Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

کیا خون مسلم واقعی ارزاں ہو چکا ہے ؟

$
0
0

مقبوضہ بیت المقدس دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے اسے کئی طرح کی اہمیت حاصل ہے وہ مسلمانوں کا قبلہ اول بھی ہے اور دوسری قوموں کی مذہبی اور دینی آماجگاہ بھی ہے قبلہ اول تمام قوموں کے لئے محترم اور اہم ہے امریکا کی سرپرستی میں اسرائیل اس پر قابض ہو رہا ہے اب امریکا نے ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے اپنا سفارت خانہ اسرائیلی دار الحکومت سے بیت المقدس منتقل کر کے یہ واضح کر دیا کہ بیت المقدس اسرائیل کا ہے جبکہ 1948ء میں جب برطانیہ نے ارض فلسطین پر اسرائیلی ریاست قائم کی تھی تب بھی بیت المقدس اس کا حصہ نہیں تھا اقوام متحدہ نے جب ارض فلسطین کو تقسیم کرنے کے لئے جو نقشہ وضع کیا تھا اس میں بھی یروشلم کو بین الاقوامی کنٹرول میں دینے کی سفارش کی تھی کیونکہ یہ تمام اقوام کے لئے اہم اور مقدس علاقہ ہے مگر اہل فلسطین نے اقوام متحدہ کا یہ فیصلہ قطعی قبول نہیں کیا اور اپنی آزادی اور فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔

امریکا نے اپنا سفارت خانہ یروشلم میں منتقل کیا تو اہل فلسطین سراپا احتجاج بن گئے اس احتجاج کو روکنے، ختم کرنے کے لئے فلسطینیوں پر اسرائیلی درندوں کی فائرنگ سے سینکڑوں فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہو گئے اتنے ظالمانہ اور شدید درندگی کے واقعہ پر نہ صرف اقوام متحدہ بلکہ چالیس اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد بھی کان دبا کر بیٹھا ہے کہیں سے کوئی آواز اس سانحہ کیخلاف بلند نہیں ہوئی سوائے ایک مرد مجاہد طیب اردوان کے اس نے نہ صرف اسرائیل سے اپنے سفیر اور سفارتی عملے کو واپس بلایا اپنی سر زمین پر اسرائیلی سفارت خانہ کو بھی بند کرا کر عملے کے ارکان کو واپس بھیج دیا ہے اور یہیں تک بس نہیں کیا اس نے امریکا کو بھی بتا دیا کہ اگر امریکا نے اسرائیل سے اپنی جانبداری ختم یا کم نہیں کی تو ترکی امریکا سے اپنے سفارت کاروں کو بھی واپس بلا سکتا ہے۔ 

ترکی نے غزہ میں شہید ہونے والوں کے سوگ میں تین روزہ سوگ کا اعلان کر دیا ہے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا نے مظلوم فلسطینیوں کی پشت میں خنجر گھونپ دیا ہے یروشلم کو اسرائیل کے حوالے کرنے کا امریکی ایجنڈا گو کہ بہت پرانا ہے جسے ڈونلڈ ٹرمپ نے حتمی شکل دی ہے ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں امریکیوں کا گمان ہے کہ وہ یہودی ہے اس لئے ہی یہودی لابی نے اسے صدارتی انتخاب میں کامیاب کرایا تھا یہی وجہ ہے کہ بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کی افتتاحی تقریب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی نے بھی شرکت کی تھی امریکی صدر کے اس فیصلے پر سینکڑوں فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے پورے فلسطین میں کہرام مچا ہوا ہے۔

اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضہ کرنے کی سازش کے تحت ہی مسجد میں نمازیوں پر پابندی لگا دی ہے کہ کوئی مسجد اقصیٰ میں نماز نہیں پڑھے گا اور نہ ہی وہاں اذان ہو گی اور نہ جمعہ کا خطبہ ہو سکے گا اسرائیلی حکام زبردستی وہاں سیکورٹی کے مسائل پیدا کر رہے ہیں تاکہ وہ اس طرح مسجد ابراہیمی کی طرح قبلہ اول کو بھی تقسیم کر سکیں۔ دراصل یاسر عرفات کے بعد فلسطین میں جو سیاسی تقسیم ہوئی ہے وہ روز بروز بڑھتی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ دیگر مسلم ریاستیں اس معاملے سے وہ دلچسپی نہیں رکھتیں جیسا کہ یاسر عرفات کے دور میں تھی۔

 سعودی عرب نے بھی صرف زبانی کلامی مذمت کی ہے کیونکہ اب وہ خود اپنی طاقت کھو رہا ہے وہ بھی امریکی ایجنڈے کو خطے میں روک نہیں سکتا ویسے بھی امریکا نہ تو کسی ادارے کا احترام کرتا ہے نہ اہمیت دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکا نے اپنے اتحادیوں کو بھی اس بارے میں اعتماد میں نہیں لیا جو اتحادی اس کے ساتھ نیٹو اور ویٹو میں اس کے ساتھ ہیں ان کو بھی لا علم رکھتے ہوئے اس نے ارض فلسطین پر اپنی من مانی کر کے بیت المقدس میں اپنا سفارت خانہ کھول دیا ہے اسرائیل نے اس موقع پر اپنے قیام کی سترہویں سالگرہ بھی منائی اسرائیل نے اپنی سالگرہ کے موقع پر فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی ہے معصوم فلسطینی عورتوں، بچوں، نوجوانوں کا بے دریغ خون بہا کر نہ صرف اپنی سالگرہ کو مسلم خون سے آلودہ کیا اور امریکی سفارت خانے کے افتتاح کو خون مسلم سے رنگ دار کر دیا۔

دراصل اس طرح امریکہ نے بیت المقدس اسرائیل کے سپرد کر دیا ہے یہ امریکی منصوبہ سازوں کا بڑا سوچا سمجھا منصوبہ یا سازش ہے جسے بروئے کار لایا گیا ہے یقینا یہ کوئی اچانک فیصلہ نہیں ہے یہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا ہی نتیجہ ہے۔ سفارت خانے کی عمارت کی تعمیر کوئی ایک ہفتے یا ایک دن میں تو نہیں ہوئی ہو گی ۔ مظلوم فلسطینی جو مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ جانیں قربان کر رہے ہیں لیکن کسی بھی مسلم ملک یا اس کے پڑوسی مسلم ریاستوں پر کوئی اثر نہیں ہو رہا فلسطینی مظلوم اپنی لڑائی تنہا لڑ رہے ہیں نہ او آئی سی نہ اقوام متحدہ نہ ہی اور کوئی بین الاقوامی تنظیم فلسطینیوں کی کسی طرح مدد کر رہی ہے.

ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس خطے اور اس سے ملحق علاقوں کے بارے میں نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی پیشگوئی پوری ہونے کا وقت آچکا ہے قرب قیامت کی علامات جنم لینے لگی ہیں اللہ تمام عالم اسلام کی حفاظت فرمائے اور مسلمانوں کو اتحاد اور یکجہتی کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ امریکا کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ قرب قیامت کے آثار میں یہ بھی شامل ہے کہ قیامت سے پہلے امریکا کی ریاست نیست و نابود ہو جائے گی خطہ زمین سے اس کا وجود مٹ جائے گا۔ آخر وہ یہ من مانیاں اور خود سری کس لئے کر رہا ہے کہیں ایسا تو نہیں جب چراغ بجھنے کو ہوتا ہے تو اس کی لو بھڑکنے لگتی ہے کہیں یہی معاملہ تو درپیش نہیں اللہ ہماری ہمارے وطن عزیز کی حفاظت فرمائے، آمین۔

مشتاق احمد قریشی
 


پاکستان اور بھارت کے درمیان کشن گنگا پر کیا تنازع ہے؟

$
0
0

قیام پاکستان کے وقت زمین تو تقسیم ہو گئی تھی لیکن پانی نہیں اور انڈیا، پاکستان کے درمیان مشترکہ پانیوں کے استعمال پر تنازع 1960 تک جاری رہا جب آخرکار عالمی بینک کی ثالثی میں سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ اس کے بعد دو بڑی جنگیں ہوئیں اور کئی مرتبہ دونوں ملک جنگ کے دہانے تک پہنچے لیکن اس معاہدے پر آنچ نہیں آئی۔ اختلافات حل کرنے کے لیے اب بھی دونوں ملک عالمی بینک کا رخ کرتے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت اس بات پر اتفاق ہوا کہ ’انڈس بیسن‘ کے چھ دریاؤں اور ان کی معاون ندیوں کا پانی کون اور کیسے استعمال کرے گا۔

چھ میں سے تین دریا انڈیا کے حصے میں آئے اور تین پاکستان کے۔ انھیں مشرقی اور مغربی دریا کہا جاتا ہے۔ سندھ، جہلم اور چناب مغربی دریا ہیں جن کے پانی پر پاکستان کا حق ہے جبکہ راوی، بیاس اور ستلج مشرقی دریا ہیں جن کے پانیوں پر ہندوستان کا حق ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈیا مغربی دریاؤں کا پانی بھی استعمال کر سکتا ہے لیکن سخت شرائط کے تحت۔ اسے ان دریاؤں پر بجلی گھر بنانے کی بھی اجازت ہے بشرطیکہ پانی کا بہاؤ (مختص شدہ حد سے) کم نہ ہو اور دریاؤں کا راستہ تبدیل نہ کیا جائے۔ یہ ’رن آف دی ریور‘ پراجیکٹس کہلاتے ہیں یعنی ایسے پراجیکٹس جن کے لیے بند نہ بنایا گیا ہو۔

کشن گنگا پر کیا تنازع ہے؟
کشن کنگا جہلم کا ایک معاون دریا ہے جسے پاکستان میں دریائے نیلم کہا جاتا ہے۔ انڈیا نے 2005 میں اس پر لائن آف کنٹرول کے بہت قریب ایک بجلی گھر بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اسے کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کہتے ہیں۔ کشن گنگا چونکہ جہلم کا معاون دریا ہے اس لیے اس کے پانی پر پاکستان کا حق ہے۔ اس منصوبے کی تعمیر پر انڈیا نے تقریباً چھ ہزار کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ یہ منصوبے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی گریز وادی سے وادی کشمیر میں بانڈی پورہ تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے لیے کشن گنگا کا پانی استعمال کیا جاتا ہے اور پھر اسے ایک مختلف راستہ استعمال کرتے ہوئے، جس کے لیے بانڈی پورہ تک تقریباً 24 کلومیٹر لمبی سرنگ بنائی گئی ہے، وولر جھیل میں چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں سے یہ واپس جہلم کے پانی کے ساتھ پاکستان چلا جاتا ہے۔ 

