Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

زخمی مظاہرین کو طبی امداد دینے والی فلسطینی اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے شہید

0
0

فلسطین کے علاقے یونس خان میں زخمی مظاہرین کو طبی امداد فراہم کرنے والی 21 سالہ فلسطینی نرس کو قابض اسرائیلی فوج نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق گزشتہ روز نماز جمعہ کے بعد فلسطین کے نہتے شہریوں کی جانب سے ’اپنے گھروں کو واپسی‘ مہم کے تحت احتجاجی مظاہرے کو اسرائیلی افواج نے طاقت کے ذریعے سبوتاژ کرنا چاہا جس کے باعث کئی فلسطینی نوجوان زخمی ہو گئے۔ زخمی نوجوانوں کو طبی امداد مہیا کرنے میں مصروف 21 سالہ نرس راضان نجر کو اسرائیلی فوج نے گولی کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔

گزشتہ دو ماہ سے غزہ کے حالات نہایت کشیدہ ہو گئے ہیں جس کے نتیجے میں 120 سے زائد فلسطینی شہید اور 3 ہزار کے قریب زخمی ہوگئے ہیں۔ نہتے فلسطینی 30 مارچ سے یوم الارض کے موقع پر ہر جمعے کو غزہ کی سرحد پر اسرائیل کی جانب مارچ کرتے ہیں جس کا مقصد برسوں سے پناہ گزینوں جیسی زندگی بسر کرنے والے شہریوں کی اپنے گھروں کی باعزت واپسی ہے۔ واضح رہے اسرائیلی جارحیت پر اقوام متحدہ سمیت عالمی قوتوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور فلسطین میں بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے موثر حکمت عملی اپنانے پر زور دیا تھا جب کے فلسطین کے وزیر خارجہ نے اسرائیل میں یہودی آبادکاری کے خلاف عالمی عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔
 


پاکستان کو ایک الگ پہچان اور شہرت دینے والا فن ’پاکستانی ٹرک آرٹ‘

0
0

یوں تو پاکستان میں آرٹ کو ہمیشہ ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے، پاکستان کے بہت سارے فنکاروں نے اپنے فن کے جوہر دکھا کر دنیا بھر میں نام پیدا کیا ہے.
وہیں پاکستان کو ایک الگ پہچان اور شہرت دینے والا فن ’پاکستانی ٹرک آرٹ‘ دنیا بھر میں خوب نام پیدا کر رہا ہے جس سے پاکستان کا ایک مثبت اور خوب صورت چہرہ دنیا بھر میں روشناس ہو رہا ہے۔ پاکستانی ٹرک آرٹ سے تیار کئے گئے رنگ برنگے خوب صورت ڈیزائنوں، پھول پتیوں اور مختلف نقش و نگار سے مزین یہ دیوہیکل ٹرک جب ملکی سرحدوں کے باہر لمبی مسافتوں پر نکلتے ہیں تو 'ٹرک آرٹ'کو دیکھ کر باآسانی پاکستانی آرٹ کو پہچانا جاتا ہے۔








پاکستان میں رمضان کے دوران فلاحی کاموں کا نیا ریکارڈ متوقع

0
0

ملک میں حکومت کی مدت احسن طریقے سے اختتام پذیر ہونے کے باعث جمہوری عمل کو لاحق خطرات کی قیاس آرائیوں نے دم توڑ دیا، اور اب عوام کی توجہ پوری طرح اپنے مذہبی اور سماجی معاملات کی انجام دہی کی طرف مبذول ہے۔ پاکستانی عوام جو سخاوت میں پیش پیش رہتے ہیں، اس رمضان بھی فلاحی کاموں میں خوب پڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں، رواں سال پاکستانیوں کی جانب سے دیے گئے عطیات ایک سو 73 ارب روپے کی نئی ریکارڈ سطح کو چھونے کے لیے تیار ہیں۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ اندازہ گزشتہ برس رفاہی کاموں کی مد میں ایک سو 58 ارب روپے خرچ کرنے کو مد نظر رکھتے ہوئے لگایا گیا، جس میں رواں برس 10 فیصد اضافہ متوقع ہے، تاہم تجارتی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے ایک شخص نے اس اندازے کو محدود قرار دیا۔

مذکورہ شخص کا کہنا تھا کہ خیرات جمع کرنے کی مہمات میں کمی دیکھنے کے باوجود خیرات کرنے میں کوئی کمی نہیں آئی، انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں عطیات کی ضرورت یا رمضان کے دوران عطیات جمع کرنے کے رجحان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ، شدید گرم موسم کے باعث گھر گھر جا کر عطیات جمع کرنے میں کمی آئی ہو گی تاہم ٹیلی وژن پرچلنے والی تشہیری مہمات قابل ذکر ہیں۔ اس ضمن میں بڑی فلاحی تنظیموں کے بینک اکاؤنٹس دیکھنے والے ایک بینک اہلکار کا کہنا تھا کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے بھرپوراثرات کو دیکھتے ہوئے فلاحی تنظیموں کی مارکیٹنگ تکنیک میں بھی تبدیلی آئی ہے، جس کے تحت بڑے بڑے بل بورڈ آویزاں کرنے یا مخصوص علاقوں میں ٹیم کے ہمراہ کام کرنے کے بجائے اب اپنا پیغام پھیلانے کے لیے سماجی رابطوں کا پلیٹ فارم استعمال کیا جاتا ہے۔

اس حوالے سے بینکنگ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نصراللہ عابد کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں خدمت خلق ایک قدرتی چیز سمجھی جاتی ہے، وہاں مجموعی ملکی پیداوار کی شرح نمو 5 فیصد ہونے کے باوجود عطیات میں 10 فیصد اضافہ ہونا عین ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلاحی کام مسلمانوں کے مذہب میں شامل ہیں کیوں کہ اسلام مقررہ مالیت کی دولت و جائیداد پر 2.5 فیصد زکوٰۃ ادا کرنے حکم دیتا ہے۔ مارچ 2018 میں اسٹینفورڈ سوشل انوویشن ریویو نے پاکستان میں خدمت خلق کے رجحان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں دیے جانے والے عطیات مجموعی ملکی پیداوار کا ایک فیصد ہیں.

اس حوالے سے پاکستان متمول ممالک کی فہرست میں کھڑا نظر آتا ہے جیسے برطانیہ مجموعی ملکی پیداوار کا ایک اعشاریہ 3 فیصد، کینیڈا ایک اعشاریہ 2 فیصد فلاحی کاموں کی مد میں خرچ کرتا ہے۔ جبکہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں فلاحی کاموں کی مد میں خرچ کی جانے والی رقم دو گنا سے بھی زائد ہے۔ اس حوالے سے ایک ماہر معاشیات کا کہنا تھا کہ حالانکہ یہ امداد ذاتی سطح پر دی جاتی ہے، لیکن اس سے ایسے افراد کو فائدہ پہنچتا ہے جو معاشرتی ناہمواریوں کے باعث نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بات سے قطع نظر کہ عوام کی جانب سے رفاہی کاموں کا یہ سلسلہ وسیع پیمانے پر کیا جاتا ہے، حکومت اس میں مداخلت سے گریز کرتی ہے۔

بشکریہ روزنامہ ڈان اردو
 

فلسطينيوں کے تحفظ کے ليے قرارداد، امريکا کو نامنظور

0
0

امریکا نے اعلان کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کویت کی جانب سے پیش ہونے والی اس قرارداد کو ویٹو کر دے گا، جس کے مسودے میں غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ کویت کی جانب سے قرارداد کا متن سکیورٹی کونسل میں پیش کیا گیا تھا۔ اس مسودے میں فلسطینیوں کے لیے ایک بین الاقوامی تحفظ مشن بنائے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس سال مارچ کے اختتام سے اب تک اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے 122 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ہیلی کا کہنا ہے کہ امریکا یقیناً اس قرارداد کو ویٹو کر دے گا۔ گزشتہ برس دسمبر میں ہیلی نے اس قرارداد کو بھی ویٹو کر دیا تھا، جس میں صدر ٹرمپ کے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے فيصلے کی مخالفت کی گئی تھی۔ اس قرارداد کی بقيہ ديگر ملکوں نے حمايت کی تھی۔

