Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

میگا کرپشن کیسز اور رینجرز کے اختیارات

$
0
0

نیب نے سپریم کورٹ کی مداخلت پر 150میگا کرپشن کیسز کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی ہے۔ رپورٹ کیمطابق پاکستان کے موجودہ وزیراعظم، دو سابق وزیراعظم اور سابق بیوروکریٹ میگا کرپشن میں ملوث ہیں۔ تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے نیب کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مقدمات کی پیش رفت کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ نیب کی رپورٹ نے خود اس کی اپنی کارکردگی کو بے نقاب کردیا ہے۔ نیب جس کو قومی بجٹ سے چھ ارب روپے سالانہ ادا کیے جاتے ہیں پندرہ بیس سال میں نیب 150میگا کرپشن کے مقدمات میں سے ایک بھی مکمل نہیںکرسکا۔

 جرنیل اور بیوروکریٹ نیب کے سربراہ رہے جن میں سے ایک بھی عوام کی توقعات پر پورا نہ اُتر سکا۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نیب پگڑی اچھال ادارہ بن چکا ہے پہلے اس کا احتساب ہونا چاہیئے۔ کرپشن کے 150مقدمات میں اصغر خان کیس شامل نہیں ہے جس کے بارے میں سپریم کورٹ نے ان سیاستدانوں کیخلاف مقدمات درج کرنے کا حکم دیا تھا جنہوں نے ایجنسیوں سے رقوم حاصل کی تھیں۔ جنرل پرویز مشرف جو ایک بار پھر قوم کی خدمت کرنے کے جنون میں مبتلا ہیں اپنے دور میں احتساب نہ کرسکے بلکہ انہوں نے 2002ء کے انتخابات کے بعد حکومت سازی کیلئے نیب کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ نیب نے وفاداریاں تبدیل کرنیوالے اراکین قومی اسمبلی کیخلاف کرپشن مقدمات کی فائلیں سرد خانے میں رکھ دیں۔ 

مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی کی قیادت نے میثاق جمہوریت پر دستخط کرکے فیصلہ کرلیا کہ وہ ایک دوسرے کے سیاسی مفادات کو چیلنج نہیں کرینگے۔ دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت کی خفیہ شق کیمطابق ایک دوسرے کا احتساب کرنے سے گریز کیا اور نیب کا ادارہ محض دکھاوے کی کارروائی کرتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے بڑے مقدمات طویل عرصے سے زیر التواء ہیں۔ نیب کے اعلیٰ عہدوں پر سیاستدانوں اور مقتدر اداروں کے پسندیدہ افراد فائز ہیں جو انکے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔

پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے نیب کی رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے شریف خاندان کا مقدمہ بڑی مہارت اور دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ عوام کی عدالت میں پیش کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ شریف خاندان نے پانچ ارب روپے سے زائد بنکوں کے قرضے واپس کیے۔ جب قرضے لیے گئے اس وقت ڈالر اور زمین کی قیمت کیا تھی اور جب واپس کیے گئے اس وقت کیا تھی اس حوالے سے شریف خاندان نے اربوں کے قرضے واپس کرکے بھی اربوں روپے کمالیے۔ میاں شہباز شریف نے دعویٰ کیا کہ بڑے چوہدری اور سرمایہ دار بنکوں کے قرضے ہڑپ کرگئے۔ 

میاں شہباز شریف اپنے دعوے کی روشنی میں قرضے ہڑپ کرنیوالوں کو قانون کی گرفت میں لائیں۔ مرکز میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہے اور اسکے پاس اکثریت بھی ہے۔ احتساب کیلئے قانون سازی کیلئے بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ بلند بانگ دعوئوں کے بعد بھی اگر حکومت قرضے ہڑپ کرنے والوں کیخلاف کارروائی نہیں کرتی تو یہی سمجھا جائیگا کہ سیاسی اشرافیہ نے کرپشن کے سلسلے میں ’’مک مکا‘‘ کررکھا ہے۔ نیب کی رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ نرم انقلاب آچکا ہے اور گرم انقلاب کا انحصار حکومتوں کی کارکردگی پر ہے۔ اگر وفاقی اور سندھ کی صوبائی حکومت نے ضرب عضب کی کامیابی اور سیاست کو کرپشن اور جرائم سے پاک کرنے کیلئے تعاون نہ کیا تو گرم انقلاب قومی ضرورت بن جائیگا جس کی ذمے داری سیاستدانوں پر عائد کی جائیگی۔

 نیب کو اگر اپنا بھرم رکھنا ہے تو وہ بلا خوف و خطر میگا کرپشن کے مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچائے۔ پری بارگینگ یعنی ’’مک مکا‘‘ کا قانون ختم کردینا چاہیئے اور کرپشن کے مستقل علاج کیلئے نیا قانون بننا چاہیئے کہ جس پر کرپشن کے الزامات ہوں وہ خود ثابت کرے کہ اسکے منقولہ اور غیر منقولہ اثاثے جائز اور قانونی ہیں۔
اب یہ حقیقت دوپہر کے سورج کی طرح سامنے آچکی ہے کہ کراچی کی روشنیوں کے قاتل سیاستدان ہیں جنہوں نے پاکستان کی معاشی رگ کو لوٹنے کیلئے جماعتوں کے اندر مسلح لشکر بنائے اور قاتلوں، بھتہ خوروں اور لینڈ مافیا کی سرپرستی کی۔ جرنیل حکمرانوں نے فوجی طاقت رکھنے کے باوجود محض اپنے اقتدار کی خاطر آنکھیں بند رکھیں۔ جب کراچی میں ہرروز ایک درجن لاشیں گرتی تھیں، بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان کی وارداتیں عروج پرہیں۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کراچی بدامنی کا سؤوموٹو نوٹس لیتے ہوئے طویل سماعت کی اور فیصلہ دیا کہ کراچی میں جرائم سیاسی جماعتوں کی سرپرستی میں ہورہے ہیں۔

 وفاقی اور سندھ کی حکومتیں امن و امان قائم رکھنے میں بری طرح ناکام ہوئیں تو افواج پاکستان کو معاونت کیلئے طلب کیا گیا۔ رینجرز کے افسر چاہتے تو سیاستدانوں سے مل کر مال بناتے مگر انہوں نے وطن کی محبت میں وہ قرض چکائے جو واجب بھی نہ تھے۔ وطن کیلئے جان کی قربانی دینے والے لوٹ مار نہیں کیا کرتے۔ رینجرز نے 5795آپریشن کیے 826 دہشت گرد گرفتار کیے، 7312ہتھیار قبضے میں لیے، 334ٹارگٹ کلرز، 296بھتہ خور، 82اغواکار حراست میں لیے اور اپنی جانوں پر کھیل کر کراچی میں امن قائم کیا۔

 رینجرز نے جب اپیکس کمیٹی کے فیصلوں کے مطابق معاشی دہشت گردوں کیخلاف آپریشن شروع کیا اور گرفتار افراد بلاول ہائوس اور نائن زیرو کی جانب انگشت نمائی کرنے لگے تو حکمران اور بڑے سیاستدان تڑپ اُٹھے اور انتقام انتقام کا شور مچانے لگے۔ قدرت کو پاکستان کے عوام پر رحم آچکا ہے۔ افواج پاکستان کی کمان باغیرت باوقار جرنیل راحیل شریف کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے دہشت گردوں، قاتلوں، مجرموں اور کرپٹ عناصر کے سامنے سرینڈر کرنے سے انکار کردیا اور کراچی آپریشن کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ حرام خور بزدل ہوا کرتے ہیں صرف بڑھک مارتے ہیں۔ سامنے کھڑے ہونے کی جرأت نہیں کرتے۔
حکمران سیاستدان رینجرز کی مدت ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے جب مدت ختم ہوگئی اور نیا نوٹی فکیشن جاری کرنے کا مرحلہ آیا تو حیلے بہانے کرنے لگے۔

