Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

The Gates of Lahore City

$
0
0
لاہور شہر برصغیر کے قدیم ترین علاقوں میں سے ایک ہے اور یہ ہمیشہ سے اہم
 تجارتی گزر گاہ اور ثقافت کا مرکز رہا ہے جس کا ماضی بہت رنگین جبکہ یہاں کی تعمیرات پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں منفرد ہیں۔

اندرون لاہور جسے پرانا لاہور بھی کہا جاتا ہے میں مغلیہ دورِ حکومت کے دوران دشمن کے حملوں سے بچاﺅ کے لیے فصیل یا دیوار تعمیر کی گئی تھی جس میں بارہ دروازے بنائے گئے تھے جن میں سے کچھ تو وقت کی رفتار کا ساتھ نہ دے پانے کے باعث منہدم ہوگئے تاہم بیشتر ابھی بھی موجود ہیں اور اس شہر کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہے ہیں۔

موچی دروازہ

موچی دروازہ لاہور کے دروازوں میں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے، جس کا اصل نام تو بادشاہ اکبر کے دور کے ایک محافظ پنڈت موتی رام پر موتی دروازہ رکھا گیا تھا تاہم نجیت سنگھ کے دورِ حکومت میں یہ نام بدل کر پہلے مورچی اور پھر موچی مشہور ہوگیا اور اب اسے اسی نام سے جانا جاتا ہے۔
شہر کے قدیم علاقوں میں سے ایک ہونے کے باعث یہاں رونق کافی دیکھنے میں آتی ہے اور ماضی میں یہ سیاسی جلسوں کی وجہ سے بھی پورے ملک میں جانا جاتا تھا جہاں کافی یادگار جلسے بھی منعقد ہوئے، اسی طرح یہاں مغل دور کی چند مشہور حویلیاں بھی موجود ہیں جن میں مبارک حویلی، نثار حویلی اور لال حویلی قابل ذکر ہیں۔
موچی دروازے کا علاقہ قدیم دور سے ثقافت اور صنعت و حرفت کا مرکز رہا ہے۔ یہاں کی تاریخی حویلیاں، کھانے، محلے اور بازار قدیم ادوار میں اس علاقے کی خوشحالی کی گواہی دیتے ہیں۔

لوہاری دروازہ

اکبر کے عہد میں تعمیر کردہ شہر کی دیوار کا سب سے پرانا دروازہ لوہاری کہلاتا تھا، جس کا اصل نام درحقیقت لاہور دروازہ تھا جو بگڑ کر لوہاری ہوگیا۔ اس دروازے کا رخ اس زمانے کے مرکزی علاقے سمجھے جانے والے اچھرہ کی جانب ہونے کی وجہ سے لاہور دروازہ رکھا گیا تھا، برصغیر کا پہلا مسلم حکمران قطب الدین ایبک اس دروازے کے ساتھ ہی محو خاک ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب محمود غزنوی کے عہد میں ملک ایاز لاہور کا حکمران تھا تو اس نے اس زمانے میں قصبے کی شکل میں واقع لاہور کو دوبارہ تعمیر کرایا جس کے دوران شہر کی آبادی اسی دروازے کے ارگرد کے علاقے میں مقیم رہی۔
برطانوی عہد میں لاہور کے کئی دروازوں کو دوبارہ تعمیر کیا گیا تاہم لوہاری واحد دروازہ تھا جو اپنی اصل شکل میں برقرار رہا اور اب یہ شہر کا ایک مصروف ترین کاروباری علاقہ سمجھا جاتا ہے جہاں اکثر پیدل چلنا بھی آسان ثابت نہیں ہوتا جبکہ اس کے ساتھ ہی لاہور کا مصروف ترین انار کلی بازار ہے۔

شاہ عالمی دروازہ

شاہ عالم سے بگڑ کر شاہ عالمی کے نام سے مشہور ہوجانے والا یہ دروازہ لاہور کی مصروف ترین اور مالیاتی لحاظ سے بہت معروف مارکیٹ کے قریب واقع تھا، تاہم زمانے کی دستبرد کے نتیجے میں یہ منہدل ہوچکا ہے۔
اس دروازے کا نام اورنگزیب عالمگیر کے بیٹے شاہ عالم پر رکھا گیا تھا جو کہ پنجاب میں اپنی سخاوت کی بناءپر بہت معروف تھا، جبکہ اس کا پرانا نام بھیروالا دروازہ تھا، برصغیر کی تقسیم کے دوران اسے جلا کر خاک کردیا گیا اور اب صرف اس کا نام ہی باقی رہ گیا ہے۔
جس علاقے میں یہ دروازہ واقع ہے وہ تاریخی لحاظ سے انتہائی اہم ہے اور یہاں کئی یادگاریں، حویلیاں اور قدیم بازار واقع ہیں، جن میں رنگ محل، سوہا (صرافہ) بازار، کناری بازار وغیرہ قابل ذکر ہیں جبکہ ایشیاء کی نمبر ون کلاتھ مارکیٹ اعظم کلاتھ مارکیٹ بھی اسی علاقے میں واقع ہے، اسی طرح سنہری مسجد اور اونچی مسجد جیسی تاریخی مساجد بھی اسی دروازے کے پاس واقع ہیں۔

کشمیری دروازہ

چونکہ اس دروازے کا رخ وادیٔ کشمیر کی جانب ہے تو اسی لئے اسے کشمیری دروازے کا نام دیا گیا، اس دروازے کے اندر کشمیری بازار کے نام سے ایک مشہور مارکیٹ موجود ہے جبکہ تنگ گلیوں میں بھی متعدد مارکیٹیں موجود ہیں۔
اسی طرح یہاں سے ایک سڑک کے ذریعے تاریخی وزیر خان مسجد جایا جا سکتا ہے جبکہ ایک دوسری سڑک اعظم کلاتھ مارکیٹ تک لے جاتی ہے۔ اس تاریخی دروازے کی موجودہ حالت کافی خراب ہے اور جگہ جگہ سیاسی جماعتوں کے بینرز اور اشتہاری سائنز نے مغل عہد کے خطاطی کے شاہکار نمونوں کو چھپا کر رکھ دیا ہے۔

دہلی دروازہ

لاہور کے مشہور ترین دروازوں میں سے ایک دہلی دروازہ مغل بادشاہ اکبر نے تعمیر کرایا تھا، یہ شہر کی فصیل کے مشرق میں واقع ہے اور اس سے ملحق ہی کشمیری دروازہ ہے۔ چونکہ اس دروازے کا رخ دہلی کی جانب تھا اسی لئے اس کا نام دہلی دروازہ ہی رکھ دیا گیا، زمانہ قدیم میں یہ لاہور کا مصروف ترین علاقہ سمجھا جاتا تھا جبکہ اس کے بائیں جانب انتہائی خوبصورت شاہی حمام موجود ہے جو دیکھنے والوں کو مسحور کر کے رکھ دیتا ہے۔
دروازے کے اندر متعدد تاریخی عمارات، پرانی گلیاں اور لنڈا بازار موجود ہیں، تاریخی وزیر خان مسجد بھی اسی دروازے کے اندر موجود ہے۔ یہاں موجود پرانی حویلیاں دیکھنے والوں کو حیران کر دیتی ہیں جبکہ یہاں ایک اہم ہندو یادگار شوالہ بابا بخار گرو بھی موجود ہے۔

اکبری دروازہ

شہر کی دیوار کی مشرقی سمت میں واقع اکبر دروازے کا نام مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے نام پر رکھا گیا۔ اگرچہ برطانوی عہد میں اس کی دوبارہ تعمیر نو کی گئی تاہم وقت گزرنے کے ساتھ یہ اب صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے۔ یہاں لاہور کی سب سے بڑی ہول سیل اور ریٹیل مارکیٹ اکبری منڈی واقع ہے جہاں ہر قسم کے اجناس کی تجارت ہوتی ہے۔

بھاٹی دروازہ

کہا جاتا ہے کہ جب محمود غزنوی نے راجہ جے پال کو شکست دی تو یہاں موجود دروازے کو راجپوت قبیلے بھاٹ یا بھٹی کا نام دیا گیا، جسے مغل بادشاہ اکبر نے اپنے عہد میں دوبارہ تعمیر کرایا۔ یہ شہر کی دیوار کے مغربی سمت میں واقع ہے اور یہ اپنے مخصوص لوہاری کھانوں کی بناء پر جانا جاتا ہے اور یہاں چوبیس گھنٹے چٹ پٹے کھانوں کے شوقین افراد کی بھر مار رہتی ہے۔
بھاٹی گیٹ کے قریب ہی ایک میوزیم واقع ہے جہاں ہندوستان کی مختلف بادشاہتوں کے عہد کی یادگاریں رکھی گئی ہیں جبکہ بازار حکیماں جیسی تاریخی مارکیٹ بھی اس دروازے کے ساتھ موجود ہے جس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ بازار حکیموں کے لیے مخصوص ہے۔
مگر اس دروازے کی ایک خاص اہمیت یہاں شاعر مشرق علامہ اقبال کی دوران گریجویشن رہائش ہے، بازار حکیماں میں جس چھوٹی سی جگہ پر بیٹھ کر علامہ اقبال اپنی پڑھائی اور ساتھیوں سے ملاقاتیں کرتے تھے وہ بدستور موجود ہے۔ یہ دروازہ پہلوانوں کی وجہ سے بھی معروف ہے جنھوں نے یہاں سے نکل کر برصغیر میں کافی دھوم مچائی۔

مستی گیٹ

شاہی قلعے کی پشت میں واقع مستی گیٹ کا اصل نام مسجدی دروازہ تھا، جو بگڑ کر مستی ہوگیا۔ بادشاہ اکبر کی والدہ مریم میخانی کے نام سے منسوب مسجد اس دروازے میں واقع ہے تاہم کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اس گیٹ کا نام یہاں متعین ایک محافظ مستی بلوچ کے نام پر رکھا گیا۔ لوہاری اور بھاٹی کی طرح یہ علاقہ بھی اپنے بہترین کھانوں اور دودھ کی دکانوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے، خاص طور پر ربڑی والا دودھ اور قلفی تو سیاحوں کی جان سمجھا جاتا ہے جن کی دکانوں پر چوبیس گھنٹے رش رہتا ہے۔

زکی یا یکی دروازہ

مشرقی سمت میں واقع ذکی دروازہ کا نام ایک شہید صوفی زکی کے نام پر رکھا گیا۔ تاریخ میں رقم ہے کہ اس صوفی بزرگ نے شمال سے آنے والے تاتاری حملہ آوروں کا بہت بہادری سے مقابلہ کیا تھا جس کے دوران اس کا سر کاٹ لیا گیا اور ان کا مزار اسی دروازے کے قریب موجود ہے۔ اس دروازے کے ارگرد متعدد حویلیاں اور مندر موجود ہیں جہاں اکثر سیاحوں کا رش رہتا ہے۔

ٹکسالی گیٹ

ٹکسالی گیٹ کا نام یہاں سکے ڈھالنے کے لیے موجود ٹکسال کی وجہ سے پڑا، تاہم آج یہ ٹکسال اور دروازہ دونوں ہی منہدم ہوچکے ہیں۔ مگر ابھی بھی یہ جگہ کھانے پینے کے شوقین لاہوریوں کے لیے پسندید مقام ہے جہاں پھجے کے پائے اور کچھ حلوہ پوری کی مشہور دکانیں موجود ہیں۔ یہاں بیشتر افراد شیخو پڑیاں بازار جانے کے لیے آتے ہیں جو کھسہ اور پشاوری چپلوں کا معروف بازار ہے۔ اسی طرح پانی والا تالاب اور گوردوارہ لال کھوہ بھی اسی دروازے کے قریب واقع ہیں۔

روشنائی دروازہ

جنوبی سمت میں واقع یہ دروازہ شاہی قلعے اور بادشاہی مسجد کے درمیان واقع ہے۔ یہ دروازہ دوسرے مغلیہ دور میں تعمیر شدہ دروازوں سے اونچا اور چوڑا ہے۔ عالمگیری دروازے کے بعد مغلیہ فوج میں شامل ہاتھیوں کا دستہ اسی دروازے سے شہر میں داخل ہوا کرتا تھا۔ اسی دروازے سے ملحق مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں حضوری باغ افغانستان کے شاہ شجاع سے مشہور کوہ نور ہیرا چھیننے کی خوشی میں تعمیر کیا گیا تھا۔
شام کے وقت اس دروازے کو روشن کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے ہی اسے روشنائی دروازے کا نام دیا گیا۔ شاعر مشرق علاقہ اقبال اور رنجیت سنگھ کی سمادھی بھی اس دروازے کے سامنے حضوری باغ میں موجود ہے اور اس سے ملحق ہی بدنام زمانہ شاہی محلہ بھی موجود ہے۔

خضری یا شیرانوالہ دروازہ

اسے پہلے خضری دروازے کا نام دیا گیا جس کی وجہ معروف بزرگ حضرت خواجہ خضر الیاس تھا جنھیں امیر البحر کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آبِ حیات دریافت کرنے میں کامایب رہے تھے تاہم مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں اس کا نام تبدیل ہوگیا اور یہ شیرانوالہ دروازہ معروف ہوگیا۔
اس دروازے کے اندر روایتی پرانی لاہوری طرز زندگی کا نظارہ کیا جاسکتا ہے اور یہاں کے تنگ بازار میں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی۔ اس دروازے کی موجودہ حالت انتہائی خستہ ہے اور اس کا پلستر اور رنگ مکمل طور پر غائب ہو چکا ہے، بل بورڈز اور اشتہاری بینرز کی مہربانی سے جگہ جگہ دراڑیں پڑ چکی ہیں جس کی وجہ سے ڈر ہے کہ کہیں یہ تاریخی ورثہ بھی منہدم نہ ہو جائے۔

The Gates of Lahore City


دماغ کو ہر عمر میں تیز رکھنے کے بہترین طریقے

$
0
0
: عمر بڑھنے کے ساتھ ہمارا دماغ تنزلی کا شکار ہونے لگتا ہے، ہم چیزیں بھولنے
لگتے ہیں اور معمے حل کرنا ماضی جیسا آسان کام نہیں رہتا۔ اگرچہ بڑھاپے کے عمل کو واپسی کا راستہ دکھانا تو ممکن نہیں مگر اپنے ذہن کو ضرور ہم ہر عمر کے مطابق فٹ رکھ سکتے ہیں۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آن ایجنگ کے ایک حالیہ سروے کے مطابق اکثر افراد اس بات سے لاعلم ہیں کہ دماغ کو کیسے صحت مند رکھا جاسکتا ہے۔تو اگر آپ کو بھی یہ مسئلہ درپیش ہے تو یہ چند سادہ ورزشیں کافی مددگار ثابت ہوں گی۔

دماغی گیمز کھیلنا

جی ہاں اگر آپ روزانہ اخبارات میں کراس ورڈز یا دیگر معموں کو حل کرنے کے شوقین ہے تو یہ عادت آپ کے دماغ کیلئے فائدہ مند ہے، بنیادی ریاضی اور اسپیلنگ اسکلز کی مشق جیسے دماغی کھیلوں کا مطلب یہ ہے آپ اپنے دماغ کو زیادہ چیلنج دے رہے ہیں جو اسے تیز رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

ورزش

جسمانی ورزشیں درحقیقت دماغ کیلئے بھی فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں، روزانہ 30 منٹ سے ایک گھنٹے تک ورزش جیسے یوگا، چہل قدمی، سائیکلنگ، تیراکی اور دیگر وغیرہ بہت آسان بھی ہیں اور تفریح سے بھرپور بھی، جس سے دماغ کو گرمی کے موسم سے مطابقت پیدا کرنے میں مدد بھی ملتی ہے۔

صحت بخش خوراک

خوراک میں صحت بخش اجزاءکا استعمال ہی صحت مند دماغ کی ضمانت ہوتے ہیں، مضر صحت اجزاءجیسے کیفین ، تمباکو نوشی اور الکحل کا استعمال محدود تو کرنا ہی چاہئے، زیادہ نمک کھانے سے بھی بچنا اہئے کیونکہ یہ ذیابیطس، ہائی بلڈپریشر اور فالج جیسے امراض کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

سماجی طور پر متحرک رہنا

دن بھر میں کچھ منٹ اپنے دوستوں سے کسی بھی موضوع پر بات کرنے کیلئے وقت نکالیں، اپنے دوستوں اور رشتے داروں سے گھلنا ملنا دماغ کو چوکنا رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

روزانہ کچھ نیا سیکھنے کی کوشش کرنا

یہ کچھ بھی ہوسکتا ہے جیسے کھانے پکانے کی کوئی نئی ترکیب پڑھ کر اسے سیکھنے کی کوشش کرنا یا کسی نئے لفظ کا مطلب سمجھنا یا اپنے دفتر جانے کیلئے نیا راستہ اختیار کرنا۔ اپنی معمول کی روٹین سے باہر نکل کر کچھ نیا کرنا آپ کے دماغ میں ایک نیا جوش پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

نئی زبان سیکھنا

تحقیقی رپورٹس میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ایک سے زائد زبانوں سے واقفیت ایک بوڑھاپے میں صحت مند دماغ کا سبب بنتی ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ دماغ کو مشکل حالات سے نمٹنے میں مدد بھی ملتی ہے۔

ڈاکٹر سے بات چیت

اگر آپ کی عمر 55 سال سے اوپر ہے تو اپنی دماغی صحت کے حوالے سے ڈاکٹرز سے چیک اپ کرواتے رہیں، کیونکہ اکثر ذہنی امراض کا آغاز 55 سال کی عمر کے بعد ہی ہوتا ہے۔

پڑھنا

کتابوں سے لیکر بلاگز یا تازہ ترین خبریں پڑھنے تک سب کچھ کے ساتھ مطالعہ آپ کے دماغ کو نئے الفاظ سیکھنے اور یاداشت بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

زیادہ پانی پینا

روزانہ کم از کم چھ سے 8 گلاس پانی کا استعمال صحت مند دماغ کیلئے بہت ضروری ہے۔

 

خونخوار اسرائیل مشکل میں....

