Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

ایک یہی گناہ باقی تھا


افغان طالبان کا مستقبل ؟

$
0
0

افغان طالبان کیلئے ملّا محمد عمر کی موت کی تصدیق کرنا ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن اُنہیں یہ مشکل فیصلہ کرنا پڑا۔ ملّا محمدعمر کی موت کی تصدیق کے بعد جلال الدین حقانی اور ملّا محمد یعقوب کی موت کے دعوے بھی کئے گئے لیکن یہ دعوے غلط ثابت ہوئے۔ عام خیال یہ تھا کہ ملّا محمد عمر کی جانشینی کے معاملے پر افغان طالبان میں پھوٹ پڑ جائے گی اور اُن کی مسلح مزاحمت بھی کمزور پڑ جائے گی۔

ملّا محمد عمر کی جگہ ملّا اختر منصور کو طالبان کا نیا امیر بنائے جانے کے اعلان پر کچھ اعتراضات سامنے آئے لیکن ملّا اختر منصور نے امارت سنبھالنے کے فوراً بعد کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات معطل کر کے اپنے آپ پر اعتراضات کی شدت کو کم کر دیا کیونکہ اعتراضات کرنے والوں کے زیادہ تر تحفظات ملّا اختر منصور کی ذات پر نہیں بلکہ کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات پر تھے۔
ملّا اختر منصور کی امارت پر اعتراضات اٹھانے والوں میں ملّا محمد عمر کے کچھ ایسے ساتھی بھی شامل تھے جن کو کچھ عرصہ سے پاکستان سے بھی شکایات ہیں۔ یہ شکایات پاکستان کیلئے کافی مشکلات کھڑی کر سکتی تھیں لیکن مغربی میڈیا اور افغان حکومت کے پروپیگنڈے نے افغان طالبان کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ملّا محمد عمر کی موت کے بعد اگر انہوں نے آپس کے اختلافات پر قابو نہ پایا اور پاکستان کے خلاف ایک نیا محاذ کھول لیا تو فائدہ دشمنوں کو ہو گا۔ دشمنوں نے دعویٰ کیا کہ ملّا محمد عمر کا انتقال پاکستان میں ہوا۔

طالبان نے اس دعوے کی تردید کی تو دشمنوں نے کہا کہ ملّا محمد عمر کو دفن تو افغانستان میں کیا گیا لیکن اُنہیں پاکستان میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس دعوے کی تردید بھی ہو گئی تو ایک نیا دلچسپ دعویٰ سامنے آیا۔ ایک صحافی نے لکھا کہ ملّا محمد عمر کراچی کی لی مارکیٹ میں آلو فروخت کیا کرتے تھے۔ ملّا محمد عمر کی کراچی اور کوئٹہ میں موجودگی کے دعوے کرنے والے آج تک اپنے موقف کو سچ ثابت کرنے کیلئے کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں لا سکے۔ بہرحال ملّا محمد عمر کی موت کے بعد طالبان کے خلاف پروپیگنڈے کے طوفان نے انہیں نقصان کی بجائے فائدہ پہنچایا اور انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات کو مل بیٹھ کر طے کرنے پر توجہ دی۔

اس سلسلے میں مولانا سمیع الحق اور ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ملّا اختر منصور سے شاکی افغان طالبان کا ایک وفد دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک پہنچا اور ملّا محمد عمر کی موت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں رہنمائی طلب کی۔ مولانا سمیع الحق نے اُنہیں باہمی اختلافات ختم کرنے کا مشورہ دیا۔ بعد ازاں مولانا صاحب نے ملّا اختر منصور سے شکوے شکایت رکھنے والے کچھ طالبان رہنمائوں سے خود بھی رابطے کئے اور آہستہ آہستہ ملّا اختر منصور کے مخالفین خاموش ہوتے گئے۔ ملّا اختر منصور کی طرف سے کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کا عمل معطل کرنے کے بعد افغانستان میں طالبان کے حملوں میں شدت آ گئی ہے۔

طالبان نے کابل میں پولیس اکیڈمی اور مغربی افواج کے ایک مرکز پر حملہ کر کے عالمی طاقتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ملّا محمد عمر کی موت کے بعد بھی طالبان ایک موثر قوت کے طور پر موجود ہیں۔ شاید انہی حملوں کا اثر تھا کہ پاکستان میں افغانستان کے سفیر اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق کے پاس جا پہنچے اور ان سے درخواست کی کہ وہ افغان طالبان کو مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے پر راضی کریں۔ مولانا سمیع الحق مذاکرات کے حامی ہیں لیکن انہوں نے افغان سفیر کو طالبان کے تحفظات سے بھی آگاہ کیا اور بتایا کہ افغانستان کی جیلوں میں طالبان کے قیدیوں پر تشدد جاری رہا تو صدر اشرف غنی کی حکومت ملّا اختر منصور کے رویے میں کسی لچک کی توقع نہ کرے۔ مولانا سمیع الحق نے ہمیشہ افغان طالبان کی سرپرستی اور ترجمانی کی ہے۔ ان کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اُن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

حال ہی میں انہوں نے افغان طالبان کے بارے میں انگریزی میں ایک کتاب شائع کی ہے جس کا نام ہے ’’افغان طالبان، وار آف آئیڈیالوجی‘‘۔ اس کتاب میں انہوں نے افغان طالبان اور ملّا محمد عمر کے بارے میں کئی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ملّا محمد عمر کے دارالعلوم حقانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تاہم وہ دارالعلوم کے دو پرانے طلبہ مولوی یونس خالص اور نبی محمدی کے شاگرد رہے ہیں۔ دارالعلوم حقانیہ نے ملّا محمد عمر کو ایک اعزازی ڈگری ضرور جاری کی۔

 اس کتاب کے مطابق ملّا محمد عمر کی دو بیویاں ہیں۔ مولانا سمیع الحق نے لکھا ہے کہ ملّا محمد عمر عورتوں کی تعلیم کے خلاف نہیں تھے البتہ وہ مخلوط تعلیم کے خلاف تھے۔ اس کتاب میں مولانا صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کے دور حکومت میں افغانستان کی پہلی باقاعدہ کرکٹ ٹیم تشکیل دی گئی اور طالبان حکومت نے پاکستان کے ذریعے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی۔

ایک برطانوی صحافی جیمز فرگوسن نے افغان طالبان کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ افغانستان کی تاریخ میں ملّا محمد عمر سے یہ اعزاز کوئی نہیں چھین سکتا کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں پوست کی کاشت کو ختم کر دیا اور سوارا جیسی رسموں پر پابندی لگائی جن کے تحت قبائلی دشمنیاں ختم کرنے کیلئے عورتوں کی زبردستی شادیاں کی جاتی تھیں۔ فرگوسن نے لکھا ہے کہ ملّا محمد عمر کے دور میں قاری برکت اللہ سلیم کابل میں ایک گرلز سکول چلاتے رہے جس میں سات ہزار طالبات زیر تعلیم تھیں۔ ملّا محمد عمر نے افغانستان میں ہندوئوں اور دیگر غیرمسلموں کے تحفظ کیلئے کئی اقدامات کئے لیکن بدقسمتی سے عالمی میڈیا میں اُن کے مثبت اقدامات کو زیادہ توجہ نہ مل سکی۔ عالمی میڈیا نے ملّا محمد عمر اور افغان طالبان کو صرف القاعدہ کے ایک سرپرست کے طور پر دیکھا۔

پاکستان کی حکومتیں تمام تر کوششوں کے باوجود ملّا محمد عمر کو القاعدہ اور اسامہ بن لادن سے علیحدہ نہ کر سکیں۔ ملّا محمد عمر نے ہمیشہ پاکستان کے مفادات کا خیال رکھا لیکن پاکستانی حکومت کی خواہشات اور گزارشات کو حرف آخر کبھی نہ سمجھا۔ 2010ء میں افغان طالبان اور پاکستانی حکومت میں کافی غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں۔ ملّا محمد عمر کے ایک قریبی ساتھی عبید اللہ اخوند ایک پاکستانی جیل میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ان کے اہل خانہ سے موت کی خبر چھپا کر اُنہیں خاموشی سے دفن کر دیا گیا۔ طالبان حکومت کے ایک اور سابق وزیر استاد یاسر بھی ایک پاکستانی جیل میں پراسرار موت کا شکار ہوئے۔ پھر ملّا محمد عمر کے ایک اور قریبی ساتھی ملّا عبدالغنی برادر کو کراچی میں گرفتار کر لیا گیا۔

مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ 2010ء میں کس پاکستانی ادارے کا کون کون سربراہ تھا لیکن افغان طالبان کو زور زبردستی سے امریکا کے ساتھ اور حامد کرزئی کے ساتھ مذاکرات پر راضی کرنے کی کوشش میں وہی لوگ ملوث تھے جنہوں نے بعد میں سی آئی اے کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرا کر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی میں غیرملکی نوکری کا بندوبست کر لیا۔ یہ وہ دور تھا جب ملّا محمد عمر کو بھارت سمیت کئی ممالک نے اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن ملّا محمد عمر تمام تر شکایتوں کے باوجود پاکستان کے بارے میں خاموش رہے تاہم افغان طالبان پر پاکستان کا اثر و نفوذ کافی کم ہو گیا۔ 

ملّا محمد عمر کی موت کے بعد طالبان اور افغان حکومت میں مذاکرات کا عمل معطل ہو چکا ہے۔ یہ عمل بحال ہونا چاہئے تاہم اس معاملے میں پاکستان کو بہت احتیاط، صدر اشرف غنی کو برداشت و حکمت اور عالمی طاقتوں کو غیرجانبداری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ افغان طالبان کی نفسیات کو سامنے رکھا جائے۔ اگر ان کے خلاف سختی کی جائے گی اور جھوٹ بولا جائے گا تو پھر جواب میں دھماکوں کی آوازیں آئیں گی۔

حامد میر
بہ شکریہ روزنامہ جنگ

A Pakistani farmer dries his corn

$
0
0
A Pakistani farmer dries his corn in a field on the outskirts of Lahore.

کیا قوم شرمسار ہے

$
0
0

گزشتہ دو چار دنوں سے جب قصور کا سانحۂ عظیم سامنے آیا ہے دماغ معطل ہو گیا ہے اور ایک سوال بار بار اپنا جواب طلب کرتا ہے کہ کیا پاکستان ہم نے ایسے ناقابل ذکر اور ناقابل برداشت حادثوں کے لیے بنایا تھا۔ ان دنوں ہم اپنی کسی آزادی کی تقریب منا رہے ہیں اور قدرت ہم سے اس قدر ناراض ہے کہ اس نے ان دنوں پوری قوم پر ایک تباہ کن سیلاب بھیج دیا ہے۔

جس نے ہماری قومی زندگی الٹ پلٹ کر دی ہے اور ہم بے رحم پانیوں کے رحم و کرم پر تنکوں کے سہارے زندگی بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کے وجود کو لاحق خطرات پر کہیں ایک مضمون پڑھتے ہوئے مضمون نگار نے قاری کو بتایا ہر سال کے تباہ کن سیلاب بھی کسی تہذیب کو ختم کر سکتے ہیں اسے ماضی کے کسی گمنام اور ہولناک گوشے میں پھینک سکتے ہیں۔ جہاں ہم نشان عبرت بن کر زندہ انسانوں کو ڈراتے رہیں۔

آج کے سعودی عرب کے ایک معروف راستے سے گزرتے ہوئے جب عاد و ثمود نامی تباہ شدہ قوموں کے کھنڈرات کے قریب سے گزرتے ہیں تو حکم ملتا ہے کہ یہاں سے جلد از جلد تیزی کے ساتھ گزر جاؤ۔ یہ مقام عبرت نہ تو توقف کا ہے اور نہ ہی ان تاریخی نشانیوں کو غور سے دیکھنے کا۔ یہ اللہ کی پناہ مانگنے کا مقام ہے۔

