Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

پٹرول کا بحران‘ بدعنوانی‘ بے حسی اور عوام...


بھارت کا نظریہ...

$
0
0

جب جواہر لعل نہرو نے 26 جنوری 1929ء کو دریائے راوی کے کنارے یہ اعلان کیا کہ بھارت مکمل آزادی چاہتا ہے نہ کہ کسی کی زیردست ریاست بننا چاہتا ہے جس کا کہ بعض حلقوں کی طرف سے مطالبہ ہے۔ تو اس وقت بہت کم لوگوں نے اس پر یقین کیا کہ آیا محض 18 سال بعد برطانوی حکومت ختم ہو جائے گی۔ لیکن یہ عدم تشدد کے ذریعے ہوا اور بغیر کسی بغض و عناد کے۔

یہاں تک کہ سلطنت برطانیہ کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن وائسرائے لاج سے‘جو کہ اب راشٹرپتی بھون (یعنی صدارتی محل) ہے‘ دو گھنٹے کا سفر کر کے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے وہاں پر موجود ہر شخص ان سے ہاتھ ملانا چاہتا تھا۔ کسی قسم کی کوئی تلخی نہیں تھی بلکہ لوگ آگے کی طرف دیکھ رہے تھے ایک ایسی سیاسی حکومت کے قیام کی طرف جو آزاد ہو گی اور جس میں ان کے منتخب نمایندے اجتماعیت اور مساوات کی ان کی تمنا اور آرزو کو بروئے کار لائیں گے۔
اس وقت جو سوالات ہمارے سامنے کھڑے ہیں وہ یہ ہیں کہ آخر ہمارا سماجی ملبوس تار تار کیوں ہو رہا ہے۔ آپ کسی زاویے سے بھی دیکھیں قصور سیاسی جماعتوں کا ہے۔ ان کے نظریات متعصبانہ ہوتے ہیں اور آنکھ اقتدار پر ہوتی ہے۔ اس نے ہماری مثالیت پسندی کو ایک طرف دھکیل دیا ہے حالانکہ ہم اس قدر پرجوش ہو چکے تھے کہ ہم نے نو آبادیاں بنانے والی دنیاکی سب سے بڑی طاقت کو ایک گولی چلائے بغیر ملک سے نکال باہر کیا۔

جدوجہد آزادی کے کٹھن اور صبر آزما دور میں ہم اپنی مثالیت پسندی اور اخلاقی اقدار کے تصور سے پرجوش تھے لیکن ہمیں اس بات کا احساس ہی نہیں تھا کہ برطانیہ نے ہمیں اس قدر تقسیم در تقسیم کر دیا ہے۔ ہم نے وقتی طور پر ذات پات اور برادری کے لیے اپنے جھکاؤ کو پس پشت ڈال دیا لیکن آخری برطانوی فوجی کے ممبئی کے ’’گیٹ وے آف انڈیا‘‘ سے واپس جاتے ہی فرقہ واریت پھر سے پھوٹ پڑی اور آج ہم ذات‘ پات‘ مذہب اور لسانیات کے تفرقوں میں مبتلا ہیں۔
کوئی یہ دلیل دے سکتا ہے کہ چین نے جب 1962ء میں بھارت پر حملہ کیا تھا اس کا بھی یہی خیال تھا کہ بھارت تفرقوں میں بٹا ہوا ملک ہے لیکن بھارتی عوام ملک کے دفاع کے لیے متحد ہو گئے۔ یہ حملہ شمال مشرقی علاقے پر ہوا تھا جس کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ اس پر بحث ہونی چاہیے۔ اس کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ بیرونی حملہ ایک قوم کو متحد کر دیتا ہے۔ تقسیم اور تنازعہ کے خطرات ملک کو توڑ نہیں سکتے۔

یہ موقف خواہ کتنا بھی مضبوط اور قابل فہم کیوں نہ ہو لیکن آج اس کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ اب ملک ذات پات اور مذہب کے اختلافات کا بڑی گہرائی تک شکار ہو چکا ہے۔ یہ صورت حال اس وقت اور زیادہ تشویشناک ہو جاتی ہے جب ریاست خود لڑائی جھگڑے اور تصادم میں ملوث ہو جائے۔ وزیراعظم نریندر مودی تعمیر و ترقی پر زور دے رہے ہیں جو کہ قابل تعریف بات ہے لیکن جب وہ آر ایس ایس کے لیڈروں سے ملتے ہیں جن کا سارا زور ہندو راشٹرا پر ہے تو وزیراعظم کی باتوں کی چمک معدوم ہو جاتی ہے۔ بی جے پی مرکز پر حکومت کر رہی ہے جس سے بھارت کا ایک جمہوری اور مساوایانہ معاشرے کا تاثر خطرے میں پڑ چکا ہے۔

مجھے اس دلیل سے اتفاق نہیں کہ جہادی اسلام ہندوؤں کو متشدد بنا رہا ہے حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس بڑے منظم طریقے سے سیاست کے رنگ کو تبدیل کر رہی ہے تا کہ ہندوتوا کا بول بالا ہو جائے۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت نے کئی مرتبہ بڑے فخر سے برسرعام کہا ہے کہ ہندو راج 800 سال کے بعد ملک میں واپس آ گیا ہے۔ آخر اس کی اس بات کا اقلیتوں پر کتنا برا اثر ہو سکتا ہے؟ بہت سے مسلمان رہنماؤں نے مجھے بتایا ہے کہ ان کی کمیونٹی ڈر اور خوف میں رہ رہی ہے۔ صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بہت سے سنجیدہ مسلم دانشورمسلمانوں میں انتہا پسندی کے رحجانات کے بارے میں پریشان ہیں۔ حتٰی کہ ہندو طلباء کو مدرسوں میں داخلے کی ایک کوشش بھی شروع ہوئی ہے۔
مسلمان طلباء ڈی اے وی اور آریا سماج کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینا چاہتے ہیں۔ ایک اور افسوس کی بات یہ ہے کہ سیکولر جماعتوں کے فعال کارکن بھی اب بی جے پی کی سوچ کی پیروی کرنے لگے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بی جے پی کے نظریے سے محبت کرنے لگے ہیں بلکہ ان کا مقصد اقتدار کے قریب رہنا ہے۔ حتی کہ کرن بیدی جیسا شخص جو ساری زندگی فرقہ واریت کے خلاف رہا ہے اب بڑے فخر سے بی جے پی کے موقف کی حمایت کرتا نظر آتا ہے۔

درحقیقت اس کی یہ روش بھی اقتدار تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے لیکن اس قسم کی باتوں کا جو نتیجہ نکل رہا ہے وہ صحتمند نہیں۔ اس سے اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہو رہی ہیں اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو رہی ہیں کہ وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ اگر یہی روش جاری رہی تو اس سے بھارت کی توانائی کمزور پڑ جائے گی اور وہ تعمیر و ترقی کا اپنا خواب پورا نہیں کر سکے گا۔ جب تک اقلیتوں کو یہ یقین نہیں ہوتا کہ بھارت کی تعمیر و ترقی میں ان کو بھی حصہ ملے گا تو وہ ترقی کے پہیے کو چلانے میں اپنا حصہ نہیں ڈالیں گے۔

بی جے پی کی طاقت میں اضافہ نہ صرف اقلیتوں کے لیے تشویش کا باعث ہے بلکہ ملک کے آزاد خیال طبقات کے لیے بھی۔ مہاتما گاندھی کے نظریے کے مطابق بھارت میں ایسا نظام قائم ہونا چاہیے جس میں قانون کے روبرو سب برابر ہوں اور سب کے لیے برابری کے مواقع موجود ہوں۔ مسلمانوں کا احساس یہ ہے کہ انھیں زیادہ سے زیادہ دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے۔ اس سے مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ ماضی میں دنیا نے اس کے نتائج دیکھے ہیں اور موجودہ دور میں یہ اور زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔
اس ماہ کے شروع میں پیرس کے جریدے چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملے میں 12 افراد کا قتل قرآن پاک کی تعلیمات کے بھی منافی تھا۔ یہ درست ہے کہ گستاخانہ خاکے کسی صورت قابل قبول نہیں لیکن اس کے ذمے داروں کو ہلاک کر دینا بھی کیونکر روا ہو سکتا ہے؟ مجھے مسلمانوں کے جذبات کا مکمل احساس ہے لیکن جواب میں کسی کو ہلاک کر دینا انسانیت کے لیے ایک دھچکا ہے اور آزادی اظہار کے لیے بھی۔

یہ محاورہ کہ آپ کی آزادی اسی حد تک ہے جہاں میری ناک شروع نہیں ہوتی لیکن اس صورت میں بدلہ ہلاکتوں سے لیا گیا۔ اگر سب لوگ اسی طرح بدلہ لیتے رہیں تو پھر تو یہ جنگل کا قانون بن جائے گا۔ لوگوں کا غم و غصہ بجا تھا۔ جس کا مداوا کرنے کی پوری کوشش کی جانی چاہیے لیکن یہ دنیا کس قسم کی بن جائے گی جب لوگ دوسروں کو ہلاک کرنا شروع کر دیں ۔

مہاتما گاندھی نے کہا تھا اگر ذرایع ناجائز ہوں تو اس کا نتیجہ بھی ناجائز ہی نکلے گا۔ یہ دکھ کی بات ہے کہ بھارتی عوام اس معیار پر پورے نہیں اترے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ گاندھی جی کے الفاظ میں کوئی خامی تھی۔ دنیا میں تشدد اور کٹر اور انتہا پسندی پھیلی ہوئی ہے لہذا ہمیں صرف ایک ہی راستہ اختیار کرنا چاہیے وہ ہے تعاون اور مفاہمت کا راستہ۔ یہ نہرو کا خواب تھا جس کا ذکر انھوں نے دریائے راوی کے کنارے پرچم بلند کرتے ہوئے کیا۔ میری خواہش ہے کہ بھارت اسی راستے پر چلے اور دیگر ممالک کے لیے ایک مثال بن جائے خاص طور پر اپنے پڑوسیوں کے لیے۔

کلدیپ نائر
(ترجمہ:مظہر منہاس)

بندوقوں کے سائے میں تعلیم کا حصول ؟.....

