Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

موبائل فون انسانی رشتوں کے لیے قاتل .. !

0
0


موبائل فون ہمارے لیے اتنی اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ اگر کسی وجہ سے ایک بھی دن اس کے بغیر گزارنا پڑجائے تو زندگی ادھوری معلوم ہونے لگتی ہے۔

کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ آپ کتنا وقت اپنے اسمارٹ فون کے ساتھ مصروف رہتے ہوئے گزارتے ہیں؟ کسی قریبی ہستی نے کبھی آپ سے شکوہ کیا ہے کہ آپ اسے وقت نہیں دیتے؟ کیا کبھی آپ کے محبوب نے اسمارٹ فون کو اپنا رقیب قرار دیا ہے؟ اگر ان سوالوں کا جواب اثبات میں ہے تو سمجھ لیجیے کہ اسمارٹ فون قریبی ہستیوں سے آپ کے تعلق کو متاثر کررہا ہے۔

موبائل فون ٹیکنالوجی انسانی رشتوں پر کس قدر اثرانداز ہورہی ہے؟ یہ جانچنے کے لیے امریکا میں حال ہی میں ایک سروے کیا گیا جس کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی انسان کے سماجی رشتوں کو اس سے دور کررہی ہے۔
سروے کے دوران پنسلوانیا اسٹیٹ یونی ورسٹی اور برگمین ینگ یونی ورسٹی کے ماہرین نفسیات پر مشتمل ایک ٹیم نے 143 خواتین سے معلومات حاصل کیں۔ 62 فی صد خواتین نے تسلیم کیا کہ موبائل فون ان کی خانگی زندگی میں دخیل ہوگیا ہے۔ اس کی آمد سے پہلے، بالخصوص اسمارٹ فون کی ایجاد سے پہلے وہ اپنے شریک حیات کے ساتھ زیادہ وقت گزارتی تھیں، مگر اب ان کے شوہر اور وہ خود بھی زیادہ وقت اسمارٹ فون کے ساتھ مصروف رہتے ہوئے صرف کرتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی نجی زندگی متاثر ہوئی ہے۔

ان خواتین کا کہنا تھا کہ کم وقت دینے کی وجہ سے خاوند اور بیوی کا رشتہ کمزور پڑنے لگا ہے، ایک دوسرے کے لیے ان کی محبت میں کمی آرہی ہے اور اکثر ان کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوجاتی ہے۔

سروے میں شامل ایک چوتھائی خواتین نے شکوہ کیا کہ اسمارٹ فون کی وجہ سے ان کی ’ لائف‘ متاثر ہورہی ہے۔  کچھ خواتین نے کہا کہ وہ خود بھی اسی عادت میں مبتلا ہیں۔  گھومتے پھرتے ہوئے بھی بیشتر وقت ان کی نگاہیں فون پر ٹکی ہوتی ہیں اور انگلیاں ٹچ اسکرین پر پھسل رہی ہوتی ہیں۔
 
کسی بھی شے کی زیادتی، چاہے وہ سیل فون کا استعمال ہی کیوں نہ ہو، نقصان دہ ہوتی ہے۔ سروے ٹیم میں شامل ماہرین نفسیات نے اسمارٹ فون کے صارفین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس ڈیوائس کے استعمال میں اعتدال سے کام لیںِ، بالخصوص قریبی رشتوں کو پورا وقت دیں، اور ان کے ساتھ رہتے ہوئے فون کے غیرضروری استعمال سے گریز کریں، بہ صورت دیگر ان کے باہمی تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔

عبدالریحان

 

گوگل کے فائدے

0
0


کچھ تلاش کرنا ہو، کسی کی جستجو ہو۔۔۔ذہن میں ایک ہی نام آتا ہے ’’گوگل‘‘  اب تو تلاش اور گوگل یوں لازم وملزوم ہوچکے ہیں کہ کسی بھی حوالے سے معلومات کی تلاش کے لیے کہا جاتا ہے ’’گوگل کرلو۔‘‘ گوگل کی اس قدر اہمیت اور اس کے اتنے زیادہ استعمال کے باوجود اس سرچ انجن کی کئی افادیتوں سے یوزرز کی اکثریت واقف ہی نہیں۔ آئیے ہم آپ کو گوگل سرچ کے پانچ ایسے فیچرز بتاتے ہیں جو آپ کی روزمرہ زندگی میں سودمند ثابت ہوں گے
موسم کیا کہتا ہے

اپنے شہر، گاؤں یا قصبے کے موسم کا حال جاننے کے لیے اب آپ کو بار بار ٹی وی دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ بس گوگل پر جائیے اور اس سرچ انجن کی بار میں اپنے علاقے کے نام کے ساتھ Weather لکھ کر سرچ کیجیے۔ اس طرح گوگل نہ صرف آپ کو اس دن کے موسم کے بارے میں پیش گوئیاں بتادے گا بلکہ اگلے ہفتے کا بھی پورا ڈیٹا آپ کے سامنے ہوگا۔

جب لفظ کا مطلب جاننا ہو

انگریزی کے کسی لفظ کا مطلب معلوم کرنے کے لیے آپ کو بھاری بھرکم ڈکشنریاں رکھنے اور چھاننے کی ضرورت ہے نہ انٹرنیٹ پر کہیں اور جانے کی۔ بس گوگل پر یہ لفظ لکھیں، آپ کو اس کے معنی، بولنے کا طریقہ اور گرامر سمیت سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔ یہی نہیں، آپ کو اس لفظ سے ملتے جلتے اور متضاد الفاظ بھی اسکرین پر دکھادیے جائیں گے۔

حساب جوڑنے کے لیے

کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے اگر آپ کو اعداد کو ضرب دینے یا تفریق کرنے کی ضرورت پڑے تو گوگل آپ کے کام آئے گا۔ سرچ باکس میں Calculator ٹائپ کیجیے، دیکھتے ہی دیکھتے گوگل کیلکولیٹر آپ کے تمام حسابی مسائل حل کردے گا۔ وہ لوگ جنھیں ارب یا کھرب کے صفر یاد نہیں رہتے، ان کے لیے یہ سہولت موجود ہے کہ وہ لفظوں کی صورت میں اپنا مدعا بیان کرکے جواب حاصل کرسکتے ہیں، جیسے what is million divided by 200 لکھ کر آپ کو جواب مل سکتا ہے۔

کس کرنسی کا کیا ہے بھاؤ

اگر آپ ڈالر کی قیمت پاکستانی روپوں میں جاننا چاہتے ہیں یا کسی بھی کرنسی کا مقابلہ اپنے ملک کی یا کسی اور ملک کی کرنسی سے کرنا چاہتے ہیں تو گوگل پر جا کرcurrency converter لکھیے آپ کے سامنے یہ ایپلی کیشن کھل جائے گی۔ پھر چاہے جس کرنسی کا ریٹ معلوم کیجیے۔

کہاں کیا وقت ہے

عالمی گاؤں بن جانے والی اس دنیا میں اکثر ہمیں دوسرے ممالک کے اوقات جاننے کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثلاً ہمیں کسی دوسرے ملک میں مقیم اپنے کسی عزیز کو فون کرنا ہے تو ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہوگا کہ اس مقصد کے لیے متعلقہ ملک کی مناسبت سے کون سا وقت مناسب ہوگا۔ اس مسئلے کا حل بھی گوگل کے پاس موجود ہے۔ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس وقت آئرلینڈ میں کیا وقت ہوگا، تو آپ گوگل سرچ کی بار میں time ireland ٹائپ کرکے آئرلینڈ کا صحیح وقت اور تاریخ معلوم کرسکتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار..

0
0


پاکستانی معاشرے میں مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جب کہ معاشی ناہمواریوں، ترقی کی دوڑ اور بہتر روزگارکی تلاش کی وجہ سے رشتوں کااحترام کم ہوتا جارہا ہے، شہری رشتوں سے دور ہوتے جارہے ہیں۔
سماجی حیثیت نمایاں رکھنے کیلیے شہری ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں بھی مصروف ہیں جس کی وجہ سے رشتوں کے احترام میں کمی دکھائی دیتی ہے، خاندانی نظام کے حوالے سے سروے میں 67 فیصد شہریوں نے مشترکہ خاندانی نظام کو پسند کیا،31 فیصد شہریوں نے انفرادی خاندانی نظام کی حمایت کی ہے جبکہ 2 فیصد افراد نے کوئی رائے نہیں دی، سروے کے دوران جامعات کے طلبہ و طالبات نے اپنی رائے میں کہا کہ مشترکہ خاندانی نظام گھرکے ماحول پر منحصر ہوتا ہے اگر گھر میں رہنے والے افراد کے آپس کے خیالات ملتے ہوں تو مشترکہ نظام بہتر ہوسکتا ہے، مشترکہ خاندانی نظام میں تحمل، رشتوں کا احترام اور قربانی کا جذبہ شامل ہوتا ہے تاہم زیادہ اختلاف رائے رکھنے والے افراد سنگل فیملی سسٹم کو ترجیح دیتے ہیں۔
مشترکہ خاندانی نظام پسند کرنے والے افراد نے کہا کہ ملک میں مشترکہ خاندانی نظام دم توڑرہا ہے، جس سے رواداری اور ہمدردی کا تصور بھی ختم ہورہا ہے، معاشرے میںمتمول گھرانے معاشی ناہمواریوں کے شکار اپنے عزیز و اقارب سے کٹ کر رہنے کی کوشش کرتے ہیں، مشترکہ خاندانی نظام میںگھریلو اخراجات مشترکہ ہوتے تھے سنگل فیملی سسٹم نے مہنگائی بڑھنے پر ہر فرد کے اخراجات میں اضافہ کردیا ہے پہلے زمانے میں غم خوشی اور دکھ درد کا مل کر مقابلہ کیا جاتا تھا اب ایک دوسرے کی مدد تو درکنار کوئی کسی کا حال تک نہیں پوچھتا، خاندانی نظام میں بزرگوںکی مداخلت سے میاں بیوی کی کشیدگی کی نوبت طلاق تک نہیں پہنچتی تھی، اب انفرادی فیملی سسٹم میں معمولی اختلافات طلاق کا باعث بن جاتے ہیں، سنگل فیملی سسٹم کے فروغ پانے سے ضعیف والدین سے محبت و احترام کی قدریں کم ہورہی ہیں، ماضی میں بچوںکی تربیت خاندانوں کے بزرگ کرتے تھے، بچے شام ڈھلے بزرگوں کی بیٹھک میںجاری علمی اور ادبی گفتگو سنتے تھے اب بچے بڑوں اور بزرگوںکے احترام سے بے نیاز بدتہذیبی کا شکار ہورہے ہیں، ضعیف والدین کو معاشی بوجھ سمجھ کر اولڈ ہوم میں داخل کرانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

والدین کو دولت کے حصول کی دوڑ میں بچوں کی مصروفیات اور مشاغل کا علم ہی نہیں اور نہ ہی ان کی بہتر تربیت کے لیے والدین کے پاس وقت ہے، شادی کے بعد لڑکا لڑکی علیحدہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ گھر والے ان کی زندگی میں مداخلت نہ کریں، مشترکہ خاندانی نظام ملازمت پیشہ خواتین کی مدد کرتا ہے اور پاکستانی معاشرے کی مشرقی روایات کا ایک خوبصورت نمونہ ہے جسے لوگوں میں موجود خود غرضی،مفاد پرستی اور انا نے برا بنادیا ہے، ساس اپنی بہو کو بیٹی کا درجہ دے اور بہو اپنی ساس کو ماں کا درجہ دے کر معاشرے میں لوگوں کے دوہرے معیار کو ختم کیا جاسکتا ہے،بزرگ گھر پر رحمت کا سایہ ہوتے ہیں، سماجی کارکن بشرٰی سید کا کہنا ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام ختم ہونے سے خواتین کے شیلٹر ہومز اور بزرگوںِ کے اولڈ ہومز آباد ہو رہے ہیں۔

آج کل تعلیم یافتۃ خواتین کی اکثریت شادی کے بعد سنگل فیملی سسٹم میں رہنا پسندکرتی ہیں جس سے وہ عدم تحفظ کا شکار ہوتی ہیں، مہنگائی کے باعث شوہرگھرکی تنہاکفالت کرنے سے قاصر ہوتا ہے جس سے ہونے والے اعصابی دباؤ اور ڈپریشن سے میاں بیوی میں ناچاقی بڑھ جاتی ہے اسی وجہ سے معاشرے میں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے، ماہر سماجیات پروفیسرنائلہ کے مطابق شہری علاقوں میں مشترکہ خاندانی نظام دیہاتی علاقوں کی نسبت زیادہ زوال کا شکار ہے مشترکہ خاندانی نظام میں کم بجٹ میں گھر کا خرچ بآسانی چل سکتا ہے،گھر کے سربراہوں کوتمام کمانے والے افراد کے مابین مالی بوجھ کو توازن میں رکھنا چاہیے۔

مشترکہ خاندانی نظام کی تشکیل میںعورت کاکردار اہم ہے کیونکہ یہ فیصلہ عمو ماً عورت کا ہی ہوتا ہے، اس ضمن میں مختلف خواتین کے مختلف تجربات ہیں،کچھ خواتین کی رائے میںمحبت و احترام کا تعلق دل سے ہوتا ہے پاس یا دور رہنے سے نہیں بے شمار افراد ایسے بھی ہیں جو ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے رقیبوں کی طرح رہتے ہیں۔

ثنا سیف

Unseen Beauty of Pakistan

0
0













Unseen Beauty of Pakistan

Beautiful Colors of Pakistan's Rural Life

0
0





 











Beautiful Colors of Pakistan's Rural Life

دینی مدارس - اصل مسئلہ اور حل..