سکیورٹی کونسل کئی ہفتوں سے غزہ پٹی میں تشدد کے حوالے سے کوئی بھی ردعمل دینے میں ناکام رہی ہے حالاںکہ اقوام متحدہ کے مشرق وسطیٰ کے ليے مندوب کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ بحران جنگ کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ ہیلی نے اس موقع پر یورپی ممالک سے بھی کہا کہ اگر انہوں نے اس قرارداد کی حمایت کی تو وہ یہ ثابت کر دیں گے کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دیرپا مذاکراتی عمل کی حمایت نہیں کرتے۔ تازہ لڑائی اور کشيدگی کو سن 2014 کے بعد دونوں فریقين کے مابين سب سے شدید کشیدگی کہا جا رہا ہے۔ سفارتکاروں کا کہنا کہ اگر فلسطینی سکیورٹی کونسل کی سطح پر یہ قرارداد منظور کرانے میں ناکام رہے تووہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی جا سکتے ہیں۔

کویت کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد کو منظور کرانے کے لیے سکیورٹی کونسل کے پندرہ رکن ممالک میں سے نو کے ووٹ درکار ہوں گے جبکہ پانچ مستقل ارکان کی طرف سے ایک بھی ویٹو نہیں ہونا چاہیے۔ دوسری جانب مشرق وسطیٰ ہی کے حوالے سے امريکی صدر ٹرمپ اسرائیل میں تعینات امریکی سفیر ڈيوڈ فريڈمين کو اب اس لیے زیادہ اختیارات دینے پر غور کر رہے ہیں تاکہ فلسطينیوں سے متعلق امور کے ليے مخصوص امریکی قونصل خانے کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں یروشلم میں امریکی قونصل جنرل، جو براہ راست فلسطینیوں کے ساتھ تعلقات اور ان کے امور کے ذمے دار ہیں، کی خود مختاری کو کم کرنے کی ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ سوچ کافی زیادہ علامتی اہمیت کی حامل ہے۔ ایسا کرنے سے مستقبل میں فلسطینیوں کی اپنی ایک الگ ریاست کے قیام کے خواب کو مزید دھچکا لگے گا۔

ب ج/ ع س (نیوز ایجنسیاں)

بشکریہ DW اردو
 

ریحام خان کی کتاب پر عارضی پابندی عائد

0
0

سول عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان کی کتاب کی رونمائی کےخلاف حکم امتناع جاری کر دیا ہے۔ تحریک انصاف لائرز ونگ کے صدر کی جانب سے ملتان کی سول کورٹ میں ریحام خان کی کتاب کی رونمائی روکنے کے لئے درخواست دائر کی گئی، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ریحام خان مسلم لیگ (ن) کہ آلہ کار ہیں، انہوں نے تحریک انصاف کی قیادت کو بدنام کرنے کی سازش امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے ساتھ مل کر بنائی ہے۔ درخواست گزار نےعدالت سے استدعا کی کہ ریحام خان کی کتاب کے متن کا کچھ حصہ مبینہ طور پر حقائق کے خلاف ہے۔ اس لئے ریحام خان کی کتاب پر پابندی لگائی جائے اور اس کی اشاعت کو روکا جائے۔ عدالت نے ریحام خان کی کتاب کی رونمائی کے خلاف حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے ریحام خان، حسین حقانی اور پیمرا سے 9 جون تک جواب طلب کر لیا۔

 

آبی قلت کے شکار ملکوں میں پاکستان تیسرے نمبر پر

0
0

پانی کی قلت کے شکار ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پرآگیا جس کی بنیادی وجہ پانی کی ذخائر کی کمی اور اس کا نامناسب استعمال ہے۔ منصوبہ بندی کمیشن کی رپورٹس کے مطابق ملک میں صرف 30 دن کے استعمال کیلئے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے جو کم از کم 120 دن ہونی چاہیے۔ پاکستان میں دریاؤں اور بارشوں کی صورت میں سالانہ تقریبا 115 ملین ایکڑ فٹ پانی مہیا ہوتا ہے جس کا 93 فیصد زراعت کیلیے استعمال ہوتا ہے جبکہ 5 فیصد گھریلو اور 2 فیصد صنعتی مقاصد کیلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق زرعی شعبے کو ملنے والا 70 فیصد پانی دوران ترسیل ضائع ہو جاتا ہے۔
 

کیا پاکستانی صحافی ’ملک دشمنوں کی حمایت ‘ کر رہے ہیں ؟

0
0

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے الزام عائد کیا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف منفی پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور نے کہا کہ ان کے ادارے کے پاس سوشل میڈیا کی نگرانی کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور وہ جانتے ہیں کون کیا کر رہا ہے؟ انہوں نے کہا کہ حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان میں مقامی سوشل میڈیا کے اکاونٹس میں کافی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بہت سے افراد ان اکاؤنٹس کے ذریعے پاکستان، پاکستانی فوج اور سکیورٹی فورسز کے خلاف ٹوئٹس کرتے ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران ایسے اکاؤنٹس کی نشاندہی بھی کی، جو اُن کی رائے میں ملک مخالف ٹوئٹس کرتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ کیسے کچھ پاکستانی صحافی ان اکاؤنٹس کی ٹوئٹس کو ری ٹویٹ کرتے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے دکھائی جانے والی اس سلائیڈ میں پاکستان کے کافی نامور صحافیوں کی تصاویر بھی دکھائی گئیں۔ اس معاملے پر ڈان نیوز سے وابستہ صحافی مبشر زیدی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا، ''ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے ان کے خیالات سے منافی صحافیوں اور سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنوں کی تصاویر کو یوں دکھانا درست نہیں ہے۔ آپ کو تنقید برداشت کرنا سیکھنا چاہیے۔‘‘

صحافی احمد نورانی نے ٹوئٹ میں لکھا، ’’ پاکستان کے سب سے بہترین صحافیوں عمر چیمہ، مطیع اللہ جان، اعزاز سید، عمار مسعود، نصر اللہ خان، فخر درانی، رضوان راضی اور دیگر معزز شہریوں کی تصویریں دکھائی گئی ہیں، جیسے کہ وہ کوئی دہشت گرد ہوں۔‘‘ پاکستان کے نامور صحافی مطیع اللہ جان نے آصف باجوہ سے احتجاج کرتے ہوئے ٹویٹ میں لکھا، ’’ ڈی جی آئی ایس پی آر نے آرمی اور عدلیہ پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو کھل عام دھمکی دی ہے تاکہ انہیں انتخابات سے قبل خاموش کرا دیا جائے۔ یہ سب کچھ شدید سنسر شپ کو ثابت کرتا ہے۔‘‘

بشکریہ DW اردو
 

چیف جسٹس نے خدیجہ صدیقی کے ملزم کی رہائی کا ازخود نوٹس لے لیا

0
0

چیف جسٹس آف پاکستان نے قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی پر حملے کے ملزم کی بریت کا از خود نوٹس لے لیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے خدیجہ صدیقی کو چھریوں کے وار سے زخمی کرنے والے ملزم شاہ حسین کو بری کرنے کے حکم پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیتے ہوئے مقدمے کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ چیف جسٹس 10 جون کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ازخود نوٹس کیس کی سماعت کریں گے جس میں متعلقہ حکام کو مقدمے کے تمام ریکارڈ اور تفصیلات کے ساتھ پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کو بری کرنے کا حکم دیا تھا، اس سے قبل جوڈیشل مجسٹریٹ نے ملزم کو 7 سال قید کی سزا سنائی تھی تاہم سیشن کورٹ نے سزا 7 سے کم کر کے 5 سال کر دی تھی جب کہ ملزم شاہ حسین نے 5 سال قید کی سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ یاد رہے کہ قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی کو مئی 2016 میں اس کے کلاس فیلو شاہ حسین نے چھریوں کے وار کر کے لہولہان کر دیا تھا لیکن ملزم بااثر ہونے کے باعث آزاد گھومتا رہا تاہم معاملہ میڈیا پر آیا تو چیف جسٹس ہائی کورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے ایک ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں ملزم کو 7 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

 


ریحام خان کی کتاب جو اشاعت سے پہلے ہی متنازعہ ہو گئی

0
0

پاکستانی سیاستدان عمران خان کی سابقہ اہلیہ اور صحافتی پس منظر کی حامل ریحام خان کی خود نوشت سوانح حیات اپنی اشاعت سے پہلے ہی متنازعہ ہو چکی ہے، جس کا سبب کتاب کے مسودے میں شامل نجی زندگی سے متعلق متنازعہ تفصیلات بھی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایک ایسے سیاسی رہنما ہیں، جن کی نجی زندگی میں پاکستانی عوام کی بہت بڑی اکثریت گہری دلچسپی رکھتی ہے۔ عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان کی جو کتاب اس وقت پاکستان میں اور بین الاقوامی سطح پر بھرپور بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے، وہ دراصل ایک خود نوشت سوانح حیات ہے، جس کا عنوان بھی مصنفہ کا اپنا نام ہے: ریحام خان۔ یہ کتاب ابھی شائع بھی نہیں ہوئی لیکن اس کے مندرجات ایسے ہیں کہ اس سوانح حیات کا مسودہ بھی جتنا مشہور ہوا ہے، اتنا ہی وہ متنازعہ بھی ہو چکا ہے۔