پاکستان کا موقف ہے کہ اس پراجیکٹ سے دونوں ہی شرائط کی خلاف ورزی ہوتی ہے، نیلم میں پانی بھی کم ہو گا اور کشن گنگا کا راستہ بھی بدلا جائے گا۔ وہ خود اسی دریا پر ایک بجلی گھر بنا رہا ہے جسے نیلم جہلم ہائڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کہتے ہیں۔ اس پراجیکٹ میں 1000 میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسے اتنا پانی مل پائے گا جتنی کہ اسے ضرورت ہے؟ اس کے علاوہ پاکستان میں زراعت کے لیے بھی یہ پانی بہت اہم ہے۔ 

پاکستان کا موقف ہے کہ اسے جنتا پانی ملنا چاہیے، اس سے کافی کم ملے گا جس کی وجہ سے اس خطے میں پانی کی قلت اور سنگین شکل اختیار کر لے گی۔ 330 میگاواٹ کے کشن گنگا پراجیکٹ کے اعلان کے فوراً بعد ہی پاکستان نے عالمی بینک کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ انڈیا کا موقف ہے کہ کشن گنگا پراجیکٹ سندھ طاس معاہدے کے تقاضوں کی پاسداری کرتے ہوئے ہی تعمیر کیا گیا ہے۔ پاکستان کے اعتراض کے بعد انڈیا نے بجلی گھر کے لیے 97 میٹر اونچا بند تعمیر کرنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ اب اس کی اونچائی 37 میٹر ہے۔

لیکن 2010 میں یہ تنازع دی ہیگ میں مصالحت کی عدالت میں پہنچا جس نے پراجیکٹ پر کام روکنے کا حکم دیا۔ تین سال بعد عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ انڈیا یہ بجلی گھر بنا تو سکتا ہے کیونکہ یہ ’رن آف دی ریور‘ پراجیکٹ ہے لیکن اسے کشن گنگا میں تعین شدہ مقدار میں پانی کے بہاؤ کو یقینی بنانا ہو گا۔
پاکستان نے 2016 میں پھر عالمی بینک سے رجوع کیا، اس مرتبہ کشن گنگا پرایکٹ کے ڈیزائن پر اپنی تشویش کے سلسلے میں۔

آبی وسائل کے ماہر ہمانشو ٹھکر کے مطابق بینک نے اس مسئلہ کے تصفیے کے لیے دو سطح پر کارروائی شروع کی تھی لیکن فریقین کی اس دلیل پر کہ دونوں متضاد فیصلے سنا سکتے ہیں، اس کارروائی کو روک دیا گیا۔ عالمی بینک میں آخری سماعت گذشتہ برس ستمبر میں ہوئی تھی۔ مارچ میں جب کشن گنگا میں بجلی بننا شروع ہوئی تو پاکستان نے پھر عالمی بینک سے کہا کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی پاسداری کو یقینی بنائے۔ اب اس پراجیکٹ کا باضابطہ افتتاح کر دیا گیا ہے۔

انڈیا کے لیے یہ منصوبہ کتنا اہم ہے؟
جہاں تک بجلی بنانے کا سوال ہے، ماہرین کےمطابق یہ بہت چھوٹا پراجیکٹ ہے جہاں صرف 330 میگاواٹ بجلی بنے گی۔ آبی وسائل کے ماہر ہمانشو ٹھکر کےمطابق اس کی ’سٹرٹیجک‘ اہمیت زیادہ ہے کیونکہ گریز سیکٹر میں لائن آف کنٹرول کے بہت قریب واقع ہے۔ چونکہ یہ انتہائی دشوار گزار علاقہ ہے اس لیے کشن گنگا پر لاگت معمول سے بہت زیادہ آئی جس کے نتیجے میں یہاں بننے والی بجلی بھی بہت مہنگی ہو گی۔ اس لیے مسٹر ٹھکر کے مطابق اس پراجیکٹ کو بنانے کا کوئی اقتصادی جواز نہیں ہے اور اس کا مقامی معاشرے، ماحولیات، دریا اور وہاں بائیو ڈائیورسٹی سب کو نقصان پہنچے گا۔

انڈیا میں جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے، اکثر یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کو ختم کر دے۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی بھی کہہ چکے ہیں کہ کشمیر میں خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتا۔ ایک حلقے کا یہ موقف بھی ہے کہ سندھ طاس معاہدے کو قائم تو رکھا جائے لیکن اس کےتحت انڈیا جتنا زیادہ سے زیادہ پانی استعمال کر سکتا ہے، وہ اسے کرنا چاہیے۔

سہیل حلیم
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی

بشکریہ بی بی سی اردو
 

سڑک میں میٹرو بس کیوں دھنسی ؟

$
0
0

میٹرو ملتان کے29 ارب روپے کے منصوبے کی ایک کروڑ روپے کی بس کروڑوں روپے سے بننے والی سڑک میں اچانک دھنسنے لگی تو اس میں سوار چھ افراد کی چیخیں دور دور تک سنائی دیں۔ سڑک پر 15 فٹ چوڑا اور 20 فٹ گہرا شگاف پڑ گیا۔ ہوا یوں کہ واسا نے سورج میانی ڈسپوزل سٹیشن سے قدیر آباد تک سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت کروڑوں روپے سے 18 سے 72 انچ کی نئی لائنیں بچھائی تھیں، یہاں نئی کارپٹ سڑک بنا دی گئی تھی۔ کروڑوں روپے کے اخراجات کر کے نئی لائن بچھائی گئی لیکن ساتھ ہی پرانی سیوریج لائن کو بند یا نکالا نہیں گیا جبکہ سیوریج کا پانی اس میں سے بھی گزارا جا رہا تھا، جس کے باعث 6 ماہ کے دوران یہ سڑک تین بار بیٹھ چکی ہے۔ جس سے واسا کے ترقیاتی منصوبوں کا پول کھل گیا ہے ۔ 

بس سڑک کے اندر دھنسنے کے واقعہ نے اس منصوبہ پر مزید سوالات اٹھا دیے ہیں۔ میٹرو بس کے اس کھڈے میں دھنسنے سے کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا تاہم تحقیقاتی ادارے نیب کا اس طرف دھیان ضرور پڑ گیا ہے جس نے کروڑوں روپے مالیت کے اس منصوبہ پر بھی توجہ دینا شروع کر دی ہے اور اس کی جزیات متعلقہ محکموں سے مانگ لی گئی ہیں۔ پیپرا رولز کی خلاف ورزیوں کی شکایات پر پہلے سے قومی احتساب بیورو تحقیقات کر رہا ہے۔ اب نیب نے اس سڑک کے منصوبہ کو بھی اپنی جاری تحقیقات کے دائرہ میں شامل کر لیا ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ملتان میں 11 مئی کو جلسہ عام میں میٹرو ملتان منصوبہ اور بہترین سڑکوں کا ذکر خاص طور پر کیا گیا تھا جس کے بعد یہ واقعہ پیش آ گیا۔ منیجنگ ڈائریکٹر واسا رائو محمد قاسم نے فیڈر بس دھنسنے کے حادثے کی ابتدائی رپورٹ پر سب انجینئر کو معطل کر کے انکوائری کرنے کے احکامات جاری کر دئیے ہیں۔ واسا حکام نے یہاں مٹی ڈال کر شگاف بھرنے کے بعد سروس بحال کر دی تھی لیکن مطلوبہ مقدار میں مٹی نہ ڈالنے سے بس کے بعد ایک لوڈ ٹرالی بھی اسی شگاف میں پھنس گئی تھی۔

اختر شیخ


 

چین سے درآمد کردہ کھانے پینے کی چیزوں پر پابندی لگا دی گئی

$
0
0

خیبر پختونخوا فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی نے چین سے درآمد کی جانی والی اشیائے خورد ونوش کو حرام قرار دے دیا ہے۔ فوڈ اتھارٹی کے جاری شدہ نوٹی فیکیشن کے مطابق چین سے درآمد کیے جانے والے پروسیسڈ فوڈ آئٹمز پر اس وقت تک پابندی عائد رہے گی، جب تک کہ ان کے حلال ہونے کا سرٹیفکیٹ پیش کر دیا نہیں جاتا۔ ڈائریکٹر ٹیکنیکل ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ کا کہنا ہے کہ چین سے منگوائی جانے والی کھانے پینے کی کئی چیزوں کے اجزا میں جیلیٹن کا شامل ہوتا ہے جو کہ عموماً جانوروں کے گوشت اور ہڈیوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ چین میں جانوروں کو ذبح کرنے کا طریقہ کار واضح نہیں اور نہ ہی جانوروں کو اسلامی طریقے کے مطابق ذبح کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ابھی تک چین سے درآمد کردہ خوراک کے متعلق حلال کی سند مہیا کرنے کا بھی کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حلال سند کے بغیر گوشت کی درآمد پر پہلے سے ہی پابندی ہے جبکہ وہ تمام اشیائے خور ونوش جس میں شراب یا اس کے اجزا کا استعمال ہو، اس کی درآمد پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ خیبر پختونخوا فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فود اتھارٹی کے ترجمان کے مطابق پشاور کی مختلف مارکیٹوں کا سروے کیا جہاں پر چین سے منگوائی گئی کھانے پینے کی مختلف اشیاء کی ایک وافر مقدار موجود تھی۔ تحقیق سے پتا چلا کہ وہ تمام اشیاء حلال فوڈ کی کیٹگری میں نہیں آتیں۔

اس کے علاوہ ان تمام اشیائے خورد ونوش پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے جس کے اجزائے ترکیبی اردو یا انگریزی میں واضح نہ لکھے ہوئے ہوں یا ان میں حشرات کی کوئی بھی قسم شامل ہو۔ حلال فوڈ اتھارٹی کے ترجمان نے کہا کہ چین سے درآمد کردہ ٹافیاں، چاکلیٹ، چکن اور گوشت کے تیار شدہ کھانے اور دیگر اشیا پشاور کے تمام بڑے اسٹوروں میں دستیاب ہیں، لیکن عوام اور دکاندار معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ان حرام چیزوں کا استعمال کر رہے ہیں۔

ایجنسیاں


 

سندھ طاس معاہدے کے تنازعات پر ہمارا کردار بہت محدود ہے : عالمی بینک

$
0
0

عالمی بینک کے نے کہا ہے کہ اس نے پاکستانی وفد سے دریائی پانی پر اپنے ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ تنازع کے دوستانہ حل کے سلسلے میں مذاکرات کیے ہیں۔ پاکستانی وفد اٹارنی جنرل کی قیادت میں واشنگٹن پہنچا تھا، جب کہ اس سے ایک روز قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارتی کنٹرول کے کشمیر میں متنازع ڈیم کا افتتاح کیا تھا۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ اس منصوبے سے ملک میں آنے والے پانی میں اس کا حصہ کم ہو جائے گا۔ سندھ طاس منصوبہ تین مشرقی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب، اور تین مشرقی دریاؤں ستلج ، بیاس اور راوی پر مشتمل ہے۔

