Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

Real condition of Islamic world by Dr. Shahid Hassan

$
0
0


Real condition of Islamic world by Dr. Shahid Hassan
Enhanced by Zemanta

Zaid Hamid

$
0
0

Syed Zaiduzzaman Hamid, better known as Zaid Hamid, is a Pakistanipolitical commentator.[1][2] His byline in newspaper articles has been Zaid Zaman.[1] 

Early life and education 

Zaid was born in Karachi, in 1964. His father, Col. Zaman Hamid (Retd), served in the Pakistan Army. Zaid spent his early life in Karachi. He received a Bachelor of Engineering (BE) degree in Computer Systems Engineering from NED UniversityKarachi in 1980's.

Political views 

Through his TV programmes, Hamid has claimed that a nexus between RAWMossad and the CIA is responsible for the destabilization of Pakistan. He also claims that the November 2008 Mumbai attacks, were part of a plan hatched by "Hindu Zionists"", and that it was an attempt by the Indians to stage an attack just like the Americans executed the September 11 attacks.[1][2][3][2]

Criticism 

A number of Pakistani journalists, writers and Islamic scholars[4] have criticized Hamid and have described his views on politics and security as conspiracy theories.[5][6][7][8]
On 20-November-2013, Imaad Khalid; a former staff member of Zaid Hamid, revealed at a press conference, that Zaid Hamid was plotting to assassinate Pro-democracy Army Chief, Ashfaq Pervaiz Kayani. He showed Media the emails that he claims were sent by Zaid Hamid to different Army Officers asking them for a revolt against there own chief. He said “Zaid Hamid is a quisling and enemy of Islam and Pakistan, who had plotted unsuccessfully to assassinate the pro-democracy army chief Gen Kayani,”. Khalid further claimed that Zaid's hit list also contained the names of Chief Justice Iftikhar Muhammad ChaudhryPrime Minister Nawaz Sharif, and others from the media and the judiciary.
Responding to the allegations Zaid Hamid wrote on Twitter, “Pakarmy (Pakistan Army) is an extremely professional org. Anyone contacting thousands of officers for rebellion against COAS cannot survive,” in another tweet he wrote, “Imaad was our team member who suddenly became hostile in April & joined the enemies.”[9]

Hungo Drone Attack by Talat Hussain

$
0
0

Hungo Drone Attack by Talat Hussain

Enhanced by Zemanta

ضمیر اور مفاد...........شاہ نواز فاروقی

$
0
0



ضمیر اور مفاد
شاہ نواز فاروقی
ایک اعتبار سے دیکھاجائے تو زندگی کے دو قطبین یا دو Polesہیں۔ایک ضمیر اور دوسرا مفاد۔ انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ گیت ضمیرکے گاتاہے مگر زندگی اپنے مفادات کے تحت بسرکرتاہے۔ اس کے ہاتھ میں پرچم ضمیرکا ہوتاہے لیکن پیش قدمی وہ مفادات کی جانب کرتاہے۔ اس کی آنکھوں میں خواب ضمیرکے ہوتے ہیں مگر اس کی زندگی پر حکومت مفادات کی ہوتی ہے۔ اس کی ایک اچھی مثال فیض احمدفیض ہیں۔ فیض احمد فیض آزادی کے شاعرتھے۔ مزاحمت کے شاعرتھے۔ انقلاب کے شاعرتھے۔ انہوں نے ویت نام میں امریکا کے خلاف مزاحمت کی حمایت کی۔ اس کے لیے نغمے لکھے۔ مضامین تحریرکیے۔ بیانات جاری کیے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ویت نام ایک کمیونسٹ ملک تھا اور امریکا نے ایک کمیونسٹ ملک کی حرمت پامال کی تھی۔ چنانچہ ان کے لیے ویت نام کی مزاحمت باطل کے خلاف حق کی مزاحمت تھی۔ غلامی کے خلاف آزادی کی معرکہ آرائی تھی۔ مفادات کے خلاف ضمیرکی جنگ تھی۔ فیض احمد فیض نے فلسطین کی تحریک مزاحمت کی حمایت کی اس کے لیے گیت لکھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فلسطین کی تحریک آزادی کے قائد یاسرعرفات سوشلسٹ تھے اور ان کی شہرت روس نواز رہنما کی تھی۔ لیکن سوویت یونین نے افغانستان میں مداخلت کی تو فیض کا یہ کردار قصہ پارینہ بن گیا۔ انہوں نے افغانستان کی جدوجہد آزادی کے لیے نہ کوئی نظم لکھی۔ نہ کوئی مضمون تحریرکیا نہ کوئی بیان جاری کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ افغانستان میں مداخلت کرنے والا سوویت یونین فیض کا نظریاتی کعبہ تھا اور اس کے خلاف آزادی کی جدوجہدکرنے والے اسلام کا پرچم لیے کھڑے تھے۔ فیض سے اس بارے میں کئی بار سوالات بھی کیے گئے مگر وہ ہربارگول مول جواب دے کر رہ گئے۔ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کو پوری مغربی دنیاکی زبردست حمایت حاصل ہوئی۔ مغربی دنیا کے سیاست دان‘ دانشور اور صحافی سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو مجاہدین کہتے۔ انہیں فریڈم فائٹرکہہ کر پکارتے۔ گلبدین حکمت یاراوراحمد شاہ مسعود امریکا اور یورپ کے پریس میں ہالی ووڈ کے سپراسٹارزکی طرح رپورٹ ہوتے۔ امریکا کے صدر رونلڈ ریگن نے ایک بار مجاہدین کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ مجاہدین کا اخلاقی مقام امریکا کے بانیان کے مساوی ہے۔ لیکن افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے ساتھ ہی امریکا اور یورپ کے رہنماوں ‘دانشوروں اور صحافیوں کے اذہان پر ان کے نام نہاد قومی مفادات نے قبضہ کرلیا۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے مجاہدین دہشت گردبن گئے۔ حریت پسندرجعت پسند کہلانے لگے۔ امریکا کے بانیوں کے مساوی مقام کے حامل لوگ درندے بن گئے۔ انسانی تہذیب کی بقاء کی جنگ لڑنے والے تہذیب دشمن ٹھہرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں انسانوں کے قلوب اور اذہان پر ضمیرکے بجائے مفادات کا غلبہ ہوگیا۔ مفادات کا قطب ضمیر کے قطب کو نگل گیا۔ یہ مجموعی طورپر انسانیت کی ایک افسوسناک تصویرہے۔ لیکن زندگی کبھی استثنائی مثالوں سے خالی نہیں ہوتی۔ امریکا کی 30 کروڑ کی آبادی میں ایک نعوم چومسکی بھی ہوتے ہیں۔
 

Pervaiz Mushrraf Trail by Abullah Tariq Sohail

$
0
0
Pervaiz Mushrraf Trail by Abullah Tariq Sohail
Enhanced by Zemanta

Pakistan Nation is not responsible

$
0
0


Pakistan Nation is not responsible
Enhanced by Zemanta

Reward of Hard working

Good governance By Dr. Mujahid Mansoori

$
0
0



Good governance By Dr. Mujahid Mansoori

Tears of Waziristan

$
0
0

             




Tears of Waziristan

Enhanced by Zemanta

Iran and US Atomic Deal

پاکستانی میڈیاکی جادوگری…......

