Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

مفتی ہوں کوئی دہشت گرد تو نہیں

$
0
0

بھارتی ریاست گجرات کے اکشردھام مندر پر ہونے والے شدت پسند حملے کے الزام میں 11 سال تک جیل کی سزا کاٹنے کے بعد مفتی عبدالقیوم کو گذشتہ سال بری کردیا گیا۔
سپریم کورٹ نے انھیں بے قصور قرار دیتے ہوئے باعزت بری کیا۔

مفتی عبدالقیوم بتاتے ہیں کہ ان 11 سالوں میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان کی اہلیہ نے خودکشی کی کوشش کی تھی۔
گذشتہ دنوں دہلی میں مفتی قيوم کی کتاب ’11 سال سلاخوں کے پیچھے‘ کی تقریبِ رونمائی ہوئی اور اس موقعے پر بی بی سی کے اقبال احمد نے مفتی قيوم سے بات کی۔

مفتی عبدالقیوم نے کہا: ’اگر میری اس کتاب کے بعد کوئی ایک آدمی بھی ظلم کا شکار ہونے سے بچ جائے تو میں سمجھوں گا کہ مجھے سب کچھ مل گیا۔
’مجھے اللہ پر ہمیشہ ہی یقین اور ایمان رہا۔ سپریم کورٹ پر بھی مجھے اعتماد تھا۔ اس لیے میں نے پہلے سے ہی کئی چیزیں نوٹ کرکے رکھی تھیں۔

انھوں کہا کہ انھیں کئی بار ایسا بھی محسوس ہوا کہ انھیں مار دیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ایک بار انھیں ’انکاؤنٹر‘ کے لیے بھی لے جایا گیا تھا۔
انھوں نے اپنے مقدمے کے بارے میں کہا: ’استغاثہ کے پاس اقتدار ہے طاقت ہے لیکن ان کا سارا کیس الجھا ہوا ہے۔۔۔ انھوں نے بار بار لکھا ہے۔۔۔اس کے کچھ دنوں بعد۔۔۔اس کے کچھ دنوں بعد۔۔۔کہیں کسی تاریخ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لیکن میں نے ساری باتیں تاریخ کے ساتھ لکھی ہیں۔

میں نے ساری چیزیں تاریخوں کے حساب سے ذہن نشین رکھیں کہ اگر رہا‏ئی ملی تو میں حقیقت حال لکھوں گا اور اس تحریر کے پس پشت میرا ایک ہی مقصد تھا کہ آئندہ کسی کے ساتھ ایسا ظلم یا ناانصافی نہ ہو۔

پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ اپنے تجربے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا میرے ساتھ جانوروں سا سلوک کیا گیا اور ذہنی ٹارچر کیا گیا۔ میری بیوی نے خودکشی کی کوشش کی، میرے ذہن میں بھی کئی بار خودکشی کا خیال آيا۔

ناانصافی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’سوراشٹر کا ایک غریب ہندو قیدی تھا، جسے ساڑھے چھ سو گرام اناج چوری کرنے کے جرم میں 10 سال کی سزا دی گئی تھی اور اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سے انصاف کا مطالبہ کرے اور بری ہو جائے۔
ان کے مطابق گجرات میں ایک قبائلی کو صرف 50 روپے کی لوٹ کے لیے 38 سال تک جیل میں رہنا پڑا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ناانصافیوں کا شکار صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی ہیں۔
میرے معاملے میں تو سپریم کورٹ نے داخلہ سکریٹری اور حکومت کو پھٹکار بھی لگائی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ قیامت تک ایک مثال رہے گی۔
انھوں نے کہا: ’ہم نے پہلے بھی کوئی غلط کام نہیں کیا تھا، ہم تو گودھرا کانڈ کے بعد اجڑے ہوئے مسلمانوں کی امداد اور انھیں سہارا دینے کے لیے کام کر رہے تھے۔

اس دوران بھی ہم نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور آگے بھی نہیں کریں گے۔ ہم مفتی ہیں کوئی دہشت گرد تو نہیں۔ ہم قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے حق کی لڑائی لڑیں گے۔

بشکریہ بی بی سی اردو


غار حرا پر ایک شام

$
0
0


میں پہلی بار 1988ء میں جبل نور اور غار حرا پر گیا ۔27سال بعد گزشتہ ہفتے جب دوبارہ گیا تو راستے کی صورتحال بہت مختلف تھی۔ 1988ء میں جبل نور کے آغاز سے غار حرا تک پہاڑ پر چڑھنے کیلئے نہ تو کوئی باقاعدہ راستہ اور نہ ہی کوئی پگڈنڈی، زیگ زیگ طریقہ سے با ہمت افراد ہی سنگریزوں اورچٹانی پتھروں پر قدم رکھ کر یہ مسافت طے کرسکتے تھے۔ راہنمائی کیلئے چٹانوں پر تیر کے نشان پینٹ کئے ہوئے تھے۔ اب صورتحال مختلف ہے زائرین کی آسانی کیلئے تقریباً 1300 سیڑھیاں بنائی گئی ہیں۔راستے میںنصف درجن مقامات پر سستانے کیلئے چھتریاں اور بینچ رکھے ہوئے ہیں۔دو جگہوں پر بقالوں (ٹک شاپس) سے مشروبات ،چائے بسکٹ اور پھل خریدے جا سکتے ہیں۔

جبل نور کے راستے میں بلیاں، بندر اور درجنوں فقیر زائرین کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ فقیروں میں اکثریت پاکستانیوں کی ہے۔ جن کا زیادہ تر تعلق صوبہ سندھ جنوبی پنجاب اور آزاد کشمیر سے ہے ۔ ان میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو یہاں کا اقامہ رکھتا ہو، ان فقیروں کا کہنا ہے کہ جب کبھی شرطے (سعودی پولیس)پکڑنے آتے ہیں تو ہم جبل حرا کی دوسری جانب بھاگ جاتے ہیں۔ غیر قانونی طور پر مقیم یہ لوگ دن رات جبل حرا پر ہی رہتے ہیں۔

یہی لوگ راستے کی مرمت اور صفائی کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ جبل نوربیت اللہ سے تین کلو میٹر شمال مشرق کی جانب ہے۔جبل نوربظاہر یہ ایک عام سا پہاڑ ہے لیکن اس پہاڑ کو وہ تقدس ملا کہ کوئی ثانی نہیں۔یہ سارا پہاڑ چٹیل ہے ۔ پتھر ہی پتھر ہیں۔نہ کوئی بوٹا نہ آبادی۔جبل نورپر چڑھنے کا راستہ صرف مشرقی سمت ہے باقی تمام اطراف سے یہ پہاڑ عمودی شکل کا ہے۔ ایک دشوار گزار اور کٹھن کوہ پیمائی کے بعدہی زائر غار حرا پر پہنچتا ہے۔ ایک نوجوان یہ مسافت تقریباً پون گھنٹے میں اور عمر رسیدہ افراد یہ مسافت سوا گھنٹے میں طے کرلیتے ہیں۔

زائرین کی سہولت کیلئے اب غار حرا کے راستے میں تقریباً تیر سو سیڑھیاں بنا دی گئی ہیں۔ زائرین غار حرا کو اس بات کا علم ہونا چاہئیے کہ جبل حرا کے کچھ حصے میں بندروں کی بڑی تعداد ہے۔زائرین انہیں پانی اور خوراک ڈالتے رہے ہیں اس وجہ سے وہ ہر زائر سے یہ توقع کرتے ہیں کہ انہیں کچھ کھانے کو ملے بعض اوقات یہ بندر زائرین پر حملہ کر کے انکے ہاتھوں سے موبائل فونز ، پرس وغیرہ چھین لیتے ہیں اس لیے ہاتھوں میں چھڑی ہو تو آپ اپنی حفاظت بہتر طور پر سکتے ہیں۔ سطح سمندر سے دو ہزار فٹ بلند جبل نور کے دامن میں پہلے آبادی نہ تھی۔ اب یہاں بستی بس چکی ہے۔ ماضی کا منظر اب تصوراتی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اس کا دامن پھیلا ہوا ہے لیکن اٹھان اونچائی کی طرف ہے۔
اس پہاڑ پر ایک تفکر کا سماں چھایا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ 

پیغمبران کرام کی زندگی میں پہاڑوں کی اہمیت بڑی نمایاں رہی ہے۔موسیٰ علیہ السلام کوہ طورپر اللہ تعالی سے ہمکلام ہوئے۔عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں کوہ زیتون اہم ہے۔ نوح علیہ السلام کا سفینہ کوہ جودی پر ٹھہرا۔ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام کی ملاقا ت میدان عرفات کے پہاڑ جبل رحمت پر ہوئی۔کوہ صفا اور مروا حضرت ابراہیم حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ سے نسبت رکھتے ہیں۔ قرآن پاک نے ان پہاڑوں کو شعائر اللہ کے خطاب سے نوازہ ہے۔ 

