Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

کیا شریف ہونا جرم ہے؟

$
0
0
 
 

  یخ بستہ رات کی آخری پہر میں، میں میانی صاحب پہنچا تو چار سو سکوت مرگ طاری تھا ۔میں نے شہید کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے بعد اس کے پہلو میں لیٹے ہوئےشخص کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے سوچا، دوستی کا تعلق بھی کیسا انوکھا ہوتا ہے۔جب سے گجرات کے عظیم المرتبت قصبے کُنجاہ شریف کے سپوت راحیل شریف نے عساکر پاکستان کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا ہے،فاتح سبونہ شبیر شریف کی قبر پر حاضری دینے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے۔

میں بھی اسی بھیڑ چال میں میانی صاحب قبرستان پہنچا تو ایک دلچسپ روداد سامنے آئی۔شبیر شریف نے ازخود اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ انہیں یہاں دفن کیا جائے،صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنی والدہ کو وہاں لیجاکر جگہ کی نشاندہی بھی کر دی تھی۔ اس خواہش کے پیچھے دوستی کی ایک لازوال داستان پوشیدہ ہے۔ان کے ایک دوست نے خودکشی کر لی تھی اور وہ یہیں میانی صاحب میں دفن ہے۔شبیر شریف نے علماء سے استفسار کیا کہ میرے دوست کی بخشش کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟

انہیں بتایا گیا کہ اگر اس کی قبر کے ساتھ کسی شہید کو دفن کیا جائے اور وہ شہید اس کا سفارش کنندہ ہو تو معافی کی توقع کی جا سکتی ہے لہٰذا شبیر شریف نے طے کر لیا کہ جب اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے وہ شہید ہوں تو انہیں اس دوست کے پہلو میں سپرد خاک کیا جائے۔فاتح سبونہ کی بہادری تو بے مثل ہے ہی۔ آپ نے محاذ جنگ پر ان کی شجاعت کے بے شمار واقعات سنے ہوں گے مگر میں ان کی دوستی،انسانیت اور دوراندیشی و بصیرت کا معترف ہوں۔ پاک فوج نے مشرقی محاذ سے توجہ ہٹانے کیلئے مغربی محاذ پر دبائو بڑھانے کا فیصلہ کیا تو بھارتی افواج نے پیشگی اس خطرے کو بھانپ لیا اور مغربی سرحد پر ایک مصنوعی پہاڑی بنا لی جسے سبونہ کہا جاتا ہے۔اس پہاڑی کی وجہ سے بھارتی فوج کو دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے میں بھی آسانی ہو گئی۔ پہاڑی کے سامنے ایک اور رکاوٹ کے طور پر دریا کھودا گیا تاکہ پاک فوج پیش قدمی کرتے ہوئے آرٹلری استعمال نہ کر سکے۔ اس دریا پر دو پُل تھے جو بھارتی فوج کے زیر انتظام تھے۔ ان حالات میں میجر شبیر شریف کو حملہ کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔3دسمبر کو بھارتی گائوں بیری والا عبور کر کے پاک فوج کے جوانوں نے اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے یلغار کر دی،دو بنکر پہلے ہی ہلے میں تباہ ہو گئے اور تیسرے بنکر کے سامنے کھڑے میجر شبیر شریف نے دشمن کو للکارا تو اندر سے ہینڈ گرنیڈ پھینکا گیا جو انہوں نے تھام کر واپس دشمن کی طرف اچھال دیا۔

یہ آپریشن 30منٹ میں مکمل ہو گیا اور سبونہ کی پہاڑی پر سبز ہلالی پرچم لہرا دیا گیا۔یہ مورچہ واپس لینے کے لئے بھارتی فوج نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا لیکن ہر بار منہ کی کھانا پڑی۔میجر نریان سنگھ نے تو کمپنی کمان ہی اس عہد کے ساتھ سنبھالی کے آج سبونہ کی پہاڑی واپس لیکر شبیر شریف کی لاش لائوں گا یا خود مر جائوں گا۔ دوران جنگ ایک موقع پر اس نے شبیر شریف کو للکارا ،اگر ہمت ہے تو سامنے آئو۔ میجر شبیر شریف نے اپنی پوزیشن چھوڑی تو نریان سنگھ نے ہینڈ گرنیڈ اُچھال دیا۔ فاتح سبونہ کی قمیص میں آگ لگ گئی لیکن دوبدو لڑائی میں اپنے مقابل میجر نریان سنگھ کو چاروں شانے چت کر کے چھاتی پر بیٹھ گئے اور اس کی اسٹین گن اپنے قبضے میں کر لی۔کچھ سپاہیوں نے زخمی ہونے کی وجہ سے پیچھے جانے کا مشورہ دیا تو کہنے لگے،جب میں ایک عام لفٹین تھا تب پیچھے نہیں ہٹا تو اب اپنے جوانوں کو چھوڑ کر کیسے واپس جا سکتا ہوں۔ 1965ء کی جنگ میں زخمی ہونے پر اسپتال لایا گیا اور ایک بازو پر پلاستر چڑھانے کے بعد ڈاکٹر نے کہا کہ آپ اب جنگ لڑنے کے قابل نہیں تو اسپتال سے بھاگ نکلے اور باقی جنگ اسی حالت میں لڑی کہ ایک بازو پر پلاستر بندھا تھا۔سبونہ کے محاذ پر دو ایسے واقعات ہیں جو ان کے کردار کی عظمت اور سپاہیانہ بصیرت کو آشکار کرتے ہیں۔

پہلا واقعہ 3 دسمبر کا ہے جب انہوں نے فتح کے جھنڈے گاڑے ہی تھے کہ ایک عمر رسیدہ شخص نے آواز دیکر کہا،بیری والا پر پاکستانیوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ہم دوپہر میں بارات لیکر یہاں آئے تھے اب واپس اپنے گائوں Gurmakhera جانا ہے ،ہمیں ان سے بچائو۔ اس کا خیال تھا کہ یہ بھارتی فوج کے جوان ہیں ۔میجر شبیر شریف نے اس بھارتی شہری کو حقیقت سے آگاہ کر کے مزید خوفزدہ کرنے کے بجائے تسلی دی اور کہا کہ آپ فوراً نکلیں یہاں سے،آپ کو کوئی کچھ نہیں کہے گا اور اس کے بعد پوزیشنیں سنبھالے تمام جوانوں کو پیغام دیدیا گیا کہ ایک بارات جا رہی ہے اسے کچھ نہ کہا جائے۔ایک سپاہی نے کہا،سر انہیں ہم بآسانی جنگی قیدی بنا سکتے تھے ،آپ نے کیوں جانے دیا؟میجر شبیر شریف نے کہا ،دل کی سنو جوان! یہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے، انسانیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔دوسرا واقعہ 4 دسمبر یعنی اس سے اگلے دن کا ہے جب بھارتی افواج نے اس پہاڑی کا قبضہ واپس لینے کے لئے ٹینکوں سے دھاوا بولنے کا فیصلہ کیا۔ مخبری مل جانے پر دو راکٹ لانچر اس طرح نصب کئے گئے کہ ٹینکوں کو قریب آنے سے پہلے ہی نشانہ بنا دیا جائے جبکہ ایک راکٹ لانچر میجر شبیر شریف کے قریب رکھا گیا تاکہ اگر پہلے دو نشانے چوک جائیں تو اسے بروئے کار لایا جا سکے۔

ادھر دشمن نے نہایت مہلک چال چلی، ٹینکوں پر سبز ہلالی پرچم لہرا کر اس طرح کا ماحول پیدا کیا گیا جیسے پاک فوج کی کمک آ رہی ہو۔ شب گیارہ بجے کے قریب یہ ٹینک قریب پہنچے اور کوئی فائر نہ ہوا تو میجر شبیر شریف نے وائرلیس پر پوچھا کہ راکٹ فائر کیوں نہیں کئے گئے۔ وہاں موجود سپاہیوں نے کہا،سر!یہ تو پاک فوج کے ٹینک ہیں۔ میجر شبیر شریف کا ماتھا ٹھنکا کہ یہ کہیں دشمن کی چال نہ ہو کیوں کہ پاک فوج کی طرف سے ٹینک آتے تو سامنے کے بجائے پیچھے سے آتے اور پہلے اطلاع بھی دی جاتی۔انہوں نے فائر کرنے کا آرڈر دیا لیکن سب نے پس و پیش سے کام لیا کیونکہ کنفیوژن پیدا ہو گئی تھی۔چنانچہ میجر شبیر شریف نے خود پہل کرتے ہوئے راکٹ فائر کیا اور جب روشنی میں پگڑیوں اور داڑھیوں والے سکھ فوجی نظر آئے تو سب کو دشمن کی اس مہلک چال کا اندازہ ہوا۔

