Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

احتساب


دنیا کی بہترین ایلیٹ فورسز کی فہرست شائع‘ ایس ایس جی پہلے نمبر پر

$
0
0

آسٹریلوی ویب سائٹ ’’بزنس انسائڈر‘‘ نے دنیا کی بہترین ایلیٹ فورسز کی فہرست شائع کر دی‘ فہرست میں پاکستان کے سپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کو سرفہرست رکھا گیا ہے۔ دوسرے نمبر پر سپین کی ’نیول سپیشل وار فیئر فورس‘، تیسرے نمبر پرروس کا ’الفا گروپ‘، چوتھے نمبر پر فرانس کا ’نیشنل گینڈارمیری گروپ‘، پانچویں نمبر پر اسرائیل کی ’سائرت متکال‘، چھٹے نمبر پر برطانیہ کی ’سپیشل ائرسروس‘، ساتویں نمبر پر برطانیہ کی ’سپیشل بوٹ سروس‘، آٹھویں نمبر پر’امریکی نیوی سیل‘ اور نویں نمبر پر ’امریکی میرین‘ براجمان ہیں۔ پاک فوج کے سپیشل سروسزگروپ کو یہ مقام ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں، دیگر ترقی یافتہ ممالک کی نسبت میسر وسائل، کامیاب آپریشنز کے تناسب کی بنا پر دیا گیا۔ واضح رہے کہ پاکستان کے علاوہ اس فہرست میں کوئی بھی ترقی پذیرملک شامل نہیں ہے۔

 پاکستان کی مسلح افواج کا یہ خصوصی دستہ موسم کی سختی کو جھیلنے، دشمن کے شدید حملے کو غیر موثر کرنے اور مشکل حالات سے نبردآزما ہونے کیلیے تیار کیا جاتا ہے۔ ایس ایس جی اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی بنا پر دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ایس ایس جی کی تربیت کے دوران سب سے سخت مرحلہ 12 گھنٹوں میں 36 کلومیٹر کا مارچ اور بیس منٹ میں 5 کلومیٹر کی دوڑ ہے۔ حالیہ دنوں ایس ایس جی ملک کے اندر ریاست کے خلاف برسرِپیکار شدت پسند عناصر کی سرکوبی میں مصروف ہے۔

پاکستانی کبوتر ، بھارتی اوسان خطا

بلوچستان ؛ یہ آگ تو تم نے خود لگائی ہے

$
0
0

نسل، رنگ اور زبان کی عصبیت کو اجاگر کرنے کا فریضہ ایک خاص مقصد کے تحت اس مملکت خداداد پاکستان کے پچاس سال تک ترقی پسند اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سیکولر کہلانے والے دانشور، انتہائی جانفشانی اور محنت سے ادا کرتے رہے ہیں۔ سیاسی محاذ پر ان ’’عظیم دانشوروں، کی آواز وہ سیاسی پارٹیاں اور گروہ بنتے رہے، جنھیں مسلمانانِ ہند نے قائداعظم کی سربراہی میں بدترین شکست سے دوچار کیا تھا۔ جب سے پاکستان تخلیق ہوا، ان تمام دانشوروں کی ایک مخصوص حکمت عملی تھی۔کسی ایک قوم کو ظالم اور باقی تمام اقوام کو مظلوم ثابت کر کے نفرت کا بیج بویا جاتا۔1971ء سے پہلے اس نفرت کو علاقائی رنگ دیا گیا۔

مشرقی پاکستان کے لوگوں کے دلوں میں تاثر جاگزیں کرایا گیا کہ مغربی پاکستان ان کو لوٹ کر کھا رہا ہے۔ پھر پورے مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان اور وہاں کی فوج کو قابل نفرت بنا دیا گیا۔ بنگلہ دیش بھارتی فوج کی مدد سے بن گیا اور آپ آج بھی کسی سیکولر اور نسلی تعصب کے علمبردار دانشور کی تحریر اٹھا لیں، وہ معاشی تجزیے پیش کرے گا کہ دیکھو ہم سے آزاد ہو کر بنگلہ دیش کتنی ترقی کر گیا۔کوئی ان سوالوں کا جواب نہیں دیتا کہ 1971ء کے بعد تقریباً دس لاکھ بنگالی عورتیں بھوک اور افلاس کے ہاتھوں دنیا بھر کے بازاروں میں بیچی گئیں، نوے لاکھ بنگلہ دیشی بھارت میں چند سو روپے کی مزدوری کرنے کے لیے در بدر ہیں۔ دنیا کے ساحلوں پر بھٹکتے اور امان تلاش کرتے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ پچیس فیصد بنگلہ دیشی بھی تھے۔کیا یہ سب 1971ء سے پہلے بھی تھا۔ کوئی اس سوال کا جواب نہیں دے گا بلکہ وہ دوسرے صوبوں میں نفرت کا اگلا بیج بونے کی کارروائی میں لگا ہو گا۔

نفرت کا اگلا بیج پنجابیوں کو بحیثیت قوم ظالم اور باقی تین اقوام کو مظلوم ثابت کرنے کا بویا گیا۔ بلوچ، پختون اور سندھی مظلوم ہیں اور پنجابی ان کے حقوق غصب کر رہا ہے۔ نسل، رنگ اور زبان کے تعصب کا ایک لگا بندھا اصول ہے۔ یہ بڑے تعصب سے ہوتا ہوا چھوٹے سے چھوٹے تعصب کی صورت ظاہر ہو جاتا ہے۔ تعصب جس قدر چھوٹے گروہ تک پہنچے گا، اسی قدر خوفناک اور خونریز ہو جائے گا۔ مثلاً آپ اگر پنجابی اور سرائیکی کشمکش کا مسئلہ حل کر لیں تو پھر یہ برادری تک آ نکلتا ہے۔ آرائیں اور کشمیری لاہور میں لڑتے ہیں تو چیمے اور چٹھے گوجرانوالہ میں۔ یہاں تک کہ آخر کار چھوٹے سے چھوٹے گھرانے تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔ یہ تعصب وہاں زیادہ شدید اور خون آشام ہو جاتا ہے جہاں ایک سے زیادہ زبانیں بولنے والے اور ایک سے زیادہ نسلوں کے لوگ آباد ہوتے ہیں۔

بلوچستان اس نفرت، تعصب اور اس سے پیدا ہونے والے خونی تصادم کی بدترین مثال ہے۔ پشتون، بلوچ اور بروہی وہاں کئی سو سال سے اپنے اپنے مخصوص قبائلی علاقوں میں باہمی برداشت اور یگانگت کی بنیاد پر آباد چلے آ رہے ہیں۔ ایک بہت ہی قلیل تعداد کوئٹہ شہر میں ہزارہ قوم کی بھی تھی جو ایک صدی قبل وہاں آباد ہوئی اور پھر افغان جنگ کے دوران ہزاروں کی تعداد میں ہزارہ یہاں آ بسے۔ ان کے ساتھ ساتھ پنجابی اور یو پی کے اردو سپیکنگ افراد انگریز کے تعمیراتی کاموں، کوئلے کی کانوں اور چھاؤنیوں کے ساتھ منسلک کاروبار کی وجہ سے کوئٹہ، سبی اور لورالائی میں آباد ہو گئے۔ مدتوں سے یہ لوگ ایک ساتھ رہ رہے تھے۔ لیکن 1917ء میں جب سوویت یونین میں کمیونسٹ انقلاب آیا تو 1920ء میں آذربائیجان کا شہر باکو جو روس کا حصہ تھا، وہاں قومیتوں کی ایک عالمی کانفرنس بلائی گئی جس کا مقصد برصغیر پاک و ہند میں قومی تعصب کو ابھار کر انگریز حکومت کا خاتمہ کرنا تھا۔

اس کانفرنس میں جسے ’’مشرقی عوام کی کانگریس کہا جاتا ہے۔ اس میں بلوچستان کے ایک وفد نے میر مصری خان بلوچ کی سربراہی میں شرکت کی۔ میر مصری خان کانگریس کے فوراً بعد افغانستان چلا گیا، تا کہ وہاں کی حکومت سے اپنے علاقے کی آزادی کی تحریک کے لیے مدد حاصل کر سکے۔ باکو کی یہ کانفرنس شدید اختلافات اور تکرار کا شکار رہی۔ آرمینیا کے عیسائیوں نے انور کمال پاشا کے خلاف تقریریں کیں اور مسلمان وفود جو یوں تو قومیت کے نام پر آئے تھے مگر انھوں نے سوویت یونین کے مسلمانوں کے قتل عام پر شدید احتجاج کیا۔ لیکن اس کانگریس کے بعد کمیونسٹ روس کی ایک پالیسی واضح ہوگئی کہ لوگوں کو نسل، رنگ اور علاقے کے تعصب میں الجھا کر ایک دوسرے سے دست و گریبان کرنا ہے۔

وہ جو طبقاتی کشمکش سے انقلاب کا نعرہ لے کر اٹھے تھے، جن کے ہاں مزدور ایک طبقہ ہوتا ہے، انھوں نے دنیا بھر اور خصوصاً برصغیر اور پھر پاکستان میں مظلوم قومیتوں کا نعرہ مستانہ دے کر ایک ایسی خونریزی کو جنم دیا جو آج تک قائم ہے۔ یہ وار چونکہ کاری تھا اور حربہ آزمایا ہوا تھا، اس لیے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نسل، رنگ اور زبان کے تعصب کا پرچم مغرب کے حکمرانوں کی ان کے پروردہ سیکولر دانشوروں، ان کی امداد پر پلنے والی این جی اوز اور ان کے ہم زبان سیاست دانوں نے اٹھا لیا۔

بلوچستان میں بیج بہت گہرا تھا۔ اس لیے کہ علاقے کی پسماندگی اور مرکز کی عدم توجہی نے اس نفرت کے لیے بہترین فضا مہیا کی تھی۔ بنگلہ دیش کی تخلیق کے بعد ایسی سیاست کو ایک کامیاب تجربہ سمجھا گیا اور پنجابی قوم کو بحثیت ظالم اور غاصب بنا کر پیش کیا گیا جب کہ بلوچستان میں رہنے والے پختون، بلوچ اور براہوی کو ’’برادر اقوام‘‘ کا درجہ دیا گیا۔ ان برادر اقوام میں وہ پنجابی شامل نہ تھے جن کی تین نسلوں کی قبریں بھی وہاں تھیں اور جو ان تمام زبانوں پر عبور رکھتے تھے جو وہاں بولی جاتی ہیں۔ مقصد صاف واضح تھا کہ پنجابی قوم سے نفرت کو اس حد تک آگے بڑھایا جائے کہ خونریزی کرنا یا کروانا آسان ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ 1974ء میں سندھ سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی ذاتی انا اور ہٹ دھرمی پر بلوچستان کی حکومت توڑی، آرمی ایکشن کیا، لیکن آپ اس زمانے میں کی گئی بلوچ رہنماؤں کی تقریریں اٹھا لیں، دیواروں پر وال چاکنگ دیکھ لیں آپ کو گالی صرف ’’پنجابی استعمار‘‘ کے خلاف ملے گی باقی سب برادر اقوام تھیں۔

’’برادر اقوام‘‘ کا یہ نعرہ بیچ چوراہے میں پھوٹ گیا جب افغانستان میں روسی افواج داخل ہوئیں اور پختون مہاجرین نے بلوچستان کا رخ کیا۔ عام بلوچ کے لیے تو یہ لوگ ایک نعمت سے کم نہ تھے۔ انھوں نے ان کی بے آباد زمین آباد کیں، انھیں اپنی محنت سے مالا مال کیا لیکن وہ جن کی سیاست کا دارومدار تعصب پر تھا، انھوں نے ہر طرف نفرت کی آگ لگائی۔ کالا باغ کی طرح برج عزیز ڈیم پر لڑائی کا آغاز ہوا ۔ یہ کوئٹہ کو پینے کا پانی مہیا کرنے کا منصوبہ تھا۔ اس پر ایسی لڑائی ہوئی کہ کوئٹہ شہر میدان جنگ بن گیا۔ کوئٹہ میں زرعی کالج بننا تھا جسے غیر ملکی امداد حاصل تھی، اس پر لڑائی ہوئی، کوئی کہتا بلوچ علاقے میں بناؤ اور کوئی پشتون علاقے میں۔ امداد رخصت ہو گئی اور کالج آج تک نہ بن سکا۔ 1988ء میں جب میں اسسٹنٹ کمشنر کوئٹہ تھا تو پورا شہر دو ٹرانسپورٹر رہنماؤں عبدالوہاب پیرعلی زئی (پشتون) اور میر فیروز لہڑی (بروہی، بلوچ) میں اس طرح تقسیم ہوا کہ پورا ایک ماہ کرفیو لگانا پڑا۔