جبل نورکی غار حرا میں محمدرسول اللہؐ کو نبوت عطا ہوئی ، جبل ثورنے رسول پاکؐ کو پناہ دی اور جبل احد سے حضورؐ کو خصوصی لگائو تھا۔ دنیا کے پہاڑوں میں اللہ کے نور کی تجلیوں کے دو ہی مقام ہیں۔ ایک جگہ پر اللہ کے نور کی تجلی لحظہ بھر کیلئے ہوئی حضرت موسیٰ بے ہوش ہو گئے اور پہاڑ سرمہ بن گیا۔ دوسری جگہ جبل نور کی غار حرا ہے جو اللہ کی تجلی سے سرمہ ہونے کی بجائے کندن بن گئی۔ توریت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ سینا سے آیا۔ساعیر سے چمکا اور فاران سے سر بلند ہوا۔ سینا سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت ہے، ساعیر سے مراد دعوت عیسیٰ علیہ السلام ہے اور فاران سے مراد حضورؐ کی دعوت حق ہے۔

غار حراجبل نور کی چوٹی پر نہیں بلکہ جبل نور کی چوٹی پر پہنچنے کے بعد مغرب کی جانب نیچے کی طرف ڈیڑھ سو قدم نیچے کی طرف سفر کرنا پڑتا ہے۔ غار حرا کے قریب راستے کو چٹانی تختوں نے قریباً بند کر رکھا ہے۔ یہاں پہاڑ 85 درجے کا زاویہ بناتا ہوا دیوار کی طرح عمودی بن جاتا ہے۔ غار حرا تک پہنچنے کیلئے اس تنگ راستے سے گزرنا لازم ہے۔ کوئی بھی شخص جسم کو سمیٹے اور سکیڑے اور گھسیٹے بغیر اندر نہیں جا سکتا۔ غار پہاڑ کی اندر نہیں بلکہ اسکے پہلو میں قریباً خیمے کی شکل میں ذرا باہر کو ہٹ کر ہے۔ غار کی لمبائی دو سوا دو میٹر ہے اور اونچائی آگے کو بتدریج کم ہوتی گئی ہے۔ پچھلے حصے کی طرح سامنے کا حصہ بھی کھلا ہے ۔ غار کا رخ ایسا ہے کہ تمام دن میں سورج کی دھوپ اندر نہیں آ سکتی۔غار حرا ایک عام غار کی مانند مکمل طور پر بند اور ہوا کے عاری مقام نہیں ہے بلکہ یہ غار کئی پتھروں کے باہم جڑنے سے بنی ہے۔ ان پتھروں کے درمیان میں کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے شگاف ہیں جن سے غار میں ہواآتی رہتی ہے۔غار کے اندر ذرہ سا جھک کر اپنے سر کو چٹان سے بچاتے ہوئے داخل ہونا پڑتا ہے

غار کے داخلے پر اب دو مصلٰوں کے بچھانے کی گنجائش ہے …البتہ دائیں ہاتھ پر فرش سے آٹھ انچ بلند تھوڑی سے ہموار جگہ ہے جس پر سنگ مرمر کی چند سلیں جڑی ہیں اور جب بہت زیادہ ہجوم ہو جاتا ہے توایک ہلکے جسم کا آدمی بیٹھ کر بمشکل نفل پڑھ سکتا ہے ورنہ گنجائش نہیں ہے۔ 

سرور منیر راؤ
"بہ شکریہ روزنامہ ’’نوائے وقت

کیا ہے تو نے متاعِ غرور کا سودا

$
0
0


کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ ہم جسے حقائق کی دنیا کہتے ہیں اور جس میں کامیابی و ناکامی پر قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں رقم کرتے ہیں میرا اللہ اسے ’’متاعِ غرور‘‘ یعنی دھوکے کا سامان کہتا ہے۔ یہ دنیا اگر کسی سیاستدان، بادشاہ، سائنسدان، دانشور یا کالم نگار نے تخلیق کی ہوتی تو میں یقیناً اسے حقائق کی دنیا تسلیم کر لیتا اور اپنا تمام ماتم دنیا میں کامیابی اور ناکامی سے منسلک کر دیتا۔ لیکن میں کیا کروں، میرا کامل ایمان ہے کہ یہ دنیا اللہ تبارک و تعالیٰ نے تخلیق کی ہے اور وہ اس دنیا کی اس سے زیادہ تعریف نہیں فرماتا کہ یہ دھوکے کا سامان ہے۔ سید الانبیاء ﷺ نے اس دنیا میں رہنے، زندگی بسر کرنے یا ایک معلوم وقت گزارنے کے لیے اس دنیا کی جو تعریف کی ہے اور جس طرح اس کی بے وقعتی کی طرف اشارہ کیا ہے اس سے خوبصورت اس دنیا کو بیان ہی نہیں کیا جا سکتا۔

 اس دنیا سے جانے کے بعد بھی ایک لامتناہی زندگی ہمارا مقدر ہے اور ہم ایک تھوڑے سے وقفے کے لیے اس عارضی پڑاؤ یا ٹرانزٹ لاؤنج میں آئے ہیں۔ اللہ نے ہمارا یہ سفر اور یہ عارضی پڑاؤ ایک خاص مقصد کے لیے تخلیق کیا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ ’’ہم نے موت اور حیات کو تخلیق کیا ہے تا کہ دیکھیں کہ تم میں سے اچھے اعمال کون کرتا ہے‘‘ (الملک)۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اچھے اعمال کی تعریف میں نہ عبادات آتی ہیں اور نہ ہی دنیا کی مادی کامیابی۔ عبادات تو ایک فرض ہے کہ جسے آپ نے اللہ کے حکم کے مطابق ادا کرنا ہے جب کہ ’’اچھے اعمال‘‘ تو آپ کا وہ تمام طرز عمل ہے جو آپ اس ’’عارضی پڑاؤ‘‘ میں اختیار کرتے ہیں۔

آپ جھوٹ نہیں بولتے، دھوکا نہیں دیتے، وعدہ خلافی نہیں کرتے، غیبت نہیں کرتے، قتل نہیں کرتے، ملاوٹ نہیں کرتے، لوگوں کا مال ہڑپ نہیں کرتے، اپنے کمائے ہوئے مال سے قرابت داروں، یتیموں، بیواؤں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں، آپ والدین کی خدمت کرتے ہیں اور ان کے سامنے اف تک نہیں کرتے، آپ اولاد کی نیک اور صالح اصولوں پر پرورش کرتے ہیں، آپ زنا نہیں کرتے، آپ غیر فطری فعل سے نفرت کرتے ہیں، غرض اعمال صالح کی ایک طویل فہرست ہے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے بتائی ہے اور اسے ہی دنیا میں کامیابی اور ناکامی کا معیار بتایا ہے۔ آج اس ہنستی بستی دنیا کے ہر معاشرے میں انھی اچھے اعمال کو ہی معاشرے کی کامیابی کا معیار سمجھا جاتا ہے۔

دنیا کا کوئی صاحب عقل شخص کسی معاشرے یا سوسائٹی کی خوبصورتی کی تعریف کرتا ہے تو وہ کبھی یہ نہیں کہتا کہ وہاں بلب کتنے بنتے تھے، کاریں کتنی تھیں، پل کس قدر تھے، بلند و بالا عمارتیں کتنی تھیں، بلکہ وہ معاشرے کی خوبصورتی کا معیار اس ماحول کی انسانی اقدار سے لیتا ہے۔ وہاں چوری، ڈاکہ، زنا بالجبر، دھوکا، فریب، جھوٹ، قتل، اغوا اور دیگر جرائم کسقدر کم ہیں، وہاں انسان نے انسانوں کی فلاح کے ادارے کس قدر قائم کر رکھے ہیں۔ وہ اپنے بوڑھوں، معذوروں، یتیموں اور بیواؤں کا کس طرح خیال رکھتے ہیں۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انسان آج کے اس ترقی یافتہ دور سے کہیں زیادہ بہتر طریقے سے یہ اچھے اعمال ان معاشروں میں کرتا تھا جنہوں نے موجودہ شہری زندگی یعنی ’’اربن لائف‘‘ کی شکل تک نہیں دیکھی تھی اور آج بھی دنیا بھر کے دیہی معاشرے انسانی ہمدردی اور اچھے اعمال میں ترقی یافتہ دنیا سے کہیں آگے ہیں۔

