینڈل پکڑا گیا ، وہی پاکستان نا جہاں معیاری تعلیم کے فروغ کے لیے پالیسیاں بنانے والے ارکانِ پارلیمان میں سے آدھوں کی قابلیت اور ڈگریاں مشکوک ہیں۔

وہی پاکستان نا جہاں کسی کے لیے بھی درس گاہ کے اندر یا باہر عمومی پاپولر سوچ سے الگ کوئی بات کرنے یا لکھنے چاہے سے پہلے اپنی سلامتی کے بارے میں زبان یا قلم ہلانے سے پہلے دس بار سوچنا پڑتا ہے۔اقبال نے تو سو برس پہلے کہا تھا مگر ایسا کہا کہ لگتا ہے کہ آج ہی کے لیے کہا ہے۔

گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ

صرف بیس پچیس برس پہلے ہی کی تو بات ہے کہ پاکستان کی یونیورسٹیوں کی فیکلٹیز میں بیرونِ ملک کی شہرت یافتہ جامعات سے فارغ التحصیل اساتذہ کی اچھی خاصی تعداد ہوا کرتی تھی۔افریقہ ، مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا کے سیکڑوں طلبا و طالبات پاکستانی جامعات میں سوشل سائنسز سے زیادہ خالص سائنسی علوم پڑھنے آتے تھے۔جوں جوں دلیل اور علم کے لیے زمین اور فضا تنگ ہوتی چلی گئی توں توں دور دیس سے آنے والے پرندے بھی اڑتے چلے گئے۔

آج یہ حال ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیوں میں غیرملکی طلبا شائد تبرکاً ہی ملیں۔ان سب کا رخ بھارت کے تعلیمی اداروں کی جانب ہوتا چلا گیا۔ جب یہ تعلیمی سفیر مستقبلِ قریب میں اپنے اپنے ممالک کی بیوروکریسی ، صنعت ، اکیڈمکس اور انٹلکچوئیل گیلکسی کا حصہ بنیں گے تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ ان کا جھکاؤ پاکستان کی جانب کتنا ہوگا اور ان کی نظروں میں پاکستان کا امیج کیا ہوگا۔

ٹاپ فائیو ہنڈرڈ کی فہرست میں آنا تو بڑی بات ہے ابھی تو ہم اس بحث سے نہیں نکلے کہ نصاب کو جدید تقاضوں سے کیسے ہم آہنگ کیا جائے۔اعلی تعلیم کی دیکھ بھال وفاق زیادہ بہتر کرسکتا ہے کہ صوبہ ، بجٹ میں بنیادی تعلیم کے لیے زیادہ رقم رکھی جائے کہ اعلی تعلیم کے لیے ؟

بیس پچیس برس پہلے تک جو بھی اعلیٰ یا ادنی تدریس ہوا کرتی تھی وہ زیادہ تر سرکاری یا مشنری تعلیمی اداروں میں تھی۔لیکن نجکاری ، مارکیٹنگ ، کارپوریٹ کلچر اور وسائل کی عدم مساوات کے سبب ہوا یہ کہ سرکاری یونیورسٹیاں علمی و ملازمتی چراگاہیں بنتی چلی گئیں اور نجی اعلیٰ تعلیمی اداروں نے اپنے اردگرد بھاری فیسوں کی باڑھ اس قدر اونچی کردی کہ آبادی کے ایک بڑے طبقے کے لیے اسے پھلانگنا ممکن نہ رہا۔ان حالات میں سب سے پہلا قتل اس بچے کا ہوا جو میرٹ کے تمام اصولوں پر پورا اترنے کے باوجود صرف اس لیے آگے نہیں بڑھ سکتا کہ اس کے پاس مالی وسائل نہیں۔

جس دن تعلیم بنیادی حق کے خانے سے نکل کر کارپوریٹ کلچر کے عقد میں دے دی گئی اس دن ہی ٹاپ فائیو ہنڈرڈ لسٹ میں آنے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔
کتنی خوشی ہوتی ہے جب یہ خبر آتی ہے کہ فلاں بچے نے تمام مضامین میں اعلیٰ ترین گریڈز لے کے عالمی ریکارڈ قائم کیا۔یا اتنی کم عمر میں فلاں بچی نے فلاں علمی اعزاز حاصل کیا۔لیکن ان بچوں کو جگہ بھی ملتی ہے تو بیرونِ ملک کسی ادارے میں۔اور پاکستانی محض یہ بتا بتا کر خوش ہوتے رہتے ہیں کہ ورلڈ بینک میں جو نائب صدر ہے وہ اپنا پاکستانی ہے۔ناسا میں جو چیف سائنسٹ ہے وہ اپنے گوجرانوالے کا ہے اور امریکی صدر کی ایڈوائزری ٹیم میں جو برخوردار ہے وہ کل تک اسی گلی میں کرکٹ کھیلتا تھا۔

ٹاپ ہنڈرڈ یا فائیو ہنڈرڈ یونیورسٹیاں اپنے بچوں کو اکیلا نہیں چھوڑتیں سینے سے لگا کے رکھتی ہیں تاکہ باقی سماج بھی ان کی ویسی قدر کرے جس کے وہ مستحق ہیں۔جس دن یہ ہوگیا اس دن پاکستان کی بھی ایک یا دو یا تین یا چار درسگاہیں ٹاپ ہنڈرڈ میں نہ سہی ٹاپ فائیو ہنڈرڈ میں اپنی جگہ ضرور بنا لیں گی۔بس ایک کام کیجیے اپنے پودوں پر طے شدہ نظریات کا ابلتا پانی انڈیلنے کے بجائے انھیں فطری ماحول میں پروان چڑھنے کا موقع فراہم کردیں۔باقی کام یہ خود کرلیں گے۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

سیاسی غلام

$
0
0

نہ تو مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف پیپلز پارٹی کی ہم پلہ جماعتیں ہیں اور نہ سیاسی چالوں میں میاں نوازشریف یا عمران خان آصف علی زرداری کا مقابلہ کرسکتے ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے پاس ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی صورت میں دو ’’سیاسی شہید‘‘ موجود ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کا اس حوالے سے دامن خالی ہے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کی صفوں میں ایسے لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں جنہوں نے جیلیں کاٹی ہیں اور اب بھی کاٹ سکتے ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی قیادت قیدوبند جیسی سختیوں سے کتراتی ہے ۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف بنیادی طور پر دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی ایک جیسی جماعتیں ہیں جبکہ پیپلز پارٹی جیسی بھی ہے ، بائیں بازو کی نمائندہ جماعت ہے اور ابھی تک بائیں بازو کی نمائندہ متبادل کوئی جماعت سامنے نہیں آئی۔

اسی طرح آئینی محاذ پر بھی پیپلز پارٹی ہی مقدم رہی ہے اور آئین سازی سے لے کر اٹھارویں آئینی ترمیم تک کا سہرا اس کے سر ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے کریڈٹ میں ایسا کوئی آئینی کارنامہ موجود نہیں ۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے معاشی اور معاشرتی تصورات کنفیوژن کا شکار ہیں جبکہ پیپلز پارٹی اس معاملے میں واضح طور پر بائیں بازو کی سوچ کی حامل ہے ۔ اسی طرح خارجہ پالیسی کے تصورات بھی مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے معاملے میں زیادہ حقیقت پسندانہ ہیں ۔ وفاقیت کے پیمانے پر بھی پیپلز پارٹی سرفہرست قرار پاتی ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) عملاً پنجاب کی جبکہ تحریک انصاف پختونخوا، پنجاب اور کراچی کی نمائندہ جماعت تو ہے لیکن بلوچستان اور اندرون سندھ میں ابھی اسے جگہ بنانے میں بہت وقت لگے گا لیکن پیپلزپارٹی یکساں طور پر چترال سے لے کر کراچی تک اور گوادر سے لے کر گلگت بلتستان تک اپنا وجود رکھتی تھی۔ رجال کار کے معاملے میں پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری ہے
۔
یہاں رضا ربانی، اعتزازاحسن، خورشید شاہ، مخدوم امین فہیم ، قمر زمان کائرہ ، یوسف رضا گیلانی اور اسی نوع کی درجنوں دیگر تجربہ کار اور بھاری بھر کم شخصیات موجود ہیں لیکن ان سب کچھ کے باوجود پیپلز پارٹی کا دھڑن تختہ ہونے کو ہے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے پارٹی کے اندر جمہوریت ختم کردی تھی۔ قیادت کا حکم حرف آخر قرار پایاتھا ۔ کرپشن زوروں پر رہی لیکن پارٹی کے اندر اس کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاسکا ۔ پارٹی فورمز پر یوں تو لوگوں کو دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے مقابلے میں زیادہ ملتا رہا لیکن سکہ قیادت اسی طرح قیادت کا چلتا رہا جس طرح کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں چلتا ہے۔

اقتدار تک رسائی ، سیاسی جوڑ توڑ اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیلنگ کے ضمن میں چونکہ قیادت کے بعض پتے صحیح بیٹھ گئے تھے ، اس لئے وہ اس زعم کی شکار رہی کہ سیاست جانتی ہے تو بس وہی جانتی ہے اور اس کی وجہ سے جہاں سے بھی صائب آواز اٹھتی تو اسے یہ کہہ کر خاموش کردیا جاتا کہ تم کیا جانو کہ سیاست کیا ہوتی ہے۔اس وقت اہل صحافت کی صفوں میں سے ہونے والی تنقید کا بھی یہ کہہ کر مذاق اڑایا جاتا رہا کہ میں اپنی سیاست صحافیوں کے مشورے سے نہیں کرسکتا۔ یوں پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکن اور قائدین شدید گھٹن کے تو شکار رہے لیکن مصلحتوں کی وجہ سے وہ زبان نہ کھول سکے ۔ جس نے بھی قیادت کی مرضی کے خلاف قدم اٹھایا اسے اسی طرح باہر نکال کر پھینک دیا گیا جس طرح کہ چائے کی پیالی سے مکھی کو نکالا جاتا ہے ۔

اس خوف سے باقی باضمیر لوگوں کی زباں بندی ہوگئی اور وہ مصلحتوں کا شکار ہوکر بدترین سیاسی غلامی کی زندگی گزارنے لگے ۔ لیکن اب وہ وقت آگیا کہ جب یہ آمرانہ رویہ رنگ دکھانے لگا۔ گزشتہ انتخابات کے بعد بلدیاتی انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی کا صفایا ہونے لگا۔ گلگت بلتستان سے جنازہ نکل گیا۔ سیاسی دائو پیچ میں مہارت کا زعم خاک میں ملنے لگا۔ پے درپے گٹھن کا شکار رہنما پارٹی چھوڑنے لگے۔ جو باقی بچے ہیں وہ چھوڑنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اب کرپشن کی بنیاد پر بھی گھیرا تنگ ہونے لگا اور کارکن تو کیا دوسرے درجے کے لیڈر بھی قیادت کی صفائی دینے کو تیار نہیں ۔ اب معاملہ الٹ ہوگیا ۔ گزشتہ ہفتے بلاول زرداری کے دورہ اسلام آباد کے موقع پر ہر اجلاس میں لوگ ان کے ابو اور ابو کی بہن پر برستے رہے اور نہ صرف وہ بلکہ ادی بھی خاموشی کے ساتھ سنتی رہیں ۔

دو سابق وزرائے اعظم کی موجودگی میں نظریاتی رہنما کہتے رہے کہ انہیں انکے پھنس جانے کا کوئی دکھ نہیں ۔ کئی ایک نے تو بلاول کے سامنے لکیر کھینچ دی کہ اگر وہ قیادت خود سنبھال کر پارٹی کو نظریاتی ڈگر پر گامزن نہیں کرسکتے تو انہیں صاف بتادیا جائے کہ وہ دوسری پارٹیوں میں چلے جائیں ۔کل کے سیاسی غلام ، آج کے سیاسی باغی بننے لگے ہیں اور کل کی بند زبانیں اب گویا ہوگئی ہیں ۔ سیاسی غرور ، سیاسی افق سے فرار میں بدل گیا ہے