خوفزدہ پشتون بلوچ علاقوں سے کوچ کر گئے اور وہاں تندور جو پشتون چلاتے تھے بند ہو گئے۔ کوئٹہ شہر ایسا میدان جنگ بنا کہ دونوں جانب کے سیاسی رہنما قتل ہونے لگے۔ اب معاملہ پنجابی کا نہیں تھا۔ اقتدار جمہوری طور پر ’’برادر اقوام‘‘ کے پاس تھا اس لیے وہ آپس میں لڑ پڑیں۔ جب پرویز مشرف کے زمانے میں نواب اکبر بگٹی اور بگٹی قبائل کے خلاف مشرف کی ذاتی انا اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر ایکشن شروع ہوا تو ایک دفعہ پھر ’’پنجابی استعمار‘‘ کے نعرے کی گونج سنائی دینے لگی۔ کوئٹہ شہر سے خوفزدہ پنجابی ہجرت کرنے لگے۔ کتنے مارے گئے، کوئٹہ شہر میں بلوچ اور پشتون لڑائی کو وہاں پر موجود پنجابی آبادی پرامن رکھتی تھی۔ جب نواب اکبر بگٹی جاں بحق ہوئے، فساد پھیلا تو ہر خاص و عام جانتا ہے کہ کس طرح قندھار کے اندر بیٹھ کر کوئٹہ میں جائیدادیں خریدیں گئیں اور آج کوئٹہ مکمل طور پر ایک پختون شہر بن چکا ہے جس کا میئر بھی پختون ہے۔

مستونگ کا لک پاس وہ راستہ ہے جو پشتون آبادی کو کراچی سے ملاتا ہے۔ ان کی ٹرانسپورٹ یہیں سے گزرتی ہے، پھل جاتے ہیں، ہوٹل چلتے ہیں۔ مستونگ کا سانحہ ایک خاص منصوبے سے کیا گیا ہے تا کہ اس راستے پر گزرنے والوں کو خوف میں مبتلا کیا جائے۔ یہ کسی ’’ناراض بلوچ‘‘ کا نہیں بلکہ ان قوتوں کا کام ہے جو 1920ء سے آج تک اس دھندے میں مصروف ہیں۔ کیا بلوچستان کے بچے بچے کو یہ حقیقت معلوم نہیں کہ بھارت 1974ء سے افغانستان میں موجود گروہوں کو مالی اور عسکری مدد فراہم کرتا ہے۔

پہلے یہ رہنما سوویت یونین میں شاہزادوں کی طرح رہتے تھے اور اگر شیر محمد مری بیمار ہوتا تو بھارت جا کر علاج کراتا۔ اب یہ انگلینڈ اور سوئٹزرلینڈ میں رہتے ہیں اور سب جانتے کہ سرمایہ کون دیتا ہے۔ نسل، رنگ اور زبان کے نام پر انسانوں کے گلے کاٹو، شناختی کارڈ دیکھ کر بولان کے علاقے میں میں لوگوں کو بسوں سے اتار کر قتل کرنے کی رسم کا آغاز کرو تو میرے ملک کے ’’عظیم دانشور‘‘ اور سیاسی لیڈر انھیں ’’ناراض‘‘ رکھتے ہیں، دہشت گرد نہیں۔ کیا دہشت گردی کی تعریف صرف یہی ہے کہ اس کے چہرے پر داڑھی ماتھے پر محراب اور ٹخنوں سے اونچی شلوار ہو۔

اوریا مقبول جان
 
 بشکریہ ایکسپریس نیوز

’جتنے پیسے اتنا پانی‘

$
0
0

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے علاقے اورنگی کے رہائشیوں کو پہلی بار گھر کے قریب میٹھا پانی دستیاب ہوا ہے، پہلے یہ لوگ ٹینکروں کا کھارا پانی استعمال کرتے تھے۔ بقول ان کے کھارے پانی کے باعث انھیں پیٹ کی تکلیف رہتی تھی اور اب کراچی واٹر بورڈ اس غریب بستی کو مفت ٹینکر فراہم کر رہا ہے۔
لیکن ہر بستی کے رہائشی اتنے خوش نصیب نہیں۔ مچھر کالونی میں ایک گھر کے باہر بھی لوگ ہاتھوں میں برتن اٹھائے اپنی باری کے منتظر ہیں پر یہاں مفت نہیں بلکہ پیسوں سے پانی دستیاب ہے۔

گھر کے مالک نے بتایا کہ وہ تین روپے میں پانچ لیٹر جبکہ پانچ روپے میں آٹھ لٹر پانی فروخت کرتے ہیں شام تک ان کی ڈھائی سے تین سو روپے تک آمدن ہو جاتی ہے۔
مچھر کالونی میں پانی کی لائن موجود ہے لیکن پانی صرف دکانوں پر ہی دستیاب ہے۔ غریب بستی کے لوگوں کی آمدنی پر یہ ایک بڑا بوجھ ہے۔
مسمات زرینہ کچھی نے بتایا وہ سارا دن جھینگے صاف کرتی ہیں تب جاکر سو روپے جڑتے ہیں جبکہ انھیں روزانہ 50 سے 60 روپے میٹھے پانی کے لیے دینے پڑتے ہیں جو پینے اور باورچی خانے میں استعمال ہوتا ہے، باقی فرش دھونے اور واش روم وغیرہ کے لیے زیر زمین کھارے پانی استعمال کرتی ہیں۔

صحت کے عالمی ادارے ڈبلیو ایچ او کے معیار کے مطابق کراچی کی ضرورت 
سو ملین گیلن پانی ہے لیکن دستیاب صرف ساڑہ پانچ سو ملین گیلن ہے، حب ڈیم سے عدم دستیابی کے باعث سو ملین گیلن پانی کم ہوجاتا ہے۔

ایم ڈی واٹر بورڈ ہاشم رضا زیدی کا کہنا ہے کہ نظام بوسیدہ ہونے کی وجہ سے 510 ملین گیلن پانی آتا ہے جس میں 270 ملین گیلن اسٹیل ملز، صنعتیں ، پورٹ قاسم اور ڈی ایچ اے جیسے بڑے کھاتے داروں کے پاس چلا جاتا باقی پانی گھریلو صارفین کو فراہم کیا جاتا ہے۔
کراچی واٹر بورڈ کے مطابق شہر کی تقریباً 30 فیصد آْبادی ٹینکروں کے ذریعے پانی حاصل کرتی ہے، ان علاقوں میں واٹر بورڈ کا نظام ہی دستیاب نہیں۔ شہر میں اس وقت بھی 20 سے زائد ہائیڈرنس موجود ہیں جبکہ قلت اور چوری کی شکایت پر سو سے زائد غیر قانونی ہائیڈرنٹس توڑ دیےگئے تھے۔
شہر کے مغربی علاقوں کے لیے قائم سخی حسن ہائیڈرنٹ سے روزانہ 12 سو سے زائد ٹینکر پانی بھرتے ہیں، جن میں سے صرف ڈھائی سو کے قریب عوام کو مفت سروس فراہم کر رہے ہیں۔

سرکاری ہائیڈرنٹس سے سرکاری نرخ فی روپیہ فی گیلن ہے، لیکن ٹینکر مالک کہتے ہیں کہ جتنی پانی کی مقدار اور فاصلہ زیادہ۔ پیسے بھی اسی حساب سے لیے جاتے ہیں۔

ایک ٹینکر مالک نے بتایا کہ رینجرز نے فی گاڑی بھرائی 70 روپے ہے لیکن وصول سات سو روپے کیے جاتے ہیں۔ فی پھرے پر ان کا خرچہ ڈھائی ہزار روپے آتا ہے اور وہ آگے تین سے ساڑہ تین ہزار روپے میں فروخت کرتے ہیں۔
کراچی واٹر بورڈ کے ایم ڈی ہاشم رضا زیدی تسلیم کرتے ہیں کہ اس کاروبار میں استحصال کا عنصر موجود ہے تاہم ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ واٹر بورڈ کے جو ماتحت ہائیڈرنٹس ہیں وہاں سے منصفانہ تقسیم ہو۔

’اب جس ٹینکرکو دن میں 4 کے بجائے ایک پھیرا مل رہا ہے تو وہ 5 پھیروں کے پیسے لے رہا۔ یہ خالص پرائیوٹ بزنس ہے اس کے باوجود انھوں نے اس بات کی تشہیر کی تھی کہ اگر کسی کو شکایت ہے تو اطلاع دیں لیکن لوگ شکایت نہیں کرتے انھیں معلوم ہے کہ اگر ایسا کیا تو اگلی بار ٹینکر نہیں آئے گا۔
شہر میں پانی کی قلت کے ساتھ منرل اور ٹریٹیٹ واٹر کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے۔ مختلف ناموں اور معیار کے ساتھ یہ پانی 25 روپے سے لے کر 80 روپے تک دستیاب ہے۔جس کی جیب جتنی اجازت دے اس کے پاس اتنا ہی پانی دستیاب ہے

’کراچی میں پانی کے مسائل‘ کتاب کے مصنف اور این ڈی ڈی یونیورسٹی کے استاد پروفیسر نعمان احمد کا کہنا ہے کہ کچھ تو مستند کمپنیاں ہیں جو منظم طریقے سے کاروبار کرتی ہیں اور کہیں پر واٹر بورڈ کی لائن سے پانی چوری کرلیا جاتا ہے یا زمین پانی کو آرو پلانٹس کے ذریعے میٹھا بناکر مارکیٹ میں فراہم کیا جاتا ہے۔

شہر میں اگر گھر کے نلکے میں پانی آ بھی رہا ہے تو کئی گھرانے یہ پانی پینے کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ایم ڈی واٹر بورڈ ہاشم رضا اعتراف کرتے ہیں کہ لائن میں سیوریج کا پانی مل جاتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ شاذو نادر ہی کوئی لائن ہو جہاں سے غیر قانونی کنیکشن نہ لیے گئے ہوں ۔

کراچی میں پانی کی صورتحال سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ پانی کی فراہمی اب ریاست کی ذمہ داری نہیں بلکہ آپ کی جیب کا کمال ہے۔ جس کی جیب جتنی اجازت دے اس کے پاس اتنا ہی پانی دستیاب ہے۔

ریاض سہیل
بشکریہ
بی بی سی اردو 

اقتدار کے دو سال اور نوشتہ دیوار

ہندوستان کے ’’پاکستان فوبیا‘‘ کا ایک اور ثبوت

$
0
0

بہتر مستقبل کی امید دلانے والے ’’چین پاکستان اکنامکس کاریڈور‘‘پر کل جماعتی کانفرنس کے مثبت اور خوش آئند فیصلوں کے باوصف اس راہداری کی راہ میں حائل کچھ رکاوٹوں اور سپیڈ بریکرز کے اندیشے موجود ہیں جو اندرونی اور بیرونی بھی ہوسکتے ہیں چنانچہ انگریزی محاورے کے مطابق ناگزیر ہوگا کہ ہم بہترین کی امید رکھنے کے ساتھ بدترین کے مقابلے کے لئے بھی تیاررہنے کی کوشش کریں۔

سب سے زیادہ بیرونی پریشر کے اندیشے حسب سابق یا حسب معمول ہندوستان کی موجودہ ہندو بنیادپرست مودی حکومت کی جانب سے ابھرتے دکھائی دیتے ہیں اگرچہ ہندوستان کے فارن آفس کی زبان بولنے والے صحافی کہتے ہیں کہ دہلی کے حکمرانوں کا اسلام آباد سے کوئی سروکار نہیں ہے دہلی واشنگٹن ، ماسکو، برلن، لندن اور پیرس کی زبان اور لہجے میں بات کرنا پسند کرتا ہے مگر عملی طور پر ہندوستان ’’پاکستان فوبیا‘‘ سے باہر نکلنے یا نجات پانے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔

تازہ ترین ثبوت یہ ہے کہ چین پاکستان راہداری کے منصوبے کے تحت گوادر کی بندرگاہ کی تعمیری سرگرمیوں کے بارے میں باتیں سن کر ہندوستان کی مودی حکومت کو ایران کے ساتھ بارہ سال پہلے کا ایک MOU یاد آگیاہے اور اس نے اس ایم او یو کو باقاعدہ معاہدے کی شکل دینے کا فیصلہ کیا کہ جس کے تحت CHABAHAR PORT تعمیر کیا جائے گا جس میں زیادہ سے زیادہ بیس ہزار ٹن وزنی جہاز لنگر انداز ہوسکیں گے جبکہ گوادر جیسی قدرتی بندرگاہ دو لاکھ ٹن وزنی سپر ٹینکرز سمندری جہازو ں کا لنگر انداز ہونا آسانی سے قبول کرسکے گی۔ اس کے علاوہ گوادر خلیج فارس کے بالکل سامنے یعنی دہانے پر وجود رکھنے والی بندرگاہ ہوگی جو تیل اور سمندری تجارتی جہازوں کی شاہراہ پر ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ اہمیت کی حامل بن جاتی ہے۔ CHABAGHAR PORT کسی بھی حالت میں گوادرکی بندرگاہ کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔

گوادر کی بندرگاہ کے ذریعے چین کی ضرورت کا خام تیل آسانی سے پمپ کیا جاسکتا ہے اورگوادر کے قریب ہی تیل کی صفائی کرنے والے کارخانے اس خام تیل کو قابل استعمال ایندھن میں تبدیل کرسکتے ہیں اور اس اندازے کو تقویت ملتی ہے کہ چین پاکستان اکنامکس کاریڈور پر اٹھنے والے اخراجات کے علاوہ اس کے ذریعے کم از کم ساٹھ ارب ڈالروں کااضافی کاروباربھی چمکے گا۔ سڑکوں کے علاوہ ریلوے لائن اورپائپ لائن کی تعمیر بھی لاکھوں کی تعداد میں افرادی قوت کی آمدنی میں اضافے کا ذریعہ بنے گی۔ خام تیل کی صفائی کے لئے کارخانے چلانے کے لئے تربیت یافتہ کاریگروں کی ضرورت اور افرادی قوت کو رہائشی سہولتیں فراہم کرنے ، ان کے بچوں کی تعلیم کے وسائل کی فراہمی، اس خطے کے تمام ملکوں کے محنت کشوں کے لئے نعمت قرارپائے گی۔

ان ضروریات کی فراہمی کے علاوہ دیگربہت سی ضروریات کی فراہمی بھی سوچی جاسکتی ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ روزگار کے وسیلوں میں اضافے سے چین کے بعد سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک پاکستان اور اس کے عوام ہوں گے۔ پاکستان سے زیادہ تلخ تجربہ اور کسی ملک کا نہیں ہو سکتا کہ پڑوس ملک میں ہونے والی تباہی اور بربادی اپنے ملک کو کسی مشکل میں ڈال سکتی ہے اور پڑوس میں مثبت ترقی ہو رہی ہے کہ اس کے مثبت اثرات پڑوسی ملک میں جاسکتے ہیں۔ اسی موضوع پر شاعر نے کہا تھا کہ:

ایک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایہ جائے

بتایا گیا ہے کہ چین اور پاکستان کی باہمی دوستی اور خوشگوار تعلقات کے سلسلے میں ایک صداقت کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ایک معاشرتی سروے سے پتہ چلا کہ باہر کے ملکوں میں جھانکنے کی خواہش رکھنے والے پاکستانیوں کی 78 فیصد آبادی چین سے اور وہاں کے لوگوں سے محبت کے جذبات رکھتی ہے جبکہ چین میں اپنے داخلی مسائل حل کرنے میں زیادہ دلچسپی لینے والے چینی عوام کے صرف 30 فیصد لوگ پاکستان اور پاکستانی عوام سے محبت کے جذبات رکھتے ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ چین پاکستان اکنامکس کاریڈور کے تعمیراتی مراحل سے گزرنےکے دوران چینی اور پاکستانی عوام کے درمیان بہتر تعلقات اور دوستی کے جذبات پیدا ہوں گے جس کی خوشبوپوری دنیا میں پھیلے گی۔

منو بھائی
بہ شکریہ روزنامہ جنگ

اقتصادی راہداری پر بھارتی سازشیں

$
0
0

بھارت اپنے تمام تر منفی ہتھکنڈے آزمانے کے بعد اب کھل کر سامنے آ گیا ہے کہ چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی راہداری کا منصوبہ کیوں تشکیل پا رہا ہے۔اس سے قبل ماضی میں جب گوادربندرگاہ کی تعمیر جاری تھی تو اس وقت بھارت نے اپنی بدنام زمانہ ایجنسیوں کے ذریعے چینی انجینئرز اور کارکنون پر حملے کروائے۔پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں عوام کو آپس میں لڑانے کی سازشیں کیں اور سیکڑوں لوگوں کو بے گناہ مروا دیا۔لیکن اس کے ناپاک ارادے کامیاب نہ ہو سکے۔اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے گوادر بندرگاہ مکمل ہوئی اور اب وہاں سے تجارتی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں۔  جب اس سے متعلقہ دوسرے اقتصادی منصوبوں پر کام کا آغاز ہوا تو بھارتی قیادت کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے شروع ہو گئے کہ پاکستان کیوں اقتصادی طور پر آگے بڑھنا شروع ہوا ہے۔
  
اپریل کے مہینے میں چینی قیادت کے دورے کے دوران 46 ارب ڈالر کے منصوبوں پر دستخط کے بعد سے بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی کا نیا باب شروع کر دیا ہے۔ان میں سب سے بڑا منصوبہ اقتصادی راہدرای کا ہے جو کہ گوادر بندرگاہ سے شروع ہو کر بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے علاقوں سے گزر کر شمالی علاقوں سے ہوتا ہوا چین کی طرف جائے گا۔بھارت نے پہلے اس منصوبے کے لئے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کی۔اس کے بعد دہشت گردی کروائی۔لیکن حکومت پاکستان اور سیاسی قائدین نے مل کر ان تمام منصوبوں کو خاک میں ملاد یا۔اس منصوبے پر نہ صرف سیاسی جماعتوں نے اپنے اعتماد کا اظہار کر دیا بلکہ انہوں نے حکومت کو اپنی مکمل حمایت کی یقین دہانی کروا دی۔

بھارت کے لیے یہ صورت حال ایک شدید جھٹکا ثابت ہوئی۔ بھارت نے اس کے بعد چین کا رخ کیا اور اس منصوبے پر چین سے احتجاج شروع کر دیا۔ وزیراعظم بھارت مودی کے دورہ چین کے دوران چینی قیادت سے اس منصوبے پر بات کی گئی کہ اسے سرد خانے میں ڈال دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ بتائی کہ یہ راہداری کشمیر کے ان علاقوں سے گزر رہی ہے جو کہ متنازع ہیں اس لئے یہ راہداری نہیں بننی چاہیے۔ لیکن چین کی طرف سے اس پر بھارت کو کورا جواب مل گیا۔ اس کے بعد بھارت نے کھلے عام احتجاج شروع کر دیا۔ بھارت میں چینی سفیر کو طلب کیا گیا اور بھارت کی طرف سے اس منصوبے بارے احتجاج کیا گیا۔ لیکن ان تمام اعتراضات اور احتجاج کے باوجود چینی قیادت نے بھارت کے اس مطالبے پر کان نہ دھرے۔ اب بھارت کیلئے یہ منصوبہ گلے کی ہڈی کی صورت اختیار کر رہا ہے۔

حالانکہ پاکستانی قیادت نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ اس منصوبے سے پورے خطے کو فائدہ ہو گا۔ اس منصوبے کا کوئی ایسا پہلو نہیں ہے جس سے بھارت کو سلامتی کے لحاظ سے یا اقتصادی لحاظ سے خطرہ لاحق ہو۔ اس منصوبے سے چین کو بہترین فوائد حاصل ہوں گے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے بھی بہترین اقتصادی مواقع ہوں گے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ چین کو صرف تیل کی درآمد کی مد میں جو گلف ممالک سے آتا ہے، 20 ارب ڈالر سالانہ کی بچت ہو گی۔ اس راہداری سے پاکستان کو سالانہ 5 ارب ڈالر آمدنی کی توقع ہے۔اس کے علاوہ لاکھوں لوگوں کو روزگار ملے گا۔

اگرچہ اس سے قبل بھارت کی طرف سے واضح طور پر ایسے اعتراضات نہیں اٹھائے گئے جن کا برملا اظہار اب کیا گیا ہے۔شاید بھارت کو یقین نہیں تھا کہ یہ منصوبہ اس تیزی سے آگے بڑھے گا۔اپریل کے مہینے میں جب چینی قیادت نے پاکستان کا دورہ کیا تو اس ضمن میں بھارتی ہائی کمشنر نے اس وقت کہا تھا کہ بھارت کو چین کے ان منصوبوں سے کوئی خطرات لاحق نہیں ہیں بلکہ انہوں نے اس حد تک کہا تھا کہ

اقتصادی طور پر مستحکم پاکستان بھارت اور خطے کے لیے بہت بہتر ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ بھارت کو پاکستان کے چین،افغانستان اور ایران سے بڑھتے ہوئے تعلقات سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔لیکن ایک ماہ بعد ان کی حکومت کھل کر ان منصوبوں کے خلاف ہرزہ سرائی پر اتر آئی ہے۔ماضی قریب میں جب امریکی قیادت نے بھارت کے دورے کئے تو اس وقت بھارت اور امریکہ کے درمیان سول ایٹمی توانائی کے جن منصوبوں پر دستخط ہوئے وہ بین الاقوامی ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن اس کے باوجود حکومت پاکستان کی طرف سے ان پر نہ تو کوئی اعتراض کیا گیا اور نہ ہی ان کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔

پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ اچھے پڑوسیوں کی طرح رہنے پر زور دیا لیکن بھارت میں ایسے جذبات موجود نہیں ہیں۔خاص طور پر اس وقت اقتصادی راہداری جیسے منصوبے پر اعتراضات بھارت کے اصل منفی عزائم کا مظہر ہیں۔اور اس کے لیے یہ وجہ پیش کرنا کہ یہ متنازع علاقہ کشمیر سے گزر کر جائے گا بالکل بے بنیاد ہے۔ کشمیر کا مسئلہ بھی بھارت کا پیدا کر دہ ہے۔ جس پر بھارت نے عرصہ دراز سے بزور شمشیر قبضہ کیا ہوا ہے۔وہاں کی مسلمان آبادی آج بھی پاکستان کے ساتھ اپنے الحاق کی خواہش مند ہے۔ لیکن بھارت ان کے حق خوداریت کو دبائے ہوئے ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود بھارت کشمیریوں کو ان کے حقوق دینے پر مائل نظر نہیں آتا۔ اسے پاکستان کے زیر انتظام کشمیری علاقے پر ایسے منصوبے بنانے پر کیوں اعتراض ہے۔ دوسری طرف خود بھارت اپنے

زیر تسلط کشمیری علاقے میں بھارتی ہندوؤں کو بسانے کی کوشش میں مصروف ہے تا کہ ظاہر کر سکے کہ کشمیر میں ہندوؤں کی اکثریت ہے۔ لیکن ان ہتھکنڈوں سے کشمیریوں کی رائے کو دبایا نہیں جا سکتا۔ آج بھی وقتا فوقتاً سری نگر میں بھارتی مظالم، چیرہ دستیوں، قانونی ہتھکنڈوں کے استعمال کے باوجود پورے شہر میں لہراتے ہوئے پاکستانی پرچم اس بات کے امین ہیں کہ کشمیریوں کے دل آج بھی پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ صرف کشمیر کا یہ حصہ ہی نہیں بلکہ بھارت کے زیر تسلط حصہ بھی ضرور ملے گا۔

بھارت ایک طرف یہ راگ الاپ رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہونا چاہیے اور دونوں ممالک میں پائیدار امن قائم ہونا چاہیے اور دوسری طرف پاکستان میں ہونے والی ترقی کی ہر طرح سے مخالفت کر رہا ہے۔یہ مخالفت صرف زبانی حد تک نہیں ہے بلکہ افغانستان میں منفی عناصر کو جمع کر کے پاکستان کی مغربی سرحد سے دہشت گردی کروا رہا ہے۔

پچھلے دنوں پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کے جتنے واقعات ہوئے ہیں ان میں ایسے شواہد سامنے آئے ہیں جن میں بھارت کی ایجنسیوں کے ملوث ہونے کا قوی امکان ہے۔ اگرچہ اس قسم کے شواہد عرصہ دراز سے مل رہے ہیں جس سے شائبہ تھا کہ بھارت ہی ان کارروائیوں میں ملوث ہے۔ لیکن اب اقتصادی راہداری کی برملا مخالفت سے اس کے عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ بھارت کو جان لینا چاہیے کہ پاکستان میں ترقی کا چلنے والا پہیہ اب انشاء اللہ رکنے والا نہیں ہے۔دہشت گردی کے واقعات کے باوجود گوادر بندرگاہ مکمل ہو کر فعال ہوئی اور اب تمام نامساعد حالات کے باوجود اقتصادی راہداری بھی انشاء اللہ مکمل ہو کر فعال ہو گی۔

حسن اقبال
بشکریہ روزنامہ نئی بات


بجٹ کیسا ہونا چاہئے...سراج الحق

$
0
0

وزیر خزانہ اسحق ڈار 5جون کو 2015- 16کا بجٹ پیش کرینگے ،یہ بجٹ کیسا ہونا چاہئے ،ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئیں اور مستقبل میں ہمیں اپنی معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے اور خود انحصاری کی منزل پر پہنچنے کیلئے قومی سطح پر کن اقدامات کی ضرورت ہے؟؟ ان سوالوں کا جواب ہر پاکستانی جاننا چاہتا ہے ، اس لئے ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے معاشی پس منظر کوسامنے رکھتے ہوئے ۔(الف) مجموعی قومی پیداوار میں سالانہ اضافے کا ہدف کم از کم7فیصد رکھیں (ب)۔ اس ہدف کو پورا کرنے کیلئے زرعی اور صنعتی سیکٹرزمیں سالانہ بڑھوتری بھی اسی ہدف کے مطابق ہو۔ (ج)ملکی ریونیو میں کم ازکم ڈیڑھ کھرب روپے کا سالانہ اضافہ کرناہوگاتاکہ ہمیں خسارہ پورا کرنے کیلئے قرض نہ لینے پڑیں۔(د)غیر ضروری درآمدات کو کم کرکے برآمدات کو بڑھانا ہوگاتاکہ بین الاقوامی تجارت میں ہمارا خسارہ کم ہوسکے۔

