Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

Funeral procession of ‎YakubMemon

$
0
0
Funeral procession of ‎YakubMemon‬ who fell victim to the injustices of the corrupt democratic system...



Afghan refugee children cries during the police operation in Islambad

$
0
0
Pakistani girls cry during an operation to tear down a poverty-stricken neighborhood where Afghan refugees and Pakistani tribal people live in Islamabad.

ڈیم کی قدر پاکستان سے پوچھیے

$
0
0

ہر سال موسمِ برسات میں پاکستان کا سیلاب سے متاثر ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ تو اب ایک روایت ہے، ایک طرح کا دستور بن چکا ہے۔ پاکستان میں جو بھی حکومت آتی ہے، یہ اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ سالانہ سیلاب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس کی تیاری کرلے۔ وہ تیاری اس طرح کی جاتی ہے کہ سیلاب زدگان کی مدد کے لئے جو فنڈز درکار ہوسکتے ہیں ان کا کچھ تخمینہ پہلے سے لگا لیا جاتا ہے۔

یہ تو ایک قدرتی آفت ہوتی ہے، اللہ کی مرضی ہے اور انسان اللہ کی مرضی کے آگے بے بس ہے۔ اس کا حل، جو کہ حکومت نے عوام کو کو دیا ہے وہ یہی ہے کہ ہر سال سیلاب آنے کی صورت میں متاثرین کی کچھ امداد کی جاتی ہے اور کسی حد تک ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی جاتی ہے۔ دریا بھی تو ہمارے ہی ہیں جو برسات کے موسم میں ابل پڑتے ہیں، پھر ایسے میں حکومت کے پاس یہی ایک راستہ ہے۔

واحد راستہ اس لیے یہی ہے کہ دوسرا راستہ تو ہم نے بند ہی کردیا ہے۔ ڈیم تو ہم نہیں بنائیں گے کیونکہ ہماری سیاسی قیادت کا اتفاق نہیں ہوسکتا۔ کالا باغ ڈیم کو متنازع بنا کر سیاست کی نظر کردیا گیا اور پاکستانی عوام کو ہر سال سیلاب میں غوطے کھانے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ ہمارے بجٹ میں ملکی دفاع کو خاص طور پر ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے اور رکھا جانا بھی چاہیئے کیونکہ اس ملک کو سرحد کے دونوں طرف خطرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 

ٹی ٹی پی کی صورت میں پاکستان کو ایک جنگ میں الجھا دیا گیا ہے اور انہیں دہشتگردوں کے زریعے سے پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کو بگاڑنے کے لیے سازش کی گئی ہے۔ جب دشمن ملک ہمارے دریاؤں کے پانی کو قابو کرسکے یعنی جب چاہے روک لے اور جب چاہے چھوڑ دے تو اسے ہم سے لڑنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے لیے تو بہتر یہی ہے کہ ہر سال اسی کھیل میں الجھا کر ہماری معیشت تباہ کردے اور ہمیں بھرپور جانی نقصان بھی اٹھانا پڑے۔
جب پاکستان اور بھارت میں بارشیں کم ہوتی ہیں اور دونوں ممالک کو قحط سالی سے بچنے کے لیے پانی درکار ہوتا ہے تو ایسے میں بھارتی ڈیم پاکستان کو قحط سالی میں مبتلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ 

ہمیں اپنی نا اہلی تو نظر آتی ہی نہیں لہٰذا اس پر تبصرہ بے کار ہے۔ تب پاکستان میں دریا خشک ہوتے ہیں اور کسان پانی کو ترستے ہیں مگر وہ نایاب ہوتا ہے کیونکہ وہ بھارت میں زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہوجاتا ہے۔ پانی کتنا ضروری ہے؟ پاکستانی اس سوال کا جواب بخوبی دے سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اپنے ملک کے دریا ہی جب قابو میں نہ ہوں اور دشمن ملک انہیں ڈیم بنا کر قابو کر لے تو پھر ہر سال برسات کے موسم میں سیلاب جس سے اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے، ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ جانی نقصان کی تو تلافی ممکن ہی نہیں۔ یہ سالانہ معمول ہے مگر نہ حفاظتی بندوں کو مضبوط کیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی خاص اقدامات کیے جاتے ہیں جن کی بدولت پانی سے نقصان کم ہو۔
ہمارے پاس اس پانی کو جو کہ آج تباہی اور بربادی کا سامان بنا ہوا ہے، ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم ہی نہیں ہیں۔ اچھے وقتوں میں پاکستان میں تربیلا اور منگلا جیسے بڑے ڈیم تعمیر ہوگئے جنہوں نے آج بھی وطنِ عزیز میں بجلی کی پیداوار کا ذمہ اٹھایا ہوا ہے۔ پاکستان میں کسی بڑے ڈیم کا بننا ناگزیر ہے اور اگر پاکستان ایسا نہیں کرتا تو پھر پاکستان کو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ اس کے کسی دشمن کو اس پر حملہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ سیلاب اور قحط ہی کافی ہیں جو پاکستان کی روایت بن رہے ہیں۔ ہم اقتصادی ترقی کے خواب تو دیکھتے ہیں مگر حال یہ ہے کہ لوڈ شیڈنگ نے ہماری معیشت کو تباہ کیا ہوا ہے۔ بجلی کی قلت نے ہماری صنعتوں کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

ہماری ہر حکومت کی ترجیحات ذاتی مفادات پر مبنی ہوتی ہے جس نے ملک کو تباہی کے دہانی پر لا کھڑا کیا ہے! دہشتگردی کی لعنت نے ملک کو شدید نقصان پہنچایا۔ کیا ہمارے سیاستدان نہیں سمجھتے کہ قومی مفاد کے لیے ڈیم کا بننا ضروری ہے؟ کیا یہ نہیں جانتے کہ ڈیم نہ بنا تو ملکی مستقبل پر آنچ آئے گی؟ لیکن اب پانی واقعی سر سے اوپر گزرچکا ہے، اگر اب بھی عقل کے ناخن نہیں لیے اور ڈیم بنانے کے لئے سنجیدہ نہیں ہوئے تو پھر اگلی بار تباہی پر الزام دشمن پر مت لگائیے گا۔

ابو بکر فاروقی

زمین کے بے زمین - وسعت اللہ خان

$
0
0

اسلام آباد کے سیکٹر آئی الیون میں لگ بھگ تیس برس سے آباد ’’غیر قانونی‘‘ کچی بستی کی مسماری اور مکینوں کی پولیس اور سی ڈے اے اہل کاروں سے دھینگا مشتی کے مناظر دیکھ کر مجھے ایک بار پھر غلام عباس کا شہرہِ آفاق افسانہ ’’آنندی‘‘ یاد آ گیا۔

جب میونسپل کمیٹی شہر کو اخلاقی آلودگی سے پاک کرنے کے لیے طوائفوں کو شہر سے پرے پھینک دیتی ہے اور کچھ ہی برس میں اس نئی جگہ پر ہیرا منڈی کے ارد گرد ایک اور شہر آباد ہوجاتا ہے اور پھر وہاں کی میونسپل کمیٹی بھی سر جوڑ کے بیٹھتی ہے کہ اب ان طوائفوں کو کہاں پھینکا جائے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں جب ریاست اپنے شہریوں کو سر چھپانے کی جگہ فراہم کرنے کے بنیادی فرض کی ادائیگی میں ناکام ہو جاتی ہے تو پھر وہ مسئلے کو سینگوں سے پکڑنے کے بجائے اس کے شکم سے جنم لینے والی کچی بستیوں کا علاج بذریعہ بلڈوزر کرتی ہے۔

