Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

Pakistan and United States Relations - Do more and Give more

$
0
0
Pakistan and United States Relations - Do more and Give more

پاکستانی نژاد برطانوی باکسر عامر خان کا دورہ آرمی پبلک اسکول....

گورننس غیرموجود‘ خارجہ پالیسی ندارد

زبان کی دہشت گردی کون روکے؟....وسعت اللہ خان

$
0
0


دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاقِ رائے، ضربِ عضب اور خیبر ون، مجوزہ فوجی عدالتیں، سراغرساں نظام کی بہتری کا منصوبہ، امن و امان کے ذمہ دار اداروں میں ربط و ضبط باضابطہ کرنے کی کوشش، دہشت گردوں کے خلاف پالیسی میں طویل مدت سے جاری دو عملی اور دوغلے پن سے تائب ہونے کا عہد۔
یہ سب تو ٹھیک ہے مگر اس پہاڑ جیسی مہم سر کرنے کے لیے جس انفرادی اور قومی ذہن سازی کی اشد ضرورت ہے اس کی جانب پالیسی سازوں کا ذہن کیوں نہیں جا رہا؟

فی زمانہ ذہن سازی کا سب سے بڑا سکول الیکٹرونک میڈیا ہے۔ مگر اس کا دائرہِ اثر جتنا وسیع ہے کیا وہ اپنی ذمہ داریاں بھی پیشہ ورانہ حساسیت کے ساتھ نبھانے کی سوچ رہا ہے؟ اور اگر نہیں سوچ رہا تو کیا کوئی فرد، ادارہ، لابی ہے جو اس جانب توجہ دلا ئے اور میڈیا کو وقت کی نزاکت کے اعتبار سے سنجیدگی اختیار کرنے پر مجبور کرے؟

یہ ٹھیک ہے کہ حکومت میڈیا کو مسلسل یاد دلا رہی ہے کہ دہشت گردی کے مبلغوں اور دہشت گرد تنظیموں کے ترجمانوں کو نشریاتی سپیس فراہم نہ کیا جائے۔

یہ بھی ٹھیک ہے کہ میڈیا اس ذمہ داری کو آزادیِ صحافت پر ایک اور حملہ نہیں سمجھ رہا اور اگر کوئی سمجھ بھی رہا ہے تو اسے یاد دلایا جا سکتا ہے کہ آئرلینڈ کی شورش سے نمٹنے کے زمانے میں دنیا کے سب سے آزاد برطانوی میڈیا نے یہ پابندی بادل ِناخواستہ قبول کرلی تھی کہ دہشت پسند تنظیم آئرش رپبلکن آرمی کو صرف آئی آر اے کہا جائے اور آئی آر اے کے کسی ترجمان کا بیان شائع یا نشر نہ کیا جائے اور اگر موقف شائع یا نشر بھی کرنا ہے تو صرف آئی آر اے کے سیاسی بازو شن فین کا موقف مشتہر کیا جائے مگر ترجمان کی اصلی آواز اور تصویر کے ساتھ نہیں بلکہ بلاتصویر اور کسی ثانوی آواز میں۔

نائن الیون کے بعد امریکی میڈیا نے ازخود دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے لیے کچھ ضوابط خود پر نافذ کیے، جبکہ کرگل کی لڑائی جب تک جاری رہی بھارتی میڈیا نے ضرورت سے زیادہ ناقد ہونے سے پرہیز کیا۔ یہ منطق بھی سمجھ میں آنے والی ہے کہ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔

مگر ان میڈیائی علما (ٹیلی وانجلسٹس) کا کیا کیا جائے جو سمارٹ ہیں، بظاہر دینی و دنیاوی معلومات سے بھی آگہی رکھتے ہیں، خوبرو اور جواں سال بھی ہیں، جدید طرزِ زندگی کی تمام سہولتیں اور آسائشوں کے خوگر بھی ہیں، ان کا کسی انتہا پسند یا دہشت گرد تنظیم سے بھی کوئی تعلق نہیں، عوامی سطح پر ان کی پذیرائی بھی ہے مگر جب وہ گفتگو کرتے یا کرواتے ہیں تو لگتا ہے گویا آگ لگانے کی کوشش کر رہے ہوں۔

لگتا ہے گویا ان کے توسط سے دہشت گردوں کے خلاف نرم گوشہ رکھنے والے طبقات، ادارے اور تنظیمیں آکسیجن حاصل کررہی ہوں اور اپنی وقتی پسپائی کو نئی پیش قدمی سے بدل رہی ہوں۔ یوں لگتا ہے کہ حکومت اور اس کے ادارے تعصب و نفرت کے خاردار پودوں سے جتنی زمین صاف کرنے کی اپنی سی کوشش کررہے ہیں۔اتنی ہی صاف کردہ زمین پر میڈیائی علما پٹرول کو پانی بتا کر اپنی لسانی مشک سے پیچھے پیچھے چھڑکاؤ کرتے چل رہے ہیں۔

اس وقت تو ضرورت تھی کہ انتہا پسند نظریے کے خلاف اعتدال پسندی اور رواداری کو فروغ دینے والی اسلامی روایات کو زیادہ نشریاتی سپیس ملتی۔ مگر ہو یہ رہا ہے کہ اس خلا کو اعتدال پسندی کی پوشاک پہنے انتہا پسند تن دہی سے پر کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور انھیں چیلنج کرنا تو کجا ان کی سرزنش کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ نہ ان کے اپنے اداروں میں اور نہ ہی ضابطۂ اخلاق نافذ کرنے کے دعویدار پیمرا جیسے اداروں میں کوئی ہے جو یاد دلائے کہ زبان کی دہشت گردی تلوار کے ظلم سے بھی زیادہ بھیانک قاتل ہے۔ جس سے بھی پوچھو یہی کہتا ہے، ’او چھڈو جی ان زہریلوں کے منہ کیا لگنا آپ اپنے کام سے کام رکھیں۔‘

برا ہو اس منحوس لفظ ریٹنگ کا اور کیڑے پڑیں اس ناہنجار مارکیٹنگ کلچر میں جو تمام منافع بخش زہریلوں کی چھتری بنا ہوا ہے۔ عرض صرف اتنا کرنا ہے کہ سامنے کی دہشت گردی کا صفایا کرنے سے کچھ بھی حاصل نہ ہو گا۔ کیونکہ آپ کے عقب میں، آپ ہی کے درمیان آپ ہی کے راج دلارے جو باریک کام دکھا رہے ہیں اس کے آگے دس شمالی وزیرستان بھی کچھ نہیں بیچتے۔

اچھی بات ہے کہ حکومت اس ضمن میں دو عملی کا کرتہ بدلنے کا عندیہ مسلسل دے رہی ہے، لیکن دلوں کو گلزار یا جہنم بنانے کی صلاحیت رکھنے والا میڈیا پوشیدہ خنجر آزماؤں سمیت اپنی آستینیں اور پاجامہ کب بدلے گا؟

انٹرنیٹ پر وقت ضائع کرنے کے 7 بہترین طریقے.....

$
0
0


انٹرنیٹ کے لیے ہمارا جنون اب یونیورسٹیوں کا بھی حصہ بن چکا ہے اور پانچ جنوری سے امریکا کی پینسلوانیا یونیورسٹی میں دنیائے ویب پر وقت ضائع کرنے کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہورہا ہے۔

اور یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ انٹرنیٹ پر وقت کا ضیاع اپنے عروج پر ہے اور دنیا بھر میں ایک تہائی صارفین روزانہ کم از کم دو گھنٹے ضائع کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں خاص طور پر سوشل میڈیا سائٹس تو اس حوالے سے بدنام یا نیک نام ہیں۔

تو اگر اس طرح وقت ضائع کرنا اعلیٰ تعلیم یافتہ بنانے کا باعث بن سکتا ہے تو ہم نے آپ کے لیے انٹرنیٹ کی دنیا پر وقت ضائع کرنے والے سب سے بہترین طریقے ڈھونڈ نکالیں ہیں جن کو اپنانے کی صورت میں آپ کبھی بھی کمیونیکشن کے ذریعے کو پیداواری مقصد کے لیے استعمال نہیں کرسکیں گے۔

گوگل پر گیمز کھیلنا

جی ہاں آپ چاہے تو اس سرچ انجن کے پیج کو بند کیے بغیر اپنی زندگی کے متعدد گھنٹوں کو ضائع کرسکتے ہیں۔
گوگل کے سرچ بار پر کچھ خاص الفاظ اگر ٹائپ کیے جائیں تو وہ آپ کو ایسے مختلف پرمزاح چیزیں سامنے آتی ہیں کہ صارف ان میں کھو کر رہ جاتا ہے، مثال کے طور پر سرچ بار پر “do a barrel roll” ٹائپ کرکے انٹر کریں اور پھر دیکھیں کیسے آپ کی اسکرین 360 ڈگری پر گھومتی ہے یا اسکرین کو کچھ ٹیڑھا کرنا ہو تو "tilt"لکھ کر دیکھیں اور ایسے الفاظ کی کوئی کمی نہیں۔