$
0
0


پاکستان سمیت دنیا بھر میں عوام کو معلومات پہنچانے اور ان کا سیاسی، سماجی، مذہبی، معاشی اور اخلاقی شعور اجاگر کرنے میں ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان میں پچھلے دس برسوں میں جن بڑے مراکز نے اپنی طاقت منوائی ہے ان میں عدلیہ اور میڈیا پیش پیش ہیں۔ اس وقت پاکستان کی ریاست اور حکومت سمیت بالادست طبقات سمجھتے ہیں کہ میڈیا ایک ایسی طاقت بن گیا ہے جو اچھی ہے یا بری، لیکن اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ خود میڈیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آج پاکستان کے طاقت کے مراکز میں دیگر فریقین کے مقابلے میں میڈیا ہی اصل طاقت ہے۔ ایک زمانے میں الیکٹرانک میڈیا ریاست کے کنٹرول میں تھا، لیکن اب میڈیا کی نج کاری کے بعد ایسا ممکن نہیں رہا۔
میڈیا کا جو پھیلائو ہوا وہ صرف الیکٹرانک میڈیا تک ہی محدود نہیں، بلکہ پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا بھی اب ایک نئی طاقت بن کر سامنے آئے ہیں۔ میڈیا کا مضبوط ہونا ایک مثبت عمل ہے، کیونکہ پاکستان کو نہ صرف مضبوط بلکہ ذمہ دار میڈیا کی ضرورت ہے۔ بالخصوص ایک ایسی ریاست اور حکمرانی میں جو عوام کے مفادات سے زیادہ ذاتی مفادات کی سیاست کرتی ہو، اس میں میڈیا عام لوگوں کے حقوق کا ضامن بنتا ہے۔ لیکن اگر ہم پاکستان کے مجموعی میڈیا کا تجزیہ کریں تو اس کو کسی ایک جملے میں سمویا نہیں جاسکتا۔ کیونکہ کوئی چیز نہ تو مکمل بری ہوتی ہے اور نہ ہی مکمل اچھی۔ یعنی چیزوں کے دونوں پہلو ہوتے ہیں… کوئی بہت زیادہ اچھا اور کوئی بہت زیادہ برا۔ اس لیے یہ کہنا بھی مکمل سچ نہیں ہوگا کہ پاکستانی میڈیا نے کوئی اچھا کام نہیں کیا۔ یقینا ریاستی میڈیا کے مقابلے میں پرائیویٹ میڈیا میں ایسا سچ بھی سامنے لایا جاتا ہے جو عمومی طور پر ریاستی میڈیا میں ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا سے عوام کو معلومات اور شعور ملا ہے تو اس سے مکمل انکار نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن یہاں سوال مجموعی میڈیا کا ہے۔ ہمیں صورت حال کا تجزیہ کرتے وقت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو دو مختلف صورتوں میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مجموعی طور پر پرنٹ میڈیا کی ایک تاریخ ہے۔ اس تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں پرنٹ میڈیا اور اس میں کام کرنے والے صحافیوں اور ان کی تنظیموں کی ایک بڑی جدوجہد بھی نظر آتی ہے۔ اگرچہ اب یہ جدوجہد اور تنظیم سازی کا عمل دیگر شعبوں کی طرح کمزور ہوا ہے۔ 1960 سے 1980 کی دہائی تک پرنٹ میڈیا کا کردار قابل فخر تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ دائیں اور بائیں بازو کی نظریاتی جنگ بھی تھی۔ اس جنگ کا ایک بڑا اثر ہمیں پرنٹ میڈیا میں غالب نظر آتا تھا۔ لیکن اب پرنٹ میڈیا کی صورت حال بھی ماضی سے کافی مختلف ہوگئی ہے۔ اب نہ نظریاتی صحافت رہی اور نہ ہی وہ نظریاتی صحافی… اس کی جگہ کمرشل ازم نے لے کر نظریاتی محاذ کو شدید نقصان پہنچایا۔ البتہ اس کے برعکس الیکٹرانک میڈیا کی کہانی کافی مختلف ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کا جو طوفان بڑی تیزی سے پاکستانی ریاست اور حکومت سمیت عام لوگوں میں داخل ہوا وہ اب ایک بڑے کھیل میں تبدیل ہوگیا ہے۔
پاکستان میں مجموعی طور پر میڈیا کے حق اور مخالفت میں کافی دلائل دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح سیاسی اور میڈیا کی اشرافیہ میں میڈیا کے بارے میں جو رائے ہے وہ بھی تقسیم ہے۔ میڈیا کے حق میں ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس نے اپنی طاقت سے ایک نیا معاشرہ تشکیل دیا ہے، لوگوں کو وہ معلومات بھی مل رہی ہیں جن کا تصور ماضی میں ممکن نہیں تھا۔ ریاست، حکمرانوں اور بالادست طبقات کے حکمرانی کے انداز کومیڈیا نے بے نقاب کیا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ایک دوسری رائے بھی ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس رائے کے مطابق میڈیا مجموعی طور پر ذمہ دار کردار ادا کرنے کے بجائے غیر ذمہ داری کا زیادہ مظاہرہ کرتا ہے۔ معلومات تو دی جاتی ہیں لیکن تحقیق کا فقدان نظر آتا ہے۔ میڈیا مجموعی طور پر بحران پیدا کرتا ہے چاہے اسے یہ بحران جان بوجھ کر ہی کیوں نہ پیدا کرنے پڑیں۔ بھارت کی مشہور دانشور اور انسانی حقوق کی کارکن ارون دھتی رائے کے بقول ’’کرائسس میں چلنے والے میڈیا کو اپنی بقا کے لیے بھی کرائسس درکار ہوتا ہے‘‘۔ یعنی بحران کو پیدا کرنا اس میڈیا کی مجبوری ہے، اور اس کے بغیر یہ اپنا پیٹ نہیں بھر سکتا۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا کیوں ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اس سے بھی غلطیاں سرزد ہورہی ہیں؟
ایک بڑا مسئلہ نان ایشوز کی سیاست ہے جو میڈیا کی مدد سے بہت کامیابی سے چلائی جارہی ہے۔ حال ہی میں ملک میں ایک بحث کون شہید اور کون ظالم ہے کے تناظر میں چلائی گئی۔ امیر جماعت اسلامی سید منورحسن کی جانب سے ایک ٹی وی انٹرویو میں اٹھائے گئے ایک سوال پر کہ کون شہید ہے اورکون نہیں اس کا فیصلہ ہونا چاہیے، اس پر میڈیا میں جو تماشا لگایا گیا وہ اہم معاملہ ہے۔ کیا میڈیا میں حساس ادارے سمیت کسی پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا؟ اور کیا سوال اٹھانے پر کسی کو محب وطن یا غیر محب وطن قرار دیا جاسکتا ہے؟ اسی طرح میڈیا کے تناظر میں یہ بحث ہونی چاہیے کہ کیا اس طرح کے موضوعات پر بات کی جانی چاہیے؟ اور جو میڈیا میں ان موضوعات کو زیر بحث لاتے ہیں اُن کے اصل مقاصد کیا ہیں؟ یہاں سوال یہ ہے کہ لوگوں کو محتاط گفتگو سے کون دور لے کر جارہا ہے؟ یہ جو ہم نے میڈیا میں ریٹنگ کاروبار شروع کررکھا ہے اس کا کون ازالہ کرے گا؟ کیونکہ ہم متنازع معاملات کو اچھال کر ایک طرف اپنے لیے ریٹنگ کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف خود کو مقبولیت دلانے کے لیے اس طرح کا کردار ادا کرنا اپنے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ میڈیا میں ایک لفظprovokingکا استعمال ہوتا ہے جہاں آپ کوشش کرتے ہیں کہ بال کی کھال اتار کر ایسی بات نکلوائی جائے جو تماشا بنے۔ اس وقت آپ کے سامنے تماشا یا متنازع امور اہم ہوتے ہیں اور ذمہ داری کا پہلو پیچھے چلا جاتا ہے۔ حالانکہ جس تناظر میں سید منور حسن کی بات سامنے آئی اس میں اہم سوال یہ نہیں کہ کون شہید اورکون ظالم ہے، بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جس جنگ کا شکار ہے اس سے کیسے باہر نکلا جائے۔ اہم بات اس جنگ سے متعلق سوالات کی ہے جو قومی بحران سے نکلنے کا راستہ فراہم کرسکیں، لیکن ہم ایسے معاملات میں الجھے ہوئے ہیں جو صورت حال کو بہتر بنانے کے بجائے رائے عامہ کو مزید تقسیم کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
سید منور حسن کے بیان پر میڈیا نے جو ماحول پیدا کیا ایسا پہلی بار نہیں ہوا، بلکہ یہ مظاہرہ وقتاً فوقتاً دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں عقلی گفتگو کا پہلو کم اور جذبات یا اپنی خواہشات کے حصار کا معاملہ زیادہ سرفہرست ہوجاتا ہے۔ دراصل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے ’’کوڈ آف کنڈکٹ‘‘ نامی کوئی چیز یا قانون بھی ہوتا ہے۔ پاکستان میں کیونکہ قانون پر عملدرآمد کا پہلو کافی کمزور ہے اس لیے میڈیا سے متعلق بنائے گئے قانون پر عملدرآمد کی صورت حال اچھی نہیں ہے۔ پیمرا، پاکستان پریس کونسل، انفارمیشن منسٹری، اخباری اور میڈیا تنظیموں سمیت سب کی کارکردگی اس پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں کوئی قانون کے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سب ہی یہ سمجھتے ہیں کہ جو ہم کررہے ہیں وہی قانون ہے اور اسی پر معاملہ آگے بڑھنا چاہیے۔ بعض اوقات میڈیا اپنی ناسمجھی کی بنیاد پر بہت سے مسائل پیدا کرتا ہے، لیکناکثر اوقات جان بوجھ کر معاملات کو خراب کیا جاتا ہے۔کیونکہ ریاست، حکومت اور بالادست طبقات مل کر میڈیا کو اپنے حق میں بھی استعمال کرتے ہیں یا وہ میڈیا کے ساتھ مفادات کے معاملات کے ساتھ کچھ لو اورکچھ دو کی بنیاد پر آگے بڑھتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ میڈیا میں عملی طور پر ’’ گیٹ کیپر ‘‘ کا کردا ر ختم ہوگیا ہے۔ نہ صحافیوں کو گائیڈ کرنے والاکوئی ہے اورنہ کوئی میڈیا میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو یہ بتانے کے لیے تیار ہے کہ میڈیا کو کیسے چلایا جائے۔ میڈیا میں جو کچھ دکھایا جاتا ہے اس کی جانچ پڑتال کا نظام انتہائی ناقص ہے اور سنگین مواد کی روک تھام کا کوئی نظام نہیں۔