ایک کتاب کے طور پر ’ریحام خان‘ متنازعہ کیوں ہے اور اس کے مسودے کے اشاعت سے پہلے ہی لیک ہو جانے کا وقت کتنا اہم ہے، اس حوالے سے ڈی ڈبلیو نے گفتگو کی، معروف سیاسی تجزیہ نگار منصور اکبر کنڈی سے۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’کہتے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے، تو لگتا ہے کہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ کئی حلقے اسے ایک سازشی نظریے کے تحت کیے جانے والے پراپیگنڈا کا نام بھی دے رہے ہیں۔ اب جب کہ عام انتخابات سر پر ہیں، عمران خان کے خلاف اس کتاب کا غیر مطبوعہ حالت میں بھی سامنے آ جانا ظاہر کرتا ہے کہ اس سے پی ٹی آئی کے سربراہ کی سیاست اور سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘

منصور اکبر کنڈی کے بقول ممکن ہے کہ اس کتاب کو شائع ہونے ہی نہ دیا جائے۔ اور اگر یہ چھپ بھی گئی تو انگریزی میں لکھی گئی اس کتاب کو صرف ایک خاص طبقہ یعنی کم ہی لوگ پڑھ سکیں گے۔ انہوں نے بتایا، ’’یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے لیے ادائیگی بھی کر دی گئی ہے۔ ممکن ہے ایسا ہوا ہو، لیکن ابھی تک یہ کوئی مصدقہ حقیقت نہیں ہے۔‘‘ عمران خان اب تک تین شادیاں کر چکے ہیں اور ریحام ان کی دوسری بیوی تھیں۔ عمران خان سے شادی کرنے والی خواتین میں سے ریحام وہ واحد خاتون ہیں، جو صحافتی پس منظر کی حامل ہیں اور ان کی کتاب ’ریحام خان‘ سے مصنفہ کے ممکنہ سیاسی عزائم کا پتہ بھی چلتا ہے۔ اس کتاب یا اب تک کتابی مسودے کی عوام اور پاکستانی میڈیا کی نظروں میں اہمیت اس وجہ سے بھی کافی زیادہ ہے کہ عمران خان اور ریحام خان کی قانونی علیحدگی بڑے ناموافق حالات میں ہوئی تھی اور اب یہ بھی کسی حد تک ممکن نظر آنے لگا ہے کہ جولائی میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد عمران خان پاکستان میں وزارت عظمیٰ کے منصب پر بھی فائز ہو سکتے ہیں۔

عمران خان اور ریحام خان رواں برس آٹھ جنوری کو رشتہ ازدواجی سے منسلک ہوئے تھے۔ اس طرح یہ دنوں تقریباً دس ماہ ہی شادی کے بندھن میں بندھے رہے۔ عمران خان نے جمائما خان سے پہلی شادی کے اختتام کے بعد تقریباً گیارہ برس بعد شادی کی تھی۔ ریحام خان کی کتاب شاید عمران خان کی سیاسی زندگی میں ان کے لیے ایک رکاوٹ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ اندازہ اس شدید ردعمل سے بھی لگایا جا سکتا ہے، جو اس کتاب کے بارے میں عمران کے قریبی ساتھیوں اور ان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف نے ظاہر کیا ہے۔ عمران خان کی سیاست پاکستان میں بہت مقبول بھی ہے اور متنازعہ بھی۔ پہلی شادی سے لے کر اب تک ان کی ازدواجی زندگی میں ٹھہراؤ کی کمی رہی ہے۔ اسی لیے لوگ ان کی نجی زندگی کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں اور ریحام خان کی کتاب معلومات کی اس کمی کو پورا کرتی نظر آتی ہے، لیکن ایک متنازعہ انداز میں۔

پاکستان میں یہ دعوے بھی کیے جا رہے ہیں کہ اس کتاب کی اشاعت کی تیاریوں کے پیچھے مبینہ طور پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کی مسلم لیگ ن کا ہاتھ ہے۔ اس سلسلے میں اس جماعت کا موقف جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے مسلم لیگ ن کے سابق ایم این اے اور سابق وفاقی وزیر سعد رفیق سے رابطہ کیا تو انہوں نے ایسے دعووں کو پراپیگنڈا قرار دیتے ہوئے بتایا، ’’کہنے کو تو کیا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اور کہا بھی جا رہا ہے۔ ہم بھی بہت کچھ کہہ سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت کیا ہے، اس کا تعین کون کرے گا ؟ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ محض قیاس آرائیوں سے نہیں بلکہ مکمل تحقیق کے بعد ہوتا ہے۔ اس کتاب کے شائع ہونے سے پہلے ہی متنازعہ ہو جانے کے بعد تحقیقات شروع ہو چکی ہیں۔ تو اس وقت کچھ بھی کہنے سے بہتر یہ ہو گا کہ نتائج کا انتظار کیا جائے۔‘‘

عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے سابق سینیٹر سید شبلی فراز نے ایک انٹرویو میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں الیکشن ہونے والے ہیں۔ ہمیں پہلے بھی شبہ تھا۔ اب یقین ہو گیا ہے کہ پچیس جولائی کے عام الیکشن سے قبل نواز شریف ریحام خان کے ساتھ مل کر یہ کتاب شائع کروائیں گے۔ نواز لیگ نے اس کتاب کو پروموٹ کیا ہے، جس کا واضح مقصد عمران خان کو سیاسی نقصان پہنچانا ہے۔ اس کتاب میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ریحام بدلہ لینا چاہتی ہیں اور سیاسی نقصان پہنچانے کی خواہش مند ہیں۔ ہم کسی بھی صورت میں اس کتاب کو چھپنے نہیں دیں گے۔ قانونی چارہ جوئی کریں گے کہ آزادی اظہار اور آزادی رائے کا یہ کوئی طریقہ نہیں کہ بے بنیاد پراپیگنڈا شروع کر دیا جائے۔‘‘

اسی بارے میں تحریک انصاف کے سابق رکن قومی اسمبلی غلام سرور نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اب واضح ہو چکا ہے کہ ریحام کی عمران خان سے شادی، پھر طلاق اور اب یہ کتاب سب کچھ ایک منصوبہ بندی کا حصہ تھا، جس کا مقصد پی ٹی آئی کے سربراہ کو سیاسی طور پر نقصان پہنچانا ہے۔ غلام سرور کے مطابق اس مبینہ سازش میں نواز شریف خاندان ریحام خان سے ملا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’دن کو کیا ہوا اور رات کو کیا کچھ ہوا۔ یہ سب کچھ لکھنا غیر ذمے دارانہ حرکت تو ہے لیکن سوانح حیات لکھنے کا یہ کوئی مہذب طریقہ بالکل نہیں۔‘‘

ریحام خان کی اسی کتاب کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کے سابق ایم این اے عبدالستار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ ایک نجی نوعیت کا معاملہ ہے۔ دو افراد کی شادی ہوئی، پھر قانونی علیحدگی ہو گئی۔ سابقہ بیوی کے پاس جو معلومات تھیں، ان کی بنیاد پر اب اگر وہ کوئی کتاب شائع کرنا چاہتی ہیں، تو اس میں مسئلہ کیا ہے؟‘‘ عبدالستار کے بقول پاکستان میں اب یہ رواج بنتا جا رہا ہے کہ ہر بات کو مسئلہ بنا دیا جائے، جس طرح پورے ملک میں اس کتاب پر بحث ہو رہی ہے، اس کے ذریعے اس کتاب کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔

پاکستانی قومی اسمبلی کے اس سابق رکن نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے بطور وزیر اعظم نواز شریف کو جن آئینی شقوں کی بنیاد پر نااہل قرار دے دیا تھا، اس کتاب کی اشاعت کے بعد عمران خان کی سیاست پر بھی بہت برا اثر پڑے گا۔ مسلم لیگ ن کے اس سیاستدان نے اپنی جماعت کی سب سے بڑی حریف پارٹیوں میں سے ایک پی ٹی آئی کی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے دعویٰ کیا، ’’آئین کی جن شقوں کا اطلاق نواز شریف پر کیا گیا، وہی شقیں اگر دیگر سیاسی شخصیات پر بھی لاگو کی جائیں تو بڑے بڑے نااہل ہو جائیں گے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جس طرح کی الزام تراشی اور برا بھلا کہتے رہنے کی سیاست عمران خان نے اپنائی ہے، اس نے بہت سے نوجوانوں کے ذہنوں میں زہر گھول دیا ہے۔‘‘ اس کتاب میں شامل مبینہ ہتک آمیز مواد کی وجہ سے ریحام خان کو اب تک عمران خان، مصنفہ کے پہلے شوہر اعجاز رحمان، سابق سٹار کرکٹر وسیم اکرم اور چند دیگر شخصیات کی طرف سے قانونی نوٹس بھی بھجوائے جا چکے ہیں۔ ریحام خان کی پہلی شادی اعجاز رحمان سے ہوئی تھی، جن سے طلاق لینے کے کافی عرصے بعد ریحام نے عمران خان سے شادی کی تھی۔