فیس بک پوسٹس کو لائکس کرنا

یہ وہ سرگرمی ہے جو دوبدو بات چیت کا متبادل بن چکی ہے۔ کوئی بھی پیغام ہو فیس بک کا اوپر اٹھا انگوٹھا موجودہ عہد میں دوستی کا نشان بن چکا ہے۔
تو پھر کوئی کیوں فون اٹھانے کی زحمت کرکے کسی سے بات چیت کرنے کی مشقت اٹھائے جب آپ اپنا مدعا کسی دوست کی پروفائل تصویر کو لائک کرکے ہی بیان کرسکتے ہیں؟
اب چاہے آپ کسی شخص کو پسند نہ بھی کرتے ہو مگر آپ اس کی فیس بک پروفائل کی گہرائی میں جائیں گے تو ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کا پسندیدہ ترین شخص بن جائیں (مگر اس کی ضمانت نہیں دی جاسکتی)۔

سوشل میڈیا پر بے مقصد گھومنا

رات گئے اس سے زیادہ وقت ضائع کرنے والی سرگرمی کوئی نہیں ہوسکتی کہ آپ ٹوئیٹر، فیس بک، انسٹا گرام یا ایسی ہی ویب سائٹس پر چلے جائیں اور دیکھیں آپ کے دوست یا فالورز کیا کچھ کررہے ہیں۔
وہاں آپ کو ایسی چیزیں معلوم ہوگی جو آپ جاتنے بھی نہیں ہوگے یا جاننا چاہتے ہوگے۔
اب وہ معروف شخصیات کے درمیان چل رہی زبانی جنگ ہو، پیارے پیارے جانوروں کی لاتعداد تصاویر یا اپنے دوستوں کی مضحکہ خیز سیلیفز سب کچھ ملے گا۔
مگر مسئلہ بس یہ ہے کہ ایک بار جب آپ اس کام میں لگ جائیں گے تو اس بے مقصد مٹرگشت کا کوئی بامقصد اختتام کبھی نہیں ہوگا۔

گوگل ارتھ اور اسٹریٹ ویو

اگر آپ اپنے دوستوں کے گھروں کو برڈ آئی ویو سے دیکھیں تو وہ کبھی پرانا نہیں ہوگا۔ حال ہی میں اسٹریٹ ویو میں چوروں کو پکڑنے کا فیچر بھی شامل کرلیا ہے اور دنیا بھر میں لوگ ہزاروں میل دور بھی ایسا بہت کچھ دیکھ سکتے ہیں جو وہ اپنے پڑوس کے گھر میں نہیں دیکھ سکتے۔

یوٹیوب پر جانوروں کی ویڈیوز دیکھنا

مکڑی بن کر دہشت پھیلانے والے کتے سے لے کر نیویارک میں بلیوں لی کڑائیوں تک یوٹیوب پر لاتعداد بے مقصد وڈیوز مفت دستیاب ہیں۔
اور ان میں جو چیز مشترک ہے وہ یہ کہ ان میں اسٹار کردار بلیوں کا ہوتا ہے جو چیزوں پر اچھل رہی ہوتی ہیں، کہیں گر رہی ہوتی ہیں، ناراض نظر آتی ہیں اور بھی بہت کچھ۔
اگر آپ ان میں مگن ہوجائے تو پتا بھی نہیں چلے گا کہ کب دوپہر گزر گئی اور رات سر پر آکھڑی ہوئی اور آخر میں یہ بھی جان لیں ان میں سے بیشتر مقبول ترین وڈیوز درحقیقت وڈیوز ہوتی ہی نہیں بلکہ وہ بہت اچھی شکل میں کی جی آئی ایف تصاویر ہوتی ہیں۔

وقت ضائع کرنے والی گیمز

فیس بک سے لے کر ہر جگہ آپ کے سامنے گیمز کی بھرمار ہوگی جو مفت کھیلنے کی پیشکش کررہی ہوگی۔
اور اگر آپ نے کسی بھی ایک میں جانے کی ہمت پکڑ لی تو پھر ایسا چسکا لگے گا کہ دنیا کے تمام کام ایک طرف رہ جائیں گے اور آپ کھیلتے چلے جائیں گے۔
بلکہ اب تو ایک ویب سائٹ خاص طور پر ایسے گیمز تیار کررہی ہیں جو ظاہری طور پر ایکسل یا ورڈ دستاویزات کا دھوکہ دیتی ہیں اور ان کو کھیلتے ہوئے لوگوں کو ایسا ہی لگتا ہے کہ آپ پوری محنت سے کام کررہے ہیں۔

بے مقصد مضامین پڑھنا

اور اب یہاں تک اگر آپ پہنچ گئے ہیں تو آپ کو اس جملے کی اہمیت کا احساس واقعی ہوگیا ہوگا۔

فیصل ظفر

تیل کی قیمتوں میں کمی خوشحالی کا راستہ؟.....

$
0
0


حکومت خام تیل کی قیمتوں میں کمی، جو کہ ایک نعمت خداداد سے کم نہیں، کا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی ہے۔

موجودہ حکومت نے اپنے مقاصد میں سرِفہرست اقتصادی شرح نمو کو رکھا ہے، اور اب یہ اس پر ہے کہ وہ کس طرح خام تیل کی قیمتوں میں آنے والی حالیہ نمایاں کمی کو معیشت کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بناتی ہے۔
 
عالمی سطح پر خام تیل کی قیمت بھی 59 ڈالر فی بیرل تک گر گئی ہے جبکہ امریکی مارکیٹ میں جو قیمت جون 2014 میں 110 ڈالرز تھی وہاں بھی یہ 55 ڈالرز تک گرگئی ہے۔

پاکستان کی معیشت لڑکھڑاہٹ کا شکار ہے، جو خراب قیادت اور ناقص طرز حکمرانی کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پٹرول کی قیمتوں میں 45 فیصد کمی گاڑیوں کے مالکان تک صرف 15 فیصد کمی کی صورت میں پہنچی۔

تیل کی قیمتوں میں حالیہ کمی سے دو اہم شعبوں میں بہتری لائی جاسکتی ہے: ایک توانائی بحران اور دوسرا ادائیگیوں کا بیرونی توازن۔ توانائی کے بحران میں شدت نے پرتشدد احتجاجوں کو ہوا دی ہے، جبکہ ہزاروں افراد ایک ایسے ملک میں روزگار سے محروم ہوئے ہیں جہاں پہلے ہی بیروزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔

اوپیک (خام تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم) کے زیادہ طاقتور اراکین خام تیل کی قیمتوں کو پچاس ڈالرز فی بیرل کی سطح پر بھی برداشت کرنے کو تیار ہیں، تاکہ روس، ایران (حالانکہ وہ بھی اوپیک کا رکن ہے) اور امریکا کے شیل انقلاب کا سامنا کیا جاسکے۔

حکومت کو اس موقع کو توانائی بحران کے خاتمے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ اگر ایک سرسری جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں موسم گرما کے دوران توانائی بحران کی بڑی وجہ طلب و رسد میں چھ ہزار میگاواٹ سے زائد تک کا خلا ہونا ہے، جبکہ سال کے دیگر ایام میں بھی یہ فرق چار سے پانچ ہزار میگاواٹ تک رہتا ہے۔

یہ خسارہ مجموعی طلب کے ایک تہائی حصے کے برابر ہے یعنی 33 فیصد کے لگ بھگ صارفین ایک وقت میں بیس گھنٹے سے تک بجلی سے محروم رہتے ہیں۔

اس بات کو دوہرانا بہت ضروری ہے کہ پاکستان کا توانائی بحران پیداوار کی ناکافی صلاحیت کا نتیجہ نہیں، جو 24 ہزار میگاواٹ کے قریب ہے بلکہ یہ مختلف ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے غیرموثر نظام کے باعث ہے جس کے نتیجے میں یہ رواں برس گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ طلب 19 ہزار میگاواٹ کی ضروریات بھی پوری کرنے میں ناکام رہا۔

توانائی کے حصول کے ذرائع میں تھرمل پیداوار کا حصہ 68 فیصد ہے مگر سردیوں میں یہ 80 فیصد تک پہنچ جاتا ہے جس کی وجہ ہائیڈرو الیکٹرسٹی (پانی سے بجلی کی پیدوار) کا 14 فیصد تک رہ جانا ہے۔ تھرمل ذرائع میں نمایاں ترین ذریعہ تیل سے پیداوار ہے، گیس سے بجلی کی پیدوار 2005 میں 45 فیصد تھی مگر گیس ذخائر میں تیزی سے کمی کے باعث یہ اب 19 فیصد کی سطح تک پہنچ چکی ہے۔