تحریک انصاف نے رینجرز کے حق میں قرارداد صوبائی اسمبلی میں جمع کرادی اور دھرنا دینے کی دھمکی دی۔ وزیراعلیٰ سندھ کو ایک ماہ کی توسیع دینا پڑی۔ کرپٹ سیاستدان رینجرز کے آپریشن کیخلاف سازشیں کرتے رہیں گے وہ اپنے مذموم مقاصد کیلئے پارلیمانی اداروں کو استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرینگے مگر پاکستان کے عوام اور افواج دہشت گردوں، مجرموں اور انکے سرپرستوں کے بارے میں یکسو ہوچکے ہیں۔ انہوں نے ’’اب نہیں تو کبھی نہیں‘‘ کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کرپٹ سیاستدانوں کو تعاون کرنا پڑیگا اگر ضرب عضب کے راستے میں آئیں گے تو کچل دئیے جائینگے۔

 کراچی کے عوام جن کو طویل بدامنی کے بعد شہر میں سکون نصیب ہوا ہے کبھی برداشت نہیں کرینگے کہ سیاسی مصلحتوں کے تحت کراچی کو ایک بار پھر قاتلوں، مجرموں اور دہشت گردوں کے حوالے کردیا جائے۔ پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کیلئے تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور پاکستان عوامی تحریک کو اس قومی ضرورت پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے۔ کرپشن اور پاکستان اکٹھے نہیں چل سکتے۔

قیوم نظامی


نواز مودی ملاقات ۔ بھارت اس بار سنجیدہ ہے؟

$
0
0

بھارتی وزیر اعظم مودی اور پاکستان ہم منصب کے درمیان تعلقات 14 ماہ کے عرصے پر محیط ہیں۔ جس میں بہتر تعلقات کی ابتداء بھی مودی کی جانب سے کی گئی اور تعلقات کو متاثر بھی مودی نے ہی کیا۔ مودی نے ہی پاکستانی ہم منصب کو اپنی تقریب حلف برداری مین شرکت کی دعوت دی اور پھر چند ماہ بعد کشمیر میں روایتی بیان بازی کر کے تعلقات کو متاثر کر دیا۔ نواز شریف اور مودی کے اگر 14 ماہ کے تعلقات پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم کا خطے میں امن کے حوالے سے رویہ ہمیشہ مثبت رہا مگر مودی کی شدت پسنددی میں کبھی کمی نہ آئی۔ آج کے کام میں تذکرہ کریں گے کہ وہ کون سی قوتیں اور محرکات ہیں جنہوں نے مودی کو بات چیت پر قائل کیا۔ کیا بھارت واقعی پاکستان سے بہتر تعلقات کا خواہاں ہے یا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سیشن مین نواز شریف کی جارحانہ تقریر کا سامنا کرنے سے کترا رہا ہے؟

مودی کے حالیہ رویے مین تبدیلی کیا بھارتی مداخلت کے ثبوت عالمی طاقتوں کو فراہم کرنے کی وجہ سے آئی ہے؟ نواز شریف اور مودی کے درمیان پہلی ملاقات 14 ماہ قبل 27 مئی کو بھارتی شہر دہلی میں ہوئی۔

اقتدار میں آںے کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ پہلی ملاقات تھی۔ نواز شریف اپنے بھارتی ہم منصب مودی کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوئے، جس میں مودی نے دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا تو نواز شریف نے محاذ آرائی ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے حساس معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔ دونوں وزرائے اعظم کی پہلی ملاقات میں سیکرٹری خارجہ سطح پر روابط قائم رکھنے اور مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ مگر یہ سلسلیہ تین ماہ بعد ہی تعطل کا شکار ہوگیا۔ جب بارہ اگست کو دورہ کشمیر کے دوران مودی نے پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کی۔ جس کے بعد لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔
مودی کے دورے کے ایک ہفتے بعد اٹھارہ اگست کو جب دہلی میں پاکستان ہوئی کمشنر عبدالباسط نے مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنماؤں سے ملاقات کی تو اسکے جواب میں بھارت نے اگست کو سیکرٹری خارجہ کی سطح پر ہونے والے طے شدہ مذاکرات منسوخ کر دیئے۔ گزشتہ سال ستمبر میں دونوں رہنماؤں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک دوسرے کے خلاف کھل کر تقریر کی۔ جس میں نواز شریف نے کشمیر تنازع پر بھارت کو آڑے ہاتھوں لیا تو بھارت نے پاکستان سے تشدد سے پاک ماحول کا مطالبہ داغ دیا۔ 

اسکے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں باضابطہ ملاقات کی توقع تھی مگر یہاں بھی بات مصافحے اور چند جملوں کے تبادلے سے آگے نہ جا سکی۔ رواں سال فروری میں مودی اور نواز شریف کا فون پر رابطہ ہوا جس کے نتیجے میں بھارتی سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکر نے اسلام آباد کا دو روزہ دورہ کیا۔ جس میں سرحدوں پر کشیدگی کم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ مگر اپریل مین ممبئی حملہ کیس میں بھارت کو مطلوب ذکی الرحمان لکھوی کو جب عدالتوں نے رہا کیا تو بھارت نے اس پر شدید احتجاج کیا۔

پاکستان نے مئی میں حقائق اور ثبوتوں کی روشنی میں دعوی کیا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی راء پاک چین اقتصادی راہداری کو نقصان پہنچانے کیلئے کام کر رہی ہے۔ جبکہ کچھ عرصے بعد ہی پاکستان نے را کے دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے ثبوت بین الاقوامی دوستوں کو فراہم کئے تو حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔ جون میں بھارتی وزیر اعظم مودی نے دورہ بنگلہ دیش کے دوران انکے ایک بیان نے بہتر تعلقات کی رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ کہ بنگلہ دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی۔ 

اسی دوران انہوں نے دورہ چین کے دوران اقتصادی راہداری کے معاملے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ اسکے بعد گزشتہ ماہ بھارتی وزیر مملکت راجیہ دردھن نے برمی سرحد کے علاقے میں بھارتی فوج کی کارروائی کو پاکستان سمیت دوسرے ممالک کے لئے ایک پیغام قرار دیا۔ بھارتی وزیر کے اس بیان کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات اس حد تک کشیدہ ہو گئے کہ جوہری ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی بھی بات کی گئی۔

معاملے کی حساسیت کا اندازہ لگاتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ کو مداخلت کرنا پڑی ۔ جس کے بعد دونوں وزرائے اعظم میں ایک بار پھر رابطہ ہوا۔ وزیر اعظم نواز شریف اور مودی کے درمیان روس کے شہر اوفا میں ہونے والی حالیہ ملاقات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ملاقات ایسے موقع پر ہوئی ہے جب پاکستان بھارتی مداخلت کے ثبوت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سیشن میں لہرانے والا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان اس متربہ بھارت کے خلاف اقوام متحدہ میں جارحانہ تقریر کی تیاریاں مکمل کر چکے تھے۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ بھارت بین الاقوامی سطح پر پاکستان موقف کا سامنہ کرنے سے کترا رہا ہے۔ کہیں اس میں بھارت کی کوئی نئی حکمت عملی تو نہیں؟ کیونکہ مودی اور نواز شریف کی حالیہ ملاقات میں چین اور روس کا اہم کردار ہے۔

چین اقتصادی راہداری میں حائل رکاوٹیں دور کرنے جبکہ روس خطے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لئے پاک بھارت بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔ ویسے تو آرمی چیف کے حالیہ دورہ روس نے بھی بہت سے معاملات طے کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جبکہ وزیر اعظم نواز شریف سے مودی کی ملاقات کے بعد روس کے سربراہ پیوٹن کی ملاقات بھی ہوئی ہے۔ جس میں انہوں نے زور دیا ہے کہ بھارت سے معاملات افہام و تفہیم سے حل کئے جائیں۔ ایک طرف عالمی طاقتوں کا افہام و تفہیم کیلئے دباؤ ہے تو دوسری طرف ستمبر میں بھارت کے خلاف اقوام متحدہ میں تقریر ہے۔ اطلاعات ہیں کہ اس حوالے سے بھی نواز شریف شش و پنج کا شکار ہیں۔ اس معاملے پر نواز شریف عسکری قیادت سے مشاورت کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ پاکستان نئے مذاکراتی سلسلے کی وجہ سے اقوام متحدہ میں اصولی موقف میں لچک دکھائے اور بھارت چند ماہ بعد پھر روایتی ہٹ دھرمی پر اتر آئے۔ اس لئے ہمیں سوچ سمجھ کر حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔ روس اور چین کا خطے مین حالیہ امن کے حوالے سے کردار اہم دکھائی دے رہا ہے۔ ایک طرف دونوں ممالک کی کوشش ہے کہ افغان طالبان اور افغان حکومت میں مذاکرات کامیاب ہوں تاکہ افغانستان مین امن کی فضا قائم ہو۔

