Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

انتہا پسندی اور دہشت گردی کے نفسیاتی اور سماجی اثرات

0
0

معاصر دنیا کی ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی ہمارے عہد کے امتیازی نشانات بن گئے ہیں۔ اس دنیا کے عدم توازن کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اس میں انتہا پسندی اور دہشت گردی پر گفتگو بھی انتہاپسندی اور دہشت گردی کے اسلوب میں کی جارہی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو انتہا پسندی اور دہشت گردی سے اس طرح منسلک کردیا گیا ہے کہ اسلام اور انتہا پسندی اور مسلمان اور دہشت گردی ہم معنی نظر آنے لگے ہیں۔ حالانکہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ ایک دفاعی جنگ لڑتے نظر آتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ دنیا تاحال اسلام اور مسلمانوں کی دنیا نہیں ہے۔ سیکولر اور لبرل قوتوں کی دنیا ہے۔ اس دنیا کے سارے وسائل سیکولر اور لبرل قوتوں کے ہاتھ میں ہیں اور یہی قوتیں قوموں، ملّتوں اور تہذیبوں کے تعلقات کی تعریف متعین کررہی ہیں۔ وہ جب چاہتی ہیں جنگ ایجاد کرلیتی ہیں، جب چاہتی ہیں مذاکرات کی بساط بچھا دیتی ہیں، جب چاہتی ہیں حقیقی یا مصنوعی امن کو دنیا کا مقدر بنادیتی ہیں۔ اس منظرنامے میں اسلام اور مسلمانوں کے پاس دفاعی جنگ لڑنے کے سوا کوئی چارۂ کار ہی نہیں ہے، اور دفاعی جنگ لڑنے والے نہ انتہاپسند ہوسکتے ہیں اور نہ وہ حقیقی معنوں میں دہشت گردی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں ’’ردعمل‘‘ میں کرتے ہیں۔ عمل کا ’’تعیش‘‘ مسلمانوں کی دسترس ہی میں نہیں۔ مگر اس کے باوجود امریکہ، یورپ، بھارت اور اسرائیل چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اسلام انتہا پسندی کا مذہب ہے اور مسلمان دہشت گرد ہیں۔ اس منظرنامے کی مزید ہولناکی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ معاصر دنیا افراد اور گروہوں کی انتہاپسندی اور دہشت گردی کو خوب پہچانتی ہے، مگر اسے ریاستوں کی دہشت گردی کہیں نظر نہیں آتی۔ امریکہ کے ممتاز دانش ور نوم چومسکی کہتے ہیں کہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی بدمعاش ریاست ہے۔