$
0
0

سانحہ پشاور کے بعد حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کیلئے اپنی سکیورٹی لازمی قراردینے کے احکامات کی وجہ سے صوبے کے اکثر تعلیمی ادارے تاحال نہ کھل سکے جس کی وجہ سے لاکھوں طلبہ وطالبات کا قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے ۔حکومت نے آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد تمام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے لئے لازمی قراردیا تھا کہ وہ اپنی چاردیواری کو آٹھ فٹ تک بلند کرکے ان پر خاردار تار لگائیں گے جبکہ سی سی ٹی وی کیمروں اور سکول کے آگے حفاظتی بیئریر کی تنصیب بھی ضروری قراردی گئی اسکے علاوہ سکولوں کی سکیورٹی کے لئے سکیورٹی گارڈزرکھنا بھی لازمی بنادیاگیا جبکہ اساتذہ کو اسلحہ رکھنے کی اجازت بھی دی گئی ۔

حکومت نے مذکورہ اقدامات پر سختی سے عمل کرنے کو کہا اور کسی بھی سکول کو تمام ضروری اقدامات کے بغیر کھولنے سے منع کردیا جس کے نتیجے میں ہزاروں سکول ، کالجزاور یہاں تک یونیورسٹیاں تک سانحہ پشاور کے ڈیڑھ ماہ گزرنے کے باوجود تاحال بند ہیں ۔تعلیمی ادروں خصوصا نجی تعلیمی اداروں کی بندش سے جہاں طلبہ کا قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے وہاں ان سے فیسوں کی وصولی کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔

دوسری جانب اکثر نجی تعلیمی اداروں نے سکیورٹی انتظامات پر اٹھنے والے اخراجات طلباء وطالبات سے ان کی فیسوں میں اضافہ کرکے وصول کرنا شروع کردیا ہے ۔حکومت نے اس سے قبل خبردار کیا تھا کہ نجی تعلیمی اداروں کو فیسوں میں اضافہ نہیں کرنے دیا جائے گا تاہم اس کے باوجود نجی تعلیمی ادارے زائد فیس طلب کررہے ہیں ۔

مارچ میں میٹرک جبکہ مئی کے شروع میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات منعقد ہوتے ہیں جبکہ یونیورسٹی کی سطح پر مارچ اور مئی میں سمسٹرکے امتحانات منعقد ہوتے ہیں لیکن اسکے باوجود اس اہم وقت میں تعلیمی اداروں کی بندش طلباء وطالبات کے مستقبل کو تاریکی کی جانب دھکیلنے کے مترادف ہے ۔ سکولوں کی سکیورٹی کے نام پر سب سے افسوسناک عمل اساتذہ کو اسلحہ ساتھ رکھنے کی اجازت دینا ہے اب متعدد سکولوں کے اساتذہ کلاس روم کے اندر کلاشن کوفوں اور بندوقوں کے ساتھ طلبہ کو پڑھاتے نظر آرہے ہیں اسکے علاوہ سکولوں کے تمام مرکزی دروازوں پر بندوق بردار محافظین کو دیکھ کر ان معصوم
بچوں کے ذہنوں کی کیا حالت ہوتی ہوگی اس کے بارے میں بھی حکومت کو سوچنا ہوگا۔

صوبائی حکومت نے گزشتہ روزسانحہ پشاور کے شہداء کے چہلم کے سلسلے میں اچانک صوبے میں عام تعطیل کا اعلان کردیایہ اعلان رات گئے کیا گیا جس کی وجہ سے اکثر سکولوں کی انتظامیہ اور بچوں کو خبر نہ ہوسکی اور اگلے روزوہ سکولوں میں موجود تھے جہاں انہیں بتایا گیا کہ آج عام تعطیل ہے جس کی وجہ سے بچوں اور انکے والدین کو نہ صرف پریشانی اور ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑا بلکہ یہ سنگین سکیورٹی کی خامی بھی ثابت ہوسکتی تھی کیونکہ اس دن تعطیل کیو جہ سے سکیورٹی گارڈزموجود نہیں تھے۔

اسکے علاوہ آئے روز تعلیمی اداروں کی بندش کی وجہ سے بچوں کا قیمتی وقت کا ضیاع ہو رہا ہے اور تعلیمی ادارے ایک ایسے وقت میں مسلسل بند کئے جا رہے ہیں جب امتحانات سروں پر ہیں ۔ پشاور اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے مختلف تعلیمی اداروں کے طلباء کے والدین کے مطابق سانحہ پشاور کے بعد حکومت کو دہشت گردوں کے خلاف ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں تھے جس سے دہشت گرد محسوس کرتے کہ پاکستانی قوم اتنے بڑے سانحہ کے باوجودخوفزدہ نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے 16 دسمبر سے 11 جنوری تک تعلیمی اداروں کی بندش نے دہشت گردوں کے خوف کو مزید تقویت دی ۔

 مارچ کے پہلے ہفتے میں میٹرک کے امتحانات شروع ہونے والے ہیں ستمبر سے فروری تک ایک ایک دن طلباء کے لئے نہایت قیمتی ہوتا ہے اور ان ایام میں وہ دن رات مطالعہ کرتے رہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے سانحہ پشاور کے بعد 22 دنوں تک تعلیمی اداروں کی بندش سے طلباء کابہت سا قیمتی وقت ضائع ہوا ۔سانحہ پشاور ملکی تاریخ کا بلاشبہ ایک سیاہ باب ہے لیکن اس سیاہ باب سے اگر ہمیں سبق لینا چاہئے تھا تو وہ یہ تھا کہ ہمیں تعلیمی اداروں کو بند کرنے کی بجائے ان دہشت گردوں کو ایک ایسا پیغام دینا چاہئے تھا کہ سکولوں کو کھلا رکھا جاتا بچوں کی حاضری یقینی بنائی جاتی ٗ اس پیغام سے دہشت گردوں کو کوئی اور بہتر پیغام نہیں دیا جا سکتا ۔

آرمی پبلک سکول کے واقعے کے بعد حکومت کو تعلیمی اداروں کی جانب خصوصی توجہ دینی چاہئے تھی سکیورٹی ایک بنیادی ضرورت ہے لیکن بچوں کی حاضری اس سے بھی بڑی ضرورت ہے اور اس پیغام کو دینے میں حکومت مکمل طور پر ناکام رہی ۔اس ہفتے کی ایک اہم خبر یہ ہے کہ پشاورہائی کورٹ نے خیبرپختونخوا کے صنعتی اورگھریلوصارفین سے بجلی کے بلوں میں 4مختلف اقسام کے سرچارج کی وصولی روک دی ہے اورپیسکو کو ہدایات جاری کی ہیں کہ تاحکم ثانی پیسکوصارفین سے یہ سرچارج وصول نہ کریں عدالت عالیہ کے جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس ارشاد قیصر پرمشتمل دورکنی بنچ نے یہ احکامات گذشتہ روزپیسکوکی جانب سے خیبرپختونخوا کے صنعتی اور گھریلوصارفین سے بجلی کے بلوں میں 4مختلف اقسام کے سرچارج کی وصولی کے خلاف دائررٹ پٹیشن پرجاری کئے ۔

 وکلاء نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ اس وقت خیبرپختونخوا کے صنعتی اورگھریلوصارفین سے بجلی کے بلوں میں نیلم جہلم سرچارج ٗ ڈیٹ سرچارج ٗ فکس سرچارج اورایکولائزیشن سرچارج وصول کئے جارہے ہیں یہ تمام سرچارجز نیپرا ایکٹ کے سیکشن 31(5) کے تحت لگائے گئے ہیں حالانکہ یہ سیکشن قانون میں فنانس بل 2008ء کے ذریعے شامل کئے گئے ہیں جوغلط ہیں اس کے ساتھ ساتھ پیسکو نیپراکی منظوری کے بغیرٹیرف کاتعین نہیں کرسکتاکیونکہ قانون کے تحت ساری ڈسٹری بیوشن کمپنیاں کسی بھی صارف پرسرچارج عائد نہیں کرسکتی، کسی بھی سرچارج کے نفاذ کیلئے اس معاملے کو سب سے پہلے مشترکہ مفادات کونسل میں لانااوراسے منظوری کے بعد نفاذ آئینی تقاضا ہے جبکہ نیپرا نے مؤقف اختیار کیاکہ یہ سرچارجزمختلف قرضوں کی ادائیگی کیلئے لگائے گئے ہیں تاہم ابھی تک صارف کو اس سے بے خبررکھاگیاہے کہ یہ قرضے کتنے ہیں کس کو ادا کرنے ہیں اورصارف کے ذمے یہ قرضے کیوں ڈالے گئے ہیں 

علاوہ ازیں ایکولائزیشن سرچارج ٗ لائن لاسسزکی مد میں وصول کئے جارہے ہیں حالانکہ ریگولر صارف پریہ غیرقانونی لگائے گئے ہیں علاوہ ازیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ سرچارج کدھرجارہے ہیں۔ بجلی پرٹیکس صرف صوبائی حکومت عائد کرسکتی ہے اوراس ضمن میں آئین کا آرٹیکل57(2) سی واضح ہے جبکہ ٹیکس کے نفاذ میں پارلیمنٹ سے منظوری بھی لینی پڑے گی جو خیبرپختونخوا کے بجلی کے صارفین سے موصول ہونے والی بلوں کی مدمیں نہیں لئے گئے۔واضح رہے کہ لاہورہائی کورٹ پہلے ہی 8دسمبر2012 ء کو یہ تمام ٹیکس پنجاب کے صارفین کی حدتک معطل کرچکی ہے۔

فدا خٹک

مرحوم شاہ عبداللہ کا سفرِ زندگی

$
0
0

مرحوم شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی فکر پر ان کے والد اور جدید سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز السعودکا گہرا اثر تھا جس کے باعث وہ مذہب، تاریخ اور عرب ورثے کے بارے میں گہری عقیدت رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی ماہ و سال صحرا میں بدو قبائل کو ان کے ماضی کی روشن اقدار، بہادری اور فراخ دلی کے بارے میں بتاتے ہوئے گزارے جس کے باعث ان میں اپنے عوام کی خدمت کا جذبہ پیدا ہوا۔

 شاہ عبداللہ کے سیاسی کیریئر کا آغاز 1962ء میں اس وقت ہوا تھا،جب اس وقت کے سعودی فرمانروا شاہ فیصل نے ان کو نیشنل گارڈ کے کمانڈر کے طور پر منتخب کیا۔ بعدازاں 1975ء میں جب شاہ خالد بادشاہ کے طور پر تخت نشین ہوئے تو شاہ عبداللہ نائب وزیراعظم دوم بن گئے۔ وہ قدم بہ قدم سیاسی منازل طے کرتے رہے۔ ان کی سحر انگیز شخصیت نے نہ صرف سعودی شاہی محل کے اراکین کو ان کی جانب متوجہ کیا بلکہ عام سعودی شہریوں نے بھی ان سے بہت سی توقعات وابستہ کرلیں۔ 1982ء میں جب شاہ فہد تخت نشین ہوئے تو انہوں نے شاہ عبداللہ کو ولی عہد اور نائب وزیراعظم اول بنا دیا۔ 