پھر بس اتنا ہوتا ہے کہ نااہلی کے جسم پر بے گھری کا پھوڑا ایک سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتا ہے اور کروڑوں انسانوں کی مستقل بے گھری ریاستی بے حسی کے سمندر پر پھولی لاش کی طرح تیرتی پھرتی ہے۔ جسے آپ نہ ڈبو سکتے ہیں نہ دفن کر سکتے ہیں۔ بس تعفن سے بچنے کے لیے دور ہٹا سکتے ہیں مگر یہ ڈھیٹ لاش پھر ساحل پر آ جاتی ہے۔

کیا وجہ ہے کہ ساڑھے تین لاکھ مربع میل پر پھیلی زمین پر کہنے کو اٹھارہ کروڑ لوگ رہتے ہیں مگر آدھوں سے بھی کم کے سر پر قانونی چھت ہے؟
اسٹیٹ بینک کی تازہ ترین سہ ماہی ہاؤسنگ فنانس رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں نوے لاکھ مکانات کی قلت ہے اور ہر سال اس قلت میں ساڑھے تین لاکھ مکانات کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ( لیکن جو حشر صحت، تعلیم اور روزگار کے بنیادی حق کا ہو رہا ہے اس سے زیادہ خراب حشر چھت کی فراہمی کے حق کا ہے)۔ رپورٹ کے مطابق قانونی طریقے سے صرف دو فیصد اور غیر قانونی طریقوں سے صرف دس تا بارہ فیصد بے گھروں کی رہائشی ضروریات ہی پوری ہو پا رہی ہیں۔
اگر نا اہلی اور منصوبہ بندی و حکمتِ عملی کا فقدان دیکھنا ہو تو سب سے بڑا شہر کراچی ایک ’’روشن مثال‘‘ہے۔ شہری منصوبہ بندی کے سرکردہ ماہر عارف حسن لکھتے ہیں کہ اس وقت کراچی کی باسٹھ فیصد آبادی (تیرہ ملین) شہر کی تئیس فیصد رہائشی زمین پر غیر رسمی، غیر منصوبہ بند بستیوں میں رہ رہی ہے۔ گویا فی کمرہ چھ سے دس لوگ اور فی ٹائلٹ بیس لوگ۔ دوسری جانب شہر کی بہتر فیصد رہائشی زمین پر قائم قانونی، منصوبہ بند بستیوں میں چھتیس فیصد آبادی (ساڑھے سات ملین لوگ) رہتی ہے۔

مضمون کے مطابق جس شہر میں باسٹھ فیصد آبادی صرف تئیس فیصد رہائشی علاقے کی غیر منصوبہ بند بستیوں میں رہ رہی ہے اسی شہرِ کراچی میں دو لاکھ سے زائد رہائشی پلاٹ اور باسٹھ ہزار اپارٹمنٹ خالی پڑے ہیں۔ پھر بھی چوبیس ہزار ہیکٹر سے زائد نئے رقبے پر نجی تعمیراتی کمپنیاں نئے رہائشی یونٹ اور پلاٹ ڈویلپ کر رہی ہیں جنھیں صرف مڈل کلاس ہی خریدنے کی سکت رکھتی ہے۔
لوئر مڈل کلاس اور مزدور طبقہ یا تو خواب میں گھر بنا سکتا ہے یا پھر چائنا کٹنگ (فلاحی پلاٹوں پر غیر قانونی تعمیرات) کے موجدوں یا کسی ڈنڈا بردار دادا، واجا، خانصاحب کے در پر دستک دینے پر مجبور ہے جو سرکاری زمین پر ان بے زمینوں کو یہ یقین دلا کر بٹھا دیتا ہے کہ میرے ہوتے نہ تو کوئی پولیس والا تمہیں تنگ کرے گا، نہ گیس کنکشن کاٹنے کوئی گاڑی آئے گی اور نہ بجلی کا بل آئے گا۔ یوں ڈھائی تین لاکھ روپے میں اس غریب کو ایک یا دو کمروں کی جگہ مل جاتی ہے۔
ٹیڑھی میڑھی کچی گلیاں ابھرنے لگتی ہیں۔ اور سرکاری اہلکاروں اور نجی لینڈ مافیا کی ملی بھگت اور منافع میں حصہ داری بستی کو جاری و ساری رکھتی ہے اور پھر اگلے الیکشن میں اپنے ووٹ بڑھانے کے خواہش مند ان بستیوں کو ’’لیگل‘‘ کروا دیتے ہیں۔

جو بستیاں کرپشن کی تکون میں دراڑ پڑنے کے سبب لیگل نہیں ہو سکتیں یا اپنے سرپرست سے محروم ہو جاتی ہیں انھیں بلڈوزر کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ تا کہ یہ بھی دکھایا جا سکے کہ حکومت ’’جرائم‘‘ کے ان اڈوں کو ختم کرنے کے لیے کس قدر سنجیدہ ہے۔ یہ بے گھر کچھ دن چیخ و پکار کرتے ہیں اور پھر کسی دادا کی سرپرستی میں پھر کسی سرکاری و نجی زمین پر تب تک کے لیے نئی زندگی شروع کر دیتے ہیں جب تک کرپشن کی نئی تکون برقرار رہے۔

بہت سال پہلے ہر صوبائی دارلحکومت میں کچھ خود مختار ادارے زندہ تھے جو ٹاؤن پلاننگ بھی کرتے تھے اور مستقبل کی ضروریات کے مدِ نظر نئی رہائشی اسکیمیں صوبے کی سطح پر ڈویلپ کرتے تھے۔ پھر سیاسی و غیر سیاسی حکومتوں نے اس بنیادی حق کو احسان کی گیٹگری میں رکھ دیا اور اپنی سیاسی مقبولیت کے لیے دو مرلہ، پانچ مرلہ، کم آمدنی پلاٹ اسکیم، آشیانہ، شامیانہ، عامیانہ، غرض بھانت بھانت کے ناموں سے رہائشی اسکیموں کا اعلان شروع کر دیا۔ کچھ مکمل ہو گئیں، کچھ نامکمل رہیں، کچھ کاغذ پر رہ گئیں اور کچھ اگلی حکومت نے فضول قرار دے کر منسوخ کر کے ان کی لاش پر اسی طرح کی نئی اسکیمیں چالو کر دیں۔

اس شعبدے بازی کا غریبوں کو تو خیر کیا فائدہ ہوتا۔ اسٹیٹ ایجنٹوں اور صاحبانِ زر کی چاندی ہو گئی جنہوں نے سیکڑوں پلاٹ مختلف ناموں سے خریدے، ذخیرہ اندوزی کی اور پھر مہنگے داموں بیچا۔ یوں اوپن فائل اور سٹہ کلچر وجود میں آ گیا۔ یعنی جو پلاٹ دراصل کسی غریب کو ایک ڈیڑھ لاکھ میں ملنا تھا وہ کئی ہاتھوں سے ہوتا ہواتا دس بارہ پندرہ بیس لاکھ روپے پھاند گیا۔

 اور جن غریبوں کو پلاٹ مل جاتے ہیں ان میں سے بھی بہت سے اتنے سیانے نکلتے ہیں کہ اپنا رعایتی قیمت کا پلاٹ منافع پر بیچ کر پھر اسی جگہ آن بیٹھتے ہیں کہ جس سے جان چھڑوانے کے لیے قانونی منصوبہ بند رہائشی اسکیمیں شروع کی گئی تھیں۔

اور پھر بے گھروں کے نام پر یہ فراڈ بھی شروع ہو گیا کہ جیسے ہی بااثر لوگوں کو ٹاؤن پلاننگ اداروں کے اندر بیٹھے گرگوں سے معلوم ہوتا کہ فلاں علاقے میں رہائشی اسکیم بننے جا رہی ہے تو وہاں راتوں رات بیسیوں جھونپڑیاں اور کچے مکانات وجود میں آ جاتے تا کہ اسکیم کا اعلان ہو تو ان ’’پروفیشنل مظلوموں‘‘ سے علاقہ خالی کرنے کے عوض کچھ نہ کچھ ’’معاوضہ‘‘ یا متبادل پلاٹ مل جائے۔