امریکہ کی ایک اور ممتاز دانش ور سوسن سونٹیگ نے اپنے ایک مضمون میں کہا ہے کہ امریکہ کی بنیاد نسل کشی پر رکھی ہوئی ہے۔ لیکن بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور مسلم دنیا پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کرنے والے، امریکہ کو دہشت گرد ریاست نہیں کہتے۔ اسرائیل گزشتہ 65 سال سے فلسطینیوں کی سرزمین پر قابض ہے۔ وہ لاکھوں فلسطینیوں کو قتل اور جلاوطن کرچکا ہے۔ اس نے مقبوضہ مغربی کنارے اور مقبوضہ غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کردیا ہے لیکن انتہاپسندی اور دہشت گردی کا شور مچانے والی کوئی طاقت اسرائیل کو دہشت گرد نہیں کہتی۔ بھارت میں گزشتہ 65 سال کے دوران ساڑھے چار ہزار سے زیادہ چھوٹے بڑے مسلم کش فسادات ہوئے ہیں۔ بھارت کی فوجیں گزشتہ چھ دہائیوں میں مقبوضہ کشمیر میں چار لاکھ سے زیادہ کشمیریوں کو شہید کرچکی ہیں، ہزاروں لوگ گھروں سے غائب ہیں، ہزاروں کشمیری بھارت کی جیلوں میں اذیت ناک زندگی بسر کررہے ہیں۔ ان کا جرم یہ ہے کہ وہ بھارت سے آزادی چاہتے ہیں، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادی طلب کرتے ہیں، مگر دنیا میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شور برپا کرنے والا کوئی ملک بھارت کو انتہا پسند اور دہشت گرد نہیں کہتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مغربی دنیا اور اس کے اتحادیوں نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کی اصطلاحوں کو ہائی جیک کرلیا ہے، ان کی نجکاری کرلی ہے، اور یہ بین الاقوامی اور تہذیبی سطح پر انتہا پسندی اور نفسیاتی، جذباتی اور ابلاغی دہشت گردی کی سب سے بڑی مثال ہے۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ ساری دنیا میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا غلغلہ برپا ہے مگر کوئی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی تعریف متعین کرنے کے لیے تیار نہیں! تجزیہ کیا جائے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ دنیا پر انتہا پسندوں اور دہشت گردی کی نفسیات رکھنے والوں کا غلبہ ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو انتہا پسندی اور دہشت گردی کب کی Define ہوچکی ہوتیں۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے نفسیاتی اور سماجی اثرات کی نوعیت کیا ہے؟
اس روئے زمین پر آباد انسانیت کی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ تمام انسان ایک کنبے کا حصہ ہیں اور ان کے درمیان اختلاف کی نوعیت فطری ہے۔ لیکن انتہاپسندی انسانوں کی وحدت کو نمایاں نہیں ہونے دیتی اور وہ اختلاف کو دشمنی بنادیتی ہے۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا دشمنوں سے بھر گئی ہے۔ اس دنیا میں دوستی ہے بھی تو اس کی نوعیت تکنیکی، عارضی اور حکمت عملی کے تحت ہے۔ البتہ دشمنی برجستہ، حقیقی اور دائمی ہے۔ اس حوالے سے خود امتِ مسلمہ کا حال اچھا نہیں۔ کہنے کو ’’مسلک‘‘ ایک راستہ ہے اور دین کے دائرے میں کئی مسالک ہوسکتے ہیں۔ لیکن ہمارے مذہبی لوگوں کی انتہاپسندی نے ’’مسالک‘‘ کو ’’فرقہ‘‘ بنادیا ہے۔ اس نوعیت کی فرقہ پرستی کے تحت لوگ ایک دوسرے کی تکفیر کررہے ہیں، ایک دوسرے کے لیے اپنی مساجد کو بند کررہے ہیں، ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے تیار نہیں، ایک دوسرے سے شادی بیاہ کے معاملات کرنے پر آمادہ نہیں۔ اسلام دیوار میں در بناتا ہے، اور ہمارے مسلک پرست در کو بھی دیوار میں ڈھالتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ سمندر کی نفسیات کنویں اور تالاب کی نفسیات بن گئی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد کنویں اور تالاب ہی کو سمندر سمجھنے لگی ہے۔
انسانی زندگی میں زبان کی اہمیت اتنی بنیادی ہے کہ اسے نظرانداز کرکے زندگی پر گفتگو ہی نہیں کی جاسکتی۔ انسان جو کچھ سوچتا ہے زبان کی مدد سے سوچتا ہے۔ انسان جو کچھ محسوس کرتا ہے زبان کی مدد سے محسوس کرتا ہے۔ انسان جو کچھ کہتا ہے زبان کی مدد سے کہتا ہے۔ لیکن انتہا پسندی زبان کے پورے سانچے کو بے معنی بنا دیتی ہے۔ وہ انسان سے کہتی ہے کہ زبان و بیان تمہارے مافی الضمیر اور مفادات کے لیے کفایت نہیں کرتے، ان کا سہارا لینا بے کار ہے، تمہیں جسمانی طاقت کی زبان میں بات کرنی چاہیے، تم اس طرح اپنے حریف کو زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہو اور اسے زیادہ تیزی اور آسانی کے ساتھ زیر کرسکتے ہو۔ اس صورت حال میں گفتگو اور مکالمہ ممکن ہی نہیں رہتا، یا پھر گفتگو اور مکالمہ ایک کھیل بن جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ کشمیر اور فلسطین پر مذاکرات کے درجنوں دور ہوچکے ہیں لیکن اسرائیل ہو یا بھارت، انہوں نے مذاکرات اور مکالمے کو وقت گزارنے اور حریف کا وقت ضائع کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے مقابلے پر اور بھارت پاکستان کے مقابلے پر زیادہ طاقت ور ہے، اور دونوں ممالک کی طاقت انہیں انتہا پسندی کی جانب دھکیلتی ہے۔ امریکہ اور سابق سوویت یونین میں اگر بعض معاملات پر مذاکرات ہوئے اور مذاکرات کامیاب رہے تو اس کی بنیادی وجہ اخلاقیات، مکالمے یا دلیل پر ان کا ایمان نہیں تھا، بلکہ اس کی وجہ طاقت یا دہشت کا توازن تھا۔ پاکستان کی قومی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو جرنیلوں کی انتہاپسندی نے مشرقی پاکستان میں کسی بامعنی مکالمے کی راہ ہموار نہ ہونے دی اور ملک ٹوٹ گیا۔ جنرل پرویزمشرف نے نواب اکبر بگٹی کو مکالمے کے لائق نہ سمجھا اور انہیں قتل کرڈالا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج بلوچستان آتش فشاں بنا ہوا ہے۔
انتہاپسندی کا مسئلہ شوہر اور بیوی کے تعلق تک پر اثرانداز ہوتا ہے۔ مغرب میں طلاقوں کی بڑھتی ہوئی شرح اس بات کا ثبوت ہے کہ زوجین کے درمیان محبت اور مکالمہ دونوں دم توڑ چکے اور دو انسان چھوٹی سی زندگی کو ایک ساتھ بسر کرنے کی اہلیت کھوچکے ہیں۔
انتہاپسندی اور دہشت گردی معاشرے میں خوف پیدا کرتے ہیں، اور خوف سے دو ہولناک چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ انسان منطقی انداز میں سوچنے (Rational thinking) کے قابل نہیں رہتا، اور دوسری یہ کہ انسان ناامید ہوجاتا ہے اور طرح طرح کے اندیشے اسے گھیر لیتے ہیں۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب کراچی میں نصیراللہ بابر ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کررہے تھے اور ایم کیو ایم نے ایک سال میں پے در پے 54 خونیں ہڑتالیں کرانے کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ اُس دور میں کراچی میں خوف کا یہ عالم تھا کہ رات آٹھ، نو بجے کے بعد گلیوں میں انسان کیا کتے بھی نظر نہ آتے تھے۔ یعنی کتوں کو بھی یہ بات معلوم ہوگئی تھی کہ شہر کی گلیاں اور چوراہے غیر محفوظ ہوچکے ہیں۔ اس زمانے میں ایک ہڑتال کے بعد ہم کھانے پینے کے سامان کی تلاش میں گھر سے نکلے تو ہم نے دیکھا کہ لوگ ٹولیوں کی صورت میں اِدھر اُدھر کھڑے ہیں اور ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں کہ بہت ہوچکا، اب کراچی کو پاکستان سے الگ ہو ہی جانا چاہیے۔ وہ یہ بات اتنے اطمینان سے کہہ رہے تھے جیسے کراچی کی علیحدگی کے بارے میں بات نہ کررہے ہوں بلکہ کھانے پینے کی اشیاء کے نرخوں پر گفتگو کررہے ہوں۔ لیکن یہ صرف ’’عوام‘‘کا حال نہیں تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک دن قومی سطح کے ایک سیاسی رہنما کا یہ بیان روزنامہ جنگ میں شائع ہوا کہ کراچی میں اقوام متحدہ کی فوجیں اتر چکی ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ پاکستان کا جو فوجی دستہ بوسنیا میں اقوام متحدہ کی امن فوج کا حصہ تھا وہ بوسنیا سے واپس لوٹا تھا اور کراچی بندرگاہ پر اترنے والے اس کے سازو سامان پر اقوام متحدہ کی امن فوج کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ مذکورہ قومی رہنما یہ دیکھنے کے لیے خود کراچی کی بندرگاہ پر موجود نہ تھے، انہیں ان کے کسی ذریعے نے یہ اطلاع دی تھی، لیکن چونکہ کراچی خوف کی گرفت میں تھا اور اس کے حوالے سے طرح طرح کے بین الاقوامی منصوبے زیربحث تھے، اس لیے مذکورہ قومی رہنما نے بھی اطلاع ملتے ہی بیان دینا ضروری سمجھا۔
دہشت گردی سے انسان مرتے ہیں، اور مرنے کا المیہ اس کی تفصیل میں ہوتا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں صرف خبر رپورٹ ہوتی ہے۔ المیہ اور اس کی تفصیلی رپورٹ نہیں ہوتی۔ ماں باپ بچوں سے دور ہوں تو اس کے بھی نفسیاتی، جذباتی اور اخلاقی اثرات ہوتے ہیں، لیکن دہشت گردی میں ماں باپ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو جاتے ہیں اور دہشت گردی کا ایک لمحہ درجنوں خاندانوں کے لیے دہائیوں کا دل دہلا دینے والا سفر بن جاتا ہے۔ محبت بچھاکر اور محبت اوڑھ کر سونے والے محبت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ دینے والے لینے والے بن جاتے ہیں۔ جنہوں نے کبھی ایک دن بھی بھوک کا منہ نہیں دیکھا ہوتا وہ فاقے جھیلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ انسان کسی بڑے کاز کے لیے جان دیتا ہے تو اس کے لواحقین کو یہ خیال رہتا ہے کہ مرنے والے کی زندگی ضائع نہیں ہوئی۔ مگر دہشت گردی، موت پر بے معنویت کی مہر لگاکر اس کے دکھ کو بہت بڑھا دیتی ہے، اور یہ دکھ بسا اوقات نسل در نسل سفر کرتا ہے۔

 

شاہنواز فاروقی 

 

مولانا ابو الکلام آزاد ۔ ..... بے باک صحافی، بہترین مفسر.

0
0



بے مثل انشاء پرداز، جادو بیان خطیب، بے باک صحافی، بہترین مفسر، عظیم سیاسی رہنما اور تحریک آزادئ ہند کی نامور شخصیت مولانا ابو الکلام آزاد 1888ء میں آج ہی کے روز یعنی 11 نومبر کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام محی الدین احمد تھا جبکہ والد اک تاریخی شخصیت کے نام پر آپ کو فیروز بخت کے نام سے پکارا کرتے تھے۔
آپ تقسیم ہند کے مخالف مسلم رہنماؤں میں سب سے نمایاں نام تھے اور آخری وقت تک اپنے موقف پر ڈٹے رہے حالانکہ آزادئ ہند و پاک کے بعد آپ کو کافی دشواریوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔البتہ آپ کی علمی و ادبی حیثیت مصدقہ ہے۔ آپ صرف پندرہ سال کی عمر میں ماہنامہ لسان الصدق کی ادارت کی اور 1914ء میں الہلال نکالا۔ پھر 1923ء میں انڈین نیشنل کانگریس کے کم عمر ترین صدر بنے جب آپ محض 35 برس کے تھے۔ 'ہندوستان چھوڑ دو تحریک'کے دوران آپ پوری کانگریس قیادت کے ساتھ احمد نگر کے قلعے میں قید کر دیے گئے جس کے دوران آپ نے اپنے دوست کے نام شہرۂ آفاق خطوط لکھے جو بعد ازاں "غبار خاطر"کے نام سے شایع ہوئے۔
آزادئ ہند کے بعد جمہوریہ بھارت کے پہلے وزیر تعلیم بنے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کا یوم پیدائش بھارت میں یوم تعلیم کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 22 فروری 1958ء کو انتقال فرمایا۔ آپ کو بعد از وفات 1992ء میں بھارت کا سب سے اعلیٰ شہری اعزاز 'بھارت رتن'دیا گیا۔
اگرچہ سیاسی حیثیت سے مسلمانان ہند و پاک کی اک قابل ذکر تعداد مولانا ابو الکلام آزاد کے موقف کی حامی نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود ادبی لحاظ سے جو مقام و مرتبہ مولانا کو ہندوستان کے افق پر حاصل رہا ہے، اس پر شاید ہی کسی کو کوئی شبہ ہوگا۔ اردو میں بیک وقت تقریر و تحریر دونوں پر آپ کو ملکہ حاصل تھا البتہ ان کی نثر میں عربی و فارسی رنگ بہت زیادہ گہرا ہے کیونکہ مادری زبان عربی تھی (ان کی والدہ کا تعلق مدینہ منورہ سے تھا)۔
 

