Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

ایک خط سب کے لیے! .......

$
0
0

اس ہفتے بروز سوموار اپنے گھر پر ایک اسلحہ بردار گروپ کی ممکنہ ڈکیتی اور کار چوری کی ناکام واردات کے بعد میں نے اپنے ہمسایوں کو ایک خط لکھا جس کے چند ایک مندرجات آپ کے لیے پیش کر رہا ہوں۔ خط انگریزی میں تھا۔ ہو بہو ترجمے کی کوشش نے کہیں نہ کہیں محاورے کو ضرور کمزور کیا ہے مگر معلومات اور مشاہدات پھر بھی قابلِ توجہ ہیں۔

محترم!

اسلام وعلیکم!

میں اور میری بیگم آپ کو سوموار کے دن اپنے گھر میں ہونے والے جرم کے بارے میں کچھ بتانا چاہتے ہیں۔ یہ معلومات ہم تک اہم پولیس افسران اور درمیانے درجے کے اہلکاروں نے پہنچائی ہیں۔ ہمارے خیال میں آپ کے لیے ان کا جاننا انتہائی ضروری ہے۔ جیسا کہ شاید آپ کو علم ہو اس روز 10:50 منٹ پر تین مسلح افراد، جن کی عمریں25-30 سال تھیں اور جو شلوار قمیص میں ملبوس تھے، ہمارے گھر پر آئے اور دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔ بند دروازے کے باہر کھڑے ہاتھ میں پستول تھامے ان کو دیکھ کر پڑوسیوں کا گارڈ جب ان سے پوچھ پرتیت کرنے کے لیے آگے آیا تو انھوں نے اس کو یرغمال بنا لیا۔

موسلادھار بارش میں یہ لوگ مکمل اطمینان سے گھر سے باہر کھڑی ہو ئی گاڑی کے شیشے کو توڑ کر اس کو اسٹارٹ کرنے میں مصروف ہو گئے۔ میں اس وقت یونیورسٹی میں طالبعلموں کو صحافت پڑھا رہا تھا۔ گھر والی گھر میں ڈھائی سالہ بچی کے ساتھ مصروف تھی۔ جس وقت یہ واردات جاری تھی تو بیگم صاحبہ اور بچی ایک دو مرتبہ دروازے کے قریب گیراج میں سے ہو کر واپس چلی گئیں۔

ان کو کیا خبر تھی کہ لوہے کی ایک پتلی چادر کے دوسری طرف پستولوں سے لیس ڈاکو کیا کارروائی کر رہے تھے۔ بہرحال گارڈ نے حاضر دماغی کا ثبوت دیا۔ ڈاکوئوں کی توجہ چوکتے ہی دوڑ کر گھر میں سے اپنی بندوق نکال لی۔ اس دوران فون پر سامنے والوں کو اطلاع دی۔ اس طرح جب چند ایک افراد اِدھر اُدھر سے باہر نکلے تو یہ تینوں افراد پستولیں لہراتے بڑے پارک کی طرف بھاگ نکلے۔ وہاں پر موجود پہلے سے کھڑی ہوئی ایک کار نے ان کو سوار کیا اور یوں جھٹ پٹ جائے وقوعہ سے فرار ہو گئے۔

اس کے بعد قانونی چارہ جوئی کی تفصیل آپ کے لیے غیر ضروری ہے۔ اہم معاملہ پولیس افسران کی اس بات چیت کا ہے جو انھوں نے ہم سے کی۔ انھوں نے ہمیں بتایا ہے کہ ہمارا یہ علاقہ اسلام آباد کے دوسرے سیکٹرز کی طرح انتہائی غیر محفوظ ہو چکا ہے۔ مجرمان کے جھتے کچی آبادیوں میں سے نکل کر یہاں آتے ہیں۔ جرم کرتے ہیں اور پھر اطمینان کے ساتھ کمین گاہوں میں لوٹ جاتے ہیں۔ ناکے ناکام ہیں‘ گشت کا اثر محدود ہے۔ بعض اوقات پولیس کی ملی بھگت اور جرائم میں شمولیت کے شواہد بھی ملے ہیں۔ پولیس افسران نے ہمیں یہ بھی بتلایا کہ اُن کے پاس نفری کم اور اسلام آباد کے سیا سی خاندانوں کے نخر ے زیادہ ہیں۔

ہدایا ت کے مطا بق سیاسی چہیتوں اور من پسند کے خاندانو ں کے تحفظ کی ذمے داری اولین ٹھہرائی گئی ہے۔ یہ واقعہ 12 مئی کو پیش آیا۔ ان پولیس افسران کے مطا بق 11 مئی کو عمران خان کے جلسے نے اُن کی آدھی فورس کو اگلے دن کے لیے تھکن کی وجہ سے ناکارہ کر دیا تھا۔ ویسے بھی اگر کسی علا قہ میں کوئی وی آئی پی نہ ہو تو وہاں پر پولیس تازہ دم ہونے کے باوجود تو جہ نہیں دیتی۔ اُن کا کام اشرافیہ (اس لفظ کا شرافت سے کوئی تعلق یا رشتہ نہیں ہے) کو بچانا ہے۔ اس سے نیچے کے افراد یعنی درمیانہ طبقہ وغیرہ ایک فضول سا اعداد و شمار ہے۔ جن پر وقت صرف کرنا قومی وسائل کا ایسا غیر ضر وری استعمال ہے جس کی حقیقی زندگی میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پولیس نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ اسلام آباد میں ہونے والے اغواء برائے تاوان، ڈکیتی اور قتل جیسے جرائم، حادثاتی، واقعاتی اور وقتی نہیں ہیں۔

یہ ایک منظم اور مربوط نیٹ ورک کی پیدوار ہے جس کا ایک سرا بلوچستان اور دوسرا سرا آزاد کشمیر میں ہے۔ اس کی باقی جڑیں کراچی، خیبرپختو نخوا اور پنجاب کے مغربی اور جنوبی حصوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ گروہ مقامی جرائم پیشہ افراد سے درمیانی رابطے کے ذریعے معاملات طے کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کام کرانے والے اور کام کرنے والا دونوں ایک دوسرے کے بارے میں کبھی جان نہیں سکتے۔ جرائم کے ہدف کے بارے میں ان گروپوں کی معلومات خطرناک حد تک درست ہوتی ہیں۔ معلومات کے لیے مقامی گروہوں دوسرے ذرایع کے علاوہ بھکاریوں، ردی والوں، کوڑا کرکٹ اکھٹے کرنے والے، آئس کریم اور سبزی فروشوں کو استعمال کرتے ہیں۔ بعض اوقات گھر میں موجود نوکر اور صفائی کرنے والے ان کے آنکھیں اور کان بنتے ہیں۔

ان حا لات میں ہم جیسے شریف لوگوں کا جینا محال ہو جانا کوئی اچھوتی بات نہیں ہے۔ یو ں لگتا ہے کہ اس ملک میں اس وقت تحفظ حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے اور وہ ہے اسلحہ اور طاقت کا بے دریغ استعمال۔ ظاہر ہے ہم نہ یہ کر سکتے ہیں اور نہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری تعلیم اصلی ڈگریوں پر مبنی ہے۔ ہماری کمزوری یہ ہے کہ بزرگوں نے ہماری تربیت اصولوں کے مطا بق کی ہے۔ حلال پر پالا ہے۔ دو نمبری نہیں سکھائی۔

بدمعاشی، بلیک میلنگ، اور نوسر بازی سے دور رکھا ہے۔ اگر ہم یہ سب کچھ کر پاتے تو شاید ہمارا شمار بھی آج فیصلہ ساز قوتوں میں ہوتا اور ہم ایک ٹوٹے ہوئے ریکارڈ کی طرح ہائے ہائے کی رٹ پر نہ پھنسے ہوتے۔ بہرحال ہم جو ہے وہ ہیں۔ ریاست ہمیں کچھ دینے کو تیار نہیں۔ پانی ہم زمین سے نکال رہے ہیں۔ صحت کے لیے نجی اسپتال میں جاتے ہیں۔ تعلیم سے حکومت نے ہاتھ اٹھا لیے ہیں۔ نقل و حرکت ہماری ذمے داری ہے۔ چھت ہم نے خود بنانی ہے اور سب سے بڑھ کر اپنا اور اپنے خاندان کا تحفظ بھی خود ہی کرنا ہے۔ میں نے اپنے گھر میں کیمرے لگوا لیے ہیں۔ اگرچہ میں اپنے بچو ں کو یہ بتانے سے قاصر ہوں کہ میں اور میری بیوی دن رات اسکرین پہ خالی سڑکیں، گھرکا گیراج اور پچھواڑے کو کیوں دیکھتے رہتے ہیں۔

سیکیورٹی گارڈ کا انتظام بھی کر لیا ہے۔ اچھا مگر ریٹائرڈ فوجی جو بندوق سیدھی کرنا جانتا ہے 18 ہزار میں پڑتا ہے۔70 سال سے اوپر کا سویلین 14 ہزار میں۔ پولیس سے بھی گارڈ حاصل کیے جا سکتے ہیں جو آپ کو 19500 میں پڑتا ہے۔ ہم یہ انتظام کرنے کے باوجود خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ کیو نکہ یہ محلہ غیر محفوظ ہے، یہ شہر غیر محفوظ ہے۔ اس ملک کی حکومتوں اور ریاست نے مل کر اس وطن کو غیر محفوظ کر دیا ہے ہم یہ انتظام کر رہے ہیں۔ آپ بھی کچھ سوچیں کوئی نظام بنائیے۔ حکومت اور ریاست کی طرف نہ دیکھیں یہ ہمارے کسی کام کے نہیں ہے۔

والسلام،


مودی اور بھارت کی آزمائش

GEO’s response to Imran Khan’s allegations

$
0
0


A Jang Group spokesman has given the following response to the allegations leveled by PTI chief Imran Khan in a press conference on Friday.

Allegation 1: GEO rigged the 2013 elections along with Chief Justice, bureaucracy and the PML-N. GEO announced PML-N as the winner at 11:05pm when only 19% of votes had been cast. GEO influenced the returning officers to swing the elections in favour of PML-N and showed Nawaz Sharif announcing himself as the winner at 11:23pm.

GEO’s Response 1:

Rigging can’t take place during vote count as votes are counted in front of party representative at each polling station. Rigging takes place before vote counting during the actual voting process. Voting finished between 5-6pm. There is no way GEO or any media could influence rigging or be involved in rigging at 11:05pm which was 5 hours after voting had closed. Kamran Khan and GEO News name shouldn’t be tarnished just because Kamran Khan showed partial results at 11:05pm.

In fact, Ayaz Khan of Express News said the following during Express News election transmission at 10:21 pm. Mey yeh dekh raha hoon ke PML-N centre mein hukoomat bana sakti hey or Punjab mey unki government banegi aur Sindh mey PPP government banaey gi or mein yeh dekh raha hoon ke opposition bhi PPP ki hi hogi.

Nawaz Sharif’s speech was shown by all channels and in fact GEO News was not even the first channel to show the speech.

Regarding showing partial results, whether based on 19% or 30% polling station results, a frequent was flashing on screen and being repeated verbally by our newscaster letting our viewers know that these are non-official and partial results. All over the world partial results are given in elections and in our case we were also showing per constituency what % of the polling station results have come in. This was not a projection but actual results that we were getting from our correspondents of 11,000 people that day who were getting polling station results directly from polling stations and returning officers and Election Commission sources. All channels were airing partial results and the same was done in 2002 and 2008. The method that was used to announce results was consulted by Dr. Ijaz Shafi Gilani (Gallup Pakistan) and Salman Naseer Danish (PTI) and was statistically safe. This is verified by comparing the result that GEO had given to other channels and final election results announced by the Election Commission. The difference between all channels was less than 10% though GEO was airing the results first due to its larger network and experience. If GEO had rigged the elections, were all top 5 news channels also involved as they were airing similar results? All local and international poll projections had also predicted similar trend as of the elections, does that mean they were also involved in rigging the elections with GEO?

Mudassir Rizvi, CEO FAFEN which was the largest network of voter monitoring and fraud monitoring, told GEO News on camera yesterday, “Geo News is not responsible for rigging, we can only hold those responsible that had position of authority. We had an information sharing agreement with GEO which aired much of our data regarding rigging.” GEO News also received a note of appreciation for our contribution for elections 2013 transmission from FAFEN.

Iftikhar Ahmad, Director Elections at Jang Group and senior anchorperson, has challenged Imran Khan to an open debate to prove his allegations and provide evidence. Iftikhar Ahmad also said, “Why these allegations were not part of the white paper that was released by PTI on elections rigging? Why is GEO being attacked now? And if Khan wants to improve election reforms then shouldn’t it be one year before the next elections, why now? I think Khan needs to be more mature and realise why he actually lost and show more sportsman sprit.”

However at the same time we do want to acknowledge that rigging did take place and it is most unfortunate. GEO would support any positive reforms PTI would like to recommend that will help stop rigging. In fact, GEO aired hours of footage on rigging and exposed it from morning of the elections day. At least two hours of rigging footage that went on air can be provided if required. Hamid Mir, Iftikhar Ahmad and Sohail Warraich did programmes on rigging the same night of elections. Hamid Mir did a two hours show of rigging allegations of Dr Alvi of PTI.

Allegation 2: PTI and Imran Khan have also falsely accused Jang/GEO group of receiving special favour by the Pakistan Cricket Board (PCB) to acquire rights for the cricket series against Sri Lanka through its Chairman Mr. Najam Sethi who also hosts a programme on the Network. Khan said this was done as a favour for rigging the elections.

GEO Response 2: We have already in writing told Imran Khan that the whole process was conducted in open and transparent manner and was witnessed by both bidders (GEO Super and Ten Sports) and a bid committee comprised of Ehsan Mani as chairman legal department of PCB, retired judge, member of BOG, COO, CFO of PCB and independent international auditors (Price Waterhouse and Coopers). In fact Ehsan Mani is also board member of Shaukat Khanum and a friend of Khan. We had requested please consult with Ehsan Mani if he agrees with your allegation or meet the auditors?

Ten Sports won the South Africa series rights through the bidding process and GEO Super won the Sri Lanka series rights due to higher bid amounts. Ten Sports is a 100 percent Indian owned company and yet no one raised an eyebrow against them or wrote articles one after the other. Due to interim appointments, the Supreme Court, at that time, did not allow the PCB to enter into any long-term sale of rights that is why the bidding for the matches was for two series only and not 5 years. Also Khan has alluded that we had rigged the elections and in return we got one 14 day match rights? GEO and Jang Group have lost over 600 crores for supporting the lawyers movement fighting a military dictator. Jang Group had also been shut down by Nawaz Sharif in 1998-99 and was boycotted by PPP as well in previous government who had banned all advertising to the largest media group. If GEO didn’t sell out then why would it do now, and that too for Pakistan vs Sir Lanka rights?

Allegation 3: Zara Sochiye of Geo had received sponsorship of 20 million pounds, and Aman Ki Asha was sponsored by Indians through Doordarshan. This was in the Supreme Court Media Commission report.

GEO Response 3: Yes this was in the Media Commission report but it was not part of the main report but as part of minutes with PEMRA, which GEO had been suing because of its partiality. In fact Supreme Court had asked the government to confirm these allegations and after receiving a response asked chairman PEMRA to prove these allegations after which chairman PEMRA denied the charges and also apologised in writing. It is interesting to note that all these allegations have been raised in past and categorically denied with evidence and a clarification. Aman Ki Asha has been praised by Imran Khan in Parliament. Regarding Indian funding, why would RAW want Pakistan to want peace with India? Jang Group would also like to put on record that Aman Ki Asha and Zara Sochiye (education effort) was started after consultation and feedback of senior most members of the Armed Forces. Aman Ki Asha is an independent project conceived by Jang Group to promote peace with India while respecting our core interests.

Zara Sochieye education campaign has been declared openly and its sources of funding (majority of which is funded by Jang Group related companies) have also been shared and its accounts audited by Price Waterhouse Coopers. The campaign to promote education reform was appreciated by all political parties and education related NGOs including scores of PTI representatives. All editorial control and project conception was done by MKRF, local NGO affiliated with founder of Jang Group. Zara Sochieye campaign was aired on PTV, and four regional channels and 4 radio stations apart from GEO channels.

Imran Khan seems to be alluding to foreign funding as an evil. One can ask him if PTI government itself in KP accepts 100s of millions of dollars’ worth of aid from US and UK governments. Recent polio campaign was also funded from international sources and PTI itself is funded in part by US, UK, Indian citizens. Most of these funds are used for good purposes and have done a lot of social good. Imran Khan also in previous interview suggested GEO has taken foreign funding and in return maybe doing campaigning against peace negotiations with the Taliban and Government of Pakistan. Imran Khan should note that GEO has done several transmission called Aman Kay Liye Kardalo where Jang Group and GEO have openly been supporting negotiation to operation as a policy.

Allegation 4: Group aired Voice of America from a fund for supporting democracy.

GEO Response 4: Again Khan seems to be alluding to American influence.

Geo is a part of the Jang Group of Publications, Pakistan’s media powerhouse with a proud history. Geo has no connection with the USA, either financial or political. Geo had sold air time to the Voice of America under a transparent commercial contract which total value was less than 3%-5% of its revenue at any given time. GEO made sure that the VOA logo is on screen throughout its broadcast. A disclaimer stipulates that the views expressed in the broadcast are not GEO’s. There was no attempt to camouflage the VOA broadcast and its contract was given to PEMRA also. GEO’s senior management also asked General Musharraf and General Shuja Pasha if they had any problem with us airing the programme and they both said no at the time. However GEO decided on its own to stop airing the programme when drone attacks frequency increased in Pakistan and has not aired the programme for over 3 years. VOA programme had aired on PTV, Express and Aaj TV but surprisingly Imran Khan has not suspected them of any wrongdoing.

It should be noted that GEO has aired (Fahrenheit 9/11, bush’s Brain, Loose Change, Cartoons about Bush, Obama, and frequently makes fun of American presidents and leadership in Hum Sub Umeed Se Hein. At the same time it has also educated viewers about the strengths of the US democratic traditions by covering the US elections, dubbing in Urdu the presidential debates and confirmation hearings. This is in line with our policy of learning from best practices.

Geo has been critical of the drone attacks, questioned US policies in Iraq and Afghanistan and exposed excesses like those taking place in Guantanamo and Abu Gharaib. In Khuda Ke Liye, released by GEO Films, American torture techniques and atrocities were openly shown and debated in a dramatic fashion. Late Ambassador Holbrooke, who was known for his abrasive side, in his stiff unemotional tone scolded the GEO reporter once on his trip to Pakistan. After telling the reporters how much USA is doing for Pakistan, Holbrooke looked towards GEO reporter and said, “US has given half of the support pledged by (the world). Please make sure that GEO reports that! GEO has reported a lot of anti-US stuff. Now you should tell the truth to the people of Pakistan that US is on your side”. In Wikileaks it was revealed that US Embassy has written a cable to Washington saying GEO is working against the interests of the USA. It complained that Hamid Mir had done a programme exposing that Blackwater was in Islamabad among other things.

We would like to ask Imran Khan why he doesn’t ask owners of a channel that aired in India, which earns a lot of money. It is pertinent to mention that when no Pakistani TV channel is allowed to be aired in India, then how come that particular group manages to run its transmissions there. The particular TV channel and its anchorperson also tried to label us traitors by terming a genuine investigative story on Ajmal Kasab as propaganda. We stand by our story and believe that the truth, no matter how bitter, is more patriotic than a lie, no matter how sweet.

Another competitor who was in smoking business makes most of its money from business partnerships which are with American and Indian companies. Similarly they have an agreement with an American media outlet, whereby they provide a foreign newspaper along with their daily newspaper, which is owned by Jews, with their own local newspaper. Will Khan ask why Shireen Mazari will never ask them any questions? Will she tell Khan that three mainstream news channels bureaus in Washington DC were paid by US State Department funds and GEO News is the only one that funds its own bureau in Washington DC, NY and London.

We would like to clarify here that we are not against any such business partnerships as long as they are legal and transparent but are mentioning this only to underline double standards. We request our viewers and readers to ask why is that you will not see a single conspiracy theory about these other media groups in social media but only bashing of one media group? What has GEO and Jang Group been doing that it gets punished for? Zara Sochieye.

Lastly and sadly we had approached Imran Khan through Asad Umar and Jehangir Tareen in writing to please arrange a meeting with Imran Khan. After this couldn’t be done and Khan was still attacking GEO we gave the following offer on 20th February 2014-

“Kindly please form a committee that will investigate the accusations against us, please give it a 30 days deadline, and let the committee review all the contents and they can ask us any questions or hear our point of view as well and then if it feels we are guiltily we will give you an hour of our prime in which PTI can make its findings shard with our audiences.

Our request would be that that committee contains only neutral people and not people have a known biased against us.You need to know that these allegations are serious and personal for us.”

But instead of confronting us with questions and evidence Shireen Mazari has convinced Imran Khan to attack us through press conferences and certain sections of the media with competing interests.