ہاں ٹاؤن پلاننگ کے سرکاری ادارے اب بھی ہیں لیکن اب انھوں نے اپنا زیادہ تر کام نجی ہاؤسنگ اسکیموں اور کمپنیوں کو سونپ دیا ہے، یا پھر وہ انھی پرچیوں پر سرکاری ریٹ پر الاٹمنٹ کرتے ہیں جو پرچی کوئی سرکاری طاقتور کسی نجی طاقتور کی خوشنودی کے لیے جاری کرتا ہے۔

یا پھر یہ ادارے لینڈ مافیا کی انیکسی بن چکے ہیں۔ یعنی لینڈ مافیا سے ہاتھ ملا کر وہ ایسی اراضی ڈھونڈ نکالتے ہیں جہاں پر لوگ سو سو برس سے آباد ہیں مگر ان کے پاس دستاویزات نہیں۔ چنانچہ ان کا تاریخی قبضے کا دعوی کوئی نہیں مانتا اور انھیں اکھاڑ کر ان کی زمین انھی کی آنکھوں کے سامنے اونے پونے داموں ریاستی رٹ سے بھی بڑے تعمیراتی جنات کو الاٹ کر دی جاتی ہے۔ یوں بے گھروں کی ایک نئی تعداد ریاستی کرپشن کی مہربانی سے پہلے سے موجود لاکھوں بے خانماؤں کی فوج کا حصہ بن کر پھر کوئی ’’غیر قانونی‘‘ بستی آباد کر لیتی ہے۔ آپ چاہیں تو انھیں ’’مقامی فلسطینی‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔

کسی کو یاد ہے کہ کراچی میں کے ڈی اے، لاہور میں ایل ڈی اے، پشاور میں پی ڈی اے اور اسلام آباد میں سی ڈی اے جیسے اداروں نے بے چھت غریبوں کے لیے کب آخری بار باضابطہ رہائشی اسکیم کا اعلان کیا تھا جو کامیابی سے آباد بھی ہو گئی ہو۔

اب تو مجھ جیسوں کو یوں لگتا ہے کہ پاکستان دراصل ساڑھے تین لاکھ مربع میل کا وہ پلاٹ ہے جس کے اندر موجود اٹھارہ کروڑ لوگوں کو اجازت ہے کہ اپنی خوشی سے جیسے چاہو رہو، نہ رہو، جنت بناؤ کہ جہنم میں جاؤ، پر ہمیں تنگ مت کرو پلیز۔ ہمارے پاس اور بھی ضروری کام ہیں۔۔۔۔

وسعت اللہ خان 

دینی تعلیم اور مدارس میں اصلاحات

بھارتی میڈیا کا رویہ

نتائج سے بے خبر بھارت کا جارح انداز

$
0
0

نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد بھارت نے ہندو مہاسبھا، خونخوار اور معصوم جانوں سے رنگے ہاتھوں آر ایس ایس تنظیم کی پالیسی پر عمل درآمد شروع کر رکھا ہے، جس میں مسلم، سکھ اور عیسائی دشمنی کا عنصر نمایاں ہے، جس سے ایک دفعہ پھر یہ ثابت ہوگیا کہ پاکستان کا قیام اور ہندوستان کی تقسیم کتنی ضروری تھی۔ یہ تنظیمیں بشمول اُن کی سرپرست بھارتیہ جنتا پارٹی کا مقصد مہابھارت کا قیام ہے اور وہ ’’بھارت صرف ہندوئوں کیلئے‘‘ کا شرانگیز، غیرانسانی، اقوام متحدہ کے چارٹر کیخلاف اصول اپنائے ہوئے ہیں اور اُس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہمہ وقت کام کررہے ہیں۔ اس کیلئے بھارتی سرکار نے اقلیتوں کا جینا حرام کردیا ہے۔

اُن پر جھوٹے مقدمے، جھوٹے پولیس مقابلے اور بھارت کی سرزمین تنگ کردی گئی ہے۔ اِس کے علاوہ بھارت میں چلنے والی 22 آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کیلئے جھوٹے آپریشن کا ڈرامہ رچا رہا ہے، ناگالینڈ کے حامیوں نے 20 فوجی مار دیئے تھے اور اُن کے خلاف برما کے ایسے جنگلات جہاں تک رسائی ممکن نہیں ہے اور اگر ہو بھی تو ناگا اس کے چپہ چپہ سے واقف ہیں اس لئے بھارتی آپریشن کی کامیابی مشکوک سمجھی جارہی ہے، اس طرح وہ پاکستان کو پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ پاکستان کے اندر آپریشن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں خود اُن کی فوج کے کشمیر میں کورکمانڈر نے کہا کہ ایں خیال است و محال است و جنوں، دوسرے وہ پاکستان کو اشتعال پر اشتعال دلا رہا ہے۔ 

سرحدوں پر چھیڑچھاڑ جس سے پاکستانی سپاہیوں اور عام شہریوں کی شہادت ہورہی ہے۔ پھر بھارت نے اپنا ڈرون طیارہ پاکستان کی جاسوسی کیلئے بھیجا، اس ڈرون کو پاکستان نے گرا لیا۔ اسکے بعد 27 جولائی 2015ء بھارتی پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبہ گورداسپور میں پولیس اسٹیشن پر حملے کا ڈرامہ رچایا کہ دہشتگرد فوجی وردی میں آئے تھے اور مارے جانے کے بعد سول ڈریس میں دکھایا گیا، اس طرح بھارت نے اپنی ڈرون کے گرائے جانے کی سبکی کو اِس حملہ سے دور کرنے کی کوشش کی جبکہ بھارتی میڈیا بھارتی عوام کے سر پر جنگی جنون سوار کررہا ہے۔
بھارت ایسا کیوں کررہا ہے اُس کی کئی وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ اس نے کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا، دوسرے وہ خود کو اب بالادست قوت کے طور پر جنوبی ایشیا کے ملکوں سے تسلیم کرانا چاہتا ہے، جنوبی ایشیائی ممالک خصوصاً سارک کے ممالک سوائے پاکستان کے اُس کی بالادستی قبول کرچکے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں نے اپنی نادانی کی وجہ سے کئی غلطیاں کی ہیں جیسے کہ پاکستان کے وزیراعظم بھارتی وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوئے، دوسرے روس کے شہر اوفا میں ملاقات کے دوران بھارتی جھنڈے کے نیچے وزیراعظم پاکستان کا بھارتی وزیراعظم سے ملاقات کرنا اور پھر سرحدوں پر جھڑپیں ہورہی ہیں، پاکستانی افواج اور عام شہری شہید ہورہے ہیں اور وزیراعظم پاکستان کا نریندر مودی کو آموں کا تحفہ بھیجنا۔ یہ غلطیاں مودی کو شہہ دے رہی ہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف جارحانہ انداز اختیار کرے۔

تیسرے بھارت کو پاکستان میں دہشت گردی کا کم ہوجانا ہضم نہیں ہورہا ہے۔ شکر ہے کہ ضربِ عضب نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے، اُن سے اُن کے محفوظ علاقے خالی کرا لئے ہیں۔ پھر پاکستان افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان پہلا مذاکرات کا دور مکمل کرا چکا ہے، جسے مری مذاکرات کہتے ہیں۔ اب 31 جولائی کو مذاکرات کا دوسرا دور بھی مکمل ہونے جارہا تھا۔ اس میں رخنہ ڈالنے کیلئے امن مذاکرات ہونے کے تین روز قبل ملا عمر کے انتقال کی خبر بی بی سی سے نشر کی گئی جس کی افغان حکومت میں بھارتی حامیوں نے یہ کہہ کر تصدیق کردی کہ ملا عمر کا انتقال کراچی کے ایک اسپتال میں ہوا۔ اگرچہ افغان طالبان کے فیصلے 20 رکنی شوریٰ کرتی ہے، نیا سربراہ اختر محمد منصورکو مقرر کرنے کی خبر آرہی ہے۔