Enhanced by Zemanta

طوفان ہائیان: فلپائن میں شہروں کے شہر اجڑ گئے

0
0


  
تاریخ کے انتہائی تباہ کن سمندری طوفانوں میں ایک ٹائفون ہائیان نے فلپائن کے مرکزی حصے میں شہروں کے شہر اور قصبوں کے قصبے اجاڑ دیے ہیں اور لگ بھگ 10,000 افراد کی ہلاکت بھی ہوئی ہے۔
چھ صوبوں میں تباہی برپا کرنے کے بعد طوفان کا رخ شمال مغرب میں واقع ساؤتھ چائینا سی کی جانب مڑ گیا ہے اور ویتنام اور جنوبی چین کے درمیان سرحد پر اس کی شدت میں کمی آ چکی ہے۔
تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے والا یہ طوفان جمعہ کو جزیرہ لیٹے سے ٹکرایا تھا۔ اس سے ہونے والی تباہی کا بہتر اندازہ اتوار کو ممکن ہو سکا، اور حکام کا کہنا ہے کہ یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوگا۔
صدر بینگنو آکینو نے خطے بھر میں ہنگامی صورت حال کا اعلان کر دیا ہے۔ فلپائن کو امریکہ سمیت دیگر ممالک سے امداد کی پیشکش کی گئی ہے۔
امریکی صدر براک اوباما نے اتوار کو اپنے بیان میں اس صورت حال پر رنج کا اظہار کیا اور فلپائن کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ’’قابل ذکر‘‘ مدد کی یقین دہانی کروائی۔
امریکی افواج کے دستوں کو زندہ بچ جانے والے متاثرین کی تلاش کے عمل میں مدد کے لیے ہفتہ سے ہی تعینات کر دیا گیا ہے۔
پیر کی صبح طوفان کی شدت میں کمی آنا شروع ہو گئی اور اب یہ ویتنام کے شمالی صوبہ کوانگ ننہ پر موجود ہے۔ ماہرین موسمیات کا خیال ہے کہ جنوبی 
چین میں داخل ہونے کے بعد اس کی شدت مزید کم ہو جائے گی۔

Philippine typhone

Enhanced by Zemanta

Confusion by Saleem Safi

0
0


Confusion by Saleem Safi
Enhanced by Zemanta

Request to Syed Munawwar Hassan by Ansar Abbasi

0
0
 

Request to Syed Munawwar Hassan by Ansar Abbasi
Enhanced by Zemanta

Request to Jamat-e-Islami by Irfan Siddiqui

0
0




Request to Jamat-e-Islami by Irfan Siddiqui
Enhanced by Zemanta

لاپتہ افراد کا المیہ

0
0



…حبیب بلوچ…
اگر میرے بھائی کے ہاتھوں کوئی قصور سرزد ہوا ہے تو بے شک جرم ثابت ہونے پر اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے مگر بنا کسی الزام کے اسے سالوں غائب رکھنا، تشدد کا نشانہ بنانا کہاں کا انصاف اور کہاں کی انسانیت ہے، یہ الفاظ ایک دکھیاری بہن اور بلوچستان کی بیٹی فرزانہ مجید کے اپنے لاپتہ بھائی کے بارے میں تھے۔محدود مواقع اور نامسائد حالات کے باوجود بلوچستان یونیورسٹی سے ایم ایس سی فلسفہ کرنے والی فرزانہ مجید ان دنوں اپنی پڑھائی سے کوسوں دور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے کراچی کے لیے نکالی جانے والی لانگ مارچ کا حصہ ہے،کہ جس میں شرکت کرنے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، فرزانہ مجید اپنے بھائی اور بلوچستان یونیورسٹی کے ایم اے انگریزی کے طالب علم ذاکر مجید کے اچانک غا ئب ہوجانے کے بعد سے اس کی بازیابی کے لیے سرگرداں ہے، کراچی ہو یا اسلام آباد ، کوئٹہ ہو یا حب، سخت گرمی کا مہینہ ہو یا کڑاکے کی سردی وہ وائس فار دی مسنگ بلوچ پرسنز کے پلیٹ فارم سے اپنے بھائی سمیت ہزاروں دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے جدوجہد میں مصروف عمل ہے۔لانگ مارچ کے دیگر شرکا کی طرح فرزانہ مجید بھی ماما عبد القدیر کی قیادت میں کوئٹہ سے کراچی تک تقریباً سات سو کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کررہی ہے، ایک آدھ کو چھوڑ کر تقریباً تمام قومی، علاقائی اور بین الاقوامی میڈیا کی جانب سے بائیکاٹ اور پیروں میں پڑنے والے چھالے مارچ کے شرکاء کے حوصلوں کو پست نہ کرسکے۔

 

فرزانہ مجید کی آواز سے پہلی بارمیرا واسطہ اس وقت پڑا تھا جب ٹیلیفون پر رابطہ کرکے انہوں نے اپنے بھائی کے لاپتہ ہونے یا کیے جانے کے بارے میں اطلاع دی تھی۔ ، یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب وہ اپنے بھائی ذکر مجید کے غائب ہوجانے کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے رابطہ کرکے انہیں صورتحال سے آگاہ کررہی تھیں۔ وہ دن ہے اور آج کا دن فرزانہ مجید ہمیشہ ہر فورم پر بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی اور متاثرین کی آواز بن کر سامنے آئی ہے۔لانگ مارچ کی قیادت کرنے والے ماما عبد القدیر کہتے ہیں کہ ملک بھر کے پریس کلب اور پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاج کرتے کے بعد انہوں نے لاپتہ افراد کی بازیابی کی آواز کو مزید موثر بنانے اور عالمی برادری تک پہنچانے کے لیے پیدل مارچ کا فیصلہ کیا۔شرکاء روزانہ صبح آٹھ بجے پیدل مارچ کا آغاز کرتے ہیں اور دن بھر تقریباً تیس کلومیٹر چلتے ہیں، شام چھ بجے سفر ترک کرکے پڑھا ؤ ڈالتے ہیں، تقریباً ساڑھے چار سو کلو میٹر سے زائد د سفر طے کرتے ہوئے فرزانہ مجید سمیت مارچ کے تقریبا تمام شرکاء کے پیروں میں چھالے پڑچکے ہیں اور انہیں چلنے میں شدید دشواری کا سامنا ہے مگر اس کے باوجود وہ کہتی ہیں کہ یہ تکلیف انہیں بہت ہی معمولی دکھائی دیتی ہے کیونکہ ان کے بھائی کی جدائی کا غم ان کے خاندان خصوصا ان کی والدہ کے لیے اس سے کہیں زیادہ اور تکلیف دہ ہے۔ مارچ کی قیادت وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز کے وائس چیئرمین عبد القدیر بلوچ کے مطابق کراچی پہنچ لاکر لانگ مارچ کے شرکاء وہاں علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کریں گے جبکہ اس سے قبل یہ علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ تقریباً چار سال سے جاری ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق بلوچستان میں لوگوں کی جبری گمشدگی کا باقاعدہ آغاز دو ہزار دو سے شروع ہوا جبکہ 2010 سے مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ بھی شروع ہوا ہوچکا ہے اور سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اب تک ملنے والی ایسی لاشوں کی تعداد 592 ہے۔وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز کے وائس چیئرمین قدیر بلوچ کے مطابق’2002 سے لیکر اب تک لاپتہ افراد کی تعداد اٹھارہ ہزار ہے۔