۔ پیپلز پارٹی کا جو حشر ہونا تھا ، بدقسمتی سے ہوگیا ۔یہ الگ بات ہے کہ بائیں بازو کی جماعت کا خلاء اب بھی موجود ہے اور اگر بلاول زرداری واقعی لیڈر بن کر پارٹی کو نظریاتی ڈگر پر گامزن کرلیں تو شاید بچائو کا کوئی راستہ نکل آئے لیکن بدقسمتی سے اب دوسری دو بڑی جماعتیں یعنی مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی قیادت بھی ، پیپلز پارٹی کی قیادت کے راستے پر گامزن ہے ۔ جمہوریت کے نام پر ان دونوں جماعتوں میں بدترین شخصی آمریت دیکھنے کو ملتی ہے اور دونوں جماعتوں کے کارکن تو کیا دوسرے اور تیسرے درجے کے لیڈر بدترین سیاسی غلامی کی زندگی گزاررہے ہیں ۔ یوں تو مسلم لیگ (ن) کے ایم این ایز، ایم پی ایز اور دیگر رہنما بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ میاں صاحب ان سے بڑی مشاورت کرتے ہیں اور تنقید بھی خندہ پیشانی سے سن لیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی شریف خاندان سے اختلاف کی جرات نہیں کرسکتا۔

جس نے بھی اس خاندان کے کسی فرد کو ناراض کیا ہے، اسے غوث علی شاہ اور ذوالفقار کھوسہ کی طرح باہر پھینک دیا گیا ہے ۔ یہی معاملہ تحریک انصاف کاہے ۔جس نے بھی اختلاف کی جرات کی، اسے جاوید ہاشمی بنا دیا گیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت کی ساری خبریں خود اس حکومت میں شامل لوگوں کے ذریعے نکل رہی ہیں ۔ چند چہیتوں کے سوا جو بھی مسلم لیگی رہنما ملتا ہے تو فریاد کرتا نظرآتاہے ۔ یہی معاملہ تحریک انصاف کا ہے ۔

عمران خان پر خرچہ کرنے والے یا ان کی چاپلوسی کرنے والے چند افراد کے سوا ہر کوئی گھٹن کا شکار ہے۔پرویز خٹک کے خلاف خبریں ان کے ایم پی ایز اور وزیر تقسیم کررہے ہوتے ہیں ۔ دھرنوں سے لے کر علیم خان کے انتخاب تک ہر معاملے پر کارکن اور دوسرے درجے کے لیڈر جگہ جگہ فریاد کرتے رہتے ہیں لیکن کسی میں جرات نہیں کہ وہ خان یا ان کے نامزد کردہ لوگوں کے سامنے رکاوٹ ڈال سکیں ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پیپلزپارٹی کی طرح اب مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں بھی ایک لیڈر اور باقی سب سیاسی غلام ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ہاں قائدین کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان کی بھی غلامی کرنی پڑتی ہے جبکہ تحریک انصاف میں خان صاحب کے ساتھ ساتھ ان کے چند چہیتوں کی غلامی کرنا پڑتی ہے ۔

دیکھتے ہیں سیاسی غلامی کا یہ سرکس کب تک چلتا ہے اور کب وہ وقت آتا ہے کہ جب مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے سیاسی غلام بھی بغاوت پر اتر آتے ہیں ۔پیپلز پارٹی کا حشر مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے سیاسی غلاموں کے لئے بھی سبق ہے ۔ انہوں نے اگر ابھی اپنی اپنی قیادت کے سامنے زبان کھولنے کی جرات کرلی تو شاید ان کی پارٹیاں پیپلزپارٹی جیسے انجام سے بچ جائیں لیکن اگر وہ مصلحتوں کے شکار رہ کر اسی طرح خاموش رہے تو کل قیادت کے ساتھ ساتھ انہیں بھی رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ پیپلز پارٹی سے نکلنے والے تو اب تحریک انصاف یا مسلم لیگ (ن) میں جارہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہاں سے نکلنے والے پھر کہاں جائیں گے اور جب تینوں سیاسی پارٹیاں اسی طرح آمرانہ رویوں کا شکار ہوجائیں تو پھر آمریت کا راستہ کون روکے گا۔کاش سیاسی غلام زبانیں کھول سکیں۔
 
سلیم صافی

بشکریہ روزنامہ  جنگ 


آئس لینڈ کے باشندوں کی شامی پناہ گزینوں کو اپنے گھروں میں رکھنے کی پیشکش

$
0
0

 ایک جانب یورپ کے کئی ممالک افریقا اور ایشیا سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو اپنی سرزمین میں رکھنے کے لئے تیار نہیں وہیں یورپی ملک آئس لینڈ کے ہزاروں خاندانوں نے شامی پناہ گزینوں کے لئے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے ہیں۔

آئس لینڈ کی حکومت کی جانب سے ہر سال 50 غیر قانونی تارکین کو پناہ دیئے جانے کے بیان کے بعد آئس لینڈ کے ایک ادیب برائنڈس جارگندوتی نے ایک فیس بک پیج تیار کیا ہے جس میں شام سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی مدد کی اپیل کی گئی ہے، فیس بک پیج پر ہزاروں افراد نے غیر قانونی تارکین کو غذا، رہائش، کپڑوں اور تعلیم فراہم کرنے کے وعدے کئے ہیں۔
فیس بک پیج پر ایک خاتون نے لکھا کہ وہ اپنے چھ سالہ بیٹے کے ساتھ رہتی ہیں اور ایک ضرورت مند بچے کو گود لینے پر تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے گھر میں خوراک، کپڑے اور رہائش کا کمرہ موجود ہے اور وہ ہوائی جہاز کے سفر کا ٹکٹ دینے پر بھی تیار ہیں اور بچے کو آئس لینڈ کے معاشرے سے آگاہ کرنے کے لیے اسے ملکی زبان بھی سکھائیں گی۔

یہ عوامی ردِ عمل شام میں انسانی بحران کے بعد دیکھنے میں آیا ہے اور اس کے بعد ملک کے وزیرِ اعظم سگمندور ڈیوڈ نے اس معاملے پر وزرا کی ایک کمیٹی تشکیل دی ہے اور مزید شامی پناہ گزینوں کو قبول کرنے پر کام شروع کردیا گیا ہے۔وزیرِ اعظم نے ملکی خبررساں ایجنسی کو بتایا کہ بین الاقوامی سیاست میں ہم ہرممکن مدد کو تیار ہیں اور یہ معاملہ اس وقت سرِفہرست ہے۔
شام میں گزشتہ چار سال سے خانہ جنگی جاری ہے جس میں اب تک 2 لاکھ سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں اور 10 لاکھ سے زائد افراد مختلف علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ اس سال شام سے فرار ہوکر بذریعہ کشتی ہزاروں افراد نے یورپ جانے کے لیے سمندر کا پُرخطر راستہ اختیار کیا جس میں اب تک بچوں اور خواتین سمیت سیکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

چین سے بھرپورمعاشی فائدہ اٹھانے کی ضرورت

$
0
0

پاکستان اور چین کے درمیان جس قدر گہری اور پرخلوص دوستی ہے اسکی دنیا میں شاید ہی کوئی مثال ہو۔ دونوں دوست ممالک نے اس دوستی کو اس بلند ترین مقام تک پہنچانے کیلئے ہمیشہ بڑی محبت اور خلوص کا مظاہرہ کیا ہے۔ چین پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے بے شمار منصوبوں میں تعاون کررہا ہے جس کی سب سے بڑی حالیہ مثال پاک چین اقتصادی راہداری ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات 1949ءمیں چین کی آزادی کے ساتھ بہتری کی جانب گامزن ہوگئے جو آج کوہ ہمالیہ سے بھی زیادہ بلند اور مضبوط ہوچکے ہیں۔ کوئی بھی موقع ہوپاکستان اور چین نے ایک دوسرے کے موقف کی بھرپور حمایت کی اور کھل کر ساتھ دیا ہے۔

بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع پیدا ہوا جس کی وجہ سے دونوں ممالک کی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے آن کھڑی ہوئیں۔ اُس وقت چین عالمی سطح پر تنہا کھڑا تھا لیکن پاکستان نے چین کا بھرپور ساتھ دیا جس کی وجہ سے پاک چین دوستانہ تعلقات زیادہ تیزی سے بہتری کی جانب گامزن ہوئے۔ اسی طرح 1965ءمیں جب بھارت نے کشمیر تنازع پر پاکستان کیخلاف جنگ چھیڑی تو چین پاکستان کے ساتھ آن کھڑا ہوا اور دونوں ممالک کی دوستی ایک مثالی دوستی میں تبدیل ہوگئی۔
ہمارے دوست ملک چین نے ہر موقع پر پاکستان کے ساتھ اپنی دوستی کو نبھایا ہے۔ دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود چین نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کیلئے مدد کی۔ اسکے علاوہ ٹینک سازی اور طیارہ سازی سمیت اسلحہ سازی کی صنعت کو مستحکم کیا جس کی وجہ سے آج پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہوچکا ہے۔ البتہ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ معاشی میدان میں ہم چین سے اُتنا زیادہ فائدہ نہیں اٹھاپائے جتنا اٹھاسکتے تھے۔
 
چین بھی پاکستان جیسا ملک تھا اور اُسکے معاشی مسائل بھی تقریباً ویسے ہی تھے جیسے کہ پاکستان کے لیکن اسکے بعد سے آج تک چین نے اس قدر تیزی سے ترقی کی ہے کہ ساری دنیا حیران و پریشان ہے۔ 1.37ارب آبادی والے چین کا جی ڈی پی 11.21ٹریلین ڈالر، برآمدات 2.343 ٹریلین ڈالر جبکہ ا مپورٹ 1.96ٹریلن ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ امریکہ سے لیکر افریقہ تک ہر جگہ مارکیٹیں چینی مصنوعات سے بھری پڑی ہیں ۔

البتہ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ موجودہ حکومت اور فوجی قیادت نے چین کے ساتھ تعلقات کو اپنی اوّلین ترجیحات میں شامل کررکھا ہے جو کرنا بھی چاہیے کیونکہ چین پاکستان کی اقتصادی و معاشی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کررہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی راہداری کا جو معاہدہ طے پایا ہے وہ ان شاءاللہ ترقی و خوشحالی کے نئے دروازے کھولے گا۔ چین سے بھرپور معاشی فائدہ اٹھانے کیلئے ہمارے اداروں کو بڑا اہم کردار نبھانا چاہیے جو کہ فی الحال نظر نہیں آرہا۔ مثال کے طور پر کچھ ہفتے قبل چین کے شہر ارمچی میں ہونےوالی نمائش یورایشیا میں شرکت کا اتفاق ہوا۔ 

اس نمائش کو ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان نے سپانسر کیا تھا، ہینڈی کرافٹ، ماربل، جیولری، فرنیچر اور ٹیکسٹائل سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی تیس پاکستانی کمپنیوں نے اس میں سٹال لگائے لیکن وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہیں کیونکہ گزشتہ سال کی نسبت اس سال خریداروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ اسکی بنیادی وجہ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کی جانب سے منصوبہ بندی کا فقدان تھاجبکہ اتھارٹی نے اس اہم ایونٹ کی تشہیر بھی نہیں کی۔

عموماً یہ ہوتا ہے کہ سٹال کی قیمت کا پچاس فیصد ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان دیتی ہے جبکہ بقیہ پچاس فیصد سٹال ہولڈر برداشت کرتا ہے۔ اس سال سٹال کی قیمت ایک لاکھ بتاکر پچاس ہزار روپے سٹال ہولڈرز سے لیے گئے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ سٹال کی قیمت ہی پچاس ہزار روپے تھی۔

