Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

کامیاب ناکامیاں......

$
0
0

 ۔ ہم اپنی کامیابی سے اتنا نہیں سیکھتے جتنا ناکامیوں سے سیکھتے ہیں۔ جب ہم کامیاب ہوتے ہیں تو ہم اپنی کامیابی کا جشن منانے میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ جب ہم ناکام ہوتے ہیں تو ہم ناکامیوں کی وجہ تلاش کرتے ہیں۔ناکامی وہ معاوضہ ہے جو آپ کامیابی کیلئے ادا کرتے ہیں۔ دنیا میں جتنے بھی لوگ مشہور ہوئے وہ اپنی ناکامیوں سے سبق سیکھ کر کامیاب اور مشہور ہوئے۔ جتنی ایجادات ہوئیں سب کے پیچھے ناکامیوں کا ہاتھ ہے۔کچھ ناکامیاں ، کامیابیاں ہوتی ہیںاور کچھ کامیابیاں ، ناکامیاں ہوتی ہیں۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ کامیاب ، ناکامیاں کونسی ہیں :

 ٭اپنے کاروبار کے پہلے سال کے دوران کوکا کولا کمپنی نے صرف چار سو بوتلیں بیچیں۔

 ٭باسکٹ بال کے سپر سٹار مائیکل جورڈن کا نام اپنے ہائی سکول کی باسکٹ بال کی ٹیم سے نکال دیا گیا تھا کیونکہ کوچ کو یقین تھا کہ وہ اس قابل نہیں ہے۔ 

٭ونٹسن چرچل چھٹی جماعت میں فیل ہوگیا تھا۔ونٹسن چرچل کو آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی نے داخلہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔

 ٭تھا مس ایڈیسن کو سکول میں ’’بے حد سست‘‘ کا خطاب ملا تھا۔ اس کے اساتذہ کا کہنا تھا کہ وہ اتنا بدھو ہے کہ کچھ سیکھنے کے قابل نہیں ہے۔تھا مس ایڈیسن نے جب بجلی کا بلب بنایا تو وہ کامیابی سے قبل دو ہزار دفعہ ناکام ہوا۔ جب اس سے اس بارے میں پوچھا گیا تو اس نے شاندار جواب دیا کہ’’ میں ناکام نہیں ہوا، میں نے 1999 ایسے طریقے دریافت کر لیے ہیں جن سے بلب نہیں جلتا۔‘‘

      جان کوم کو مشہور سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس  بک نے ملازمت ینے سے انکار کردیا تھا۔ ۔ 

٭البرٹ آئن سٹائن چار سال تک بولنے ، اور سات سال تک لکھنے کے قابل نہیں ہوا تھا۔ اسے ’’کند ذہن ’’ ہونے کا طعنہ ملتا تھا۔ البرٹ آئن سٹائن کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ یونیورسٹی آف برن کی طرف سے یہ کہ کر مسترد کردیا گیا تھا کہ یہ بے تکا اور غیر حقیقی ہے۔ ٭گرا ہم بیل نے جب ٹیلی فون ایجاد کیا تو اسے کہا گیا کہ اس کا کوئی بھی استعمال نہیں کرے گا۔ ٭لوئس پاسچر کا کیمسٹری کی جماعت میں شمار سب سے نچلے درجے میں ہوتا تھا۔ 

٭دنیا کا تیز ترین کرکٹ باؤلر شعیب اختر 5 سال کی عمر تک چل نہیں پایا تھا۔ علاوہ ازیں اس کے پاؤں بھی چپٹے ہیں۔

 ٭مائیکرو سافٹ ونڈوز کے بانی بل گیٹس نے اپنی یونیورسٹی کی تعلیم مکمل نہیں کی تھی۔ 

٭ابراہم لنکن بچپن میں جوتے گانٹھتا تھا۔

 ٭دنیائے کرکٹ کابا دشاہ سچن ٹنڈولکر دسویں جماعت میں فیل ہوگیا تھا۔

 ٭فٹبال کا سپر سٹار میسی ہوٹلوں میں چائے بیچ کر اپنی ٹریننگ کے اخراجات پورے کرتا تھا۔ 

٭اس صدی کا سب سے بڑا سائنسدان ،سٹیفن ہاکن، بولنے ، چلنے ، اور حرکت کرنے سے محروم ہے ۔ ٭


وہ نہیں ہوا۔ اب کیا ہوگا؟.....

$
0
0




یہ سب کچھ اس طرح ہونا تھا۔ دو لاکھ لوگوں پر مشتمل قافلہ اسلام آباد میں داخل ہوتا۔ نعروں کی گونج سے تھرتھراتی فضا میں پہلے سے اپنی اپنی جگہوں پر متعین کیے پھرتا‘ ذرایع ابلاغ اس المیے کو تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ قرار دیتے ہوئے اور اس کی قیادت کو پاکستان کی بقاء کا ضامن بتلاتے ہوئے وزیر اعظم ہائوس کے سامنے لا کھڑا کرنے میں مدد گار کردار ادا کرتے۔

ریڈ زون کے ارد گرد انتظامی حصار پانی کی طرح بہہ جاتا اور تعینات کی ہوئی افواج کے سربراہ وزیر اعظم سے اگلے مرحلے کے بارے میں ہدایات طلب کرتے۔ کیا راستہ ہوتا نواز شریف کے سامنے؟ اعصاب شکن لمحات میں حکومت کی ایسی سٹی گم ہوتی کہ کوئی کار گر مشورہ دینے کے قابل ہی نہ ہوتا۔ درمیانی حل سامنے آتا کہ عمران خان اور طاہر القادری کی گرج چمک کے سائے تلے میاں نواز شریف نئے انتخابات کی تاریخ مقرر کرتے اور پھر اس سیاسی شرمندگی کی تاب نہ لا کر خود ہی کرسی چھوڑ کر اقتدار عبوری مگر انتہائی پارلیمانی قومی حکومت کے حوالے کر دیتے۔

دھاندلی کے الزامات اور ’عدالتی‘ دباؤ کے سامنے گرنے کے بعد مسلم لیگ ن کا سیاسی ’کڑاکا‘ نکل جاتا۔ آیندہ بننے والی حکومت کے سامنے ایک نیا پاکستان موجود ہوتا جس میں پرانے سیاستدانوں میں سے بیشتر تطہیری عمل کے ذریعے ہمیشہ کے لیے فارغ ہو جاتے۔ چونکہ یہ عوامی انقلاب بن جاتا، لہذا عدلیہ کے لیے پرانے آئین اور عمومی قانون کے حوالے دینا ممکن نہ ہوتا۔ جب خلق خدا ٹی وی چینلز کے ذریعے بول رہی ہو تو اس نقار خانے میں جج صاحبان کی آوازیں کیوں کر سنائی دیتیں۔

مگر یہ سب کچھ ایسے نہیں ہوا۔ مارچ کی قیادت نئے پاکستان کی تلاش میں اتنی تیزی سے آگے بڑھی کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے یا جاننے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ ان کے ہمراہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے یا نہیں۔ وہ دھچکہ جو ایک دم میں حکومت کو تہس نہس کرنے کے لیے استعمال ہونا تھا اس عدم شرکت کے باعث موخر کرنا پڑا۔ لشکر کشی، پڑائو یا گھیرائو میں تبدیل کرنا پڑی۔ بد انتظامی اور سفر کی کوفت جان کو آ گئی۔ کھلے آسمان کے نیچے عوام کی اصل تعداد ظاہر ہونے لگی تو ذرایع ابلاغ پر تکیہ بڑھ گیا۔ تمام اہتمام کے باوجود موقع ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ اب حکومت کے پاس وقت تھا ۔ وہ سانس بحال کر کے اپنے قدم جما سکتی تھی۔ جو معاملہ تین دن میں ختم ہونا تھا اب لٹک چکا تھا۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایک ہفتہ پہلے جو حکومت اس خوف میں مبتلا تھی کہ اس کی آخری گھڑیا ں گنی جا چکی ہیں اب تمام بڑی اور چھوٹی سیاسی قوتوں کے جھرمٹ میں کھڑی نسبتا تندرست و توانا لگ رہی ہے۔ آئین کی بالا دستی ایک طرف ہے اور سڑک پر مظاہرے کے ذریعے تبدیلی لانے کی حمایت صرف پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے قائدین تک محدود ہو گئی ہے۔

بین الاقوامی حلقے، سوچ رکھنے والے شہری اور اس ریاست کے دوسرے آئینی ادارے سب خلفشار اور افراتفری سے بچائو کی تاکید کر رہے ہیں۔ عدالت عظمی نے آئینی پوچھ گچھ شروع کر دی ہے۔ اسی وجہ سے ابھی تک ہر روز بڑی خبر کے وعدے کسی بھی خبر میں تبدیل نہیں ہو پا رہے۔ وہ جس کو حل بننا تھا اب بحران ہو گیا ہے۔ جو کچھ ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا۔ اور جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لیے نہ عمران خان نے تیاری کی تھی اور نہ طاہر القادری نے۔
یہاں سے آگے کیا ہو سکتا ہے اس کے تین جواب سوچے جا سکتے ہیں۔ پہلا جواب منطقی اور عمومی دانشمندی کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف دھاندلی کے حجم کے تعین اور اس میں حکومت وقت کے اہلکاروں اور عہدے داروں کے کردار کو ثابت کرنے کے لیے عدالت عظمی کے کمیشن پر اتفاق کر لے۔ اگر دھاندلی ثابت ہو گئی اور ن لیگ کے ہاتھ اس گھنائونے جرم میں رنگے نظر آئے تو موجودہ حکومت فارغ۔ نئے انتخابات ہوں گے تو سب کے مستعفی ہونے کا مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔ اس پر ن لیگ کو بھی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ پوری قوم سیاسی عمل کو بہترین اور غیر متنازعہ بنیادوں پر قائم دیکھنا چاہے گی۔

دوسرا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت حالات کی نزاکت کے پیش نظر کچھ ایسے فیصلے کرے جو وقتی سیاسی دھچکہ تو ہوں مگر جس کے نتیجے میں احتجاج کرنیوالوں کے تمام جواز ختم ہو جائیں۔ پنجاب میں وزیر اعلی کی اپنے عہدے سے علیحدگی اور وزیر اعظم کی طرف سے زبانی وعدہ کہ دھاندلی ثابت ہونے کے نتیجے میں وہ خود بخود عہدے سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ یا پھر اس سے بھی بڑھ کر یہ اعلان کہ وہ دھاندلی کا معاملہ طے ہونے تک اپنی کرسی و منصب سے ہٹ جائیں گے۔

اس وقت یہ دونوں جواب بے معنی اور نا قابل عمل نظر آ رہے ہیں۔ منطق کی بات کنٹینر کی آہنی دیواروں سے ٹکرا کر واپس آ جاتی ہے جب کہ عہدوں سے علیحدگی کے معاملے پر ن لیگ اور پارلیمان سمیت تمام آئینی اور سیاسی قوتوں کے اتفاق رائے بننے کے بعد کسی قسم کی پیشرفت یا گنجائش کا امکان ختم ہو گیا ہے۔
اب تیسرے جواب کی شکل میں حالات سامنے آ سکتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف ملک گیر احتجاج کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے اس بحران کو مزید گہرا کرنے کا تاثر دے گی۔ میڈیا اپنی روش کے مطابق ایک مرتبہ پھر ہر جگہ سے ’’استعفی دو‘‘ کی آواز نشر کرے گا۔ یوں محسوس ہو گا کہ جیسے حکومت یہ جنگ ہار رہی ہے۔ حالات سے تنگ آ کر نواز شریف اور ان کے مشیران مسئلے کے حل کے لیے کوئی اور راستہ اختیار کریں گے۔ جیسے اسلام آباد میں آئی جی پولیس کو ہٹایا گیا ہے ویسے کسی اور اہم عہدے میں تبدیلی لانے کا سوچے گی۔ اس پر فوج اور حکومت میں فاصلے بڑھ جائیں گے۔

کہا جائے گا ایک طرف نواز زرداری اور لال مسجد والے ہیں اور دوسری طرف تحریک انصاف اور عوامی تحریک جیسی قوتیں جو ’نئے پاکستان‘ کی نمایندہ ہیں۔ شہروں میں سیاسی کارکنان کا تصادم ہو گا۔ ایک دو بڑے واقعات اور ہوں گے اور پھر ۔۔۔۔۔ کھڑاک! وہ تمام ہیجانی اور ظاہراً بے معنی تقاریر اور بے ڈھبے ترانے جو ریڈ زون سے قوم کو ذہنی دبائو کا شکار کیے ہوئے ہیں جھٹ سے تبدیلی کی خبر میں بدل جائیں گے۔ ٹائیگر کنٹینر سے نمودار ہو گا۔ قائد ثانی بنے گا۔ تاجپوشی ( یا شادی ) کی تیاریاں ہوں گی َ تبدیلی آ جائے گی۔
مگر پھر یہ کبھی سوچیئے گا کہ اگر یہ سب ہی ویسے نہ ہوا جیسے خواہش یا پلان کیا جا رہا ہے تو کیا ہو گا؟ اگر ن لیگ تمام آئینی قوتوں کو ساتھ ملا کر خیبر سے کراچی تک ویسے ہی ضد میں آ گئی جیسے عمران خان نے اپنائی ہوئی ہے تو کیا ہو گا؟ پلان کرنے والوں کا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔ ستمبر کے پہلے ہفتے تک ان کا اسکرپٹ لاگو ہو چکا ہو گا۔ مگر میری اطلاعات اس سے تھوڑی سی مختلف ہیں۔

اس مرتبہ اگر طاقت سے اکھاڑ پچھاڑ کی گئی تو لڑائی طویل ہو گی۔ اس جنگل میں اور جانور بھی بستے ہیں ٹائیگر کے سوا۔ چیتے پر سواری کر کے شکار کرنیوالوں کو جاننا ہو گا کہ ماحول اتنا سازگار بھی نہیں ہے جتنا وہ سمجھ رہے ہیں۔ لاہور سے ریڈ ذون کا سفر بھی اسی امید پر کیا گیا تھا کہ سب کچھ ہاتھ میں ہے۔ اب ایک اور کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم نہ جانیں کب سیکھیں گے۔ شائد کبھی نہیں۔

طلعت حسین

طیب اردگان اتاترک کے بعد مقبول ترین رہنما.......