حکومتی ذرا ئع کا دعویٰ ہے کہ موجودہ حکومت کے قیام کے بعد لاشیں ملنے کے واقعات میں کمی آئی ہے مگر قدیر بلوچ اس سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا کہنا ہے ’موجودہ حکومت کے دور میں لوگوں کو لاپتہ کرنے میں تیزی آئی ہے۔ پہلے دو دو تین تین افراد کو اٹھایا جاتا تھا لیکن موجودہ دور میں درجنوں افراد کو ایک ساتھ اٹھایا جا رہا ہے۔بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سیاسی، سماجی تنظیمیں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر الزام لگاتے ہیں کہ بہت زیادہ تنقید کی وجہ سے انہوں نے اپنی حکمت عملی بدل دی ہے۔ اب وہ لوگوں کو لاپتہ کرنے اور بعد ازاں لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں پھینکے کے عمل میں براہ راست ملوث ہونی کی بجائے یہ کام اپنے پے رول پر موجود افراد کے تعاون سے تشکیل دیے گئے ایسے ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے کرواتے ہیں، جو بلا خوف و خطر ان کے احکامات پر عملدرآمد کرتے ہیں، دوسری جانب عدالت بھی لاپتہ افراد کیس اور بلوچستان امن عامہ کیس کی سماعتوں کے دوران ایف سی اور حساس اداروں کے اہلکاروں اور افسران کی سرزنش کرچکی ہے مگر مجال ہے کہ کوئی ٹس سے مس ہوا ہو۔ کہنے کو تو ہم ایک قوم ہیں، اصل میں ہم ایک ہجوم ہیں جنہیں بوقت ضرورت قوم کا نام دیا جاتا ہے، مگراسی قوم کی خواتین اور بچے جب اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سڑکوں پر نکلتے ہیں تودوسروں کو نہ تو ان کی پرواہ ہے اور نہ فکر تو ان حالات میں کہنے والے درست ہی کہتے ہیں کہ کہاں کی قوم اور کہاں کی قومیت؟ - 

علمائے کرام اور فوج کےخلاف الگ الگ نفرت پھیلانے کے منصوبے

0
0


خبردار آپ کا دشمن آپ کی صفوں میں گھس کر وار کر رھا ھے۔
میرے دوستو۔ دو تین دن سے بالکل غیر محسوس طریقے سے دو گروہ ایک سوچ کے تحت علمائے کرام اور فوج کےخلاف الگ الگ نفرت پھیلانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔

اس شورشرابے سے متاثر ھوکر جانے انجانے میں ھم سب بھی اس سازش کا شکار ھو رھے ہیں۔
آنکھیں کھلی رکھئیے۔
نہ تو علماء اس وطن کے اور فوج کے دشمن ہیں اور نہ ہی فوج ۔
اس آگ کو بھڑکانے میں ھمارا دجالی الیکٹرانک میڈیا اھم کردار ادا کر رھا ھے جو دونوں اطراف کے لوگوں کو بھرپور طریقے سے استعمال کر رھا ھے۔
کبھی فوج کا ھمدرد بن کر شہید فوجیوں کے اھل خانہ کو ٹی وی اسکرین پر لا بٹھاتا ھے اور ان کے جزبات سے کھیل کر ان سے علماء کے خلاف اگلواتا ھے اور کبھی علما میں سے کسی سیدھے سادے عالم دین کے منہ سے فوج کے خلاف اپنی مرضی کے الفاظ نکال لیتا ھے اور ان الفاظ سے جلتی پر تیل کا کام لیتا ھے
اس سے پہلے کہ غدار میڈیا ھمارے سب کے دشمن کے ناپاک منصوبے کو کامیاب کرے اس کے مشن کو ناکام بنا دیجئیے۔
یاد رکھئیے ھمارے علماء اور ھمارے دفاعی ادارے محب وطن اور ملک سے مخلص ہیں۔ ان کی نیتوں پر شک مت کیجئیے ۔
ھمارا دشمن ھمیں آپس میں مصر کے عوام کی طرح لڑا کر مارنا چاہتا ھے۔ بکاؤ میڈیا میں موجود بدبخت اپنے آقا کا مشن پورا کرنے میں مصروف ہیں۔ ان سب کا مشن خاک میں ملا دیجئیے


اب عمر کی نقدی ختم ہوئی

0
0


اب عمر کی نقدی ختم ہوئی
اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو ساھو کار بنے
ہے کوئی جو دیون ہار بنے
کچھ سال مہینے دن لوگو
پر سود بیاج کے بن لوگو
ہاں اپنی جان کے خزانے سے
ہاں عمر کے توشہ خانے سے
کیا کوئی بھی ساھو کار نہیں
کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں
جب نام ادھار کا آیا ہے
کیوں سب نے سر کو جھکایا ہے
کچھ کام ہمیں بھی نپٹانے ہیں
جنھیں جاننے والے جانیں ہیں
کچھ پیار دلار کے دھندے ہیں
کچھ جگ کے دوسرے دھندے ہیں
ہم مانگتے نہیں ہزار برس
دس پانچ برس دو چار برس
ہاں سود بیاج بھی دے لیں گے
ہاں اور خراج بھی دے لیں گے
آسان بنے دشوار بنے
پر کوئی تو دیون ہار بنے
تم کون تمہارا نام ہے کیا
کچھ ہم سے تم کو کام ہے کیا
کیوں اس مجمعے میں آئی ہو
کچھ مانگتی ہو کچھ لائی ہو
یا کاروبار کی باتیں ہیں
یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں
ہم بیٹھے ہیں کشکول لئے
سب عمر کی نقدی ختم کئے
گر شعر کے رشتے آئی ہو
تب سمجھو جلد جدائی ہو
اب گیت گیا سنگیت گیا
ہاں شعر کا موسم بیت گیا
اب پت جھڑ آئی پات گریں
کچھ صبح گریں کچھ رات گریں
یہ اپنے یار پرانے ہیں
اک عمر سے ہم کو جانیں ہیں
ان سب کے پاس ہے مال بہت
ہاں عمر کے ماہ و سال بہت
ان سب نے ہم کو بلایا ہے
اور جھولی کو پھیلایا ہے
تم جاؤ ان سے بات کریں ہم
تم سے نہ ملاقات کریں
کیا بانجھ برس کیا اپنی عمر کے پانچ برس
تم جان کی تھیلی لائی ہو کیا پاگل ہو
جب عمر کا آخر آتا ہے ہر دن صدیاں بن جاتا ہے
جینے کی ہوس ہی نرالی ہے ، ہے کون جو اس سے خالی ہے
کیا موت سے پہلے مرنا ہے تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے
پھر تم ہو ہماری کون بھلا ہاں تم سے ہمارا رشتہ کیا
کیا سود بیاج کا لالچ ہے کسی اور اخراج کا لالچ ہے
تم سوہنی ہو من موہنی ہو تم جا کر پوری عمر جیو
یہ پانچ برس یہ چار برس چِھن جائیں تو لگیں ہزار برس
سب دوست گئے سب یار گئے تھے جتنے ساھو کار گئے
بس یہ اک ناری بیٹھی ہے یہ کون ہے کیا ہے کیسی ہے
ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے
جب مانگیں جیون کی گھڑیاں گستاخ انکھیاں کتھے جا لڑیاں
ہم قرض تمہارا لوٹا دیں گے کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں گے
جو ساعتِ ماہ و سال نہیں وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں
جو اپنے جی میں اتار لیا لو ہم نے تم سے ادھار لیا 

Enhanced by Zemanta

Is This MY Real Pakistan?

0
0








Is This MY Real Pakistan?