ان مقاصد کے حصول کیلئے ہمیں سب سے پہلے طرز حکمرانی بدلناہوگا۔ خاندانی وراثتی اور ذاتی وفاداری کی بنیاد پر حق حکمرانی کی بجائے عوام کے حقیقی نمائندوں کے ذریعے سے مشاورتی بنیاد پر میرٹ کیمطابق فیصلے کرنے ہونگے۔ میرٹ کی حکمرانی کے بغیر عدل قائم نہیں ہوسکتا۔ 2015-16ء کے بجٹ میں ہمیں ہرحال میں خودانحصاری کی طرف آناپڑیگا۔ اس سا ل بھی ریونیوکا بہت بڑاحصہ سود اور اصل زر کی قسطوں کی واپسی میں گیا ۔ ٹیکسیشن پالیسی کو اگر مالیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیاجائے تو اہل ثروت لوگوں سے مالی وسائل معاشی لحاظ سے کم نصیب لوگوں کی طرف منتقل کیے جاسکتے ہیں۔

 مگر موجودہ پالیسی جس کے تحت ڈائریکٹ ٹیکسز کا بھی 88فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کے ذریعہ سے جمع کیاجاتاہے اور صرف 12فیصد حصہ اسسمنٹ /انفورسمنٹ کے ذریعہ سے وصول کیا جاتا ہے اور اسکے ساتھ سیلز ٹیکس ،کسٹم ڈیوٹی اور ایکسائز ڈیوٹی پہلے سے موجود ان ڈائریکٹ ٹیکسز بھی نافذ رہیں تو صاف ظاہر ہے کہ حکومت معاشی طور پر خوشحال لوگوں سے مالی وسائل لے کر معاشی لحاظ سے کم نصیب طبقے کی تکالیف کے ازالہ میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ معاشی طور پر خوشحال طبقے کے تعین میں ضروری اعداد و شمار اور کوائف حکومتی اداروں کے پاس موجود ہیں۔

 مثلاً بیرون ملک سفر ،اعلیٰ مہنگے اداروں میں بچوں کی تعلیم ،اعلیٰ مہنگے ہسپتالوں میں علاج ،بجلی گیس اور ٹیلی فون بمعہ موبائل فونزکے بل اور مختلف کلبوں کے بل کے متعلق ڈیٹا موجود ہے۔ بڑے شہروں کے پوش علاقوں میں عالی شان محل ،سب کو نظرآتے ہیں اور انکے بنانے کیلئے وسائل کاتعین کرنا کوئی جوئے شیر لانانہیں۔ یہی وہ واحد روڈ میپ ہے جس کے ذریعے سے ہم نہ صرف اپنے وسائل سے بہت حد تک اپنی ضروریات پوری کرسکتے ہیں بلکہ معاشی طور پر کم نصیب لوگوں کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری بھی ادا کرسکتے ہیں۔اسی طرح سے ہر قسم کی آمدنی ،جو طے شدہ حد مثلاً چھ لاکھ روپے سالانہ ، سے زیاد ہ ہو ،وہ ٹیکس نیٹ میں لائی جائے۔ ودہولڈنگ ٹیکس کی بجائے انفورسمنٹ / اسسمنٹ /آڈٹ کاطریقہ اختیار کیاجائے۔ 

ٹیکس ادا کرنے والوں کی مکمل آگاہی کا انتظام کیاجائے۔ تمام قواعد و ضوابط سادہ اور عام فہم بنائے جائیں اور شکایت کی صورت میں مؤثر دادرسی اور احتساب کانظام قائم کیاجائے۔ 1996ء میں VATکے طریقہ کار پر سیلز ٹیکس کانظام لایاگیاتھاجس کا بنیادی مقصد معیشت کو دستاویزی شکل میں لانا تھانہ کہ ریونیوبڑھانے کیلئے استعمال کرناتھا۔آہستہ آہستہ معیشت کے دستاویزی شکل اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ریونیو کیلئے انحصار انکم ٹیکس پر کیا جاناتھا۔ لیکن اس سکیم کو کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔ جب تک معیشت دستاویزی شکل اختیار نہیں کرتی اس وقت تک ڈائریکٹ ٹیکسز عدل و انصاف کے ساتھ جمع نہیں کیے جاسکتے اور جب تک اِن ڈائریکٹ ٹیکسز پر انحصار رہے گا۔ ٹیکسیشن کا نظام عادلانہ نہیں ہوسکے گا۔ ہماری تجویز ہے کہ بغیر کسی چھوٹ کے اندرون ملک ہر قسم کی سپلائی پر اور ہر درآمد پر 5فیصد سیلز ٹیکس لگایا جائے۔ تھائی لینڈ اورسنگا پور میں اس وقت سیلز ٹیکس کا ریٹ 7فیصد ہے،انڈونیشیا میں 10فیصد ہے اور سری لنکا میں 12فیصد ہے۔ ہمیں توانائی کے بحران کو فوری طور پر حل کرناہوگا۔

زراعت کا سیکٹر(بالخصوص فصلات )تقریباً گزشتہ سال سے شدید بحران کا شکار ہے۔ لائیوسٹاک کی حالت بھی اچھی نہیں ہے۔ زراعت کے سیکٹر میں 87 فیصد تک تعداد چھوٹے کسانوں کی ہے۔ جن کے پاس نہ تو پس انداز کی ہوئی آمدنی ہوتی ہے اور نہ ہی اپنی پیداوارا کو سٹور کرنے کی صلاحیت ۔پیشتر اسکے کہ موجودہ بحران اس طبقے کو ملیا میٹ کردے۔ حکومت تمام اہم زرعی اشیاء کی سپورٹ پرائس مقرر کرے او ر اس قیمت پر منڈی میں فروخت کو یقینی بنائے۔ جیسا کہ انڈیا میں ہے ۔ علاوہ ازیں زرعی مداخل (کھاد، زرعی ادویات ،زرعی مشینری) پر عائد سیلز ٹیکس ختم کرے ۔ زرعی ٹیوب ویلوں پر فلیٹ ریٹ سے بل وصول کیے جائیں۔

 کسانوں کو زرعی قرضے بلاسود دلوائے ،اس ضمن میں جماعت اسلامی حکومت کو سٹیٹ بینک سے منظور شدہ طریقہ کار کے مطابق ماڈل بناکر دینے کیلئے تیارہے۔ اور سہولت کار کارول نبھانے کیلئے اپنی خدمات پیش کرتی ہے۔زرعی تحقیق پر زیادہ سے زیادہ فنڈزلگائے جائیں تاکہ جدید ٹیکنالوجی استعمال کرکے اوسط پیداوا بڑھائی جائے او ر اضافی پیداوار کو ایکسپورٹ کیاجائے۔ حکومت کسانوں کی نمائندہ تنظیموں کے ساتھ مشاورت سے زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کامعاملہ طے کرے۔ سٹاک مارکیٹ ،رئیل اسٹیٹ ،تعمیرات کی صنعت ،اور ڈویلپرزکو ٹیکس نیٹ میں لایاجائے۔

بجٹ 2015-16ء میں مدنظر رکھنے کیلئے ایک اور بہت اہم پہلو نجکاری کا ہے۔
آئندہ نجکاری کا عمل سیاسی جماعتوں کی مشاورت کیساتھ کیا جائے اور وہ ادارے جو ریاست کی ضرورت ہیں انکی ہرگز نجکاری نہ کی جائے البتہ ایسے اداروں کو منافع بخش بنانے کیلئے حکمت عملی اپنائی جائے ۔

جب تک انسانی وسائل کی ترقی پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی ملکی معیشت ماہر افراد کی خدمت سے ہمیشہ محروم رہے گی ۔ اس وقت تعلیم پر جی ڈی پی کا 2فیصد سے بھی کم اور صحت پر اس سے بھی کم خرچ انسانی وسائل کی ترقی میں حائل ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ 2015-16ء کے بجٹ میں ان دونوں سیکٹرز کیلئے جی ڈی پی کا 4سے 6فیصد ،فی سیکٹر،حصہ رکھاجائے۔ سارے ملک میں یکساں نظام تعلیم اور وہ بھی اپنی قومی زبان میں یقینی بنایا جائے۔ ملک بھر میں بڑی تعداد میں ٹیکنیکل سکول ،کھولے جائیں ،جہاں آٹو موبائل ،بجلی والیکٹرانکس وغیرہ کی تعلیم دی جائے اور یہاں کے فارغ التحصیل طلباء کو اپنا کاروبار شروع کرنے کیلئے بلاسودقرضے دیئے جائینگے۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہیں 15فیصد بڑھائی جائیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ مزدوروں کیلئے کم ازکم 15000روپے ماہانہ تنخواہ مقرر کی جائے۔ اسی کے ساتھ میڈیکل اور کنوینس الائونس میں 200 فیصد اضافہ کیاجائے۔ پنشن اور کمیوٹیشن کا پرانا فارمولا 50فیصد ، 50فیصد بحال کیا جائے۔ سرکاری ملازمین کے موواووراور سلیکشنز گریڈکی سکیم بحال کی جائے۔

ملک میں سودی نظام کا خاتمہ کیاجائے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے غیر سودی نظام کے نفاذ کیلئے تفصیلی ہدایات اور طریقہ کار جاری کیے ہوئے ہیں۔ حکومت کم ازکم وہاں سے اس کارخیر کاآغاز کردے تاکہ ہم مجموعی طور پر اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی سے بچ سکیں۔ایک اور اہم مسئلہ این ایف سی ایوارڈ کا ہے۔ حکومت نے این ایف سی کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں وفاق اور صوبوں کے درمیان محاصل کی تقسیم کا جو فارمولا طے پایاتھا ۔کم ازکم اس کو ہر حال میں برقرار رکھاجائے۔

 صوبوں کے سرپلس کو وفاق کی طرف موڑنے کی ماضی کی سب کوششیں آئندہ کیلئے ختم ہونی چاہئیں۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری کامنصوبہ بہت اہم ہے۔متذکرہ بالا تجاویز پر اگر حقیقی معنوں میں عمل ہوجائے تو آئندہ بجٹ میں ہم نہ صرف آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے بچ جائینگے بلکہ قوم خود انحصاری اور حقیقی آزادی کی منزل کے راستے پر بھی گامزن ہوجائیگی۔

سراج الحق

خلیفہ اول کا پہلا بجٹ

$
0
0

آنحضرت ﷺ کے بعد مسلمانوں کی حکمرانی اور حضور پاک کی خلافت کی ذمے داری حضور کے قریب ترین ساتھی پر ڈال دی گئی۔ یہ تھے حضور پاک کے زندگی بھر کے دوست اور صدیق حضرت ابوبکرؓ۔ وہ مدینہ منورہ میں کپڑے کا کاروبار کرتے تھے جو خلافت کی ذمے داری اٹھانے کے بعد بند کرنا پڑا کیونکہ تجارت اور عوام کے مسائل ایک ساتھ نہیں چل سکتے تھے۔

فرمایا کہ جب حاکم وقت اور خلیفہ کی دکان موجود ہو گی تو کوئی گاہک کسی دوسری دکان پر کیسے جائے گا پھر یہ بھی کہ عوام اور ریاست کے مسائل اتنے ہوا کرتے ہیں کہ ان کے لیے وقت کیسے نکل سکتا ہے۔ تجارت دکانداری اور کاروبار مملکت ایک ساتھ نہیں چل سکتے چنانچہ خلیفہ اول نے مجبور ہو کر اپنی دکان بند کر دی‘ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ دکاندار کی ضروریات کہاں سے پوری ہوں ان کے گھر بار کی ذمے داری کون اٹھائے یعنی ان کی آمدنی کا ذریعہ کیا ہو۔

اس حکمران کی حالت تو یہ تھی کہ مدینہ کے مختصر سے شہر کے ہر گھر کی حالت کا انھیں علم تھا کہ کون کس حال میں رہتا ہے اور اس کی حیثیت کیا ہے۔ ایک بڑھیا تھی جس کا کوئی نہیں تھا لیکن ابو بکر صدیقؓ موجود تھا جو اس بڑھیا کے کھانے پینے کا بندوبست خود کرتا تھا۔ خلیفہ کے معتمد ساتھی حضرت عمر فاروق کو جب اس بڑھیا کا پتہ چلا تو وہ صبح کے وقت کھانے پینے کا سامان لے کر اس کے گھر پہنچ گئے جہاں جا کر معلوم ہوا کہ وہ کھانا کھا چکی ہے اور دُھلے ہوئے برتن سامنے پڑے ہیں۔ یہ دیکھ کر عمر فاروق بڑھیا کے پاؤں دباتا اور روتا رہا کہ اے ابوبکر تم ہمارے لیے زندگی اتنی مشکل کیوں کر رہے ہو۔
یہی ابوبکرؓ خلیفہ بن کر جب اپنے ساتھیوں کے سامنے بیٹھا کہ کاروبار سلطنت اب کیسے اور کس طرح چلایا جائے تو کہا کہ آپ لوگ میری تنخواہ مدینہ کے ایک مزدور کے برابر مقرر کر دیں کیونکہ اس اجلاس کی پہلی آئٹم خلیفہ کی تنخواہ تھی اس پر ساتھیوں نے عرض کہ جناب مزدور کی تنخواہ تو بہت کم ہوتی ہے اس پر آپ کا گزارہ نہیں ہو گا تب اسلامی تاریخ کے اس سب سے پہلے اور بڑے حکمران نے آنے والے حکمرانوں کے لیے یہ تاریخی جملہ کہا اور ایک اسلامی حکومت کے بجٹ کا فیصلہ بھی کر دیا کہ پھر مزدور کی تنخواہ بڑھا دی جائے اس طرح میری تنخواہ بھی خود بخود بڑھ جائے گی اور میری ضرورت پوری ہوتی رہے گی۔