$
0
0

اسرائیل نے اس بار جب غزہ پر چڑھائی کی تو اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اسے یہاں زمینی فوجی دستے داخل کرنے کے نتیجے میں پہلی بار بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا سامنا کرناپڑے گا۔ اس سے پہلے ہمیشہ ایسا ہوتا آیاہے کہ اسرائیلی فضائیہ بمباری کرکے فلسطینیوں کو بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان سے دوچارکرتی تھی تاہم اس بار نیتن یاہو حکومت نے اس خیال کے تحت زمینی فوج کو بھی فلسطینی میں داخل ہونے کا حکم دیا کہ جب تک حماس کی سرنگوں کو تباہ نہ کیاجائے، تحریک مزاحمت کی کمر توڑی نہیں جاسکے گی۔ لیکن اسرائیل کی یہ چال الٹی پڑ گئی۔ اس بار اسرائیل کو پہلی بارشدیدجانی ومالی نقصان کا سامنا کرناپڑا۔
بالخصوص اسرائیلی جارحیت کے جواب میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے راکٹ حملوں سے اسرائیلی معیشت اور صنعت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اسرائیلی ریڈیو نے حکومت کے ایک سینئر عہدیدار کے حوالے سے بتایاہے کہ غزہ جنگ کے نتیجے میں صہیونی صنعت کے شعبے کو 875 ملین سرائیل کے عبرانی ریڈیو نے رپورٹ میں غزہ کی پٹی پر حملے کے نتائج اور ملکی معیشت پر اس کے منفی اثرات کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیل کے زیادہ تر کارخانے وسطی اور جنوبی غزہ کے قریب مقبوضہ فلسطینی شہروں میں واقع ہیں۔ فلسطینی مزاحمت کاروں کے جنگ کے پہلے روز سے ہونے والے حملوں میں صنعت کے شعبے کو غیرمعمولی نقصان پہنچا ہے۔ صنعتی شعبے میں سب سے زیادہ منفی اثرات ملٹری صنعت پر پڑ رہے ہیں، جس کے نتیجے میں اسرائیلی حکومت اور فوج سخت پریشانی کا شکار ہیں۔
اسی طرح مزاحمت کاروں کے راکٹ حملوں نے اسرائیلی ائیرپورٹ ویران کردئیے، امریکہ سمیت پوری دنیا نے اپنی فضائی کمپنیوں کو اسرائیل کا رخ نہ کرنے کی ہدایت کردی۔ اسرائیل کو سیاحت کے شعبے میں غیرمعمولی نقصان کا سامناکرناپڑا۔ اس شدید نقصان کے سبب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو امریکی حکام سے باربار رابطہ کرکے جنگ بندی کرانے کی دہائی دیتے رہے۔گزشتہ ہفتے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے یہ انکشاف کیا تھا کہ وہ نیتن یاہو سے دن میں پانچ بار فون پر بات کرتے ہیں اور انہوں نے ان فون کالز میں ہی ان (کیری) سے جنگ بندی کے لئے ثالث کا کردار ادا کرنے کو کہا تھا۔ یادرہے کہ اسرائیل ایسی جنگ بندی چاہتاہے جس میں صرف حماس کے ہاتھ باندھ دئیے جائیں، صہیونی قیادت جو چاہے کرتی رہے۔
حماس ایسی جنگ بندی کو مسلسل مسترد کر رہی ہے۔ اسلامی تحریک مزاحمت کا کہنا ہے کہ حماس صرف انہی معاہدوں پر متفق ہو گی جن کی اسرائیل پابندی کرے گا۔ حماس کے مسلح ونگ عزالدین القسام بریگیڈز نے ایک بیان میں کہا ’’اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں ہماری نئی نسل جانیں گنوا رہی ہے۔ اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے اب کوئی شک نہیں رہ گیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کو توڑنے کا مقصد ہماری زمین اور معصوم لوگوں کے نشانہ بنانا ہے۔‘‘
اسرائیلی وزیرانصاف اور سینئرصہیونی خاتون سیاست دان زیپی لیونی نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر حملے کے بعد اسرائیل مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ ایک بیان میں مسز لیونی کا کہنا تھا کہ موجودہ سنگین حالات میں ہمیں بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان کا سامنا ہے۔ اسرائیلی وزیر سیاحت عوزی لانڈو نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی فوج اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ان کے بقول:’’ ہم نے غزہ کی پٹی میں ایک اسٹرٹیجک معرکہ کھو دیا ہے‘‘۔ عبرانی اخبار میں شائع ہونے والے لانڈو کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی مدمقابل کو ڈرانے کی صلاحیت میں ڈرامائی طور پر تبدیلی آئی ہے، اسرائیل نے غزہ پر زمینی، فضائی اور بحری حملے کئے لیکن وہ حماس کو مفلوج کرنے
میں کامیاب نہیں ہو سکا۔شیکل یعنی 250 ملین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

عبید اللہ عابد

اسرائیل! لڑائی جیت، جنگ ہار رہا ہے.........

$
0
0


میں نے گزشتہ مضمون میں بہادر فلسطینیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان لوگوں سے اختلاف کیا تھا جو انہیں ایک مظلوم، بے بس اور لاچار قوم سمجھ کر، ان کے حالات پر نوحہ گری کرتے ہیں۔ میں نے لکھا تھا کہ جن حالات میں وہ اپنی جنگ لڑ رہے ہیں، اس پر وہ نہ صرف خراج تحسین کے مستحق ہیں بلکہ ان قوموں کے لیے مشعل راہ ہیں، جو سارے وسائل ہوتے ہوئے بھی رضا مندی سے غلامانہ زندگی بسر کرتی ہیں۔ میں نے امید ظاہر کی تھی کہ فلسطینیوں کی حالیہ قربانیاں کوئی نہ کوئی رنگ لائیں گی۔ آج میں مثالیں پیش کرتا ہوں کہ غزہ کے بہادر شہریوں نے اپنے خون میں ڈوپ کر، عالمی رائے عامہ کا رخ یہودیوں کے خلاف بدل دیا جو ایک لفظ برداشت کرنے کو تیار نہیں تھی، اب یہودیوں کے بارے میں ان کا طرز عمل کیا ہے؟

اکانومسٹ کی ایک ریسرچ رپورٹ میں لکھا ہے کہ غزہ کے حالیہ المناک واقعات کے بعد مشرقی یورپ کے 34 فیصد اور مغربی یورپ کے 24 فیصد لوگ، یہود مخالف جذبات رکھتے ہیں۔ لندن میں برطانوی یہودیوں کی ایک وکلا تنظیم کے رکن نے کہا کہ اسرائیلی فوج کی حالیہ کارروائیوں کے نتیجے میں یہود مخالف جذبات پر لویے کے کانٹے لگ گئے ہیں۔ اسی کے فرانسیسی ہم پیشہ نے کہا کہ فلسطینی بچوں کی تصویریں دیکھ کر، عوام سخت غصے میں ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے مناظر سے یورپی عوام کے تصورات بدل گئے ہیں۔ وہ دن گئے جب نظریہ پرست یورپی نوجوان ، اسرائیل کو دشمنوں میں گھرا ہوا ملک سمجھا کرتے تھے۔ اب انہیں ظلم کرنے والے سمجھا جا رہا ہے۔ یورپ کی بزنس کمیونٹی اور حکومتوں میں یہ سوچ پیدا ہو گئی ہے کہ اسرائیل سے اشیاء کی در آمد پر پابندی لگائی جائے۔ خصوصاً ناجائز یہودی بستیوں کی مصنوعات کی خریداری، مکمل طور سے بند کر دی جائے۔ یورپ کے سرمایہ داروں نے فلسطین کی سرزمین پر جبراً بسائی گئی اسرائیلی آبادیوں میں کاروبار بند کر دیا۔ خصوصاً وہاں جائیدادوں کی خرید و فروخت نہیں کی جا رہی۔ ہالینڈ کے پنشن فنڈ کے مینیجر اور ڈنمارک کے سب سے بڑے بنک نے جبراً بسائی جانے والی، اسرائیلی بستیوں میں تعمیراتی سرمایہ کاری بند کر دی ہے۔ ہالینڈ کی سب سے بڑی پبلک واٹر سپلائی کمپنی نے اسرائیل کی واٹر سپلائی کمپنی سے اپنا کاروبار ختم کر لیا ہے۔ اسرائیلی کمپنی مغربی کنارے سے پانی لے کر فلسطینیوں کو ہی بیچتی ہے۔ یورپ کی حکومت نے اسرائیل اور فلسطین کے مابین ناجائز بنائی گئی آبادیوں پر مذاکرات ختم ہونے کے بعد یہودی آبادی سے متعلقہ مالیاتی رابطوں کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔

اسرائیل کو امریکہ کے ساتھ اپنی ٹھوس دوستی پر بہت یقین تھا لیکن اب امریکہ میں بھی اس کے خلاف غم و غصے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل کے ایک ذمہ دار افسر نے جان کیری کی شکایت کی کہ انہوں نے سیز فائر کے لیے امریکہ کی طرف سے جو ڈرافٹ دیا اس میں حماس کی طرف جھکاؤ تھا۔ امریکہ کی نوجوان کمیونٹی اب کھل کر، واقعات کے بارے میں اسرائیل کے موقف پر شک کرنے لگی ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ نے ، اپنے ملک کی شہری حقوق کی تنظیموں کو انتباہ کیا ہے کہ اب وہ یک طرفہ طور پر اپنی رائے مسلط کرنے کی کوشش نہ کریں اور اسرائیل کی تصریح کرتے ہوئے اسے یہودی ریاست قرار نہ دیا کریں۔ برطانوی دانشوروں کے حلقوں میں اب یہ رائے جڑ پکڑ رہی ہے کہ برطانیہ کو شرق اوسط میں، اپنی سفارت کاری اسرائیل تک اس طرح محدود نہیں رکھنا جاہئے کہ فلسطینیوں کی حیثیت نظر انداز ہو جائے۔ بہت سے دانشوروں کا اندازہ ہے کہ آنے والے پچاس برسوں میں ، یورپ کے اندر عربی زبان پھیل جائے گی۔ عین ممکن ہے کہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو جائے۔ خود اسرائیل کے اندر نتین یاہو کی پارٹی میں محسوس کیا جانے لگا ہے کہ مستقبل میں اسرائیل کو زندہ رہنے کے لیے اپنے زور بازو پر بھروسہ کرنا پڑے گا۔

سب جانتے ہیں کہ اسرائیل کے وجود کا انحصار مغرب کی امداد پر ہے۔ دوسرے جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کی نازی پارٹی نے یہودیوں پر جو مظالم ڈھائے تھے، انکی بنیاد پر یہودیوں نے مظلومیت کی ایک ایسی دیومالا تیار کی جس نے مغرب کے ذہن کو از حد متاثر کیا۔ بحیثیت قوم یہودی علم و ادب، سائنس اور نفسیات کے ماہر ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مصائب کی کہانی ایسے موثر انداز میں پیش کی ہے کہ یورپی ذہن نے یہودیوں پر مظالم کا پختہ یقین کر لیا۔ یہودی پراپیگنڈے نے یورپ کو یہاں تک اپنے حق میں متعصب کر لیا تھا کہ یہودیوں کے خلاف ایک لفظ بھی برداشت نہیں کیا جاتا تھا۔ انہوں نے خود پر ہونے والے مظالم کی جو کہانیاں پھیلائی تھیں، ان پر شبہ ظاہر کرنے والوں کو بھی نازیوں کا حامی قرار دیا جاتا۔ کسی کی مجال نہیں تھی جو یہودیوں کی مظلومیت پر شک و شبے کا اظہار کر سکے۔ میڈیا ان پر رائے زنی کرتے ہوئے ڈرنے لگا۔ مغرب کے ذہن میں یہ تصور راسخ کیا گیا کہ یہودیوں کی مظلومی مسلمہ ہے اور اس پر اعتراض کرنے والا نازیوں کا حامی ہے۔ یہ تصور وہ خوف ناک ہتھیار رہے، جس کا مقابلہ کرنا عربوں کے بس میں نہیں ۔ جب فلسطین میں مقامی آبادی پر ظلم ڈھائے گئے، زمینوں پر قبضے کئے گئے اور نہتی آبادی کے خلاف، چھاپہ ماروں نے کارروائیاں کر کے انہیں گھروں سے نکلنے پر مجبور کیا تو فلسطینی اپنا یہ دکھ لے کر مغرب کے سامنے نہیں جا سکے۔ کوئی ان کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ مغرب کے اسی اندھےاعتماد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، یہودیوں نے فلسطینیوں پر جی بھر کے مظالم ڈھائے۔ وہ اپنی غریب الوطنی اور مظلومی کا رونا روتے اور فلسطین پر قبضے کی مہم جاری رکھنے کے لیے نئے سے نیا اسلحہ اور سرمایہ حاصل کرتے رہے ۔ کوئی بھی اعتراض خاطر میں نہیں لایا جاتا تھا۔ فلسطینی اپنی مظلومیت کی فریاد لر کر کہیں جاتے بھی تو انہیں دھتکار دیا جاتا۔ امریکہ اور برطانیہ یہودیوں کے خلاف ایک لفظ سننے کو تیار نہیں تھے۔