Enhanced by Zemanta

انسان اور اصطلاحوں کا دھوکہ

ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق

0
0



سیدّ منور حسن کے بیان کے بعد ٹی وی چینلز پر مناظروں کی جو آندھی چل پڑی تھی، اب تھم گئی ہے ۔ پاکستان میں ایسا ہی ہوتا ہے ع
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
ہر روز اودھم مچانے کیلئے کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے۔ منور حسن نے ایک اینکر کے سوال بلکہ حسن طلب پر جو کہا، اس کا مسالہ اور کتنے دن کام آ سکتا تھا۔ ان کو منور حسن کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ تین چار دن کیلئے زور دار ریٹنگ مل گئی۔ بلکہ انہیں آئی ایس پی آر کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اصل طوفان اُسی کے بیان کے بعد آیا۔ وہ بے شمار جو نہیں جانتے تھے کہ منور حسن نے کیا کہا ہے ، انہیں پتہ چل گیا۔ سچ ہے، قومی مباحثہ اسی کو کہتے ہیں جو آئی ایس پی آر کے بیان کے بعد شروع ہوا۔ منور حسن کے بیان سے بڑا نقصان ہوا، یہ ایک تبصرہ نگار کا کہنا تھا۔ تبصرہ نگار لحاظ کر گیا ورنہ بڑا نقصان ، جو ابی بیان سے ہوا۔ ساری دنیا کو پتہ چل گیا کہ پاکستان میں انتشار اس مقام بلند کو چھو رہا ہے جہاں دوسری انتشارز وہ ریاستیں چاہیں بھی تو نہیں پہنچ سکتیں۔
اب ایک نئی مہم چلی ہے کہ کون شہید ہے، اس پر مناظرہ ہونا چاہیے تو دوسری نئی مہم یہ ہے کہ اس بحث کو روکو، ورنہ اور زیادہ نقصان ہو گا، اتنا زیادہ کہ ملک اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔ کہا جا سکتا ہے کہ نقصان سے مت ڈراؤ، یہ ملک بڑے بڑے نقصان سہار چکا ہے۔ مشرف جیسی شے بھارت پر آٹھ سال حکمرانی کرتی تو اس کے اب تک ایک سو آٹھ ٹکڑے ہو چکے ہوتے۔ امریکہ پر کرتی تو امریکہ سکڑ کر نکاراگوا بن چکا ہوتا۔ مبالغہ ہو گیا، نکارا گوا بہت ہی چھوٹا ہے، یوں کہہ لیجئے کہ افغانستان بن جاتا۔ فرض کریں مشرف بھارت کے راشڑ پتی کے طور پرجھاڑ کھنڈ میں نہ ختم ہونے والی بمباری شروع کر دیتا، تلنگانہ پر ٹینک چڑھا دیتا، تمل ناڈ یا کرناٹکا میں لشکر کشی کر دیتا، اتر اور مدھیہ پردیش میں شہریوں کو لاپتہ کرنا شروع کردیتا ، ارو ناچل اور آسام پر امریکہ سے منّت ترلے کر کے ڈرون حملے کرانے لگتا اور دلّی، چنائے میں اپنے خاص کارندوں کے ذریعے بم دھماکے کرادیتا، کٹک کے مندر کو فاسفورس بموں سے آگ لگا دیتا تو بھارت کا کیا ہوتا۔ یا بطور امریکن پریذیڈنٹ ٹیکساس پر بمباری کردیتا، کیلیفورنیا پر ٹینک چڑھا دیتا، پروٹسٹنٹ چرچ کے ہیڈ کوارٹر کو نذر آتش کر دیتا تو کیا ہوتا۔
بہت کچھ ہوتا۔ لیکن دیکھ لیجئے، پاکستان تو پھر بھی بچ نکلا۔ یہ ملک ہرگز نہ بچتے۔ بہرحال، نقصان سے نہ ڈرانے کی بات اپنی جگہ با وزن ہونے کے باوجود یہ مشورہ نہیں دیا جا سکتا کہ مزید نقصان کرو۔
آئی ایس پی آر نے جلدی کی، اور ان لوگوں کی بن آئی جو پہلے ہی پاکستان کے دن گنتے گنتے سر سے گنجے ، عقل کی بیوہ ہو چکے ہیں۔

مفتی تقی عثمانی کا فتویٰ

0
0



ایک رپورٹ کے مطابق جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز جو 11 ستمبر 2001ء کو جی ایچ کیو کا حصہ تھے اور اُن کا شمار پرویز مشرف کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا، حال ہی میں ان کی شائع ہونے والی ایک کتاب کو ارباب دانش و بینش کے ہاں پذیرائی مل رہی ہے۔ کتاب میں انہوں نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے غیر جمہوری اقدامات اور 2001ء میں امریکی جنگ میں اتحادی بننے کے غیر حکیمانہ فیصلے کا بھرپور محاکمہ کیا ہے۔
جنرل (ر) شاہد عزیز نے پاکستان کے جید اور مستند مذہبی سکالر ریٹائرڈ جسٹس مفتی تقی عثمانی کے نام لکھے گئے خط میں 4 سوالات پوچھے۔مفتی تقی عثمانی کا شمار عالم اسلام کے جید اور ثقہ علماء میں ہوتا ہے۔ ان کے خانوادے کی قیام پاکستان کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ جدید و قدیم علوم پر گہری نگاہ اور تبحر رکھتے ہیں۔ خط میں جنرل عزیز نے سوالات سے قبل صورت حال کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے: ’’امریکہ کی حکومت نے فوجی طاقت کے بل بوتے پر افغانستان پر جبراً اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے، اس تسلط کے قائم کرنے میں پاکستان کی حکومت پوری طرح امریکہ کا ساتھ دے رہی ہے، افغانستان کے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے قتل و غارت میں پاکستان کی شمولیت کے نتیجے میں، پاکستان میں پچھلے دس سالوں سے دہشت گردی ہے اور اس کے انسداد کیلئے کی گئی کارروائیوں میں ہزاروں بے گناہ شہریوں کا خون ہوچکا ہے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے‘‘۔ اس وضاحت کے بعد، لیفٹیننٹ جنرل عزیز نے مفتی تقی عثمانی سے مندرجہ ذیل چار سوالات پوچھے۔ سوالات اور ان کے جوابات ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں:
سوال اول: کیا شرعی نقطہ نظر سے حکومت پاکستان اس امر کی مجاز ہے کہ ایک پڑوسی مسلمان ملک پر غیر مسلمانوں کے قبضے کو مستحکم کرنے میں ان کی مدد کرے؟
جواب: ہرگز نہیں۔
واضح رہے کہ اس جنگ میں اتحادی بننے کافیصلہ سابق فوجی آمرپرویز مشرف نے کیاتھا۔ آمرپرویز مشرف نے ہی امریکہ کی کمال اطاعت گزاری کے ساتھ حملہ آور نیٹو افواج کو وہ مراعات اور سہولتیں بھی فراہم کیں جن کا بظاہر پاکستان سے مطالبہ بھی نہیں کیا گیا تھا۔ شمسی ائیربیس سمیت جنگی طیاروں کی پرواز کی اجازت اسی نے دی ۔ افغانستان پر امریکی قبضہ اسلامی تعلیمات اور بین الاقوامی قوانین کے کلیتاً منافی ہے۔ آمر نے اپنی ناجائز حکومت بچانے اور اقتدار کو طول دینے کی خاطر امریکیوں کے ظالمانہ، جارحانہ اور غاصبانہ اقدام میں معاون بننے کا لائق نفریں فیصلہ کیا۔
سوال دوم: کیاتنگدستی کا خدشہ حکومت پاکستان کی اس مفاد پرست پالیسی کیلئے شرعی حجت فراہم کرتا ہے؟
جواب: نہیں۔
محض تنگدستی اور افلاس کے خوف سے اصولی مؤقف سے انحراف کی اجازت نہ تو اسلام دیتا ہے اور نہ ہی اعلیٰ انسانی تہذیبی اقدار۔ نائن الیون کے فوری بعد امریکیوں نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو دھمکی دی تھی کہ اگر وہ اس جنگ میں اُن کے معاون نہ بنے تو پاکستان پر مالیاتی اور معاشی پابندیاں عائد کی جائیں گی نتیجتاً پاکستانی معیشت کی ریزہ کاری ہو جائے گی۔ اس دھمکی کو جواز بنا کر پرویز مشرف نے پاکستان کے جملہ وسائل، ذرائع اور توانائیاں امریکیوں کے لیے وقف کر دیں۔ وہ قوم سے جھوٹ بولتے رہے کہ اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا تو پاکستان میں ڈالروں کی بارش ہو گی اور پاکستان کی قومی معیشت مستحکم ہو گی جبکہ حقائق پرویز مشرف کے بیانات اور اقدامات کی نفی کرتے ہیں۔ پاکستان میں ڈالروں کی بارش تو نہ ہوئی البتہ 2004ء سے امریکی ڈورنز کی پاکستان پر میزائلوں کی بارش جاری ہے۔ اس جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننے کی وجہ سے پاکستان کی داخلی معیشت کو تقریباً 100 ارب ڈالر کا دھچکا پہنچا۔ محض معاشی مفادات کی خاطر قومی سلامتی، داخلی خود مختاری اور ریاست کی حاکمیت اعلیٰ سے دستبردار ہو جانے کا فیصلہ معاشی لحاظ سے بھی تباہ کن ثابت ہوا۔
سوال سوم: ان حالات میں حکومت پاکستان کیلئے کیا شرعی حکم ہے؟
جواب: یہ کہ وہ اپنے اس اقدام سے باز آئے۔
صائب الرائے دانشور اور تجزیہ کار اس پر متفق ہیں کہ مئی 1950ء سے تادم تحریر پاکستان نے امریکہ کا تیسری بار اتحادی بننے کا تلخ تجربہ کیا۔ پاکستان جب بھی امریکہ کا اتحادی بنا، اسے ہر بار اتحادی بننے کی کوئی نہ کوئی نئی سزا بھگتنا پڑی۔ سرد جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا انعام پاکستان کو کلاشنکوف کلچر اور منشیات کے فروغ کی شکل میں ملا اور اکتوبر 2001ء سے تاحال جاری امریکی مسلط کردہ جنگ میں امریکیوں کی فرنٹ لائن بننے کا تحفہ پاکستان کو آئے روز ڈرون حملوں، سی آئی اے اور بلیک واٹر کے خود کش حملہ آوروں اور اجرتی قاتلوں کی تخریب کارانہ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی شکل میں مل رہا ہے۔ ان اجرتی قاتلوں اور دہشت گردوں نے حساس تنصیبات تو ایک طرف رہیں، اولیائے کرام کے پر انوار مزارات کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنانے سے اسی طرح دریغ نہیں کیا جس طرح انہوں نے عراق میں صحابہ کرامؓ ، امام حسینؓ، حضرت علیؓ اور دیگر فقہائے عظام کے مزارات پر میزائل باری اور بمباری کر نے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ ان کی کارروائیوں کی وجہ سے جسدِ پاکستان کی شریانوں میں ایسے زہریلے اثرات سرایت کر چکے ہیں جن کا تریاق شاید عشروں تک تلاش نہ کیا جا سکے۔ ناقابلِ اندمال زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے امریکا الٹا آئے روز پاکستان کیلئے نئے مسائل پیدا کر رہا ہے۔
سوال چہارم: اگر شرعی حکم کا اقتضا امریکی جنگ سے نکلنے کا ہو لیکن حکومت پاکستان افغان مسلمانوں کے قتل و غارت میں شمولیت سے باہر نہ آئے تو پاکستان کے مسلمانوں کیلئے شرعی طور پر کیا راستہ کھلا ہے؟
جواب: مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ حکومت پر اس اقدام سے باز آنے کیلئے خانہ جنگی اور تخریب کاری سے بچتے ہوئے دباؤ ڈالنے کا جو طریقہ میسر ہو، اسے استعمال کریں۔
یہ جواب کسی تبصرہ کا محتاج نہیں۔ حکومت کو راہ راست پر لانے کے لیے پر امن احتجاج مؤثر ترین ہتھیار ہے۔ مربوط انداز میں ذہن سازی کے لیے میڈیا پر منظم مہم بھی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے کارگر اور ثمر آفریں ثابت ہو سکتی ہے۔ اسلام کسی بھی مسلم ریاست میں شہریوں کو متشددانہ روش اپنانے کی اجازت نہیں دیتا۔ قرآن حکیم نے تو فتنے کو قتل سے بھی بدتر قرار دیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مفتی تقی عثمانی کے مختصر مگر جامع و قاطع جوابات نے تمام اشکالات کو بتمام و کمال رفع کر دیا ہے۔