On the edge in Lahore

پاکستان کے خوبصورت نیشنل پارک....

0
0

دنیا بھر میں یہ چلن ہے کہ بہت سے مقامات کو وہاں موجود خوبصورتی کے تحفظ کے باعث پارک قرار دیا جاتا ہے اوردلچسپ بات یہ ہے کہ یہی خوبصورتی ان پارکوں کو حیرت انگیز بھی بناتی ہے۔ یوں تو دنیا بھر میں انگنت خوبصورت نیشنل پارک موجود ہیں اور تمام کا احاطہ کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ تاہم پاکستان میں پائے جانے والے چند خوبصورت نیشنل پارکوں کے بارے میںیہاں بتائیں گے: ہنگول نیشنل پارک ہنگول نیشنل پارک بلوچستان اور پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک
ہے، جو چھ لاکھ انیس ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔

کراچی سے 190 کلومیٹر دُور یہ پارک بلوچستان کے تین اضلاع گوادر، لسبیلہ اور آواران کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس علاقہ میں بہنے والے دریائے ہنگول کی وجہ سے اس کا نام ہنگول نیشنل پارک رکھا گیا ہے۔ اس علاقے کو 1988 ء میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ ہنگول نیشنل پارک اس وجہ سے ممتاز حیثیت رکھتا ہے کہ اس میں چار مختلف قسم کے ماحولیاتی نظام پائے جاتے ہیں۔یہ پارک پہاڑ، ریت کے ٹیلوں اور دریا کے ساتھ سیلابی میدان وغیرہ میں بٹا ہوا ہے، ہنگول ندی نیشنل پاک سے ہو کر گزرتی ہے اور سمندر میں گرنے سے پہلے ایک مدو جزر والا دہانہ بناتی ہے، جو کئی ہجرت کرنے والے آبی
پرندوں اور دلدلی مگرمچھوں کا مسکن ہے۔

اس پارک میں ایبیکس، یورال، چنکارہ، لومڑی، گیڈر، بھیڑیا وغیرہ شامل ہیں۔ پرندوں میں تیتر، ہوبارہ، بوسٹرڈ، باز، چیل، مرغابی، ترن، فالکن وغیرہ شامل ہیں جبکہ رینگنے والے جانوروں میں دلدلی مگرمچھ، لمبی چھپکلی، موٹی زبان والی چھپکلی، وائپر اور کوبرا ناگ وغیرہ کے علاوہ کئی اور سمندری حیوانات بھی شامل ہیں۔ کیرتھر نیشنل پارک کیرتھر نیشنل پارک پاکستان کا دوسرا بڑا نیشنل پارک ہے جبکہ 1973ء میں اپنے قیام کے بعد ملک کا پہلا نیشنل پارک ہونے کا اعزاز بھی اسے ہی حاصل ہوا تھا جو کہ تین لاکھ 58 ہزار سے زائد ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ 

کیرتھر نیشنل پارک پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع جامشورو اور کراچی میں موجود کیرتھر پہاڑی سلسلے میں واقع ہے، یہاں متعدد انتہائی نایاب اور منفرد اقسام کے جانور پائے جاتے ہیں جن میں چنکارہ ہرن، جنگلی بھیڑیں، اڑیال، صحرائی بلے، جنگلی چوہے اور مگرمچھوں کے ساتھ کئی اقسام کے سانپ نمایاں ہیں، اسی طرح سردیوں میں یہاں راج ہنس، سنہرے عقاب اور متعدد اقسام کے پرندوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ خنجراب نیشنل پارک یہ پاکستان کا تیسرا بڑا نیشنل پارک ہے اور شاہراہ قراقرم پر پاک چین سرحد پر واقع ہے، جو دو لاکھ 26 ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔

 یہاں کے خوبصورت پہاڑی مناظر دیکھنے والوں پر جادو کر دیتے ہیں جبکہ اس علاقے کو نیشنل پارک کا درجہ خوبصورت سینگوں والے مارکوپولو شیپ کی نسل کو بچانے کے لیے دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں برفانی چیتا، آئی بیکس، بھورا ریچھ، تبتی سرخ لومڑی اور خرگوش کے علاوہ کئی اقسام کے پرندے بھی پائے جاتے ہیں۔ چترال گول نیشنل پارک چترال کا نام سنتے ہی ایک خوابوں کی نگر جیسی وادی کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے اور ان ہی جنت نظیر نظاروں کے درمیان یہ نیشنل پارک واقع ہے، جس کا کل رقبہ 7745 ایکڑ ہے۔ 

یہاں برفانی چیتے، کالا ریچھ، مارخور، اڑیال اور لومڑی کے علاوہ دیگر کئی جانور اپنے قدرتی ماحول میں موجود ہیں اور انسانوں کی دسترس سے دور ہیں۔ ہزار گنج چلتن نیشنل پارک ہزار گنج نیشنل پارک کوئٹہ سے 20 کلو میٹر دور جنوب مغرب میں واقع ایک انتہائی خوبصورت پارک ہے۔ اس کا رقبہ 32,500 ایکڑ ہے اور سطح سمندر سے 2021 میٹر بلندی پر واقع ہے۔ اسے 1980ء میں جنگلی حیات کے تحفظ کیلئے قائم کیا گیا، یہ پارک قدرتی پہاڑی ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ یہاں مغرب میں چلتن اور مشرق میں ہزار گنج پہاڑی سلسلہ ہے، اس پارک میں ایک بہترین عجائب گھر دیکھنے کے لائق ہے جبکہ یہاں تفریح کیلئے خوبصورت مقامات بھی ہیں جس کے باعث باہر سے سیر کیلئے آنے والے یہاں رہتے ہوئے اس خوبصورتی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

 مارگلہ ہل نیشنل پارک اسلام آباد کی مارگلہ کی پہاڑیوں اور اردگرد کے علاقے کو نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا ہے۔ شکرپڑیاں اور راول ڈیم بھی اسی پارک کا حصہ ہیں جہاں سے کورنگ دریا نکل کر دریائے سون میں گرتا ہے۔ یہ نیشنل پارک چیتے، بندر، ہرن، نیولے، جنگلی سور اور کوبرا سانپوں کی بہترین پناہ گاہ ہے۔ مشہور تفریح گاہ دامن کوہ سے آگے جا کر جبڑی کے مقام پر نایاب پرندوں کی افزائش کے لیے بھی ایک جگہ بنائی گئی ہے۔ 

ایوبیہ نیشنل پارک ایوبیہ نیشنل پارک مری سے 26 کلومیٹر دور واقع ہے۔ صدر ایوب خان کے نام پر اس علاقے کا نام ایوبیہ رکھا گیا۔ چار مختلف پہاڑی مقامات گھوڑا گلی، چھانگلہ گلی، خیرہ گلی اور خانسپور کو ملا کر ایوبیہ نیشنل پارک بنایا گیا۔ پکنک مقامات، سیرگاہوں اور سرسبز علاقوں کہ علاوہ یہاں ایک چیئر لفٹ بھی سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہے۔ پاکستان میں یہ اپنی طرز کی پہلی تفریحی سرگرمی تھی، یہ چیئر لفٹ علاقے کی سیاحت کا ایک بہتر ذریعہ ہے۔ پارک میں کئی اقسام کے پرندے جیسا کہ سنہری عقاب، جنگلی کبوتر، گدھ وغیرہ پائے جاتے ہیں جبکہ جانوروں میں کالا ریچھ، جنگلی لومڑی اور لگڑبگھڑ پائے جاتے ہیں۔ دیوسائی نیشنل پارک دنیا کے بلند ترین نیشنل پارکس میں سے پاکستان میں موجود ایک دیوسائی نیشنل پارک سیاحوں کے لیے جنت سے کم نہیں۔ 35 ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر پھیلا یہ نیشنل پارک اسکردو سے 53 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

اس جگہ کو 1993 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا تاکہ ہمالیائی بھورے ریچھ کی نسل کو خاتمے سے بچایا جاسکے کیونکہ اس نسل کے ریچھ کہیں اور نہیں پائے جاتے، اس کے علاوہ یہاں برفانی چیتے اور اڑیال سمیت کئی اقسام کے نایاب عقاب بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ پارک سال کے آٹھ سے نو ماہ تک مکمل طور پر برف سے ڈھکا رہتا ہے اور صرف جون سے اگست کے دوران سیاح یہاں آسکتے ہیں، مگر یہاں رہائش کی سہولت دستیاب نہیں۔ پنجال مستان نیشنل پارک پنجال مستان نیشنل پارک آزاد کشمیر کے ضلع باغ میں سطح سمندر سے 8500 فٹ اونچائی پر واقع ہے۔

پارک 300 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ نومبر سے اپریل تک پارک برف سے ڈھکا رہتا ہے، بہار کے موسم میں پارک پھولوں اور کئی اقسام کی تتلیوں کے ساتھ ایک منفرد نظارہ پیش کرتا ہے۔ لال سنہارا نیشنل پارک بہاولپور سے 36 کلومیٹر دور ستاسی ہزار ایکٹر رقبے پر پھیلے اس پارک کا کچھ حصہ قدرتی جنگلات اور کچھ صحرائے چولستان پر مشتمل ہے۔ یہاں موجود جھیل اور اس میں ہزاروں بطخیں انتہائی خوبصورت منظر پیش کرتی ہیں۔ یہاں ایک چڑیا گھر بھی ہے جس میں کئی جانور موجود ہیں جبکہ نیشنل پارک میں کالے ہرن، چنکارہ، باز، دلدلی شکرے اور دیگر پرندوں کی اقسام پائی جاتی ہیں۔ 

وادیٔ بروغل بروغل کی وادی میں واقع یہ خوبصورت نیشنل پارک چترال شہر سے ڈھائی سو کلومیٹر سے زائد فاصلے پر گلگت بلتستان میں واقع ہے، بروغل کی وادی اپنے خوبصورت قدرتی مناظر، برف پوش چوٹیوں، شاندار کرمبر جھیل اور پچیس سے زیادہ چھوٹی جھیلوں کے ساتھ تین اہم گزرگاہوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ گزرگاہیں اس وادی کو مغرب میں کانخن پاس کے ذریعے واخان کوریڈور سے ملاتی ہیں۔ لولوسر- دودی پت نیشنل پارک خیبرپختونخواہ کے مشرقی حصے میں واقع وادیٔ کاغان قدرتی وسائل، ناقابل یقین خوبصورت مناظر اور جسم میں سنسنی دوڑا دینے والی جھیلیں مختلف شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتی ہیں۔ 

یہاں کے مقامی افراد موسم گرما میں اپنے مویشیوں کے ہمراہ پہاڑوں کے اوپر چلے جاتے ہیں اور سردیوں میں واپس نیچے آجاتے ہیں۔ 2003ء میں لولوسر اور دودی پت سر جھیلوں کو لولوسر۔ دودی پت نیشنل پارک قرار دیا گیا تھا، جس میں ضلع مانسہرہ کا تیس ہزار ایکڑ سے زائد کا علاقہ شامل تھا، جس کا مقصد اس علاقے کی انفرادیت اور حیاتیاتی تنوع کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔ سیف الملوک نیشنل پارک ضلع مانسہرہ کی سب سے مشہور اور خوبصورت جھیل سیف الملوک ہے اور اس کے ارگرد کے علاقے کو 2003 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا تھا، یہ مقام اپنے پھولوں، درختوں اور پرندوں کی بدولت جانا جاتا ہے۔

 دو لاکھ بیس ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلا یہ نیشنل پارک سطح سمندر سے تقریباً 3244 میٹر بلندی پر واقع ہے۔جھیل سیف الملوک میں ملکہ پربت اور دوسرے پہاڑوں کا عکس اس میں پڑتا ہے جو اس کی خوبصورتی کو مزید بڑھا دیتے ہیں خاص طور پر جب ناران سے جھیل سیف الملوک تک چودہ کلومیٹر کا سفر طے کر کے اس پر پہلی نظر پڑتی ہے تو ایک جادو سا ہو جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اللہ نے جنت زمین پر اتار دی ہے۔

سعدیہ امین



تہذیبوں کا تصادم...