بشکریہ DW اردو

 

پاکستانی سفارتخانہ بتائے، عافیہ صدیقی کا کیا حال ہے

0
0

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے امریکا میں قید پاکستانی شہری عافیہ صدیقی کی موت سے متعلق گردش کرنے والی رپورٹس پر اٹارنی جنرل اور امریکا میں پاکستانی سفارتخانے کو ہدایت کی ہے کہ 3 دن کے اندر عافیہ صدیقی سے زندگی سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی زندگی اور پاکستان منتقل کرنے سے متعلق ان کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی درخواست پر سماعت کی۔
عدالت میں فوزیہ صدیقی نے بتایا کہ میڈیا کے ذریعے پتہ چلا ہے کہ امریکا میں پاکستانی قونصل جنرل نے عافیہ صدیقی سے ملاقات کی ہے لیکن جب ان سے اس بات کا سرٹیفکیٹ مانگا گیا تو انہوں نے وہ فراہم نہیں کیا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عافیہ صدیقی کی زندگی کے بارے میں متضاد اطلاعات آرہی ہیں، اٹارنی جنرل اور امریکا میں پاکستانی سفارتخانہ معلوم کر کے بتائیں کہ عافیہ صدیقی کی کیا حالت ہے۔ خیال رہے کہ اس سے قبل کچھ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موت سے متعلق افواہیں گردش کر رہی تھیں، جس کے بعد 23 مئی کو امریکی ریاست ٹیکساس میں موجود پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروق نے کارس ویل، ٹیکساس میں فیڈرل میڈیکل سینٹر (ایف ایم سی ) میں موجود جیل میں عافیہ صدیقی سے 2 گھنٹے تک ملاقات کی تھی۔

اس ملاقات کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موت سے متعلق گردش کرنے والی افواہیں دم توڑ گئی تھیں اور پاکستانی قونصل جنرل کی جانب سے ان افواہوں کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے اسے جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔
ہیوسٹن میں موجود پاکستانی قونصلیٹ جنرل کی جانب سے کہا گیا تھا کہ گزشتہ 14 ماہ کے دوران پاکستانی قونصل جنرل 4 مرتبہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کر چکی ہیں۔ تاہم اس بارے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بہن کی زندگی اور صحت سے متعلق کسی خبر کی تصدیق نہیں کر سکتیں، کیونکہ اس بارے میں انہیں حکومت پاکستان، وزارت خارجہ اور امریکی جیل حکام نے کچھ نہیں بتایا۔

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے آن لائن قیدیوں کے اسٹیٹس سے متعلق بتایا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا اسٹیٹس زندہ لکھا ہوا ہے اور اگر کسی قیدی کا اسٹیٹس تبدیل کیا جاتا ہے تو امریکی قوانین کے مطابق اہلخانہ کو معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ کی ہمشیرہ نے ڈاکٹر فوزیہ نے مزید بتایا تھا کہ ان کا گزشتہ 2 سال سے عافیہ صدیقی سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور ہزار کوششوں کے باوجود بھی پاکستانی اور امریکی حکام سے انہیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

بشکریہ روزنامہ ڈان اردو
 

رسول بخش پلیجو، پاکستان میں مزاحمتی سیاست کا ایک باب بند ہو گیا

0
0

پاکستان کے صوبہ سندھ میں مزاحمتی سیاست کا ایک بڑا نام سیاستدان رسول بخش پلیجو طویل علالت کے بعد کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں وفات پا گئے۔ ان کی عمر 89 برس تھی۔ رسول بخش پلیجو گذشتہ چند سالوں سے طویل العمری کی وجہ سے بیماریوں کا شکار تھے لیکن بیماری کے باوجود وہ سیاسی طور پر متحرک تھے۔ رسول بخش پلیجو کی جماعت کے ترجمان کے مطابق ان کی تدفین  ضلع ٹھٹہ کے علاقہ جنگ شاہی میں کی جائے گی۔ عملی سیاست میں قدم رکھنے سے وفات تک رسول بخش پلیجو کی سیاست میں مزاحمتی رنگ واضح تھا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں انھوں نے اپنے بیٹے ایاز لطیف پلیجو کی سیاست سے اختلاف کرتے ہوئے عوامی تحریک کو دوبارہ بحال کیا اور اس کے سربراہ بن گئے تھے۔

رسول بخش پلیجو نے پوری زندگی سندھ کے حوالے سے سیاست کی لیکن ان کی زندگی میں ایک دور ایسا بھی آیا جب وہ عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سیکریٹری مقرر ہوئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد اختلافات کے بعد انھوں نے اے این پی سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ انھوں نے کئی درجن کتابیں اور کتابچے تحریر کیے۔ رسول بخش پلیجو نے ون یونٹ کے خاتمے کے لیے مہم میں بھی بھرپور کردار ادا کیا تھا اور بنگلہ دیش میں فوجی کارروائی، بھٹو دور میں بلوچستان میں فوجی کارروائی کے خلاف بھی احتجاجی تحریک چلائی تھی۔

رسول بخش پلیجو کی 1970 میں قائم کی جانے والی عوامی تحریک نے اس وقت بڑا نام کمایا جب جنرل ضیاالحق کے دور میں پاکستان پیپلز پارٹی نے مارشل لا کی مخالف قوتوں کے ساتھ مل کر تحریک برائے جمہوریت (ایم آر ڈی) کی بنیاد ڈالی اور جیل بھرو تحریک کا آغاز کر دیا۔ اس تحریک میں عوامی تحریک نے پیپلز پارٹی کے شانہ بشانہ حصہ لیا تھا اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے رسول بخش پلیجو کو ضمیر کا قیدی بھی قرار دیا تھا۔ انھوں نے مختلف اوقات میں طویل قید و بند کی سزا کاٹی تھی۔ رسول بخش پلیجو نے اپنی جماعت کو انتخابی سیاست سے دور رکھا ہوا تھا۔ وہ ایسے کارکن تیار کرتے تھے جنھیں معاشرتی تبدیلی اور نظام حکومت کی تنزیلی کے علاوہ کوئی اور سروکار نہیں تھا۔

رسول بخش ایک ہی وقت میں فکری محاذ، تنظیمی محاذ، سیاسی اور سماجی محاذ پر اپنی قوتیں صرف کرتے تھے۔ وہ سندھ کے ممکنہ طور پر ان چند رہنماؤں میں سے تھے جو بیک وقت کئی سیاسی جماعتوں اور مختلف اوقات میں قائم کئے جانے والے سیاسی اتحادوں کا حصہ بھی رہے۔ 2008 میں اپنی جماعت کے انتخابات کے دوران جب انھیں اپنے ہی بیٹے ایاز لطیف پلیجو کی سیاست کا طرزِ عمل پسند نہیں آیا تو انھوں نے ایاز لطیف کے نام ایک کھلا خط لکھا تھا۔ وہ ایک خط تھا بلکہ ایک چارج شیٹ تھی جو ایک والد کی طرف سے بیٹے کے نام نہیں تھی بلکہ ایک سیاسی جماعت کے باضابطہ منتخب صدر کے نام تھی۔

اس خط کے ایک ماہ بعد انھوں نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں انھوں نے قومی عوامی تحریک سے اپنی ساتھیوں اور حامیوں سمیت علیحدگی کا اعلان کیا اور عوامی تحریک کو بحال کر دیا تھا۔ رسول بخش پلیجو نے اپنے پسماندگان میں پانچ بیٹوں اور بیٹیوں کے علاوہ کارکنوں کی بڑی تعداد کو سوگوار چھوڑا ہے۔

علی حسن
صحافی، حیدرآباد 

بشکریہ بی بی سی اردو
 

Turkish aid agency distributes aid in Pakistan

0
0
Turkish Humanitarian Relief Foundation (İHH) distributed food packets and aid to those in need across Pakistan. It also hosted an iftar meal and distributed clothes, toys and presents to 100 orphans in the country.