$
0
0


ترکی میں قوم نے بھاری اکثریت سے وزیراعظم طیب اردگان کو وزیراعظم ہاؤس سے ایوان صدر میں پہنچادیاہے۔
ان انتخابات میں گزشتہ بارہ برس سے حکمران جماعت کے سربراہ اور اب تک ملک کے وزیراعظم طیب اردگان کی بڑی اکثریت سے کامیابی نے ان کے ملکی اور بین الاقوامی مخالفین کو شدیدمایوسی کا شکارکیا ہے۔ ترک سیکولر حلقوں کو امید تھی کہ وہ کم ازکم اس بار صدارتی انتخابات میں طیب اردگان کو شکست سے دوچارکریں گے لیکن ان کی یہ کوشش بھی ناکام رہی۔

اگر 10اگست کو منعقدہ انتخابات میں کسی بھی امیدوار کو 50 فی صد ووٹ حاصل نہ ہوتے تو پھر دوسرے مرحلے کا انتخاب 24 اگست کو ہوناتھا لیکن قوم نے طیب اردگان کو 52فیصد ووٹ دے کرمعاملے کو پہلے مرحلے میں ہی نمٹادیاہے۔ ان کے حریف امیدواروں میں سے اکمل الدین احسان اوگلو کو 38.4 فیصد اور صلاح الدین دیمیرتاس کو 9.8 فیصد ووٹ ملے۔

اس بار ایوان صدر کی طرف دوڑ میں یہی تین امیدوار میدان میں تھے۔ ترکی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب عوام براہ راست صدارتی انتخاب کا حصہ تھے اور اس کے لیے ووٹ ڈالا۔ اس سے پہلے ترک پارلیمان ہی صدرمنتخب کرتی تھی۔ 71سالہ اکمل الدین کو حزب اختلاف کی دو جماعتوں ریپبلیکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) اور قومی موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) کی حمایت حاصل تھی۔ یادرہے کہ ری پبلیکن پیپلزپارٹی کے بانی کمال اتاترک تھے۔ اس جماعت کو طیب اردگان کی حکمرانی سے پہلے نسبتاً زیادہ مقبولیت حاصل تھی لیکن اردگان کے اقتدارمیں آنے کے بعد یہ جماعت ہرگزرتے دن کے ساتھ سکڑتی چلی گئی۔

اکمل الدین احسان اگلو نے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کے طور پر دس سال( 2004 ء سے 2014ء) تک خدمات سرانجام دیں۔ وہ صدر کے روایتی کردار کو برقرار رکھنے کا نعرہ لگارہے تھے کیونکہ ان کے مطابق سربراہ مملکت کو ملک کے روز مرہ کے امور میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ بہرحال قوم نے فیصلہ سنادیا کہ طیب اردگان جو بھی نظام دیں گے، وہ ملک وقوم کی بہتری ہی میں ہوگا۔ دوسرے حریف 41 سالہ صلاح الدین دمیرتاس بائیں بازو کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) کے رہنما ہیں اور کرد اقلیت کے مقبول رہنما ہیں۔ انھوں نے اپنی انتخابی مہم کا مرکز غریب، مزدور، نوجوان اور دبے کچلے افراد کو بنایا ہے۔

طیب اردگان کو ملک کے سوا پانچ کروڑ سے زیادہ اہل ووٹرز نے اپنا 12 واں صدر منتخب کیاہے۔ یادرہے کہ 60 سالہ اردگان 2003ء سے ترکی کے وزیر اعظم تھے۔ آئین کے مطابق اگلی ٹرم کے لئے وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔
انھوں نے قوم سے وعدہ کیاتھا کہ وہ اس انتخاب میں کامیاب رہے تو وہ آئین میں ترمیم کر کے صدر کے رسمی عہدے کو عملی طور پر بااختیار قوت کا محور بنائیں گے۔ قونیہ میں اپنی آخری انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اردگان نے ترکی کے جمہوری اور اقتصادی معیار کو بلند کرنے اور ترکی کو ’عالمی قوت‘ بنانے اور ’عالمی قیادت‘ فراہم کرنے کی بات کہی۔ یادرہے کہ عراق، شام اور یوکرین کی شورش کے درمیان ترکی مغربی دنیا کا ایک اہم اتحادی ہے اور ہمارے نمائندے کے مطابق جو بھی اس ملک کا سربراہ ہوگا اس کے پاس اس اہم جغرافیائی اور سیاسی خطے کی چابی ہوگی۔

دارالحکومت انقرہ میں اپنی جماعت کے مرکزی دفتر کے باہر جمع اپنے حامیوں کے سامنے فتح کا اعلان کرتے ہوئے اردگان نے کہا کہ وہ ملک میں سماجی مفاہمت کا ایک نیا دور شروع کرنا چاہتے ہیں۔ ’سماجی مفاہمت کا دور ہے، پرانے ترکی میں پرانی باتوں کو چھوڑیں، آج جو ہمیں پیار کرتے ہیں اور وہ جو جیت نہیں سکے، آج ترکی کی فتح ہوئی ہے۔‘
ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے سے وابستہ مارک لوئن کا کہنا ہے کہ اردگان فیصلہ کن شخصیت کے مالک ہیں۔ ترکی کی معیشت کا رخ بدل ڈالنے کیلئے ان کے حامی ان سے محبت کرتے ہیں جبکہ ان کے ناقدین ان کے سخت رویے اور اسلامی میلان کے لیے انھیں ناپسند کرتے ہیں۔

برطانوی دارالحکومت لندن میں قائم ایک تھنک ٹینک چیٹم ہاؤس سے منسلک ماہر Fadi Hakura کے مطابق یہ انتخابی نتیجہ غیر متوقع نہیں ہے کیونکہ الیکشن سے قبل ہی رائے عامہ کے جائزوں میں یہ بات سامنے آ گئی تھی کہ اردگان 54 تا 58 فیصد ووٹ حاصل کر کے یہ انتخابات جیت سکتے۔ انہوں نے کہا، ’’رجب طیب اردگان اس انتخابی نتیجے کو صدر کے عہدے کو زیادہ با اختیار بنانے کے اپنے منصوبوں کے حوالے سے فیصلہ کن مینڈیٹ کے طور پر دیکھیں گے۔‘‘

بارہ برسوں سے طیب اردگان کا کچھ بھی نہ بگاڑسکنے والی بڑی اپوزیشن جماعت ری پبلیکن پیپلزپارٹی کا کہناہے کہ اب اردگان باقاعدہ آمرمطلق بن جائیں گے۔ سب سے زیادہ خطرہ اس بات کاہے کہ چیک اینڈ بیلنس کاپورا نظام کمزور پڑجائے گا۔ وہ سارے ریاستی معاملات صدارتی محل سے چلائیں گے۔
دوسری جانب نیشنلسٹ ایکشن پارٹی کے رہنما دولت باچیلی نے اردگان پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے صدر کے عہدے تک پہنچنے کے لیے دھوکہ دہی اور چالاکی سے کام لیا۔ باچیلی کے بقول اردگان بطور صدر دیکھے جانے کے حوالے سے ’مشکوک اور متنازعہ‘ ہیں۔ نیشنلسٹ ایکشن پارٹی کی طرف سے ان انتخابات میں موجودہ وزیر اعظم کے مرکزی حریف امیدوار اکمل الدین احسان اوگلو کی حمایت کی گئی تھی۔

رجب طیب اردگان گزشتہ 10 سال سے ترکی کے وزیراعظم ہیں ان کے دور حکومت میں ترکی نے بہت تیزی سے معاشی ترقی کی ہے جبکہ انہوں نے 1923 میں قائم ہونے والے مصطفی کمال اتا ترک کے سیکولر ترکی میں اسلامی اقدار کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ اردگان کے صدر بننے سے انقرہ اتا ترک کے سیکولر خیالات سے مزید دور ہو جائے گا، ترکی اس وقت نیٹو کا رکن ہونے کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کا ممبر بننے کا بھی امیدوار ہے۔

واضح رہے کہ رجب طیب اردگان کی حکمران جماعت کی جانب سے پہلے ہی کہا جا چکا ہے کہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں ملک میں صدارتی نظام کے قیام کے آئینی اصلاحات کی جائیں گی جس سے تمام انتظامی اختیارات صدر کو مل جائیں گے۔ ترکی کا موجودہ آئین 1980 کے فوجی دور میں بنایا گیا تھا جس کی رو سے صدر کے پاس کابینہ کی صدارت، وزیراعظم و دیگر وزراء ، آئین سازی کے اداروں کے ارکان اور اعلیٰ عدلیہ میں ججز کے تقرر کا اختیار نہیں ہے۔ یاد رہے کہ رجب طیب اردوان کی جماعت اے کے پی نے مارچ میں بلدیاتی انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کی تھی۔
1954ء میں استنبول کے نواحی علاقے ’قاسم پاشا‘ میں پیدا ہونے والے طیب اردگان1976ء میں ترکی کی اسلامی تحریک نیشنل سالویشن پارٹی کے نوجوانوں کے ونگ کے مقامی صدرمنتخب ہوئے۔1994ء میں استنبول کے مئیرمنتخب ہوئے اور1998ء تک اسی ذمہ داری پر رہے۔

اسی سال طیب اردگان کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی گئی۔ فوج کی حمایت یافتہ سیکولر عدالت نے دس ماہ قید کے لئے جیل بھیج دیا۔ ان کا ’’جرم‘‘ ایک نظم پڑھناتھا۔1999ء میں وہ ایک دوسرے مقدمے میں چارماہ کے لئے قید ہوئے۔2001ء میں طیب اردگان نے ’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی‘ قائم کی۔ یہ روایتی اسلامی جماعتوں کی نسبت ماڈریٹ تھی۔
یوں اس جماعت نے لبرل اور سنٹررائٹ کے مایوس ووٹرز کو اپنی طرف کھینچا۔2002ء میں اس نوزائیدہ پارٹی نے 35فیصد ووٹ حاصل کرکے حکومت قائم کرلی۔2003ء میں طیب اردگان پر دس سالہ پابندی ختم ہوئی، یوں انھوں نے ضمنی الیکشن لڑ کر وزارت عظمیٰ سنبھال لی۔ پارٹی نے اس وقت تک عبداللہ گل کو وزیراعظم بنا رکھا تھا۔ 2011ء میں پارٹی نے عام انتخابات میں مسلسل تیسری بار کامیابی حاصل کی۔ اس بار اسے 50فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ مارچ 2014ء میں ملک میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے تو جسٹس پارٹی نے بھاری کامیابی حاصل کی۔ 12سال تک وزیراعظم رہنے کے بعد جولائی2014ء میں طیب اردگان نے اعلان کیاکہ وہ صدارتی انتخاب میں حصہ لیں گے۔

تجزیہ نگاروں کا کہناہے کہ طیب اردگان جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک کے بعد ملک کے سب سے مضبوط سیاستدان بن چکے ہیں۔ ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ وہ اب ایک آمر بنتے جارہے ہیں اور ملک کو تقسیم کردیں گے۔ اردگان کے مخالفین مختلف اندازمیں اردگان کی فتح کو دھندلانے کی کوشش کر رہے ہیں مثلاً گولن تحریک کے ایک حامی اخبار ’ٹوڈے زمان‘ کا کہنا ہے کہ ایک ایسے فرد کیلئے جو ترک میڈیا کے 60فیصد حصہ پر کنٹرول رکھتاہو اور حکومت میں ہونے کا فائدہ اٹھارہاہو، اس کے لئے 51.7فیصد ووٹ حاصل کرنا غیرمعمولی کامیابی نہیں ہے‘‘۔ یہ اور اس طرح کی دوسری باتیں کہنا اور لکھنا اب سعی لاحاصل ہے۔ حکمران جسٹس پارٹی کے گزشتہ بارہ برس کے سفرکا جائزہ لیاجائے تو وہ پارلیمانی ، بلدیاتی اور صدارتی انتخاب میں پہلے کی نسبت زیادہ شرح سے لوگوں کا اعتماد حاصل کررہی ہے۔

بارہ سال تک بطوروزیراعظم اقتدارمیں رہنے کے بعد صدر اردگان وہ ایک نیا ترکی قائم کرنے کی طرف جارہے ہیں جس میں ایک دوسرے سے نفرت کی بجائے مصالحت ہوگی۔ یہ کمال اتاترک کے دور سے بالکل مختلف ترکی ہوگا۔ طیب اردگان نے بطور وزیراعظم اپنے مصالحتی ایجنڈے پر عمل کا ایک ثبوت قوم کو دے دیاہے کہ انھوں نے کردوں کو قومی دھارے میں شامل کرلیا ہے۔ حالیہ صدارتی انتخاب میں تیسرا امیدوار کرد ہی تو ہے۔

اگرچہ نومنتخب صدر اردگان نے کامیابی کے بعد اپنی تقریر میں مصالحت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی بات کی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اپنے مخالفین کو باور کرادیاکہ وہ ان کی مخالفت اور سازشوں سے پوری طرح باخبر ہیں۔ انھوں نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیا ترکی، عظیم ترکی، قیادت کرنے والا ترکی آج کامیاب ہوچکاہے۔ ہم ایک دور کے دروازے بند کررہے ہیں۔ اور اب ہم اپنا پہلا قدم اگلے دور میں رکھ رہے ہیں۔ ہم ہراس فرد کا سرنیچا کردیں گے جو ہماری قومی سلامتی کے لئے خطرہ بنے گا۔

گزشتہ پارلیمانی انتخابات سے پیشتربعض تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ طیب اردگان معروف ترک سکالرفتح اللہ گلن کی حمایت سے محروم ہوچکے ہیں۔ دونوں کے درمیان شدید اختلافات کا نقصان اردگان کو انتخابات میں شکست یا اکثریت کم ہونے کی صورت میں ہوسکتاہے لیکن ان تجزیہ نگاروں کے اندازے مکمل طورپر غلط ثابت ہوئے۔ اس قدر غلط ثابت ہوئے کہ اس بار صدارتی انتخابات سے ’گولن فیکٹر‘ کا ذکر ہی گول ہو گیا۔

طیب اردگان کو ملک کے راسخ العقیدہ مسلمان طبقہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اپنی وزارت عظمی کے ادورارمیں طیب اردگان نے سرکاری تعلیمی اداروں اور دفاتر میں لڑکیوں اور خواتین کیلئے سکارف اوڑھنے کی اجازت دیدی۔ حالانکہ سیکولرز نے اپنے ادوار حکومت میں اس معاملے میں سخت رویہ اختیارکیا۔
طیب اردگان کے ایوان صدر جانے کے بعد تجزیہ نگار اس سوال پر غورکررہے ہیںکہ اب وزیراعظم کون ہوگا؟ اردگان 28اگست تک وزیراعظم کے طورپر ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں گے۔ اس کے بعد معاملات قائمقام وزیراعظم سنبھالے گا۔ اصل وزیراعظم کون ہوگا، اس کا فیصلہ جسٹس پارٹی کی 50رکنی ایگزیکٹوکمیٹی ہی کو کرناہے جو فیصلہ سازی کا اعلیٰ ترین ادارہ ہے۔

طیب اردگان کی مسلسل نویں کامیابی کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ وہ وہی کچھ کررہے ہیں، جس کی لوگوں کو ضرورت ہے۔ 26سالہ عائشہ نورسالک اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتی ہیں: ’’ آج تک اردگان میری توقعات پر پورے اترے ہیں۔ ان کا وژن، ان کی فکر میرے وژن اور فکر سے قریب تر ہے۔ انھوں نے اس ملک وقوم کو جو کچھ دیا، میں اس پر بہت خوش ہوں۔‘‘ عائشہ نور فیشن ڈیزائنر ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں: ’’میں اردگان کو اس وقت تک ووٹ دیتی رہوں گی، جب تک ان کی پارٹی میری توقعات پر پورا اترتی رہے گی۔ 

عبید اللہ عابد

سیاسی بحران کے حل کی جانب پیش رفت.......