دراصل میڈیا نان ایشوز کی سیاست زیادہ کرتا ہے۔ اس کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہوتی ہے کہ لوگوں کو مختلف فکری مغالطوں میں الجھاکر ان کی اصل مسائل سے توجہ ہٹائی جائے۔ مصنوعی محاذ آرائی اور ذاتیات پر مبنی پروگرام کرکے ہم اجتماعی مسائل کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔یہ بحث بھی ہونی چاہیے کہ جو کچھ میڈیا نے اب تک قوم کے سامنے رکھا اس سے قومی معاملات میں کس حد تک درستی کا پہلو پیدا ہوا۔اصل میں ہم بھول جاتے ہیں کہ میڈیا کا ایک بڑا مقصد قومی مسائل کے حل میں مددگار کا کردار ادا کرنا بھی ہوتا ہے۔بین الاقوامی میڈیا کے ماہر استاد مالکم ایکس نے ذمہ دار میڈیا کے بارے میں ایک اہم بات کہی ہے جو قابلِ غور ہے۔ ان کے بقول ’’ اگر آپ محتاط نہیں ہیں تومیڈیا آپ کو اُن لوگوں سے نفرت کرنا سکھادے گا جو ظلم و زیادتی کا شکار ہیں، اور ان لوگوں سے محبت جو ظلم و زیادتی کررہے ہیں۔‘‘اس سے مراد یہ ہے کہ ہم میڈیا میں کس حد تک ذمہ داری کا مظاہر ہ کررہے ہیں، اس کا جواب میڈیا سے وابستہ افراد کو ضرور تلاش کرنا چاہیے۔
اہم سوال یہ ہے کہ میڈیا میں ایجنڈا کون طے کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارا میڈیا آزاد ہوگیا ہے، لیکن اس آزادی کے باوجود میڈیا کا ایجنڈا کن کے ہاتھوں میں ہے اس پر بھی بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک زمانے میں ہمارے میڈیا میں ایڈیٹر انسٹی ٹیوشن ہوا کرتا تھا، لیکن اب اس کی جگہ مالک نے لے لی ہے۔ اس لیے ایجنڈا مالک کے قریب ہوگیا ہے۔ اسی طرح ایک دور میں کہا جاتا تھا کہ ہمارے میڈیا میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ یعنی میڈیا اسٹیبلشمنٹ یا پس پردہ قوتوں کے دبائو میں ہوتا ہے۔ یہ بات کافی حد تک ٹھیک ہے، لیکن اب معاملہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ گیا ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ بھی میڈیا میں اہمیت اختیار کرگئی ہے۔ اس بیرونی اسٹیبلشمنٹ کا دائرہ کار اس لیے بھی بڑھنا تھا کہ پاکستان کی سیاست اب ایک گلوبل سیاست کا حصہ بن گئی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ہم جس عالمی جنگ کا حصہ بنے ہیں اس میں بیرونی طاقتوں کا سامنے آنا فطری امر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب بڑی طاقتیں عالمی سطح پر جنگوں کی حکمت عملیاں طے کرتی ہیں تو اس میں ایک حکمت عملی عالمی میڈیا کی بھی ہوتی ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت یہ طے کیا جاتا ہے کہ ہمیں میڈیا کے ہتھیار کو اپنی اس جنگ میں کیسے اپنے حق میں استعمال کرنا ہے۔ مثال کے طور پر ایک طرف سیاسی و عسکری قیادت طالبان کے ساتھ مذاکرات پر متفق ہوتی ہے تو دوسری طرف میڈیا ہی کی مدد سے یہ تاثر بڑھایا جاتا ہے کہ مذاکرات کن لوگوں سے کیے جارہے ہیں اور کیا دہشت گردوں سے مذاکرات ہوسکتے ہیں!کیا ایسا نہیں کہ ریاست پہلے ہی طے کرچکی ہے کہ ہمیں طالبان کے خلاف آپریشن کرنا ہے، لیکن پہلے آپریشن کرنے کے بجائے مذاکرات کا کھیل رچا کر لوگوں کو مطمئن کیا جائے کہ دیکھو ہم مذاکرات کے حامی تھے، لیکن طالبان مذاکرات کے لیے تیار نہیں، اس لیے ہمیں آپریشن مجبوری کے تحت کرنا پڑا ہے۔
اس جنگ میں امریکہ سمیت عالمی طاقتیں پاکستان کے میڈیا کو براہِ راست مالی مدد فراہم کررہی ہیں۔ یہ وہ رقم ہے جو رسمی طریقے سے سامنے آئی ہے۔ اس کے تحت بعض میڈیا مالکان امریکی امداد سے اپنے پروگرام چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک چینل نے کچھ سال قبل عورتوں کے حقوق سے متعلق ایک مہم بھی چلائی تھی۔صحافیوں کو امریکی دورے بھی کروائے جاتے ہیں جہاں ان کو مختلف پروگراموں کا حصہ بنایا جاتا ہے۔صحافیوں کے لیے اسکالر شپ پروگرام بھی جاری کیے گئے ہیں جس کے تحت تواتر سے صحافی امریکہ جارہے ہیں۔ایک طرف میڈیا میں کام کرنے والوں پر سرمایہ کاری کی جارہی ہے تو دوسری طرف مالکان کو بھی مختلف فوائد دے کر ان کو اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ معاملہ محض سیاست اور سیکورٹی کے معاملات تک محدودنہیں، بلکہ سماجی اور کلچر کے معاملات پر بھی سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔حالانکہ میڈیا کے کوڈ میں یہ شامل ہے کہ وہ براہِ راست بیرونی امداد نہیں لے گا، لیکن ایسا ہورہا ہے اور کوئی اس پر پریشان نہیں کہ اس کھیل کے پیچھے اصل سیاست کیا ہے ا و رکیوں اس پر خاموشی اختیار کی گئی ہے۔
گزشتہ ایک دہائی سے جنگ، دہشت گردی، خودکش حملے اور پُرتشدد واقعات ہمارے میڈیا میں ’’ہاٹ اسٹوری‘‘ کے طور پر موجود ہیں۔ اس دہشت گردی کی جنگ نے جہاں ہمیں کمزور کیا، وہیں میڈیا کے کاروبار کو بہت وسعت دی۔ اشتہارات کی دنیا میں جو انقلاب آئے انہوں نے اس جنگ میں بنیادی کردار ادا کیا اور اس کے نتیجے میں میڈیا سے وابستہ مالکان نے خوب پیسہ کمایا۔ کیونکہ ریاست اور حکمران طبقات جو اس وقت جنگوں کی قیادت کرتے ہیں انھیں اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے میڈیا کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عراق کی جنگ نے امریکی میڈیا کی ریٹنگ بڑھائی جس کے نتیجے میں وہاں کے میڈیا نے خوب پیسہ کمایا۔ اس جنگ میں میڈیا نے لوگوں میں کئی فکری خلفشار پیدا کیے۔ عالمی سطح پر یہ بحث بھی موجود ہے کہ کیا میڈیا کا طرزعمل دہشت گردی کو کم کرنے کا سبب بن رہا ہے یا اس کھیل کو مزید تقویت دے کر ریاستوں کے لیے مسائل پیدا کررہا ہے؟
اس کھیل میں ریاست اور حکمرانوں کا بھی ایک خاص ایجنڈا ہوتا ہے۔ کیونکہ ریاست اور حکمران طبقات جس انداز سے قومی معاملات پر یوٹرن لیتے ہیں تو انھیں لوگوں کو پرانی باتوں سے نکال کرنئے کھیل کا حصہ بنانا بھی اہم ہوتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ پاکستانی میڈیا کے اہم افراد اب براہِ راست ملکی اور غیر ملکی ایجنسیوں کی مدد سے اپنا کام آگے بڑھاتے ہیں۔ اس وقت بھی ملک میں میڈیا کے مختلف چینلز کے درمیان یہ مقابلہ جاری ہے کہ کون سب سے زیادہ غیر ملکی امداد حاصل کرتا ہے۔ مقدمات عدالت میں ہیں اور بعض اینکرز ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔بعض حضرات نے تو دستاویزات بھی پیش کیں کہ کس نے کس سے غیر ملکی امداد حاصل کی۔عمران خان واحدآدمی ہیں جنھوں نے کھل کر ایک میڈیا گروپ پر تنقید کی اور کہا کہ وہ ثابت کریں گے جو میڈیا غیر ملکی فنڈ سے چل رہے ہیں ان کے پیچھے کن لوگوں کا ہاتھ ہے۔ اب یہ معاملہ عدالت میں ہے اور دیکھنا ہوگا کہ وہ کیا فیصلہ کرتی ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ معاملہ ایک میڈیا چینل تک محدود نہیں بلکہ پس پردہ بہت سے چینلز اس کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔ بڑے بڑے سرمایہ دار اور کارپوریٹ سیکٹر کے لوگ میڈیا میں اپنی سرمایہ کاری کی بنیاد پر قوم کے ایجنڈے میں اپنا حصہ ڈال کر اسے اپنی ترجیحات کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔
یہ مسئلہ محض میڈیا کا ہی نہیں بلکہ ہم تو ریاست اوراس کے اداروں سمیت حکومت کے بارے میں بھی شکوک وشبہات کا شکار رہتے ہیں۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری جیسی ریاست اور حکومت آزادانہ بنیادوں پر فیصلہ کرنے کے بجائے عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ کے فیصلوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ اس لیے ضروری نہیں کہ جو کچھ ریاست، حکومت اور میڈیا لوگوں کو بتانے کی کوشش کررہے ہوں وہ مکمل سچائی کی تصویر ہو۔ ہوسکتا ہے اس میں ان کے مفادات کا کھیل زیادہ نمایاں ہو۔
اس لیے ایسی بحرانی صورت حال میں جو اس وقت ریاست کو درپیش ہے، اس میں جہاں دیگر چیلنج نمایاں ہیں وہیں خود میڈیا بھی ہے۔ لیکن کیونکہ ہم میڈیا کے خوف کا شکار رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ میڈیا پر براہِ راست تنقید کرنے سے ہماری کوریج پر اثر پڑے گا، اس ڈر سے ہم بھی میڈیا کے سامنے اس کے کردار پر تنقید کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ یہ بحث ہم سب کو کرنی چاہیے کہ اس وقت پاکستان کو ایک ذمہ دار ریاست اور حکومت کے ساتھ ساتھ ذمہ دار میڈیا کی بھی ضرورت ہے۔ذمہ دار میڈیا سے مراد ایسا میڈیا جو لوگوں کے مفادات کو فوقیت دے اور اس فوقیت میں قومی مفادات اور سلامتی کے امور بھی اہمیت رکھتے ہوں۔اس بحث کو ہمارے سیاسی عمل کا حصہ بننا چاہیے اور یہ بات آگے بڑھانی چاہیے کہ میڈیا اچھے کام کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر موجود خامیوں کو دور کرنے کی طرف بھی توجہ دے۔میڈیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ قومی مفاد یہ ہے کہ ہمیں اس دہشت گردی کی جنگ سے باہر نکلنا ہے۔ یقینا دہشت گردی کا ایجنڈا ہماری اہم ترجیحات میں شامل ہے، لیکن یہ بھی میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ بات آگے بڑھائے کہ اس جنگ کے خاتمے کے لیے حکمت عملی بھی ہماری ہی ہونی چاہیے۔کیونکہ بہرحال ہمیں اس جنگ سے نکلنا ہے، لوگوں کو کنفیوژ اور رائے عامہ کو بڑے پیمانے پر تقسیم کرکے ہم ملک کو بحرانوں سے نہیں نکال سکیں گے۔
سلمان عابد