میں نے میجر شبیر شریف کی کتاب زیست سے ان واقعات کا انتخاب اس لئے کیا کہ راحیل شریف کے ایک کورس میٹ کے مطابق انہیں اپنی بھائی کی لاج بہت عزیز ہے اور وہ کوئی بھی کام کرتے وقت یہ ضرور سوچتے ہیں کہ کہیں ان کی خاندانی ناموس پر کوئی حرف نہ آ جائے۔اگر ان کے شہید بھائی نے اپنے دشمنوں سے جنگ کے دوران انسانیت کو مقدم جانا تو مجھے امید ہے کہ جنرل راحیل شریف اپنے باغی ہم وطنوں کے خلاف لڑائی میں احترام آدمیت کو پیش نظر رکھیں گے اور لاپتہ افراد کے سلگتے ہوئے مسئلے پر پہلی فرصت میں غور کریں گے اور اپنے بڑے بھائی کی طرح سپاہیانہ دور اندیشی اور بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے درست فیصلہ کریں گے۔ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کو کئی دن بیت چکے مگر بھانت بھانت کے تبصروں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔جنرل ہارون کے سپر سیڈ ہونے پر اور نواز شریف کو ہدف تنقید بنانے والوں کو وہ وقت یاد نہیں جب 8 جرنیلوں کو سپر سیڈ کر کے اپنی مرضی کا آرمی چیف لایا جاتا تھا۔ کسی کو نئے آرمی چیف کے شریف ہونے پر اعتراض ہے تو کسی کو ان کا کشمیری پس منظر ایک آنکھ نہیں بھا رہا۔اگر نام کی مماثلت ہی رد کئے جانے کی وجہ قرار پاتی تو پرویز مشرف کے بعد پرویز الہٰی اور پرویز اشرف معتوب قرار پاتے۔جب تنقید و تعریض کی گرد اُڑتے دیکھتا ہوں تو ایک ہی جملہ بار بار ذہن پر ہتھوڑتے برساتا ہے کہ کیا ہمارے ملک میں شرافت کی طرح شریف ہونا بھی جرم ہے؟

بشکریہ روزنامہ "جنگ"

محمد بلال غوری

 
 
Enhanced by Zemanta

First SMS

Ajrak: A symbol of Sindhi culture and tradition

$
0
0
The best gifts come from the heart, not the store. This is what Arab and Pakistani traditions are all about; we show our respect to our esteemed guests by presenting gifts that represent our culture.
Ajrak — from the Indus Valley tradition of Sindh, Pakistan, is one such item that has rich cultural value.
Ajrak is a block printed cloth with deep crimson red and indigo blue background, bearing symmetrical patterns with interspersed unprinted sparkling white motifs, mostly stars. Made of cotton, its suppleness reminds us of smooth silk. More than a fabric, ajrak is a Sindhi tradition, traceable from the earliest archaeological finds of the old Indus civilization of Moen Jo-Dero. It has been equally popular since time immemorial till today among its urban, rural and nomad users.
Ajrak is literally used in Sindh (Pakistan) from the cradle to the grave. It is used as a hammock for infants, headgear for girls, bridal accessory, a turban and a shawl, a bed cover, a tablecloth, a gift item and a token of respect to honor a guest. Most of the heads of state and dignitaries of Pakistan have used ajrak in their public meetings to show respect and as a token of solidarity for Sindh Province.
To get a first-hand idea of how it is made we visited the small towns of Mityari, Bhit Shah and Hala located in and near Mityari District of Sindh Province in Pakistan. Bhit Shah is famous because of the great Sindhi mystic poet “Shah Abdul Latif Bhitai” whose famous poetic masterpiece “Shah Jo Risalo” occupies a very prominent place in Sindhi literature. A visit to Bhit Shah opens the door to “Sindhology,” the specialization of the Indus (Sindh) valley civilization, as “Egyptology’ is to the ancient Egyptian civilization.
Mitiari is known for ajrak craftsmanship, whereas Hala town is the marketplace of all the handicrafts including ajrak, Sindhi embroidery, and lacquered woodwork, typical glazed tiles in blue and white “Kashi” artwork, terracotta and some typical woven fabrics like “Soosi’.
The urge to mention the stunning beauty of the scenic panorama along the highway during a drive from Karachi to these places is simply irresistible. The misty twilight, the wide stretches of green and yellow mustard fields in full bloom, attractive banana and mango plantations, and widespread lush green fields interspersed with working village girls dressed in luminescent yellow, green, crimson and orange colors with occasional colorful floral nurseries in full bloom are only a few glimpses of the tour.
The legendary Pakistani folk singer “Allan Faqir” with his down-to-earth personality was an inspiring artist with his stylish ajrak attire including his dancing peacock like turban made of ajrak.
Color is the continuous phase of the “music in the color emulsion” of Sindhi society.
The Muslim rulers used to award “Khilat” (an expensive gown) in recognition of the services of their courtiers. Similarly, Muslim Sindhi rulers also continued the tradition and awarded ajrak in recognition of outstanding performances or the valuable services rendered by individuals. It is customarily conferred even today on respectable guests.
Considering the different processes involved, particularly printing, which is the main element of the craft, ajrak-making seems to be a scientific art. The technique of printing allows exclusive absorption of a dye in the desired areas only and prevents absorption on the areas intended to be left uncolored. It seems to be like differential staining used in microscopy wherein different microbes are stained and fixed selectively.
The famous German orientalist Marry Anne Schimmel and Elsa Qazi, a well-known scholar translated Shah Jo-Risalo selectively in verse. Both scholars highlighted in their work the fact that ajrak was very much in use at least in Shah Latif Bhittai’s times. It is a pure spiritual delight to know how beautifully and finely Elsa Qazi captured its essence. Symbolic use of ajrak, camel, saltbush and washing etc. few of Elsa Qazi’s narrations are:
“Like fresh pan-leaves are ajrak (shawls) they
Wear of shimmering emerald silk’
“Beautiful like roses sweet
Are robes of damsels fair?“
(Elsa Qazi from Mumal and Rano)
There was a time when princely Hoat
My clothes to wash did choose;
Now even camel men refuse
To take me with themselves
My gown is at my shoulders torn;
Yet my head is covered with Ajrak
O sisters in Bhambore (Place in Pakistan) fair
What have I now to do?
 
 
 
 

Enhanced by Zemanta

زیر آب تین دن تک زندہ رہنے والے شخص کی کہانی

$
0
0

نائیجیریا سے تعلق رکھنے والے ہیریسن اوجگبا اوکین بحر اوقیانوس میں تین دن تک تقریباً 100 میٹر زیر آب رہے۔ یہ نہ تو کسی مقابلے میں شریک تھے اور نہ ہی کوئی ریکارڈ بنانا چاہتے تھے بلکہ کشتی کے ڈوبنے کے بعد وہ پانی میں پھنسے رہے تاوقتیکہ امدادی کارکن ان تک پہنچے۔

اوکین ڈوبنے والی اس کشتی پر بحیثیت باورچی سوار تھے جو سمندر میں پھنس جانے والے دیگر جہازوں اور کشتیوں کو کھینچنے کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔

یہ واقعہ مئی میں پیش آیا۔ اس امدادی کارروائی کی وڈیو حال ہی میں انٹرنیٹ پر جاری کی گئی جس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد دلچسپی لے رہی ہے۔

امدادی کارکن اور غوطہ خور جائے حادثہ پر پہنچے اور وہاں سے چار لاشیں نکالیں۔ یہ تمام لوگ اس وقت خوف اور حیرت کا شکار ہوئے جب پانی میں نظر آنے والے ایک ہاتھ کو پکڑنے کے لیے غوطہ خور آگے بڑھا تو اس ہاتھ نے اسے ہی دبوچ لیا۔

پھر معلوم ہوا کہ یہ ہاتھ اوکین کا تھا جو تین دنوں سے خود کو زیر آب زندہ رکھنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔

اوکین بتاتے ہیں کہ انھوں نے یہ تمام وقت خدا سے وہ دعائیں کرتے ہوئے گزارے جو ان کی بیوی نے انھیں ارسال کی تھیں۔ ’’میرا یقین ہے کہ میں ان دعاؤں کی وجہ ہی سے تین دن تک زیر آب زندہ رہا۔‘‘

امدادی ٹیم کے ایک رکن نے بتایا کہ اوکین بے حد خوش قسمت تھا کہ اسے آکسیجن حاصل کرنے کے لیے ایک جگہ مل گئی ’’لیکن وہ اور زیادہ دن تک شاید زندہ نہ رہ سکتا۔‘‘

اوکین بتاتے ہیں کہ وہ صبح جلدی بیدار ہونے والوں میں سے ہیں۔ 26 مئی کو بھی وہ صبح ساڑھے چار بجے جاگے اور اس وقت ٹائلٹ میں تھے کہ پہلے کشتی کو ایک جھٹکا لگا اور پھر وہ الٹ گئی۔ ’’میں غنودگی میں تھا ہر طرف اندھیرا تھا۔‘‘