اس عہدے پر انہوں نے نہ صرف کابینہ کے اجلاسوں کی صدارت کی بلکہ حرمین الشریفین کے نائب نگران بھی بن گئے۔ 2005ء میں شاہ عبداللہ سعودی عرب کے چھٹے بادشاہ کے طور پر تحت نشین ہوئے، انہوں نے اپنے عہدِ حکومت کے دوران ترقیاتی منصوبے شروع کرنے پر خصوصی توجہ دی ‘ شاہ عبداللہ نے نہ صرف ملک کی معاشی ترقی کے لیے مختلف اقدامات کیے بلکہ تعلیم، صحت، تعمیراتی اور سماجی منصوبوں کی جانب بھی توجہ مبذول کی جس کے باعث سعودی عرب میں ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔شاہ عبداللہ نے چار بڑے معاشی شہر قائم کیے جن کے باعث معاشی ترقی کے در وا ہوئے۔

 انہوں نے تعلیمی شعبہ کی ترقی کی جانب بھی توجہ مرکوز کی اور مرد و خواتین کے لیے اعلیٰ تعلیم کے مختلف ادارے قائم کے جن میں شاہ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور شہزادی نورہ بنتِ عبدالرحمان یونیورسٹی برائے خواتین شامل ہیں لیکن ان کا جوش و ولولہ صرف ان دو شعبوں تک محدود نہیں رہا بلکہ ان کا مذہب سے لگائو بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا۔ انہوں نے حرمین پاک کی توسیع کے منصوبے بھی شروع کیے۔ شاہ عبداللہ کا ایک اہم کارنامہ سعودی عرب میں باضابطہ عدالتی نظام قائم کرنا ہے جب کہ انہوں نے شاہی ولی عہد مقرر کرنے کے لئے ایک طریقہ کار بھی وضع کیا۔ 

قبل ازیں 2005ء میں ولی عہد کی حیثیت سے وہ ملک کی میونسپل کونسلوں کے انتخابی عمل کا قریب سے جائزہ لے چکے تھے۔ شاہ عبداللہ عالمی سفارت کاری کے محاذ پر ہمیشہ سرگرم رہے۔ انہوں نے ہر عالمی فورم پر عرب و اسلامی ریاستوں کا دفاع کیا۔ وہ عالمی امن کے داعی رہے جس کے باعث انہوں نے دنیا کے اہم ترین مذاہب کے درمیان مکالمے کی روایت کو فروغ دیا ۔ یہ ان کی کاوشوں کے ہی ثمرات تھے کہ سپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں ورلڈ کانفرنس آن ڈائیلاگ اور بعدازاں اقوامِ متحدہ کے تحت کانفرنس آن ڈائیلاگ کا انعقاد کیا گیا ‘ ان کی یہ جدوجہد عالمی تنازعات کے حل میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔

شاہ عبداللہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ عرب و اسلامی دنیا کے مابین تنازعات جنم نہ لیں جس کے باعث انہوں نے ان کے حل کے لیے ہمیشہ سرگرم کردار ادا کیا۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام اور خاص طور پر فلسطینیوں کے حقوق کے لیے نہ صرف آوازبلند کی بلکہ اس کے لیے عملی جدوجہد بھی کی۔ شاہ عبداللہ کا ایک اہم کارنامہ دارفر پر سوڈان اور چاڈ کے مابین مصالحت کروانا بھی تھا۔ شاہ عبداللہ عالمی تعاون کے فروغ کے زبردست حامی تھے جس کے لیے انہوں نے سعودی عرب میں کئی عالمی سیمینار اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا۔ وہ ہمیشہ اس بات کے حامی رہے کہ تیل کی دولت کو دنیا کی تقریباً سات ارب آبادی کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال میں لایا جانا چاہیے جس کے لیے انہوں نے 2008ء میں جدہ میں عالمی توانائی سمٹ کا انعقاد کیا تاکہ تیل کی عالمی قیمتوں میں استحکام برقرا ر رہے۔ 

شاہ عبداللہ کا دہشت گردی کے بارے میں مؤقف بہت واضح تھا‘ وہ ہمیشہ دہشت گردوں کی جانب سے معصوم زندگیوں کے ضیاع کی مذمت کرتے رہے جب کہ شدت پسند گروہوں کی سرگرمیوں کو بھی ناپسند کیا کرتے۔ ریاض میں فروری 2005ء میں ہونے والی انسدادِ دہشت گردی کی عالمی کانفرنس میں انہوں نے دہشت گردی سے نپٹنے کے لیے عالمی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ شاہ عبداللہ کا صحرا سے رومان کبھی کم نہیں ہوا‘ ان کو گھڑ سواری کابے حد شوق تھا۔ انہوں نے گھوڑوں کی نایاب عرب نسل کی افزائش کی جس کے لیے انہوں نے ریاض میں ایک کلب بھی بنایا۔

 شاہ عبداللہ کا ایک شوق مطالعہ بھی رہا جس کووہ زندگی بھر بہت زیادہ اہمیت دیتے رہے۔ انہوں نے نہ صرف مغربی فلسفیوں کی کتابوں کا مطالعہ کر رکھا تھا بلکہ مسلم مفکرین کی کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ بھی ان کے ذاتی کتب خانے کا ذخیرہ تھا۔ انہوں نے اپنے اس شوق کی تکمیل و فروغ کے لیے ریاض اور مراکش کے شہر کاسا بلانکا میں بھی لائبریریاں قائم کیں۔ شاہ عبداللہ کی موت نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ عالمی امن کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ دنیا ایک ایسے عظیم رہنما سے محروم ہوگئی ہے جنہوں نے ہر محاذ پر امن کے علم کو تھامے رکھا۔ 

ان کے دور میں پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کے مزید قریب آئے اور پاکستان سعودی عرب کے اہم ترین غیر عرب اتحادی کے طور پر نمایاں ہوا۔ ان کی موت سے پیدا ہونے والا خلا شاید کبھی پورا نہ ہو لیکن امید کی جارہی ہے کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز ان کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں گے اور سعودی عرب کی سفارتی پالیسیوں میں توازن برقرار قائم کرتے ہوئے عالمی امن کے لیے فعال کردار ادا کرتے رہیں گے۔ 

علی عباس

 

نئےفرمانروا - شاہ سلمان بن عبدالعزیز...

$
0
0

شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد نظام حکومت کی باگ ڈور نئے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سنبھال لی ہے۔78سالہ نئے شاہ کو مشرق وسطیٰ میں جاری بحرانوں کے حل کے لئے نئی راہیں تلاش کرنا ہونگی اور داعش جیسے انتہا پسند گروپوں کے خاتمے کیلئے حکمت عملی بنانا ہوگی۔ نائف بن عبدالعزیز کے انتقال کے بعد شاہ عبداللہ نے سلمان بن عبدالعزیز کو ولی عہد بنایا تھا۔ وہ نومبر 2011 میں سابق ولی عہد و وزیر دفاع سلطان بن عبدالعزیز کے انتقال کے بعد وزیر دفاع بنے تھے۔شہزادہ سلمان بڑے مدبر اور دانشمند انسان کے طور پر مشہور رہے ہیں، وہ ماضی میں سعودی قیادت کے معتمد مشیر سمجھے جاتے تھے اور خاندان کے داخلی امور میں ان کا مؤثر کردار تھا۔مغربی میڈیا بھی انہیں معتدل شخصیت قرار دیتا ہے۔ 

کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کے نئے شاہ وزارت عظمیٰ اور دفاع کے عہدے اپنے پاس رکھیں گے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو 1963ء سے 2011ء تک صوبہ ریاض کے گورنر رہنے کا طویل تجربہ حاصل ہے ۔ 2011ء میں انہوں نے وزارت دفاع سنبھالی ۔ ان کے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ وہ مثبت سوچ کے مالک نہایت اعلیٰ قسم کے انسان،تعلیم اور ٹیکنالوجی سے محبت کرنے والے حکمران ہیں ۔ سعودی ویب سائیٹس کے مطابق نئے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی پرورش مرحبا پیلس میں ہوئی تھی، انہوں نے ابتدائی تعلیم ریاض کے شاہی سکول سے حاصل کی۔ یہ سکول سعودی شہزادوں کی تعلیم و تربیت کیلئے مختص ہے ۔ سلمان بن عبدالعزیز جدید سائنس اور علاقائی تعلیم میں دلچسپی رکھتے ہیں اور

 انہی مضامین میں انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی ۔انہیں 1950ء میں ریاستی امور میں شامل کر لیا گیا ۔ ٭ 19برس کی عمر میں 1954ء میں انہیں ریاض کا میئر بنایا گیا ۔ ٭ 25دسمبر 1960ء کو انہوں نے میئر شپ سے استعفیٰ دیدیا ۔ ٭ 4فروری 1963ء کو ریاض کے گورنر بنے ۔انہوں نے ایک اوسط درجے کے شہر کو دنیا کا جدید شہر بنانے میں دن رات ایک کر دیا اور آج ریاض دنیا کے ترقی یافتہ شہروں میں سے ایک ہے ۔

 بطور گورنر انہوں نے مغربی ٹیکنالوجی اور ترقی کے ماڈل سے استفادہ کیا اور اپنے صوبے میں بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کی اور سیاحت کو فروغ دیا ۔ ریاض میں شاہ سعود یونیورسٹی کا قیام ان کی تعلیم سے غیر معمولی دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ 2011ء میں انہوں نے اپنے صوبے سے تمام ملکی و غیر ملکی بھکاریوں کا خاتمہ کر دیا ۔ ٭5نومبر 2011ء کو ملکی وزارت دفاع کا چارج لیا اور برطانیہ اور امریکہ کے تواتر سے دورے کئے ۔

امریکی صدر باراک اوباما اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سے ملاقاتیں کیں اور دفاعی ہتھیاروں کے حوالے سے کئی تاریخ ساز معاہدے کئے ۔ شاہ سلمان صحت کے حوالے سے بعض مسائل کا شکار رہے ہیں، چند سال پہلے انہیں ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن کرانا پڑا تھا۔ شاہ سلمان نے بڑے اہم موقعہ پر سلطنت کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں، ان کے وسیع تجربے، دانش مندی اور فراست کو دیکھتے ہوئے با آسانی یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ آنے والے دور کے چیلنجز سے بخوبی نبرد آزما ہوں گے۔ 

عبدالستار ہاشمی

شاہ عبداللہ کی وفات اور مشرق وسطیٰ....