0
0

چارلی ہیبڈو نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے شمارے کے سرورق پر رسالت مآب ﷺ کا خاکہ شائع کرے گا۔ اس ہفت روزے کا وکیل کہتا ہے:’’ہم ہار نہیں مانیں گے۔ میں چارلی ہوں۔ کا مطلب ہے ’’توہین کی آزادی‘‘ ۔ یہ کہا گیا کہ اس بار طلب کی بڑھنے پر یا شمارہ تیس لاکھ کی تعداد میں شائع ہوگا۔ معمول میں یہ کبھی ساڑھے سات ہزار سے زیادہ نہیں چھپا۔ کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ دنیا تہذیبوں کے تصادم کی طرف بڑھ رہی ہے؟

دو باتیں بڑی واضح ہیں۔ ایک یہ کہ مغربی اور اسلامی تہذیبوں میں ایک جوہری فرق ہے۔ مغربی تہذیب کا الہامی روایت سے کوئی تعلق اب باقی نہیں رہا۔ یہ اس وقت لبرل ازم کا دوسرا نام ہے۔ مغربی انسانی آزادی کے ایسے تصور پر کھڑا ہے ، جس پر مذہب یا قانون کی کوئی پابندی اسے گوارا نہیں۔ یقدس کے کسی احساس کے لیے اس تہذیب میں کوئی جگہ نہیں۔ اسلامی تہذیب جن اقدار پر کھڑی ہے ، اس میں حفظِ مراتب ایک بنیادی قدر ہے۔ 

یہ الہام کو اپنی اساس مانتی اور اس سے وابستہ ہر تصور کو مقدس سمجھتی ہے۔ االلہ ، رسول ﷺ ، کتاب اللہ، یہ سب الہامی تصورات ہیں۔ وہ حسبِ مراتب ان کو محترم جانتی اور انکی توہین کے لیے، اس کی تہذیب میں کوئی جگہ نہیں۔ اسلام اس دائرہ کو ان تصورات تک محدود نہیں رکھتا جنکا تعلق صرف مذہب سے ہے۔ وہ اسے سماجی رشتوں تک پھیلا دیتا ہے۔ یہی نہیں، وہ تو اپنے ماننے والوں کو اس سے بھی منع کرتا ہے کہ وہ ان جھوٹے خداؤں کو برا کہیں، جنہیں انکے ماننے والے سچا سمجھتے ہیں۔

دوسرا یہ کہ مغرب کے نزدیک عالمگیر تہذیب سے مراد مغربی تہذیب ہے۔   دوسری تہذیبوں کی ان اقدار کو قبول کرنا جو مغربی تہذیب سے ہم آہنگ ہیں۔ اگر  قدر ایسی ہے جو مغربی تہذیب کیلئے قابل قبول نہیں تو کثیر المدنیت کا تقاضا ہے کہ اسے قبول کیا جائے۔ وہ ایسی قدر کو صرف اس وقت قبول کرتا ہے جب وہ اسکے تہذیبی مزاج سے ہم آہنگ ہوجائے۔ توہین آمیز خاکوں کی اشاعت ہی اس بات کو سمجھنے کیلئے کفایت کرتی ہے۔ مسلمان آج مغرب کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ 

موجودہ مغرب کی تہذیبی شناخت میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ کثیر المدنیت کا لازمی تقاضا ہے کہ وہاں میڈیا اور دوسرے ادارے مسلمانوں کی حساسیت کو پیشِ نظر رکھیں۔ مسلمانوں کا یہ مطالبہ خود اس تہذیب سے متصادم نہیں ہے کہ وہ جن تصورات یا شخصیات کو مقدس جانتے ہیں، انکی توہین نہ کی جائے۔ لیکن اس مطالبے کو قبول نہیں کیا جاتا اور چارلی ایبڈو کے اس حق کا دفاع کیا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کی مقدس شخصیات کی توہین کرے۔

یہ دو باتیں اس وقت مسلمانوں اور مغرب کے مابین ایک خلیج کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ لازم ہو گیا ہے کہ اس پر مکالمہ ہو۔ اگر مغرب کی طرف سے انسانی آزادی کے اس بے مہار تصور کو دوسرے کے جذبات سے مشروط نہ کیا گیا تو اس بات کا پورا امکان موجود ہے کہ دنیا فساد کا گھر بن جائے ۔ اس دنیا میں ظاہر ہے کہ مغرب بھی شامل ہے۔ 1989ء میں سلمان رشدی کا واقعہ ہوا۔ مغرب نے اس وقت بھی مسلمانوں کی حساسیت کو محسوس نہ کیا۔ اس حرکت پر، اسکی مذمت کرنے کے بجائے، اسے ایک ہیرو کا درجہ دیا گیا۔ اسے اعزازات سے نوازا گیا۔ اس سے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے نے یہ خیال کیا کہ مغرب رسالت مآب ﷺ کی حرمت پر اس ناپاک حملے میں شریک ہے۔

 اگر اس وقت مغرب اپنے رد عمل میں توازن کا مظاہرہ کرتا تو پیرس کا یہ واقعہ نہ ہوتا۔ اب بھی مغربی حکومتوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور مسلمان حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ مغرب سے سنجیدہ مذاکرات کریں۔ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے بین المذاہب مکالمے کا آغاز کیا ہے۔ ان جیسی با اثر شخصیت اگر اس باب میں پیش قدمی کرتی ہے تو اس سے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک کوشش سول سوسائٹی کی سطح پر بھی کی جا سکتی ہے۔

اس سارے معاملے کا ایک پہلو وہ ہے جسکا تعلق مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ مسلمانوں کو ایک ایسے سماج میں کیسے رہنا چاہیے جو کثیر المدنی ہو اور جہاں زمامِ کار انکے ہاتھ میں نہ ہو؟ ہم مغرب سے مسلمانوں کی تہذیبی اقدار کے احترام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر مغرب میں رہنے والے مسلمانوں سے ایسا ہی مطالبہ کریں تو کیا یہ غلط ہو گا؟ ان سوالات کے جواب کے لیے معاملے کا ایک دوسر پہلو بھی سامنے ہونا چاہیے ۔ مسلمان اپنے لیے بطور اقلیت جو آزادی چاہتے ہیں، کیا وہ مسلم اکثریتی معاشروں میں اقلیتوں کو دینے کے لیے آمادہ ہیں؟ چند مسلمان اہلِ علم ان سوالات کو مخاطب بناتے ہیں۔ فقہ الاقلیات تحقیق کا ایک مضمون ہے۔ 

اس میں اہلِ علم ان مسائل کو زیر بحث لاتے ہیں جن کا تعلق مسلم اقلیتوں سے ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا چونکہ سنجیدہ موضوعات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا ، اس لیے اس نوعیت کی تحقیقات کم ہی سامنے آتی ہیں۔ اس موضوع کے متعلق ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر کسی غیر مسلم سماج میں کوئی شخص ایسی حرکت کا ارتکاب کرتا ہے جو اسلامی تہذیب کے خلاف ہے تو ایک مسلمان کا ردِ عمل کیا ہونا چاہیے؟ یا اگر ایک مسلمان کسی غیر مسلم ملک کا شہری ہے تو کیا اس ملک کے قوانین کی پابندی شرعا اس پر لازم ہے؟

میرا خیال ہے کہ ان سوالات پر نہ صرف ان مسلمانوں کو غور کرنا ہے جو مغرب میں رہتے ہیں بلکہ ہمارے لیے بھی انکی اہمیت کم نہیں جو مسلم اکثریتی ملک کے شہری ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ ابلاغ کے انقلاب نے فاصلوں کو بے معنی بنا دیا ہے۔ مسلم اکثریت، مسلم اقلیت کے اعمال سے متاثر ہوتی ہے اور اسی طرح اقلیت اکثریت کے اثرات سے بچ نہیں سکتی۔ فرانس میں ہر مسلان ملک کے شہری آباد ہیں۔ یہ شہری وہاں کے حالات سے متاثر ہوں گے۔ عامر چیمہ کا واقعہ ذہن میں تازہ کر لیجیے جو جرمنی میں ہوا تھا۔ پاکستان اس حادثے سے براہ راست متاثر ہوا۔

اس میں ایک کردار پوپ فرانسس کا بھی ہے۔ انہوں نے اس واقعے کی مذمت کی۔ انہوں نے ایک مذہبی رہنما کی طرح ان لوگوں کی ہدایت کے لیے بھی دعا کی جو ایسے واقعے کے ذمہ دار ہیں۔ پوپ نے لیکن انکے بارے میں کچھ نہیں کہا جا اشتعال دلاتے اور بار بار اسکا ارتکاب کرتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسکا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے۔ پوپ امن کے داعی ہیں۔ انہیں آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ لبرل معاشرے میں ایک مذہبی رہنما کی پزیرائی کم ہے لیکن وہ اپنے ماننے والوں کو تو مخاطب بنا سکتے ہیں۔ آخر جنس پرستی جیسے مسائل پر بھی انہوں نے لبرل طبقے کی ناراضی کو نظر انداز کیا۔ یہ معاملہ تو اس سے سنگین تر ہے جس سے اب انسانی جان و مال کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

چارلی ایبڈو کا تازہ اعلان تہذیبوں کے تصادم کو مہمیز دے گا۔ میرا مشورہ ہے کہ پاکستان کی حکومت وزارتِ خارجہ کے توسط سے اس معاملے کو اقوامِ عالم کے فورمز پر اٹھائے۔ اگر مغرب ہولوکاسٹ کے لیے قانون سازی کرسکتا ہے ، انسانی حقوق کے لیے حساس ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ مسلمانوں کے معاملے میں بے حس کیوں ہے۔؟ اسی طرح مسلمانوں کو بھی سوچنا ہو گا کہ ایک غیر مسلم سماج تصادم سے بچنا ہے تو افراد اور معاشروں کو مکالمہ کرنا ہوگا۔ ایک تہذیبوں کے مابین اور ایک خود اپنے حلقوں میں۔

خورشید ندیم

"بہ شکریہ روزنامہ ’’دنیا

 

پولیس کی تفتیش کیسے ہوتی ہے...

0
0


پولیس کی تفتیش کیسے ہوتی ہے اور جرم‘ خاص طور سے قتل کے کیس میں ثبوت کیوں ضروری ہے؟ یہ اتنے مشکل سوال ہیں کہ شاید نواز شریف کیلئے ان کا سمجھناآسان نہیں ہے یا پھر یہ اتنے غیر اہم ہیں کہ نواز شریف کوان پر غور کی ضرورت ہی نہیں ۔

چند ہفتے پہلے گرین ٹاؤن لاہور میں ایک معصوم بچے معین کا دردناک اور وحشیانہ قتل ہوا۔ اسے زیادتی کے بعد مسجد میں مؤذن کے کمرے کے باہرپھانسی دیدی گئی۔ پولیس نے موذن اور امام مسجد کو فوراً گرفتار کر لیا اور دو ہفتے تک ان کے ساتھ وہ کیا کہ کیا گوانٹا نامو والوں نے بھی القاعدہ کے ساتھ کیا ہوگا۔ آخر کار موذن نے اعتراف جرم کر لیا۔ نہ صرف اعتراف بلکہ پوری تفصیل بھی بتا دی کہ اس نے بچے کو کیسے اغوا کیا‘ کیسے قابو کیا‘ کس طرح پھندا بنایا‘ کس طرح گردن توڑی۔

 ترمیم کے مطابق سرسری سماعت کی عدالتوں کو فیصلہ کے لئے صرف تفتیشی افسر کا بیان چاہئے۔ تفتیشی افسر کا بیان یہ تھا کہ موذن نے بچے کو اغوا کیا‘ اس کی گردن توڑی‘ پھر پھندے سے ٹانگ دیا۔ اب سوچئے‘ یہ مقدمہ سرسری عدالت میں چلتا تو مؤذن کا اب تک چہلم بھی ہو چکا ہوتا لیکن اتفاق سے عدالتیں بنتے بنتے دیر ہوگئی اوراس دوران اصل قاتل نے اعتراف جرم کر لیا۔ موذن کی جان بچانے میں لاہور کے سی سی پی امین وینس کی فرض شناسی نے کردار ادا کیا۔ اس نے ڈی این اے ٹیسٹ کرایا۔ سرسری قانون میں خدا جانے ڈی این اے ٹیسٹ کی کچھ اہمیّت ہے کہ نہیں۔

نیا انصاف ثبوت‘ گواہی‘ شہادت سے بے نیاز ہے۔ ایک اور واقعہ کا ذکر بھی ہو جائے۔ ایک قاتل کو ہائیکورٹ نے اس وقت بری کر دیا جب اسے یہ ثبوت ملے کہ مقتول کو کسی اور نے قتل کیا تھا لیکن لواحقین نے جن کی مبیّنہ قاتل سے دشمنی تھی‘ حساب چکانے کے لئے اسے نامزد کر دیا۔ اسے ماتحت عدالتوں سے سزائے موت ہوئی تھی۔