جبکہ دوسری جانب پاک بھارت بہتر تعلقات سے بھی دونوں بڑی طاقتوں کا براہ راست مفاد جڑا ہوا ہے۔ مگر پاکستان کو ان حالات میں اپنے مفاد کی فکر کرنی چاہیے۔ چین ہمارا دوست ملک ہے، روس خطے میں امن کا خواہاں ہے مگر کسی بھی دوست یا ہمسائے ملک کے دباؤ پر اصولی موقف سے پیچھے ہٹنا پاکستان کیلئے نقصان دہ ہو گا۔ پاک بھارت وزرائے اعظم ملاقات کے فورا بعد زیادہ توقعات لگانا مناسب نہیں ہوگا۔ پاک بھارت بہتر تعلقات وقت کی اہم ضرورت ہیں مگر بھارتی دخل اندازی اور پاکستان میں شدت پسند گروہوں کی معاونت کے حوالے سے بھارتی خفیہ اداروں کے منفی کردار کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے معاملے سے پیچھے ہٹنا مناسب حکمت عملی نہیں ہوگی۔

حذیفہ رحمان
بہ شکریہ روزنامہ جنگ

On the banks of Dal lake in Srinagar

$
0
0
A Kashmiri Muslim prays before breaking the Ramadan daily fast, on the banks of Dal lake in Srinagar, the summer capital of Indian Kashmir. Muslims around the world are observing the holy fasting month of Ramadan, celebrated with prayers and readings from the Koran, and gatherings with family and friends as they abstain from eating, drinking, smoking and sexual relations from dawn till dusk.

بھارت اسرائیل کا ابھرتا اتحادی؟

$
0
0

بھارت نے سنہ 2014 میں غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ شہریوں کی ہلاکت پر اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل کی ایک رپورٹ پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اس رپورٹ میں غزہ میں شہریوں کی ہلاکت کے معاملات کی تفتیش اور تعین کےلیے بین الاقوامی عدالت سے رجوع کرنے کی بات کہی گئی تھی۔

بھارت نے اس رپورٹ کے حق میں ووٹ نہ دے کر اسرائیل کی براہ راست حمایت کی ہے۔

اسرائیل کی سرزنش کرنے والی اس رپورٹ کی حمایت میں کونسل کےموجودہ آٹھ یورپی ممالک سمیت 41 ملکوں نے رپورٹ کے حق میں ووٹ دیا جبکہ بھارت کینیا، پیراگوئے، مقدونیہ اور ایتھوپپیا کے ساتھ ووٹنگ میں غیر جانبدار رہا۔
امریکہ واحد ملک تھا جس نے اس رپورٹ کے خلاف ووٹ دیا۔

بھارت ابھی تک اسرائیل اور فلسطین تنازعہ میں فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا رہا ہے ۔ اس نے پر امن مذاکرات کےذریعے ایک فلسطینی مملکت کے قیام کی ہمیشہ حمایت کی اور ماضی میں اسرائیل کی جانب سے ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت اور مذمت کی۔
ابھی گذشتہ برس اس نے فلسطینی خطے میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں جنگی جرائم کی انسانی حقوق کی کونسل کےذریعےتفتیش کرانے کی قرارداد کی حمایت کی تھی۔

فلسطینی حکومت نے بھارت کے فیصلے کو ’شاکنگ اور تکلیف دہ ‘ قرار دیا ہے ۔ نئی دہلی میں مامور فلسطینی سفیر کا کہنا تھا کہ ہزاروں شہریوں کے قتل کے معاملےکو جنگی جرائم کی بین الاقوامی عدالت میں لےجانےکی جو تھوڑی بہت امیدیں تھی وہ بھارت کے اسرائیل کا ساتھ دینے کےسبب ختم ہوگئیں۔
بھارت کے بقول اس کے ’غیر جانبدار‘ رہنے کی ووٹنگ کو ادھر تل ابیب میں ’غیر معمولی‘ قرار دیا گیا ہے۔ اسرائیل کی حکومت بھارت کی نئی حکومت سے کافی خوش ہے۔

بھارت کی وزارت خارجہ نے وضاحت کی ہے کہ چونکہ وہ بین الاقوامی عدالت کے چارٹرکا حصہ نہیں اس لیے وہ ایسی کسی قرارداد کی حمایت نہیں کرتا جس میں کسی معاملے کو بین الاقوامی عدالت میں لے جانے کی بات کہی گئی ہو۔ لیکن وزارت خارجہ کی وضاحت کےبرعکس ماضی میں کئی ایسے معاملےآئے ہیں جب بھارت نے بین الا قوامی عدالت سےرجوع کرنے والی قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا ہے ۔

سنہ 2012 میں بھارت نے شام کےجنگی جرائم کی تفتیش کے لیے ایسی دو قراردادوں کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔
بہترین دفاعی ساز و سامان اور مشینری، کاشت کاری، ڈیری اور آبپاشی جیسےشعبوں میں اسرائیل کی غیر معمولی مہارت کےسبب گزرے ہوئے سالوں میں ا‎سرائیل سے بھارت کےتجارتی اوردفاعی تعلقات بہت گہرے ہوئے ہیں ۔

بھارت میں نریندر مودی کی قیادت میں نئی حکومت کے قیام کے بعد بھارت اسرائیل کے بہت قریب آیا ہے ۔حکمران جماعت کے صدر سمیت کئی اہم وزرا اور رہنما اسرائیل کا دورہ کرچکے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اس کی پیش رو جماعت جن سنگھ اوراس کی نظریاتی تنظیم آر ایس ایس اپنے مسلم مخالف نظریات کے سبب سنہ 1948 سے ہی اسرائیل کی حمایتی رہی ہیں۔ گذشتہ دنوں اسرائیل کی زیادتیوں کے خلاف اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی رپورٹ کی حمایت نہ کرنا اسرائیل سے بھارت کی بڑھتی ہوئی قربت کا عکاس ہے ۔

اسرائیل اور بھارت کی بڑھتی ہوئی اس قربت کو اس وقت اور زیادہ تقویت حاصل ہوگی جب وزیر اعظم آئندہ مہینوں میں اسرائیل کا دورہ کریں گے۔ اسرائیل کا دورہ کرنےوالے وہ پہلے بھارتی سربراہ حکومت ہونگے۔

شکیل اختر

بی بی سی اردو ڈاٹ کام

اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں

قدیم شہر ہڑپا

$
0
0

حکومت پاکستان نے رواں سال کو سیاحت کاسال قرار دیا ہوا ہے اور اس بارے میں اکثر بیانات اخبارات میں شائع ہوتے ہیں مگر عملی طور پر صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کی غفلت، عدم توجہی، مقامی لوگوں میں شعور کی کمی اور مناسب فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے ہڑپہ میں واقع دنیا کی قدیم ترین تہذیب کی باقیات زبوں حالی کا شکار ہو چکی ہیں اور پانچ ہزار برس قبل اس خطہ میں آباد ترقی یافتہ قوموں کے ہاتھوں سے بنائے گئے اس شہر کے آثار معدوم ہونے لگے ہیں اور ماضی میں کی گئی کھدائی کے دوران ملنے والے قیمتی اور نایاب نوادرات چوری ہوتے چلے گئے اور اس طرح قدیم تاریخ کا جدید شہر دریافت ہونے سے پہلے ہی اجڑ گیا جبکہ وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے آثار کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے سائٹ جانوروں کی آماجگاہ بن کر رہ گئی اور اس طرح ملکی سیاحت کو فروغ دینے کے حکومتی دعوے اور ہڑپہ کو ٹورسٹ سپاٹ بنانے کا خواب ادھورا رہ گیا ۔

معلوم تاریخ کے حوالے سے دنیا میں تقریبا پانچ ہزار برس قبل تین تہذیبیں معرض وجود میں آچکی تھیں جن میں ایک دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے کنارے عراق میں میسوپوٹامیہ، دوسری دریائے نیل کے کنارے مصر اور تیسری وادی سندھ کی تہذیب کہلائی۔ وادی سندھ کی تہذیب سلسلہ ہمالیہ کے دامن سے لیکر بحیرہ عرب تک تقریبا چار لاکھ مربع میل میں پھیلی ہوئی تھی۔اس تہذیب کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اسکا رقبہ اپنی دونوں ہمعصر تہذیبوں کے رقبے سے دوگنا ہے اور اب اس تہذیب کے پاکستان اور بھارت میں چار سو پچاس سے زائد آثار دریافت ہو چکے ہیں جن میں ایک ہڑپہ بھی شامل ہے۔