متنازع کشن گنگا ڈیم دریائے نیلم پر بنایا گیا ہے جو دریائے جہلم کی ایک شاخ ہے۔ عالمی بینک کے سینیر عہدے داروں نے پاکستانی وفد کے ساتھ اجلاس کیے جس میں پاکستان نے عالمی ادارے کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا۔ عالمی بینک کی ترجمان علینا کارابین نے میڈیا کو بتایا کہ پاکستانی وفد کے ساتھ اجلاسوں میں بینک کے سینیر عہدے داروں نے اٹھائے گئے خدشات اور معاہدے کے اندر رہتے ہوئے دوستانہ حل کے مواقعوں پر بات کی۔ عالمی بینک نے عشروں پہلے پاکستان اور بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم سے متعلق مذاكرات کی سرپرستی کی تھی لیکن حالیہ اجلاسوں میں پیش کیے گئے حقائق پر عالمی بینک کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں پیدا ہونے والے اختلافات اور تنازعوں کے حوالے سے اس کا کردار بہت محدود ہے۔

تاہم عالمی بینک نے کہا کہ وہ پانی کی تقسیم کے اس معاہدے کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھتا ہے، جس نے جنوبی ایشیا کے دو ہمسایہ جوہری ملکوں کو پانی کی جنگ سے محفوظ رکھا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ ایک اہم بین الاقوامی معاہدہ ہے جو پاکستان اور بھارت کو پانی کے بندوبست سے متعلق انسانی ضروريات پوری کرنے اور ترقیاتی اہداف حاصل کرنے، اور موجودہ اور مستقل کے چیلنجز کے مقابلے لیے ایک ضروری اور تعاون پر مبنی طریقہ کار مہیا کرتا ہے۔ سن 2016 اگست میں پاکستان نے عالمی بینک سے کہا تھا کہ وہ کشن گنگا اور دوسرے منصوبوں کے ڈیزائن کے جائزوں کے لیے ایک عدالت قائم کرے، لیکن بھارت نے پاکستان کی تجویز کو تکنیکی قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ معاملہ کسی غیر جانبدار ماہر کے پاس بھیجا جائے۔ لیکن پاکستان نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ دسمبر 2016 میں عالمی بینک نے اس سلسلے میں پیش رفت کو روک دیا تھا تاکہ دونوں ملک کسی متبادل پر غور کر سکیں۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ اس نے پاکستانی وفد سے ملاقات ان کی درخواست پر کی۔ سندھ طاس معاہدے میں بھارت کو منصوبے میں شامل پانی کے ذرائع پر بجلی پیدا کرنے کے پراجیکٹ تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی ہے، بشرطیکہ اس سے معاہدے دیگر پہلوؤں کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

سبیکا شیخ جو ڈھیروں خواب لے کر امریکا پہنچی تھی

$
0
0

سترہ سالہ سبیکا شیخ ڈھیروں خواب لے کر امریکا پہنچی تھی۔ طلبہ تبادلے کے ایک پروگرام کے تحت وہ امریکی ریاست ٹیکساس کے سینٹا فے ہائی سکول میں زیر تعلیم تھی۔ نو جون کو 10 ماہ پر مشتمل یہ پروگرام اختتام کو پہنچنا تھا لیکن اس سے قبل ہی سکول پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ 18 مئی کو وہاں فائرنگ کے ایک واقعے میں سبیکا سمیت دس افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ فائرنگ کرنے والا ایک طالب علم تھا جو اسی سکول میں زیرتعلیم تھا ۔ فائرنگ کے اس واقعے پر دنیا بھر میں افسوس کا اظہار کیا گیا۔ ایک جواں سال پاکستانی کی موت پر پاکستان میں سوشل میڈیا پر خاصا ردعمل دیکھنے میں آیا اور سبیکا شیخ کی مسکراتی ہوئی تصور چار سو گردش کرنے لگی۔

اہم سیاسی اور سماجی شخصیات نے بھی اظہار افسوس کیا۔ سبیکا جہاں رہتی تھیں وہاں کے گھر والوں نے بھی انتہائی دکھ کا اظہار کیا۔ اس خاندان کے فرد مسٹر جیسن کا کہنا تھا کہ ’’سبیکا ہمارے پاس آتے ہی بے تکلف ہو گئی۔ میری ایک بیٹی ہمارے ساتھ رہتی ہے۔ وہ تو سبیکا کی گہری دوست بن گئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ سبیکا کی شکل میں خدا نے ہمیں اپنا بہترین تحفہ بھجوایا تھا۔ ہم اس سے پیار کرنے لگے۔ وہ بھی ہمیں بہت چاہتی تھی۔ جب رمضان شروع ہوا اور وہ روزے رکھنے لگی تو ہم نے اس کی بھرپور مدد کی۔ وجہ یہ تھی کہ ہم محبت کے انمول بندھن سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھ گئے تھے۔‘‘ سبیکا کے والد حوصلہ مند اور روشن خیال انسان ہیں ۔ انہوں نے نہ صرف اپنی بیٹی کو حصول علم کے لیے بیرون ملک بھیجا بلکہ موت کے بعد یہ بھی کہا کہ ایسے واقعات سے خوف زدہ ہوئے بغیر دوسرے طلبہ کو آگے بڑھنا چاہیے۔ ایک ہونہار طالبہ کا یوں اس دنیا سے چلے جانا واقعی افسوسناک تھا۔ امریکا میں اس طرح کے واقعات ایک معمول بن چکے ہیں اور بظاہر حکومت انہیں روکنے میں ناکام نظر آتی ہے۔

رضوان عطا

پاکستان نے مالی بحران سے نکلنے کیلئے چین کی طرف دیکھنا شروع کر دیا

$
0
0

 برطانوی اخبار کا کہنا ہے کہ پاکستان نے زرمبادلہ کے ذخائر کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک بار پھر چین کا رُخ کر لیا اور اپریل میں چینی بینکوں سے ’اچھی، مسابقتی شرح‘ پر ایک ارب ڈالر کا قرض لیا۔ فنانشل ٹائمز (ایف ٹی) کو انٹرویو دیتے ہوئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے گورنر طارق باجوہ چینی بینکوں سے اچھی شرح پر قرض حاصل کرنے کی تصدیق کی۔ اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’اس رقم سے دونوں ممالک کے درمیان مالی، سیاسی اور عسکری تعلقات مضبوط ہوں گے۔‘ رپورٹ میں طارق باجوہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’چین کی کمرشل بینکوں کے پاس پیسوں کی بھرمار ہے۔‘

واضح رہے کہ گزشتہ سال اپریل میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 18.1 ارب ڈالر تھے جو رواں سال مئی میں کم ہو کر 10.8 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستانی حکام کو امید ہے کہ چینی بینکوں سے ملنے والی اس رقم سے پاکستان، قرض کے لیے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پاس جانے سے بچ جائے گا۔ فنانشل ٹائمز کی رپورٹ میں پاکستانی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان کو قرض دینا چین کے بھی مفاد میں ہے، لیکن انہوں نے پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے لیے حاصل کیے گئے قرضوں کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

پاکستان میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے چین تقریباً 60 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، تاہم وہ اسلام آباد کو سی پیک منصوبے کے لیے فراہم کیے جانے والے قرض کی تفصیلات بتانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اسلام آباد میں بےنام عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’چینی لوگوں کو مغربی اداروں کی طرح سی پیک منصوبے کی ہر چھوٹی سے چھوٹی مالی تفصیل جاننے کی جلدی نہیں ہے، آئی ایم ایف پروگرام کے لیے پاکستان کو مالی ٹرمز بتانے کی ضرورت ہو گی۔‘

ایف ٹی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ حاصل کیے گئے ایک ارب ڈالر سے قبل بھی پاکستان، چینی بینکوں سے اپریل 2017 سے تقریباً 1.2 ارب ڈالر حاصل کر چکا ہے، جبکہ مزید قرض لیے جانے کی بھی توقع ہے۔ رپورٹ میں ایک اور گمنام عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ ’پاکستان کی وزارت خزانہ نے چینی حکام سے اپریل 2019 میں مالی سال کے اختتام سے قبل اضافی کم از کم 50 کروڑ ڈالر حاصل کرنے کے لیے غیر رسمی مذاکرات کر لیے ہیں۔‘

 

اسد درانی اور’ را ‘ کے سابق سربراہ کی مشترکہ کتاب پر تنازع

$
0
0

سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کی بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ ایس کے دلت کے ساتھ مل کر لکھی گئی کتاب سپائی کرونیکلز پر پاک فوج نے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے اور کتاب میں لکھے گئے بیانات پر وضاحت کے لیے انہیں جنرل ہیڈکوارٹر طلب کر لیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل آصف غفور کی طرف سے جاری ٹویٹ کے مطابق سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے کتاب میں بہت سے موضوعات حقائق کے برعکس بیان کیے ہیں۔ جنرل اسد درانی کو اپنے بیانات پر پوزیشن واضح کرنے کے لیے جی ایچ کیو طلب کیا گیا ہے۔

اپنے بیان میں ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ کتاب میں حقائق کے منافی باتیں ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہیں جس پر لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کو اپنی پوزیشن واضح کرنی ہو گی۔ ترجمان کے مطابق کوئی بھی شخص ملک اور قانون سے بالاتر نہیں ہے جب کہ یہ ایکشن ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر لیا گیا ہے جو نہ صرف حاضر سروس بلکہ ریٹائرڈ عہدے داروں پر بھی لاگو ہوتا ہے اس حوالے سے عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک فوج کے اندر اس حوالے سے شديد تحفظات تھے اور مختلف سینیر افسران نے اس پر شديد تحفظات کا اظہار کیا جس پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ ایکشن لینے کا فیصلہ کیا اور جنرل اسد درانی کو طلب کیا گیا ہے۔ اس معاملہ پر دن میں سینیٹ کے اجلاس میں بھی بات ہوئی اور چیئرمین سینیٹ نے وزارت خارجہ سے اس حوالے سے رپورٹ طلب کرلی۔ دو روز قبل پاکستان ڈیفس نے کتاب کی تصویر کے ساتھ یہ انکشاف کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے انٹیلی جینس کے اعلیٰ عہدے داروں کی ایک مشترکہ کتاب منظر عام پر آ رہی ہے۔