ابتدائی شواہد پرکہیں بھی اور کبھی بھی فیصلے نہیں سنائے جاتے۔ اصل مجرم کئی بار کوئی اور نکلتا ہے۔ لیکن نئے انصاف میں طے ہے کہ جو بھی گرفتار ہو‘ اسے پھانسی دی جائے گی۔ چلئے‘ اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن نام پر اعتراض ہے اور ایک نہیں‘ دو دو اعتراض۔ ایک تو یہ کہ سرسری سماعت کا لفظ ختم کیا جائے۔ سرسری سماعت اس کارروائی کو کہتے ہیں جس میں سماعت کا دورانیہ مختصر ہو۔ جہاں سماعت کی کوئی گنجائش ہی نہ ہو اسے سرسری سماعت کیسے کہا جا سکتا ہے۔ اسے تو لاپتہ سماعت کی عدالت کہئے اور پھر دوسرا اعتراض لفظ عدالت پر ہے۔ عدالت کا لفظ عدل سے نکلا ہے۔ ہاں کورٹ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ کورٹ کے لفظی معنوں میں عدل کا ذکر نہیں ہے۔ تو نیا نام یوں کیوں نہ رکھ لیا جائے کہ لاپتہ سماعت کی کورٹ ۔ اور پھر جتنے چاہیں دار پر چڑھا دیں۔ کم از کم عدل کا لفظ تو دہائی نہیں دے گا۔

کیسی مزے کی لیکن ’’بامعنے‘‘ دلیل دی جا رہی ہے کہ عام عدالتیں گواہوں اور ثبوتوں کے بغیر سزا نہیں سناتیں اس لئے فوجی عدالتیں ضروری ہیں۔ بگلے کا شکار اس کے سر پر موم بتی رکھ کر کرنے کی آخر کیا ضرورت ہے۔ آئین میں غیر آئینی کے بجائے ’’آئینی‘‘ ترمیم کرتے اور ضابطہ فوجداری بدل دیتے۔ عدالتوں کے لئے طے کر دیتے کہ وہ ثبوت اور گواہوں کے چکر میں نہیں پڑیں گی اور پولیس کے تفتیشی افسر کی سفارشات پر عمل درآمد کی پابند ہوں گی۔ یوں مقصد بھی پورا ہو جاتا اور غیر آئینی اقدام کی تہمت سے بھی بچ جاتے۔ خیر‘ یہ بحث تو بے فائدہ ہے لیکن اس تفتیشی افسر کو انعام کون دے گا جس نے قتل سے لاعلم اور لاتعلّق موذن سے نہ صرف اعتراف جرم کرالیا بلکہ ارتکاب جرم کی لمحہ بہ لمحہ تفصیل بھی حاصل کر لی۔ اسے کیوں نہ نوبل امن انعام کیلئے نامزد کیا جائے؟
______________________

عقل صحرائے گم میں اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہی ہے کہ میاں نواز شریف کو عدلیہ پر اتنا عدم اعتماد ہے تو انہوں نے عدلیہ کی بحالی کی تحریک کیوں چلائیتھی؟

قوم کو وہ منظر یاد ہے۔ دسیوں لاکھ افراد ان کی کال پر سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ اگرچہ ساری کال ان کی نہیں تھی‘ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بھی آگے آگے تھیں اور ملک بھر کے وکلاء بھی اگلی صفوں میں تھے۔ اتنا بڑا جلوس برّصغیر کی تاریخ میں نہیں نکلا تھا۔ لوگ بیوی بچوں سمیت گھروں کو تالے لگا کر آئے تھے۔ اس وقت کوئی کہتا کہ نواز شریف اسی عدلیہ پر عدم اعتماد کرد یں گے تو لوگ اسے زرداری کا ایجنٹ کہتے۔ اب وہ کیا کہیں۔ نواز شریف کو عدلیہ پر عدم اعتماد کیوں ہے اور اس کورٹ پر اعتماد کیوں ہے جس نے ایک منتخب وزیراعظم کو طیارہ ہائی جیک کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا دی تھی۔ ایسا ہی اعتماد ہے تو پھر وہ سزا ٹھیک تھی۔ وہ کورٹ ملی جلی تھی اس لئے عمر قید دی۔ ’’خالص سرسری کورٹ‘‘ ہوتی تو بات آگے جانی تھی جو اصل ہائی جیکر کا مدعا تھا۔ عقل بالکل ہی گم ہوگئی ہے یہ سوچ کر کہ نواز شریف کو ’’ذاتی تجربے‘‘ کے باوجود اعتماد کیوں ہے؟ سچ ہے‘ بعض سوالوں کے جواب نہیں ملتے۔

اور بعض بیان بھی لاجواب ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اپنی پارٹی کے ’’قائد‘‘ بلاول کے بیان کا مذاق اڑاتے ہوئے پارٹی کے پارلیمانی لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ہم نے پارلیمنٹ کی ناک کٹوا کر ملک بچا لیا۔ چیئرمین بلاول نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ نے اپنی ناک کٹوالی۔
خورشید شاہ نے ایسا لاجواب بیان کیوں دیا؟ شاید وہ بلاول کے نہیں بھٹّو کے پیروکار ہیں۔ وہی بھٹو جنہوں نے1971ء میں ایسٹ بنگال آپریشن شروع ہونے پر کراچی میں یہ بیان دیا تھا کہ ’’ملک بچ گیا‘‘۔
 
عبداللہ طارق سہیل

کیا دینی مدارس خطرے میں ہیں؟....

0
0


میرا گمان ہے کہ پاک فوج ہو یا مسلم لیگ نون کی حکومت ، یہ دونوں ہی مدارس کونقصان نہیں پہنچا سکتے، پاک فوج جغرافیائی سرحدوں کی محافظ ہے تو مدارس نے نظریاتی سرحدوں کی محافظت سنبھال رکھی ہے، اگرچہ مسلم لیگ نون سمیت تمام مسلم لیگوں بارے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح کی مسلم لیگ کا تسلسل ہیں مگر اس کے باوجود میں تمام مسلم لیگی دھڑوں کو’ سنٹر رائیٹ‘ کی جماعتیں سمجھتا ہوں، ان میں ٹخنوں سے اونچی شلواریں رکھنے اور لمبی لمبی ڈاڑھیاں رکھنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں مگر کلین شیو اور مونچھوں کو فیشن کے طور پررکھنے والے مذہب کا سوال اٹھنے پرپکے ، سچے مسلمان بن جاتے ہیں۔میرے گمان کے برعکس قیام پاکستان سے دینی تعلیم کی خدمت سرانجام دینے والے تاریخی ادارے جامعہ اشرفیہ میں ایک مہربان دوست نے کہاکہ مسلم لیگ نون کی ہر حکومت میں مدارس نشانہ بنے ، میں اب بھی پورے یقین سے نہیں کہہ سکتاکہ اکیسویں آئینی ترمیم کے بعد حکومت اور فوج کی طرف سے کارروائی میں دینی مدارس کونشانہ بنانے کی اطلاعات کتنی درست، کتنی غلط ہیں ۔

اگر یہ کہا جائے کہ مدارس دہشت گردی میں ملوث ہیں تویہ ایک غلط بیان ہو گا مگر یہ کہنا بھی اتناہی غلط ہو گا کہ مدارس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں، اس بارے کوئی ’سویپنگ سٹیٹمنٹ‘ جاری نہیں کی جا سکتی،جہاں انہی مدارس میں اختلاف کو علم کے فروغ کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے وہاں ایسے مدارس بھی موجود ہیں جہاں اختلاف کرنے والوں کو کافر قرار دیا جاتا ہے۔ ہم مسلمان دوسرے مکاتب کو کافر اور تمام کافر تمام مکاتب فکر کو مسلمان سمجھتے ہیں۔میں یہی سوال لے کر جامعہ اشرفیہ میں پروفیسر مولانا یوسف خان، مولانا مفتی احمد خان، مولانا اکرم کاشمیری، مفتی شاہد عبید، مولانا فہیم الحسن ، مجیب الرحمان انقلابی سمیت دیگر کے پاس موجود تھا،وہ واضح کر رہے تھے کہ جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کسی شخص، گروہ یا جماعت پر نہیں بلکہ ریاست کی ذمہ داری ہے ، ان کا کہنا ہے کہ مدارس کے نصاب میں دہشت گردی ہرگز ہرگز شامل نہیں، وہاں میٹرک تک دنیاوی تعلیم بھی دی جاتی ہے اور اس کے بعد دیگر تمام تعلیمی اداروں کی طرح مدارس میں بھی سپیشلائزیشن شروع ہوجاتی ہے، جہاں تک مدارس کے نصاب میں دیگر جدید علوم شامل کرنے کا سوال ہے تو کیا انجینئرنگ یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں فقہ اور تجوید کی تعلیم دی جاتی ہے۔ جامعہ اشرفیہ کے اساتذہ کرام کا کہنا تھا کہ صحافی اور اینکر حضرات کو چاہیے کہ وہ دینی مدارس کے دورے کریں، وہاں کے کام او ر نظام کو سمجھیں اوراس کے بعد اس پرتنقید کریں، مدرسوں سے بغض رکھنے والے بھی کم نہیں،حال ہی میں یہ بھی ہوا کہ ٹاون شپ میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والے ایک بچے کی نعش مسجد سے ملی، میڈیا مولویوں پر چڑھ دوڑا، یہ خبر بھی دی گئی کہ موذن وہاں سے فرار ہو چکا ہے مگر ڈی این اے ٹیسٹ سے حقیقت کھلی کہ اصل مجرم مقامی حجام ہے۔

یہ درست ہے کہ پاکستان میں دینی تعلیم دینے والے مدارس کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ہمار ے پاس بریلوی، دیوبندی، شیعہ اور اہل حدیث سمیت پانچ مکاتب فکر کے رجسٹرڈ مدارس موجود ہیں۔ ان مدارس کے نصاب میں کوئی قابل اعتراض شے نہیں مگر اصل مسئلہ تو تشریحات سے پیدا ہوتا ہے، سورۃ توبہ میں قتال فی سبیل اللہ کے واضح احکامات سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور کوئی بھی معلم جہاد کے لازمی سیاسی و معاشرتی تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ان کی من چاہی تشریح کر سکتا ہے۔ عمومی رائے ہے کہ فساد مدارس سے نہیں بلکہ تنظیموں کے ذریعے برپاہوتا ہے مگر دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سارے مدارس کا تعلق بہت ساری تنظیموں سے ہے۔

اوپر بیان کئے گئے تمام مکاتب فکر کی اپنی اپنی سیاسی جماعتیں ہیں اور انہی سیاسی جماعتوں کی آگے ذیلی تنظیمیں بھی ہیں جو ایک دوسرے سے پوری طرح جڑی ہوئی ہیں۔ مدارس کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے مگرمسئلہ تو اس وقت پید اہوا جب امریکی کے ساتھ ساتھ کسی حد تک پاکستانی مفادات کی خاطر ریاستی سربراہی میں افغان جہاد شروع ہوا۔ یہ امر کوئی خفیہ نہیں کہ وہاں مجاہدین کی کھیپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جغرافیائی حدود میںموجود مدرسوں سے بھیجی گئی، امریکہ اس کام کی سرپرستی اور فنڈنگ کرتا رہا، امریکی اثرو رسوخ میں موجودوسط ایشیائی اور عرب ریاستوں میں موجودکھرب پتیوں نے اپنی اربوں روپوؤں کی زکوٰۃ کارخ پاکستانی مدرسوں کی طرف موڑ دیا۔ 

زکوٰۃ اسلامی معاشی نظام کا ایک بہت ہی مثبت پہلو ہے ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور سے زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم ریاست کی ذمہ داری رہی ہے مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا، اسلامی ریاست اپنے معاملات چلانے کے لئے ٹیکسوں کی وصولی میں تو فعال ہوتی چلی گئی مگر غریبوںاور مجبوروں کی مدد کے لئے زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کا عمل ناقص سے ناقص ترین ہوتا چلا گیا۔ پھر یوں ہوا کہ شہریوں نے ریاستی اداروں کی بری کارکردگی پر ٹیکس دینے سے پہلو تہی شروع کر دی اوراس کے ساتھ ساتھ صاحب نصاب لوگوں نے بھی زکوٰۃ کی براہ راست ادائیگی کو ترجیح دی، میں نے ایک بڑے ضلعے میں تعینات سرکاری افسر سے پوچھا کہ تمہارے ضلعے میں دینی مدارس کھمبیوں کی طرح کیوں اگے ہوئے ہیں، جواب ملا، یہ ایک صنعتی علاقہ ہے، یہاں ہزاروں کی تعدا دمیں کروڑ اور ارب پتی سرمایہ دار موجود ہیں، جن میں سے ہر کوئی ہر برس لاکھوں او رکروڑوں روپے زکوٰۃ کی مد میں نکالتا ہے لہٰذابھرپور فنڈنگ ہونے کی وجہ سے مدارس ایک انڈسٹری کی طرح پھل پُھول رہے ہیں،بہت سارے مدارس کے ان ممالک سے بھی رابطے ہو گئے جو اپنے اپنے سرکاری فرقے کو پاکستان میں مضبوط دیکھنا چاہتے تھے۔