$
0
0


اسلام آباد میں دھرنے مسلسل جاری ہیں۔ اگر دھرنے مزید کچھ عرصے یونہی جاری رہتے ہیں اور ان کا کوئی حل نہیں نکلتا تو اس سے حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ دھرنے دینے والی جماعتوں کے ساتھ حکومت کے مذاکرات جاری ہیں اور ان کے کئی دور ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز تحریک انصاف اور سرکاری وفد کے درمیان خوشگوار ماحول میں مذاکرات ہوئے ہیں مگر ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

ان مذاکرات کا شروع ہونا ہی بڑی کامیابی ہے کیونکہ اب بحران کے حل کے لیے فریقین ایک دوسرے کی بات سن رہے ہیں ۔ چند روز قبل یہ افواہیں گردش کرتی رہیں کہ حکومت نے دھرنے کے شرکا کو طاقت کے بل بوتے پر منتشر کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن حکومت نے ایسے کسی بھی عمل کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ دھرنوں کے خلاف طاقت کے استعمال کا سوچ بھی نہیں سکتی، وہ مسئلے کا پرامن حل چاہتی ہے تاکہ ملک کو بحران سے نکالا جا سکے۔

اب سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری میدان میں آ گئے ہیں اور انھوں نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسئلے کا سیاسی حل نکالنے کا مشورہ دیا ہے۔ آصف زرداری کے سامنے آنے کے بعد اس بحران کے حل کی امید پیدا ہوئی ہے۔ ہفتے کو جاتی امرا رائیونڈ میں آصف زرداری نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کی، اس موقع پر یہ اتفاق کیا گیا کہ جمہوریت کو کسی صورت ڈی ریل نہیں ہونے دیا جائے گا‘ مسائل آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے سیاسی طریقے سے ہی حل کیے جائیں گے‘ جمہوریت آئین اور پارلیمنٹ بالادست ہیں‘ ان کا بھرپور دفاع کیا جائے گا۔

آصف زرداری نے کہا ہم کسی فریق نہیں جمہوریت کے ساتھ ہیں پارلیمنٹ کو مدت پوری کرنی چاہیے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو صورت حال واضح ہو جاتی ہے کہ حکومت اور پارلیمنٹ میں موجود سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی جمہوری نظام کو بچانے کے لیے متفق ہو گئی ہیں اور کسی بھی ایسے عمل کی مخالفت کر رہی ہیں جس سے اس نظام کو خطرات لاحق ہو جائیں۔ چند روز قبل بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے حق میں متفقہ قرار دادیں منظور کی گئی تھیں۔
اس طرح دیکھا جائے تو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود تمام اپوزیشن جماعتیں سوائے چند ایک کے‘ حکومت کا ساتھ دے رہی ہیں۔ آصف علی زرداری نے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے بعد جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر منصورہ میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت اور مرکزی رہنما چوہدری پرویز الٰہی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں کا مقصد اسلام آباد میں جاری سیاسی کشیدگی کا کوئی مناسب حل تلاش کرنا ہے۔

ان ملاقاتوں میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ آئین اور قانون برتر ہیں ان پر عمل ہونا چاہیے افراد آتے جاتے رہتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بار بار اس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ حکومت اور دھرنا دینے والی جماعتوں کو مسئلے کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی تلاش کرنا چاہیے۔ آصف علی زرداری نے بھی سراج الحق کی جانب سے فریقین کے درمیان تصفیہ کروانے اور انھیں مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ انھیں ان کوششوں کو جاری رکھنا چاہیے۔

پیپلز پارٹی‘ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے رہنما اس امر کا بارہا اعادہ کر چکے ہیں کہ فریقین معاملات کو طول دینے کے بجائے مذاکرات کے ذریعے اس کا حل تلاش کریں۔ دھرنا دینے والی پارٹیوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے رویے میں لچک پیدا کریں اور کوئی ایسا سخت مطالبہ نہ کریں جس سے مذاکرات کا عمل آگے بڑھنے میں رکاوٹ پیدا ہو۔ جب کسی مسئلے پر مذاکرات کا عمل شروع ہوتا ہے اس دوران بہت سی تلخیاں اور اتار چڑھاؤ بھی سامنے آتے ہیں جس سے یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ مذاکرات کا عمل آگے بڑھنے کے بجائے یہیں پر ختم ہو جائے گا لیکن اگر صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان تلخیوں کو دور نہ کیا جا سکے۔

جمہوریت میں مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔ فریقین دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اگر ایک مرتبہ بات چیت ناکام ہو جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوبارہ بات چیت نہیں کرنی‘ ڈائیلاگ‘ ڈائیلاگ اور ڈائیلاگ ہی مسئلے کا واحد حل ہے۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ اس مسئلے کا حل بات چیت سے ہی نکل آئے گا اور سیاستدان سیاسی طریقے سے اس کا حل نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے‘ عمران خان اور طاہر القادری کے جو بھی مطالبات ہیں انھیں بات چیت سے حل کیا جا سکتا ہے۔

انھوں نے جمہوری حکومت کو اسٹریٹ پاور کے ذریعے ختم کرنے کے عمل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ سڑکوں پر حکومتوں کے خلاف فیصلے کرنے سے جمہوریت کمزور ہو گی‘ حکومتوں سے غلطیاں ہوئی ہوں گی لیکن آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے بہترین حکومتیں لائی جا سکتی ہیں۔ آصف علی زرداری کے مثبت اور مصالحانہ رویے کے باعث حکومت کو نیا حوصلہ ملا ہے اور جمہوری حکومت ڈی ریل ہونے کے جو خدشات سامنے آ رہے تھے وہ بھی ٹلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔دھرنوں کا عمل جتنا طول پکڑتا چلا جائے گا وہ حکومت اور ملک کے لیے اتنا ہی نقصان دہ ثابت ہو گا۔ اس لیے تمام فریقین کو چاہیے کہ وہ صبر و تحمل اور دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے جلد از جلد مسئلے کا حل نکالیں۔

 

خاکسار تحریک کے بانی.......علامہ عنایت اللہ مشرقی

$
0
0

خاکسار تحریک کے بانی، ادیب، عالم دین اور ممتاز ریاضی دان علامہ عنایت اللہ مشرقی 25 اگست 1883ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی انگلستان سے ریاضی اور طبعیات کے شعبوں میں اعلیٰ امتیازات حاصل کئے تھے۔ 1926ء میں مصرمیں موتمر اسلامی کی کانفرنس ہوئی، اس میںصاحب تذکرہ علامہ عنایت اللہ مشرقی کو بھی مدعو کیا گیا۔ اس عظیم کانفرنس میں دنیا بھر کے ہوشمند اور صاحب علم مسلمان رہنمائوں نے شمولیت کی ،وہاں پر آپ کو بھی خطاب کی دعوت دی گئی۔ آپ نے اس کانفرنس میں عربی زبان میں خطاب کیا جو ’’ خطاب ِمصر‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔اس خطاب میں آپ نے مسلمان راہنمائوں کو ایک قابل ِعمل پروگرام دیا۔

 اس کانفرنس کی صدارت کا اعزازبھی آپ کو حاصل ہوا۔ جامعہ الازہرکے علمانے آپ کو علامہ کے خطاب سے نوازا۔ آپ اس وقت علامہ عنایت اللہ مشرقی کے لقب سے ملقب ہوئے جبکہ آپ کی عمر صرف 38برس تھی۔ 1931ء میں علامہ مشرقی نے خاکسار تحریک کے نام سے ایک جماعت قائم کی، جس کا منشور نظم، ضبط، خدمت خلق اور اطاعت امیر تھا۔ خاکسار تحریک کے قیام کے وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی کوئی بھی مؤثر جماعت نہیں تھی اور جو تھیں وہ مسلمانوں کو متحد کرنے کی بجائے تقسیم کر کے دشمن کے عزائم پورے کرنے میں نادانستہ طور پرمعاون بن رہی تھیں۔

 خاکسار تحریک کا قیام غلام ہندوستان میں انگریزوں جیسی خون آشام حکومت کے دہشت ناک تسلط کے ہوتے ہوئے فی الحقیقت ایک کرشمہ سے کم نہ تھا ۔ خاکسار تحریک کے قیام کے بعد علامہ مشرقی کی آوازپرآزادی کی تڑپ رکھنے والے مسلمان نوجوان جوق در جوق خاکسار تحریک میں شامل ہو کر اصلاح نفس، اطاعت امیر، خدمت خلق اور سپاہیانہ زندگی کے حامل بنتے گئے اوردیکھتے ہی دیکھتے پشاور سے راس کماری تک مسلمان نوجوانوں کی قطاریں رواں دواں ہو گئیں اور ہندوستان کی فضاچپ راست کی آوازوں سے گونجنے لگی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے83برس بعد علامہ مشرقی کے تربیت یافتہ خاکسار انگریز حکومت کے مدِ مقابل تھے اور لاہور میں مسلح پولیس سے دست بدست جنگ میں3انگریزوں کو ہلاک کر کے انہوں نے جتا دیا تھا کہ اب ہندوستان پر انگریز کے لئے قبضہ برقرا ررکھناممکن نہیں رہا۔ انگریز اپنی چالوں اور اپنے سدھائے ہوئے ہندو اور مسلمان لیڈروں کے طرز عمل سے مطمئن تھا کہ ہندوستان میں انگریزی راج کے لئے اب کوئی خطرہ باقی نہیںرہا، اب چین ہی چین ہے، لیکن 19مارچ 1940ء کے دن لاہور میں خاکساروں سے ٹکرائو کا معرکہ اس قدر دھماکہ خیز تھا کہ اس نے انگریزی حکومت کے مضبوط ترین قلعہ میں زلزلہ برپا کر دیا۔

 اس معرکہ میں جو چندانگریز افسروں کی ہلاکت سے وائسریگل لاج دہلی سے لیکر ویسٹ منسٹر ایبے اور10ڈائوننگ سٹریٹ سے بکنگھم پیلس لندن تک سبھی کے مکینوںمیں کہرام مچ گیا۔ تاج برطانیہ کی کرۂ ارض پر پھیلی ہوئی بیسیوں نوآبادیوں میں کہیں بھی کوئی انقلابی تحریک نہیں تھی، جو انگریزوں کے لئے خطرہ بنتی۔ یہ صرف ہندوستان تھا، برطانیہ کے تاج کا سب سے بڑا اور گراں قدر ہیرا، جسے مسلمانوں سے چھیننے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے260سال لگے اور ان لڑائیوں میں بے شمار انگریز ہلاک ہوئے، اس متحدہ ہندوستان میں ایک شخص عنایت اللہ مشرقی نے ایک منظم تحریک پیدا کر کے اس سب سے بڑے ہیرے کو انگریزوں سے واپس چھیننے کے لئے جانباز مجاہد تیار کئے ،جو آخر کار معرکہ لاہور کے دوران دنیا کی سب سے بڑی حکومت کے اقتدار کے لئے خطرہ بن گئے۔ 1950

ء میں علامہ صاحب نے ’’انسانی مسئلہ‘‘ نامی مقالہ لکھ کر دنیا کے ہوشمند انسانوں کو چونکا دیا۔ اس مقالہ میں صاحب علم یعنی سائنس دانوں کو حکومت کرنے کا حق حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی۔ کمیونزم اورمغربی جمہوریت کے قربِ عظیم کا پردہ چاک کیا گیا۔ طبقاتی انتخاب میں غریب کی حکومت قائم کرنے کا قابل عمل تصور دیا گیا۔ الغرض اس مقالہ سے دنیا بھر کی حکومتوں میں شدید اضطراب پیدا ہو گیا اوربیرونی دبائو پر حکومت نے علامہ صاحب کو گرفتار کر کے بغیر مقدمہ چلائے جیل میں ڈال دیا ۔ دنیا کے بہت سے رہنما ،جنہوں نے اپنی اپنی قوموں کو غلامی اورا خلاقی پستی کے جہنم سے نکالنے کی مقدور بھر کوشش کی مشکلات اور مصائب کے دوران مایوسی اور قنوطیت کا شکار ہوئے ۔ ان کی سوچ اور فکر میں ضعف پیدا ہوا،لیکن حیرت انگیز امر ہے کہ علامہ مشرقی کی سوچ اور ارادوں میں کسی بھی لمحے کوئی کمزوری، ضعف اور لرزش پیدا نہیں ہو ئی۔آخر کار دین ِاسلام کے غلبے اور مسلمانوں کی آزادی کے لئے انتھک جدوجہد کرنے والا یہ عظیم انسان اپنی زندگی کے تمام طوفانوں سے گزر کر مطمئن نفس کے ساتھ27اگست1963ء کو لاہور میں وفات پاگیا اور اپنے گھر میںآسودۂ خاک ہے


Inayatullah Khan Mashriqi

مقبرہ مہابت خان.......TOMB OF MAHABAT KHAN

$
0
0
 

گلابی باغ سے شالا مار جاتے ہوئے تھوڑی دور دائیں ہاتھ ایک پٹرول پمپ کے نیچے گنجان آبادی کے درمیان مہابت خان کا مقبرہ ہے کسی زمانے میں یہ مقبرہ ایک وسیع و عریض باغ کے وسط میں واقع تھا جو کہ باغ مہابت خان کہلاتا تھا۔ مہابت خان کا اصلی نام زمانہ بیگ تھا وہ کابل کا باشندہ تھا اس نے نوعمری میں ہی شاہی ملازمت اختیار کرلی اور ترقی کرتے کرتے ہفت ہزاروی بن گیا۔ مہابت خان کا شمار عہد جہانگیر کے نامور جرنیلوں میں ہوتا ہے مہابت خان نے جہانگیر کے عہد حکومت میں سیاست میں بڑا اہم کردار ادا کیا اس نے نور جہاں اور اس کے بھائی آصف خان وزیراعظم کی چالوں سے تنگ آ کر جہانگیر کے خلاف بغاوت کر دی 1621ء میں جب جہانگیر نے کشمیر جاتے ہوئے دریائے جہلم عبور کیا تو مہابت خان نے جو موقع کی تاک میں تھا اپنے جان نثار سپاہیوں کی مدد سے جہانگیر کو حراست میں لے لیا۔

 نور جہاں اور آصف خاں ابھی فوج کے ساتھ دریا کے دوسرے پار ہی تھے کہ انہیں اس واقع کی اطلاع ملی۔ نور جہاں نے بڑی حکمت عملی سے کام لے کر خود کو گرفتاری کے لیے پیش کر دیا اور چند ہی روز میں ایسی چال چلی کہ مہابت خاں کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ جہانگیرو نور جہاں کو رہا کرکے خود دکن کی طرف بھاگ گیا اور وہاں شہزاد خرم سے مل گیا۔ اس واقعہ کے چند ماہ بعد ہی جہانگیر کا انتقال ہوگیا۔ آصف خاں کی تدبیر سے نور جہاں اور اس سیاسی مہرے شہزادہ شہریار کو شکست ہوئی اس طرح شاہ جہاں کی تخت نشینی کے لیے میدان صاف ہوگیا شاہ جہاں نے تخت نشینی کے بعد مہابت خاں کی عزت افزائی کی۔ مہابت خان نے اپنی زندگی میں ہی لاہور میں شالا مار باغ کے قریب ایک باغ لگایا اور اس میں اپنا مقبرہ تعمیر کروایا۔

 مہابت خان نے 1635ء میں وفات پائی اور اپنی وصیت کے مطابق اپنے تعمیر کردہ مقبرے میں دفن ہوا۔ باغ تباہ و برباد ہوگیا گزشتہ صدی کے نصف آخر میں ایک پارسی سوداگر نے نو سو روپے کے عوض اسے خرید لیا اور وہ مزار کی دیکھ بھال کرنے لگا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد باغ سے احاطے میں مکانات بننے لگے دیکھتے ہی دیکھتے یہ مزار آبادی میں گھر کر رہ گیا اس مزار و مقبرے کے چار محرابی دروازے ہیں ان پر محرابی چھت ہے مزار پر اب بھی پرانی مصوری کہیں کہیں سے نظر آ جاتی ہے۔

 (شیخ نوید اسلم کی کتاب ’’پاکستان کے آثارِ قدیمہ ‘‘ سے ماخوذ)

TOMB OF MAHABAT KHAN

How Can I Deal With My Anger?