انھوں نے فوراً کشتی سے لائف جیکٹ تلاش کرنا شروع کی لیکن ان کے ہاتھ اس کے علاوہ کچھ سامان اور فلیش لائٹس بھی آگئیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ڈوبتی کشتی کے ایک کیبن میں انھیں کچھ جگہ نظر آئی۔ وہاں وہ سخت سردی میں خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنے لگے اور اس دوران انھیں اپنی ماں، اپنے دوست اور سب سے زیادہ اپنی بیوی کا خیال آیا جس سے پانچ سال پہلے ان کی شادی ہوئی تھی۔

’’میں نے خدا کو یاد کرنا شروع کر دیا۔ وہ سب دعائیں جو میں سونے سے پہلے پڑھا کرتا تھا اور میری بیوی نے بائیبل سے جو دعا مجھے بھیجی میں وہ بھی پڑھتا رہا۔‘‘

ان تین دونوں میں اوکین صرف مشروب (کولا) کی ایک بوتل پر گزارہ کرتے رہے۔

انھوں نے بتایا کہ وہ یہ سوچ چکے تھے کہ موت ان کے بہت قریب ہے کہ انھیں ایک کشتی کے انجن کی آواز سنائی دی اور پھر اس کشتی کا لنگر پانی میں گرایا گیا۔ انھوں نے کشتی کے عملے کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش بھی کی لیکن اولاً وہ ناکام رہے۔

پھر اوکین نے اپنی ڈوبی ہوئی کشتی کے اسٹیل سے بنے ایک حصے کو ہتھوڑے سے بجایا۔ ’’ لیکن میں نے سنا کہ کشتی دور جا رہی ہے اور وہ وہاں سے بہت دور تھے جہاں میں تھا۔‘‘

جب ہالینڈ میں قائم ایک غوطہ خور کمپنی کے کارکنوں نے اوکین کو بچایا اس وقت تک اس کے لواحقین کو یہ بتایا جا چکا تھا کہ ڈوبنے والی کشتی کا کوئی بھی سوار زندہ نہیں بچا۔

Pakistan Education Statistics an Eye-Opener

$
0
0




دنیا میں تعلیم کے لیے سرگرم اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 79 فیصد افراد ناخواندہ ہیں اور شرحِ خواندگی کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں 180ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق اس رپورٹ میں سنہ 2012 میں 221 ممالک میں عوام کی تعلیمی حالت کا جائزہ لیا گیا ہے۔
 ۔
25 ے 44 برس کے افراد میں ناخواندگی کی شرح 57 اور 45 سے 54 برس کے افراد میں 46 فیصد ہے۔
پاکستان میں سب سے زیادہ شرحِ خواندگی 55 سے 64 برس عمر کے افراد میں پائی گئی جن میں سے 62 فیصد لوگ تعلیم یافتہ تھے اور ناخواندگی کی شرح سب سے کم 38 فیصد تھی۔
یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق شرحِ خواندگی کے حوالے سے پاکستان جنوبی ایشیا میں صرف افغانستان اور بنگلہ دیش سے اوپر رہا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 2012 میں 70 لاکھ طلبہ سکول اور کالج جا رہے تھے جن میں سے 29 لاکھ بچے پرائمری سکول، 26 لاکھ سیکنڈری سکول اور 15 لاکھ کالج یا یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھے۔
یونیسکو کے مطابق پاکستان میں صرف تین فیصد بچے ہی کالج تک پہنچ پاتے ہیں اور ان میں سے بھی صرف ایک فیصد گریجویشن کر پاتے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان میں 75 فیصد طلبہ و طالبات نے میٹرک سے قبل ہی تعلیم کو خیرباد کہا اور صوبہ بلوچستان اور سندھ میں تین سے پانچ برس عمر کے بالترتیب 78 اور 72 فیصد بچے سکول نہیں جاتے۔
خیال ر ہے کہ اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں سنہ 2006 سے 2012 کے درمیان پرائمری سکولوں کی تعداد میں تقریباً 5,000 تک کی کمی کی گئی اور یہ کمی حکومت کی ریشنلائزیشن پالیسی کے تحت ہوئی۔

دوسری جانب حکومت خواندگی بڑھانے کی کوششوں سے مخلص ہونے کا دعویٰ بھی کرتی رہی ہے اور صوبہ پنجاب میں تو حکومت نے 100 فیصد خواندگی کے لیے مہم کا آغاز بھی کیا ہے۔

Enhanced by Zemanta

ہم اور ہماری سمت

$
0
0

 

 
ٹرین میں ایک شخص سیٹ نہ ملنے کی وجہ سے اپنے ایک بچے کے ساتھ بالکل دروازے کے قریب سفر کر رہا تھا۔اس کا بچہ بار بار دروازے کی طرف لپکتا تو بچے کا باپ بے حس و حرکت کھڑا رہتا جبکہ ارد گرد کھڑے دوسرے مسافر فکر مند ہو جاتے اور اس بچے کو روکنے کی کوشش کرتے کہ کہیں حادثہ نہ ہو جائے اور وہ سوچتے کہ بچے کے باپ کا رویہ اس قدر لاپروا کیوں ہے ۔ ایک دو مرتبہ انہوں نے بچے کے باپ کو تنبیہ بھی کی کہ بچے کا خیال رکھیں لیکن باپ بچے کی طرف ذرا غصے سے دیکھتا اور پھر لاپروائی سے سست ہو کر کھڑا ہو جاتا۔ٹرین میں سفر کرنے والے ایک شخص سے نہ رہا گیا اس نے بچے کے باپ کو جنجوڑتے ہوئے کہا کہ آپ دیکھ نہیں رہے کہ آپ کا بچہ نہ صرف دروازے کے قریب کھیل رہا ہے بلکہ وہ جس طرح خطرناک انداز میں دروازے کی طرف لپکتا ہے اس سے کوئی حادثہ ہو سکتا ہے۔بچے کے باپ نے گھور کر اس شخص کی طرف دیکھا اور بولا کیا حادثہ ہو جائے گا اور کون سا بڑا حادثہ ہو جائے گا۔وہ شخص کچھ لمحے خاموش رہا پھر کہنے لگا کہ کیا اس سے بڑا حادثہ ہوگا کہ میں نے قرضہ لے کر پسند کی شادی کی تھی جس کی پاداش میں والدین نے گھر سے نکال دیا۔والدین تو گئے ہی تھے اور قرضہ بھی میرے سر پر چڑھ گیا تھا لیکن چند سالوں میں بیوی نے ایسے انداز دکھائے کہ دن میں تارے نظر آنے لگے ہیں اور وہ ناراض ہو کر میکے جا پہنچی ہے۔کئی ماہ سے کوششوں کے باوجود واپس آنے کا نام نہیں لے رہی اور اس نے میرے خلاف کیس بھی کر دیا ہے ۔بیوی کو منانے اور بھاگ دوڑ میں جو ایک چھوٹی سی نوکری تھی اس سے بھی فارغ ہو چکا ہوں ۔دو بچے ہیں ایک بچہ پتنگ کی ڈور پھر جانے کی وجہ سے زخمی ہے اسے اپنے ایک عزیز کے پاس چھوڑ کر بیوی کو منانے کی آخری کوشش میں جا رہا ہوں۔آپ حادثے کی بات کرتے ہیں تو آپ کو بتا دوں کہ چلتی ٹرین میں سوار ہونے اور بچوں کو سنبھالنے کی فکر میں بچے کے کپڑوں کا بیگ اسٹیشن پر ہی بھول آیا ہوں۔ آپ حادثے کی بات کرتے ہیں تو سنیں گاڑی میں سوار ہونے کے بعد مجھے احساس ہوا ہے کہ کسی جیب کترے نے میری جیب سے پرس اڑا لیا ہے جس میں کچھ رقم اور ٹرین کے ٹکٹ بھی تھا۔ آپ کسی حادثے کی بات کرتے ہیں۔ کیونکہ مجھے کافی سفر طے کر لینے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ میں غلط ٹرین پر سوار ہو چکا ہوں اور اس وقت اپنی منزل سے بالکل الٹی سمت سفر کررہا ہوں۔ بچے کا باپ ابھی کسی مزید حادثے کی بات کرنا چاہتا تھا کہ ایک مسافر نے بچے کی طرف اشارہ کرکے اسے احساس دلایا کہ اس کے بچے نے وہ کچھ کردیا ہے جس کے لیے پانی اور دوسرے کپڑوں کی اشد ضرورت ہوگی۔