امریکہ سے شکوہ ہے کہ اس نے سوویت یونین کوختم کرنے کے بعد ہمارے مجاہدین کو لاوارث چھوڑ دیا اور ہمارے ریاستی ادارے اس غیرمنظم فوج کے مستقبل بارے کوئی منصوبہ بندی نہیں کرسکے، ہم ان غیرروایتی اور غیر ریاستی فوجیوں کونوکریوں، کاروباروں اور دیگر اشغال میں مصروف کرنے میں ناکام رہے کہ یہ ہماری اہلیت اور بجٹ دونوں سے باہر کی چیزیںتھیں۔ بہت سارے دیہی مدارس میں بچوں کی عزت نفس بھی پامال ہوتی ہے جب انہیںمانگے تانگے کے پیسوں سے خوراک اور کپڑے فراہم کئے جاتے ہیں اور ان کی آمدن کا ذریعہ زکوٰۃ اور صدقات رہ جاتے ہیں۔ میں اسی وجہ سے کہتا ہوں کہ دین کی تعلیم اور مساجد کی امامت کا کام فی سبیل اللہ ہونا چاہئے یا ریاست کو یہ ذمہ داری سنبھال لینی چاہئے ۔مجھے عجیب محسوس ہو رہا ہے کہ بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان میں صرف فوجی عدالتوں کاقیام ہی اس وقت سب سے بڑا موضوع بحث بنا ہوا ہے جبکہ مدارس کی اصلاح ، جس میں سب سے اہم ان کی فنڈنگ پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا ہے، کسی طور ڈسکس ہی نہیں ہو رہا۔ مدارس دہشت گردی میں ملوث ہوں یانہ ہوں، انہیں فی الوقت کوئی خطرہ نہیں کہ ان کے سرپرست سیاسی دھڑے ان کی اصلاح کا کام روکنے کے لئے خم ٹھونک کر حکومت کے مقابلے میں آ کھڑے ہوئے ہیں۔ پاکستانی مدرسے پاکستان کے غریب عوام کے بچوں کو دینی تعلیم سے نواز کے ایک بہت بڑی خدمت کر رہے ہیں جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگرانہیں شتر بے مہار نہیں رکھاسکتا۔

 کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے دینی سیاسی رہنما اکیسویں آئینی ترمیم پر سیخ پا ہوتے ہوئے حکومت سے سوال کرتے ہیں کہ کون سے مدرسے دہشت گردی کی تربیت دیتے ہیں، یہ لاعلمی سیاسی چابکدستی تو ہوسکتی ہے، معصومیت اور نااہلی نہیں۔پاکستانی ریاست جہاں کھڑی ہے وہاں آگے کنواں،پیچھے کھائی ہے کہ ہم مدارس کو دین اور معاشرے کی خدمت کا ذریعہ سمجھتے ہیں مگردوسری طرف دنیاہمارے مسئلے کو ہماری نظر سے دیکھنے پرتیار نہیں۔وہ فرانس کے شمارے میں توہین آمیز خاکے شائع ہونے کا عمل نہیں روکتی مگر اسلام پسندوں سے کہتی ہے کہ اپناردعمل کو روک لیں، حالانکہ ان کی دی ہوئی تعریف کے مطابق ان کی آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں ہماری ناک شروع ہوتی ہے۔ اس وقت ہماری ریاست بجا طور پرمدارس کوکنٹرول کرنا چاہتی ہے مگر اس ردعمل کنٹرول نہیں کر سکتی جس کا ذکر نیوٹن کے قانون میں ہے کہ ’ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے، ردعمل اور عمل باہم برابر لیکن مخالف سمت میں ہوتے ہیں‘۔ مدرسے امن کے لئے ایک خطرہ ہیں یا خود مدرسے خطرے میں ہیں، تہذیبوں کے تصادم کے المیے میں مدرسوں ہی نہیں تمام ایمان والوں کے مستقبل پر بحث اور زیادہ اہم ہوجاتی ہے۔

Najam Wali Khan

جماعت اسلامی کی جمہوریت....

تیل کی مارکیٹ میں مسلسل بحران....

عدم مساوات - پاکستان کی صورت حال....

0
0

اگر ہم اپنے ملک کا جائزہ لیں تو حالات کی خرابی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ پاکستان میں چند ہزار لوگ ایسے ہیں جو دولت کو تیزی سے اپنی طرف کھینچتے نظر آتے ہیں۔پیسے سے پیسہ تیزی سے کمایا جارہا ہے۔کرپشن کے بڑے سکینڈل کچھ کم رپورٹ ہورہے ہیں۔لیکن نچلی سطح پر یہ کام اب بھی کھلم کھلا جاری ہے۔پاکستان میں دس امیر ترین لوگ ایسے ہیں جن کی دولت اب ایک ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔ان میں سے چند کا ذکر اب عالمی امراء کی لسٹ میں ہوتا ہے۔ان دس میں سے ایسے لوگ زیادہ ہیں جنہوں نے یہ دولت ناجائز طریقے سے سمیٹی ہے۔ان دس میں سے ایسا کوئی بھی نہیں جس نے محنت کرکے کوئی تخلیق کی ہو۔کوئی نئی شے بنائی ہو۔یا ایجاد کرنے والوں کی فہرست میں اس کا نام آیا ہو۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی بل گیٹس نہیں ہے۔

دس امیر ترین لوگوں کی فہرست جو میرے سامنے پڑی ہے ان میں رئیل اسٹیٹ سے پیسہ کمانے والے زیادہ نظر آتے ہیں۔کچھ معروف سیاستدانوں کے نام بھی10بڑوں میں شامل ہیں۔اگر کوئی صنعت کار ہے بھی تو یہ روٹین کے کاروباری لوگ ہیں۔پاکستان میں دولت کمانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بڑے بڑے پلازے ہوٹل اور بلڈنگیں بناؤ اور کرایہ سے دولت کماؤ۔پاکستانی معاشرے میں اب دولت کمانے کا ایک اور طریقہ جس کی طرف کافی لوگ جارہے ہیں وہ نئے ٹی وی چینل کھولنے کا بھی ہے۔ایسے ہی دس کی فہرست میں یہ پہلے ہی شامل ہوچکے ہیں۔ایسا ملک جہاں اشیاء سازی اور چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کرنا ضروری تھا اور ایسا ملک جہاں بے آبادزمینوں کو آباد کرنا ضروری تھا وہاں دولت کمانے کے لئے T.V چینلز کی لائن لگائی جارہی ہے۔یہ کام یورپ اور امریکہ میں اس وقت شروع ہوا تھا جب تمام لوگ تعلیم یافتہ ہوگئے تھے۔

کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تحقیقی کام بڑے پیمانے پر شروع ہوگیاتھا۔انہوں نے اپنی بے کار زمینوں کو گل وگلزار بنالیاتھا۔لوگ برسرروزگار ہوگئے تھے۔پاکستان میں غیر پیداآور کام کرکے دولت کمانے کا رجحان اب بہت بڑھ گیاہے۔سمگلنگ بھی پاکستان میں لوگ بڑے پیمانے پر کرتے ہیں اور راتوں رات امیر ہورہے ہیں۔ سٹیٹ بینک نے عدم مساوات(Inequality) پرجائزہ رپورٹ ایک سال پہلے انہی دنوں میں شائع کی تھی۔یہ اب بھی لاگو ہوتی ہے۔اس میں بتایا گیا ہے کہ شہروں میں رہائش پزیر اوپر والے20فیصد لوگ60فیصد آمدنی حاصل کرلیتے ہیں۔نیچے والے20 فیصد لوگوں کی آمدنیاں کل کا صرف 5 فیصد ہیں۔جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں چھوٹے شہروں اور گاؤں سے لوگ تیزی سے بڑے شہروں کا رخ کررہے ہیں۔

بڑے شہروں کی آبادیاں اب ملکوں کے برابر ہورہی ہیں۔ان زیادہ آبادیوں کی وجہ سے ہی اب شہروں میں رہائش پزیر سفید پوش زیادہ مشکل میں ہیں۔ان کی مشکلات اب دن بدن بڑھ رہی ہیں۔گزشتہ 10سالوں میں صرفی اور خاص طورپر غذائی اشیاء کے نرخ بہت بڑھے ہیں۔لہذا اشیاء بنانے والے اور بڑے خوراک پیدا کرنے والوں کے منافع میں تیزی سے اضافہ ہوا۔صنعت کار اور زمیندار فائدہ میں رہے۔مڈل کلاس اور غریب کے لئے اب خوراک جیسی بنیادی شے کا حصول مشکل ہوگیا ہے۔تعلیم اور صحت کی سہولیات بھی شہروں میں بڑی مہنگی ہیں۔مڈل کلاس شہری جو کچھ کماتا ہے وہ تمام کا تمام ماہانہ اخراجات پر لگ جاتا ہے۔بچتیں سرے سے نہیں ہورہیں۔گزشتہ چند سالوں میں حکومت کی طرف سے مختلف زرعی پیداواروں کی خریداری کے نرخوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا۔گندم کا خریداری نرخ ابھی چند سال پہلے صرف450 روپے فی40کلوگرام تھا اور اب1250روپے ہوگیا ہے۔

حکومت نے کوئی ایسی پالیسی نہیں بنائی کہ شہروں میں رہنے والے مڈل کلاس اور غریبوں کو سستا آٹا مل سکے۔زرعی پیداواروں کے خریداری نرخ بڑھانا غلط تو نہ تھا۔ لیکن حکومت نے شعبہ صر ف کی طرف توجہ نہ دے کر بڑے پیمانے پر عدم مساوات پیدا کی۔اگر آٹا50 روپے کلو فروخت ہوگا تو ایک اوسط درجے کے خاندان کوماہانہ 2000روپے صرف آٹے پر خرچ کرنے پڑیں گے۔باقی غذائی اشیاء کے اخراجات علیحدہ ہیں۔گندم اور دوسرے اجناس کے خریداری نرخ بڑھا کر حکومت نے زمینداروں کی آمدنیوں میں اضافہ کیا اور غریبوں کے لئے کوئی رعایت نہ دے کر ان کو مزید غریب کیا۔پاکستان کی سٹاک مارکیٹ بہتر کارکردگی دکھاتی نظر آتی ہے۔لیکن یہاں اس Activityمیں حصہ لینے والے چند ہزار لوگ ہی تو ہیں۔مڈل کلاس اور غریب آدمی کا اس بہتر کاروبار سے کوئی تعلق نہ ہے۔

جب سے ملک میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ شروع ہوئی ہے بے شمار لوگوں کے کاروبار متاثر ہوئے ہیں۔چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے والے بجلی کے انتظار میں فارغ بیٹھے رہتے ہیں۔ان کے لئے اپنے کاروبار کے اخراجات پورا کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔کئی سالوں سے لوکل سطح پر انتخابات کے نہ ہونے سے معاشرے میں یہ محسوس کیاجارہا ہے کہ عام آدمی کا اختیارات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ان کے روزمرہ کے معاملات کا تعلق ضلعی اور تحصیل حکومتوں سے ہوتا ہے۔مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے لوگ تو پہلے ہی امیر ہوتے ہیں۔وہ حکومتوں سے ملنے والے فنڈز سے بھی کما لیتے ہیں۔پورے ملک میں دولت چند لاکھ کی طرف جاتی نظر آتی ہے۔

اشیاء بنانے والے کارخانہ دار ،اشیاء پیداکرنے والے بڑے زمیندار بینکوں کے مالک اور حصہ دار اور ایسے ہی بڑی کمپنیوں کے حصہ دار۔سمگلنگ میں جو تیر رہے ہیں ان کے بھی وارے نیارے ہیں۔ڈاکٹر اور وکلاء بھی دولت سمیٹنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔اگر ہم پاکستانی معاشرے کو دولت کے لحاظ سے مجموعی تقسیم کریں تو اوپر والے20 فیصد بہت خوشحال ہیں۔30 فیصد درمیانے طبقے والے بس گزارہ کررہے ہیں۔اور نیچے والے30 فیصد کے لئے جینا مشکل ہے۔مارکیٹ اکانومی نے تمام دنیا میں ایسی ہی صورت حال پیدا کردی ہے۔جب تک حکومت پاکستان میں کوئی بڑا کام نہیں کرے گی عدم مساوات بڑھتی چلی جائیگی۔اگر حکمران سوچیں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ عمران خان اور طاہر القادری کی طرف لوگوں کا رجحان کیوں ہے۔لوگ موجودہ صورت حال سے انتہائی مایوس ہیں۔صرف بے نظیر انکم سپورٹ کے ذریعے پورے معاشرے میں پھیلے کروڑوں غریبوں کو سکون میسر نہیں آسکتا۔امیر اور غریب کا فرق تمام صوبوں میں برابر بھی نہیں ہے۔بلوچستان میں یہ فرق کم ہے۔پنجاب،سندھ میں بہت زیادہ ہے۔