جب قومی ادارے تاجروں کے ساتھ یہ سلوک کریں تو چین کی مارکیٹ سے فائدہ کیسے اٹھایا جاسکتا ہے البتہ پاکستانی سفارتخانے نے بڑے اچھے تعاون کا مظاہرہ کیا، پاکستانی کمرشل قونصلر ڈاکٹر ارفع اقبال بیجنگ خود آئیں اور پاکستانی تاجروں کی حوصلہ افزائی کی۔ وہاں میری چائنہ کونسل فار پرموشن آف انٹرنیشنل ٹریڈ کے وینکی لین سے بڑے اچھے ماحول میں ملاقات ہوئی جس کے دوران دوطرفہ تجارتی امور اور پاک چین اکنامک کاریڈور پر تفصیلاً گفتگو ہوئی۔ صرف وینکی لین ہی نہیں بلکہ جتنے بھی چینی تاجروں سے میری ملاقات ہوئی انہوں نے پاکستان کو اپنا بہترین دوست قرار دیتے ہوئے دوطرفہ تجارت بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔

 یہ بہت ضروری ہے کہ برآمدات کے حوالے سے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان جیسا اہم قومی ادارہ تاجروں کے ساتھ ناروا رویہ اختیار نہ کرے بلکہ انہیں ہر ممکن سہولیات فراہم کرے تاکہ یہ تاجر پاکستان کی بیرونی تجارت کو فروغ دینے اور ملک کی معاشی ترقی و خوشحالی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔ چین دنیا کی بہت بڑی معاشی قوت ہے اور خوش قسمتی سے نہ صرف ہمارا ہمسایہ بلکہ بہترین دوست اور پاکستان سے ہر ممکن تعاون کرنے کو تیار ہے۔ اگر ہم چین کی دوستی اور طاقت سے فائدہ نہ اٹھاسکے تو ہم بہت ہی بدقسمت ہونگے۔

  سید محمود غزنوی


زرداری اور الطاف کا دور ختم ہوا

$
0
0

آصف زرداری اپنے ’’وفاداروں‘‘ کی گرفتاری کو’’ انتقامی سیاست‘‘ سے منسوب کررہے ہیں حالانکہ ان سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ سیاسی حاکم کی ڈور ’’ڈوری والی سرکار‘‘ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالا جا رہاہے تو بلبلا اٹھے؟ حاکم وقت کو اپنی پڑی ہے وہ حریف کے خلاف انتقامی کارروائی کیوں کر کرے گا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون میں فرینڈلی اپوزیشن اور رومانس کی دنیا گواہ ہے۔ سب کے کھاتے کھل رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھا جس میں تمام سیاستدانوں کو ایک جیل میں بند دکھایا اور لکھا گیا تھا ’’یہ ہے پاکستان کو بچانے کا واحد طریقہ‘‘ ہم نے غور سے تمام چہرے دیکھے مگر ان میں ایک بھی صحافی، بیوروکریٹ اورکاروباری آئیکون دکھائی نہیں دیا۔

 سیاستدانوں کے خلاف کرپشن کا پروپیگنڈا روایتی ہو چکا ہے جبکہ کرپٹ بیوروکریٹس اور صحافیوں کے احتساب کے بغیر ملک صاف نہیں ہو سکتا۔ رپورٹروں، کالم نگاروں، اینکروں کے سامنے تمام ادارے پانی بھرتے ہیں۔ کاروباری آئیکون کی کرپشن کو خیراتی دیگوں اور مساجد کی تعمیر سے ’’پاک‘‘ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سیاستدانوں کے علاوہ بھی بہت سے مگر مچھ ہیں جنہوں نے اس ملک کو لہو لہان کر رکھا ہے۔ 

حکومت پر دبائو بڑھانے کے لیئے پپٹ کردار بوقت ضرورت ’’دھرنا‘‘ دیتے ہیں۔ نواز شریف اور زرداری میں کبھی سیاسی مفاہمت ہوا کرتی تھی مگر اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ سیاست میں کوئی کسی کا بھائی اور دوست نہیں ہوتا۔ بھٹو کو رات کی تاریکی میں پھانسی دے دی گئی اور جیالے خود سوزی کے سوا کچھ نہ کر سکے 
بے نظیر کو بھرے میلے میں گولی مار دی گئی، جیالے کھڑے منہ تکتے رہ گئے۔ زرداری کے پاس تو جیالے بھی نہیں، مفاد پرستوں کا ایک ٹولہ ہے، ٹولے کے سردار کی سیاست اب ختم ہوئی۔ کراچی صاف ہو رہا ہے، الطاف حسین بھی ماضی ہونے جا رہا ہے۔ عوام کے لئے سیانے کہہ گئے ہیں کہ ’’عقل بادام کھانے سے نہیں، دھوکہ کھانے سے آتی ہے‘‘۔ امید ہے عوام کو عقل آ گئی ہو گی البتہ عقل جب ماؤف ہو جائے تو بندہ زرداری اور الطاف حسین کی طرح اپنی ہی فوج کے خلاف اول فول بکنے لگتا ہے۔

 زرداری کا دور بھی یاد ہے جب آٹا لینے کے لئے چھ گھنٹے لمبی قطار میں لگے ایک شخص کو غصہ آ گیا اور بولا ’میں صدر کو گولی مار دوں گا، یہ کہہ کر وہ شخص چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ شخص واپس آیا اور دوبارہ قطار میں لگ گیا۔ کسی نے پوچھا ’کیوں کیا ہوا؟ مار دیا حکمرانوں کو؟ اس نے مایوسی سے جواب دیا ’نہیں یار وہاں تو اس سے بھی لمبی قطار لگی ہوئی ہے‘۔ آصف زرداری نے کہا تھا کہ ’’ہم نے شہیدوں کے خون پر حکومت بنائی ہے‘‘۔ بھٹو زندہ ہے‘ نعرہ کی حد تک ٹھیک ہے جبکہ بھٹو حقیقت میں زندہ ہوتے تو نہ زرداری ان کے داماد ہوتے اور نہ پارٹی کا یہ حال ہوتا۔ 

زرداری نے یہ بھی کہا ’’گڑھی خدا بخش پیپلز پارٹی کا کربلا ہے‘‘۔ یہ کیسی کربلا ہے جس کا یزید بھٹو کی بیٹی کو بھی ختم کر گیا مگر آج تک گمنام ہے؟ دنیا کا کوئی دوسرا مقام، مقام کربلا ہے اور نہ ہی کوئی شہید کربلا کے شہیدوں کی خاک کو چھو سکتا ہے۔ جمہوریت پیغمبری نہیں اور نہ سیاستدان معصوم ہیں کہ ان کی شان میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جائے۔ چوری اور کمزوری کو جب لفاظی کا لبادہ پہنانے کی کوشش کی جائے تو وہ بے نقاب ہو نے لگتی ہے۔ زرداری اور الطاف خدا کی گرفت میں آ چکے ہیں۔ اندھے گھوڑے جب اندھا دھند دوڑے چلے جاتے ہیں تو منہ کے بل گر تے ہیں۔ زرداری صاحب نے بہت بلنڈرز کئے مگر فوج اورسیاسی اتحادیوں نے ساتھ دیااور پانچ سال پورے کروائے۔

 الطاف حسین اور آصف علی زرداری نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ کبھی فوج کے حق میں بیان دیتے ہیں اور کبھی دھمکیاں دیتے ہیں، رازداروں کو مروا دیتے ہیں اور کبھی اپنی ہی زبان کاٹ لیتے ہیں، بوریاں سلواتے ہیں اور کبھی قبریں کھدواتے ہیں۔ فوج کا ڈنڈا نہ ہو تو یہ لوگ کب کا ملک بیچ چکے ہوتے۔ زرداری نے پانچ سال جنرل پرویز کیانی کے طفیل گزارے۔ میاں نواز شریف، سابق جنرل پرویز کیانی اور آصف زرداری کے سیاسی تعلقات مفاد پرستی پر قائم تھے جس کی وجہ سے زرداری پانچ سال پورے کر سکے۔

 وہ مت بھولیں کہ ان کا پانچ سالہ دور پاکستان کی تاریخ کا بدترین اور کرپٹ ترین دور حکومت تھا۔ انہیں پانچ سال کرسی پر بٹھائے رکھنے والے فرینڈلی اپوزیشن لیڈر میاں نواز شریف اور فرینڈلی جرنیل پرویز کیانی تھے۔ ملک کچھ بہتری کی جانب گامزن ہونے لگا تو الطاف حسین اور آصف زرداری نے فوج مخالف خطابات شروع کر دیے۔ زرداری صاحب کو سب علم ہے کہ نواز حکومت کے ہاتھ میں کچھ نہیں، حکومت تو اپنی باری کا سوچ کر پریشان ہے۔ 

کرپٹ اور غداران جس پارٹی میں بھی موجود ہیں، عنقریب پکڑے جائیں گے۔ جب تک پاکستان کے نمک حراموں کوکیفر کردار تک نہیں پہنچایا جائے گا، اس ملک کو دہشت گردی اور کرپشن سے نجات نہیں دلائی جا سکتی۔ کراچی کی روشنیوں کی بحالی کے بعد بلوچستان اور پنجاب میں امن بحال کرنا ناگزیر ہے جبکہ خیبر پختونخواہ کو ماڈل بنانے کی ذمہ داری عمران خان کو سونپ دی گئی ہے۔

طیبہ ضیاءچیمہ  


مشرقِ وسطیٰ میں لڑائی سے ایک کروڑ 37 لاکھ بچوں کی تعلیم متاثر

$
0
0

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جاری لڑائی نے ایک کروڑ 30 لاکھ بچوں کو تعلیم سے محروم کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسف نے ’ایجوکیشن انڈر فائر‘ یا تعلیم پر حملہ‘ کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی ممالک کے بچوں کے مستقبل کے بارے میں امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔

یونیسف کا کہنا ہے کہ شام، عراق، یمن اور لیبیا میں تقریباً نو ہزار سکول اس قابل نہیں رہے کہ وہاں درس و تدریس کا عمل دوبارہ شروع ہو سکے۔
یونیسف نے اپنی رپورٹ میں مشرق وسطیٰ کے خطے میں سکولوں اور اساتذہ پر ہونے والے حملوں کے اعداد و شمار بھی اکٹھے کیے ہیں۔
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی خطے میں یونیسف کے علاقائی ڈائریکٹر پیٹر سالاما نے کہا کہ ’پورے خطے میں بچوں پر لڑائی کے تباہ کن اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
’بظاہر سکولوں کی عمارتوں ہی کو نقصان نہیں پہنچا بلکہ یہ اثرات سکول جانے کی عمر والے بچوں کی پوری نسل میں محسوس کیے جا سکتے ہیں کیونکہ اُن کی اچھے مستقبل کی امیدوں کو ٹھیس پہنچی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ شام، عراق، یمن، لیبیا اور سوڈان میں ایک کروڑ 37 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے اور یہ تعداد سکول جانے والی عمر والے بچوں کی مجموعی تعداد کا 40 فیصد ہے۔ اقوام متحدہ کا خدشہ ہے کہ حالیہ کچھ ماہ میں یہ تعداد بڑھ کر 50 فیصد ہو جائے گی۔
یونیسف کا کہنا ہے کہ سنہ 2014 کے دوران شام، عراق، لیبیا، فلسطین، سوڈان اور یمن میں 214 سکولوں پر حملے کیے گئے۔
مارچ 2011 سے شام میں ہر چار میں سے ایک سکول بند پڑا ہے اور تقریباً 20 لاکھ بچے متاثر ہو رہے ہیں۔