یہ اس حکمران کا فیصلہ تھا جو حکمرانی کے لیے خلیفہ نہیں بنا تھا بلکہ خدمت خلق کے لیے اس نے یہ ذمے داری قبول کی تھی اور وہ بھی ساتھیوں کے اصرار پر کہ حضور پاکؐ کی زندگی مبارک کے آخری دن ابوبکر کی رفاقت اور امامت میں گزرے تھے اور صحابہ کرام کا متفقہ فیصلہ تھا کہ یہ بھاری ذمے داری حضرت صدیق اکبر کے سپرد کر دی جائے کیونکہ ان سے بڑا آدمی اور کوئی نہیں اور نوزائیدہ مملکت کو یہی سنبھال سکتے ہیں جنہوں نے حضور پاکؐ سے براہ راست تربیت حاصل کی ہے۔ عمل اور عقیدے میں ان سے زیادہ مضبوط اور کوئی نہیں۔

تو خواتین و حضرات یہ تھا ایک نوزائیدہ نوخیز اور بالکل ہی نو عمر حکومت کا پہلا بجٹ جس کا بنیادی اصول اس کے پہلے حکمران نے طے کر دیا تھا کہ اس مملکت کا حکمران اپنے عوام میں سے کسی سے بھی زیادہ خوشحال نہیں ہو سکتا۔ مدینے کے مزدور اور مدینے کے حکمران کی آمدنی اور تنخواہ بالکل برابر ہو گی۔ نیکی و پرہیز گاری اپنی جگہ لیکن شہری حقوق سب کے برابر نہ کوئی بڑا نہ کوئی چھوٹا۔ بالکل مساوی۔ اگر کوئی عام شہری اپنی کسی محنت اور کسی تجارت وغیرہ سے زیادہ کما لیتا ہے تو یہ اس کا حق ہے۔

آپ کے ملک کا ایک تازہ بجٹ آپ کے پاس ہے کیا اس بجٹ میں اسلامی تاریخ کے اس پہلے بجٹ کی کوئی جھلک ملتی ہے جو وقت کے ذہین اور دیانتدار لوگوں نے تیار کیا تھا اور جس کا معیار ایک مزدور تھا کہ اس کی آمدنی بجٹ کی آمدنی ہو گی یعنی ایک عام شہری کی آمدنی۔ ہمارے حکمرانوں کا بُود و باش رہن سہن اور چال چلن اس بجٹ کے برعکس نہیں تو کیا ہے وہ سرکاری خرچ یعنی عوام کے خرچ پر محلات میں رہتے ہیں ان کی حفاظت کے لیے لاتعداد انسان ہر وقت جاگتے رہتے ہیں ان کے گھر کی آسائش کا کوئی عام پاکستانی تصور تک نہیں کر سکتا۔

ان کی اپنے شہروں کے اندر آمد و رفت پر جتنا خرچ اٹھتا ہے وہ کسی گاؤں کے کل بجٹ کے برابر ہوتا ہے ان کے غیر ملکی شاہانہ دورے عوام کو مزید مقروض کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے حکمران سانس بھی سرکاری خرچ پر لیتے ہیں اور اس قدر سخت دل ہیں کہ کسی دوسرے غریب اور نادار پاکستانی کے حال کا تصور تک نہیں کر سکتے۔

ان لوگوں کی تمامتر زندگی غیر پاکستانی زندگی ہے اور داد دیجیے ان کی ہمت کی کہ وہ نہ خدا سے ڈرتے ہیں نہ اپنے ساتھ کے عام آدمیوں سے اور جب ہر سال بجٹ بناتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ عوام پر کس قدر مالی تشدد کیا جا سکتا ہے اور عوام سے کتنا کچھ چھینا جا سکتا ہے۔ میں جب یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو بجٹ میرے سامنے نہیں ہے یہ بجٹ سے ایک دن پہلے کا دن ہے لیکن میرے حکمران میرے سامنے ہیں اور ان کے کارندوں نے ان کے لیے جیسا بجٹ بنانا ہے مجھے اس کا خوب اندازہ ہے اور اس بجٹ میں بڑے لوگوں کے مالی تحفظ کو مقدم رکھنا ہے۔

ایک لطیفہ ہے کہ گزشتہ بجٹ میں کاروباری لوگوں کی ایک محفل میں بیٹھا تھا جن کو معلوم تھا کہ بجٹ پیش کیا جا رہا ہے مگر کسی نے بھی ٹی وی کی طرف توجہ نہ کی اگر کوئی ٹی وی دیکھ رہا تھا تو بیرے اور نوکر تھے۔ معلوم ہوا کہ بجٹ کے اہم حصے ان لوگوں کو معلوم تھے پھر وہ وقت کیوں ضایع کرتے وہ تو بجٹ کے مطابق اپنے کاروبار میں رد و بدل بھی کر چکے تھے اور کل سے ان کی تجارت نئے بجٹ کے مطابق شروع ہونی تھی۔

بجٹ ایک ایسی چیز ہے جسے حکومتوں کے علاوہ ایک عام آدمی بھی زیر غور رکھتا ہے کیونکہ اس نے اپنی تنخواہ وغیرہ سے گھر بار کا خرچ چلانا اور خرچے اور آمدنی میں توازن پیدا کرنا ہوتا ہے۔ یہی بجٹ حکومتوں کے بعد ایک عام کاروباری شخص کا بھی ہوا کرتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ پیدا ہو چکا ہے جو مدینہ کے مزدور کے برابر مزدوری لینے کا روادار نہیں ہے اور اسی طبقہ کی معاشی حکمرانی میں ہم نے زندگی بسر کرنی ہے۔

عبدالقادر حسن

بشکریہ ایکسپریس نیوز

بیالیس فیصد پاکستانی ان پڑھ : اقتصادی سروے

$
0
0

تعلیمی شعبے پر خصوصی توجہ کے لمبے چوڑے دعووں کے باوجود صوبائی اور وفاقی حکومتیں پچھلے پانچ سالوں کے دوران شرح خواندگی میں کوئی بہتری پیدا نہیں کرسکتی ہیں۔
اقتصادی سروے کے مطابق 2010-11ء میں ملک کی شرح خواندگی 58 فیصد تھی، جبکہ 2013-14ء کے دوران اس میں درحقیقت کوئی بہتری نہیں آئی۔
اس سروے کا کہنا ہے کہ بہت سے ترقی پذیر ملکوں کی مانند پاکستان تعلیم کے میدان میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں کرسکا، اور اس کی 42 فیصد آبادی اب بھی پڑھنے لکھنے کے قابل نہیں ہے۔

اقتصادی سروے کے مطابق اسکول میں داخلے کی شرح کم اور اسکول چھوڑنے والے طالبعلموں کی شرح بہت زیادہ ہے۔

تعلیم کے لیے بجٹ میں مخصوص کیا جانے والا حصہ پچھلی دہائی سے لگ بھگ دو فیصد پر برقرار ہے، اس میں سے بھی ایک بڑا حصہ مسلسل تنخواہوں جیسے اخراجات میں استعمال ہوجاتا ہے۔

اقتصادی سروے کا کہنا ہے کہ شرح خواندگی تعلیم کے اہم پیمانوں میں سے ایک ہے، اور اس کی بہتری سے قومی فلاح و بہبود کے دیگر اہم پیمانوں پر طویل مدتی اثرات کا امکان ہوتا ہے۔
سروے نے پاکستان کی سماجی اور معیارِ زندگی کی پیمائش کے سروے 2013-14ء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آبادی (دس سال اور اس سے زیادہ عمر کے لوگ) کی شرح خواندگی 58 فیصد رہی، جبکہ 2012-13ء میں یہ شرح 60 فیصد تھی، جس میں دو فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

آپ انھیں بنانا کیا چاہ رہے ہیں؟...وسعت اللہ خان

$
0
0

میں بچپن سے سنتا آ رہا ہوں کہ صاحب تعلیم پر اگر کل قومی آمدنی کا ڈیڑھ دو فیصد حصہ ہی خرچ ہوتا رہے گا تو معاشرہ خاک تعلیم یافتہ ہو گا۔ میاں کم ازکم سات فیصد قومی آمدنی پندرہ بیس برس مسلسل خرچ ہو تب جا کے سماجی تبدیلی کا کوئی امکان پھوٹے گا۔ اور بھائی صاحب! تعلیم کوئی صنعت نہیں بلکہ مقدس صبر آزما قانع پیشہ ہے جس کا پھل بہت آہستہ آہستہ پکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایسی اچھی اچھی میٹھی میٹھی باتیں سننے کے بعد ذرا گرد و پیش کے ٹیوشن اور کوچنگ سینٹرز کے اشتہارات پر بھی نگاہ ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
’’سر محمد حسین کوچنگ سینٹر برائے میٹرک و انٹر میڈیٹ۔ تمام مضامین میں کم از کم ستر فیصد نمبروں کی گارنٹی۔ ورنہ فیس واپس۔
اب یا تو سر محمد حسین کوئی بہت بڑے علمی جادوگر ہیں جو بچوں کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کے کچھ پڑھتے ہیں اور اپنا سب علم منتقل کردیتے ہیں یا پھر میٹرک و انٹرمیڈیٹ کے بورڈز میں بیٹھے اہل کاروں کو سر محمد حسین کراری کاغذی گڈی کی جادوئی خوشبو ایسے سلیقے سے سنگھاتے ہیں کہ انھیں سر محمد حسین کے تمام شاگردوں کو ستر فیصد نمبر دیتے ہی بنتی ہے.

کبھی اس پہلو پے بھی غور فرمائیے گا کہ جب تک عمومی تعلیم سرکاری یا نان کمرشل مشنری اداروں کی ذمے داری تھی تب تک طلبا و طالبات کی ایک تعداد امتحانات میں فیل بھی ہوا کرتی تھی اور پھر اس ناکامی کو مزید محنت سے کامیابی میں بدلنے کی بھی سرتوڑ کوشش ہوتی تھی۔ جب سے نجی تعلیمی سیکٹر کے سبز کاروباری قدم پڑے تب سے فیل ہونے والے طلبا و طالبات کا تناسب بھی حیرت انگیز حد تک کم ہو گیا۔ تو کیا ہمارے نونہال راتوں رات ذہین ہو گئے یا اندھے کمرشل ازم کی بنیاد پر قائم تعلیمی ادارے اپنے طلبا کا بڑی تعداد میں فیل ہونا اپنی کاروباری شہرت کی خودکشی سمجھتے ہیں؟

( یقیناً ایسے نجی تعلیمی ادارے بھی ہیں جو بھاری فیسیں ضرور لیتے ہیں مگر بدلے میں طلبا کو کوالیفائیڈ فیکلٹی کے ذریعے جدید اور معیاری تعلیم بھی دیتے ہیں۔ لیکن ایسے مہنگے معیاری ادارے کتنے ہوں گے؟)۔
جیسے ہی ریاست نے ہر بچے کو معیاری تعلیم دینے کے آئینی فرض سے ہاتھ کھینچا۔ ویسے ہی یہ خلا پُر کرنے والے زیادہ تر اداروں نے تعلیم کو مشن کی سطح سے گھسیٹ کے گھی، صابن، تیل جیسی منافع زدہ پروڈکٹ بنا ڈالا۔ اب اکثر تعلیمی ادارے علم کا معبد نہیں، کوالیفکیشن پیما ڈگریاں، ڈپلومے، سرٹیفکیٹ جاری کرنے والی فیکٹری ہو چکے ہیں۔

تو کیا واقعی ہماری تعلیمی زبوں حالی کا بنیادی سبب قلیل بجٹ ہے یا اس بات کو تواتر سے دھرانے کا مقصد ناکامی کی دیگر وجوہات چھپانا ہے۔ یہ درست ہے کہ تعلیمی سیکٹر کو اصولاً سو روپے سالانہ ملنے چاہئیں مگر دس روپے مل رہے ہیں۔ مگر یہ دس روپے بھی کیا اسی جگہ لگ رہے ہیں جہاں لگنے چاہئیں؟
الف اعلان ایک سرکردہ تعلیمی این جی او ہے۔ وہ پاکستان کے ایک سو اڑتالیس اضلاع کی سالانہ تعلیمی کارکردگی رپورٹ شایع کرتی ہے۔ تازہ ترین کے مطابق اس وقت سیکنڈری اسکول کی سطح پر سب سے بہتر تعلیمی معیار اسلام آباد کا ہے۔ پھر علی الترتیب آزاد کشمیر، پنجاب، خیبر پختون خوا، گلگت بلتستان، سندھ، بلوچستان اور فاٹا کا نمبر ہے۔