فاٹا اور صوبہ خیبر پختونخواہ کی معیشتیں تودہشت گردوں نے ویسے ہی برباد کردی ہیں۔کراچی میں ہڑ تالوں کی وجہ سے بے چار ے غریب ہی متاثر ہوتے ہیں۔امارت اور غربت کا فرق ہمارے معاشرے میں دہشت گردی نے بھی پیدا کیا ہے۔حکومت کو موجودہ معاشی نظام میں بڑے پیمانے پر مداخلت کرنی چاہیے۔Indirect taxesاب بھی مڈل کلاس اور غریب آدمی کے لئے بوجھ ہیں۔ضروریات زندگی پر ٹیکس ختم کرنا ضروری ہے۔اگر غریب اور امیر بازار سے کوئی ٹیکس شدہ ضروری شے ایک ہی نرخ پر خریدتا ہے تو بوجھ تو غریب نے ہی محسوس کرنا ہے۔حکومت اپنی آمدنی ملک میں موجود دولت مندوں پرProgressive Taxationسے پوری کرے۔دولت مندوں اور خاص طورپر دس بڑوں سے آمدنی حاصل کرنی چاہیے۔

کالم کے آخر میں یہی کہاجا سکتا ہے کہ حکومت صرفی اشیاء اور خاص طورپر غذائی اشیاء کے نرخ غریبوں اور مڈل کلا س کی قوت خرید کو سامنے رکھ کر وضع کرنے کا نظام بنائے۔پٹرول اور ڈیزل کے نرخ کافی کم ہوچکے ہیں۔لیکن غذائی اور دیگر صرفی اشیاء کے نرخ میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی۔سستے ڈیزل سے پانی نکالنا اور اپنی پیداوار کو سستے ڈیزل والی ٹرالی اور ٹرک سے مارکیٹ لانے کا فائدہ شہروں میں آباد غریبوں کو حاصل نہیں ہورہا۔اگر پٹرول اور ڈیزل کے سستا ہونے کا فائدہ صرف بڑے کارخانہ داروں اور زمینداروں کو ہی ملتا رہے گاتو امیر اور غریب کے درمیان دولت کے تفاوت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔روزگار کے مواقع بڑھانے کے لئے بڑی سڑکوں کے منصوبوں کی بجائے ملک میں کارخانے اور فیکٹریاں لگنا ضروری ہیں۔موٹر ویز اور ہائی ویز کی باری بہت بعد میں آتی ہے۔عدم مساوات کے درجے میں کمی کے لئے مزید کیا کرنا چاہیے یہ آئندہ کالم کے لئے رکھ لیتے ہیں۔

پروفیسر جمیل چودھری

معاشی دہشت گردی....

0
0

عوام کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے میں ناکام حکومت کو کیا نام دینا چاہئے؟ بجلی‘ گیس‘ پانی اور پٹرول کے بغیر زندگی کی گاڑی کیسے چل سکتی ہے؟ پٹرول بحران سے عوام کی زندگی کا پہیہ جام ہوا۔ آخر کیوں ہوا؟ چیئرمین اوگرا ہوں یا وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی‘ کسے موردالزام ٹھہرایا جائے؟ بجلی‘ پانی‘ گیس‘ پٹرولیم کے وزیر کس کام کے جو عوام کو پیسے کے بدلے بنیادی اشیاءفراہم نہیں کر رہے۔ کیا پٹرولیم بحران کیلئے بھی کوئی جوڈیشل کمیشن بنے گا۔ اگر بن بھی جائے تب بھی جن لوگوں نے بحران سے فائدے اٹھا لئے‘ انکا کیا بگڑے گا۔ 

کیا کوئی ایسا کمیشن بنایا جا سکتا ہے جس کی رپورٹ کے نتیجے میں کسی ذمہ دار کی شامت آئی ہو؟ حمودالرحمن کمیشن نے سقوط ڈھاکہ کے اسباب گنوائے‘ لیکن کسی کا کیا بگڑا؟ ملک ٹوٹ گیا اور بس۔ ادھر ہم ادھر تم کہنے والے اقتدار میں آگئے۔ روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر برسراقتدار آنےوالوں کے دور میں بھی لوگ پاﺅ گھی کیلئے مارے مارے پھرتے تھے۔ سوشلزم لانے والوں کے دور میں عوام ستائے گئے تھے اور اب بھاری مینڈیٹ سر پر اٹھائے شریفوں کے دور میں عوام کس طرح خوار ہو رہے ہیں۔ ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ حکومتیں کبھی اپنی نااہلی نہیں مانتیں۔ فوجی عدالتوں کا قیام ہی حکومتی نااہلی کا بین ثبوت ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ ریمارکس سے بھی اسکی تصدیق ہو گئی ہے۔

 اقتدار پسند ٹولے کے نزدیک انکے کرسی پر براجمان رہنے کا نام ہی جمہوریت ہے۔ پٹرول‘ گیس‘ بجلی‘ پانی ملے نہ ملے‘ سکیورٹی ملے نہ ملے‘ لاءاینڈ آرڈر ہو نہ ہو‘ انصاف ملے نہ ملے‘ تعلیم ملے نہ ملے‘ صحت ملے یا موت‘ جمہوریت کی گاڑی چلتی رہنی چاہئے۔ اکیسں کے بعد خواہ 22 ویں ترمیم بھی کرنی پڑے‘ جمہوریت چلنی چاہئے۔ چھ ماہ میں 60 ارب روپے کی سرکاری سرمایہ کاری کے باوجود بجلی کی لوڈشیڈنگ بڑھ گئی ہے۔ ساتھ ہی بجلی کی قیمتوں میں 68 پیسے فی یونٹ اضافہ ہو چکا ہے۔ عوام کی بے بسی پر وزیراعظم کی تشویش سے عوام کی بے چارگی دور ہو جاتی ہے؟ شہریوں کو پٹرول نہ ملنا حکومت کی مجرمانہ غفلت نہیں؟ حکومت کی غفلت کا نوٹس لینے کیلئے بھی کوئی سپریم حکومت ہونی چاہئے۔ ہائیکورٹ کے بعد تو لوگ سپریم کورٹ کی طرف دوڑتے ہیں۔ حکومت سے مایوس ہو جائیں تو کس حکومت کی طرف دوڑیں۔ 

افسوس در افسوس اس بات کا ہے کہ ساری سیاسی جماعتیں خاموش بیٹھی ہیں۔ عوام کیلئے یہ جماعتیں کیا کر رہی ہیں۔ عوام کا مارے مارے پھرنا دکھائی نہیں دیتا۔ پارلیمنٹ میں جمہوریت بچانے کیلئے یکجا ہونے والے عوام کے مسائل کیلئے یکجا کیوں نہیں ہوتے۔ عمران خان سولو فلائٹ چھوڑ دیں۔ حلقہ122 عوام کا مسئلہ نہیں۔ عوام کے مسائل کے حل کی طرف سر جوڑ کر بیٹھیں‘ مسائل کیلئے حکومت پر دباﺅ بڑھائیں۔ بجلی اور گیس کے ہاتھوں درد بڑھتا جا رہا ہے۔ بحران میں شدت آگئی ہے۔ مختلف مقامات پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ دفاتر کے گھیراﺅ اور بل نذرآتش کئے جا رہے ہیں۔

عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 6 سال میں کم ترین سطح 47 ڈالر 10 سینٹ پر آگئی ہے‘ لیکن ہماری حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 22 فیصد کردی ہے۔ جی ایس ٹی کی اس بلند ترین شرح کی بدولت ہر ماہ صارفین کی جیب سے 5.30 ارب روپے حکومت کے پاس جائینگے۔ جون 2014ءمیں عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 115ڈالر فی بیرل تھی اور ہمارے ہاں پٹرول 107.87 روپے فی لیٹر کے حساب سے دستیاب تھا۔ اب جبکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 47.10 ڈالر فی بیرل ہے تو ہمارے پٹرول کا نرخ 78 روپے فی لیٹر ہے۔ بجلی‘ پانی‘ گیس‘ تیل کے چکروں میں پھنسے عوام کیا کرینگے؟ بری گورننس کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ تیل کمپنیوں کی بدانتظامی کے باعث ملک بھر میں پٹرول کا بحران شدت اختیار کر گیا۔ 80 فیصد پمپ بند ہونے سے عوام خوار ہوئے۔

 آئی پی پیز کے ذمہ پی ایس او کے واجبات 23 ارب سے تجاوز کر گئے۔ تمام بینکوں نے پی ایس او کو قرض دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ادھر عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی طلب میں کمی اور وافر ترسیل کی وجہ سے قیمتوں میں مسلسل کمی کا سلسلہ جاری ہے۔ قیمتوں میں یہ کمی خام تیل کی عالمی طلب میں کٹوتی کے اعلان کے بعد سے جاری ہے۔ 14 نومبر 2014ءکے بعد سے خام تیل کی قیمت 130ڈالر فی بیرل کم ہو گئی ہے جبکہ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمت ستمبر 2014ءسے یکم جنوری 2015ءتک 28.28 روپے کم ہو سکی ہے‘ لیکن روزمرہ استعمال کی اشیاءکی قیمتیں کم نہیں ہو سکیں۔

افسروں کی معطلی کوئی نئی بات نہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا پٹرول بحران پر درجنوں سوال اٹھ رہے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کی منطق کسی کو سمجھ نہیں آتی کہ پٹرل بحران غیرمعمولی طلب سے پیدا ہوا۔ پی ایس او کیمطابق بحران کے خاتمے کیلئے 100 ارب روپے اور 2 ماہ درکار ہیں۔ حکومت کی نااہلی اور بدعنوانی ثابت ہو گئی ہے۔ آئل کمپنیوں نے 20 دن کا ذخیرہ نہ رکھ کر خلاف ورزی کی۔ پٹرول سپلائی کرنیوالی سب سے بڑی کمپنی ”پارکو“ کو 5 دن بند رکھنے سے بحران بڑھا۔ وزیر داخلہ نے حکومتی نااہلی کا اعتراف کر لیا‘ لیکن اس سے بھی کیا فرق پڑتا ہے۔ احکامات‘ ہدایات‘ رپورٹیں طلب کرنیوالے الفاظ اپنی وقعت کھو چکے ہیں۔ ڈسپلن سے مالامال واحد ادارہ فوج ہے۔ ایسا ہی ڈسپلن سول حکومت میں پیدا کئے بغیر بُری گورننس کا خاتمہ ممکن نہیں۔ سوال ہے عوام کو خوار کرنیوالوں کو کون سزا دے گا؟

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

بجٹ سے پہلے منی بجٹ لایا گیا ہے۔ سٹیل مصنوعات اور موبائل فون مہنگے کر دیئے گئے ہیں۔ بجلی پر ڈیڑھ سے 2 روپے فی یونٹ سرچارج عائد ہو رہا ہے۔ چند روز قبل پٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 22 فیصد کی گئی تھی۔ ہر حکومت اپنے اخراجات کو چھیڑنے کی بجھائے عوام سے چھیڑخانی کرتی اور مہنگائی بڑھاتی چلی جاتی ہے۔ زمینی حقائق کو کون جھٹلا سکتا ہے۔ 20 کروڑ عوام کیلئے روٹی تو ہے اس لئے کہ رزق کا وعدہ تو خالق نے مخلوق سے کر رکھا ہے‘ لیکن بجلی ہے نہ پانی اور نہ گیس‘ کاش وی وی آئی پی اور وی آئی پی لوگ مساجد کے وضو خانے آکر دیکھ لیں۔ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے جھوٹے وعدوں کا آغاز زرداری دور کے آغاز میں راجہ پرویز اشرف نے کیا تھا۔ اس جھوٹ کو بھی 7 سال گزر چکے ہیں۔ 

بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا درد کینسر کی تھرڈ سٹیج پر پہنچ چکا ہے۔ سارا دن بجلی آنے اور بجلی جانے کی راہ تکتے گزر جاتا ہے۔ حکمرانوں کا کام بلاناغہ اعلیٰ سطحی اجلاس بلانا اور تصویریں چھپوانا ہے۔ کبھی کبھی برہمی کے اظہار کی خبریں چھپوانا ہے۔ گریڈ 22 کی شاہانہ مراعات اور اختیارات انجوئے کرنیوالوں کو جھاڑ جھپٹ سے کیا فرق پڑتا ہے؟ نوکری میں یس سر یس سر کی تسبیح لیکر گھر سے نکلنا پڑتا ہے۔ اب تو بڑے بڑے کالجوں کے گریڈ20 کے پرنسپل بھی ڈپٹی سیکرٹری اور ڈائریکٹر کیلئے سٹینڈ بائی رہتے ہیں۔ عوام پہلے بھی سارا دن عدالتوں‘ تھانوں‘ ہسپتالوں اور سرکاری دفاتر میں رلتے تھے۔ آج بھی رلتے ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک اژدھام کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ٹریفک وارڈنوں کا کام ٹریفک کو رواں دواں نہیں‘ اپنی چالان کی کتابیں بھر کر شاباش اور انعام وصول کرنا ہے۔ نہ جانے یہ کیسی گورننس ہے؟

خالد محمود ہاشمی


ہتک آمیز تحریر و تقریر آزادئ اظہار خیال ہے!....