$
0
0


اسلامی دنیا کے اہم ملک سعودی عرب کے چھٹے بادشاہ شاہ عبداللہ کا نو سال پر محیط اقتدار اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔ گزشتہ دو سالوں سے علیل شاہ عبداللہ 22 اور 23 جنوری کی درمیانی شب خالق حقیقی سے جاملے۔شاہ عبداللہ کئی عرصے سے پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا تھے اور گزشتہ کئی دنوں سے وینٹی لیٹر پر تھے۔ 90 سالہ شاہ عبداللہ نے اپنی زندگی میں ہی مملکت سعودی عرب کے معاملات اپنے سوتیلے بھائی ولی عہد سلمان بن عبدالعزیز کو سونپ دئیے تھے۔ جو 48سال تک ریاض کے گورنر رہے ہیں۔79 سالہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز صرف20 سال کے تھے تو انہیں وزیر بنا دیا گیا تھا۔

 اپنے بھائی شہزادہ نائف کی وفات کے بعد 2012 میں ولی عہد مقرر ہوئے اور شاہ عبداللہ مرحوم کی خرابی صحت کے باعث مختلف تقریبات میں ان کی نمائندگی کرتے رہے۔ شاہ عبداللہ کی موت کی خبرنے پوری اسلامی دنیا کو غمگین کردیا۔ حافظ عبدالکریم بتا رہے تھے کہ شاہ عبداللہ کی موت پر سعودی عرب کی گلیاں ویران ہیں۔ پورے ملک کی فضا سوگوار ہے۔ شاہ عبداللہ کو ایک اچھے بادشاہ کے طور پر لیا جاتا تھا۔ شاہ عبداللہ کو جمعہ کی نماز کے بعد ریاض میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ تدفین کے موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف، مصر کے وزیر اعظم ابراہیم ملہب، سوڈان کے صدر عمر حسن البشیر اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان موجود تھے۔

شاہ عبداللہ کو تو شاہی خاندان کے فرمانرواؤں نے اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ایک بے نشان قبر میں دفنا دیا ہے مگر شاہ عبداللہ کی موت کے عالم اسلام بالخصوص مشرق وسطی پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟ کیا شاہ سلمان مشرقِ وسطی کے حوالے سے سعودی عرب کی سابق پالیسیاں جاری رکھیں گے؟ کیا خطے میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ سے سعودی عرب کو محفوظ کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے؟ تیل کے حوالے سے نئے سعودی حکمران کی کیا پالیسی ہوگی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات کا ہر شخص متلاشی ہے۔ آج کے کالم میں ان سوالات کا احاطہ کرنے کی کوشش کروں گا۔

سعودی عرب کے نئے بادشاہ سلمان نے عہدہ سنبھالنے کے چند گھنٹوں بعد ہی ایک بیان جاری کیا کہ ’سیکورٹی اور استحکام برقرار رکھنے اور سلطنت کی تمام برائیوں سے حفاظت کرنے میں اللہ میری مدد کرے۔'اس بیان سے نئے بادشاہ کی ترجیحات کے بارے میں اندازہ ہوتا ہے۔ سعودی عرب کے نئے بادشاہ اندرونی اور بیرونی طور پر کئی معاملات کو مزید بہتر بنانے کے لئے کام کریں گے۔ اس حساس وقت میں سعودی شاہی خاندان کے جانشینی کا عمل خوش اسلوبی سے حل ہوچکا ہے۔ مگر نئے بادشاہ کو غیر معمولی رفتار سے کچھ ممکنہ مسائل سے نمٹنا ہو گا۔ 
شاہ سلمان کی جانب سے اپنے سوتیلے بھائی شہزادہ مقرن کو ولی عہد مقرر کر نا دانشمندانہ اقدام تھا۔ اس کے بعد نیا نائب ولی عہد مقرر کرنے کا اعلان سامنے آیا۔ نائب ولی عہد وزیر داخلہ محمد بن نائف کو مقرر کیا گیا ہے اور یہ شہزادوں کی نئی نسل کے پہلے شخص ہیں جنھوں نے تخت تک جانے والی سیڑھی پر قدم رکھا ہے۔ محمد بن نائف شہزادہ نائف کے بیٹے ہیں ۔جو شاہ عبداللہ اور شاہ سلمان کے بھائی تھے۔ 2012 تک وہ سعودی عرب کے ولی عہد رہے اور انہی ہی کی وفات کے بعد شاہ سلما ن کو ولی عہد مقرر کیا گیا تھا۔ پھر شاہ سلمان نے اپنے بیٹے کو وزیر دفاع بھی مقرر کردیا۔

شاہ سلمان کے دور میں پہلی بار آل سعود کی تیسری نسل اقتدار کا حصہ بن رہی ہے۔ کیونکہ شاہ عبداللہ کا خیال تھا کہ ابھی اقتدار ہم بھائیوں میں رہے۔ اور تیسری نسل کو اقتدار میں کچھ عرصے بعد شریک کیا جائے اور شاید اس سے بہتر موقع نہیں تھا۔

حالیہ رونما ہونے والے واقعات سے شاہی خاندان کی اکثریت مطمئن ہو گی۔ خاندان کے درمیان کچھ معاملات خوش اسلوبی سے طے کرانے میں ہمسایہ ملک کے سربراہ کا بھی کردار ہے۔ جنہوں نے چند روز قبل عمرے کی غرض سے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ جب شاہ عبداللہ وینٹی لیٹر پر تھے۔

بادشاہ سلمان کو جن نئے چیلنجوں کا سامنا ہوگا۔ اس میں سیکورٹی بہت اہم ہے۔ ان کی اولین ترجیح ملک میں سیکورٹی کی صورتحال کو مزید بہتر بنانا ہوگی۔داعش کے خطرے سے سعودی عرب کو محفوظ کرنے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ جس کا وہ اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بھی تذکرہ کرچکے ہیں۔ شدت پسندوں کو سعودی عرب کے اندر حملوں سے باز رکھنے کی پالیسی کے تحت اسلامی رہنماؤں اور پڑھانے والے افراد کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ عراق کے حوالے سے بھی شاہ سلمان کی پالیسی میں تبدیلی آنے کا کوئی خاص امکان موجود نہیں ہے۔ کیونکہ اس وقت وزیر دفاع انہی کے صاحبزادے ہیں اور وزیر داخلہ شہزادہ نائف کے فرزند ہیں۔ اس لئے سعودی عرب میں شاہ سلمان کا دور ایک اچھے دور کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

شاہ سلمان اپنے پیشرو عبداللہ کی طرح وہاں زمینی فوج نہ بھیجنے کے فیصلے پر قائم رہیں گے کیونکہ سعودی رہنماؤں کی رائے کے مطابق ملکی فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔یمن کے حوالے سے بھی سابق پالیسی جاری رہے گی مگر یمن میں القاعدہ کا بڑھتا ہوا اثر مشرق وسطیٰ کے لئے خطرہ ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب خطے میں امن کی کوششوں کو جاری رکھنے کے لئے اقدامات کی کوشش کرے گا۔ لیکن بادشاہ سلمان خطے کے تنازعات میں مداخلت کرنے پر کم مائل ہوں گے اور خطے کے دوسرے ممالک میں دخل اندازی کو ترجیح نہیں دیں گے۔

شاہ سلمان کا دور اصلاحات کے دور کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے ۔بادشاہ کے اندرونی طور پر درپیش مسائل میں سے ایک حقوق انسانی ہیں اور توقع ہے کہ ان کے بارے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ۔اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ وہ اپنے پیشرو عبداللہ کے اقدامات کو واپس لیں گے۔اس کے علاوہ سلطنت کی تیل کے بارے میں پالیسی پر بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی۔سعودی عرب تیل کی پیداوار میں کٹوتی نہ کرنے کی پالیسی کو جاری رکھے گا ۔پیٹرولیم کی وزارت پر علی نائمی کو برقرار رکھنےسے یہ تاثر ملتا ہے کہ موجودہ پالیسی ہی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک سعودی عرب اور تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک کم قیمتوں کو برداشت کر سکتے ہیں جس میں امریکہ میں شیل پیٹرول کی صنعت کے لئے مشکل حالات پیدا کرنے ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے اوپیک کی مارکیٹ متاثر ہو رہی ہے۔لیکن یہ طے ہے کہ شاہ سلمان کی مشرق وسطیٰ کے حوالے سے پالیسی میں اہم تبدیلیاں رو نما ہوسکتی ہیں۔

حذیفہ رحمان
بہ شکریہ روزنامہ جنگ

مدارس کی اصلاح۔۔۔ چند تجاویز.....

$
0
0

ایک عرصے سے مذہبی مدارس کی اصلاح پر زور دیا جا رہا ہے۔ سالہا سال سے اس موضوع پر تجاویز کے پلندے اکٹھے کئے جا رہے ہیں لیکن یہ ’’وبا‘‘ ہے کہ طول پکڑتی جا رہی ہے۔

جس طرح کسی ہجوم میں یہ پہچاننا ناممکن ہوتا ہے کہ مجرم چہرہ کون سا ہے اور معصوم کون سا، اسی طرح مدارس کے ہجوم میں ایسے مدرسے کو سنگل آؤٹ نہیں کیا جا سکتا کہ فلاں مدرسہ واقعی ایک مذہبی تدریس گاہ ہے اور فلاں معاشرے کا وہ ناسور ہے جس کی بیخ کنی کے لئے آج پاکستان کی سویلین حکومت کو فوجی عدالتیں قائم کرنا پڑی ہیں۔

اس تناظر میں فی الوقت میرے ذہن میں چھ ایسی تجاویز آ رہی ہیں جن کو اپنے قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ وزارتِ مذہبی امور اور وزارتِ داخلہ کے کار پردازوں سے بھی میری درخواست ہے کہ ان پر سنجیدگی سے غور کیا جائے، ممکن ہے ان پر سو فیصد عمل درآمد نہ کیا جا سکے لیکن اربابِ اختیار اگر ان کو آج صرف رجسٹر ہی کر لیں تو آنے والے ایام میں شائد ان کی صدائے باز گشت، کسی کام آ سکے۔

اول: ’’تاریخِ مدارسِ پاکستان‘‘ کے نام سے ایک ایسی تاریخ شائع کی جائے جس میں1947ء سے لے کر آج تک مُلک کے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت، بلتستان میں قائم ہونے والے مدارس کی تمام تفصیل موجود ہو۔۔۔۔ یہ ایک بڑا کام ہے، حساس نوعیت کا ہے اور حساس تر توجہ بھی مانگتا ہے۔

میرے خیال میں اگر ہو سکے تو ایک صدارتی فرمان کے ذریعے کسی بھی ایسی نئی مسجد کی تعمیر غیر قانونی قرار دی جائے جس میں طلبا و طالبات کے لئے اقامتی اور تدریسی سہولیات موجود ہوں یا ان کا آئندہ امکان ہو اور جس کی منظوری قبل ازیں حکومت سے نہ لی گئی ہو۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر ٹیلی فون ڈائریکٹری اپنی فربہ اندام ضخامت کے ساتھ ہر سال شائع کی جا سکتی ہے تو ’’تاریخِ مدارسِ پاکستان‘‘ تحریر کرنا کچھ ایسا ناممکن نہیں ہو گا۔ مزید سہولت کر کے صوبائی سطح پر شائع کرنے کا بھی سوچا جا سکتا ہے۔ اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ اس تصنیف میں صرف ایسی مساجد کا اندراج کیا جائے، جن کے ساتھ کوئی مدرسہ ملحق ہو۔ ’’خالص‘‘ مساجد کی تاریخ بھی اگر شائع کرنی مقصود ہو تو اس کے لئے ایک علیحدہ کاوش کی جا سکتی ہے۔