یہ متنازع کتاب اس وقت گوگل پر مطالعے کے لیے موجود ہے۔ سابق چیئرمین سینیٹ سینیٹر رضا ربانی کا کہنا ہے کہ اگر کسی سیاستدان نے پاکستان اور بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیز کے سابق سربراہان کی طرح کتاب لکھی ہوتی تو بغاوت کے فتوے لگ جاتے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسددرانی نے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ ایس کے دلت کے ساتھ مل کر کتاب لکھی ہے جو اب تک مارکیٹ میں نہیں آئی لیکن اس کے مختلف مندرجات سامنے آئے ہیں جن میں پاکستانی فوج کے حوالے سے بہت سے متنازع بیانات شامل ہیں جن پر پاکستان میں شديد اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے راہنما کی طرف سے یہ بات ایسے وقت سامنے آئی ہے جب پاکستان کی خفیہ ایجنسی 'آئی ایس آئی'کے سابق سربراہ اسد درانی اور بھارتی خفیہ ایجنسی 'را'کے سابق سربراہ امر جیت سنگھ دولت کی مشترکہ طور پر لکھی ہوئی کتاب "دا اسپائی کرونیکل : را، آئی ایس آئی اور امن کا سراب"کی رونمائی حال ہی میں بھارت میں ہوئی ہے۔ سینیٹ کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے رضا ربانی نے کہا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کتاب کی رونمائی ایسے وقت ہوئی جب پاکستان اور بھارت کے تعلقات ان کے بقول شاید سب سے نچلی سطح پر ہیں۔

رضا ربانی نے بھارتی خفیہ ادارے 'را'کے سابق سربراہ کے ساتھ مل کر کتاب لکھنے پر اسد درانی پر تنقید کرتے ہوئے کہا، "اس میں حیرت کی بات یہ ہے کہ اگر شاید یہ کتاب آپ یا میرے طبقے کے کسی عام آدمی نے یا کسی سیاست دان نے اپنے ہندوستان کے کسی ہم منصب کے ساتھ مل کر لکھی ہوتی تو شاید اس وقت زمین اور آسمان ایک ہو گیا ہوتا اور غداری کے فتوے اس سیاست دان کے اوپر لگ چکے ہوتے۔" انہوں نے سوال کیا کہ کیا اسد درانی نے کسی مرحلے پر ایسی کتاب لکھنے کے لیے وفاقی حکومت یا اپنے ادارے سے اجازت طلب کی تھی یا انہیں آگاہ کیا تھا یا نہیں؟ اسد درانی 1990ء کی دہائی میں اس وقت کے حکومت کے خلاف تشکیل پانے والے انتخابی اتحاد 'آئی جے آئی'کے بعض راہنماؤں اور چند دیگر سیاست دانوں کے میں رقم تقسیم کرنے کی وجہ سے متنازع سمجھے جاتے رہے ہیں اور اس حوالے سے سپریم کورٹ میں ان کے خلاف ایک مقدمہ بھی زیرِ سماعت ہے جس میں عدالت عظمیٰ بری فوج کے سابق سربراہ اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف حکومت کو کارروائی کا حکم دے چکی ہے۔

رضا ربانی کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے مقتدر اداروں کے بعض سابق عہدیداروں اور بھارت کے شہر ممبئی میں 2008ء میں ہونے والے حملوں سے متعلق دیے گئے بیانات پر ملک کے بعض حلقوں کی طرف سے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنا یا جا رہا ہے۔ نواز شریف نے بھی بھارتی شہر ممبئی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں سے متعلق اپنے بیان اور 'آئی ایس آئی'اور 'را'کے سابق سربراہان کی طرف سے لکھی گئی مشترکہ کتاب کے متن کے درمیان مماثلت کا ذکر کرتے ہوئے قومی سلامتی کونسل کا اسی طرح اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے جیسا ان کے متنازع بیان کے بعد طلب کیا گیا تھا۔

پاکستان کے مؤقر انگریزی اخبار 'ڈان'کے ساتھ ایک انٹرویو میں ممبئی حملوں کا ذکر کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا تھا کہ ملک میں عسکریت پسند تنظیمیں اور غیر ریاستی عناصر سرگرم ہیں اور "کیا ہم انہیں سرحد پار کر کے ممبئی میں 150 لوگوں کو مارنے کی اجازت دیں؟ ہم اس مقدمے کو منطقی انجام تک کیوں نہیں پہنچا سکے؟" نواز شریف کے بیان کے بعد مقامی ٹی وی چینلز اور سماجی میڈیا پر ان کے بیان کو متنازع قرار دیتے ہوئے ایک بحث چھڑ گئی تھی جبکہ حزبِ مخالف کی دونوں بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف نے نواز شریف کے بیان کو ملکی مفاد کے منافی قرار دیتے ہوئے انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے اپنے ایک ہنگامی اجلاس میں سابق وزیرِ اعظم نوازشریف کے ممبئی حملوں سے متعلق متنازع بیان کو غلط اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔

بشکریہ وائس آف امریکہ
 


تصوف اور سندھ

$
0
0

مسلمانوں کے عروج و زوال اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی ساری داستان تاریخ تصوف سے مرتب کی جا سکتی ہے۔ ارباب تصوف نے نہ تو شمشیرو سناں استعمال کی اور نہ ننگی تلواریں لے کر اسپ تازی پر سوار منگولوں کی طرح ملکوں کو تباہ و برباد کرتے پھرے۔ ان کا طریقہ سب سے الگ تھا۔ وہ محبت، انسانیت، مساوات، رواداری، حسن اخلاق اور وسیع النظری سے لوگوں کے دلوں میں محبت اور سچائی کے جذبات پیدا کر کے ان کی زندگیوں کی کایا کلپ کر دیتے تھے۔ ہر سچا انقلاب پہلے انسان کے دل و دماغ میں پیدا ہوتا ہے اور بعد میں وہ خارجی روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔ اور وہ انقلاب جو اس کے برعکس شروع ہوتا ہے بہت جلد سراب بن کر رہ جاتا ہے۔ تصوف کی تاریخ انسان کے دل و دماغ کے انقلاب کی تاریخ ہے۔

عرفانِ ذات اور خود آگاہی سے انسان ’’حقیقت‘‘ کو سمجھنے لگتا ہے اور جب عرفانِ ذات کے ذریعہ انسان حقیقت کو ’’دیکھنے‘‘ بھی لگے تو یہ وہ درجہ ہوتا ہے جہاں سے فلسفہ اورعمل ساتھ ساتھ انسان کی شخصیت سے پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ابن سینا جب نیشا پور میں حضرت ابوسعیدابوالخیر سے ملے تو دوران ملاقات انہوں نے کہا کہ ’’جو کچھ میں جانتا ہوں وہ آپ دیکھتے ہیں۔‘‘ یہ فقرہ بظاہر بہت معمولی سا دکھائی دیتا ہے لیکن عرفان ذات کی اس عظیم ترین بلندی کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں ’’حقیقت‘‘ فرد کی ذات کا جزو بن جاتی ہے۔ شیخ علی ہجویریؒ نے ’’کشفُ المحجوب‘‘ میں عرفانِ ذات کی اسی عظمت کو ’’حقیقت‘‘ کی آخری منزل قرار دیا ہے۔

مولانا رومؒ نے اس مسئلہ پر یوں روشنی ڈالی ہے کہ تصوف تلاش حقیقت کے عمل کا نام ہے، علم باطن تصوف کی بنیاد ہے اور عشق و محبت اس کا اصل مقام۔ علم اور عمل، عرفانِ ذات اور خود آگاہی کے ذریعہ حقیقت تک پہنچنا تصوف کی معراج ہے۔ ابتدا میں تصوف پر خالص شریعت کا غلبہ تھا لیکن جیسے جیسے اسلام مختلف ملکوں میں پھیلتا گیا ویسے ویسے مختلف اثرات طریقت میں شامل ہوتے ہو گئے اور انہیں اثرات نے نئے نئے تصورات کی شکل اختیار کر کے مختلف سلسلوں کی بنیاد ڈالی۔ کوئی نقشبندیہ کہلایا اور کوئی قادریہ اور چشتیہ کہلایا۔ ہندوستان اور مشرق وسطیٰ میں تصوف پر ویدانت اور نو افلاطونی فلسفہ کا اثر بھی نظر آتا ہے۔ 

اس طرح تصوف نے ہر ملک و قوم کے مزاج، اس کے رسم و رواج اور فلسفہ سے اچھے اور کارگر عناصر لے کر اور اس میں زندگی کی نئی روح پھونک کر اسے ذہنِ انسانی کے فہم سے قریب تر کر دیا اور اس میں ایسی کشش اور گہرائی پیدا کر دی کہ تصوف ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا جس نے انسانی قلوب پر حکمرانی کر کے بڑے بڑے سلاطین کو اپنے آستانے پر جھکنے پر مجبور کیا۔ مولانا رومؒ کے والد مولانا بہا الدین یکتائے روزگار تھے۔ امیرو غریب ان کے حلقہ بگوش تھے۔ محمد خوارزم شاہ بھی اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔ ایک دن جو پہنچا تو دیکھا کہ سینکڑوں ہزاروں کا مجمع لگا ہے۔

دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ امام رازیؒ کے ساتھ تھے۔ فرمانے لگے ’’اگر اس کا تدارک ابھی نہ کیا گیا تو پھر مشکل پڑے گی۔‘‘ خوارزم شاہ نے قلعہ اور خرانے کی کنجیاں بھجوا دیں اور کہلا بھیجا کہ اسبابِ سلطنت میں سے صرف یہی میرے پاس رہ گئی ہیں وہ آپ کی نذر ہیں۔ اربابِ تصوف کا یہی وہ اثر تھا جس سے وہ لوگ شاہِ وقت کے مقابلے میں ایک نئی قوت بن گئے تھے۔ اربات تصوف کا یہ کمال رہا کہ انہوں نے عرفان ذات اور داخلیت پرزور دینے کے باوجود کبھی تصوف کو نہ تو منفی رجحانا ت کا حامل بننے دیا اور نہ کبھی فراریت اور ترک دنیا کی طرف مائل کیا اور جب اقتدار زمانہ سے اس میں منفی انداز فکر اورترکِ دنیا کا تصور داخل ہوا تو اس کا یہ اثر زائل ہو گیا اور اس کی قوت ضعیف ہو گئی۔ 750ء میں خلافت بنو امیہ سے بنوعباس میں پہنچ گئی اور دارالخلافہ دمشق کے بجائے بغداد قرار پایا۔ 