درآمدی تیل پر انحصار کے باعث گزشتہ آٹھ سال کے دوران حکومت کو 1900 ارب روپے کی سبسڈیز اداکرنا پڑی ہیں، جس کا بڑا سبب خام تیل کی بلند قیمتوں کی وجہ سے اس سے پیدا کی جانے والی بجلی کی لاگت اور ٹیرف میں نمایاں فرق ہونا تھا۔

تیل کو بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال کرنے کے نتیجے میں گردشی قرضوں کا عفریت بھی پیدا ہوا اور جولائی 2013 میں پانچ سو ارب روپوں کی ادائیگی کے باوجود یہ گردشی قرضہ ستمبر 2014 میں ایک بار پھر 300 ارب روپوں تک پہنچ گیا۔ مزید یہ کہ پیداوار کی زیادہ لاگت کے نتیجے میں پاور پلانٹس کو غیرفعال ہونے پر مجبور کردیا جو کہ لوڈشیڈنگ کی ایک بڑی وجہ ہے۔ خراب طرز حکمرانی کے باعث نااہلی، لاسز اور ریکوری میں کمی اس کے علاوہ ہیں۔

کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کے تحت 6600 میگاواٹ بجلی گرڈ میں شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر 60 ڈالر فی بیرل تیل کے مقابلے میں بہت زیادہ ٹیرف کے باعث ان پر کام اب تک شروع نہیں ہوسکا۔

دسمبر 2014 میں فرنس آئل کی قیمتیں بھی 360 ڈالر فی ٹن تک پہنچ گئیں جو جون 2014 میں 630 ڈالرز تھیں۔ سادہ ریاضیاتی اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ اب فرنس آئل کے استعمال سے تیار ہونے والی بجلی کی پیدوار ساڑھے دس روپے فی یونٹ تک پڑنی چاہیے کیونکہ پیداوار کے 60 سے 80 فیصد کا انحصار ایندھن کی لاگت پر ہوتا ہے (جس کے علاوہ آپریشنز اور مرمت کی لاگت بھی شامل ہیں)۔

اس لیے خام تیل کی قیمتوں میں کمی کو ٹیرف میں بھی نظر آنا چاہیے اور اسے سبسڈیز میں کمی کے لیے استعمال کرنا چاہیے جو کہ توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے ایک خوش قسمت موقع ہے۔ اس سے بجلی کی قیمت میں کمی آئے گی، جس سے یہ زیادہ قابل استطاعت ہوسکے گی، سبسڈی کی ضرورت کا خاتمہ ہوسکے گا اور دو کروڑ 30 لاکھ صارفین کو ریلیف ملے گا۔

تاہم حکومت خام تیل کی قیمتوں میں کمی، جو کہ درآمدی تیل پر انحصار کرنے والی معیشتوں کے لیے ایک نعمت خداداد سے کم نہیں ہوتی، کا پورا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی ہے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا اس وقت تک ملک میں پچھلے سات سالوں سے جاری توانائی بحران برقرار رہے گا۔

آغاز کے طور پر حکومت کو اس وقت فعال تھرمل پاور پلانٹس کی افادیت کو نئے پرزہ جات اور بحالی نو کے ذریعے بڑھانا چاہیے۔ عام اصطلاح میں افادیت میں اضافے کا مطلب یہ ہوگا کہ زیادہ سے زیادہ پیداوار کے لیے کم ترین مقدار میں تیل و گیس کا استعمال ہو۔

سوال یہ ہے کہ کیا حکومت افادیت میں اضافے کے لیے سادہ حکمت عملی اپناتی ہے اور اس کے بعد وہ پاورپلانٹس کو سستے تیل کی بدولت مکمل گنجائش کے مطابق چلاتی ہے یا نہیں؟ موجودہ صورتحال میں یہ ایک مختصر المدت حل اور آسان قابل عمل حکمت عملی ہے۔

تیل درآمد کرنے والے پاکستان کے شعبہ توانائی کے کسی بھی منصوبہ ساز کے لیے یہ آسمانی مدد سے کم نہیں۔
عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں کو ذہن میں رکھ کر یہ قابل فہم ہے کہ حکومت کی جانب سے انرجی وژن 2035 کے حوالے سے ایک نئی، معقول اور مضبوط قومی پاور پالیسی کو عمل میں لایا جائے۔ دوسری جانب یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں بلکہ سادہ حساب اور عزم کا معاملہ ہے جس سے توانائی بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

ارشد ایچ عباسی

حکمرانی یا سیاسی خودکشی...

$
0
0

جب نوے کی دہائی میں حکمران تھے تو میاں نواز شریف کی سیاست کا ہدف بے نظیر بھٹو سے حساب برابر کرنا ہوا کرتا تھا۔ مشیروں نے مشورہ دیا تھا کہ وہ سندھ کے ہاریوں میں زمینیں تقسیم کرکے وہاں سے ان کی سیاست کا خاتمہ کر سکتے ہیں ۔چنانچہ ہاریوں میں زمینوں کی تقسیم کا آغاز کر دیا گیا۔ زمینوں کی تقسیم کی ایک تقریب سے میاں صاحب واپس اسلام آباد تشریف لا رہے تھے۔ ان کی ساتھ والی نشست پر سعید مہدی بیٹھے تھے جبکہ پچھلی نشست سلمان فاروقی کے حصے میں آئی تھی ۔ میاں صاحب نے سعید مہدی سے کہا کہ ’’مہدی صاحب کیا خیال ہے آج سندھ کے اندر پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک میں ڈینٹ (Dent) پڑ گیا ہے یا نہیں ۔سعید مہدی نے جواب دیا کہ ہاں جی ۔کسی حد تک تو ڈینٹ پڑ گیا ہے۔ پچھلی سیٹ سے سلمان فاروقی نے سر آگے کر کے فرمایا کہ ’’سر آپ ڈینٹ کی بات کر رہے ہیں ۔ آپ نے تو پیپلز پارٹی کو اڑا کے رکھ دیا ‘‘۔

یہ تبصرہ سنتے ہی میاں صاحب نے سعید مہدی سے کہا کہ مہدی صاحب آپ ذرا پچھلی نشست پر چلے جائیں اور فاروقی صاحب کو ادھر بھیج دیں ۔چنانچہ فوراً نشستوں کا تبادلہ ہوگیا اور برابر والی نشست پر سلمان فاروقی صاحب براجمان ہو گئے ۔ اس کے بعد انہوں نے خوشامد اور تعریفوں کے کیا پل باندھے ہوں گے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن میاں صاحب کے چہرے کے تاثرات سے عیاں تھا کہ ان کو خوش رکھنے کا خاطر خواہ انتظام ہورہا ہے ۔

اب ایک دوسرا واقعہ ملاحظہ کیجئے۔ یہ بارہ اکتوبر 1999ء کی بغاوت سے چند روز قبل کی بات ہے ۔ جنرل پرویز مشرف اور میاں نواز شریف کے تعلقات شدید کشیدہ ہو گئے تھے لیکن میاں صاحب کے خوشامدی مشیر کڑا کے نکال کر انہیں تسلی دے رہے تھے کہ کوئی ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ میاں نوازشریف کے قریبی دوست حمید اصغر قدوائی جو اس وقت کینیا میں سفیر تھے اور جو جنرل پرویز مشرف کے بھی قریب تھے، سفارتی ذمہ داریاں چھوڑ کر اسلام آباد پہنچے ۔ وزیراعظم سے ملنے آئے تو وہاں سعید مہدی اور طارق فاطمی صاحب پہلے سے موجود تھے۔

 طارق فاطمی صاحب نے وزیراعظم صاحب سے امریکہ میں سفارت کا پروانہ حاصل کرلیا تھا اور اگلے روز وہ امریکہ میں ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے روانہ ہورہے تھے۔ حمید اصغر قدوائی نے میاں نوازشریف سے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ فوج کے ساتھ معاملات نہایت غلط سمت میں جارہے ہیں اور اگر وہ اجازت دیں تو ثالث بن کر وہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کر لیں۔

ابھی میاں صاحب جواب دینے کے لئے ذہن بنا رہے تھے کہ فاطمی صاحب گویا ہوئے ۔ کہنے لگے کہ سر جنرل پرویز مشرف ناراض بھی ہوں تو کیا کر سکتے ہیں ۔ اسمبلی میں دو تہائی مینڈیٹ آپ کو حاصل ہے ۔ پرویز مشرف کو آپ نے احسان کر کے آرمی چیف بنایا ہے لیکن اگر وہ احسان فراموشی کرنا بھی چاہیں تو آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ کیونکہ پوری قوم آپ کے ساتھ ہے ۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد تو آپ قائد اعظم سے بھی زیادہ مقبول بن گئے ہیں۔