دنیا کی کسی سائنسی اور مادی ترقی کا کوئی تعلق انسان کی اخلاقی اور معاشرتی ترقی سے نہیں ہے بلکہ دنیا میں کارپوریٹ کلچر نے بدترین اخلاقیات کی بنیاد رکھی ہے۔ اپنی کاروباری سلطنت کی وسعت کے لیے انھوں نے جنگیں کیں، ملکوں پر قبضے کیے، دھوکے اور فراڈ سے مال بیچ کر کمپنیوں کے سرمائے میں اضافہ کیا، اسی زمین پر کروڑوں لوگوں کا خون بہایا اور آج بھی بہایا جا رہا ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں اس قدر انسان قتل نہیں ہوئے جتنے موجودہ مادی ترقی کی دوڑ میں ہوئے۔ جنگ عظیم اول سے لے کر عراق کی جنگ تک کیا ٹیکنالوجی انسانوں کی فلاح، امن اور سکون کے لیے استعمال ہوئی۔ ہر گز نہیں۔ بلکہ یہ صرف اور صرف انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے استعمال ہوئی۔

کیا ہم کسی عارضی پڑاؤ یا ٹرانزٹ لاؤنج میں مستقل پڑاؤ کا رویہ رکھتے ہیں۔ کیا ہم کسی ایئر پورٹ، ریلوے اسٹیشن، یا بس اڈے پر کچھ دیر کے لیے رکیں اور ہم سب کو علم ہو کہ ہماری بس، ٹرین یا جہاز نے کسی بھی وقت آ جانا ہے اور ہم نے چند لمحے اس ٹرانزٹ لاؤنج میں گزارنے ہیں تو ہمارا رویہ کیا ہو گا۔ ہم زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کو آرام پہنچانے کی کوشش کریں گے، کسی چیز کو اپنی مستقل ملکیت تصور نہیں کریں گے، ہم بس، ٹرین یا جہاز پر سوار ہوتے ہوئے پریشان نہیں ہوں گے، اس لیے کہ ہمیں یقین ہو گا کہ اگلی سواری پر میرے باپ بھائی، بیوی بچوں اور دوستوں نے بھی میرے ساتھ آ کر مل جانا ہے اور جو پہلے چلے گئے ہیں، میں ان سے جا کر ابھی ملاقات کر لوں گا۔

ہمیں ٹرانزٹ لاؤنج میں کونسے لوگ زیادہ اچھے لگتے ہیں، وہی جو ہم پر سب سے زیادہ مہربان ہوں، جو اپنی جگہ ہمارے لیے چھوڑ دیں، اپنا آرام ہمارے لیے قربان کر دیں۔ دنیا میں بڑے سے بڑے مادہ پرست کو بھی جب اور جہاں اس بات کا یقین ہو جائے کہ وہ یہاں صرف چند لمحوں کے لیے آیا ہے اور پہلی فلائٹ پر چلا جائے گا تو اس کا رویہ بدل جاتا ہے۔ وہ مستقل رہائش کے بندوبست اور سامان نہیں کرتا۔ ’’متاع غرور‘‘ اور عابر السبیل‘‘ یہ دو تصورات ہیں جو انسانی دنیا کو خوبصورت بناتے اور انسانی کامیابی کے اصول متعین کرتے ہیں۔ دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت کما کر اپنی معاشی سلطنت بڑھانے والا محترم نہیں گردانا گیا بلکہ اپنی معاشی سلطنت مستحق افراد میں بانٹنے کے بعد اس عارضی پڑاؤ سے چلے جانے والا قابل احترام تصور ہوا ہے۔

دنیا کی اس حیثیت کو اگر ہم سمجھ لیں تو پھر ہمارے لیے اللہ کی ذات کا تصور اور کامیابی کا معیار سمجھنا آسان ہو جائے گا۔ اللہ انسانوں کو اپنی ہر نعمت ایک امتحان کے طور پر عطا کرتا ہے۔ امتحان یہ کہ وہ اس نعمت پر اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اس سے کس طرح خلق خدا کی خدمت کرتے ہیں اور پھر ایسا کرنے پر اس کا وعدہ ہے کہ وہ نعمتوں میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ مسلمانوں معاشروں اور حکومتوں میں جب یہ چلن عام رہا ان پر نعمتوں کی بارش ہوتی رہی۔ لیکن یہی چلن جب دوسروں نے اختیار کر لیا تو نعمتوں کا رخ ان کی جانب موڑ دیا گیا۔ اللہ کے ہاں کسی بھی معاشرے پر رحمتوں کی بارش ان کی ٹیکنالوجی میں ترقی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اچھے اعمال کی صورت میں ہوتی ہے جو اس دنیا میں انسان کو بھیجنے کا مقصد ہیں۔ خالصتاً مادہ پرستی کی کوکھ سے ظلم، زیادتی، ناانصافی اور جبر برآمد ہوتا ہے جس کا تجربہ آج پوری دنیا کو ہے۔

انسان کی ساری ترقی کا صرف اور صرف ایک ہی اعلیٰ اور ارفع مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے پرسکون زندگی۔ اگر وہی حاصل نہ ہو سکے تو ساری جدوجہد ناکام۔ کیا پوری انسانیت کی جدوجہد ناکام نہیں۔ کیا پوری انسانیت بے چینی، بے اطمینانی، خوف، غربت، افلاس، جنگ، جہالت، ظلم اور قتل و غارت سے عبارت نہیں۔ ہر معاشرے کی اپنی بے چینی اور اضطراب ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کا اپنا اور ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کا اپنا۔ اس لیے کہ موجودہ دنیا کے ہر تجزیہ نگار، معیشت دان، سیاسی ماہر نے ترقی کا ایک ہی پیمانہ بنا رکھا ہے۔ یعنی مادی ترقی، معیشت، ٹیکنالوجی اور مادی سہولیات میں ترقی۔ یہ ہے متاع غرور کا سودا۔
دھوکے کے سامان سے محبت، دھوکے کے سامان کو ترقی کی معراج سمجھنا۔ یہ دھوکے کا سامان ہر کسی کو اس کے مزاج، حیثیت اور مقام کے مطابق دھوکا دیتا ہے۔ ٹرانزنٹ لاؤنج میں بیٹھے لوگ اپنی فلائٹ کے لیے زیادہ بے چین ہوتے ہیں، انھیں جلد اپنی منزل پر پہنچنے کی دھن مضطرب کر رہی ہوتی ہے۔ ہمیں یقین ہی نہیں کہ ہماری کوئی منزل ہے، ہم تصور کیے بیٹھے ہیں کہ ہماری فلائٹ کینسل ہو چکی ہے۔ ہم ٹرانزٹ لاؤنج سے اسقدر محبت کرتے ہیں کہ ہمیں اسی کے اجڑنے پر اپنی زندگی اجڑنے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ اس سے زیادہ دھوکے کا سامان اور کیا ہو سکتا ہے۔ اقبال نے اس قرانی اصلاح کا کیا خوب شعری اظہار کیا ہے؎

کیا ہے تونے متاعِ غرور کا سودا
فریب سود و زیاں لا الہ الا اللہ

اوریا مقبول جان
"بشکریہ روزنامہ ’’ایکسپریس

Truck art in Pakistan

$
0
0
Truck painting is a popular form of indigenous art in Pakistan and featuring floral patterns and poetic calligraphy. Truck painting is also practiced in other South Asian countries.

General practice of truck decor

Many trucks and buses in Pakistan are highly customized and decorated by their owners and are commonly known as jingle trucks. External truck decoration can cost from $3,000 to $5,000. Decoration may include structural changes, paintings, calligraphy, and ornamental decor like mirror work on the front and back of vehicles and wooden carvings on the truck doors. Depictions of various historical scenes and poetic verses is also common. Outfitting is often completed at a coach workshop. 
 
Decor style of major regions
 
Karachi is a major city center for truck art, though there are other hubs in Rawalpindi, Swat, Peshawar, Quetta and Lahore. Trucks from Balochistan and Peshawar are often heavily trimmed with wood, while trucks from Rawalpindi and Islamabad often feature plastic work. Camel bone ornamentation is commonly seen in trucks decorated by artists from Sindh.