قدیم ہڑپہ شہر کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اس علاقے کے رہنے والے لوگوں نے پڑھنا اور لکھنا بھی دیگر تہذیبوں کے لوگوں کی نسبت پہلے سے شروع کر دیا تھا اور یہاں کے رہنے والے اس دور کے ترقی یافتہ لوگ تھے جو منظم اور منصوبہ بندی کے تحت اپنی زندگی گزارنے کے عادی تھے ان کے بنے ہوئے شہر اور عوام کی ضروریات کے مطابق ترتیب دی ہوئی گلیاں، کوچے، پینے کے پانی اور سیوریج کا نظام اکیسویں صدی کے لوگوں کو شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہے۔قدیم ہڑپہ شہر تقریبا پانچ ہزار تین سو سال قبل یہ لوگ آباد ہونا شروع ہو گئے تھے اور چار ہزار چھ سو سال قبل یہ لوگ ترقی کے عروج پر پہنچ گئے تھے یہاں کے باشندے تاجر اور زراعت پیشہ تھے جبکہ ہنر مند افراد کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔

قدیم ہڑپہ کے آثار تقریبا ایک سو پینسٹھ ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں جن کی دریافت حادثاتی طور پر 1890 میں اس وقت ہوئی جب لاہور سے ملتان ریلوے لائن بچھائی جا رہی تھی تو ریلوے ٹریک کیلئے اینٹوں کی سپلائی دینے والے ٹھیکیدار نے ہڑپہ میں اینٹوں کی کان دریافت کی ہوئی تھی اور یہاں سے اینٹیں لا کر ریلوے لائن کی تعمیر میں لگائی جاتی رہیں اورجب بعض افسروں نے اینٹوں کی مخصوص ساخت کو دیکھا اور تحقیق کی تو 1920 میں جا کر پتہ چلا کہ یہ اینٹیں ہڑپہ کے قدیم شہر کی تھیں چنانچہ 1920 میں ہی اس علاقے کو حکومتی تحویل میں لے لیا گیا۔مگر تب تک قدیم تاریخ کا یہ جدید شہر اجڑ چکا تھا اور جب اس وقت کی حکومت نے یہاں پر کھدائی کا کام شروع کیا تو نامناسب حالات کی وجہ سے یہاں سے ملنے والے نوادرات کی حفاظت نہ ہو سکی۔

 پاکستان بننے کے فوری بعد سے محکمہ آثار قدیمہ میں ماہرین کی کمی اور بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی کھدائی اور نوادرات کی حفاظت اور ان سے تاریخ اور علم جاننے کا کام غیروں کے مرہون منت رہا مگر اب جب محکمہ آثار قدیمہ میں ماہرین کی بھی کوئی کمی نہیں مگر مناسب مقدار میں فنڈ نہ ہونے اور دیگر شعبوں کی طرح روایتی سستی اور غفلت کی وجہ سے قدیم ہڑپہ شہر کی باقیات زبوں حالی کا شکار ہو گئیں۔ لوکل آبادی میں تعلیم اور شعور کی کمی نے بھی اس جدید طرز پر آباد شہر کے آثاروں کو شدید نقصان پہنچایا جبکہ آثار کے گرد چار دیواری نہ ہونے کی وجہ سے بھی اسے محفوظ نہ رکھا جا سکا اگرچہ موجودہ اکیسویں صدی میں قدیم تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے اور قدیم آثاروں سے علم حاصل کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے اور ایسے لوگوں کیلئے مناسب سہولیات مہیا کر کے انہیں یہاں آنے کی ترغیب دی جا سکتی ہے اور اسے ایک خوبصورت پکنک سپاٹ میں تبدیل کر کے نہ صرف ملکی سیاحوں بلکہ غیر ملکی سیاحوں کی آمد سے حکومتی خزانے میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور اس پورے علاقے کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے 

مگر سیاحت کو فروغ دینے کے ذمہ دار محکموں کی ناقص منصوبہ بندی، عدم توجہی اور غفلت کی وجہ سے اس علاقے کی ترقی کے خواب کو اس کی عملی تعبیر نہ مل سکی۔دنیائے تاریخ میں شہروں کے بسنے اور اجڑنے کی داستانیں صفحہ قرطاص پر بکھری پڑی ہیں ان میں ہڑپہ کا بھی ذکر ملتا ہے۔ آریاوں کی مقدس کتاب رگ وید میں ہری یوپیا کا ذکر ملتا ہے جس کے معنی سنہری قربان گاہ ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نام ہڑپہ کی صورت اختیار کرگیا جس کو گردش دوراں اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے ہڑپ کر لیا ویسے بھی پنجابی زبان میں سیلاب کو ہڑ کہتے ہیں اور شاید یہی لفظ بگڑتے بگڑتے ہڑپہ بن گیا۔

منصور مہدی


حضرت معروف کرخی

منشیات کا ڈان پھر جیل سے فرار

$
0
0

میکسیکو میں سینالاؤ نامی منشیات کے گروہ کے سابق سربراہ جوکوئین گزمین ایک مرتبہ پھر جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ ’شورٹی‘ یا ’پست قد والا‘ کے نام سے معروف جوکوئین گزمین نے انتہائی نگرانی والی اس جیل سے فرار کے لیے ایک طویل سرنگ استعمال کی۔

میکسیکو کے قومی سلامتی کے سربراہ کے مطابق شورٹی نے الٹی پلانو کی جیل سے فرار کے لیے ایک میل طویل جو راستہ استعمال کیا اس میں سیڑھیاں اور روشندان بھی ہیں۔

اس سے قبل خبر رساں ادارے اے پی نے بتایا تھا کہ نیشنل سکیورٹی کمیشن نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ گزمین سنیچر کی رات کو اپنی کوٹھری سے غائب پائے گئے۔

انھیں میکسیکو شہر سے باہر الٹی پلانو نامی جیل میں رکھا گیا تھا۔
سکیورٹی حکام نے بتایا ہے کہ شب نو بجے کے قریب وہ نہانے کے لیے گئے تھے۔ جب کچھ دیر تک دکھائی نہ دیے تو جس کوٹھری میں انھیں رکھا گیا تھا وہاں کی تلاشی لی گئی مگر وہ خالی تھی۔
گزمین کی تلاش کا عمل جاری ہے اور اس سلسلے میں قریب موجود ہوائی اڈے کو بھی پروازوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ جوکوئین گزمین کو سنہ 1993 میں 20 سال کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا تھا تاہم وہ آٹھ سال بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

انھیں دوبارہ گذشتہ برس گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ پہلی بار جیل کے محافظوں کو رشوت دے کر میلے کپڑوں کے تھیلے میں چھپ گئے تھے اور یوں جیل سے فرار ہو گئے تھے۔

خیال رہے کہ منشیات کا کاروبار کرنے والے امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر سرنگیں بھی بنا لیتے ہیں۔
سینالاؤ گروہ دنیا میں کوکین، بھنگ، چرس اور دیگر منشیات کو امریکہ میں جہاز، زمین اور سمندر کے ذریعے کنٹرول کرتا ہے اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے 50 ممالک کے ساتھ رابطے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے جوکوئین گزمین کی گرفتاری کی اطلاع دینے والے کے لیے 50 لاکھ ڈالر انعام مقرر کیا تھا۔


Special Eid train leaves for Lahore

$
0
0

Special Eid train leaves for Lahore






اعلی تعلیم و تحقیق میں پاکستان کی کامیابیاں

بد عنوانی کے خاتمے کی دوڑ

میں اس شہر کا باسی ہوں جس کا کوئی پرسان حال نہیں

رینجرز کا گھیراؤ

چین: منڈی کی مندی

عافیہ :بھولی داستان ، بکھرا خیال

$
0
0


ڈاکٹر عافیہ بیتی، وطنی حمعیت ، ملی غیرت، قومی شرم وحیاء کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ۔ اے اہل وطن! ذرا اپنے ذہنوں میں تصویر بنائیں کہ بدقسمت عافیہ  مملکت ِ خدادادِ اسلامیہ کے علاوہ کسی بھی اور ملک کی شہری ہوتیں ،کیا ممکن تھا بغیر قصور، بے باک جھوٹ کے عوض 86 سال کے لئے جانوروں کے کوڑا دان میں بے یارومددگار پھینک دی جاتی۔ کیا صومالیہ سمیت دنیا کا کوئی ملک بھی ہوتا، ممکن تھا؟ ایسی بے حسی مملکت خداداد اسلامیہ میں ہی سمو سکتی تھی ۔ 