پاکستانی میں آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے سپریم کورٹ کردار ادا کرے گی

0
0

پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ پانی کی قلت کے خاتمے اور آبی ذخائر کی تعمیر میں اب سپریم کورٹ اپنا کردار ادا کرے گی۔ کراچی میں سپریم کورٹ رجسٹری میں کالا باغ ڈیم سے متعلق ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ماہرین اور قانون دانوں سے اس ضمن میں مشاورت کی جائے گی۔ اس موقع پر پانی و بجلی کے ادارے 'واپڈا'کے سابق چیئرمین ظفر محمود نے بینچ کو بتایا کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے بارے میں لوگوں کو مکمل آگاہی نہیں اور اس پر تناع کے بعد ہی انھوں نے اس ادارے کی سربراہی سے استعفیٰ دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی سے ملک میں سیلاب آنا شروع ہو گئے ہیں، زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جا چکی ہے اور کوئٹہ میں پانی اتنا نیچے جا چکا ہے کہ بحالی میں 200 سال لگیں گے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دس سال بعد کوئٹہ میں پینے کا پانی نہیں ہو گا یعنی لوگوں کو کوئٹہ سے ہجرت کرنا پڑے گی۔ بینچ میں شامل جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ 80 کی دہائی میں سنا جاتا تھا کہ کالا باغ ڈیم پر تنازع ہے تو جو متنازع نہیں حکومتیں کم از کم وہ ڈیمز تو بنا دیتیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس وقت ہم کالاباغ ڈیم کی بحث میں نہیں پڑیں گے اور اس کا متبادل تلاش کرنے کی کوششیں کریں گے تا کہ یہ دیکھا جائے کہ پانی کی قلت کو کیسے ختم کیا جائے۔

پاکستان میں آبی قلت کے تناظر میں ان دنوں سوشل میڈیا پر بھی خوب بحث جاری ہے اور لوگ آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے شدومد سے آواز بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ توانائی کے امور کے ماہر ڈاکٹر عابد سلہری کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی طرف سے معاملے پر توجہ دیے جانے سے اچھی پیش رفت کی توقع کی جا سکتی ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ "سپریم کورٹ ہدایات دے سکتی ہے منصوبوں کی رپورٹ طلب کر سکتی ہے اس کے لیے زمین کے حصول کے بارے میں دریافت کر سکتی ہے تو جب عدالت عظمیٰ اس بارے میں جواب طلب کرے گی تو پھر ان معاملات میں تھوڑی تیزی آ جاتی ہے۔" ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں حکومتیں آبی ذخائر کو صرف توانائی کی پیداوار کے تناظر میں دیکھتی رہی ہیں لیکن اب معاملہ پانی کی قلت ہے اور اس کے لیے آبی ذخائر کی تعمیر انتہائی ضروری ہو گئی ہے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

علی بنات دنیا سے چلے گئے، لیکن ان کا مشن زندہ رہے گا

0
0

آج شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جو آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ارب پتی مسلمان علی بنات اور ان کی کہانی سے واقف نہ ہو۔ موذی مرض کینسر کے باعث علی بنات خود تو دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ایسا بڑا کام کر گئے کہ جو رہتی دنیا تک ایک مثال رہے گا۔ 2015 میں کینسر کی تشخیص کے بعد اس ارب پتی شخص نے اپنی ساری دولت غریبوں اور ضرورت مندوں کے لیے خرچ کرنے کا فیصلہ کیا اور کاروبار کو سمیٹ کر اپنی تمام جمع پونجی لے کر مغربی افریقہ کے ایک غریب ملک ’ٹوگو‘ پہنچ گئے۔ ٹوگو کی کُل آبادی کا تقریباً 20 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن علی بنات نے مذہب سے بالاتر ہو کر خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی ملک کی 50 سے زائد فیصد آبادی کی خدمت کا فیصلہ کیا اور ایک کے بعد ایک فلاحی کام کرتے چلے گئے۔

علی بنات جانتے تھے کہ کینسر میں مبتلا ہونے کے باعث ان کی زندگی کا کبھی بھی خاتمہ ہو سکتا ہے، لیکن وہ انسانیت کی خدمت کے اس منصوبے کو روکنا نہیں چاہتے تھے اس لیے انہوں نے’مسلمز اراؤنڈ دی ورلڈ‘ کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا۔ علی کی وفات کے بعد بھی مسلمز اراؤنڈ دی ورلڈ کے منصوبے اسی طرح جاری و ساری ہیں اور ان کا دائرہ صرف ٹوگو تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ افریقہ بھر میں پھیلا دیا گیا ہے۔ ان منصوبوں میں غریبوں کے لیے گھروں کی تعمیر، یتیم بچوں کے لیے اسکولوں کا قیام، مساجد کی تعمیر، پانی کے لیے کنووں کی کھدائی اور دیگر شامل ہیں۔ 9 جون کو اس منصوبے کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے آسٹریلیا کے شہر لِڈکومبے میں ایک تقریب کا بھی اہتمام کیا گیا.

جس میں جمع ہونے والی رقم سے بنگلہ دیش میں غریب خاندانوں کے لیے 4 ہزار اور افریقہ میں ایک ہزار گھروں کی تعمیر کی جائے گی۔ 2015 سے قبل اپنا کاروبار کرنے اور پرتعیش زندگی گزارنے والی علی بنات کو جب کینسر میں مبتلا ہونے کی خبر دی گئی تو انہوں نے غمزدہ اور مایوس ہونے کی بجائے اپنی تمام دولت غربا و مساکین کے لیے خرچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹروں نے علی کو بتایا تھا کہ وہ تقریباً 6 سے 7 ماہ تک زندہ رہ پائیں گے لیکن قدرت کو ان کے ذریعے لاکھوں بے سہاراؤں کو سہارا دینا منظور تھا، اس لیے وہ کینسر کے چوتھے اسٹیج کی تشخیص کے بعد بھی تقریباً 3 سال تک زندہ رہے.

اور اس تمام عرصے کے دوران فلاحی کاموں میں مصروف رہے۔ انھوں نے کینسر میں مبتلا غریب بچوں کے لیے بھی کروڑوں ڈالر عطیہ کیے۔ علی بنات اپنی بیماری کو خود کو بدلنے کے لیے اللہ کی طرف سے عنایت کردہ ایک تحفہ قرار دیتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کی ایک ویڈیو سامنے آئی جو انھوں نے اپنی موت کے بعد جاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اس ویڈیو میں انھوں نے ان کے منصوبوں کے لیے مدد کرنے والے تمام افراد کا شکریہ ادا کیا اور ان منصوبوں کے جاری رہنے کی امید ظاہر کی۔

بشکریہ روزنامہ ڈان اردو

 

ریحام خان کی کتاب سے پی ٹی آئی کو کیا خوف ہے؟

0
0

ہمارا ملک ویسے تو داخلی اور خارجی مسائل سے گھرا ہوا ہے مگر پاکستانی میڈیا ہائی پروفائل شخصیات کی ذاتی زندگیوں پر ہی مکمل توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان کی سوانح عمری کے مبینہ مسودے پر جاری شور و غل کو ہی دیکھ لیں۔ صفِ اول کے پی ٹی آئی رہنماؤں کے غم و غصے کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ ان کے باس ولیم کونگریو کے 1697 میں لکھے گئے ڈرامے 'دی مارننگ برائیڈ'کی ان سطور کی حقانیت دریافت کر چکے ہیں: "محبت سے نفرت میں بدلنے والے غصے کا کوئی مقابلہ نہیں، اور توہین کی شکار ہونے والی عورت کے غیظ و غضب کا کوئی مقابلہ نہیں."