ماں کی مامتا

قائم علی شاہ کا استعفیٰ ؟

سب پر شبہ کرنا پڑے گا....وسعت اللہ خان

$
0
0

یہ تو بہت اچھا ہوگیا کہ اصل مجرم کی تشخیص ہوگئی اور فوجی قیادت، کلیدی انٹیلی جنس ایجنسیاں، شریف حکومت اور پاکستانی دفترِ خارجہ کم ازکم اس پر باہم متفق ہو گئے کہ کراچی اور بلوچستان سمیت ملک میں دہشت گردی کی تازہ شدت کی ذمہ دار بھارتی انٹیلی جینس ایجنسی ’را‘ ہے۔

فوری سبب پاکستان چائنا اکنامک کوریڈور ہے جس سے بہت سوں کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہیں، لہٰذا اب بیرونی ریشہ دوانیوں اور امن و امان کے مسئلے سے ترجیحاً نمٹا جائے گا اور اس معاملے کو بین الاقوامی سطح پر بھی اٹھایا جائے گا۔

ظاہر ہے را ہو یا کوئی اور ایسا ہی ادارہ، اسے تخریبی کارروائیاں منظم کرنے کے لیے ایک مقامی نیٹ ورک کی ضرورت پڑتی ہے تبھی تو اسے ’خفیہ ہاتھ‘ کہتے ہیں۔ لہٰذا وہ کون سے مقامی افراد اور گروہ ہیں کہ جن پہ شبہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں اگر واقعی امن و امان بہتر کرنا ہے تو پھر کچھ کو نہیں سب کو شبے کی سکریننگ سے گزرنا ہوگا۔ پھر ایسے فقرے کام نہیں آئیں گے کہ ’نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا، سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ فلانہ ایسی حرکت کرے۔‘ ’میں قسم کھا سکتا ہوں کہ اس کا یا اس کی تنظیم کا دور دور تک اس معاملے سے کوئی واسطہ نہیں۔‘ ’ارے پاگل ہوگئے ہو کیا؟ اس سے بڑھ کے تو کوئی محبِ وطن ہو ہی نہیں سکتا۔‘

میر جعفر کوئی بنگالی مچھیرا نہیں تھا نواب سراج الدولہ کا بازو تھا۔ میر صادق کوئی معمولی سپاہی نہیں فتح علی اور ٹیپو کا کمان دار تھا اور پورنیا کوئی معمولی پٹواری نہیں ٹیپو کا وزیرِ مال تھا۔ حکیم احسن اللہ خان کوئی جزوقتی دربان نہیں بہادر شاہ ظفر کا معالجِ خصوصی اور وزیرِ اعظم تھا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ مچھلی دم سے نہیں سر سے سڑنی شروع ہوتی ہے۔

یہ غیر معمولی لڑائی عوام کو اندھیرے میں رکھ کے نہیں لڑی جا سکتی ۔انھیں ثبوتوں کے ساتھ بتانا ہو گا کہ کون کون مقامی ہے جو غیرملکی کٹھ پتلی ہے۔ کن کن گروہوں کی پشت پناہ را ہے۔ کون سے افراد ’موساد‘ کے پے رول پر ہیں؟ کسے کسے ایرانی و سعودی و اماراتی نجی و سرکاری، خفیہ و اعلانیہ حمایت اور شہ حاصل ہے اور کون سی تنظیموں پر ’سی آئی اے‘ اور دیگر مغربی ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔

یا کم ازکم ان افراد اور تنظیموں کی فہرست عام کرنی ہوگی جو دہشت گرد یا ان کے حمایتی تو ہیں مگر ان کا جزوقتی یا کل وقتی کنکشن کسی اندرونی و بیرونی ایجنسی سے نہیں۔

یہ کہنے سے کام نہیں چلے گا کہ ایسے معاملات سڑک پر نہیں لائے جا سکتے کیونکہ نازک سفارتی مصلحتیں حائل ہیں۔ یا تو اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ لیں یا پھر سفارتی مصلحتیں نبھاتے پھریں۔

مگر ایسے معاملات میں وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان خاصے باخبر اور دوٹوک ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ تحریکِ طالبان ناراض اور بگڑے ہوئے بھائیوں کا بدظن گروہ ہے۔ اگر صفورہ گوٹھ میں بس کے اندر قتلِ عام کے بعد کوئی پمفلٹ برآمد ہو تو ضروری نہیں کہ اصلی ہی ہو ۔ویسے بھی پاکستان میں داعش کا اب تک کوئی وجود نہیں۔

جب تک اس ملک کی حقیقی مالک عسکری و سیاسی اشرافیہ پوری تصویر اس ملک کے علامتی مالکوں (عوام) کے سامنے نہیں رکھے گی تب تک کیسے پتہ چلے کہ عام و خاص آدمی کے بھیس میں کون کون ہے اور کیوں ہے؟ یہ تاثر کون زائل کرے گا کہ جو اینٹی سٹیٹس کو ہیں وہ غیرملکی ایجنٹ ہیں اور جو پروسٹیٹس کو ہیں وہ غیر ملکی ایجنٹ نہیں۔

یہ بھی خوب ہے کہ بقول ڈی ایس پی راؤ انوار ایم کیو ایم را کی ایجنٹ ہے اور اسی ایم کیو ایم کا نمائندہ وزیرِ اعظم کی زیرِصدارت سکیورٹی معاملات کے اجلاس میں بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیمیں غیر ملکی ایجنسیوں کی فرنٹ کمپنیاں بھی ہیں اور وزیرِ اعلیٰ عبدالمالک کو یہ فریضہ بھی سونپا گیا ہے کہ وہ ان فرنٹ کمپنیوں سے رابطہ کریں۔

یہی تو وہ انٹیلی جینس، معاف کیجیے گا انٹیلی جینٹ ادائیں ہیں جن پر ایک دنیا مر مٹی ہے۔

(ایک موقر پاکستانی تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز اسلام آباد کے تجزیہ کار کے مطابق پچھلے دس ماہ میں سکیورٹی ایجنسیوں نے قابلِ اعتماد معلومات کی بنیاد پر ملک بھر میں دس ہزار آپریشن کیے۔

مارچ سنہ 2015 میں پاکستان میں 60 دہشت گرد کارروائیاں ہوئیں مگر اپریل میں 50 ہوئیں جبکہ بلوچستان میں فروری میں 37، مارچ میں 24 اور اپریل میں 14 دہشت گرد حملے ہوئے۔

گویا مجموعی صورتِ حال قدرے بہتری کی جانب ہے اور اکنامک کوریڈور منصوبے کو ممکنہ خطرہ موومنٹ آف اسلامک ازبکستان، ترکمانستان اسلامک پارٹی، ٹی ٹی پی، دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ سے ہے جبکہ سرکاری بیانیہ یہ ہے کہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور کے سمجھوتے پر باضابطہ دستخطوں کے بعد پاکستان میں غیر ملکی مدد سے دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔ کسے مانوں کسے نہ مانوں)۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام 

بے قصوروں کو پھنسا کر دہشت گردی ختم ہوسکتی ہے؟


معیشت کا استحکام کیسے؟

نوجوانوں سے وابستہ امیدیں

معاشی ترقی یا استحکام - ڈاکٹر شاھد حسن

The meadows of Kashmir

$
0
0
Kashmiri Bakarwals bring down goats and lambs from a vehicle after crossing a stretch of bad road as they are too young to travel long distances on foot, near Dubgan, 70 kilometers (43 miles) south of Srinagar. Bakarwals are nomadic herders of India's Jammu-Kashmir state who wander in search of good pastures for their cattle. Every year in April-May more than one hundred thousand people from the nomadic Bakarwal tribes arrive in the meadows of Kashmir and parts of Ladakh from areas of the Jammu region with their flocks of cattle and sheep. After crossing snowy mountains with their cattle and belongings, Kashmir valley's lush green meadows become their home from April to September, after which they begin their return journey. This seasonal shifting of âhomesâ ensures a regular flow of income for the families.