یونیسف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’طالب علموں، اساتذہ اور تعلیمی شعبے سے وابستہ افراد کا اغوا اور قتل اس خطے میں معمول کی بات ہے۔
’ہزاروں اساتذہ نے خوف کی وجہ سے ملازمت ترک کر دی ہے اور بچوں کو اکثر اپنے خاندان کی کفالت کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق تعلیم کی عدم فراہمی کی وجہ سے بچے کم عمری میں جنگجو بن رہے ہیں۔
یونیسف کے علاقائی سربراہ نے کہا کہ خطے میں تعلیم کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے یونیسف کو رواں سال اضافی 30 کروڑ ڈالر درکار ہیں۔

اے خدا تیرا شکریہ....وسعت اللہ خان

$
0
0

(پہلی تصویر)
لوگوں سے سنا ہے کہ اس بچے کا نام ایلان الکردی ہے

پر تین برس کے ایلان کو کیا معلوم کہ اس کا نام ایلان کیوں ہے۔ وہ تو ٹھیک سے اپنا مکمل نام تک نہیں پکار سکتا اسے تو شائد یہ بھی پتہ نہ ہو کہ جسے وہ منگل کی صبح تک اماں اماں پکارتا رہا وہ ماں ضرور ہے مگر باقیوں کے لیے تو ریحان ہے شرط لگا لو جو ایلان کو معلوم ہو کہ اس کے بابا کا پورا نام عبداللہ الکردی ہے ہاں مگر ایلان غالب کو اچھی طرح جانتا ہے۔

کیونکہ غالب اکثر اس سے ٹیڈی بیئر چھین کے بھاگ جاتا ہے اور خوب تنگ کرتا ہے۔ مگر ایلان غالب کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ دو برس چھوٹا جو ہوا تو یہ ہے ایلان کی کل دنیا۔ ایلان کب اور کیوں ملک شام کے کبانی قصبے میں پیدا ہوا؟ ایلان کی بلا سے اس کی تین سالہ دنیا میں اگر کوئی مسلسل تجربہ اور مشاہدہ ہے تو 

بس اتنا کہ

بندوق سے گولی نکلتی ہے اور گولی سے زن کی آواز
پر سمجھ میں نہیں آتا کہ کہ جیسے ہی گولی سے زن کی آواز نکلتی ہے تو سامنے کھڑا بچہ یا بوڑھا یا عورت دھپ سے زمین پے کیوں گر جاتے ہیں۔
اور ان کے سینے اور کنپٹی سے لال شربت جیسا کیا ابل ابل کے بھل بھل مٹی میں ملتا جاتا ہے

ایلان کی اماں نے بس اتنا بتایا ہے کہ اس لال سے شربت کو خون کہتے ہیں مگر خون کیا ہوتا ہے اور جان دار کے اندر سے ہی کیوں نکلتا ہے۔ تین برس کا ایلان ابھی کیا سمجھے؟
البتہ ایلان کو دوڑتے پھرنے اور اچھل کود کا جنون ہے۔ بوٹی بوٹی تھرکتی ہے مجال ہے جو پل بھر کو نچلا بیٹھ جائے اور دنیا کی سب اماؤں کا تو خیر کام ہی ڈانٹتے رہنا ہے ایلان بدتمیزی نہیں کرو۔۔۔ ایلان ٹک کے بیٹھو۔۔۔ ایلان باز آ جاؤ۔۔۔ اچھا دودھ کا وقت ہو گیا ہے۔۔ جوس پی لو۔۔۔

مگر اس دن اچانک جب اماں نیند میں ڈوبے ایلان کو گود میں بھینچ کر اور بابا غالب کا ہاتھ پکڑ کے چیختے چلاتے دوڑ پڑے تو ایلان کی سمجھ میں نہ آیا کہ اماں اور ابا اب خود کیوں بدتمیزی کر رہے ہیں، ٹک کے کیوں نہیں بیٹھ رہے، باز کیوں نہیں آ رہے ہیں، پیدل کیوں دوڑے جا رہے ہیں، دھول اڑاتی قطار اندر قطار اتنی ساری لدی پھندی بگٹٹ بد حواس گاڑیوں میں سے کسی ایک میں آخر کیوں سوار نہیں ہو رہے لیکن ایلان کو یہ دیکھ کے اطمینان ہوا کہ بابا نے اس کا جانی ٹیڈی بیئر بھی تھاما ہوا ہے
پھر ایلان بہت خوش ہوا جب اس نے کئی گھنٹے بعد ایک اژدھے جیسی لہراتی لمبی سی گاڑی پہلی بار دیکھی۔ اماں نے بتایا اسے ٹرین کہتے ہیں:
ایلان اور بھی خوش ہوا جب ایک جگہ اچانک اس کے سامنے بہت سارا نیلا پانی ہی پانی آ گیا جس میں بڑی بڑی لہروں سے سفید جھاگ بن رہے تھے اور شوں شر پھٹاک جیسی آوازیں آ رہی تھیں

ابا نے اسے اور غالب کو بتایا کہ اس کا نام سمندر ہے
ایلان نے کہا میں اور میرا ٹیڈی بیئر اس میں خوب نہانا چاہتے ہیں مگر اماں نے ایلان کا ہاتھ زور سے دبا دیا کچھ ہی دیر بعد ایلان اور غالب خوشی سے پاگل ہو گئے جب ابا اماں نے انھیں ایک ربڑ کی کشتی میں سوار کروایا جس میں اور بھی انکل آنٹیاں اور اجنبی بچے تھے۔
بابا ہم اب اس میں بیٹھ کے اپنے گھر جائیں گے نا؟
ہاں بیٹا ہم نئے گھر میں جا رہے ہیں جس میں تم ٹیڈی بئیر کو خوب دوڑانا۔۔۔
اور پھر کشتی دور سمندر میں اوجھل ہو گئی
( دوسری تصویر )
تصویر کے دھوکے میں مت آئیے اپنی آنکھیں استعمال کیجیے سجدے میں بھی کتنا ساکت ہے یہ پیارا سا ٹیڈی بیئر جیسا گڈا۔۔۔۔
ارے ساکت تھوڑی ہے
یہ تو شائد خشوع و خضوع کی کیفیت میں ہے
اس قدر مگن کہ سر سے ٹکرا ٹکرا کے واپس ہونے والی نیلے سمندر کی لہریں بھی یہ ننھی سی توجہ توڑنے سے قاصر ہیں
اس عمر میں ایسا استغراق اللہ اللہ۔۔۔
دیکھا تو کیا آج تک سنا تک نہیں
اسے کہتے ہیں معجزہ

ایلان
زندہ خدا کا سربسجود گول مٹول سا گورا چٹا معجزہ
اس بامروت ، رحیم و کریم، جلالی و قہاری خدا کا معجزہ کہ جس کے نام کی مالاجپتے سرکش، فسادی، نمک حرام، بدکار، کمینے، شقی القلب، بے ایمان شاطر، غاصب، منافق، بزدل، سازشی، خونی، عیاش، حرام الدہر فطین اور ذلت مآب دین و دنیا فروش نائبِ خدا کے منصب سے اٹھ کے ارض ِ خدا کے خدا بن گئے
مگر نیلے پانی کے کنارے کی گیلی ریت پر ایلان کا سجدہِ شکر کچھ اور ہے
اے خدائے رحیم و کریم زوالجلالِ والاکرام

شکریہ کہ تو نے مجھے، غالب اور اماں کو خوف اور وقت کی قید سے آزاد کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اکھٹا کر دیا۔ اب موت بھی چاہے تو نہیں مار سکتی
اے تمام جہانوں کے پالن ہار
تیری زمین تجھے مبارک

وہ زمین جو اتنی تنگ پڑ گئی کہ سمندر کی مہربان بانہوں میں پناہ ملی
اے بحر و بر کے مالک تیرے اس مہربان سمندر کا شکریہ
اے خدا اب ہمیں خود سے جدا مت کرنا۔۔ کبھی بھی
ہمیں پھر سے پیدائش کی آزمائش سے مت گزارنا۔۔کبھی بھی
اے خدا تیرے انسانوں کا شکریہ کہ جنہوں نے مجھے، غالب اور اماں کو تجھ سے جلد از جلد ملا دیا۔۔اب میرے تنہا بابا کو بھی یہاں بلا لے
اور اور اور میرا ٹیڈی بیئر کہاں رہ گیا ؟؟؟

وسعت اللہ خان

بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس

ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں

$
0
0

سابق وفاقی وزیر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے قریبی معتمد ڈاکٹر عاصم حسین کا انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نوے روز کے لیے رینجرز کو ریمانڈ دیدیا ہے۔

رینجرز کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ٹھوس شہادتیں موجود ہیں کہ وہ فنڈز کی خورد برد میں ملوث تھے جب کہ ان فنڈز کے ڈانڈے مبینہ طور پر دہشت گردی سے بھی ملتے تھے۔ان کی گرفتاری کے بعد پیپلز پارٹی کے لیڈروں نے دھمکی بھی دی کہ اگر آصف علی زرداری کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی تو اس سے جنگ چھڑ جائے گی۔ پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ نے تصدیق کی کہ عوامی تاثر یہ ہے کہ اس سے بالآخر شکنجہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین تک پہنچ جائے گا۔
دوسری طرف ایف آئی اے نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی‘ مخدوم امین فہیم اور دیگر رہنماؤں کے خلاف 12 الگ الگ مقدمات میں ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔
ان مقدمات کا تعلق جعلی کمپنیوں کو اربوں روپے کی تجارتی سبسڈیز دی گئیں جن کے لیے سابقہ تاریخوں کے جعلی کلیم داخل کرائے گئے۔ ایک اور وارنٹ گرفتاری سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے نام ہے۔ مہینہ پہلے جو پیپلز پارٹی نے اندازہ لگایا تھا اور جب زرداری بھڑک اٹھے تھے وہ بات اب سچ ثابت ہو رہی ہے۔ رینجرز نے کراچی میں ایم کیو ایم کی اسٹریٹ پاور کسی حد تک توڑ دی ہے۔
آصف زرداری نے اپنے بیان میں میاں نواز شریف کو خطرناک مضمرات کا انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ 1990ء کی انتقامی سیاست سے باز رہیں تاہم وہ اس مرتبہ اتنے محتاط ضرور تھے کہ فوج کو اس بار ہدف نہ بنائیں۔ ان کے دیرینہ دوست ذوالفقار مرزا نے تو ان پر انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے ہیں۔

ریکارڈ درست کرنے کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ میاں نواز شریف اس احتساب کے حوالے سے، جو فوج نے شروع کیا ہے، قطعاً بے بس ہیں۔ سندھ کے برائے نام وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ یہ شکایت کرتے ہوئے بڑے دلچسپ نظر آتے ہیں کہ نیب اور ایف آئی اے سندھ میں ان کو بتائے بغیر ’بدعنوان افراد‘ کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔

انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اگر اس قسم کے اقدامات جاری رہے تو جمہوریت قائم نہیں رہ سکے گی۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں جو سیاستدان اقتدار میں بیٹھے ہیں وہ آئین میں ترمیم کے ذریعے بدعنوانی کو قانونی حیثیت دے سکتے ہیں تا کہ جمہوریت کو نقصان نہ پہنچے؟ اور کیا سپریم کورٹ اس بات کی تردید کرے گی یا اسے درست قرار دے کر بدعنوانی کرنے والوں کو کسی بدلے ہوئے بھیس میں کام کرنے دے گی تا کہ جمہوریت کا ایک اور باب تحریر کیا جا سکے؟