عالمی میڈیا عملاً یہودیوں کے کنٹرول میں تھا اور ان کی مظلومیت کا حربہ ، بے حد موثر ثابت ہو رہا تھا۔ وہ عربوں کو کچلتے اور اپنی مظلومیت کا رونا روتے رہے۔ فلسطینیوں کے حق میں دھیمی سی آواز سننا بھی برداشت نہیں کیا جاتا تھا۔ تباہی و بربادی کی داستان اتنی طویل اور قابل قبول ہو گئی کہ فلسطینیوں کو مغربی کنارے اور غزہ پٹی کے علاقے ، بطور وطن قبول کرنے پر مجبور کر لیا تھا۔ الفتح جہاد کو خیر باد کہہ کر مغربی کنارے پر ایک اطاعت گزار حکومت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئی۔ محمود عباس کی حکومت اسرائیل کی حاشیہ بردار ہے۔ یہ حماس تھی جس نے غزہ کی جیل میں بند رہتے ہوئے مسلح جد و جہد کا راستہ اختیار کیا۔ اس پر عربوں کا دباؤ پڑا۔ خود فلسطینیوں نے مخالفت کی۔ مغرب اس کا دشمن بن گیا۔ حماس کے حق میں ایک لفظ کہنا اور لکھنا جرم قرار پایا۔ یہ تھے وہ حالات جن میں حماس نے جد و جہد شروع کی۔ کون سا ظلم تھا جو حماس پر نہیں ڈھایا گیا۔ اسے دنیا سے مکمل طور پر کاٹ کر رکھ دیا گیا۔ فضائی ، سمندری اور زمینی راستے بند کر دئے گئے۔ سڑک کے ذریعے جو سامان بھی غزہ میں جاتا ہے اسرائیلی فوج اسے چیر پھاڑ کے دیکھتی ہے اور جو چیز جتنی مقدار میں، غزہ جانے کے لیے منظور کی جاتی ہے، وہی فلسطینیوں کو پہنچتی ہے۔ ہر تیسرے چوتھے مہینے اسرائیلی فوجی غزہ میں گھس کر گھر گھر تلاشی لیتے ہیں اور ایک پستول تک نہیں رہنے دیتے۔ جب اسرائیل کا دل چاہتا ہے وہ مکمل ناکہ بندی کر کے خوراک حتیٰ کہ پانی کی فراہمی تک بند کر دیتے ہیں۔ غزہ کی بجلی اسرائیل سے جاتی ہے۔ اس کی فراہمی برقرار رکھنا بھی اسرائیل کے کنٹرول میں ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ غزہ کی پوری آبادی کو مکمل طور پر بے دست و پا کر کے، پھینک دیا گیا تھا۔ حماس نے ان حالات میں اپنی جد و جہد کو آگے بڑھایا۔ باقی دنیا تو اس سے لاتعلق تھی ہی، خود عرب بھائیوں نے بھی مغرب اور اسرائیل کے خوف سے انہیں ہر قسم کی مدد پہنچانے سے پرہیز کیا۔
ایسی اندوہناک محرومی اور اجتماعی اسیری کے ساتھ، حماس کے مجاہدوں نے وہ جنگ لڑی، جس کی آج کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ حماس نے صہیونیوں کی سب سے بڑی طاقت پر پہلی مرتبہ وہ ضرب لگائی ہے جس پر اسرائیل بلبلا رہا ہے۔ جس مغرب ہر اس کا تکیہ تھا، حماس نے اسی کو اسرائیل کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کے لیے مجبور کر دیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ برطانیہ میں کوئی سیاست دان، حماس کے حق میں آواز اٹھا سکتا ہے اور اب عالم یہ ہے کہ برطانوی کابینہ کی پاکستانی نژاد رکن، سعیدہ وارثی نے اپنی حکومت کی اسرائیل نواز پالیسی کے خلاف احتجاجاً استعفٰی دے دیا ہے۔ لندن کے ایک تھیٹر نے یہودیوں کو فلمی میلہ منعقد کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ بارش کی پہلی بوندیں ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب صہیونیوں کی امیدوں پر بوچھاڑیں پڑیں گی۔

میاں عامر محمود
بشکریہ روزنامہ "دنیا 

’’بابائے جمہوریت‘‘.......

$
0
0


۔ سیاست کی اس مسافر بس میں سب بک ہے اور بیچنے والے ایسے استاد ہیں کہ ریپر بدل بدل کر وہی گھٹیا آئٹمز فروخ کئے جا رہے ہیں جو جعلی ثابت ہو چکے ہیں۔ ان بیچنے والوں کی استادی اپنی جگہ مگر مجھے تو خریداروں کی سمجھ نہیں آتی ۔اب آپ ہی بتایئے اگر کچھ سیدھے سادے لوگ 67 سال بعد بھی انقلاب کے خواب بیچنے والوں کا طریقہ واردات نہیں سمجھ پائے اور عمرانی دواخانے سے تبدیلی کی پھکیاں دھڑا دھڑ خرید رہے ہیں یا پھر ماڈل ٹائون کے کسی نیم حکیم کی دکان سے معجون انقلاب خریدنے کو بیتاب ہوئے جاتے ہیں تو انہیں کس پاگل خانے داخل کرایا جائے؟ ہر طرف نظام بدلنے کی باتیں ہو رہی ہیں،سب کہہ رہے ہیں،یہ نظام فرسودہ ہو چکا، جب تک اسے بیخ و بن سے نہیں اکھاڑا جاتا ،کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ عوام ہوں یا حکام،حزب اختلاف ہو یا حزب اقتدار، لسانی جماعتیں ہوں یا مذہبی تنظیمیں سب کی تان یہیں آ کر ٹوٹتی ہے کہ اس نظام کو بدلا جائے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر یہ سب نظام بدلنے کے خواہاں ہیں تو پھر رکاوٹ کیا ہے؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ جن کے خلاف انقلاب آنا ہے وہی انقلابی بن کر گھوم رہے ہیں اور جو اس نظام کے پتھارے دار ہیں وہی تبدیلی کے دعویدار بنے ہوئے ہیں؟ اور جان کی امان پائوں تو عرض کروں، یہ نظام بدلے گا کون؟ عمران خان جو بنی گالا میں 300 کنال کے گھر میں رہتے ہیں؟ یا موجودہ حکمران جو رائیونڈ میں 500 کینال کے محل میں آباد ہیں؟ لینن، مائو،ہوچی منہہ، چی گویرا، کاسترو، مصطفی کمال، آیت اللہ خمینی سمیت کسی ایک انقلابی لیڈر کا بتا دیں جس نے محلات میں رہتے ہوئے انقلاب برپا کیا ہو؟ لینن انقلابی جدوجہد کے بعد بھی اپنے دور حکومت میں چھوٹے سے دفتر کی میز پر سوتا رہا، کام سے تھک جاتا تو چند گھنٹے لیٹ جاتا اور صبح اٹھ کر پھر کام میں لگ جاتا۔ مائوزے تنگ نے 32 سال تک ایک ہی کوٹ پہنے رکھا جو آج بھی میوزیم میں موجود ہے۔

 آیت اللہ خمینی کا مٹی اور گارے سے بنا کچا گھر آج بھی قُم میں دیکھا جا سکتا ہے۔ چین کے ہمہ مقتدر وزیراعظم ،مائو کے معتمد اعلیٰ اور چوٹی کے دانشور چو این لائی کا کوٹ ہمیشہ پیوند آشنا رہا،الجزائر کے بن بیلا فرانس کے استعماری دور میں بنائے گئے شاہی محل میں رہنے کے بجائے ایک چھوٹے سے کوارٹر میں اقامت پذیر ہوئے۔ اگر عمران خان نے حسب وعدہ خیبر پختونخوا سے 90 دن میں کرپشن ختم کر دی ہے، اگر وعدے کے مطابق وہاں وزیراعلیٰ ہائوس کو خالی کر کے لائبریری میں تبدیل کیا جا چکا ہے، اگر وہاں پٹواری اور تھانہ کلچر تبدیل ہو چکا، ایک نیا خیبر پختونخوا معرض وجود میں آچکا تو جی بسم اللہ آگے بڑھیں اور اسلام آباد کی اینٹ سے اینٹ بجادیں تاکہ پہلے سے موجود پاکستان کو تباہ و برباد کر کے ہم سب ایک نیا پاکستان بنا سکیں۔ اگر موجودہ حکمرانوں کو اقتدار سے ہٹا دینے کے بعد یہاں خلافت راشدہ قائم ہونے جارہی ہے تو ضرور قدم بڑھائیں وگرنہ آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکنے یا کنویں سے نکل کر کھائی میں گرنے کا کیا فائدہ۔

تکلف برطرف آپ کا کیا خیال ہے اس ملک میں شیخ رشید انقلاب لائیں گے جو انقلاب کے ہر سرچشمے سے سیراب ہو چکے ؟ کیا اس ملک میں شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین ، شفقت محمود اور پرویز خٹک نظام تبدیل کریں گے جو اسٹیٹس کو کا حصہ ہیں؟ کیا اس ملک میں چوہدری شجاعت اور پرویز الہٰی انقلاب لائیں گے جنھوں نے پرویز مشرف کو 100 بار باوردی صدر منتخب کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ کیا اب انقلاب کی اصطلاح پر ایسا برا وقت آن پہنچا ہے کہ طاہرالقادری انقلابی قرار پائیں گے جن کی تضاد بیانیوں سے ایک زمانہ واقف ہے؟
پاکستان میں انقلاب کی اصطلاح کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو نظریہ ضرورت، ملکی دفاع و سلامتی اور وسیع تر قومی مفاد کی اصطلاح کے ساتھ ہوا ۔ معجون انقلاب بیچنے والوں کا خیال ہے کہ انتخابی دھاندلی کو لوڈشیڈنگ کے ساتھ ملا کر غم وغصے کے پانی میں مایوسی کی تیز آنچ پر پکایا جائے اور پھر آخر میں خون خرابے کا تڑکا لگا دیا جائے تو انقلاب کی ایسی ڈش تیار ہو جاتی ہے جسے کھانے والوں کی عقل پر پردے پڑ جاتے ہیں۔ مگر عوام نے ایسے کئی پکوان ادھ جلے اترتے دیکھے ہیں کیونکہ اس ہنڈیا کو پکانے کیلئے سب سے اہم ضرورت وہ چولہا ہے جو ہمارے ہاں مقتدر حلقوں کے پاس پایا جاتا ہے۔
انقلابی پکوان کو وہ چولہا دستیاب ہو جائے تو انقلاب کے خواب لاہور سے نکلتے ہی پورے ہو جاتے ہیں۔ چند ماہ ہوتے ہیں لاہور کے ایم ایم عالم روڈ پرایستادہ ایک کافی شاپ پر پاکستان عوامی تحریک کے ترجمان قاضی فیض سے گفتگو ہو رہی تھی،انقلاب کی تفصیل بتاتے ہوئے فرمایا،ہم اسلام آباد میں چالیس لاکھ افراد جمع کریں گے۔ یہ سن کر کچھ کی تو ہنسی چھوٹ گئی ، ایک سینئر صحافی نصراللہ ملک نے کہا، اگر آپ چالیس لاکھ افراد جمع کر لیں تو نواز شریف کی کیا مجال، اوباما بھی حکومت چھوڑ کر بھاگ جائے۔ میں نے مگر سنجیدگی کا دامن نہ چھوڑا ، اور ان سے استفسار کیا کہ بالفرض محال آپ اپنے کارکنوں کے ساتھ انقلاب مارچ لے کر اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں تو پھر کیا ہو گا؟ بقول آپ کے یہ انقلاب پر امن ہو گا ،کوئی غیر قانونی راستہ اختیار نہیں کیا جائے گا تو پھر تبدیلی کیسے آئے گی؟ انتخابات اور جمہوریت پر آپ یقین نہیں رکھتے تو کیسے اقتدار میں آئیں گے اور اپنا ایجنڈا نافذ کریں گے؟

 کچھ نہ بن پڑی تو کہنے لگے،اس سوال کا جواب تو قائد انقلاب کے پاس ہی ہے اور حکمت عملی وہی بیان کریں گے۔ میں نے بصد احترام عرض کیا،حضور ! کیوں شرما رہے ہیں،اعتراف کر لیں کہ آپ اسی گھاٹ سے پیاس بجھانا چاہتے ہیں جس سے سب سیراب ہوتے چلے آئے ہیں۔ اس ملک میں انقلاب کا سرچشمہ تو ایک ہی ہے اور وہ کہاں ہے،یہ بات سب کو معلوم ہے۔
جمہوریت بیچاری تو ہر دور میں کنٹینروں پر انحصار کرتی رہی ہے مگر اس بار لگتا ہے جمہوریت کی گاڑی چلانے والے اناڑی ڈرائیور خود ہی کسی حادثے کو دعوت دے رہے ہیں۔ ایک ہفتہ پہلے سے پورے ملک میں پیٹرول کی سپلائی روک کر اور پکڑ دھکڑ کر سلسلہ شروع کر کے دعوت دی جا رہی ہے کہ آبیل مجھے مار۔ انقلاب کی معجون بیچنے والوں کے بیچ بیشتر سیاسی جماعتیں خاموش تماشائی بنی دکھائی دیتی ہیں اور سب کو اپنی سیاست چمکانے کی فکر لاحق ہے۔ایسے میں واحد استثنیٰ ہے تو جماعت اسلامی جسے ہر دور میں فوج کی بی ٹیم کا طعنہ سہنا پڑا ۔اس موقع پر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی فہم و فراست کو داد نہ دینا بددیانتی ہو گی جو ملک کو تصادم سے بچانے کے لئے کوشاں ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اس ملک میں اگر کوئی انقلابی جماعت ہے تو اس کا نام جماعت اسلامی ہے۔عمران خان کو پارٹی الیکشن کرانے پر بہت ناز ہے لیکن تحریک انصاف میں بھی یہ ممکن نہیں کہ عمران خان کی جگہ کسی اور شخص کو چیئرمین منتخب کیا جا سکے لیکن جماعت اسلامی جیسی جمہوری جماعت میں ہی یہ ممکن ہے کہ ایک غریب گھرانے اور غیر سیاسی پس منظر کا حامل سراج الحق مرکزی امیر منتخب ہو گیا اور اب بابائے جمہوریت کے روپ میں سامنے آیا ہے۔

محمد بلال غوری
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ 

14 اگست اور نواز لیگ ........

$
0
0


دوران خطاب ایک حالیہ جملے میں وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے روایتی معصومانہ انداز میں سوال پوچھا؟” ہمیں یہ تو بتائیں ہمارا قصور کیا ہے؟” اس خطیبانہ انداز میں پوچھے گئے سوال کا تناظر عمران خان کی طرف سے لگائے گئے دھاندلی کے الزامات تھے۔ وزیر اعظم یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ ان کے ہاتھ اور دامن صاف ہیں اور تحریک انصاف کے چیئرمین کی طرف سے چلا ئی گئی مہم کے پیچھے بدنیتی کے سوا کوئی اور محرک کارفرما نہیں ہے۔

ایسے موقعے پر کہ جب عمران خان اپنی طرف سے تنی ہوئی منجنیق کا سب سے بھاری پتھر سوموار کی پریس کانفرنس کی صورت میں پھینک رہے تھے اور وزیر اعظم کی جانب سے تقریر بھی کی جا چکی ہے اس نکتے کو واضح کرنا ضروری ہو گیا ہے کہ ڈیڑھ کروڑ کے قریب ووٹ لینے والی جماعت جو ملک کے سب بڑے انتظامی یونٹ یعنی پنجاب کو عملاً بغیر کسی سیاسی رکاوٹ اور مزاحمت کے اپنی مرضی سے چلا رہی ہے اور جس کے اپنے دعویٰ کے مطابق ایک بے نظیر تدبر و زیرک پن سے مالامال ہے‘ انتخابات کے سوا سال بعد دلدل میں کیوں پھنسی ہاتھ پائوں مار رہی ہے؟

ایسا کیا ماجرا ہو گیا کہ ہرا بھرا باغ خشک سالی کا منظر پیش کرنے لگ گیا۔ نواز لیگ کی 6 بڑی کوتاہیاں اس کی موجودہ سیاسی کیفیت کو عمران خان کے الزامات کی صورت میں پیدا ہونے والے نتائج سے بھی بہتر انداز میں پیش کرتی ہیں۔ نواز لیگ کے لیے عمران خان معمولی درد سر بھی نہ ہوتے اگر جماعت کی قیادت نے اپنے ہاتھ سے خود کو گڑھوں میں پھنسایا نہ ہوتا۔ پہلی غلطی یہ مفروضہ تھا کہ عمران خان انتخابات ہارنے کے بعد دھاندلی کے واویلے کو بڑی تحریک میں تبدیل نہیں کریں گے۔

اس مفروضے کے پیچھے یہ غیر ضروری اعتماد تھا کہ 2013 کے انتخابات اب تاریخ کا وہ باب بن گیا ہے جس کو دوبارہ پڑھنے اور اس کا تجزیہ کرنے کا وقت کسی کے پاس نہیں۔ لہٰذا عمران خان کی جانب سے 4 حلقوں کو’’ کھولنے‘‘کے معاملے کو غیر سنجیدہ انداز میں ٹیلی ویژن کی اسکرین اور پریس کانفرنسز میں چٹیکوں میں اڑا دیا گیا۔ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ان چار حلقوں کے معاملے کو اگر یہاں پر ہی ٹھپ کر دیا جائے تو بعد میں کنویں میں سے 40 ڈول پانی نکالنے کی مشقت بچ سکتی ہے۔