پاکستانی معاشرے کا ایک روشن پہلو

ایگزیکٹ سکینڈل، ریاستی ادارے اور حکمران

$
0
0

سپر پاور امریکہ کے نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور وال سٹریٹ جنرل عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنیوالے جریدے ہیں۔ ہتک عزت کے سلسلے میں امریکی قوانین بڑے سخت ہیں لہذا ان اخبارات میں رپورٹیں عمومی طور پر سنجیدہ تحقیق اور شواہد کے بعد ہی شائع کی جاتی ہیںالبتہ امریکی اخبارات کا پاکستان کے خلاف تعصب بھی ایک حقیقت ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے پاکستان کے سب سے بڑے سافٹ وئیر ادارے ایگزیکٹ کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ میں الزام لگایا کہ یہ ادارہ جعلی ڈگریوں کا کاروبار کرتا ہے۔

 اس رپورٹ نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں تہلکہ مچادیا۔ بلاشک نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ سے پاکستان کا وقا مجروح ہوا۔ ایگزیکٹ کی انتظامیہ نے نیو یارک ٹائمز کو ہتک عزت اور شہرت کا لیگل نوٹس جاری کیا اور اپنے خلاف تمام الزامات کی تردید کی۔ نیو یارک ٹائمز اپنے مؤقف پر قائم رہا اور اس کی انتظامیہ نے ایگزیکٹ سکینڈل کے بارے میں اداریہ لکھ کر کانگرس سے مطالبہ کیا کہ جعلی ڈگریوں کا عالمی نیٹ ورک چلانے والے ادارے ایگزیکٹ کے خلاف کاروائی کی جائے۔ ذرائع کیمطابق ایگزیکٹ کے سابق ملازم یاسر جمشید نے گھر کے بھیدی کے طور پر لنکا ڈھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان میں اراکین پارلیمنٹ جعلی ڈگریاں لے کر مراعات حاصل کرتے رہے۔

 بدقسمتی سے جس ملک میں جعلی دوائیاں بکتی ہوں۔ کتے اور گدھے کا گوشت فروخت ہوتا ہو وہاں پر جعلی ڈگریوں کا کاروبار کیوں نہیں چلایا جاسکتا۔ اس معاملے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ریاست کے ادارے مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے یا طاقتور افراد ایگزیکٹ سے حصہ پتی وصول کرتے رہے اور وہ پاکستان کے سب سے بڑے ادارے ایگزیکٹ کے فراڈ کو بے نقاب نہ کرسکے یا انہوں نے آنکھیں بند رکھیں اور جب نیویارک ٹائمز میں سٹوری شائع ہوئی تو پاکستان کے سارے ادارے ’’سونے کی اس کان‘‘ پرچڑھ دوڑے۔ حکمرانوں نے ابھی تک کسی ادارے کی جواب طلبی نہیں کی کہ اس نے اپنی ذمے داریاں پوری کیوں نہ کیں البتہ ادارے پاکستان بھر میں ایگزیکٹ کے دفاتر پر چھاپے مار رہے ہیں۔ عجیب افراتفری کا عالم ہے۔ ایگزیکٹ کے چیف ایگزیکٹو شعیب شیخ وضاحتیں کررہے ہیں مگر ان کیخلاف شواہد سامنے آتے جارہے ہیں۔

ایف آئی اے نے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی ہدایت پر انکوائری کا آغاز کردیا ہے۔ ادارے کے سینئر افسران کے بیانات ریکارڈ کیے جارہے ہیں۔ تازہ اطلاعات کیمطابق ایف آئی اے نے جعلی ڈگریاں، سرٹیفکیٹ اور مہریں اپنے قبضے میں لے لی ہیں۔ ایف بی آر نے انکم ٹیکس کے حوالے سے نوٹس جاری کردئیے ہیں۔ ایس ای سی پی نے بھی ایگزیکٹ کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا ہے۔ پنجاب اور سندھ اسمبلیوں میں تحریک التواء جمع کرائی گئی ہے۔ قائمہ کمیٹی قومی اسمبلی اور سینٹ نے بھی کاروائی شروع کردی ہے۔ ماشاء اللہ ریاست کے ادارے کس قدر مستعد اور فعال ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا نے اس سکینڈل کو دیوانگی کی حد تک اچھالا ہے اور یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس سکینڈل سے پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے۔ 

اس صورتحال پر وزیر دفاع خواجہ آصف کے وہ الفاظ یاد آگئے جو انہوں نے پارلیمنٹ کے اندر تحریک انصاف کے اراکین کے بارے میں استعمال کیے تھے۔ ’’کچھ گریس دکھائیں کچھ شرم اور حیاء کریں‘‘ ایف آئی اے کی ابتدائی رپورٹ آنے سے پہلے اس قدر واویلا کیادنیا میں ریاستیں اس طرح چلائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں چار سو شور شرابہ ہے مگر پاکستان کے چیف ایگزیکٹو نے مکمل طور پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ جمہوری لیڈر کا آئینی، جمہوری اور اخلاقی فرض ہوتا ہے کہ وہ قومی مسائل اور موجودہ حالات کے سلسلے میں کم از کم ہفتے میں ایک بار پریس بریفنگ کرکے عوام کو اعتماد میں لیتا رہے مگر ’’مفاہمت اور مک مکا‘‘ کی مکروہ سیاست نے یہ دن دکھایا ہے کہ سیاستدان عوام کو جواب دہ ہی نہیں رہے۔

 اس سے زیادہ عوام کی توہین اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کی آرزئوں اور تمنائوں کا بڑی ڈھٹائی کے ساتھ قتل عام کیا جائے اور سیاسی رہنما عوام کے سوالوں کا جواب دینے سے ہی انکار کردیں۔ سیاسی رہنما عوام کے خلاف توہین آمیز رویہ ترک کردیں۔ ان کو حقیر نہ سمجھیں ، ان کی عزت نفس کو مجروح نہ کریں۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ عوام بپھر جائیں اور ان کو چھپنے کی جگہ بھی نہ ملے۔ جو جمہوریت عوام کو جوابدہ نہ ہو ایسی جمہوریت کو جہنم میں کیوں نہ ڈال دیا جائے۔ پاکستان کے سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے ٹیک کلب کی فکری نشست میں درست کہا کہ ’’جو نظر آتا ہے وہ سچ نہیں اور جو سچ ہے وہ نظر نہیں آتا‘‘۔

ایگزیکٹ کیخلاف اگر الزامات ثابت ہوجائیں تو اسکے مالکان کو نشان عبرت بنادیا جائے مگر پاکستان میں ابھی تک صاف شفاف احتساب کی روایت قائم نہیں کی جاسکی۔ وقت کیساتھ ساتھ ماضی کے المناک سکینڈلوں کی طرح اس عالمی سکینڈل کو بھی ‘‘سرکاری قبرستان‘‘ میں دفن کردیا جائیگا۔ بااثر افراد ’’مک مکا‘‘ کرلیں گے۔ آج جو ریاستی ادارے بڑے پرجوش اور سرگرم ہیں مصلحت آمیز خاموشی اختیار کرلیں گے جو حکمران وفاقی دارالحکومت میں رٹ قائم نہیں کرسکتے مدارس کے طلبہ کھلے عام وفاقی وزیر اطلاعات کے خلاف توہین آمیز اور دھمکی آمیز بینر لگاتے ہیں۔ پولیس سے ہاتھا پائی کرتے ہیں اور قانون کی گرفت سے بچ جاتے ہیں۔ ان حکمرانوں سے کڑے احتساب کی توقع عبث ہے۔ 

چند روز قبل خادم اعلیٰ پنجاب نے عقل و دانش کی بات کی کہ ’’جب تک تھانہ کلچر ختم نہ ہو دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی‘‘۔ ماشاء اللہ یہ بات وہ حکمران کہہ رہے ہیں جو تیس سال پنجاب پر حکمرانی کرتے رہے مگر تھانہ کلچر ختم نہ کرسکے۔ حضور والا جب پولیس حکومتی اشارے پر چودہ معصوم اور نہتے ٹیکس دہندہ شہریوں کو گولیوں سے بھون ڈالے گی اور ایک آزاد غیر جانبدار اور نیک نام جج باقر نجفی کی رپورٹ کی بجائے سرکاری ملازمین پر مشتمل جے آئی ٹی کی رپورٹ معتبر ٹھہرے گی وہاں پر تھانہ کلچر کیسے ختم ہوسکتا ہے۔ ایگزیکٹ کے خلاف ریاستی اداروں کی پھرتی اور چستی پر منیر نیازی یاد آئے۔

منیر اس شہر پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

اگر پاکستان میں احتساب کا شفاف نظام موجود ہو اور ریاستی ادارے آئین اور قانون کے مطابق کام کررہے ہوں تو ایگزیکٹ یا کسی اور ادارے کو فراڈ اور کرپشن کی جرأت نہیں ہوسکتی۔ کاش اے کاش چیف جسٹس پاکستان ایگزیکٹ کے عالمی سکینڈل کا سوئوموٹو نوٹس لے کر مجرمانہ غفلت کے مرتکب ریاستی اداروں، جعلی ڈگریاں حاصل کرنیوالوں سمیت پورے نیٹ ورک کو بے نقاب کرکے ان کو کیفر کردار تک پہنچا سکیں۔ چیف جسٹس صاحب پاکستان آپ کو پکار رہا ہے جس کا وقار پوری دنیا میں مجروح ہوا ہے۔ پاکستان نے آپ کو ریاست کا سب سے بڑا منصب عطا کیاہے۔ آپ پاکستان کا قرض چکائیں۔ آئین پاکستان آپ کو سوئو موٹو نوٹس لینے کا اختیار دیتا ہے۔