ہماری جن بستیوں میں سیلاب نے تباہی مچائی ہے وہاں نہ تو کوئی آبادی ہے نہ کوئی زندہ انسان رہا ہے اور نہ لکڑیوں کے ایسے ٹکڑے ہی بچے ہیں جن سے ہمارے بچے چمٹ کر زندگی بچانے کی بچگانہ کوشش کر سکیں۔ یہ سیلاب نہیں ایک بربادی ہے اور جب یہ اترتا ہے اور اس کے اندر سے زمین باہر نکلتی ہے تو اس زمین کے مالکوں کو پتہ نہیں چلتا کہ ان کی زمین کون سی تھی۔ ان کے کچے پکے مکان کہاں واقع تھے اور ان کی زندگی کن زمینی حدود کے اندر گزرتی تھی۔ بس یوں ہے کہ؎

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

ہم انھی خوابوں اور افسانوں کی مدد سے اپنی نئی دنیا پھر سے تعمیر کرنے کی سعی کرتے ہیں کسی دوسرے تباہ کن سیلاب کے لیے۔ ہمارے حکمران اس بار بار کے سیلاب کے سامنے چھوٹے بڑے بند نہیں باندھتے کہ اسے روک سکیں اور اس کی شدت کو کم کر دیں جو انسانی آبادیوں سے ذرا نرمی کے ساتھ گزر جائے، اپنے پیچھے خواب اور افسانے ہی نہ چھوڑ جائے۔

بات تو میں کوئی اور کرنا چاہتا تھا مگر قصور سے جو خبر ملی اور اپنی تاریخ کا سب سے بھیانک اسکینڈل سنا تو ہوش و حواس اڑ گئے اور بڑی کوشش کے ساتھ روزمرہ کے کام کا کوئی اور موضوع تلاش کر لیا جو خود کو بھی اس موقع اور ان حالات میں اجنبی سا لگا ہے لیکن بابا بلّھے شاہؒ کی نگری پر جو کچھ گزر گئی اسے کوئی بلھے شاہ ہی بیان کر سکتا ہے ہم نہیں۔ ہم تو بس شرمندگی سے اندر ہی اندر سے ٹوٹ پھوٹ سکتے ہیں۔

مگر حق ادا نہیں ہو سکتا۔ پٹھان خانوادوں کے محلات اور قصور سے آراستہ یہ شہر جس کو بلّھے شاہ جیسی شخصیت نے اپنی قبر کے لیے پسند کیا ہم قلم کے ناکام مزدور اس کا کیا حق ادا کر سکتے ہیں۔ ہم تو اس شاعر کے الفاظ میں اتنا ہی 

کہہ سکتے ہیں یہی دہرا سکتے ہیں کہ ؎
بلّھے شاہ اسی مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور

لیکن ہم نے بابا بلّھے شاہؒ کا احترام بالکل نہیں کیا۔ ہم شاید اس عظیم المرتبت شاعر کے اہل ہی نہ تھے کہ اس کے قرب و جوار کو ننگ انسانیت بنا دیا۔ بحث یہ چل رہی ہے کہ اس سانحے میں پولیس اور سیاستدانوں کا بھی ہاتھ تھا۔ پولیس نے شروع میں جو متضاد بیان دیے وہ خود پولیس کے خلاف ایک ایف آئی آر تھی۔ کوئی ہے جو سب کچھ چھوڑ کر پولیس کے اعلیٰ افسروں کے انھی بیانوں پر ان کو گرفتار کر لے اور کوئی حکمران ہے جس کے دل پر چوٹ پڑی ہو کہ اس کی عملداری میں اس کی رعایا کے بچوں کے ساتھ یہ کیا ہو گیا۔

ایسا تو کبھی نہیں ہوا کرتا اور اسی لیے سب نے متفقہ فیصلہ دیا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا سانحہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔ یہ تاریخی اعزاز جن حکمرانوں کو عطا ہوا ہے انھیں مبارک ہو۔ میں اپنی یادداشت پر اعتبار نہیں کرتا لیکن اس سانحہ عظیم کے شکار بچوں اور ان کے والدین کے آنسو پونچھنے کے لیے اب تک کوئی بڑا چھوٹا حکمران وہاں نہیں گیا۔

میرا تو خیال تھا کہ ہمارے حکمران وہاں ڈیرے ڈال دیں گے اور جو کچھ ان کے بس میں ہے وہ سب کر گزریں گے لیکن پتہ چلا ہے کہ اعلیٰ ترین حکمرانوں نے اس سانحہ کا صرف نوٹس ہی لیا ہے۔ ان دنوں اس نوٹس کا حوالہ بہت آتا ہے، اعلیٰ ترین عدالتیں بھی نوٹس لے لیتی ہیں اور اعلیٰ ترین حکمران بھی مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ یہ نوٹس کیا ہوتا ہے اور جب یہ لے لیا جاتا ہے تو کیا کرتا ہے۔
یہ کسی پڑھے لکھے دوست سے پوچھیں گے۔ یہ مہینہ ہماری آزادی کی یاد منانے کا مہینہ ہے اور 14 اگست قریب ہے۔ سیلاب وغیرہ پر تو ہمارا بس نہیں چلتا لیکن قصور کے اس سانحے کے ملزموں پر تو ہمارا بس یقینا چلتا ہے اور حکمرانوں کے پاس ایسے اختیارات موجود ہیں کہ وہ اس حادثے کے ملزموں کو ان کے جرم کے مطابق سزا دے سکتے ہیں۔ لیکن کیا کہیں وہ پرانی بات تو نہیں کہ جس نے یہ گناہ نہ کیا ہو وہ اس ملزم کو پتھر مارے۔

قصور کا یہ سانحہ ہماری حکومت کی کمزوری کا شاخسانہ ہے۔ اگر غلط لوگوں کو احساس ہوتا کہ ہ کیا جرم کر رہے ہیں اور اس کی سزا یقینی ہے تو شاید ایسا سانحہ اس شدت کے ساتھ پیش نہ آتا لیکن تعجب ہے کہ پولیس خود کہتی ہے کہ ایسا یہاں ہوتا رہتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا رہتا ہے تو پھر ہونے دیں اور پاکستان کے یوم آزادی کی تقریبات پر پردہ ڈال دیں تا کہ قوم شرمندہ نہ ہو۔

عبدالقادر حسن

قرضوں کی معیشت اور غریب عوام

$
0
0

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مرکزی بورڈ آف ڈائریکٹرز نے مالی سال 2014-15 کی تیسری سہ ماہی کے دوران معاشی کارکردگی کی رپورٹ جاری کردی ہے جو اب پارلیمنٹ میں جمع کرادی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’گزشتہ مالی سال کے دوران ملکی معیشت کا انحصار غیر ملکی قرضوں پر رہا، برآمدات میں کمی ہوئی، شرح نمو 5.1 فیصد ہدف کے مقابلے میں 4.25 فیصد رہی جب کہ خدمات اور صنعت کے شعبوں کی شرح نمو میں گزشتہ سال کے مقابلے میں کمی آئی، جولائی 2014 تا مارچ 2015 کے دوران ٹیکس وصولیوں میں اضافہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 5.2 فیصد کم رہا، مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 3.8 فیصد رہا جب کہ حکومتی اخراجات میں 8.3 فیصد اضافہ ہوا، مہنگائی میں کمی ہوئی، روپیہ مستحکم رہا، زرمبادلہ کے ذخائر دگنے ہوگئے۔
ملکی معیشت میں واضح بہتری آگئی، اتحاد سپورٹ فنڈ میں اچھی وصولیاں ہوئیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا تھا کہ ملک میں فی کس آمدن جو گزشتہ سال 1348 ڈالر تھی، 9.3 فیصد اضافے کے ساتھ 1512 ڈالر فی کس ہوگئی ہے۔ اور اشیا کی قیمتوں اور افراط زر میں بھی کمی ہوئی۔

ادھر اقوام متحدہ نے ایشیا اور بحرالکاہل کے لیے اقتصادی اور سماجی جائزہ رپورٹ کا اجرا کردیا ہے۔ ’’پائیدار ترقی کے لیے نمو کو زیادہ جامع بنانا‘‘ کے عنوان سے اس سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اقتصادی نمو 2014 میں بڑھ کر 4.1 فیصد ہوگئی جو گزشتہ تین برسوں میں اوسطاً 3.4 فیصد تھی۔ 2015 میں 5.1 فیصد تک بڑھنے کی توقع ہے۔
برطانوی جریدے ’’دی اکانومسٹ‘‘ کا کہنا ہے کہ پاکستانی معیشت بلندیوں کو چھو رہی ہے جس کا کریڈٹ نواز شریف کو جاتا ہے۔ اقتصادی استحکام کی فراہمی بڑی حوصلہ افزا ہے لیکن پاکستان کو سالانہ 5 تا 7 فیصد کی شرح نمو کی ضرورت ہے تاکہ وہ غربت کو ختم کرسکے کیونکہ اس وقت تقریباً ایک چوتھائی پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔

پاکستان میں آخری مرتبہ مردم شماری 1998 میں ہوئی تھی تو اس وقت ملک کی آبادی 13 کروڑ 71 لاکھ تھی۔ اس وقت ملک کی آبادی ساڑھے 18 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے جس میں ہر سال تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، ملک میں وسائل کی کمی کے باعث آبادی کا 40 فیصد طبقہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ایک تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے خوش و خرم ممالک میں پاکستان کا 81 واں نمبر ہے۔

ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ یا عالمی خوشی کی رپورٹ 2015 میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی قوم کی سماجی اور اقتصادی ترقی میں ’’خوشی اور اطمینان‘‘ کا بہت اہم کردار ہے۔ رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ حکومتوں کو منصوبہ بندی کرتے ہوئے عوام کی خوشی کو خصوصی اہمیت دینی چاہیے۔

ہمارے یہاں عوام کی خوشی کا یہ عالم ہے کہ وہ کوئی بڑی تبدیلی نہیں چاہتے۔ بس اتنا ہی چاہتے ہیں کہ پانی کی سبیل اور مٹکے کے ساتھ رکھا گلاس زنجیروں میں جکڑا نہ ہو، سجدہ کرتے ہوئے اس کا دھیان جوتوں کی چوری کی طرف نہ ہو، دو وقت کی روٹی کی خاطر کسی کو اپنی عصمت نہ بیچنی پڑے، کسی معصوم کے کاندھے پہ بوٹ پالش کا باکس نہ ہو، کوئی بڑا انقلاب، کوئی بڑی تبدیلی نہیں چاہتے۔

محض اتنا چاہتے ہیں کہ پٹرول کی قیمت چیتے کی رفتار سے تیز تر نہ ہو، سونے کی قیمت ہرن کی رفتار کے مانند نہ ہو، سبزی کی قیمتیں کینگرو کی رفتار کی طرح اچھلتی ہوئی نہ ہوں، بجلی، گیس اور ٹیلی فون کے بلز خرگوش کی رفتار کی مانند نہ ہوں، ملازمین اور مزدوروں کی تنخواہیں کچوے کی چال کے موافق نہ ہوں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عوام پینے کے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، انسانی جان و مال عدم تحفظ کے شکار ہیں، روزگار کے دروازے بند ہیں، مہنگائی نے لوگوں کو خودکشی و ڈکیتی کرنے پر مجبور کردیا ہے جو ایسا نہیں کرسکتے وہ زندہ درگور ہیں۔

یہ معیشت کی کیسی ترقی ہے اشیائے ضرورت کی قیمتیں سرکاری نرخ کے بجائے من مانی قیمتوں پر فروخت کی جا رہی ہیں۔ ٹماٹر، توری، لوکی، گوبھی 60 روپے کلو، کھیرا 80 روپے کلو، بھنڈی 100 روپے کلو، لہسن 160 سے بڑھ کر 220 روپے کلو، ادرک 240 روپے کلو ، دھنیا پودینہ 40 روپے پاؤ، پھول گوبھی 80 روپے کلو، سلاد کے پتے کی قیمت 20 روپے پاؤ کی قیمت پر فروخت کی جا رہی ہے۔

بکرے، گائے اور مرغی کا گوشت غریب طبقے کی پہنچ سے دور ہیں، دال کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ چینی 64 روپے میں فروخت کی جا رہی ہے، پیاز 30 روپے کلو، آلو 20 روپے کلو، چنے کی دال 85 روپے کلو، بیسن کی قیمت 95 روپے کلو، آٹا 45 روپے کلو، دودھ 80 روپے لیٹر، چاول 80 سے 140 روپے کلو میں فروخت کیے جا رہے ہیں۔ صحت کے لیے پھل ضروری ہیں جو غریبوں کی دسترس سے دور بہت دور کردیے گئے ہیں۔ اسی طرح دیگر اشیا کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ مہنگائی مافیا کو لوٹ مار کا لائسنس دے دیا گیا ہے۔