دوسری غلطی سے پہلی نے جنم لیا۔ چونکہ 4 حلقوں میں انتخابات کے نتائج کی تصدیق کو ہوا میں اڑا دیا گیا لہٰذا انتخابی عمل میں ان گنت بے ضابطگیوں کے تمام مقدمات کو ٹھنڈے خانے میں رکھ کر بھول جانے کی ناکام کوشش کی گئی۔11 مئی کے دن جو مناظر کراچی میں دیکھے گئے اور جس قسم کے الزامات پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے سامنے آئے وہ تقاضہ کرتے تھے کہ ان کی تحقیقات کروا کر زیادہ گھناونی اور واضح دھاندلی میں ملوث افراد کے خلاف تحقیقات کروائی جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس تمام عمل کو بہترین طریقوں پر استوار کرنے کی بھی سنجیدہ کو شش کی جائے جس کے ذریعے عوام اپنے نمایندوں کو منتخب کرتے ہیں مگر افسوس کہ سوا سال تک انتخابی اصلاحات اور 2013کے انتخابات سے سبق سیکھنے کا یہ عمل کسی دن بھی حکومت کی ترجیحات میں نظر نہیں آیا۔

یہ رویہ تیسری غلطی کی بنیاد بنا کہ جب تحریک انصاف کو نواز لیگ نے شفاف انتخابات کے حق میں علم اٹھانے کے لیے میدان مکمل طور پر خالی کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت کو جائز بنیاد فراہم کرنے کی سب سے بڑی دلیل وہ انتخابی طریقہ کار ہے جس پر ہر کوئی اپنی ذات سے زیادہ اعتماد کرتا ہو۔ اندورنی طور پر بٹے ہوئے ممالک اور خلفشار کے شکار معاشروں میں اس عمل کی شفافیت مزید اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔

نواز لیگ نے یہ پہلو اپنی ترجیحات میں سے حذ ف کر دیا۔ تحریک انصاف نے اس کو اپنے مقدمے کی بنیاد بنا لیا۔ اس وقت طریقہ کار اور لائحہ عمل، بیان و الزامات سے عدم اتفاق کرتے ہوئے بھی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ عمران خان شفاف انتخابات کا مطالبہ کر کے جمہوریت کی روح کے منافی کام کر رہے ہیں۔
حکومت نے انتخابی نظام کی خرابیوں کو درست کرنے کو غیر اہم قرار دے کر قیمتی وقت سیاسی طور پر مہنگے اور شرمندگی سے بھرپور شاہکار بے وقوفیوں پر صرف کرنا شروع کر دیا۔ یہ چوتھی کوتاہی تھی۔ اگر 15 ماہ میں حکومت کی چھوٹی بڑی جنگوں کی تفصیلات تیار کی جائیں تو یہ کئی صفحات بن جائیں گے۔ کبھی ذرایع ابلاغ کی طرف سے کھیلی جانے والے طاقت کے کھیل میں چالیں چلنے لگے اور کبھی فوج کے ساتھ سینگ لڑا لیتے۔

طالبان سے بات چیت شروع کی تو دوران عمل بھول بھال کر کسی اور طرف نکل گئے۔ ہفتوں جنرل مشرف کے مقدمے پر قلابازیاں کھا کر خود کو ہلکان کرتے رہے۔ نہ کابینہ مکمل کی اور نہ اہم انتظامی عہدوں پر ایسی تقرریاں کیں جن سے نظام کو استحکام ملے۔ کراچی میں آپریشن کا آغاز کیا اور پھر اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے پہلے گہری سوچ میں پڑ گئے۔ نتیجتاً یہ گاڑی نہ آگے جا رہی ہے نہ پیچھے۔ اور تو اور ایک دو ماہ تو چوہدری نثار کو منانے پر صرف ہو گئے۔

مگر یہ سب کچھ کرنے کے باوجود نواز لیگ، عمران خان اور ڈاکڑ طاہر القادری کے حملے شروع ہونے سے پہلے ہی روک پاتی اگر اس نے انداز حکمرانی کو موثر، بامعنی اور اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشوں یا مجبوریوں سے آزاد کرایا ہوتا ایسا نہیں ہوا۔ لوڈشیڈنگ کے مسئلے کو حتمی اور ہنگامی بنیاد پر حل نہ کر کے عوام میں بدنامی کمائی۔ خواجہ آصف کی طرف سے بجلی کے عذاب کو کم کر نے کے لیے آسمان سے رجوع کرنے کا نادرمشورہ دلچسپ ضرور تھا مگر اس نے نواز لیگ حکومت کے بارے میں اس تصور کو فلم بند کر دیا کہ یہ صرف کہتی ہے کرتی کچھ نہیں۔

پالیسی سازی کو چند مخصوص افراد کے قبضے میں دے کر وزیر اعظم نواز شریف نے خود کو طاقتور نہیں بلکہ کمزور اور کوتاہ اندیش ثابت کیا۔ جو حکومت وزارت دفاع، وزارت خارجہ اور وزارت قانون کو وقتی یا مجبوری انتظام کے تحت چلائے اس کے بارے میں کیسی تصویر بن سکتی ہے؟ بالکل ویسی ہی جیسے بنی ہوئی ہے۔ نامکمل، غیر سنجیدہ، عدم اعتماد کا شکار مگر اس زعم سے بھرپور کہ اس کا متبادل کوئی نہیں ہے۔

حکومت کے اس طریقے کی مثالیں پھر ان فیصلوں کے ذریعے بنیں جن کے تحت نجم سیٹھی، رمدے اور ارسلان افتخار کو تمام اصولوں کے خلاف ایسے عہدے دیے گئے جن پر ان سے بدرجہا بہتر سیکڑوں افراد مامور کیے جا سکتے تھے۔ ایسی تقرریاں بیوروکریسی اور مشیران کے حوالے بھی کی گئیں۔ اوپر سے شریف خاندان کی مہر ہر پراجیکٹ پر ثبت کرنے کا کام تیز سے تیز ہوتا چلا گیا۔ وزیر اعظم ہیں تو تمام ملک کے مگر نہ جانے کیوں اپنے گھر کے افراد سے باہر افرادی صلاحیت کو بھانپنے میں اس بری طرح سے ناکام کیو ں ہو رہے ہیں۔ ملک میں قائد اعظم کی اتنی تصویریں نہیں چھپتیں جتنی شریف خاندان کے افراد یا قریبی تعلق رکھنے والو ں کی تشہیر ہوتی ہے۔

ان تمام غلطیوں کے مجموعے نے نواز لیگ کو اصولی سیاست اور کارکردگی کے پیمانے پر اس بری طرح سے متاثر کیا ہے کہ آج عمران خان کی طرف سے ’’انتخابات چرانے‘‘ اور حکومت کو چلتا کرنے کا مطالبہ بہت سے حلقوں میں مقبول ہے۔ اب ہم صرف تصور ہی کر سکتے ہیں کہ اگر نواز لیگ کی حکومت نے سوا سال اپنی سرتوڑ کوشش چند ایک عوام دوست کامیابیاں حاصل کرنے کی جانب کرتی تو کیا تحریک انصاف کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات اتنے ہی سنجیدہ مشہور ہوتے جتنے اس وقت سمجھے جا رہے ہیں؟ سیاسی حملوں کے خلاف سب سے بری ڈھال صرف اور صرف کارکردگی ہے۔ بادشاہت بھی بری نہیں لگتی اگر خلق خدا خوشحال ہو۔

حکومت کے پچھلے قدم پر عمران خان کے باونسرز نہیں بلکہ اس کی بیٹنگ کی بری تکنیک بھی ہے۔ اور اگر عمران خان نے 14 اگست کو آوٹ کی ایسی اپیل کر دی جو سات، آٹھ دن تک جاری رہی تو پھر فیصلہ سامعین، حاضرین، ناظرین نہیں بلکہ تیسرا ایپمائر کرے گا۔ تب پتہ چلے گا کہ ایمپائر کتنا نیوٹرل ہے۔

پاکستان کے یوم آزادی کے حقیقی مقصد ........ By Dr. Shahid Hassan

Technocrat Government for Pakistan by Ansar Abbasi

$
0
0


Technocrat Government for Pakistan


Day of prayer and peace in devastated Gaza

$
0
0


Relatively confident of their safety, Palestinians attended weekly prayers on Friday as a fragile ceasefire held for a second day and tough talks loomed on a more lasting peace. For the first time since fighting began between Israel and Hamas on July 8, residents in Gaza City were able to attend the Friday prayers without fear of being killed. At least 1,962 Palestinians and 67 people on the Israeli side have died in the conflict.

In the Shati refugee camp, a few hundred men prayed in the rubble of a mosque, lining up their prayer mats directly under the teetering remains of the minaret which looked as if it could collapse at any moment.
Dozens of mosques have been damaged in the fighting. Imam of the mosque in the Shati camp called during his sermon for the destruction of Israel.

“We must say our prayers with or without the existence of a mosque, and people are praying in the rubble,” said Ismael Redwan, who lives close by. Egyptian mediators won a new five-day ceasefire on Wednesday night to give Israeli and Palestinian negotiators more time to thrash out a longer-term truce. The ceasefire got off to a rocky start but Israeli officials said it had held into a second day on Friday.

Negotiations are expected to resume in Cairo on Saturday evening, as Palestinian and Israeli negotiators consult with their political leaderships about the parameters for an eventual long-term truce. Gaza’s de facto rulers Hamas, who have representation on the Palestinian negotiating team, insist there can be no return to peace without a lifting of Israel’s eight-year blockade of the beleaguered coastal enclave. But Israel’s rightwing government is refusing to countenance any major reconstruction effort without full demilitarisation.
“Agreement on understandings will only be reached if Israel’s security interests are guaranteed,” a government official said.

Israel’s security cabinet met for a second day to hammer out a negotiating position for the next round of talks, media reports said. There was no formal statement from the secretive body. The recent fighting has also exposed new signs of strain in Israel’s relations with its US ally. Washington denied a report that the White House was tightening the reins on the routine delivery of military aid to Israel over concerns about the proportionality of its military action in Gaza.

But the State Department acknowledged that arms shipments were being kept under review, saying the process was “by no means unusual” given the crisis in Gaza. Israel secured supplies of ammunition from the Pentagon last month without the approval of the White House or the State Department, The Wall Street Journal reported. President Barack Obama’s administration, caught off guard as it tried to restrain Israel’s campaign in Gaza, has since tightened controls on arms shipments to Israel, the newspaper said, quoting US and Israeli officials. 

The daily said Mr Obama and Prime Minister Benjamin Netanyahu had a particularly tense phone call on Wednesday and that the Israeli leader wanted US security assurances in return for a long-term deal with Hamas. The chairman of the Israeli parliament’s foreign affairs committee, Likud MP Zeev Elkin, said that spats between close friends were normal and the underlying Israel-US relationship remained sound.

“Differences of opinion are legitimate and sometimes necessary,” he told public radio. But Alon Pinkas, Israel’s former consul-general in New York, told the channel that Elkin and others who saw no danger signals were like “people on the Titanic saying how lovely the buffet is”. The Wall Street Journal said Netanyahu had essentially “pushed the administration aside”, reducing US officials to bystanders instead of their usual role as mediators.

Relations between Washington and Israel were already strained by the collapse of US-brokered peace talks earlier this year that Mr Obama’s administration had made a top foreign policy priority. In Jordan, the only Arab country apart from Egypt to sign a peace treaty with Israel, hundreds of demonstrators urged solidarity with the people of Gaza and called for the treaty to be revoked.

پاکستانی میڈیا: خبریں، رائے یا تحریک......

$
0
0

  ٹی وی چینلز اب نیوز اور ویوز چینلز نہیں رہے یہ پروپیگینڈہ چینل بن چکے ہیں۔ جیوگروپ حکومتی مہم کا حصہ جبکہ دیگر چار پانچ بڑے چینلز حکومت مخالف مہم کا حصہ بنے ہوئے ہیں ۔ 

پاکستان میں صحافی تنظیموں کے سرگرم کردار اور سینیئر صحافی مظہر عباس بھی بحث مباحثے کے پروگراموں میں شریک ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے ’مجموعی میڈیا تو نہیں لیکن میڈیا کا ایک حصہ ایسا ضرور ہے جس کی کوریج سے اس کی خواہشات کا عکس نظر آ رہا ہے اس کے علاوہ میڈیا کا ایک حصہ حکومت کے موقف کا حمایتی نظر آتا ہے جو اس مارچ کو اس نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کہ شاید یہ جمہوریت کو نقصان پہنچانے جا رہے ہیں۔ 
  کروڑ آبادی پر مشتمل ملک کے ایک حصہ میں جاری اس تحریک کو بعض صحافتی ادارے اور صحافی اہم سیاسی واقعہ یا مسئلہ بھی قرار دیتے ہیں جن میں مظہر عباس بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس مارچ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد شریک ہے جسے نظر اندز نہیں کیا جا سکتا۔

 مجموعی میڈیا تو نہیں لیکن میڈیا کا ایک حصہ ایسا ضرور ہے جس کی کوریج سے اس کی خواہشات کا عکس نظر آ رہا ہے اس کے علاوہ میڈیا کا ایک حصہ حکومت کے موقف کا حمایتی نظر آتا ہے جو اس مارچ کو اس نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کہ شاید یہ جمہوریت کو نقصان پہنچانے جا رہے ہیں۔ 
اس مارچ سے قبل نیوز چینلز پر حکومت کی اشتہاری مہم بھی سامنے آ گئی لیکن ماضی کے برعکس تحریکِ انصاف اور طاہر القادری کی اشتہاری مہم کہیں موجود نہیں۔

سینیئر صحافی ضیاالدین احمد کہتے ہیں  یہ چینلز کسی نہ کسی سے تو پیسے لے رہے ہیں کیونکہ راؤنڈ دی کلاک یعنی چوبیس گھنٹے نشریات وہ بھی بغیر کمرشل بریک۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انھیں کوئی نہ کوئی پیسے دے رہا ہے کیونکہ یہ نقصان اٹھانے والوں میں سے تو نہیں یہ بزنس مائینڈ لوگ ہیں۔‘
وفاقی اردو یونروسٹی کے شعبۂ ابلاغِ عامہ کے صدر ڈاکٹر توصیف احمد کا خیال ہے کہ ایسا لگ رہا ہے جیسے فوج میڈیا کے پیغام کو کنٹرول کر رہی ہے اور ایک مخصوص قسم کا پیغام دیا جا رہا ہے جو جمہوری نظام کے خلاف ہے۔
 پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں میڈیا کے پیغام کو کنٹرول کرنے کی اتنی کوشش نہیں کی گئی جتنی اس کے بعد کی جا رہی ہے۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو میمو سکینڈل، ریمنڈ ڈیوس، ایبٹ آْباد آپریشن یا سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے وقت اس میڈیا کنٹرول پالیسی میں شدت آئی جو حکومت کی تبدیلی کے بعد بھی جاری ہے۔ 

  یہ چینلز کسی نہ کسی سے تو پیسے لے رہے ہیں کیونکہ راؤنڈ دی کلاک نشریات وہ بھی بغیر کمرشل بریک۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انھیں کوئی نہ کوئی پیسے دے رہا ہے کیونکہ یہ نقصان اٹھانے والوں میں سے تو نہیں یہ بزنس مائینڈ لوگ ہیں۔ 
 
ڈاکٹر توصیف کا کہنا ہے کہ اس کنٹرولڈ پالیسی کا مقصد یہ ہی ہے کہ رائے عامہ کو یہ تاثر دیا جائے کہ جمہوری نظام کمزور ہے اور سیاسی حکومتیں مسائل حل نہیں کر پا رہی ہیں اور صرف فوج ہی یہ مسئلے حل کر سکتی ہے اسی وجہ سے ہی ایک خصوصی پیغام کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
سینیئر صحافی مظہر عباس کا موقف ڈاکٹر توصیف سے مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نہیں کہا سکتا کہ میڈیا کنٹرولڈ ہے لیکن اس پر میڈیا ہاؤسز کے مفادات کا عکس ضرور نظر آتا ہے اس لحاظ سے تو کہہ سکتے ہیں کہ انتظامی کنٹرول ہے نہ کہ ادارتی کیونکہ پاکستان میں صحافیوں کو ادارتی آزادی حاصل نہیں جس طرح دیگر ممالک میں ہے۔

پاکستان میں جو نیوز چینلز نظر آتے ہیں یہ دراصل انفوٹینمنٹ چینلز ہیں۔
سینیئر صحافی ضیالدین احمد جو ملک کے نامور انگریزی اخبارات کے مدیر رہے چکے ہیں، کہتے ہیں کہ اب نیوز اور ویوز کی پالیسی مالکان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ مالکان جن کا اس پیشے سے کوئی تعلق نہیں وہ مہم کو ڈکٹیٹ کر رہے ہیں۔
 پیشہ ور صحافی آج کل نوکریاں کر رہے ہیں کیونکہ آج کل نوکریاں ملنا مشکل ہوتا ہے اور اتنی بڑی بڑی تنخواہیں لینے کے بعد اگر کوئی مستعفی ہو کر گھر چلا جائے تو بہت بڑا مسئلہ ہو جاتا ہے اسی لیے شاید پیشہ ور صحافیوں نے 
بھی سمجھوتے کرنا شروع کر دیے ہیں۔ 

ریاض سہیل 

Naval cadets are seen to mark the country's Independence Day in Karachi

$
0
0
Naval cadets are seen on parade as they march at the mausoleum of Pakistan's founding father Muhammad Ali Jinnah during a ceremony to mark the country's Independence Day in Karachi.