طالبان نے مذاکرات عارضی طور پر ملتوی کردیئے ہیں تاکہ وہ اپنی صفوں میں یکجہتی پیدا کرسکیں۔ اس طرح خطے میں امن ممکن ہوسکے گا تاہم پاکستان اور افغانستان کے اچھے تعلقات بھارت کیلئے ناقابل قبول ہیں۔ اس لئے وہ صورتِ حال بگاڑنے اور پاکستان کو الجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم بھارت کو جواب دینے کیلئے بہتر پوزیشن میں ہیں۔ چوتھے بھارتی حکمرانوں کو چین پاکستان معاشی کاریڈور کی تعمیر اور پاکستان کا خوشحال ہونا ایک آنکھ نہیں بھا رہا ہے، اس نے کئی ذریعوں سے کہا ہے کہ وہ معاشی راہداری کی تعمیر ہر صورت میں روکیں گے۔

وہ افغانستان سے اپنی تعمیراتی کمپنیوں اور افغانستان میں موجودقونصل خانوں کے ذریعے بلوچستان میں دہشت گردی کرا رہا ہے۔ اب پاکستان نے اس کے سدباب یا دہشت گردوں کو حملہ کرنے کی صلاحیت سے محروم کرنے کی پالیسی وضع کرلی ہے جس سے اِن دہشت گردوں کے نقصانات زیادہ ہورہے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتی وزیر دفاع، بھارتی وزیر داخلہ اور بھارت کے سلامتی امور کے مشیر اجیت ڈول اپنے الگ الگ بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ چین پاکستان معاشی راہداری ہر حال میں بننے نہیں دیں گے۔ جواباً چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے بلوچستان کے علاقے پنجگور میں کہا ہے کہ پاکستان یہ راہداری ہر قیمت پر بنائے گا اور پاکستان اپنے ظاہر اور چھپے دشمنوں سے بخوبی واقف ہے اور اُن سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔

ہر چند کہ بھارت پاکستان کو مشتعل کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کررہا ہے، سرحدوں پر بلااشتعال اور بلاوجہ فائرنگ کا سلسلہ، سیاچن کے گیاری سیکٹر میں پاکستان فوجی ہیڈ کوارٹر کو گلیشیئر کے نیچے دبانا اور 135 عظیم فوجیوں کی شہادت کی ذمہ داری ایک بھارتی ویب بلوگر کے ذریعے تسلیم کرنا کہ اس نے DEW ٹیکنالوجی استعمال کرکے پاکستان کو یہ نقصان پہنچایا اور اب گورداس پور کا واقعہ جس کو بلاتحقیق پاکستان کے نام لکھ دیا اگرچہ وہاں سکھوں کی تحریک آزادی چل رہی ہے، پھر بھارت کے پاس وہ 90 قیدی ہیں جو طالبان کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد 2001ء کے آخر میں شمالی اتحاد نے بھارت کے حوالے کئے تھے اور دس سال پہلے تک تو لکھنو کے ایک کیمپ میں تھے جن کووہ گاہے بگاہے رہا کرکے اُن سے بھارتی پارلیمنٹ پر حملے جیسا کام لے کر مار دیتا ہے اور حملے کا الزام پاکستان پر دھر دیتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی انٹیلی جنس، سابقہ شمالی اتحاد سے یہ پتہ لگائے کہ انہوں نے کتنے طالبان بھارت کے حوالے کئے تھے اور بھارت میں اپنے ذرائع سے پتہ چلائے کہ اُن میں اب کتنے لوگ باقی بچے ہیں، اس کو طشت ازبام کیا جائے تاکہ بھارت پاکستان پر الزام لگانے کا سلسلہ بند کرے اور اُن لوگوں کو جنگی قیدی یا اقوام متحدہ کے زیرنگرانی لانے کی کوشش کرے۔ پاکستان نہ صرف بھارت کے نام نہاد دعوے کہ اس نے DEW ٹیکنالوجی کے ذریعے گیاری سیکٹر پر حملہ کیا، کے جواب میں DEW ٹیکنالوجی حاصل کرچکا ہے بلکہ ایٹمی میزائل، ڈرون، بحری قوت و فضائی قوت کے حوالے سے بھی بھارت سے ابھی بہت آگے ہے، اگرچہ بھارت کوشش کررہا ہے کہ پاکستان کی فضائی اور ایٹمی و میزائل برتری کو توڑے مگر ہم جواب میں اس سے بہتر ٹیکنالوجی حاصل کرلیتے ہیں۔ آلات منجمد کرنے سے لے کر دور مار سے کم فاصلے کے میزائل، اسٹرٹیجک ایٹمی اسلحہ سے لے کر چھوٹے کم تباہی کرنے والے ایٹمی ہتھیار پاکستان کے پاس ہیں۔ جس کی وجہ سے بھارت کا کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن ناکارہ ہوگیا ہے۔

پھر اگر ’’را‘‘ کے سربراہ کے مطابق داعش کو استعمال کریں گے تو پاکستان اُن سے بھی نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ داعش کے خالق امریکا اور مغربی ممالک ہیں وہ اُن کا سب سے خوفناک ہتھیار ہے دوسرے نریندر مودی اور اب گوگل کے سروے کے مطابق دُنیا کے بے وقوف ترین وزیراعظم نریندر مودی کو کامیاب کرانے میں بھی امریکا نے اسٹرٹیجک حمایت کی، اُس کو جدید آلات کے ذریعے عوام تک پہنچنے کی صلاحیت سے آراستہ کیا کہ وہ ایک وقت میں 30 شہروں میں جلسوں سے خطاب کرسکتا تھا، امریکا اپنے اِس آلہ کار کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال کررہا ہے، جس پر پاکستان کو امریکہ کو بتانا چاہئے کہ اپنے بندے کو قابو میں رکھے ورنہ نتائج کی ذمہ داری امریکا پر ہوگی

نصرت مرزا
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ

بھارت میں دو مسلمانوں کی اموات کا احوال


Pakistani laborers transport the front portion of a vehicle

$
0
0
Pakistani laborers transport the front portion of a vehicle using a handcart at a road in Peshawar.

Flash floods wreak havoc in Peshawar

$
0
0
A Pakistani girl sits on remains of her house which is destroyed by floodwater in Peshawar, Pakistan. Pakistani authorities said the death toll from flash floods triggered by seasonal monsoon rains in various parts of the country has risen to more than 100. Meanwhile, floodwater has inundated vast areas, leaving tens of thousands homeless.