پٹرول کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ اور کمی آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ مصنوعی مہنگائی کی یہ لہر گھر گھر قیامت برپا کر رہی ہے، جمہوری حکومتیں عوام کو ریلیف دینے کے طریقے ڈھونڈتی ہیں مگر یہ جمہوری حکمران عوام سے ریلیف بھی چھین رہے ہیں۔ مہنگائی کا یہ عفریت غریبوں کا خون خشک کر رہا ہے، مہنگائی کا گراف بہت ہی بلند ہے، خوردونوش کی اشیا قوت خرید سے باہر ہوچکی ہیں غریب آدمی کی پریشانیاں انتہا کو پہنچ چکی ہیں، لوگوں کو ابھی دو وقت کا کھانا نصیب نہیں رہا، عوام کی محرومیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ 77 لاکھ خاندان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔

مہنگائی کے باعث ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد بچے محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ملک میں ساڑھے 37 لاکھ محنت کش بے روزگار ہیں ملک کا 45 فیصد پڑھا لکھا طبقہ بے روزگار ہے، اگر مہنگائی کو قابو نہیں کیا جاسکتا تو پھر تنخواہیں اس قدر بڑھائی جائیں تاکہ غریب عوام زندہ رہ سکے اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو پھر مہنگائی کے ایٹم بم کی بجائے دشمن کے لیے بنائے گئے ایٹم بم ہی سے کام لیا جائے تاکہ سسک سسک کر مرنے سے بچا جا سکے۔

شبیر احمد ارمان

امریکا کی اتحادی سپورٹ فنڈ میں دلچسپی ختم

$
0
0

امریکا نے پاکستان کو عندیہ دیا ہے کہ اتحادی سپورٹ فنڈ (سی ایس ایف) میں 2015 کے بعد مزید توسیع کا امکان نہیں۔
دفاعی ذرائع کے مطابق ،منگل کو یہاں وزارت دفاع میں 23ویں دفاعی مشاورتی گروپ (ڈی سی جی) کے اجلاس میں سی ایس ایف کے مستقبل کا معاملہ زیر غور آیا۔

اجلاس میں محکمہ دفاع اور خارجہ حکام پر مشتمل امریکی وفد کی قیادت پرنسپل ڈپٹی سیکریٹری برائے دفاع کیلی میگسا مین نے کی ۔
سی ایس ایف انتظام کے تحت ، امریکا پاکستان کو افغانستان میں اپنے آپریشنز کی براہ راست معاونت پر اٹھنے والے اخراجات ادا کرتا ہے۔ 2001 کے بعد سے امریکا اب تک اس مد میں پاکستان کو 13 ارب ڈالرز ادا کر چکا ہے۔
  افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے ساتھ ہی یہ انتظام ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن امریکی حکومت نے قانون سازی کرتے ہوئے اس میں مزیدایک سال کی توسیع کر دی۔

اضافی شرائط کے ساتھ توسیع شدہ پروگرام کے تحت پاکستان کو ایک ارب ڈالرز تک ادائیگی ہو سکتی ہے۔
ڈی سی جی اجلاس میں پاکستان نے مسلسل درپیش چیلنجز کی وجہ سے پروگرام میں مزید توسیع کی درخواست کی ۔
پاکستان حکومت اس فنڈ کو اپنے سیکیورٹی اخراجات کے ساتھ ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے کیلئے استعمال کرتی رہی ہے۔
ایک ذرائع نے بتایا کہ امریکا کی جانب سے پروگرام جاری رکھنے میں عدم دلچسپی کی وجہ مشرق وسطی میں داعش کی وجہ سے اس کی بدلتی ترجیحات ہیں۔

فورم میں گفتگو کرتے ہوئے سیکریٹری دفاع لفٹیننٹ جنرل (ر) عالم خٹک نے علاقائی سیکیورٹی میں پاکستان کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ’پاکستان خطے کے استحکام کیلئے جاری لڑائی میں صف اول ہے ۔۔۔پاکستان کی مسلح افواج آپریشن ضرب عضب جاری رکھتے ہوئے خطے سے دہشت گردوں کو پاک کرنے کیلئے پرعزم ہیں‘۔

ذرائع کے مطابق، پاکستان کو فوج آپریشن جاری رکھنے اور آئی ڈی پیز کی بحالی کیلئے مسلسل امداد کی ضرورت ہے۔
ملک کے قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن کی وجہ سے تقریباً بیس لاکھ لوگ بے گھر ہوئے ہیں جن کی 100 ارب روپے کی مدد سے بحالی کا کام جاری ہے۔
تکنیکی طور پر آئی ڈی پیز کی بحالی سی ایس ایف کے تحت نہیں لیکن پاکستانی حکام سی ایس ایف پروگرام کو جاری رکھنے کا کیس مضبوط بنانے کیلئے اس مسئلہ کو بھی سامنے رکھتے ہیں۔

پاکستان نے سی ایس ایف کو  بدلنے کیلئے2014 میں لابنگ کی تھی اور ابتدا میں امریکی انتظامیہ نے اس تجویز میں دلچسپی بھی لی ۔ تاہم، پاکستانی حکومت کی جانب سے معاملہ کو سیاسی سطح پر اٹھانے میں ناکام کے بعد مزید پیش رفت نہ ہو سکی۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ امریکا کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ داعش اس خطے کیلئے بھی شدید خطرہ بنتی جا رہی ہے۔

اجلاس کے بعد وزارت دفاع کے ایک جاری بیان میں بتایا گیا کہ امریکی وفد نے تسلیم کیا کہ اتحادی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان نا صرف خطے میں استحکام کا ایک عنصر ہے بلکہ وہ علاقے میں امن کیلئے کوششوں میں بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

بیان کے مطابق، اجلاس کے شرکا نے امید ظاہر کی کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان دفاعی تعاون سے متعلق تصفیہ طلب مسائل جلد حل کر لیے جائیں گے۔تاہم،بیان میں کہیں بھی ان مسائل پر روشنی نہیں ڈالی گئی۔

اصول پسند لوگ سیاست کیلئے قابل قبول نہیں

کردوں کی تاریخ پر ایک نظر

$
0
0

آج ایسے موضوع پر قلم اٹھا رہا ہوں جس پر چند سال قبل ترکی میں بیٹھ کر کچھ لکھنا ممکن ہی نہ تھا لیکن جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی ( آق پارٹی) کے 2002ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد حالات نے پلٹا کھانا شروع کردیا اور ترکی میں آباد کردوں نےنا صرف ترکی بلکہ دنیا بھر میں اپنی آواز پہنچانا شروع کردی۔ تین کروڑ پچھتر لاکھ کردوں کی اکثریت ترکی،عراق، شام اور ایران کے ان علاقوں میں آباد ہے جو کردوں میں کردستان کے نام سے مشہور ہے۔ اسکے علاوہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے کردوں کی آبادی ایک کروڑ ہے۔ کرد ساتویں صدی میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ کردوں میں یزدانی اور یزیدی عقائد کے کئی فرقے ہیں لیکن اکثریت ان کی سنی شافعی عقیدے سے تعلق رکھتی ہے۔

ایران میں کردوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ سترویں صدی سے شروع ہوا تھا جب شاہ عباس نے کردوں کو بڑے پیمانے پر زبردستی خراسان سےجلا وطن کردیا تھا اور پھر انیس سو چھیالیس میں قاضی محمد کی قیادت میں بغاوت ہوئی اور کردوں نے’’ مہا آباد جمہوریہ‘‘ کے نام سے پہلی کرد مملکت قائم کی جو جلد ہی زمین بوس ہو گئی اور اسکے بانی قاضی محمد کو کھلے عام پھانسی دیدی گئی۔ رضا شاہ پہلوی دور میں ایران میں کردی زبان بولنے پر پابندی عائد کردی گئی اور 1979ء میں آیت اللہ خمینی نے کردوں کیخلاف جہاد کا اعلان کرتے ہوئے کردوں کی کارروائیوں کو مکمل طور پر کچل دیاا۔ اسی طر ح 1960ء تا 1975ء تک شمالی عراق میں کردوں نے مصطفیٰ برزانی (مسعود برزانی کے والد) کی قیادت میں اپنی جدو جہد کے نتیجے میں خود مختاری حاصل کی لیکن 1991ء میں صدر صدام نے اس علاقے پر اپنی مکمل حاکمیت قائم کرتے ہوئے کردوں پر ایسے ظلم ڈھائے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔
اس دوران عراق اور ایران کے درمیان جنگ چھڑ گئی لیکن کردوں کیخلاف کارروائی جاری رہی اور جنگ کے خاتمے پرحکومتِ عراق نے 1988ء میں کردوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے انکے خلاف زہریلی گیس کا استعمال کیا جس کے نتیجے میںہزاروں کی تعداد میں کرد مارے گئے۔ دوسری صلیبی جنگ کے عظیم فاتح حکمران صلاح الدین ایوبی ( جو کرد نژاد ہیں کا تعلق بھی صدام حسین کے آبائی شہر تکریت سے تھا ) جنہوں نے بارہویں صدی میں تیونس سے لیکر بحیرہ کسپئین کے ساحل تک وسیع مملکت قائم کر رکھی تھی۔ ان کے بعد کسی بھی کرد رہنما کو کردوں کیلئے اپنی آزاد مملکت قائم کرنے کو موقع ہی نہ مل سکا۔ترکی کے مشرقی علاقے ’’کوہ آعری‘‘ میں حضرت نوح علیہ اسلام کی کشتی اور اور ان کی دس گز لمبی قبر کے نشان کی وجہ سے کرد باشندوں کا تعلق حضرت نوح علیہ سلام کی اولاد سے بتایا جاتا ہے۔

انیس سوپندرہ اور انیس سو اٹھارہ میں ترکی کے کردوں نے سلطنت عثمانیہ سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار انہیں کچل دیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد جب سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو اس زمانہ کے امریکی صدر وڈرو ولسن نے کردوں سے ان کی آزاد مملکت کے قیام کا وعدہ کیا اور 1920ء کے معاہدہ سیور میں ایک آزاد کرد مملکت کی تجویز بھی شامل کرلی گئی لیکن برطانیہ فرانس اور ترکی نے اس تجویز کو ناکام بنادیا ۔سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مشرق وسطی میں کئی نئی آزاد مملکتیں وجود میں آئیں لیکن آزاد خودمختار مملکت کے بارے میں کردوں کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا ۔
ترکی کی جنگ نجات کے دوران مصطفی ٰکمال اتاترک نے کردوں کیساتھ مل کر اپنی آزادی کی جدو جہد کو جاری رکھا اور کردوں کا اعتماد بھی حاصل کر لیا لیکن جدید جمہوریہ ترکی کے قیام کے بعد 1925ء میں شیخ سعید کی قیادت میں کردوں نے بغاوت کھڑی کردی لیکن حکومتِ ترکی نے سختی سے اس بغاوت کو کچل دیا اور پھر 1937ء میں بھی کردوں نے تُنجے لی میں شورش برپا کردی جسے شدید بمباری سے دبا دیا گیا اور اُس وقت سے کردوں کے خلاف سخت پالیسی اختیار کی گئی اور ان کے تشخص کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور انھیں ’’پہاڑی ترک‘‘ قرار دیکر ترک معاشرے میں ضم کرنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن کردوں نے اپنے تشخص کو قائم رکھا ۔

آق پارٹی کے دورِ اقتدار سے قبل کردی زبان میں کھلے عام بات کرنا ، گانے گانا یا اشاعت و نشریات کا سوچنا بھی ممکن نہ تھا۔ سرکاری اداروں میں کردی زبان میں بات چیت کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا ۔ اس بارے میں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اگرکسی کرد باشندے سے کوئی جرم سرزردہوجاتا اور اسے سلاخوں کے پیچھے جانا پڑتا تو جیل میں اسے ملنے کیلئے آنے والے والدین صرف اسی صورت میںبات چیت کرسکتے جب یہ سب ترکی زبان بولتے ہوں۔ لیکن آق پارٹی جس کے کئی ایک اراکین خود بھی کرد ہیں نے ان پابندیوں کو ختم کروانے میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا ۔