گزشتہ چند دنوں میں سوشل میڈیا ریحام خان اور ایک پی ٹی آئی حامی کے درمیان ای میل اور واٹس ایپ پر پیغامات کے تبادلوں سے بھرا پڑا ہوا جن کا اب کہنا ہے کہ کسی نے ان کے نام سے اکاؤنٹس بنائے ہیں۔ مجھے عمران خان کی سابقہ اہلیہ کے کچھ انٹرویوز کے لنکس اور مسودے کے چند صفحات بھی ملے ہیں۔ ریحام خان کا کہنا ہے کہ ان کی کتاب پر ابھی کام جاری ہے۔ تو اس سب سے فرق کیا پڑتا ہے؟ عموماً ایک رشتہ دو افراد کے درمیان ایک نجی معاملہ ہوتا ہے اور اس پر میڈیا میں گرما گرم بحثیں نہیں ہونی چاہیئں۔ مگر 24 گھنٹے ساتوں دن چلنے والے میڈیا کے دور میں جہاں ہر وقت ریٹنگز کی جنگ چھڑی ہوئی ہو، وہاں عمران خان اگر یہ سوچیں کہ پرائیویسی ان کا حق ہے، تو یہ بچکانہ امید ہو گی۔ کیوں کہ بہرحال یہ میڈیا کی ان کے ساتھ شدید وابستگی ہی ہے جس کی وجہ سے وہ وزارتِ عظمیٰ کو چھونے کے قریب ہیں۔

پی ٹی آئی کا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ ریحام خان کی کتاب انتخابات سے عین پہلے شائع ہو گی اور عمران خان کے لیے شرمندگی و ووٹوں میں کمی کا سبب بنے گی۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ غلط ہیں کیوں کہ خواتین کے معاملے میں ان کی شہرت سے سب واقف ہیں اور اس سے ان کا تشخص اور ان کی مقبولیت صرف بہتر ہی ہوئی ہے۔ مگر پارٹی اور اس کے رہنما کے بارے میں کسی بھی تاریک پہلو کی تفصیلات پی ٹی آئی کے مخالفین کو انتخابی مہم کے دوران کافی مواد مل جائے گا۔ درحقیقت ایک مشہور قانونی فرم کی جانب سے ریحام خان کو ہتکِ عزت کے نوٹس بھیجنے کا شاید نقصان ہوا ہے۔ لندن میں جنگ گروپ کے رپورٹر مرتضیٰ علی شاہ کے مطابق "قانونی پیچیدگیاں"ہتکِ عزت کے دعوے کو عدالت تک پہنچنے سے روک سکتی ہیں۔

مگر لیک ہوچکے لیگل نوٹس اور اس سے شروع ہونے والے میڈیا طوفان کا حوالہ دیتے ہوئے ریحام خان کے وکلاء یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہتکِ عزت کا دعویٰ کرنے والوں کے پاس خود کا دفاع کرنے کے لیے معقول وقت موجود تھا۔ مرتضیٰ علی شاہ کے مطابق ہتکِ عزت کے دعوے کے مکمل اخراجات 15 لاکھ پاؤنڈز تک ہو سکتے ہیں۔ مگر ایک بار پھر، ہمیں اس غیر ضروری معاملے کی فکر کیوں ہونی چاہیے؟ اس کی سنسنی خیزی کے علاوہ کیا یہ معاملہ اتنی توجہ کا مستحق ہے جتنی کہ اسے مل رہی ہے؟ ایک مثالی دنیا میں تو ایسا نہیں ہوتا مگر دنیا بھر میں کسی بھی سابقہ جوڑے کے درمیان الزامات اور جوابی الزامات شہہ سرخیوں کی زینت اور 24 گھنٹے ساتوں دن میڈیائی چہ مگوئیوں کا سامان پیدا کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ اگر نواز شریف اور آصف زرداری جیسے دوسرے سیاستدانوں کو بھی عدالت لے جایا اور میڈیا ٹرائل کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے تو عمران خان کی زندگی کی جانچ پڑتال کیوں نہیں کی جا سکتی؟ میں ان میں سے کسی بھی سیاست دان کا پرستار نہیں ہوں پر مجھے پسند ہو یا نہ ہو، میرے سامنے انتخاب کے لیے یہی لوگ موجود ہیں۔ ووٹ دینے سے پہلے میں ان سب کے بارے میں جتنا ہو سکے جاننا چاہوں گا۔ شریف اور زرداری، دونوں کی لاانتہا جانچ پڑتال ہو چکی ہے اور کبھی بھی غیر منصفانہ طور پر بھی۔ مگر کیوں کہ عمران خان کو اب بھی براہِ راست اقتدار میں آنا ہے، اس لیے وہ میڈیا کے حالیہ طوفان کا مرکز ہیں۔

پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات فواد چوہدری نے ریحام خان کی خود نوشت کو 'پاکستان کی خاندانی اقدار'کے خلاف قرار دیا ہے۔ اچھا تو یہ اقدار کیا ہیں؟ کیا ان میں بیوی کا بحیثیت باورچی، آیا، ایک ایسی شخصیت جو خود کو بند کیے رکھتی ہیں اور کبھی بھی مڑ کر جواب نہیں دیتی کے طور پر کردار متعین ہے؟ اگر عمران خان کو ایسی ہی خاتون اپنی اہلیہ کے طور پر چاہیے تھیں تو یہ صاف ہے کہ انہوں نے غلط خاتون کا انتخاب کیا۔ ریحام خان ایک باہمت، ذہین اور خود مختار خاتون کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ کئی دیگر خواتین ایسی ہیں جنہوں نے اپنے سابقہ شوہروں کے بارے میں غصے سے بھری کتابیں لکھی ہیں۔ تہمینہ درانی کی کتاب 'مائی فیوڈل لارڈ'غلام مصطفیٰ کھر سے ان کی شادی کے تلخ تجربات پر مبنی ہے۔ کھر ایک استحصالی شوہر کے طور پر سامنے آئے مگر ان کے بسا اوقات پرتشدد بھی ہوجانے والے رویے کی کھلی تشریح کے باوجود انہیں سماجی و سیاسی طور پر کوئی نقصان نہیں ہوا۔

ایسا لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں تحکمانہ رویہ رکھنے والے مرد کی عزت کی جاتی ہے جبکہ بیوی سے عزت اور شفقت سے پیش آنے کو کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے قدامت پسند اور سماجی طور پر پسماندہ معاشروں میں شادی دو مساوی افراد کے درمیان رشتے کے طور پر نہیں دیکھی جاتی۔ چنانچہ اس طرح کے غیر مساوی تعلق میں خواتین سے اکثر امید کی جاتی ہے کہ وہ گھروں تک محدود رہ کر زندگی گزاریں اور راضی رہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ خواتین کو اس کردار میں بچپن سے ہی ڈھالا جاتا ہے، اور ہمیشہ بھائیوں کو ان پر فوقیت دی جاتی ہے۔ اور جب ان کے والدین کی پسند کے مرد سے ان کی شادی ہوجاتی ہے تو انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ طلاق کے بارے میں سوچیں بھی نہیں۔ خوش قسمتی سے ریحام خان اس سب سے آگے بڑھ کر اپنی شناخت بنانے میں کامیاب رہیں۔ میں ان کی کتاب پڑھنے کے لیے بے تاب ہوں۔

عرفان حسین
یہ مضمون ڈان اخبار میں 9 جون 2018 کو شائع ہوا۔

 


ڈیم بنائیں، مگر اتفاق ِ رائے سے

0
0

بھارت کی طرف سے دریائے نیلم پر کشن گنگا ڈیم بنانے پر پاکستان بھر میں تشویش پائی جارہی ہے۔ اس حوالے سے زیادہ افسوسناک بات یہ سامنے آئی ہے کہ عالمی بینک نے کشن گنگا ڈیم بنانے پر پاکستان کے شواہد کو مسترد کر دیا ۔ اس ڈیم کی تعمیر سے نہ صرف پاکستان کو 27 فیصد پانی کی کمی سامنا کرنا پڑے گا بلکہ دیگر کئی مسائل بھی سر اٹھائیں گے۔ بھارت نے موقف اختیار کیا کہ پاکستان کے پاس چونکہ کوئی آبی ذخیرہ نہیں، چنانچہ پاکستان یہ پانی ذخیرہ یا استعمال کئے بغیر ضائع کر دیتا ہے، اس پر ایک بار پھر پاکستان میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے بحث شروع ہو گئی جس پر کچھ  لوگوں نے اعلیٰ عدلیہ سے بھی استدعا کی کہ وہ اس معاملے کو دیکھے۔ 

چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس میاں ثاقب نثار نے واضح کیا کہ پانی کی قلت پر قابو پانے کے لئے کالا باغ ڈیم پر عدالت کوئی بحث نہیں کرے گی، البتہ سپریم کورٹ ڈیمز بنانے سے متعلق آگے بڑھے گی اور اپنا کردار ادا کرے گی۔ صورتحال سے پتہ چلتا ہے کہ پوری قوم بداعتمادی کی سزا بھگت رہی ہے، وعدہ کرتا ہوں ایسا کوئی حکم نہیں دیں گے جس سے کوئی فریق متاثر ہو اور نہ ہی خود نمائوں کو فریق بننے کی اجازت دیں گے۔ سپریم کورٹ وفاق کی علامت ہے، ہم یہاں جوڑنے کے لئے بیٹھے ہیں توڑنے کے لئے نہیں لیکن جہاں تنازع ہو اور چار بھائی متفق نہیں تو متبادل حل نکالنا ہو گا، قوم اختیار دے تو کردار ادا کر سکتے ہیں، چاہتے ہیں پانی کے بحران پر قابو پایا جائے۔ 