اسی زمانے میں عربوں کا نیا دارالسلطنت سندھ کے قریب ہو گیا۔ اس سے سندھ کی زندگی میں گہما گہمی پیدا ہو گئی اور اسلامی علما و حکما اور بزرگان دین مختلف علاقوں سے سمٹ کر یہاں جمع ہونے لگے۔ تاریخ شاہد ہے کہ کچھ ہی عرصہ بعد بو علی سندھی جیسے بزرگ ہمیں اس سرزمین پر نظر آنے لگتے ہیں۔ بو علی سندھی وہی بزرگ ہیں جن کے متعلق مولانا جامیؔ نے حضرت بایزید کے حوالہ سے ’’نفحات الانس‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’میں نے علم توحید اور فنا بو علی سندھی سے سیکھے اور اسلامی توحید بو علی سندھی نے مجھ سے سیکھی۔‘‘ محمود غزنوی کے حملوں کے بعد سے مسلمانوں کی آمدورفت کا سلسلہ اور بڑھ گیا اور جب شہاب الدین محمد غوری نے دہلی پر قبضہ کیا اور یہاں مسلمانوں کی باقاعدہ حکومت مستحکم ہو گئی تو مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا وغیرہ سے بھی علما اور مفکرین وغیرہ آکر جمع ہونے شروع ہو گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وسطیٰ ایشیا میں منگولوں کے حملوں نے ہر طرف تباہ کاری مچا رکھی تھی۔ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ برصغیر کے ہر گوشے میں صوفائے کرام اور بزرگان دین اپنے حسن اخلاق رواداری اور انسان دوستی کے ذریعہ اشاعت اسلام کرتے نظر آ رہے ہیں۔

جمیل جالبی


 

’ریٹنگ‘ کے لیے مذہب کا استعمال، عامر لیاقت حسین پر پھر پابندی عائد

$
0
0

پاکستان میں الیکٹرونک میڈیا کے نگراں ادارے 'پیمرا نے ٹی وی چینل 'ہوسٹ عامر لیاقت حسین پر تیس دن کی پابندی عائد کر دی ہے ۔ اس دوران وہ کسی بھی ٹی وی چینل پر آن ایئر نہیں آسکیں گے۔ پیمرا کی جانب سے جاری کئے گئے نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ عامر لیاقت حسین نے ایک ٹی وی پروگرام کے دوران متنازع ریمارکس دئیے تھے۔ پروگرام میں بھارتی ریاست گجرات سے ایک ویڈیو کال لی گئی جس میں خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت سے متعلق سوال کیا گیا تھا ۔ یہ مواد بغیر کسی تاخیر کے براہ راست نشر کیا گیا جبکہ میزبان نے دانستہ طور پر ایسے جملے ادا کیے جس سے لوگوں کی دل آزاری ہوئی۔

پیمرا کا مزید کہنا تھا کہ میزبان عامر لیاقت نے ’ریٹنگ‘ کے حصول کے لیے ’غیر ضروری ڈرامے کے ساتھ مذہب کا استعمال کیا جس سے مختلف فرقوں اور عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچی۔‘ عامر لیاقت حسین پر اس سے قبل بھی متعدد بار مختلف متنازع بیانات کے باعث پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ پروگرام میں عامر لیاقت حسین کے ایک مہمان عالم دین قاری خلیل الرحمٰن کے ساتھ تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا اور اس کے بعد میزبان آن ایئر ہی یہ شو چھوڑ کر چلے گئے جبکہ وہاں موجود دیگر مکتبہ فکر کے علما کے درمیان بھی سخت فقرے بازی ہوئی۔
پیمرا نے اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے نجی چینل کو پروگرامز نشر کرنے اور اس کے نشر مکرر پر بھی پابندی عائد کر دی۔
 

پابندی لگانے اور اٹھانے کا کھیل

$
0
0

عدالت عالیہ اسلام آباد کے سنگل بینچ نے حکم دیا تھا کہ رمضان المبارک میں انعامات بانٹنے کے نام پر ٹی وی چینلز پر ہونے والے پروگرام بند کر دیے جائیں اور پانچ وقت کی اذان نشر کی جائے۔ ابھی لوگ اس فیصلے پر خوش ہی ہو رہے تھے کہ عدالت عالیہ کے دو رکنی بینچ نے اس حکم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے معطل کر دیا۔ سنگل بینچ کے فیصلے میں پیمرا کے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کا حکم بھی دیا گیا تھا لیکن پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن اور نجی ٹی وی نے اس کے خلاف اپیل دائر کر دی جس کی سماعت عدالت عالیہ اسلام آباد کے جج عامر فاروق اور محسن اختر نے کی اور رمضان المبارک میں تمام چینلز پر 5 وقت کی اذان نشر کرنے اور مغرب کی اذان سے قبل اشتہارات نشر نہ کرنے کا حکم معطل کر دیا۔

عدالت نے پاکستان ٹی وی چینلز پر غیر ملکی مواد ( بھارتی فلمیں اور ڈرامے) نشر نہ کرنے اور پیمرا کے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کے لیے وزارت داخلہ کی کمیٹی کے قیام کا حکم بھی معطل کر دیا ہے۔ دو رکنی بینچ کے حکم نامے میں کہا گیاہے کہ سنگل رکنی بینچ کے حکم نامے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ چنانچہ اب نجی ٹی وی چینلز بلا خوف و خطر انعامات بانٹنے کے نام پر اس مقدس مہینے کی مبارک ساعتیں بےہودگی اور لالچ کے فروغ میں ضائع کرتے رہیں گے۔ عدالت عالیہ اسلام آباد کے سنگل بینچ کے فیصلے کو عوام کی اکثریت نے سراہا تھا لیکن اس پر عمل کرنے میں ٹی وی چینلوں کے اشتہارات مارے جارہے تھے۔ اب دو رکنی بینچ نے یہ فیصلہ معطل کر دیا تو کیا تین رکنی بینچ اسے بحال کر دے گی۔

عدالت عالیہ اسلام آباد کے فاضل جج نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کیا ہو گا مگر اب یہ عدالتی تنازع بن گیا ہے۔ ٹی وی چینلز پر دین اور شریعت سے آگہی کے کچھ پروگرام بھی فرقہ واریت کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس کی تازہ مثال ایک نام نہاد ڈاکٹر عامر لیاقت کے پروگرام ہیں جو صرف شر پھیلانے کا کام کر رہے ہیں۔ اس شخص کی علمی قابلیت ہی مشکوک ہے اور یہ خود ساختہ مذہبی اسکالر ہے۔ 24 مئی کو اس نے اپنے پروگرام میں اہل حدیث اور بریلویوں کو لڑانے کی بھرپور کوشش کی ہے جس پر پیمرا نے اس پر پابندی لگا دی ہے اور بول چینل کے سی ای او کے نام جاری حکم نامے میں عامر لیاقت کی میزبانی میں چلنے والے پروگراموں پر پابندی لگا دی ہے۔

لیکن عامر لیاقت اپنی فطرت سے باز نہیں آئے گا۔ وہ اس سے پہلے بھی ایک مجلس میں خلفائے راشدون کی توہین کر چکا ہے۔ مذکورہ پروگرام میں و ہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ڈاکٹر ذاکر نائیک کا نام لے کر آیا جس کا کوئی تعلق پروگرام سے نہیں تھا اور اس بہانے وہ مہمان اہل حدیث عالم پر برس پڑا اور  جس سے صاف لگتا ہے کہ یہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ عامر لیاقت پر پہلے بھی جزوی طور پر پابندیاں لگ چکی ہیں لیکن اصل پابندی تو ٹی وی چینلز پر لگنی چاہیے جو اسے کمائی کا ذریعہ بنا کر پروگرام دیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ دن بعد پیمرا اس پر پابندی اٹھالے اور پھر یہی کھیل شروع ہو جائے۔ عامر لیاقت آج تک یہ بھی ثابت نہیں کر سکا کہ وہ کس قسم کا ڈاکٹر ہے اور اگر پی ایچ ڈی ہے تو یہ ڈگری کب اور کہاں سے لی۔ وہ محض چرب زبان ہے اور اسی کی کمائی کھاتا ہے۔

اداریہ روزنامہ جسارت

پاکستان کو ایٹمی طاقت بنے 20 برس مکمل

$
0
0

ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998 کو پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ 20 برس قبل ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان نے مسلم دنیا کی پہلی اور دنیا کی 7ویں ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ ایٹمی دھماکوں کے دن کو 'یوم تکبیر'کا نام دیا گیا۔ دھماکوں کے بعد 1999 میں ہندوستان کے ساتھ پاکستان کی کارگل جنگ جاری تھی، جس کی وجہ سے یوم تکبیر بہت زیادہ جوش و خروش سے منایا گیا، مگر اکتوبر 1999 میں نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا اور ملک میں جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت آ گئی تھی، جس کے بعد یوم تکبیر اس جوش و جذبے سے نہیں منایا جا سکا۔

دوسری جانب بولٹن آف اٹامک سائنٹسٹ نامی ادارہ یہ بتا چکا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد پڑوسی ملک ہندوستان کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں نے ہی پہلی مرتبہ 1998 میں تین تین ہفتوں کے وقفے سے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کیے تھے۔ 2014ء میں ایٹمی مواد کو لاحق خطرات کی سیکیورٹی کیلئے اقدامات کے حوالہ سے انڈیکس میں پاکستان کا درجہ ہندوستان سے بھی بہتر ہے۔ 2014 کے این ٹی آئی انڈیکس میں 9 ایٹمی مسلح قوتوں میں سے زیادہ تر کا درجہ وہی ہے، اس میں صرف ایک پوائنٹ کی کمی بیشی ہے. جبکہ 2012 کے مقابلہ میں پاکستان کے ایٹمی مواد کی سیکیورٹی کے حوالہ سے تین درجے بہتری آئی ہے جو کہ کسی بھی ایٹمی ملک کی بہتری میں سب سے زیادہ ہے۔ ہندوستان کا ایٹمی مواد کے قابل استعمال ہتھیاروں کی سیکیورٹی کے حوالہ سے 25 ممالک میں سے 23 واں درجہ رہا ہے جبکہ چین کوانڈیکس میں 20 ویں درجہ پر رکھا گیا پاکستان کا فہرست میں 22 واں نمبر تھا۔ پاکستان کے جوہری پروگرام کے خالق اور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے مطابق پاکستان کا جوہری پروگرام امریکا اور برطانیہ سے زیادہ محفوظ ہے۔

 