ان حالات میں پرویز مشرف آپ کے خلاف اقدام کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ قدوائی صاحب خواہ مخواہ ڈرا رہے ہیں ۔ قوم کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں ۔ پانچ سال تو کیا‘ میرا تو ایمان ہے کہ آج سے بیس سال بعد بھی آپ اس ملک کے حکمران ہوں گے ۔ فاطمی صاحب کا یہ عالمانہ تبصرہ سنتے ہی میاں صاحب کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی ۔ فاطمی صاحب کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ فاطمی صاحب آپ امریکہ جاکر بس ان کے ساتھ ہمارے معاملات ٹھیک کرلیں۔

 پھر میں دیکھتا ہوں کہ اگلے بیس سال تک ہمیں کون حکومت سے نکالتا ہے ۔ یہ مکالمہ سن کر حمید اصغر قدوائی مایوس ہو کر کینیا روانہ ہوگئے جبکہ فاطمی صاحب سفیر بن کر امریکہ فتح کرنے کے لئے فاتحانہ انداز میں واشنگٹن چلے گئے ۔لیکن افسوس کہ انہیں واشنگٹن میں امریکی صدر کو اپنے کاغذات پیش کرنے کی مہلت بھی نہ مل سکی اور چند ہی روز بعد میاں نوازشریف‘ پرویز مشرف کے ہاتھوں وزیراعظم ہائوس سے نکل کر اٹک قلعہ جاپہنچے ۔ فاطمی صاحب اس کے بعد کئی سال تک نظر نہیں آئے اور جب میاں نوازشریف واپس تشریف لائے تو وہ بھی نظر آنے لگے ۔

سلمان فاروقی ان کا کیمپ چھوڑ کر اپنی اسی مہارت کی وجہ سے آصف علی زرداری صاحب کے مشیر خاص بن گئے ۔ جو چند دانے ان کے ساتھ کھڑے رہ گئے ‘ ان میں کوئی ایک بھی اس خوشامدی ٹولے میں شامل نہیں تھا۔ سندھ میں غوث علی شاہ ساتھ دے رہے تھے‘ پختونخوا میں سردار مہتاب ‘ اقبال جھگڑا ‘ صدیق الفاروق‘ پیر صابر شاہ ساتھ رہ گئے اور پنجاب میں سعد رفیق ‘ راناثناء اللہ اور پرویز رشید جیسے چند دانوں کے حصے میں وفاداری اور آزمائشیں آئیں ۔ خوشامد کے کڑاکے نکالنے والے زیادہ تر سیاسی ساتھی پرویز مشرف کی صف میں چلے گئے ۔ بدقسمتی سے آج ایک بار پھر میاں نوازشریف صاحب 1999ء کی طرح اس خوشامدی ٹولے میں پھنس گئے ہیں لیکن یہ کسی اور کی نہیں ان کی اپنی غلطی ہے کیوں کہ انہیں خوشامد گر پسند ہیں۔ چند بیوروکریٹس ، چند مشیران خاص اور چند کاروباری شخصیات نے ان کو گھیرے میں لے لیا ہے ۔

صبح و شام اجلاس ہورہے ہیں لیکن ان میں صرف یہی ٹولہ نظر آتا ہے یا پھر کہیں نہ کہیں دو تین متعلقہ بندوں کو نظر اتارنے کے لئے بلایا جاتا ہے ۔ فیصلے کابینہ میں ہورہے ہیں ‘ نہ کابینہ کی کمیٹیوں میں اور نہ پارلیمنٹ میں اور ظاہر ہے کہ ان آئینی فورمز کے علاوہ جہاں بھی فیصلے ہوں ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ۔ ایک رائے تو یہی ہے کہ خود حکمران بھی وقت گزارنا چاہتے ہیں ‘ اس لئے متعلقہ فورمز پر مشاورت اور فیصلوں کی بجائے صرف مخصوص لوگوں کے ساتھ میٹنگز کر کے جعلی طور پر یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ حکومت بہت کچھ کر رہی ہے۔

خوشامدیوں کا یہ ٹولہ وزیراعظم صاحب کو سب اچھا کی رپورٹ دے رہا ہے ۔ انہیں بتایا جارہا ہے کہ فوج بھی قابو میں ہے، طالبان کا بھی جینا حرام کر دیا گیا ہے، تحریک انصاف کا احتجاج بھی دفن ہوگیا ہے ، پیپلز پارٹی بھی مٹھی میں بند ہے ‘ معیشت بھی تیزی سے ترقی کررہی ہے اور امریکہ بھی انہیں آخری سہارا سمجھ رہا ہے لیکن کسی میں ہمت نہیں کہ انہیں بتاسکے کہ صرف حکومت کو نہیں بلکہ پورے نظام کو خطرہ ہے اور خطرہ کہیں اور سے نہیں خود وزیراعظم ہائوس کے اندر سے ہے ۔

 اور آخر میں ایک لطیفہ۔ آج کے اخباروں میں حکومت پاکستان کی طرف سے ایک اشتہار شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’دہشت گردوں سے ہمدردی ۔پاکستان سے غداری ۔ جہاں دیکھیں ۔ اطلاع دیں۔ اپنے اردگرد پر نظر رکھیں کہ کہیں کسی اجتماع، تقریب، عبادت گاہ ‘ مدرسے یا درسگاہ میں دہشت گردی، انتہاپسندی اور فرقہ واریت کے ایجنڈے کو فروغ تو نہیں دیا جا رہا ۔

مثلاً دہشت گردوں کو مجاہدین کہنا‘ دہشت گردوں سے ہمدردی کا اظہار کرنا‘ دہشت گردوں کے لئے دعائیں کرانا‘ نفرت انگیز یا اشتعال انگیز تقاریر کرنا ....ایس ایم ایس اور سوشل میڈیا کے ذریعے اشتعال انگیز ‘ نفرت انگیز اور فرقہ واریت پر مبنی پیغامات کی تشہیر۔‘‘ یہ اشتہار اس حکومت کی طرف سے شائع ہوا ہے جو امریکہ کی طرح آج تک قوم کے سامنے دہشت گرد اور مجاہد کی متعین تعریف نہیں لاسکی ہے ‘ جس کے مشیر کل تک طالبان کی تعریفوں میں ہزاروں صفحات سیاہ کرچکے ہیں اور جو اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ سیاسی رشوت کے طور پر ایک سیاسی جماعت کو عنایت کر چکی ہے ۔ حیران ہوں کہ سرکار کے پیسے خرچ کرنے کی بجائے اگر آئی ٹی کی وزیرسے اپنے زیرانتظام سوشل میڈیا کی ایک رپورٹ طلب کی جاتی تو وزیراعظم صاحب کو خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ انتہاپسندی اور فرقہ واریت کو کون پھیلا رہا ہے۔

سلیم صافی

"بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ

فوجی عدالتوں کا قیام...


Top Jamaat leader Azharul Islam sentenced to death

$
0
0
A.T.M. Azharul Islam, assistant secretary general of the Jamaat-e-Islami party, waves his hand as he enters a police van after a special tribunal sentenced him to death in Dhaka, Bangladesh.  

Cold and foggy morning in Srinagar

$
0
0
A Kashmiri man makes his way through the frozen surface of water of a lake on a cold and foggy morning in Srinagar.

حیدرآباد کا پکا قلعہ...