دوم: مدارس میں زیر تعلیم طلباء کے والدین کا مکمل ریکارڈ موجود ہونا چاہئے۔ اس ریکارڈ میں والدین کے شناختی کارڈ کی کاپیاں موجود ہوں جو نادرا سے باقاعدہ تصدیق شدہ ہوں۔ متعلقہ وزارت/محکمے کے ارکان گاہے بگاہے ان شناختی کارڈوں کی مزید تفتیش و توثیق موقع پر جا کر کر سکتے ہیں۔ جو طلبا کسی مدرسے سے فارغ التحصیل ہو جائیں ان کا ریکارڈ بھی موجود ہونا چاہئے۔یہ سراغ بھی لگانا چاہئے کہ یہ فارغ التحصیل طلباء سوسائٹی کی مین سٹریم میں اب کیا رول ادا کر رہے ہیں اور اس رول کی قومی اہمیت و افادیت کیا ہے۔

سوم: سب سے اہم نکتہ ان مدارس کو فنڈز کی فراہمی کا ہے۔ حکومت اس سلسلے میں جو تگ و دو کر رہی ہے، وہ لائق تحسین ہے، لیکن جو پریکٹس عشروں سے جاری ہو اور جسے مذہب کا چھاتہ بھی میسر ہو، اس کو ایک قلیل مدت میں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ آج اگر کسی دریا کا منبع بالکل بند کر دیا جائے تو دریا کو خشک ہوتے ہوتے ایک قابلِ لحاظ عرصہ درکار ہو گا۔

جو غیر ملکی حکومتیں یا مخیر تنظیمیں پاکستان میں کسی مدرسے کی مالی معاونت فرما رہی ہوں ان کا پورا ریکارڈ منظر عام پر لایا جائے۔ میڈیا کو اس کام کے لئے آگے بڑھنا چاہئے۔ ٹاک شوز کا ایک ایسا سلسلہ شروع کرنا چاہئے جس میں ان ’’مالی معاونتوں‘‘ کی پوری تاریخ (اور جغرافیہ) واشگاف بلکہ برہنہ کیا جائے تاکہ پاکستانی عوام کو معلوم ہو کہ دوست کے پردے میں دشمن کون ہے اور دشمن کے ترکش میں کس کس دوست مُلک کے تیر ہیں۔

پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے حال ہی میں برطانیہ کا جو دورہ کیا ہے اور وہاں جا کر برطانوی ارباب ِ حکومت کو جو آئنہ دکھایا ہے اس کی خبریں میڈیا پر آ رہی ہیں۔ ان کا یہ دورہ ایک غیر روائتی اقدام تھا اور دورے کا ایجنڈا اس سے بھی غیر روائتی تھا۔ کسی جمہوری مُلک میں کسی آرمی چیف کو اتنے پریشر کا سامنا نہیں ہوا جتنا جنرل راحیل کو ہوا ہے۔ سیاسی حکومت کو اپنے آرمی چیف کے اس اقدم سے سبق اندوز ہونا چاہئے۔

میرے خیال میں جنرل راحیل شریف کا اگلا اقدام یہ ہونا چاہئے کہ وہ اِسی قسم کا ایک دورہ اُن مسلم ممالک کا بھی کریں کہ جن کے تومان، ریال اور درہم و دینار، پاکستانی مساجد و مدارس کی سالانہ آبیاری کر رہے ہیں۔ آئی ایس آئی کے پاس ایسے ثبوت موجود ہوں گے جن میں ان ’’برادر اسلامی ملکوں‘‘ نے پاکستان کے مدارس کی مالی معاونت کر کے ایک مذہبی پراکسی وار کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ یہ برادر اسلامی ممالک، پاکستان کے اصل مارِ آستیں ہیں۔ پاکستان کو خواہ ’’گھاس‘‘ بھی کھانی پڑے، آستین کے اِن سانپوں کا سر کچلنا پہلی ترجیحی ہونی چاہئے۔ جنرل راحیل کو ان عرب اور ایرانی ’’بھائیوں‘‘ سے مل کر انہیں وہی کچھ کہنا چاہئے جو ’’برادر ڈیوڈ کیمرون‘‘ کو کہا گیا ہے!

چہارم: تمام مدارس کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے کہ وہ کہاں سے ’’ہاتھ‘‘ آئے۔ ان سب کو فروخت کر کے اوقاف فنڈ میں منتقل کر دیا جائے۔ اگر کسی بریلوی مزار کو اوقاف کے ماتحت لایا جا سکتا ہے تو کسی وہابی مدرسے یا شیعہ امام بار گاہ کو کیوں نہیں؟

پنجم: ہمارے وزیر داخلہ نے اگلے روز اسلام آباد میں اس موضوع پر ’’متعلقہ بزرگوں‘‘ سے طول طویل گفتگو کی ہے، جس کی تفصیل میڈیا پر آ چکی ہے۔ اس تفصیل کے مطابق مُلک میں10فیصد مدارس ایسے ہیں جن پر شبہ ہے کہ وہ دہشت گردوں کے معاونت کار رہے ہیں (اور اب بھی ہیں) ان مدارس کے خلاف جو کارروائی حکومت کرے گی، اس میں اس نئی شق کا اضافہ بھی ہونا چاہئے کہ اس کی انتظامیہ کو سیک (Sack) کر کے ایک نئی انتظامیہ تشکیل دی جائے۔ اور اگر ایسا کرنا فی الحال ممکن نہ ہو تو وہ موضوعات جو ان مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں، ان کا تدریسی عملہ فی الفور سبکدوش کر دیا جائے۔ اور اس کی جگہ نئی بھرتی کی جائے۔

ہمیں معلوم ہے کہ1971ء کی پاک بھارت جنگ میں مشرقی پاکستان کے سکولوں اور کالجوں میں غیر مسلم اساتذہ نے جو رول ادا کیا تھا، وہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کی تحریک میں کتنا پیش پیش تھا۔ کسی بھی تحریک کی نظریاتی پرورش کے لئے ایسے اساتذہ کا رول بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے جو اپنے مشن کے ساتھ اندھا دھند حد تک مخلص ہوں اور خود ان کی اپنی نظریاتی پرورش بھی ایک مخصوص اندھا دھند سانچے میں ڈھلی اور ایک مخصوص ماحول میں پروان چڑھی ہو۔ مشتبہ مدارس کے یہ اساتذہ ان مدارس کی گویا ’’مشتبہ کور کمیٹیاں‘‘ ہیں ، ان کو جتنی جلد ہو سکے Replace کیا جانا ضروری ہے۔

ششم: جن10فیصد مشتبہ مدارس کا ذکر چودھری نثار علی خان نے کیا ہے، ان کی اکثریت میں ذریعہ تعلیم و تدریس پشتو ہے۔ پشتو زبان ویسے بھی پاکستان کی دوسری بڑی زبان ہے۔ مقامِ افسوس ہے کہ معاشرے پر زبان کی تاثیر اور اس کے اثرات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ مشرقی پاکستان 25سال تک ہمارے ساتھ رہا۔ بنگالیوں کے ساتھ میل ملاقاتوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں غیر مسلم اساتذہ کا اوپر جو ذکر کیا گیا، اس کے ساتھ مغربی پاکستان میں بنگالی زبان کی عدم تفہیم بھی مشرقی بازو کی علیحدگی کا سبب بنی۔ زبان کی اس اجنبیت نے بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز کی صورت میں پاکستان آرمی کی مین سٹریم کو جس قدر اور جتنا نقصان پہنچایا، اس کی تاریخ نہایت دردناک ہے۔ بنگالی افسروں نے1971ء کی جنگ میں پاکستان آرمی کے ساتھ جو غداری کی اس میں پاک فوج کی اکثریت کی بنگلہ زبان سے نا آشنائی بھی ایک ایسا اہم عنصر تھا،جس پر آج تک کوئی تفصیلی سٹڈی نہیں کی گئی۔۔۔۔ یہی کھیل اب فاٹا اور فاٹا کے گردو نواح کے علاقوں میں کھیلا جا رہا ہے۔ پاکستان کا ہر پشتون شہری اردو سے ایک بڑی حد تک واقف ہے لیکن ہر شہری پشتو سے ایک بڑی حد تک ناواقف ہے۔

مشتبہ مدارس میں ذریعہ تدریس اگر پشتو ہو تو ہر پاکستانی کو پشتو زبان سے شناسائی اِسی لئے ضروری ہے کہ وہ یہ جان سکے کہ ان مدارس میں کس مذہبی موضوع پر کتنے غلو سے کام لیا جا رہا ہے۔ جو دہشت گرد پکڑے جاتے ہیں ان میں اکثریت کی زبان پشتو ہوتی ہے۔ ان سے انٹر ایکشن کرنے میں پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بھی بعض اوقات مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر دو دہشت گرد موبائل فون پر ہم کلام ہوں تو پاس کھڑا پشتو نہ سمجھنے والا کوئی بھی پاکستانی یہ نہیں جان سکتا کہ اس کے سامنے اس کا قاتل کھڑا ہے یا کوئی ہم قوم یا ہم مذہب ہے!۔۔۔مجھے یقین ہے متعلقہ وزارتیں متذکرہ بالا موضوعات سے واقف ہوں گی کہ دہشت گردی کا یہ جان لیوا عارضہ ایک طویل عرصے سے پاکستان کو لاحق ہے۔ بایں ہمہ مَیں محسوس کرتا ہوں کہ بارِ دگر ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جائے۔

لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان

دہشت گردی کا حامی کون؟....


مفید ترین شخصیت کیسے بنا جا سکتا ہے؟....