غزہ کے خون نے اسرائیل کو کیسے رسوا کیا؟........

$
0
0



غزہ فلسطین پر وحشت ناک اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ ایک بارپھرملبے کا ڈھیر بنا، اب تک اس کے دوہزار سے زائد شہری شہید اور نوہزار زخمی ہوئے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیاکہ انھوں نے اہداف حاصل کرلئے۔ حماس کے ترجمان سمیع ابوزہری کہتے ہیںکہ اسرائیل غزہ میں 100فیصد ناکام رہاہے۔کس کا دعویٰ درست ہے ، یہ اہم ترین سوال ہے ۔ اسرائیلی وزرا کے بیانات دیکھیں تو اسرائیلی فوجی ترجمان کا دعویٰ غلط ثابت ہوتاہے۔ ظاہر ہے اسرائیلی وزرا حقیقت سے آنکھ چرا نہیں سکتے جبکہ فوج کا مسئلہ نوکری بچاناہے۔

اسرائیلی وزیرانصاف زیپی لیونی نے دوران جارحیت اعتراف کیا کہ اسرائیل کوسنگین حالات اور بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان کا سامنا ہے۔تین روزہ جنگ بندی کے بعداسرائیلی وزیر سیاحت عوزی لانڈو نے بیان دیاکہ اسرائیلی فوج اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ان کے بقول:’’ ہم غزہ کی پٹی میں ایک اسٹرٹیجک معرکہ میں ہار چکے ہیں۔

اسرائیلی فوج کی مدمقابل کو ڈرانے کی صلاحیت ڈرامائی طور پر تبدیل( کم) ہوئی ہے، اسرائیل نے غزہ پر زمینی، فضائی اور بحری حملے کئے لیکن وہ حماس کا زور توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اسرائیلی وزیر سیاحت کے بقول اب فوج حماس کے ساتھ فیصلہ کن لڑائی میں پس و پیش کر رہی ہے۔ اخبار لکھتاہے کہ لانڈو بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت پرسخت غم زدہ تھے۔
حالیہ جارحیت کے بعد سامنے آنے والے ابتدائی اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق غزہ کی جنگ کے اخراجات9 کھرب اسرائیلی شیکل سے بڑھ چکے ہیں۔ ایک طرف یہ بھاری بھرکم جنگی اخراجات، دوسری طرف معاشی نقصان۔ سب سے زیادہ نقصان سیاحت کے شعبے کو پہنچا۔’نیوز ون‘ نامی پورٹل نے دعویٰ کیا ہے کہ سیاحت کے شعبے میں فضائی کمپنیوں کی پروازوں اور اس سے قبل ہوٹلوں میں کنفرم بکنگ کی منسوخی کے باعث اسرائیلی معیشت کو 2.2 کھرب کا نقصان پہنچا۔غزہ پر اسرائیلی حملے کے باعث صنعتی سرگرمیاں ماند پڑنے سے 445 ملین شیکل کا نقصان پہنچا۔

جنوبی اسرائیل میں واقع فیکٹریوں میں کام بند رہا، ملازمین راکٹ حملوں کے باعث کام پر نہیں آسکے۔ ایسی صورتحال غزہ سے 40کلومیٹر دور اسرائیلی علاقے کے اندر قائم صنعتی زون میں بھی دیکھنے کو آئی، وہاں قائم انڈسٹری کو 180 ملین شیکل جبکہ اسرائیل کے وسطی علاقے سے حیفا تک موجود صنعتی اداروں کو بھی غزہ جنگ کی وجہ سے 220 ملین شیکل خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ راکٹ باری سے کل 350 (کاروباری اور رہائشی )عمارتیں متاثر ہوئیں، ان کی مرمت پر 50 ملین شیکل لاگت آئے گی۔ جنوبی ریجن میں غزہ جنگ کے باعث عمومی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ 500 ملین شیکل لگایا گیا۔
اسرائیلی فوج کے ایک اعلی عہدیدار نے اعتراف کیا ہے کہ اگر ان کی پیادہ اور آرمڈ انفنٹری کو اسرائیلی فضائیہ کے ایف سولہ، ایف پندرہ طیاروں سمیت ہیل فائر میزائلوں سے لیس جاسوسی طیاروں کا کور حاصل نہ ہوتا تو وہ غزہ میں ایک ملی میٹر تک بھی اندر آنے کی جرات نہ کرتے۔ اسرائیل میں گرما گرم خبروں کی اشاعت کے لئے مشہور متعدد ویب پورٹلز نے اسرائیلی فوجی افسر کا یہ بیان جلی سرخیوں میں شائع کیاکہ پیادہ اسرائیلی فوج کے غزہ میں داخلے سے ایف سولہ اور ایف پندرہ طیاروں نے ایک سے ڈیڑھ ٹن وزنی بم گرا کر غزہ کی عمارتیں تباہ کیں۔
یہ عمارتیں اسرائیل غزہ سرحد پر واقع تھیں، اس کے بعد صہیونی فضائیہ نے مختلف طرز کے لڑاکا طیاروں کی مدد سے علاقے میں 250 کلوگرام وزنی بم گرائے۔ اتنے بڑے پیمانے پر بمباری کے بعد بھی پیدل فوج کے سورمائوں نے اس خوف سے غزہ کے علاقے میں پیش قدمی نہیں کی کیونکہ انہیں خوف تھا کہ کسی زیر زمین سرنگ سے القسام بریگیڈ کاکوئی مجاہد نکل کر انہیں ہلاک نہ کر دے۔
  
 فضائی بمباری کے بعد اسرائیلی فوجیوں کو غزہ کی جانب پیش قدمی کا حوصلہ ہوا۔ زمینی کارروائی کی سست روی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ٹینک تین میٹر کا فاصلہ تین تین گھنٹوں میں طے کرتے کیونکہ انہیں مسلح فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے بچھائی جانے والی سرنگوں کی موجودگی کا خوف لاحق تھا۔ فوجی عہدیدار کے بقول :’’ہمیں فضائی مدد حاصل نہ ہوتی تو غزہ سے ہمارا ایک بھی فوجی زندہ سلامت واپس نہ آتا‘‘۔
مقبوضہ فلسطین میں سدیروت شہر کے اسرائیلی میئرمسٹر ڈیویڈ نے صہیونی وزیردفاع موشے یعلون پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کے بالمقابل یہودی کالونیوں اور دیگراسرائیلی شہروں کو فلسطینی راکٹ حملوں سے بچانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی میئر آلون ڈفیڈی نے سوشل میڈیاکی ویب سائٹ پر پوسٹ میں موجودہ حکومت اور فوج کی کارکردگی پر بھی عدم اطمینان ظاہر کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے:’’یہودی آباد کاروں کو فلسطینی راکٹوں سے دفاع کے لیے جس نوعیت کے دفاعی اقدامات کی ضرورت تھی، حکومت نے نہیں کئے۔ غزہ کی پٹی سے ایک مرتبہ پھر راکٹ حملوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل کی ایک ماہ کی مسلسل بمباری کے باوجود فلسطینی مزاحمت کار پرعزم ہیں۔ مزاحمت کاروں کا انفراسٹرکچر تباہ کرنے اور ان کی کمر توڑنے کے اسرائیلی دعوے قطعی بے بنیاد ثابت ہوئے ہیں۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کو اسرائیلی فوج کے حملوں کا خوف نہیں ہے۔ وہ پوری آزادی اور بے باکی کے ساتھ اسرائیلی کالونیوں پر راکٹ حملے کرکے یہ ثابت کررہے ہیں کہ فلسطینی مزاحمتی طاقت اب بھی مضبوط ہے‘‘۔

حماس کے ہاتھوں اپنے ڈیڑھ سو سے زائد فوجی ہلاک کرانے کے بعد صہیونی قیادت کیلئے یہ بات بہت پریشان کن ہے کہ وہ گزشتہ چندبرسوں سے بین الاقوامی محاذ پر مسلسل تنہائی کا شکار ہورہی ہے۔ بالخصوص 2010ء میں فریڈم فلوٹیلا کے واقعے کے بعد یہ تنہائی شدت اختیارکرگئی۔31مئی2010ء کو جب ترکی کی طیب اردگان حکومت کے تعاون سے ’فری غزہ موومنٹ‘ نے غزہ کے محصور ومظلوم لوگوں کیلئے امدادی سامان بھیجنے کی کوشش کی تو اسرائیل نے آزاد

پانیوں سے گزرنے والے اس بحری جہاز پر حملہ کردیا اور 9امدادی کارکنوں کو گولیوں سے بھون ڈالا جبکہ زخمیوں کی تعداد درجنوں میں تھی۔
بعدازاں سب کارکن گرفتارکرلئے۔ ان کارکنوں میں ترکی اور مختلف مغربی مماک کے ارکان پارلیمان بھی تھے اور انسانی حقوق کے کارکنان، امدادی اداروں سے وابستہ لوگ بھی۔ اس واقعے کے نتیجے میں اسرائیل کو ترکی کے شدید غیظ وغضب کا سامنا کرناپڑا۔ مغربی ممالک نے بھی اسرائیل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ، انھوں نے غزہ کے محصورین کے حق میں آواز بلند کی۔ بعدازاں ان آوازوں میں اضافہ اور شدت پیدا ہوتی گئی۔

حالیہ اسرائیلی جارحیت کے بعد مسلم دنیا کے علاوہ غیرمسلم ممالک میں بھی فقیدالمثال احتجاج دیکھنے کو ملا۔ جارحیت کی سب سے پر زور اور شدید مذمت لاطینی امریکی رہنماؤں نے کی۔ سب سے سخت علامتی احتجاج بائیں بازو کے رہنما اور بولیویا کے صدر ایوو مورالیس کی طرف سے سامنے آیا۔ انہوں نے اسرائیل کو نہ صرف ’دہشت گرد ریاستوں‘ کی فہرست میں شامل کیا بلکہ اپنے ملک میں تمام اسرائیلیوں کیلیے ویزا فری انٹری جیسی سہولت بھی ختم کر دی۔
برازیل کی خاتون صدر ڈلما روسیف نے غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی آپریشن کو ’قتل عام‘ قرار دیا۔ وینزویلا کے صدر نیکولس مادورو نے اسرائیلی آپریشن کو فلسطینیوں کے خلاف ’’تقریبا ایک صدی پر محیط قتل کی جنگ‘‘ قرار دیا۔ پورے خطے میں میکسیکو سے لے کر چلی تک فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہوئے۔ اس مرتبہ عرب ملکوں کی نسبت یورپ اور لاطینی امریکا میں ہونے والے اسرائیل مخالف احتجاجی مظاہرے زیادہ بڑے تھے۔

مغربی ممالک میں بھی سینکڑوں نہیں ہزاروں کے مظاہرے تھے، کسی ملک نے اسرائیل مخالف مظاہروں کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہ کی، صرف فرانسیسی حکومت نے ان مظاہروں پر پابندی عائد کی لیکن مظاہرین نے اسے ماننے سے انکارکردیا۔ بعدازاں حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔
امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، جرمنی، کینیڈا، فرانس، سپین، آئرلینڈ، بلجیم، ہالینڈ اور ڈنمارک میں احتجاج اس قدر بڑے پیمانے پر ہوا اور لوگ اس قدرغم وغصے میں تھے کہ یہاں یہودی معبدوں اور یہودی شہریوں کی سلامتی خطرے میں پڑگئی۔بعض ممالک میں یہودیوں کی املاک پر حملے ہوئے۔ ایکواڈور نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاجاً تل ابیب سے اپنا سفیر واپس بلا لیاتھا۔ایکواڈور کے وزیر خارجہ ریکارڈو پٹینو نے کہا کہ ہم غزہ پٹی میں اسرائیلی جارحیت کی کھل کر مذمت کرتے ہیں۔ امریکی جریدے لاس اینجلس ٹائمز نے لکھاہے کہ دنیا بھر میں یہودیوں کے خلاف نفرت کا سبب غزہ پر اسرائیلی حملے ہیں۔
اسرائیل میں ڈھائی ہزار قدامت پرست یہودیوں اور اسرائیلی عربوں نے غزہ پر وحشیانہ مظالم کے خلاف احتجاج کیا۔لندن سمیت دیگرکئی مغربی شہروں میں بھی کم یا زیادہ تعداد میں یہودی سڑکوں پر نکلے اور انھوں نے کہا کہ صہیونی حکومت جو کچھ کررہی ہے، وہ ان کی مذہبی تعلیمات کا عکاس نہیں ہے۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کے اندر بھی صہیونی پالیسیوں کو مسترد کیا گیا ہے۔ اسی طرح اسرائیل دوست ممالک میں بھی اس کے حامی لوگ تیزی سے مخالف ہورہے ہیں۔

امریکیوں کی نئی نسل اسرائیل کی حامی نہیں ہے۔ رائے عامہ کاجائزہ لینے والے ادارے’ گیلپ‘ کے مطابق 18 سے 29 سال کی عمر کے امریکی نوجوانوں کی50 فیصد سے زائد تعدادسمجھتی ہے کہ اسرائیل جو کچھ کررہا ہے ، اس کا کوئی جوازنہیں ہے۔ ان کے مقابلے میں ایسے نوجوان جو اسرائیلی اقدامات کے حامی ہیں، کی تعداد 25 فیصد بھی نہیں۔
  سے 49 برس کے امریکیوں میں43 فیصد اسرائیلی پالیسیوں کو ناجائز سمجھتے ہیں جبکہ اسی کیٹاگری میں جائز قراردینے والے امریکیوں کی شرح36 فیصد ہے۔ پچاس سال یا اس سے زائد عمر کے امریکیوں میں اکثریت اسرائیل کی حامی ہے لیکن اس اکثریت کو ’’بمشکل اکثریت‘‘ کہنا پڑے گا۔ 50 سے 64 برس عمر کے52 فیصد لوگ اسرائیل کی حمایت کرتے ہیںجبکہ 29 فیصد مخالفت۔ 65 سال سے زائد عمر کے54فیصد امریکی اسرائیل کے حامی ہیں جبکہ 29 فیصد مخالف۔ یادرہے کہ یہ سروے اسرائیل کی غزہ پر جارحیت سے قبل کیا گیا تھا۔
امریکا کے سیاسی طبقات میں اسرائیل کی حمایت اور مخالفت کاجائزہ لیاگیاتو ری پبلیکن پارٹی کے زیادہ تر لوگ اسرائیل کے پلڑے میں وزن ڈالتے ہیں جبکہ ڈیموکریٹس میں زیادہ تر اسرائیل مخالف ہیں، آزاد بھی ڈیموکریٹس جیسا رجحان رکھتے ہیں۔ ری پبلیکن پارٹی میں65فیصد لوگ اسرائیل کے اقدامات کے حامی ہیں جبکہ21فیصد مخالف۔ ڈیموکریٹس میں31فیصد اسرائیل کے حامی جبکہ 47فیصد اس کی پالیسیوں کے مخالف ہیں۔ آزاد میں بھی48فیصد لوگ مخالف جبکہ 21فیصد اسرائیلی اقدامات کے حامی ہیں۔

دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتی مخالفت کے علاوہ بہت سے دیگر پہلو ہیں جو اسرائیلی ناکامیوں کونمایاں کررہے ہیں۔ مثلاً ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اسرائیل خطے میں مصر کے مفیدکردار سے محروم ہوگیاہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا اور اس کے ساتھ مختلف معاہدات میں بندھا ہوا مصر اسرائیلی مفادات کو مدنظررکھتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے لئے کردار اداکرتارہا۔ تاہم حسنی مبارک کے اقتدارکے ساتھ ہی یہ باب بند ہوگیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اسرائیل حسنی مبارک کے خلاف تحریک کے دنوں خاصا پریشان رہا۔
بعدازاں نئے مصری صدر ڈاکٹرمحمد مرسی نے مصر کا کردار مکمل طورپر تبدیل کردیا۔ انھوں نے اسرائیل کے لئے رعایات وغیرہ ختم کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹرمرسی ان دنوں جیل میں مقدمہ بھگت رہے ہیں۔ ان کا تختہ الٹنے والے فوجی جرنیل سیسی نے مصرکے پرواسرائیل کردار کو نہ صرف بحال کردیا بلکہ حسنی مبارک دورکی نسبت زیادہ مضبوط کردیاہے۔

اسرائیل کی حالیہ وحشیانہ جارحیت شروع ہونے کے بعد جب اسرائیل کو القسام بریگیڈ کی طرف سے ٹف ٹائم ملنے لگاتو مصر نے (اسرائیل کے ایما پر ) اس اندازمیں جنگ بندی کی ایسی تجاویزپیش کیںجو اسرائیلی مفادات کی محافظ تھیں۔ حماس نے مصری تجاویز کو ماننے سے صاف انکارکردیا۔حماس نے مصرکو ناقابل اعتبار قرار دیا تو امریکا اور اسرائیل نے جنگ بندی کے لیے مصر کا متبادل ثالث تلاش کرناشروع کردیا۔ اس سلسلے میں ترکی اور قطر سے رابطہ کیاگیا۔ ترکی اور قطر پرو اسرائیل نہیں، اس لئے مصر جیسے دوست کا فلسطینیوں کے نزدیک غیرمعتبر ہونابھی اسرائیل کابڑا نقصان ہے۔

چلتے چلتے اس سوال کا جواب اس رپورٹ سے لے لیجئے کہ آگے کیاہونے والا ہے؟ غزہ پر12 جولائی 2014ء کو شروع ہونے والی وحشیانہ جارحیت کے مستقبل کے حوالے سے اسرائیلی فوج اور حکومت میں واضح تقسیم نظرآ رہی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاھو کی انتہا پسند کابینہ کی خواہش تھی کہ غزہ کی پٹی پر مستقل قبضہ کر لیا جائے اور علاقے کے تمام اہم مقامات پر فوج تعینات کر دی جائے لیکن فوج نے کابینہ کو بتایا کہ غزہ کی پٹی پر مستقل قبضہ اتنا آسان نہیں جتنا حکومت نے سوچ رکھا ہے۔کابینہ میں ہونے والی بحث کے منظرعام پرآنے پربھی اسرائیلی حکومت سخت پریشانی میں مبتلا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ راز خود وزیراعظم کے دفتر سے ا ن کی ہدایت کے مطابق ہی افشا ہوئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق حال ہی میں اسرائیلی کابینہ میں غزہ کی پٹی میں مستقل بنیادوں پر فوج داخل کیے جانے کے معاملے پر بحث چل رہی تھی۔ اس دوران محکمہ دفاع، فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی جانب سے غزہ پر مستقل قبضے کے مضمرات کے حوالے سے رپورٹس پیش کی گئیںکہ غزہ کی پٹی پرایک مرتبہ پھرسے قبضہ نہایت مشکل اور اسرائیل کیلیے تباہ کن ثابت ہوگا، کیونکہ غزہ کے تمام مقامات تک فوج کا کنٹرول قائم کرنے کے لیے پانچ سال کا عرصہ لگے گا۔ اس عرصے میں اسرائیلی فوج کو کم سے کم 20 ہزار فلسطینی گوریلا جنگجوؤں کو ختم کرنا ہوگا۔

نتیجے میں اسرائیل کو اپنے ہزاروں فوجیوں اور سویلینز کی قربانی بھی دینا ہوگی۔ مصر اور اردن کے ساتھ امن معاہدے کھٹائی میں پڑ جائیں گے جبکہ معاشی میدان میں ہونے والا نقصان اس کے علاوہ ہوگا۔ فی الوقت اس خسارے کا تخمینہ نہیں لگایا جا سکتا تاہم یہ کھربوں ڈالر ہوسکتا ہے۔ رپورٹس کے مطابق اگراسرائیل غزہ کی پٹی پر مستقل قبضہ کرتا ہے توغزہ کی پٹی میں مزید تباہی پھیلے گی اور ہزاروں فلسطینی شہید اور لاکھوں زخمی اور بے گھر ہوسکتے ہیں۔
سینکڑوں اسرائیلی فوجی اغواء کیے جاسکتے ہیں۔ فلسطینی شہریوں کی ہلاکتوں میں غیرمعمولی اضافہ اسرائیل کو عالمی برادری میں مزیدتنہا کردے گا کیونکہ چوبیس روز تک جاری رہنے والی لڑائی میں اسرائیل کے کئی دوست ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر اسرائیلی معیشت کا بائیکاٹ کیا گیا، جس نے اسرائیلی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسرائیل کو غزہ کی پٹی میں دھماکہ خیز مواد تلف کرنے اور بارودی سرنگوں اور زمین دوز بنکروں کے خاتمے میں بھی بھاری قیمت چکانا ہوگی۔

اسرائیلی محکمہ دفاع کی رپورٹ بتاتی ہے کہ غزہ کی پٹی پر مستقل قبضے کے لیے لڑائی کے دوران اور اس کے بعد مقبوضہ مغربی کنارا، 1948ء کی جنگ میں اسرائیل کے زیرتسلط آنے والے علاقوں اور دیگر فلسطینی شہروں میں اسرائیل کے خلاف شدید رد عمل سامنے آئے گا۔ یہ رد عمل اسرائیل کے خلاف مسلح تحریک کی شکل بھی اختیار کرسکتا ہے۔
اگر فلسطینیوں نے اسرائیل کے خلاف مسلح بغاوت شروع کردی تو اس کے نتیجے میں فلسطین کے چپے چپے پرآباد کیے گئے یہودی آباد کاروں کی جانیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ اس لیے حکومت غزہ کی پٹی کے تمام علاقوں میں فوج داخل کرنا اور مستقل قبضہ چاہتی ہے تو اسے یہ تمام حالات سامنے رکھنا ہوں گے۔ ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ سیکیورٹی اداروں کی حقائق پر مبنی رپورٹس کے بعد صہیونی کابینہ خوف کا شکار ہوگئی اور اس مخمصے میں مبتلا تھی کہ آیا وہ غزہ کی پٹی کے مستقبل کے حوالے سے کیا فیصلہ کرے۔ یوں کابینہ میں دیکھاجانے والامستقل قبضہ ایک ڈراؤنا خواب بن کر رہ گیا۔

بین الاقوامی کھلاڑیوں نے بھی درد محسوس کیا

عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی بھی غزہ پر اسرائیلی جارحیت سے لاتعلق نہ رہے۔ گولڈن بوٹ حاصل کرنے والے کرسٹینا رونالڈو نے فلسطینی بچوں کو پندرہ لاکھ یورو عطیہ دیا۔ یہ گولڈن بوٹ انھیں سن2011ء میں ملا تھا۔ انھوں نے عطیہ رئیل میڈرڈ فائونڈیشن کی وساطت سے غزہ کے سکولوں کو دیاہے۔ یادرہے کہ رئیل میڈرڈ فائونڈیشن دنیا بھر کے 66ممالک کے 167سکولوں کی امداد کررہی ہے۔ رونالڈو نے گزشتہ برس بھی غزہ کیلئے امداد دی، انھوں نے اپنے متعدد سپورٹس شوز نیلام کئے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی غزہ بھجوائی تھی۔ اس طرح رونالڈو تاریخ میں پہلے عالمی فٹ بالر ہیں جو اہل غزہ کی امداد کررہے ہیں۔

یہ وہی رونالڈو ہیں جنھوں نے حالیہ ورلڈکپ کے کوالیفائنگ رائونڈ میں اسرائیل کے ساتھ میچ کے بعد اسرائیلی کھلاڑی کے ساتھ اپنی شرٹ تبدیل کرنے سے انکارکردیاتھا۔ انھوں نے ایسا اسرائیل کی فلسطینیوں کے ساتھ درندگی کے خلاف احتجاج کے طور پرکیا۔ یادرہے کہ رونالڈو متعدد بار آزادفلسینی ریاست کے حامیوں کے ساتھ اپنی یکجہتی ظاہر کرچکے ہیں۔

برازیل میں ہونے والے فیفا ورلڈ کپ فٹ بال ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے والی الجزائر کی ٹیم نے بھی بونس میں ملنے والی رقم فلسطینیوں کو دیدی ۔ الجزائر کے کھلاڑی اسلام سلیمانی کاکہناتھا کہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں غزہ کے محصور فلسطینی ہم سے زیادہ اس رقم کے حق دار ہیں۔ یادرہے کہ الجزائر واحد عرب ملک ہے جس کی ٹیم نے برازیل میں ہونے والے فٹ بال عالمی کپ کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔

مغربی گلوکار بھی اسرائیل مخالف ہوگئے
مغربی دنیا کے عام لوگ ہی اسرائیل کی حمایت سے الگ نہیں ہوئے بلکہ خاص لوگ بھی تیزی سے اسرائیل مخالف طبقہ میں شامل ہورہے ہیں۔ ذرا! امریکی گلوکار واکا فلاکا فلیم کی ٹویٹ پڑھئے:’’ کس طرح میرے ملک کے بے غیرت حکمرانوں نے فلسطین پر مظالم توڑنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ اے خدا! اس ملک( فلسطین) کو طاقت عطافرما‘‘۔ اسی طرح معروف برطانوی موسیقار، گلوکار، نغمہ نگار اور میوزک کمپوزر راجرواٹرز نے کینیڈین گلوکار نیل ینگ کے نام ایک کھلے خط میں کہا کہ وہ تل ابیب میں اپنا شو منسوخ کردیں۔
ان کے بقول:’’ہمیں ان لوگوں بلکہ ان تمام بہادر لوگوں کا ساتھ دینا چاہئے جو فلسطین اور اسرائیل میں رہتے ہیں، جو اسرائیلی حکومتوںکی وحشیانہ پالیسیوں کی مخالفت کررہے ہیں۔ براہ کرم! مظلوم اور محروم لوگوں سے اظہاریکجہتی کیلئے میرا اور دنیا کے دیگربے شمار فنکاروں کا ساتھ دیجئے۔‘‘امریکی گلوکارہ ریحانہ کی اس ٹویٹ نے بھی خوب شہرہ حاصل کیا جس میں انھوں نے ’’فری فلسطین‘‘ لکھاتھا۔

ساتھ ہی انھوں نے ایک فلسطینی اور ایک اسرائیلی بچے کی تصویر لگائی جو ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے کھڑے تھے۔ ریحانہ نے لکھا:’’آئیے! امن اور تنازعہ فلسطین کے فوری خاتمے کیلئے دعا کریں۔‘‘ نہتے فلسطینیوں پر صہیونیوںکی سفاکی و بربریت کے خلاف امریکی پاپ گلوکارہ سلینا گومز بھی خاموش نہ رہ سکیں، انھوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر بیان لکھا:’’ انسانیت کا تقاضہ یہی ہے کہ اس وقت غزہ کیلئے دعا کی جائے جبکہ ان خاندانوں اور بچوں کیلئے بھی دعا کی جائے جواس جنگ کے نتیجے میں متاثر ہوئے ہیں‘‘۔
ہم ہار گئے: اسرائیلی میڈیا
اسرائیلی صحافی بن یامین دایان کے مطابق حماس، اسلامی جہاد اور دیگر جنگجو ملیشیاؤں نے امن کے دنوں میں آرام نہیںکیا بلکہ اسرائیلی فوج کا ہر شعبے میں مقابلہ کرنے کی تربیت حاصل کرتے رہے جن میں اینٹی ٹینکس راکٹوں کا استعمال، چھپ کر حملہ کرنے کی صلاحیت، سرنگوں کی مدد سے اسرائیل کے اندر گھس کر کارروائیاں اور سنائپر رائفلوں سے نشانہ بازی کی مشق کی۔
اسرائیلی جریدے ’ٹائمز آف اسرائیل‘ کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کو اپنے 60 فوجیوں کی ہلاکت کا تجزیہ کرنا ہوگا کہ آخر اسرائیلی انٹیلی جنس حماس جنگجوؤں کے الاقصیٰ اور عزالقسام بریگیڈ کی عسکری مہارت اور جنگی حکمت عملی کا درست اندازہ لگانے میں کیوں ناکام رہی؟ جریدے کے عسکری نامہ نگار ایوی شاؤل کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس جنگی حکمت عملی بنانے میں ناکام رہیں اور ان کا مرکزی ہدف عوامی مارکیٹیں، گھر، مساجد اور تعلیمی ادارے تھے جہاں حماس کے جنگجوؤں کے بجائے عام فلسطینی نشانہ بنے۔

اسرائیلی انٹیلی جنس کے حوالے سے فوجی کمانڈرز نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ جنگجوئوں اور ان کے کمانڈرز نے دوران جنگ موبائل فون کو ہاتھ تک نہیں لگایا اور کمیونیکیشن کیلئے جنگی کوڈ ورڈز میں بات چیت کی جس کی وجہ سے انٹیلی جنس اور سپیشل آپریشن فورس کے اہلکار حماس کے خلاف موثر کارروائیوں میں ناکام رہے۔ اسرائیلی جریدے ’یروشلم پوسٹ‘ کے مطابق حماس کے اعلیٰ کمانڈرز اور رہنماؤں کو قتل کرنے کیلئے بنائی جانے والی ٹاسک فورس ایک بھی حماس رکن یا کمانڈر کو گرفتار یا ہلاک کرنے میں ناکام رہی۔
صہیونی دفاعی تجزیہ نگار پروفیسراوری یار یوسف نے حماس کے مقابلے میں اپنے ملک کی جنگی صلاحیت پر شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں ڈر تھا، غزہ میںآپریشن میں حماس کے ہاتھوں صہیونی فوج کو بدترین شکست کا سامنا نہ کرنا پڑے کیونکہ فوج زمینی کارروائی کی متحمل نہیں تھی۔ اسرائیلی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ میں شائع ہونے والے اس تجزیہ میں بتایاگیاکہ غزہ جنگ کے بعد اسرائیلی فوج کی دفاعی صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ فوج کا رعب کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری فوج نہ صرف حماس کو شکست دینے میں ناکام رہی ہے بلکہ ہمیں تو یہ خوف تھا کہ حماس کے خلاف جنگ میں ہماری فوج تباہی سے دوچار نہ ہوجائے۔

دفاعی تجزیہ نگار نے جہاں اسرائیلی فوج کی جنگی صلاحیت میں کمزوری کا اعتراف کیا وہیں فلسطینی تنظیموں بالخصوص حماس کی عسکری صلاحیت کو بھی تسلیم کیا۔ انہوں نے کہا:’’ہمیں ایک ماہ کی طویل جنگ کے بعد یہ بات مان لینی چاہیے کہ ہماری فوج حماس کے مقابلے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ ہمیں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہماری دفاعی اور فوجی صلاحیت کے بارے میں جو خیالات اس سے پہلے ظاہر کیے جاتے رہے ہیں وہ سب غلط تھے۔
حماس کے مقابلے میں اسرائیلی فوج کی ناکامی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ہم نے حماس کے ٹھکانوں پر غیرمعمولی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے حملے کیے تاکہ حماس کے جنگجوؤں کی عسکری صلاحیت کو تباہ کیا جاسکے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایک ماہ کی طویل جنگ کے دوران حماس کے نیٹ ورک کو کتنا نقصان پہنچایا گیا ہے لیکن یہ واضح ہے کہ حماس نے اپنے معمولی ہتھیاروں کی مدد سے ہمارے تمام شہروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے فوجی اور عام شہریوں کو راکٹ حملوں کے ذریعے کامیابی سے نشانہ بنایا ہے۔ حماس کی یہ بھی بڑی کامیابی ہے کہ اس نے مقامی سطح پر ایسے راکٹ تیار کرلیے ہیں جو اسرائیل کے تمام شہروں تک مار کرنے کی صلاحیت 
رکھتے ہیں‘‘۔