Enhanced by Zemanta

ملالہ بغیر دستاویزات کے برطانیہ کیسے پہنچی؟

$
0
0

 

 


ملالہ والا واقعہ ہوا ہے اس دن سے ہر طرف شور سا مچا ہوا ہے۔ کچھ مغربی ممالک کے گماشتے اس کی حمایت میں اور محب وطن حلقے اس کی مخالفت میں ہیں۔ وہ کون ہے اور کیا چاہتی ہے یہ تو زمینی حقائق سے معلوم ہو رہے ہیں۔ مغربی ممالک میں اس کی اتنی پذیرائی کچھ سمجھ میں نہیں آتی۔ کیونکہ یہود و نصاریٰ بھی کسی مسلمان کو اس طرح سپورٹ نہیں کرتے۔ ملالہ نے کرسٹینا لیمب سے کتاب لکھوائی جس کا نام ’’آئی ایم ملالہ‘‘ ہے۔ اس کتاب کو مغرب میں اتنی پذیرائی کیوں مل رہی ہے وہ آپ کو کتاب پڑھ کر اندازہ ہو جائے گا۔ ابھی اس کا صرف ایک اقتباس پیش خدمت ہے ۔ پڑھ کر فیصلہ کر لیں کہ ملالہ کی حمایت کرنے والے حق پر ہیں یا اس کی مخالفت کرنے والے۔