$
0
0


 دنیا میں کسی فرد کے مزاج کو بدترین بنانے کے لیے وجوہات کی کمی نہیں، تعلقات میں دراڑ، مالی پریشانیاں اور طبی مسائل وغیرہ آپ کی ذہنی حالت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
اس طرح کے عناصر پر آپ کا کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے کچھ چھوٹی چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو آپ کی زندگی بدل کر آپ کو مستقل غصے کا شکار بنادیتی ہیں، تو اگر آپ کا موڈ بھی ہمیشہ خراب ہی رہتا ہے تو دیکھے کیا یہ وجوہات تو آپ کی اس حالت کا ذمہ دار نہیں؟

آپ مناسب مقدار میں سبزیاں اور پھل استعمال نہیں کررہے
ٹھیک ہے کہ سبزیاں اور پھل اچھی صحت کے لیے بہترین سمجھے جاتے ہیں مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس خوراک کے آپ کی ذہنی حالت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ 
واروک یونیورسٹی کی برطانیہ میں ہونے والی تحقیق کے مطابق جو ولگ روزانہ 80 گرام پھل یا سبزیاں استعمال کرتے ہیں وہ ذہنی طور پر زیادہ خوش باش اور صحت مند ہوتے ہیں، یعنی خوش رہنے کے ساتھ ساتھ وہ مایوسی اور ذہنی امراض سے محفوظ رہتے ہیں۔

آج آپ سورج کی روشنی دیکھنے سے محروم رہے
کیا آپ کا پورا دن گھر یا دفتر کی چاردیواری میں گزر جاتا ہے؟ اگر ہاں تو اس کا نتیجہ بدمزاجی کی شکل میں ہی نکلے گا۔ 
متحدہ عرب امارات کی زید یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق سورج کی روشنی سے دور رہنے والے افراد میں وٹامن ڈی کی کمی اور ڈپریشن وغیرہ کا امکان زیادہ ہوتا ہے، جس کا نتیجہ ہر وقت غصے، خراب مزاج اور مایوسی کی صورت میں نکلتا ہے، جس سے بچنے کا آسان کچھ دیر کے لیے دن میں باہر چہل قدمی ہے۔

آپ پیاس محسوس کررہے ہیں
اگر آپ کام یا آرام کرنے کے دوران پیاس محسوس کررہے ہیں اور پانی پینے سے گریز کررہے ہیں تو آپ تھکاوٹ، توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت اور بدمزاجی کا شکار ہوجائیں گے، یہ دعویٰ جرنل آف نیوٹریشن کی ایک تحقیق میں سامنے آیا تھا۔

بہت زیادہ کام کرنا
بہت زیادہ کام کرنے کی عادت نہ صرف جسمانی حالت ابتر کرتی ہے بلکہ اس کے منفی اثرات ذہنی صحت پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔
کنساس اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق جو لوگ ہفتے میں پچاس گھنٹے سے زیادہ کام کرتے ہیں ان کی جسمانی صحت خراب ہونے کے ساتھ ساتھ ذہنی حالت بھی متاثر ہوتی ہے، ایسے لوگ جلد غصے میں بھی آجاتے ہیں جو درحقیقت ان کے اندر موجود ڈپریشن کو باہر نکالنے کا ایک ذریعہ بنتا ہے۔

آپ فیس بک پر بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں
آج کل کے نوجوان تو فیس بک کے دیوانے ہیں مگر آپ سماجی رابطے کی اس ویب سائٹ پر جتنا زیادہ وقت گزاریں گے اتنا ہی آپ کا مزاج خراب ہوگا۔
ایسا دعویٰ آسٹریا کی انزبرک یونیورسٹی کی گزشتہ دنوں آنے والی ایک تحقیق میں سامنے آیا تھا۔ تحقیق کے بقول اس کی وجہ یہ ہے کہ فیس بک پر بہت زیادہ دیر رہنے سے وقت کے ضیاع کا احساس ہوتا ہے اور جب کسی کو لگتا ہے کہ وہ کوئی خاص کام کرنے کی بجائے اپنی زندگی ضائع کررہا ہے تو اس خیال کے بعد موڈ اچھا رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

کمر جھکائے رکھنا
بچپن میں تمام والدین ہی اپنے بچوں پر چلاتے نظر آتے ہیں کہ کمر سیدھی رکھ کر چلا یا بیٹھا کروں مگر اب سائنس نے بھی اسے ذہنی صحت کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
سان فرانسسکو اسٹیٹ یونیورسٹی کے محققین کے مطابق آپ کے بیٹھنے یا کھڑے ہونے کے انداز میں تبدیلی یا اسے سیدھا کرنے سے آپ کا مزاج خوشگوار ہوتا ہے اور آپ جسم میں ایک نئی توانائی محسوس کرتے ہیں۔

مسکراہٹ یا ہنسی سے دوری
ہنسنی یاداشت اور ذہنی تناﺅ کا سبب بننے والے ہارمون کورٹیسول کی شرح کو بہتر بناتا ہے۔
لوما لنڈا یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق چہرے پر ایک مسکراہٹ تمام تناﺅ کو دھو دے دیتی ہے، بلکہ جبری یا کسی کو دکھانے کے لیے مسکرانا بھی تناﺅ کو کم کرکے مثبت جذبات کو بڑھا دیتا ہے۔

نیند کی کمی
ٹھیک ہے کہ یہ کوئی راز نہیں کہ نیند سے بوجھل ذہن پرکشش شخصیات کو بھی احمق بنادیتا ہے، مگر یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوتا ہے مناسب نیند نہ لینا تناﺅ بڑھانے اور تنک مزاجی یا خراب مزاج کا سبب بن جاتا ہے۔
ہاورڈ میڈیکل اسکول کی تحقیق کے مطابق صرف ایک ہفتہ بھی بہت کم سونا اداسی، غصے اور ذہنی تھکاوٹ کو بڑھا دیتا ہے۔

قدرتی ماحول سے دوری
سرسبز مقامات پر گھومنا ذہنی کے لیے بہت اچھا ہوتا ہے۔
مشی گن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ شہروں میں جو لوگ سرسبز مقامات یا باغات میں جاتے ہیں وہ خوشگوار مزاج اور بہتر ذہنی صحت تے ہیں، اور ان مقامات سے دوری ڈپریشن، غصے اور ایسے ہی دیگر ذہنی مسائل کو بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔

How Can I Deal With My Anger?

غزہ جنگ میں اسرائیل ناکام، حماس فاتح......رابرٹ فسک

$
0
0




اگرچہ یہ کوئی زبردست کامیابی نہیں مگر پھر بھی غزہ میں فلسطینی جشن منا رہے ہیں، منگل کی رات جب غزہ کی فضاﺅں پر پر آتش بازی کا مظاہرہ ہورہا تھا تو عالمی میڈیا کے بیشتر صحافی اپنے سروں کو ہلا رہے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ 2100 سے زائد ہلاکتوں جن میں سترہ سو کے قریب عام شہری تھی، اور ایک لاکھ زخمیوں کے باوجود یہ اتنے خوش کیوں ہیں؟ کیا قتل عام روکنے پر؟ یا امن پر؟

نہیں، درحقیقت حماس برا، خوفناک ، دہشت گرد حماس جس سے "ہم" (مغرب، ٹونی بلیئر، اسرائیل، امریکہ اور تمام قابل احترام مرد و خواتین) سے بات نہیں کرتے، فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
اسرائیل کہتا تھا کہ اسے غیرمسلح ہونا ہوگا، مگر وہ غیر مسلح نہیں ہوئی، اسرائیل کا کہنا تھا کہ اسے جڑ سے مٹا دیں گے، مگر ان کا خاتمہ نظر نہیں آرہا۔
اسرائیل دعویٰ کرتا تھا کہ تمام سرنگوں کو تباہ کردیا جائے گا مگر ایسا بھی نہیں ہوا۔

تمام راکٹوں کو قبضے میں لینا ہوگا مگر ایسا بھی نہیں ہوسکا، تو 65 اسرائیلی فوجی مارے گئے مگر کس لیے؟ پس منظر میں خاموشی سے حماس (اور اسلامک جہاد) کی سیاسی قیادت جو اسرائیل، امریکہ اور مصر کو پسند نہیں، نے قاہرہ میں "امن"مذاکرات میں حصة لیا۔

اسرائیل میں کوئی جشن نہیں مانایا جارہا ہے، بنیامین نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت جو ایک بار پھر فتح کے دعوے کرتے ہوئے جنگ کے میدان میں کودی اور اس کا اختتام دوبارہ جنگ بندی کے ساتھ کیا، جیسا 2009 اور 2012 کی غزہ جنگوں کے دوران کیا۔

کہا جاسکتا ہے کہ میدان میں اسرائیلی فاتح رہے، کیونکہ تمام جانوں کا ضیاع، عمارتوں اور انفراسٹرکچر کی تباہی اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ فلسطینی جنگ کے میدان میں "غالب"رہے، مگرحکمت عملی کے میدان میں فلسطینی میدان مارنے میں کامیاب رہے۔

وہ ابھی بھی غزہ میں ہیں، حماس تاحال غزہ میں ہے اور فلسطینی اتھارٹی اور حماس کی اتحادی حکومت بھی حقیقت نظر آتی ہے۔
متعدد بار یہ کہا گیا کہ اسرائیلی ریاست کے بانیوں کو ایک مسئلے کا سامنا ہے، ایک سرزمین جسے فلسطین کہا جاتا ہے، وہ اس مسئلے کے سااتھ سرد مزاجی، سختی اور موثر طریقے سے نمٹتے رہے ہیں، مگر اب اب نا کا مسئلہ فلسطینی بن چک ہیں، ان کی سرزمین تو اسرائیل کے قبضے میں جاچکی ہے، جبکہ باقی ماندہ علاقوں کو اسرائیلی کالونیاں ہڑپ کرنے والی ہیں، مگر فلسطینی اتنی آسانی سے ہار ماننے کے لیے تیار نہیں، اور انہیں بڑی تعداد میں قتل کرنا خاص طور پر عالمی ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے زیادہ بدنامی اور "یہودی مخالف"جذبات کا سبب بن رہا ہے۔
اسرائیلی ترجمان تو اپنے اقدامات کا موزانہ خونریز دوسری جنگ عظیم میں برطانوی فضائی حملوں سے کررہے ہیں، ان پروپگینڈہ حملوں کو 21 ویں صدی میں ہضم کرنا بہت مشکل ہے، مگر دنیا دیگر معاملات پر بھی اپنی ناخوشی کا اظہار کررہی ہے۔

مثال کے طور پر حماس کے ترجمان اسرائیل اور صہیونیت پرستی کی تباہی کے دعویٰ کرتے ہیں ان کی مبالغہ آرائی بھی اسرائیلی بہانوں کی طرح سمجھ سے بالاتر ہیں، ان کے بقول"درحقیقت دنیا نے جو عظیم ترین کامیابی دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ حماس نے اسرائیل کے خلاف کسی عرب فوج سے زیادہ حاصل کیا ہے  ۔

درحقیقت حزب اللہ اٹھارہ سال کی گوریلا جنگ کے بعد پوری اسرائیلی فوج کو لبنان سے باہر نکالنے میں کامیاب رہی، جس میں دونوں اطراف کی اتنی ہلاکتیں ہوئیں جس کا حماس تصور بھی نہیں کرسکتی۔

ہم بہت جلدی حماس کے قاتل اسکواڈ کو بھول گئے، جس نے غزہ میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران کم از کم اکیس "جاسوسوں"کو موت کی سزا سنائی۔
میں نے نوٹس کیا ہے کہ انہوں نے فلسطینی ہلاکتوں کی تفصیلی فہرست جاری نہیں کی ہے اور میں حیران ہوں کہ ایسا کیوں نہیں ہوا، کیا وہ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلیوں سے بھی زیادہ غیرانسانی سلوک کرتے ہیں؟ ہاں یقیناً ایسا ہوتا ہے، اس ہفتے جب آئی ایس آئی ایس اپنی موت کی سزاﺅں سے دنیا کا منہ چڑھا رہی ہے، حماس نے دکھایا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں۔

حماس کے تین اہم فوجی لیڈرز اسرائیل کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد ہم اور کیا توقع کرسکتے تھے؟ مگر دلچسپ چیز یہ ہے کہ کسی عدالتی سماعت اور انسانی حقوق کا خیال رکھے بغیر اس "انصاف"پر ایک بھی فلسطینی احتجاج نظر نہیں آیا۔
ایسا ہی کوئی احتجاج 2008-09 میں سترہ "جاسوسوں"کی سزا پر بھی نہیں ہوا جنھیں آج ہم بھول چکے ہیں، جبکہ 2012 میں چھ "جاسوس"کے ساتھ ایسا ہوا۔
اور جب "فوجی"ہلاکتوں کی بات ہوتی ہے تو پانچ سو کے قریب حماس کے کارکن مارے گئے ہیں، جبکہ 2008-09 میں یہ تعداد دو سو تھی، مگر اس جنگ میں صرف چھ اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے تھے، جبکہ موجودہ جنگ میں یہ دس گنا زیادہ اسرائیلی مارے گئے ہیں، باالفاظ دیگر حماس اور میرے خیال میں اسلامک جہاد نے سیکھا ہے کہ کس طرح لڑا جاتا ہے۔

حزب اللہ مشرق وسطیی کی سب سے موثر گوریلا فوج ہے اور وہ بھی اس کا 
  نوٹس لے رہی ہے، اور ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ غزہ سے برسائے جانے والے راکٹ اسرائیل بھر میں سینکڑوں میلوں تک پھیلے ہیں، "آئرن ڈوم"کے باوجود پہلے سدورت خطرے کی زد میں آیا، اور اب ہم نے دیکھا کہ بن گوریان ائرپورٹ سے پروازیں منسوخ کی گئیں۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں محمود عباس اس معاہدے پر مصریوں اور امریکیوں کے سامنے عاجزی سے شکرگزاری کا احساس کررہے ہیں، مگر نئی "مشترکہ"فلسطینی حکومت میں حماس محمود عباس کو بتانے والی ہے کہ وہ کتنی"حمایت"حاصل کرسکتے تھے۔

مصر کے محصور اخوان المسلمون سے دوری اور حماس کو سائیڈلائن کرکے اسرائیلیوں اور امریکیوں کے لیے قاہرہ امن معاہدے کو حماس نے تنازعے کے دوران فوری طور پر مسترد کردیا تھا، جس نے مصر کے صدر فیلڈ مارشل السیسی کو تسلیم کرنے پر مجبور کردیا کہ حماس امن معاہدے کے لیے اہم عرب فریق ہیں۔

اور اس وقت حیرت انگیز امر یہ ہے کہ مصر لیبیا میں اسلام پسندوں پر بمباری کررہا ہے جبکہ امریکہ عراق کے بعد شام میں آئی ایس آئی ایس پر بمباری کی تیاراں کررہا ہے، مگر غزہ میں اسلام پسند جیتنے میں کامیاب رہے، مگر یقیناً یہ کامیابی ہمیشہ کے لیے نہیں۔


فوج اور سیاستدانوں کی ذمہ داریاں......

انقلاب سے پہلے انقلاب!!.....