مجال ہے ہزیمت، ملال، رنج کا شائبہ بھی چہرے پر، پسینے کی بوند کا ایک قطرہ بھی ماتھے پر نمایاں۔پیرومرشد نے ملت کا مقدر افراد کے کردار سے نتھی رکھا۔ جہاں احساس کا فقدان قومی طرہ امتیاز، وہاں ملت کا مقدر، ذلت، خواری ، رسوائی ہی ۔ چشم تصور میں وزیراعظم پاکستان اپنی لخت جگر کو لاوارث عافیہ کی جگہ دیکھیں؟تنگی اور ننگی کاابنوہ نظر آئے گا۔ 

دانشمند ، ’’غیرت مند‘‘ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی چیک لسٹ پھرولیں، بدنصیب عافیہ کا نقشہ آنکھوں کے کسی زاویہ میں نہ ہوگا۔ اے خوابیدہ قوم ! تسلی رکھو، عافیہ قومی حمعیت کا نقش سیاہ، معدودے چند کے لئے سوہان روح ضرور، بھولی بسری داستان ہی سمجھیں۔ عافیہ صدیقی اور قائدین کی بہنوں،بیٹیوں کے درمیان حد فاصل ہے ہی بہت زیادہ ۔ وہ ایک دین دار، راست باز، صاحبہ ایمان، عالمہ، غیرت مند، پرعزم،ثابت قدم، ہدایت یافتہ، بھلا ایسے کردار کاجھوٹی ، بددیانت، مفادپرست ، چورقوم کے ہجوم میں واپس آنا کیونکر ممکن؟
’’اے زر تو خدا نیست، ولیکن بخدا۔ ستار العیوبی ‘‘ وقاضی الحاجاتی (اے اقتدار اور دولت تو خدا تو نہیں ہے لیکن خدا کی قسم کے عیبوں کو چھپانے والی اور حاجتوں کو پورا کرنے والی ضرور ہے)‘‘۔ ملت مرحومہ کا نظامِ ایمان ، دیانت، امانت، سچائی، غیرت ، طاق نسیاںپر دھر دیا گیا ہے۔

پچھلے دنوں نیوز ویک کے کالمسٹ بے نظیر شاہ کا الجزیرہ کے لئے عیدسے دو دن پہلے عافیہ کے بارے میں بھیجی گئی روئداد نے دل دہلا دیا۔ معاندانہ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیاگیا کہ ’’ اذیت، تشدد اور بے عزتی جان لیوا ثابت ہوچکی۔ خبر نے عید پژمردہ رکھی۔ تکلیف ، غم، دکھ، بے بسی نے نڈھال رکھا۔ آہنی اعصاب کی مالک ڈاکٹر فوزیہ کا شکریہ کہ بروقت تسلی کرائی اور ڈاکٹر عافیہ کے وکیل اسٹیفین ڈائون کا بے نظیر شاہ کو آڑے ہاتھوں لینے کی تفصیل بھجوا دی۔ 20 کروڑ لاشوں کی ملت میں شاید واحد زندہ وتابندہ ڈاکٹر عافیہ ہی تو، اللہ کا شکر کہ بھیڑیوں کے نرغے میں پابند سلاسل عافیہ ، جذبہ ایمانی سے مردانہ وار نامساعد حالات میں بھی سینہ سپر ہے۔
ایک بردہ فروش حکمران، بزدل کمانڈوصدرچند ٹکوں کے عوض قوم کی عزت، آبرو، وقار، آزادی، خودمختاری تسلسل سے بیچتا رہا۔ کشمیر، نیو کلیئر اثاثے بھی اپنی دکان کی تزئین وآسائش کی نذر کر دئیے۔ آج بھی اس کی بے شرمی ساتواں آسماں چھونے کو، سینہ تان کر ملکی سیاست میں اپنا رول دیکھ رہا ہے۔ ایک عرصے سے گم شدہ افراد عسکری اداروں اور سپریم کورٹ کے درمیان وجہ نزاع ہیں۔ 

میرا ایک عد د بھانجا ڈاکٹر علاء الدین بھی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ پچھلے کئی سال سے والدین کی ایک ہی التجا کہ جو سزا دینی ہے ، کر گزریں۔ خدارا صرف جرم سے آگاہ کر دیں۔آج دکھی والدین کی آہ وبکا آسمانوں کو لرزائے ہوئے ہے، ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں۔ یہی بتا دیا جائے کہ کہیں اکثریت افراد امریکی فنڈ کی وصول کے عوض گنتی پوری کرنے کے چکر میں تو نہیں پکڑے گئے۔ گوانتاناموبے کے عقوبت خانوں میں پہنچائے گئے ساڑھے چھ سو کے لگ بھگ دنیا کے نامی گرامی، چوٹی کے دہشت گرد کو کئی سالوں کی پُرمشقت اورپُرتشدد تفتیش کے بعد، بے گناہ قرار پائے۔
پاکستان کے ایک ہزار مسنگ پرسن کا گناہ ڈھونڈنے میں شاید دہائیاں درکار ہوں۔رہنما اصول ایک ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ رہائی کے بعد یا لاش ملتی ہے ، یا نکلتے ہی مار دیا جاتا ہے یا نکلتے ہی مار دیا جائے گا یا ذہنی طور پر مکمل مفلوج تاکہ مدعی نہ مدعا۔

ڈاکٹر عافیہ کی داستان مختلف نہیں۔ دن دیہاڑے کراچی سے تین معصوم بچوں سمیت اغوا کیاگیا۔ امریکی دیوتائوں کے گھمنڈ اور زعم کے آگے ایسے سوال پوچھنے کی اجازت بھی کہ’’ ڈاکٹر عافیہ کا جرم بتا دیں؟‘‘ 2003ء میں دن دیہاڑے اغوا ہوئی، ارباب اقتدار کی طرف سے فخریہ اعتراف ہوا، کہ ہم نے گرفتار کیا، پھرکچھ عرصہ پہلو تہی بالآخر انکاری۔ ایون ریڈلی نے 5 سال بعد پہلی بار اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ انکشاف کیا کہ ایک پاکستانی ، منحنی ، کمزور، نحیف جسم کی عافیہ جنگلی جانوروں کی بھینٹ ، عذاب اور تشدد کی زد میں۔

عید سے دودن پہلے ،نیوز ویک کے رپورٹر بے نظیر شاہ کی الجزیرہ کے لئے رپورٹ اور اس کے اگلے دن عافیہ کے وکیل اسٹیفن ڈائونز کے جواب نے زخم ہرے کر دئیے۔

عافیہ کی گمشدگی پر پاکستانی حکومت نے ایک جست میں بنفس نفیس فرما دیا تھا کہ ہم ہی نے عافیہ کو گرفتار کیا، بعد ازاں اُسی جست میں انکار فرمانے میں عار محسوس نہ کی ۔ سابق صدر نے اپنی کتاب میں بیانگ دہل اعتراف کیا کہ ’’اپنی قوم کو ڈالروں کے عوض بیچا‘‘۔ امریکی اٹارنی جنرل نے عدالت میں یہی کچھ فرمایا کہ ’’ پاکستانی قوم چند ہزار ڈالرز کے عوض اپنی سگی ماں بھی بیچ سکتے ہیں‘‘، عافیہ تو پھر لاوارث، اس کا بیچنا بنتا تھا۔ خاندان کی آہ وبکا پر کوئی کان کیوں دھرتا؟ بظاہر مزاحیہ، عملاََ رعونت کہ 5سال بعد ایک دن اچانک غزنی کے علاقے میں افغان سیکورٹی فورسز نے ایک مفلوک الحال، بدحال خاتون گرفتار کی جو بہت بڑے گیم پلان سمیت خودکش حملہ کرنے کے لئے پرتول چکی تھی۔جانور کہانی کے سقم کو دور کرنے کے مکلف تو تھے نہیں۔ تین بچے جوساتھ اغواء ہوئے، اس وقت تک کہانی میں موجود نہ ان کا اتہ پتہ۔