Enhanced by Zemanta

نسل‘ دھرتی اور مذہب کا گٹھ جوڑ

$
0
0

’پوری دنیا عیسائیت‘ اسلام اور کمیونزم میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ان سب نے ہندوئوں کو ایک بہترین خوراک سمجھا ہوا ہے۔ جسے کھا کھا کر یہ موٹے ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمیں ان تینوں سے ہندوئوں اور ہندو مذہب کو بچانا ہے‘‘۔ یہ الفاظ تھے اس اعلامیہ کے جو 29 اگست 1964ء کو ویشو ہندو پریشد کے قیام کے موقع پر ممبئی میں جاری کیا گیا۔ یہ اعلامیہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی کی ایک تاریخ کا اظہار تھا جو 1925ء میں قائم ہونے والی راشٹریہ سیوک سنگھ کے قیام سے شروع ہوتی ہے۔ اسے ناگپور میں پیدا ہونے والے کیشو ہمیگوار نے وجیہہ وشمی کے دن قائم کیا تھا۔

وجیہہ وشمی اس دن کو کہتے ہیں جب رام چندر نے راون کو شکست دی تھی۔ ناگپور کا یہ شخص کلکتہ میں میڈیکل کی تعلیم کے لیے گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پہلی دفعہ ہندوئوں نے مذہبی تہواروں کے دوران لگنے والے میلوں پر ہتھیار بند جانے کی رسم کا آغاز کیا تھا۔ اس تنظیم میں شدت پسندی کا تصور یورپ میں کام کرنے والی دائیں بازو کی کٹر تنظیموں سے لیا گیا تھا۔ جنگ عظیم دوم سے پہلے ہی کیشو ہٹلر اور اس کے نظریات کا واضح حامی تھا اور ان پر ہندوئوں کو عمل کرنے کی ترغیب دیتا تھا۔ اس کی تنظیم بھارت دھرتی میں کسی بھی غیر قوم یا مذہب کے فرد کی آمد کو ناپاک قدم تصور کرتی تھی۔ یہ تصور ان کا ذاتی یا تنظیمی نہیں بلکہ مذہبی بنیاد رکھتا تھا۔

ہندو مذہب جہاں بھارت ماتا میں بسنے والے ہندوئوں کو چار مختلف ذاتوں‘ برہمن‘ کھشتری‘ ویش اور شودر میں تقسیم کرتا ہے۔ وہیں باہر سے آئے ہوئے دوسرے مذہب کے افراد کو ملیچھ یعنی ناپاک کہتا ہے۔ یہی تنظیم ہے جس کے ایک رکن نتھو رام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو قتل کیا تھا اور وہ آج تک اس کی یاد مناتے ہیں۔ تنظیم نے یوں تو فلاحی کاموں کو اپنا مقصد بنایا لیکن پورے بھارت میں جسمانی ورزش اور یوگا کے نام پر نوجوانوں کو منظم کیا۔ ان ورزشوں کو ’’شاکا‘‘ کے نام سے منعقد کرتے۔ 2004ء میں بھارت کے ساٹھ ہزار مقامات پر ایسے شاکاز قائم کیے جا چکے تھے اور اس وقت راشٹریہ سیوک سنگھ کے ممبران کی تعداد ساٹھ لاکھ تھی۔

اسی تنظیم کی کوکھ سے ویشو ہندو پریشد نے جنم لیا۔ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ افراد جو بھارتی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں جن میں راجپوت جاٹ وغیرہ شامل ہیں اگر کوئی دوسرا مذہب یعنی دھرم اختیار کر لیتے ہیں تو وہ ناپاک ہو جاتے ہیں۔ انھیں واپس ہندو دھرم میں لا کر پاک کرنا ہے۔ ان کے نزدیک وہ لوگ جو نسلاً باہر سے آئے ہیں وہ تو ناپاک ہیں ہی اور ان سے تو اس دھرتی کو پاک کرنا ہے لیکن یہاں پر آباد نسلوں میں سے جو لوگ ہیں وہ اگر مسلمان اور عیسائی ہو گئے ہیں تو وہ جب تک واپس ہندو نہیں ہو جاتے ناپاک رہیں گے اور ان کا وجود اس دھرتی کو بھی ناپاک کرتا رہے گا۔ اس کی بنیاد پر پورے بھارت میں ایک خوفناک مہم چلائی گئی۔ اس کی زد میں سب سے زیادہ عیسائی آئے کیونکہ وہ ایسے تھے جو نیچ ذاتوں کے ہندو تھے وہ عیسائیت قبول کر چکے تھے۔

اس مہم کے لیے ویشو ہندو پریشد نے اپنے دو مسلح گروہ بنائے۔ ایک بجرنگ دَل جو نوجوان لڑکوں پر مشتمل ہے۔ بجرنگ ہنومان دیوتا کا نام ہے۔ یہ یکم اکتوبر 1984ء میں قائم ہوئی اور اس کے ڈھائی ہزار مسلح جھتے ہیں۔ دوسری مسلح نوجوان خواتین کی تنظیم ہے جسے درگا واہنی یعنی درگا دیوی کی فوج کہا جاتا ہے۔ اس تنظیم کے تحت نیچ ذات کی ہندو لڑکیوں کو بھرتی کیا جاتا ہے اور انھیں کراٹے اور یوگا کے نام پر مسلح تربیت دی جاتی ہے۔ گجرات شہر میں مسلم کُش فسادات سے پہلے اس مسلح گروہ کی تعداد صرف گجرات میں ایک ہزار تھی اور اب یہ گروہ سمجھتا ہے کہ ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ہندو مذہبی تعصب اور دیگر مذاہب سے بھارت کو پاک کرنے کے اس ’’مذہبی‘‘ عمل پر یقین رکھنے والی تنظیموں کی تعداد بے تحاشا ہے۔

یہ بھارت میں پیدا ہونے والے مذاہب سِکھ‘ جین‘ بدھ اور ہندو کو ہی دھرتی کے مذہب مانتے ہیں اور باقیوں کو بدیشی سمجھ کر ناپاک تصور کرتے ہیں اور بھارت کو ان سے پاک کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ یہ تمام تنظیمیں علیحدہ علیحدہ نہیں بلکہ ان سب نے مل کر ایک بہت بڑے خاندان کی شکل اختیار کر رکھی ہے جسے وہ سنگھ پریوار کہتے ہیں۔ پریوار ہندی میں خاندان کو کہتے ہیں۔ راشٹریہ سیوک سنگھ نے اپنے لوگوں کو مختلف گروہوں میں جا کر ان میں کام کرنے کا حکم دیا اور پھر جہاں جہاں ان کے نظریات غالب آگئے ایسی تنظیموں کو ایک لڑی میں پرو دیا گیا۔ 1960ء کی دہائی میں قائم ہونے والے اس سنگھ پریوار میں رکن تنظیموں کی تعداد پچاس کے قریب ہے لیکن اس سنگھ پریوار کی رکن ایک ہی سیاسی پارٹی ہے جس کا نام بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہے۔

سنگھ پریوار نے 1998ء میں اپنی ذیلی تنظیموں کے ممبران کی جو تعداد بتائی تھی وہ کروڑوں میں ہے۔ صرف بی جے پی کے ممبران کی تعداد دو کروڑ تیس لاکھ تھی۔ بھارتیہ کسان سنگھ 80 لاکھ اور بھارتیہ مزدور سنگھ ایک کروڑ ہے۔ یہ تمام کے تمام گروہ پورے بھارت میں ایک ہندو تعصب اور بھارت دھرتی کو بدیشی مذاہب سے پاک کرنے کے ایجنڈے پر کار بند ہیں اور سیاسی طور پر متعصب‘ متشدد اور مسلح جدوجہد پر یقین کرنے والے کٹر مذہبی گروہوں کی نمایندگی بھارتیہ جنتا پارٹی کرتی ہے اور بھارت دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں متعصب شدت پسند اور کٹر مذہبی خیالات رکھنے والی سیاسی پارٹی الیکشن جیتتی ہے۔

تاریخ میں ایسا دوسری دفعہ ہو رہا ہے اور پہلی دفعہ جب ایسا ہوا تھا تو اس کے نتیجے میں جو خوفناک اور ہولناک منظر اس دنیا نے دیکھا اس کی یاد ابھی تک قائم ہے۔ جنگ عظیم اول کے بعد جب جرمنی نے ورسلیز معاہدہ 1919ء میں کیا تو پورے جرمنی میں ایک شکست خوردگی کا منظر تھا۔ اس معاہدے کی ایک مشق War guilt Clause تھی جس کے تحت جرمنی نے اپنے آپ کو تمام نقصانات کا ذمے دار مان لیا تھا۔ اس زمانے میں جرمن قوم کو عزت و توقیر دلانے اور انھیں دنیا کی عظیم قوم کا رتبہ واپس دلانے کے لیے بہت سی تنظیمیں اور سیاسی پارٹیاں کام کر رہی تھیں لیکن تعصب کی اس لہر اور شدت پسندی کے طوفان کو آگے بڑھانے کے لیے ایک خوفناک قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جس کا انگ انگ تعصب اور انتقام کی آگ میں جل رہا ہو۔ یہ قیادت اوڈلف ہٹلر نے فراہم کی۔ اس نے ورسلیز معاہدے کی دھجیاں بکھیرنا شروع کیں۔

اس نے 1923ء میں بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی اور گرفتار ہوا۔ رہائی پر اس کے نظریات مزید شدید تھے۔ وہ یہودیوں کے وجود کو دنیا بھر کے لیے ناپاک تصور کرتا تھا۔ اس کے نزدیک کیپٹل ازم اور کمیونزم دونوں یہودی سازشیں تھیں۔ اس نے جرمن قوم کی بالادستی اور غلبے کا نعرہ لگایا اور 1933ء میں جمہوری طور پر منتخب ہو گیا لیکن اسے مکمل اختیار اور ایجنڈے کی تکمیل کے لیے دو تہائی اکثریت چاہیے تھی۔ نسل پرست متعصب ہٹلر کے ساتھ مذہبی شدت پسند پارٹی کیتھولک سینٹر پارٹی مل گئی اور با اختیار ہٹلر تاریخ کا وہ خوفناک کردار بن کر ابھرا کہ پورا یورپ آج تک اس کی لگائی ہوئی آگ کی تپش محسوس کرتا ہے۔

راشٹریہ سیوک سنگھ کے ممبران میں اٹل بہاری باجپائی جیسے شاعر بھی تھے لیکن نریندر مودی اس متعصب تنظیم میں ویسے ہی شدت پسند خیالات کا حامل تھا جیسے ہٹلر کے خیالات ورکرز پارٹی میں تھے۔ تاریخ ایک دفعہ پھر نسل‘ دھرتی اور مذہب کے ملاپ سے ابھرنے والی ایسی قیادت کا منظر دیکھ رہی ہے جو جمہوری طور پر منتخب ہوئی ہے۔ جمہوریت جسے اکثر مفکرین اکثریت کی آمریت (Tyrny of Majority) کہتے ہیں اس کا اظہار دوسری دفعہ ہوا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے میں انسانیت خون میں تو ڈوب جاتی ہے لیکن شکست نسل‘ دھرتی اور مذہب کے جمہوری گٹھ جوڑ کو ہوتی ہے۔

وقت کی ٹرین......

$
0
0

ہمارے پاس تین آپشن ہیں۔ہمارا پہلا آپشن جمہوریت ہے‘ ہم سب لوگ‘ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اور ہمارے ملکی اور غیر ملکی دوست دل سے یہ مان لیں جمہوریت دنیا کا بہترین اور فعال نظام حکومت ہے اور پاکستان کا مستقبل بھی امریکا‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ فرانس‘ جاپان اور بھارت کی طرح اسی نظام میں مضمر ہے اور ہم اس کے بعد ملک کے اندر اور ملک کے باہر سے جمہوریت کو ’’ڈی ریل‘‘ کرنا بند کر دیں‘ پاکستان کا کوئی ادارہ جمہوریت کے خلاف کوئی حرکت کرے اور نہ ہی ہمارے بیرونی دوست اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے مارشل لاء لگوائیں‘ فوج بھی تسلیم کر لے پاکستان کا مقدر بہرحال جمہوریت ہی ہے‘ ہم عوام بھی دل سے مان لیں ہمارے مسائل کے حل پارلیمنٹ کی درازوں میں ہیں اور ہم جب تک اچھی لیڈر شپ کا بندوبست نہیں کریں گے‘ یہ درازیں نہیں کھلیں گی اور ہمارے سیاسی رہنما بھی مان لیں ہم آمر نہیں ہیں‘ ہم قوم کے خادم ہیں‘ ہم نے قوم کو خدمت سے بنانا ہے۔

ہم اگر جمہوریت کا آپشن استعمال کرتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے جمہوری نظام میں چند بڑی تبدیلیاں کرنا ہوں گی‘ ہمیں سب سے پہلے یہ ماننا ہو گا‘ پاکستان میں جمہوریت بدترین شکل میں نافذ ہے‘ سیاسی جماعتیں سیاسی پارٹیاں نہیں ہیں‘ یہ سیاسی جاگیریں‘ سیاسی فیکٹریاں اور سیاسی کمپنیاں ہیں‘ یہ منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی طرح وراثت میں اگلی نسل کو منتقل ہوتی ہیں‘ ہمارے سیاسی حلقے بھی سیاسی حلقے نہیں ہیں‘ یہ وراثتیں اور گدیاں ہیں‘ معاشرے کے نامعقول‘ جاہل‘ پھڈے باز اور مطلب پرست لوگ اکثر اوقات سیاست کا سہارا لے کر پورے نظام کو ہائی جیک کر لیتے ہیں‘ یہ نظام کے سر پر بیٹھ کر نظام کو تسلیم نہیں کرتے‘ یہ تھانے میں پیش ہونا‘ عدالت کا سامنا کرنا‘ سڑک پر رکنا‘ ٹیکس دینا‘ قطار میں کھڑا ہونا‘ سرکاری اہلکاروں سے انکار سننا‘ بل ادا کرنا اور میرٹ کا خیال رکھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں‘ یہ وزارتیں لے لیتے ہیں لیکن ان میں وزیروں جیسی اہلیت نہیں ہوتی‘ یہ کرپشن‘ لوٹ کھسوٹ اور جرائم کو بھی اپنا حق سمجھتے ہیں اور یہ ہوٹر‘ سائرن اور پروٹوکول کو اپنی زندگی کا نصب العین گردانتے ہیں۔

ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا ہمارا الیکشن سسٹم اس قدر کمزور ہے کہ کوئی بھی شخص‘ کوئی بھی ادارہ اور کوئی بھی مالدار پارٹی اسے آسانی سے ’’ہائی جیک‘‘ کرلیتی ہے چنانچہ ہمیں اپنی جمہوریت تبدیل کرنا ہو گی‘ ہمیں پارٹیوں کو خاندانوں کے پنجے سے آزاد کرانا ہو گا‘ ہمیں حلقوں کو بھی وراثت کے چنگل سے چھڑانا ہو گا‘ ہمیں الیکشن کمیشن میں بھی بھارت جیسی اصلاحات کرنا ہوں گی اور ہمیں ایک ایسا معاشرتی سسٹم بھی بنانا ہو گا جس کی چھلنی سے صرف ایسے لوگ چھن کر پارلیمنٹ ہاؤس پہنچیں جن کی ایمانداری‘ حب الوطنی‘ دانش مندی‘ ذہانت‘ فطانت اور قانون پرستی کی قسم کھائی جا سکے۔

جو مطالعے میں پروفیسر‘ فیصلوں میں جرنیل‘ گفتگو میں وکیل‘ صحت میں مسٹر پاکستان اور شرافت میں ولی ہوں اور جن کے کریکٹر کو بڑے سے بڑے دشمن بھی مانتے ہوں اور ہمیں اگر اس کے لیے پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام کی طرف بھی جانا پڑے تو ہمیں دریغ نہیں کرنا چاہیے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر سیاستدانوں کو سینیٹ کو اعلیٰ ترین دماغوں کا کلب بنا دینا چاہیے‘ سینیٹ میں صرف شاندار دماغ جا سکیں‘ کابینہ کے لیے وفاقی وزراء سینیٹ سے لیے جائیں جب کہ وزیر مملکت قومی اسمبلی سے منتخب کیے جائیں‘ یوں بھی معاملہ خاصی حد تک کنٹرول میں آ جائے گا‘ ہم نے اگر فوری طور پر یہ نہ کیا تو پھر ملک میں جمہوریت بچانا مشکل ہو جائے گا کیونکہ یہ جمہوریت ملک کو نااہلی‘ کرپشن‘ فساد اور خاندانی آمریت کے سوا کچھ نہیں دے رہی‘ یہ حکمرانی کا تاج بادشاہوں کے نااہل بچوں کے سروں پر رکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہی!۔

ہمارا دوسرا آپشن فوج ہے‘ فوج بلاشبہ ملک کا منظم ترین ادارہ ہے‘ یہ اپنے افسروں کو جسمانی ٹریننگ بھی دیتی ہے اور ذہنی بھی۔ افواج پاکستان کے 95 فیصد افسر ایکسرسائز بھی کرتے ہیں‘ کتابیں بھی پڑھتے ہیں‘ لیڈر شپ کے کورسز بھی کرتے ہیں‘ سیاسی‘ سفارتی اور سماجی موضوعات پر لیکچر بھی اٹینڈ کرتے ہیں اور ملک کے اندر اور بیرون ملک تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں‘ ہمیں یہ ماننا پڑے گاملکی نظام ڈھیلا ہونے کے باوجودفوج میں آج بھی احتساب‘ ٹریننگ اور میرٹ موجود ہے۔

فوج میں جنرل کا بیٹا ہو یا صوبیدار کا یہ ایک ہی عمل سے گزر کر افسر بنتا ہے‘ ملک کے 99 فیصد آرمی چیف مڈل کلاس کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور یہ بڑی جدوجہد کے بعد اعلیٰ ترین منصب پر پہنچے تھے‘ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا ملک میں کرپشن کلچر کے باوجود فوجی افسر اتنے کرپٹ نہیں ہیں جتنے دوسرے شعبوں کے لوگ ہوتے ہیں‘ ہم جنرل پرویز مشرف کے خلاف ہیں لیکن ہمیں تمام تر مخالفت کے باوجود ان کی ’’کمیونیکیشن سکل‘‘ کا اعتراف کرنا پڑے گا‘ یہ جس طرح میڈیا اور بین الاقوامی فورمز سے مخاطب ہوتے تھے‘ ہمارا کوئی دوسرا لیڈر اس گھن گرج اور دلیل سے بات نہیں کر سکتا اور یہ جس طرح بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتے رہے ہیں‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف اس طرح ہارورڈ اور سٹین فورڈ یونیورسٹی میں کھڑے نہیں ہو سکتے‘ فوج آج بھی ملک کے لیے قربانیاں دے رہی ہے‘ یہ قربانیاں بارڈر پر ہوں یا پھر بارڈر کے اندر ہمیں بہرحال یہ قربانیاں بھی تسلیم کرنا پڑیں گی چنانچہ فوج دوسرا آپشن ہے۔

فوج پانچویں مرتبہ بھی ملک کی عنان اقتدار سنبھال سکتی ہے لیکن یہ عنان پچھلی چار عنانوں سے مختلف ہونی چاہیے‘ فوج کو اقتدار میں آنے سے قبل یہ ماننا ہو گا ملک آج جس نہج تک پہنچا اس کی 80 فیصد ذمے داری فوج پر عائد ہوتی ہے‘ ملک کے ہر مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے ذاتی اقتدار کے دوام کے لیے سیاسی جماعت بنائی‘ اس شاہی جماعت نے بعد ازاں ملک سے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا‘ ہمارے یونیفارم صدور اپنے جونیئرز کا حق بھی مار کر بیٹھ گئے اور یوں فوج دس سال بعد اپنے حق کے لیے ان کی قربانی دینے پر مجبور ہو گئی چنانچہ فوج کو پانچویں مرتبہ آنے سے قبل چند بڑے فیصلے کرنا ہوں گے‘ فوجی آمر اقتدار میں آنے کے بعد یونیفارم اتار دے تا کہ اسے یونیفارم بچانے کے لیے پی سی اوز‘ سمجھوتے‘ ایل ایف اوز اور آئین میں بڑی تبدیلیاں نہ کرنی پڑیں‘ یہ حکمران کوئی کنگز پارٹی نہ بنائے‘ فوج اس کی واحد پارٹی ہو‘ یہ سول اداروں میں فوجی بھی تعینات نہ کرے کیونکہ اس سے فوج کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے۔