$
0
0


موجودہ حیدر آباد نیرون کوٹ کی قدیم بستی کی جگہ آباد ہے حیدر آباد پہلے نیرون کے نام سے مشہور تھا اس شہر کی بنیاد نبوت اور ہجرت کے درمیانی زمانے میں رکھی گئی۔ میاں غلام شاہ کے آباد کردہ شہروں میں جس شہر کو غیر معمولی عظمت و شہرت حاصل ہوئی وہ شہر حیدر آباد ہے جسے دارالسلطنت کی حیثیت حاصل تھی یہ شہر کلہوڑوں کے بعد بھی تالپوروں کا دارالسلطنت رہا اور آج بھی اس کا شمار پاکستان کے صوبہ سندھ کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ 

میاں غلام شاہ نے اپنے دور حکومت میں اپنی حکومت کے مختلف مرکز بدلے اسے تعمیرات کا بہت سوق تھا آخر میں اس نے اپنا دارالحکومت بنانے کے لیے دریائے سندھ کے کنارے اس مقام کو پسند کیا۔ جو قدیم زمانے میں ہی سے نیرون کوٹ کہلاتا تھا یہ ایک مضبوط پہاڑی پر واقع تھا مارچ1769ء میں میاں غلام شاہ نے اس مقام پر قلعہ تعمیر کرنے کا حکم دیا جب یہ قلعہ تعمیر ہوگیا تو وہاں کی رعایا کو قلعہ کی حفاظت میں آباد کر دیا گیا۔ 

میاں غلام شاہ نہایت نیک سیرت، بہادر اور علم دوست قسم کا انسان تھا اس نے اپنے سولہ سالہ دور حکومت میں نہایت کامیاب حکومت کی اس کا دور عہد کلہوڑا کا سب سے زیریں دور شمار ہوتا ہے۔ بھٹ شاہ میں واقع مشہور آفاقی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کا مقبرہ بھی میاں غلام شاہ نے تعمیر کرایا تھا۔ میاں غلام شاہ کے والد نے شاہ عبداللطیف بھٹائی سے عقیدت کی نسبت ہی سے میاں صاحب کا نام’’غلام شاہ‘‘ رکھا تھا۔ محمد بن قاسم کی فتوحات کی تاریخ میں حیدر آباد کا تذکرہ بغیر کسی جنگ و جدل کے ملتا ہے عبداللہ بن نجان کی شہادت کے بعد حجاج بن یوسف نے بدیل بن ملہبہ بجلی کو دیبل پر حملے کے لیے بھیجا تھا لیکن بدیل نے اس جنگ میں شہادت پائی بدیل کی شہادت کے بعد سندھ میں نیرون کے لوگوں نے مسلمانوں کے ڈر سے آپس میں مشورہ کیا کہ یقینا عرب اس شہادت کا انتقام لیں گے اور ان کے حملے کا پہلا نشانہ ہم لوگ بنیں گے اگر اس وقت ان کی اطاعت قبول کر لی جائے تو ہمارا شہر بربادی سے بچ جائیگا۔

 نیرون کے حاکم سندر نے حجاج سے جزیہ کی قبولی اور امان کی طلبی کی درخواست کی جسے قبول کرلیا گیا۔ نیرون کوٹ کا حاکم بدھ مذہب کا ماننے والا تھا اور ثمنی قوم سے تھا اس نے حجاج بن یوسف سے معاہدہ طے کر لیا تھا جب محمد بن قاسم نیرون پہنچے تو اس وقت وہ ثمنی حاکم راجہ داہر کے پاس گیا ہوا تھا شہر والوں نے جب محمد بن قاسم کی آمد کی خبر سنی تو شہر کے دروازے بند کرکے بیٹھ گئے۔ پانچ چھ روز کے بعد جب ثمنی حاکم نیرون واپس آیا تو اس نے فوراً شہر کے دروازے کھلوائے اور شاندار طریقے سے محمد بن قاسم کا استقبال کیا نہایت بیش قیمت تحائف پیش کئے اور فوج کی مہمان داری کا پورا پورا انتظام کیا۔ محمد بن قاسم نے بھی نیرون کے حاکم کو انعام و اکرام سے نوازا۔ 

غرضیکہ نیرون بغیر کسی جنگ کے فتح ہو گیا۔ انگریزوں نے اپنا پہلا قدم سندھ میں 26 ستمبر 1613ء کو تجارتی جہاز کی آمد کے ساتھ رکھا تھا اور 1635ء میں ٹھٹھہ میں پہلی تجارتی کوٹھی قائم کی گئی تھی۔ جس کا بظاہر یہاں سے قلمی شورہ خرید کر یورپ بھیجنا تھا میر نور محمد کی وفات کے بعد انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کرنے کی جدوجہد تیز کر دی اور مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے میران حیدر آباد کو گرفتار کرلیا۔ سرجانسن جمیز نیپئر اپنی پلٹن کے ساتھ قلعہ حیدر آباد میں داخل ہوگیا اور کسی مزاحمت کے بغیر انگریزی فوج قلعہ حیدر آباد میں قابض ہوگئی جو آج ’’پکا قلعہ‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ 

انگریزوں نے قلعہ حیدر آباد سے تمام خزانے ، نقد، اونی اور نفیس کپڑے، بیش بہا ہتھیار، مرصح تلواریں، رومی، خراسانی اور میرخانی بندوقیں جواہر دار خنجر اور چھریاں ولائیتی گھوڑے اور اونٹ بہترین مویشی، زنانہ مرصح طلائی زیورات جن کی قیمت لاکھوں تک پہنچتی ہے دو کروڑ تیس لاکھ روپے نقد جو میران حیدرآباد کے توش خانے میں جمع تھے قبضے میں کر لیے۔ تالپور فرمانروائوں کو عمدہ اور نادر کتابیں جمع کرنے کا بھی ذوق تھا اور انہوں نے پکا قلعہ میں کئی کتب خانے بنا رکھے تھے جو علم دوستی کے لیے مشہور تھے انگریزوں کے قبضے کے بعد یہ کتب خانے اجڑ گئے بہت سی کتابیں انگریز لے جو آج بھی یورپ کے کتب خانوں میں موجود ہیں۔ 

قدیم سندھ کے قلعے یوں تو بہت سے ہیں مگر پکا قلعہ حیدر آباد کو ہر دور میں بڑی اہمیت حاصل رہی ہے پرانے قلعوں میں قلعہ احمد آباد قلعہ اختیارالدین، قلعہ الور، قلعہ امام گڑھ، قلعہ اولاو، قلعہ بدین قلعہ بکھر، قلعہ جویا قلعہ دلاور، قلعہ ڈھاڈھر، قلعہ سبزل، قلعہ سوات، قلعہ سیورائی، قلعہ سہیوہن، قلعہ مٹو، قلعہ نادر آباد، قلعہ کانسجر، قلعہ کوٹ ڈیجی، قلعہ عمرکوٹ، قلعہ سیوی قلعہ وگہ کوٹ، قلعہ زانق، قلعہ بیٹ اور قلعہ بھمیٹز شامل ہیں۔ 

مگر ان میں سے چند ایک ہی موجود ہیں۔ پکا قلعہ آج بھی پاکستان کے ان چند قلعوں میں سے ایک ہے جہاں آج بھی مکمل آبادی موجود ہے پکا قلعے میں تقریباً5 لاکھ نفوس آباد ہیں کسی زمانے میں قلعہ کے گرد ایک مضبوط مکمل فصیل بھی تعمیر کی گئی تھی مگر آج یہ فصیل جگہ جگہ سے گر گئی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے اکثر اوقات اس کے گرنے سے انسانی زندگیاں خطرے سے دو چار رہتی ہیں قلعے کی عمارت صدر دروازے قلعہ چوک سے شروع ہو کر درگاہ مولا علیؓ قدم گاہ سٹیشن روڈ، فقیر کاپڑ سے گزر کر واپس صدر دروازے پر ختم ہوتی ہے۔ قلعے کے اندر ایک سٹیڈیم بھی موجود ہے۔ اس قلعے میں زیادہ تر وہ مہاجرین آباد ہوئے جو 1947ء میں ہجرت کرکے پاکستان تشریف لائے تھے۔ آہستہ آہستہ قلعہ میں رہائش کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی صنعتیں بھی لگتی رہی۔ 

جن میں چوڑی کے شعبے کے کارخانے اور جوتا سازی کے کارخانے شامل ہیں۔ یہ قلعہ کسی زمانے میں علمی کتابوں سے مالا مال تھا مگر اب کوئی لائبریری موجود نہیں حالانکہ اس قلعے میں ممتاز ادیب دانشور اور سب دیوان شاعر میر محمد شیر خان بن مراد علی خان، والئی حیدر آباد1804ء میں پیدا ہوئے تھے۔ جو جعفری تخلص رکھتے تھے ان کی مشہور زمانہ کتابیں یہ ہیں۔دیوان فارسی 1233ء دیوان اردو1261ء سفرنامہ جعفری1260ء مکاتیب جعفری خطوط کا مجموعہ مثنوی مرزا صاجان، مثنوی مختار نامہ 1241ء شامل ہیں قلعے میں ایک میوزیم بھی تھا جس کی عمارت آج بھی موجود ہے 1985ء میں قلعے میں موجود اس میوزیم کو ختم کر دیا گیا اس عمارت کے ساتھ دیوان خاص اور دیوان عام موجود ہیں۔ قلعہ حیدر آباد ایک طویل تاریخ کا باب ہے جس میں امن و آتش، ادب و تاریخ، تہذیب و تمدن اور صحت مند معاشرے کے انمٹ نقوش موجود ہیں۔