یہ کتاب کے دو پیروں کا سادہ سا ترجمہ ہے۔ الفاظ کے انتخاب اور انداز بیاں ہی سے آپ کو انداز ہو جائے گا کہ ملالہ مغرب کی آنکھ کا تارہ کیوں بنی ہوئی ہے۔ اقتباس پڑھئے اور اس کے بعد مغربی ممالک کی امداد پر پاکستان میں پرورش پانے والے کئی سفیر اس کے بعد کیا کہتے ہیں۔ ’’ یہ کتاب سلمان رشدی کی شیطانی ہفوات تھی جسے بمبئی میں دکھایا گیا تھا، مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر اس کتاب کو گستاخانہ سمجھا اور اتنا ہنگامہ کھڑا کیا کہ لوگ کسی اور چیز پر کم ہی بات کرتے۔ عجیب بات یہ تھی کہ کسی نے کتاب کے بارے میں اس جانب توجہ ہی نہیں دی کہ یہ حقیقتاً پاکستان میں فروخت کے لئے تھی ہی نہیں لیکن اردو اخبارات میں ایک مولوی جو انٹیلی جنس سروس سے قریبی تعلق رکھتا تھا کی جانب سے متعدد مضامین میں کتاب کو نبی (بغیر صلی اللہ علیہ وسلم کے لکھا) کی شان میں گستاخانہ قرار دیا گیا اور کہا گیاکہ مظاہرہ کرنا اچھے مسلمانوں پر فرض ہے۔ جلد ہی پاکستان بھر کے علماء نے کتاب کی مذمت شروع کر دی اور اس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرنے لگے اور اشتعال انگیز مظاہرے کئے۔

سب سے پر تشدد مظاہرہ 12فروری 1989ء کو اسلام آباد میں ہوا۔ جہاں امریکن سنیٹر کے سامنے امریکی جھنڈے نذرِ آتش کئے گئے۔ حالانکہ رشدی اور اس کی کتاب کا ناشر برطانوی تھے۔ پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کی اور پانچ افراد مارے گئے۔ اس کتاب پر غصہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دیگر ملکوں میں بھی تھا۔ دو دن بعد ایران کے رہنما آیت اللہ خمینی نے رشدی کے قتل کا ایک فتویٰ صادر کیا۔ میرے والد کے کالج میں اس معاملے پر ایک زبردست مباحثہ ہوا۔ کئی طلبہ نے مطالبہ کیا کہ کتاب پر پابندی عائد کر دینی چاہیے اور اسے جلا دینا چاہیے اور فتویٰ درست ہے۔ میرے والد نے بھی کتاب کو اسلام کے حوالہ سے ناپسندیدہ قرار دیا۔ لیکن وہ آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتے ہیں۔ سب سے پہلے کتاب پڑھیں اور پھر اس کا جواب کتاب سے کیوں نہ دیں۔ انہوں نے رائے دی۔ انہوں نے گرج دار آواز میں سوال کیا۔ ایسی آواز جس پر میرے دادا کو فخر ہو گا کہ کیا اسلام اتنا کمزور مذہب ہے کہ وہ اپنے خلاف لکھی گئی ایک کتاب کو بھی برداشت نہیں کر سکتا؟ تو یہ میرا اسلام نہیں‘‘۔

اقتباس آپ نے پڑھ لیا۔ اب فیصلہ بھی آپ ہی نے کرنا ہے۔ اقتباس کو پڑھنے کے بعد آپ ملالہ کے بارے میں رائے آسانی سے قائم کر سکتے ہیں۔

اب آپ کے سامنے ملالہ کا ایک دوسرا رخ بھی پیش کر رہاہوں۔ ملالہ کی کتاب میں پاکستان ، قائداعظمؒ اور اسلامی شعائر کے خلاف باتیں لکھنے پر قومی سوچ رکھنے والی تنظیموں نے ملالہ اور اس کے ساتھ حکومتِ برطانیہ ، حکومت امریکہ کو خود انہی کی عدالتوں میں طلب کرانے پر کام شروع کر دیا ہے۔ ملالہ کے معاملہ پر ان تنظیموں کا مؤقف ہے کہ ملالہ کو امریکہ اور برطانیہ میں داخل کر کے ان حکومتوں نے خود اپنے امیگریشن قوانین کی کھلی خلاف ورزی کی ہے جس سے اس شبہ کو تقویت مل جاتی ہے کہ یہ ممالک ملالہ سے کوئی خاص کام کرانے کا اِرادہ رکھتے ہیں ، ورنہ تو یہ ممالک پاکستان کی کئی شخصیات کو بھی ویزے جاری کرنے سے انکار کر دیا کرتے ہیں۔

ان تنظیموں کے سربراہوں نے بتایا ہے کہ جب ملالہ پر گولی چلی تو وہ 12سال کی تھی اس عمر میں شناختی کارڈ نہیں بنتا ، پاسپورٹ تو دور کی بات ہے جو بیرون ملک جانے کے لئے ضروری ہے ۔ علاوہ ازیں پاسپورٹ کے فارم پر دستخط، انگوٹھے، ملالہ کی بے ہوشی میں کیسے لگائے گئے۔ علاوہ ازیں پاسپورٹ موجود ہو تو بھی ویزا لگنے میں وقت لگتا ہے۔ مگر ملالہ کو جس طرح ہنگامی بنیادوں پر خصوصی طیارے میں برطانیہ لے جایا گیا اس دوران معمولی کاغذات بھی تیار نہیں ہو سکتے تھے۔ پاسپورٹ وغیرہ کے لئے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ ہزاروں پاکستانی کئی کئی ماہ سفارت خانوں کے باہر لائنوں میں لگے رہتے ہیں۔ مگر انہیں ویزہ نہیں ملتا۔ اس طرح ملالہ دنیا کی واحد شخصیت بن گئی ہے جو بغیر کاغذات کے برطانیہ جا پہنچی اور شہری بھی بن گئی جس کو امریکہ نے بھی تسلیم کر لیا۔ اور اپنے ہاں بلا لیا۔ قانونی ماہرین اس نقطے کو لے کر برطانیہ اور امریکہ میں قانونی ماہرین مشاورت میں مصروف ہیں اور جلد ہی اس معاملہ کو دونوں ملکوں کی عدالتوں میں اٹھانے کا اِرادہ رکھتے ہیں۔

ملالہ کے بارے میں یہ بھی انکشاف ہو رہا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی صوبہ خیبر پختونخوا کا بڑا حصہ اور افغانستان کے قریبی صوبے کو یکجا کر کے ایک بفر سٹیٹ بنانے کا اِرادہ رکھتا ہے اور اس نام نہاد بفر سٹیٹ کا وزیراعظم بنانے کے لئے ملالہ کو بین الاقوامی طور پر سپورٹ کیا جارہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کی بے خبری پر افسوس ہے کہ بلاول زرداری سمیت عمران خان، نواز شریف، اعتزاز احسن اور ہمارا میڈیا ہاؤس اس نادان لڑکی کو اتنے بڑے مقام پر پہنچانے کے لئے بین الاقوامی ایجنڈے کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں۔

کنور محمد دلشاد
بشکریہ روزنامہ "نئی بات"