$
0
0

جس کمپنی یا ادارے میں آپ کام کر رہے ہیں، اس میں ترقی کی طرف بڑھنا آپ کا حق ہے۔ لیکن ترقی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہ بیٹھے رہیں۔ بلند سے بلند تر مقام حاصل کرنے کے لیے بنیادی شرط ’’مسلسل جدوجہد‘‘ ہے۔ یہ جدوجہد ایسی ہونی چاہیے کہ جس سے یہ ظاہر ہو کہ آپ متعلقہ ادارے کے خیرخواہ ہیں۔ اس کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو ادارے میں آپ کی حیثیت پہیے کے دندانوں جیسی رہے گی۔اگر آپ ترقی کے خواہش مند ہیں تو اس کے لیے سب سے مفید اور بنیادی کلیہ یہ ہے۔

-1پہلے سوچییے! -2پھر اسے لکھ لیجیے! -3 اور پھر اس پر عمل کیجیے! عمل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ اس مفید آئیڈیے کو مفید سمجھتے ہیں تو اس کا اظہار اپنے مالک سے کر دیجیے۔ ڈاکٹر ولیم۔ ایم۔ سکال نے کہا تھا:’’اگر آپ کو کوئی مفید خیال سوجھتا ہے تو اس پر فوراً عمل کیجیے یا اپنے مالک کو بتا دیجیے۔ اگر آپ مناسب موقعے یا وقت کا انتظار کرتے رہیں گے تو یہ مناسب وقت کبھی نہیں آنے والا۔ پھر پچھتانا احمقانہ بات ہو گی۔‘‘ اپنے خیال کو کسی دوسرے وقت پر نہ ٹالیے۔

ایسا کرکے آپ سنہرے موقعے کو ضائع کرتے ہیں۔ جو لمحہ آپ کے ہاتھ میں ہے اس سے فائدہ اٹھایئے۔ اپنے خیال یا تجویز یا مشورے کو مت چھپایئے۔ آپ کا یہ رویہ آپ کو بہت نقصان پہنچا سکتا ہے۔اس خوف کو دل سے نکال دیجیے کہ آپ کی تجویز یا مشورہ آپ کو ندامت سے دوچار کر سکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ سننے والا اسے ناقابل عمل کہہ دے۔ اس سے دل برداشتہ ہو جانا اپنے آپ کو ’’شکست خوردہ‘‘ ثابت کرنا ہے۔ ہمت نہ ہاریئے اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہیے۔ کوشش کریں کہ آپ کے پاس زیادہ سے زیادہ مفید تجاویز ہوں۔ اپنے آپ کو ’’مفید ترین شخصیت‘‘ بنائیے۔ اس میں آپ کی جیت ہے۔ صرف اسی طریقے سے آپ جلد از جلد امیر ترین بن سکتے ہیں۔

 (ایم- آر- کوپ میئر کی تصنیف سے مقتبس)

اوباما کی دہلی یاترا

انتخابی بے ضابطگیاں لاقانونیت کاثبوت ہیں...

جھنگ...

$
0
0

جھنگ دریائے چناب کے کنارے آباد وسطی پنجاب کا شہر ہے جس کی آبادی تین لاکھ ستاسی ہزار چار سو سترہ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ ضلع جھنگ میں شامل ہے۔جھنگ کی سرحدیں شمال میں ضلع سرگودھا، شمال مشرق میں گوجرانوالہ، مشرق میں فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ، جنوب میں مظفر گڑھ اور خانیوال، مغرب میں لیہ اور بھکر اور شمال مغرب میں خوشاب سے ملتی ہیں۔ تمام علاقہ میدانی ہے، ماسوائے شمال کے جہاں ربوہ کے قریب دریائے چناب کے کنارے کیرانا پہاڑیاں ہیں جو آراولی سلسلے سے تعلق رکھتی ہیں۔

 مغرب میں تھل کا صحرائی علاقہ ہے جو دریائے جہلم کے کنارے سے شروع ہوتا ہوا خوشاب اور بھکر کے اضلاع تک جاتا ہے۔ گوجرانوالا کے قریب پبانوالا سے بنجر زمین شروع ہوتی ہے جہاں سے زمین کی سطح 10 فٹ (3 میٹر) بلند ہوتی ہے، اوربڑھتی ہوئی 30 فٹ (9 میٹر) تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ علاقہ جنوب میں 87 کلومیٹر تک اور چوڑائی میں تقریباّ 30 سے 40 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ اس علاقہ میں ماضی میں جنگلات تھے اور یہ علاقہ کسی بھی قسم کی کاشت کے لیے موزوں نہیں تھا۔ انگریز دورِ حکومت میں یہاںآب پاشی کا نظام تشکیل دیا گیا‘جس کے لیے975 ایکڑ اراضی پر لائلپور (موجودہ فیصل آباد) کی بنیاد رکھی گئی جو آج ٹیکسٹائل کے شعبہ میں پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے۔

دریائے چناب اور دریائے جہلم کے درمیان واقع کیرانا کا علاقہ، جو گھوڑی والا تک پھیلا ہوا ہے، بھی ضلع جھنگ میں شامل ہے۔ دریاؤں کا قریبی نشیبی علاقہ، جو سیلاب کی صورت میں زیر آب آ جاتا ہے، ہتھر کہلاتا ہے جبکہ دریاؤں کے درمیان بلند علاقہ، جو زیر آب نہیں آتا، اتر کہلاتا ہے۔ نباتات:غیر زرعی رقبہ پر جھنڈ، کریر، وان، کیکر، ٹہلی اور بوہڑ کے درخت بکثرت پائے جاتے ہیں، اس کے علاوہ ہرمل، اکڑہ اور باتھو وغیرہ کی جھاڑیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ تاریخ:جھنگ کا پہلا شہر رائے سیال نے 1288ء میں اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ جلال بخاری کے کہنے پر آباد کیا۔ جھنگ کے پہلے حکمران مل خان 1462ء میں ہوئے۔

 سیال قبائل نے جھنگ پر 360 برس تک حکومت کی اور آخری سیال حکمران احمد خان تھے جنہوں نے 1812ء سے 1822ء تک حکومت کی جن کے بعد حکومت سکھوں کے ہاتھ آئی اور پھر ان سے انگریزوں کے قبضہ میں چلی گئی۔ آب و ہوا:جھنگ کی آب و ہوا شدید نوعیت کی ہے جس کا مطلب سردیوں میں شدید سردی اور گرمیوں میں شدید گرمی ہے۔

 موسم گرما، سرما کے مقابلہ میں زیادہ طویل ہوتا ہے، اور گرمیوں میں عمومی درجہ حرارت 35 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے جبکہ سردی میں 12 ڈگرمی سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ تہذیب و تمدن:جھنگ کی اکثریتی آبادی کی مادری زبان پنجابی ہے، ضلع کے بعض علاقوں میں سرائکی بھی بولی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اردو بھی عام بولی جاتی ہے۔ اسی علاقے سے ہیر رانجھا اور مرزا صاحبہ جیسی رومانوی داستانوں کا جنم ہو۔

آٹھ سالہ دہشت گرد.....

$
0
0

چلیے صاحب! ہم تو تیسری دنیا کی قوم اور پھر نیم چڑھے کریلے، یعنی مسلمان، نیم خواندہ، تہذیب سے ناآشنا، اُجڈ، گنوار، بنیادپرست وغیرہ وغیرہ، سو انتہاپسندی، مذہبی دہشت گردی، عقیدے کی بنیاد پر منافرت جیسی زہریلی فصلوں کے لیے ہماری زمین بہت زرخیز ہے، بلکہ ہمارے بنجر پہاڑوں پر دہشت اور وحشت کے یہ پودے خوب اُگتے اور تناور درخت بنتے ہیں، لیکن علم، تہذیب، انسانیت، شرافت کی ارض مقدس پر یہ کیا ہورہا ہے۔۔۔ دیکھیں گے۔۔۔۔۔ چلیے میرے ساتھ بہت دور۔

یہ فرانس ہے، آزادی کے متوالوں اور انسانی برابری کے عشاق کا قبلہ، کچھ دیر پیرس میں رک کر حُسن سے آنکھیں خیرہ کیجیے، خوشبوؤں سے سانسیں مہکائیے، اب آگے چلیے، یہ ہے فرانس کا پانچواں بڑا ساحلی شہر نیس اور یہ ہے اس کی ایک درس گاہ نیس فلور اکیڈمی اسکول۔ ظاہر ہے یہاں بچوں کو تعلیم دینے کے ساتھ ان کی تربیت بھی کی جاتی ہے، بڑی شفقت بڑی محبت سے۔۔۔۔ مگر اس بچے کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔

ایک آٹھ سالہ بچے کو بلاکر اس کا استاد پوچھ رہا ہے کیا تم چارلی ہو؟
آگے بڑھنے سے پہلے ہم آپ کو اس سوال کا مطلب بتاتے چلیں۔ رحمت عالم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے فرانسیسی بھانڈ نما رسالے پر 7 جنوری کو ہونے والے حملے، جس میں گستاخی کے مرتکب افراد سمیت کئی لوگ مارے گئے۔ جس کے بعد اہل فرانس یا مغربی دنیا کو ایک نعرہ دیا گیا  یعنی میں چارلی ہوں۔ یعنی رسول کریم ﷺ کی امت کے جذبات مجروح کرنے والے رسالے کی مکمل اعانت اور حمایت کا اعلان۔

اس حملے کے اگلے ہی روز مسلمان بچے احمد کو اس سوال کا سامنا تھا۔ مسلم دنیا کا کوئی حکمراں ہوتا تو سیاستدان، دانش مندی اور مصلحت کے تقاضے سامنے رکھتا، مگر آٹھ سالہ مسلمان بچہ ان تقاضوں کو کیا سمجھے۔ اس کا فوری جواب تھا، میں دہشت گردوں کی طرف ہوں، کیوں کہ میں پیغمبر (ﷺ) کے بنائے گئے خاکوں کے خلاف ہوں۔

بات آئی گئی ہوسکتی تھی، نظرانداز کی جاسکتی تھی، بچہ تو بچہ ہی ہے ناں، مگر صاحب یہ مسلمان کا بچہ تھا، سو اس کا بچپن نظرانداز کردیا گیا۔
استاد نے جھٹ اس خطرناک معاملے سے پرنسپل کو آگاہ کیا۔ پرنسپل نے بچے کو طلب کیا اور پوری کلاس کے سامنے تین بار یہی سوال دہرایا، ہر بار وہی جواب اس کے منہ پر طمانچے کی طرح لگا جو ٹیچر کے رخسار کو سُرخ کرچکا تھا۔ پرنسپل نے اس اہم مسئلے پر کئی دن غور کیا اور آخرکار اس نے اپنے اسکول میں ایک دہشت گرد کی موجودگی سے خائف ہوکر ایک ذمے دار شہری کی حیثیت سے 21 جنوری کو پولیس سے احمد کی شکایت کی اور اسے دہشت گردی کے دفاع کا مجرم قرار دیا جبکہ اس کی دوسری شکایت بچے کے والد کے خلاف تھی۔
یہی نہیں، کم سن احمد پر یہ بھی الزام ہے کہ اس نے حکومت فرانس کی جانب سے رسالے پر حملے کے واقعے پر ایک منٹ کی خاموشی کے اعلان پر عمل نہیں کیا۔ باغی ہے بھئی پکا باغی۔

پولیس نے تو خیر کوئی کارروائی نہیں کی، لیکن پرنسپل اپنے طور پر حتیٰ المقدور احمد کو سزا دینے پر کمربستہ ہے۔ احمد کا وکیل اس بابت تفصیل بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک روز احمد سینڈباکس (ایک چوکھٹا، جس میں بچے مٹی بھر کے کھیلتے ہیں) سے کھیل رہا تھا۔ پرنسپل اس کے قریب آیا اور بولا، مٹی کھودنا بند کرو، تمھیں اس میں کوئی مشین گن نہیں ملے گی۔