اسرائیل جنگ ہارگیا: امریکی میڈیا

غزہ پر وحشیانہ جارحیت سے پہلے امریکا میں سابق اسرائیلی سفیر مائیکل اورن نے واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون لکھا، جس میں انھوں نے کہاکہ اب جنگ کو ایک موقع دیدیناچاہئے۔دراصل اس وقت تک اسرائیل میں یہ خیال مضبوط ہوچکاتھا کہ حماس کو حقیقتاً غزہ سے مکمل طورپر اکھاڑ پھینکناچاہئے۔ اسرائیلی سفیر اب تک حماس کا خاتمہ نہ ہونے کے اسباب کا تذکرہ کرتے ہوئے مذکورہ بالا حل پیش کررہے تھے۔ تاہم انھیں اور بہت سے دیگر اسرائیلی پالیسی سازوں کو اندازہ نہیں تھا کہ غزہ پر جارحیت کرکے حماس کا ایک فیصد بھی نقصان نہیں ہوسکے گا۔

حال ہی میں امریکا کے نہایت موقراخبار’’ واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے تجزیہ شائع کیاہے جس کا عنوان ہے:’’چاراسباب جن کی وجہ سے حماس کو غزہ کی جنگ میں شکست نہیں دی جاسکی‘‘۔ اخبارلکھتاہے کہ حماس کی شکست بہت دور کی بات ہے۔اس کے اسباب یہ ہیں:’’سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسرائیل میڈیا وار میں حماس سے شکست کھاگیاہے۔ اسرائیلی ڈیفنس فورس ٹویٹر پر حماس کے حربوں کو مختلف کارٹونوں اور تصاویر کے ذریعے دنیا کو دکھاتی رہی جبکہ جن تصویروں نے پوری دنیا میں کروڑوں لوگوں کو آنسوبہانے پر مجبور کیا، وہ عام فلسطینی عوام کی اسرائیلی میزائل حملوں اور بمباری میں ہلاکت کی تھیں۔
پورے کے پورے خاندان ان حملوں میں ہلاک ہوگئے، ان کے گھر مکمل طور پر ملبے کے ڈھیر بن گئے اور جن سکولوں میں بچوں نے پناہ لی تھی، ان پر بھی بمباری کی گئی۔ اب رائے عامہ کے جائزے ظاہر کررہے ہیں کہ اسرائیل مغرب کے اندر حتیٰ کہ امریکا کے اندر بھی حمایت سے محروم ہوچکاہے۔ بین الاقوامی قائدین نے اس کے تشدد کی مذمت کی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اسرائیلی جنگی جرائم کی بات کی ہے۔

آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں حماس کے راکٹ حملوں اور اس کی سرنگوں کی باتیں پر وہ سوالات غالب آجائیں گے جو اسرائیل کے اقدامات کے قانونی طور پرجائز یا ناجائز ہونے کے بارے میں اٹھ رہے ہیں۔ نقاد کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل نے جس قوت کا استعمال کیا، وہ غیرمتناسب تھی اور اسرائیل کو ’اجتماعی سزا‘ کے حوالے سے جواب دیناپڑے گا۔ یہ متعدد بین الاقوامی قوانین کی رو سے ناجائز ہے۔ ایک اسرائیلی صحافی عامرہ ہاس نے لکھاہے کہ’’اسرائیل کی اخلاقی شکست برسوں تک اس کا پیچھاکرتی رہے گی‘‘۔
حماس کی قیادت بخوبی آگاہ ہے کہ اسرائیل کو کون سی قیمت اداکرناپڑے گی۔ فلسطین کے سابق وزیراعظم اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کہتے ہیں:’’دنیا نے تباہی کی جو تصویر دیکھی ہے، وہ اسرائیلی فوج کی شکست اور بہادرمزاحمت کاروں سے لڑائی میں ناکامی کا ثبوت ہے‘‘۔اخبار لکھتاہے کہ حماس ایک ایسی تحریک ہے جو اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کررہی ہے۔ ہربار اسرائیل نے حماس کی گھاس کاٹنے کی کوشش کی لیکن آپریشن ختم ہونے کے بعد یہ گھاس پھرسے اگ آتی تھی۔

حالیہ آپریشن کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ حماس کی آپریشنل صلاحیتوں کو
 نقصان پہنچایا گیا، کمانڈ سنٹرز کو تباہ کیاگیا، حماس نے اسرائیل میں حملے کرنے کیلئے جو سرنگیں بنائی گئی تھیں، انھیں تباہ کردیاگیا اور حماس کے سینکڑوں جنگجوئوں کو ہلاک کردیاگیا۔ یہ بھی کہاگیا کہ حماس کا راکٹوں کا ذخیرہ بھی ختم کردیاگیاہے۔ واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے کہ حماس کو غیرمسلح کرنا ابھی بہت دور کی بات ہے، فی الحال اسرائیل کے عقابوں کو مصالحت کی ضرورت کو تسلیم کرناہوگا۔

ہفنگٹن پوسٹ بھی مانتاہے کہ اسرائیل غزہ میں لڑائی ہارگیاہے۔ یہ شکست اسی وقت ہوگئی تھی جب اسرائیل کے پہلے میزائل یا گولے نے ایک گھرکوتباہ کیا اور بہت سی خواتین ، بچوں اور معصوموں کو ہلاک کیا۔ ’اجتماعی سزا‘ کے جرم پر جب مستقبل میں عوام کی عدالت میں مقدمہ چلے گا تو اسرائیل کو کم ہمدرد جیوری کا سامنا کرناپڑے گا۔

عبید اللہ عابد

Struggling to survive in Gaza's ruins

$
0
0








Struggling to survive in Gaza's ruins

Yet another big score by Amla today, in Bulawayo. Noticed his recent numbers?

$
0
0
Yet another big score by Amla today, in Bulawayo. Noticed his recent numbers?

نیا پاکستان کیسا ہو گا؟.....

$
0
0


تو کیا 15 اگست بھی گزر گئی مگر تاحال ہم پُرانے پاکستان میں رہ رہے ہیں اور نیا پاکستان تعمیر نہیں ہو سکا۔ اب اس کا الزام پومی بٹ کو دیں جس نے پتھر مار کر آزادی مارچ کو ڈبل مارچ پر مجبور کر دیا یا پھر اس طوفانی بارش کو جس نے شرکاء کے حوصلے پست کر دیئے۔ ہفتہ کی صبح عمران خان خطاب کرنے کے بعد اپنی رہائش گاہ بنی گالہ چلے گئے اور شرکاء کو یہ پیغام دے گئے کہ ملتے ہیں ایک شارٹ بریک کے بعد۔ عمران خان گزشتہ 40 گھنٹوں سے مسلسل حالت سفر میں تھے، ایک پل بھی آرام نہیں کر سکے، جاوید ہاشمی بھی پیرانہ سالی کے باوجود موسلادھار بارش میں جم کر بیٹھے رہے، ان سب قائدین کو آرام کی شدید ضرورت تھی مگر ہوٹل جاتے وقت کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ اس رات بھر جو مرد و زن ان کی محبت میں جاگتے اور بھیگتے رہے، ان کا کیا ہو گا؟ وہ اس موسم میں کدھر جائیں گے؟ تبدیلی کے وہ خواہشمند جو اپنے بیوی بچوں کو لے کر آئے ہیں، ان کی جائے پناہ کیا ہو گی اور 3 بجے تک ان کا پرسان حال کون ہو گا؟ عمران خان کی باتیں بہت دلنشین اور خیالات بہت اعلیٰ و ارفع ہیں، ہم سب چاہتے ہیں کہ ایک نیا پاکستان بنے، جس میں حقیقی جمہوریت ہو، جہاں ایک دوسرے کا احترام ہو، کوئی کسی کا حق نہ مارے، سیاستدانوں کے دلوں میں مسیحائی کا جذبہ اور عوام کا درد ہو۔ شیخ رشید کے بقول ایسا نہ ہو کہ اپنا بچہ روئے تو دل میں درد ہو اور غریب کا بچہ روئے تو سر درد ہو۔ لیکن گفتار سے قطع نظر جب میں نیا پاکستان بنانے والوں کے کردار کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں ،یہ پُرانا پاکستان ہی ٹھیک ہے۔

شیخ رشید کا ولولہ انگیز خطاب جاری تھا تو ان کے ایک جملےنے میری توجہ اپنی طرف مبذول کرائی، وہ فرما رہے تھے، قوم کے ساتھ 65 سال کے دوران کئی مرتبہ دھوکے ہوئے ہیں۔ میں نے ان کے اس ادھورے جملے کو یوں مکمل کیا کہ قوم کے ساتھ کئی مرتبہ دھوکے ہوئے ہیں اور میں ہر بار دھوکہ دینے والوں کے ساتھ رہا ہوں۔ بس پھر کیا تھا پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا گینگ نے گالیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ میرے ہم عصر کالم نگار، اینکر اور رپورٹر تو ایک عرصہ سے اس حسن سلوک سے مستفید ہو رہے ہیں مگر مجھے پہلی بار ان گالیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ دن بھر فیس بک اور ٹوئٹر پر مارچ کے شرکاء کی تعداد کے حوالے سے تبصرے ہوتے رہے، میں نے اپنی طرف سے تو تاحال کوئی رائے نہیں دی البتہ جب مختلف چینلوں، خبررساں اداروں اور دیگر ذرائع سے کوئی تخمنیہ آتا اور میں اسے شیئر کرتا تو عمران خان کے متوالے مشتعل ہو جاتے۔ مغرب کے بعد وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے ایک رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لاکھوں افراد یہاں موجود ہیں، لاکھوں عمران خان کے ساتھ آ رہے ہیں۔ میں نے ان کا یہ جملہ ہو بہو بغیر کسی تحریف یا تبصرے کے شیئر کیا تو ایک بار پھر طوفان بدتمیزی بپا ہو گیا، شائد ایسا کرنے والوں کو بھی اس کا ادراک تھا کہ یہ دعویٰ مضحکہ خیز ہے مگر وہ اس پر اصرار کرتے رہے۔ جلسہ شروع ہوا تو پہلے مقرر ہی شیخ رشید تھے جنہوں نے مبالغہ آرائی کی تمام حدیں عبور کرتے ہوئے کہہ دیا کہ یہ ملین نہیں بلین مارچ ہے، دس ملین یعنی ایک کروڑ افراد موجود ہیں۔ تعجب ہے جب جلسہ ختم ہوا تو یہ ایک کروڑ افراد ایک گھنٹے سے پہلے منتشر ہو گئے۔ اس جلسے کی حاضری توقعات سے بہت کم تھی۔ سرکاری ادارے تو کہتے ہیں کہ 15 سے 20 ہزار افراد تھے لیکن بہت فراخدلی سے تخمینہ لگایا جائے تو بھی اس جلسے کے شرکاء کی تعداد 40 ہزار سے زائد نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو دوبارہ شرکت کے لئے اپیل کرنا پڑی اور یہ کہنا پڑا کہ لاہور سمیت پنجاب کے کئی علاقوں سے قافلے اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔

عمران خان بیشک دھرنے کے زور پر اس حکومت کو بھگائیں اور نیا پاکستان ضرور بنائیں مگر اتنا تو بتائیں کہ کیسا ہو گا یہ نیا پاکستان؟ کیا خد وخال ہوں گے اس نئے پاکستان کے؟ کیا اس نئے پاکستان میں بھی امیر غریب، اور حکام عوام کی تفریق برقرار رہے گی؟ کیا اس نئے پاکستان میں قوم کا قائد عوام کو برستی بارش میں بھیگتا حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنی رہائش گاہ میں خواب خرگوش کے مزے لینے چلا جائے گا؟

کیا اس نئے پاکستان میں یہ ہو گا کہ طبقہ اشرافیہ کے لوگ تو پنج تارہ ہوٹلوں کے آرام دہ کمروں میں محو استراحت ہوں اور غریب غرباء سڑکوں پر بے یار و مددگار پھرتے رہیں؟ کیا اس نئے پاکستان میں صوبائی دارالحکومت بارش اور طوفان کی زد میں ہو گا،چھتیں گرنے کے واقعات میں لوگ مر رہے ہونگے،سڑکوں اور گلیوں میں کئی کئی فٹ پانی جمع ہو گا، لاکھوں بے گھر افراد امداد کے منتظر ہوں گے تو اس صوبے کا وزیر اعلیٰ اپنی کابینہ کے ہمراہ اسلام آباد میں گھوم رہا ہو گا؟ کیا ایسا ہی ہو گا نیا پاکستان جس میں عوام دکھ اور کرب کا شکار ہوں گے تو قائدین جشن طرب منا رہے ہونگے؟ کیا اس نئے پاکستان میں کہ مکرنیوں کا یہی عالم ہو گا کہ جس شخص کے بارے میں آپ کہا کرتے تھے، میں اسے چپراسی بھی نہ رکھوں، آج اسے اپنے ساتھ اسٹیج پر بٹھاتے اور انقلابی تقریریں کرواتے ہیں؟

کیا اس نئے پاکستان میں دروغ گوئی کا یہی عالم ہو گا کہ چند ہزار افرادکے مجمع کو لاکھوں نہیں، کروڑوں افراد کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر قرار دیا جائے؟ کیا اس نئے پاکستان میں تمام تر فیصلے سڑکوں پر ہوا کریں گے اور یہی دستور ہو گا کہ جو شخص لانگ مارچ کرنے میں کامیاب ہو جائے،پہلے موجود حکومت کا تختہ الٹ کر اسے وزیر اعظم بنا دیا جائے؟ کیا اس نئے پاکستان میں عدم برداشت اور حقائق سے چشم پوشی کا یہی عالم ہو گا کہ جو کوئی بھی آئینہ دکھانے یا سچ بتانے کی کوشش کرے گا ،اسے گالیوں سے نوازا جائے گا؟ یہ طفلان انقلاب کیا انقلاب لائیں گے جو تنقید سننے کو تیار نہیں۔ نیا پاکستان ضرور بنائیں لیکن پہلے اپنی صفوں میں تبدیلی لائیں۔ اپنے نونہلان انقلاب کو اخلاقیات سکھائیں، اپنی پارٹی میں جمہوری رویئے لائیں، اپنی ذات اور اپنے مزاج سے تکبر و نخوت نکال کر خود کو شاہانہ مزاج سے پاک کریں، عوام کے سامنے ثابت کریں کہ عمران خان اپنے موقف پر قائم رہتا ہے، لوگوں کو یہ باور کرائیں کہ جب بھی کوئی کڑا وقت آئے گا وہ قوم کے ساتھ کھڑے ہوں گے، ساتھ جئیں گے ساتھ مریں گے۔ لوگ واقعی اس نظام سے تنگ ہیں، روائتی سیاستدانوں سے عاجز ہیں، تبدیلی کے لئے ترس رہے ہیں اور تبدیلی کا لالی پاپ دینے والے ہر شخص کے ساتھ چل بھی پڑتے ہیںلیکن آپ ثابت تو کریں کہ آپ روائتی سیاستدانوں سے مختلف ہیں۔ لوگ آپ کو سر آنکھوں پر بھی بٹھائیں گے اور وزیر اعظم بھی بنائیں گے، پہلے اپنی اہلیت تو ثابت کریں۔ سب کے سب اس پرانے پاکستان سے تنگ ہیں اور تبدیلی چاہتے ہیں لیکن بتائیں تو سہی نیا پاکستان پہلے والے سے کتنا مختلف ہو گا؟

محمد بلال غوری
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ 


آپ ایک اور نیند لے لیجے.......