چیف جسٹس آف پاکستان کے خیالات صد فیصد درست ہیں۔ یہ ہماری حرماں نصیبی ہے کہ کسی بھی اہم قومی نوعیت کے مسئلے پر سیاستدانوں میں اتفاق رائے دیکھنے میں نہیں آتا۔ آبی مسائل تو قیام پاکستان کے فوری بعد شروع ہو گئے تھے، پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کشیدہ تر ہوئے تو ورلڈ بینک کی معاونت سے معاہدہ سندھ طاس ہوا لیکن پانی کے حوالے سے اندرونی مسائل کو در خور اعتنا نہ سمجھا گیا۔ مسئلہ شدت اختیار کرتا چلا گیا اور اب صورتحال سب کے سامنے ہے کہ بھارت کشمیر سے پاکستان کی طرف بہنے والے دریائوں پر درجنوں چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر پاکستان کے حصے کا پانی اپنے تصرف میں لے آیا ہے ۔ 

جہاں تک بات کالا باغ ڈیم کی ہے یہ ایک متنازع معاملہ بن چکا ہے جس پر بہت سے لوگوں کو بے شمار اعتراضات ہیں اور حق بات تو یہ ہے کہ ان تحفظات کو دور کرنے کی سنجیدہ کوشش بھی نہیں کی گئی اور اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جو معاملہ گھر کے لوگوں میں ہی حد درجے متنازع ہو جائے اس سے صرف نظر کر کے متبادل طرز عمل اپنانے میں ہی بھلائی ہے۔ دوسری صورت میں اگر مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے تحفظات دور کرتے ہوئے اتفاق رائے ہو جائے تو یہ بہترین راہ عمل ہے۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ اگر اب بھی ہم نے اپنے آبی معاملات کے حل کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی تو اس کے ہمیں ایسے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے جن کا تصور بھی محال ہے اور آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

پاکستان میں کوئی ڈیم نہ بننے کی وجہ سے بھارت کو دھڑا دھڑ ڈیم بنانے کاموقع مل رہا ہے، پاکستان اس پر اعتراض کرتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ پاکستان خود اپنے دریائوں کا 34 ملین ایکڑ فٹ پانی سالانہ سمندر کی نذر کر دیتا ہے، آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اگر مزید بیس تیس ہزار کیوسک پانی روکنے میں کامیاب ہو گیا تو ہمارے کھیتوں کھلیانوں میں خاک اڑنے لگے گی، پینے کا پانی بہ آسانی دستیاب ہو گا نہ دیگر استعمال کا۔ معاہدہ سندھ طاس کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائوں کی حالت ہمیں خبردار کر رہی ہے کہ اس معاملے کا فوری حل نکالا جائے۔ سردست حل وہی ہے جو چیف جسٹس نے بتایا ہے کہ عدلیہ کالا باغ ڈیم پر کوئی بحث نہیں کرے گی، ڈیمز کے لئے آگے بڑھے گی۔ تجزیہ کار اور تکنیکی ماہرین کا بھی یہی موقف ہے کہ اتنے بڑے منصوبے کی بجائے چھوٹے بند، بیراج اور نہریں تعمیر کی جانی چاہئیں جیسا کہ دنیا بھر میں ہو رہا ہے۔ متنازع معاملات پرفی الوقت بحث بھی وقت کا زیاں ہو گا، لہٰذا اب متبادل طریقے اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ قلت آب کا مسئلہ بھی حل ہو ا ور دیگر معاملات بھی۔

اداریہ روزنامہ جنگ
 

موبائل کارڈز پر لیے جانیوالے ٹیکس معطل

0
0

چیف جسٹس پاکستان نے موبائل کمپنیز اور ایف بی آر کی جانب سے موبائل کارڈز پر وصول کیے جانیوالے ٹیکسز معطل کر دئیے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں موبائل فون کارڈز پر ٹیکس کٹوتی کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے ٹیکسوں کو معطل کرنے کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے دو دن کی مہلت دیدی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ہدایت دی ہے کہ جس صارف کا موبائل فون کا استعمال مقررہ حد سے زیادہ ہے اس سے ٹیکس لیں، موبائل فون کارڈز پر ٹیکس وصولی کیلئے جامع پالیسی بنائی جائے۔

سپریم کورٹ میں موبائل کارڈز پرٹیکس کٹوتی کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آج کل تو ریڑھی والا بھی موبائل فون استعمال کرتا ہے وہ ٹیکس نیٹ میں کیسے آگیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ٹیکس دہندہ اور نادہندہ کے درمیان فرق واضح نہ کرنا امتیازی سلوک ہے اور آئین کے تحت امتیازی پالیسی کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیس کی سماعت کے موقع پر چیئرمین ایف بی آر بھی عدالت میں پیش ہوئے ۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ جو شخص ٹیکس نیٹ میں نہیں آتا اس سے ٹیکس کیسے وصول کیا جا سکتا ہے؟ جس پر چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ موبائل کالز پر سروسز چارجز کی کٹوتی کمپنیز کا ذاتی عمل ہے۔

چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ 130 ملین افراد موبائل استعمال کرتے ہیں جبکہ ملک بھر میں ٹیکس دینے والے افراد کی مجموعی تعداد 5 فیصد ہے۔ اس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ 5 فیصد لوگوں سے ٹیکس لینے کے لیے 130 ملین پر موبائل ٹیکس کیسے لاگو ہو سکتا ہے ؟
 

سعودی عرب میں پاکستانیوں پر ٹیکس دگنا کر دیا گیا

0
0

سعودی عرب میں مقیم پاکستانی فیملیز کی پریشانی میں مزید اضافہ ہونے والا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ٹیکسز میں دگنا اضافہ ہے ، گزشتہ برس ورکرز کی فیملی کے ہر فرد پر ماہانہ 100 ریال ٹیکس عائد کیا گیا تھا جسے رواں برس جولائی میں 200 ریال تک کر دیا جائیگا، اس کا صاف مطلب ہے کہ اب ہر پاکستانی کو ماہانہ 25 ہزار 600 روپے ادا کرنا ہونگے جبکہ سال 2020 تک ٹیکس کی یہ شرح 51 ہزار 600 روپے ماہانہ تک پہنچ جائیگی، ذرائع کے مطابق سعودی عرب کے اس اقدام سے 25 سے 30 ہزار خاندان سعودی عرب سے واپس پاکستان منتقل ہو سکتے ہیں، پاکستان کو ایک کثیر رقم ترسیلات زر کی مد میں سعودی عرب سے ہر سال موصول ہوتی ہے، اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال 2017 کے دوران پاکستان کو 19 ارب 30 کروڑ ڈالر کی ترسیلات زر وصول ہوئیں جس میں سے 5 ارب 50 کروڑ ڈالر سعودی عرب سے وصول ہوئے ، تجزیہ کاروں کے مطابق سعودی عرب کے حالیہ اقدامات کے باعث کئی فیملیز پاکستان واپس آجائیں گی جس سے ترسیلات زر میں کمی کا خدشہ ہے۔

پرویز مشرف کی متوقع واپسی، کیا سابق آمر کا کوئی سیاسی مستقبل ہے؟

0
0

پاکستان میں سابق صدر اور سابق فوجی سربراہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی واپسی کی خبروں نے ملک کے سیاسی ماحول کو ایک بار پھر گرما دیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سابق فوجی حکمراں کا کوئی سیاسی مستقبل بھی ہے یا نہیں۔
پاکستان کے کئی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ نادیدہ قوتیں سابق صدر پرویز مشرف کو واپس لانا چاہتی ہیں تاکہ کہ چھوٹی جماعتوں کا اتحاد بنا کر سابق فوجی آمر کو اس کا قائد بنا دیا جائے لیکن ملک میں کئی حلقے یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ کیا سابق فوجی حکمراں کا کوئی سیاسی مستقبل بھی ہے یا نہیں۔ ان کے ناقدین اُس عدالتی فیصلے پر بھی کھل کر تنقید کر رہے ہیں، جس کے تحت سابق فوجی آمر کو مشروط طور پر کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کی اجازت دی گئی ہے اور عدالت کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ پیش ہو جائیں تو انہیں گرفتا ر نہیں کیا جائے گا۔