سندھ میں تعلیم کے شعبے کی بربادی

الطاف حسین کا عہد تمام ہوا

مرکزی داخلہ پالیسی سے میرٹ کے قتل عام تک کا سفر

$
0
0

اگر آپ نے 80 یا 90 کی دہائی میں انٹرمیڈیٹ کیا ہے تو آپکو اچھی طرح یاد ہوگا کہ میڑک کے بعد کسی سرکاری کالج میں داخلہ لینا کس قدر مشکل، کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہوا کرتا تھا جس سے نا صرف طلبہ و طالبات بلکہ ان کے والدین بھی گزرتے تھے۔ میٹرک کا نتیجہ آتے ہی ایک عجیب و غریب ہلچل اور طوفان بدتمیزی شروع ہوجاتی جو نئے تعلیمی سال کے باقائدہ آغاز تک جاری رہتی۔

اثر و رسوخ کا استعمال، رشوت کا کاروبار اور طلبہ تنظیموں کی مداخلت عام تھی۔ بغیر سفارش اور رشوت کے کسی کالج میں داخلہ حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ امتیازی نمبروں سے کامیاب ہونے والے طلبہ و طالبات بھی نامی گرامی کالج میں پڑھنے کے خواب کو انہی ناجائز راستوں سے گزرنے کے بعد شرمندہ تعبیر کر پاتے تھے ورنہ  کالجوں کی خاک چھانتے اور دھکے کھاتے پھرتے، یہاں تک کے نئے تعلیمی سال کے باقائدہ آغاز ہونے تک ایک بے یقینی کی کیفیت کا شکار رہتے۔
ان تمام مشکلات کو دیکھتے ہوئے سال 2001 میں اس وقت کے صوبائی سیکرٹری تعلیم  سندھ نذر حسین مہر اور نو منتخب شہری حکومت کے ناظم نعمت اللہ خان نے سپلا کے مرحوم رہنما ریاض احسن کی معاونت سے کراچی کی شہری حکومت کے زیر انتظام چلنے والے 88 سرکاری کالجوں میں داخلوں کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کے لئے ’’مرکزی داخلہ پالیسی‘‘ کا انقلابی نظام متعارف کرایا۔ اس کمپیوٹرائزڈ مرکزی نظام میں جہاں طلبہ و طالبات کی آسانی اور سہولت کا خیال رکھا گیا وہیں میرٹ اور شفافیت کو یقینی بنانے پر بھی خصوصی توجہ دی گئی۔ تمام کالجوں کی صوابدیدی اختیارات، کوٹے، سیلف فنانس اور اضافی نشستوں کو ختم کردیا گیا۔ جبکہ شکایت کی وصولی، ان کے ازالے اور پالیسی کی مکمل عملداری اور پابندی کے لئے بھی مختلف کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں۔

اس نظام کے تحت ایک مرکزی داخلہ فارم اور خصوصی ہدایت نامہ ترتیب دیا گیا جو شہر بھر میں مختلف بینکوں کی شاخوں میں انتہائی ارزاں قیمت پر دستیاب تھا۔ فارم کو سادہ اور آسان رکھا گیا اور واپس جمع کراتے وقت بے شمار اضافی دستاویزات طلب کرنے کے عمومی رحجان کے برخلاف صرف ایڈمٹ کارڈ کی ایک کاپی مانگی گئی۔ طلبہ و طالبات کو یہ سہولت دی گئی کہ وہ کالج کے پتے اور سابقہ میرٹ لسٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پسند کے چار کالجوں کی ترجیح تحریر کردیں۔ اس ترجیح کے لئے ہدایت نامے میں شہر کے تمام کالجوں کے نام، پتے اور پچھلے سال کی میرٹ لسٹ بھی  تفصیل سے شائع کردی گئی۔

 فارم کی وصولی کے بعد جانچ پڑتال اور داخلوں کے اجراء میں شفافیت کے لئے ایک خصوصی سافٹ وئیر استعمال کیا گیا اور صرف 15 یوم کے اندر اندر میرٹ لسٹ بذریعہ اخبار اور انٹرنیٹ جاری کردی جاتی تھیں جبکہ بعد از اجراء کسی بھی قسم کی شکایت کے ازالے کے لئے متعدد کلیم سینٹرز بھی قائم کئے گئے۔ اس تجربے کے نتیجے میں اکتوبر 2001 میں پہلی بار انتہائی سہل انداز میں 80  ہزار سے زائد طلبہ و طالبات نے اپنا نیا تعلیمی سال شروع  کیا جسے تعلیمی ماہرین، طالبہ و طالبات اور والدین نے یکساں طور پر سراہا۔

کوئی بھی انسانی نظام مکمل طور پر حتمی اور دائمی نہیں ہوتا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مزید بہتری پیدا کرنے کی گنجائش برقرار رہتی ہے۔ مرکزی داخلہ پالیسی میں بھی مزید بہتری پیدا کرنے اور نقائص کےدور کرنے کی ضرورت کو ہمیشہ محسوس کیا گیا۔ لیکن ان معمولی نقائص اور بہتری کی مزید گنجائش کے باوجود یہ نظام پچھلے 14 سال سے تمام اسٹیک ہولڈرز کے مکمل اعتماد کی بدولت کامیابی کے ساتھ جاری و ساری تھا۔ لیکن بد قسمتی سے سندھ کی موجودہ حکومت نے اپنی تعلیم کشی پر مبنی پالیسیوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے رواں سال سے اس نظام کو پچھلے سال کے ایک تلخ تجربے کا بہانہ بنا کر مکمل طور پر ختم کردیا ہے اور 15 سال پرانا فرسودہ نظام دوباربحال کردیا ہے۔

دراصل پچھلے سال سیکنڈری تعلیم نے اس نظام کو مکمل طور پر آن لائن کرنے کے کا تجربہ کیا تھا جو تمام طلبہ و طالبات کی انٹرنیٹ تک رسائی نہ ہونے اور فارم کے ایک دفعہ اپلوڈ ہوجانے کے بعد کسی ترمیم کی سہولت موجود نہ ہونے کے پیش نظر بہت سی پریشانیوں کا سبب بنا تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت سندھ اس تجربے سے سیکھتی اور اسے بہتر بنانے کی کوشش کرتی لیکن اسکے برخلاف انہوں نے اپنی ہی کی ہوئی غلطی کو جواز بناکر ایک کامیاب اور تسلیم شدہ نظام کی بساط لپیٹ دی۔ 

سمجھ نہیں آتا کہ اس  فیصلے کے پیچھے حکومت سندھ کے آخر کیا مقاصد ہیں۔ کیا سائیں قائم علی شاہ ایک بار پھر کالجوں میں داخلوں کے لئے چور دروازے کھولنا اور میرٹ کا قتل عام کرنا چاہتے ہیں یا پھر ان کے وزراء نجی کالجوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے سرگرم ہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو لیکن یہ ضرور یقین سے کہا جاسکتا ہے 14 سال بعد ایک بار پھر سرکاری کالج میں داخلہ لینا ایک مشکل، کٹھن اور صبرآزما مرحلہ بنادیا گیا ہے۔ جس سے ناصرف سفارش اور رشوت کا بازار گرم ہوگا بلکہ نجی کالجوں کی بھی مفت میں چاندی ہوجائے گی۔

کاشف نصیر

وادی سُون… گھر مسمار کھیت برباد

$
0
0

بزرگوں نے بھی ایسی کوئی بات کبھی نہیں بتائی کہ وادی سون پر اس قدر بربادی اور تباہی کا زمانہ گزرا ہو جو اب گزر رہا ہے۔ یہ بدقسمتی ہماری ہے کہ گھروں پہ ایسی بربادی کا وقت آیا ہے کہ گھر جانے کی ہمت نہیں پڑتی۔ تین چار دن تک دن رات بارش برستی رہی مکان گرتے گئے اور سبزیوں کے کھیت ملیامیٹ ہو گئے۔
لاہور تک ہمارے گاؤں کی سبزی فروخت ہوتی تھی اور گاؤں سے ضرورت کا سامان بھی مسلسل پہنچتا رہتا تھا۔