Enhanced by Zemanta

لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف نئے آرمی چیف مقرر

$
0
0


 لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف 29 نومبر کو پاک فوج کی کمان سنبھالیں گے۔ لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف کمیٹی مقرر کر دیا گیا۔ دونوں لیفٹیننٹ جنرلز کو جنرلز کے عہدوں پر ترقی دیدی گئی ہے۔
اسلام آباد:لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف کو پاک فوج کا نیا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے آئین کے آرٹیکل 3 کے ذریعے وزیراعظم کی سفارش پر صدر پاکستان ممنون حسین نے جنرل راحیل شریف کی نئے آرمی چیف کی حیثیت سے منظوری دی۔ لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف کمیٹی مقرر کر دیا گیا۔ دونوں لیفٹیننٹ جنرلز کو جنرلز کے عہدوں پر ترقی دیدی گئی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف اس وقت انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ایویلوایشن کے عہدے پر تعینات تھے۔ جنرل راحیل شریف گوجرانوالہ کے کور کمانڈر بھی رہ چکے ہیں اور نشان حیدر پانے والے میجر شبیر شریف کے بھائی اور نشان حیدر میجر عزیز بھٹی شہید کے بھانجے ہیں۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نومبر 2007 سے آرمی چیف کے عہدے پر فائز ہیں جن کی مدت ملازمت 29 نومبر کو ختم ہو جانے پر جنرل راحیل شریف پاک ...فوج کے نئے سربراہ کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے۔ واضع رہے کہ پاکستان کے پہلے 2 آرمی چیف انگریز تھے۔ پاک فوج کے پہلے سربراہ برطانیہ کے سر فرینک والٹر مسروی اگست 1947ء سے فروری 1948ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ان کے بعد جنرل ڈگلس ڈیوی گریسی فروری 1948ء سے اپریل 1951ء تک تعینات رہے۔ ان کے بعد آنے والے کئی فوجی سربراہوں نے نہ صرف فوج بلکہ حکومت کی باگ ڈور بھی طویل عرصے تک سنبھالی۔ تیسرے آرمی چیف فیلڈ مارشل محمد ایوب خان 17 جنوری 1951ء سے 26 اکتوبر 1958ء تک اس عہدے پر تعینات رہے۔ چوتھے آرمی چیف جنرل محمد موسیٰ نے 27 اکتوبر 1958ء سے 17 ستمبر 1966ء تک فوجی سربراہ کی ذمہ داریاں سنبھالے رکھیں۔ ان کا دورانیہ 8 سال رہا۔ جنرل محمد یحییٰ خان 18 ستمبر 1966ء سے 20 دسمبر 1971ء تک ملک کے 5 ویں آرمی چیف رہے۔ جنرل گل حسن قومی تاریخ کے سب سے مختصر مدت کیلئے فوجی سربراہ بننے والی شخصیت ہیں۔ انھوں نے 22 جنوری 1972ء کو چھٹے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا اور 2 مارچ 1972ء تک آرمی چیف رہے۔ ان کی بطور آرمی چیف مدت ملازمت مشکل سے ڈیڑھ ماہ بنتی ہے۔ 7 ویں آرمی چیف جنرل ٹکا خان 3 مارچ 1972ء سے یکم مارچ 1976ء تک اس عہدے پر رہے۔ اس کے بعد جنرل ضیا الحق یکم مارچ 1976ء سے 17 اگست 1988ء تک ساڑھے 12 سال کے طویل عرصے تک 8 ویں آرمی چیف کے طور پر اس منصب پر رہے۔ پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو بطور ملک میں فوجی قانون نافذ کرنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف کو جبراً معزول کر دیا اور پھر 20 جون 2001ء کو ایک صدارتی استصوابِ رائے کے ذریعے صدر کا عہدہ اختیار کیا جس سے قبل وہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کہلاتے تھے۔ مشرف نے 18 اگست 2008ء کو قوم سے خطاب کے دوران اپنے استعفیٰ کا اعلان کیا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نومبر 2007 سے آرمی چیف کے عہدے پر فائز ہیں.

Enhanced by Zemanta

Help your Brothers by Ansar Abbasi

$
0
0



Help your brothers by Ansar Abbasi
Enhanced by Zemanta

Shining Example - Voluntarily teach kids

$
0
0
Master Ayub -- 28 years ago this man from Islamabad decided to voluntarily teach kids for free in his spare time daily after the children (mostly from low-come ...marginalized families) returned home from their day jobs. Many of the fathers of the children he teaches today have been his students. "I'm training some of the older kids to take over- after all, I won't live forever." The kids are so attached to him that when he mentioned that they need to continue studying and teaching others even after he has gone they went and dug a final resting place for him right next to where they sit to study, insisting that even if he dies, he must always stay close by and continue to inspire them.
 
Shining Example - Voluntarily teach kids
 
Enhanced by Zemanta

خانہ جنگی کی بھاری قیمت ادا کرتے شامی بچے

$
0
0

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام میں خانہ جنگی کی وجہ سے بیرونِ ملک پناہ 
لینے والے شامی بچوں کا نہ صرف سلسلۂ تعلیم منقطع ہوگیا ہے بلکہ انہیں کم اجرت پر زیادہ کام کرنا پڑ رہا ہے۔
ادارے کی ذیلی تنظیم اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزیناں یا ’یو این ایچ سی آر‘ نے کہا ہے کہ 2013 کے اختتام تک لبنان اور اردن میں رہنے والے تقریباً تین لاکھی شامی بچے سکول سے دور رہ جائیں گے۔ 
متعلقہ عنوانات 
ان میں سے متعدد بچے جو سکول نہیں جا پاتے وہ کام کرنے جاتے ہیں اور سات سال کی عمر تک کے بچے بھی کام کرنے پر مجبور ہیں۔
شام کے 22 لاکھ تارکین وطن میں سے نصف بچے ہیں اور اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق جنگ زدہ علاقوں سے دور رہنے کے باوجود انھیں سنگین خطرات لاحق ہیں۔
تنطیم کی رپورٹ میں شام کی خانہ جنگی کے نتیجے میں شام اور شام سے باہر پناہ گزین بچوں پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ بچے جسمانی اور نفسیاتی دونوں طرح کے خطرات سے دو چار ہیں۔
پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر انٹونیو گوٹریس نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ’اگر ہم نے تیزی سے عمل نہیں کیا تو معصوموں کی ایک نسل پر قابل نفرت جنگ کے دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔‘

یو این ایچ سی آر کے تخمینے کے مطابق 37 ہزار بچے بغیر کسی سرپرست کے ہیں
شام کی تین سال سے جاری خانہ جنگی سے متعلق برطانیہ کے ایک تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ اس جنگ میں اب تک تقریبا گیارہ ہزار بچے مارے گئے ہیں۔
یو این ایچ سی آر نے جولائی اور اکتوبر 2013 کے درمیان اردن اور لبنان میں رہنے والے شامی بچوں اور ان کے اہل خانہ سے انٹرویوز کا ایک سلسلہ چلایا۔
محققین نے اس سلسلے میں 81 پناہ گزین بچوں کا انٹرویو کیا۔ ان کے علاوہ اردن اور لبنان میں رہنے والے مزید 121 بچوں کے ساتھ گروپ مباحثہ منعقد کروایا گیا۔

انھوں نے اس بابت تارکین وطن کے ساتھ کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے اور غیر سرکاری تنظیموں سے بھی رابطہ کیا۔

اس جائزے کے دوران بے وطن بچوں میں ملازمت، محنت کشی اور تنہائی کی بلند شرح دیکھی گئی۔

یو این ایچ سی آر کے تخمینے کے مطابق 70 ہزار سے زیادہ خانوادے بغیر والد کے ہیں جبکہ 37 ہزار بچے بغیر کسی 

سرپرست کے ہیں، نہ تو ان کی والدہ ہے اور نہ ہی والد۔

شام کے گیارہ لاکھ تارکین وطن میں سے 385007 لوگ لبنان میں ہیں، 294304 ترکی میں جبکہ 291238 اردن میں ہیں

شام کے گیارہ لاکھ تارکین وطن میں سے 385007 لوگ لبنان میں، 294304 ترکی میں جبکہ 291238 اردن میں ہیں۔ ان کے علاوہ ان کی اچھی خاصی تعداد عراق اور مصر میں بھی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تارکین وطن کی اس بڑی تعداد کا اثر ان ممالک پر بھی پڑا ہے جہاں یہ پناہ گزین ہیں۔
اس رپورٹ کے مصنفوں کے مطابق لبنان کے رہنے والے 80 فیصد شامی بچوں کو سکول میسر نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سنہ 2013 کے آخر تک لبنان میں سکول نے جانے والے بچوں کی تعداد وہاں جانے والے بچوں سے بڑھ جائے گی۔
اس کے علاوہ بہت سے بچے کسی ملک کے شہری نہیں ہیں کیونکہ یہ پناگزین کیمپوں میں پیدا ہو رہے ہیں اور جس ملک میں یہ پیدا ہو رہے ہیں اس ملک کے حکام ان کی پیدائش کو درج نہیں کر رہے ہیں۔
لبنان میں جن 781 نومولود اطفال کا سروے کیا گیا ہے ان میں سے 77 فیصد کے پاس کوئی سرکاری برتھ سرٹیفیکیٹ نہیں ہے۔ اردن کے زعتری ریفیوجی کیمپ میں صرف 68 بچوں کو جنوری تا اکتوبر سنہ 2013 کے درمیان سرٹیفیکیٹ جاری کیا گیا ہے۔