فوجی آمر تیس سال تک واپس نہ جائے‘ یہ ان تیس برسوں میں ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتوں کو ڈویلپ ہونے دے‘ ان جماعتوں کو بلدیاتی نظام سے اٹھایا جائے‘ انھیں چھوٹے شہروں اور قصبوں کو ڈویلپ کرنے کا کام دیا جائے‘یہ پولیس اور عدالتوں کا نظام بہتر بنائے‘ ملک میں رول آف لاء ہو‘ تعلیم‘ صحت‘ قانون اور روزگار پر خصوصی توجہ دی جائے‘ سول سروس کو دوبارہ قدموں پر کھڑا کیا جائے اور جب یہ تمام کام ہو جائیں تو ایک جامع عمل کے ذریعے اقتدار سیاستدانوں کو منتقل کر دیا جائے‘ یہ فیصلہ بھی کر لیا جائے فوجی حکمران کے خاندان کا کوئی فرد سیاست‘ صنعت اور کاروبار میں نہیں آئے گا‘ یہ عام پاکستانیوں کی طرح زندگی گزاریں گے‘ فوج اگر یہ فیصلہ کر لے تو درست بصورت دیگر پانچواں مارشل لاء اس ملک کا آخری مارشل لاء ثابت ہو گا کیونکہ اس کے بعد مارشل بچے گا اور نہ ہی لاء۔

ہمارے پاس تیسرا اور آخری آپشن مذہبی جماعتیں ہیں‘ ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے ملک پچھلے دس برسوں میں عسکری تنظیموں کے ہاتھوں میں منتقل ہو چکا ہے‘ جب جی ایچ کیو‘ مہران نیول بیس اور کامرہ ائیر بیس کا محاصرہ ہو جائے‘ جب دو بڑی جیلیں ٹوٹ جائیں‘ جب ہیوی مینڈیٹ نامعلوم شخص کے ایک خط پر پھانسی کی سزائیں معطل کر دے اور جب ریاست کمزور پوزیشن سے مذاکرات شروع کر دے تو پھر انکار کی کیا گنجائش بچتی ہے‘ ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا ملک کی کوئی سیاسی جماعت مذہبی دھڑوں کی حمایت کے بغیر اقتدار تک پہنچ سکتی ہے اور نہ ہی اقتدار سلامت رکھ سکتی ہے‘ مذہبی جماعتیں عوام میں بے انتہا پذیرائی رکھتی ہیں‘ آج کسی ایک مکتبہ فکر کی کوئی جماعت کال دیتی ہے تو پورا ملک بند ہو جاتا ہے۔

کراچی اور حیدر آباد میں ایم کیو ایم کا ہولڈ تھا‘ ملک کی کوئی سیاسی جماعت یہ ہولڈ نہیں توڑ سکی‘اگر اس ہولڈ کو کسی نے چیلنج کیا تو یہ مذہبی جماعتیں ہیں‘ ملک میں اگر ایک مذہبی جماعت فتویٰ جاری کر دے تو جیو جیسا چینل بھی بند ہو جاتا ہے‘ یہ لوگ اسٹریٹ پاور بھی رکھتے ہیں‘ طاقت بھی اور اثر و رسوخ بھی۔ یہ ملک میں اسلامی شریعت بھی نافذ کرنا چاہتے ہیں اور جس دن انھوں نے شریعت کے نفاذ کا فیصلہ کرلیا یہ کام اس دن ہو جائے گا اور کوئی ملکی اور غیر ملکی طاقت اسے ہونے سے روک نہیں سکے گی‘ ہمارے پاس یہ آپشن بھی موجود ہے‘ ہم ملک ان کے حوالے کر دیں مگر ہمیں اس سے قبل بھی چند بڑے فیصلے کرنا پڑیں گے۔

ہمارے علماء کو اپنے فروعی اختلافات ختم کرنے پڑیں گے کیونکہ کہیں ایسا نہ ہومذہبی جماعتوں کے قبضے کے بعد ملک مسلکوں اور فرقوں میں تقسیم ہو جائے اور یہ ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو جائیں‘ ہمیں اس سے قبل اپنے ایٹمی اثاثوں‘ بین الاقوامی معاہدوں‘ 20کروڑ لوگوں کی خوراک‘ ادویات‘ پانی اور بجلی اور فارن ریزروز‘ انٹرنیشنل فلائیٹس‘گیس اور پٹرول کا بندوبست بھی کرنا ہوگا کیونکہ دنیا انقلاب کے آدھ گھنٹے بعد ہم سے یہ ساری سہولتیں چھین لے گی۔

ہمیں اس سے قبل اپنے دو خوفناک ہمسائیوں عبداللہ عبداللہ اور نریندر مودی سے بچاؤ کا بندوبست بھی کرنا ہوگا کیونکہ یہ دونوں اور ان دونوں کے ملک ہمیں زیادہ مہلت نہیں دیں گے اور ہمیں سب سے بڑھ کرملک چلانے کے لیے دو کروڑ پڑھے لکھے ہنر مندوں کی ضرورت بھی پڑے گی‘ ہمیں ان کا بندوبست بھی کرنا پڑے گا اور ہمیں یہ فیصلہ بھی کرنا ہو گا ہمیں جب اپنے برادر اسلامی ملک تسلیم کرنے سے انکار کردیں گے تو ہم سفارتی دباؤ میں آئیں گے اور یہ سفارتی دباؤ ہمیں ’’گلوبل ویلج‘‘ میں اکیلا کردے گا‘ ہم سفارتی تنہائی سے کیسے نکلیں گے؟۔

ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں‘ ہمیں فوری طور پر ایک آپشن اٹھانا ہو گا‘ ہم نے اگر دیر کردی تو ہمارے پاس یہ آپشن بھی نہیں بچیں گے کیونکہ فرد ہوں یا قومیں وقت کی ٹرین زیادہ دیر تک انتظار نہیں کیا کرتی۔

جاوید چوہدری

The Future of Electronic Media in Pakistan by Talat Hussain

$
0
0

کبھی ہم مسئلے کا حل تھے مگر اب مسئلہ ہیں۔ کبھی ہمارے حق میں احتجاج ہو تا تھا اب پتھر بردار گروہ گھیراؤاور جلاؤکی نیت کے ساتھ احتجاج کررہے ہیں۔ کبھی ہم خوبصورت تھے، اب ہر کوئی بدصورتی کا الزام لگاتا ہے۔ قصور نہ ذرایع ابلاغ کا ہے نہ صحافیوں کا،یہ سب کیا دھرا اس نظام کا ہے جسے چلانے والے مالکان اور پھیلانے والے وہ منشی ہیں جو صحافی کے لبادے میں سامنے آکر بیٹھ گئے اور ہر وہ کام کرنے لگے جس کا تعلق اس شعبے کے کسی ضابطے کے ساتھ نہیں تھا۔

پاکستان میں پچھلے دس سال میں صحافیوں نے قربانیوں کے ذریعے نام بھی پیدا کیا اور عظیم تبدیلیوں کا باعث بھی بنے۔معاشرے کو سوال کرنے کی عادت ڈالی اور چھپے ہو ئے چہر ے بے نقاب کیے۔ بدعنوانی، ظلم، استحصال اور لوٹ مار کے گرم بازار کو عوام کے سامنے ایسا رکھا کہ اب ان سے دھوکا کرنے والے دو مرتبہ سوچتے ضرور ہیں۔ فیس بک، بلاگ اور سو شل میڈیا نے جمہوریت کو ایسے متعارف کرایا کہ اس میں موجود دیوقامت دانش ور وضاحتیں کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اسلامی دنیا کی تاریخ میں خون خرابے کے بغیر آئینی، جمہوری تبدیلیوں کا عمل پاکستان میں ذرایع ابلاغ نے مکمل کیا۔ انتخابات اور عدالتوں پر حملوں کے بعد کے حالات ذرایع ابلا غ کی بہتر ین کار کر دگی کے بغیر کبھی بھی نہ بن پاتے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ آزادی کے بعد پہلی مرتبہ اگر کسی شعبے نے اگر حقیقت میں اپنی طاقت کا احسا س دلا یا تو وہ پا کستان کا میڈیا ہے۔

بدقسمتی سے یہ طا قت بعض حلقوں میں گھمنڈ کی شکل اختیار کر گئی۔غرور اور اجاہ داری مل کر مالکا نہ جبر میں تبدیل ہوگئی۔صحافیوں کو کونوں میں دکھیل دیا گیا، شعبدوں بازوں اور نوسر بازوں کی منڈی لگا دی گئی۔اس تمام عمل کے دوران ریاست کے ادارے اور سیاسی جماعتیں ہنسی خوشی اس پانی سے ہاتھ دھوتی رہیں۔ عمران خان سمیت تمام سیاست دانوں نے میڈیا کو سیاسی زینے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے وہ زینت حاصل کی جس کی وجہ سے وہ آج طاقت کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔ ہمیں وہ دن یاد ہے جب ایک انٹرویو کرانے کے لیے یہ زعماء ہفتوں منتیں کیا کر تے تھے۔خبر چلانے کے لیے دفتروں کے چکر لگانا عام سی بات تھی۔

اچھے اور برے کی تمیز (جس کے بارے میں ہر اچھا صحا فی مسلسل آواز اٹھا رہا تھا)کا معاملہ ان کے لیے تر جیح نہیں تھا۔ دہشت گردوں سے نپٹنا ہو، عسکری معرکوں کی کامیابیوں کے جھنڈوں کو دکھلانا ہو، ریاست کے دشمنوں کے خلاف بیان جاری کرنا ہو یا اپنے مخالفین کو نیچا دکھانا ہو، سیاست، ریاست اور صحافت میں موجود اجاہ داروں کا اکٹھ ان تینوں کے لیے فائدہ مند تصورکیا جاتا تھا چونکہ اس وقت میڈیا کی تشہیر فائدہ مند تھی لہٰذا کچلے گئے اصولوں پر کوئی اعتراض کرنے والا نہیں تھا۔ یقیناً ذرایع ابلاغ کے چلانے والوں کو احساس کرنا چاہیے تھا کہ بے اصولی کے جو جن وہ بوتلوں سے نکال رہے ہیں وہ کسی دن ان سب کو ہڑپ کر جائیں گے۔ جو گھوڑا ایک مرتبہ تانگے میں جوت دیا جاتا ہے وہ آزاد دوڑ میں شریک ہونے کے قابل نہیں رہتا۔ ذرایع ابلاغ کے چلانے والوں کو یہ بھی سمجھنا چاہیے تھا کہ کوئی ادارہ معاشرے کی ثقافتی اساس اور قومی ترجیحات کے خلاف ایجنڈا چلا کر زیادہ دیر اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکتا۔

صبح کے شو زمیں جو کچھ ہوتا رہا ہے اور آج کل جو حالات،حالات حاضرہ کے بنا دیے گئے ہیں ان میں سے نہ خیر کی خبر نکلی اور نہ نکلے گی۔ پروپیگنڈا اور ذاتی جنگ و جدل اداروں کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ اگر جھوٹے اور مکار معاشرے کے سر پر سنجیدہ کرداروں کی طور پر تھو پے جائیں گئے تو بدی کا راج از خود قائم ہوجائے گا۔ اصولوں اور ظابطوں سے انخراف کی بیماری پولیو وائرس سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے اور میڈیا کے چلانے والوں نے اس وائرس کو اپنے ہاتھوں سے بنایا، پیار سے پالا اور توانا کیا۔ لہٰذا آج جو آپ دیکھ ر ہے ہیں وہ پچھلے دس سالوں کے کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ صحافت کے خلاف ہونے والی سازشوں کا سب سے بڑا توڑ صحافتی ضابطے ہیں۔سیاسی طور پر بازو مروڑنے والے ہوں یا ریاستی جبر کو لاگو کر نے والے۔ اچھی صحافت کے اصول یعنی توازن، تصدیق، تجزیے اور طاقت کے داؤ پیچ سے اجتناب ہمیشہ کارگر ہتھیار ثابت ہوتے ہیں۔

لوگوں کی نظر میں آج کل جو کچھ ہورہا ہے وہ تطہیر اور درستگی کا عمل ہے۔ یہ جراحی ہے جس سے پیپ نکالی جارہی ہے۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ایک خرابی کو ختم کرنے کے لیے بیسووں خرابیوں کا سہارہ لیا گیا ہے۔ جن معاملات کو قانون، آئین اور پروفیشنل اصولوں کے تحت طے کیا جاتا تھا، وہ فتویٰ دینے والوں کے ہاتھوں میں دے دیے گئے ہیں۔ جہاں پر ذہانت اور تدبیر استعمال کرنی تھی وہاں پر ہجوم کو چھوڑ دیا گیا ہے۔آج ہم ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں پر میر ے دوست صحافیوں کو صرف اس وجہ سے اپنی شناخت چھپانی پڑتی ہے کہ وہ کسی ایک خاص گروپ سے منسلک ہیں۔اس گروپ نے کیا کیا؟کس کے کہنے پر کیا؟ اس کی تمام ذمے داری کا بوجھ اب صحافیوں کے کندھے پر ڈال دیا گیا ہے۔

اس طرح اداروں کی لڑائی میںصحافت کے نام پر بدترین جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ بہروپیے، اٹھائی گیرے جو اپنی قیمت لگوانا جانتے ہیں ہر طرف سے خود کو خدمت کے لیے پیش کر رہے ہیں۔صحافتی ادارے اندر اور باہر سے شدید انتشار کا شکار ہیں۔اگر اخبارات اور چینل صحافی خود چلا رہے ہوتے تو مسئلہ نہ ہوتا مگر کیا کریں، مالکان کے پلیٹ فارم کے بغیر صحافت نہیں کی جاسکتی۔اگر ہم پروفیشنل صحافیوں نے ان معاملات کو اپنے ہاتھ میں نہ لیا تو ہمارے کام کرنے کی گنجائش ختم ہو جائے گی۔ ہمیں یا مالکان، سیاسی اور ریاستی اداروں کے پتلی تماشوں کا حصہ بننا ہو گا اور یا پھر کھیتی باڑی کرنی ہوگی۔اس وجہ سے ذرایع ابلاغ کی تنظیمیں، پریس کلبز اور نمایندہ ادارے صحافت کے اصولوں کی پامالی پر خاموش نہیں رہ سکتے، اُن کو بو لنا ہوگا۔افراد کی غلطیاں پیشے کو نہیں بھگتنی چاہیے۔پاکستان کا صحافی محنت اور دیانت دارہے۔ یہ کیا دھرا اُس کا نہیں ہے۔ اگرچہ جو آگ ہر طرف لگ چکی ہے، وہ اُس کے تلووں کو بھی جلا رہی ہے۔

طلعت حسین

The Future of Electronic Media in Pakistan by Talat Hussain 

Enhanced by Zemanta

Geo Group and ISI, What is the real conflict?

$
0
0

اخبارات اور ٹی وی چینلز سے حکومتوں کو ہمیشہ شکایات رہتی ہیں کہ آزاد صحافت حکومتوں کی خرابیوں، کرپشن، بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوں کو عوام کے سامنے لاتی رہتی ہے۔ لیکن جنگ اور جیو گروپ شاید دنیا کا واحد میڈیا گروپ ہے جس سے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں، دینی حلقوں، سماجی تنظیموں، علمی شخصیات، اور تحقیقی اداروں کو ہمیشہ سے بے پناہ شکایات رہی ہیں اور وقتاً فوقتاً اس پر وہ اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اور یہ شکایات اتنی بے جا بھی نہیں تھیں۔ 1981ء میں لاہور سے جنگ کی اشاعت کے فوری بعد ممتاز عالم دین اور مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے سربراہ علامہ احسان الٰہی ظہیر کی خفیہ شادی کی خبر نمایاں انداز میں جنگ میں شائع کی گئی۔ یہ خبر نہ صرف غلط تھی بلکہ علامہ صاحب کے ایک مخالف نے فراہم کی تھی۔ اس خبر کی اشاعت پر علامہ احسان الٰہی ظہیر نے روزنامہ جنگ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کیا۔ ان کے حامیوں نے شدید احتجاج کیا اور عرصہ تک علامہ صاحب اور ان کی جماعت مرکزی جمعیت اہلِ حدیث جنگ سے شدید نالاں رہے۔ 1981ء ہی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے اُس وقت کے ناظم اعلیٰ (غالباً معراج الدین) کے بارے میں طیارہ اغوا کرنے کی جھوٹی خبرشہہ سرخی کے طور پر شائع کی گئی جس پر اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں نے جنگ لاہور کے دفاتر آکر احتجاج کیا اور شدید توڑ پھوڑ کی۔ نوازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو ان کی طلبہ تنظیم مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کو اس میڈیا گروپ کے ساتھ اس قدر شکایات پیدا ہوئیں کہ انہوں نے ارشد امین چودھری کی قیادت میں جنگ اخبار کے بنڈل جلائے اور اخبار کو مارکیٹ پہنچنے نہ دیا۔ الطاف حسین جن دنوں پاکستان میں ہی تھے، انہوں نے جنگ اخبار کے بائیکاٹ کا اعلان کیا اور کئی روز تک روزنامہ جنگ کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے کئی شہروں میں تقسیم نہ ہوسکا۔ غلام حیدر وائیں پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں جنگ اور اس سے وابستہ صحافیوں پر سنگین الزامات لگائے اور اُس وقت کے ایگزیکٹو ایڈیٹر جناب اطہر مسعود کا نام لے کر اپنی شکایات ریکارڈ کرائیں۔ یہ تلخی اور لڑائی کئی ہفتوں جاری رہی۔ ایک وقت تھا جب نوازشریف اور چیف ایڈیٹر جنگ میر شکیل الرحمن کے درمیان ایسی گاڑھی چھنتی تھی کہ دونوں ایک چھوٹے طیارے میں بیٹھ کر لاہور کے گرد چکر لگاتے ہوئے گھنٹوں خوش گپیاں کرتے تھے۔ پھر یہ وقت آیا کہ نوازشریف کے وزیر سیف الرحمان نے جنگ کے خلاف متعدد کیس بنا ڈالے۔ اخبار کا کاغذی کوٹہ رک گیا اور جنگ بند ہونے کے قریب آگیا۔ چنانچہ جنگ انتظامیہ نواز حکومت کے خلاف سپریم کورٹ تک میں گئی۔ یہ لڑائی اتنی لمبی ہوئی کہ لاہور اور کراچی میں حکومت کے خلاف جنگ نے احتجاجی کیمپ لگا دیئے۔ اور اب آئی ایس آئی پر الزامات اور اس کے سربراہ کی کردارکشی کے بعد بہت سی چھائونیوں اور فوجی علاقوں میں جنگ کا بائیکاٹ ہورہا ہے، جب کہ عمران خان بھی آستینیں چڑھا کر جنگ اور جیو کے بائیکاٹ کا اعلان کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مئی 2013ء کی انتخابی دھاندلی میں جیو گروپ ملوث ہے۔ یہ شاید دنیا میں کسی میڈیا گروپ پر اپنی نوعیت کا پہلا الزام ہے۔

دنیا بھر میں اخبارات اور چینلز سے سیاسی جماعتوں کو تھوڑی بہت شکایات ہوتی ہیں لیکن جنگ اور جیو پر لگنے والا الزام بڑا منفرد ہے۔ سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ جنگ اور جیو مختلف مواقع پر مختلف سیاسی جماعتوں کے خلاف باقاعدہ اور منظم مہم چلاتے رہے ہیں جو کسی صحافتی ادارے کا کام ہے نہ صحافتی اخلاقیات اس کی اجازت دیتی ہیں۔