اگر ہم سب اپنے ارد گرد غور کریں تو پاکستان میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ ہر طرف کسی نہ کسی کے گرنے کا خدشہ ہے، کسی نہ کسی حادثے کا خدشہ ہے کیونکہ ہم نے حقیقت پسندی سے کام لیے بغیر کہیں پسند کی شادی کی ہوئی ہے اور کہیں زبردستی سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ ہم نے نہ خود انحصاری سیکھی ہے اور نہ چادر کی پیمائش کا اندازہ لگایا ہے ہم تو نواب ہیں اور وہ بھی ایسے نواب جو صرف اپنی ذات کے مفاد میں سب کچھ کرتاہے اور جو کوئی کا م کرنا چاہتا ہے اس کے ارد گرد اتنے حصار ہیں کہ ان میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ ہم پہلے ٹارگٹ حاصل نہیں کرپاتے کہ نئے ٹارگٹ آجاتے ہیں لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ ہم اکثر ایسی ٹرین میں سوار ہیں جو بالکل منزل کی الٹی سمت چل رہی ہے اور حقیقت تو ہے کہ ہمیں درست سمت معلوم ہی نہیں ہے۔معلوم ہی نہیں کہ دہشت گردی کا مسئلہ حل کرنے کے لئے کیا کرنا ہے۔ معلوم ہی نہیں کہ بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے کیا کرنا ہے۔معلوم ہی نہیں کہ گیس کی سپلائی کیسے پوری کرنی ہے۔معلوم ہی نہیں کہ معیشیت کو مستقل فروغ کیسے دینا ہے ۔تمام قومیں جو ترقی کرتی ہیں، وہ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت ترقی کرتی ہیں۔ پچھلے دنوں پلاننگ کمیشن آف پاکستان نے کنونشن سنٹر اسلام آباد میں ایک بہت بڑی ـ"ویژن "2025 کے نام سے ایک کانفرنس منعقد کی، جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملک کے بہتر مستقبل کی منصوبہ بندی کے لئے ایک ساتھ اکٹھا کیا گیا۔اب لازم ہے کہ اس کانفرنس میں ہونے والی منصوبہ بندی سے ایک پلان تیار کیا جائے جس سے پوری قوم کو بھی آگاہ کیا جائے اور اس پلان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔تا کہ پاکستان بھی ایک ترقی یافتہ ملک بن سکے۔

Enhanced by Zemanta

لیڈر ایسے ہوتے ہیں

$
0
0


ہمارا ملک لیڈران کی منڈی ہے۔ ہر کوئی بیٹھا رنگ برنگا مال بیچ رہا ہے۔ ہر کوئی مسیحا ہے۔ ہر کوئی اپنے بیان کے مطابق یکتا ہے۔ مگر لیڈر اصل میں کیسے ہوتے ہیں، ہم تاریخ سے کچھ رہنمائی لے سکتے ہیں۔ 1932ء میں فرینکلن ڈی روزویلٹ نامی امریکی صدر نے معاشی دباؤ کے مارے ہوئے ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔ دیکھتے ہی دیکھتے کرشمہ ہوگیا۔ دن رات اپنے ساتھیوں کی مدد سے روزویلٹ نے بینکوں کے شعبے میں انقلاب برپا کیا۔ 5 ہزار قابل اعتبار بینکوں نے معیشت کی فلاح کے لیے کام شروع کر دیا۔ غریبوں کے لیے کھانے، کمبلوں اور رضائیوں کے ساتھ ان کے بچوں کے نرسری اسکولز اور ان کے لیے نوکری کی اسکیموں کا اجراء کر دیا۔

25 لاکھ جوانوں کے لیے روزگار مہیا کیا۔ کسانوں کی زمینوں تک جدید آلات پہنچائے۔ ان کی محنت کا صحیح معاوضہ طے کیا۔ سڑکیں، ڈیمز، ایئر پورٹس اور اسکولوں کا جال بچھا دیا۔ مزدور اور فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کی فلاح کے متعلق فوری قانون سازی کی۔ بچوں سے مشقت لینے کو غیر قانونی قرار دیا۔ فیکٹریوں میں نوکریاں کرنے والوں کی تنخواہیں بڑھائیں تا کہ ان کی قوت خرید کی وجہ سے معیشت بحال ہو پائے۔ پانچ ریاستوں کے ساتھ ملنے والی ایک بہت بڑی وادی جو کئی دہائیوں سے درد سر بنی ہوئی تھی اس کو قومی خزانے میں تبدیل کر دیا۔ یہ وادی بارشوں میں زیر آب آجاتی تھی اور باقی مہینے خشک سالی کا شکار رہتی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کو زراعت کی آماجگاہ بنا دیا۔ امریکی صدر نے یہ سب کچھ کتنے دنوں میں کیا؟ ایک سو دن میں۔ جی ہاں! اپنے ہنی مون پریڈ میں۔

صدر روزویلٹ کے نقاد بھی تھے مگر ان میں سے چند ایک با کمال تھے۔ ایک کا نام ہوئی لونگ تھا۔ یہ شخص صدر روزویلٹ پر بے لاگ تنقید کرتا تھا اور لویزیانہ کی ریاست سے گورنر اور سینیٹر منتخب ہوا تھا۔ مگر اس کی تنقید کی بنیاد بڑی دلچسپ تھی۔ وہ صدر روزویلٹ کو سستی اور کاہلی پر ہدف تنقید بناتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ امریکی صدر 100 دنوں میں اس سے بھی کہیں زیادہ کام کر سکتے تھے جو انھوں نے نہیں کیے۔ ہوئی لونگ کی تنقید محض دل کی بھڑاس نہیں تھی نا ہی اس کے دعوے فرضی تھے۔ بطور گورنر وہ اپنی ریاست میں ایسی تبدیلیاں لاچکا تھا جنہوں نے صدر روز ویلٹ کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کو ماند کر دیا تھا۔ اس کی ایک اسکیم کے مطابق کوئی شخص تین ملین ڈالر سے زیادہ اثاثے نہیں رکھ سکتا تھا اور نہ ہی ایک ملین ڈالر سے زیادہ تنخواہ وصول کر سکتا تھا۔ حکومت کے تمام ٹیکس عوام کی خدمت کے لیے مختص کر دیے گئے تھے۔ لونگ اور روزویلٹ میں ایک قدر مشترک تھی دونوں ہی تقریبا 24 گھنٹے کام کرتے تھے۔

اگر آ پ کو امریکا کی موجودہ انتظامیہ کی کرتوتوں کی وجہ سے وہاں کی مثال قابل قبول نہیں ہے تو اس وقت کے USSR اور آج کے روس کی تاریخ سے مثال دی جا سکتی ہے۔ فرینکلن ڈی روزویلٹ کے صدر بننے سے ایک سال پہلے اس وقت کے مرد آہن اسٹالن نے اپنے ایک خطاب میں قوم سے یہ بات کہی ’’ہر کوئی رشیا کو اس کی کمزوری کی وجہ سے شکست دیتا ہے، ہماری کمزوری عسکری اور معاشی ہے۔ لوگ ہمیں شکست دیتے ہیں اور پھر اس کی کوئی قیمت نہیں چکاتے کیوں کہ کمزور ہمیشہ غلطی پر ہوتا ہے۔ یہاں پر صرف طاقت ور کی سنی جاتی ہے۔ مجھ سے لوگ کہتے ہیں کہ ترقی کا پہیہ ذرا دھیما کر دو، یہ نہیں ہو گا۔ اگر ہم رک گئے تو گر جائیں گے۔ گر گئے تو سب ہم پر قدم رکھ کر گزر جائیں گے۔ ہم ترقی کے میدان میں دوسری قوموں سے سو سال پیچھے ہیں۔ ہمیں یہ فرق دس سالوں میں ختم کرنا ہے، اگر ہم یہ فرق نہ ختم کر پائے تو دوسری قومیں ہمیں برباد کر دیں گی‘‘۔

اسٹالن نے وہ کر دکھایا جو اس نے کہا۔ بجلی کی پیداوار میں سیکڑوں گنا اضافہ کیا۔ کوئلہ، تیل، لوہا، اسٹیل زمین سے کھود کر ایک صنعتی جال کی صورت میں ہر طرف پھیلا دیا۔ ایسے ایسے علاقوں میں صنعت لگا دی جن کا کوئی رُخ نہیں کرتا تھا۔ درجنوں نئے شہر آباد کر دیے۔ سائبیریا کے سرد جہنم میں سے وہ خزانے نکالے جو مدتوں سے زمین میں دبے ہوئے تھے۔ دنیا کی لمبی ترین اور بہترین ٹرینیں بنائیں اور ہر طرف چلائیں۔ ایک نہیں درجنوں ڈیم بنائے۔ دیکھتے ہی دیکھتے رشیا میں بے روزگاری ختم ہو گئی۔ صحت کے شعبے میں وہ برطانیہ سے آگے نکل گیا۔ تعلیم مفت اور لازمی قرار دے دی گئی۔ اور اس وسیع ملک کے طول و عرض میں تکنیکی اداروں نے عوام کی روزگار کمانے کی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ اسٹالن بھی تقریبا 24 گھنٹے کام کرتا تھا۔