سابق پاکستانی صدر اور فوجی سربراہ پرویز مشرف نے کہا ہے کہ وہ بے نظیر بھٹو قتل کے مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان آنے پر تیار ہیں۔ عدالت نے ابھی جمعرات کے دن ہی پرویز مشرف کو مفرور ملزم قرار دیا تھا۔ عدالت کی طرف سے اس گارنٹی پر نواز شریف سمیت کئی سیاسی رہنماؤں نے تنقید کی ہے۔ تاہم اب جنرل مشرف کی پارٹی اس سے بھی زیادہ ضمانتیں چاہتی ہے۔ سابق فوجی حکمران کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی رہنما شہزاد ستی نے ان ضمانتوں کے حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہم چاہتے ہیں کہ جنرل مشرف کو اس بات کی گارنٹی دی جائے کہ انہیں کم از کم انتخابات تک گرفتار نہیں کیا جائے گا اور انہیں ملک میں آزادانہ طور پر نقل و حرکت کی اجازت ہو گی۔ پہلے ہم چاہتے تھے کہ جنرل صاحب تیرہ جون کو عدالت میں پیش ہو جائیں لیکن اب ہمیں اس نوکر شاہی پر اعتبار نہیں رہا، جس میں نواز شریف کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے جنرل صاحب کا شناختی کارڈ بلاک کر کے نواز شریف سے وفاداری کا ثبوت دیا ہے۔ اب شناختی کارڈ کو بحال کر دیا گیا ہے اور ہم ان کی واپسی کے حوالے سے لائحہ عمل تیار کر رہے ہیں۔ تاہم واپسی کے حوالے سے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔‘‘

جنرل مشرف نے 1999ء سے 2007ء تک ملک میں ایک طاقتور حکمران کے طور پر حکومت کی۔ تاہم دو ہزار آٹھ میں پی پی پی کی حکومت آنے کے بعد، انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ کچھ برسوں پہلے جب جنرل مشرف پاکستان واپس آئے تو انہیں یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ ان کے استقبال کے لیے چند سو افراد بھی جمع نہیں ہو سکے۔ اس کے باوجود ان کی پارٹی کا دعویٰ ہے کہ جنرل مشرف اور ان کی جماعت بھر پور انداز میں انتخابات میں حصہ لے گی۔ اس حوالے سے شہزاد ستی نے بتایا، ’’جنرل مشرف چترال، کراچی اور لیہ سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور ان کے کاغذاتِ نامزدگی بھی جمع کرا دیے گئے ہیں۔ ہماری جماعت کو تین سو دراخواستیں امیدواوں کی موصول ہوئی تھیں اور ہم نے تقریباﹰ دو سو افراد کو ٹکٹس جاری کیے ہیں، جو پورے ملک سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات لڑیں گے۔‘‘

شہزاد کا دعویٰ ہے کہ اگر گزشتہ انتخابات سے پہلے جنرل مشرف کو نا اہل قرار نہیں دیا جاتا تو وہ چترال سے قومی اسمبلی کی نشست جیت جاتے: ’’اس بار بھی ہمیں امید ہے کہ وہ کراچی، لیہ اور چترال تینوں نشتوں سے جیتیں گے۔‘‘ پاکستان کے کئی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ نادیدہ قوتیں سابق صدر پرویز مشرف کو واپس لانا چاہتی ہیں تاکہ کہ چھوٹی جماعتوں کا اتحاد بنا کر سابق فوجی آمر کو اس کا قائد بنا دیا جائے۔ لیکن ان کے ناقدین کے خیال میں مشرف کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے۔ ماضی میں جنرل مشرف کے خلاف تحریک میں حصہ لینے والے جنرل امجد شعیب کے خیال میں مشرف خوشامدیوں میں گھرے ہوئے ہیں اور وہی ان کو آنے پر مجبور کر رہے ہیں : ’’میرے خیال میں مشرف کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں۔ وہ پہلے بھی فیس بک پر اپنے پیروکاروں کی تعداد کو دیکھ کر بہت خوش ہو گئے تھے اور اس کے بعد ان کو مایوسی ہوئی۔ ان کے اردگرد خوشامدی بیٹھے ہوئے ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ مشرف اگر واپس آتا ہے تو ان کے سیاسی قد میں اضافہ ہو گا۔‘‘

سابق امیرِ جماعتِ اسلامی سید منور حسین بھی جنرل امجد کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مشرف کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں : ’’ایک ایسا شخص جس نے ایک بار نہیں بلکہ دو بار آئین توڑا ہو، اس کا ملک میں کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہو سکتا۔ تاہم عدالت نے جو اس کی واپسی کے حوالے سے اجازت دی ہے، اس پر عوام کے شدید تحفظات ہیں۔ لوگوں میں پہلے ہی یہ باتیں چل رہی تھیں کہ اگر آپ فوج میں اونچے عہدے پر پہنچ جائیں تو سیاہ سفید کے مالک بن جاتے ہیں۔ اس فیصلے سے اس تاثر کو مذید تقویت ملی ہے اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے جو دعوے کئے جارہے تھے، ان پر بھی اب لوگ شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔‘‘

کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں کچھ نادیدہ قوتیں مشرف کو واپس لانا چاہتی ہیں۔ مشرف کے خلاف مقدمات دائر کرنے والے وکیل اور تجزیہ نگار کرنل انعام الرحیم کے خیال میں کوئی قوت ان کو لانا چاہتی ہے : ’’خلائی مخلوق ان کو لا کر چھوٹی جماعتوں کا قائد بنانا چاہتی ہے۔ جس میں کوئی ستائیس کے قریب چھوٹی جماعتیں ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ایم کیو ایم کے کسی گروپ کو بھی اس میں شامل کر لیا جائے لیکن میرے خیال میں مشرف بزدل آدمی ہے۔ اس کے خلاف اکبر بگٹی مقدمہ قتل، بے نظیر مقدمہ قتل، غداری اور لال مسجد جیسے سنگین مقدمات ہیں۔ اس کے علاوہ اب نیب بھی اس کے خلاف انکوائری کھول رہی ہے ۔ تو ایک تو وہ اس وجہ سے نہیں آئے گا۔ دوسرا یہ ہے کہ موجودہ انتخابات کے لیے بہت ساری تفصیلات امیدواروں کو دینا پڑ رہی ہے۔ اس لیے بھی شاید جنرل مشرف آنے سے کترائے۔ لیکن اگر وہ آتا ہے تو ملک میں اس کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے۔‘‘

بشکریہ DW اردو
 

اتنا بڑا کمانڈو وطن واپس آنے سے خوفزدہ کیوں ہے ؟

0
0

سپریم کورٹ نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو ایک دن کی مہلت دیتے ہوئے 14 جون کو وطن واپس آ کر عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ اگر پرویز مشرف وطن واپس نہ آئے تو اگلے ماہ ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ان کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال نہیں ہونے دیں گے۔ اس سے پہلے عدالت نے ملزم پرویز مشرف کو 13 جون تک سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری برانچ میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے لاہور رجسٹری برانچ میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے انتخابات میں حصہ لینے پر تاحیات پابندی سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست کی سماعت کی۔

عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا ان کے موکل عدالت میں پیش ہو رہے ہیں جس پر پرویز مشروف کے وکیل کا کہنا تھا کہ اگر ان کی جان کے تحفظ کی ضمانت دی جائے تو ان کے موکل آئین شکنی کے مقدمے سمیت دیگر مقدمات کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔ اس پر بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عدالت ملزم پرویز مشرف کی واپسی سے متعلق ان کی طرف سے پیش کی جانے والی شرائط کی پابند نہیں ہے۔ عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل سے کہا کہ ان کے موکل کس خوف میں مبتلا ہیں اور کس بات کی ضمانت چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’اتنا بڑا کمانڈو وطن واپس آنے میں کیوں خوف زدہ ہے۔‘ اُنھوں نے کہا کہ جب پرویز مشرف نے سنہ 1999 میں اتنے بڑے ملک پر قبضہ کیا تھا تو اس وقت اُنھیں خوف کیوں نہیں آیا۔

واضح رہے کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے جب اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو ختم کرنے کے بعد اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور آئین کو معطل کر کے عبوری آئینی حکم نامہ جاری کیا تھا تو چیف جسٹس ثاقب نثار ان اعلی عدلیہ کے ججز میں شامل تھے جنھوں نے پرویز مشرف کے پہلے پی سی او کے تحت حلف اُٹھایا تھا۔ پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل کو رعشہ کی بیماری ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف ایئر ایمبولنس سے آجائیں تو ان کے طبی معائنے کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دے دیں گے۔ بینچ کے سربراہ نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ اگر پرویز مشرف کو رعشہ کی بیماری ہے تو وہ عام انتخابات میں ’مکہ‘ کیسے لہرائیں گے۔

عدالت نے ملزم پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے سے متعلق کہا کہ سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی درخواست پر پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی تھی بلکہ اس وقت کی حکومت نے ملزم کا نام ای سی ایل سے نکال کر اُنھیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی۔ پرویز مشرف کی وطن واپسی سے متعلق سپریم کورٹ ملزم کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بحال کرنے کا بھی حکم دے رکھا ہے۔ سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے اپنے اقتدار کے آخری ایام میں پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے حکم پر پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کر دیا تھا۔

بشکریہ بی بی سی اردو
 

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live