Pakistan Mufti Taqi Usmani 

Lessons from Rawalpindi Tragedy by Talat Hussain

0
0

Lessons from Rawalpindi Tragedy by Talat Hussain
Enhanced by Zemanta

Is Karachi still city of Lights? Unfortunate Realities

0
0

کراچی…  امریکی اخبار”لاس اینجلس ٹائمز “ لکھتا ہے کہ کراچی ملک کی سب سے بڑی جرائم کی آماج گا ہ ہے، اس شہر کے چند خاندان ہوں گے جو جرائم پیشہ عناصر سے محفوظ ہوں، مقامی سیاسی قائدین اور ان کے الحاق جرائم پیشہ گروہوں پر سخت ہاتھ ڈالا جائے تو بہتری کی امید ممکن ہے،ایک اندازے کے مطابق 10 ہزار پولیس افسران اس وقت ڈیوٹیوں پر حاضر ہیں جن میں سے نصف وی آئی پیز کی حفاظت پر مامور ہیں۔

کراچی میں تقریباً تمام افراد ہی لوٹ مار کا شکار ہوئے۔ درمیانہ طبقہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے، زیادہ تر لوگ گھروں میں ٹھہرنے کو ترجیح دیتے ہیں، شہری پبلک مقامات پراپنے موبائل فون اور جیولری چھپا کر چلتے ہیں۔ سیکورٹی گارڈ بھی اپنے رسک پر رکھے جاتے ہیں ،کئی رپورٹس کے مطابق وہ اغوا کاروں کو معلومات فراہم کرتے ہیں۔ مالکان اپنی املاک خالی چھوڑ نہیں سکتے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ جرائم پیشہ عناصر ان پر قبضہ کر لیں گے۔ حتیٰ کہ پوش علاقوں کے رہائشی بھی اپنی غیر روشن گلیوں میں جانے سے ڈرتے ہیں۔ کراچی میں بڑھتا یہ سماجی تناوٴ معاشی تقسیم میں اضافہ کر رہا ہے،امریکی میگزین فارن پالیسی نے حال ہی میں اسے دنیا کا خطرنا ک شہر قرار دیا اور اسے دنیا کے خطرناک شہروں بگوٹا، کولمبیا ،لاگوس، نائجیریا اور میکسیکو میں سرفہرست رکھا۔

اخبار نے کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر کے حوالے سے لکھا کہ کراچی میں امن پیناڈول سے ممکن نہیں اس کی انتڑیوں تک علاج کی ضرورت ہے۔ اغوا کاری روپے اکھٹے کرنے کا بہترین دھندہ بن چکا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر، اقتصادی انجن اور مالیاتی مرکز ہے،جہاں کی پورٹ پر روزانہ ہزاروں شپنگ کنٹینرز جاتے اور آتے ہیں،جہاں نو منزلہ اسٹیل مل اور دنیا کی بہترین اسٹاک ایکس چینج ہے جہاں تاجر لاکھوں ڈالر کا کاروبار کرتے ہیں لیکن یہ شہر ملک کی سب سے بڑی جرائم کی آماج گاہ بھی ہے یہاں تک کہ درمیانے طبقے کے لوگوں کو بھی ذاتی محافظ رکھنے پڑتے ہیں، ایک دوسرے کے علاقوں میں حریف گروہوں کے درمیان گولیوں کی گھن گرج بھڑک اٹھتی ہے وزیر اعظم نواز شریف سمیت پاکستانی رہنماوٴں کی طویل فہرست ہے جنہوں نے اس شہر کو صاف کرنے کا عزم دکھایا۔2009کی امریکی سفارت خانے کی کیبل کے مطابق ایک سیاسی جماعت کے 25ہزار مسلح ملیشیا ہیں۔مارچ میں پولیس افسر نیاز کھوسو نے کہا تھا کہ شہر کا نصف حصہ پولیس کے لئے نو گو ایریا ہے۔2002میں امریکی صحافی ڈینئل پرل کے اغوا اور سرقلم کئے جانے والے شہر کراچی کا کوئی باشندہ ہوگا جنہیں ان جرائم پیشہ عناصر کا ہاتھ نہ لگا ہو۔ کئی افراد نے اپنے دوستوں یا خاندان کے افراد کے اغوا ہونے کا بتایا۔ ڈرون سے متاثرہ علاقوں کے مکینوں نے بھی کراچی کا رخ کرلیا ہے۔