میں آپ کو ہٹلر کی مثال بھی دے دیتا ہوں۔ چونکہ جمہوری کانوں پر یہ نام ہتھوڑے کی طرح لگتا ہے۔ لہذا اس کا تذکرہ نہیں کرتے۔ اگرچہ تاریخی طور پر ملعون قرار دیے جانے والے ہٹلر نے جرمنی کے لیے جو کچھ کیا اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ میں یہاں قائد اعظم کی مثال بھی نہیں دینا چاہوں گا کیوں کہ ان کی شخصیت، کردار اور مصمم ارادہ بطور مثال تو استعمال ہو سکتا ہے لیکن اس پر عمل درآمد کرنا ناکارہ اور نامکمل انسانوں کے بس کی بات نہیں۔ دس سال میں بر صغیر کی سیاسی بساط پلٹ دینا اور بد ترین قوانین کے پیرائے میں رہتے ہوئے زیرک اور انتہائی طاقتور مخالفین کی چالوں کے باوجود ایک ملک بنا دینا صرف محمد علی جناحؒ ہی ایسا کرسکتے تھے ۔ کام وہ بھی 24 گھنٹے ہی کیا کرتے تھے۔

قائد اعظم کی صحت زیادہ کام نے خراب کی تھی۔ بعض مورخین کے مطابق اسٹالن کا ایک بازو چھوٹا تھا، امریکی صدر روز ویلٹ پولیو وائرس کی وجہ سے معذور تھا۔ تاریخ ساز شخصیات کام کرتی ہیں۔ ان کی صحت، ان کا وقت اور ان کی جان سب کچھ قوم پر قربان ہوجاتا ہے، وہ دو گھنٹے کھانے نہیں کھاتے اور تین گھنٹے خود ستائشی کے لیے ورزش نہیں کرتے۔ وہ اپنے ملک میں رہتے ہیں۔ غریبوں کا سوچتے ہیں۔ ان کے ہاتھ سے کیا ہوا کام نظر آتا ہے۔ ان کے لیے سو دن بھی بہت ہوتے ہیں۔ لیڈر ایسے ہوتے ہیں اور ہمارے یہاں کیسے ہیں؟ چھوڑیں، رہنے دیں۔ اگر میں نے لکھ دیا تو آپ سب سے ناراض ہو جائیں گے۔

Chief Jusitice Pakistan Iftikhar Muhammad Chaudhry Retirement by Orya Maqbool Jan

$
0
0


Chief Jusitice Pakistan Iftikhar Muhammad Chaudhry Retirement by Orya Maqbool Jan

Enhanced by Zemanta

مغرب آئیڈیل معاشرہ ہے؟

$
0
0



ایک عام خیال یہ بھی ہے کہ مغرب میں صرف ایک خرابی ہے اور وہ ہے عریانیت و فحاشی کی، جب کہ باقی سب کچھ اچھا ہے۔ یہ خیال بھی قطعی درست نہیں ہے۔ راقم نے اپنے پچھلے کالم میں یہ بات بیان کرنے کی کوشش کی تھی کہ مغربی معاشرے کی طے کردہ ’’آزادی‘‘ کے باعث وہاں کس قسم کے منفی اثرات معاشرے پر پڑ رہے ہیں اور انھی اثرات سے بچنے کے لیے ہمارے مشرق کے روشن خیال خاندان جب اپنی اولاد خاص کر بیٹی کو جوان ہوتا دیکھتے ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے گھر کی راہ لیں یا بیٹی کا رشتہ کسی ہم وطن لڑکے سے کر دیں مبادہ وہ اپنے کسی بوائے فرینڈ کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کر بیٹھے۔

بات یہ ہے کہ ماڈرن ازم نے مذہب کو کاری ضرب لگانے کے لیے ریپیٹیشن (Repetation) کی مخالفت کی اور ’’نیا پن‘‘ (Novelty) کی حمایت کی۔ کسی بھی ناولٹی پر عمل کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہیے کہ اس کی پریکٹس اور تجربات کے نتائج کیا ہیں؟ آیا یہ قابل قبول بھی ہے یا نہیں؟ مغرب میں ناولٹی کے اپنانے سے جو خرابیاں سامنے آئی ہیں ان سے بچنے کے لیے ان کی جانب سے اپنائی گئی ناولٹی سے ہمیں گریز کرنا چاہیے۔ آج مغرب کی تقلید میں جو نیا پن ہم اپنانے پر بضد ہیں یا رجحان رکھتے ہیں جب اس کی منفی اثرات مکمل طور پر ہمارے معاشرے کو جکڑ لیں گے تو پھر واپسی کا کیا فائدہ ہو گا؟ آخر ہم مغرب کے تجربات سے سبق کیوں نہیں حاصل کر لیتے؟

اس کی ایک وجہ یقیناً یہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے نقاد، مفکر، دانشور (ایک خاص طبقہ) اپنے دین اور معاشرے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ریڈیکلسٹ (Radicalist) بن جاتے ہیں۔ لیکن وہ طبقہ مغرب سے اس قدر متاثر ہے کہ اس کا تنقیدی جائزہ لینے کے بجائے کنفرمسٹ (Conformist) بن جاتے ہیں۔ یوں مغرب کی خامیوں پر جن مغربی مفکرین نے کڑی تنقید کی ہے وہ بھی ہم تک نہیں پہنچ پاتی اور ہم دور سے سراب کا شکار ہو کر کڑی دھوپ کی چمک کو صحرا میں پانی کا تالاب سمجھ بیٹھتے ہیں۔

موجودہ دہائی سے باہر پچھلی جانب دیکھیں تو پاکستان سمیت پوری اسلامی سوسائٹی کی تاریخ میں دنیا بھر میں سب سے کم طلاقیں واقع ہوئی ہیں لیکن امریکا و یورپ میں طلاق کی شرح سب سے زیادہ رہی۔ ان طلاقوں کی شرح کو کنٹرول کرنے کے لیے جب سخت قوانین بنائے گئے تو مردوں نے طلاقیں دینا چھوڑ دیں۔ اسی طرح شادی کے بجائے رسمی طور پر زندگی گزارنے کا راستہ بھی اپنا لیا گیا تا کہ قانونی مسائل سے جان چھڑائی جا سکے۔ یوں قانون بنانے کے باوجود شادی کے ادارے کو بچایا نہ جا سکا، دوسری طرف دنیا میں جہاں سب سے زیادہ آسان طلاق دینا تھا وہاں شرح طلاق بھی سب سے کم رہی۔

روایتی معاشروں میں ماں باپ کا کردار نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے اور جرائم کو کنٹرول کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا رہا ہے مگر مغرب میں باپ کی طاقت کو بھی کم کر کے ریاست کی طاقت کو بڑھانے کی کوشش کی گئی، جس کے منفی اثرات پڑے۔ ہمارے ہاں آج بھی باپ اپنی اولاد کو تربیت کی خاطر سزا دے سکتا ہے، مار پیٹ کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں اولاد اپنے کردار کو درست رکھتی ہے، ہمارے معاشرے میں وہ وقت بھی تھا کہ جب گلی محلے کے بچے محلے کے بزرگ سے بھی ڈرتے تھے اور کوئی بھی بزرگ غلط کام پر کسی بچے کو بھی ڈانٹ ڈپٹ کر سکتا ہے۔ ایسے ہی ماحول میں معاشرتی امن اور ماحول مغرب کے مقابلے میں کہیں مثالی تھا۔ آج اگر کسی باپ کو یہ خوف ہو کہ اس کا مارا ہوا ایک تھپڑ بیٹے کی جانب سے ریاستی مشینری کو حرکت میں لا سکتا ہے تو وہ بھلا اولاد کی تربیت اور انھیں کنٹرول کیسے کر سکتا ہے؟

کتنی عجیب بات ہے کہ ماڈرن ازم کے تمام آفاقی دعوئوں کو پوسٹ ماڈرن ازم نے اپنی تنقید سے حرف غلط قرار دے دیا مگر ہمارے ہاں کے روشن خیال دانشور صرف اسلام اور ہمارے معاشرے پر ہی تنقید کرتے نظر آتے ہیں گویا یہ صرف اسلام اور روایت پسندی پر ریڈیکلسٹ (Radicalist) ہیں اور مغرب کے معاملے پر کنفرمسٹ (Conformist) ہیں۔

راقم نے اپنے ایک کالم میں اس جانب بھی توجہ دلائی تھی کہ مغربی معاشرے نے ’’نیاپن‘‘ کے حوالے سے جو کلچر متعارف کرایا اس میں خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ گھر سے باہر ’’خدمت‘‘ انجام دینے پر سہولت فراہم کرنے کے لیے ڈے کیئر سینٹر متعارف کرائے گئے، نتیجتاً منفی اثرات پڑے تو پھر خود بخود ’’اولڈ ہائوسز‘‘ بھی منظر عام پر آ گئے۔ مادہ پرستی کے اس کلچر نے اس خاندانی نظام کو تباہ کر دیا کہ جس میں ایک باپ ریٹائرڈ ہو کر گھر پر آرام کرتا ہے اور اولاد والدین کی خدمت کرتی ہے۔ اس تباہی نے سال میں کسی مذہبی تہوار پر بھی اولاد کو والدین سے ملنے میں دشواری کی دیوار حائل کر دی اور ریاستوں کو قوانین بنانے پڑ گئے کہ ’’اولاد اگر بزرگ والدین کو وقت نہیں دے گئی یا ملاقات نہیں کرے گی تو ان کے خلاف ریاست کارروائی کرے گی‘‘۔