اس وقت جیو گروپ کھلم کھلا عمران خان کے خلاف باقاعدہ مہم چلا رہا ہے۔ ان کے خلاف خبروں، تبصروں اور ٹاک شوز کے علاوہ باقاعدہ پر وموز اور اشتہارات چلائے جارہے ہیں جو سب کو نظر آرہے ہیں لیکن کوئی سیاسی جماعت یا میڈیا گروپ اس کی حمایت کررہا ہے نہ کوئی صحافتی تنظیم اسے پسند کررہی ہے۔ اس سے قبل یہی جیو گروپ جس انداز میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام کے بارے میں باقاعدہ مہم چلاتا رہا ہے اسے بھی کسی نے پسند نہیں کیا۔ یہی کام اس سے قبل سابق آئی ایس آئی چیف جنرل شجاع پاشا کے خلاف کیا گیا تھا۔ کسی فرد یا ادارے کے خلاف خبر دینا اور بات ہے مگر باقاعدہ مہم چلانا بالکل مختلف بات ہے۔ جنگ اور جیو گروپ تسلسل سے یہی کام کررہا ہے۔ چند ماہ قبل امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کے ایک انٹرویو پر یہ گروپ اپنے چینلز اور اخبارات میں باقاعدہ تندو تیز مہم چلا چکا ہے۔ اس معاملے میں تو اس گروپ نے قائداعظم اور شاعر مشرق کو بھی نہیں بخشا۔ اس کے اینکر نجم سیٹھی اور کالم نگار یاسر پیرزادہ نے قائداعظم تک کی کردارکشی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ چند ماہ قبل ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے کے خلاف جنگ، جیو گروپ نے صرف خبریں نہیں دیں بلکہ باقاعدہ مہم چلائی ہے۔ صدر آصف علی زرداری کے خلاف تو اس گروپ نے اس قدر منظم مہم چلائی کہ پیپلز پارٹی کے لوگ اب تک خود جیو کے پروگراموں میں اس کی شکایات کرتے ہیں۔ مولانا بخش چانڈیو نے یہاں تک کہا کہ ہمیں یہ گروپ غدار اور سیکورٹی رسک تک کہتا رہا ہے۔ راولپنڈی کے ضمنی انتخابات میں یہ گروپ شیخ رشید کے خلاف مہم چلانے میں اس قدر سرگرم تھا کہ شیخ رشید اعلانیہ کہتے تھے کہ وہ انتخاب جیت گئے تو جیو کے اینکر کو سبق سکھا دیں گے۔ پرویزمشرف پر آئین کی پامالی کا کیس شروع ہوا تو جنگ اور جیو نے جو کچھ کیا وہ رپورٹنگ تھی نہ صحافت… وہ کھلی کھلی مہم تھی جسے شاید فوج نے پسند نہ کیا ہوگا۔ جعلی ڈگری کیس والے جمشید دستی ضمنی انتخابات میں دوبارہ امیدوار بنے تو جنگ اور جیو نے ایسی مہم چلائی کہ ان کے مخالف امیدوار نے بھی نہ چلائی ہوگی۔ حالانکہ ان ہی دنوں ملک کے 8 حلقوں میں جعلی ڈگری کی وجہ سے دوبارہ انتخابات ہو رہے تھے اور تمام سیاسی جماعتوں نے سابقہ امیدواروں یا ان کے نامزد افراد ہی کو ٹکٹ دیئے تھے، مگر اس پر سرسری بات کرکے اصل مہم جمشید دستی کے خلاف چلائی گئی۔ لیکن جمشید دستی اس ساری مہم کو ناکام بنا کر جیت گئے۔ پرویزمشرف دور میں جب مسلم لیگ (ق) نے اسلام آباد میں اپنا جلسہ کیا جس سے صدر پرویزمشرف نے بھی خطاب کیا، اس کی کوریج جیو نے ایک انوکھے انداز سے کی۔ جلسہ تو مسلم لیگ (ق) کا تھا اور جیو کے اینکر جلسہ گاہ کے قریب اپوزیشن کے بعض رہنمائوں کو لے کر پہنچ گئے اور اس طرح مسلم لیگ (ق) کے جلسے کے موقع پر جیو نے اس کے خلاف مخالفانہ فضا بنا دی۔ اور اب مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے لاہور پریس کلب میں واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ جنگ اور جیو نے گزشتہ انتخابات میں واضح طور پر عمران خان کی مہم چلائی اور ہمیں نقصان پہنچایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے اور خواجہ آصف کے خلاف جیو نے تکلیف دہ مہم چلائی۔

سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے خلاف اس طرح کی مخالفانہ اور کردار کشی کی مہم نے جنگ اور جیو کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا۔ لیکن اتنے بڑے میڈیا گروپ کو چیلنج کرنے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔ اب پہلی بار اس بند مٹھی سے ریت آنا شروع ہوئی ہے۔ چنانچہ ہر طرف سے اس گروپ کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ خود جیو پر آکر لوگ اس گروپ سے اپنے دکھڑے بیان کر رہے ہیں۔ اس طرح اب ایک ایسا پنڈورا بکس کھل گیا ہے جو مستقبل کی صحافت کو گھائل کرکے رکھ دے گا۔ جنگ اور جیو سے شکایات لوگوں کو پہلے سے تھیں مگر وہ اس کی طاقت کے سامنے ہمت نہیں کرتے تھے۔ اِس بار اس گروپ نے ملک کے مقتدر ادارے سے ٹکرا کر سب کی زبانیں کھول دی ہیں۔ ورنہ ماضی میں بابائے سوشلزم شیخ رشید اور چودھری ظہور الٰہی اپنے بارے میں توہین آمیز، غلط اور پروپیگنڈہ پر مبنی خبریں شائع کرنے پر جنگ کے خلاف ہتک عزت کے کیس جیت چکے ہیں۔

اب ذرا دیکھیے کہ جنگ اور جیو گروپ پر کون لوگ چھائے ہوئے ہیں جو شاید فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہیں۔ ایک صاحب وہ ہیں جن کے بارے میں فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ جب وہ پشاور میں شاید بطور بریگیڈیئر تعینات تھے تو انہوں نے جیو اور جنگ گروپ کے اس ستون کو حراست میں لیا تھا۔ ان پر سنگین نوعیت کے ریاست مخالف الزامات تھے جس پر وہ کئی ماہ زیر حراست رہے۔ بعد میں یہی صاحب بلوچستان میں ریاست کے خلاف جاری مسلح جدوجہد میں شریک رہے۔ پھر نوازشریف کے سابقہ دور میں وہ بھارت جاکر ایسی گفتگو فرما آئے کہ انہیں واپسی پر حساس اداروں نے کئی ہفتے بلکہ کئی ماہ حراست میں رکھا۔ اب ان کی بیٹی امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل میں کام کرتی ہیں، عمومی طور پر ان کی تحریریں فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف ہوتی ہیں۔ ایک صاحب وہ ہیں جنہیں 1981ء میں حساس اداروں نے بعض مبینہ سرگرمیوں کی بنا پر حراست میں لیا تھا اور کئی ماہ تک حراست میں رکھا تھا۔ ایک صاحب 1970ء میں لاہور میں جماعت اسلامی کے دفتر کو نذر آتش کرنے کا ایک کردار تھے، اس واقعہ میں قرآن پاک کے نسخے اور دینی کتب کی بڑی تعداد کو نقصان پہنچا تھا۔ بعد میں ان صاحب پر لاہور کے ایک عالم دین کے گھر کا گھیرائو کرکے وہاں توڑ پھوڑ اور حملہ کرانے کا الزام رہا تھا۔ ایک صاحب بے نظیر کے پہلے دور میں الذوالفقار کے کارکنوں اور طیارہ اغوا کے نتیجے میں بیرون ملک بھیجے گئے جو52 افراد کی بحالی اور ان کو حکومت میں حصہ دینے کی تحریک کے لیے کوشاں تھے اور اس سلسلے میں بنائی گئی ایک تنظیم میں مبینہ طور پر شامل تھے۔ ایک صاحب جو طویل عرصہ تک اس میڈیا گروپ سے وابستہ رہے وہ بھارت سے دوستی میں ہر حد پھلانگنے کے قائل ہیں۔ انہیں ساری خوبیاں بھارت میں اور تمام خرابیاں پاکستان میں نظر آتی ہیں۔

ان حالات میں یہ سوال بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ اس لڑائی کا انجام کیا ہو گا۔ جس میڈیا گروپ کو سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے نہ معاصر میڈیا گروپس کی ، جس کی حمایت حکومت بھی واضح طور پر نہیں کررہی، جس کے ہزاروں کارکن اس ساری لڑائی میں مکمل طور پر خاموش تماشائی ہیں، جس کی حمایت میں سول سوسائٹی بھی کھل کر سامنے نہیں آئی، جس کی حمایت اور مخالفت پر صحافتی حلقے منقسم ہیں وہ اتنی سخت اور لمبی لڑائی کیسے لڑ رہا ہے؟ یہ لڑائی کس کی مبینہ آشیرباد سے لڑی جا رہی ہے اور اس کے پس پردہ مقاصد کیا ہیں؟ ان سوالات کے جوابات ابھی آنا باقی ہیں۔ شاید جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں ان سوالات کے جوابات مل جائیں گے۔ لیکن سردست یہ بات اہم ہے کہ حامد میر پر حملے کی منصفانہ تحقیقات اور ملزموں کی نشان دہی ہونی چاہیے۔ آئی ایس آئی کے خلاف مہم کیوں ہے، اس کے پیچھے کون اور کیوں تھا، اس طرح مختلف سیاسی جماعتوں کو فوج کی حمایت میں جلوس نکالنے کی ضرورت کیوں پیش آئی… ان معاملات کی تحقیقات ہونی چاہیے، لیکن ساتھ ہی جہاں آئی ایس آئی سیاسی و صحافتی معاملات میں مداخلت روکے کیونکہ یہ خود اس کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہے، وہیں جنگ اور جیو گروپ بھی اپنے معاملات کا کھلے دل سے جائزہ لے کر ضروری اصلاح کرے۔ صحافتی تنظیمیں محض نعروں کے پیچھے نہ بھاگیں بلکہ صحافیوں کے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے فیصلے کریں۔ جنگ، جیو گروپ اگر واقعی صحافتی آزادی چاہتا ہے تو اپنے کارکنوں اور صحافیوں کو بھی قلم اور معاش کی آزادی دے، ان کے حقوق انہیں لوٹائے۔ اور پریس کلب یہ معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائیصحافتی تنظیموں کے ذریعے انہیں حل کرائیں اور خود ان کی پشت پر کھڑے ہوجائیں… ورنہ دانستہ یا نادانستہ طور پر صحافتی ٹریڈ یونین ختم ہوجائے گی اور صحافیوں کی تقدیر کے فیصلے تفریحی کلبوں کے ہاتھ میں آجائیں گے، جو ایک المیہ سے کم نہیں ہوں گے۔ میڈیا گروپ آپس کی سر پھٹول کے بجائے کوئی ضابطہ اخلاق بنائیں اور اس پر کام کریں۔ جب کہ حکومت اداروں کی لڑائی میں تماشائی بننے کے بجائے اپنا آئینی کردار ہوش مندی سے ادا کرے۔

سید تاثیر مصطفی

Geo Group and ISI, What is the conflict?

کسی کو اندازہ ہے! .........اوریا مقبول جان

$
0
0

اس سال کے آغاز میں جب میں نے اس درویشِ خدا مست کی بات لکھی تھی تو اس مملکتِ خداداد پاکستان کے کتنے لوگ ایسے ہوں گے جن کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ حالات اس قدر بدل جائیں گے۔ یہ آج سے بیس سال پرانی بات ہے، جب طبیعت میں نہ اسقدر تحمل تھا اور نہ ہی مزاج میں صبر کا یارا۔ صاحبانِ نظر کی خدمت میں حاضر ہوتا تو ایک ہی سوال زبان پر لرزاں رہتا۔ کب حالات بدلیں گے؟ ظلم بڑھتا جا رہا ہے، اللہ اپنا فیصلہ صادر کیوں نہیں کرتا؟ میری حالت عدیم ہاشمی کے شعر جیسی تھی۔

میں سر بسجدہ ہوں اے شمر مجھ کو قتل بھی کر

رہائی دے بھی اب اس عہد کر بلا سے مجھے

وقت کا دھارا کس تیز رفتاری سے بہتا ہے۔ حالات بدلنے تو کیا تھے دن بدن ابتر ہی ہوتے گئے۔ عالم الغیب تو اللہ کی ذات ہے۔ وہی جانتا کہ کسی شخص، ملک اور قوم کی تقدیر میں کیا لکھا ہے۔ لیکن اس نے اپنے غضب اور رحمت کی نشانیاں کھول کھول کر قرآنِ حکیم میں بتا دی ہیں۔ وہ کیسی قوموں پر مہربان ہوتا ہے اور کن پر اس کا غضب نازل ہوتا ہے۔ وہ بستیوں سے ظالموں کا خاتمہ کیسے کرتا ہے اور مظلوموں کی مدد اور داد رسی کے لیے اس کا نظامِ کار کس طرح حرکت میں آتا ہے۔ دنیا بھر میں اس مالکِ کائنات کے عذاب کے کوڑوں اور رحمت کی بارشوں کی نشانیاں بکھری ہوئی ہیں اور اللہ قرآن میں بار بار لوگوں کو ان بستیوں کی جانب اشارہ کر کے ان کے معدوم ہونے کی داستانیں سناتا ہے تا کہ لوگ عبرت پکڑیں۔

پھر جو سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اپنی جانب بڑھتے ہوئے طوفان کو نہ سمجھ سکیں تو اللہ فرماتا ’’کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے اور کان سننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں۔ الحج46)۔ لیکن ان کے مقابلے میں وہ ہیں جن کے سینے چراغِ ہدایت سے روشن ہوتے ہیں اور جن کے بارے میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مومن کی فراست سے ڈرو، اس لیے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھ رہا ہوتا ہے‘‘۔ یہی مومن صاحبِ نظر ہوتا ہے۔ اس کی بصیرت اور بصارت کی پرواز اللہ کے نور کے کرم سے ہوتی ہے۔ جس کو جتنا نور عطا ہوا، اتنی ہی اس کی پرواز میں وسعت آتی گئی۔

اسی لیے مدتوں اپنی بے بسی، مایوسی، جھنجھلاہٹ اور قوم کی حالت پر غصے سے بھرے سوالات لے کر میں ان صاحبانِ نظر سے راستہ تلاش کرتا رہا۔ ہر کوئی تسلی کے حرف بولتا اور ایک اطمینان ضرور دلاتا کہ وہ دن دور نہیں جب اس ملک اور قوم کے حالات بدلیں گے۔ حالات بگڑتے گئے، زوال بڑھتا گیا۔ پھر ان لوگوں کا لہجہ بھی بدلنے لگا۔ فرماتے رہے لوگوں سے کہو اپنے آپ میں تبدیل ہونے کی امنگ اور خواہش تو پیدا کریں، اللہ حالات بدل دے گا۔ اس قوم میں امنگ اور خواہش کہاں پیدا ہونا تھی، لوگ اپنے اپنے گروہ، نظریے، مفاد اور مسلک پر ایسے سخت ہوتے گئے کہ جھوٹ سچ، ایمانداری بے ایمانی، قاتل مقتول اور غاصب مغضوب میں فرق کرنا مشکل ہو گیا۔

ایک گروہ کا بے ایمان، جھوٹا اور ظالم دوسرے گروہ کا ایمان دار، سچا اور معصوم بن گیا۔ ایک گروہ کا مقتول دوسرے گروہ کا جہنم رسید اور دوسرے گروہ کا مقتول پہلے گروہ کا شہید ہو گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب یہ مردانِ باصفا جو اللہ کے نور کی عطا کردہ بصیرت سے دیکھ رہے تھے پریشان ہو گئے۔ ان کی راتیں اللہ کے حضور اس قوم کی معافی کے لیے اشک آلود ہوتی گئیں۔ فرماتے رہے لوگوں سے کہو بدل جائیں ورنہ اگر اللہ نے خود حالات درست کرنے کا فیصلہ کر لیا تو بہت نقصان ہو جائے گا۔ وہ تو فرماتا ہے ’’اور ڈرو اس وبال سے جو تم میں سے صرف ظالموں ہی کو لا حق نہیں ہو گا (الانفال25)۔ لوگ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ لوٹنے والے اپنی دھن میں لگے رہے کہ یہی دنیا ہے، جو کمانا ہے کما لو۔ ظلم کرنے والوں کے دل پتھر کے بنتے گئے۔

منبر و محراب کے امین بھی امت کو تقسیم کرنے کا فریضہ اس خوبی سے ادا کرتے رہے کہ مسجدیں خون سے رنگین ہو گئیں۔ حکمران ایسے فرعون صفت بن گئے کہ انھیں اس بات کا ادراک تک نہ ہو سکا کہ ان کے زیرنگیں لوگوں کے خون، بھوک، افلاس اور پریشانی کا روز آخر ان سے حساب لیا جائے گا۔ وہ لوگ جنھیں اللہ نے دولت دی تھی، نعمتیں عطا کی تھیں وہ اسے اپنے زور بازو سے حاصل کی گئی متاع سمجھتے رہے اور ان کے دل بھوکے، ننگے، بیمار اور نادار لوگوں کے معاملے میں سخت ہوتے گئے۔ ایک خوفناک اور کربناک منظر تھا۔ اہل نظر کیوں نہ کانپ اٹھتے۔ ان کے دلوں پر اللہ کے کلام کی یہ آیات نقش تھیں۔ اللہ فرماتا ہے ’’جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں۔

تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔ (الاسراء16)۔ یہ سب اتنا اچانک نہیں ہوتا۔ اللہ پوری مہلت دیتا ہے کسی بستی کے کار پردازوں کو، اہل اقتدار اور اہل ثروت کو۔ جب وہ اللہ کی ہدایت اور نصیحت کو بھلا دیتے ہیں اور اس پر کان نہیں دھرتے تو اللہ ان پر مزید دولت کی بارش کر دیتا ہے، نعمتوں میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ فرماتا ہے’’ پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی انھیں نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشادہ کر دیے۔ یہاں تک کہ جب ان چیزوں سے جو ان کو دی گئیں تھیں خوب خوش ہو گئے تو ہم نے ان کو ناگہاں پکڑ لیا اور وہ اس وقت مایوس ہو کر رہ گئے۔ تب ظلم کرنے والوں کی جڑ کاٹ دی گئی۔ (الانعام44) یہ تھا گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں اہلِ اقتدار، اہل ثروت اور صاحبانِ طاقت کے ساتھ اللہ کا روّیہ۔ وہ جو اس بات پر پھولے سماتے رہے کہ ہم نے اس ملک کا اقتدار حاصل کیا ہے تو ہم دنیا بھر میں امیر ترین لوگوں میں بھی کہلائے جائیں۔

ہماری دھاک ایسی ہو کہ مخالف اور کمزور ہم سے تھر تھر کانپیں، کسی کی بیٹی، بیوی اور بہو کی عزت ہمارے لیے گھاس کے تنکے سے بھی کم ہو۔ وہ جنھیں دولت دی گئی ان کی سلطنتیں وسعت اختیار کرتی گئیں اور ان کے زیردست فاقے سے خودکشیاں کرتے رہے۔ جنھیں طاقت عطا ہوئی انھوں نے ذاتی جائیدادوں، زمینوں اور سرمائے میں اضافے کو اپنا شعار بنا لیا۔ اس کے ساتھ انھوں نے اللہ کے ساتھ ایک ظلم روا رکھا۔ اللہ شرک کو ظلمِ عظیم کہتا ہے۔ انھیں نعمتیں اللہ نے دی تھیں۔ ان کے دل میں خوف اور شکر گزاری تو صرف اللہ کی ہونا چاہیے تھی۔

لیکن یہ کبھی امریکا سے ڈرتے رہے اور کبھی اپنی برادری سے، کبھی سرمائے کا خوف ان کو لاحق رہا اور کبھی ووٹر کے بدل جانے کا ڈر۔ لیکن اللہ ان پر پھر مزید اپنی نعمتیں نچھاور کرتا رہا۔ اس لیے کہ اس کا دستورِ عذاب یہ ہے کہ وہ نافرمان لوگوں کو مزید نعمتیں دے کر آزماتا ہے۔ وہ یہ تصور کرنے لگتے ہیں کہ اللہ کے ڈرانے والے یہ صاحبانِ بصیرت فراڈ ہیں، لوگوں کو بے عمل بناتے ہیں، غیر سائنسی لوگ ہیں، ترقی کے دشمن ہیں۔ دیکھا کیا ہوا اب تک ۔ دس سال سے ڈرا رہے تھے، کچھ ہوا۔ ایک حکمران آیا، لوٹ کر عیش کر رہا ہے، دوسرا آیا، وہ بھی لوٹ کر چلا جائے گا۔ کچھ نہیں بدلے گا۔ سب ڈھکو سلا ہے۔

یہی کیفیت تھی جو میرے اندر اضطرار پیدا کرتی تو میں سوال کرتا کہ کب اللہ اپنا فیصلہ صادر فرمائے گا۔ اہلِ نظر کہتے انتظار کرو۔ صفائی کا موسم تو آنا ہی ہے۔ لیکن ساری عمر قبرستان میں قبروں کے لیے سبیلیں بنا کر خلقِ خدا میں مفت بانٹنے والے ایک درویش، نے آج سے15 سال پہلے اچانک حالتِ غضب میں کہہ دیا ’’2014تک تو انتظار کرو‘‘۔ پھر جیسے وہ خود سکتے میں آ گیا کہ یہ لفظ کیسے اس کے منہ سے ادا ہو گئے۔ اس سال یعنی2014 کے آغاز میں جب اس درویشِ خدا مست کی یہ بات میں نے تحریر کی تھی تو کوئی اندازہ کر سکتا تھا کہ صرف چار ماہ میں حالات ایسے ہو جائیں گے کہ ہر کوئی خوفزدہ ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ ان لوگوں کو اگر اندازہ ہو جائے کہ کیا ہونے والا ہے تو ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہو جائیں۔

وہ صاحبِ وقت جنھیں میں نے پچیس سال میں بہت کم ایسی گفتگو کرتے سنا ہے اور جن کے بارے میں اکثر میں اپنے کالموں میں تحریر کرتا رہا ہوں۔ چند دن پہلے تشریف لائے اور کہنے لگے گردنوں میں سریا بہت سخت ہو گیا ہے۔ سریے کی خاصیت ہے کہ اسے کاٹ کر آدھ انچ کے ٹکڑوں میں بھی تقسیم کر دیا جائے تو اکڑا ہی رہتا ہے۔ وہ یہ بات کر کے خاموش ہوئے اور میں نے تھر تھراتے ہوئے سوال کیا۔ اگر بھٹی میں ڈال دیا جائے، پگھل جائے تو کیا اس میں سے کوئی خیر نکلے گی۔ بس اتنا سوال کیا تو فرمانے لگے اس کے بعد ایسی خیر ہے، ایسا سکون ہے، ایسی خوشحالی ہے کہ جس کے لیے اب تک لوگ ترس رہے ہیں۔