 آق پارٹی نے قومیت پسند جماعتوں کے شدید دبائو کے باوجود کردوں کے تمام مسائل کو حل کرنے کی جانب توجہ دینے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوان کے دور میں کردوں کے جتنے مسائل حل ہوئے ہیں شاید اس سے قبل ان کے حل کے بارے میں سوچنا بھی ممکن نہ تھا بلکہ اس بارے میں وزیر اعظم ایردوان نے (صدر بننے سے قبل) بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ"ہمیں کردوں کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے چاہے کتنا ہی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے ہم یہ نقصان اٹھانے کیلئے تیار ہیں کیونکہ ہم اس مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حل کرنا چاہتے ہیں۔"

 حکومت ترکی اور دہشت گرد تنظیم ’’پی کے کے‘‘ کے درمیان طے پانے والے فائر بندی کے سمجھوتے پر دو سال تک عمل درآمد بھی ہوتا رہا لیکن 7 جون 2015ء کے انتخابات سے قبل آق پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے ’’کرد نام کا کوئی مسئلہ موجود نہیں ہے‘‘دیئے جانیوالے بیانات سے آق پارٹی کو 2015ء کے انتخابات میں اسکا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا اور ترکی کی تاریخ میں پہلی بار کردوں کی پارٹی، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی  دس فیصد ووٹ حاصل کرنے کی حد کو عبور کرتے ہوئے با آسانی پارلیمنٹ پہنچنے میں کامیاب ہوگئی اور اس نے پارلیمنٹ کی 80 نشستیں بھی حاصل کر لیں جبکہ ترکوں کی قومیت پسند جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی  بھی صرف 80 نشستیں ہی حاصل کر سکی۔

 ان دونوں جماعتوں میں سے  کے بارے میں ’’دہشت گردی سے پروان چڑھنے والی جماعت‘‘ اور  کے بارے میں "شہیدوں کے لہو سےپروان چڑھنے والی جماعت"کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں پارلیمنٹ کے اندر ترک اور کرد قومیت پسندوں کی نمائندہ ہیں اور ان دونوں جماعتوں ہی کی بدولت ملک میں قومیت پسندی کو ہوا مل رہی ہے ۔ آق پارٹی نے 2015ء کے انتخابات میں پہنچنے والے نقصان اور کی جانے والی غلطیوں سے سبق حاصل کرنا شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں  پر اپنے دبائو میں بھی اضافہ کر لیا ہے۔

حکومت نے اس سلسلے میں یکطرفہ طور پر فائر بندی کا خاتمہ کرتے ہوئے دہشت گرد تنظیم  کے شمالی عراق میں موجو د ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا جبکہ اس دوران دہشت گرد تنظیم  نے بھی ملک کے مختلف حصوں میں فوجیوں اور حفاظتی قوتوں کے اہلکاروں کو شہید کرنے اور نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور اب آق پارٹی  کے اراکین کی  ختم کروانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس پر  کے چیئرمین صلاح الدیندیمیر تاش نے بیان دیتے ہو ئے کہا ہے کہ ’’آق پارٹی سول بغاوت کی راہ ہموار کر کے اپنی سیاسی ساکھ کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے تاکہ قبل از وقت انتخابات میں  کو پارلیمنٹ سے دور رکھتے ہوئے اپنی کھوئی ہوئی پوزیشن کو دوبارہ حاصل کیا جاسکے۔ 

ڈاکٹر فرقان حمید

بشکریہ روزنامہ "جنگ


ود ہولڈنگ ٹیکس جہاں آمدنی وہاں ٹیکس کا متبادل نہیں

دنیا کے کامیاب ترین افراد کن مضامین کا مطالعہ کرتے ہیں؟

$
0
0

کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر آپ ملک کا رہنما بننا چاہتے ہیں تو آپ کو کس قسم کی ڈگری کی ضرورت ہو گی، یا کیا آپ جانتے ہیں کہ یونیورسٹی کا تجربہ گریجویشن کے بعد آپ کی کامیابی پر اثر انداز ہو سکے گا۔ایسے بہت سے سوالات کے جوابات برٹش کونسل کی حالیہ تحقیق نے دئیے ہیں، جس میں ماہرین نے تجویز کیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کا تجربہ کسی بھی رہنما کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ 

برٹش کونسل کے نتائج 30 ممالک کے تعلیمی پس منظر کے حامل 1,700 افراد پر مبنی ہے جن کا تعلق کارپوریٹ، غیر منافع بخش اداروں اور حکومتی پس منظر سے تھا۔مطالعہ میں10پیشہ وارانہ ’لیڈرز‘ یا قائدین کے انٹرویوز بھی شامل تھے، جن سے پوچھا گیا تھا کہ کیا ان کی اعلیٰ تعلیم نے انھیں متعلقہ شعبے میں ترقی کی منزل تک پہنچانے میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔ ماہرین نے کہا کہ نتائج کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف تعلیم ہی کامیابی کا واحد راستہ ہے، جیسا کہ دنیا کے بہت سے کامیاب ترین لوگوں کے پاس یونیورسٹی کی ڈگری نہیں ہے ان میں مشہور کاروباری شخصیات فیس بک کے شریک بانی مارک زکربرگ اور رچرڈ برینسن کا نام شامل ہے،تاہم ہمارا مطالعہ ان رہنماؤں اور کامیاب افراد پر ہے جنھوں نے اپنی ڈ گریاں مکمل کی ہیں اور ان کی اعلیٰ تعلیم نے انھیں کامیاب بنانے میں مدد کی ہے۔ 
نصف رہنماؤں سے زائدنے سوشل سائنس اور ہیومینیٹیز کا مطالعہ کیا:تحقیق سے پتا چلا کہ نصف سے زائد 55 فیصد رہنماؤں نے سوشل سائنس (سماجی سائنس) اور ہیو مینیٹیز (غیر سائنسی علوم ) کا مطالعہ کیا تھا۔ ان میں سے 44 فیصد نے سوشل سائنس اور 11 فیصد نے ہیو مینیٹیز میں ڈگری حاصل کی تھی جبکہ جو لوگ سرکاری ملازمتوں پر فائز تھے، ان میں سوشل سائنس کے مطالعے کے امکانات زیادہ تھے، اسی طرح غیر منافع بخش تنظیموں سے وابستہ افراد ہیومینیٹیز کا پس منظر رکھتے تھے۔

 نوجوان رہنما جن کی عمریں 45 برس سے کم تھیں، ان کا پس منظر سماجی سائنس اور ہیومینیٹیز سے تھا، لیکن اس کے برعکس بڑی عمر کے رہنماؤں نے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کا مطالعہ کیا تھا۔ کامیاب کیرئیر کے لیے کوئی ایک مضمون ذمہ دار نہیں تھا:ماہرین نے کہا کہ ہمارے نتائج یہ تجویز نہیں کرتے ہیں کہ خاص تعلیمی نظم و ضبط کیرئیر کی کامیابی کی طرف قیادت کرتا ہے۔جو لوگ حکومت میں تھے ان میں سوشل سائنس پڑھنے کا امکان تھا اور جو غیر منافع بخش اداروں کے لیے کام کرتے تھے ان کے پاس ہیومینیٹیز کی ڈگری تھی۔

 کیرئیر کی کامیابی میں غیرنصابی سرگرمیوں کا کردار

ماہرین نے کہا اعلیٰ تعلیم براہ راست سیکھنے کے مقابلے میں زیادہ تجربہ فراہم کرتی ہے، جیسا کہ طالب علم جانتے ہیں کہ وہ اپنے تعلیمی مطالعے سے باہر کی سرگرمیوں اور تجربات سے نئی مہارتیں سیکھتے ہیں اسی حوالے سے ان دس رہنماؤں سے پوچھا گیا تھا کہ کیا ان کی غیر نصابی سرگرمیوں کا ان کی کامیابی میں حصہ ہے اس سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ کھیلوں کے ذریعے انھوں نے نظم و ضبط اور مسابقتی دوڑ کو سیکھا ہے، جبکہ یونیورسٹی میں مختلف ثقافتوں کے ساتھ مطالعہ کا تجربہ اور یونیورسٹی کے ماحول نے انھیں کاروباری یا تخلیقی بنانے کے لیے حوصلہ افزائی کی ہے۔ 

بین الاقوامی تجربہ ضروری ہے

نتائج سے ظاہر ہوا کہ تقریباً نصف 46 فیصد رہنماؤں نے بین الاقوامی تعلیم یا ملازمت کا تجربہ حاصل کیا تھا۔ جتنی اعلیٰ سطح کی ان کی ڈگری تھی اتنا ہی ان میں بیرون ملک تعلیم کا امکان زیادہ تھا۔ ان کامیاب افراد نے زیادہ تر بیرون ملک سے ماسٹرز کی ڈگری یا پیشہ ورانہ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی جبکہ سب سے مقبول مطالعہ کی منزل امریکہ اور برطانیہ ہیں۔کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ میں ہیومینیٹیز گریجویٹس کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔رہنماؤں میں ہیومینیٹیز میں گریجویٹس کی سب سے بڑی تعداد کینیڈا سے آئی تھی، اس کے بعد برطانیہ اور امریکہ سے 19 فیصد، پولینڈ، روس اور یوکرین سے 18 فیصد اور چین، جاپان اور جنوبی کوریا سے 16 فیصد رہنماؤں نے غیر سائنسی علوم میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی تھی۔

 مصر، سعودی عرب اور ترکی کے رہنماؤں میں بیرون ملک تعلیم کا امکان ز یادہ تھا: نتائج سے انکشاف ہوا کہ مصر، سعودی عرب اور ترکی سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں میں 71 فیصد بین الاقوامی تعلیمی تجربے کا امکان تھا، جبکہ ان کے مقابلے میں کینیڈین، برطانوی اور امریکی رہنماؤں کی ایک چوتھائی تعداد بیرون ملک سے تعلیم یافتہ تھی۔ آسٹریا، جرمنی، نیدرلینڈ میں 96 فیصد اور ارجنٹینا، برازیل اور میکسیکو کے رہنماؤں میں اپنے ملک میں تعلیم حاصل کرنے کے امکانات 91 فیصد پائے گئے۔
 
نصرت شبنم

Independence Day celebrations : Excellent fireworks display

$
0
0
Fireworks as part of celebrations of Pakistan's Independence Day, in Lahore, Pakistan, on the early hours of August 14, 2015. Pakistan celebrates its 68th independence anniversary from British rule in 1947.