روایتی اور مشرقی یا اسلامی کلچر میں لڑکی کے لیے جو شادی کی ’’آئیڈیل عمر‘‘ ہوا کرتی تھی، نئی مغربی تہذیب نے اس کو بھی اس طرح برباد کر دیا کہ عین شادی کی عمر میں لڑکی اپنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیمی مقصد کے لیے مزید تعلیم حاصل کرنے لگتی ہے اور پھر تعلیم کے حصول کے بعد ملازمت بھی اختیار کر لیتی ہے اور پھر آخر میں رشتہ کی تلاش یعنی شادی کے لیے توجہ دی جاتی ہے یوں جو عمر شادی کی ہوتی ہے وہ نکل جاتی ہے جس سے رشتے کے حصول میں مزید مشکلات پیش آتی ہیں اور یہ مشکلات مزید وقت ضایع کرا دیتی ہے اور بالآخر شادی ہو بھی جائے تو اولاد ہونے کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ بحیثیت صنف نازک اولاد کی نعمت کا مناسب وقت بھی نکل جاتا ہے۔ یہی مسئلہ آج ہمارے ہاں ان گھرانوں کو درپیش ہے جن میں لڑکیاں اپنی اعلیٰ تعلیم اور کیریئر بنانے میں اپنا قیمتی وقت ضایع کر دیتی ہیں۔

ہمارے ایک شاگرد کا خیال ہے کہ اعلیٰ تعلیم اور پھر ملازمت یعنی مردوں کے شانہ بشانہ زندگی گزارنے کا حق عورت کو حاصل ہے۔ ان کا کہنا یقیناً درست ہو گا لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنے ایسے مرد ہیں جو اعلیٰ تعلیم سے فارغ ہونے والی کسی 40 یا 45 سالہ باروزگار صنف نازک سے نہ صرف شادی کریں گے، بلکہ ہنسی خوشی آئیڈیل لائف بھی گزاریں کہ برابری یا مساوات کے حصول کے تحت جب میاں گھر آ کر روٹی، کھانا تیار نہ کرے اور بیوی بھی یہ کام نہ کرے کیونکہ وہ بھی 8 گھنٹے کسی دفتر میں گزار کر آئی ہے۔

اگر ہمارے ہاں ایسے آئیڈیل مرد بکثرت موجود ہوں اور ایسے مثالی گھرانے بھی بکثرت موجود ہوں اور ایسی مثالی ساس بھی بکثرت موجود ہوں جو بہو سے کام کاج نہ کرائے تو یقیناً ہمیں بھی ایسی ہی راہ اپنانی چاہیے لیکن اگر ایسا نہ ہو اور بیوی کو 8 گھنٹے کام کر کے گھر آنے پر پھر دوبارہ سے نہ صرف شوہر کی بلکہ پورے سسرال کی خدمت کرنا ہو تو پھر ہمیں یا تو یہ تحریک چلانی چاہیے کہ ملازمت کرنے والی کوئی بیوی شوہر کی خدمت اور گھر کا کام نہیں کرے گی کیوں کہ یہ اس کے حقوق کے خلاف ہے، مساوی حقوق کے بھی خلاف ہے یا پھر ہمیں اس کلچر کو اپنانے سے ہی معذرت کر لینی چاہیے۔ غور کیجیے کیا مغرب آئیڈیل معاشرہ ہے؟ اس کی تقلید درست ہے؟

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری                   
 

’پرل ہاربر حملے‘ کو 72 سال ہو گئے

$
0
0


    دسمبر کو امریکہ کے بحری اڈے پر جاپان کی جانب سے کیے گئے حملے کو 72 برس مکمل ہو گئے۔ جاپان نے یہ حملہ ہوائی کے جزیروں پر واقع پرل ہاربر کے مقام پر کیا تھا۔

ہر سال ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس روز پرل ہاربر پر اکٹھے ہوتے ہیں اور 1941ء میں امریکہ پر کیے گئے اس حملے کی یاد مناتے ہیں جس نے امریکہ کو دوسری جنگ ِ عظیم میں دھکیلا تھا۔

امریکی بحریہ اور نیشنل پارک سروس کی جانب سے اس روز منعقد کیے جانے والی تقریبات میں امریکیوں کی کثیر تعداد شرکت کرتی ہے۔ اس موقعے پر ’پرل ہاربر حملے‘ میں زندہ بچ جانے والے افراد بھی شریک ہوتے ہیں۔

7 دسمبر 1941ء کو پرل ہاربر پر امریکی فوج اور بحری اڈوں رپ جاپان کے جنگی جہازوں نے حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں دو ہزار سے زائد امریکی ہلاک ہوئے جبکہ ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے۔    













 

پاکستان: صرف 21 فیصد تعلیم یافتہ

$
0
0




پاکستان کی نئی نسل میں تعلیم کا رجحان روز بہ روز کم ہو رہا ہے۔ صرف ایک سال پہلے، یعنی 2012ء کی بات کریں، تو اس سال تک ملک بھر میں صرف 21 فیصد افراد پڑھے لکھے اور 79 فیصد ان پڑھ تھے۔ ان دونوں ہندسوں کا درمیانی فرق 21 ویں صدی کے جدید ترین دور میں حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ افسوسناک بھی ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کا کہنا ہے کہ دنیا کے 221 ممالک میں مذکورہ بالا شرح خواندگی کے ساتھ پاکستان 180 ویں نمبر پر ہے۔

عمر کے لحاظ سے دیکھیں تو جو لوگ زیادہ پڑھے لکھے ہیں ان کی عمریں 55سے 64سال کے درمیان ہیں اور ان کی شرح خواندگی 57 فیصد بنتی ہے جبکہ 15سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں کی شرح 72فیصد ہے یعنی تعلیم کا گراف گررہا ہے, جنہوں نے پہلے پڑھا ، سو پڑھا، نئی نسل میں تعلیم کا رجحان ہی کم ہے۔

حد تو یہ ہے کہ شرح خواندگی میں پاکستان جنوبی ایشیاٴ میں صرف افغانستان اور بنگلہ دیش سے اوپر ہے جبکہ چین، ایران، سری لنکا، نیپال اور برما بھی پاکستان سے آگے ہیں۔

سنہ 2012 میں 70 لاکھ طلباٴ اسکول اور کالج جارہے تھے جن میں سے 26 لاکھ پرائمری اسکول، 29 لاکھ سیکنڈری اسکول اور 15 لاکھ کالج یا یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طلباٴ میں وقت کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم کے حصول کا رجحان بتدریج کم ہوتاجاتا ہے۔اسکولوں سے فارغ التحصیل ہوکر کالج جانے والے طلباٴ کی شرح صرف 3 فیصد رہ جاتی ہے، جبکہ جب یونیورسٹی کا مرحلہ آتا ہے تو یہ شرح گھٹ کر صرف ایک فیصد رہ جاتی ہے۔

پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان نے یونیسکو کی جاری کردہ اِسی رپورٹ کے حوالے سے کچھ مزید اعداد و شمار بھی جاری کئے ہیں جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

۔ ملک بھر میں 75 فیصد لڑکے اور لڑکیاں میٹرک یعنی 10 ویں کلاس سے بھی پہلے اسکول کو سدا کے لئے خیرباد کہہ دیتے ہیں۔

۔ اکیاسی فیصد طالب علم انگریزی کے الفاظ نہیں پڑھ سکتے۔

۔ تین سے پانچ سال کی عمر کے سندھ سے تعلق رکھنے والے 72 اور بلوچستان کے 78 فیصد طلبا اسکول نہیں جاتے۔

۔ سروے کے دوران پانچویں اور چھٹی کلاس کے طلباٴ کو انگریزی کا ایک مضمون پڑھنے کے لئے دیا گیا۔ ان میں سے چھٹی کلاس کے 94 اور 5 ویں کلاس کے 68 فیصد بچے یہ مضمون نہیں پڑھ سکے۔

۔ اسلام تمام عورتوں اور مردوں کو تعلیم حاصل کرنے کا پابند بناتا ہے، لیکن یہاں 51لاکھ بچے بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہیں۔