شیخ نوید اسلم

پاکستان سمیت دنیا کے چند ممالک میں فوجی عدالتوں کا قیام

$
0
0

ملکی تاریخ میں سب سے پہلے فوجی عدالتیں 1953میں اُس وقت قائم ہوئیں جب قادیانیت مخالف فسادات کا حصہ بننے والوں کو سزائیں دی گئیں۔ اس کے بعد 1958میں جب جنرل ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کیا تو فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیااگرچہ اُن عدالتوںکو جنرل ایوب خان نے مارشل لاء کے بعد ختم کر دیا تھا۔ فوجی عدالتیں ختم کرکے ملکی عدالتی نظام بحال کر دیا گیا تھا۔ 1969 میں جنرل ایوب کے بعد جب جنرل یحییٰ نے مارشل لاء لگایا تو ایک بار پھر فوجی عدالتوںکا قیام عمل میں لایا گیا۔ پھر جب ایک جمہوری عمل کے خاتمے کے بعد جنرل ضیاء الحق برسرِ اقتدار آئے تو اُنہوں نے ملک بھر میں فوجی عدالتیں قائم کردیں ۔

جنرل ضیاء الحق کے دَور کے بعد جب ملک میں سیاسی کلچر شروع ہوا تو موجودہ وزیرِ اعظم کے موجودہ دور سمیت تینوں ادوار میں فوجی عدالتوںکا قیام عمل میں لایاگیا ۔ فوجی عدالتوں کا قیام وطنِ عزیز میں ہی محض نہ ہوا دنیا کے چند ایک ممالک میں فوجی عدالتیں قائم رہیں ۔اس کی سب سے بڑی مثال امریکہ ہے ۔امریکہ جیسے جمہوری ملک میں بھی فوجی عدالتوںکا قیام اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مخصوص حالات میں ایسے فیصلے کیے جاتے ہیں ۔ مصر میں بھی فوجی عدالتوںکا قیام عمل میں رہا۔ یہ عدالتیں انقلاب کے بعد قائم کی گئیں تھیں۔

ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں سول سوسائٹی کی تمام تر مخالفت کے باوجود بھی فوجی عدالت قائم رہی ہے ۔ فوجی عدالتوں کے قیام کی ایک اور مثال ہمارے سامنے جرمنی کی رہی ہے ۔ اگرچہ جرمنی میںابھی ایسا کوئی اقدام نہیں لیا گیا مگر مخصوص حالات میں اُن کا آئین فوجی عدالت کے قیام کی اجازت دیتا ہے ۔

نصف صدی پہلے کا پاکستان، نصف صدی بعد کا برطانیہ....

$
0
0


پورے پچاس سال پہلے، ان ہی دنوں پاکستان کے پہلے پاکستانی فوجی سربراہ اور اپنے آپ کو ’’فیلڈ مارشل‘‘ بنانے کے شوق میں اپنا ہی ملک فتح کرنے والے جنرل محمد ایوب خان نے نام نہاد بنیادی جمہوری نظام کے تحت قائداعظم کی ہمشیرہ مادر ملت فاطمہ جناح کے مقابلے میں پوری قوم کی توقع کے برعکس صدارتی انتخاب جیت کر ملک کےبڑے حصے کے پاکستان سے علیحدہ ہو جانے کی بنیاد رکھی اور ریاستی اور مذہبی دہشت گردی کے خوفناک رجحان کو آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں تک لے جانے والی قومی مصیبتوں کی راہیں ہموار کیں۔

اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر مسٹر جی معین الدین کے اعلان کے مطابق ایوب خان نے 80 ہزار بی ڈی ووٹروں میں سے 49 ہزار چھ سو 47 ووٹ حاصل کر کے محترمہ فاطمہ جناح کو 21 ہزار تین سو چار ووٹوں سے عبرت ناک شکست دی تھی، مادر ملت کو 28 ہزار تین سو ووٹ ملے تھے جن میں سے 18 ہزار 80 ووٹ مشرقی پاکستان کے بی ڈی چیئرمینوں کے تھے۔ ایوب خان نے مجموعی ووٹروں کے 53 فیصد ووٹ مشرقی پاکستان سے حاصل کئے تھے جب کہ مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) سے ملنے والے ایوب خان کے ووٹوں کی تعداد بیس ہزار سات سو بیس بیان کی گئی تھی۔

بعض لوگوں کے خیال میں نصف صدی پہلے کے اس سیاسی ڈرامے سے انتخابی دھاندلیوں کی دہشت گردی کے اس سلسلے کا آغاز ہوتا ہے جس سلسلے کے احتجاجی مظاہروں نے گزشتہ سال پاکستان تحریک انصاف کے دھرنوں تک کا سفر طے کیا اور معلوم نہیں کہ ابھی یہ سلسلہ کہاں تک جائے گا اور ملک اور قوم کی جان کب چھوڑے گا۔ یقینی طور پر اس کے لئے بھی کسی ’’ضرب عضب‘‘ جیسے آپریشن کی ضرورت پڑے گی۔

یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ہماری قومی تاریخ میں اگر بے پناہ جرات کی طاقت رکھنے والی مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا وجود نہ ہوتا تو ذوالفقار علی بھٹو کی ملک کو فوج سے واگزار کرانے والی جمہوریت کی تحریک بھی کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔ فیلڈ مارشل کی مارشل لاء کے ذریعے نافذ ہونے والی دہشت گردی کی چھائونی پر پہلا حملہ مادر ملت کا تھا جس نے بھٹو کی تحریک کی کامیابی کی راہ ہموار کی تھی۔ پیپلز پارٹی کی سیاسی کامیابی کی پہلی وجہ اگر اس کا پہلا انتخابی منشور تھا دوسری بڑی وجہ بلاشبہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی فیلڈ مارشل کے خلاف سیاسی ٹکر بھی تھی۔

تازہ ترین ’’اخبار جہاں‘‘ میں لندن سے ایک خط میں آصف جیلانی نے کچھ ایسی باتیں درج کی ہیں جن پر سرمایہ داری نظام کے ثناء خوانوں کو یقین نہیں آئے گااور وہ پڑھ کر صرف حیران ہی نہیں پریشان بھی ہوں گے۔ آصف جیلانی بتاتے ہیں کہ اس وقت برطانیہ عظمیٰ کے ایک کروڑ تیس لاکھ عوام غربت کی آخری لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

ایک رپورٹ کےحوالے سے آصف بتاتے ہیں کہ لندن کے سکولوں میں ہر کلاس میں سے کم از کم 41 فیصد انگریز بچے صبح گھر سے ناشتہ کر کے نہیں آتے بھوکے پیٹ پڑھنے آتے ہیں جس کی وجہ سے وہ پڑھائی میں پس ماندہ رہ جاتے ہیں۔سوشلسٹوں کی زبان میں سرمایہ داری نظام کی ناہموار اور بے جوڑ کہلانے والی ترقی کے حوالے سے آصف جیلانی بتاتے ہیں کہ 2006ء کے عالمی مالیاتی بحران کے نتیجے میں دنیا بھر میں خوراک اوراشیائے خوردنی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے اور سال 2010ء میں برطانیہ کی مخلوط حکومت کی طرف سے سرکاری اخراجات سوشل ویلفیئر اور فلاح و بہبود کے بجٹ میں تخفیف اور کٹوتیوں کی وجہ سے افلاس اور بھوک کا مسئلہ پورے برطانیہ کو پوری اور بری طرح اپنی گرفت میں لے چکا ہے ماہرین نے گزشتہ سال خبردار کیا تھا کہ غربت اور بھوک کا مسئلہ انگلستان کے لئے بہت سنگین ہو جائے گا اور عام لوگوں کی صحت بری طرح متاثر ہو گی۔جیلانی لکھتے ہیں کہ ایک طرف بھوک اور افلاس کا یہ عالم ہے اور دوسری جانب کرسمس پر برطانیہ میں 74 ارب پونڈز کی خریداری ہوتی ہے۔

انٹرنیٹ آن لائن پر بھی 17 ارب پونڈز کی اشیا خریدی جاتی ہیں۔ ایک طرف برطانیہ خوراک اور اشیائے خوردنی ضائع اوربرباد کرنے میں مصروف ہے اور دوسری جانب برطانیہ میں ’’فوڈ بینکوں‘‘ کی تعداد چودہ سالوں میں 420 تک پہنچ جاتی ہے۔ گزشتہ سال برطانیہ کے نو لاکھ 13 ہزار بھوکے لوگوں نے ان فوڈ بینکوں کے ذریعے اپنی بھوک مٹانے کی کوشش کی۔ ان میں ایک لاکھ 30 ہزار معصوم بچے بھی تھے۔ اس وقت برطانیہ عظمیٰ جس کے ’’یونین جیک‘‘ پوری دنیا میں لہرایا کرتے تھے اس کے 19 لاکھ لوگ بے روزگار ہیں یا پہلے سے کم تنخواہوں پر ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔ برطانیہ کے لوگ دو طبقوں میں بٹ چکے ہیں۔ ایک انتہائی دولت مند طبقہ اور دوسرا غربت اور افلاس کی زد میں آیا ہوا طبقہ۔ برطانیہ میں مالیاتی بحران کے باوجود گزشتہ سال ارب پتی لوگوں کی تعداد تین لاکھ چھ ہزار چھ سو پچپن تھی جو اس سال تین لاکھ 45 ہزار دو سو اکہتر ہو گئی ہے۔ 