$
0
0


انیس سو چونتیس میں نہ تو اس طرح سے پکی سڑکیں تھیں، نہ آرام دہ موبائل ٹرالرز، نہ بلٹ پروف جیکٹس، نہ موبائل فون، انٹرنیٹ، ٹی وی چینلز یا پھر ریڈیو۔ پھر بھی ماؤزے تنگ اور ان کے ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ چیانگ کائی شیک کے سات لاکھ فوجیوں کے گھیرے میں چوہوں کی طرح مرنے سے بہتر ہے کہ چیھتڑوں میں لپٹی ریڈ آرمی اور کیمونسٹ سیاسی کارکنوں کے ہمراہ گھیرا توڑ کر باہر نکلا جائے۔گھیرا توڑنے میں ہی لگ بھگ چالیس ہزار کامریڈ مارے گئے۔ مگر ماؤ اور چواین لائی کی قیادت میں بچ جانے والے ستاسی ہزار عسکری و سیاسی کارکنوں نے جنگل کی راہ لی۔

جنوب سے شمال تک نو ہزار کلومیٹر کا فاصلہ پا پیادہ ایک سال تین دن میں طے کیا گیا۔ درمیان میں کئی مرحلے ایسے بھی آئے کہ دشمن سے بچنے کے لیے مسلسل چار دن اور چار راتوں تک سفر جاری رکھنا پڑا۔

عظیم یانگسی سمیت چوبیس دریا، اٹھارہ پہاڑی سلسلے اور گیارہ صوبے عبور کرکے جب یہ قافلہ شمالی صوبہ شانسی پہنچا تو صرف دس ہزار کامریڈ زندہ بچے۔ مرنے والوں میں ماؤزے تنگ کا چھوٹا بھائی ماؤ زی تان اور دو سوتیلے بیٹے بھی شامل تھے۔ ماؤ کی بیوی کو شدید زخمی حالت میں ماسکو کے ایک ہسپتال روانہ کیا گیا۔
 
اس سفر کے دوران ماؤ نے جنگی حکمتِ عملی پر لکھنا بند نہیں کیا۔ شعر کہنے کی عادت نہیں چھوڑی۔ بیماری کے باوجود کہیں پیچھے نہیں رہا۔ دریا کسی کی پیٹھ پر چڑھ کے عبور نہیں کیے۔ پہاڑوں پر چڑھنے میں صرف ایک چھڑی کی مدد لی۔ اپنی باری پر کھانا بھی پکایا اور کامریڈوں کے کپڑے بھی دھوئے اور خود کو اور ساتھیوں کو مسلسل زندہ رکھنے والی خطابت بھی جاری رہی اور گیت بھی گائے۔

دل بہت بڑا تھا ماؤ کا۔ لانگ مارچ کے بعد جب شمالی علاقے مانچوریا پر قابض جاپانیوں کے خلاف جنگ کا مرحلہ آیا تو ماؤ نے صرف ایک چینی بن کے سوچا اور چیانگ کائی شیک سے جاپانیوں کے خلاف فوجی اتحاد کرلیا۔ چار برس جاپانیوں سے لڑنے اور انہیں پیچھے دھکیلنے کے بعد ماؤ نے پھر اپنے راستے جدا کر لیے اور اگلے چھ برس چیانگ کائی شیک سے نبرد آزما رہا ۔ حتیٰ کہ چیانگ کو چین سے بھاگ کر تائیوان کے جزیرے میں پناہ لینی پڑی اور یکم اکتوبر انیس سو انچاس کو ماؤ نے بیجنگ میں سرخ انقلابی پرچم لہرا دیا۔

ماؤزے تنگ میں اگر جناتی صبر، دیوارِ چین سی ثابت قدمی، حالات کی نزاکت کے تحت ذاتی انا اور ضد کو پسِ پشت ڈال کر فیصلے کرنے کی عظیم صلاحیت نہ ہوتی تو ماؤ بھی اپنا انقلاب دل میں لیے کہیں پہاڑوں میں ہی مرکھپ چکا ہوتا۔
بقول ماؤ ’انقلاب کسی ضیافت، مضمون نگاری، فنِ مصوری یا کشیدہ کاری کا نام نہیں۔ اگر تم جاننا چاہو کہ انقلابی نظریہ اور انقلابی طریقہ کیا ہوتا ہے تو پھر خود سیکھو۔ اصلی علم براہِ راست تجربے کے بغیر ممکن نہیں۔ 
 
صد شکر کہ ماؤزے تنگ کوئی بے صبرا فاسٹ بولر نہیں بلکہ غیر معمولی گگلی سپنر تھا۔ ایک اچھی بات یہ بھی تھی کہ ماؤ کو اپنی نیند پر مکمل قابو تھا۔ وہ تین دن بھی جاگ لیتا تھا اور توپوں کی گھن گرج میں بھی سو سکتا تھا۔ ماؤ سے پہلے یہ وصف صرف نپولین میں دیکھا گیا۔

ایک درمیانے سے سخت گیر کسان کے بیٹے ماؤ نے نہ تو کسی اعلیٰ درس گاہ کا منہ دیکھا نہ ہی کسی گوتم بدھ، کنفوشیئس یا مارکس سے عالمِ رویا میں اسباق لیے۔ اسے تو خود کو کسی قابل بنانے کے لیے لائبریری اسسٹنٹ، پرائمری سکول کا استاد، دھوبی، ٹریڈ یونینسٹ، ادیب، سپاہی اور شاعر کی زندگی بسر کرنا پڑی اور پھر زندگی کی یونیورسٹی سے جو سرمایہ کمایا، انقلاب پر لگا دیا۔
آج ماؤزے تنگ کی روح اگر آب پارہ پر گزری ہوگی تو سوائے اس کے اور کیا گنگنایا ہوگا،

آپ ایک اور نیند لے لیجے

قافلہ کوچ کر گیا کب کا  جون ایلیا

وسعت اللہ خان 

انقلاب بہت مشکل ہے.....

$
0
0


وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔خان صاحب رفتہ رفتہ 50 ہزار کا قالین 500 روپے میں بیچنے پر تیار ہیں، پھر بھی کوئی خریدنے کو تیار نہیں۔ کہاں چار سیٹوں سے کہانی شروع ہوئی اور کہاں سول نافرمانی سے آگے بڑھ کے اڑتالیس گھنٹے کے ایک اور الٹی میٹم تک آ گئی۔خان صاحب نے یہ بھی تسلیم کرلیا کہ وزیرِ اعظم کو قانونی طریقے سے ہٹانا مشکل ہے لہٰذا الٹی میٹم کے خاتمے پر میرے کارکن جانیں اور نواز شریف جانیں۔

صاف نظر آرہا ہے کہ اب وہ انتہائی مطالبات کی اسنارکل پر چڑھا کے ایسے مارگلہ پر پہنچا دیے گئے ہیں جہاں سے اترنا محال ہے۔اور اسنارکل بھی وہ کہ جس کے آپریٹروں میں شیخ رشید اور چوہدری برادران جیسے مہان گرگِ باراں دیدہ شامل ہیں۔ اس وقت عمران خان کے لیے نواز شریف سے بڑا مسئلہ وہ ہجوم ہے جسے وہ بڑھکوں کی بین سے نکلنے والی سنہری مستقبل کی مدھر تانیں سناتے سناتے ریڈ زون کی سرحد تک لے آئے ہیں۔مجمع مست ہے اور اتنا مست کہ اگر بین رکھ دی تو کہیں سپیرے کو ہی لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔

علامہ طاہر القادری بظاہر لاکھ جذباتی سہی لیکن انگریزی کے محاورے کے مطابق دئیر آز اے میتھڈ ان ہز میڈ نس ۔۔۔ انقلاب آیا آیا نہ آیا نہ آیا۔اور لے آئیں گے بازار سے گر ٹوٹ گیا۔ویسے بھی ان کی سیاست کا محور یہ فلسفہ ہے کہ ، ''قادری سویٹ مارٹ۔ یہاں ہر قسم کا مال آرڈر کے مطابق تسلی بخش تیار کیا جاتا ہے۔ جھوٹا ثابت کرنے والے کو دس ہزار روپے نقد ۔''بک گیا تو بک گیا ورنہ خود کھا لیں گے مہم جوئی کے ڈیپ فریزر میں رکھ کے اور ٹورنٹو میں تو ڈیپ فریزر کی ویسے بھی ضرورت نہیں۔

مگر مقامی مدبر عمران خان کو سوچنا چاہیے کہ ان کے پاس ایک پورے صوبے کی حکومت ہے جسے اگلے چار برس میں ترقی و فلاح کا شو کیس بنانے سے کسی نے نہیں روکا۔ اگر لوگ کام دیکھ کر عبدالستار ایدھی اور شوکت خانم اسپتال کی مدد کر سکتے ہیں تو ایک صوبے کی مدد کیوں نہ کریں گے۔ آخر نریندر مودی نے بھی تو ایک غریب بھارت میں سیاست کرتے ہوئے اپنی ریاست گجرات کو ترقی کا شو کیس بنایا کہ نہیں۔ اور اسی کے نتیجے میں آج وہ دلی میں براجمان ہے۔ اگر اسی مودی کی جگہ کسی پرویز کتھک کی سرکار ہوتی تو سوچئے کیا ہوتا۔گجراتی پانی میں ڈوب رہے ہوتے اور چیف منسٹر ٹھمکے لگا لگا کر ان کا جی بہلا رہا ہوتا۔

اور جہاں تک شریف برادران کا تعلق ہے تو اتنے موقع تو آسمان نے بنی اسرائیل کو نہیں دیے جتنے شریف برادران کو مل گئے۔ لیکن ان کا تصورِ ترقی تاج محل سے کم کچھ دیکھ ہی نہیں سکتا۔ اوباما پہلے غریب کی جھونپڑی میں دیا جلاؤ پھر لال قلعہ بناؤ۔ جوتیاں چٹخاتے گریجویٹ بے روزگار کو بھلے ملازمت نہ دو مگر کم ازکم بے روزگاری میں تو میرٹ رکھو۔ گلیوں کے کیچڑ کی صفائی کے لیے خود مختار بلدیاتی ادارے تو بننے دو اس کے بعد نئے موٹر وے بھی بنا لینا۔
پہلے پرائمری اسکولوں میں بچوں کے لیے پینے کا صاف پانی ، نئے ٹاٹ ، لیٹرین اور اساتذہ کا تو انتظام کر دو اس کے بعد جو پیسہ بچے اس سے دانش اسکول کا شوق بھی پورا کر لینا۔ پہلے پولیس کو تو ایک آزاد ، قابل اعتبار ، منظم اور انسانی ادارہ بناؤ اس کے بعد اپنے لیے سو بلٹ پروف گاڑیاں اور ایک ہزار بارود سونگھنے والے کتے اور ایک لاکھ موبائل جیمرز بھی منگوا لینا، آپ نے اتنے سارے ایڈوائزر رکھ چھوڑے ہیں ،کاش کوئی مشیر برائے تاریخ بھی بھرتی کر لیتے جو ہر صبح ناشتے کی بھری میز پر آپ کے کان میں سرگوشی کرے کہ میاں صاحب فرانس کی ملکہ نے بھی اپنے محل کی بالکونی سے بھوکے بے روزگاروں کا ہجوم دیکھ کر کہا تھا کہ یہ لوگ روٹی کیوں مانگ رہے ہیں ؟ کیا کیک تک نہیں خرید سکتے ؟ اس کے بعد بھی اگر فرانس میں انقلاب نہ آتا تو لعنت تھی ایسے فرانسیسیوں پر۔ اور یہ مشیر بتائے کہ بقول امریکی سفیر ولیم سلیون جب رضا شاہ پہلوی کو ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر تہران کا چکر لگوایا گیا تو شاہ نے دھواں اٹھتی عمارات دیکھ کر پوچھا: ''یہ کون لوگ ہیں جو ہماری ترقی سے جلتے ہیں۔ انھیں تہران آنے کی اجازت کس نے دی۔''

مگر فرانس کو تو انقلاب لانے کے لیے روسو ، والٹئیر ، مانٹیسکئو جیسے فلاسفر اور روبسپئیر جیسے عملیت پسند اور اولمپی دی گوگے جیسی ادیبہ مل گئی تھیں۔ ایران کو تو علی شریعتی ، تودے پارٹی اور خمینی دستیاب ہوگئے تھے۔ ہمارے حصے میں طاہر القادری ، رحیق عباسی ، عمران خان ، شاہ محمود اور شیریں مزاری وغیرہ الاٹ ہو گئے۔ان کا انقلاب فی الحال ''پنجاب کے لیے ، پنجاب میں ، پنجاب کے ذریعے ''کے سوا کچھ نہیں۔

پیپلز پارٹی یا ن لیگ والوں کا تو پڑھنے لکھنے سے اتنا علاقہ نہیں لیکن ''قبلہ ''کے جتھے اور ''خان صاحب''کی جماعت میں تو اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ کیا کسی میں اخلاقی جرات نہیں کہ دونوں کو بتا سکے کہ بھائیو پچھلے 7000 سال میں آنے والے انقلابات کی تاریخ ہی پڑھ لو۔ انقلاب اب تک صرف انھی معاشروں میں آیا ہے جن کی زبان ، زمین، ثقافت ، مسائل ، سوچ اور مستقبل کا خاکہ سانجھا تھا۔ بھلے وہ چودہ سو سال پہلے کا مکہ ہو کہ دو سو برس پہلے کا فرانس اور امریکا یا بیسویں صدی کا چین اور ایران یا پھر اکیسویں صدی کی عرب اسپرنگ۔

برِصغیر المعروف ہندوستان کی زمین میں آج تک کوئی انقلاب نہیں آیا۔ یہاں پچھلے سات ہزار برس سے کچھ لو کچھ دو کے اصول پر ہی زندگی رواں ہے۔ جہاں بھانت بھانت کی قومیتیں ، زبانیں ، الگ الگ مسائل ، سوچ ، نظریات اور عقائد ہوں وہاں ارتقائی عمل تو ممکن ہے انقلاب بہت مشکل ہے۔

اور رہی بات انقلاب بذریعہ لانگ مارچ۔تو آپ نے تو صرف لاہور تا آب پارہ عظیم لانگ مارچ کیا ہے جس کی تھکاوٹ اب تک نہیں اتر سکی۔ ماما قدیر نے تو کوئٹہ سے کراچی اور کراچی تا اسلام آباد چند عورتوں اور بچوں کے ساتھ 2000 کلو میٹر کا پیدل مارچ کیا۔ کیا وہ ماڈل ٹاؤن کے القادریہ میں ایک رات قیام اور اسلام آباد کے بنی گالا میں ایک وقت کی چائے کا بھی مستحق نہیں تھا ؟ کیا اسے کسی نے آب پارہ کے مارچ میں شرکت کی دعوت دی ؟ کیا وہ انقلابی نہیں ؟ سارا شو بس لاہور تا اسلام آباد اور باقی صوبوں کے لیے صرف یہ پیغام کہ بھینس بھینس تجھے چور لے چلے اور بھینس پلٹ کے کہہ رہی ہے کہ کوئی بھی لے جائے ہمیں تو چارہ ہی ملے گا۔

رہی بات انقلاب بذریعہ دھرنا ؟ تو کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ناٹو سپلائی کو روکنے کے لیے پشاور کے رنگ روڈ پر اپنی ہی حکومت کے دھرنے کا کیا حشر ہوا ؟ اب تو اس کا کوئی ذکر تک نہیں کرتا۔ اور کیا ''قبلہ ''زرداری حکومت کی ناک کے نیچے اپنے پانچ روزہ دھرنے کو بھول گئے جسے ختم کرانے کے لیے وہی لوگ آگے آئے جنھیں قبلہ نے صبح 11 بجے تک استعفی دینے کا الٹی میٹم دیا۔
حضور اب تو ایک ہفتہ ہو چلا۔ اسلام آباد کے بچوں کو اسکول کی ضرورت ہے، پشاور کے بارش زدگان کو دستِ شفقتِ سرکار کی ضرورت ہے۔ درآمدیوں اور برآمدیوں کو ٹرالرز کی ضرورت ہے۔ آپ نے ایک سو چوالیس گھنٹے انقلاب کی سائیکل چلا کر نیا عالمی ریکارڈ قائم کردیا ہے، اب حزبِ اختلاف کے ہاتھوں شربت پی کر سائیکل سے اتر آئیے اور وکٹری کا نشان بناتے ہوئے انقلاب زندہ باد ، آزادی پایندہ باد کا نعرہ لگاتے لگاتے بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر نواز شریف کے موٹر وے کے بجائے شیر شاہ سوری کی جی ٹی روڈ سے عازمِ لاہور ہوئیے۔

راستے بھر رک رک کے یہ بھی ضرور کہتے جائیے گا کہ فی الحال تو میں سراج الحق ، خورشید شاہ اور الطاف حسین کی بات رکھ رہا ہوں مگر جلد ہی کفن بردوش پھر سے آؤں گا اور اگلی بار خدا کی قسم حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجائے بغیر نہیں لوٹوں گا۔ جلدی کیجیے، کہیں یہ نہ ہوجائے کہ آپ اسی طرح کوہِ کنٹینر پر چڑھے رہیں اور کوئی ترازو والا بندر آئے اور دونوں پلڑوں میں روٹی برابر برابر تولنے کے چکر میں سب سیاسی روٹی کھا جائے۔

وسعت اللہ خان
بہ شکریہ روزنامہ ''ایکسپریس


PTI and PAT Political showdown in Pakistan

$
0
0










PTI and PAT Political showdown in Pakistan

حقیقی انقلاب ......

الوداع‘ ہاشم خان......

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live