Enhanced by Zemanta

Salam - Chief Justice of Pakistan Iftikhar Chaudhry by Ansar Abbasi

$
0
0


Salam -  Chief Justice of Pakistan Iftikhar Chaudhry by Ansar Abbasi

Enhanced by Zemanta

Nelson Mandela and Kashmir

بھوک بطور ہتھیار

$
0
0



عبدالستار ہاشمی

شام میں جاری خانہ جنگی میں اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور 3 ملین سے زائد اپنی جانیں بچانے کے لیے داخلی یا بیرون ملک ہجرت پر مجبور ہو چکے ہیں۔ شامی اپوزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس خانہ جنگی میں اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ 26 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ایک اندازے کے مطابق اب تک شام میں ہر ماہ اوسطً کم از کم 5 ہزار افراد ہلاک ہو رہے ہیںجن میں80 فیصد مرد اور10 سال سے کم عمر کے 1700 بچے شامل ہیں۔خانہ جنگی کے دوران فوجی دستے باغیوں کو گرفتار کرنے کے لیے علاقوں کی ناکہ بندی کا طریقہ اپنا رہے ہیں اور کھانے پینے کی اشیاء کی ترسیل روک لیتے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں پہلے ہی کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کا فقدان تھا تاہم اب صورتحال تشویشناک ہو گئی ہے۔ شام میں سلامتی کے ادارے کے ایک اہلکار کے بقول شامی افواج کی جانب سے ناکہ بندی کی وجہ سے محصور علاقوں میں بھوک بڑھ رہی ہے اور افواج نے جن علاقوں کا محاصرہ کیا ہوا ہے وہاں اشیائے خوراک اور ادویات کی رسائی تقریباً ملفوج ہو کر رہ گئی ہے۔حالیہ دنوں کے دوران دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقوں کی ناکہ بندی کو مزید سخت بنا دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان علاقوں میں بھوک بڑھتی جا رہی ہے۔ صورتحال اس قدر تشویشناک ہو چکی ہے کہ بھوک کی وجہ سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔دارالحکومت دمشق کے مرکزی اور مشرقی حصے کے درمیان فوج کی ایک چوکی قائم ہے۔

 گزشتہ دنوں اس چوکی پر تعینات ایک فوجی سے ایک بچہ منتیں کرتا رہا کہ وہ روٹی خریدنے کے لیے اسے دوسری جانب جانے کی اجازت دے لیکن اس فوجی نے اس کی درخواست مسترد کر دی۔اقوام متحدہ کے مطابق شام میں10 لاکھ سے زائد شہری ایسے علاقوں میں محصور ہیںجہاں امدادی سرگرمیاں روک دی گئی ہیں۔ دمشق کے نواحی علاقوں اور تقریباً 3 لاکھ افراد حلب میں محصور ہیں۔شامی حکومت کی جانب بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے الزامات پر ابھی تک کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ سرکاری فوج یہ کہتی ہے کہ علاقے کے رہائشی دہشت گردوں کے قبضے میں ہیں،جبکہ امدادی کارکنوں کو محصور علاقوں میں داخل ہونے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔ دمشق کے جنوبی، مشرقی اور مغربی نواحی علاقے باغیوں کے زیر اثر ہیں اور اسی وجہ سے ان علاقوں کی ناکہ بندی بھی انتہائی سخت ہے۔ ان علاقوں میں پھل اور سبزیاں تو مشکل سے دستیاب ہیں لیکن روٹی کہیں بھی خریدی نہیں جا سکتی۔ مسلسل بمباری کی وجہ سے بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے اور پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے خاص طور پر پیٹ کی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

 مارچ 2011ء کو شروع ہونے والے شام کے خونریز تنازع کو ٹھیک ایک ہزار دن ہو گئے ہیں لیکن یہ ہلاکت خیز خانہ جنگ ابھی بھی ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔عرب لیگ اور اقوام متحدہ کی طرف سے اس تنازع کے حل کے لیے فریقین کے مابین ثالثی کی اب تک کی تمام تر کوششیں اس حد تک بے نتیجہ رہی ہیں کہ شام کی داخلی تباہی کا سفر ابھی تک جاری ہے اور ملک کے بہت سے شہر اور علاقے بھی تاحال محاذ جنگ بنے ہوئے ہیں۔دمشق حکومت اور شامی باغیوں کے مابین امن مذاکرات کے آغاز کے لیے بین الاقوامی برادری کی انتھک کوششوں کے نتیجے میں شام سے متعلق’ ’جنیوا ٹو‘‘ کہلانے والی امن کانفرنس کا انعقاد 22 جنوری کو ہو گا۔ اس کانفرنس میں ٹھوس نتائج پر پہنچنے کی کوشش کی جائے گی لیکن بہت سے ماہرین کے بقول حقیقت پسندانہ بنیادوں پر دیکھا جائے تو ایسے نتائج کا امکان کم ہے۔ ایک اور تکلیف دہ پہلو بھی ہے جس پر لکھتے ہوئے انسانیت کانپ اُٹھے گی۔ شام میں جاری خانہ جنگی میں مسلح فریقین بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اس خونریز لڑائی سے20 لاکھ بچے متاثر ہوئے ہیں۔’’سیو دی چلڈرن‘‘کی رپورٹ کے مطابق شامی بچوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور ساتھ ہی ان کی تعلیم بھی متاثر ہو رہی ہے۔

جنسی تشدد سے تحفظ کے لیے لڑکیوں کو جلد شادیاں کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ بچوں کو بار برداری، محافظوں کے طور پر، معلومات جمع کرنے اور لڑائی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کئی بچے اور ان کے خاندان اس بات کو باعث فخر سمجھتے ہیں لیکن بعض بچوں کو زبردستی عسکری سرگرمیوں کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ شام میں ہزاروں بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں بے گھر بچے پارکس اور دیگر جگہوں پر رہنے پر مجبور ہیں۔ وہ مخدوش حالات میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں ان کے مختلف بیماریوں کا شکار ہو جانے کے خطرات بھی قدرے زیادہ ہیں۔اس تنازع کی وجہ سے وہاں بچوں کی ایک پوری نسل انسانی خطرے میں ہے۔ ٭…٭…٭

Enhanced by Zemanta

Abdul Qadir Mullah - سلام ان پر جو تختہ دار پر مسکراتے رہے


الوداع ! افتخار محمد چودھری ، چیف جسٹس آف پاکستان

$
0
0

جن سے دلداری جاناں کے قرینے یاد آئیں
ایسے تیور بھی مرے لہجہ بیباک میں تھے
شہر بے رنگ ! ترے لوگ گواہی دیں گے
ہم سےخوش رنگ بھی تیرے خس و خاشاک میں تھے

الوداع ! افتخار محمد چودھری ، چیف جسٹس آف پاکستان
سر ! آپ نے عدلیہ کا وقار بلند کیا، ...یقیناً آپ بھی اسی معاشرے کے ایک انسان ہیں، آپ سے غلطیاں بھی ہوئی ہونگی ، آپ میں کچھ شخصی کمزوریاں بھی ہونگی ، لیکن جس طرح آپ نے وردی پوشوں کے سامنے سر جھکانے سے انکار کیا اور جس طرح عوام کو انصاف فراہم کرنے کے لیے جرات مندانہ فیصلے کیے اس نے 18 کروڑ عوام میں ایک نیا عزم ، نیا حوصلہ پیدا کیا - قوم آپ کو ہمیشہ یاد رکھے گی ، ایک ہیرو کی طرح !!!
 
پاکستان کے عدالتی نظام سے میں کبھی بھی متفق نہ ھو سکا ، کیوں کہ اس "ملغوبہ"نظام کا کوئی سر پیر نہیں ،لیکن اسکے باوجود افتخار محمد چوھدری یاد رھیں گے ،چیف جسٹس کی عدالت میں خود کو فرعون کی "روحانی "اولاد سمجھنے والے سول ملڑی اور بیورکریسی کے اعلی افسران کے ماتھے پہ پسینہ ،زیر لب دعا ،اور گھگھیائے افسران کی حلق میں پھنسی آواز یں بتاتی تھیں کہ عوام پر حکمرانی کرنے والے کتنے اسوقت تک ھی بہادر ھیں ،جب تک سوا سیر سے پالا نہ پڑ جائے تمام پھنے خانوں... کو چیف جسٹس نے اکڑ فوں سمیت وقتی طور پر ھی سہی لیکن "سیدھا"ضرور کر دیا تھا ،مجھے تو و٥ افسر بھی نہیں بھولتے جو پروموشنز کے حصول کیلئے پیروں کے پاس جاتے تھے اور"چیف جسٹس"کے "غضب"سے بچنے کے وظیفہ لاتے تھے ،کتنے ھی اعلی افسران کو "سماعت سے قبل "اسپتال"میں داخل ھونا پڑتا تھا ،باوجود کوشش کے چیف جسٹس صاحب لاپتہ افراد کے معاملے پر ملک کے "اصل حاکموں"کو "آئین"کے تابع تو نہ کر سکے البتہ انہیں عدالتی ریکارڈ کی حد تک "ایکسپوز"ضرور کردیا

قاضی القضاء صاحب ،آپ یاد رھیں گے

 


 

Enhanced by Zemanta

ایک تصویر جس نے تحریک برپا کردی

$
0
0


 اسلام آباد: معزولی کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ 13 مارچ 2007 کو پولیس اہلکاروں کی بدسلوکی کے وقت صرف ایک فوٹوگرافر موقع پر موجود تھا جس کی اتاری ہوئی تصویر نے ایک تحریک برپا کر دی۔