 اس سال بھی سال بھر کی گندم لاہور پہنچ گئی۔ خالص گندم جس کا کھیت کسی بھی قسم کی کیمیاوی کھاد سے مکمل محفوظ بلکہ اس گندم کی اس فصل کے کچھ کھیت تو صرف بارش کے پانی پر جوان ہوئے اور اس وادی کے باشندوں کو دنیا کی خالص ترین گندم کھانے کو ملی۔ پہاڑوں کی آغوش میں پلے ہوئے کھیت آسمان کے نیچے خدا کی خالص ترین مخلوق اور اس کا جوہر کسی بھی فصل کی صورت میں ہم ناشکرے انسانوں کے پاس موجود۔ یہ آباد وادی سون کی ایک ہلکی سی جھلک ہے اور اس کے چاروں موسموں کے رقص کا ذکر تو کوئی شاعر ہی کر سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اس وادی کے کھیتوں میں جو نعمتیں بھر دی ہیں ان کا شمار کیسے کریں۔ توانا جسموں والے طویل قامت لوگوں نے کھیتوں میں زندگی بسر کی یا پھر فوج میں، انھوں نے تلاش روزگار کے لیے شہروں کا رخ بھی کیا جہاں زیادہ تر ٹرانسپورٹ میں کام کیا یا پھر کوئی چھوٹی موٹی نوکری لیکن گھر ہر حال میں گھر ہی ہوتا ہے اور جب اس گھر کے بارے میں خبر ملے کہ بارشوں نے مکانوں کی دیواریں اور چھت تک گرا دیے ہیں اور ان مکانوں کو بحال کرنے کے لیے کوئی معمار بھی میسر نہیں۔ پتھر کی دیواریں اب کون بناتا ہے تو پھر جیب میں کچھ ہو بھی تو کس کام کا۔ ایسے میں شہر جیسے بھی ہوں گاؤں کے گھر دل میں آباد رہتے ہیں۔

وادی سون میں سیلاب نہیں آتا کہ اس کی زمین کی ساخت پانی کو روکتی نہیں اور اسے ندی نالوں میں بند کر کے زمینوں کی طرف بہا دیتی ہے لیکن بارش تو بارش ہوتی ہے اگر وہ براہ راست برستی ہے اور دو چار دنوں تک دن رات مسلسل برستی ہے تو پھر مکانوں کی دیواروں کے رگ و پے میں اتر جاتی ہے اور سبزی ایسی نرم فصل کو تباہ کر دیتی ہے۔ بارش جو وادی کی بارانی زمینوں کے لیے ایک نعمت ہوتی ہے جب یہ نعمت فصلوں اور کھیتوں کو الٹ پلٹ کر دیتی ہے جب ان کی گنجائش سے بڑھ جاتی ہے تو پھر لوگ مسجدوں میں بارش رکنے کے لیے باجماعت دعائیں کرتے ہیں۔
بتایا گیا کہ کوئی چار دنوں تک مسلسل بارش جاری رہی اور یہ چار دن قیامت بن کر گزر گئے اور اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے گئے۔ کاشتکاروں کا پورا سال مارا گیا اور کروڑوں روپوں کی فصل ختم ہو گئی ان اخراجات سمیت جو ان فصلوں کی پرورش وغیرہ پر کیے گئے تھے۔

اب نہ اصل باقی ہے نہ زر۔ کچھ بھی نہیں۔ سوائے ایک مسلسل ماتم کے کیونکہ ان کے پاس زندگی بسر کرنے کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں سوائے معمولی سی نوکریوں کے۔ یہ وادی چونکہ لاہور سے بہت دور ہے اس لیے اس کے لیے کسی سرکاری امداد کی درخواست بھی بے سود ہے جس نے پیدا کیا ہے وہی روزی بھی دے گا۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ برسات اور سیلاب نے پورا ملک تباہ کر دیا ہے اور ہمارے حکمرانوں کو اپنے گھروں سے باہر جھانکنے کی فرصت کم ہی ملی ہے اس لیے ان سے کسی دور افتادہ وادی کی مدد کی بات کرنا فضول ہے۔

گاؤں سے آنے والوں اور موبائل فون کے ذریعے جو خبریں ملی ہیں وہ اس پوری وادی کی تباہی کی خبریں ہیں۔ فصلوں کے لیے تیار کیے گئے کھیت خصوصی کھادوں سے محروم ہو گئے اور نئی فصل اب نہ جانے کب کاشت کی جا سکے گی کیونکہ زمینیں ایک وسیع و عریض جھیل بن چکی ہیں۔
وادی کی جو جھیلیں بارشوں سے آباد اور پر رونق ہوتی تھیں وہ اس مسلسل اور تیز و طرار بارش نے سمندر بنا دی ہیں اور ان جھیلوں کے کناروں پر زندگی بسر کرنے والے اب نہیں جانتے کہ ان کی جھیل کہاں ہے اور اس کے کنارے کہاں ہیں کیونکہ ان کے سامنے ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے جس نے ان کی جھیلیں ان سے چھین لی ہیں اور انھیں بے گھر کر دیا ہے۔

حال تو پورے ملک کا اب ایک جیسا ہی ہے بارشوں اور ان کے سیلاب نے ہماری آباد دنیا ہی بدل دی ہے اور ہمیں اپنے گھروں کا نشان تک نہیں مل رہا۔ اگر کسی جگہ چار روز تک دن رات بارش برستی رہے تو وہاں پھر کیا باقی بچتا ہے۔ انسانوں کی عمر بھر کی کمائی یہ بارش بہا لے گئی اور اپنے پیچھے ایک خوفناک ویرانی چھوڑ گئی اب ویرانی میں کوئی کہاں پناہ لے۔ میں چونکہ وادی سون کا باشندہ ہوں اس لیے پورے ملک میں مجھے سب سے زیادہ بربادی اسی وادی میں دکھائی دیتی ہے۔

ایک عرب شاعر نے اپنے بھائی مالک کی یاد میں کہا تھا کہ مجھے تو ہر قبر مالک کی قبر دکھائی دیتی ہے۔ ہمیں بھی پاکستان کا ہر تباہ شدہ علاقہ وادی سون دکھائی دیتا ہے۔ میں اپنے ایم پی اے سے درخواست کروں گاکہ وہ حکومت کو مجبور کر دیں کہ وادی کی خبر گیری کرے۔ یہاں سے ایک ایم پی اے اور ایم این اے پیدا ہوتے ہیں یعنی یہ وادی سیاست کی دنیا کی کوئی بنجر وادی نہیں ہے۔ مناسب حد تک زرخیز ہے اور قریب کی سیاست میں بھی اثر رکھتی ہے۔

عبدالقادر حسن

الطاف بھائی یہ کیا ہے ؟


Floods wreak havoc across South Asia

$
0
0
Hundreds of people have been killed and millions of others displaced by monsoon floods across South Asia. Large swathes of land, from Pakistan to Myanmar, lie submerged under water, as torrential rains continue across the region. Nepal, Vietnam, Bangladesh and India have all been hit by the flooding. On Thursday, Pakistani authorities said the nationwide death toll from flooding had risen to 169, as rescuers used helicopters and boats to move stranded residents to higher ground. The country's National Disaster Management Authority said the floods, which began in early July, have affected 900,000 people in 2,495 villages across Pakistan.














In neighbouring India, more 20 people were killed and over 100 injured on Wednesday when two express trains were partially swept off a flooded bridge over a river in central India. Government said that heavy monsoon rains over the past month have killed at least 192 people across the country, in flooding, landslides and building collapses in recent days. The damage has extended from central India to the northeastern states of Manipur and Assam. Myanmar has been particularly affected by this year's monsoon. The UN estimates that some 259,000 people have been affected across the country.