 پاکستان میں فراڈ اور کرپشن کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے اپنا اختیار استعمال کیجئے۔ وزیرداخلہ کہتے ہیں کہ ایگزیکٹ نے ٹی وی چینل بول کا لائسنس غیر قانونی طور پر حاصل کیا جو انہوں نے منسوخ کردیا۔ اب مذکورہ چینل عدالت سے حکم امتناعی حاصل کرکے اپنا کام چلارہا ہے۔ چوہدری نثار کا یہ اقدام قابل ستائش ہے مگر انہوں نے غیر قانونی لائسنس جاری کرنیوالے عناصر کیخلاف مقدمہ درج کیوں نہیں کرایا اور حکومت نے عدالت سے حکم امتناعی خارج کرانے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ ریاست کو ایڈہاک ازم اور ’’ڈنگ ٹپائو پالیسی‘‘ کیمطابق چلایا جارہا ہے۔ جہاں تک فراڈ، دھوکہ، جعل سازی، کرپشن، قتل و غارت گری، بھتہ خوری، دہشت گردی کا تعلق ہے عوام صبح وشام ایسے ’’ بے رحم مسیحا‘‘ کیلئے دعائیں مانگتے ہیں جو حکومت، ریاست اور اداروں کی ’’بھل صفائی‘‘ کرسکے۔

قیوم نظامی

پاکستان میں کرکٹ کی بحالی مگر.....


تعلیم جعل سازوں کے نرغے میں

$
0
0

امریکا کے اخبار نیویارک ٹائمز نے ایک پاکستانی کمپنی کے بارے میں یہ انکشاف کر کے تہلکہ مچا دیا کہ وہ گزشتہ 20 برس سے جعلی ڈگریاں فروخت کر رہی ہے۔ اس خبر کے شایع ہوتے ہی ہمارے تمام ریاستی ادارے یکدم فعال ہو گئے، چھاپوں اور گرفتاریوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس تفتیش کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ یہ تو عدالتی تحقیق کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا۔ لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جعل سازی اور دھوکا دہی صرف پاکستان ہی کا نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دنیا بھر میں اس قسم کی سرگرمیوں کی سرکوبی کے لیے فعال قوانین اور مستعد انتظامی مشنری موجود ہے۔

جو شکایت سامنے آتے ہی انتہائی سرعت کے ساتھ اس جرم میں ملوث افراد کو قانون کی گرفت میں لے آتے ہیں۔ جب کہ وطن عزیز میں ایسا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ اس حوالے سے قوانین کم از کم ڈیڑھ سو برس پرانے ہیں، جب کہ ریاستی انتظامی ادارے اس اہلیت اور صلاحیت سے عاری ہیں جو اس قسم کے واقعات کو گرفت میں لانے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ لہٰذا ناجائز کاروبار اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ایسی بے شمار کمپنیاں اور نجی ادارے ہیں جو حکومت اور اس کے انتظامی شعبہ جات کی ناک کے نیچے دھڑلے کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔
جعل سازی اور دھوکا دہی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے، جتنی خود انسانی سماج کی۔ جعل ساز، دھوکے باز اور ٹھگ ہر دور میں ایک نئے انداز اور ایک نئی جہت کے ساتھ منظر عام پر آتے ہیں۔

 ہر بار کسی نئے طریقے اور جدت طرازی کے ساتھ عام لوگوں کو بے وقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ گویا سانپ اور نیولے کا یہ کھیل جو صدیوں سے جاری ہے اور شاید جب تک اس کرہ ارض پر انسان موجود ہے، جاری رہے گا۔ جعل سازی اور دھوکا دہی دراصل منفی ذہانت (Evil Genius) رکھنے والے لوگوں کے ذہن کی اختراع ہوتی ہے، جو معصوم اور سادہ لوح انسانوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے لوٹتے ہیں۔ لیکن اکثر دولت مند افراد اپنے ناجائز کاموں کے لیے جعل سازی اور جعل سازوں کا سہارا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں ہمیشہ دولت مند اشرافیہ اور عمال ریاست کی سرپرستی اور تحفظ حاصل رہتا ہے اور اس چھتری تلے وہ باآسانی اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔

 جعل سازی اور دھوکا دہی کے لیے کوئی شعبہ مخصوص نہیں رہا ہے، بلکہ جب اور جہاں موقع ملا، انھوں نے ہر اس شعبے میں طبع آزمائی کی ہے، جس کا نظم و نسق کمزور رہا ہو۔

چونکہ زیر بحث معاملہ جعلی تعلیمی اسناد کا ہے، اس لیے اپنی گفتگو کو صرف تعلیم کے شعبے تک محدود رکھتے ہیں۔ لیکن ان معاملات کو سمجھنے کے لیے تاریخ پر سرسری نظر ڈالنا ضروری ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صنعتی انقلاب سے قبل تعلیم معاشروں کی عام ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ تعلیمی ادارے عموماً مختلف مذاہب و عقائد سے تعلق رکھنے والے افراد یا مشنری تنظیمیں قائم کیا کرتی تھیں۔ لیکن صنعتی انقلاب کے بعد تعلیم اور ہنرمند افرادی قوت کی بڑھتی ہوئی ضرورت نے ریاستوں کو مجبور کیا کہ وہ عام آدمی کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں۔ اس مقصد کے لیے ہر ملک نے طول و عرض میں تعلیمی ادارے قائم کرنا شروع کیے۔

صنعتی انقلاب کے نتیجے میں ریاستوں کو تیزی کے ساتھ پھیلتے اور پیچیدہ ہوتے ریاستی انتظامی ڈھانچے اور صنعتکاری کے ذریعے معاشی ترقی کے لیے ہر شعبہ ہائے زندگی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین اور ہنرمند افرادی قوت کی شدید ضرورت محسوس ہونے لگی تھی۔ لہٰذا تعلیمی اداروں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ ساتھ ہی قومی تشخص کو برقرار رکھنے اور ثقافتی اقدار کی پاسداری کے معاملات بھی درپیش تھے۔ اس لیے حکومتوں نے تعلیمی اداروں کے قیام، ان میں پڑھائے جانے والے نصاب کی تیاری اور تعلیمی نظم و نسق اپنے ہاتھوں میں رکھنے کو ترجیح دی۔

لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک بالخصوص برطانیہ نے اپنے ملک کے علاوہ اپنی نوآبادیات میں بھی جدید عصری تعلیم کے فروغ پر توجہ دی۔ لارڈ میکالے نے 1835ء میں برطانوی دارالعوام میں خطاب کے دوران برٹش انڈیا میں جدید عصری تعلیم کی ضرورت پر زور دیا۔ چنانچہ کلکتہ کے مقام پر ہندوستانی زبانوں اور علوم سے کمپنی کے اہلکاروں کی آگہی کے لیے 1800ء میں قائم کیا جانے والا فورٹ ولیم کالج 1850ء میں بند کر دیا گیا۔ 1857ء میں کلکتہ ہی کے مقام پر برٹش انڈیا کی پہلی یونیورسٹی قائم کی گئی۔ 1857ء سے 1947ء کے دوران 90 برس کے عرصے میں انگریزوں نے پبلک سیکٹر میں 21 جامعات قائم کیں، جب کہ نجی شعبے میں قائم ہونے والی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ہندو یونیورسٹی اس کے سوا ہیں۔ اس کے علاوہ انگریزوں نے ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مذہبی تعلیمی اداروں کے معاملات میں بھی مداخلت نہیں کی۔ یوں دو متوازی تعلیمی نظاموں کی بنیاد پڑی۔

انگریزوں نے عصری تعلیم کی تمام جامعات کے نصاب اور طریقہ تدریس کو کم و بیش وہی رکھا، جو برطانیہ میں تھا۔ یوں بے شمار ہندوستانیوں نے اعلیٰ تعلیم برطانیہ سے حاصل کی۔ نجی شعبہ میں قائم جامعات کے لیے بھی نصاب کی تیاری اور طریقہ تدریس کا ایک نظام وضع کیا گیا۔ یوں نجی شعبے میں قائم عصری تعلیم کی جامعات کی تعلیم پبلک سیکٹر کی تعلیم سے کسی طور مختلف نہیں تھی۔ برطانیہ کی ہی طرز پر دیگر یورپی ممالک نے اپنے اپنے ممالک اور نوآبادیات میں تعلیمی نظام وضع کیا۔ یورپی ممالک میں نصاب تعلیم کی تیاری وفاقی یا مرکزی ریاست کی ذمے داری تصور کی جاتی ہے۔ جب کہ تعلیمی اداروں کا انتظام و انصرام مقامی سطح پر چلانے کی روایت ہے۔