ایک اہم شخصیت کا بیٹا جس کے بارے میں افواہ ہے کہ وہ کئی ارب ارب روپے لے کر ملک سے فرار ہوگیا ہے۔ آخر منی لانڈرنگ کے قوانین اس ملک میں کیا ہیں جہاں روپیہ بھیجا جا رہا ہے۔ برطانیہ اور دیگر بہت سے ممالک میں ’’رئیل اسٹیٹ‘‘ وہ شعبہ ہے جہاں کالے دھن کی سرمایہ کاری بآسانی کی جاتی ہے۔ آخر برطانیہ اس قسم کے فنڈز پر پابندی کیوں عائد نہیں کر سکتا؟ یہ سب کچھ سوچنے کی باتیں ہیں۔

مغربی ممالک جو مسلسل کرپشن اور منی لانڈرنگ وغیرہ کا شور مچاتے رہتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ کام تیسری دنیا کے ممالک میں ہوتے ہیںلیکن ان کے اپنے ملک میں سب کچھ ہو رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے لوگ کرپشن کا سرمایہ وہاں منتقل کر رہے ہیں۔ گویا مغربی ممالک نے دوہرا معیار اختیار کر رکھا ہے۔

جب سوٹزر لینڈ کے بینکاری کے شعبے میں کی جانے والی حالیہ اصلاحات کے بارے میں پوچھا کہ اس کا پاکستان کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ بہت سے سیاستدانوں نے مبینہ طور پر اپنی دولت سوئس بینکوں میں رکھی ہوئی ہے۔
اس بارے میں کراچی میں سوئس قونصل جنرل ایمل وائس (Emil Wyss) سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا ’’گیند حقیقت میں پاکستان کی کورٹس میں ہے ’’یہ معاملہ پاکستانی عدالتوں کے ذریعے ہی آگے جائے گا۔ تب حکومت پاکستان کو ہماری حکومت سے رسمی طور پر درخواست کرنا پڑے گی اور ثبوت پیش کرنا پڑے گا کہ سوئس بینکوں میں رکھی ہوئی رقم غیر قانونی ذرایع سے حاصل کی گئی تھی۔ اگر حکومت پاکستان یہ ثابت کر سکی تو سوئس حکومت رقم واپس کر دے گی‘‘۔

ایمل وائس یقیناً بہت اچھے اور سلجھے ہوئے آدمی ہیںلیکن انھیں اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ حکومت پاکستان کے لیے یہ ثابت کرنا تقریباً نا ممکن ہو گا کیونکہ منی لانڈرنگ کے بارے میں ہمارے اپنے قوانین ہیں تو بہت سخت ہیں لیکن یہ صرف تھیوری کی حد تک ہیں۔ کیا سوئس حکام یہ پوچھ سکتے ہیں کہ وہاں لائی جانے والی دولت کا ذریعہ کیا ہے اور وہ سوئٹزر لینڈ تک کیسے پہنچی۔ اور اگر کسی رقم پر ان کو ایسا شک ہو جائے تو کیا وہ پوچھیں گے کہ آیا اس رقم پر مطلوبہ ٹیکس ادا کر دیے گئے تھے یا نہیں؟

دہشت گرد کرپشن کے ساتھ ساز باز کے بغیر کوئی کارروائی نہیں کر سکتے۔ انھیں منظم جرائم کے گروہوں کے ساتھ تعلق قائم کرنا پڑتا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم نے ’’جرائم کے خلاف ساجھے داری‘‘ (PACI) کے عنوان سے ایک اقدام کیا جس میں اسی بات پر بار بار زور دیا گیا۔ اگر منظم جرائم کے مافیا کی پشت پناہی حاصل نہ ہو تو دہشت گرد اپنی سرگرمیاں کسی طور بھی جاری نہیں رکھ سکتے۔ کرپشن کے ذریعے حاصل کی جانے والی دولت پر پہلا قدم منی لانڈرنگ کے ذریعے اسے جائز ثابت کیا جاتا ہے۔
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے وادی شوال میں فوج کے اگلے مورچوں پر جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کرپٹ افراد کے خلاف نیب‘ ایف آئی اے اور رینجرز کی کارروائیوں پر اعتراض کے جواب میں دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے ’’ہم ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ ہمارے لوگوں اور ہمارے بچوں کو شہید کیا جائے۔ ہم ان تمام چہروں کو بے نقاب کر دینگے جو دہشت گردوں کی کسی بھی طریقے سے کسی بھی مرحلے پر مدد کرتے ہیں‘‘۔

رینجرز بڑی تندہی سے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہے لیکن اسے خود احتسابی کا بھی خیال رکھنا چاہیے تا کہ ان کے میجروں‘ کرنلوں اور دیگر افسروں پر نگاہ رکھی جا سکے۔ ایک عشرہ پہلے کے افسروں اور فوجیوں کا موجودہ جنگجو فوجیوں سے بڑا فرق ہے جنہوں نے سوات اور فاٹا میں باقاعدہ جنگ لڑی۔ مشرف کے دور میں ایک دو افسروں کو بلا دیکھے پروموٹ کر دیا تھا حالانکہ انھوں نے کبھی ایک گولی نہیں چلائی تھی۔

تاہم اب پاکستانی فوج پر لازم ہے کہ وہ اپنا احتساب بھی پوری سختی کے ساتھ کرے۔ ایک بہت اچھا منصوبہ بھی اس وقت تک کوئی وقعت نہیں رکھتا جب تک کہ اس پر کامیابی کے ساتھ عمل درآمد نہ کیا جا سکے۔ فوج کے لیے بھی خود احتسابی کے ساتھ کڑے احتساب کی نگاہ بھی ناگزیر ہے مبادا وہ خود اس آلائش کا شکار نہ ہو جائے جس کو دور کرنے کے لیے اسے متعین کیا گیا ہے اور یہ کام اگر ابھی نہ کیا گیا تو پھر کبھی نہیں ہو سکے گا۔

اکرام سہگل

بشکریہ روزنامہ جنگ

ہماری ایٹمی برتری ۔ ایک حقیقت

$
0
0

پاکستان کے مقابلے میں ایک بہت بڑا ملک بھارت نہ جانے کیوں پاکستان کی کمزوری میں اپنی طاقت سمجھتا ہے۔ اس کے باوجود کہ پاکستان کو اکثر ایسے حکمران نصیب ہوتے ہیں جو بھارت کے حد سے زیادہ بہی خواہ تھے اور ہیں لیکن پھر بھی بھارت پاکستان پر اعتبار نہیں کرتا اور پاکستان کو کمزور بنا کر ہی اپنے تحفظ کو یقینی بناتا ہے جس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکتا اور ناراض ہو جاتا ہے۔

مسلمانوں کی ہزار سالہ غلامی اور مسلمان بادشاہوں سے قریبی رشتہ داریوں کے باوجود بھارت کا ہندو مسلمان کو سمجھ نہیں سکا۔ جب بھی کوئی فیصلہ کن موڑ آتا ہے تو بھارت اپنی بڑائی کے باوجود مار کھا جاتا ہے۔ مثلاً ان دنوں پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی جنگ کے خطرے کی وجہ سے ایٹمی طاقت کے توازن کی بات چلی ہوئی ہے۔

بھارت نے پاکستان سے پہلے ایٹم بم بنا لیا تھا جس کے بعد پاکستان نے مجبور ہو کر اس کا جواب تیار کیا لیکن اب دنیا تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان کا ایٹم بم بھارت سے بہتر ہے اور اس کا میزائل سسٹم بھی بہتر بلکہ بہت بہتر ہے جو بم کو اپنے پروں پر اٹھا کر منٹوں سیکنٹوں میں اس کی منزل مقصود پر دے مارتا ہے۔ بھارت کے سائنس دان یہ سب جانتے ہیں اور وہ اپنے حکمرانوں کو اس سے ضرور آگاہ بھی کرتے ہوں گے لیکن ان کے لیے یہ اتنی ناپسند بات ہے کہ وہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں اور پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دیتے چلے جا رہے ہیں۔

یہ دن پاک بھارت کے درمیان ایک بڑی جنگ کو یاد کرنے کے دن ہیں اور پاکستان ان ہی  دنوں میں یوم دفاع منا رہا ہے۔ بھارت بھی پاکستان کے یوم دفاع کی اہمیت کم کرنے میں مصروف ہے اور ہماری سفارتی کمزوری کی وجہ سے وہ عرب سرزمین پر تاریخ کا پہلا مندر بنانے کی اجازت حاصل کر چکا ہے جو ہمارے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔

ہمیں اپنی حکومت سے یہ لازماً پوچھنا چاہیے کہ بھارت اس میں کس طرح کامیاب ہوا لیکن جس حکومت کا کوئی وزیر خارجہ ہی نہ ہو اس سے کوئی کیا پوچھے۔ البتہ ایک ضعیف العمر شخص کو خارجہ امور کا مشیر ضرور بنا رکھا ہے جو کر کچھ نہیں سکتا صرف مشورہ دے سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس کے قویٰ اعتدال میں ہوں مضمحل نہ ہوں۔ انھیں چاہیے کہ سرکاری خرچ پر کسی اچھے حکیم سے معائنہ اور علاج کرا لیں تا کہ مشورے دینے میں مصروف رہ سکیں مگر بھارت ہماری اس حالت کے باوجود ہم سے ڈرتا رہتا ہے۔

بھارت کے ایک مسلمان لیڈر جناب اے جے نورانی نے ایک بار گپ شپ کے دوران کہا کہ اگر ہم کہیں کسی مسجد میں سفیدی کرا لیں تو ہندو چونک جاتے ہیں کہ یہ مسلمان کہیں پھر سے ہمت نہ پکڑ لیں۔ ہندو کا یہ صدیوں کا خوف اب ختم ہو جانا چاہیے۔ اب مسلمانوں میں کوئی غزنوی نہیں ہے۔ تلوار کی جگہ ترازو نے لے لی ہے۔ مسلمان سپہ سالار بھارت کے عزائم اور نیت بھانپ کر پاکستان کے تحفظ میں لگے رہتے ہیں اور پاکستان کے سائنس دان بھی اسلحہ سازی میں مصروف رہتے ہیں۔ ہم یہ سب مجبوری میں کرتے ہیں کہ ہمارا دشمن کہیں خوف میں کوئی حرکت نہ کر بیٹھے۔

بھارت آبادی اور رقبے میں بہت بڑا سہی اور مغربی ملکوں کے لیے ایک بڑی منڈی سہی لیکن اس کے حکمرانوں نے اپنے عوام پر توجہ نہیں دی۔ دونوں ملکوں کے درمیان واضح فرق دیکھا جا سکتا ہے لیکن بعض پاکستانی دانشور جو بھارت پر مرتے ہیں ان کے نام ایک صاحب ڈاکٹر نفیس اختر نے ایک خط لکھا ہے۔ میں نے یہ خط صغیر صاحب کی ایک تحریر میں پڑھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ اڑسٹھ برس گزرنے کے باوجود بھارت کی حالت بدتر ہے۔ معاشی ناہمواری کا یہ حال ہے کہ 80 فیصد دولت 20 فیصد افراد کے پاس ہے۔

آج بھی تقریباً تیس فیصد بھارتی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں۔ بھارت اپنی آمدنی کا صرف ایک فیصد صحت عامہ پر خرچ کرتا ہے اور اس سال ایک ہزار میں سے چالیس سے پینتالیس فیصد بچے ایک سال کی عمر سے پہلے ہی فوت ہو گئے ہیں۔ ولادت کے بعد ہر ایک لاکھ سے 167 مائیں فوت ہو جاتی ہیں۔
ہر سال ساڑھے پانچ لاکھ بھارتی ٹی بی سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ پوری دنیا میں ملیریا سے ہونے والی اموات کی آدھی تعداد بھارت اور کانگو میں ہے۔ ہزاروں لوگ ایڈز سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ تیس فیصد آبادی ناخواندہ ہے جو خواندہ ہیں وہ بھی پرائمری سے آگے تک نہیں جا پاتے۔ پچاس فیصد عورتیں دُختر کُشی کی وجہ سے غائب ہو جاتی ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ہر آدھے گھنٹے میں کسی عورت کی عزت لوٹی جاتی ہے۔