$
0
0


ویسے تو انقلابات کی تاریخ بہت ہی قدیم ہے۔ ہم اسے زمانۂ جاہلیت سے شروع کرتے ہیں۔یہ زمانہ جاہلیت ہے۔ ظلم و ستم، ناانصافی اور قتل و غارت کا دور دورہ ہے۔ ہر طاقتور کمزور کو دبانا اپنا کا حق سمجھتا ہے۔ معاشرتی بُرائیاں اپنے عروج پر ہیں اور کون سی خرابیاں اور برائیاں ہیں جو ان میں نہیں پائی جاتیں … آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسا انقلاب بپا کیا کہ معاشرہ اور حالات یکسر تبدیل ہوگئے۔ ایک ایسی حکومت اور ریاست کی بنیاد رکھی جس میں سب کے لئے یکساں انصاف، مساوات، امن و امان، رزق میں فراخی اور وسعت ظرفی تھی۔ اس کے نتیجے میں دُشمن دوست بن گئے۔ لینے والے دینے والے بن گئے۔ اس انقلاب کے اثرات پوری دنیا پر پڑے۔ اس کے نتیجے میں اسلام کا آفاقی پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچا۔

یہ انیسویں صدی کا پہلا عشرہ ہے۔ اس میں روس کے لوگ ’’الیگزنڈر دوم‘‘ کی عیاشیوں کو اپنی غربت کا مذاق سمجھتے ہیں۔ حکمران کا بدمست طبقہ عوام کو دبانے کے لئے ہزاروں جتن کررہا ہے۔ سیکڑوں لوگ گرفتار کیے۔ سینٹ پیٹرز برگ کے قلعوںمیں تشدد اور پھانسیاں دی گئیں۔ ہر نیا آنے والے ’’زار‘‘ نے تاریخ کا پہیہ واپس موڑنا چاہا، مگر آخرکار عوام کا غصہ انقلاب کا بے خوف لاوا بن گیا۔ پھر راستے کی ہر عمارت اور رکاوٹ خس وخاشاک ہو گئی۔ حکمرانوں کے عشرت کدے، ماتم خانوں میں تبدیل ہوگئے، لیکن عوام کی خوشحالی کا دور شروع ہو گیا۔ انیسویں صدی میں ہی امریکہ کے شہر ’’شکاگو‘‘ میں مزدوروں کی المناک زندگیاں اپنے مالکان کے تعیش کو دیکھ کر کڑھتی تھیں۔ پھر وہ صبح طلوع ہوئی جب حکمرانوں کا عوام سے مقابلہ ہوا۔ آخر کار فتح عوام ہی کی ہوئی۔
انیسویں صدی کی آخری دہائی میں فرانس کے غریب عوام میں قوتِ برداشت جب ختم ہوئی۔
 
بے روزگاری سے تنگ آئے ایک 12 سالہ بچے نے دسمبر میں پارلیمنٹ میں بم پھینکا۔ ایک اور بھوک سے سڑکوں پرروٹی کے ٹکڑے چن کر کھانے والے بچے نے ایک ریستوران پر بم دے مارا۔ جب اسے پکڑکر عدالت میں لایا گیا تو جج نے پوچھا: ’’تم نے اس جگہ بم کیوں پھینکا؟‘‘ اس نے کہا: ’’اس لئے وہاں لوگ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور مجھے کئی کئی میل پیدل چل کر زمین سے پھینکے ہوئے روٹی کے ٹکڑے اٹھاکر پیٹ بھرنا پڑتا ہے۔ ‘‘ انیسویں صدی میں ہی اسپین کے شہر ’’بارسلونا‘‘ میں عوام آتش فشاں بن کر پھٹے تھے۔ اس کی وجہ بھی ناانصافی اور معاشی ناہمواریاں تھیں۔

یہ 1935ء ہے۔ چین میں ’’مائوزے تنگ‘‘ نے 90 ہزار لوگوں کے ساتھ ہزاروں کلو میٹر کے لانگ مارچ کی قیادت کی جبکہ ان کا مخالف ہر سمت سے حملہ آور تھا ۔ ایک سال کی مدت کے بعد منزل مقصود تک پہنچ سکے ۔ یہی دُکھی عوام تھے جو ہمت و استقلال اور بے مثال قربانی کی علامت بن گئے۔ ان کے گرد پوری قوم جمع ہوگئی اور مخالفین کو شکست دی۔ اکتوبر 1934ء میں شروع ہونے والا یہ مارچ ایک سال بعد اکتوبر 1935ء میں ختم ہوا۔ 368 دن جاری رہنے والے اس مارچ میں ابتدائی طور پر 80 ہزار لوگ شامل تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ شرکاء میں اضافہ ہوتا رہا۔ مارچ کرنے والوں کی تعداد 2 لاکھ سے زائد ہوگئی۔ لانگ مارچ کے شرکاء چین کے 11 بڑے صوبوں سے گزرے اور بھرپور عوامی حمایت پائی۔ مارچ کے اختتام تک کمیونسٹ پارٹی کو چین بھر میں پذیرائی مل گئی جس کا نتیجے1949ء میں اشتراکی انقلاب کی صورت میں نکلا۔ آج چین اقتصادی لحاظ سے انتہائی مضبوط ہے اور امریکہ تک کی مارکیٹوں پر چھایا ہوا ہے۔ امریکہ کے بعد سپرپاور کے لئے دنیا چین ہی کی طرف دیکھ رہی ہے۔

یہ 1979ء ہے۔ اس سال ایران میں بھی یہی کچھ ہوا۔ دنیا میں آنے والے انقلابوں میں خمینی کی قیادت میں ایرانی انقلاب اپنی مثال آپ ہے۔ ان کے اعلان سے پہلے فصل بالکل پک چکی تھی، عوام تیار تھے۔ خمینی پیرس سے وطن واپس آئے تو آنکھیں فرش راہ تھیں۔ اوپر سے نیچے کی سطح تک ذہنی تیاری مکمل تھی۔ جب اترے تو نہ صرف پولیس بلکہ فوج نے بھی خیر مقدم کیا اور سلامی دی۔ اس کے بعد ایران کی ترقی کا دور شروع ہوگیا۔ ایک قطرہ خون بہائے بغیر تبدیلی آ گئی۔
یہ 1990ء ہے۔ ’’نیلسن منڈیلا‘‘ نے افریقہ میں عظیم انقلاب بپا کیا۔ نیلسن منڈیلا کا نام نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کی ایسی علامت ہے جسے انسانی تاریخ فراموش نہیں کر سکے گی۔

 جنوبی افریقہ میں سیاہ فام اقلیت کی ظالم حکومت کے خلاف احتجاج اور سیاہ فام اکثریت کو اس کے جمہوری، سیاسی اور انسانی حقوق دلانے کے لئے نیلسن منڈیلا کی کوششیں گزشتہ صدی کی عظیم جدوجہد تھی۔ منڈیلا نے 27 سال مختلف جیلوں میں گزارے۔ اس کی ساری جوانی جیل کی کال کوٹھڑی میں گزر گئی۔ قید تنہائی اور جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد نیلسن منڈیلا نے سیاہ فام اکثریت کے حقوق کے لئے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں جنوبی افریقہ میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔

پہلی منتخب اسمبلی نے چار سال کے لئے نیلسن منڈیلا کو ملک کا صدر منتخب کر لیا۔ منڈیلا نے صدی کے عظیم رہنما کا ثبوت دیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ ایک ’’سچائی کمیشن‘‘ قائم کیا جائے۔ جن لوگوں نے آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والوں کے خلاف مظالم کیے تھے، وہ اگر اس کمیشن کے سامنے اعتراف کرلیں تو انہیں معاف کردیا جائے گا۔ یوں گورے اہلکاروں کے علاوہ ان کا ساتھ دینے والے کالے باشندوں نے بھی سچائی کمیشن کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا۔ منڈیلا نے عوام کو سمجھایا کہ اپنے جرائم کا اقرار کرنے والوں کو معاف کرنے سے ہی جمہوریت مستحکم ہوگی۔ نیلسن منڈیلا سفیدفام اقلیت جس نے ان پر اور سیاہ فاموں پر مظالم ڈھائے تھے انہیں معاف کر دیا بلکہ اس نے سفید فام ارکان کو اپنی حکومت میں وزار تیں بھی دیں۔ نیلسن منڈیلا کا برپا کیا ہوا انقلاب اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس میں خون خرابہ نہیں ہوا اور سیاہ فام اکثریت کو اس کے حقوق مل گئے۔ آج افریقہ کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہورہا ہے۔

یہ 2010ء ہے۔ کرغیزستان کے عوام نے مہنگائی، بدانتظامی، کرپشن، لوٹ مار، لوڈشیڈنگ، ظلم وستم سے تنگ آکر پارلیمنٹ پر دھاوا بول دیا۔ سرکاری ٹی وی پر حملہ کردیا۔ صدارتی محل کا چاروں طرف سے گھیرائو کرکے صدر قربان بیگ کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔ وزیراعظم مستعفی ہوگئے۔ نائب وزیر داخلہ سمیت ڈیڑھ سو کے قریب افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ سیکڑوں زخمی ہو گئے، لیکن انقلاب آ کر ہی رہا۔ عیاش حکمرانوں سے غریب قوم کو نجات مل گئی۔ آج کرغیزستان ترقی کی جانب گامزن ہے۔ یہ 2012ء ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک مصر، اردن، لیبیا وغیرہ میں ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے انقلاب آئے۔ ان کی وجوہات بھی معاشی ناہمواریاں، ظلم و ستم اور استحصالی نظام ہی تھا۔ اس طرح کی بیسیوں، سینکڑوں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔

ان سب انقلابات میں ایک بات طے ہے کہ ہر انقلاب سے پہلے ایک انقلاب ہوتا ہے۔ ایک مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ زمین ہموار اور رائے عامہ تبدیل کی جاتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ کچھ عرصے سے پاکستان میں بھی مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ ظلم و ناانصافی بڑھ گئی ہے۔ سرکاری اداروں میں کرپشن اور بدعنوانی اپنے عروج پر ہے۔ مجموعی طور پر ریاستی مشنری ناکام اور ادارے مفلوج ہوچکے ہیں۔ نظام کو دیمک نے چاٹ لیا ہے کہ عوام کے صبر کا پیمانہ کسی بھی وقت لبریز ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے حالات بھی اسی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن انقلاب کے لئے زمین ہموار اور حالات سازگار نہیں ہیں۔

انور غازی

انقلاب یا اناؤں کی جنگ؟.....

$
0
0


سوشل میڈیا پر اسلام آباد میں جاری جھڑپوں کے بارے میں تند و تیز بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت کے حامی اور مخالفین دونوں اپنی اپنی جماعت کی حمایت اور دوسروں کے خلاف پیغامات اور تصاویر نشر کر رہے ہیں۔
سینیئر صحافی طلعت حسین نے رات کو ٹویٹ کی: ’بلی اور چوہے کا کھیل یہاں نہیں رکے گا۔ فوج کو بلانا ضروری ہو جائے گا۔ 

واشنگٹن سے صحافی انور اقبال نے فیس بک پر لکھا: جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اب آگے کیا ہو گا؟ لیفٹ رائٹ لیفٹ رائٹ یا نواز شریف جمے رہیں گے؟ عمران اور قادری کا خاتمہ یا ناکام مارچ کے لیے نئی زندگی؟ 

زخمیوں کی خون آلود تصاویر، پولیس کی جانب سے فائر کیے گئے آنسو گیسوں کے شیل، اور دوسری تصاویر انٹرنیٹ پر گردش کر رہی ہیں۔ تاہم کچھ لوگوں نے نشان دہی کی ہے کہ ان میں سے کچھ تصاویر کہیں اور سے اٹھائی گئی ہیں۔
مسلم لیگ ن نے تحریکِ انصاف کی نشر کردہ ایک تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’ملک کا قانون توڑ کر انقلاب کی امید ۔۔۔ آئین کی توہین اور غلط تصویر پھیلا کر۔ 

دوسرے لوگوں نے بھی نشان دہی کی ہے کہ پی ٹی آئی نے زخمی لڑکے کی جو تصویر جاری کی ہے وہ دراصل مصر میں ہونے والے احتجاج کی ہے۔
صحافی عمر قریشی نے لکھا ہے: یہ انقلاب نہیں ہے، نہ ہی یہ آزادی ہے۔ یہ گلیوں میں ہونے والی جھڑپیں ہیں جن کے پیچھے کچھ بہت بڑی انائیں کارفرما ہیں۔‘

صحافی عمر قریشی کی ٹویٹ
  
   اقرا ایم خان نے ٹویٹ کیا:  پولیس زائد المیعاد آنسو گیس استعمال کر رہی ہے جو احمقانہ بات ہے۔ 
ان کے علاوہ بھی کئی لوگوں نے ان شیلوں کے استعمال پر سوال اٹھایا ہے۔

رانا جنید گوہر کی ٹویٹ:  یہ نوازی ازم ہے۔ 

خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک نے کہا: ’پولیس نواز شریف کی خاطر اپنے ہی لوگوں کو قتل کر رہی ہے۔ پاکستانی کی نام نہاد جمہوریت ناکام ہو گئی ہے۔ 

ملک سے باہر موجود پاکستانی بھی ان معاملات میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔
   پی ٹی آئی سعودی عرب‘ نامی ایک صارف نے شعر لکھا 
جمہوریت کے ہاتھوں جمہور مر رہے ہیں

زندہ ہیں صرف نعرے منشور مر رہے ہیں

میڈیا کے خلاف ہونے والے تشدد پر بھی احتجاج کیا جا رہا ہے، اور لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں پولیس اور مظاہرین دونوں کی جانب سے تختۂ مشق بنایا گیا۔
دوسری طرف میڈیا ہاؤسز کی جانب سے مبینہ جانب دارانہ رپورٹنگ پر بھی اظہارِ خیال کیا جا رہا ہے۔ مہر اویس اقبال نے ٹویٹ کیا: ’جیو کے مطابق دوسرے چینلوں کے رپورٹروں نے نہتے پولیس اہلکاروں پر کیمروں اور مائیکوں سے ہلہ بول دیا۔‘

کراچی سے معروف ادیب اور مدیر اجمل کمال نے فیس بک پر لکھا: ’قادری صاحب کے پیروکار تو پرا من لوگ ہیں اور یہ جو ان کے ہاتھ میں لاٹھیاں دکھائی دیتی ہیں یہ تو مسواکیں ہیں ۔۔۔۔ آپ خوامخواہ انھیں بدنام کر رہے ہیں۔

غزہ میں جنگ بندی......

$
0
0


اگست بروز پیرکو سات ہفتوں سے جاری حماس اور اسرائیل کی جنگ قاہرہ میں مصر کے توسط سے بند ہو گئی اور متحاربین توقع کر رہے ہیں کہ اِس بار جنگ بندی کی خلاف ورزی نہیں ہو گی کیونکہ اس معاہدے کی اب تک جو تفصیلات موصول ہوئی ہیں ان کے مطابق صہیونی ریاست غزہ کی ناکہ بندی میں اتنی نرمی پر بادل نخواستہ راضی ہو گئی ہے کہ وہ جنگ سے متاثرہ علاقے (غزہ) میں باہر سے لائے جانے والے امدادی سامان بالخصوص تعمیری سامان کی اجازت دے دے، کیونکہ اسرائیلی بمباری سے شہر اور قصبات کھنڈر بن گئے ہیں۔ علاوہ ازیں غزہ کے ماہی گیروں پر سمندری علاقوں میں مچھلیاں پکڑنے پر عائد اسرائیلی پابندی اٹھالی جائے گی، جبکہ غزہ پر آٹھ سال سے عائد مکمل ناکہ بندی اور قیدیوں کی رہائی جیسے امور پر متحاربین میں مذاکرات ہوں گے۔ آئندہ ہونے والے مذاکرات میں اسرائیل حماس سے ہتھیار ڈالنے پر اصرار کرے گا۔ آل انڈیا ریڈیو، اردو سروس بی بی سی۔
  
اگست 2014ء اس جنگ بندی پر غزہ کے لوگ بظاہر خوش ہیں کیونکہ اُن کا خیال ہے کہ یہ ان کی جیت اور صہیونی حملہ آوروں کی شکست ہے اور اس کا مظاہرہ وہ ہوائی گولیاں چلا کر کر رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کے حوصلے بلند ہیں کیونکہ اگر انہیں شکست ہوئی ہوتی تو قاہرہ میں جنگ بندی کے مذاکرات اتنا طول نہ پکڑتے اور اسرائیل ناکہ بندی میں کسی نرمی پر ہرگز آمادہ نہ ہوتا۔ یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ جب جب اسرائیل اور عرب ریاستوں میں جنگ ہوئی تو وہ بہت جلد ختم ہو گئی، خاص کر جون 1967ء کی جنگ جس میں مصر، اردن اور شام صہیونی حملے کا 6 دن بھی مقابلہ نہ کر سکے اور مغربی کنارہ اور جولان کی پہاڑیاں ان کے ہاتھ سے نکل گئیں جنہیں وہ آج تک واپس نہ لے سکے۔ صہیونی ریاست نے 1982ء میں لبنان پر حملہ کرکے پی ایل او (محمود عباس کی تنظیم جو مغربی کنارے پر حکومت کر رہی ہے) کو بیروت سے نکال باہر کیا 