Enhanced by Zemanta

Prime Minister Nawaz Sharif and Chief of Army Staff Raheel Sharif

$
0
0


Prime Minister Nawaz Sharif and Chief of Army Staff Raheel Sharif
Enhanced by Zemanta

Tragic Story of Mama Qadeer

Pakistan Education System by Rauf Kalasra

ہمارے جعلی اور اصلی مسائل

$
0
0


کوئی چار پانچ برس پہلے ایک اردو اخبار کے اندرونی کونے میں یہ خبر شایع ہوئی کہ خیبرپختون خوا کے علاقے تخت بائی میں دو جعل ساز سیاحوں کو جعلی زمرد بیچنے کے جرم میں پکڑے گئے۔یہ زمرد سیون اپ کی بوتلوں کے شیشے والے موٹے پیندے کی کٹنگ سے تخلیق کیے جاتے تھے۔اور جب تک جعل سازوں تک قانون کا ہاتھ پہنچا تب تک وہ چار سے پانچ لاکھ روپے مالیت کے زمرد فروخت کرچکے تھے۔
میں بذاتِ خود انیس سو اٹھانوے میں ٹیکسلا میوزیم کے اطراف ایک ’’ فن کار ‘‘سے مل چکا ہوں جو اپنے ہی تراشے مجسمے خاص طرح کے تیزابی کیمیکلز سے اس طرح پروسس کرتا تھا کہ مجسمہ دیکھنے میں ڈھائی ہزار سال پرانا لگے اور کوئی غیر ماہر آسانی سے نا پہچان سکے۔اب ہر کوئی تو مجسموں کی اصلیت جاننے کے لیے کاربن ڈیٹنگ نہیں کرواتا پھرتا نا !!!۔
کینیا سے دو ہزار سات کے دوران ایک خبر آئی تھی کہ نوسربازوں نے مغربی سیاحوں کے ایک گروہ کو زیبرے کے بچے بیچ دیے۔وہ تو اگلے دن بارش نے راز فاش کردیا کہ زیبرے کی کالی سفید دھاریوں کے نیچے گدھے کے بچے پوشیدہ ہیں۔ تب تک گدھے کو زیبرا بنا کے گاہکوں کو گدھا بنانے والا چمپت ہوچکا تھا۔
شائد آپ کو یاد ہو کہ سن دو ہزار دس میں پاکستان میں جو سیلابِ عظیم آیا،اس کے دوران وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو میانوالی میں ایک اسکول میں قائم جعلی اسپتال کا دورہ کرایا گیا۔ان کی آمد سے ایک رات پہلے اسکول کے کمروں میں ایک میڈیکل وارڈ تخلیق کیا گیا۔گیٹ پر اسپتالی بینر لگایا گیا۔مریضوں کا کردار ادا کرنے والوں کو لوہے کے پلنگوں پر سفید چادریں تکیے لگا کے لٹا دیا گیا۔وزیرِ اعظم نے کراہتے مریضوں کی خیریت بھی دریافت کی اور پھول اور پیسے ویسے بھی دیے۔ان کے جاتے ہی ہر مریض نے آہنی منجی سر پے رکھی اور خود ہی اسپتال سے ڈسچارج ہوگیا۔اسی طرح وزیرِ اعظم کو ڈیرہ اسماعیل خان اور بلوچستان کے علاقے صحبت پور میں راتوں رات کھڑے کیے جانے والے دو ریلیف کیمپوں کا دورہ بھی کرایا گیا اور پھر چند گھنٹے میں ہی یہ فلمی سیٹ اکھاڑ لیا گیا۔
یہاں تک تو ٹھیک ہے۔ لیکن جب جعلسازی انسانی زندگیوں اور ان کے مستقبل سے کھیلنے لگے اور سماج میں دیمک کی طرح گھر بنا لے اور اسے سنجیدگی سے ایک سنگین مسئلہ سمجھنے اور اس سے نمٹنے کی سوچ دم توڑنے لگے تو پھر دلی لگی المناک مذاق میں بدل جاتی ہے۔
مثلاً یہی خبر کہ پاکستان میں جتنی بھی ادویات فروخت ہورہی ہیں ان میں سے تیس سے پچاس فیصد کے درمیان جعلی ہیں۔اور عالمی ادارہِ صحت کی جعلی ادویات کی فروخت سے متاثر ممالک کی فہرست میں پاکستان تیرہویں نمبر پر ہے۔ مزید مار یہ پڑ رہی ہے کہ سرکاری سیکٹر میں جو ڈاکٹر ملازم ہیں، ان میں سے بہت سے نوکری پر یا تو بہت کم توجہ دیتے ہیں یا بالکل ہی نہیں پہنچتے۔صوبہِ سندھ کے محکمہ صحت کے کچھ ذمے داروں کے بقول سرکاری سیکٹر میں جتنے بھی ڈاکٹر کام کررہے ہیں ان میں سے پچیس فیصد بھوت ڈاکٹر ہیں۔ان بھوت ڈاکٹروں کو تنخواہوں کی مد میں ماہانہ کم ازکم ڈیڑھ کروڑ روپے ادا کیے جا رہے ہیں۔اگر باقی صوبوں کے اعداد و شمار کو بھی جوڑ لیا جائے تو سوچئے کہ صورتِ حال کیا بنتی ہے۔ اور یہ کام اس ملک میں ہورہا ہے جہاں صحت پر کل قومی آمدنی کا محض ڈھائی فیصد خرچ ہوتا ہے جو سارک ممالک میں سب سے کم ہے۔
صحت سے بھی بڑی دو نمبری سرکاری شعبہِ تعلیم میں ہورہی ہے بلکہ شعبہ کیا بھوتوں کا راجواڑہ ہے۔جسے کہیں اور نہیں کھپایا جاسکتا اسے محکمہ تعلیم کی پرچی دے کر کھپا دیا جاتا ہے۔پاکستان خواندگی کے عالمی چارٹ میں اس وقت ایک سو ساٹھویں نمبر پر ہے۔عالمی معیار کے مطابق قومی آمدنی کا چار فیصد تعلیم کے شعبے پر خرچ ہونا چاہیے۔مگر پاکستان میں اس وقت تعلیم کا بجٹ قومی آمدنی کے دو فیصد سے بھی کم ہے۔اور اس مختص بجٹ میں سے بھی گذشتہ مالی سال کے دوران چاروں صوبے محض آدھا پیسہ استعمال کرسکے۔اور اس آدھے بجٹ کے استعمال میں بھی یاروں نے کئی چاند چڑھا دیے گئے۔
مثلاً سندھ ہائی کورٹ کی تحقیقات کے مطابق صوبہ سندھ کے ستائیس اضلاع میں سرکاری ریکارڈ کے مطابق قائم اڑتالیس ہزار دو سو ستائیس اسکولوں میں سے ساڑھے چار ہزار اسکول غیر فعال جب کہ دو ہزار ایک سو اکیاسی بھوت اسکول ہیں جن میں تنخواہ پانے والے اسٹاف تو زمینی ہے لیکن اسکول زمین کے بجائے کاغذ پر قائم ہے۔جب کہ پانچ سو چوبیس اسکول ایسے ہیں جن پر بااثر افراد قابض ہیں۔کچھ میں تو تھانے بھی قائم ہیں۔سندھ میں سب سے زیادہ بھوت اسکول ضلع بے نظیر آباد ( نواب شاہ ) میں بتائے جاتے ہیں جب کہ ضلع میں ایک سو بارہ اسکولوں پر بااثر افراد کا قبضہ الگ ہے۔اس کے بعد سابق وزیرِ تعلیم پیر مظہر الحق کا ضلع دادو آتا ہے۔جہاں کے صرف ایک تعلقے جوہی میں گذشتہ برس تک ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بھوت اسکول سر چڑھ کے بول رہے تھے۔