اوریا مقبول جان

Enhanced by Zemanta

عربوں کی آشائیں.......خالد المعینا

$
0
0

پچھلے ہفتے کی بات ہےایک غیر ملکی صحافی میرے پاس آیا، وہ عرب دنیا کے حالات پر بات چیت کرنا چاہتا تھا۔ عرب دنیا کا پیش منظر اس کا موضوع تھا۔ اس لیے اس نے اپنے سارے تجسس کو میرے سامنے اس ایک سوال میں سمو دیا کہ ''عرب دنیا کے لوگوں کی آشائیں کیا ہیں ؟''آئیے گفتگو میں آپ بھی شریک ہو جائیں۔

میں نے اپنی بات عربوں کی بنیادی شناخت اور پہچان کے حوالے سے شروع کی تاکہ اسے عربوں کے بارے میں بنیادی حقائق کی جانکاری ہو جائے اور اس کے بعد عرب دنیا کے حالات سمجھنا بھی اسے مشکل نہ رہے ۔ مقصد یہ تھا کہ اجمالا مگر پورا سیاق و سباق سامنے رہے۔ میں نے بات یہاں سے شروع کی ''عرب باشندے کسی ایک ہی پہچان کے حامل پتھر کی مانند نہیں ہیں کہ اس خاص پتھر کے خواص کو ہر کوئی ایک ہی طرح سے جان سکے۔

عرب دنیا کے مغربی حصوں میں آباد باشندے خلیج کے عربوں سے الگ پہچان کے حامل ہیں اور خلیج کے عرب عراق و شام کے عربی النسل افراد سے مختلف ہیں۔ تاہم اس علاقائی رنگا رنگی کے ساتھ ساتھ زبان، موسیقی، ادب اور ثقافت جیسی مشترکات انہیں ایک اکائی کا عنوان دیتی ہیں۔ ان سب پر حاوی عرب قوم پرستی کا جذبہ ہے۔ اس ناطے عربوں کے ہاں اتحاد کا خواب شروع سے ہی موجود رہا ہے۔ اس قوم پرستی کے انڈے بچے جمال عبدالناصر کے زمانے میں نکلے تھے۔ فلسطین کی آزادی اور مغرب کی مدد و تعاون سے اسرائیل کے زیر قبضہ گئے عرب علاقوں کی بازیابی کی خواہش کے علاوہ بعض اپنے ہی لیڈروں کی غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ ملی بھگت سے پیدا ہونے والا احساس محرومی بھی مشترک ہے۔

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عربوں نے اپنے اندرونی جمود کے خاتمے کیلیے کوئی تدبیر نہیں کی۔ اس صورت حال میں ہم نے 1950 اور 1960 کی دہائی کے دوران بار ہا عرب ملکوں میں انقلاب اور رد انقلاب کے واقعات رونما ہوتے دیکھے۔ خونی انقلاب بھی رونما ہوتے رہے۔ مقابلتا مصر میں 1953 کے بعد سے استحکام رہا۔ بعض عرب ممالک میں خود ساختہ نجات دہندوں اور فلسطین کو آزاد کرانے کے دعویداروں نے خود کو شام، عراق اور لیبیا میں نمایاں کیا۔ اگرچہ ان کے ناکام مہم جوئِیانہ انداز نے عرب دنیا کو بہت سی مشکلات سے دوچار کیے رکھا۔ جب دنیا اقتصادی ترقی سے ہم آغوش ہو رہی تھی تو عرب دنیا کے بعض حکمران جبر کے ذریعے اپنی حکمرانی کو مضبوط کر رہے تھے اور اپنے لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرنے کی تدابیر کر رہے تھے۔ لیکن آج عرب دنیا میں نئی نسل اقتصادی اور سماجی تحفظ کیلیے جس طرح متحد ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔

غیر ملکی صحافی کے سوال کا جواب دیتے دیتے میری نظر عرب دنیا کے اس انتشار کی طرف چلی گئی جس کا ہمیں سامنا ہے۔ عرب بہاریہ، جس سے بعضوں کو امید تھی کہ یہ نئے دور کی نقیب بنے گی لیکن یہ بھی کچھ ڈلیور کرنے میں ناکام رہی۔ اب تو لوگ یہ بھی سوچنے لگے ہیں کہ یہ بہار کا ایک جانفزا جھونکا تھا یا شکستگی کی ہم عناں خزاں؟ آج ہم افراتفری دیکھ رہے ہیں۔ ادارے بنانے میں بھی ہم مسلسل ناکام رہے ہیں، آزاد میڈیا سے محروم رہے ہیں۔ حکمرانوں کے مسلسل خوف کی وجہ عرب دنیا ایک طرح کے خلا سے دو چار رہی ہے۔ ایک طویل عرصے پر محیط دباو کے بعد ایک مکمل طوائف الملوکی ہے۔ اسی سے انتہا پسندی اور عدم برداشت رینگ رینگ کر آگے بڑھ رہی ہے۔ انتہا پسندی اور عدم برداشت نے پورے خطے کو اپنے چنگل میں لے رکھا ہے۔

ان انتہا پسندوں میں ایسے چالاک اور عیار قسم کے بھی ہیں جنہوں نے آگے بڑھ کر جمہوریت کی ٹرین پر سواری کر لی تا آنکہ وہ اقتدار پر قبضے میں کامیاب ہو گئے۔ اس ماحول میں ہمیں بڑی طاقتوں کی مداخلت کو بھی بھولنا نہیں چاہیے۔ نہ ہی عراق پر بلا جواز حملے کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ یہ توڑ پھوڑ ہے اور مستقل تشدد ہے جو تشویش کا باعث ہے۔ شام کی خانہ جنگی جسے مدد نہیں دی جا سکی، افسوسناک بات یہ ہے کہ عرب لیگ اور اقوام متحدہ دونوں ہی، اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس سے بھی افسوسناک بات یہ ہے کہ دنیا اپنی آنکھوں سے شام میں ہزاروں اور لاکھوں افراد کی ہلاکت اور بے گھری دیکھ رہی ہے۔ اہل شام ہمارے سامنے مر رہے ہیں لیکن انہیں بچانے کیلیے کوئی موثر کوشش موجود نہیں ہے۔

میں ملاقات کیلیے آنے والے صحافی کو بتا رہا تھا ''عربوں کی نئی نسل اپنی حکومتوں کی ماضی کی کارکردگی پر بجا طور پر یہ رائے رکھتی ہے کہ بہت ہو گئی۔ ہم اب اچھی تعلیم اور بہتری روزگار کے مواقع چاہتے ہیں، اس کے ساتھ ہی ایک ایسا سماجی بندوبست چاہتے ہیں جس کے مسقبل میں ہماری آواز شامل ہو۔ آج عرب دنیا کا شباب اقتصادی اور سماجی تحفظ کے حوالے سے پہلے سے کہیں زیادہ متحد ہے۔ ہماری نئی نسل اپنا راستہ اور منزل خود اور آزادانہ انداز میں خود طے کرنا چاہتی ہے۔ نئی نسل کی غالب اکثریت انتہا پسندی کے پرتشدد رجحان کو رد کرتے ہوئے قانون کی بالادستی کی حامی ہے۔

صرف یہی نہیں عرب دنیا ''ٹیلنٹ ''کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔ وہ دنیا کے کسی بھی ملک کے لوگوں کی طرح ذہانت اور صلاحیت سے مالا مال ہیں۔ عرب دنیا کے لوگ امن چاہتے ہیں، وہ غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت کو بھی پسند نہیں کرتے ہیں، وہ قانون کی بالادستی چاہتے ہیں ۔ عرب چاہتے ہیں کہ ان کی حکومتوں اور اداروں میں کے درمیان ایک متوازن میکانزم کی تشکیل بروئے کار آ جائے تاکہ قانون کی حکمرانی کے اندر رہتے ہوئے اظہار رائے کا ماحول فراہم ہو سکے۔ رفعت و روانی عرب دنیا کے لوگوں کا حق بھی ہے اور ان کی منزل بھی۔ یہی ان کی آشائیں اور تمنائیں ہیں۔


بشکریہ روزنامہ 'سعودی گزٹ'







Enhanced by Zemanta

Indian Elections : Religion and Money

$
0
0


Indian Elections : Religion and Money

Enhanced by Zemanta

Pakistan's media battle by Ansar Abbasi

$
0
0

Pakistan's media battle by Ansar Abbasi
Enhanced by Zemanta

Javed Chaudhry : On Media Ethics in Pakistan

$
0
0

ہمارے الیکٹرانک میڈیا کو بے شمار ایسی سہولتیں حاصل ہیں جو دنیا کے کسی دوسرے میڈیا کے پاس نہیں‘ مثلاً پاکستان کے کسی بھی چینل پر کسی بھی وقت کوئی بھی بات کی جا سکتی ہے اور یہ بات تین سیکنڈ میں عوام تک پہنچ جاتی ہے‘ دنیا کے کسی دوسرے ملک کا میڈیا یہ جرأت نہیں کر سکتا‘مثلاً ہمارے ٹیلی ویژن چینلز کا 80 فیصد مواد ’’لائیو‘‘ ہوتا ہے‘ ہمارے خبرنامے براہ راست ہوتے ہیں‘ ہمارے رپورٹر سارا دن ڈی ایس این جی پر دستیاب ہوتے ہیں‘ یہ کسی بھی وقت لائیو ’’کٹ‘‘ ہوجاتے ہیں اور یہ تحقیق اور تفتیش کے بغیر بڑی سے بڑی خبربریک کرسکتے ہیں۔

ہمارے کرنٹ افیئرز کے پروگرام بھی لائیو ہوتے ہیں‘ ہمارے اکثراینکرز اور ہمارے اکثر مہمان تیاری کے بغیر پروگرام میں بیٹھتے ہیں اور یہ انتہائی تیزابی قسم کی گفتگو کر کے گھر چلے جاتے ہیں جب کہ یورپ اور امریکا کے ٹیلی ویژن چینلز کا 70 فیصد مواد ریکارڈ شدہ ہوتا ہے‘ یہ لوگ 2014ء میں بھی صرف 30 فیصد لائیو کوریج کا رسک لیتے ہیں‘ بین الاقوامی چینلز کے 80 فیصد پروگرام ریکارڈ شدہ ہوتے ہیں اور یہ لوگ اس وقت تک یہ پروگرام ’’آن ائیر‘‘ نہیں کرتے جب تک ان کے پاس مواد کا ثبوت موجود نہ ہو‘مثلاً ہمارے وزراء‘ ہمارے سیاستدانوں اور ہمارے پارلیمنٹیرینز کو بھی لائیو کوریج ملتی ہے‘ یہ لوگ کسی کی عیادت کے لیے بھی جائیں تو یہ ٹیلی ویژن چینلز کی ڈی ایس این جی منگوا لیتے ہیں اوریہ چند سیکنڈ میں پوری قوم سے مخاطب ہوجاتے ہیں۔

یورپ‘ امریکا اور مشرق بعید کے سیاستدان اس سہولت کا تصور تک نہیں کرسکتے‘ یورپ کے ٹیلی ویژن چینلز باقاعدہ پروٹوکول لسٹ بناتے ہیں اور یہ صرف اس فہرست میں شامل لوگوں کو کورکرتے ہیں اور یہ کوریج بھی لائیو نہیں ہوتی‘ چینل کا کیمرہ جاتا ہے‘ ریکارڈنگ ہوتی ہے اور ادارہ ریکارڈنگ دیکھ کر اسے ’’آن ائیر‘‘ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے‘ مثلاً پاکستان دنیا کا شاید واحد ملک ہوگا جس میں لوگوں کو لائیو خود سوزی‘ ملک توڑنے کی لائیو دھمکی اور فرقہ واریت‘ نسلی فساد اور سماجی نفرت پھیلانے کی لائیو سہولت حاصل ہے۔

دنیا کا کوئی دوسرامعاشرہ‘ کوئی دوسراملک اپنے میڈیا کو یہ ’’سہولت‘‘ نہیں دیتا‘ یورپ میں کوئی شخص ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر کسی چیز کو حلال یا حرام قرار نہیں دے سکتا اور اگر کوئی شخص یا چینل یہ غلطی کر بیٹھے تو اس کی جان نہیں چھوٹتی‘ مثلاً پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہوگا جس میں صدر‘ وزیراعظم‘ چیف جسٹس‘ آرمی چیف اور مفتی اعظم بھی قانون کے سامنے جوابدہ ہیں‘ یہ کسی نہ کسی فورم پر احتساب کا سامنا کرتے ہیں‘ ملک میں وزیراعظم کو پھانسی ہوجاتی ہے‘ حکومتیں گرائی اور توڑی جا سکتی ہیں‘ منتخب رہنمائوں کو جلاوطن کیا جا سکتا ہے‘ وزراء اعظم کو عدالتوں کے حکم پر گھر بھجوایا جا سکتا ہے‘ چیف جسٹس کو فارغ کیا جا سکتا ہے۔

آرمی چیف کو عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے اور مفتی اعظم کے فتوئوں کو چیلنج کیا جا سکتا ہے مگر ٹیلی ویژن چینلز اور اینکرز کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا‘ آپ اینکرز کو بولنے‘ فضول بولنے اور بے تحاشا فضول بولنے سے نہیں روک سکتے‘ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں فضول بولنے کی یہ سہولت دستیاب نہیں‘ یورپ اور امریکا کے صحافی جب پاکستان آتے ہیں اور یہ ہمیں اس بے مہار آزادی کو انجوائے کرتے دیکھتے ہیں تو ان کے منہ کھلے رہ جاتے ہیں کیونکہ یہ لوگ اپنے ملک میں اس آزادی کا تصور نہیں کر سکتے اور مثلاً ہم میڈیا کے لوگوں کی خبریں غلط ہوجائیں‘ ہم غلط اطلاعات دے دیں‘ ہمارے تبصرے غلط ہو جائیں اور ہم غلط حقائق پر کالم لکھ دیں ملک کا کوئی ادارہ ہمارا احتساب نہیں کرسکتا‘ ہمارے ملک میں آج تک کوئی سینئر صحافی اپنی غلطی پر نوکری سے فارغ نہیں ہوا۔

ہمارے صحافتی ادارے زیادہ سے زیادہ کسی صحافی کو معطل کرتے ہیں اور معاملہ ٹھنڈا ہونے کے بعدوہ صحافی دوبارہ اپنی پوزیشن پربحال ہو جاتا ہے‘ یہ معطل شدہ صحافی اگر اکھڑ ہو اور یہ معطلی پر ادارے سے بھڑ جائے تو دوسرے ادارے اس کے گلے میں ہار ڈال کر اسے قبول کر لیتے ہیں جب کہ دنیا کے باقی ممالک میں جب کسی صحافی کی کریڈیبلٹی متاثر ہوتی ہے تو اس کا سارا کیریئر تباہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنی ساکھ بحال ہونے تک ’’جاب لیس‘‘ رہتا ہے۔

ہمیں چاہیے تھا ہم ان سہولتوں پر اللہ کا شکر ادا کرتے اور اس صحافتی آزادی کو انجوائے کرتے لیکن ہمارے میڈیا پر ایک خلائی مخلوق نے حملہ کر دیا‘ اس خلائی مخلوق نے اسکرین پر قبضہ کر لیا اور ہم نے یہ قبضہ ہونے دیا‘ صحافت اس خلائی مخلوق کا پیشہ نہیں تھا‘ یہ لوگ چھاتہ لے کر صحافت کی چھت پر اترے اور انھوں نے صحافتی میناروں پر قبضہ کر لیا‘ یہ لوگ اپنے اپنے پیشے میں ناکام تھے‘ خلائی مخلوق نے جس شعبے میں تعلیم حاصل کی‘ یہ اس میں ٹھہر نہیں سکے‘ انھوں نے اس کے بعد صحافت کا رخ کیا اور یہ اس میں ڈیرے ڈال کر بیٹھ گئے‘ ان لوگوں میں تین خوبیاں ہیں‘یہ تین خوبیاں ان کی اصل طاقت ہیں‘ یہ مختصر مدت کے اداکار ہوتے ہیں‘ یہ آتے ہیں‘ شہرت اور دولت سمیٹتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں۔

یہ اس جلد بازی میں اگر آگے پیچھے سے ننگے بھی ہو جائیں تو انھیں فرق نہیں پڑتا‘ ان کے جانے کے بعد میدان میں اخلاقیات کی کتنی نعشیں پڑی رہ جاتی ہیں‘ انھیں اس سے بھی فرق نہیں پڑتا‘ یہ خوبی ان کی طاقت اور میڈیا کی کمزوری ہے۔ دوسرا‘ یہ لوگ سمجھ گئے ہیں‘ ہمارے ٹیلی ویژن چینلز پر تین چیزیں بکتی ہیں‘ فحاشی‘ مذہب اور فساد چنانچہ یہ ان تینوں گیندوں کے ساتھ کھیلتے ہیں‘ ملک میں سیاسی فساد چل رہا ہو تو یہ تین فسادی سیاستدانوں کو دعوت خطاب دیتے ہیں‘ یہ سیاستدان دست و گریبان ہوتے ہیں اور یہ پروگرام کر کے گھر چلے جاتے ہیں‘ ملک میں سیاسی فساد نہ ہو تو یہ مذہب کا شوکیس سامنے رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں‘ یہ لوگ دو تین علماء کرام کو بلاتے ہیں اور کیا دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری ہے‘ کیا اسلام میں موبائل فون جائز ہے۔کیا اسلامی معاشرے میں خواتین نوکری کر سکتی ہیں اور کیا زنانہ کالجز میں جینز پہننے کی اجازت دی جا سکتی ہے جیسے پروگرام شروع کر دیتے ہیں.

ہمارے مارننگ شوز ایسے مواد کا شاہکار ہیں‘ یہ لائیو شادیوں اور بہو اور ساس کے لائیو جھگڑے تک کروا دیتے ہیں‘ ہمارے ناظرین جب ان اعلیٰ مذہبی مباحثوں سے تھک جاتے ہیں تو یہ مہربان وینا ملک‘ میرا‘ پوجا بھٹ اور سوناکشی سنہا کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں‘ اسکرین پر میرا کے بمبار سین چلتے ہیں اور اس کے بعد ان سے پوچھا جاتا ہے ’’ آپ نے یہ سب کچھ شادی سے پہلے کیا یا بعد میں؟‘‘ اور یہ تمام کارنامے کرنٹ افیئرز کے سیاسی پروگراموں میں ہوتے ہیں‘ یہ سارا دھندہ کیوں ہوتا ہے؟

اس کا یک لفظی جواب ہے ’’ریٹنگ‘‘۔ یہ بے چارے ریٹنگ کے لیے تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں اور اس کے ردعمل میں انھیں اور پورے میڈیا کو ماں بہن کی گالی پڑتی لیکن یہ گالی ان کا مسئلہ نہیں ہوتی‘ یہ اس سے بالاتر ہیں! منیجمنٹ ریٹنگ میں چند قدم مزید آگے نکل گئی ‘ یہ ان تینوں کارناموں کی ذمے داری خواتین اینکرزکو سونپتی جا رہی ہے ‘ خواتین اینکرز کی وجہ سے پروگرام بھی چسکے دار ہوجا تے ہیں اور یہ اینکرز ان مشکل مہمانوں کو بھی پروگرام میں بلا لیتی ہیں جو مردانہ پروگراموں کے بدتمیز سوالوں کا سامنا نہیں کرنا چاہتے‘ یہ خواتین مشکل مہمانوں کے گھر یا دفتر جا کر بھی پروگرام ریکارڈ کر لیتی ہیں اور یہ کام مرد اور صحافی اینکرز کے لیے مشکل ہوتا ہے اور اس خلائی مخلوق کی تیسری خوبی سیاسی رابطے ہیں۔

ملک کی تمام سیاسی‘ مذہبی اور سماجی تنظیمیں الیکٹرانک میڈیا کی طاقت سے واقف ہیں‘ یہ تنظیمیں اسکرین پر اپنے ایجنڈے کا رنگ چڑھانا چاہتی ہیں‘ یہ ’’نیا سیاسی خون‘‘ بھی متعارف کرانا چاہتی ہیں اور یہ مخالفوں کی کردار کشی بھی چاہتی ہیں اور یہ سارے کام اینکرز سے رابطے کے بغیر ممکن نہیں ہوتے‘ پرنٹ میڈیا یا صحافت کے طویل کیریئر کے بعد ٹیلی ویژن میں پہنچنے والے صحافی ایجنڈوں اور ان ایجنڈوں کے نتائج سے واقف ہوتے ہیں چنانچہ یہ لوگ ان کے ہاتھ نہیں آتے۔