اسد درانی، اے ایس دُلت اور جیرا

$
0
0

(اٹھائیس مئی) آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی جی ایچ کیو پنڈی میں بتائیں گے کہ انھوں نے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دُلت کے ساتھ چار پانچ ملاقاتوں میں جو گفتگو کی اس کی کتابی شکل میں اشاعت سے حاضر و ریٹائرڈ فوجیوں پر لاگو ضابطہِ اخلاق کی خلاف ورزی ہوئی کہ نہیں۔ اور یہ کہ اس شائع گفتگو میں ان کی جانب سے کی گئی بہت سی باتیں غیر حقیقی ہیں یا نہیں؟ یہ اطلاع فوج کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ کے آفیشل ٹویٹر پر جاری کی گئی ہے۔ اب ایک ٹویٹ میں یہ وضاحت بھی ہونی چاہئیے کہ اگر جنرل درانی نے غیر حقیقی باتیں کی ہیں تو وہ فوجی ضابطہِ اخلاق کی خلاف ورزی کیسے ہو گئی اور اگر یہ باتیں فوجی ضابطہِ اخلاق کی خلاف ورزی ہیں تو پھر غیر حقیقی کیسے ہو گئیں؟

سرحد کے دوسری طرف بھارت میں بھی متعدد حلقوں کی جانب سے یہی سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا را کے سابق سربراہ کو آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ کے ساتھ ایسی حساس گفتگو کرنا چاہئیے تھی جس سے ملکی مفادات کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ تاہم انھیں بھارتی وزارتِ دفاع نے اب تک وضاحت کے لیے طلب نہیں کیا۔ ابھی پچھلے برس اکتوبر میں لندن سکول آف اکنامکس میں آئی ایس آئی کے ایک اور سابق سربراہ جنرل احسان الحق نے ’دی سپائی ماسٹرز سپیکس‘ کے عنوان سے ایک مذاکرے میں نہ صرف امرجیت سنگھ دُلت کے ہمراہ حصہ لیا بلکہ دونوں کی جپھی ڈال کے مسکراتی تصویر بھی شائع ہوئی۔ تب کوئی غیر سویلین ٹویٹر ہینڈل حرکت میں نہیں آیا۔

جہاں تک مجھے علم ہے کوئی بھی سرکاری افسر یا جنرل ریٹائرمنٹ کے دو برس بعد قومی و سٹرٹیجک امور پر رائے دینے کے لیے آزاد ہے۔ لیکن جنرل پرویز مشرف تو اتنے دلیر ہیں کہ انھوں نے حاضر سروس صدر اور چیف ہوتے ہوئے اپنی کتاب ’ان دی لائن آف فائر‘ میں فرمایا کہ ہم نے مطلوب بندے امریکہ کے حوالے کیے اور پیسے بھی لیے۔ اس وقت کس کی جرات تھی کہ پوچھ لیتا ’سرکار ریٹائر ہونے کا تو انتظار کر لیتے۔‘ اور ریٹائر ہونے کے بعد مشرف صاحب نے دھڑلے سے فرمایا کہ اسامہ بن لادن، زواہری، طالبان اور حافظ سعید ہمارے ہیرو تھے اور کشمیر میں ہماری بنائی تنظیمیں مظلوموں کی مدد کر رہی تھیں۔ مگر اب وقت بدل گیا ہے۔ اس بابت جب ایک صحافی نے آئی ایس پی آر کے ترجمان سے پوچھا تو جواب یہ نہیں ملا کہ جنرل صاحب کو حقائق کا مکمل علم نہیں بلکہ یہ ملا کہ یہ جنرل صاحب کے ذاتی خیالات ہیں۔ وہی ان کی وضاحت کر سکتے ہیں۔ فوج کا ان کے خیالات سے کوئی لینا دینا نہیں۔

انہی صدر مشرف کے دور میں دو ہزار سات میں جب دفاعی امور کی سویلین محقق عائشہ صدیقہ کی عسکری کمرشل ایمپائر کے موضوع پر کتاب ’ملٹری انک‘ شائع ہوئی تو اسلام آباد میں اوپر سے نیچے تک ہڑاہڑی مچ گئی اور کسی ہوٹل نے انھیں کتاب کی تقریبِ رونمائی منعقد کرنے کی اجازت نہ دی۔ اس کے بعد سے ان کا نام ’خطرناک بری عورتوں‘ کی سلامتی فہرست میں آ گیا اور اب انھیں بیشتر وقت پاکستان سے باہر گذارنا پڑتا ہے۔ سابق جی او سی مری، کرگل آپریشن کے وقت آئی ایس آئی کے تجزیاتی ونگ کے ڈی جی، سابق ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز، سابق کور کمانڈر لاہور، سابق چیرمین نیب لیفٹٹنٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز نے دو ہزار تیرہ میں اپنی کتاب ’یہ خاموشی کہاں تک‘ میں کہا کہ سوائے چار جنرلوں کے کسی کو کرگل آپریشن کا نہیں پتہ تھا اور یہ آپریشن یوں ناکام ہوا کیونکہ دشمن کے ممکنہ ردِعمل کا درست اندازہ نہیں لگایا گیا ( پینسٹھ میں بھی یہی ہوا تھا)۔ بقول جنرل شاہد نائن الیون کے بعد جنرل مشرف نے پہلے تو اعلی فوجی قیادت سے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امریکی کارروائی کی صورت میں سختی سے غیر جانبدار رہے گا۔ اس کے بعد تین فضائی اڈے بالا بالا امریکہ کے حوالے کر کے اعلی فوجی قیادت کو بتایا کہ بھائیو میں نے یہ کام کر دیا ہے۔ کیا اس کے بعد ایک کرگل کمیشن یا پرویز مشرف اور شاہد عزیز کی بھی جی ایچ کیو میں طلبی بنتی تھی کہ نہیں؟

پاکستان میں خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے حق میں بھی مظاہرے ہوتے رہے ہیں
حمود الرحمان سے لے کر ایبٹ آباد تک قائم تمام ریاستی کمیشنوں کی رپورٹیں تو کسی غیر ذمہ دار سویلین یا نان سویلین کے قلم سے نہیں نکلیں۔ مگر ان رپورٹوں سے بھی اب تک ممنوعہ یا خطرناک کتابوں جیسا سلوک کیوں؟ میں نے بھی ’سپائی کرانیکل‘ پڑھی ہے۔ میں اس میں کچھ دلچسپ ذاتی تجربات کے سوا کوئی ایسا نیا راز، بیانیہ یا تجزیہ ڈھونڈتا ہی رہ گیا جو پہلے کسی نے کسی اور رنگ میں نہ کیا ہو۔ ویسے بھی بھارت اور پاکستان کے بنیادی مسائل کی طرح بنیادی راگ بھی سات ہی ہیں۔ بھلے موسیقار اے ایس دُلت اور اسد درانی ہی کیوں نہ ہوں۔
ارے ہاں! اگر را اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہوں کو بھی پورے حقائق کا نہیں پتہ اور ان کی ایک بات یا تجویز بھی پالیسی سازوں کے لیے قابلِ غور نہیں تو پھر ان میں اور میری گلی کے جیرے دودھ فروش کی گپ میں آخر کیا فرق ہے؟

وسعت اللہ خان
 

جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کے بیرونِ ملک سفر پر پابندی

$
0
0

پاکستان کی فوج نے ایک ایسا قدم اٹھاتے ہوئے جس کی ماضی میں شاہد ہی کوئی مثال موجود ہو، اپنی انٹیلی جینس ایجنسی کے سابق سربراہ پر ، اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ مشترکہ کتاب لکھنے کے سلسلے میں، ملک چھوڑنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ فوج کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کو روالپنڈی کے جنرل ہیڈ کوارٹرز میں ان کی حالیہ کتاب سے متعلق وضاحت کے لیے طلب کیا گیا تھا۔ فوج کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ایک حاضر سروس جنرل کی سربراہی میں ایک کورٹ آف انکواری قائم کر دی گئی ہے اور اسے اس معاملے کی تفصیلی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ مجاز اتھارٹی نے اسد درانی کا نام ایگزٹ کنٹرو ل لسٹ میں ڈالنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ فہرست ان افراد کے ناموں پر مشتمل ہے جنہیں پاکستان کے اندر مقدمات اور تحقیقات کا سامنا ہوتا ہے تاکہ انہیں ملک سے باہر جانے سے روکا جا سکے۔ اسد درانی سن 1990 سے 1992 تک آئی ایس آئی کے سربراہ رہے۔ انہوں نے بھارت کے خفیہ ادارے را کے سابق سربراہ امیت جیت سنگھ دولت اور بھارتی صحافی ادتیا سنہا کے ساتھ ایک مشترکہ کتاب لکھی ہے۔
کتاب کا نام ہے، دی سپائی کرونیکلز ۔ یہ کتاب اس مہینے کے شروع میں نئی دہلی میں شائع ہوئی جس کی رونمائی کی تقریب میں درانی کو بھی مدعو کیا گیا تھا لیکن بھارتی حکام نے انہیں ویزہ جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پاکستانی فوج کا موقف ہے کہ اس کتاب میں اسد درانی نے جو رول ادا کیا ہے ، وہ فوج کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہے جس کا اطلاق حاضر سروس اور ریٹائرڈ اہل کاروں، دونوں پر یکساں ہوتا ہے۔ اس کتاب کی وجہ سے اسد درانی کو اندرون ملک شدید نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ایاز گل

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

نواب شاہ میں گرمی کا عالمی ریکارڈ کیسے بنا ؟

$
0
0

پاکستان کے شہر کراچی سمیت اندروں سندھ کے اضلاع ان دنوں شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے اور سندھ کے وسطی ضلع نواب شاہ میں درجہ حرارت 52 سینٹی گریڈ تک جا پہنچا جو ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ 

اس کی وجوہات کیا ہیں؟
کراچی میں انتظامیہ نے ممکنہ ہیٹ ویو سے بچنے کے لیے شہر بھر میں کیمپ قائم کیے ہیں جبکہ ہسپتالوں میں بھی ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے۔ ان کیمپوں میں پینے کے لیے ٹھنڈہ پانی دستیاب ہے۔ سورج غروب ہونے کے ساتھ ساتھ گرمی کی شدت میں کمی آئی اور ہوائیں چلنے لگیں ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق درجہ حرارت 40 سینٹی گریڈ تھا جو ایک روز قبل یعنی جمعرات کو 43 سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا تھا، محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ سمندر سے چلنے ہوالی ہوائیں بند دہونے کی وجہ سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا۔

نواب شاہ میں ریکارڈ توڑ گرمی کی کیا وجوہات ہیں؟
نواب شاہ میں درجہ حرارت 52 سینٹی گریڈ تک جا پہنچا جو ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ماہ اپریل میں اس قدر درجۂ حرارت اس سے قبل کرہ ارض پر کبھی ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ نواب شاہ شہر کی آبادی میں گذشتہ ایک دہائی میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے یہاں بڑے پیمانے پر پکے مکانات کے ساتھ ساتھ سرکاری اور نجی اداروں کے دفاتر کی بھی تعمیر ہوئی ہے۔ نواب شاہ کے بزرگ شہری صالح بلو کا کہنا ہے کہ جس طرح حیدرآباد کی ٹھنڈی راتیں مشہور تھیں اسی طرح موسم گرما میں نواب شاہ میں شام اور رات کو ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں اور بالائی سندھ کے اضلاع جیکب آباد اور شکارپور سے خاص طور پر لوگ یہاں آتے تھے۔