ایسا نہیں کہ آزاد کشمیر کا تعلیمی بجٹ بلوچستان کے تعلیمی بجٹ سے کہیں زیادہ ہو۔ تو پھر ایسا کیوں ہے کہ سیکنڈری تعلیمی معیار کے اعتبار سے ٹاپ ٹین اضلاع کی الف اعلان فہرست میں آٹھ اضلاع پنجاب سے ایک اسلام آباد اور ایک آزد کشمیر سے ہے۔ جب کہ مڈل لیول تعلیم کی ٹاپ ٹین فہرست میں آزاد کشمیر کے چھ اضلاع سرِ فہرست ہیں اور بلوچستان کا ایک ضلع پنجگور بھی اس فہرست میں شامل ہے۔

مگر اسکولی تعلیم کے مجموعی معیار کی ٹاپ ففٹی اضلاعی فہرست میں بلوچستان سے صرف کوئٹہ اور سندھ سے کراچی کا ایک ضلع شامل ہے۔ حالانکہ بلوچستان میں اس وقت تعلیمی ایمرجنسی نافذ ہے اور موجودہ مالی سال کے دوران پچاس ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کا ایک چوتھائی حصہ تعلیم کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ اس تعلیمی بجٹ کا لگ بھگ پچھتر فیصد اور سندھ کے تعلیمی بجٹ کا اڑسٹھ فیصد تعلیمی بیوروکریسی اور اساتذہ کی تنخواہوں پر خرچ ہو جاتا ہے۔ مگر نتائج ندارد۔ پاکستان میں پانچ برس تک کی عمر کے جتنے بھی بچے اسکول سے باہر ہیں ان میں سب سے زیادہ بچے بلوچستان اور پھر سندھ کے ہیں.

رہا فاٹا تو وہاں بھی تعلیمی مد میں سالانہ اچھی خاصی رقم مختص ہوتی ہے لیکن بنیادی سے اعلی تعلیمی درجے تک ٹاپ ٹین یا ٹاپ ففٹی چھوڑئیے ٹاپ ہنڈرڈ لسٹ میں بھی فاٹا نظر نہیں آتا۔ تو کیا اب سے پینتیس برس پہلے فاٹا کا تعلیمی احوال بہتر تھا جب وہاں مثالی امن و امان تھا ؟ ایک قہقہہ بر حسنِ ظنِ درویش۔۔۔۔
کہتے ہیں معیارِ تعلیم کا بنیادی محور اچھی بلڈنگ نہیں اچھا استاد ہے۔ جب تک سرکاری شعبہِ تعلیم نوکریاں دینے والی چراگاہ اور کچرا ڈپو نہیں بنا تھا تب تک انھی زرد رو اداروں سے ہر شعبے کی وہ نامور ہستیاں بھی پیدا ہو رہی تھیں جن کے بارے میں ہم آج یوں حیران ہوتے ہیں جیسے یہ ہستیاں مریخ سے اترتی تھیں۔ پھر یہ ہوا کہ جو کسی اور شعبے کے کام کا نہیں تھا اسے پرچی اور پیسے کے زور پر ٹیچر کا کنٹریکٹ تھما دیا گیا اور رفتہ رفتہ ان نوواردانِ کوچہِ تدریس کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ اصلی اساتذہ اس بچہ سقائی فوج کے بوجھ تلے دبتے چلے گئے۔ تو یہ ہے تعلیم کو مشن سے کچرے میں بدل کر اس کچرے کو صنعتی فضلے کی شکل دینے کا سفر۔

کوئی بھی بیماری شروع شروع میں سب کو ڈراتی ہے لیکن جب وبا بن جائے تو اسے روزمرہ کی حقیقت سمجھ لیا جاتا ہے۔ مثلاً کراچی میں روزانہ دس ہلاکتیں ایک معمول ہے۔ لاہور میں اگر دس افرد روزانہ قتل ہوں تو یہ غیر معمولی بات ہو گی۔ مگر یہ عمل مسلسل ہو جائے تو لاہور کے لیے بھی یہ ایک معمولی بات ہو جائے گی۔ اسی طرح مشکوک تعلیمی قابلیت یا بھوت اساتذہ کا معاملہ کبھی ایک سنگین مسئلہ سمجھا جاتا تھا۔

اب یہ روزمرہ کی ایک اور ناگوار حقیقت سمجھ لیا گیا ہے۔ گزرے فروری میں نیب نے بلوچستان میں چھ سو اساتذہ کا سراغ لگایا جن کی اسناد مشکوک یا جعلی تھیں مگر یہ دس دس برس سے پرائمری تا ہائی اسکول کے بچوں کو پڑھا رہے تھے۔ تو کیا ہوا؟ آج کے دور میں ایسی خبروں کی اوقات بیک پیج سنگل کالم سے زیادہ کی نہیں۔

جہاں ٹیچر غریب کی جورو ہوں جنھیں الیکشن کمیشن انتخابی فہرستوں کی تیاری سمیت دیگر کاموں کے لیے جب چاہے اچک لے جائے، کبھی انھیں کوئی افسر سیاسی جلسوں میں لازمی حاضر ہونے کا نادر شاہی حکم دے، کبھی انھیں مردم شماری و خانہ شماری پر ہزاروں کی تعداد میں روانہ کر دیا جائے تو کبھی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے ایمرجنسی نمبروں کا جواب دینے کے لیے بطور آپریٹر ڈیوٹی لگ جائے لیکن تنخواہ وہی لگی بندھی رہے تو ایسے ٹیچر خود کیا پڑھیں گے اور بچوں کو کب کیوں اور کتنا پڑھائیں گے؟ تو پھر کیوں نہ یہ ٹیچر بچوں کو پڑھانے کے لیے ایک اسسٹنٹ رکھیں اور خود کوئی منافع بخش کام کریں۔
جہاں کوئی ٹیچر محض اس نیت سے ایم فل یا پی ایچ ڈی کرے کہ اس کی تنخواہ میں ریسرچ الاؤنس کے نام پر چار اضافی پیسے جڑ جائیں گے۔ جہاں ٹیچر خود طلبا سے کہے کہ اگلے ہفتے کے امتحان کے لیے فلاں فلاں سوال زیادہ اہم ہیں، بس ان کے جوابات ازبر کر لو۔ جہاں درسی کتب کے صفحات جڑے رہیں اور گیس پیپرز اتنے رٹے جائیں کہ پھٹ جائیں۔

جہاں کسی بھی تعلیمی درجے کی کتاب کھول کے یہی پتہ نہ چلے کہ ان میں سے دینیات کی کتاب کون سی ہے اور فزکس کی کون سی؟ جہاں طالبِ علم کا ٹیچر سے سوال پوچھنا عیب، ٹیچر کے لگے بندھے جواب سے اختلاف بد تہذیبی اور چپ رہنا علمی سعادت مندی شمار ہو۔ جہاں طالبِ علم کسی مضمون میں فیل ہونے پر خود احتسابی کے بجائے ٹیچر سے کہے کہ سر میں اس مضمون میں فیل ہو ہی نہیں سکتا۔ پتہ نہیں آپ نے میرا فیوچر کیوں برباد کر دیا۔ وہاں کیسی تعلیم اور کیا دماغی ورزش اور کونسی اکیسویں صدی؟

ضرورت سے زیادہ اہم کاموں میں ہمہ وقت مصروف سرکار کے پاس یہ غور کرنے کی فرصت کہاں کہ نئی نسل کو تعلیم کے نام پر کس معیار کا ذہنی راتب دیا جا رہا ہے۔ کیا یہ کوئی ٹھوس صحت مند غذا ہے یا جنک فوڈ کہ پیٹ تو بھر جائے مگر ذہنی و جسمانی نشوونما رک جائے۔

ویسے ہم سب مل کے اپنی نسلوں کو آخر بنانا کیا چاہ رہے ہیں۔ دولے شاہ کے چوہے یا خود سے سوچنے والے منطقی اذہان؟ گڈریا یا پھر دو ٹانگوں والا نیم دماغی ریوڑ؟ اگر کسی روز یہی نکتہ طے ہو جائے تو سمجھئے ایک کوہِ جہالت سر ہو گیا۔
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے۔۔۔۔۔

وسعت اللہ خان
بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس

حالات بدلیں گے

کٹھن سفر

بجٹ میں قومی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم

$
0
0

قومی بجٹ قومی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی ایسی دستاویز ہے جس پر عوام کے منتخب ’’نمائندے‘‘ نمائشی بحث کے بعد پارلیمانی مہر ثبت کردیتے ہیں۔ پاکستان کے طاقتور ادارے اور طبقے قومی دولت آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں اور کمزور، غیر منظم اور منقسم عوام اپنے حق سے محروم رہ جاتے ہیں۔ برسوں سے چونکہ روایتی بجٹ پیش کیے جارہے ہیں جو محض خوب صورت الفاظ میں اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہوتے ہیں اس لیے پاکستان کے عوام قومی بجٹ سے لاتعلق ہوچکے ہیں۔ قومی بجٹ سے پہلے سالانہ اکنامک سروے پیش کیا جاتا ہے جو گزشتہ مالی سال کے بجٹ کا جائزہ ہوتا ہے۔
 اکنامک سروے کے مطابق حکومت اپنے بجٹ اہداف پورے نہیں کرسکی۔ گروتھ ریٹ کا ہدف 5.1 تھا جو 4.24 رہا۔ زراعت کا ہدف 3.3 تھا جو 2.88 رہا۔ صنعتی ترقی کا ہدف 6.8 مقرر کیا گیا جو 3.62 رہا۔ سروسز کا ہدف 5.2 تھا جو 4.95رہا۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار نے تسلیم کیا کہ گزشتہ سال بے روزگاری میں 15لاکھ افراد کا اضافہ ہوا۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگلے مالی سال کے دوران روزگار کے 25 لاکھ مواقع پیدا کیے جائیں گے۔ پاکستان میں ترقی و خوشحالی آئے گی۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف جو قوموں کی آزادی سلب کرنے کے سامراجی ہتھیار ہیں پاکستان کے قومی بجٹ کی تعریف کررہے ہیں جبکہ پاکستان کے سیاسی رہنما آصف علی زرداری، عمران خان، سراج الحق، الطاف حسین اس بجٹ کو عوام دشمن اور حکمران اشرافیہ کا بجٹ قراردے رہے ہیں۔

 حکمران معاشی ترقی کے بلند بانگ دعوے تو کررہے ہیں مگر بولتے حقائق یہ ہیں کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت قوم پر 6.7بلین ڈالر قرضوں کا بوجھ ڈال چکی ہے۔ اگر حکومت کو سعودی عرب سے 1.5 بلین ڈالر کا گفٹ نہ ملتا، بیرون ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات میں اضافہ نہ ہوتا اور حکومت 2بلین ڈالر کے یورو بانڈز فروخت نہ کرتی اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمت نہ گرتی تو زرمبادلہ کے ذخائر 19ارب ڈالر کیسے ہوسکتے تھے۔ جس کا حکومت کریڈٹ لینے کی کوشش کررہی ہے۔ اصل ذخائر وہ ہوتے ہیں جو صنعت، زراعت اور برآمدات سے کمائے جاتے ہیں۔

مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے تیسرا بجٹ پیش کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ گلوبل رینکنگ میں معاشی ترقی کے حوالے سے پاکستان 125نمبر پر ہے جبکہ بھارت 69نمبر پر ہے۔ حکومتی اخراجات ضائع کرنے کے حوالے سے پاکستان کا نمبر 130جبکہ بھارت 49نمبر کی پوزیشن پر ہے۔ شفافیت کے لحاظ سے بھارت کا نمبر 57اور پاکستان کا نمبر 118ہے۔ کرپشن کے حوالے سے بھی پاکستان بھارت سے بہت آگے 112نمبر پر ہے جبکہ بھارت 65نمبر پر ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری جنرل پرویز مشرف کے دور میں 8.4بلین ڈالر تھی جو مسلم لیگ(ن) کے دور میں ایک بلین ڈالر تک رہ گئی۔ برآمدات کم ہوگئی ہیں۔ شرح خواندگی اور آبادی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ آلودہ اور مضر صحت پانی پینے سے ستر لاکھ افراد ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہیں جبکہ دو لاکھ بچے ہر سال پانی کی بیماریوں سے موت کی وادی میں چلے جاتے ہیں۔ دہشت گردی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ پولیس شہریوں کو کھلے عام قتل کررہی ہے۔ بھارت کھلم کھلا پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ ان حالات میں وفاقی وزیرخزانہ اسحق ڈار ترقی اور خوشحالی کے گیت گا کر قوم کو بے وقوف بنانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔بقول حبیب جالب:

پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

ڈاکٹر عشرت حسین درست کہتے ہیں کہ معاشی ترقی کا معیار یہ ہونا چاہیئے کہ کیا عام آدمی کو تعلیم، صحت، پانی اور سکیورٹی کی بہتر سہولیات فراہم ہوئی ہیں اور کیا عوام کو روزگار کے مواقع ملے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کا تیسرا قومی بجٹ 44کھرب 51ارب روپے کا ہے جبکہ بجٹ خسارہ 16کھرب 25ارب روپے کا ہے۔ خسارے کے بجٹ پر شرمندہ ہونے کی بجائے فخر کیا جارہا ہے۔ بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے 1280 بلین روپے، دفاع کے لیے 781بلین روپے، سرکاری اخراجات کے لیے 326بلین روپے اور ترقیاتی بجٹ کے لیے 923بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ حکومت ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہیں کرسکی۔ آج بھی صرف 8لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں جبکہ حکومتی ریکارڈ کے مطابق تیس لاکھ افراد کو ٹیکس دینا چاہیئے۔ حکومت نے ان ڈائریکٹ ٹیکسوں میں اضافہ کیا ہے جبکہ ڈائریکٹ ٹیکسوں کے سلسلے میں اس کی کارکردگی افسوسناک ہے۔ 

حکومت اگر ٹیکس دہندہ افراد کی تعداد سولہ لاکھ کرلیتی تو اس کی بڑی کامیابی ہوتی۔ شریف برادران اعلیٰ منصوبہ ساز ہیں۔ انہوں نے لاہور میں میٹروبس کا منصوبہ انتخابات 2013ء سے چند ماہ قبل مکمل کرایا۔ راولپنڈی اسلام آباد میٹروبس کا افتتاح قومی بجٹ سے قبل کیا گیا ہے تاکہ مایوس کن بجٹ سے عوام کی توجہ ہٹائی جاسکے۔ پنجاب حکومت ملتان میں میٹروبس کے منصوبے پر کام کررہی ہے۔ خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف کی خواہش ہے کہ راولپنڈی اسلام آباد میٹرو کو پاکستان میٹرو کا نام دیا جائے۔

 شاید اس طرح چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی پیدا نہ ہو۔ جنرل ایوب خان نے ڈھاکہ کی ترقی کو نظر انداز کرکے اسلام آباد کو دنیا کا خوبصورت دارلخلافہ بنایا تھا جس سے بنگالیوں میں احساس محرومی پیدا ہوا تھا۔ پنجاب میں اربوں ڈالر کے میٹرو کے منصوبے بھی وفاق کو کمزور کرنے کا باعث بنیں گے کیونکہ کسی حوالے سے بھی میٹرومنصوبے قومی ترجیح نہیں تھے۔ پہلے سے موجود سڑکوں کے اوپر میٹروبس کے لیے نئی سڑکیں تعمیر کردی گئی ہیں جبکہ روٹی، روزگار، تعلیم، صحت، امن، صاف پانی جیسی بنیادی سہولتوں کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ مساوی معاشی ترقی سے ہی ریاست کو متحد رکھا جاسکتا ہے۔ مفکر پاکستان علامہ اقبال نے تو یہ پیغام دیا تھا۔

جہاں تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

موضع مونگ ضلع منڈی بہائو الدین سے نوائے وقت کے غوروفکر کرنے والے دیرینہ قاری سلطان احمد مونگ نے ایک خط میں وزیراعظم سے اپیل کی ہے کہ ’’وہ پسماندہ مزدوروں، کسانوں، چھوٹے ملازمین، بے سہارہ خواتین اور بوڑھے پنشنروں کے موزوں ریلیف کے لیے بجٹ میں گنجائش پیدا کریں۔ ہر قسم کی آمدنی پر بلاتفریق ٹیکس نافذ کریں۔ ٹیکس جمع کرنیوالی مشینری کو صاف شفاف بنائیں۔ اس کے لیے اہل اور پر عزم افراد کو آگے لائیں۔ ہرادارے میں احتساب کا نظام تشکیل دیں تاکہ اداروں کی کارکردگی معیاری بن سکے اور پاکستان حقیقی معنوں میں ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکے‘‘۔ حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ سکیم اور بیت المال کے بجٹ میں اضافہ کرکے کسی قدر عوام دوستی کا ثبوت دیا ہے۔ ملازمین کی تنخواہوں میں 7.5فیصد کی بجائے 15فیصد اضافہ ہونا چاہیئے۔ محنت کشوں کی کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے ماہانہ کی جائے۔

اسحق ڈار عوام دوست بجٹ بنانے کے دعوے کررہے ہیں کیا وہ چھ افراد پر مشتمل ایک گھرانے جو دو کمروں پر مشتمل کرایے کے گھر میں رہتا ہے چودہ ہزار روپے ماہانہ میں بجٹ بنا کردکھا سکتے ہیں۔ جب تک امیر اور غریب کا غیر معمولی فرق کم نہیں ہوتا حکمران اشرافیہ وی آئی پی کلچر ختم نہیں کرتی اور بجٹ سازی میں عوام شریک نہیں ہوتے عوام دوست بجٹ پیش نہیں کیا جاسکتا غیر منصفانہ معاشی نظام کی وجہ سے قومی دولت کی لوٹ مار جاری رہے گی جس کا منطقی نتیجہ ایک دن خانہ جنگی یا خونی انقلاب کی صورت میں سامنے آئے گا۔

قیوم نظامی


پاکستان ایٹمی قوت بننے کے بعد

$
0
0

 مئی 1998ء کو چاغی کے پہاڑوں میں تین قسم کے ایٹمی ہتھیاروں کو کامیابی سے چلایا گیا۔ اس کے بعد 30 مئی 1998ء کو مزید تین قسم کے ایٹمی ہتھیار چلائے گئے۔ 30 مئی کو آخری یعنی چھٹی ایٹمی ٹیسٹ کا دھماکہ پلوٹونیم  ساخت کے ایٹم بم کا تھا۔ اس سے چھوٹے ہتھیار یعنی ٹیکٹیکل ایٹم بم بنائے جا سکتے ہیں جس کے بعد انڈیا میں سراسیمگی پھیل گئی اور انڈیا کی سرکار گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہوئی۔ پاکستان ان چار ایٹمی قوت ممالک امریکہ، فرانس، روس اور چین کی صف میں شامل ہوا جن کے پاس چھوٹے پلوٹونیم ساخت کے ٹیکٹیکل ایٹم بم ہیں۔

پاکستان نے نہایت محفوظ نیوکلیئر کمانڈ اینڈ کنٹرول کا نظام وضع کیا اور ایٹمی ہتھیاروں کو دشمن پر گرانے کیلئے موثر ہتھیار بنا لئے۔ یہ ہتھیار زمین سے زمین پر، فضا سے لڑاکا طیاروں کے ذریعے زمین پر، بحریہ/ آبدوزوں سے زمین پر گرائے جا سکتے ہیں۔ ملٹی سٹیج راکٹ ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل کرنے کے باعث پاکستان دنیا کے کسی بھی کونے پر دشمن پر ایٹم بم گرانے کیلئے دورمار میزائل تیار کرنے کی استطاعت رکھتا ہے۔ اس کا مظاہرہ شاہین تھری میزائل کو رینج پر ٹیسٹ کر کے کیا گیا ہے۔ موبائل لانچر سے نصر میزائل چلا کر حملہ آور دشمن فوجوں پر بیک وقت مختلف اہداف پر کئی ٹیکٹیکل ایٹمی بم گرا کر انہیں نیست و نابود کیا جا سکتا ہے۔ یوں انڈیا کی کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن (یعنی برق رفتار اچانک حملہ کر کے علاقہ پر قبضہ کرنا) کو ناکام کر دیا ہے۔

سٹیلتھ ٹیکنالوجی سے لیس راڈار پر نظر نہ آنے والے اور سطح زمین کے ساتھ کم بلندی پر پرواز کرکے 700 کلومیٹر فاصلے تک ایٹم بم گرانے کی صلاحیت کے حامل بابر کروز میزائل نے انڈیا کی میزائل دفاعی نظام کو بے اثر کر کے رکھ دیا ہے۔ تاریخی طور پر جب بھی کشمیر میں آزادی کی تحریک زور پکڑتی ہے تو انڈیا کی فوجیں پاکستان پر حملہ کر دیتی ہیں۔ یوں پاکستان پر جنگ مسلط کر کے کشمیر میں دبائو کو کم کیا جاتا ہے۔

ستمبر 1965ء کی جنگ اس کی واضح مثال ہے۔ 2001ء میں امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک نے افغانستان پر قبضہ کیا تو کشمیر میں ممکنہ گوریلا جنگ کے خوف سے انڈیا دسمبر 2001ء میں اپنی تمام فوجیں پاکستان کی سرحد پر جمع کر کے جنگ کرنے کی دھمکیاں دیتا رہا۔

نومبر 2002ء میں ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے نیویارک میں انڈیا کو متنبہ کیا کہ انڈیا کی طرف سے حملہ کی صورت میں پاکستان ایٹمی حملہ میں پہل کرے گا اور یہ ہی پاکستان کی نیوکلیئر ڈاکٹرائن ہے۔ خوفزدہ ہو کر انڈیا نے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔ آجکل کشمیر میں آزادی کی تحریک زور پکڑ چکی ہے۔ پاکستان انتہائی ترقی یافتہ ایٹمی ٹیکنالوجی اور ایٹمی قوت اور میزائل نظام سے مسلح ملک ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں دبائو کو کم کرنے یا ختم کرنے کیلئے انڈیا پاکستان پر حملہ ضرور کرنا چاہتا ہے، کشمیر کی سرحد پر سرحدی خلاف ورزیاں اور چھیڑ چھاڑ اس سلسلہ کی کڑی ہے مگر انہیں پاکستان پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہے۔ اس بے بسی کے عالم میں انڈیا نے پاکستان کے اندر پراکسی جنگ شروع کی ہوئی ہے۔

انڈیا نے 2004ء سے افغانستان میں ’’را‘‘ جاسوس ادارہ کا ایک مضبوط نیٹ ورک نظام قائم کیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے اندر امریکی سی آئی اے، برطانوی ایم آئی 6 اور اسرائیل کے جاسوس ادارہ موساد کی معاونت سے اسلام آباد، لاہور، پشاور، کراچی اور کوئٹہ میں اپنا خفیہ بیس اور پورے پاکستان کے اندر نیٹ ورک قائم کیا ہوا ہے۔ اس نیٹ ورک اور غیرملکی جاسوس اداروں کی معاونت سے انڈیا نے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کئی وارداتیں کی ہیں جن میں پشاور میں سکول پر حملہ بچوں اور استانیوں کو بیدردی سے قتل کرنا، کراچی میں اسماعیلی فرقہ کے بے گناہ شہریوں کا قتل عام اور مستونگ (کوئٹہ کے نزدیک) میں شہریوں کا قتل عام قابل ذکر وارداتیں ہیں جن میں ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت ملے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ’’را‘‘ کے آفیسر پکڑے گئے اور جنرل پرویز مشرف امریکہ کو انڈیا کے ’’را‘‘ کی دہشت گردی کی کارروائیوں کی شکایت لگاتا رہا مگر عملی طور پر اس کا سدباب نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے شرم الشیخ کانفرنس میں انڈیا کے وزیراعظم منموہن سنگھ کو ’’را‘‘ کی دہشت گردی کے ثبوت پیش کئے مگر دہلی حکومت نے اس کے خلاف کوئی قابل ذکر کارروائی نہیں کی اور ’’را‘‘ کی کارستانیاں جوں کی توں جاری رہیں۔ ابھی بھی پاکستان کے اندر انڈیا کے جاسوس ادارہ ’’را‘‘ نے کئی دہشت گردی کے واقعات کئے جن کے واضح ثبوت ملے ہیں۔

انڈیا کے وزیر دفاع نے کھلے عام کہا ہے کہ انڈیا پاکستان کے اندر پراکسی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ انڈیا کے خفیہ ادارہ ’’را‘‘ کی سرگرمیوں کے معاملہ میں میڈیا پر شور مچانے یا اقوام عالم کو شکایت لگانے سے کچھ حاصل نہیں ہونا۔ پاکستان کے سکیورٹی اداروں کو چاہئے کہ سرجوڑ کر بیٹھیں اور انڈیا کے ’’را‘‘ کے نیٹ ورک کا کھوج لگائیں اور اسے ختم کریں۔ پاکستان کی بقا اور ملک میں امن کی بحالی کیلئے ضروری ہے کہ غیرملکی جاسوس اداروں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور ان کو بے اثر کرنے کا بندوبست کریں۔ حکومت پاکستان ڈپلومیسی کے ذریعے اور افواج پاکستان اور ایجنسیاں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا دینے میں انشاء اللہ کامیاب ہونگے۔