دراصل یہ مالیاتی بحران کے باوجود نہیں ہوا مالیاتی بحران کیوجہ سے ہوا ہے۔ سرمایہ داری نظام میں بہت زیادہ دولت والے لوگ محض گزارے کی دولت اور کمائی والے لوگوں اور درمیانے طبقے کی مصیبتوں سے فائدہ اٹھانے اور مزے لوٹنے والے بڑے دولت مندوں کا نظام ہے۔ امیروں کو اور زیادہ امیر بناتا ہے اور غربت کو زیادہ سے زیادہ علاقے تک پھیلاتا ہے۔ برطانیہ کے بے حساب دولت مند اور بے حد غریب طبقوں کے درمیان وسیع سمندر جیسے فرق کی وجہ سے ملک میں پرتشدد طبقاتی معرکہ آرائی، دہشت گردی اور انقلاب کے طوفانوں کے برپا ہونے کا اندیشہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

منو بھائی
"بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ

پاکستانی ایمل کانسی کو امریکہ میں سزائے موت کا واقعہ...

$
0
0

وطن عزیز میں آج کل دہشت گردی کے جرم میں سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی سزائوں پر عمل کرنے کا موسم ہے۔ نیوز میڈیا، پاکستانی عوام، سویلین حکومت و اپوزیشن اور فوج سبھی اس مسئلے پر اپنے اپنے زاویہ نگاہ اور موقف کے ساتھ بحث و مباحثہ میں مصروف اور ایکشن دیکھنا چاہتے ہیں۔ منظر کچھ یوں ہے کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اور ان کے لیڈر اپنے اپنے چونکہ چنانچہ کا عذر اختیار کرنے کے باوجود متفقہ طور پر فوجی عدالتوں کے قیام اور ان فوجی عدالتوں میں دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت اور فیصلہ کرنے کے اختیارات کی حمایت کر رہے ہیں۔ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی اجلاس میں موجودگی کے دوران سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں نے آرمی ایکٹ میں ترمیم اور پارلیمنٹ سے منظوری کا وعدہ بھی کیا ہے۔ لہٰذا پارلیمنٹ سے منظوری کا مرحلہ بھی بآسانی طے ہو جائے گا۔

ملک میں داخلی سطح پر دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف سوچ اور عمل کی اس یکجہتی کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی سزائے موت کے مخالف امریکہ نے یورپی ممالک کے تعاون سے افغانستان میں افواج اتاردی تھیں۔ یہ درست ہے کہ معاشرے اور مملکت کی بقاء کیلئے جرم ثابت ہونے پر بعض انسانوں کو سزائے موت دینی پڑتی ہے لیکن ان فوجی عدالتوں اور نظام چلانے والوں کو یہ بات بھی مدنظر رکھنا ہوگی کہ کسی بے گناہ انسان کو انصاف کے نام پر قتل کرنے سے زیادہ سنگین جرم بھی کوئی نہیں۔ 

کیونکہ یہ تلخ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ متعدد ایسے افراد کو بھی دہشت گرد اور طالبان قرار دے کر امریکہ کے حوالے کردیا گیا جن پر امریکی سی آئی اے کی قید میں تفتیش اور ٹارچر کے باوجود بھی کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا اور بالآخر وہ بے گناہ افراد قید اور ٹارچر کی اذیتوں سے بھی گزرنے کے بعد بے گناہ قرار پا کر رہا ہوئے اور واپس لوٹے۔ امریکی سی آئی اے کی خفیہ دستاویزات یہ حقیقت بھی تسلیم کرتی ہیں کہ بعض ایسے افراد بھی امریکیوں کے حوالے کردیئے گئے جو امریکہ کو مطلوب بھی نہیں تھے اور امریکی سی آئی اے کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ یہ لوگ ان کے حوالے کیوں کئے گئے؟

 ظاہر ہے کہ یہ نظام کے رکھوالوں اور بااختیار افراد میں سے کسی کی مخالفت، انتقام یا اختیارات کے زعم کا نتیجہ ہوگا۔ اس لئے عرض ہے کہ صرف دہشت گردی کا جرم کرنے والوں کو سزائے موت یوں ہونی چاہئے کہ وہ بے گناہ انسانوں کو دہشت گردی کے ذریعے زندگی سے محروم کرتے ہیں۔ لہٰذا تمام تر احتیاط اور انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنے کی بھی شدید ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مجھے امریکی نظام انصاف سے سزائے موت دینے میں احتیاط اور انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ایک عملی مثال پیش کرنے کی اجازت دیں۔ یہ میرا اپنا ذاتی مشاہدہ تھا۔ قارئین اس بارے میں اپنی رائے خود قائم فرمائیں۔ واضح رہے کہ اس مقدمہ قتل کا ملزم ایک پاکستانی شہری تھا جسے چار سال کی سخت جدوجہد اور نگرانی کے بعد امریکی حکام پاکستان سے گرفتار کر کے امریکہ لائے تھے اور پھر مقدمہ چلا کر ریاست ورجینیا کی عدالت نے اسے سزائے موت سنائی۔ 

جب اس پاکستانی شہری کی ریاست ورجینیا کے چھوٹے شہر گرینزول کی جیل میں سزائے موت پر عمل کیا گیا تو امریکی اور عالمی میڈیا کے ساتھ میں خود بھی وہاں موجود تھا اور ’’جیو‘‘ کے ذریعے پاکستانی عوام کو لمحہ بہ لمحہ آگاہی کیلئے یہ صحافتی ذمہ داری 14 نومبر 2002ء کو سخت سرد موسم میں کھلے آسمان تلے کھڑے رہ کر میں نے ادا کی تھی۔

آپ کو یاد ہوگا کہ صوبہ بلوچستان کے ایک تعلیم یافتہ نوجوان 28 سالہ ایمل کانسی پر امریکی سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹرز واقع ریاست ورجینیا کے باہر کار پر فائرنگ کر کے سی آئی اے کے دو اہلکاروں کو قتل اور تین افراد کو زخمی کرنے کے بعد پاکستان فرار ہو جانے کا الزام تھا۔ 25 جنوری 1993ء کو سی آئی اے ہیڈکوارٹرز کے باہر شوٹنگ اور قتل کے اس واقعہ کے بعد ایمل کانسی امریکہ سے فرار ہو کر پاکستان آ کر روپوش ہوگیا جبکہ امریکی حکام نے اسے مفرور قرار دے کر اس کی تلاش شروع کردی اور چار سال تک پاک۔

 افغان سرحدی علاقوں وغیرہ میں روپوشی کے بعد امریکی ایف بی آئی نے ڈیرہ غازی خان کے آس پاس کسی ہوٹل سے 15جون 1992ء کو گرفتار کر لیا۔ ایمل کانسی وہ پاکستانی شہری تھا کہ جسے پاکستانی سرزمین پر امریکی حکام نے گرفتار کیا لیکن حکومت وقت نے اسے امریکہ کے حوالے کرنے سے قبل پاکستانی قانون کے کوئی تقاضے پورے نہیں کئے نہ کسی پاکستانی عدالت میں پیش کیا اور نہ ہی اپنے شہری کے حقوق اور ضابطے کی رسمی کارروائی بھی کی۔ ایمل کانسی کو خصوصی انتظامات کے تحت پاکستان سے امریکہ لایا گیا تو ریاست ورجینیا کے ایک سرکاری وکیل نے ایمل کانسی کی گرفتاری کی تفصیلات اور تناظر کے حوالے سے یہ ہتک آمیز جملہ کہا کہ پاکستانی پیسے کیلئے اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں تو امریکہ کی پاکستانی کمیونٹی نے خوب احتجاج کیا مگر پاکستانی حکام تو خاموشی اور خوف کا شکار رہے۔