بھارت کا نقشہ اس کی آبادی اور رقبے کی طرح وسیع و عریض ہے۔ خود مذہباً اس ملک کی آبادی چار حصوں میں تقسیم کر دی گئی جس میں اونچی ذات برہمن کی اور نیچے دلت اور کمی کمین گویا بھارت غیر مساوی لوگوں پر مشتمل ایک جمہوریت ہے جس کی بنیادوں میں بھی جمہوریت کو دفن کر دیا گیا ہے۔ یہ وہ بھارت ہے یعنی اس کی ایک ہلکی سی جھلک جو پاکستان جیسے جرأت مند اور خدا پر بھروسہ رکھنے والے ملک پر فتح حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔
بھارت کے معاشرے کی بنیادی خرابیاں لاتعداد ہیں جن کا ذکر میں کرتا رہتا ہوں۔ 

بھارت کے سفر میں ایک بات واضح طور پر محسوس کی کہ عام بھارتی ہم پاکستانیوں کو دولت مند سمجھتا ہے اور اس سے مرعوب ہو جاتا ہے۔ کیا ہم اس کے خلاف جنگ کا سوچ سکے۔ بھارتی فوج کو اسلحہ کے زور پر کھڑا رکھا گیا ہے کہ سپاہی کی بہادری کی جگہ اسلحہ یہ کام کرے گا۔ بھارت یعنی برصغیر کے اس حصے میں ہم برسوں صدیوں تک ایک ساتھ رہتے چلے آ رہے ہیں لیکن اچھے ہمسایوں کی طرح نہیں رہ سکے۔ یہ بات پاکستانیوں کو کبھی بھولنی نہیں چاہیے۔ ہمارا دو قومی نظریہ ایک سچ اور حقیقت ہے۔ بہتر ہے کہ بھارت اس کے ساتھ رہنا سیکھ لے۔

عبدالقادر حسن

بشکریہ ایکسپریس نیوز


بچے کی لاش کی تصویر میں عالمی سامراج کا چہرہ بے نقاب

$
0
0

تین سالہ معصوم شامی بچے ’’ ایلان ‘‘ کی لاش نے مغرب کے حکمرانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھدیا ہے ۔ اس طرح کی خبریں اگلے روز اخبارات میں چھپی ہوئی تھیں لیکن کیا اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ اس ایک بچے کی لاش سے مغربی دنیا کا ضمیر جاگ گیا ہو گا ؟ دنیا بھر میں روزانہ ہزاروں معصوم بچے انتشار ، بدامنی ، دہشت گردی ، جنگوں اور جبری بے دخلیوں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ کہیں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر ڈرونز کے ذریعے حملے کئے جاتے ہیں اور پوری انسانی آبادیاں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں ۔

 کہیں طیاروں سے بمباری کرکے ااسکولوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور سینکڑوں بچوں کو بموں کے بارود میں جلا کر بھسم کردیا جاتا ہے اور بعد ازاں معافی مانگ لی جاتی ہے کہ غلطی ہو گئی ۔ کہیں دہشت گرد خود کش حملوں سے بچوں کی لاشوں کے چیتھڑے اڑادیتے ہیں اور کہیں ااسکولوں میں گھس کر بچوں کو گولیوں سے بھون دیتے ہیں ۔ کہیں دہشت گرد ماں باپ کے سامنے بچوں کی گردنیں کاٹ رہے ہوتے ہیں لیکن جب ایک فرانسیسی وزیر اعظم کسی بچے کی لاش کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتا ہے یا کوئی آسٹریلوی وزیر اعظم کانوں کو ہاتھ لگا کر یہ کہتا ہے کہ داعش کے دہشت گرد نازیوں سے بھی زیادہ بدترین اور زیادہ ظالم ہیں تو ہم تیسری دنیا کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب کے حکمرانوں کے دلوں میں رحم پیدا ہو گیا ہے یا ان کے ضمیر جاگ گئے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔
ایلان بھی مغربی حکمرانوں کی بے رحمانہ پالیسیوں اور سامراجی عزائم کا شکار ہوا ہے۔ ایلان بھی ان لاکھوں بچوں میں شریک ہے ، جو نیو ورلڈ آرڈر کا شکار ہوئے اور جن کی زندگیوں کے پھول کھلنے سے پہلے مرجھا گئے ۔ مغرب کے حکمراں اپنے اپنے ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ کی سامراجی پالیسیوں کے غلام ہیں ۔ ان کا کام صرف اداکاری کرنا ہوتا ہے ۔ ایلان کی لاش پر افسردہ دکھائی دینا یا اس پر آنسو بہانا محض اداکاری ہے ۔

البتہ یورپ اور امریکہ میں سول سوسائٹی کے بعض حلقے ایسے ہیں جو دنیا کی مظلوم قوموں اور گروہوں کے لئے حقیقی طور پر آواز اٹھاتے ہیں ۔ اس وقت بھی یہ حلقے مغربی حکومتوں پر یہ زور دے رہے ہیں کہ دنیا کے بدامنی کے شکار ملکوں سے آنے والے تارکین وطن کو یورپ میں پناہ دی جائے ۔ انہی حلقوں نے ایلان کی تصاویر کو سوشل میڈیا پر جاری کیا تاکہ دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ ان تارکین وطن کے مسائل کیا ہیں اور وہ کن مصائب سے دوچار ہیں ۔ جب سول سوسائٹی کی طرف سے مظلوم ایلان کی تصویر پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا تو مغرب کے حکمرانوں کو بھی اداکاری کرنا پڑی ۔
 ایلان کا خاندان شام سے اپنی جان بچا کر نکلا تھا ۔ ایلان کے والد عبداللہ کردی نے یہ سوچا تھا کہ وہ اپنے خاندان کو دنیا کی کسی محفوظ سرزمین پر منتقل کردے گا ۔ شام میں گزشتہ کئی سالوں سے خانہ جنگی کے باعث لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں ۔ دیگر تارکین وطن کے ہمراہ عبداللہ کردی بھی مغربی ممالک میں پناہ لینے کے لئے غیر قانونی طور پر سمندری سفر پر روانہ ہوا ۔ پہلے کینیڈا نے ان کی پناہ کی درخواست مسترد کردی تھی ۔ وہاں سے مایوس ہوکر تارکین وطن کی کشتی کسی دوسرے یورپی ملک کی طرف روانہ ہوئی لیکن یہ کشتی ایک یونانی جزیرے کے قریب الٹ گئی ۔

 اس حادثے میں عبداللہ کردی کی بیوی ، 5 سالہ بیٹا غالب اور 3 سالہ بیٹا ایلان ڈوب کر جاں بحق ہوگئے عبداللہ کی بیوی اور 5 پانچ سالہ بیٹے کی لاش تو مل گئی لیکن ایلان کی لاش بہتے ہوئے ترکی کے ساحل بورم پر جاپہنچی ۔ ساحل پر پڑی ہوئی اس لاش کی تصویر کو مغرب کی سول سوسائٹی کے ان حلقوں نے سوشل میڈیا پر جاری کیا ، جو تارکین وطن کو پناہ دینے کے حامی ہیں۔

اس وقت یورپ پر تارکین وطن اور پناہ گزینوں کی یلغار ہے ۔ ان میں زیادہ تر تارکین ان عرب اور افریقی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں ، جو اس وقت بدترین خانہ جنگی ، خونریزی اور دہشت گردی کا شکار ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف ایک مہینے میں پناہ حاصل کرنے کے لئے جرمنی آنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی ہے ۔ اس وقت دنیا میں تارکین وطن کا بہت بڑا بحران موجود ہے ۔ یہ وہ لوگ نہیں ہیں ، جو یورپی ممالک میں بہتر مستقبل کے لئے جانا چاہتے ہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں ، جو اپنے ملکوں سے اپنی اور اپنے بچوں کی جانیں بچانے کے لئے وہاں سے فرار ہوئے ہیں ۔

 امریکہ اور اس کے حواری مغربی ممالک کی سامراجی پالیسیوں ، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دنیا کے مختلف خطوں میں فوج کشی اور ان ممالک کے خفیہ اداروں کی خوف ناک کارروائیوں کی وجہ سے کرہ ارض کا ایک بہت بڑا حصہ جہنم بنا ہوا ہے اور انسانوں کی ایک بہت بڑی آبادی لاشیں اٹھانے ، معذوروں کو سنبھالنے ، اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ جگہیں تلاش کرنے ، بھوک اور بیماریوں سے لڑنے اور نفرتوں کے قہر سے بچنے میں مصروف ہے۔

دنیا کے کروڑوں انسانوں کے نزدیک زندگی کا مفہوم صرف یہ ہے کہ موت سے کیسے بچا جائے ۔ امریکہ اور اس کے حواری مغربی ممالک دہشت گردوں کی خفیہ پشت پناہی کرتے ہیں ، نسلی ، مذہبی اور فرقہ ورانہ فسادات کو ہوا دیتے ہیں ، لوگوں کو موت کے خوف میں مبتلا رکھتے ہیں ۔ تیسری دنیا کے فوجی افسروں اور سیاست دانوں کو اپنا ایجنٹ بنا کر وہاں عدم استحکام پیدا کرتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ کبھی امن قائم نہ ہو ۔ امریکہ اور اس کے حواریوں نے اپنے ملکوں کو جنت بنا رکھا ہے ۔ ایلان کے باپ عبداللہ نے یہ خواہش کی تھی کہ وہ ایلان کو ایسی جگہ پہنچادے ، جہاں اس کی زندگی کو کوئی خطرہ نہ ہو لیکن بدنصیب ایلان کی لاش بھی وہاں نہ ملی ، جہاں وہ ڈوبا تھا ۔

مغربی حکمرانوں کا ضمیر ہو گا ، لیکن وہ کبھی جاگے گا نہیں ۔ اگر ضمیر جاگتا تو کسی مغربی ملک کا کوئی سربراہ حکومت یہ اعلان کرتا کہ وہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی پالیسیوں سے لاتعلق ہورہا ہے ۔ ایسا اعلان کسی نے نہیں کیا ۔ تیسری دنیا کے حکمرانوں کا تو ضمیر مغرب پہلے ہی خرید چکا ہے ۔ معصوم ایلان کی لاش کی تصویر اگر عالمی سامراج کا بھیانک چہرہ واضح کرنے کی علامت بن گئی ہے تو آئیے اس تصویر کو سامنے رکھیں اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں مغربی حکمرانوں اور ان کے ایجنٹ تیسری دنیا کے حکمرانوں کی اداکاریوں کی بھرپور مذمت کریں اور صدق دل سے دو آنسو بہا کر اس مکاری کا پردہ چاک کریں ، جس کے ذریعے ایک طرف تو دہشت گردوں کی پشت پناہی کی جا رہی ہے اور دوسری طرف دہشت گردی کے خلاف جنگوں کے نام پر تیسری دنیا کے غریب ملکوں خصوصاً مسلمان ملکوں کو بدامنی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار کیاجا رہا ہے۔ 

عباس مہکری

بہ شکریہ روزنامہ  جنگ 

افغانستان اور پاکستان ۔ کون کتنا قصور وار ہے

$
0
0

فغانستان کے محاذ پر ،پاکستان کو جو موقع گزشتہ چند ماہ کے دوران ہاتھ آیا ، وہ ماضی کے چودہ سالوں میں کبھی ہاتھ نہیں آیا تھا۔ جورعایتیں افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے دی تھیں ،حامد کرزئی صاحب سے ان کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ ان کا دل پاکستان کے بارے میں صاف ہوگیا تھا بلکہ اشرف غنی صاحب یہ شعوری رائے رکھتے تھے کہ مسئلے کی چابی پاکستان کے ہاتھ میں ہے ۔