0
0


اگر ایک دو دن کی بات ہو تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن جس تسلسل اور تکرار سے یورپ کے جرائد پیغمبر اسلام کے تضحیک و توہین آمیز خاکے شائع کر رہے ہیں وہ کیونکر آزادئ تحریر و تقریر و ضمیر کے زمرے میں آتا ہے۔ خود فرانس اور برطانیہ میں کسی عام شہری کی ہتک عزت دیوانی اور فوجداری قوانین کے تحت سنگین جرم ہے جس پر ملزم کو سزا اور جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے لیکن چارلی ایبڈو کا جرم صرف کردار کشی تک محدود نہیں ہے کیونکہ دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کی ان خاکوں سے دلی آزاری ہوئی بلکہ انہیں انتہائی مشتعل کیا گیا لہٰذا اس کا جو ردعمل ہوا وہ غیر متوقع نہیں بلکہ فطری تھا۔

مجھے تو یورپ اور امریکہ کے حکمرانوں کے رویے پر انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے جریدے کی انتہائی غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکت کی مزمت کرنے کی بجائے اس کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور اب تک کر رہے ہیں۔ حق اور انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ پہلے چارلی ایبڈو کی رکیک حرکت کی مذمت کرتے اور بعد ازاں ان حملہ آوروں کی مذمت کرتے جنہوں نے مشتعل ہو کر قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا مگر کون سا قانون؟ شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کی خلوت میں لی گئی برہنہ تصاویر کی تشہیر تو جرم ہے لیکن نبی آخر الزماں (جو تمام نبیوں میں رحمت لقب پانے والی ہستی ہے) اس کے خلاف سب دشتم اور دشنام طرازی جرم نہیں بلکہ ایسی مقدس آزادئ اظہار خیال ہے کہ اس کے دفاع اور تحفظ میں سارا استعماری ٹولہ اپنے پالتو کتوں کے ساتھ ایک ارب کلمہ گو مسلمانوں کے خلاف سینہ سپر ہو گیا؟ یہی وجہ ہے کہ پیرس کے چیتھڑے نے ان قزاقوں، رہزنوں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کی شہ پا کر ہر ورق پر وہی اشتعال انگیز خاکے شائع کیے اور اس شمارے کی دس لاکھ کاپیاں برائے فروخت بازار میں پہنچا دیں۔ یہ نفرت کے سوداگر اسی کی کمائی کھاتے ہیں۔

 ان کا مقصد آزادئ اظہار ہے یا اشتعال انگیزی؟
جیسا میں نے اوپر کی سطور میں بیان کیا ہے کہ یہ سلسلہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کیونکہ اب بین الاقوامی اشتراکیت تو مغرب کے لیے کوئی ہوّانہیں رہی جس کے ذریعے یورپ اور امریکہ کے ساہو کار اپنے عوام کو ہراساں کر کے ان کا استعمال کرتے رہیں اور ان کے ساجھے دار امریکی جنرل دفاعی بجٹ میں دن دونا رات چوگنا اضافہ کر کے خورد برد کرتے رہیں لہٰذا مغرب کے پالیسی سازوں نے وال سٹریٹ پر قبضہ کرو تحریک سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے ایک نیا خطرہ پیدا کر دیا اور وہ ہے اسلام۔ نیٹو کے سابق سیکرٹری جنرل Javier Solana نے یورپ اور امریکہ کے عیسائیوں کو انتباہ کیا کہ اب معاہدہ اوقیانوس کو اسلام پر نظر رکھنی چاہیے۔ دریں اثنا یورپ کے بیشتر ممالک بالخصوص یونان، اطالیہ، ہسپانیہ کے باشندے کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پرمجبور ہو گئے تھے، خود فرانس کی اقتصادی حالت بڑی خستہ ہوتی جا رہی تھی اور اب بھی اس کی معیشت غیر مستحکم ہے یونان ، اطالیہ اور ہسپانیہ تو جرمنی اور بین الاقوامی مالیاتی بینک IMF کے مقروض ہو گئے اور قرض کا سود ادا کرنا ان کے لیے دشوار ہو گیا۔ ان کا غصہ جرمنی اور امریکہ کے خلاف بھڑک اُٹھا۔

ادھر امریکی عوام اپنے رہن شدہ مکانات کے واجبات ادا نہ کرنے کی وجہ سے اپنے مکانات کی ملکیت سے محروم ہو گئے کیونکہ اقساط پر مکانات فروخت کرنے والی کمپنیوں نے مکینوں کو قرض کی عدم ادائیگی پر بے دخل کرنا شروع کر دیااور وہ سب سڑکوں پر آ گئے۔ حکومت نے ان کی آباد کاری کی بجائے دیوالیہ ہوتی ہوئی FORD اور جنرل موٹرز کمپنیوں کو سہارا دینے کے لیے اربوں ڈالر دیدیے چنانچہ امریکہ میں بیروزگاری کی شرح 10 فیصد سے تجاوز کرنے لگی جس سے زیادہ تر سیاہ فام امریکی عوام متاثر ہوئے جہاں پہلے ہی کالے گوروں میں تصادم جاری تھا جس میں پولیس اور عدلیہ فریق بن گئی۔

یورپ اور امریکہ میں طبقاتی اور نسلی تصادم زور پکڑنے لگا چنانچہ یورپی یونین اور امریکہ کے بااقتدار طبقے نے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے انہیں اسلام سے خوفزدہ کرنا شروع کیا تا کہ ان کا غصہ ان ممالک میں آباد مسلمان تارکین وطن کی طرف منتقل ہو جائے اور اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے یورپ امریکہ اور اسلامی ممالک میں تشدد اور تخریب کاری کرانی شروع کر دی جس میں ان ممالک کے ضمیر فروش عناصر نے بھرپور تعاون کیا۔

مغربی ممالک کے عوام کے دلوں میں اسلام سے خوف اور نفرت پیدا کرنے میں میڈیا نے اہم کردار ادا کیا ۔ تشدد کی ہرواردات کو اسلام اور مسلمانوں سے منسوب کر کے مذہبی و نسلی تعصب کو ہوا دیتا رہا۔ اس کا پہلا ہدف بوسنیا کی مسلم آبادی بنی جس کی نسل کشی میں عیسائیوں نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ نیٹو نے بڑی تاخیر اور بے دلی سے فوجی مداخلت کی۔ اس واردات سے قبل سلمان رشدی نے شیطانی آیات کے نام سے اپنی تصنیف میں قرآن، قرآنی آیات اور پیغمبر اسلام کی ناقابل برداشت توہین و تضحیک کی جس سے مسلمانوں میں بیجا طو رپر شدید ردعمل ہوا لیکن اسے ایک مرتد کی ہذیانی حرکت سے تعبیر کیا گیا لیکن جب برطانیہ کی ملکہ معظمہ نے ملعون سلمان رشدی کو اعلیٰ ترین برطانوی خطاب Knighthood سے نوازا تو پہلی بار یہ انکشاف ہوا کہ یہ کوئی انفرادی فعل نہ تھا بلکہ اس کی پشت پر برطانیہ عظمیٰ (جواب برطانیہ صغریٰ ہو گئی ہے) کا ہاتھ تھا۔ 

اس کے بعد یہ سلسلہ چل پڑا اور مینڈک کو بھی زکام ہوا کے مصداق ڈنمارک کو بھی یہ جسارت ہو گئی کہ اس کا روزنامہ Jayllans-Posten نے ایک بار نہیں بار بار پیغمبر اسلام ؐ کے تضحیک آمیز خاکے بنائے اور اسے بار بار شائع کیے پھر اس ’شاہکار‘‘ کو یورپ کے چودہ اخبارات نے دوبارہ شائع کیا اور چارلی ایبڈو نے تو انتہا کر دی اور اس سے زیادہ ان چالیس ممالک کے حکمرانوں کا اشتعال انگیز فعل ہے جو انہوں نے پیرس کے اس چیتھٹرے تضحیک آمیز خاکوں کو آزادئ اظہار خیال قرار دیا۔ لیکن بابائے روم فرانسس نے حق اور انصاف کی بات کی ہے کہ آزادئ اظہار خیال کی حدود میں اگر میرا اپنا دوست میری ماں کو گالی دے تو میں اس کے منہ پر مکارسید کروں گا۔

آزادی تقریرو تحریر مذاہب کے احترام پرمبنی ہونی چاہیے۔ ڈان 16جنوری 2015ء
ہم بابائے روم کی حق گوئی اور جرأت کو سلام کرتے ہیں جنہوں نے پیغمبرا سلام کی اہانت کی ہمت شکنی کی ہے لہٰذا عالم اسلام کے علماء کو ان کے اور دیگر مذاہب کے پیشواؤں سے مل کر ایک ضابطہ اخلاق مرتب کرنا چاہیے جس میں تمام مذاہب کے عقائد اور ان کے پیغمبروں کے خلاف تضحیک، توہین ممنوع قرار دے دی جائے۔

پروفیسر شمیم اختر
"بہ شکریہ روزنامہ ’’نئی بات

ترک رہنماؤں کا نیتن یا ہو کو منہ توڑ جواب....

0
0


پیرس میں گیارہ جنوری بروز اتوار دہشت گردی کے خلاف فرانس کے ساتھ اظہار یک جہتی کی ریلی میں اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یا ہوکی شرکت پر ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان اور وزیراعظم احمد داؤد اولو نے اپنے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ۔ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یا ہو کی پیرس یکجہتی اور امن ریلی میں شرکت کو ریلی کے چہرے پر سیاہ دھبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ ایک ایسے ملک کا وزیراعظم جو غزہ میں دو ہزار پانچ سو افراد کی ہلاکت جس میں ساحل ِ سمندر پر اپنے ہاتھوں میں کھلونوں سے کھیلنے والے معصوم بچے اور خواتین بھی شامل تھیں کے قتل عام میں ملوث ہو، کس منہ سے شرکت کر رہا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ پیرس ریلی میں صرف ان ممالک کے رہنماؤں کو شرکت کرنے کا حق ہونا چاہئے تھا یا ان کو مدعو کیا جانا چاہئے تھا جنھوں نے دہشت گردی کے خلاف جدو جہد میں حصہ لیا ہو اور دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے ہوں لیکن نیتن یا ہو جیسے شخص کو اس امن ریلی میں مدعو کرتے ہوئے امن ریلی کے مقصد ہی کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔
(ترک حکام سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق فرانس کے صدر فرانسواں اولینڈ نے اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یا ہو کو کوئی دعوت نامہ ارسال نہیں کیا تھا اور نہ ہی وہ انہیں پیرس میں دیکھنے کے خواہاں تھے لیکن نیتن یا ہو بغیر کسی دعوت نامے کے پیرس پہنچ گئے جس پر فرانس کے صدر اولینڈ نے نیتن یا ہوکو زچ کرنے کے لئے آخری وقت میں فلسطین کے صدر محمود عباس کو اس امن ریلی میں مدعو کیا) صدر ایردوان نے نیتن یا ہو کی ڈھٹائی اور بے شرمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یا ہو نے اس امن ریلی میں اپنے ہاتھ چاروں اطراف ہلاتے ہوئے لوگوں کو سلام کرنے کا جو طریقہ اپنا رکھا تھا اس سے لگتا تھا کہ وہ کسی امن ریلی میں نہیں بلکہ کسی اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے آئے ہوں اور تماشائیوں کا گرم جوشی سے ہاتھ ہلا کر جواب دے رہے ہوں ۔ انہوں نے اس صورتحال پر نیتن یا ہو سے سوال کیا۔ ’’آپ کا اس امن ریلی سے کیا تعلق؟ یہ تو امن ریلی ہے۔‘‘ نیتن یا ہو کی اس ریلی میں شرکت میری سمجھ سے بالاتر ہے۔کیونکہ پہلے انہیں معصوم بچوں اور خواتین کے قتل کا حساب دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے پیرس میں دہشت گردی کے حملوں سے متعلق مسلمانوں پر لگائے جانے والے الزامات اور اسلام کو بدنام کرنے اور دہشت گردی کو مذہب اسلام سے منسلک کرنے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پیرس کے واقعے کا چند ایک عنوانات کے تحت تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم بات دہشت گردی میں ملوث افراد کا تعلق فرانس سے ہے۔ لیکن بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ اس دہشت گردی کا الزام مسلمانوں اوراسلام پر لگایا جا رہا ہے جو کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں ہے۔ 

ویسے بھی یہ دہشت گرد حملہ کرنے سے پہلے سولہ ماہ تک فرانس کی جیل میں قید رہ چکے ہیں تو پھر فرانس کی خفیہ سروس اور پولیس نے مسلمانوں پرالزام لگانے سےقبل ان دہشت گردوں سے متعلق ہر پہلو سے تحقیقات کو کیونکر مکمل نہ کیا؟ اب اپنی جان چھڑانے کے لئے مسلمانوں پر الزامات لگا کر مسلمانوں کو اشتعال دلایا جا رہا ہے اور مغرب میں اسلام فوبیا کو ہوا دی جا رہی ہے۔ انہوں نے تمام طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم مسلمان ہونے کے ناتے کسی بھی صورت امن پسند مذہب اسلام پر قتل عام یا دہشت گردی کا لیبل اور نہ ہی اس کے صاف اور شفاف چہرے پر کوئی دھبہ لگنے دیں گے۔‘‘