احمد سے پرنسپل کے سلوک کا ایک اور مظاہرہ مہذب دیس کے عالی مقام استاد کی سفاکی سامنے لاتا ہے۔ احمد ذیابیطس کا مریض ہے۔ ایک روز پرنسپل نے اسے یہ کہہ کر انسولین دینے سے انکار کردیا کہ تم چاہتے ہو کہ ہم سب مرجائیں، اس لیے تمھیں موت کا ذائقہ چکھنا ہوگا۔

آٹھ سالہ احمد صرف ایک مثال ہے اس ماحول کی جو واقعے کے بعد فرانس میں بسنے والے مسلمانوں کو درپیش ہے۔ وہ کیا حالات ہیں؟َ اس کا اندازہ احمد کے وکیل  کے ایک جملے سے لگایا جاسکتا ہے، جس کا کہنا ہے،فرانس ایک اجمتاعی ہسٹریا میں مبتلا ہے۔

واقعے کے بعد سے فرانس میں درجنوں افراد کو اظہاررائے پر دہشت گردی کے دفاع کا الزام لگاتے ہوئے جیل بھیجا جاچکا ہے۔
زبان درازی کو بھی رائے کے اظہار کا حق سمجھنے والے فرانس کے صدر  نے ہولوکوسٹ کی یاد منانے کے دن کے موقع پر اپنی تقریر میں کہا کہ ان کی حکومت لوگوں کے آن لائن اظہار خیال پر اپنا کنٹرول موثر بنانے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ انھوں نے یہودیوں سے دشمنی یا تعصب (  کی ایک شکل اسرائیل سے نفرت کو قرار دیا۔

تو جناب! اب فرانس میں رہتے ہوئے آپ اسرائیل کے خلاف بول کے تو دکھائیں۔ اظہاررائے کی اتنی آزادی تو آپ کو نہیں مل سکتی ناں۔ اس فضاء میں نہ جانے احمد پر اور کیا گزرتی ہے۔ اس سے نہ جانے کتنی بار پوچھا جائے گا تم چارلی ہو اور اس کا بچپن حالات کی نہیں ایمان کی زبان بولے گا۔

محمد عثمان جامعی

چوہدری سرور کا استعفی حقا ئق کیا ہیں ؟

کیانی پر مشرف کا غصہ


میری ہمتوں کی پستی ، میرے شوق کی بلندی

سچ کا قحط اور مافیاز کا راج....

$
0
0

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ضمیر کی آواز پر مستعفی ہونے کی روایت ناپید رہی ہے۔ اشرافیہ کے افراد مناصب کیلئے دین، ایمان، عزت اور وقار سب کچھ دائو پر لگادیتے ہیں۔ یہ لوگ ذاتی مفادات کے حریص اور اسیر ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کا دین اور ایمان بھی پیسہ اور عہدہ ہوتا ہے۔ سرمایہ پرست معاشرے میں جب کوئی باضمیر انسان اپنے منصب سے مستعفی ہوتا ہے تو اسے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا گورنر ہونا کوئی معمولی اعزاز نہیں ہے۔ سیلف میڈ انسان دوست شخصیت چوہدری محمد سرور نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے بڑے منصب سے مستعفی ہوکر موجودہ استحصالی ریاستی نظام پر کاری ضرب لگائی ہے اور ان سیاسی جماعتوں اور گروپوں کو تقویت پہنچائی ہے جو سٹیٹس کو توڑنے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ 

گورنر کا حلف اُٹھانے کے بعد چوہدری سرور سے ملاقات میں کہا’آپ نے اپنی طبعیت، مزاج اور وژن کے برعکس بڑے گھر کا قیدی بننے کا فیصلہ کیوں کرلیا‘۔ کہنے لگے کہ’ میاں صاحب سے گزارش کی تھی کہ مجھے ایسا رول دیا جائے جو نتیجہ خیز ہو۔‘ چوہدری سرور کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ شریف برادران نے انکو فری ہینڈ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ پاکستان کے قومی لیڈر پنجاب کے معاملے میں بڑے حساس رہے ہیں۔ وہ اس سرزمین پر کسی ٹیلنٹڈ شخصیت کو کھل کر کھیلنے کا موقع نہیں دیتے تاکہ وہ مستند قیادت کو چیلنج نہ کرنے لگے۔ چوہدری سرور نے پنجاب کے ہر گھر میں صاف پانی فراہم کرنے اور ہر پنجابی کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا خواب دیکھا تھا۔ چوہدری سرور سے استعفیٰ کے بعد ان کو فون پر آزادی کی مبارک دی۔ انہوں نے قہقہہ لگا یا، ایسے مطمئن تھے جیسے اپنے سر سے اذیت کا پہاڑ اُتار پھینکا ہو۔

چوہدری سرور نے مستعفی ہونے سے پہلے جو کلمہ حق کہا اسے حالات کی صدا اور تاریخ کی بانگ درا کہا جائے گا۔ چوہدری سرور نے اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں کہا کہ پاکستان میں سچ کا قحط ہے اور مافیاز کا راج ہے۔ سیاسی کارکنوں سے غلاموں اور مزارعوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ انصاف کمزور ہے۔ زنا بالجبر کی وارداتوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پانچ فیصد اقلیت نے اکثریت کے حقوق غصب کررکھے ہیں۔ سابق گورنر پنجاب کا بیان پنجاب حکومت کیخلاف کھلی چارج شیٹ ہے۔ بیگم سرور نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انکے شوہر دردمند دل رکھتے ہیں اور وطن سے محبت کرتے ہیں۔ پاکستان میں یہ دونوں خوبیاں جرم ہیں، جس شخصیت میں یہ دو خوبیاں ہوں اس کو سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔

نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے

قائداعظم نے سچ بول کر پاکستان حاصل کرلیا تھا اور ہم جھوٹ بول کر اسے برباد کرنے کے درپے ہیں۔ قیام پاکستان کے چند ماہ بعد جب قومی خزانے میں تنخواہیں ادا کرنے کیلئے پیسے نہ تھے تو بیوروکریسی نے مشورہ دیا کہ عوام کو یہ سچ نہ بتایا جائے۔ قائداعظم نے فرمایا عوام پاکستان کے مالک ہیں ان سے سچ نہ چھپائیں اور اعتماد میں لیں۔ محسن انسانیتﷺ نے سچ کے اصول پر ریاست مدینہ کو چلایا اور عالم عرب کو فتح کرلیا۔ہمارے ہاں سچ چونکہ حکمران اشرافیہ کی موت ہے اس لیے پاکستان میں سچ کا قحط ہے۔ سابق گورنر پنجاب نے کہا ہے کہ قبضہ مافیا گورنر سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔ 

گویا ریاست بھی مافیاز کے آگے بے بس نظر آتی ہے۔ مافیاز کے راج کی تازہ مثال شوگر مافیا کی ہے۔ حکومت گنے کی قیمت مقرر کرتی ہے۔ عدلیہ بھی سرکاری قیمت پر گنا خریدنے کا حکم جاری کرتی ہے مگر شوگر ملز مالکان کارٹیل بنا کر (گٹھ جوڑ کرکے) کاشتکاروں کو اپنی مرضی کی قیمت پر گنا فروخت کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ کاشتکار سڑکوںپر احتجاج کرتے ہیں اور انتظامیہ ان پر لاٹھی چارج کرتی ہے۔ عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت کم ہونے پر حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرتی ہے مگر ٹرانسپورٹ مافیا کرایوں میں کمی نہیں کرتا۔ حکومت ناکام رہتی ہے۔

 پاکستان کے وزیر خزانہ اسحق ڈار نے ایوان میں کہا تھا کہ پاکستان میں کارٹیلز موجود ہیں جو منصوبہ بندی کرکے عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں۔ مسابقتی کمشن مسابقتی ایکٹ 2010ء پر عملدرآمد کرانے سے قاصر رہا ہے۔ اسحق ڈار کے مطابق بینکنگ، اکائونٹس، سٹاک ایکسچینج، شوگر، سیمنٹ، ٹیلی کام، پولٹری اور ککنگ آئیل کے شعبوں میں کارٹیل موجود ہیں جو آئین کے مطابق ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کی بجائے گٹھ جوڑ کرلیتے ہیں اور من مرضی کا منافع کماتے ہیں جن کی وجہ سے شہریوں کا کھلا استحصال ہورہا ہے۔ 

ریاست طاقت کے باوجود مافیاز کے سامنے بے بس ہے۔ اس بے بسی کی وجہ یہ ہے کہ جاگیردار، تاجر، صنعت کاراور انکے خاندان انتخابی سیاست پرقابض ہوچکے ہیں۔ وہ کروڑوں روپے خرچ کرکے پارلیمنٹ میں پہنچ کر سیاسی طاقت پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ تاجر، صنعت کار اور ان کے قریبی عزیز وزارتوں پر براجمان ہوجاتے ہیں۔ بیوروکریسی پر بھی حکمران اشرافیہ کے عزیز و اقارب قابض ہیں۔ وہ تاجروں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ عوام اس قدر کمزور ہیں کہ مافیاز کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ شوگر ملوں کے مالک خود ریاست کے اہم عہدوں پر فائز ہیں وہ کارٹیل کو کیسے توڑ سکتے ہیں۔ کارٹیلز کھلے عام عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ سیاستدانوں نے کارٹیلز کو توڑنا تھا مگر سیاسی کارٹیل وجود میں آچکا ہے۔

قیوم نظامی

انٹر نیٹ کے چینی آداب....

مسئلہ کشمیر - پس منظر و پیش منظر

پاک چائنا اکنامک کاریڈور ۔ دال میں کالا کیا ہے؟....