جبکہ اس کے سربراہ یاسر عرفات اور تنظیم کی اعلیٰ قیادت امریکی بحریہ کے پہرے میں تیونس میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئی، لیکن اس کے برعکس حماس کی قیادت غزہ میں ڈٹی رہی اور اس کے کئی اہم کمانڈر شہید ہوئے لیکن ان کے جانشینوں نے صہیونی فوج کو پسپائی پر مجبور کر دیا اور اسرائیل کے 67 فوجی ہلاک، ایک ٹینک، ایک لڑاکا طیارہ اور بکتر بند گاڑی تباہ کر دی اور سرحد پر اسرائیل پر راکٹ باری کرکے اس کے ہوائی اڈوں پر بین الاقوامی پروازیں بند کرا دیں۔ اس سے صہیونی ریاست کی معیشت اور ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ غزہ میں صہیونی حملہ آوروں کی پسپائی پر امریکی صدر اوباما نے ان کی کمک کے لیے دو ہزار امریکی فوجی بھیجنے کے احکامات صادر کردیے، جبکہ دورانِ جنگ پینٹاگون نے اسرائیل کو بھاری فوجی سازو سامان پہنچایا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو اس حرکت پر امریکہ کی سرزنش کرنی چاہیے تھی لیکن وہ بیچارہ حماس کی راکٹ باری کا رونا روتا رہا۔

اُس نے حماس کو مورد الزام ٹھہرایا جبکہ اسرائیل اس پر حملہ آور ہوا تھا۔ لیکن جب اقوام متحدہ کی پناہ گاہ اور معذوروں کے مرکز پر اسرائیل کی گولہ باری پر دنیا کے شہروں میں صدائے احتجاج بلند ہونے لگی جو تھمنے کا نام نہیں لیتی تھی تو اسے بالآخر اسرائیل کے اس مجرمانہ حملے کی مذمت کرنا پڑی، جبکہ اقوام متحدہ کی 47 رکنی انسانی حقوق کونسل نے اسرائیل کے جنگی جرائم کی تفتیش کا حکم دے دیا۔ شرم کی بات ہے کہ امریکہ نے اس قرارداد کی مخالفت کی اور یورپی ریاستوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا، جبکہ ان ریاستوں کے عوام سڑکوں پر اسرائیل کی سفاکیت کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔

یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ ریاستیں اسرائیل کی حلیف ہیں تو چار رکنی ادارے میں تنازع فلسطین کو کس طرح حل کر سکیں گی؟ یاد رہے یہ ادارہ 1991ء میں میڈرڈ میں یاسر عرفات اور اسحق رابن میں مذاکرات کے دوران روس اور امریکہ کی مشترکہ تجویز کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا اور اس میں امریکہ، روس، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے اراکین شامل تھے، لیکن سوویت یونین کی تحلیل کے بعد روس اندرونی بحران میں اتنا الجھ گیا تھا کہ اُس نے مشرق وسطیٰ کے تنازعے سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی، جبکہ گورباچوف نے تو عرب اسرائیل تنازعے کو امریکہ کے حوالے کر دیا تھا۔

 جہاں تک یورپی یونین کا تعلق ہے تو وہ تو نیٹو کی رکنیت کی وجہ سے امریکہ کی حلیف ہے، جبکہ اقوام متحدہ کی رکنیت محض زیب داستان کے لیے رکھی گئی ہے، کیونکہ اس پر امریکہ چھایا ہوا ہے۔ البتہ عوامی جمہوریہ چین سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی Quartet میں مؤثر کردار ادا کر سکتا تھا لیکن امریکہ سے منافع بخش تجارت کے لالچ میں وہ خود کو تنازع فلسطین سے علیحدہ رکھنا چاہتا ہے اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو شمالی اور جنوبی بحر الکاہل پر مرکوز کیے ہوئے ہے جہاں اسے علاقائی ریاستوں اور امریکہ کی مزاحمت کا سامنا ہے۔ یہ ایک اور وجہ ہے جو چین مشرق وسطیٰ کے مسئلے میں امریکہ سے محاذ آرائی سے گریزاں نظر آتا ہے۔ 

یوں غزہ میں جنگ بند ہوگئی ہے اور حماس کی اشک شوئی کے لیے عارضی طور پر غزہ کی ناکہ بندی جزوی طور پر اٹھالی گئی ہے، جبکہ جنیوا کنونشن چہارم کی رو سے یہ ناکہ بندی سرے سے غیرقانونی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ناکہ بندی کے خاتمے اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے مسئلے پر ہونے والے مذاکرات 21 سال پہلے اوسلو میں کیے گئے مذاکرات سے کچھ مختلف ہوں گے۔ لہٰذا غزہ اور مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضہ بحال رہے گا۔ محمود عباس فلسطینی ریاست کے قیام (اگر ایسا ہوا) کے بعد پانچ سال تک صہیونی فوج کا قبضہ بحال رکھنے کے حق میں ہیں۔ 

پھر بھلا اسرائیل جو محمود عباس کو ہی فلسطین کا جائز سربراہ سمجھتا ہے، غزہ کی ناکہ بندی کیوں ختم کرے گا؟ اور محمود عباس کس منہ سے غزہ کے محاصرے کے خاتمے کا مطالبہ کر سکیں گے؟ لہٰذا یا تو حماس محمود عباس کی بات مانتے ہوئے ان کی شرائط پر اسرائیل سے سمجھوتہ کرنے پر آمادہ ہوجائے یا اپنا راستہ الگ کر لے، یعنی فلسطین دو ریاستوں میں تقسیم ہو جائے۔ لہٰذا حماس اور اسرائیل میں تصادم ناگزیر ہو گیا ہے اور اسے اپنے وطن کی آزادی کی جنگ تنہا لڑنی پڑے گی۔ حماس نے اب تک جس طرح کئی بار صہیونی قبضے سے غزہ کو آزاد کرانے کی جنگ کی ہے وہ جاری رہے گی، حتیٰ کہ اسرائیل اس جنگ سے تھک کر علیحدہ ہو جائے جیسے 2000ء میں اسے جنوبی لبنان سے فرار ہونا پڑا تھا۔

پروفیسر شمیم اختر
بہ شکریہ روزنامہ ’’نئی بات 

پارلیمنٹ کے احاطے میں موجود مظاہرین

قحط کے باعث تھر سے بڑے پیمانے پر ہجرت.......

$
0
0


تھرپارکر کے تعلقہ چھاچھڑو کی کچی سڑک کے کنارے بیٹھا اٹھائیس سالہ سکھو آٹھ ماہ کی ہجرت کے لیے تیار ہے۔
اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ موجود سکھو کا کہنا ہے"پہلے یہاں سے مرد کپاس کی فصل کی کٹائی کے موسم میں جون اور جولائی کے مہینوں میں دوسرے علاقوں سے جاتے تھے، مگر اب یہ زندہ رہنے کے لیے ہمارے پاس واحد راستہ رہ گیا ہے"۔
اس کے باعث مرد اپنے پورے خاندان کو سندھ کے مختلف تعلقوں اور دیہات میں منتقل کردیتے ہیں اور سکھو کا کہنا ہے"مجھے جس خیال سے سب سے زیادہ ڈر لگتا ہے وہ یہ ہے کہ میں اس وقت کیسے زندہ رہ سکوں گا جب میں یہاں نہ ہوں اور میرا خاندان مرجائے"۔
اس نے مزید کہا"کیونکہ میں اس حقیقت سے واقف ہوں میرے گاﺅں میں اب کھانے کے لیے کچھ بھی باقی نہیں بچا"۔

سکھو اور اس کا خاندان نہارو بھیل گاﺅں سے دو روز تک پیدل چل کر چھاچھڑو پہنچا اور اب وہ یہاں سے بھی جارہا ہے، اس کی والدہ بتاتی ہیں"میں نے پچاس برسوں کے دوران تین بار قحط سالی دیکھی مگر موجودہ حالات بدترین ہیں"۔
سکھو کی اہلیہ پلے ہی ضلع سانگھڑ کے ایک گاﺅں جاچکی ہے"میرے گاﺅں سے اب تک ساڑھے چار سو خاندان جاچکے ہیں اور اب وہاں صرف پچاس افراد ہی باقی بچے ہیں"۔

تھرپارکر حالیہ دنوں میں اس وقت خبروں کی سرخیوں کی زینت بنا جب صوبائی اسمبلی میں آخرکار قحط سالی پر ایک پالیسی کی منظوری دے دی گئی، جس کے اہم نکات کا اعلان کراچی میں وزیراطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
چھاچھڑو کے دیہی طبی مرکز کے میڈیکل سپرٹینڈنٹ کے ڈیٹا کے مطابق مارچ سے اب خطے میں سات ہلاکتیں ہوچکی ہیں جن میں بیشتر بچے ہیں، مگر این جی اوز کا کہنا ہے کہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

علی نواز ایک این جی او اویئر ان چھاچھڑو سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے"سرکاری ہسپتالوں میں صرف ان اموات کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے جو ان کی عمارت کے اندر ہوتی ہیں، وہ ان بچوں کا شمار نہیں کرتے جو بنیادی طبی مراکز اور ڈسپنسریز میں ہلاک ہوجاتے ہیں، ہمارے ڈیٹا کے مطابق مارچ سے اب تک 112 ہلاکتیں ہوچکی ہیں"۔

تھرپارکر کے چھ سب سے زیادہ متاثرہ تعلقوں میں سے ایک چھاچھڑو کی جانب جانے والی مرکزی شاہراہ پر سفر کے دوران قحط کی علامات کو نظرانداز کرنا بہت مشکل ہے، حکام کے مطابق کچھ عرصے قبل سے اب تک کافی بڑے یہاں سے بڑے پیمانے پر لوگوں نے ہجرت کی ہے۔

مرکزی شاہراہ پر خاندانوں کو عمرکوٹ اور مٹھی کی جانب جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، کچھ افراد پیدل جارہے ہوتے ہیں، جبکہ کچھ اپنے مویشیوں پر یا سوزوکی پک اپ پر سفر کرتے ہیں، جبکہ سڑک کے کنارے مردہ مویشیوں کا ڈھیر دیکھا جاسکتا ہے۔

تھرڈیپ کے سنیئر پروگرام منیجر ڈاکٹر اشوک بختانی کا کہنا ہے"بارش کے حوالے سے رواں سال کو بدترین قرار دیا جاسکتا ہے"۔
انہوں نے بتایا "یہ اب تک موسم انتہائی خشک رہا ہے یہاں تک کہ جو تھوڑی بہت بارش ہوئی اس کے بھی چھاچھڑو کے ارگرد مردہ فصلوں اور مویشیوں پر کوئی مثبت اثر مرتب نہیں ہوسکا"۔

ان کا کہنا تھا کہ رواں برس کے قحط نے انہیں 1987 کی قدرتی آفت کی یاد دلا دی ہے"اسے سیاہ قحظ کا نام دیا گیا تھا، اس وقت بھی ایسی ہی صورتحال تھی، ہر جگہ غذا کی کمی تھی، مویشی مر رہے تھے اور لوگ گھربار چھوڑ کر دیگر علاقوں کا رخ کررہے تھے، مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اسے زیادہ بڑا چیلنج نہیں سمجھتی"۔

اس بار ٹی وی چینیلز کی گاڑیاں چھاچھڑو کے دیہی طبی مرکز کے باہر نظر نہیں آرہیں، میڈیکل سپرٹینڈنٹ نے بارشوں کی کمی کو پہلے "میڈیا کی طرف سے بڑھا چڑھا کر بیان کرنا"قرار دیا، اور بعد ان کا کہنا تھا"یہ ایک حقیقت ہے جس نے ہمیں خوفزدہ کردیا ہے کیونکہ اس کے اثرات آنے والے مہینوں میں سامنے آئیں گے"۔

سیگریٹ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے انہوں نے وضاحت کی کہ"قحط اور کم خوراکی کا آپش میں کوئی تعلق نہیں، درحقیقت یہ این جی اوز کا اضافی آمدنی کے حصول اور دم توڑتے اخبارات کا اپنے قارئین میں اضافے کی حکمت عملی ہے، زمینی صورتحال مختلف ہے، رواں سال مارچ تک ہمارے ہسپتال میں صرف ایک موت رپورٹ ہوئی"۔

ان کے بقول دیگر مہینوں کا ڈیٹا مرتب کیا جارہا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ تھر میں بیشتر اموات علاقے میں موجود دیگر مسائل کے باعث ہوئیں"ان میں خواتین کا باربار حاملہ ہونا، قبل از وقت زچگی اور رہائشیوں کا مناسب غذا کا استعمال نہ کرنا ہے، جس کے نتیجے میں متعدد امراض پھوٹ پڑے، صرف قحط سالی ہی ہلاکتوں کی واحد وجہ نہیں"۔

این جی او اویئر ان چھاچھڑو کے عمرکوٹ میں نمائندے محمد صدیق اصرار کرتے ہیں موجودہ صورتحال ماضی کے مقابلے میں باکل مختلف ہے"ہم نے لاتعداد اجلاسوں میں صوبائی حکام کو تھر کے مسئلے سے آگاہ کرنے کی کوشش کی، چھاچھڑو اور حال میں تعلقہ بنائے گئے علاقے ڈھلی قحط سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، رواں برس 31 افراد خودکشی کرچکے ہیں، جس کی وجہ خوراک کی قلت اور مالی مشکلات تھیں"۔

ڈاکٹر اشوک تھر خاص طور پر چھاچھڑو کی موجود صورتحال پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر طویل المعیاد حل متعارف کرانے پر زور دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے"اگر بارش نہیں ہوگی تو فصلیں بھی نہیں اگ سکیں گی، اگر فصل فروخت نہیں ہوگی تو پھر ایک خاندان کس طرح اپنے مویشیوں کو خوراک فراہم کرسکے گا؟ یہاں تک کہ اگر مویشی قحط سے بچ بھی جائیں تو بھی وہ ایک کاشتکار کے لیے بے کار ہوجائیں گے کیونکہ ان میں ہل جوتنے کی طاقت نہیں رہے گی، موجودہ صورتحال اپنے آپ ٹھیک نہیں ہوسکتی"۔

انہوں نے مزید کہا"صورتحال ماضی کے مقابلے میں زیادہ تشویشناک ہے،گزشتہ سال کے اختتام کے بعد سے چھاچھڑو کی سترہ میں سے پانچ یونین کونسلوں میں بارش نہیں ہوئی تھی جس پر ماتم برپا ہوگیا تھا، اس بار چھاچھڑو کی کسی یونین کونسل میں بارش نہیں ہوئی اور اب تک کہیں کوئی شور ہوتا نظر نہیں آرہا"۔

ڈاکٹر اشوک کا کہنا تھا کہ طویل المعیاد بنیادوں پر زمینوں اور لوگوں کو ہونے والے نقصان کی تلافی ممکن نہیں"اس صورتحال میں ہمیں تبدیلی کے لیے کسان یا ہاری کی بات کو سننا چاہئے"۔

فوج سے ثالثی کا مطالبہ......