صدر ایردوان کا کہنا تھا کہ ’’ ہمیں اس قسم کے دہشت گردی کے واقعات کا تمام پہلوئوں سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ شام میں تین لاکھ 50 ہزار افراد قتل کئے جا چکے ہیں اور مزید قتل کا سلسلہ جاری ہے لیکن دنیا ابھی تک خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے جبکہ ہم ترکی، لبنان اور اردن تین ممالک شام کے5ملین مہاجرین کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں اور مغربی ممالک لالی پوپ دینے کے سوا کچھ بھی نہیں کر پا رہے۔ مغرب نے ہمیشہ ہی سے مسلمانوں سے متعلق دوغلی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ مغرب میں سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ پیرس حملوں کی وجہ نسل پرستی اور غیر ملکی دشمنی ہے جسے اب اسلام فو بیا کا روپ دیا جا رہا ہے۔

صدر ایردوان نے میڈیا کی آزادی کے بارے میں اپنے بیان میں کہا کہ میڈیا کی آزادی کی آڑ میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو کسی بھی صورت میڈیا کی آزادی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ میڈیا کو مادر پدر آزادی نہیں دی جا سکتی ہے۔ اگر مغربی میڈیا اپنے آپ کو آزاد سمجھتا ہے تو پھر مغرب میں ہولو کاسٹ پر کیوں پابندی ہے؟ مغربی میڈیا آج تک ہولو کاسٹ پر آواز اٹھانے کی کیوں جرأت نہیں کرتا ہے؟ 

مغرب میں ہولوکوسٹ کی نفی کرنے والوں کو تو سزا دی جاتی ہے لیکن ہمارے عزت و وقار اور جان سے بھی بڑھ کر عزیز پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺکی بے حرمتی کی جاتی ہے تو ہمیں خاموش رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
یہ کیسی منطق ہے؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہولو کاسٹ کی طرح تمام انبیائے کرام کی بے حرمتی کرنے کے عمل پر مکمل طور پر پابندی لگا دی جائے ویسے بھی اسلام ایک ا یسا مذہب ہے جس میں تمام انبیائے کرام کی عزت و تکریم فرض ہے اور کوئی بھی مسلمان کسی بھی پیغمبر یا نبی کی بے حرمتی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ تو پھر ایسے مذہب کے پیغمبر کو جان بوجھ کر حقارت کا نشانہ بنا نا کہاں کا انصاف ہے؟

ترکی کے صدر کے علاوہ وزیراعظم احمد داؤد اولو نے بھی توہین آمیز خاکوں کے بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ’’ ہم کسی بھی صورت اس قسم کے خاکوں کو ترکی میں شائع کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یاد رہے ترکی کے اخبار ’’جمہوریت‘‘ میں چارلی ایبڈو میگزین میں شائع ہونے والے توہین آمیز خاکوں کو جگہ دی گئی جس پر وزیراعظم احمد داؤد اولو نے اپنے شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ترکی میں پیغمبر اسلام کی بے حرمتی کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ 

ایسا کرنے کی صورت میں قانون حرکت میں آجائے گا اور پھر اس اخبار کو اپنے اس کیے کی سزا خود ہی بھگتنا پڑے گی۔ اس اخبار کے رائٹرز کو یہ سوچ لینا چاہئے کہ یہ اخبار ایک ایسے ملک سے شائع ہو رہا ہے جس کی ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ ترکی کے یہ نام نہاد سیکولر حلقے اسلام دشمنوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن چکے ہیں۔ روزنامہ جمہوریت کے بارے میں تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے اور عدالت جو مناسب سمجھے گی اس اخبار کو سزا دے گی۔ انہوں نے واضح کردیا کہ کسی بھی شخص کو اپنے ہی باشندوں کو مذہبی لحاظ سے رنجیدہ کرنے کی اجازت نہیںدی جائے گی۔

انہوں نے اس موقع پر پوپ فرانسیس کے اس بیان کو جس میں انہوں نے کہا تھا کہ’’ اگر میرا بہترین دوست ڈاکٹر گیسپری میری ماں کے بارے میں بُرا جملہ کہے تو جواباً اسے مکے کی توقع ہی کرنی چاہئے۔ ہر مذہب کی ایک عزت اور تکریم ہوتی ہے اور آزادی اظہار رائے کی بھی کچھ حدیں متعین ہیں۔ آپ کسی کو بھی اشتعال نہیں دلا سکتے، آپ کسی کے ایمان کی توہین نہیں کر سکتے۔‘‘ کی مکمل حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہمیں حضرت محمدﷺ کی عزت سب سے بڑھ کر عزیز ہے ۔ ہم کسی کو بھی ان کی توہین کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں۔ ہم ماضی میں ترکی میں حضرت محمد ﷺسے متعلق توہین آمیز خاکوں کی وجہ سے ہنگاموں اور مظاہروں کو دیکھ چکے ہیں ۔ ہم ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں اور کسی کو یہ بھی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ دہشت گردی کو مذہب اسلام سے جوڑے ۔ دہشت گردی چاہے کسی بھی شکل میں ہو دہشت گردی ہے ۔ پیرس جا کر ہم نے دنیا کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف یکجہتی کا اظہار کیا اور اب میڈیا سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ آزادی کی آڑ میں کسی کو پیغمبر اسلام ﷺکی توہین کرنے کی اجازت نہ دے۔

ڈاکٹر فرقان حمید
"بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ

ہم خود ہی اپنے دشمن ہیں....

0
0

اُس روز جب تمام ملازمین اپنے دفتر پہنچے تو ان کی نظر دروازے پر لگے ایک نوٹس پر پڑی جس پر لکھا تھا:’’کل رات ، وہ شخص جو کمپنی اور�آپ کی بہتری اور ترقی میں رکاوٹ تھا،انتقال کر گیاہے،آپ سب سے درخواست ہے کہ اس کی آخری رسومات اور جنازے کے لئے کانفرنس روم میں تشریف لے جائیں جہاں اس کا جنازہ موجود ہے‘‘۔یہ پڑھتے ہی پہلے تو سب اداس ہو گئے کہ ان کا ساتھی ہمیشہ کے لئے ان سے جدا ہو گیا، لیکن چند ہی لمحوں بعدانہیں اس تجسس نے آگھیراکہ وہ شخص کون تھا جو انکی اور کمپنی کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھا۔ لہذا تما م ملازمین اس خواہش کو سینے میں دبائے کانفرنس روم کی طرف چلنا شروع ہوجا تے ہیں۔کانفرنس روم میں لوگو ں کا رش بڑھتا اور یہاں موجود ہر شخص فوری طور پر یہ جاننا چاہتا تھا کہ سامنے پڑی چادر کے نیچے کون شخص ہے۔ ہر شخص دوسرے سے متجسس نگاہوں سے ایک دوسرے سے سوال کرتا نظر آتا لیکن کسی کے پاس اس کاجواب نہ تھا۔ 
اسی دوران کمپنی کے مالک نے ملازمین سے کہا کہ وہ ایک ایک کر کے آگے جا سکتے اور کفن پو ش کا دیدار کر سکتے ہیں۔صبر کاپیمانہ لبریز ہو تا ہے اور تما م ملا زمین اپنی اپنی باری میں کفن کے قریب آتے ،کفن کی بالائی چادر اٹھاتے اور جیسے ہی اس میں جھانکتے ہیں تو حیران ہو جاتے ہیں ،ان کی آنکھیں پتھرا اور زبان پر خامو شی چھاجاتی ہے ،ایسا معلوم ہو تا تھا کہ جیسے سب سکتے کی حالت میں چلے گئے ہوں۔کچھ لمحات گذرنے کے بعد جب وہ ہوش میں آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ کفن کے نیچے کوئی انسان نہیں بلکہ ایک آئینہ رکھا ہو ا تھا ،جو بھی کفن کے اندر جھانکتاتو اِس کو آئینے میں اپنا چہرہ دکھائی دیتا اور�آئینے پر درج تھا: ’’دنیا میں صرف ایک شخص ہے جو آپ کی صلاحیتوں کو محدودکر سکتا اور آپ کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے اور وہ شخص آپ خود ہیں‘‘۔

ہمارے ملک کے مسائل ،بگاڑ اور ہمارے اجتماعی روئیے پر بھی یہ مثال پوری اترتی ہے کہ ہم ان تما م مسا ئل اور بگاڑ کا ذمہ دار حکمرانوں اور ارباب اختیار کو ٹھہرتے ہیں جبکہ حکمران اور ارباب اختیار ان تما م مسائل کا سہرا عوام کے سر سجاتے نظر آتے ہیں ۔ پٹرول کی حالیہ قلت اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے واقعات جس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ایک طرف تو حکومتی نا اہلی اور کاہلی کے تما م تر ریکارڈ ٹوٹتے نظر آئے جبکہ دوسری طرف عوام نے لوٹ مار کا بازار گرم رکھتے ہوئے جس طرح پٹرول کو مہنگے داموں فروخت کر کے اپنا اصلی چہرہ منظر عام پر لائے وہ انتہائی شرمناک عمل ہے۔

قارئین !ذارئع کے مطابق یہ تما م تر بحران وزارت پٹرولیم اور خزانہ کی ہٹ دھرمی سے پیدا ہوا۔پٹرول سپلائی کر نے والی سب سے بڑی کمپنی(پارکو) بجلی کی بندش کی وجہ سے 5روز تک بند رہی جسے حکومت چھپاتی رہی ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ تما م وزارتوں کی بندر بانٹ’’ مال مفت، دلِ بے رحم‘‘ کے فارمولے کو مد نظر رکھتے ہوئے کی گئی اور پھر جس کے لئے ایسے لوگوں کو مختص کیا جنہیں اپنے محکموں کا نام تک یاد نہیں ہے۔ پٹرولیم کی وزارت پر براجمان شاہد خاقان عباسی کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے موصوف کواپنے ساتھیوں کی طرف سے قومی ائیر لائن کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر نے کی وجہ سے اپنی ائیر لائن کے بڑھتے ہوئے کاروبار کی مصروفیات سے وقت بچے تو وہ دوسرے کاموں کی طرف توجہ دیں۔

ان کی اس سے بڑھ کے نااہلی اور کیا ہو سکتی ہے کہ انہیں شہر لاہور میں پٹرول کی یومیہ کھپت کے بارے اعدا و شمارکا اندازہ نہیں۔ برادرِ عزیزنجم ولی خان نے اپنے پروگرام ’’لائیو فرام لاہور ‘‘ میں انکشاف کیا ہے کہ وزیر موصوف کو لاہور میں پٹرول کی کھپت کے اصل اعدا دو شمار کا علم ہی نہیں ۔انہوں نے اپنے دو گھنٹوں پر محیط پریس کانفرنس میں لاہور کی ڈیمانڈ8 ،لاکھ لٹر روزانہ قرار دیتے ہوئے احسان چڑھایا تھا کہ وہ لاہور میں16، لاکھ لیٹرپٹرول بھیج رہے ہیں ۔ جبکہ مصدقہ اعدا و شمار کے مطابق لاہو ر میں پٹرول کی ڈیمانڈ 30، لاکھ لیٹر ہے۔ایسے لا علم وزیر کو معطل اور اس کے خلاف ایکشن لینے کی بجائے ہمارے حکمرانوں نے ایک دفعہ پھر کچھ دوسرے لوگوں کو صدقے کا بکرا بنا کے ان کے گلوں پر معطلی کی چھری چلا دی جبکہ شاہد خاقان عباسی کے دست راست کو ایم ۔ڈی P.S.Oتعینات کر تے ہوئے اس سنگین معاملے کو ’’کمیٹی‘‘ کے سرد خانے کی نذر کر دیا گیا ہے۔

قارئین محترم !امید کی جارہی ہے کہ آئندہ چند روز میں پٹرول کا بحران قابو میں آجا ئے گا لیکن اس دوران ارباب اختیار تو ایک طرف ’’ عوام‘‘ کہلا ئے جانے والی مخلو ق نے پٹرول کا ذخیرہ اور اسے مہنگے داموں فروخت کر کے جس طرح اپنے ہی جیسی عوام کا حق غصب کیا ہے اس کی مثال بھی پوری دنیا میں کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔اگر ہم سب واقعی ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنا چاہتے تو اس کے لئے ہمارے سمیت حکمرانوں اور اربا ب اختیار کو بھی آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے، ان تما م حالات کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے یہ تسلیم کر نا ہو گا کہ ہم خود ہی اپنے دشمن ہیں،ہم سب اپنی اپنی جگہ اس کے ذمہ دار ہیں ۔ اگر ہم اس ملک کو حقیقت میں قائد کا پاکستان بنا نا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ضرورت ہے کہ جو جہاں بھی، جس حیثیت میں کام کر رہا ہے وہ پوری ایمانداری، سچائی اور لگن سے اپنے فرائض کو سر انجام دیتے ہوئے اپنے ساتھ مخلص ہو جائے۔

حافظ ذوہیب طیب

تھر کا المیہ

افغان مہاجرین

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live