Wagah Border Pakistan Independence Day Ceremony

$
0
0
 Wagah Border Pakistan Independence Day Ceremony









بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی یادگار تصاویر

غریبوں سے چنگ چی بھی چھین لی گئی

$
0
0

بے آس اور تھکان زدہ چہرے، انتظار کی کوفت سے سلگتے دماغ، ٹکٹکی باندھے بس ’اسی کے منتظر ہیں جس کے شہر کی سڑکوں پر دندنانے کو سندھ ہائیکورٹ نے پابندی عائد کردی ہے۔ جی ہاں بالکل، اِس شہرِ قائد کی شاہراؤں کی رونق اور حادثات دونوں ہی کی وجہ ’’روڈ راجہ چنگ چی‘‘ کی راہ تک رہے ہیں اور وہ بسیں جنہیں کل تک یہ شہری خاطر میں نہیں لاتے تھے آج مسافروں سے لدھی پھندی ایک شان سے آتی ہیں اور شانِ بے نیازی سے آگے بڑھ جاتی ہیں اور تو اور آج بس ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کے تیور بھی بدلے بدلے سے ہیں۔ جو کل تک چیخ چیخ کر نیپا، ٹاور، صدر، جامع اور یونیورسٹی تک کی دعوت دیا کرتے تھے آج ذرا بس اسٹاپ تک پر رکنا اپنی شان کیخلاف سمجھ رہے ہیں گویا مسافر اُڑ اُڑ کر سوار ہوںگے۔
 
شہر قائد جہاں لگ بھگ روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں افراد حصولِ معاش، حصول علم اور  کاروبار کے لئے طویل فاصلے طے کرتے ہیں۔ وقت بچانے کیلئے ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد اور سہولت کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچ سکے۔ اس لئے شہریوں کی بڑی تعداد نے مسافر کوچوں اور مزدا میں سفر کرنے کے بجائے تین پہیوں والی سواری یا چنگ چی رکشہ کے سفر کو ترجیح دینا شروع کردی۔ جس کی وجہ سے گزشتہ 2 برسوں کے دوران کراچی میں چنگ چی رکشوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا اور تقریباً 70 ہزار سے زائد چنگ چی رکشوں نے سڑکوں پر گشت شروع کردیا۔ 
جہاں ایک طرف تو ان چنگ چی رکشوں نے نہ صرف عوام کو زیادہ سے زیادہ 30 روپے کے عوض طویل اور اپنی برق رفتاری اور سیٹ بائی سیٹ کی پالیسی سے مستفیض کیا بلکہ بسوں کے اذیت ناک سفر سے بھی چھٹکارا دلایا۔ لیکن جس طرح ہر چیز مکمل طور پر فائدے مند نہیں ہوتی بالکل یہی معاملہ اِن چنگ چیوں کے ساتھ بھی ہے کیونکہ سڑکوں پر اِن کی موجودگی نے ٹریفک حادثات کا گراف بھی اونچا کردیا ہے۔ ٹریفک قوانین کی پاسداری اور مٹھی گرم کے کلچر سے ان چنگ چی رکشہ برادری نے بھی خوب فائدہ اٹھایا، جہاں سینگ سمائے کے مصداق جب اور جہاں کی بنیاد پر تھوڑی سی بھی جگہ میسر آئی وہیں ٹریفک کی روانی کو درہم برہم کرتا ہیوی ٹریفک کو ڈاج دیتا ہوا جلدی جلدی اپنی منزل کی طرف رواں دواں، جس سے مسافر بھی خوش، چنگ چی ڈرائیور بھی سکھی، ٹریفک پولیس تو ہے ہی مطمئن تو پھر آخر وہ کونسی وجہ ہے کہ جس کی بنیاد پر غریب مسافر سے یہ سہولت واپس لے لی گئی؟ کیوں سندھ ہائیکورٹ کو ان چنگ چی رکشوں پر پابندی عائد کرنا پڑی؟

وجہ کوئی نئی نہیں بلکہ وہی پرانی یعنی روٹ پرمٹ، رجسٹریشن اور فٹنس سرٹیفکیٹ کے بغیر چلنے والے موٹر سائیکل چنگچی رکشوں کے خلاف کارروائی ہے۔ جس کے حل کے طور پر جرمانے، چالان اور رکشے بند کیے جائیں گے۔ یہ کوئی نئی وجہ نہیں بلکہ اس سے قبل 2014 میں بھی سندھ ہائیکورٹ نے ان چنگچی رکشہ کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے ان پابندی عائد کی تھی جسے چنگچی رکشہ مالکان نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کرکے حکم امتناع حاصل کرلیا تھا۔
درحقیقت ہمارا معاملہ یہ ہے کہ پہلے کام کرتے ہیں اور پھر سوچتے ہیں کہ یہ کرنا چاہیے تھا نہیں۔ اگر پہلے سوچ لیں تو اتنے مسائل کبھی نہ ہوں۔ اِس معاملے میں بھی یہی ہوا۔ جن لوگوں نے اِس رکشوں کو سڑکوں پر لانے کی اجازت دی ہے اصل مجرم تو وہ ہیں؟ آخر کیونکر اُنہوں نے اِن رکشوں کی فٹنس کو صحیح طرح چیک نہیں کیا؟ اگراسی وقت قانون شکنی پر سختی سے کارروائی کرلی جاتی اور فٹنس سرٹیفیکٹ کی چیکنگ کا عمل باقاعدہ رکھا جاتا تو ایسی  صورتحال کبھی نہ درپیش آتی۔ لیکن اب جب ہزاروں افراد اِس کام سے برسرِ روزگار ہوگئے ہیں تو اب سب کو قانون یاد آرہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اِس موقع پر عوام کو مصیبت میں ڈالنے کے بجائے اس سسٹم میں بہتری لائی جاتی اور درجہ بدرجہ نظام کو بہتر کیا جاتا، لیکن ہزاروں افراد کی روزی پر لات مارتے ہوئے پابندی عائد کردی گئی۔

اس سب میں نقصان تو شہریوں کا ہی ہے، بڑھتی ہوئی آبادی اور گھٹتی ہوئی بسوں کی تعداد سے براہِ راست تو عوام ہی متاثر ہوتے ہیں۔ حکومت خود تو کبھی اس معاملے کو سنجیدہ لیتے ہوئے اس کے سدباب کے لئے کچھ نہ کرسکی۔ اس سے قبل جب نعمت اللہ خان کراچی کے ناظم تھے تو سی این جی بس سروس متعارف کروائی گئی تھی۔ اہلِ کراچی کیلئے یہ بس سروس تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند تھی جس میں لوگ ٹھونسنے اور چھتوں پر بٹھانے کے بجائے لوگ نئی کراچی سے ٹاور تک کا سفر 15 روپے میں کیا کرتے تھے وہ بھی ٹھنڈی مشین میں، لیکن پھر ہوا کیا؟ وہ بس سروس بھی نہ جانے کن ناعاقبت اندیشیوں کے سبب ماضی کا حصہ بن کر رہ گئی۔ اِن سب رسوائیوں کی وجہ وہی ہے یعنی باقاعدہ نظام کا نہ ہونا اور قوانین کی عملی پاسداری کا فقدان ہے جس کا خمیازہ غریب عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔
لیکن اِس پابندی پر ایک گروہ بہت خوش ہے۔ جشن منا رہا ہے۔ جانتے ہیں وہ کون لوگ ہیں؟ جن کے پاس اپنی گاڑی ہے، جو ٹھنڈی گاڑیوں میں جب بھی جہاں بھی جانا چاہیں باآسانی جاسکتے ہیں۔ لیکن ایک مسئلہ تھا، اور وہ مسئلہ تھا چنگ چیوں کا سڑکوں پر سفر کرنا؟ وہ کیوں؟ ارے وہ اِس لیے کہ جب وہ اپنی گاڑیوں میں سکون سے سفر کرتے تھے تو بیچ میں یہ چنگ چیاں آجایا کرتی تھی اور اِس طرح اُن کے سکون میں خلل پیدا ہوجاتی تھی۔

 لیکن ایسے تمام لوگوں سے جنہوں نے ایک گزارش ہے، ایک دن گاڑی چھوڑ کر بسوں میں سفر کریں اور اُن لوگوں کو احساس کریں جنہیں جانوروں کی مانند بسوں میں بھرا جاتا ہے، جن کا مقدر اعصاب شکن سفر ٹھہرادیا گیا۔ اگر حکومت کو ان چنگ چی رکشوں پر پابندی لگانی ہی ہے تو پہلے چنگ چی ڈرائیوروں کو باعزت روزگار فراہم کرے اور ساتھ ساتھ ان 2 کروڑ عوام کے لئے ابتدائی طور پر 70  ہزار چنگ چی رکشوں کے متبادل کم از کم 5 ہزار منی بسیں چلائے تاکہ کچھ مداوا ہوسکے ورنہ کب تک ٹرانسپورٹ کی کمی کے باعث یہ غریب اور متوسط طبقہ کوفت اور اذیت میں مبتلا اپنے قیمتی وقت کا نا قابل تلافی نقصان کرتے رہیں گے۔

خوشنود زہرا

شہید ڈی ایس پی شوکت شاہ گیلانی 15کتابوں کے مصنف تھے...

$
0
0

 اٹک میں صوبائی وزیرداخلہ شجاع خانزادہ پر خودکش حملے میں ان کے ہمراہ شہید ہونیوالے ڈی ایس پی شوکت شاہ گیلانی ماسٹر ڈگری ہولڈر، شاعر اور 15 کتابوں کے مصنف تھے۔

ڈی ایس پی شوکت شاہ گیلانی روات کے علاقے ہرکہ گاؤں چک بیلی روڈ کے رہائشی اور سابق پولیس سپرٹنڈنٹ نیاز حسین شاہ کے فرزند تھے۔ انہوں نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے ایم ایس سی کی اور 1998 میں پی سی ایس کے تحت پنجاب پولیس میں انسپکٹر بھرتی ہوئے۔ اٹک سمیت کئی اضلاع کے تھانوں میں ایس ایچ او تعینات رہے۔ شوکت شاہ گیلانی گزشتہ سال ڈی ایس پی کے عہدے پر ترقی پانے کے بعد حضرو میں تعینات ہوئے۔ پولیس کی نوکری کے باوجود شوکت حسین شاہ ادبی ذوق رکھتے تھے، ان کی 15 کتابیں شائع ہوئیں، ان کے آخری شعری مجموعے ’’دربدر‘‘ میں ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا۔۔’’نہ باز رکھ سکے مجھے اڑنے کے شوق سے، میرے شکستہ پر بھی، مخالف ہوائیں بھی

  تھانہ رنگو میں اغوا کاروں سے مقابلے کے دوران دونوں بازو شدید زخمی ہوئے تھے۔ ڈاکٹروں نے تجویز کیا تھا کہ اگر خون 48 گھنٹے میں نہ رکا تو دونوں بازوں کاٹنا پڑیں گے۔ اس وقت انھوں نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بازو کٹ بھی گئے تو زندگی وکالت کرکے گزاروں گا۔  شہید ڈی ایس پی نے ایک بیٹی اور بیوہ کو سوگوار چھوڑا ہے۔


میاں صاحب کا بکرا...وسعت اللہ خان

$
0
0

حالانکہ مشاہد اللہ خان نے ککھ بھی انکشاف نہیں کیا بلکہ انہی باتوں کو دہرا دیا جن کا بھانڈا سب سے پہلے تحریکِ انصاف کے صدر (سابق) جاوید ہاشمی نے عین دھرنے کے بیچ پھوڑا تھا اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا کا نام سرِ عام لینے کی قیمت پارٹی عہدہ اور پارلیمانی نشست چھوڑ کے ضمنی انتخاب ہار جانے کی صورت میں ادا کی۔

پھر اسی مقدمے کو گذشتہ ماہ تحریکِ انصاف کی مرکزی مجلسِ عاملہ کے رکن بریگیڈیئر ریٹائرڈ سیسمن سائمن شیرف نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور جنرل پاشا کے جانشین جنرل ظہیر السلام کی مبینہ ٹیپ ریکارڈنگ کو بہتے قصے میں ڈال دیا۔ مگر جاوید ہاشمی کے برعکس بریگیڈیئر سیمسن آج بھی تحریکِ انصاف کا حصہ ہیں کیونکہ ان کا تعلق ہاشمی صاحب کے برعکس اشرافیہ کے سیمورائیوں سے ہے۔
 
مانا کہ حزبِ اختلاف کا تو کام ہی بے پر کی اڑانا ہے۔ مگر وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف کو کیا ہوا کہ انھوں نے دھرنا ٹیسٹ میچ میں بطور تھرڈ امپائر ظہیر السلام کے متنازعہ کردار کی نام لے کے تصدیق کی اور پھر خادمِ اعلی شہباز شریف نے ایک قدم اور آگے آتے ہوئے مطالبہ کیا کہ دھرنے کے پس ِ پردہ کرداروں اور محرکات جاننے کے لئے پارلیمانی تحقیقات ہونی چاہئیں۔

اس کے بعد وزیرِ اعظم کی کچن کیبنٹ کے تیسرے کردار اسحاق ڈار نے خواجہ آصف اور شہباز شریف کے بیانات و مطالبات مسترد کرنے کے بجائے نیم لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ ان بیانات کو ایسے نہ دیکھا جائے گویا مسلم لیگی حکومت کوئی نیا محاز کھولنا چاہتی ہے۔

جب تک بیاناتی میوزیکل چئیر گیم اشرافیہ تک محدود رہی تب تک نہ تو کسی کا استعفی مانگا گیا اور نہ ہی آئی ایس پی آر کا ٹویٹر جاگا ۔لیکن جیسے ہی مشاہد اللہ خان نامی نرے سیاسی ورکر نے پرانی باتوں کی جگالی کی تو گویا وہ بکرا ہاتھ آ گیا جسے دیوتا کے چرنوں میں قربان کرکے بلا ٹالی جاتی ہے۔ رام پوری مشاہد اللہ خان اس بلی کے لیے بالکل فٹ ہیں کیونکہ دورِ مشرف میں سناٹا زدہ نون لیگ کی محبت میں سر پھڑوانے سے لے کہ آج تک ان کی وہی روہیل کھنڈی حرکتیں ہیں۔

جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں
میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں

جب تحریکِ انصاف کے عہدیدار ، تحریکِ انصاف کے منحرفین اور مسلم لیگ نون کے کرتا دھرتاؤں سے لے کر سرکردہ تجزیہ کار نجم سیٹھی تک سب ہی دھرنے کی ڈوریاں ہلانے والوں اور ان کے مقاصد کے بارے میں نام لے کے بات کر رہے ہوں اور یک زبان ہو کر تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہوں تو اسے محض ایک بے بنیاد لغو قیاس آرائی کہہ کے مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ مگر ان دنوں حکومت اور آرمی چونکہ ایک صفحے پر ہیں اس لیے سال بھر پہلے جو کچھ بھی ہوا وہ دراصل ہوا ہی نہیں۔

شاید وقت نے ’قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘ کے ڈسے ہوئے تجربہ کار صنعت کار کو سمجھا دیا ہے کہ یہ بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق والا دور نہیں۔

آئینی ہاتھی کا آرٹیکل چھ بھی دکھانے کا ہے کھانے کا نہیں۔ یوں بھی اس عمر میں کوئی نیا کاروباری رسک مول لینے کے بجائے کولہے کی ہڈی بچانا زیادہ مفید ہے۔البتہ سیان پتی برتتے ہوئے چور سپاہی کھیلنے اور وقتاً فوقتاً اکھاڑے میں زور آزمائی کرنے والے پٹھوں کو ہشکارنے، شاباشی دینے یا سرزنش کرتے رہنے میں کوئی حرج نہیں۔

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام

وہ اپنے خواب اپنے ساتھ ہی لے گیا

$
0
0

ہفتے کی نصف شب ، جنرل حمید گل کے انتقال کی خبرآئی اور دُکھ کی گہری لہر رگ و پے میں سرایت کر گئی۔ وہ جو شاعر نے کہا تھا

فسردگی ہے کہ جاں تک اُترتی جاتی ہے

انسانی نفسیات بھی دلچسپ ہے۔ آپ کسی سے محبت کرتے ہیں، اتنی شدید محبت ، جو عقیدت میں ڈھل جاتی ہے لیکن ہم جیسے بھی ہوتے ہیں، جن کی محبت اور عقیدت اندھی نہیں ہوتی۔ انہیں اپنے ہیروسے شکایات پیدا ہونے لگتی ہیں۔ ایک عرصے تک انسان اس ’’بت‘‘ کی خود ہی حفاظت کرتا رہتا ہے لیکن تابکے؟ آخر مایوسی انتہاکو پہنچ جاتی ہے اور بُت دھڑام سے گرپڑتا ہے لیکن جنرل حمید گل کی وفات کی خبر نے ان سے متعلق تمام شکایات کو ایک طرف دھکیل دیا تھا۔ ان کی زندگی کے روشن پہلو جگمگا اُٹھے تھے۔ قدرت ان پر مہربان تھی۔

اپنے کیریئر کے آخری برسوں میں ان کی شہرت (اور ایک بڑے حلقے میں عقیدت کے درجے تک پہنچی ہوئی محبت اور مقبولیت بھی) نکتہ ٔ عروج پر تھی۔ عالمی ذرائع ابلاغ بھی انہیں بے پناہ اہمیت دیتے ۔ اِن کا شمار جہادِ افغانستان کے ہیروزمیں ہوتا حالانکہ وہ اِس جہاد کے بانیوں میں شامل نہیں تھے (جسے ایک دور میںاُس عصر کا اُم الجہاد بھی قرار دیا گیا کہ اس کے نتیجے میں کتنی ہی مظلوم اور مغلوب قوموں میں ظالم اور غاصب کے خلاف جدوجہد کا جذبہ پیدا ہوا تھا)۔ وہ 1987ء میں آئی ایس آئی کے سربراہ بنے جب جہاد اپنے نتائج مرتب کرچکا تھا۔ گوربا چوف اس سے دوسال قبل افغانستان کو سوویت یونین کے لئے ’’رستا ہوا ناسور‘‘ (Bleeding wound) قرار دے چکے تھے۔ کریملن ، افغانستان سے سوویت فوجوں کے انخلاء کا فیصلہ کرچکا تھا۔ جنیوا مذاکرات میں اب اس کی تفصیلات طے پانا تھیں۔
سوویت یونین کے خلاف جہاد کے بانیوں میں یوں تو ذوالفقار علی بھٹو کو بھی شمار کیا جاسکتا ہے کہ استاد برہان الدین ربّانی اور انجینئر گلبدین حکمت یار سمیت افغان جہاد کے بعض قائدین خود بھٹو صاحب کے دور میں پاکستان میں پناہ گزین ہوئے تھے۔ سردار داؤد نے بھٹو صاحب کے بعض باغیوں کو اپنی پناہ میں لے لیا تو سردار داؤد کے باغیوں کو بھٹو صاحب نے پاکستان میں پناہ دے دی۔ پھر سردار داؤد کی پاکستان سے قربت ، پاک افغان تعلقات کا ایک نیا باب تھا۔ اپریل 1978ء میں روس نواز افغان انقلابیوں کے ہاتھوں داؤد کا قتل ، نور محمد ترہ کئی کی انقلابی حکومت کا قیام ، پھر ان ہی انقلابیوں کے ایک دھڑے کے ہاتھوں ترہ کئی کا قتل اور حفیظ اللہ امین کی تخت نشینی اور کچھ عرصے بعد سوویت فوجوں کی افغانستان میں براہِ راست مداخلت، امین کا قتل اور روسی ٹینکوں پر بیٹھ کر آنے والے ببرک کارمل کی کٹھ پتلی حکومت کا قیام، کابل میں ہونے والے پے در پے واقعات تھے افغانستان کے پڑوس میں پاکستان جن سے براہِ راست متاثر ہورہا تھا۔ افغانستان میں سوویت فوجوں کی آمد نے تو عالمی سطح پر زلزلے کی کیفیت پیدا کردی تھی۔

پاکستان کی ایک سرحد پر ہندوستان کی صورت میں ایک ’’منی سپر پاور‘‘ موجود تھی اور شمال مغربی سرحد پر ایک سپر پاور آکر بیٹھ گئی تھی، گرم پانیوں تک رسائی جس کی صدیوں پرانی خواہش تھی، ایک ایسا خواب، جو کمیونسٹ انقلاب سے بھی پہلے کریملن کے زار حکمران بھی دیکھتے چلے آئے تھے۔ افغانستان میں مزاحمت شروع ہوچکی تھی اور پاکستان کے لئے فیصلے کی گھڑی آپہنچی تھی۔تب پاکستان میں فوجی حکومت تھی اور فیصلے کا سارا بوجھ اسی کو اُٹھانا تھا۔ جنرل ضیاءالحق نے افغان مزاحمت کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کو پڑوسی ایران اور عرب ریاستوں کے علاوہ امریکہ اور مغربی یورپ سمیت تما م آزاد دُنیا کی تائید و حمایت حاصل تھی۔ ضیاء الحق کی طرف سے کارٹر حکومت کی 40 ملین ڈالر کی پیشکش کو مونگ پھلی قرار دے کر مستردکردینا بھی اسی ابتدائی دور کا واقعہ تھا، پھر ریگن آ گیا۔

جہاد کے آغاز کو دو، ڈھائی سال کا عرصہ ہوچکا تھا جب امریکہ کے ساتھ معاہدہ ہوا، ان دو بنیادی شرائط کے ساتھ کہ امریکیوں کا افغان مجاہد تنظیموں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوگا۔ امریکی امداد براہِ راست پاکستان کو ملے گی اور کسی جہادی تنظیم کو، کتنا حصہ ملنا ہے، یہ فیصلہ بھی پاکستان خود کرے گا۔ پاکستان کی ایک حساس ایجنسی اس جہاد کا اہم حصہ تھی، ضیاءالحق کے معتمد جرنیل اختر عبدالرحمن جس کے سربراہ تھے۔ 1987ء میں محمد خاں جونیجو وزیراعظم تھے، جب اختر عبدالرحمن کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی بنادیا گیا اور جنرل حمید گل ان کے جانشین قرار پائے، تقدیر میں جن کے لئے جہاد افغانستان کے ہیروز میں شمار ہونا لکھا تھا۔ 17 اگست کے سانحۂ بہاولپور کے بعد پاکستان کی عسکری قیادت ایک نئے چیلنج سے دوچار تھی۔ وزیراعظم جونیجو کی برطرفی کے ساتھضیاءالحق نے اپنے ہی تعمیر کردہ اس سیاسی انتظام کو مسمار کر دیا تھا۔

اب بے نظیر وطن واپس آچکی تھیں۔ 16 نومبر 1988ء کے انتخابات کا اعلان خودضیاءالحق کر گئے تھے۔ اینٹی پیپلز پارٹی عناصر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ مشکل ٹاسک جنرل گل کے سپرد ہوا۔ اس اقدام کے جواز میں جنرل کی دلیل یہ ہوتی تھی کہ اس طرح انہوں نے ملک میں سیاسی توازن قائم کرنے کا اہتمام کیا۔ جنرل گل ملت اسلامیہ کی عظمت کے خواب دیکھتے اور نوجوانوں کو بھی یہ خواب دکھاتے۔ جنرل بیگ کے بعد وہ آرمی چیف کیوں نہ بن سکے اور اپنے نئے باس، آصف نواز کے ساتھ ان کی کیوں نہ بن سکی، یہ ایک علیحدہ داستان ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعدانہوں نے ’’تحریک ِاتحاد ‘‘ کی بنیاد رکھی، لیکن یہ چند فکری و نظریاتی اجتماعات سے آگے نہ بڑھ سکی لیکن وہ مختلف فورمز پر اپنے افکار و نظریات کا پرچار کرتے رہے۔

پاکستان میں ’’سافٹ ریوولیوشن ‘‘ بھی ان کا نعرہ تھا، جس کی تشریح و تفہیم ہم جیسے کج فہموں کے پلّے نہ پڑی۔ وہ جمہوریت کو خلافِ اسلام قرار دیتے، (حالانکہ پاکستانی جمہوریت مغرب کی مادرپدر آزاد جمہوریت کے برعکس قراردادِ مقاصد کی پابند ہے)۔ وہ اسلام میں سیاسی جماعتوں کے وجود کے بھی منکر تھے۔ ان کے یہی افکار و نظریات ہمیں ان سے دور کرنے کا باعث بنتے گئے، تاہم کبھی کبھاران سے فون پر رابطہ ہوجاتا۔ وہ شاید ہم سے مکمل طور پر مایوس نہیں ہوئے تھے۔دوستوں کی کسی محفل میں اِن کا ذکر ہوتا، تو ہم ٹال جاتے۔

اب ترے ذکر پہ ہم بات بدل جاتے ہیں
کتنی رغبت تھی ترے نام سے ، پہلے پہلے

لیکن ہفتے کی شب ان کے انتقال کی خبر نے اِن سے تمام شکوے شکایات ختم کر دیئے۔ اب ان سے وابستہ خوشگوار یادوں کا ہجوم تھا۔ اتوار کی شام ریس کورس پارک راولپنڈی میں اِن کے جنازے پر ان کے فوجی رفقاء کے علاوہ کثیر تعداد ان لوگوں کی تھی، جنہیں حمید گل نے خواب دیئے تھے۔ وہ اپنے خوابوں کے ساتھ اگلے سفر پر روانہ تھا، اور اِسے الوداع کہنے ہم بھی وہاں موجود تھے۔