$
0
0


پاکستان کی سیاست میں فوج کے کردارکو کسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری ریاست میں سیاست اب بھی ایک کمزور فریق کے طور پر موجود ہے ۔ اگرچہ ہم دعویٰ تو بہت کرتے ہیں کہ ہماری جمہوریت اور جمہوری ادارے ماضی کے مقابلے میں کافی مضبوط ہوگئے ہیں لیکن عملاً اس میں حقیقت کم اور خواہشات کی عکاسی زیادہ بالادست نظر آتی ہے ۔

سیاست میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کی مضبوطی کو دیکھنے یا پرکھنے کے لیے اہم پہلو سیاسی مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔سیاست میں آسان یا مشکل مراحل کا سامنے آنا فطری امر ہوتا ہے ۔ یہ ہی وہ موقع ہوتا ہے جہاں سیاسی و جمہوری قیادتوں کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ پیش آنے والے واقعات یا مسائل کو کیسے پرامن اور جمہوری طریقے سے نمٹ کر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرتے ہیں ۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت ان معاملات میں ایک وسیع تجربہ رکھنے کے باوجود بدستور ناکامیوں سے دوچار ہے ۔

یہ بحث کہ پاکستان کی جمہوری اور سیاسی ناکامی کی پہلی اور آخری وجہ فوج کی سیاسی معاملات میں حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی مداخلت ہے ، مکمل سچ نہیں ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فوج کی بار بار مداخلت سے پاکستان کی جمہوری سیاست کے تسلسل میں رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں ، لیکن اس میں خود سیاسی قوتوں کا اپنا بھی کردار ہے ۔ کیونکہ ہماری بیشتر سیاسی جماعتیں اور قیادتیں اقتدار کے حصول ، کسی کی حکومت کو بنانے یا توڑنے ،سیاسی لین دین، سمجھوتوں سمیت اقتدار کی مضبوطی کے لیے فوج ہی کی طرف دیکھتی ہیں ۔

بعض سیاسی جماعتیں تو اپنی سیاسی حکمت عملیوں کو فوج کی پالیسیوں کو مدنظر رکھ کر ترتیب دیتی ہیں ۔ سیاسی قوتیں اپنی جماعتوں کو مضبوط کرنے کی بجائے انھیں خاندانی اور آمرانہ سیاست کا حصہ بناکر خود جمہوری نظام کو کمزور کرتی ہیں ۔ جہاں بھی سیاسی قوتیں مضبوط ہونگی اور بحرانوں میں کسی سہارے کی تلاش کی بجائے اپنے مسائل کو خود حل کرنے کی صلاحیت دکھائیں گی ، وہاں فوج کا سیاسی کردار خود بخود محدود ہوجاتا ہے ۔

حالیہ اسلام آباد میں جاری دھرنوں کا حل بھی سیاسی جماعتوں سمیت پارلیمنٹ بھی تلاش نہیں کرسکی ہیں یہاں تک کہ مذاکرات سے حکومت سمیت تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی ابتدائی طور پر انکاری کا پہلو بھی فوجی مداخلت یا مشورہ کی وجہ سے آگے بڑھا۔فوج کی جانب سے سیاسی قوتوں کو جاری کردہ پیغام کہ معاملات سیاسی اور پرامن طور پر حل کرنے اور بامعنی اور بامقصد مذاکرات کے مشورہ نے ہی مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے میں مدد فراہم کی۔مسلم لیگ )ن( اور وزیر اعظم کے حامی یہ دلیل دیتے ہیں کہ فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت میں اب وزیراعظم سب سے بڑے مخالف ہیں لیکن پچھلے 15 دنوں میں وزیر اعظم، وزیر اعلی پنجاب اور وزیر داخلہ چوہدری نثار کی فوجی قیادت سے تواتر سے ملاقاتوں کی کہانی کچھ اور صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔
اگرچہ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ وزیر اعظم، وزیر اعلی پنجاب اور وزیر داخلہ کی فوجی قیادت سے ملاقاتوں کا مقصد محض سیکیورٹی کے معاملات ہیں حالانکہ ان ملاقاتوںمیں براہ راست ’’دھرنوں کی سیاست ‘‘ بھی زیر بحث رہی ، اس موضوع میں مسئلہ محض سیکیورٹی کا ہی نہیں بلکہ سیاسی معاملات بھی زیر بحث آئے۔ اگرمسئلہ سیکیورٹی کا تھا تو اس کے لیے تو محض وزیر داخلہ ہی کافی تھے ۔ فوج کی قیادت نے ان ملاقاتوں پر اسی نقطہ پر زور دیا کہ ان کا کردار محض سیکیورٹی تک محدود ہے، سیاسی معاملات کو حکومت خود سیاسی طریقے سے نمٹنے کی کوشش کرے۔

یہ بات راقم نے تواتر سے لکھی تھی کہ اگر دھرنوں کی سیاست پر سیاسی قیادتیں اور حکومت کسی اتفاق رائے پر نہ پہنچیں ، تو ہم کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے عمل کو نہیں روک سکیں گے لیکن اب جو سیاسی بحران کی صورت میں ہمیں مسائل درپیش ہیں اس نے اس حقیقت کو عیاں کردیا کہ معاملات اسلام آباد میں نہیں بلکہ راولپنڈی میں طے ہونگے۔ ایک سیاسی بحران وزیر اعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی آخری ملاقات کی صورت میں سامنے آیا ۔ اس ملاقات میں وزیر اعظم نواز شریف نے براہ راست فوج سے دھرنوں کی سیاست کے خاتمہ اور فریقین میں اتفاق رائے کے لیے فوج کی ثالثی کی درخواست کردی ۔

یہ خبر بھی سامنے آئی کہ وزیر اعظم کو وزیر داخلہ چوہدری نثار نے مشورہ دیا کہ فوج کی مدد حاصل کیے بغیر اسلام آباد کا بحران حل نہیں ہوسکے گا حکومت کی اس درخواست پر فوج کا براہ راست عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سے رابطہ، فوجی قیادت سے ملاقات کا عمل بھی سامنے آیا ۔ امید تھی کہ اب فوج کے ثالثی کے کردار سے فریقین میں اتفاق رائے سامنے آجائے گا ۔ لیکن وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے فوجی مدد پر ان کے خلاف جو سیاسی بھونچال آیا، اس نے وزیر اعظم کو مجبورکردیا کہ و ہ اپنے بیان سے انحراف کرجائیں ، تاکہ سیاسی نقصان سے بچ سکیں ۔

اسی تناظر میں وزیر اعظم نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کی واضح تردید کردی کہ انھوں نے خود فوج سے سیاسی مدد مانگی بلکہ ان کے بقول عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی خواہش پر آرمی چیف نے مجھ سے اجازت لے کر ملاقات کی ہے ۔ وزیر اعظم نے اپنی گواہی میں وزیر داخلہ چوہدری نثار کو بھی گواہ بنایا، ان کے بقول ایک نہیں دس حکومتیں بھی قربان کرسکتا ہوں لیکن اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کروں گا۔

وزیر اعظم کو یہ بھی کہنا پڑا کہ عمران خان اور ڈاکٹرطاہر القادری نے فوج کو بطور ادارہ متنازعہ بنایا لیکن آئی ایس پی آر یا فوجی ترجمان کی جانب سے وضاحت کے بعد حکومت کو سیاسی محاذ پر شدید سیاسی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ فوجی ترجمان کے بقول وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ملاقات میں حکومت نے فوج کے سربراہ سے سیاسی بحران کے حل کے لیے براہ راست سہولت کار کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی ، اسی بنا پر فوج کے سربراہ نے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقات کی تھی ۔
اگر حکومتی موقف درست تھا کہ وزیر اعظم نے ایسا کوئی مطالبہ فوجی قیادت سے نہیں کیا تھا، تو اس کی وضاحت کے لیے 12گھنٹے کیوں انتظار کیا گیا۔ دراصل وزیر اعظم شدید دباؤ میں ہیں اور فوج سے مدد مانگنے پر ان کی حمائتی جماعتوں نے بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا، ان کے بیانات کے تضادات کو بھی اسی تناظر میں دیکھاجانا چاہیے ۔

اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اس حالیہ سیاسی بحران میں فوج کو خود حکومت نے سیاسی معاملات میں ڈالا ہے ، اس سے قبل اسلام آباد میں سیکیورٹی کے نام پر فوج کو طلب کرنے پر بھی بیشتر سیاسی جماعتوں نے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا تھا ۔ اس لیے اب حکومت کچھ بھی کہے اس نے فوج سے ثالثی کا مطالبہ کیا ہے ۔

وزیر داخلہ کا بیان کہ فوجی ترجمان کا بیان ہماری منظوری سے سامنے آیا، حکومتی نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے ، وزیر اعظم کے پارلیمنٹ سے خطاب کی نفی کرتا ہے ۔بدقسمتی یہ ہے کہ ہم پہلے خود فوج سے سیاسی مدد مانگتے ہیں ، پھر اپنی سیاسی بقا کے لیے اس کی نفی کرکے خود اداروں کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ فوج سے سیاسی ناکامی کی صورت میں مدد مانگی گئی ، لیکن اس پر حکومتی یو ٹرن پر فوجی ترجمان کی وضاحت حکومت کے لیے اچھا شگون نہیں ، کیونکہ اس سے حکومت اور فوج میں بداعتمادی پیدا ہوئی اور وزیر داخلہ کا بیان بھی عذر گناہ از بدتر گناہ کے مترادف تھا، جو اچھی علامت نہیں۔
یہ بات ماننی ہوگی کہ حکومت، عمران خان ، ڈاکٹر طاہر القادری اور دیگر سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے میں بنیادی مسئلہ ’’ بداعتمادی ‘‘ کا ہے۔ کوئی کسی کو سیاسی قوت تسلیم نہیں کرتا، کوئی کسی کے مطالبہ کو غیر آئینی سمجھتا ہے اورکوئی حکومت پر اعتبار کے لیے تیار نہیں ۔ ایسی صورت میں فوج کی سیاسی مدد کا حصول حکومت کی سیاسی مجبوری بھی بن گیا تھا اگرچہ سیاسی معاملات میں فوج کی ثالثی کوئی اچھی علامت نہیں لیکن جب حالات سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں کے کنٹرول سے باہر نکل جائیں اور سب ایک دوسرے کے خلاف دست و گریبان ہوکر ڈیڈ لاک پیدا کردیں ، تو یہ ہی کچھ ہوگا، جو اس وقت قومی سیاست پر غالب ہے ۔

اب بھی جو معاملات طے ہونگے اس میں فوج ہی کا کردار ہوگا کیونکہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے نہیں بلکہ حکومت نے بطور سہولت کار ازخود گیند فوج کے کورٹ میں ڈالی ہے اور اس کا اعتراف حکومت کو کرنا چاہیے کہ وہ سیاسی محاذ پر ناکام ہوکر مسئلہ کے حل کے لیے فوج کی مدد چاہتی ہے لیکن وزیر اعظم کے طرز عمل کے باعث اس مصالحت کا امکان بھی ختم ہوگیا ہے ۔

سلمان عابد


افواہوں کا بازار.......اسلام آباد.

$
0
0



 سلام آباد کے ڈی چوک میں دو سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے خلاف پولیس کے تشدد اور آنسو گیس کے استعمال کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز پہچا تو وہاں چند مخصوص کردار نظر آئے۔
ایک نیلی جینز جیکٹ اور شرٹ میں ملبوس صاحب نے مجھے سوال جواب کرتے ہوئے دیکھا تو میرے پاس آئے اور اندازہ لگایا کہ میں شاید میڈیا سے ہوں تو انھوں نے مجھے بہت رازداری اور ذمہ داری سے ’کچھ اہم معلومات‘ پہنچانا شروع کر دیں۔
 
ساری رات اس طرح کے کئی کردار آتے اور جاتے رہے جن کا مقصد مجھے اور میڈیا کے بعض دوسرے افراد کو ’اہم معلومات‘ فراہم کرنا تھا۔
اسی دوران پاکستان تحریکِ انصاف کے ایک رکنِ پارلیمان تشریف لائے جنہوں نے اپنا استعفیٰ دے رکھا ہے اور انھوں نے ہسپتال کا دورہ کرنے سے پہلے ہی میڈیا کے سامنے دھواں دار بیانات دینے شروع کیے۔ اُن کی باتوں کی بنیاد اسی طرح کے لوگوں کی ’اہم معلومات‘ تھی۔
جب یہ بیانات میڈیا کے سامنے دیے جا رہے تھے تو میں جونیئر ڈاکٹروں کے ساتھ ایک کمرے میں سب سن رہا تھا اور وہ سب بیک زبان کہہ رہے تھے ’یہ سب بالکل غلط ہے۔‘
ان جونئیر ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ’ہسپتال کی انتظامیہ نے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا اور لاشوں کے غائب کیے جانے اور ہسپتال نہ پہنچنے دینے کی باتیں بالکل درست نہیں ہیں۔‘

ایک اور رکن قومی اسمبلی کچھ دیر میں تشریف لائے جب ان سے بات کی تو ان کی گفتگو، باتوں اور انداز سے اندازہ ہوا کہ وہ کس طرح کی مجلس سے اٹھ کر آ رہے تھے کیونکہ ان سے جو بو آ رہی تھی وہ کم از کم آنسو گیس کی نہیں تھی۔
ان رکن قومی اسمبلی نے ٹی وی چینلوں پر چلنے والی افواہوں اور ہسپتال میں پہنچتے ہی سرگوشیاں کرنے والے ’مخصوص کرداروں‘ کی باتوں میں آکر ہسپتال کی ترجمان ڈاکٹرعائشہ عیسانی سے کہا کہ مریضوں کی دیکھ بھال نہیں ہو رہی۔ اس پر ڈاکٹر عائشہ نے انھیں ہسپتال کے اُن وارڈوں کا دورہ کروایا جہاں مریض پہنچے اور انھیں سب کچھ دکھایا، جس کے بعد اُن کے پاس کہنے کو کچھ ہیں تھا۔

ہسپتال کے مختلف وارڈوں میں دیکھا کہ بڑی تعداد میں آنے والے لوگوں پر آنسو گیس کے اثرات تھے۔
زخمی ہونے والے افراد میں سے غالب اکثریت کا تعلق پاکستان عوامی تحریک سے تھا جن کے سروں یا گردنوں پر چوٹیں آئی تھیں، جن میں سے بعض کا بہت زیادہ خون بہہ رہا تھا۔

ڈیوٹی پر موجود دو ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ دو مختلف افراد کی موت اُن کے سامنے ہوئی مگر نہ ہی ان ڈاکٹروں نے مجھے لاشیں دکھائیں اور نہ ہی مجھے اپنی ساری رات کی تلاش میں کوئی ایسی لاشیں ملیں یا ان ہلاکتوں کے کوئی اور گواہ۔
دو افراد آئی سی یو میں داخل تھے جنھیں بہت ہی بری حالت میں ہسپتال میں لایا گیا جن میں سے ایک کے پیٹ جب کہ دوسرے کے سر میں چوٹیں لگیں تھیں۔


 بغیر ثبوت، بغیر شواہد کے خبریں سُن سُن کر سوشل میڈیا پر ساری رات لوگ ایک کی دو اور دو کی چار بنا کر آگے بڑھاتے رہے۔"

ہسپتال کے ایک ذمہ دار افسر نے مجھے بتایا کہ ان دونوں افراد کی حالت تو رات کو ہی خطرناک سے بھی بری تھی مگر اُن کی ’طبی موت‘ ابھی واقع نہیں ہوئی‘ تھی جو اتوار کو صبح ہو واقع گئی۔
سب سے اہم بات یہ دیکھی کہ بہت زیادہ جھوٹی اور بے بنیاد باتیں ایسے لوگ کر رہے تھے جن کے پاس نہ تو کوئی شواہد تھے اور نہ معلومات اور نہ ہی اُن کا اس سارے معاملے سے تعلق تھا، مگر سنی سنائی بغیر دیکھی باتیں ایک سے دوسرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا تھا۔
میرے سامنے ایک نجی چینل کے رپورٹر نے کہا کہ ایک شخص ہلاک ہو چکا ہے جب اُن سے ثبوت کا پوچھا تو اُن کا جواب تھا کہ ’میں نے ٹی وی کی فوٹیج دیکھی ہے جس میں نظر آ رہا ہے۔‘

بغیر ثبوت، بغیر شواہد کے خبریں سُن سُن کر سوشل میڈیا پر ساری رات لوگ ایک کی دو اور دو کی چار بنا کر آگے بڑھاتے رہے جس سے ابھرنے والی نفرت اور غصے کی لہر وقت کے ساتھ شاید تھم جائے گی مگر پاکستان میں کون ہے جو وقت گزرنے کے بعد ثبوت مانگے گا؟