 اس کا اظہار انہوں نے صدر بننے کے بعد اپنی تقاریر میں بھی کیا تھا۔ اسی بنیاد پر انہوں نے یہ حکمت عملی اپنالی کہ پاکستان کو جیسا ماحول چاہئے ہو، وہ اسے دے دیا جائے اور پھر نتائج بھی اسی سے مانگے جائیں ۔ اب کی بار معاملہ اس حوالے سے بھی مختلف تھا کہ حامد کرزئی کے دور کے برعکس ،پاکستان سے متعلق پالیسی کی تبدیلی افغان صدر کی ذات تک محدود نہیں رہی بلکہ اس میں دیگر افغان شخصیات اور ادارے بھی شامل رہے۔

یہ کریڈٹ سابق وزیرخارجہ حناربانی کھر اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیرالاسلام کو بالعموم اور افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر محمد صادق کو بالخصوص جاتا ہے کہ انہوںنے گزشتہ صدارتی انتخابات سے قبل شمالی افغانستان کی قیادت کو قریب کرلیا تھا اور پاکستان سے متعلق پالیسی کی تبدیلی میں عبداللہ عبداللہ ، رشید دوستم، استاد محقق ، صلا ح الدین ربانی اور استاد عطاء جیسے لوگ نہ صرف ڈاکٹر اشرف غنی کے ہمنوا تھے بلکہ وہ ان سے دو قدم آگے تھے ۔ یہ موقع اس حوالے سے بھی منفرد اور نادر تھا کہ پہلی بار امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے بھی پاکستان اور افغانستان کی اس قربت کو ہضم کرلیا تھا۔
گزشتہ چودہ سالوں میں پہلی مرتبہ ان قوتوں کی طرف سے پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کو یہ بلینک چیک دیا گیا تھا کہ وہ جس طرح چاہیں ، طالبان کے ساتھ مصالحت کا راستہ نکال لیں ۔ اسی طرح یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ افغانستان کی حکومت نے امریکہ کی اجازت اور پاکستان کی خواہش سے چین کو بھی اس عمل کا حصہ بنا لیا اور وہ معاون کا کردار بھی ادا کررہا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ گزشتہ ایک سال کے دوران جب سرکاری ترجمان اور اسٹیبلشمنٹ کی ترجمانی کرنے والے تجزیہ کار افغانستان کے محاذ پر کامیابیوں کاجشن منا کر واہ واہ کررہے تھے تو ہم جیسے طالب علم افغان حکومت کی توقعات اور مطالبات پر دھیان دینے کی دہائی دے رہے تھے لیکن افسوس کہ وزیراعظم صاحب اور ان کی ٹیم نے یہ نادر موقع ضائع کردیا۔ وزیراعظم صاحب اور ان کے خوشامدگر وں کو خود بھی یہ صحیح اندازہ نہیں تھا کہ افغان طالبان کس حد تک پاکستان کے کنٹرول میں ہیں چنانچہ انہوں نے صلاحیت اور استعداد سے بڑھ کر افغان حکومت کو یہ تاثر دیا کہ ان کی حکومت طالبان کو ان کے ساتھ مفاہمت پر آمادہ کرلے گی ۔

ڈاکٹر اشرف غنی ملک کے اندر ناقدین کو یہ بتاتے رہے کہ اپریل تک پاکستانی حکومت مطلوبہ نتائج سامنے لائے گی ۔ اپریل میں افغانستان کے اندر برف پگھل جاتی ہے اور طالبان ان حملوںکا آغاز کردیتے ہیں جن کی پورے سرما میں انہوں نے تیاری کی ہوتی ہے ۔ افغان حکومت توقع لگائے بیٹھی تھی کہ مفاہمت کی کوششوں کے نتیجے میں اب کی بار افغان طالبان کی کارروائیاں ماضی سے کم ہوں گی لیکن معاملہ الٹ نکلا۔ اس دفعہ طالبان نے افغان حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ پاکستانی میڈیا میں ان کو جگہ نہیں ملتی لیکن اپریل سے اب تک روزانہ اوسطا سو کارروائیاں ہوتی ہیں ۔
 کابل میں بم دھماکے اور خودکش حملے روز کا معمول بن گئے اور طالبان نے پہلی بار شمالی افغانستان میں بھی کارروائیاں نہ صرف شروع کردیں بلکہ بدخشان ، کندوز اور سرائے پل جیسے صوبوں میں پورے پورے اضلاع پر قابض ہوگئے ۔ نوبت یہاں تک آئی کہ نائب صدر رشید دوستم اور سیاسی شخصیت بن جانے والے استاد عطاء کو دوبارہ فوجی وردیاں پہن کر خود اپنے ملیشیا دوبارہ منظم کرنے پڑے تاکہ طالبان کا مقابلہ کیا جاسکے ۔

اس دوران اشرف غنی پاکستان پر زور دیتے رہے کہ وہ افغان طالبان کو کارروائیوں سے روکے لیکن پاکستان یہ عذر پیش کرتا رہا کہ وہ ہمارے کنٹرول میں نہیں ۔ تین ماہ قبل اشرف غنی نے وزیراعظم پاکستان کو خط لکھا کہ وہ طالبان کے ساتھ مفاہمت کے عمل میں جلدی دکھائے اور افغانستان کے اندر طالبان کی کارروائیاں روکنے میں تعاون کرے ۔ ساتھ ہی انہوں نے عالمی ادارے سے وابستہ اپنے ایک پاکستانی دوست کے ذریعے پیغام دیا کہ ان کا پیمانہ صبر لبریز ہورہا ہے اور اگر پاکستان نے حسب منشا تعاون نہ کیا تو وہ ماضی کی طرف لوٹنے پر مجبور ہوجائیں گے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بھرپور سفارت کاری کے ذریعے یا تو افغان طالبان پر پاکستان کے اثر کے حوالے سے اشرف غنی کی غلط فہمی دور کردی جاتی یا پھر بھرپور ہوم ورک کے ساتھ طالبان سے مذاکرات کا اہتمام کرلیا جاتا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔

 پھر جب ایک دن اشرف غنی نے دوبارہ سخت دھمکی دی تو وزیراعظم نے عجلت میں متعلقہ اداروں پر دبائو ڈالا کہ وہ جلد ازجلد جہاں سے بھی ہو طالبان کے نمائندوں کو ڈھونڈ نکالیں ۔ چنانچہ ان کے حکم پر ہنگامی بنیادوں پر مری مذاکرات کا اہتمام کیا گیا جو کہ سنگین غلطی تھی ۔ ان مذاکرات کے لئے مناسب ہوم ورک نہیں کیا گیا تھا لیکن پاکستان کے ایک شہر میں ہنگامی بنیادوں پر افغان حکومت کے دبائو پر ہونے والے ان مذاکرات نے امریکہ اور افغان حکومت کی اس رائے یا الزام کو مزید تقویت دی کہ افغان طالبان نہ صرف پاکستان میں ہیں بلکہ پاکستان چاہے تو انہیں کسی بھی حل پر آمادہ بھی کرسکتا ہے ۔

چنانچہ اس کے بعد امریکہ اور افغان حکومت کا یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ افغان طالبان کو کارروائیوں سے باز رکھا جائے اور دوسری طرف مذاکرات کے دوسرے سیشن ، اس میں ملامحمد عمر یا پھر ان کے قریبی ساتھیوں کی موجودگی کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ اس دوران جبکہ دوسرے سیشن کا انعقاد ہونے کو تھا ، ملامحمد عمر کے انتقال کی خبر سامنے آگئی اور نہ صرف دوسرے مرحلے کا انعقاد کھٹائی میں پڑ گیا بلکہ افغان طالبان کی صفوں میں اپنا اعتماد بحال کرنے کے لئے نئے امیر ملااختر منصور نے مذاکرات سے بھی (وقتی طور پر سہی ) انکار کردیا۔ دوسری طرف نئی قیادت نے اپنے آپ کو منوانے کے لئے افغانستان کے اندر کارروائیاں مزید تیز کردیں ۔

کاش افغان حکومت کچھ مزید صبر کرتی لیکن افسوس کہ اس نے ردعمل میں تیزی دکھادی اور فوراً انتہاتک بھی چلی گئی ۔ ڈاکٹر اشرف غنی نے کابینہ کے اجلاس کے بعد پوری ٹیم کو پیچھے کھڑا کرکے جو پریس کانفرنس کی ، اس میں انہوں نے پاکستان پر بدعہدی اور بے وفائی کا الزام لگایا اور یہاں تک کہہ دیا کہ افغانستان کی یہ حالت بنیادی طور پر پاکستان کی وجہ سے ہے ۔ اگلے دن ان کے نائب ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے ان کی تقلید کی جبکہ رشید دوستم نے اپنے اوپر ہونے والے ناکام حملے کا الزام بھی پاکستان پر لگا دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان مخالف اور ہندوستان کے زیراثر لابی کو بھی موقع ہاتھ آگیا۔ اگلے دن سرکار کی سرپرستی میں علماء کا اجلاس بلایا گیا جس نے پاکستان کے خلاف جہاد کا فتویٰ دے دیا۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پورے افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات عروج پر ہیں ۔ گزشتہ چھ سالوں میں پہلی بار پاکستانی سفیر ، سفارت خانے میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں جبکہ دوسری طرف ہندوستانی سفیر اسی طرح سینہ تان کر افغانستان کے مختلف شہروں کے دورے کرنے لگے ہیں جس طرح کسی زمانے میں وہاں پر پاکستان کے سفیر محمد صادق کیا کرتے تھے ۔ اس سے بھی خطرناک امر یہ ہے کہ افغان حکومت کی اس ناراضی میں امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی اس کے ہمنوا ہیں بلکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ڈاکٹراشرف غنی کو اس بغاوت کی ترغیب بھی امریکہ اور جرمنی جیسے ممالک نے دی ہے ۔

اس کے شواہد یوں بھی ملتے ہیں کہ جب سے کابل سے پاکستان کے خلاف بیانات کا آغاز ہوا ہے ،تب سے امریکہ نے بھی ایک بار پھر ڈومور کا مطالبہ شروع کردیا ہے۔ امریکی میڈیا میں حقانی نیٹ ورک کا غلغلہ پھر بلند ہوگیا ہے اور فارن افیئر زمیگزین نے تو اپنے تازہ شمارے میں اپنی حکومت کویہ تک مشورہ دیا ہے کہ وہ پاکستان سے کسی خیر کی توقع نہ کرے ۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ جس طرح پاکستان میں اس مثبت عمل کو سنجیدہ نہیں لیا گیا اور اس غنیمت جیسے موقع کے بھرپور استعمال کے لئے سنجیدگی نہیں دکھائی گئی ، اسی طرح اب ہونے والی خرابی کی شدت کو بھی پاکستان میں پوری طرح محسوس نہیں کیا جارہا ۔ لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ افغانستان کی طرف سے کوئی غلطی نہیں ہوئی ۔ آج کا کالم میں نے پاکستان کی طرف سے ہونے والی غلطی یا غفلت کے لئے خاص کیا تھا۔ زندگی رہی تو اگلے کالم میں افغانستان کی طرف سے ہونے والی خامیوں اور زیادتیوں کا ذکر کروں گا۔

سلیم صافی

بشکریہ روزنامہ  جنگ 

ڈیمیان موران کی پٹیشن

$
0
0

ڈیمیان موران برطانیہ کا شہری ہے، مسیحی ہے یا لامذہب۔ ہم نہیں جانتے، مسلمان بہر حال نہیں، ہاں اس میں کوئی  شک نہیں کہ وہ ایک دردمند ، انصاف پسند اور جرآتمند انسان ہے، اسکے درد دل، انصاف پسندی و دلیری کی عکاس وہ پٹیشن ہے جو اس نے برطانیہ کی سرکاری ویب سائٹ پر لاؤنچ کی ہے، اس درخواست میں موران نے حکومت سے مطالبہ کی اہے کہ وہ آئندہ ماہ برطانیہ کا دورہ کرنے والے اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتین یاہو کو ان 2000 فلسطینیوں کے قتل میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا جائے جنھیں اسرائیلی فوج نے 2014ء میں غزہ پر اکیاون روزہ یلغار کے دوران قتل کیا تھا۔ 