'ایس ایم خوجہ روڈ، سکرنڈ روڈ، عید گاہ، قاضی احمد روڈ اور گاجرا روڈ سمیت ہر گلی میں درخت ہوتے تھے اب تو ان کا نام و نشان بھی مٹ گیا ہے، شہر کے باہر باغات ہوتے تھے، لیکن آْبادی بڑھنے کے ساتھ یہ باغات ختم ہو گئے اور وہاں پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن گئی ہیں۔ دریائے سندھ کے ساتھ کچے کے علاقے میں گھنے جنگلات تھے جو 60 ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر پھیلے تھے اب بمشکل 12 ہزار ایکڑ پر جنگلات ہوں گے، ان پر قبضہ کر کے زمین پر کاشت کاری کی جا رہی ہے۔ صالح بلو کے مطابق نواب شاہ میں کئی تعلیمی اور تحقیقی ادارے قائم ہوئے ہیں جس وجہ سے دیہی علاقوں اور دیگر اضلاع کے لوگوں نے یہاں کا رخ کیا ہے، یعنی جو آبادی دو لاکھ تھی اس وقت 11 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔

نواب شاہ کراچی سے تقریباً 250 کلومیٹر دور قومی شاہراہ پر واقع ہے، اور یہ مرکزی ریلوے لائن کا ایک مصروف سٹیشن بھی ہے۔ اس علاقے میں گنے، کیلے، گندم کے علاوہ کپاس کی کاشت کی جاتی ہے جبکہ آس پاس میں نوشہرو فیروز، مٹیاری اور خیرپور اضلاع واقع ہیں ہیں، اسی طرح دریائے سندھ کے دوسرے طرف دادو اور جامشورو اضلاع موجود ہیں۔ ماہر ماحولیات ندیم میر بحر کا کہنا ہے کہ کراچی سے آتے ہوئے نواب شاہ کے دائیں جانب پہاڑی سلسلہ موجود ہے جہاں سے جو گرمی نکل رہی ہے وہ اس خطے پر اثرات مرتب کرتی ہے اس کے علاوہ مشرقی طرف خیر پور ضلع ہے جس کے ساتھ بھارت کی صحرائی ریاست راجستھان واقع ہے وہاں سے اٹھنے والی گرم ہوا بھی یہاں تک اثر دکھاتی ہے۔ چونکہ یہ علاقہ سمندر سے دور ہے اس وجہ سے وہاں کی ٹھنڈی ہوائیں یہاں تک نہیں آتیں۔

پاکستان کے محکمہ موسمیات کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر چوہدری قمر زمان نواب شاہ میں درجہ حرارت میں اضافے کی بنیادی وجہ عالمی موسمی تبدیلیوں کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ خطہ بالخصوص پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جو موسمی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، جس کے باعث گرمی کے رجحان میں شدت زیادہ ہے۔ 'بلوچستان اور سندھ خشک سالی کی طرف جا رہے ہیں، پاکستان میں موسم گرما کی مدت بڑھ رہی ہے اور سردیاں کم ہو رہی ہیں، جیسے سندھ میں اپریل میں درجہ حرارت شدید تھا لیکن شمالی علاقوں اور پنجاب میں سرد لہر آئی جس سے درجہ حرارت میں کمی ہوئی۔ یہ تمام عوامل موسمی تبدیلوں کا مظہر ہیں لیکن اس حوالے سے نہ خطے میں اور نہ ہی پاکستان میں اقدامات کیے گئے ہیں۔'

محکمہ موسمیات کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں گرمی کی شدت کے نئے ریکارڈ قائم ہوں گے جس کی نشاندہی پہلے ہی ہو چکی ہے۔ ’پاکستان میں بننے والے گرمی کے دباؤ کا مرکز سندھ میں ہے، جس میں نواب شاہ، نوشہرو فیروز، سکھر، لاڑکانہ، جیکب آباد اور بلوچستان کے علاقے سبی پر مشتمل ہے جہاں ہوا کا دباؤ کم ہے۔ ان علاقوں میں پہلے ہی بہت گرمی ہوتی ہے جب نواب شاہ میں 52 سینٹی گریڈ پر درجہ حرارت پہنچا تو آس پاس میں بھی 49 اور 50 سینٹی گریڈ تھا، اب آنے والے سالوں میں نئے نئے ریکارڈ قائم ہوں گے۔‘ ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق موسمی تبدیلیوں کا نگران ادارہ انٹرگورنمنٹ پینل آن کلائمیٹ چیئنج ہر چھ سال کے بعد زمین کے درجہ حرارت اور موسمی تبدیلی کے بارے میں رپورٹ پیش کرتا ہے، جس میں دنیا بھر کے سائنس دان مشورے اور تجاویز دیتے ہیں یہ فورم پہلے ہی نشاندہی کر چکا ہے کہ آنے والے دنوں میں موسمی شدت میں مزید اضافہ ہو گا۔

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
 


پاکستان میں ہیٹ ویو کے واقعات میں مزید اضافہ ہو گا

$
0
0

پاکستان کی وفاقی وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کے ترجمان اور ماہرِ ماحولیات محمد سلیم نے کہا ہے کہ پاکستان میں درجۂ حرارت میں مسلسل اضافے کے باعث گرمی کی لہر یا 'ہیٹ ویو'کے واقعات آنے والے برسوں میں مزید شدت اور اضافے کے ساتھ رونما ہوتے رہیں گے جس سے صحت، معاشی اور سماجی شعبوں پر انتہائی مہلک اثرات مرتب ہوں گے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں محمد سلیم نے بتایا کہ گزشتہ 30 برسوں کے دوران پاکستان کے درجۂ حرارت میں نصف ڈگری کا اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں گرمی کی لہر والے دنوں میں پانچ گُنا اضافہ ہو گیا ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ اقوامِ متحدہ کے ورلڈ میٹرو لوجیکل ڈپارٹمنٹ اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک کی تحقیق کے مطابق حالیہ صدی کے آخر تک پاکستان کے درجۂ حرارت میں تین سے پانچ ڈگری تک کا اضافہ دیکھا جا سکتا ہے جس کے باعث پاکستان کے معاشی، سماجی اور صحت کے شعبے بری طرح متاثر ہوں گے۔ ان کے بقول شدید اور تواتر سے رونما ہونے والے گرمی کی لہر کے زیادہ تر واقعات شہروں اور گنجان آبادی والے علاقوں میں رونما ہوں گے جن کے باعث معمر، کمزور غربت اور بھوک سے متاثرہ لوگوں کے ساتھ ساتھ بچوں میں بھی ممکنہ طور پر اموات میں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی حدت کے باعث رونما ہونے والے ان واقعات کے انسانوں اور ان کی صحت پر ممکنہ طور پر مرتب ہونے والے منفی اثرات سے بچنے کے لیے ملک کے مختلف علاقوں میں ہیٹ ویو اور ارلی وارننگ سسٹم نصب کرنے کے ساتھ ساتھ شجرکاری کو ہر سطح پر فروغ دینا ہو گا۔ محمد سلیم کے بقول، "تاریخی طور پر گرمی کی لہر کے واقعات مئی اور جون کے مہینوں میں دیکھے جاتے تھے مگر اب ملک میں ہیٹ ویو کے دن مارچ اور اپریل میں بھی رونما ہو رہے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ گرمی کی اس لہر کے سبب زرعی پیداوار، سیلابوں، پانی کی کمی، صحرائیت، سمندری علاقوں میں کٹاؤ، گلیشیر کے پگھلنے کے واقعات میں شدت اور اضافہ دیکھا جائے گا۔

بین الاقوامی جریدے 'نیچر کلائمیٹ چینج'میں چھپنے والی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے محمد سلیم نے کہا کہ اس وقت پاکستان سمیت عالمی سطح پر ہر تین میں سے ایک فرد گرمی کی لہر کے واقعات سے متاثر ہو رہا ہے۔ تاہم تحقیق کے مطابق اس صدی کے آخر تک ہر چار میں سے تین افراد عالمی حدت کے باعث رونما ہونے والی گرمی کی لہر کے واقعات سے بری طرح متاثر ہوں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گرمی کی لہر کے متعلق بر وقت اور بہتر پیش گوئی اور اس کے متعلق عام لوگوں تک معلومات کی بروقت رسائی سے گرمی کی لہر کے منفی اثرات کو بڑی حد تک قابو پاکر لوگوں کی زندگیوں اور صحت کو منفی اثرات سے بچایا جا سکتا ہے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

بھارت میں گاؤ رکشا کے نام پر مسلمان نشانہ بنتے ہیں، امریکی رپورٹ

$
0
0

مذہبی آزادی سے متعلق امریکا کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں گائے کے گوشت پر ہونے والے تشدد میں سب سے زیادہ نشانہ مسلمانوں کو بنایا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں گاؤ رکشا کے نام پر تشدد کرنے والوں کےخلاف ایکشن نہیں لیا جاتا، وہاں سول سوسائٹی اور اقلیتی برادری سمجھتی ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں وہ غیر محفوظ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بھارت میں عیسائیوں پر حملوں کے 700 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

 

تمباکو نوشی سالانہ ستر لاکھ افراد کی ہلاکت کا باعث

$
0
0

عالمی ادارہ صحت نے تمباکو نوشی کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر کہا ہے کہ چین اور بھارت کے عوام کی ایک بڑی تعداد کو سگریٹ کے نقصانات سے واقفیت ہی نہیں ہے۔ دنیا کے 38 فیصد سگریٹ نوش انہی دونوں ممالک میں رہتے ہیں۔  جمعرات کو عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ دنیا کے زیادہ تر ممالک تمباکو نوشی کے خاتمے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کر رہے۔ اس عالمی ادارے کے ڈائریکٹر ڈگلس بیچر کا کہنا ہے، ’’عالمی سطح پر تمباکو نوشی سن 2000 میں ستائیس فیصد تھی جو 2016ء میں کم ہو کر بیس فیصد رہ گئی ہے، لہذا کچھ پیش رفت تو ہوئی ہے لیکن دنیا میں اب بھی ایک ارب سے زائد افراد سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔‘‘ 2015ء میں 27 فیصد جبکہ 2000ء میں 30.6 فیصد بالغ جرمن شہری تمباکو نوشی کرتے تھے۔