 
لیفٹینٹ کرنل (ر) عبدالرزاق بگتی

انٹر نیٹ کا بے جا استعمال؟

$
0
0

جدید دنیا کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی دنیا ہے۔ دنیا ایک گلوبل ویلیج بن کر رہ گئی ہے۔ فاصلے مٹ گئے ہیں اور قاصد اور پیام برکے عہد ے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئے ہیں کتاب بہترین ساتھی ہے کہ جملے میں ترمیم آ چکی ہے کمپیوٹر بہترین ساتھی ہے۔ اس وقت دنیا میں چالیس کروڑسے زائد لوگ انٹرنیٹ کا استعما ل کر رہے ہیں اور ماہرین کے مطابق اسکا درست اور مفید استعمال کرنے والوں کی
تعداد کو ئی بارہ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ 

انٹرنیٹ دنیا میں موجود منسلک کمپیوٹروں کے درمیان ایک رابطہ ہے جسکے ذریعے ہم آسانی سے تیزاور بہتر انداز میں اپنے پیغام کو دوسروں تک منسلک کر سکتے ہیں۔ تقریباً پوری دنیا کے ٹی وی چینلز اور بہت بڑے تعلیمی ادارے ،مراکز  بنک ، صنعتیں اور لا تعدا د دیگر محکمے انٹر نیٹ کی دنیا ہیں۔ کو ئی بھی ذی شعور انسان انٹرنیٹ کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کر سکتا ہے۔ مگر بد قسمتی سے انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں کی اکثریت ایسی ہے جو اسکا بے جا استعمال کرتے ہیں۔

 جو مغربی تہذیب کی رنگینیوں میں گم ہو گئے ہیں۔ایسے نو جوان انٹر نیٹ کے حقیقی استعمال سے قطعی طور پر نا واقف ہیں۔ معلومات کے خزانوں کی بجائے گندگی کے ڈھیرپر وہ اپنا زیادہ تر وقت گزارتے ہیں معصوم اور سیدھے سادھے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔ انٹر نیٹ کے ذریعے کبھی لڑکی بن کر تو کبھی لڑکے بن کر لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ فیشن کے طور پر استعمال کرنا وقار کی علامت بن گیا ہے۔ حالیہ چند مہینوں سے بہت سی موبائل کمپنیوں نے موبائل پر انٹر نیٹ کی سہولت متعارف کروا دی ہے اور موبائل سیٹ پر انٹر نیٹ کے استعمال کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماسوائے چند محکموں اور شعبوں کے جہاں واقعی انٹرنیٹ نے زندگی آسان کر دی ہے۔باقی افراد یا تو اسے فیشن کے طور پر استعمال کر تے ہیں یا تفریح کے مقاصد کے لئے۔ 

حالیہ تحقیق کے مطابق انٹر نیٹ ایک نشہ کی شکل اختیا ر کر رہا ہے اور فیس بک اور یو ٹیوب جیسی ویب سائٹس پر لوگ گھنٹوں گزارتے ہیں جو ایک فضول سی سر گرمی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔انٹر نیٹ کا ایک اور بے جا استعمال گھنٹوں گھنٹوں چیٹنگ ہے جو بلا مقصد فضول اور بعض اوقات بیہودہ ہوتی ہے۔انٹر نیٹ کے دلداروں کو ان حقیقتوں سے کافی ٹھیس پہنچی ہو گی اور وہ اسے اکیسویں صدی کی حیرت انگیز ایجاد قرار دیتے ہیں۔

 انٹر نیٹ پر گفتگو اور راتوں کو جاگ جاگ کر انسانی شخصیت میں چڑچڑاپن پیدا ہو رہا ہے۔انٹرنیٹ کے بے جا استعمال کے تباہ کن اثرات کچھ اس طرح ہیں: 1۔ انٹر نیٹ کے بے جا استعمال سے امراضِ قلب میں اضافہ ہورہاہے۔ 2۔ اسکے زیادہ استعمال سے آنکھوں کی بینائی متاثر ہو رہی ہے۔ 3۔ انٹر نیٹ ہمیں اعلیٰ اخلاقی قدروں سے دور لے جا رہا ہے۔ 4۔ مغربی تہذیب کی مشرقی تہذیب میں سرایت بہت تیز ہو گئی ہے۔ 5۔ انٹر نیٹ کا زیادہ استعمال قوت حافظہ میں کمی کا باعث بن رہاہے۔ 6۔ قابل اعتراض اور فحش ویب سائٹس ہماری نوجوان نسل کو بے راہ روی کا شکار کررہی ہیں۔ 7۔ طلباء و طالبات تعلیم سے ہٹ کر انٹر ینٹ کے نشہ میں پڑ گئے ہیں۔ 8۔ انٹر نیٹ سے ذہنی الجھنوں میں قدرے اضافہ ہو اہے۔ 9۔ موبائل سیٹ پرا نٹر نیٹ کے استعما ل نے دوران سفر حادثات میں اضافہ کر دیا ہے۔ زیر بحث موضوع کی طوالت کو ان الفاظ کے ساتھ سمیٹتے ہیں کہ دنیا میں کوئی چیز اچھی یا بری نہیں ہوگی بلکہ اسکا استعمال اسے ایسا بنا دیتا ہے۔ 

میں قطعی طور پر انٹرنیٹ کا مخالف نہیں۔ اسے ضرور استعمال کیجیے مگر بڑی احتیاط کے ساتھ ہم اپنے اہم کاغذات اور دستاویزات کی نقول بذریعہ برقی ڈاک (ای میل) کر سکتے ہیں دنیا کی لائبریریوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں بذریعہ کمپیوٹر مختلف کورسز میں داخلہ لے سکتے ہیں مگر میر ی آپ سے التجاء اور عاجزانہ سی گزارش ہے کہ انٹر نیٹ کو اپنی زندگی میں حاوی نہ کیجیے اسے ایک ضرورت کے تحت یقیناًاستعمال کیجیے لیکن بے مقصد ، بے جا اور فضول استعمال سے اجتناب کیجیے۔ خدارا اپنی تہذیب کی دنیا میں لوٹ آئیں جہاں زندگی کا سکون اور راحت ہے کوئی ابتری یا انتشار نہیں۔انٹرنیٹ اور کیبل نیٹ ورک نے جہاں معلومات کی فراہمی کو آسان بنادیاہے وہاں لوگوں کو اپنا غلام بھی بنادیاہے اب بہت سے لوگوں کو انٹرنیٹ ، فوبیا ، ہوگیا ہے انٹر نیٹ کے بغیر ان لوگوں کیلئے زندگی بے کیف ہے۔وقت جیسی قیمتی نعمت کو محض ڈاؤن لوڈنگ اور اپ لوڈنگ کی نظر کیاجارہاہے۔

مشتاق احمد

ساڑھے چھ ہزار سکول اور میٹرو بس

World Day Against Child Labor observed in Pakistan

$
0
0
Pakistani boys sell fruits on a roadside in Peshawar, Pakistan, a day before World Day Against Child Labor. World Day Against Child Labor will be observed on 12 June across the world including Pakistan to raise awareness and contribute to ending child labor. The theme of this year's 'No to Child Labor, Yes to Quality Education'.

’پہلے حکومت نے قبول کیا اب نہیں کر رہی‘

$
0
0

’عید آ رہی ہے لیکن ہم ارکان نہیں جا سکتے، ہم اور کتنے دن اپنے وطن سے دور رہیں گے۔
ارکان آباد کراچی میں اپنے آباؤ اجداد کے دیس برما سے کئی سو کلو میٹر دور ایک روہنجیا نوجوان نے جب یہ سطور اپنی مادری زبان میں ترنم کے ساتھ گائیں تو کئی دیگر نوجوان اس کے گرد جمع ہوگئے۔

آزاد اور بے فکر ان روہنجیا نوجوانوں اور بچوں کو یہ اندازہ نہیں کہ ان کے بزرگ کن مشکلات کا سامنا کرتے اور چھپتے چھپاتے کراچی پہنچے۔
ایک بزرگ اظہر میاں اور ان کی بیوی اب چلنے پھرنے سے قاصر ہیں۔ سنہ 1990 میں وہ چار بچوں کے ہمراہ اپنے دیس کو خیرباد کہہ کر نکل پڑے تھے۔
اس دشوار گزار اور پیچیدہ سفر کے دوران ان کے بڑے بیٹے زاہد اللہ کی عمر 18 برس تھی جن کو یہ کٹھن سفر اب بھی یاد ہے۔

’ہماری زمینوں پر قبضہ ہوگیا جس کے بعد میرے والد چھپ کر بنگلہ دیش آگئے، جہاں سے کچھ پیسے دیکر ایجنٹ کی مدد سے بھارت پہنچے اور وہاں ایک سال رہے جس کے بعد پاکستان میں داخل ہوگئے۔‘اس دشوار گزار اور پچیدہ سفر کے دوران ان کے بڑے بیٹے زاہد اللہ کی عمر 18 برس تھی جن کو یہ کٹھن سفر اب بھی یاد ہے

زاہد کے مطابق اس دوران وہ بھوکے اور پیاسے بھی رہے کئی بار تو بھیک مانگنا پڑی۔
زاہد اللہ چمڑی کی فیکٹری میں ملازمت کرتے ہیں۔ ان کا 100 گز پر اپنا پکا مکان ہے جس میں وہ بیوی، دو بچوں اور چار بھائیوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
ارکان آباد اور برمی کالونی سمیت کئی علاقوں میں روہنجیا برادری مقامی آبادی کے ساتھ رہتی ہے، اس کے برعکس بنگلہ دیش اور ملائیشیا میں انھیں کیمپوں تک محدود رکھا گیا ہے۔

  روہنجیا کمیونٹی کا بذریعہ بھارت پاکستان آمد کا سلسلہ جاری رہا لیکن بنگلہ دیش میں سرحدی سختیوں نے اب یہ سفر ناممکن بنادیا۔

پاکستان سے روہنجیا بنگلادیش، تھائی لینڈ اور ملائیشیا میں اپنی برادری کی مدد کے لیے جاتے رہے ہیں۔ غیاث الدین کی پیدائش کراچی کی ہے لیکن وہ رضاکارانہ طور پر ملائیشیا میں بھی روہنجیا کمیونٹی کی نگرانی کرتے ہیں۔
غیاث الدین نے بتایا کہ’برما سے روہنجیا اپنی جان بچانے کے لیے کسی پڑوسی ملک جانا چاہتے ہیں۔ اب بنگلہ دیش نے سرحد پر فوج تعینات کر دی ہے، جس کی وجہ سے اب یہ کشیتوں میں سوار ہوکر تھائی لینڈ اور وہاں سے ملائیشیا جاتے ہیں۔ انسانی اسمگلر بھی بدھ مت ہیں اور وہ انھیں بیچ سمندر میں چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔

کبیر احمد روہنگایا سنہ 1972 میں پاکستان آئے اور سنہ 1973 میں ان کا شناختی کارڈ بھی بن گیا تھا۔ سبز پاسپورٹ پر وہ سعودی عرب گئے جہاں کچھ عرصہ ملازمت بھی کی لیکن اب انھیں شناختی کارڈ نہیں دیا جا رہا۔
’اب جو کمپیوٹرآئزڈ کارڈ آیا ہے وہ نہیں دے رہے، اس کے لیے رشوت مانگتے ہے میں پیسے کہاں سے دوں۔ پہلے تو حکومت نے ہمیں قبول کیا اب قبول نہیں کر رہے۔‘
روہنجیا کمیونٹی کے مذہب کی طرف غیر معمولی رجحان نے انھیں مذہبی تنظیموں کے قریب کر دیا ہے، ان تنظیموں کو وہ اپنا مددگار اور محافظ سمجھتے ہیں۔ ارکان آباد اور برمی کالونی کی دیواریں مذہبی اور شدت پسند تنظیموں کی چاکنگ سے بھری ہیں جبکہ سکول کے بجائے مدارس کی بڑی تعداد بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ 

ان کی برادری کا ہر بالغ فرد محنت مزدوری سے جڑا ہے، اس میں صنفی تفریق نہیں۔ پھر چاہے گھر میں قالین سازی ہو، ٹیکسٹائل صنعت میں ملازمت ، ماہی گیری یا اپنا چھوٹا موٹا کاروبار ہر کوئی اپنی قابلیت کے مطابق وابستہ تھا۔
روہنجیا برادری کے رہنما نور حسن ارکان کا کہنا ہے کہ ’وہ برما میں اپنے رشتے داروں کی حسب توفیق مدد کرتے ہیں۔ زکوٰۃ ، فطرانہ اور قربانی کی کھالوں کے جو پیسے جمع ہوتے ہیں وہ برما کے مستحقین میں تقسیم کیے جاتے ہیں اور یہ بینک کے ذریعے ممکن نہیں۔ اس لیے ہنڈی اور حوالہ کا غیر قانونی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔

کراچی میں غیر قانونی تارکین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ رجسٹریشن کے ادارے نادرا کا کہنا ہے کہ روہنجیا مسلمانوں کی تعداد چار اور پانچ لاکھ کے درمیان ہے جبکہ روہنجیا کمیونٹی کا خیال ہے کہ یہ تعداد تین لاکھ کے قریب ہو سکتی ہے۔

افغان پناہ گزینوں کی طرح اب روہنجیا بھی پاکستان کو اپنا گھر سمجھتے ہیں اور یہاں سے جانے کے لیے تیار نہیں۔

بشکریہ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live