طاہر عمران

قائداعظم ریذیڈنسی زیارت....Ziarat Residency, Quetta

$
0
0



بانی پاکستان بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی زندگی کے آخری ایام بلوچستان کے پرفضا مقام زیارت میں بسر ہوئے۔یہ حقیقت ہے کہ یہاں چند ہفتے گزار کر حضرت قائد نے زیارت کو شہرت دوام بخشی۔ جس عمارت میں ان کا قیام رہا ہے وہ ’’قائداعظم ریذیڈنسی‘‘ کے نام سے آج بھی اپنے پورے وقار اور تمکنت کے ساتھ ہر خاص و عام کے لیے دعوت نظارہ دے رہی ہے۔

زیارت جانے والے راستے کے اردگرد سیب، چیری اور اخروٹ کے باغات پھیلے ہوئے ہیں۔ زیارت شہر کے آغاز میں باب خیبر کی طرح باب زیارت بنایا گیا ہے۔ یہ بلوچستان کے عام شہروں کی نسبت بھر پور شہر ہے اور دیکھنے میں ایوبیہ کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ زیارت، پہلے سبی ضلع میں تھا اب خود زیارت ضلع بن چکا ہے اور سبی اس کا ڈویژن ہے۔ گرمیوں میں سبی ڈویژن کے تمام دفاتر زیارت منتقل ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ سات ہزار فٹ سے زیادہ بلندی پر واقع ایک سرد مقام ہے جبکہ سبی ملک کے گرم ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔

زیارت میں جونیپر کے درخت کثیر تعداد میں ہیں۔ قائداعظم ریذیڈنسی کے راستے میں ایک بورڈ آویزاں ہے جس پر لکھا ہے کہ ’’جونیپر کے جنگلات کا شمار دنیا کے قدیم ترین جنگلات میں ہوتا ہے، جونیپر کا درخت سال میں صرف ایک انچ بڑھتا ہے اس کا کاٹنا قانونی جرم ہے۔‘‘
قائداعظم ریذیڈنسی، کو زیارت ریذیڈنسی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کوئٹہ سے 133 کلو میٹر کے فاصلے پر سبی ڈویژن ضلع زیارت میں سطح سمندر سے سات ہزار دو سو فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس کی تعمیر برطانوی عہد میں 1791-92ء کے دوران انتالیس ہزار بارہ روپے کی لاگت سے ہوئی۔ قیام پاکستان سے قبل گورنر جنرل کے ایجنٹ اور بلوچستان کے چیف کمشنر موسم گرما میں یہاں قیام کیا کرتے تھے۔ بابائے قوم سے تعلق کی بناء پر اسے قومی یادگار کا درجہ دے دیا گیا۔ 1975ء کے اینٹی کوئٹی ایکٹ کے حوالے سے یہ عمارت ملک کے محفوظ آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل کر دی گئی۔

فروری 1978ء میں اس کا نام ’’قائداعظم ریذیڈنسی‘‘ رکھا گیا۔ قائداعظم ریذیڈنسی کی عمارت دو منزلہ ہے جس کے فرش اور چھجے لکڑی سے بنائے گئے ہیں۔ صنوبر کے جنگلات سے بھری دنیا کی عظیم وادی کا منظر یہاں سے صاف دکھائی دیتا ہے۔ رنگارنگ پھولوں کی کیاریوں سے آراستہ سرسبز و شاداب سبزہ زار، لمبے لمبے چنار اور اخروٹ کے درخت اس کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں۔ ریذیڈنسی کی عمارت نو فٹ چوڑے برآمدے سے شروع ہوتی ہے۔

اس کے بعد تقریباً 14×20 فٹ کی نشست گاہ، اس سائز کا کھانے کا کمرہ، حمام اور سنگھار خانے کے ساتھ دو مستطیل کمرے ہیں۔ جن میں سے ایک کا رقبہ سترہ فٹ گیارہ انچ ضرب تیرہ فٹ دس انچ ہے۔ اس منزل میں باورچی خانہ، نعمت خانہ اور سامان رکھنے کا کمرہ وغیرہ شامل ہے بالائی منزل چار کشادہ کمروں اور نو فٹ چوڑے ایک دالان پر مشتمل ہے۔ ہر کمرے کے ساتھ غسل خانہ ملحق ہے۔

بالائی منزل پر جانے کے لیے درمیانی راستہ پر ایک چوبی زینہ بنایا گیا ہے۔ ریذیڈنسی کے جنوب مشرقی اور جنوب مغربی کناروں پر بھی لکڑی کے جنگلے کے ساتھ ایک ایک زینہ ہے۔ عمارت کی دیواریں ناہموار، کھردرے مربع نما پتھر کے بلاکوں کی ہیں جن کی چنائی سیمنٹ سے ہوئی ہے۔ فرش، چھت، کنارے اور سامان کے دالان اور ڈیوڑھی میں صنوبر کی لکڑی استعمال ہوئی ہے۔ اوپری ڈھلوان چھت لوہے کی نالی دار چادر سے بنائی گئی ہے۔

قدرتی حسن، پرسکون فضاء‘ صحت بخش آب و ہوا اور خوشگوار ماحول کا حامل ہونے کی وجہ سے قائداعظم، زیارت کو بے حد پسند کرتے تھے۔ مسلسل کام اور تھکن کے باعث ان کی صحت ابتر ہوچکی تھی یہی وجہ ہے کہ یکم جولائی 1948ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کی رسم افتتاح کے بعد اپنے علاج اور آرام کی غرض سے کچھ عرصہ کے لیے زیارت میں قیام کا فیصلہ کیا۔ اس طرح زیارت ریذیڈنسی کو بابائے قوم کی آخری رہائش گاہ ہونے کا شرف حاصل ہوا اور یہاں سے کراچی واپسی پر آپ 11 ستمبر 1948ء کو خالق حقیقی سے جا ملے اور یوں زیارت ایک تاریخی نوعیت کا مقام بن گیا۔

ریذیڈنسی کے باہر برآمدہ اور دالان کی لکڑی پر سبز رنگ کیا گیا ہے جبکہ کمروں وغیرہ کے دروازے براؤن ہیں۔ برآمدوں میں سرخ قالین بچھا ہوا ہے۔ بالائی منزل میں بائیں طرف دالان میں تین بڑی الماریاں رکھی ہوئی ہیں اور دائیں طرف دو بڑی الماریاں ہیں۔ ایک طرف گول میز پڑا ہوا ہے۔ سال میں ایک بار فرنیچر کو پالش کی جاتی ہے تاکہ خراب نہ ہو جبکہ چادریں موقع بہ موقع بدلی جاتی ہیں۔

قائداعظم کے آرام کمرے میں ایک سنگل بیڈ اور دو عدد ٹیبل لیمپ رکھے ہوئے ہیں۔ مغربی دیوار کے ساتھ ایک قلعے کی تصویر آویزاں ہے۔ الگ الگ کونوں میں تین میزیں اور کرسیاں پڑی ہیں۔ انگیٹھی پر قائداعظم کی جوانی کی تصویر رکھی ہوئی ہے جبکہ محترمہ فاطمہ جناح کے کمرے میںفرنیچر کی تقریباً یہی ترتیب ہے۔ البتہ انگیٹھی پر دونوں بہن بھائیوں کی تصویر پڑی ہوئی ہے۔
زیارت میں قائداعظم کی رہائش گاہ کو قومی ورثہ قرار دے دیا گیا ہے۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی ہدایت پر جاری ہونے والے ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ آئندہ زیارت ریذیڈنسی کو گورنر ہاؤس، سرکٹ ہاؤس یا ریسٹ ہاؤس کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکے گا۔

Ziarat Residency, Quetta

ڈنڈا بردار کارکنوں کا پی ٹی وی ہیڈ آفس پر قبضہ........

دھرنا ۔ اصل ہدف کیا ہے.....

$
0
0


امریکہ، کینیڈا اور اس کے دیگر اتحادیوں نے یہ منصوبہ آج سے تقریباً 5 سال قبل تیار کیا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان اور افغانستان میں جہادی فکر کی قیادت دیوبندی اور سلفی مسلک ہی کے لوگ کر رہے ہیں اور القاعدہ یا طالبان کی صورت میں ان دونوں مسلکوں کے حاملین ایک صفحے پر آبھی گئے ہیں تو انہوں نے اس کے جواب میں دو مخالف مسلکوں کو متحرک کرنے ، ا ن کی سوچ کو فروغ دینے اور ان کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اسی منصوبے کے تحت قادری صاحب کو دوبارہ میدان میں اتارنے کا منصوبہ بنایا گیا، اسی کے تحت انہیں پورے یورپ میں گھمایا گیا، پوپ جیسے لوگوں سے ان کی ملاقاتیں کرائی گئیں، ڈنمارک جیسے ممالک میں ان کے ساتھ ٹی وی مکالموں کا اہتمام کرایا گیا۔ اسی منصوبے کے تحت فتنہ خوارج جیسی کتاب لکھی گئی، وہ لاکھوں کی تعداد میں دو زبانوں میں چھاپ کر مفت تقسیم کی گئی (مجھے پانچ کاپیاں دی گئی تھیں) اور اسی لئے اس کی تقریب رونمائی نیو یارک میں ہوئی۔ پھر دو مغربی ممالک کی اینٹیلی جنس نے پاکستان میں سیاسی اور مذہبی رہنمائوں سے رابطے شروع کئے اور ان کو یہ بتایا جاتا رہا کہ وہ علامہ طاہرالقادری کی قیادت میں ایک موثر سیاسی قوت بنانا چاہتے ہیں کہ جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) جیسی جماعتوں کی جگہ لے لے ۔ امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک کی سرپرستی ہو تو پاکستان جیسے بدقسمت ملک میں اس پروجیکٹ کے لئے کارندے بہتات سے مل جاتے ہیں چنانچہ قادری صاحب کینیڈا میں رہے اور یہاں ایک سابق اخبار کے سابق ایڈیٹر ان کی طرف سے اہم شخصیات کے ساتھ رابطے کرتے رہے۔

ائیرفورس کے ایک سابق افسر جو اس وقت دفاعی تجزیہ نگار بن کر مختلف چینلز پر قادری صاحب کی وکالت کرتے رہتے ہیں بھی اس وقت قادری صاحب کی کشتی میں سوار ہو گئے لیکن ان کی آرزو کے پورے ہونے میں ایک رکاوٹ تو اس وقت پیدا ہوئی جب دونوں مسلکوں کی اہم شخصیات اور اہم تنظیموں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے کسی منصوبے کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ دوسری غلطی یہ ہوئی کہ پاکستان میں قادری صاحب کے نمائندوں نے ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی (وقت آنے پر میں ان کا نام بھی بتادوں گا) سے رابطہ کیاچنانچہ پاکستان کی عسکری قیادت کو اس منصوبے کا علم ہو گیا۔

 آصف علی زرداری صاحب کے دور میں ان کا وار کامیاب نہ ہو سکا تو اب قادری صاحب کو ایک نئے منصوبے کے تحت میدان میں اتارا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ دھرنوں کے لئے ابتدائی میٹنگ لندن میں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ غلام مصطفیٰ کھر اور سردار آصف احمد علی جیسے لوگ بھی ان کے دائیں بائیں نظر آتے ہیں ۔ قادری صاحب کے اصل منصوبے کی کچھ خبر تحریک انصاف کی ترجمان شیرین مزاری کو بھی اس وقت ہو گئی تھی جب وہ تحریک انصاف میں نہیں آئی تھیں اور تھوڑی بہت انصاف پسند ہوا کرتی تھیں۔ میں انگریزی متن اس وجہ سے ساتھ نقل کر رہا ہوں تاکہ شیرین مزاری صاحبہ اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے ٹائیگرز یہ نہ کہیں کہ میں نے ترجمہ میں ڈنڈی ماری ہے۔ محترمہ شیرین مزاری نے آج سے ڈیڑھ سال قبل یعنی 14 جنوری 2013ء کو روزنامہ دی نیوز میں شیرین مزاری کا جو آرٹیکل شائع ہوا، اس میں وہ لکھتی ہیں کہ :

At a third level, my misgivings are based on what I tend to call connecting the dots. The timing of Dr Qadri's return; information flowing out from British sources that the UK High Commissioner to Pakistan visited Dr Qadri in Canada two or three times about six months ago; the growing belligerency of drones and Indian troops along the LoC, alongside an unprecedented increase in terrorism, especially in Quetta; the sheer money and organizational structure that suddenly became overt just too many coincidences in terms of timeline. Some said the establishment was behind Dr Qadri, but I am not convinced on that count! However, external powers I suspect have a role, although I have no proof simply an educated assessment of what is happening within Pakistan and in our region.

We know the US seeks a favorable dispensation in Islamabad up to 2014 so that its withdrawal from Afghanistan can be smooth and the post-withdrawal scenario to its liking. A long-term friendly caretaker setup would suit them more than an elected government, especially since they are not sure what will happen in the next elections when there is no NRO and no guarantors! We also know how the UK played a lead role in the whole NRO game, so the same linkage can be taken as a given again. 

Banking on someone they recognize as a liberal religious leader, who has even sought to justify drones before December 23, they feel will allow them to bring the Pakistani nation on board. These are dangerous and false assumptions but it will not be the first time such miscalculations have been made.

ترجمہ : میرے خدشات کی بنیاد اس پر ہے جسے میں ــ، نقطے سے نقطہ ملانا
 کہتی ہوں ۔ طاہر القادری کی واپسی پر برطانوی ذرائع کے حوالے سے جو اطلاعات گردش میں ہیں ان کے مطابق چھ مہینے قبل پاکستان میں برطانیہ کے ہائی کمشنر نے ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ کینیڈا میں دو یا تین مرتبہ ملاقات کی ۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو ڈرون حملوں اور بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن پر اشتعال انگیزی میں اضافہ ، کوئٹہ اور ملک کے دیگر حصوں میں دہشتگردی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ اور ایک انتہائی منظم مالی اور تنظیمی ڈھانچے کا اچانک منظر عام پر آ جانا جیسے بہت زیادہ اتفاقات ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا مگر میں اس سے اتفاق نہیں کرتا جبکہ میرے خیال میں اس میں بیرونی طاقتوں نے کردار ادا کیا اگرچہ میرے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن پاکستان اور اس خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر ایک ماہرانہ رائے ضرور ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ امریکہ اسلام آباد میں 2014ء تک اپنے لئے موزوں سوچ کو رکھنا چاہتا ہے تاکہ افغانستان سے با آسانی انخلاء ہو سکے اور اس کے بعد کی صورتحال بھی اس کی پسند کے مطابق ترتیب پائے۔ جس کیلئے ایک منتخب حکومت کی بجائے دیر پا نگران سیٹ اپ ان کیلئے زیادہ موزوں رہے گا ۔ خاص طور پر وہ اس حوالے سے غیریقینی صورتحال کا شکار ہیں کہ جب ملک میں این آر او اور گارینٹر موجود نہیں ہوں گے تو آئندہ انتخابات میں کیا ہو گا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ این آر او کے سارے کھیل میں برطانیہ نے کیا کردار ادا کیا ۔ اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسی رابطے کو دوبارہ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ ایک ایسے مذہبی پیشوا پر بھروسہ جو 23 دسمبر سے قبل ڈرون حملوں کے جواز کا فتوی بھی جاری کر چکا ہو، کی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا مذہبی رہنماء پاکستانی قوم کو آن بورڈ لانے میں کارآمد ثابت ہو گا۔ یہ غلط اور خطرناک مفروضات ہیں لیکن یہ بھی پہلی بار نہیں ہو رہا کہ ایسے غلط اندازے قائم کئے جا رہے ہیں۔

سلیم صافی
بہ شکریہ روزنامہ "جنگ 

ریڈ زون میں مظاہرین کی مصروفیات......

Viewing all 4315 articles
Browse latest View live