حالیہ سالوں میں کراچی کی آبادی میں80فی صد پھیلاوٴ ہوا جو نیویارک شہر میں ایک دہائی میں ممکن ہوا۔ کراچی میں امن لانے کے لئے سیکورٹی اداروں کو بغیر کسی مقدمے میں مشتبہ افراد کو نوے دن رکھنے کی تجویز دی گئی، جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے خدشات کا اظہار کیا۔
Is Karachi still city of Lights? Unfortunate Realities

Enhanced by Zemanta

سیاست میں طبقاتی فکر کی ناکامی، نظریاتی فکر کی ضرورت

0
0
 

(شاھنواز فاروقی) 


پاکستان ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا اور نظریۂ پاکستان طبقاتی فکر کیا تاریخ اور تہذیب سے بھی بلند تھا، اس لیے کہ ہماری تاریخ اور تہذیب خود اس نظریے کا حاصل تھیں۔

تاہم ایک نظریاتی ریاست کی سیاست قائداعظم اور لیاقت علی خان کے فوراً بعد طبقاتی فکر کی گرفت میں آگئی۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو اس فکر کے اظہار کا آغاز قائداعظم کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا۔

قائداعظم کی زندگی کا مشہور واقعہ ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد انہیں فوجی میس میں عشائیے پر مدعو کیا گیا۔ قائداعظم میس پہنچے تو کھانے سے قبل غیر رسمی تبادلہ خیال کی محفل برپا ہوگئی۔

محفل میں موجود فوج کے ایک سینئر اہلکار نے قائداعظم سے کہا کہ آپ نے جنرل گریسی کو فوج کا سپہ سالار مقرر کردیا ہے، آپ اس سلسلے میں ہم سے مشورہ کرلیتے تو کوئی مقامی شخص بھی اس عہدے پر فائز ہوسکتا تھا۔ راویانِ روایت کا کہنا ہے کہ یہ سنتے ہی قائداعظم کا "Mood"تبدیل ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سیاسی معاملات کو دیکھنا اور فیصلے کرنا سول قیادت کی ذمہ داری ہے۔ اگر آپ کے خیالات کی نوعیت یہ ہے تو آپ ازراہِ کرم برٹش آرمی سے پاکستان کی فوج میں منتقل ہونے کی کوشش نہ کریں۔

قائداعظم نے یہ کہا اور رات کا کھانا تناول کیے بغیر فوجی میس سے رخصت ہوگئے۔ اس واقعے میں پاکستان کے مستقبل کی جھلک دیکھی جاسکتی تھی۔ بدقسمتی سے قائداعظم کے انتقال کے بعد وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔

جنرل ایوب نے اگرچہ 1958ء میں مارشل لا لگایا مگر امریکہ کی عام ہوجانے والی خفیہ دستاویزات سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ جنرل ایوب 1954ء سے امریکہ کے رابطے میں تھے اور وہ امریکہ کی اعلیٰ قیادت کو تواتر کے ساتھ یہ باور کرا رہے تھے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت نااہل ہے اور پاکستان کا اصل ادارہ فوج ہے، اور فوج کی اعلیٰ قیادت سیاست دانوں کو ملک تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔

جنرل ایوب کے ان خیالات سے ظاہر تھا کہ وہ فوج کو ایک ادارے کے بجائے ایک طبقے کے طور پردیکھ رہے تھے۔ یہ تاریخی اعتبار سے ایک غیر تاریخی اور غیر تہذیبی بات تھی۔ کیونکہ قیام پاکستان کی جدوجہد میں فوج کا کوئی کردار ہی نہیں تھا لیکن اس کے باوجود جنرل ایوب بہ زعم خود پاکستانی قوم پرستی کی علامت بن کر سامنے آرہے تھے۔

فوج ملک کا سب سے منظم، تعلیم یافتہ اور پُرقوت ادارہ تھی اور اس بات کو پاکستان کی طاقت ہونا چاہیے تھا، لیکن پاکستان کے جرنیلوں نے فوج کی طاقت کو قوم کی سب سے بڑی کمزوری بنادیا۔

جنرل ایوب نے 1958ء میں مارشل لا لگایا تو انہوں نے سیاست دانوں کی نااہلی اور عدم استحکام کو مارشل لا کی بنیاد بتایا، لیکن جنرل ایوب تقریباً دس سال ملک پر حکمرانی کے بعد رخصت ہوئے تو پاکستان کا حکمران طبقہ پہلے سے زیادہ نااہل نظر آرہا تھا اور ملک کا سیاسی عدم استحکام پہلے سے بڑھا ہوا تھا۔

جنرل ایوب کے پیدا کردہ سیاسی خلا کا یہ عالم تھا کہ وہ اقتدار سے الگ ہوئے تو کوئی سیاسی یا آئینی ادارہ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے موجود نہ تھا۔ چنانچہ جنرل ایوب ایک اور جرنیل یحییٰ خان کو ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا کر گئے۔

لیکن نئی فوجی قیادت پرانی فوجی قیادت سے زیادہ نااہل ثابت ہوئی اور اس نے صرف تین برس میں ملک کو دو ٹکڑے کردیا۔

لیکن فوج کی طبقاتی سوچ پر اس سانحے کا بھی کوئی اثر نہ ہوا اور قوم نے جنرل یحییٰ کے بعد جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف کے مارشل لا بھی بھگتے۔

جنرل یحییٰ نے مشرقی پاکستان کو الگ کیا، جنرل ضیاء الحق کے فوجی آپریشن نے دیہی سندھ کو علیحدگی کی طرف دھکیل دیا تھا، اور جنرل پرویزمشرف نے بلوچستان کو آتش فشاں بنادیا۔ یہ منظرنامہ جرنیلوں کی طبقاتی سوچ کی مکمل ناکامی کی تصویر ہے۔

سوشلزم 20 ویں صدی کا ایک سیاسی اور معاشی رومانس تھا اور بھٹو صاحب کی شخصیت اس رومانس کی علامت تھی۔ اس علامت میں بائیں بازو کے خیالات کی جھلک تھی، معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی آرزوئوں کے رنگ تھے۔

عام خیال تھا کہ بھٹو صاحب کی طبقاتی فکر کا زاویۂ نگاہ ملک و قوم کی تقدیر بدل دے گا۔ لیکن بھٹو صاحب نے سوشلزم کو سوشلزم نہ رہنے دیا۔ انہوں نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ ایجاد کیا۔ حالانکہ اسلام سوشلزم اور سوشلزم اسلام کی ضد تھا۔

تیسرا تضاد خود بھٹو صاحب کی شخصیت کا جاگیردارانہ پس منظر تھا۔ چنانچہ بھٹو صاحب کی سیاست چوں چوں کا مربہ بن کر رہ گئی۔ اس سیاست سے بھٹو صاحب، ان کے خاندان اور پیپلزپارٹی کو بہت فائدہ ہوا لیکن اس سے نہ معاشرے کے کمزور طبقات کی کوئی خاص مدد ہوئی اور نہ ملک اور معاشرے کو کوئی فائدہ پہنچا۔ چنانچہ بھٹو صاحب کی طبقاتی سیاست اُن کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔

بھٹو صاحب کے بعد پیپلزپارٹی نے جو سیاست کی اُس کا طبقاتی زاویۂ نگاہ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس کی سیاست کا لب لباب کسی نہ کسی طرح اقتدار میں آنا اور اقتدار میں رہنا تھا۔ اس سیاست نے پیپلزپارٹی کو سیاسی اعتبار سے لب ِگور پہنچا دیا ہے۔

پاکستان کی سیاست میں 1970ء کے بعد اس خیال کو بڑی توجہ حاصل ہوئی کہ پاکستان کی سیاست کو جرنیلوں اور جاگیرداروں نے ہائی جیک کیا ہوا ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی مسائل کا واحد حل متوسط طبقے کی سیاست اور قیادت ہے۔