بیچر کے مطابق ترقی پذیر ممالک کو سگریٹ بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان غریب ممالک میں سستی تشہیر اور نوجوانوں کو کم قیمت سگریٹ فروخت کرتی ہیں۔ لیکن صرف یہ صنعت ہی مسئلہ نہیں ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق چین اور بھارت، جہاں بہت زیادہ تعداد میں افراد تمباکو نوشی کرتے ہیں، وہاں عوام کی ایک کثیر تعداد کو سگریٹ نوشی کے نقصانات کا علم ہی نہیں ہے۔ چین میں سگریٹ پینے والوں میں سے 73 فیصد افراد یہ سمجھتے ہیں کہ سگریٹ نوشی سے فالج نہیں ہو سکتا جبکہ 61 فیصد کی رائے میں سگریٹ نوشی امراض قلب کا سبب نہیں بنتی۔ چین میں 307 ملین افراد اور بھارت میں106 ملین افراد سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ بیچر کا کہنا ہے، حکومتوں کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو بیماریوں اور موت سے بچا سکیں۔‘‘ ہر سال ستر لاکھ افراد تمباکو کے اثرات کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں اور ان میں سے تقریباً نو لاکھ ایسے ہوتے ہیں، جو خود تمباکو نوشی نہیں کرتے بلکہ صرف سگریٹ پینے والوں کے ساتھ وقت گزراتے ہیں۔

 

کون پاکستانی انتخابات میں تاخیر چاہتا ہے ؟

$
0
0

پاکستان میں عام انتخابات کے لیے پچیس جولائی کی تاریخ کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ تاہم اب انتخابات پر تاخیر کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ کون سی جماعت چاہتی ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں اور کس کی خواہش ہے کہ انہیں ملتوی کر دیا جائے؟
پاکستان کی دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی بروقت انتخابات کے لیے سنجیدہ دکھائی دے رہی ہیں لیکن تحریک انصاف اور بلوچستان کی صوبائی حکومت واضح الفاظ میں انتخابات میں التوا کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ساتھ ہی کراچی کی سب سے بڑی جماعت ایم کیو ایم کے لندن میں مقیم بانی الطاف حسین نے عام انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار بھی اشاروں کنایوں میں بائیکاٹ کی باتیں کر رہے ہیں۔ اسی طرح ایم کیو ایم کا بہادر آباد گروپ بھی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن سے رجوع کر چکا ہے۔ مبصرین کے مطابق گویا ان کا بھی آخری راستہ بائیکاٹ ہی دکھائی دیتا ہے۔

ایم کیو ایم کی کمزور سیاسی پوزیشن سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے پیپلزپارٹی سرگرم ہے لیکن مبصرین کے مطابق پیپلز پارٹی نے سن 2013 کے بعد سے جو انتظامی فیصلے کیے ہیں ان سے کراچی کے رہنے والوں کے ذہنوں میں منفی تاثر پیدا ہوا ہے۔ سینیئر صحافی مظہر عباس نے ڈوچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انتخابات کے لیے ایم کیو ایم کی پوزیشن بہت کمزور ہے، ’’ کراچی کی نمائندگی کرنے والی یہ جماعت اندرونی اور بیرون انتشار کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار بائیکاٹ کا اشارہ دے رہے ہیں۔ ایسی صورت میں پیپلز پارٹی، مذہبی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل اور ایم کیو ایم کے بطن سے جنم لینے والی پی ایس پی کو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن اگر ایم کیو ایم کے دھڑوں نے بائیکاٹ کیا تو ووٹرز ٹرن آؤٹ بہت کم ہو گا‘‘۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے بے نظیر بھٹو کی صاحبزادی آصفہ کے علاوہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور مسلم لیگ کے سرکردہ رہنما مشاہد اللہ خان اور ان کے بیٹے بھی کراچی سے انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مبصرین کہتے ہیں کراچی میں صورت حال بہت گنجلک ہو گی اور کوئی جماعت دوسرے کی مدد کے بغیر مستحکم پوزیشن میں نہیں ہو گی۔ مبصرین کے خیال میں پیپلز پارٹی اگر کامیابی حاصل کر بھی لے تو حکومت بنانے کے لیے اسے اتحادیوں کی ضرورت ہو گی۔ فنکشنل لیگ اور سندھی قوم پرست جماعتیں گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کی صورت میں اندرون سندھ پیپلز پارٹی کے لیے مشکلات پیدا کریں گی جبکہ تحریک انصاف کا فوکس کراچی سے زیادہ پنجاب میں کامیابی حاصل کرنے کی طرف دکھائی دیتا ہے۔ 

یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کے تمام دھڑے جو نشستیں حاصل کریں گے اسٹبلشمنٹ انہیں تحریک انصاف کے ساتھ ملانے کے لیے سرتوڑ کوشش کرے گی۔ ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کہتے ہیں کہ کراچی میں میچ فکس ہو گا اگر تحفظات دور نہیں کیے گئے تو ایم کیو ایم بائیکاٹ کر سکتی ہے ۔  عام مشاہدہ ہے کہ پاکستان کے انتخابات میں کراچی ملک کا وہ واحد حصہ ہے جہاں آزاد امیداوار میدان میں آنے کی ہمت ہی نہیں کرتے ہیں۔ بی بی سی سے وابستہ معروف تجزیہ کار وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ اگر ایم کیو ایم بائیکاٹ کر دے تو پیپلز پارٹی اور آزاد امیدواروں کو فائدہ ہو گا اور اگر بائیکاٹ نہیں ہوتا تو ایم کیو ایم ہی کراچی سے انتخاب جیتنے والی بڑی جماعت ہو گی البتہ پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر آسکتی ہے۔

وسعت اللہ خان کے مطابق،’’ سن 1988 کے بعد شہر میں پہلی بار اوپن انتخابات ہونے جارہے ہیں ورنہ ون پارٹی شو ہوتا تھا لیکن اب صورت حال مختلف ہے۔ دو نسلیں جوان ہو چکی ہیں اور نوجوان نسل تشدد اور جبر کی سیاست کو مسترد کر چکے ہیں اور اب ووٹ کارکردگی کی بنیاد پر ہی مانگا اور دیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اور ایم کیو ایم کی شہری حکومت کی کارکردگی قابل ذکر نہیں ہے۔‘‘ وزیر اعلٰی ہاؤس میں افطار کے موقع پر سابق صدر آصف زرداری نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ وہ خود بھی نواب شاہ سے انتخابات میں حصہ لیں گے۔ 

بشکریہ DW اردو

پاکستان میں یہ کیسی گرمی ہے ؟ نہ دیکھی نہ سنی

$
0
0

پاکستانی محکمہ موسمیات کے مطابق ملک بھر میں گرمی کی لہر ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدید ہے۔ گزشتہ ماہ جنوبی صوبے سندھ کے علاقے نواب شاہ میں عالمی طور پر ریکارڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا۔ مقامی موسمیاتی ادارے کے مطابق نواب شاہ میں درجہ حرارت 50.2 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا، جو اپریل کے مہینے میں دنیا کے کسی بھی علاقے میں اب تک ریکارڈ کیا جانے والے سب سے بلند درجہ حرارت ہے۔ ماہرین کے مطابق تاہم ایسا نہیں کہ اتنا شدید گرم دنیا بس کوئی منفرد سا واقعہ تھا، جو ہوا اور گزر گیا۔

لُو لگنے سے ہلاکتیں
غیر سرکاری فلاحی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق شہر کی مساجد میں معمول سے دوگنی لاشیں بھیجی گئی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کی موت اُن کے رشتہ داروں کے مطابق لُو لگنے سے ہوئی ہے۔ تاہم سندھ کی صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ لُو لگنے سے اب تک صرف ایک ہلاکت ہوئی ہے۔ پاکستان بھر میں موسم بہار سے شدید گرمی دیکھی جا رہی ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق ملک بھر میں واقع تمام 34 موسمیاتی دفاتر سے ملنے والا ڈیٹا بتا رہا ہے کہ سن 1981 تا 2010 تک ملک بھر میں ماہانہ بنیادوں پر درجہ حرارت میں اضافہ قریب دس سینٹی گریڈ سے زائد رہا ہے۔

محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر غلام رسول نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے بات چیت میں کہا، ’’یہ حیران کن بات ہے کہ ہر سال مارچ کے مہینے میں اوسط درجہ حرارت میں اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ ہم قریب آٹھ برس قبل درجہ حرارت عموماﹰ جون اور جولائی جیسے شدید گرم مہینوں میں ریکارڈ کیے کرتے تھے، تاہم اب ہم مارچ کے مہنیے میں درجہ حرارت ریکارڈ کر رہے ہیں۔‘‘ تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے مطابق موسمیاتی تبدیلیاں دھیرے دھیرے پاکستان پر اثرانداز ہوتی جا رہی ہیں.

درجہ حرارت میں تیز رفتاری سے اضافہ بہت سی زندگیوں اور کھیت کھلیانوں کو شدید خطرات سے دوچار کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ درجہ حرارت میں اس اضافے کی وجہ سے ایک طرف تو پانی کی طلب بڑھ رہی ہے بلکہ ساتھ ہی توانائی کی کھپت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستانی صوبہ سندھ شدید گرمی سے دوچار ہوا، جہاں بعض مقامات پر حکام نے دن کے گرم حصے میں کھلے آسمان تلے کام کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ حکام کے مطابق درجہ حرارت چالیس سے تجاوز کرنے پر اس پابندی کا نفاذ عمل میں آتا ہے۔

شدید گرمی میں بچوں کو ہیٹ اسٹروک سے کیسے بچائیں؟
پانی کی کمی
شدید گرمیاں جسم میں پانی کی کمی یا ڈی ہائیڈریشن کا خطرہ بڑھا دیتی ہیں۔ تپش کے باعث زیادہ پسینہ آنے سے جسم میں پانی کی کمی ہو جاتی ہے۔ ایسے میں خون گاڑھا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے صحت کے حوالے سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں ۔ لہٰذا یقینی بنائیں کہ خصوصاﹰ دن میں بچے زیادہ سے زیادہ پانی پیتے رہیں۔

دوسری جانب کسانوں کا کہنا ہے کہ موسم گرما کی فصل شدید گرمی کی وجہ سے اپنی کٹائی کے اوقات کار سے پہلے ہی خشک ہو گئی۔ محکمہ موسمیات کے زرعی موسمیات کے شعبے سے وابستہ خالد احمد قاضی کے مطابق، ’’مارچ اور اپریل پاکستان میں سرد سے لے کر قدرے گرم ہوا کرتے تھے اور مٹی میں نمی کے قائم رہنے میں مددگار تھے، مگر اب ان مہینوں میں درجہ حرارت بہت بڑھ چکا ہے اور نتیجہ فصلوں کو خشک ہونا ہے۔‘‘

ع ت / ع ح / روئٹرز
 

Viewing all 4315 articles
Browse latest View live