رؤف طاہر
بشکریہ روزنامہ "جنگ

فیصلہ کیا یا نہیں کیا؟...وسعت اللہ خان

$
0
0

کرنل شجاع خانزادہ دوسرے وزیر ہیں جو دہشت گردوں کے ہاتھوں جاں بحق ہوئے۔اس سے قبل خیبر پختون خواہ کے سینئیر وزیر بشیر احمد بلور بھی دہشت گردی کا نشانہ بنے، سابق صوبائی وزیرِ اطلاعات افتخار حسین شاہ کے صاحبزادے کے ساتھ بھی یہی ہوا۔غرض بے نظیر بھٹو سے لے کر فوج، نیم فوجی اداروں اور پولیس کے کئی اعلیٰ افسروں، سپاہیوں، ارکانِ صوبائی اسمبلی تک اس راہ میں چلے گئے۔عام عوام کی لاشوں کا تو ذکر ہی کیا۔

جنھوں نے یہ پودا لگایا ، اسے پانی دیا اور پروان چڑھا کر درخت بنایا انھوں نے جانے کیا سوچا تھا۔ لیکن آج کی فوجی ، سیاسی اور عام انسانوں کی نسل کو ہاتھوں سے لگائی یہ گانٹھ دانتوں سے کھولنی پڑ رہی ہے۔

نظریہ ضرورت کے تحت پھانسیاں ضرور دے لیجیے۔ اس کام میں مزید تیزی لانے کے لیے فوجی عدالتیں بھی ارمان نکال لیں۔ بیس ، پینتیس ، ستاون کی گنتی میں روزانہ بمباری سے بھی مارتے رہئے۔ پولیس مقابلے بھی بڑھاتے رہئے۔ خود پے بس نہ چلے تو آس پاس اور دور دراز کی طاقتوں پر بھی انگشت نمائی کرتے رہئے۔یہ بھی ثابت کرتے رہئے کہ اصل مظلوم تو ہم ہیں مگر دنیا کو آخر اپنی ہی کیوں پڑی ہے ہماری مظلومیت کیوں نظر نہیں آتی۔مگر ساتھ ساتھ یہ بھی غور فرماتے رہیں کہ آیا یہ سب جو آپ کر رہے ہیں یا کرنے جارہے ہیں کسی طویل المیعاد حکمتِ عملی کی روشنی میں قومی سلامتی کے واضح ، ٹھوس اہداف تک پہنچنے کا سفر ہے یا پھر باسی کڑھی میں ایک اور ابال۔
بالکل سولہ دسمبر اکہتر کی طرح سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کے بعد بھی مسلسل کہا جارہا ہے کہ سانحہ پشاور نے ہم سب کی آنکھیں بلاامتیاز کھول دیں۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ اگر آنکھیں پہلے سے کھلی ہوتیں تو دونوں سولہ دسمبروں کی نوبت کیوں آتی، عرض میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ کو واقعی ادراک ہے کہ آپ اب تک کیا کرتے آئے ہیں، کیا کر رہے ہیں اور کیا کرنے جا رہے ہیں؟ بندہ ایسے بچگانہ سوالات یوں پوچھ رہا ہے کہ کہیں آپ کل کلاں دوبارہ نہ کہہ بیٹھیں اوہو پھر مسٹیک ہوگئی۔ جانا کہیں اور تھا قدم کہیں اور کے لیے اٹھ گئے۔ چلو دوبارہ شروع کرتے ہیں۔

پاکستان اور کسی معاملے میں خوش قسمت ہو نہ ہو ایک معاملے میں قدرت نے ہمیشہ اس کے بارے میں فیاضانہ فیاضی سے کام لیا ہے۔ باقی قوموں کو تو سنبھلنے کے لیے اوسطاً ایک یا زیادہ سے زیادہ دو مواقع ملتے رہے اور پھر قدرت نے کہہ دیا خصماں نوں کھاؤ۔ مگر پاکستان کو پچھلے اڑسٹھ برس میں تیسرا موقع ملا ہے خود کو سنبھالنے کا۔
پہلا موقع انیس سو سینتالیس میں ملا۔مگر باپ کے مرتے ہی ہم اس اولاد میں تبدیل ہوتے چلے گئے جو ترکے میں ملی جائیداد اور رقبہ ٹکڑے ٹکڑے بیچ کے اپنی شان و شوکت کے تقاضے پورے کرتی ہے۔بھلے کے ٹو کا پیکٹ خریدنے کے بھی قابل نہ ہو مگر ہائے رے وضع داری کہ بگلا سگریٹ بھی گولڈ لیف کے پیکٹ میں رکھ کے پیتی ہے اور پھر ترکے کے ایک ایک دروازے اور کھڑکی کے بٹوارے پر آپس ہی میں سر پھٹول، تھانہ کچہری کی نوبت آجاتی ہے اور پھر جائیداد کسٹوڈین کے حوالے ہوجاتی ہے اور وارث جوتیاں چٹخاتے رہ جاتے ہیں اور اس پر دھیان دینے کے بجائے کہ بنیادی غلطی کب کیا کہاں ہوئی انھیں لکڑ ہارے اور اس کے جھگڑالو بیٹوں کی کہانی تک بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ اتفاق میں برکت ہے کا آسان اردو میں مطلب کیا ہے۔

سدھرنے کا دوسرا موقع مشرقی پاکستان گنوانے کے بعد عطا ہوا۔ مگر اس موقع کو قومی تعمیر سازی کے لیے استعمال کرنے کے بجائے اس ملک کے کار سازوں ، چارہ سازوں نے آس پاس جواریوں کی صحبت اختیار کر لی۔ پرائے پھڈوں میں تو کون میں خامخواہ بننے میں مزہ آنے لگا۔
’’ اپنی خرچی آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے‘‘ کا اصول بھول بھال کر دوسروں کی دی خرچی پر شاہ خرچیاں ہونے لگیں اور پدرم سلطان بود کی تسبیح بھی گھومتی رہی۔جو وزن متحدہ پاکستان بھی گلے میں ڈالنے کے لیے تیار نہیں تھا وہ وزن باقی ماندہ پاکستان کی اشرافیہ نے اپنے گلے میں خود ہی ہنسی خوشی ڈال لیا۔کہاں یہ حالت کہ گھر میں نہیں دانے اماں چلی بھنانے اور کہاں ایسی میزبانی کہ تو بھی آجا ، ارے تو بھی آجا ، اے عربو ، اے افغانیو ، اے ازبکو ، اے چینیو ، اے تھائیو سب آجاؤ ، ارے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے تمہارا اپنا گھر ہے جب چاہے دن رات چوبیس گھنٹے بارہ مہینے آؤ ، رہو اور رہتے رہو اور جب کوئی سوال اٹھاتا کہ بھائی پسلی پہلوان یہ تم کر کیا رہے ہو تو جواب ملتا اوئے تینوں نئیں پتہ ، تینوں کی پتہ، اپنی ٹہور بنانے کے لیے ڈیرے داری کرنی پڑتی ہے ، وضع داری نبھانی پڑتی ہے۔ لے یہ انگوٹھی بھی بیچ دے اور بن بلائے اور نیم بلائے مہمانوں کی روٹی بستر کا انتظام کر۔ پورا نہ پڑے تو چوہدری امداد صاحب سے میرے نام پر تھوڑا ادھار اور لے آنا۔

اور پھر اس فی سبیل اللہ یتیم خانے میں وہ ادھم مچا کہ میزبان بھی اپنی ٹانگ پکڑ ے ہائے میرے اللہ اے میں کی کر بیٹھا جاپنے پر آ گئے اور تیسرا موقع اس قوم کو سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کو نصیب ہوا خود کو سدھارنے اور یہ فیصلہ کرنے کا کہ ہم اس ملک کو بالاخر کہاںلے جانا چاہتے ہیں یا پھر ہم سب یونہی چشمہِ امید ڈھونڈتے ڈھونڈتے کہیں بھی گڑ پڑیں گے۔

آپ کا قومی غصہ بجا لیکن آپ کب یہ بات سمجھیں گے کہ کسی درخت کے پتے جھاڑنے سے اس کا وزن ہلکا نہیں ہوتا جب تک جڑ پر ہاتھ نہ پڑے۔سابق اسرائیلی وزیرِ اعظم جنرل ( ریٹائرڈ ) اہود براک کے بقول آپ دہشت گردی کو دو نکاتی بنیادی حکمتِ عملی کے بغیر شکست نہیں دے سکتے۔ اول یہ کہ دہشت گرد کا جو بھی نظریہ ہے اس کا موثر نظریاتی توڑ اور متبادل کشش آپ کے پاس کیا ہے، دوم یہ کہ کیا آپ کے سوچنے کی رفتار دہشت گرد کی سوچ سے کم ازکم ڈیڑھ گنا تیز ہے یا نہیں؟ اگر آپ کے پاس یہ دونوں نہیں تو پھر کمبل اوڑھ لیں۔ ماؤزے تنگ کے بقول تم ذہن مسلح کردو اسلحہ وہ خود ڈھونڈ لے گا۔دہشت گرد تو یہ کر ہی رہے ہیں کیا آپ بھی ماؤ کے فلسفے کو گھاس ڈالنے پر تیار ہیں؟

آپ کاؤنٹر نیریٹو ( جوابی نظریہ ) کی رٹ لگا رہے ہیں لیکن کیا آپ سب کاموں سے بھی پہلے اپنے تعلیمی نصاب کو غیر انتہا پسند بنانے پر آمادہ ہیں؟ اور یہ کہ آپ کو بالاخر کیا تعمیر کرنا ہے؟ گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کے محمد علی جناح کا پاکستان یا بعد از جناح کا قراردادِ مقاصد والا پاکستان؟ کوئی ایک راہ چن لیں اور پھر سب قانونی، تعلیمی، نظریاتی، عملی نظام کو اسی راہ پر لے جائیں تو شائد کچھ شفا ہوجائے۔

آج کا نڈھال ، کنفیوز ، ڈرا ، سہما پاکستان دراصل گیارہ اگست کی تقریر اور قرار دادِ مقاصد کی جبری شادی سے پیدا ہونے والا بچہ ہے۔یہ شادی یونہی رہی تو یہ طفلِ مظلوم کہیں کا نہ رہے گا۔لہٰذااس بچے کو یا تو پوری طرح گیارہ اگست کی تقریر کی کسٹڈی میں دے دیا جائے یا پھر قرار دادِ مقاصد کی مکمل تحویل میں۔
مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ فیصلہ کن فیصلے پر کتنا جلد پہنچنا ضروری ہوتا ہے۔بیک وقت ہر مسئلے پر ہاتھ مار کے کچا پکا کام کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ ایک وقت میں ایک بنیادی کام مکمل کیا جائے۔دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے سفر میں ایک موثر قانونی و سماجی انصاف کے چوراہے سے ہر صورت گذرنا پڑتا ہے۔اس سفر میں کوئی شارٹ کٹ اور پسندیدہ پگڈنڈی کام نہیں آتی۔تاخیر صرف مزید تاخیر ہی پیدا کرسکتی ہے۔

( کل ضیا الحق صاحب کی ستائیسویں برسی تھی اللہ تعالی انھیں اجرِعظیم عطا فرمائے اور آج پرویز مشرف صاحب کی صدارت کی آٹھویں برسی ہے۔اللہ انھیں بھی قیمتی قومی خدمات کا اجرِ کامل عطا فرمائے )۔

وسعت اللہ خان
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

ہماری ڈرامہ انڈسٹری ’’تب‘‘ اور ’’اب‘‘

$
0
0

ایک وقت تھا جب پاکستان میں صرف ایک چینل  ہوا کرتا تھا۔ اسی چینل پر ہمارے وہ تمام پروگرام اور ڈرامے نشر ہوئے جنہوں نے دنیا بھر میں اپنا نام کمایا اور بلندیوں کی چوٹیوں تک پہنچے۔ جن میں تنہائیاں، دھواں، عینک والا جن، ففٹی ففٹی، الف نون، گیسٹ ہاؤس، اسٹوڈیو پونے تین، سلور جوبلی مقبول ترین ڈرامے ہیں۔ اسی چینل کے ذریعے وہ تمام فنکار آئے جنہوں نے دنیا بھر میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا اور ہر جگہ جانے پہچانے گئے جیسے کہ معین اختر، بشریٰ انصاری، قوی خان، کمال احمد رضوی، اسماعیل تارہ، ماجد خان وغیرہ۔

یہ وقت پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کے عروج کا دور تھا۔ اس وقت کی تمام نشریات، تمام فنکار اور تمام لکھاری نہایت اعلیٰ پائے کے ہوا کرتے تھے اور اس وقت کی نشریات میں پاکستانی ثقافت کو دکھایا جاتا تھا۔