اگرچہ سندھ میں قانوناً پانچ تا سولہ برس تک کے بچوں کی تعلیم لازمی اور مفت ہے لیکن آدھے بچوں اور ان کے والدین تک شائد یہ اطلاع نہیں پہنچی۔اس کی ایک مثال مٹیاری ہے جو سندھ کا ایک نسبتاً نیا اور چھوٹا سا ضلع اور ہالا کے مخدوموں کا روحانی و سیاسی مرکز ہے۔مگر مقامی ذرایع کا دعوی ہے کہ اس چھوٹے سے ضلع میں ساٹھ ہزار کے لگ بھگ بچے ایسے ہیں جو اسکول نہیں جاتے۔
اور علاقوں کو کیا روئیں جب عین وفاقی ناک کے نیچے گریٹر اسلام آباد میں اس سال کے وسط میں شایع ہونے والی ایک سروے رپورٹ کے مطابق ستاون بھوت اسکولوں کا سراغ ملا۔ دانش اسکول یافتہ ’’پڑھے لکھے پنجاب‘‘کے ایک پسماندہ ضلع راجن پور میں گذشتہ برس تک ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بھوت اسکول بتائے جاتے ہیں۔اب جانے کیا حال ہے۔ان اعداد و شمار سے آپ شہبازی گورننس کی دیگ کا اندازہ خود لگا سکتے ہیں۔
بھارت میں دس برس پہلے سن دو ہزار تین تک لگ بھگ ڈھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر تھے۔چنانچہ وہاں جہالت کے خلاف اعلانِ جہاد کردیاگیا۔آج سوا ارب آبادی کے بھارت میں صرف چار ملین بچے اسکول سے باہر بتائے جاتے ہیں جب کہ اٹھارہ کروڑ آبادی والے پاکستان میں چھ اعشاریہ چار ملین بچے اسکول نہیں جا پا رہے۔اور ان میں سے بھی نصف سے زائد سندھ اور بلوچستان میں ہیں۔
مگر جو اسکول فعال ہیں وہ کس قدر فعال ہیں ؟ اس کا اندازہ یوں ہوسکتا ہے کہ خیبر پختون خوا میں اس وقت ڈیڑھ لاکھ سے زائد بچے بچیاں ایسے ڈھائی ہزار اسکولوں میں زیرِ تعلیم ہے جہاں صرف ایک ٹیچر ہے اور وہی پہلی سے چھٹی جماعت کے سب پیریڈ لیتا ہے۔اور جب یہ ٹیچر بیمار ہو جائے ، کسی سبب غیر حاضر ہوجائے یا محکمہ جاتی پھٹیک پڑ جائے یا اس ٹیچر کا کوئی آم کھانے والا افسر اسے پیڑ گننے پے لگادے تو گاؤں کا اسکول بھی اس کے ساتھ چھٹی پے چلا جاتا ہے۔
سرکاری فائلوں میں ملک کے طول و عرض میں پرائمری تا سیکنڈری ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ چھوٹے بڑے اسکول ہیں۔اندازہ ہے کہ ان میں لگ بھگ پچیس ہزار غیر فعال اور بھوت اسکول ہیں۔مگر حوصلہ نا ہارنے والی حکومت نے بھی تہیہ کر رکھا ہے کہ دو ہزار پندرہ تک وہ اقوامِ متحدہ کے طے شدہ سو فیصد خواندگی کے ہدف کو حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کرے گی ( ہوسکتا ہے جس نے یہ وعدہ کیا ہو اسے سرتوڑ کا پورا مطلب معلوم نا ہو)۔
لیکن بھوت صرف صحت اور تعلیم تک ہی محدود نہیں۔ سندھ کے وزیرِ بلدیات شرجیل میمن کہتے ہیں کہ ان کے محکمے میں تیس سے چالیس فیصد ملازم بھوت ہیں جو ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو کرنسی کی خوشبو سونگھتے سونگھتے دفتر چلے آتے ہیں۔ محکمہ بلدیات کا دسترخوانِ روزگار ماشااللہ اتنا وسیع ہے کہ جس کام کے لیے محض تین چار سو ملازم کافی ہوں وہاں تین سے چار ہزار ملازمین ٹانگ پر ٹانگ رکھے مستعد ہیں۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی صوبوں کے باقی محکمے بھوت فری ہیں۔مگر کسی سرکاری ملازم کو موجودہ قواعد و ضوابط کے تحت فارغ کرنا ڈرون گرانے سے زیادہ مشکل کام ہے۔کہنے کو پاکستان میں بے روزگاری کی سرکاری شرح دس فیصد ہے اور ایم اے پاس لوئر کلرکی کے لیے بھی جوتیاں چٹخاتے چٹخاتے خود چٹخ جاتے ہیں۔
بات جعلی پن کی ہورہی تھی کہ کہاں سے کہاں نکل گئی۔ جعلی ڈگریوں کی بات میں اس لیے نہیں کروں گا کہ اس سے کئی ’’ بچہ جمہوروں ’’ کا عوامی استحقاق مجروح ہوسکتا ہے۔جعلی پیروں ، جعلی سرمایہ کار کمپنیوں ، جعلی خوراک اور جعلی دانشوری سے تو آپ ہوش سنبھالتے ہی واقف ہو جاتے ہیں لہذا ان کی تفصیل میں کیا جانا۔
لیکن کبھی آپ نے سنا کہ جعلی مجرم اور قیدی بھی تیار کیے جاتے ہیں۔گذشتہ ہفتے جب وزیرِ اعظم نواز شریف کراچی تشریف لائے تو انھیں امن و امان کے آپریشن سے متعلق بریفنگ میں بتایا گیا کہ سندھ کی مختلف جیلوں میں اکتالیس قیدی ایسے ہیں جو جعلی ہیں۔انھیں اوریجنل ملزم کا نام اور ولدیت دے کر ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا یا حراست میں لیا گیا۔جب کہ اصلی وارداتی باہر دندنا رہے ہیں۔ان جعلی ملزموں کا پتہ نادرا کی مدد سے لگایا گیا۔اب حکام یہ سراغ لگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ کن کن پولیس والوں نے ان جعلی قیدیوں کی ایف آئی آر کاٹی اور کس لالچ میں کاٹی اور وہ اصل ملزم جسے اپنے ان جعلی ہمزادوں کی جگہ جیل میں ہونا چاہیے کہاں ہیں ؟ ہائے رے یہ خرانٹ معصومیت ؟
مگر یہ ہمارے اصل نہیںبلکہ جعلی مسائل ہیں۔ ہمارے اصل مسائل تو ڈرون ، ناٹو سپلائی ، بھارت کو قریبی اقتصادی ساجھے دار قرار دینے نا دینے کی ڈبیٹ ، شہید و غیر شہید کا تعین ، یو ٹیوب کا سنگین خطرہ ، نیا سپاہ سالار کیا کرے گا کیا نا کرے گا کی بحث ، سامنے کا ہاتھ چھپا کر خفیہ ہاتھ کی تلاش ، وینا ملک کی تازہ بیہودگی ، غیرت و بے غیرتی کا مناظرہ اور اغیار کی ثقافتی یلغار ، ریپ بمقابلہ ڈی این اے وغیرہ وغیرہ ہیں۔ اسی لیے تو سب کے سب ان اصلی باتصویر 
 جینئن مسائل کا حل ڈھونڈنے میں تندہی سے لگے پڑے ہیں گے۔۔

وسعت اللہ خان


Enhanced by Zemanta
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live