اس آن لائن پٹیشن پر اب تک 80 ہزار سے زیادہ برطانوی شہری دستخط کر چکے ہیں۔ برطانیہ کے قوانین کے مطابق ملک کا کوئی بھی شہری سرکاری ویب سائٹ پر کسی معاملے پر پٹیشن دائر کر سکتا ہے جس میں وہ حکومت و پارلیمنٹ سے ایکشن لینے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ اس پٹیشن پر دستخطوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ جاتی ہے، تو اس معاملے کو پارلیمنٹ میں بحث کیلئے لایا جا سکتا ہے اگرچہ میری اور آپ کی طرح خود موران کو بھی امید نہیں کہ اسکی درخواست پر کوئی ایکشن لیا جائیگا اور برطانوی حکومت نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ برطانیہ میں غیر ملکی حکومتوں کے سربراہوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے اور انہیں گرفتار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس معاملے کا خوش کن اور امید افزا پہلو اس پٹیشن پر ہونے والے 80 ہزار سے زیادہ دستخط ہیں۔
واضح رہے کہ اس پٹیشن پر صرف برطانیہ کے شہری دستخط کر سکتے ہیں۔ ڈیمیان موران اور اسکی دائر کردہ درخواست کی دستخطوں کے ذریعے حمایت کرنے والے لوگ ایک ایسے ملک کے شہری ہیں جس کے حکمران صہیونیت کا ساتھ دیتے ہوئے اسرائیل کا قیام عمل میں لائے تھے اور نسلی تعصب ، فریب اور دہشت کی بنیاد پر بنے اور اپنا وجود برقرار رکھنے والی اس ریاست کی کھل کر سرپرستی کرتے رہے ہیں، برطانوی سلطنت کا سورج غروب ہونے والے اور امریکہ کے عالمی طاقت بن کر ابھرنے کے بعد اگرچہ امریکا اسرائیل کو برطانیہ سے گود لے چکا ہے لیکن اب بھی لندن کا حکمراں طبقہ صہیونی ریاست کی ہر ممکن مدد کرتا ہے۔ ۔برطانیہ کے انسان دوست اور انصاف پسند افراد کی جانب سے ایسی کوشش پہلی بار نہیں کی جا رہی، فلسطینیوں کے حامی برطانوی وکلاء نے اسرائیل کے وزیر انصاف  کے دورہ برطانی کے موقع پر بھی ایسی ہی کاوش کی تھی جسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

مظلوم فلسطینیوں کا معاملہ ہو یا افغانستان اور عراق کیخلاف امریکی جارحیت ، ہمیں جہاں اس سب میں مغربی ممالک کے حکمرانوں انکی افواج، سیاستدانوں اور میڈیا کا سیاہ کردار نظر آتا ہے، وہیں ان ہی دیسوں میں بسنے والے لاکھوں افراد کے روشن چہرے بھی دکھائی دیتے ہیں جنھوں نے ان مظالم اور جارحیتوں کیخلاف نہ صرف آواز بلند کی بلکہ عملی طور پر جو ممکن تھا کیا۔ عراق اور افغانستان پر امریکی حکموں کیخلاف جتنے بڑے مظاہرے مغربی ممالک کے شہروں میں ہوئے اسکے آدھے بھی مسلم دنیا میں نہیں ہو سکے۔
یہ حقائق مسلم دنیا، خاص طور پر پاکستان میں مغرب کے حوالے سے موجود سوچ کی نفی کر رہے ہیں۔ ہمارے یہاں خصاصا مذہبی طبقے میں مغرب کو خاص نظر سے دیکھا جاتا ہے اور یہ غلط فہمی عام ہے کہ مغرب کا ہر خاص و عام مسلمانوں کا دشمن ہے، یہ حقیقت ہے کہ امریکا اور یورپ کی طاقتور لابیز جو اقتدار کے معاملات چلاتی ہیں، مسلم دشمنی کی روش پر گامزن ہیں لیکن جہاں تک ان ممالک کے عام لوگوں کا تعلق ہے ، تو وہاں انسان دوست اور امن دوست افراد کی بہت بڑی تعداد آباد اور اس رجحان کے ہمارے لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ فعال ہے جسکا اندازہ برطانیہ میں سامنے آنے والی اس آن لائن پٹیشن اور اس پر ہونے والے دستخطوں سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ یہ سرگرمیاں اسکے باوجود ہوئی ہیں کہ مغربی میڈیا بڑی مہارت کیساتھ حقائق چھپاتا اور عوام کو دھوکہ دیتا ہےْ فلسطینیوں کا قتل عام ہو، عراق اور افغانستان پر حملے ہوں یا گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا معاملہ، مغربی میڈیا کا کردار ہمیشہ منافقانہ اور حقائق کی پردہ پوشی پر مبنی ہوتا ہے۔

ایسے میں نوہ غ یر جانبداری کا سوانگ رچاتے ہوئے مظلوم کے بجائے ظالم کا ترجمان بن جاتا ہے۔ اسکے باوجود مغرب کے وہ لوگ جو سچائی کی تلاش کر کے اسکی حمایت میں نکل کھڑے ہوتے ہیں قابل ستائش ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مغربی ممالک کے عوام کو فلسطین پر اسرائیلی مظالم ، کشمیر میں بھارت کے ظلم و جبر اور امریکہ کے مسلم ممالک افغانستان اور عراق پر حملوں اور ایسے ہی دوسرے اقدامات کیخلاف رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے ہم نے کیا کیا۔ برطانیہ وہ ملک ہے جس نے اسرائیل قائم کیا اور پھر اسکی سرپرستی کرتا رہا ہے، ایسے ملک کے ہزاروں شہریوں کا وہاں ہماری طرف سے کسی کوشش کے بغیر اس طرح کا اقدام کرنا خوش آئند اور قابل داد ہے۔

اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم امریکہ اور یورپ کے عوام کے سامنے حقائق لائیں تو وہاں مسلمانوں کے موقف کے حق میں رائے عامہ ہموار ہو سکتی ہے اور عوام کا دباؤ حکومتوں کو مکمل طور پر نہیں تو خاصی حد تک مسلم اور اسلام مخالف پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور کر سکتا ہے کیونکہ مغرب میں بہر حال رائے عامہ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس طرح کی تبدیلی مسلم دنیا میں سرگرم انتہا پسندوں کے دہشتگردی کے جواز اور اس نیریٹیو کو بھی چیلنج کرے گی کہ ہم ہتھیاروں اور تشدد کے ذریعے ہی اپنا موقف منوا سکتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم امریکہ اور یورپ کے عوام کو سچ بتانے کیلئے کوئی کوشش نہیں کرتے۔ یہ کام میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے مگر عالمی سطح پر مسلمان اس شعبے میں بہت کمزور ہیں بلکہ مسلم ممالک کے لوگ دوسروں کی بابت خبریں بھی مغربی میڈیا کے ذریعے جان پاتے ہیں۔

مسلمانوں کو اس شعبے پر پوری توجہ د ینی ہوگی ہمیں امریکہ اور یورپ میں انگریزی اور مقامی زبانوں میں چینل اور اخبارات لانے ہوں گے، یہ عمل کچھ طویل ضرور ہے لیکن اسکے اثرات دور رس اور دیرپا ہونگے۔ اس حوالے سے مسلم ممالک کی حکومتوں سے کوئی توقع رکھنا بیکار ہے لیکن ہم میں سے وہ لوگ جو کشمیر سے فلسطین تک جاری مظالم پر دل جلتے ہیں جو اس معاملے میں مغربی دنیا اور عالمی قوتوں کے رویے کا شکوہ کرتے ہیں وہ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا موقف مغربی دنیا کے عام آدمی تک پہنچا سکتے ہیں۔

 صرف پاکستان کے دس ملین سے زیادہ شہری فیس بک سے وابستہ ہیں، اگر دیگر مسلم ممالک کے سوشل میڈیا پر موجود افراد کا شمار کیا جائے تو یقینا یہ تعداد کروڑوں تک جا پہنچے گی، ان میں سے کیا چند لاکھ افراد بھی یہ کوشش نہیں کر سکتے۔ سوال یہ نہیں کہ حالات بدلنے کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہیے، دیکھنا یہ ہے کہ ہم کر کیا سکتے ہیںِ یہ دلید، منطق اور  حقائق ایسے ہتھیار ہیں جنھیں استعمال کر کے آپ حالات میں بڑی حد تک تبدیلی لا سکتے ہیں۔ یہ کوشش صبر آزما اور وقت طلب ضرور ہے لیکن اسکے اثرات مسلم ممالک اور دنیا کیلئے خیر کا باعث ہوں گے۔ تو آئیے خیر اور سلامتی کی تلاش میں کوششوں کا آغاز کریں۔
 
ثناء غوری

بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس 

الطاف حسین کی تقاریر، تصاویر کی نشرو اشاعت پر پابندی

$
0
0

لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل نصیر احمد بھٹہ کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم ) الطاف حسین کی تقاریر اور تصاویر کی نشر و اشاعت پر پابندی عائد کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں 

پیر کو لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس مظہر اقبال سدھو اور جسٹس ارم سجاد گل پر مشتمل 3 رکنی فل بینچ نے ایم کیو ایم قائد پر تقریروں کے ذریعے انتشار پھیلانے کے الزام سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی 

الطاف حسین کے خلاف درخواستیں ایڈووکیٹ عبداللہ ملک، ایڈووکیٹ آفتاب، ایڈووکیٹ مقصود اور دیگر کی جانب سے دائر کی گئی تھیں، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایم کیو ایم قائد نے اپنی تقاریر میں پاک فوج اورریاستی اداروں کے خلاف انتشار آمیز بیان بازی کی، لہذا ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ درج کیا جائے 

واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت مملکت پاکستان سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے اور دستور اور قانون کی اطاعت ہر شہری خواہ وہ کہیں بھی ہو اور ہر اس شخص کی جو فی الوقت پاکستان میں ہو، واجب التعمیل ذمہ داری ہے جبکہ آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی کرنے پر کسی بھی شخص پر آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلایا جاسکتا ہے 
مذکورہ کیس کی گذشتہ سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے الطاف حسین کی تقاریر کی لائیو کوریج پر تاحکم ثانی پابندی عائد کردی تھی 
 
درخواست گزار کا موقف تھا کہ الطاف حسین برطانوی شہری ہیں اور کوئی بھی غیر ملکی شہری پاکستان میں کسی سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں ہوسکتا،جبکہ انھیں پاکستانی ٹی وی چینلز پر تقاریر کرنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے 

پیر کو مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو ہدایات جاری کیں کہ تمام ٹی وی چینلز، کیبل نیٹ ورک کو الطاف حسین کی تصویر یا تقریر جاری یا نشر نہ کرنے پر پابند کیا جائے 
بعد ازاں عدالت نے  سیکریڑی داخلہ سے الطاف حسین کی شہریت کے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل آپریشنز پیمرا کو بھی ہدایات جاری کی ہیں کہ اسی دن اس حوالے سے بھی رپورٹ پیش کی جائے کہ الطاف حسین کی تقاریر و تصاویر کی نشر و اشاعت پر پابندی پر عملدرآمد کیا جارہا ہے یا نہیں 

The International Literacy Day in Peshawar, Pakistan

$
0
0
Pakistani boys attend school a day ahead of the International Literacy Day in Peshawar, Pakistan. International Literacy Day is observed on 08 September annually and the theme this year is 'Literacy and Sustainable Societies'.
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live