سپریم کورٹ اور آئینی ترامیم

رکشہ چلانے والے نے نوٹوں سے بھرا بیگ لوٹا دیا

$
0
0

بھارت کےگلابی شہر جے پور کے رکشہ چلانے والے عابد قریشی نے سڑک پر لاوارث ملنے والے ایک لاکھ 17 ہزار روپے پولیس کے حوالے کر دیے۔
ہر رکشہ ڈرائیور کی طرح عابد کی زندگی بھی پاؤں کے دم پر چلتی ہے، لیکن اب ان کی ایمانداری کی تعریف چہار جانب ہو رہی ہے۔

جے پور پولیس نے رکشہ ڈرائیور عابد کی تعریف کی ہے۔
رکشہ چلا کر زندگی کی گاڑی کھینچنے والے عابد کو بدھ کی شام جے پور کے چوڑا راستہ بازار میں روپے سے بھرا ایک بیگ ملا تو وہ چونک گئے۔
وہ کہتے ہیں: ’میں نے ٹھوکرمار کر دیکھا بیگ میں روپے بھرے تھے۔ میں بیگ لے کر گھر پہنچا اور بیوی امینہ سے صلاح مشورہ کیا۔ ہم دونوں نے طے کیا کہ ان روپیوں پر ہمارا کوئی حق نہیں ہے۔ لہذا ہم نے یہ روپے پولیس کو سونپ دیئے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’امینہ نے بہت زور دیا اور کہا کسی غیر کی دولت لینا گناہ ہے۔
28 سالہ عابد کرایہ کا رکشہ چلاتے ہیں کیونکہ ایک رکشے کی قیمت 15 ہزار روپے سے زیادہ ہے، تو اپنا رکشہ خرید نہیں سکتے۔
کھانا، خوراک اور مکان کا کرایہ ادا کرنے کے بعد ان کے پاس اتنے پیسے بچتے ہی نہیں کہ اس بارے میں سوچ سکیں۔

مگر اتنی بڑی رقم ہاتھ میں آنے کے بعد نہ عابد بھٹکے اور نہ ان کی بیوی امینہ۔
وہ کہتے ہیں کہ ’امینہ نے بہت زور دیا اور کہا کسی غیر کی دولت لینا گناہ ہے۔
لہذا دونوں نے پولیس کمیشنر جنگا سرینواس راؤ کے پاس پہنچے اور روپیوں کا بیگ انھیں سونپ دیا۔ پولیس ابھی یہ پتہ نہیں لگا سکی ہے کہ یہ روپے کس کے ہیں۔

عابد کہتے ہیں کہ ’روپے سپرد کرنے کے بعد انھیں بہت سکون ملا۔
کیا ایک رکشہ ڈرائیور کے لیے ایک لاکھ روپے جمع کرنا آسان ہوتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں عابد کہتے ہیں: ’رکشہ چلا کر کوئی، کئی سال میں بھی ایک لاکھ روپے جمع نہیں کر سکتا۔

ان کی تین ماہ کی ایک بیٹی ہے جس کا نام انم ہے۔
عابد کہتے ہیں اگر انھیں ایک لاکھ روپے مل جائیں تو سب سے پہلے بیٹی کے نام پر ایف ڈي کروائیں گے، پھر نیا رکشہ خریدیں ‏گے۔

نارائن باریٹھ
جے پور، بھارت

زیارت کاسُکون

$
0
0

بلوچستان کے ویران صحرا میں نخلستان کے چھوٹے چھوٹے یہ ٹکڑے اس بات کا احساس دلا رہے تھے کہ کاشتکاری یہاں بھی ممکن ہے ۔ اگر کوشش کی جائے تو پورا بلوچستان جنتِ نظیربن سکتا ہے ۔ جفاکش بلوچوں نے کاریزوں کے ذریعے ان نخلستان کو آباد کیا ہوا ہے۔ جنہیں ایک پوری نسل کھودتی ہے اور آئندہ نسلیں استفادہ کرتی ہیں۔ ان کاریزوں کے ذریعے پہاڑی چشموں کا پانی زیرِ زمین آبی راستوں سے کھیتوں تک لایا جاتا ہے۔

 تب جا کر یہ سرسبز ہو کر لہلہاتے ہیں _ورنہ پانی کے محتاج کئی کھیت بھی راستے میں ہم نے دیکھے تھے کہ پانی سے محروم رہ کر کس طرح ان کی ہریالی چھن گئی تھی۔ راستے میں ہر دس بیس میل بعد خانہ بدوشوں کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں بھی اپنے رزق کی تلاش میں پھرتی ہوئی نظر آئیںدوپہر ڈھل چکی تھی اور ہمارا سفر جاری تھا۔ آسمان پر کچھ کچھ بادل بھی منڈلانے لگے تھے اور کہیں کہیں یہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے ٹکرا کو بوس و کنار میں مصروف تھے۔ 

ہوا بھی کچھ زیادہ سرد ہونے لگی تھی۔ کوئی پندرہ بیس میل ہی آگے بڑھے ہوں گے کہ بارش شروع ہوگئی اور ضرب المثل کی طرح چھاچھوں پانی برسنے لگا۔ فضا ہر طرف دھواں دار ہو گئی ۔ ابھی کچھ گھنٹے پہلے پانی کو ترسے ہوئے میدانوں اور پہاڑوں سے نکل کر آئے تھے اور یہاں تھا کہ بارش لگتا تھا اگلی پچھلی ساری کسر نکالنے پر تُلی ہوئی ہے۔ بس کی وِنڈ سکرین کے سامنے صرف پانی ہی پانی نظر آرہا تھا۔ ایک تو راستہ بے حد دُشوار اور اوپر سے شدید بارش۔ اسے کہتے ہیں یک نہ شُد دوشُد_! کئی چھوٹے بڑے نالے بارش کے پانی سے بھر گئے تھے اور انہوں نے دریاؤں کی سی شکل اختیار کر لی تھی۔

 ایک مقام پر تو ان نالوں نے سڑک کو ہی کہیں چھُپالیا تھا۔ پانی تیزی سے سڑک کے آر پارہو رہاتھا اور سامنے سے آنے والی کئی گاڑیاں رُک کر پانی کا زور کم ہونے کا انتظار کر رہی تھیں۔ نالے میں ڈوبی سڑک کو پارکرنا بڑا خطر ناک تھا۔ ڈرائیور شیر زمان یہاں رُکنے کے لیے تیار نہ تھا ۔اُس نے ہمت کر کے بس پانی میں ڈال دی۔ ایک لمحے کے لیے تو ایسے لگا کہ عین بیچ میں گاڑی کا انجن بند ہو جائے گااور پھر ہمیں یہ دریا تیر کر عبور کر ہوگا۔

تیرنا تو ہمیں آتا نہیں تھا لہذا ڈوبنا ہی مقدر تھا_! مگر ہماری قسمت اچھی تھی شیر زمان بڑی مہارت سے گاڑی کو پانی سے نکال لایا۔ مگر اسی لمحے ایک ابرآلود ہو ا کا جھونکا آیا اور بس کے اوپر بندھے سامان پر بچھی ترپال لے اُڑا، بس روک لی گئی۔ سب کو اپنے اپنے سامان کی پڑ گئی ۔ کنڈیکٹر اور ڈرائیور ایک ساتھ بس کی چھت پر چڑھ گئے اور بارش میں بھیگ کر ترپال باندھ دی

 (اسد سلیم شیخ کے سفرنامہ پاکستان ’’کچھ سفر بھولتے نہیں‘‘ سے مقتبس)  

کیا آپ کو معلوم ہے آپ کیا کھا رہے ہیں؟

$
0
0

صفائی جن کا نصف ایمان ہوا کرتی تھی، جو مال کے نقص بیچنے سے پہلے بتایا کرتے تھے، جو ناپ تول میں کمی نہ کرتے تھے، اپنے وعدے کے ایفاء کے لیے تین تین دن ایک ہی جگہ پر انتظار کیا کرتے تھے، ایسے تھے میرے آباء، اور اپنی تصویر آئینے میں دیکھتا ہوں تو اپنا چہرہ دیکھ ہی نہیں پاتا۔ میرے گھر کے آئینہ خانے میں کچھ اور نظر آتا ہے اور اپنی دکان کے فریم میں کسی اور طرح کا۔ میں جس گھر میں جاتا ہوں، میرا چہرہ بدل جاتا ہے۔