امریکا اور کینیڈا میں تعلیم مکمل طور پر ریاستی (صوبائی) سبجیکٹ ہے۔ یعنی ہر ریاست کا اپنا علیحدہ نصاب ہے۔ برطانیہ میں تعلیمی اداروں کی اکثریت (تقریباً 95 فیصد) پبلک سیکٹر میں ہے۔ امریکا میں 1960ء کے عشرے سے نجی شعبے میں تعلیمی اداروں کے قیام کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ جب کہ 1980ء کے عشرے میں دنیا کے مختلف ممالک میں امریکی یونیورسٹیوں کے کیمپسز کھولنے کی روایت شروع ہوئی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جب دنیا یک قطبی (uni-Polar) ہو گئی اور سرمایہ داری ناقابل شکست تصور کی جانے لگی تو تعلیمی اداروں کو فرنچائز کرنے کا ایک نیا کلچر سامنے آیا۔

آج دنیا بھر میں صحت اور تعلیم کا شعبہ دولت کمانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ آج کسی مرض میں مبتلا شخص کو ڈاکٹر، مریض یا Patient سمجھنے کے بجائے گاہک یا Customer کہتے ہیں، جو فکری رجحان میں پیدا ہونے والی تبدیلی کا مظہر ہے۔ اسی طرح استاد اور طالب علم کا روایتی رشتہ بھی ٹوٹ چکا ہے۔ آج استاد کا میٹر بھی ٹیکسی کی طرح ڈاؤن رہتا ہے اور وہ گھنٹوں اور منٹوں کے حساب سے پیسے وصول کرتا ہے۔ اس کی طالب علم کے ساتھ کس قسم کی کوئی جذباتی وابستگی نہیں رہی ہے۔ یہی حال طالب علموں کا ہے، جو تعلیمی اداروں میں اسی طرح جاتے ہیں، جیسے کسی دکان پر سودا لینے جا رہے ہوں۔

اس صورتحال نے روایتی سقراطی طریقہ تدریس کو ختم کر دیا ہے اور علم بازار میں بکنے والی شے ہو کر رہ گیا ہے۔ پھر AXACT جیسی کمپنیوں کی مارکیٹ میں بھرمار ہو گئی ہے، جو جعلی اسناد کے علاوہ ہر شعبہ میں تحقیق کے لیے تحقیقی مقالے (Research Theses) بھی فروخت کرتی ہیں، یعنی آپ اگر جعلی ڈگری نہیں چاہتے اور کسی مستند عالمی جامعہ سے تحقیق اور محنت کیے بغیر Ph.D کی ڈگری حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں، تو بھی اس قسم کی کمپنیاں آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ Ph.D کے کسی بھی مضمون یا موضوع پر تیار تحقیقی مقالے مختلف قیمتوں پر ان کمپنیوں سے باآسانی حاصل کر سکتے ہیں، یعنی ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ آئے چوکھا۔

پاکستان میں نجی شعبہ میں جامعات کو چارٹر دینے کا سلسلہ 1990ء کے عشرے میں شروع ہوا۔ اس سلسلے میں جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں بعض انقلابی اقدامات کیے۔ انھوں نے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو ہائیر ایجوکشن کمیشن بنا کر اس کی کارکردگی کو وسعت دی۔ ڈاکٹر عطاالرحمان نے بحیثیت بانی سربراہ اس ادارے کو بام عروج تک پہنچایا۔ ان کے بعد ڈاکٹر جاوید لغاری نے بھی اپنی ماہرانہ اہلیت کی بنیاد پر اس ادارے کی اہمیت اور افادیت کو برقرار رکھا۔ لیکن 18 ویں ترمیم کے بعد جب تعلیم صوبائی سبجیکٹ قرار پائی اور پھر جعلی ڈگریوں کے معاملے پر حکومت جاوید لغاری سے ناراض ہوئی، تو دانستہ اس ادارے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران اس ادارے کی سرکاری اور نجی جامعات پر مانیٹرنگ کمزور پڑ گئی ہے۔ کئی ایسے اداروں کو چارٹر جاری ہوئے ہیں، جن کا مقصد فروغ تعلیم نہیں صرف دولت کمانا ہے۔ کئی ایسی جامعات ہیں، جہاں اساتذہ کی تقرری میں پیشہ ورانہ اہلیت اور میرٹ کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ نجی شعبہ کی بعض جامعات پر جعلی ڈگریاں تفویض کرنے کا بھی الزام لگتا رہتا ہے۔
متذکرہ بالا حوالہ جات اور ایک کمپنی کے بارے میں حاصل ہونے والی معلومات اس بات کی متقاضی ہیں کہ حکومت نجی شعبہ میں قائم تعلیمی اداروں کا سختی کے ساتھ ہر طرح کا آڈٹ کرے (تعلیمی، انتظامی اور مالیاتی) اور یہ دیکھنے کی کوشش کرے کہ کون سے ادارے تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں اور کون سے تعلیم کو تجارت بنائے ہوئے ہیں۔ 

معاملہ صرف نجی شعبہ میں قائم جامعات تک محدود نہیں ہے۔ بگاڑ کا اصل سبب گلی گلی محلے محلے کھلے وہ نام نہاد انگریزی میڈیم اسکول بھی ہیں، جنہوں نے تعلیم کے نام پر دکانیں کھول رکھی ہیں۔ ساتھ ہی محکمہ تعلیم میں بھی تطہیر کی ضرورت ہے، جہاں کرپشن اور بدعنوانی کے سبب تعلیم کا قتل عام ہو رہا ہے۔ لہٰذا حکومت کو صرف ایک کمپنی کے معاملات کی چھان بین تک خود کو محدود نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ ایسی تمام کمپنیوں کا کھوج لگا کر ان کا احتساب کرنے کی ضرورت ہے جو جعل سازی اور دھوکا دہی کے گھناؤنے افعال کی مرتکب ہیں۔

مقتدا منصور

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

Pakistan mark six-year home return with victory over Zimbabwe

$
0
0
Pakistan mark six-year home return with victory over Zimbabwe










یوم تکبیر - عزم و ہمت کی داستان

آم عام کیوں ہیں؟....وسعت اللہ خان

$
0
0

الفانسو، کیسر، چونسہ، قلمی، لنگڑا، طوطا پری، تخمی، دسہری، سندھڑی، فجری، انور ریٹول، ثمرِ بہشت، سرولی، الماس، امرپھلی، بینگن پھلی، بمبئی، نیلم، کلکٹر، دلکش، گلابِ خاص، لاہوتی، لال بادشاہ، مالدہ، نواب پوری، رانی پھول، صالح بھائی، شانِ خدا، تیموریہ، طوفان، زعفران، محمد والا، بادشاہ پسند، ملغوبہ، بادامی، چتوڑ، رومانی، حسن آرا، امام پسند،جہانگیر، سرخا، بھوگ، نناری، رتنا، سفیدہ، ونراج، یحیی مریم، زرد آلو، ہیم ساگر، لکشمی، ملائکہ، لانسی ٹیلا، منی لیتا، مومی کے، روبی، پامر، سائگون، اسپرٹ آف سیونٹی سکس، سن سیٹ، ینگ، نمرود، جکارتہ، اطاؤلفو، کالی پڈ، اینڈرسن، جین ایلن، بروکس، ڈنکن، ایڈورڈ، ایلڈن، ایمرلڈ، فورڈ، گلین، گولڈ نٹ، گراہم، ہیڈن، ہیچر، آئس کریم، ارون، آئیوری، کینزنگٹن پرائڈ، کینٹ۔۔۔ابھی تو نام شروع ہوئے ہیں۔
اور کس پھل کے بھلا اتنے نام ہیں۔ کون سا بادشاہ ہے جس سے لوگ اتنا انس رکھتے ہیں علاوہ آم بادشاہ، کہ جس کی جنم بھومی برِ صغیر ہے۔ امبیکا دیوی کی مورت ہی دیکھ لیں۔ ہزاروں برس سے آم کی چھاؤں میں براجی ہے۔