$
0
0



پاک چائنا کاریڈور کے روٹ کی تبدیلی کے خلاف سینیٹ سے پختونخوا اور بلوچستان کے سینیٹرز کے واک آوٹ‘ مذکورہ دونوں صوبوں میں سول سوسائٹی کی تحریک ‘ اولسی جرگہ کے تحت پشاور میں تمام سیاسی جماعتوں کے احتجاجی سیمینار یا پھرپختونخوا چیمبر آف کامرس اور پشاور ہائی کورٹ بار کی مخالفانہ قرارداروں کے جواب میں وفاقی حکومت نے ذہین ترین اور قادرالکلام وزیر جناب احسن اقبال کو میدان میں اتار لیا ہے ۔ آپ اس دعوے کے ساتھ میدان میںا ترے کہ روٹ تبدیل نہیں کیا گیااور جو لوگ اعتراض کررہے ہیں وہ ملک دشمن قوتوں کے ایما پر منصوبے کو متنازعہ بنانے یا پھر چین کے صدر کے دورے کو ناکام بنانے کی سازش کررہے ہیں ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جب پچھلی مرتبہ چینی صدر پاکستان آ رہے تھے‘ تو پاک چین دوستی کی مخالف قوتوں نے دھرنوں کے ذریعے رکاوٹ ڈالی اور اب کے بار پاک چائنا کاریڈور پر تنقید کے ذریعے وہی کام دوبارہ کیا جارہا ہے ۔

محترم احسن اقبال صاحب نے جس ’’سازش‘‘ کا ذکر کیا ہے بدقسمتی یا خوش قسمتی سے اس کا ماسٹر مائنڈ میں ہوںاور اگر واقعی یہ اس منصوبے کو متنازعہ بنانے اور چینی صدر کے دورے کو ناکام بنانے کی ’’سازش‘‘ ہے تو مورخ اس کا سرغنہ اس عاجز کو قرار دے گا۔ اسی طرح پاک چین دوستی کی مخالف طاقتوں نے اگر پیسے استعمال کئے ہیں تو لامحالہ اس کا بیشتر حصہ مجھ مزدور کو ملا ہوگا۔ اس ایشو کو سب سے پہلے کسی قوم پرست یا سیاسی جماعت نے نہیں بلکہ میں نے اٹھایا ‘ میں نے اس پر کالم لکھا اور میں نے ہی اپنے ٹی وی پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں اس کو موضوع بحث بنایا ۔
 یہ تو وہ جرم ہے کہ جو میاں نوازشریف صاحب اور احسن اقبال صاحب کو معلوم ہے لیکن میں اپنے اس جرم سے بھی ان کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے ذاتی رابطوں کے ذریعے بھی اس حوالے سے کئی ماہ قبل عمران خان ‘ پرویز خٹک ‘ مولانا فضل الرحمان اور دیگر سیاسی رہنمائوں کو بھی اس ایشو کی جانب متوجہ کیا۔ مجھے اس ’’جرم‘‘ کا ارتکاب اس لئے کرنا پڑا کیونکہ بدقسمتی سے اس وقت خیبرپختونخوا اور بلوچستان سیاسی طور پر یتیم ہیں ۔ 

خیبرپختونخوا کے سادہ لوح پختونوں نے دھوکہ کھا کر تحریک انصاف کو ووٹ دئیے ۔ اس جماعت کے اصل مختاروں کو وہاں کے مسائل اور عوام سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ سیاسی اور ذاتی مفادات کی وجہ سے پختونخوا کے پی ٹی آئی کے عہدیدار بدترین غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان غلاموں کو ان کے آقائوں نے لاہور کے چار حلقوں کی جنگ میں لگادیا ہے ۔ پاک چائنا اکنامک کاریڈو ر کے روٹ کی تبدیلی کے حوالے سے جو کچھ ہوا ‘ وہ دھرنوں کے دوران ہی ہوا۔

اس دوران میں نے کئی بار پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو متوجہ کیا لیکن وہ لاہور کے چار حلقوں کے لئے خان صاحب کے حکم پر قانون کی دھجیاں اڑانے اور لوگوں کو بے عزت کرنے میں لگے ہوئے تھے ۔ دوسری طرف بلوچستان کے حکمران وہ لوگ بن گئے ہیں جو ماضی میں اس صوبے کے حقوق کے علمبردار تھے لیکن یہ لوگ پہلی مرتبہ بلاشرکت غیرے حکمرانی اور میاں نوازشریف کی قربت کے مزے لے رہے ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی ان کی نئی نئی دوستی ہوگئی ہے ۔ 

وہ اس نشے میں ایسے مست ہیں کہ کسی ایسے لفظ کو منہ سے نکالنے کی ہمت ہی نہیں کرسکتے کہ جو میاں صاحب یا اسٹیبلشمنٹ کو ناگوار گزرے ۔ یہی وجہ ہے کہ ٹریڈ کاریڈور کی روٹ کی تبدیلی کے خلاف آواز اٹھانے کی اس ’’سازش‘‘ کے آغاز کے لئے مجھے میدان میں آنا پڑا اور اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اس پر کوئی ندامت نہیں ۔ میں اگر بڑے صوبوں سے چھوٹے صوبوں کو متنفر کرنے کی کسی سازش کی راہ میں اگر رکاوٹ بنا تو مجھے اس پر فخر ہے ۔ مجھے اگر اللہ نے پسماندہ صوبوں کے حق میں آواز اٹھانے کی توفیق دی تو اس کا شکر ہے ۔

رہا منصوبے کے حوالے سے میرا اعتراض اور حکومت کا جواب ‘ توکسی ایک میں وزن کا اندازہ لگانے کے لئے قارئین آج (ہفتہ رات ۱۰ بجے ) جیو نیوز پر اس منصوبے سے متعلق جناب احسن اقبال صاحب کے ساتھ میرا ’’جرگہ‘‘ ملاحظہ کرلیں ۔ میرے اور احسن اقبال صاحب کے علم کا کوئی موازنہ نہیں ۔ میں ایک معمولی طالب علم جبکہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان ہیں ۔ معاشی اور کاروباری معاملات سے متعلق وہ ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ ان حوالوں سے میرا علم اور تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ 

میں صحیح اردو بول سکتا ہوں اور نہ انگریزی جبکہ دونوں زبانوں میں احسن صاحب کے قادرالکلام ہونے میں کوئی کلام نہیں ۔ لیکن اس پروگرام کو ملاحظہ کرنے کے بعد آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طرح وہ کنفیوژن کو دور کرنے کی بجائے مزید بڑھا رہے ہیں ۔ میں نے ان سے استفسار کیا کہ اگر روٹ تبدیل نہیں کیا گیا ہے تو ہمیں کسی سرکاری دستاویز میں وہ نقشہ دکھایا جائے کہ جس میں یہ سڑک ڈی آئی خان ‘ ژوب اور کوئٹہ سے گزرے گی لیکن وہ کوئی ایسا نقشہ نہ دکھا سکے ۔

پروگرام کے بعد میں نے پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ کھولی تو وہاں پر بھی ایسا کوئی نقشہ نہیں۔ میں نے ان سے استفسار کیا کہ اگر ہمارا دعویٰ غلط ہے تو پھر بتایا جائے کہ مجوزہ آٹھ اکنامک زونز کہاں کہاں بنیں گے تو وہ گوادر کے سوا کسی دوسرے مقام کا نام نہیں لے سکے ۔(حالانکہ پلاننگ کمیشن کی ایک بریفنگ میں (جس کی کاپی میرے پاس موجود ہے) میں ایک اور اکنامک زون کے لئے لاہور اسلام آباد موٹر وے پر واقع ایک جگہ کو تجویز کیا گیا ہے ۔ اب اگر سڑک نے مستقبل میں واقعی ڈی آئی خان ‘ ژوب سے گزرنا ہے تو پھر یہ اکنامک زون یہاں کیوں تجویز کیا گیا ہے ۔ این ایچ اے اور پلاننگ کمیشن نے ابتدائی دنوں میں اپنی بریفنگز (کاپیاں میرے پاس ہیں) میں اس کاریڈور کے لئے چار روٹ تجویز کئے تھے۔
 
حسن ابدال‘ کوہاٹ ‘ ڈی آئی خان‘ سراب ‘ پنجگور‘ گوادر
 
ایم 2‘ ایم 3‘ ایم 4‘ ملتان‘ راجن پور‘ دادو‘ ورجی ‘ حب اور گوادر
 
حسن ابدال سے کراچی براستہ جی ٹی روڈ اور پھر وہاں سے گوا در

 حسن ابدال سے براستہ موٹروے رتوڈیرو اور پھر وہاں سے براستہ خضدار 

 آواران اور خوشاب گوادر تک: اب صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم نے اس کاریڈور کے تناظر میں حسن ابدال ‘ حویلیاں سیکشن کے موٹروے کی تعمیر کا افتتاح کردیا ( اس موقع پر انہوں نے اپنے خطاب میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ آگے گوادر تک پہنچنے کے لئے کونسا روٹ استعمال کیا جائے گا ۔ اسی طرح انہوں نے پانچ فروری کو آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کے دوران بھی پاک چائنا کاریڈور کے فوائد بیان کئے لیکن اس حوالے سے خاموشی اختیار کی کہ حسن ابدال سے گوادر تک جانے کے لئے کونسا روٹ استعمال کیا جائے گا ‘ حالانکہ ایک روز قبل سینیٹ سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے سینیٹرز نے واک آوٹ کیا تھا اور روٹ کی تبدیلی پر معترض ان کے اتحادی مولانا فضل الرحمان بھی ان کے سامنے تشریف فرماتھے) ۔

اسی طرح پلاننگ کمیشن کے مجوزہ روٹس میں سے نمبر (4) کے تحت منصوبوں پر کام کا آغاز کرکے گوادر کو اس راستے سے خنجراب سے ملایا بھی جارہا ہے ۔ دوسری طرف پرانے روٹ کا کاغذی نقشہ تک دستیاب نہیں اور نہ کسی کو فیزیبیلٹی بنانے کا کہا گیا ہے تاہم ہمیں تسلیاں دی جارہی ہیں کہ روٹ تبدیل نہیں کیا جارہا ہے ۔ یہ بھی کہا جارہاہے کہ ابھی دستیاب روٹ سے منصوبے کا آغاز کردیاجائے گا اور بعدمیں آرام سے اس مختصر روٹ پر آہستہ آہستہ کام ہوگا ۔ اب جب ایک مرتبہ متبادل روٹ سے کام شروع ہوجائے تو پھر کسی کا دماغ خراب ہے جو مزید اربوں ڈالر خرچ کرکے دوسرا روٹ تعمیرکرے ۔مجھے آج بھی اصرار ہے کہ ہر حوالے سے (وسط ایشیاء تک رسائی‘ معاشی ‘ تزویراتی‘ دفاعی اور ملک میں پسماندہ علاقوں کی بے چینی ختم کرنے وغیرہ) ضروری ہے کہ پاک چائنا کاریڈور کو ڈی آئی خان‘ ژوب اور کوئٹہ کے راستے سے گزاراجائے ۔

 زندگی رہی تواگلے کالموں میں اس حوالے سے اپنے دلائل سامنے رکھنے کی کوشش کروں گا۔ خود بخود واضح ہوجائے گا کہ پروجیکٹ میں رخنہ کون ڈال رہا ہے ۔ حکومت یا یہ عاجز ؟۔ یاپھر علاقائی یا لسانی نفرت کی بنیاد کون ڈال رہا ہے۔ یہ طالب علم یا حکمران ؟۔ جملہ معترضہ کے طور پر احسن اقبال صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ میرا تعلق مردان سے ہے یا پھر مہمندایجنسی سے ۔ روٹ کوئی بھی ہو‘ میرے ان علاقوں کے لحاظ سے کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یوں میرے لئے یہ ذاتیات کا یا علاقہ پرستی کا نہیں بلکہ ملکی مفاد کا ایشو ہے۔

سلیم صافی
"بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live