دو بچے بعد ازاں افغان حکومت نے پاکستان کے حوالے کئے (شرمناک) ، یعنی بچے 8 سال سے افغان حکومت کے پاس، بقول شخصے عافیہ اچانک ٹپک پڑی۔ جبکہ ایک چند سالہ معصوم نے اپنی جان، کن حالات میں جان آفریں کے سپرد کی، اس کا اللہ ہی جانتا ہے ۔ غزنی میں اڑن طشتری کے ذریعے پہنچنے والی عافیہ کو امریکیوں کے جب حوالے کیا گیا تو ایک نئی مزاحیہ ،شرمناک کہانی گھڑی گئی ۔ 40 کلو وزنی عافیہ نے 6 ایکسٹرا لارج  جانوروں سے ایک رائفل چھینی اور ان کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں جوفائز چلا وہ عافیہ کے ہی جسم کو درمیان سے چیرگیا۔نئی کہانی کے ساتھ جب ننگ انسانیت ، ننگ انصاف ایک بے شرم امریکی عدالت (جس کی مذمت ساری دنیا کی حقوق انسانی انجمنوں نے کی) میں پیش ہوئی تو جرم میں القاعدہ کا نام نہ خودکش حملے اورنہ ہی دہشت گرد سرگرمیوں کا ذکر۔

الزام ایک ہی کہ ’’مداخلت کارسرکار‘‘ ، امریکی فوجیوں کو قتل کرنے کی کوشش جس کا کوئی زمینی ثبوت پیش کرنے کا تکلف ہوا نہیں۔ امریکہ کا نظام تو ہے ہی جھوٹ کا مرہون منت، وطن عزیز میں امریکی گماشتے (بے غیرت بریگیڈ) ، امریکی پروپیگنڈے کا ہراول دستہ کیوں بن گئے؟ امریکی شہریت سے لے کر اس کو کیمیائی سائنسدان ، القاعدہ لیڈی،عافیہ بارے ہر قسم کی لغو اور بکواس سکہ رائج الوقت رہی۔ اب توہمارے جیسے لکھنے والے بھی تھک چکے ہیں، واپسی کا مطالبہ تونقارخانے میں طوطی کی آوازسے بھی کم۔ حکمرانو !اب التجا ایک ہی، قوی امکان یہ التجاء بھی صدا بصحرا ہی رہے گی ، ڈاکٹر عافیہ کا اصل جرم وزیر داخلہ اسی طرح پریس کانفرنس میں بتائیں جس طرح آجکل الطاف حسین کے جرائم اجاگر کرکے اپنا سکہ جما رہے ہیں۔جبکہ وزیر موصوف پچھلے 35 سالوں سے ایم کیو ایم کی کارگزاری سے کماحقہ آگاہ ہیں۔

الطاف حسین کے ذکر پر ضمناً عرض ہے۔ کہ جو کچھ ان کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے ، سب سچ، پوری قوم ایم کیو ایم کے خلاف الزامات کو من وعن سچ سمجھتی ہے۔

مگر جس طریقے سے اس معاملے کو ہینڈل کیا جا رہا ہے وہ خطرناک بھی اور نااہلی بھی۔دودھ کے جلے کو لسی پھونک پھونک کر ہی پینی ہے۔ یادش بخیر،شیخ مجیب الرحمن کا بھارتی ایجنٹ ہونا ثابت تھا۔ اگر تلہ سازش کیس سو فیصد درست۔ ڈاکٹر سجاد حسین  کی علمی تحقیق ،بھارتی صحافی شرمیلا بوس  کی تحقیقاتی روئداد اور سب سے بڑھ کر کرنل شریف الحق دالیم (بھارتی کیمپوں میں تربیت لینے والا کردار ) کی سلطانی گواہی جبکہ رہی سہی کسرخود بھارتی وزیراعظم کا ڈھاکہ میں اعتراف جرم سب کچھ یہی کچھ ثبت کر گیا۔

 نتیجہ کیا نکلا، مجیب الرحمن جیل میں بیٹھ کربھی پاکستان توڑ گیا ۔ ’’باعزت ‘‘رہا ہوا اس وقت کے حکمرانوں سے تسلیم بھی کروالیا۔ وجہ صرف اتنی کہ مجیب الرحمن کی سیاسی جڑیں بنگالی عوام الناس میں پنپ چکی تھیں ۔ تاریخ کا سبق ایک ہی، مہم جوئی کی بجائے سیاسی طریقے ہی سے اس جماعت کے خلاف کارروائی کرنا ملکی مفاد میں۔ وگرنہ ساری تدبیروں کا الٹا بیٹھنا، دیوار پر کنندہ ہے۔ اے میرے وطن کے سجیلے رہنمائو، نوشتہ دیوار پڑھ لو۔ اس ملک کو چوم چوم کر ہلاک نہ کرو۔

حفیظ اللہ نیازی
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ


خالی الذہن جنگجوؤں کا مقابلہ ،مگر کیسے؟...خالد المعینا

$
0
0

سعودی عرب نے حال ہی میں نو ممالک سے تعلق رکھنے والے چار سو اکتیس مشتبہ جنگجوؤں کو گرفتار کیا ہے۔بے گناہ شہریوں پر حملوں سے روکنے کے لیے ابھی بہت فاصلہ طے کرنا ہے۔

گذشتہ چند روز کے دوران دو واقعات ایسے پیش آئے ہیں جن میں نوجوان انتہا پسندوں نے اپنے ہی خونی رشتوں کو ہلاک کردیا۔ایک واقعے میں ایک انتہاپسند نے اپنے باپ کو قتل کردیا تھا۔اس کے بعد سکیورٹی فورسز نے اس کو ہلاک کردیا تھا۔دوسرے نے اپنے سوتیلے چچا کو چیک پوائنٹ پر ہلاک کرنے کے بعد خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ان نوجوانوں کو متشدد قاتل کس نے بنایا تھا؟
نوجوانوں کے گم راہ ہونے میں غیرملکی فورسز یا داعش کو مورد الزام ٹھہرانے کا کچھ فائدہ نہیں ہے۔یہ لوگ مختلف عوامل کی بنا پر گم راہ اور منحرف ہوتے ہیں۔ان میں سب سے اہم ان کی منفی انداز میں پرورش اور والدین کا انھیں نظرانداز کرنا ہے۔

تخلیقی سوچ

اس میں اسکول میں تعلیم ایک اہم عامل ہے جہاں کردار کی تعمیر کے بجائے صرف رٹا لگانے اور روایات ہی پر زور دیا جاتا ہے۔اس پر طرہ یہ کہ معاشرے میں کوئی کرداری نمونے بھی دستیاب نہیں ہیں۔

غیر نصابی سرگرمیوں کی عدم موجودگی نوجوان طلبہ کو بور اور نکما بنا دیتی ہے۔تعلیمی ادارے ہمارے نوجوانوں کو اپنی توانائیوں کو پروان چڑھانے اور بروئے کار لانے کے ذریعے مہیا نہیں کرتے ہیں۔

اسکولوں میں ڈراموں ،تھیٹرز ،مشغلوں پر مبنی ورکشاپس اورعام سادہ سوشل ورک کے لیے نہ تو کوئی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور نہ اس ضمن میں کوئی رہ نمائی کی جاتی ہے۔اس طرح کی سرگرمیوں سے طلبہ کے اخلاقی کردار کو مضبوط بنانے میں مدد مل سکتی تھی۔

تخلیقی سوچ کی عدم موجودگی سے نوجوان خالی الذہن ہوجاتے ہیں اور وہ بآسانی انتہاپسند اساتذہ ،ائمہ اور سوشل میڈیا کے ''استحصالیوں''کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ایسے لوگ بہ کثرت موجود ہیں جو دوسرے فرقوں یا نقطہ نظر کے حامل لوگوں کے خلاف نفرت کو مہمیز دینے کا کام کرتے ہیں۔

بعض لوگ اپنی حیثیت یا مرتبے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کھلے بندوں کام کرتے ہیں جبکہ بزدل لوگ اپنی مذموم اور بُری سوچ کی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا پر عدم شناسائی کا سہارا لیتے ہیں۔

تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی

یہ لوگ موت کے سوداگر ہیں اور انھیں روکا جانا چاہیے۔افسوس تو یہ ہے کہ میں سوشل میڈیا پر ان کے مہلک زہر کو پھیلتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور یہ سلسلہ خطرناک رفتار کے ساتھ جاری وساری ہے۔

یہ محاورہ کہ خالی ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے ،گھر میں پختہ ہونے کے لیے آرہا ہے اور ہم بطور معاشرہ اپنے نوجوانوں کی کردار سازی کے لیے سرگرمیوں کی رہ نمائی نہ کرکے ان کی درست خطوط پر تعلیم وتربیت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ان تقریبات کو فراموش کردیجیے جہاں سینیر عہدے دار صرف زبانی جمع خرچ کے لیے آتے ہیں۔

ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے،وہ اسکول میں سرگرمیاں ،کھیل کے لیے سہولتیں بحث ومباحثے ،تقریری مقابلے، مہم جوئی کے کھیل اور تخلیقی و ایجادی سرگرمیاں ہیں۔ان سے باہمی تعامل اور روابط کو فروغ ملتا ہے۔ہمیں صحت مند جسموں اور تخلیقی اذہان کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
میرا یہ ماننا ہے کہ سعودی عرب کے سرکاری اسکولوں کے تدریسی عملے میں مشرق اور مغرب سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کو شامل کیا جانا چاہیے تاکہ سعودی اساتذہ ان کے تجربات سے استفادہ کریں اور جدید تعلیم کے نفاذ کے لیے آئیڈیاز اور خیالات کا باہمی تبادلہ کریں تاکہ اکیسویں صدی کے طلبہ کی تعلیمی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔

ہمیں اساتذہ کی ضروریات کو بھی پورا کرنا چاہیے اور انھیں مراعات اور احترام دینا چاہیے۔سعودی اساتذہ بہ حیثیت مجموعی مایوسی کا شکار ہیں اور ان کی تن خواہیں بھی کم ہیں۔جب تک اساتذہ کی ایجاد و جدت کے لیے حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی اور انھیں نصاب کے مطابق تعلیم دینے کے لیے آزادی نہیں دی جاتی ہے،تو کسی محرک سے تہی دست ایسے اساتذہ کے ہوتے ہوئے تعلیم کی یہی صورت حال رہے گی۔

کاروباری برادری کو بھی نوجوانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنی ذمے داریوں کو پورا کرنا چاہیے۔ کاروباری اداروں میں کھیلوں کی سہولیات ،پارک اور دوسرے مراکز قائم کرنے چاہئیں،چہ جائیکہ وہ صرف مالز کی تعمیر ہی پر توجہ مرکوز کریں اور وہ ملک بھر میں ہرکہیں کھمبیوں کی طرح ''اُگ''رہے ہیں۔
سعودی عرب کا قیام عظیم قربانیوں کا نتیجہ ہے۔یہ دو مقدس مساجد (مسجد الحرام اور مسجد نبوی) کی زمین ہے اور اس کو تمام لوگوں کے لیے امن وآشتی،روشنی اور ترقی کا گہوارہ ہونا چاہیے۔اگر ہم اس مقدس سرزمین کے تحفظ میں ناکام رہے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

خالد المعینا

کہنہ مشق ،تجربے کار صحافی اور تجزیہ کار خالد المعینا ''سعودی گزٹ''کے ایڈیٹر ایٹ لارج ہیں۔

تحریک انصاف کا مستقبل

لا تعلق سیاسی قائدین

ممبئی بنام سمجھوتہ ایکسپریس: آخر کب ہوگا انصاف؟

$
0
0

معلوم نہیں کہ روسی شہر اوفا مین بھارت اور پاکستان کے درمیان ہوئی ملللاقات کے دوران 2008ء میں ہوئے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کس حد تک بات چیت ہوئی، مگر آثار قرائن بتا رہے ہیں، کہ ہندو دہشت گردی کے حوالے سے بھارت میں سرکاری ایجنسیوں پر دباؤ بنایا جا رہا ہے، کہ وہ اپنی تفتیش ختم کریں نیز عدالتی پیروی میں تساہل اور نرمی سے کام لیں تاکہ ملوث افراد کی فی الحال ضمانت پر رہائی ممکن ہو سکے۔ نومبر 2008ء میں ممبئی میں دہشت گردانہ حملوں سے دو سال قبل 18 فروری 2007ء کی شب دہلی اور لاہور کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس کے دو ڈبے تاریخی شہر پانی پت کے نزدیک دھماکوں سے اڑ گئے۔ 68 اموات میں اکثر پاکستانی شہری تھے۔

 ابتدائی تفتیش میں بھارتی ایجوں نے ان دھماکوں کے تار بھی مسلم نوجوانوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی ، چند ایک کو حراست میں بھی لیا۔ میڈیا میں انڈین مجاہدین اور پاکستان میں سرگرم کئی تنظیموں کا بھی نام لیا گیا۔ مگر چند دیانت دار افسران کی بدولت اس دھماکہ میں ایک ہندو انتہا پسند تنظیم ، ابھینو بھارت کے رول کے بے نقاب کیا گیا۔ سب سے زیادہ خطرے کی گھنٹی اس وقت بجی جب نومبر 2008ء میں ملٹری انٹیلی جنس کے ایک حاضر سروس کرنل پرسادسری کانت پروہت کے رول کی نشاندہی کر کے اسکو گرفتار کیا گیا۔
اگلے دو سالوں میں نیشنل انوسٹیگیشن ایجنسی نے سوامی اسیما نند اور ایک انجینئر سندیپ ڈانگے کو بھی حراست میں لے لیا۔ اسی دوران راجستھان کے انٹی ٹیررسٹ سکواڈ کے 806 صفحات پر مشتمل فرد جرم میں انکشاف کیا گیا، کہ فروری 2006ء میں ہندو انتہا پسندوں نے وسطی بھارت کے ایک شہر اندور میں سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔ اس میٹنگ میں ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوک سیوم سنگھ کے مقتدر لیڈر اندریش کمار بھی موجود تھے۔ اس سے قبل ان کا نام اجمیر شریف کی درگاہ میں ہوئے دھماکہ کی سازش میں بھی آیا تھا۔ مگر انکی کبھی دوران حراست تفتیش نہیں ہوئی۔ 12 فروری 2012ء میں این آئی نے آر ایس ایس کے کارکنوں راجندرپہلوان ، کمل چوہان اور اجیت چوہان کی گرفتار کیا۔ ایجنسی کے بقول ان تین افرد نے ہی ٹرین میں بم نصب کئے تھے۔

گو کہ بھارت میں سرکاری ایجنسیاں دہشت گردی سے متعلق واقعات کے تار آنکھ بند کئے مسلمانوں سے جوڑتی آ رہی ہیں، مگر 29 ستمبر 2008ء کو مہاراشٹرہ کے مالیگاؤں شہر کے ایک مسلم اکثریتی علاقہ میں ہوئے دھماکوں اور اس میں ملی لیڈز نے مہاراشٹر کے اینٹی ٹیررسٹ سکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے کو چونکا دیا۔ اور ایک غیر جانبدارانہ تفتیش کے بعد اس نے ہندو دہشت گردی کا بھانڈا فاش کیا۔ کر کرے ممبئی حملوں میں دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے جس کے بعد یہ تفتیش مرکزی ایجنسی این آئی اے کے سپرد کی گئی۔ اسکے بعد تو حیدرآباد کی مکہ مسجد ، اجمیر درگاہ، سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کے تار ہندو دہشت گردی سے جڑتے گئے۔

 جب کرکرے نے یہ نیٹ ورک بے نقاب کیا تھ اتو بی جے پی اور شیو سینا کے متعدد رہنماؤں کے خلاف زبردست شور برپا کیا اور انہیں ، ملک کا غدار قرار دیا تھا۔ بہر حال کرکرے کی تحقیق کا یہ نتیجہ نکلا کہ دہشت گردانہ واقعات کے بارے میں جو عمومی تاثر پیدا کر دیا گیا تھا وہ کچھ حد تک تبدیل ہوا کہ اس کے پشت پروہ عناصر بھی ہیں جو اس ملک کو ہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں۔ ابتداء میں ان واقعات میں معصوم مسلم نوجوانوں کو ماخوذ کر کے انہیں ایذائیں دی گئیں اور کئی ایک کو برسوں تک جیلوں میں بند رکھا گیا۔