بلاشبہ اس خیال میں بڑی صداقت تھی کہ پاکستان کی سیاست کو جرنیلوں اور جاگیرداروں نے ہائی جیک کیا ہوا ہے، لیکن متوسط طبقہ سیاست سے یکسر باہر نہ تھا۔ ملک کی مذہبی جماعتوں کی قیادت متوسط طبقے کے ہاتھ میں تھی اور دوسری جماعتوں میں بھی اس کی کچھ نہ کچھ نمائندگی تھی۔

لیکن ملک کے مخصوص حالات کی وجہ سے متوسط طبقے کی قیادت کا نعرہ فضا میں بلند ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کے ظہور اور عروج کا تجربہ سامنے آگیا۔ ایم کیو ایم کی ساری قیادت شہری علاقوں سے تعلق رکھتی تھی اور اس قیادت کے اکثر لوگ معروف معنوں میں متوسط طبقے سے متعلق تھے۔ لیکن ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین دیکھتے ہی دیکھتے ملک میں شہری علاقوں کے سب سے بڑے سیاسی جاگیردار بن کر سامنے آگئے۔

جاگیردار کوئی اصطلاح نہیں ہے بلکہ یہ ایک تصور ہے، اور اپنی طاقت، جبر اور مخصوص ہتھکنڈوں کے تناظر میں دیکھی جاتی ہے۔ لیکن یہ صورتِ حال بھی غنیمت تھی۔ اس لیے کہ اس کے بعد ایم کیو ایم ایک سیاسی مافیا میں تبدیل ہوگئی اور الطاف حسین مافیا کے چیف نظر آنے لگے۔ یہاں تک کہ ایم کیو ایم نے اُن نعروں کو بھی ترک کردیا جن کی بنیاد پر وہ وجود میں آئی تھی اور جن کے سبب اسے شہری سندھ میں غیرمعمولی انتخابی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔

میاں نوازشریف قومی سیاست میں داخل ہوئے تو اُن کے حامیوں نے اُن کے بارے میں جس خیال کو تواتر کے ساتھ آگے بڑھایا وہ یہ تھا کہ میاں صاحب مذہبی بھی ہیں اور تاجر پیشہ بھی، چنانچہ وہ ایک نیا پاکستان تخلیق کرکے دکھا سکتے ہیں۔

اس سلسلے میں یہ مثال بھی دی جاتی کہ تجارت میں ان کے خاندان کی غیرمعمولی کامیابی ملک کے لیے ایک اچھا شگون ہے، میاں صاحب کو اقتدار ملے گا تو وہ ملک کو بھی اتفاق فائونڈری کی طرح ترقی یافتہ بناکر دکھا دیں گے۔

لیکن میاں صاحب بے پناہ سیاسی کامیابی کے باوجود کچھ نہ کرسکے۔ جب جنرل پرویز مشرف نے میاں صاحب کا تختہ الٹا تو ان کے پاس مشہورِ زمانہ ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ تھا، لیکن یہ بھاری مینڈیٹ ’’ہلکا مینڈیٹ‘‘ بھی ثابت نہ ہوسکا اور میاں صاحب ایک سمجھوتے کے تحت جان بچاکر ملک سے فرار ہوگئے۔

میاں صاحب کو تین بار اقتدار ملا مگر ایک بار بھی وہ تاجر طبقے کے زاویۂ نگاہ کے نمائندے بن کر سامنے نہ آسکے، اور نہ ان کے دور میں صنعت و تجارت کو کوئی خاص فروغ حاصل ہوسکا۔

یعنی طبقاتی فکر اس دائرے میں بھی بری طرح ناکام ہوئی۔ تجزیہ کیا جائے تو اصل بات یہ ہے کہ ملک کا مسئلہ حکمرانوں کا فوجی یا سول ہونا نہیں، ان کا کمزور طبقات یا تاجروں کا نمائندہ ہونا نہیں، اور نہ ہی اس بات کی کوئی خاص اہمیت ہے کہ قیادت کے منصب پر متوسط طبقے کا کوئی فرد فائز ہے یا نہیں۔

بلکہ ملک و قوم کی اصل ضرورت نظریاتی زاویۂ نگاہ یا اخلاقی نقطہ نظر ہے۔ یہ زاویۂ نگاہ بتاتا ہے کہ زندگی میں اصل چیز خدا خوفی، کردار اور صلاحیت ہے۔ علم و فضل ہے۔ قیادت میں یہ خوبیاں ہوں تو اس کا تعلق کسی بھی نسل، کسی بھی زبان اور کسی بھی صوبے سے ہوسکتا ہے۔

قائداعظم کے پاس سب سے بڑی طاقت ان کے کردار اور علم و ذہانت کی تھی۔ ان صلاحیتوں نے کبھی ان کے خاندانی پس منظر، ان کے لباس، مسلک اور بودوباش کو مسئلہ نہیں بننے دیا۔ قائداعظم میں یہ خوبیاں نہ ہوتیں تو ان کی ہر چیز پر تنازع برپا ہوتا اور شاید وہ برصغیر کی ملت ِاسلامیہ کے قائد ہی نہ بنتے۔

نظریاتی اور اخلاقی زاویہ نگاہ کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کو اختیار کرتے ہی آپ اپنی پوری مذہبی روایت سے منسلک ہوجاتے ہیں، اپنی تہذیب اوراپنی تاریخ سے متعلق ہوجاتے ہیں اور ان کی کمک آپ کو فراہم ہونے لگتی ہے۔

یہی وجہ تھی کہ قائداعظم کی آواز میں ہمیں اپنی پوری مذہبی روایت، تاریخ اور تہذیب کی گونج سنائی دیتی تھی۔

نظریاتی اور اخلاقی تناظر کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ آپ کو آپ کے تمام تعصبات سے بلند ہوکر سوچنے اور عمل کرنے پر مائل کرسکتا ہے۔

نظریاتی اور اخلاقی تناظر کی ایک قوت اور اس کا ایک جمالیاتی پہلو یہ ہے کہ یہ زاویۂ نگاہ انسانوں کو دوسروں کے گریبانوں کے بجائے اپنے گریبانوں میں جھانکے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ طرزفکر انسانوں کو اپنے محاسبے کی طرف مائل کرتا ہے اور دوسرے انسانوں کے لیے رعایتیں فراہم کرنے کی طرف راغب کرتا ہے۔

غور کیا جائے تو اس وقت ہمارے معاشرے کی عمومی صورت حال اس کے برعکس یہ ہے کہ ہم اپنے سوا سب کا محاسبہ کررہے ہیں اور معاشرے کے ہر طبقے کا خیال ہے کہ وہ تو ٹھیک ہے، خرابی معاشرے کے دوسرے طبقات میں ہے۔

Hussain Haqqani Allegations by Ansar Abbasi

0
0


Hussain Haqqani Allegations by Ansar Abbasi
Enhanced by Zemanta

Common Wealth Conference and Economic Realities

0
0



Common Wealth Conference and Economic Realities
Enhanced by Zemanta

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سےآپ ہی خود کشی کرے گی........Allama Iqbal

0
0


اقبال نے کیا تھا کہ

یورپ میں بہت روشنیِءِ علم وھنر ھے ____________حق یہ ھے کہ بے چشمہءِ حیواں ھے یہ ظلمات
بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس ___________________کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات
...
کیون - Macaulay Culkin - جو مشہور زمانہ انگریزی فلم - Home Alone - کا ہیرو تھا اور آج بھی بچو٘ں میں بہت مقبول ہے - جس کو دنیا کی ۱۰۰ معروف ترین بچوں کے اداکاروں میں دوسرا نمبر دیا گیا - بے شمار ایوارڈز، انعامات، شہرت اور دولت کمانے کے بعد آج منشیات کا شکار ہو کر عبرت کا موام بن چکا ہے - مغربی تہزیب نے اسکی معصومیت چھِن لی ہے - اف والدین اسکی موجودہ تصویر اپنے بچوں کو دکھانے کو تیار نہیں

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سےآپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ___________ناپائیدار ہوگا
دیارِ مغرب کے رہنے والوٕں خدا کی بستی دوکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو _____وہ اب زرِ کم اعیار ہوگا

Enhanced by Zemanta

Who Killed Yasser Arafat?

0
0



Who Killed Yasser Arafat?
Enhanced by Zemanta
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live