’’قدیم صحافی‘‘ ان تنظیموں کے دفتروں‘ گھروں‘ کھانوں اور دوروں پر بھی نہیں جاتے جب کہ خلائی مخلوق ان کے ساتھ لنچ بھی کرتی ہے اور ڈنر بھی اور یہ ان کے ساتھ کافی بھی پی لیتی ہے اور شیشہ بھی‘ یہ ان کے سوئمنگ پولز میں سوئمنگ بھی فرماتی ہے اور یہ ان کے ساتھ بیرون ملک کے سفر بھی کرتی ہے‘ اس ’’انٹر ایکشن‘‘ کا نتیجہ ایجنڈے کی شکل میں نکلتا ہے‘ یہ خلائی مخلوق اسکرین کو سیاسی جماعتوں کا ایجنڈا بنا دیتی ہے‘ میجمنٹ اس حقیقت سے واقف ہے مگر یہ ریٹنگ اور چھاتہ بردار کی بدتمیزی کی وجہ سے خاموش رہتی ہے‘ میں نے کئی چھاتہ برداروں کو منیجمنٹ کے ساتھ بدتمیزی کرتے دیکھا اور میں ہر بار یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ’’یہ بدتمیزی ہمارے میڈیا کو کہاں لے جائے گی‘‘ اور آخر میں وہ ’’ڈی ڈے‘‘ آ گیا ۔

آپ اب میڈیا کے بحران کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کیجیے‘ ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے بلاشبہ بے شمار غلطیاں کیں لیکن آپ مہربانی کر کے خرابی پیدا کرنے والوں کی فہرست بنائیں‘ مجھے یقین ہے آپ کو اس فہرست میں 90 فیصد لوگ خلائی مخلوق ملیں گے‘ یہ وہ لوگ ہیں صحافت جن کا پیشہ تھی اور نہ ہی ہو گی‘ یہ بیرونی حملہ آور ہیں‘ یہ پکی ہوئی فصلیں اجاڑنے اور کھوپڑیوں کا مینار بنانے کے لیے میدان میں اترتے ہیں‘ پاکستانی میڈیا حقیقتاً خطرے میں ہے اور میڈیا کے مالکان‘ میڈیا کے ورکروں اور حکومت نے اب یہ فیصلہ کرنا ہے‘ ہمیں کھوپڑیوں کے کتنے مینار چاہئیں؟

ہم نے اگر اس جیتی جاگتی فیلڈ کو قبرستان میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو پھر ہمیں کالک ملنے کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رکھنا چاہیے اور اگر ہم میڈیا اور معاشرے کے چہرے کو صاف دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ضابطہ اخلاق بنانا ہو گا‘ ایسا ضابطہ اخلاق جس میں اینکر کو ریٹنگ کے لیے زندہ سانپ کھانا پڑے اور نہ مہمان کو دوسرے مہمان کے منہ پر گلاس مارنا پڑے۔ ہم نے اگر آج یہ ضابطہ اخلاق نہ بنایا‘ ہم نے اگر آج میڈیا کو اس خلائی مخلوق‘ اس ٹڈی دل سے پاک نہ کیا اور ہم نے اگر آج اپنے مائیکرو فون‘ اپنے کیمرے‘ اپنے قلم اور اپنے منہ کو ضابطے کا ماتحت نہ بنایا تو شاید وہ وقت آتے دیر نہ لگے جب صحافیوں کو جان بچانے کے لیے گندے نالوں میں پناہ لینی پڑے یا ڈاکٹروں کے کوٹ پہن کر باہر نکلنا پڑے۔

Javed Chaudhry : On Media Ethics in Pakistan

South Asia is World's Most Corrupt Region: Transparency

$
0
0

دنیا بھر میں حکومتوں کی کارکردگی میں شفافیت اور کرپشن کا جائزہ لینے والی عالمی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل (ٹی آئی) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جنوبی ایشیا کا خطہ سب سے زیادہ بدعنوانی کا شکار ہے جس میں حکومتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ کرپشن اور بدعنوانی کو روکنے والے اپنے اداروں کو مضبوط کریں اور ان اداروں کی کارکردگی میں سیاسی مداخلت کی دخل اندازی کو سختی سے روکنے کی کوشش کریں۔

ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ مالدیپ‘ نیپال اور سری لنکا میں انسداد بدعنوانی کی کوششوں کی راہ میں بڑی سنگین رکاوٹیں حائل ہیں۔ ایشیا بحر الکاہل کے خطے کے لیے ٹی آئی کے گروپ ریجنل ڈائریکٹر ’’سریریک پلی پیٹ‘‘ نے رپورٹ کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ کرپشن کے اعتبار سے یہ دنیا کا بدترین خطہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق متذکرہ چھ ممالک میں اگرچہ انسداد کرپشن کے لیے باقاعدہ سرکاری ادارے قائم ہیں مگر ان اداروں کے اندر بھی کرپشن داخل ہو چکی ہے جس کی بڑی وجہ ان اداروں میں سیاسی مداخلت ہے نیز بااثر افراد بھی اپنی بدعنوانی کی بنا پر گرفت میں نہیں آتے۔

انسداد بدعنوانی کے افسروں کو بھی اپنی کارکردگی دکھانے کی پوری طرح آزادی حاصل نہیں ہے نیز ان اداروں میں تقرریاں بھی سیاسی بنیادوں پر ہونے کے باعث بدعنوانی پر پوری طرح گرفت نہیں کی جا سکتی۔ رپورٹ کے مطابق متذکرہ ممالک کی حکومتوں میں اس عزم اور ہمت کا بھی فقدان ہے جو کرپشن پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے انسداد کے لیے جو نیم دلی سے کوششیں کی جاتی ہیں وہ موثر ثابت نہیں ہوتیں۔ ٹی آئی رپورٹ کے مطابق انسداد کرپشن کے اداروں کا بجٹ بھی بہت کم رکھا جاتا ہے کیونکہ عمومی رواج کے مطابق یہ ادارے ملزموں سے ’’مک مکا‘‘ کر کے اپنا خرچہ پانی نکالتے رہتے ہیں۔

ٹی آئی نے تجویز کیا ہے کہ حکومتی کارکردگی میں شفافیت پیدا کرنے اور کرپشن کو صحیح معنوں میں روکنے کے لیے عدالتی نظام کو بھی مضبوط بنانا ضروری ہے۔ علاوہ ازیں انسداد بدعنوانی کے اداروں میں بھرتیوں کے لیے بھی شفاف طریق کار اختیار کیا جانا چاہیے اور سفارش کی بنیاد پر کسی اہلکار کو ایسے اداروں میں ہر گز شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔ مزید برآں ان اداروں کے سربراہوں کو بھی وقتاً فوقتاً تبدیل کیا جانا چاہیے تا کہ ان کے کرپشن میں ملوث ہونے کا احتمال نہ رہے۔ متذکرہ اداروں میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے اصل مجرموں کے بچائو کے مواقع نکل آتے ہیں جب کہ اپنی کارروائی پوری کرنے کے لیے وہ غیر متعلقہ افراد کو دھر لیتے ہیں جس سے ان اداروں کی ساکھ اور زیادہ خراب ہو جاتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ان اداروں کو مطلوبہ افراد کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے حکومتوں سے باقاعدہ اجازت لینا پڑتی ہے اور اگر معاملہ سیاسی ہو تو پھر ملزموں کے خلاف تفتیش کی اجازت ہی نہیں ملتی۔ رپورٹ میں مثال دی گئی ہے کہ نیپال میں 2013ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ملک کا وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا جس کے بعد عدلیہ اور انتظامیہ میں ایک خاص قسم کا تنائو پیدا ہو گیا اس صورت میں بھی کرپشن کے مقدمات بیچ میں ہی لٹک کر رہ گئے کیونکہ چیف جسٹس راج رگمی نے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے باوجود اپنے عدالتی منصب سے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے اس دوران چیف جسٹس کی حیثیت سے مقدمات کے فیصلے نہیں کیے۔

ایک اور مثال بنگلہ دیش کی ہے جس میں حکومت نے 2009ء سے تاحال 48 ججوں کا تقرر کیا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ تقرریاں زیادہ تر سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہیں۔ پاکستان میں معلومات تک رسائی کے حق کے قانون پر بحث ہو رہی ہے لیکن ابھی تک یہ کسی واضح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکی جب کہ سری لنکا میں اس قسم کی کسی پیش رفت کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بھارت معلومات تک رسائی کے حق کے قانون کو اب واپس لینے کی کوشش کر رہا ہے حالانکہ اس قانون کو دنیا میں خاصا مضبوط تصور کیا جا رہا ہے۔ مسٹر پیلی پیٹ کا کہنا ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل (ٹی آئی) بھارت میں نئی تشکیل پانے والی حکومت کا شروع ہی سے جائزہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے تا کہ دیکھا جا سکے کہ آیا وہ بدعنوانی کے خلاف کارروائی کرنے کے اپنے وعدے پر قائم رہتی ہے یا نہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ نئی بھارتی حکومت کو لوک پال یعنی محتسب کے ادارے کے قیام میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنا چاہیے کیونکہ اس حوالے سے ایک مسودہ قانون کئی سال سے بھارتی لوک سبھا میں زیر التوا ہے جب کہ بھارت کی سابق حکومت اپوزیشن کی طرف سے دبائو کے باوجود اس بل کو منظور کرنے سے پہلو تہی کرتی رہی ہے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی یہ رپورٹ جنوبی ایشیاء کے تمام ممالک کی حکومتوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہیے‘ اس خطے کی تمام حکومتوںکو اپنی کارکردگی سے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ اس خطے میں بھی اچھی حکمرانی کے ذریعے کرپشن کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔

South Asia is World's Most Corrupt Region: Transparency

Enhanced by Zemanta

برداشت ....Patience

$
0
0

بات بہت معمولی تھی‘ میں نے انھیں پانچ بجے کا وقت دیا تھا‘ نوجوان چھ بجے پہنچے‘ میرے پاس وقت کم تھا‘ میرے ایک دوست نے سوا چھ بجے آنا تھا اور سات بجے میں نے ریکارڈنگ پر جانا تھا‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’آپ کے پاس پندرہ منٹ ہیں‘ آپ ان 15 منٹوں میں جو گفتگو کر سکتے ہیں‘ آپ کر لیجیے‘ میری بات انھیں پسند نہیں آئی‘ ان کے چہروں کا رنگ بدل گیا‘ وہ بولے ’’ ہم دور سے آئے ہیں‘ ہماری بات پندرہ منٹ میں پوری نہیں ہو سکے گی‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ کی بات سر آنکھوں پر مگر میری اپنی مصروفیت ہے‘ میں اس کو آگے پیچھے نہیں کر سکوں گا‘ آپ گفتگو اسٹارٹ کر لیجیے‘‘ ایک نوجوان بولا ’’میں سمجھتا ہوں‘ میں بے شمار کام کر سکتا ہوں‘ میں کیا کروں‘ آپ گائیڈ کریں‘‘۔

میں نے عرض کیا ’’بیٹا اس کا فیصلہ انسان خود کرتا ہے‘ دنیا میں کوئی ایسی مشین ایجاد نہیں ہوئی جس میں انسان کو ڈالا جائے اور وہ مشین بتا دے‘ یہ شخص یہ کر سکتا ہے اور یہ نہیں‘ آپ اپنی صلاحیتوں کا اندازہ خود کرتے ہیں اور اس کے بعد مشورے کی باری آتی ہے‘‘ وہ نوجوان خاموش ہو گیا۔ دوسرا بولا ’’مجھے لکھنے کا شوق ہے‘ میں اچھا لکھاری کیسے بن سکتا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ کتابیں پڑھتے ہیں‘‘ اس نے فوراً جواب دیا ’’ہاں لیکن زیادہ نہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کی عمر کتنی ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’22 سال‘‘ میں نے پوچھا آپ نے ان 22 برسوں میں کل کتنی کتابیں پڑھیں؟ اس نے جواب میں کتابیں گننا شروع کر دیں‘ نوجوان نے قرآنی قاعدے سمیت کل سات کتابیں پڑھی تھیں۔

میں نے جواب دیا ’’بیٹا پھر آپ اچھے لکھاری نہیں بن سکیں گے‘‘ اس نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’لکھنے کے لیے پڑھنا ضروری ہے اور آپ مطالعہ نہیں کرتے‘‘ تیسرے نوجوان نے پوچھا ’’میں اپنی کمیونی کیشن سکل کیسے امپروو کر سکتا ہوں‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ کے پاس اگر کہنے کے لیے کچھ ہو گا تو آپ کو بولتے ہوئے کوئی پریشانی نہیں ہو گی‘ آپ اپنے ذہن میں مواد جمع کر لیں‘ آپ میں کمیونی کیشن سکل پیدا ہو جائے گی‘‘۔

یہ گفتگو جاری تھی کہ سوا چھ بج گئے‘ میرے دوست پہنچ گئے‘ میں نے ان تینوں نوجوانوں کو دروازے پر چھوڑا‘ ہاتھ ملایا اور اپنی اگلی مصروفیت میں پھنس گیا‘ مجھے دو گھنٹے بعد نوجوانوں نے موبائل پر میسیج بھجوانا شروع کر دیے‘ ان کا کہنا تھا‘ وہ میرے رویئے سے بہت مایوس ہوئے ہیں‘ وہ دور سے آئے تھے لیکن میں نے انھیں وقت نہیں دیا‘ میں نے ان کے سوالوں کے جواب بھی تفصیلی نہیں دیے اور میرا رد عمل بھی منفی تھا‘ میں نے ان سے معذرت کی اور اس کے بعد عرض کیا ’’آپ نے پانچ بجے آنا تھا لیکن آپ ایک گھنٹہ لیٹ آئے‘ میں نے سوا چھ بجے کسی اور کو وقت دے رکھا تھا اور سات بجے میری ریکارڈنگ تھی‘ آپ خود فیصلہ کیجیے‘ میں کیا کرتا‘‘۔ وہ میرے جواب سے مطمئن نہیں ہوئے‘ وہ آج بھی مجھے میسیج کرتے ہیں اور ان کے پیغام کا صرف ایک ہی مطلب ہوتا ہے ’’آپ بہت برے انسان ہیں‘‘ اور میں ان سے معذرت کرتا ہوں۔

یہ ہمارا عمومی معاشرتی رویہ ہے‘ ہم بہت جلد برا منا جاتے ہیں اور دوسروں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں‘ آپ پاکستان کے کسی حصے میں چلے جائیں‘ آپ کو لوگ ایک دوسرے سے الجھتے نظر آئیں گے‘ آپ کو لوگ گلیوں‘ بازاروں اور سڑکوں پر ایک دوسرے سے دست و گریبان بھی دکھائی دیں گے اور آپ کسی محفل میں چلے جائیں‘ آپ کو وہاں بھی لوگ لوگوں کے بارے میں برے ریمارکس دیتے نظر آئیں گے‘ ایسا کیوں ہے؟ اس کی واحد وجہ برداشت کی کمی ہے‘ ہمارا معاشرہ عدم برداشت کی انتہا کو چھو رہا ہے‘ ہم معمولی اور جائز بات بھی برداشت نہیں کرتے‘ ہم عدم برداشت کی وجوہات میں پڑنے کی بجائے اس کے حل کی طرف آتے ہیں کیونکہ ہمارے گرد آباد ہزاروں لاکھوں لوگ عدم برداشت کی نشاندہی تو کرتے ہیں لیکن کوئی اس کا حل نہیں بتاتا۔

میں بھی صرف نشاندہی کر کے آپ کا وقت ضایع نہیں کرنا چاہتا چنانچہ ہم حل کی طرف آتے ہیں۔ ہم اگر اپنی زندگی میں تین کام کر لیں تو ہماری برداشت میں اضافہ ہو جائے گا‘ ہم دوسروں سے الجھنا اور دوسروں کو برا بھلا کہنا بند کر دیں گے‘ ہم اگر اپنی کمیونی کیشن امپروو کر لیں‘ ہم اگر دوسروں سے مخاطب ہونے سے قبل پوری تیاری کر لیں تو ہماری برداشت میں اضافہ ہو جائے گا مثلاً ہم اگر اسٹوڈنٹ ہیں اور ہم استاد سے مخاطب ہو رہے ہیں تو ہم اپنا سوال تیار کر لیں‘ ہمارا سوال جامع‘ مختصر اور سیدھا ہونا چاہیے‘ یہ سیدھا‘ مختصر اور جامع سوال فضا کو بہتر بنا دے گا‘ سوال اگر گنجلک‘ لمبا اور بکھرا ہوا ہو گا تو استاد بھی پریشان ہو جائے گا‘ آپ کے کلاس فیلوز بھی آپ کا مذاق اڑائیں گے اور یوں آپ کی برداشت کا امتحان شروع ہو جائے گا‘ ہم میں سے زیادہ تر لوگ بولنے سے قبل یہ فیصلہ نہیں کرتے ’’ہم نے پوچھنا ہے یا بتانا ہے‘‘۔

ہم پوچھتے پوچھتے بتانا شروع کر دیتے ہیں اور بتاتے بتاتے پوچھنے لگتے ہیں اور کمیونی کیشن کا یہ کنفیوژن ہمیں بالآخر جھگڑے کی طرف لے جاتا ہے‘ آپ پوچھنا چاہتے ہیں تو صرف پوچھیں اور بتانا چاہتے ہیں تو صرف بتائیں‘ کمیونی کیشن میں سننے کے 80 نمبر ہوتے ہیں اور بولنے کے 20۔ آپ اگر اچھے سامع ہیں تو آپ کامیاب کمیونی کیٹر ہیں اور آپ اگر کانوں سے کم اور زبان سے زیادہ کام لیتے ہیں تو پھر آپ کی کمیونی کیشن ناقص ہے‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کان دو اور زبان ایک دے رکھی ہے‘ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے آپ زبان کے مقابلے میں کانوں سے کم از کم دگنا کام لیں لیکن ہم کانوں کی بجائے زبان زیادہ استعمال کرتے ہیں اور یوں ہمارے لیے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اور زبان کے بارے میں کہا جاتا ہے۔

اس میں ہڈی نہیں ہوتی لیکن یہ آپ کی تمام ہڈیا تڑوا سکتی ہے اور یہ کام ہمارے ساتھ روز ہوتا ہے‘ دنیا کی بڑی سے بڑی بات ایک منٹ میں مکمل ہو سکتی ہے اور آپ گیارہ لفظوں میں اپنا پورا مافی الضمیر بیان کر سکتے ہیں‘ آپ گیارہ لفظوں اور ایک منٹ کا استعمال سیکھ جائیں‘ آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا‘ آپ کو اگر کسی سے کوئی کام ہو تو آپ وہ کام کاغذ پر لکھ کر لے جائیں‘ آپ متعلقہ شخص کا ٹیلی فون نمبر‘ ایڈریس اور عہدہ بھی لکھ کر لے جائیں اور یہ کاغذ اس صاحب کے سامنے رکھ دیں جس سے آپ کام کروانا چاہتے ہیں‘ آپ کے کام کے امکانات نوے فیصد ہو جائیں گے۔

موبائل پر جب بھی پیغام بھجوائیں‘ اپنا نام ضرور لکھیں‘ وائس میل میں بھی اپنا نام ریکارڈ کروائیں کیونکہ بعض اوقات ریکارڈنگ میں خرابی کی وجہ سے دوسرا شخص آپ کی آواز شناخت نہیں کر پاتا اور موبائل سیٹ میں خرابی یا سیٹ تبدیل ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات دوسرے شخص کی کانٹیکٹ لسٹ کام نہیں کرتی اور یوں کمیونی کیشن گیپ پیدا ہو جاتا ہے اور آخری ٹپ مطالعے اور مشاہدے کے بغیر اچھی کمیونی کیشن ممکن نہیں‘ آپ کے پاس معلومات نہیں ہوں گی تو آپ کی گفتگو بے ہنگم لفظوں کے سوا کچھ نہیں ہو گی‘ آپ مطالعہ بڑھائیں آپ کی کمیونیکیشن اچھی ہو جائے گی۔

دنیا بھر کے سماجی‘ نفسیاتی اور دماغی ماہرین متفق ہیں جو انسان جسمانی مشقت نہیں کرتا اس کے جسم میں ایسے کیمیکل پیدا ہو جاتے ہیں جو اس میں ٹینشن‘ انیگزائیٹی اور ڈپریشن پیدا کر دیتے ہیں اور یہ تینوں بیماریاں آپ میں عدم برداشت کا باعث بنتی ہیں‘ دنیا میں سب سے کم لڑائیاں جم‘ سوئمنگ پولز اور کھیل کے میدانوں میں ہوتی ہیں‘ آپ اگر اپنی برداشت کو بڑھانا چاہتے ہیں تو آپ ایکسرسائز کو اپنا معمولی بنا لیں‘ آپ کی عمر اگر 45 سال سے کم ہے تو آپ روزانہ کم از کم 45 منٹ دوڑ لگائیں‘ آپ جم میں مسل ایکسرسائز کریں‘ وزن اٹھائیں‘ ٹریڈ مل پر واک کریں‘ فٹ بال‘ ہاکی‘ اسکواش‘ بیڈمنٹن یا پھر ٹینس کھیلیں اور آپ اگر 45 سال سے زیادہ ہیں تو آپ واک کریں‘ سوئمنگ کریں۔