ایک معروف صحافی لینا گیتا رگھوناتھ نے یو پی اے حکومت کی ہندو دہشت گردی کے تیئں نرم رویہ کو افشاں کیا تھا۔ لینا کے بقول تفتیشی ایجنسیوں کے ایک افسر نے انہیں نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وزارت داخلہ کو سونپی گئی ان خفیہ رپورٹوں کے مطالعے کی اجازت دی تھی۔ ان رپورٹوں میں مرکزی وزارت داخلہ سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ وہ آر ایس ایس کو ایک شو کاز نوٹس جاری کرے کہ اسکے خلاف جو شواہد اور ثبوت ہیں کیوں نہ انکی بنیاد پر اسے غیر قانونی اور ممنوع قرار دیا جائے؟َ مہاراشٹر کی اسوقت کی کانگریس کی قیادت میں مخلوط حکومت نے بھی ابھینو بھارت اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیموں کو غیر قانونی قرار دینے کی سفارش کی تھی لیکن اس پر مرکزی حکومت نے عمل نہیں کیا۔

مگر اب جب سے پچھلے سال بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت وزیر اعظم مودی کی حکومت برسراقتدار آئی ہے، ان مقدمات کو کمزور کروانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس سلسلے میں مالیگاؤں کے بم دھماکہ مقدمہ کی خصوصی سرکاری وکیل روہنی سالیان نے حال میں یہ سنسنی خیز انکشاف کیا ہے، کہ ایک طرف سرکاری وکیلوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ مقدمات کی پیروی مین سست روی اور نرمی سے کام لیں اور دوسری طرف سرکاری گواہوں کو منحرف کیا جارہا ہے تاکہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہندو دہشت گرد رہا ہو سکیں۔ روہنی سالیان نے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کے ایک سینئر افسر نے (جو محض ایک پیغام رساں تھا) اپنے بالا افسروں کو یہ پیغام پہنچایا کہ وہ مقدمہ کی پیروی کیلئے پیش نہ ہوں۔

سالیان نے کہا کہ اسکا مقصد بالکل واضح ہے کہ ہم سے ہمدردانہ احکامات کی توقع نہ رکھیں۔ انہوں نے بتایا کہ بی جے پی جب گزشتہ سال مرکز میں برسر اقتدار آئی تو این اے آئی کا ایک افسر کے پاس آیا اور بات کی۔ سالیان کے بقول اس نے کہا کہ وہ فون پر بات کرنا نہیں چاہتا، اس لئے وہ یہاں آیا اور پیغام سنایا کہ میں نرم رویہ اختیار کروں۔

مالیگاؤں کیس میں سادھوی پرگیہ ٹھاکر کرنت پروہت ، سوامی اسیم نند (جسکے گجرات ضلع آنند میں واقع آشرم کو بی جے پی کے کئی بڑے رہنماؤں بشمول اس وقت کے وزیر اعلی نریندر مودی کے سرپرستی حاصل تھی) اور دیگر کے مقدمات کے بارے میں محترمہ سالیان کو یہ ہدایت کہ وہ نرمی اور تساہلی سے کام لیں۔ یہ حقیقت بھی قابل تشویش ہے کہ دہشت گردی کے ان واقعات کی چل رہی تحقیقات بھی روک دی گئی ہے جس میں آر ایس ایس کے بڑے رہنما جیسے اندریش کمار وغیر کا نام نہ صرف ملزموں نے عدلیہ کے سامنے دیئے گئے اپنے اقبالیہ بیان میں دیا تھ ابلکہ جانچ رپورٹوں میں بھی انکے نام آئے تھے۔

 این آئی اے کا یہ دعوی کہ وکیل صاحبہ ٹھیک طرح سے کام نہیں کر رہی تھیں، بے بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کیس مین بڑی مستعدی کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انکی اس مستعدی سے حکومت تشویش میں مبتلا ہو گئی تھی۔ یہ وہی وکیل صاحبہ جنہوں نے داؤد گینگ کے کئی ارکان کو سزا دلانے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ مالیگاؤں مقدمہ مین سالیان نے جس مستعدی اور فرض شناسی کا مظاہرہ کیا اس نے ارباب اقتدار کو پریشان کر دیا۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قانون کے جانبدارانہ اطلاق کے منصوبہ کا ایک حصہ ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں گجرات کے تقریبا وہ تمام پولیس افسران جو پولیس مقابلوں کے نام پر بے رحمانہ قتل کرنے کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں وہ سب ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں اور بعض کو دوبارہ ملازمت پر بحال کر دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ حکمراں جماعت کے موجودہ صدر امیت شاہ جن کے بارے میں قومی تفتیشی ایجنسی یعنی سی بی آئی نے اپنی چارج شیٹ میں یہ تک لکھ دیا تھا کہ ریکٹ ان سے شروع ہوتا ہے اور ان پر ختم ہوتا ہے۔

 وہ بھی سہراب الدین اور انکی اہلیہ کے علاوہ دیگر انکاؤنٹر میں بری کر دیئے گئے ہیں۔ اب سی بی آئی کا امیت شاہ کو عجیب وغیرب طریقہ سے بری کئے جانے کے خلاف اپیل نہ کرنے کا فیصلہ بھی سنگین سوالات کھڑا کرت اہے۔ مالیگاؤں اور سمجھوتہ ایکسپریس کا مقدمہ بھی اسی سمت میں جارہا معلوم ہوتا ہے۔ مودی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے اجمیر درگاہ بلاسٹ کے 14 گواہان منحرف ہوئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر آر ایس ایس کے لوگوں سے قربت رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک گواہ رندھیر سنگھ نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کر لی اور اسے جھارکھنڈ کی نئی بی جے پی حکومت مین وزیر مقرر کیا گیا۔

اجمیر کیس کے سرکاری استغاثہ اشونی شرما کے مطابق 15 میں سے 14 گواہان اپنے بیانات سے منحرف ہو گئے ہیں جو انہوں نے 2010ء میں اے ٹی ایس اور مجسٹریٹ کے سامنے تعزیرات ہند کی دفعہ 164 کے تحت قلمبند کرائے تھے۔ انکے علاوہ گجرات نسل کشی کے بدترین واقعات کے مجرمین جیسے سابق وزیر مایا کونڈنانی اور بابو بجرنگی وغیرہ جنہیں سزائے موت کے بدلے بامشقت طویل قید کی سزائیں سنائی گئیں، وہ آج عارضی ضمانت پر آزاد گھوم رہے ہیں۔ اب این آئی اے نے گجرات کے موڈ سا میں 2008ء میں ہوئے بم دھماکے کی جانچ بھی بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس بارے مین ناکافی شواہد کا عذر پیش کیا ہے۔ 

اسکے علاوہ اس نے سنیل جوشی کے قتل مقدمہ کو مدھیہ پردیش منتقل کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ کرکرے نے جو ضخیم چارج شیٹ تیار کی تھی اس میں آر ایس ایس لیڈر اندریش کمار ، وشو ہندو پریشد کے پروین توگڑیا کے علاوہ کئی اور نام بھی شامل بتائے جاتے ہیں۔ سوامی اسیم نند نے کاروان میگزین کو دیئے گئے اپنے طویل انٹرویو میں آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت کا بھی نام لیا تھا۔ یقین تھا کہ اوفا میں ملاقات کے دوران شاید پاکستانی وزیر اعظم سمجھوتہ ٹرین کی تفتیش سے متعلق استفسار کرین گے، چونکہ اس معاملہ کے تار بھارت میں دہشت گردی کے دیگر واقعات سے بھی جڑے ہیں ، لگ رہا تھا کہ انٹرنیشنل دباؤ یا راولپنڈی میں ممبئی حملوں میں ملوث ملزمین پر مقدمہ میں تیزی لانے کے عوض بھارت میں بھی ہندو دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائیگا، مگر مودی حکومت جس طرح دہشت گردی کے مقدمات کی پیروی کر رہی ہے، وہ انتہائی تشویش کا موجب ہے۔ ممبئی سمجھوتہ ، مالیگاؤں ، اجمیر اور اسی طرح کے دیگر کئی واقعات ہنوز انصاف کے منتظر ہیں۔

سید افتخار گیلانی
بہ شکریہ روزنامہ ’’دنیا

Death toll rises as Pakistan floods continue

$
0
0
 Death toll rises as Pakistan floods continue


Viewing all 4315 articles
Browse latest View live