اب ذرا بات ہوجائے موجودہ دور کی۔ اِس وقت پاکستان میں ان گنت چینل چل رہے ہیں اور ہوسکتا ہے مستقبل میں اور بھی بہت سارے چینل آجائیں۔ ان تمام چینل کی نشریات 24 گھنٹے چلا کرتی ہیں اور تھوک کے حساب سے ہر چینل پر بے تحاشا ڈرامے نشر کئے جارہے ہیں۔ فنکاروں کی بھی ایک بڑی کھیپ موجود ہے۔ ظاہر ہے جب چینل اتنی بڑی تعداد میں آگئے ہیں تو ڈرامہ انڈسٹری کو تو بڑھنا ہی تھا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آجکل کا معیار پہلے کے مقابلے میں اتنا گر گیا ہے؟ کوئی ایک فنکار بھی معین اختر یا اسماعیل تارہ کے مقابل نظر نہیں آتا اور جو ڈرامے آج کل نشر کئے جارہے ہیں ان میں سے اکثریت کا معیار پرانے ڈراموں جیسا نہیں ہے۔
موجودہ دور میں کوئی ایک لکھاری بھی ایسا نہیں ہے جو کہ حسینہ معین، امجد اسلام امجد یا انورمقصود کی طرح ڈرامہ لکھ پائے۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ڈرامہ انڈسٹری جس تیزی سے پھلی پھولی ہے اُسی اعتبارسے معیاری ڈرامے بھی بنتے اور پہلے سے زیادہ ٹیلنٹ اُبھر کر سامنے آتا مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ ریٹنگ کی جنگ میں تمام چینلز نے ’کوالٹی‘ کے بجائے ’کوانٹیٹی‘ پر زور دیا تاکہ زیادہ سے زیادہ اشتہارات مل سکیں۔

اب صرف معیار ہی نہیں گرا بلکہ جو ڈرامے ٹی وی پرنشر ہو رہے ہیں ان میں پاکستانی ثقافت کو بھی مکمل نظر انداز کردیا گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک بھارت جو کہ آئے روز ورکنگ باؤنڈری کی خلاف ورزی کرتا ہے اور جس سے ہم اب تک چار جنگیں لڑ چکے ہیں ہمارے چینلز نے اپنے 24 گھنٹے پورے کرنے کے لئے ان کے ڈرامے بھی نشر کرنا شروع کردئیے اور انہی کے ڈرامے دیکھ  کر وہی روایات ہمارے ڈراموں میں لائی جارہی ہیں، انہی کی ثقافت کو ہمارے ڈراموں میں پیش کیا جارہا ہے۔

ایک وقت تھا جب بھارتی یونیورسٹیوں کے نصاب میں پاکستانی ڈرامے دکھائے جاتے تھے اور بھارتی اداکاروں سے کہا جاتا تھا کہ اگر آپ اچھے اداکار بننا چاہتے ہیں تو پاکستانی ڈرامے دیکھیں اور اب یہ حالت ہوگئی ہے کہ ہم نے ان کے غیر معیاری ڈرامے دکھانے شروع کردئیے ہیں جو کہ سالوں چلتے ہیں اور جس میں کہانی کا کوئی سر پیر ہی نہیں ہوتا۔

اگر اب بھی ہماری ڈرامہ انڈسٹری صحیح سمت اختیار کرلے، ڈرامے کم کرکے معیار اچھا کردے اور ریٹنگ کے چکر میں تمام ڈراموں کو نشر کرنا چھوڑ دے تو معاملہ اب بھی سنبھل سکتا ہے۔ لیکن اگر معاملات کو ٹھیک نہیں کیا تو کمانے والے تو خوب دولت کمالیں گے مگر ہماری ثقافت کی قربانی کی قیمت پر۔

اسامہ احمد

کچھ ذکر حمید گل مرحوم کا

$
0
0

یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

ہفتے کی رات ساڑھے گیارہ بجے سی ایم ایچ پسپتال مری میں قوم کے عظیم سپوت جنرل ریٹائرڈ حمید گل قضائے الہی سے انتقال کرگئے ۔

ہر ذی روح اللہ کی امانت ہے اور اس نے پلٹ کر اللہ کے ہی دربار میں جانا ہے۔ جب اللہ پاک انبیاء علیہ السلام، صحابہ کرام، اولیا اللہ، محدثین، مجددین، مجاہدین کی روحوں کو قبض کر سکتے ہیں تو اللہ نے جنرل صاحب کو بھی اپنے دربار میں واپس بلانا ہی تھا۔ جنرل حمید گل اب زندہ سے مرحوم ہوگئے اور اب اُن کے نام کے ساتھ مرحوم کا اضافہ بھی کیا جائے گا۔ یہی انسان ہے، یہی اس کی زندگی ہے اور یہی اس کی زندگی کی حقیقت بھی ہے۔
 
جنرل صاحب سابق ڈی جی آئی ایس آئی بھی رہے ہیں۔ آپ نے آئی ایس آئی کی قیادت 1987 سے 1989 کے مشکل دور میں کی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب سوویت یونین سے جنگ اپنے آخری مراحل میں تھی۔ جنرل صاحب کی بہترین حکمت عملی نے اس جنگ کو پاکستان کے علاقوں میں منتقل ہونے سے روکا تھا۔ بہت سے روسی اور امریکی دانشور جنرل صاحب کو سویت یونین کے ٹکڑے کرنے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہیں۔

جنرل حمید گل قیامِ پاکستان سے قبل 20 نومبر 1939ء میں سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق یوسف زئی قبیلے سے تھا۔ آپ کا خاندان سوات کا رہنے والا تھا۔ جس نے سوات سے سرگودھا ہجرت کی تھی۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہی حاصل کی، جس کے بعد آپ گورنمنٹ کالج لاہور چلے گئے۔ پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد حمید گل نے فوجی اکیڈمی، پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول رپورٹ کیا۔ 1956ء میں آپ کو پاکستان آرمی میں کمیشن ملا اور آپ نے اپنے ملٹری کیرئیر کا آغاز کیا۔ 1965ء کی جنگ میں آپ اسکوارڈن کمانڈر رہے تھے۔ 1968ء میں آپ کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ چلے گئے۔ 1972ء سے 1976ء کے دور میں آپ نے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ بٹالین کمانڈر کی حیثیت سے بھی فرائض سر انجام دیے۔
 جنرل ضیاء الحق کے ساتھ تعلقا ت کی وجہ سے ہی بے نظیر بھٹو نے ڈی جی آئی ایس آئی کی پوزیشن سے ہٹایا تھا۔ جنرل صاحب نے دور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے محاذ آرائی سے گریز کیا اور جمہوریت کی خاطر اپنی پوسٹ بھی جانے دی تھی۔ اس کے بعد جنرل حمید گل نے 1989ء میں ضربِ مومن کے نام سے بڑی جنگی مشقیں کی تھیں اور بھارت کے جنگی عزائم کو اسی وقت ٹھنڈا کر دیا تھا۔ 1991ء میں جنرل آصف نواز کے دور میں جنرل حمید گل نے آرمی سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔

جنرل صاحب کی وجہ شہرت جہاد سے دلچسپی تھی۔ پاکستان کی بیشتر خرابیوں کا ذمہ دار آپ لبرل اور لیفٹ کے طبقے کو سمجھتے تھے، اور بہت سے انٹرویوز میں اس بات کا اظہار بھی کر چکے تھے۔
جذبہ جہاد سے سرشار اس مرد مجاہد نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنے دماغ کو ریٹائر نہیں ہونے دیا تھا۔ 78 سال کی عمر میں بھی مکمل رعب کے ساتھ اپنی مخصوص گرجدار آواز میں بھارت کو للکارا کرتے تھے۔ بھارت میں جنرل صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اُن کا خوف تھا اور امریکہ کیلئے وہ درد سر بنے رہے تھے۔

جنرل صاحب نے امریکیوں کے ساتھ بھی کام کیا تھا اور آپ ان کی رگ رگ سے واقف تھے۔ آپ کا شمار ان لوگوں میں سے ہوتا ہے جنہوں نے نائن الیون کے بعد اولین دور میں نا صرف نائن الیون کے سانحے پر سوالیہ نشان اٹھائے تھے بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ اصل میں یہ سب کچھ پاکستان کے خلاف سازش ہے۔ آپ کا یہ فقرہ بہت مشہور ہوا تھا کہ

’’نائن الیون بہانہ ہے، افغانستان ٹھکانہ ہے، پاکستان نشانہ ہے ۔‘‘

آپ کی پاکستان سے محبت کسی بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ کوئی بھی باشعور فرد، خواہ اس کا تعلق بائیں ہاتھ کے طبقے سے ہی کیوں نہ ہو، آپ کی حب الوطنی پر انگلی نہیں اٹھا سکتا ہے۔ جنرل صاحب امریکہ کے بڑے نقادوں میں سے ایک تھے اور آپ نے ہمیشہ کھل کر امریکہ پر تنقید کی ہے۔ جنرل صاحب نے کھل کر جہاد کشمیر کی حمایت کی ہے۔ آپ نے وکلاء تحریک میں عدلیہ کا ساتھ بھی دیا ہے۔ آپ نے اسامہ بن لادن کو تب ہیرو کہا تھا جب پاکستان میں بن لادن کا نام لیتے ہوئے بھی لوگ گھبراتے تھے۔

 جنرل صاحب کی دلیری کی وجہ سے ہی بھارت نے آپ کو اپنی موسٹ وانٹڈ لسٹ میں رکھا تھا۔ امریکہ نے جہاد سے لگاؤ کی وجہ سے ہی جنرل صاحب کا نام بین الاقوامی دہشت گردوں کی فہرست میں ڈالا تھا اور پھر یہ نام اقوام متحدہ میں بھی دیے تھے جن کو چین نے ویٹو کردیا تھا۔

جنرل صاحب امریکہ کو پاکستان کا دشمن کہتے تھے اور مجھے اب یہ بھی کہنے دیں کہ جن بنیادوں پر جنرل صاحب نے امریکہ کو دشمن ڈکلیئر کیا تھا وہ سب درست تھی۔ جولائی 2010ء میں وکی لیکس نے کچھ ڈاکومنٹس شائع کئے تھے، یہ 92 ہزار ڈاکومنٹس افغان جہاد 2004 سے 2009ء متعلق تھے۔ ان دستاویزات میں جنرل صاحب کو افغان طالبان کا ساتھ دینے پر مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا۔
میری جنرل صاحب سے زندگی میں دو ایک ملاقاتیں ہیں۔ میں نے ہمیشہ ان کو شفیق اور محبت کرنے والا پایا ہے۔ جنرل صاحب سے مختلف موضوعات پر گائیڈ لائن بھی لیا کرتے تھے۔ 

میرے لئے وہ استادوں کی طرح ہی تھے۔ جنرل صاحب کے بیٹے عبداللہ گل سے بھی میری دوستی ہے۔ یہ بھی اپنے باپ کی طرح سے امت کا درد دل میں رکھتے ہیں اور جب بھی بات کرتے ہیں تو بہت ہی محبت سے بات کرتے ہیں۔ جنرل صاحب بلاشبہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والی شخصیت تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اسنائپر کی گولی ایک کلومیٹر کے فاصلے سے بھی نشانہ خطا نہیں کرتی ہے۔ 4 انچ کی گولی اگر انسان کی جان لے سکتی ہے تو میں موت سے کیوں ڈروں۔ اگر میرے نصیب میں شہادت ہوئی تو میں شہید ہوجاؤں گا، ورنہ موت تو آنی ہے۔ جنرل صاحب صحیح معنوں میں پاکستانی اور مجاہد تھے، جنہوں نے آخری وقت تک پاکستان کا ہر محاذ پر دفاع کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ اُن کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں۔ اُن کی کوتاہیوں کو معاف کرتے ہوئے اُن کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا کریں۔ جنرل صاحب، آپ سے انشااللہ اب رب کی جنتوں میں ملاقات ہوگی، بلاشبہ آپ نے اپنا فرض احسن طریقے سے پورا کیا ہے۔ تب تک کیلئے اللہ حافظ ، پاکستان زندہ باد۔

سالار سلیمان

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live