ہفتے میں ایک بار مساج کروائیں‘ یوگا کریں اور بیڈ منٹن یا سکوائش کھیلیں‘ چائے خانوں‘ کافی شاپس یا پارکس میں بیٹھنا‘ سورج غروب ہوتے یا طلوع ہوتے دیکھنا‘ مہینے میں دو تین لمبی چھٹیاں کرنا‘ پہاڑوں پر چلے جانا‘ سمندر‘ دریا یا جھیل کے کنارے سیر کرنا یا جنگلوں میں چلے جانا بھی ایکسرسائز کا حصہ ہے‘ آپ مہینے میں ایک دو دن یہ بھی کریں‘ آپ اگر زیادہ مذہبی نہیں ہیں تو آپ معیاری فلمیں بھی دیکھیں اور میوزک بھی سنیں‘ یہ دونوں چیزیں اعصاب پر اچھا اثر ڈالتی ہیں‘ آپ روزانہ پانچ چھ کپ گرین ٹی بھی پیئیں‘ یہ بھی برداشت میں اضافہ کرتی ہے‘ گوشت ہفتے میں ایک بار کھائیں‘ سبزیاں‘ دالیں اور برائون بریڈ بھی آپ کا موڈ اچھا رکھتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں پاگل پن بڑھتا جا رہا ہے چنانچہ آپ لوگوں سے جتنا کم ملیں گے آپ کا موڈ اتنا اچھا رہے گا‘ آپ کم سے کم لوگوں سے ملیں‘ کنجوس‘ دھوکے باز اور جھوٹے لوگوں سے پرہیز کریں‘ یہ لوگ اگر دکاندار ہیں تو آپ ان سے سودا نہ خریدیں کیونکہ یہ آپ کا موڈ خراب کر دیں گے‘ آپ صبح اسکولوں اور دفتروں کا وقت شروع ہونے سے قبل سڑک سے گزر جائیں اور شام کو چھٹی کے وقت سڑک پر نہ آئیں کیونکہ ’’رش آورز‘‘ کے دوران ڈرائیونگ بھی آپ کے اعصاب کو متاثر کرتی ہے‘ آپ کے دوست بہت محدود ہونے چاہئیں اور یہ دوست بھی خوش اخلاق اور قہقہے باز ہوں تو اللہ کا شکر ادا کریں کیونکہ ہمارے دوست بھی اکثر اوقات ہمارے چڑچڑے پن کی وجہ ہوتے ہیں۔

ہم میں سے نوے فیصد لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں‘ کل کیا ہو گا؟ یہ نوکری چلی گئی تو ہمارا کیا بنے گا؟ میرا بچہ فیل نہ ہو جائے‘ میرے نمبر اچھے نہ آئے تو کیا ہو گا؟ بم نہ پھٹ جائے‘ چھت نہ گر جائے‘ گاڑی میں پٹرول ختم نہ ہو جائے‘ میرا ویزہ منسوخ نہ ہو جائے‘ باس ناراض نہ ہو جائے‘ چوری نہ ہو جائے‘ ڈاکہ نہ پڑ جائے‘ ٹیکس والے نہ آ جائیں‘ تربوز کھا کر پانی پی لیا مجھے ہیضہ تو نہیں ہو جائے گا‘ بیگم ناراض نہ ہو جائے‘ لوگ میرے کپڑوں کا مذاق تو نہیں اڑائیں گے اور پتہ نہیں میری نمازیں قبول بھی ہوں گی یا نہیں! یہ سارے شک‘ یہ سارے اعتراضات احساس عدم تحفظ کا ثبوت ہیں‘ ہم جب عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں تو ہم چڑچڑے ہو جاتے ہیں اور یہ چڑچڑا پن ہماری برداشت کو کھا جاتا ہے۔

عدم تحفظ سے نکلنے کے بھی دو طریقے ہیں‘ پہلا طریقہ آپ اللہ تعالیٰ پر اپنا ایمان پختہ کر لیں‘ یہ بات پلے باندھ لیں دنیا میں ہر کام اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی انسان کے لیے کبھی برا نہیں کرتا‘ یہ ایمان آپ کو اندیشوں کے سیاہ جنگل سے نکال لے گا۔ دو‘ ہمارے عدم تحفظ کا 80 فیصد حصہ معیشت‘ دس فیصد صحت اور دس فیصد رشتوں سے وابستہ ہوتا ہے‘ آپ اپنے کام کو 80 فیصد اہمیت دیں اور صحت اور رشتوں کو دس فیصد وقت دیں آپ عدم تحفظ سے نکل آئیں گے۔ اپنی آمدنی کو چار حصوں میں تقسیم کریں‘ دو حصے خاندان پر خرچ کریں۔

ایک حصہ اپنی ذات پر لگائیں اور ایک حصہ بچت کریں‘ بچت کو سرمایہ کاری میں تبدیل کرتے رہا کریں‘ آپ کے پاس دس روپے بچے ہیں تو آپ انھیں کسی ایسی جگہ لگا دیں جہاں اس کی ویلیو میں اضافہ ہوتا رہے یا پھر یہ آپ کو کما کر دینے لگیں‘ اپنی ذات پر خرچ کرنے والے حصے کو سیکھنے پر استعمال کریں‘ نئے کورس کریں‘ اپنی صلاحیت میں اضافہ کریں‘ صحت پر خرچ کریں‘ کپڑے‘ جوتے اور پرفیوم خریدیں اور دو حصوں سے خاندان کو خوش حال بنائیں‘ آپ کا موڈ اچھا رہے گا‘ آپ عدم تحفظ سے نکل آئیں گے اور یوں آپ کی برداشت میں اضافہ ہو جائے گا۔

آپ اگر عدم برداشت کا شکار ہیں تو بے مزہ زندگی آپ کا کم سے کم نقصان ہوتی ہے‘ آپ عدم برداشت کے ساتھ زندگی کو انجوائے نہیں کر سکتے اور اگر زندگی میں مزہ نہ ہو تو زندگی موت سے بدتر ہو جاتی ہے۔

Patience by Javed Chaudhry

Enhanced by Zemanta

فوج کا احترام ......


بدترین غلامی کی جانب......

$
0
0

کیا کسی کو اندازہ ہے کہ ہم جیسے پسماندہ ملکوں میں بڑے بڑے موٹروے، شاندار ایئر پورٹ، شہری زندگی کے چمک دمک والے منصوبے"عالمی فاسٹ فوڈ کی دکانیں"ہر طرح کے فیشن برانڈ، شاپنگ مال، عالمی معیار کے تھیٹر، سینما گھر اور ثقافتی مرکز کیوں کھولے جاتے ہیں۔ غربت کی ماری ان اقوام کا ایسا جزیرہ نما روشن چہرہ کس مقصد کے لیے تخلیق کیا جاتا ہے۔ یہ تمام پسماندہ ممالک سرمایہ کاری کے لیے دنیا بھر میں بدنام سمجھے جاتے ہیں، لیکن کوئی سوال نہیں کرتا کہ فاسٹ فوڈ کے ریستورانوں، فیشن کی دکانوں اور دیگر مصنوعات پر آپ کی سرمایہ کاری خطرے میں کیوں نہیں پڑتی۔ جس ملک (پاکستان) میں چھ کروڑ لوگ بس کا نمبر تک نہ پڑھ سکتے ہوں وہاں شاندار ایئر کنڈیشنڈ بس چلا دی جائے۔

جہاں روزانہ لاکھوں لوگ صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو جائیں وہاں ان کے کچے مکانوں، اور تعفن زدہ محلوں کے درمیان سے چمکتی ہوئی موٹروے گزرے، ایک چمکدار سڑک جس کے دونوں جانب کروڑوں مفلوک الحال رہتے ہوں جن کی بستیاں ایک ہزار سال پرانے دور کی یاد گار معلوم ہوں اور موٹروے پر سفر کرنے والے بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھے وہاں پر موجود لوگ زندگی کو ایسے دیکھیں جیسے افریقہ کے سفاری پارک میں گاڑیاں گزارتے ہوئے قدرتی ماحول میں اچھلتے کودتے جانوروں کو دیکھتے ہیں۔

میرے جیسے غریب و افلاس کا شکار لیکن زمینی وسائل سے مالا مال ملک ایک عالمی تماشہ گاہ ہیں۔ جہاں کے رہنے والے کروڑوں لوگوں کی تعلیم، صحت، رہائش اور روز گار کے لیے کوئی قرضہ نہیں دیتا۔ جہاں معاشی اور صنعتی ترقی کے لیے کوئی امداد مہیا نہیں کرتا، بلکہ صرف اور صرف بڑے بڑے انفراسٹرکچر بنانے کے لیے دنیا بھر کے ممالک اور عالمی مالیاتی ادارے دولت کی بوریاں اور بڑی بڑی سفارشات لے کر ان ملکوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ یہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ ان ممالک کے سیاسی رہنما، دانشور اور صحافی اگر صرف دو کتابوں کا مطالعہ کر لیں تو انھیں ہر ایسے "شاندار"منصوبے سے نفرت ہونے لگے۔

انھیں وہ مستقبل نظر آ جائے جو ہر اس غریب ملک کا مقدر بنا ، جنھوں نے ان منصوبوں کے لیے اپنی قوموں کو قرض کی دلدل میں اتارا، ان منصوبوں کی تعریف و تصریف سے شہرت کے محل کھڑے کیے، لیکن ان عوام کو صحت، تعلیم ، صاف پانی ، سیوریج ، امن و امان ، بنیادی رہائش اور روز گار فراہم نہ کر سکے۔ ان حکمرانوں کے نام کی تختیاں ان ایئرپورٹوں ، موٹرویز ، ثقافتی مراکز اور یاد گاروں پر لٹکتی رہیں اور عوام کی نسلیں غربت و افلاس کے باوجود ان عیاشیوں کے لیے لیا گیا قرض ادا کرتی رہیں۔ یہ دونوں کتابیں ایک ایسے معیشت دان نے لکھی ہیں جو دنیا بھر کے ممالک میں ایسے تباہ کن منصوبے لے کر جاتا رہا اور ان منصوبوں کی وجہ سے یہ تمام ملک بدترین انجام تک پہنچے۔

   خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ دونوں کتابوں کا اردو ترجمہ "ایک معاشی غارت گر کی کہانی"اور "امریکی مکاریوں کی تاریخ"کے نام پر سے اب ہو چکا ہے۔ یہ دونوں کتابیں کسی ناول کی طرح دلچسپ، حیرت ناک اور سنسنی سے بھر پور ہیں۔ اس نے پانامہ، کولمبیا، وینز ویلا، یو سی ڈور، انڈونیشیا، مصر اور افریقہ کے ممالک میں اپنی سرگرمیوں کی داستانیں بیان کی ہیں۔ اس کی کتابیں پڑھنے کے بعد آپ کو اپنے رہنمائوں کی بے ضمیری، وطن فروشی اور بددیانتی پر رونا آنے لگتا ہے۔

آپ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کھیتوں میں کام کرنے والا، سڑک پر بجری کوٹنے والا، مشینوں پر زندگی ختم کرنے والا، اور نائی، موچی، ترکھان، جولاہا اور کمہار ان شاندار انفراسٹرکچر پراجیکٹ اور ترقی کی علامت موٹرویز اور شہری سہولیات کا قرض اتارتے، اتارتے افلاس اور بیماری میں خون تھوکتے زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔ پرکنز اپنی کتابوں میں اس ساری سازش کے تین مدارج بتاتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ دنیا بھر کے وہ تمام امیر ممالک جن کی نظر غریب ممالک کے معدنی وسائل پر ہوتی ہے وہ میرے جیسے ’’معاشی ضرب کار” Economic Hitman پالتے ہیں۔ ان افراد کی تنخواہ اور اخراجات وہ بڑی بڑی کنسٹرکشن کمپنیاں اور تیل و معدنی وسائل پر قبضہ کی خواہش مند کارپوریشن اٹھاتی ہیں۔

ان معاشی ضرب کاروں کو جس بھی ملک میں بھیجا جاتا ہے، یہ اس کے حوالے سے بڑی بڑی سڑکوں، ائیر پورٹوں اور دیگر خوشنما منصوبوں سے بھری رپورٹیں تیار کرتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کس طرح اس غریب ملک کو زیادہ سے زیادہ قرضے کی دلدل میں ڈبویا جا سکتا ہے۔ جہاں دو رویہ سڑکوں کی ضرورت ہوتی ہے وہاں مستقبل کی منصوبہ بندی کا بہانہ بنا کر چار رویہ سڑکوں پر زور دیا جاتا ہے۔ یہاں وہ اپنے ایک ہم پیشہ کی مثال دیتا ہے جس نے انڈونیشیا کے بارے میں ایک حقیقت پسندانہ اسکیم بنائی تو اسے نوکری سے نکال دیا گیا۔ اس کے کے بعد پرکنز کو ذمے داری سونپی گئی اور اس نے پچیس گنا لاگت کے منصوبے بنا کر پیش کیے جنھیں عالمی بینک اور قرضہ دینے والے ممالک نے خوشدلی سے قبول کرلیا۔

جب ایسے منصوبے تیار ہو جاتے ہیں تو پھر یہ ’’ہٹ مین” اس ملک کی سیاسی قیادت، بیورو کریسی اور دیگر کار پردازوں کو انتہائی خوشنما طریقے سے بریفنگ دیتا ہے۔ اس دوران اس کی تلاش ایسے بددیانت، لالچی، بے وقوف یا شہرت کے بھوکے اہل اقتدار پر ہوتی ہے جو ان منصوبوں سے سستی شہرت بھی کمائیں اور مال بھی بٹوریں۔ یہاں ان لوگوں کا ایک جتھہ بن جاتا ہے۔ ہر کوئی میٹنگوں میں ان کی تعریف میں رطب اللسان ہوتا ہے۔ انھیں ملک کی بقا اور سلامتی کی علامت بتاتا ہے۔ یوں جب یہ منصوبے منظور ہو جاتے ہیں تو اس امیر ملک یا مالیاتی ادارے سے قرضے کی رقم کا بندوبست بس ایک کارروائی سی ہوتی ہے۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ یہ رقم اس امیر ملک سے غریب ملک میں منتقل نہیں ہوتی۔ امریکا ہو یا فرانس، ترکی ہو یا چین۔ یہ ممالک قرضے کی یہ رقم اپنی کنسٹرکشن کمپنیوں کو اپنے ہی ملک میں ادا کر دیتے ہیں۔

رقم اسی ملک میں رہتی ہے اور قرضہ غریب ملک کے عوام کی گردن پر۔ اس کے بعد ان ہٹ مینوں کی بنائی ہوئی جعلی اعداد و شمار کی رپورٹوں پر مبنی پراپیگنڈہ شروع ہوتا ہے۔ یہ موٹروے بنا تو تجارت اتنے گنا بڑھے گی، یہ بندر گاہ بنی تو ملک پورے مشرق وسطیٰ کی تجارت پر چھا جائے گا۔ یہ ٹرین یا بس چلی پڑی تو عام آدمی کے دن بدل جائیں گے۔ ان بسوں میں اور ان موٹر ویز پر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ میں مفلس، نادار، بیمار، بے روز گار، ان پڑھ اور پسماندہ لوگ سفر کرتے ہیں جنھیں نہ تعلیم ملتی ہے، نہ دوا، نہ گھر میسر ہوتا ہے اور نہ نوکری۔ لیکن یہی لوگ ہیں جو ان موٹرویز، بندر گاہوں اور ایئر پورٹس کا قرض اتار رہے ہوتے ہیں۔ جب کسی ملک پر ڈھیر سارا قرض چڑھ جاتا ہے تو پرکنز کے مطابق وہاں عقاب Hawks کو بھیجا جاتا ہے۔

یہ وہ کمپنیاں اور کارپوریشن ہوتی ہیں جن کی نظر اس ملک کے معدنی وسائل، تیل، لوہا، تانبہ، سونا اور دیگر دھاتوں پر ہوتی ہے۔ کچھ وہاں کی زرعی زمینوں پر کارپوریٹ فارمنگ چاہتی ہیں۔ یہ عقاب اس قرضے میں جکڑی قوم کے وسائل پر یوں ٹوٹتے ہیں جیسے بھوکے بھیڑئیے۔ افریقہ اس کی بدترین مثال ہے۔ پرکنز کہتا ہے کہ میں حیران ہوتا تھا کہ ان افریقی ممالک میں جہاں کروڑوں لوگ بھوک سے مر رہے تھے وہاں برگر، پیزا اور عالمی فوڈ ریستوران دھڑا دھڑ کھلتے جا رہے ہیں۔ ان کو چلانے کے لیے ایک مڈل کلاس بنائی جاتی ہے جس کو کارپوریٹ کلچر مناسب تنخواہ دیتا ہے۔ این جی اوز کو فنڈ ملتے ہیں، جنکے کے لیے مہنگی تعلیمی سہولیات اور مہنگے اسپتال۔یہ لوگ ہیں جو اس انفراسٹرکچر کی ترقی کو اخباروں اور ٹیلی ویژن پر اصل ترقی بتاتے ہیں۔ ایسے غریب ملکوں میں اگر کوئی ان ’’عقابوں” کی بات نہ مانے تو لیڈروں کو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔ چلی کا آلندے، کانگو کا لوممبا اور پانامہ کا صدر اس کی مثالیں ہیں۔ اس کے ساتھ ان ملکوں کو حقوق کی جنگ کے نام پر قتل و غارت تحفے میں دی جاتی ہے۔ صرف سوڈان، روانڈا اور دارفور کی لڑائیوں میں چالیس لاکھ لوگ مارے گئے۔

یوں جہاں دہشت گردوں کا راج ہو وہاں ان سے معاہدہ کر کے معدنیات حاصل کی جاتیں ہیں اور جہاں امن ہو وہاں حکومت کو بلیک میل کر کے۔ انگولا اس کی بدترین مثال ہے۔ اگر لیڈروں کو قتل کرنے سے بھی کام نہ چلے اور کوئی ملا عمر یا صدام حسین جیسا لوہے کا چنا ثابت ہو جائے تو پھر اس کے ملک میں فوجیں اتار دی جاتی ہیں۔ یہ ہے وہ گھن چکر، اس لیے جب کوئی موٹر وے بنتا ہے، ماس ٹرانزٹ اسکیم آتی ہے، ایئر پورٹ کی توسیع ہوتی ہے تو میں کانپ اٹھتا ہوں۔ اٹھارہ کروڑ بھوکے ننگوں کے اس انجام پر جو پہلے ان عیاشیوں کا قرضہ ادا کریں گے اور پھر بدترین غلامی، دہشت اور خوف میں زندگی گزاریں گے۔

بہ شکریہ روزنامہ "ایکسپریس"۔

 

Enhanced by Zemanta

دہلی کا سفر ۔۔۔ یہی بہت ہے.......Talat Hussain

$
0
0

وزیر اعظم نواز شریف وہی کرتے ہیں جس کے بارے میں ان کو انتہائی احتیاط برتنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ہندوستان کے نامزد وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کوئی معیوب بات نہیں۔ لیکن ہر ریاست کو اپنے مفادات کا تحفظ ملحوظ خاطر رکھ کر اقدامات کرنے ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم کا خیال ہے کہ اس دورے کے بعد ہندوستان کے ساتھ امن کی طرف پیش قدمی آسان ہو جائے گی۔ اللہ کرے ایسا ہو۔ کیوں کہ حالا ت و واقعات کسی دوسری طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ نریندر مودی اٹھاون انچ چوڑی چھاتی والے ہندو قومیت کی نمائندگی کرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے۔

اس کی سیاسی اور نظریاتی تربیت ان افکار سے ہوئی ہے جو مہا بھارت کو اپنے مذہب کا مرکزی خیال سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک 1947ء میں ممالک نے آزادی حاصل نہیں کی تھی بلکہ زمین کا بٹوارہ ہوا تھا۔ وہ اس بٹوارے کو قبول نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں پاکستان کی آزادی ایک ڈھکوسلہ ہے۔ جس کو ختم کیے بغیر وہ اپنے نظریے کو مکمل طور پر نقطہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے۔ نریندر مودی 2014ء میں شاید اس نظریے کو کلی طور پر عملی جامہ پہنانے کا نہ سوچیں۔ حالات تبدیل ہو گئے ہیں، 2014ء کا پاکستان بھارتیہ جنتا پارٹی کی خواہشات سے کہیں پرے نکل گیا ہے۔ نیوکلیئر طاقت نے طاقت کا توازن بدل دیا ہے۔

دور سے دیکھنے میں تر نوالہ ایک ایسی حقیقت بن چکا ہے جس کو اپنی توقع کے مطابق ہضم کرنا ناممکن ہے۔ مگر اس کے باوجود جدید زمانے میں بھی پاکستان کی بنیاد اور اساس نریندر مودی کے نقطہ فکر کے احاطے میں نہیں آتی۔ وہ ہندو قومیت کے داعی ہیں۔ وہ اس خطے میں اپنے ملک کی اجارہ داری کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ ان کی میزبانی اور مہمان نوازی کسی ایسے خیر سگالی جذبے سے نہیں بھری ہوئی جس کو وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے مشیران گرم جوش مصافحے اور بغل گیری والی سفارتکاری سے خطے کے بہترین مفاد کے لیے استعمال کر پائیں۔ یقینا نریندر مودی ہندوستان کو پاکستان کے لیے بدترین درد سر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔

آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ چلیں درد سر ہی سہی اس تکلیف کو ختم کرنے کے لیے بھی تو اہتمام کرنا ہی ہو گا۔ منہ پُھلا کر کونے میں بیٹھ جانے سے نریندر مودی کا ہندوستان پاکستان کے پہلو میں کانٹے کی طرح چُبھنا بند نہیں کر دے گا۔ لہذا بات تو کرنی ہی ہو گی۔ یہ درست نقطہ نظر ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں بد ترین دشمن کے ساتھ بھی میز کے آر پار بیٹھ کے ہی بات کرنا مناسب ہے۔ مگر جس رفتار سے موجودہ حکومت اس بات چیت کو چلانے کی کوشش کر رہی ہے اس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ ہر قیمت پر نریندر مودی کو بھائی قرار دینے پر مصر ہیں۔

اگرچہ وزارت خارجہ نے پچھلے دو تین دنوں میں کئی مرتبہ خواہ مخواہ کی سنسنی پھیلائی اور یہ بتانے سے اجتناب کیا کہ محترم وزیر اعظم اس دعوت نامے پر کیا رد عمل دیں گے۔ لیکن ہم میں سے جو بھی ن لیگ کی ہندوستان پالیسی کو غور سے دیکھ رہا تھا وہ اس مصنوعی سپنس سے بالکل بھی متاثر نہیں ہوا۔ ہاں ن لیگ کے چند ایک ممبران اس مبالغے میں پڑے رہے کہ شاید وزیر اعظم کسی کشمکش میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک سینئر رکن نے ابتدا میں دو تین مرتبہ مجھ سے بات کرتے ہوئے یہ اصرار کیا کہ "وزیرِاعظم ہندوستان جانے کے بارے میں ففٹی ففٹی ہیں"۔ "میں نے ان کی معصومیت پر مسکراتے ہوئے یہ کہا کہ ففٹی ففٹی نہیں ون ہنڈرڈ اینڈ ففٹی ہیں کہ انھوں نے جانا ہی ہے"۔ اس کے بعد وزارت خارجہ کی طرف سے مندرجہ ذیل پریس ریلیز جاری ہو گئی :

’’وزیر اعظم نواز شریف نے بھارت کے نامزد وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت کو باضابطہ طور پر قبول کر لیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف 26 مئی کو بھارت کے دارالحکومت دہلی پہنچیں گے، وزیر اعظم کے ہمراہ سرتاج عزیز، معاون خصوصی طارق فاطمی اور سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری بھی جائیں گے، وزیر اعظم اسی روز نامزد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کریں گے، وزیر اعظم نواز شریف اور نریندر مودی کی ملاقات 27 مئی کو ہو گی، اس کے علاوہ بھارت کے صدر پرناب مکھرجی سے ملاقات بھی شیڈول میں شامل ہے۔ وزیر اعظم 27 مئی کی سہہ پہر اپنا دورہ مکمل کر کے وطن واپس آ جائیں گے۔‘‘

’’اس سینئر مسلم لیگی نے مجھے ایس ایم ایس کے ذریعے اپنی حیرانی کا اظہار کیا۔ اور یہ استفسار کیا کہ مجھے وزیر اعظم کی منشاء کا کیسے پتہ چل گیا تھا‘‘۔’’میں نے جواب میں لکھا کہ منشا کا کس کو نہیں پتہ سب جانتے ہیں کہ دہلی، واشنگٹن ہر جگہ وزیر اعظم کی منشا کے چرچے ہیں۔ مجھے حیرت اس بات پر کہ آپ کو اس بارے میں علم کیوں نہیں ہوا‘‘۔

طاقت میں آنے کے فورا بعد وزیر اعظم نواز شریف نے ہندوستان کے ساتھ شہریار خان صاحب کے توسط سے ایس کے لامبا کے ساتھ جس خفیہ سفارتکاری کا آغاز کیا وہ اب ریکارڈ کا حصہ بن چکا ہے۔ چار نکات پر مبنی ہندوستان پاکستان امن فارمولہ طے کیا جا چکا ہے۔ دہشت گردی، تجارت، امن و امان اور دیگر معاملات اس فارمولے کا حصہ ہیں۔ دونوں ممالک میں باقاعدہ پالیسی پیپرز کا تبادلہ بھی ہو چکا ہے۔ کبھی دبئی میں اور کبھی شہریار صاحب کی کتاب کی تقریب رونمائی کے کھاتے میں جو ملاقاتیں ہوئی تھی انھوں نے وزیر اعظم کے اس دورے کو عملا پہلے سے ہی طے کر دیا تھا۔ اس تمام عمل کے بہت سے پہلو پریشان کن اور پیچیدہ ہیں۔

مگر دو بالخصوص قابل اعتراض گردانے جانے چاہئیں۔ ایک تو یہ اس تمام بات چیت کے عمل اور اس کے نتائج کو صیغہ راز بنا کر رکھا گیا ہے۔ نہ کابینہ، نہ قومی اسمبلی، نہ سینیٹ، نہ متعلقہ کمیٹیوں اور نہ ہی ملک کے دوسرے اداروں کو اس کی تمام جزیات حکومت نے خود سے بتلائی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ چند ایک اداروں نے زور لگا کر اپنے تئیں معلومات حاصل کر لی ہوں۔ لیکن حکومت کی طرف سے مکمل بلیک آئوٹ ہی رکھا گیا ہے۔ جس طرح دونوں ملکوں کے پنجاب حکومتوں کے درمیان معاہدے کو بند لفافے میں ارسال کیا گیا تھا ویسے ہی قومی سفارتکاری کی جا رہی ہے۔ اگر یہ سب کچھ ملک کے لیے اتنا ہی اچھا ہے تو ڈرنے چھپنے کی کیا بات ہے۔ اصل حقائق سامنے رکھیں پتہ تو چلے کہ آپ ہندوستان کے ساتھ مل کر کیا کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ شہریار ۔لامبا بات چیت کے بہت سے پہلو جنرل مشرف کے دور میں کی گئی سفارتکاری سے مستعار لیے گئے ہیں۔ کیوں کہ دلی کا اصرار تھا کہ بات وہیں سے شروع ہو گی جہاں پر جنرل مشرف نے چھوڑی تھی۔ ایک ایسی جماعت جو ڈکٹیٹر کو پتھر مارنے سے کبھی نہیں چونکتی۔ ہندوستان کے معاملے پر اس کی ڈگر اختیار کرنے میں فخر محسوس کر رہی ہے۔ اگر جنرل مشرف کی دانش مندی ہندوستان کے حوالے سے قابل قبول ہے تو دوسری جگہوں پر بھی مان لیں۔ میاں محمد نواز شریف کو ان تمام معاملات پر وضاحت کرنی چاہیے تھی۔ لیکن وہ نہیں کریں گے۔ وہ دہلی جا رہے ہیں، ان کے لیے یہی بہت ہے۔

بہ شکریہ روزنامہ  ایکسپریس

Nawaz Sharif Unique Record, 14 Foreign Trips in 12 Months

$
0
0


Nawaz Sharif Unique Record, 14 Foreign Trips in 12 Months
Enhanced by Zemanta

سیاچن معاہدہ کس نے ناکام بنایا........ڈاکٹر ملیحہ لودھی

$
0
0

بھارت میں عام انتخابات کے موقع پر ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں منموہن سنگھ کی گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ منموہن سنگھ پوری دو مدت مکمل کرنے والے بھارت کے کمزور ترین وزیراعظم بن گئے ہیں۔ ان کے دور پر رائے دہندگان کا فیصلہ کانگریس کے لئے ایک شکست فاش کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر سنگھ کے وزارت عظمیٰ میں پہلے چار سال کے دوران سنجیا بارو ان کے میڈیا مشیر رہے ۔ اپنی کتاب دا ایکسیڈینٹل پرائم منسٹر (حادثاتی وزیراعظم) میں وہ لکھتے ہیں کہ کس طرح دوسری مدت کے دوران کانگریس کے رہنما کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی جب انہوں نے بدعنوانی کے اسکینڈلز کو نظرانداز کیا اور ایک بے پتوار حکومت کی سربراہی کی۔ انہوں نے منموہن کو ایک ایسا رہنما قرار دیا جو ذمہ داریاں سنبھالنے میں ناکام ہو گیا، جس نے اپنا اختیار نہایت بھونڈے انداز میں سونیا گاندھی کے سامنے سرنڈر کردیا۔بارو نے کتاب میں منموہن کے پریشان کن زوال پر کافی عبرت انگیز تفصیلات فراہم کی ہیں۔ پاکستانی قارئین کے لئے ان کی کتاب کا وہ حصہ زیادہ دلچسپی کا حامل ہوگا جس میں انہوں نے کانگریس سرکار کے پاکستان سے تعلقات کا ذکر کیا ہے۔

بارو نے کشمیر امن فارمولے میں پیشرفت کے لئے سنگھ کی سابق صدر پرویز مشرف کے ساتھ پس پردہ سفارت کاری کو بھی بیان کیا ہے۔ دیگر چیزوں کے ساتھ بارو نے اس بات کا انکشاف بھی کیا ہے کہ کس طرح کانگریس سنگھ کی پاکستان پالیسی پر منقسم ہو گئی تھی۔ زیادہ اہمیت کا حامل یہ انکشاف ہے کہ منموہن سنگھ سیاچن کے مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے آرمی چیف اور سینئر ساتھیوں کی مخالفت نے ایسی کسی بھی امید کا گلا گھونٹ دیا۔ بارو یادیں تازہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ دونوں ممالک کے خصوصی نمائندوں کے درمیان ہونے والی پس پردہ ملاقات کے بعد سنگھ نے جون 2005ء میں سیاچن گلیشیئر کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ اعلان کیا تھا کہ سیاچن امن کا پہاڑ ہونا چاہئے نہ کہ تصادم کا۔ باروبتاتے ہیں کہ سنگھ نے یہ بیان ان ریٹائرڈ آرمی جرنیلوں کے ساتھ مشاورت کے بعد دیا تھا جنہوں نے دنیا کے بلند ترین میدان جنگ میں دستوں کی سالاری کی تھی اور ان سب نے سیاچن کا حتمی حل ڈھونڈنے کے سنگھ کے فیصلے کی تائید کی تھی لیکن سنگھ کو اس حوالے سے اپنے دو وزرائے دفاع کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جن میں سے ایک پرناب مکھرجی تھے جو اب بھارت کے صدر ہیں اور دوسرے اے کے انتھونی ۔ دونوں وزرائے دفاع یا تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے سخت گیر موقف کی تائید کررہے تھے یا پھر اس کے ہم خیال تھے۔

بارو لکھتے ہیں کہ اس وقت کے حاضر سروس بھارتی جرنیل سمجھوتے کیلئے پاکستان پر اعتبار کرنے کو تیار نہ تھے۔ آرمی چیف جنرل جے جے سنگھ نے منافقانہ رویہ اپنایا۔ بند کمرہ اجلاسوں میں جنرل کہتے کہ پاکستان سے سمجھوتہ ممکن ہے لیکن کھلے عام وہ اس وقت انتھونی کی حمایت کرتے جب وزیر دفاع وزیراعظم کے موقف کی مخالفت کرتے۔ بارو اس سے ناواقفیت کا اظہار کرتے ہیں کہ انتھونی کے سخت موقف کے پیچھے کیا راز پوشیدہ تھا لیکن ان کی کتاب یہ واضح کرتی ہے کہ کس طرح ایک تنازعے کے حل کی کوششوں کو ناکام بنایا گیا۔اس سے اسلام آباد کے پرانے دعوے کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ سیاچن کے مسئلے کو حل کرنے میں رکاوٹ بھارت کی دفاعی اسٹیبلشمنٹ ہے جس نے دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی معاہدے کو سبوتاژ کرنے کیلئےعین نازک لمحات میں مداخلت کی ۔ اگرچہ جنرل جے جے سنگھ نے اپنے خلاف بارو کے الزام کی تردید کی ہے لیکن کتاب پر ان کا ردعمل دراصل اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ فوج کا سخت موقف ہی رکاوٹ بنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ فوج نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ جب تک پاکستان زمین اور نقشے دونوں پر اپنے فوجی دستوں کی موجودگی کی توثیق نہیں کرتا، کسی انخلاء کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ مشورہ یہ بات جانتے بوجھتے ہوئے دیا گیا کہ انخلاء سے قبل توثیق کی شرط پاکستان کے لئے مکمل طور پر ناقابل قبول ہوگی۔مذاکرات کی تاریخ کے ایک طائرانہ جائزے سے ہمیں اُس صورت حال کو سمجھنے میں مدد ملے گی لیکن اس سے قبل ذرا لوک سبھا کیلئے جے پی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ایک اور سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ کے معاملے پر بات کر لی جائے۔ ایک ایسی پیشرفت جس پر پاکستان میں کسی کی نظر ہی نہیں گئی ہے۔ 2012ء میں جب جنرل وی کے سنگھ آرمی چیف تھے، اس وقت ایک انٹرویو میں انہوں نے کھلے عام منموہن سنگھ کے “امن کے پہاڑ” کے خیال کا مذاق اڑایا اور کہا کہ ہمیں امن کے پہاڑوں کی سوچ کے سامنے نہیں جھکنا چاہئے۔

قابل غور امر یہ کہ انہوں نے یہ بات جون 2012ء میں پاکستان کے ساتھ مذاکراتی دور سے قبل اور برفانی تودہ گرنے کے واقعے کے بعد کہی جس میں 139 پاکستانی فوجی اور سویلینز برفانی تودے تلے دب کر جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس وقت وی کے سنگھ نے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی سیاچن گلیشیئر سے دونوں ممالک کی فوجوں کے انخلاء اور تمام تنازعات کے پرامن حل کی اپیل بھی مسترد کردی۔جنرل وی کے سنگھ نے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ انہوں نے بھارتی فوج کے کسی بھی انخلاء کا امکان مسترد کر دیا اور بلاوجہ یہ بھی کہا کہ جموں و کشمیر بھارت کا ہے۔ ان خیالات کے حامل وی کے سنگھ اب بھارت کی حکمراں جماعت کے ایک رکن بن چکے ہیں اور مشکل ہی ہے کہ وہ سیاچن کے مسئلے کے حل کی حمایت کریں۔گزشتہ ماہ اس تنازع کو پورے 30 سال ہوگئے ہیں۔اپریل 1984ء میں بھارت نے غیر قانونی طور پر میگھ دوت کے نام سے ایک بڑا چھاتہ بردار آپریشن کرکے اہم چوٹیوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ انٹیلی جنس میں ناکامی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب تک پاکستان کو علم ہوا اور اس نے اپنی فوج روانہ کی تب تک بھارتی فورسز سالتورو رینج کے ساتھ تقریباً تمام بلند پوزیشنوں پر قبضہ کرچکی تھیں۔

بھارتیوں کو ان چوٹیوں سے واپس ہٹانے کی پاکستانی کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں فریقین دنیا کے انتہائی نامہربان خطے پر اپنے فوجی بڑھاتے رہے اور چوکیاں قائم کرتے رہے جسے ابتدائی طور پر دونوں ممالک نے کوئی تذویراتی اہمیت نہیں دی تھی۔ پہلی جھڑپوں کے فوراً بعد مسئلے کے حل کے لئے سفارتی کوششیں کی گئیں۔ یکے بعد دیگرے دفاعی حکام کے درمیان مذاکرات کے 13 ادوار ہوئے جن میں سے آخری جون 2012ء میں ہوا تھا۔ سیاچن کے مسئلے پر بات چیت کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح بھارت بنیادی معاہدے سے پھر گیا اور اپنا موقف سخت کرتا چلا گیا۔

جون 1989ء میں ہونے والے پانچویں دور کو پیشرفت کا دور قرار دیا گیا جس کے دوران دونوں ممالک ایک سمجھوتے پر پہنچے اور17جون کو اس کے لئے مشترکہ بیان جاری کیا گیا۔اس معاہدے میں ایک تصفیہ کے اصولی عناصر کا احاطہ کیا گیا یعنی فورسز کی ازسرنو تعیناتی، طاقت کے استعمال سے گریز اور شملہ معاہدے سے مطابقت رکھتے ہوئے زمین پر مستقبل کی پوزیشنز کا تعین۔ یہ معاہدہ تعلقات کی ایک بہتر فضا میں ممکن ہوا جسے وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور راجیو گاندھی نے تیار کیا تھا۔ جب راجیو نے جولائی 1989ء میں اسلام آباد کا دورہ کیا تو دونوں نے اس معاہدے کی توثیق کی لیکن تنازع کا تصفیہ ایک فریب ثابت ہوا جب بھارت 1989ء سمجھوتے سے پھر گیا اور اس نے بنیادی طور پر اپنی فوج کے دباؤ میں آکر ایک معاہدے کے لئے شرائط تبدیل کرنے کی کوشش کی اور اب بارو کی کتاب بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ دفاعی سروسز ہی سیاچن سے انخلاء کی مخالفت کرتی رہیں۔

جب نومبر 1992ء میں پاکستان نے مذاکرات کے چھٹے دور میں 1989ء کے معاہدے کو نافذ کرنے پر بات کرنے کی کوشش کی تو بھارت نے ازسرنو تعیناتی سے قبل موجودہ پوزیشنوں کی مکمل توثیق کرنے پر زور دیا اور پچھلے تصفیہ شدہ معاملات کو دوبارہ سے کھولنے کی کوشش کی۔ بعدازاں مذاکرات کے تمام ادوار میں توثیق پر ہی سوئی اٹک کر رہ گئی اور یہی چیز تعطل کی وجہ بن گئی۔

1989ء کے معاہدے میں موجودہ پوزیشنوں کی نشاندہی کا کوئی نکتہ شامل نہیں۔ پاکستان توثیق کرنے سے انکار کرتا ہے کیونکہ اول اس کا مطلب ایک غیرقانونی اقدام کو قانونی قرار دینا ہوگا۔دوم مذاکرات میں بھارت کے قانونی دعوے کو ایک بنیاد فراہم کرنا بعدازاں جس کے ذریعے وہ لائن آف کنٹرول پرNJ 9842 کے پار والے علاقے کی حد بندی کرسکے گا۔ یہ وہ علاقہ ہے جسے 1949ء اور 1972ء کے معاہدوں کے بعد حد بندی کیے بغیر یونہی چھوڑ دیا گیا تھا لیکن 1970ء کے وسط سے وہ پاکستان کے کنٹرول میں تھا۔نومبر 1992ء کو ہونے والی بات چیت میں پاکستان نے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاہدے کے ضمیمے میں اس حد تک موجودہ پوزیشنوں کو ریکارڈ پر لانے کی پیشکش کی کہ وہ علاقے پر بھارت کے قانونی دعوے کی بنیاد نہ بنے لیکن بھارت مکمل توثیق پر اصرار کرتا رہا۔


حالیہ برسوں میں متعدد سابق بھارتی فوجی افسروں نے اب چین کا عذر تراشا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بھارت سالتورو رینج پر اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھے گا تو پاک چین محور درہ قراقرم پر اپنا کنٹرول جمالے گا جس کے نتیجے میں لداخ کی سیکورٹی خطرے میں پڑ جائے گی۔ کسی بھی بھارتی انخلاء سے پاکستان کو پورے سالتورو رینج سے درہ قراقرم تک دسترس حاصل ہوجائے گی جس سے بچنے کے لئے انخلاء نہیں کرنا چاہئے۔ نتیجتاً مئی 2011ء اور جون 2012ء میں پاکستان نے دیکھا کہ بھارت کے موقف میں مزید سختی آگئی۔ دہلی ایسے اقدامات پر بضد رہا جو اس پوری ترتیب کو ہی الٹا دیں گے جس پر وہ پہلے آمادہ ہو چکا تھا یعنی فوجی انخلاء، اور حد بندیوں پر مذاکرات کے بعد متنازع زون سے باہر آجانا۔دونوں دور بے نتیجہ ختم ہوگئے۔ بھارت اسی پر مصر رہا کہ موجودہ پوزیشنوں کی زمین اور نقشے پر توثیق و حد بندی کی جائے اور فوجی انخلاء اور مستقبل کی پوزیشنوں کے تعین کو فی الحال کونے میں رکھ دیا جائے۔ فوجی انخلاء کے لئے درکار اقدامات کی ترتیب پر اختلافات کو حل کرنے کی پاکستان کی کوشش بھی مسترد کردی گئی، اس پیشکش کے ذریعے کہ ہر فریق بیک وقت اپنی خواہش کے مطابق قدم اٹھائے لیکن سفارت کاری کی یہ تاریخ چاہے کتنی ہی تلخ کیوں نہ ہو، اسے ایک ایسے تنازع کے حل کی مستقبل کی کوششوں میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے جو جان اور مال کی بہت بڑی قیمت وصول کرچکا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نئی دہلی میں نئی حکومت یہ مسئلہ حل کرنے میں دلچسپی لے گی؟ اور کیا وہ اپنی دفاعی افواج کی مخالفت پر قابو پاسکے گی؟

بہ شکریہ روزنامہ "جنگ 

Strike in Pakistan affected millions of daily wages workers

$
0
0









Strike in Pakistan affected millions of daily wages workers
Enhanced by Zemanta
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live