اور کیا ڈھائی ہزار برس سے ساون، انبوا کا پیڑ، پیڑ پے جھولا اور جھولے میں پینگیں بھرتی ناری پیڑھی در پیڑھی ہمارے ساتھ ساتھ نہیں؟ کالی داس کے ڈرامے سے امیر خسرو کے گیت اور غالب کے قصیدے سے ٹیگور کی نظم ’’آمیر منجوری‘‘ تک ایک ہی سلسلہ تو چلتا چلا آ رہا ہے۔ کہتے ہیں اکبرِ اعظم آم کا ایسا عاشقِ اعظم تھا کہ دربھنگا میں ایک لاکھ پیڑ لگوا دیے۔ تب سے چیتاونی ہے کہ آم کھائیے گا کہ پیڑ گنیے گا۔ کشمیر کے دوشالے سے کانچی پورم کی ساڑھی تک آج بھی سب سے بکاؤ وہ ملبوسات ہیں کہ جن پر آم کے پتے یا پھل کی کشیدہ کاری ہو۔
اب تو آم کی سلطنت نوے سے زائد ممالک تک پھیل چکی ہے مگر پچاس ملین ٹن میں سے آدھے آم آج بھی برِ صغیر (بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش) میں پیدا ہوتے ہیں۔ اسی لیے تو آم بھارت اور پاکستان کا قومی پھل اور بنگلہ دیش کا قومی درخت ہے۔ اکیلے بھارت میں دنیا کا بیالیس فیصد آم پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد چین، تھائی لینڈ، پاکستان، میکسیکو، انڈونیشیا، برازیل، بنگلہ دیش، فلپینز اور نائجیریا کا نمبر ہے۔

چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی میں برِصغیر سے آم نے بودھ بھکشوؤں کے ہمراہ جنوب مشرقی ایشیا ہجرت کی اور برما، تھائی لینڈ، چین سے ہوتا انڈونیشیا اور فلپینز تک پہنچ گیا۔ (فلپینز کا آم کاراباؤ اس قدر شیریں ہے کہ گنیز بک میں جگہ پا چکا ہے)۔ پندھرویں اور سولہویں صدی کے بیچ فلپینز سے ہسپانوی جہازی آم کی گٹھلی میکسیکو لے گئے۔

یوں بحرالکاہل کے آر پار منیلا سے فلوریڈا اور ویسٹ انڈیز تک ہر ہسپانوی نوآبادی میں آم عام ہو گیا اور پھر بحراقیانوس عبور کرتا اسپین (غرناطہ و جزائرکینری) اور پرتگال تک جا پہنچا۔ لگتا ہے واسکوڈی گاما اور اس کے جہاز رانوں نے پرتگال چھوڑنے سے پہلے ہی آم چکھ لیا تھا تبھی تو مالابار کے ساحل سے پرتگیزی اور عرب جہازوں میں آم کا پودا مشرقی افریقہ تک جا پہنچا۔ ابنِ بطوطہ نے مانگا (آم کا پرتگیزی نام) صومالیہ کے شہر موگا دیشو میں مزے لے لے کے کھایا اور تذکرہ بھی کیا۔

مگر کسی جگہ سب سے زیادہ آم پیدا ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہاں سے آم کی ایکسپورٹ بھی سب سے زیادہ ہو۔ چنانچہ جب ہم دنیا میں سب سے زیادہ آم ایکسپورٹ کرنے والے دس ممالک کی فہرست دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ پیداوار کے باوجود ایکسپورٹ چارٹ میں بھارت کا نمبر پانچواں ہے کیونکہ اپنی ننانوے فیصد پیداوار بھارت خود کھا جاتا ہے۔ آم کا سب سے بڑا عالمی ایکسپورٹر میکسیکو ہے۔

اس کے بعد فلپینز، پاکستان اور برازیل ہے۔ یہ عجب ہے کہ ہالینڈ، پیرو، گوئٹے مالا، فرانس اور ہیٹی آم کی پیداوار والے دس بڑے ممالک کی فہرست میں شامل نہیں مگر دس بڑے عالمی ایکسپورٹرز میں ضرور شامل ہیں۔ ٹاپ ٹین ایکسپورٹرز میں لاطینی امریکا کے پانچ اور یورپ کے دو ممالک کی شمولیت کا سبب یہ ہے کہ یہ ممالک آم کی ٹومی ایٹکنز قسم کاشت کرتے ہیں جو ذائقے و سیرت میں بھلے برِصغیری آم سے کمتر ہو لیکن صورت، وزن اور شیلف لائف کے اعتبار سے سب سے بہتر مانا جاتا ہے۔

پاکستان آم کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھے مگر ایکسپورٹ کی عالمی رینکنگ میں تیسرے نمبر پر یوں ہے کہ وہ کل پیداوار کا لگ بھگ آٹھ فیصد برآمد کر دیتا ہے۔ پاکستانی چونسہ، انور ریٹول اور سندھڑی بیرونِ ملک سب سے زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات، برطانیہ، مغربی یورپ، ایران، سعودی عرب، بحرین سنگاپور، قزاقستان، آزر بائیجان اور ترکی تک پاکستانی آم کی خاصی چاہ ہے۔ اس برس ایک لاکھ ٹن آم ایکسپورٹ کرنے کا ہدف ہے جس سے لگ بھگ ساٹھ ملین ڈالر کا زرِ مبادلہ متوقع ہے۔

پاکستان میں ہر سال تقریباً اٹھارہ لاکھ ٹن آم پیدا ہو رہا ہے۔ جنوبی پنجاب (ملتان اور بہاولپور ڈویڑن) اور جنوبی سندھ (میرپور خاص اور حیدرآباد ڈویژن) آم کا گڑھ مانے جاتے ہیں۔ ویسے تو یہاں تقریباً ایک سو پچیس اقسام کے آم پائے جاتے ہیں مگر مقبول کمرشل اقسام کی تعداد تیس کے لگ بھگ ہے۔
کاش مرزا اسد اللہ خان غالبؔ جون تا اگست ملتان سے براستہ رحیم یار خان میر پور خاص اور ٹھٹھہ تک سفر کر لیتے تو انھیں یہ کہنے کی ضرورت پیش نہ آتی کہ آم بہت ہوں اور میٹھے ہوں۔ غالبؔ بچشم ملاحظہ کرتے کہ انسان تو انسان گدھے بھی آم کھا رہے ہیں۔

یہ تو سب جانتے ہیں کہ آم سے اچار، چٹنی، مربہ، امچور، پاپڑ، جام، جیلی، جوس، آئس کریم وغیرہ بنتے ہیں مگر آم کی ان ذیلی نعمتوں کو نقد آور بنا کر معیارِ زندگی خاص کیسے کرنا ہے۔ اس بارے میں بہت کم کاروباری سیانے دلچسپی لیتے ہیں۔ اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ پاکستان میں کل پیداوار کا محض تین فیصد حصہ آم کا گودا ذیلی مصنوعات سازی میں استعمال ہوتا ہے۔ آم کی پیداوار کو صنعتیانے میں دس طرح کی مالی و انتظامی دشواریوں کے علاوہ بے ڈھب ٹرانسپورٹیشن، ناقص پیکنگ، منڈی تک پہنچنے میں تاخیر اور کولڈ اسٹوریج کی ناکافی سہولت کے سبب ویسے بھی تقریباً تیس فیصد سبزیاں اور چالیس فیصد پھل گاہک کے ہاتھوں میں پہنچنے سے پہلے ہی ضایع ہو جاتے ہیں۔

پھر بھی اتنے آم ضرور بچ جاتے ہیں جو ذاتی، علاقائی و بین الاقوامی تعلقات میں بڑھاوے کے کام آ سکیں۔ جس طرح بینک اکثر انھیں ہی قرضہ دیتا ہے جنھیں قرضے کی ضرورت نہ ہو، جیسے قربانی کا گوشت زیادہ تر انھی میں گردش کرتا ہے جن کے لیے قربانی یا گوشت کی دستیابی کوئی مسئلہ نہیں اسی طرح آموں کی پیٹی بھی اکثر اہلِ آم انھی خواص کو بھیجتے ہیں جنھیں اس نذرانے کی ضرورت نہیں۔ آم کے ذریعے پبلک ریلیشننگ بعض اوقات اچھے اچھوں کے لیے بھی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ (یہ بات سمجھنے کے لیے محمد حنیف کا ناول ’’اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز‘‘ پڑھنا ازبس ضروری ہے)۔

پھر بھی عام جنتا کو ہر سال اتنے آم ضرور میسر آ جاتے ہیں کہ اگر کوئی یہ کہے کہ پچھلی بار اسے ایک بھی آم نہیں ملا تو یا وہ جھوٹا ہے یا پھر بہت ہی جھوٹا۔
اور تم خدا کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے)۔

وسعت اللہ خان
بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live