پچھلے چند ہفتوں سے اپنے چہرے کی ایک غلاظت سے نظریں ہٹانے میں مصروف ہوں، مگر کیا کروں اس بدبو نے اب ناک میں دم کر دیا ہے۔ وہ جو لاہور کے کھانا بیچنے والے کھانے کے نام پر بیچ رہے تھے اور میں کتنے شوق سے اپنی جیبیں خالی کر کے خریدنے جاتا تھا۔ ان سب غلاظت فروشوں کی تصویروں سے پنجاب فوڈ اتھارٹی کی فیس بک دیوار بھری پڑی ہے۔ وہ کون سا بڑا نام ہے جو ان ریستورانوں میں شامل نہیں۔ آواری، پرل کانٹینینٹل، کے ایف سی، گورمے، این ایف سی، فیٹ برگر، ہارڈیز، ایک لمبی فہرست ہے جو زیادہ بہتر ہے کہ آپ ان کی ویب سے ہی پڑھ لیں۔

کسی کے اچار پر پھپھوندی جم چکی ہے اور وہ شہر کے بہترین اچار بنانے والے ہیں، تو کسی کے کچن اور ٹوائلٹ میں کوئی فرق ہی نہیں۔ کوئی مردہ جانوروں کی ہڈیوں سے گھی نکال کر فروخت کیے جا رہا ہے، تو کوئی دھڑلے سے کسی مشہور برانڈ کا کولا اپنی بنائی بوتلوں میں بھرے جا رہا ہے۔ کسی نے باسی گوشت سے فریج بھر رکھے ہیں، تو کہیں کوڑے دان سے خوراک ذخیرہ کرنے والے برتن کا کام لیا جا رہا ہے۔ کسی ہوٹل کے کام کرنے والوں کے باتھ روم میں صابن تک دستیاب نہیں، اور کسی کے کام کرنے والوں کو ہائیجین کے متعلق کوئی آشنائی ہی نہیں۔
منافع کمانے کی دوڑ میں میرے پاکستانی بھائی جس دوڑ کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، اس میں حلال و حرام کی تمیز تو ناممکن ہے ہی، مگر حفظانِ صحت کے اصولوں کو نظر انداز کر کے جس طرح کا کھانا لوگوں کو بیچا جا رہا ہے اس سے الامان۔ کینسر سے مرنے والوں کی فہرست میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، آئے روز کسی کا بھائی اور کسی کی بہن اس خاموش قاتل کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے، اور وجہ نامعلوم۔ بس جی کینسر ہو گیا۔ ارے بھائی کینسر کیونکر ہو گیا؟ جب جس دودھ کو دوائی سمجھ کر پیا گیا ہو اور اسی دوائی میں زہر ملا ہوا ہو تو مریض کی صحت یاب ہونے کی کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ جس خوراک نے آپ کا جزو بدن بننا ہو اگر وہی کسی شریان میں جا کر لہو کا بہاؤ روکنے کا سبب بننے لگے تو ایسی خوش خوراک چہ معنی؟

فوڈ ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے ہمارے سائنسدان دوستوں کا کہنا ہے کہ دودھ کے حصول کے لیے آکسیٹوسن کا استعمال مضر صحت ہے، اور اب تو سنا ہے کہ یوریا سے بھی دودھ بنایا جاتا ہے۔ مزید برآں جینیٹکلی موڈیفائیڈ فوڈ اور کیڑے مار ادویات کے اثرات والی خوراک جب ناقص صفائی ستھرائی والی جگہوں پر پک کر تیار کی جاتی ہیں تو ان کے مضر اثرات دو آتشہ ہو جاتے ہیں۔
ان حالات میں صاف ستھری خوراک تک عام لوگوں کی رسائی ممکن بنانا کسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ بہت اچھا ہے پنجاب فوڈ اتھارٹی کی خاتونِ آہن عائشہ ممتاز شہر کے دکانداروں کو آپ کو صاف ستھرا کھانا فروخت کرنے کا پابند بنانے کی مہم پر نکلی ہیں۔ ان کے محکمے کی کارکردگی دیکھ کر روشن پاکستان کی منزل دور دکھائی نہیں دیتی۔ بہت ممکن تھا کہ ایسی آواز دبا دی جاتی لیکن پنجاب حکومت نے ان کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے ان کی پذیرائی ہی کی ہے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کا طریقہ کار بہت سادہ ہے۔ وہ متعلقہ جگہ سے تصاویر لے کر اپنے فیس بک کے صفحے پر ساتھ ساتھ لگاتے جاتے ہیں، تاکہ اس سے پیشتر کہ کوئی کسی سے کہے کہلوائے، بات سوشل میڈیا پر نکل چکی ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی طاقت کے مثبت رنگ کی یہ تصویر بہت سے اداروں کے لیے مشعل راہ ہے۔ پاکستان کے اور بہت سے ادارے پنجاب فوڈ اتھارٹی سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ایک وزیر کا سفارشی رقعہ بھی سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا تھا۔ ایسے بہت سے اقدام طالع آزماؤں کو سوچنے پر مجبور کرسکتے ہیں کہ اب آپ کی تحریر کی باز گشت ان کو سنائی دے گی اور وہ عوام کی عدالت میں جواب دہ ہوں گے۔

جہاں حکمرانوں پر فرض ہے کہ وہ عوام کے لیے زندگی کی بنیادی ترین ضرورت خوراک کی بہترین ترسیل کے لیے کوشش کریں وہیں ہم عوام پر بھی فرض ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں سادگی کو لائیں۔ بازار سے گھٹیا برگر کیوں اور گھر کا کباب پراٹھا کیوں نہیں؟ اگر ہر دوپہر دفتر کی میز پر گذرتی ہے تو تھوڑا سا کھانے کا اہتمام اپنے گھر سے کرنے میں کتنی محنت درکار ہے؟ اور ہاں اگر گھر کا کھانا ہی کھاتے ہیں تو اپنے حصے کا اگاتے کیوں نہیں؟ ایک گائے یا بھینس (اگر جگہ ہے تو) جس کو زیادہ دودھ کے لیے آکسیٹوسن کے انجکشن نہ لگائے جاتے ہوں، ورنہ دو چار مرغیاں اور گھر کی سبزی؟
جس گھر کے کونے پر آرائشی پودے سجا رکھے ہیں وہاں گوبھی اور بینگن کیوں نہیں؟ اپنے لیے گوشت پیدا کرنا شاید تھوڑا مشکل ہے، مگر اپنی سبزی اگانا بہت آسان ہے۔ اگر بالکل بھی جگہ نہیں تو کم از کم اپنا سلاد تو اگایا ہی جاسکتا ہے، جس کے لیے دو چار خالی گملے اور تھوڑی سی قوت ارادی درکار ہے اور بس۔
بازار سے اپنی پسند کا ملک شیک پینے سے ذرا پہلے سوچ لیجیے کیا یہ ٹھنڈا اور میٹھا زہر تو نہیں؟ آپ کی آنکھیں کھولنے کے لیے پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ویب پر سینکڑوں تصویریں پڑی ہیں۔ جن لوگوں نے اس کاروبار سے لاکھوں کروڑوں کا منافع کمایا ہے، انہیں اپنی روش تبدیل کرنے میں کچھ وقت لگے گا، مگر آپ کو اپنی صحت کے لیے اپنی عادت تبدیل کرنے کے لیے کس تحریک کی ضرورت ہے؟

رمضان رفیق

بشکریہ ڈان نیوز

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live