یہ ایمل کانسی کی ہی گرفتاری تھی جس کے حوالے سے بعض حلقوں نے فاروق لغاری مرحوم اور مرحومہ بے نظیر بھٹو کے اختلافات میں بے نظیر کی طرف داری کرتے ہوئے یہ افواہ اڑائی کہ ایمل کانسی کی ڈیرہ غازی خاں سے گرفتاری میں فاروق لغاری کا ہاتھ تھا۔ حالانکہ حقیقت کچھ اور ہے۔ اس کی حقیقت محترم سابق سفیر قاضی جہانگیر اشرف سے بھی معلوم کی جاسکتی ہے جو ایمل کانسی کی سزائے موت کے وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے اور وہ بلوچ روایات کی پاسداری کرتے ہوئے رخصت لے کر پاکستان گئے اور ایمل کانسی کی نماز جنازہ اور تدفین میں شریک ہوئے تھے۔

 یہ بات قاضی اشرف جہانگیر نے مجھے خود بتائی جبکہ ریاست ورجینیا میں خوف کا یہ عالم تھا کہ ریاست ورجینیا کی متعدد مساجد کے اماموں نے ایمل کا نسی کی نمازہ جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا صرف اسلامک سینٹر آف نارتھ ورجینیا کی مسجد میں نماز جنازہ ہوئی امام ڈاکٹر میاں محمد سعید ایمل کانسی کیلئے بڑے محترم اور روحانی سکون کا باعث تھے۔ ان سے ایمل کانسی کا رابطہ بھی تھا وہ سزائے موت کے روز بھی جیل میں جا کر ایمل کانسیسے ملے تھے کیونکہ قیدیوں کو اپنے مذہب کے مبلّغوں، پادریوں، امام سے ملنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ امریکی سی آئی اے کے اہلکاروں پر فائرنگ کر کے قتل کرنے والے غیر ملکی ایمل کانسی کے سلسلے میں بھی تمام تر امریکی نفرت کے باوجود قانون کے تمام تقاضے پورے کئے گئے۔ ایمل کانسی نے قتل کے جرم کا اعتراف بھی کر لیا تھا۔

ملاحظہ کیجئے 25 جنوری 1993ء کو قتل ہوئے جون 1997ء میں ایمل کانسی گرفتار ہوا 4 فروری 1998ء کو عدالت نے سزا سنائی اور پھر اپیلوں کا سلسلہ مکمل کرنے کی مہلت دی گئی اور 14 نومبر 2002ء کی شام مقامی وقت کے مطابق 9 بج کر سات منٹ پر سزائے موت پر عمل کرتے ہوئے اسے جرم کی سزا دے دی گئی۔ ایمل کانسی اپنے جرم کا اعتراف عدالت میں کرچکا تھا وہ اپنی موت کیلئے تیار تھا۔ اس کی میت لینے کیلئے پاکستان سے اس کے دو عزیز آئے ہوئے تھے جو اس چھوٹے قصبے کے ایک ہی ہوٹل میں میرے برابر والے کمرے میں تھے مگر وہ قطعاً کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھے۔ جیل حکام کے ترجمان لیری ٹیلر نے جب جیل سے باہر آ کر ایمل کانسی کی سزائے موت کا اعلان کیا تو سخت سردی کے باوجود ’’جیو‘‘ کے ذریعے پاکستانی شہری ایمل کانسی کی سزائے موت کی خبر پاکستانی عوام تک تفصیل سے پہنچانے کی صحافتی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے سردی کا احساس اس وقت ہوا جب ہاتھ اور ناک دونوں ہی ’’فریز‘‘ محسوس ہوئے۔ ایمل کانسی کی گرفتاری اور حوالگی کے لئے ہم نے پاکستانی قوانین اور شہری کے حقوق کو پامال کیا۔ امریکہ نے تمام تر حقائق کے باوجود پاکستانی ایمل کانسی کو انصاف کے تقاضے پورے کر کے سزائے موت دینے میں 9 سال کا عرصہ لگایا۔ احتیاط اور انصاف لازم ہے۔

عظیم ایم میاں

"بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ

Pakistan Cricket Team World Cup Squad 2015

$
0
0


پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی نے ورلڈ کپ 2015 کے لئے قومی اسکواڈ کا اعلان کردیا ہے جس میں جہاں کامران اکمل، شعیب ملک، اسد شفیق، اظہرعلی 
جگہ نہیں بناپائے وہیں خلاف توقع سہیل خان کو شامل کیا گیا ہے۔

نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں چیف سلیکٹر معین خان نے ورلڈ کپ 2015 کے لئے قومی ٹیم کا اعلان کیا، 15رکنی حتمی اسکواڈ 2اوپنرز، 5 مڈل آرڈرز بیٹسمین، 2 اسپنرز اور5 فاسٹ بالرز پر مشتمل ہے، ٹیم میں جہاں کامران اکمل، شعیب ملک، اسد شفیق، اظہرعلی اور عمر گل کو شامل نہیں کیا گیا وہیں اسکواڈ میں خلاف توقع انورعلی اور بلاول بھٹی بھی جگہ نہیں بناپائے جبکہ خلاف توقع سہیل خان کو شامل کیا گیا ہے۔ ٹیم کی قیادت مصباح الحق کریں گے جبکہ دیگر کھلاڑیوں میں محمد حفیظ،احمد شہزاد ، یونس خان، عمر اکمل، حارث سہیل، صہیب مقصود، سرفراز احمد، یاسر شاہ، شاہد آفریدی، وہاب ریاض، احسان عادل، جنید خان، سہیل خان اور محمد عرفان شامل ہیں۔

اس موقع پر معین خان نے کہا کہ محمد حفیظ اور احمد شہزاد ٹیم کے اوپنرز ہوں گے جبکہ سرفراز احمد کو بھی اوپنر کے طور پر ٹیم میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ ہر 4 ماہ بعد کھلاڑیوں کی فٹنس کا ٹیسٹ لیتا ہے اور سب ہی کھلاڑیوں کی فٹنس بہتر ہوئی ہے جسے دیکھتے ہوئے انہیں یقین ہے کہ کھلاڑی دیگر ٹیموں کے ساتھ مقابلے کےلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انور علی اور بلاول بھٹی کو مختلف مقابلوں میں آزمایا گیا ہے جس کے بعد وہاب ریاض اور سہیل خان کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا، دونوں کھلاڑیوں کی شمولیت سے قومی ٹیم کو بیٹنگ کے شعبے میں بھی فائدہ ہوگا۔

واضح رہے کہ سہیل خان ورلڈ کپ کے لئے 30 رکنی ابتدائی اسکواڈ میں شامل نہیں تھے۔



آرمی ایکٹ کے تحت کن عناصر کو سزائیں دی جائیں گی؟...

$
0
0

اب جب 21ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کابل منظور ہو چکا ہے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ کن لوگوں ،گروہوں اور جماعتوں کو آرمی ایکٹ کے تحت سزا کے عمل سے گزارا جائے گا۔واضح رہے کہ مندرجہ ذیل جرائم میں ملوث افراد کو سزا دی جا سکے گی۔

 ٭ جو گروہ ،وطنِ عزیز کے خلاف ، فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف ہتھیار اُٹھائیں گے ، اُنہیں آرمی ایکٹ کے تحت سزا ئیںدی جائیں گی۔ 

٭وہ افرد جو ایسی جماعتوں یا گروہوں کو جو غیر قانونی سرگرمیوں میںملوث ہوتے ہیں،انہیں مالی امداد مہیا کرتے ہیں ،اُن کو سزائیں دی جائیں گی 

٭ آرمی ایکٹ کا انہیں سامناکرنا پڑے گا جو قومی اداروں پر حملہ کے مرتکب ہوں گے اور اور اغوا برائے تاوان کے مجرم ہوں گے ۔

 ٭ایسے افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی جو مذہب اور فرقے کی آڑ میں مسلح کارروائیاں کرتے ہیں۔ 

٭اُن کے خلاف اقدامات لیے جائیں گے جو کسی عسکریت پسند جماعتوں کے اراکین ہوں گے

 ٭اُن عناصر کے خلاف کارروائی عمل میں لائے جائے گی جو دہشت اور عدم تحفظ کی فضا قائم کرتے ہیں ۔

 ٭اُن دہشت گردوں کو اُن کے انجام تک پہنچایا جائے گا جو بیرون ملک سے وطنِ عزیز میں آکر دہشت گردی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ 

٭اُن افراد کے خلاف اقدام لیا جائے گا جو سول اور فوجی تنصیبات پر حملے کر چکے ہوں اور دھماکہ خیز مواد کی ترسیل میں معان رہے ہوں۔

معاملہ اکیسویں آئینی ترمیم کا....

تیل کی گرتی ہوئی قیمت اور پاکستان

عمران خان کا دعوت ولیمہ....

$
0
0







Imran Khan Marriage with Reham Khan

آئینی ترمیم پر مذہبی قیادت کے اعتراضات....

$
0
0

21 constitutional amendment pakistan and religious parties
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live