 فوٹو گرافر سجاد علی قریشی کی اتاری اس تصوی...ر میں پولیس اہلکار چیف جسٹس کو مجرموں کی طرح بالوں سے پکڑ کر گاڑی میں زبردستی بٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ اعلیٰ پولیس حکام قریب خاموش کھڑے ہیں۔ یہ تصویر جو اگلے دن ایک انگریزی اخبار میں شائع ہوئی نے ایک ہنگامہ برپا کرتے ہوئ...ے وکلا تحریک کو نیا رخ دیدیا۔ اس وقت کے قائم مقام چیف جسٹس جاوید اقبال نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے اعلٰی پولیس حکام کو طلب کر لیا، پشاور ہائیکورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں ٹریبونل نے واقعے کی تحقیقات کی۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے فوٹو گرافر سجاد قریشی اس روز ججز کالونی کے باہر ایک مزدور کے بہروپ میں موجود تھے۔ سجاد قریشی نے اس واقعے کی یاد تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ جسٹس افتخار چوہدر کی اہلیہ اس وقت اعلیٰ حکام سے اپیل کر رہی تھیں کہ ’’افتخار چوہدری چیف جسٹس ہیں ، ان کی تضحیک نہ کی جائے‘‘ سجاد قریشی نے کہا کہ تصویر اتارنے کے بعد پولیس اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے مجھ سے کیمرا چھیننے کی کوشش کی تاہم میں وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوگیا

 

پاکستان جسٹس پارٹی.........جاوید چودھری

$
0
0


 یہ ایک مکمل ملاقات تھی‘ میں نے آدھا حوالہ 27 اپریل 2010ء کے کالم میں دیا اور آدھا آج اس وقت دے رہا ہوں جب چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری اپنے عہدے سے سبکدوش ہو چکے ہیں‘ میری چیف جسٹس سے ان کے چیمبر میں 24 اپریل 2010ء کو طویل ملاقات ہوئی‘ سپریم کورٹ میں صدر آصف علی زرداری‘ یوسف رضا گیلانی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر وزراء کے خلاف مقدمے کھلے تھے اور ہمارے اینکرز بھائی روز دعویٰ کرتے تھے‘ یہ سسٹم ڈی ریل ہو جائے گا اور یہ حکومت کسی بھی وقت رخصت ہو جائے گی لیکن میں چیف جسٹس کے چیمبر میں داخل ہوا تو وہاں کا درجہ حرارت بالکل مختلف تھا‘ چیف جسٹس نے واضح الفاظ میں فرمایا ’’ میں چاہتا ہوں یہ حکومت بھی پانچ سال پورے کرے اور مستقبل کی جمہوری حکومتیں بھی اپنی اپنی مدت پوری کر کے رخصت ہوں‘‘ افتخار محمد چوہدری نے فرمایا ’’ پاکستان میں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں‘ اگر کسی نے شب خون مارنے کی کوشش کی تو عدلیہ اس کے راستے کی رکاوٹ ثابت ہوگی‘‘ مجھے چیف جسٹس کا یہ دعویٰ اس وقت عجیب لگا کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت‘ میاں نواز شریف کی پارٹی اور میڈیا کے زیادہ تر ٹائیکونز کا خیال تھا کھ سپریم کورٹ کسی بھی وقت اس حکومت کو غیر قانونی قرار دے کر فارغ کر دے گی لیکن چیف جسٹس پاکستان پیپلز پارٹی کی پرفارمنس سے مایوس ہونے کے باوجود جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں خوش فہم بھی تھے اور سپورٹر بھی تاہم وہ بار بار یہ ضرور کہہ رہے تھے‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو ان معزول ججوں کا احسان مند رہنا چاہیے‘ یہ جن کی وجہ سے آج ملک میں بھی ہیں اور اقتدار میں بھی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا ’’اگر میں جنرل پرویز مشرف کے سامنے کھڑا نہ ہوتا تو آصف علی زرداری واپس آتے اور نہ ہی میاں نواز شریف‘ یہ آج بھی لندن یا سعودی عرب میں بیٹھ کر پاکستانی سیاست پر تبصرہ کر رہے ہوتے‘‘۔ یہ کالم 27 اپریل 2010ء کو شایع ہوا اور اس کی وجہ سے خاصی کنٹروورسی پیدا ہو گئی‘ اس ملاقات کے خلاف کالم بھی لکھے گئے اور ٹیلی ویژن پروگرام بھی ہوئے‘ چیف جسٹس صاحب بھی اس کنٹروورسی کی وجہ سے پریشان ہوئے۔

وہ ایک ادھورا کالم تھا‘ اس کالم کا ایک حصہ باقی تھا‘ میں نے باقی حصے کو آج کے دن کے لیے سنبھال رکھا تھا‘ میں نے اس ملاقات میں چیف جسٹس سے پوچھا ’’آپ سیاست میں کیوں نہیں آ جاتے‘‘ انھوں نے ہنس کر جواب دیا ’’یہ بڑے لوگوں کا کام ہے‘ میں قانون کا معمولی سا ورکر ہوں‘ میں صرف فائلیں پڑھ سکتا ہوں اور ان فائلوں پر احکامات جاری کر سکتا ہوں‘‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’ کیا آپ اپنے کام سے مطمئن ہیں‘‘ چیف جسٹس نے جواب دیا ’’ میں اگر نظام کو دیکھوں تو میں بہت کچھ کر رہا ہوں‘ ہمارے ملک میں پٹواری اور کانسٹیبل تک فرعون ہوتے ہیں‘ ہمارا نظام ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا لیکن ہم لوگ وزیراعظم اور صدر تک کے غیر قانونی احکامات کا نوٹس لے لیتے ہیں‘ ہم چیف سیکریٹری‘ آئی جی اور وفاقی سیکریٹریوں تک کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر دیتے ہیں‘ میں اگر خود کو اس اینگل سے دیکھوں تو میں سمجھتا ہوں میں ملک میں کچھ کر رہا ہوں لیکن اگر لوگوں کے مسائل دیکھے جائیں‘ لوگوں کی پریشانیاں دیکھی جائیں‘ قانون اور انصاف کے نظام کو دیکھا جائے‘ تعلیم‘ صحت اور روزگار کے سسٹم کو دیکھا جائے‘ ریاستی اداروں کی بدمعاشی دیکھی جائے اور سیاستدانوں کی ہوس اقتدار کو دیکھا جائے تو میں خود کو ناکام سمجھتا ہوں اور یہ سوچتا ہوں میں اگر سو سال تک کام کرتا رہوں تو بھی کم ہو گا‘‘۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا ’’ملک میں صرف ایک افتخار چوہدری اور اس کے سولہ ساتھی ہیں‘ ہمیں تعداد میں زیادہ ہونا چاہیے تھا‘ ہم اگر سولہ لاکھ ہوتے تو پھر شاید ہم ملک کے عام لوگوں کے لیے تھوڑا سا سویرا طلوع کر پاتے‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ اس ملک کا اصل مسئلہ کیا ہے؟‘‘ چیف جسٹس نے جواب دیا ’’ پاکستان کے چار بڑے ایشوز ہیں‘ ہمارا سرکاری نظام بوسیدہ اور غیر فعال ہو چکا ہے‘ یہ اب عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتا‘ ہمیں اس پورے سسٹم کو بدلنا ہو گا… دو، ہمارے سیاستدان نااہل ہیں‘ یہ نظام کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اقتدار میں آ جاتے ہیں مگر یہ ڈیلیور کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں‘ ہمیں ان میں صلاحیت اور اہلیت پیدا کرنی ہو گی… تین‘ ہمارے بیورو کریٹس‘ ہماری افسر شاہی اور ہمارے جرنیل خود کو عوام کا خادم ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ یہ آج بھی پاکستان کو برطانوی کالونی اور خود کو ہر میجسٹی کا نمایندہ سمجھتے ہیں‘ یہ کرسی پر فرعونوں کی طرح بی ہیو کرتے ہیں‘ ہمیں ان کی انا کا ہیلمٹ توڑنا ہو گا‘ انھیں وائسرائے سے عوام کا خادم بنانا ہو گا اور چوتھا ہمارے عوام نے آج تک خود کو آزاد اور خود مختار نہیں سمجھا‘ یہ آج بھی کسی نہ کسی آقا کے سامنے درخواست گزار ہیں‘ انھوں نے خود کو درخواستوں‘ عرضیوں اور اپیلوں تک محدود کر رکھا ہے‘ یہ آج تک خود کو قوم نہیں سمجھتے‘ ہم نے انھیں بھی قوم ہونے کا احساس دلانا ہے‘‘۔

میں نے چیف جسٹس سے عرض کیا ’’ لیکن سر یہ طویل سیاسی جدوجہد اور لیڈر شپ کے بغیر ممکن نہیں‘ ہمارے ملک کو کسی ایسے سیلف لیس لیڈر کی ضرورت ہے جس کا مقصد اقتدار نہ ہو‘ جو وزیراعظم یا صدر نہ بننا چاہتا ہو‘ جو صرف اور صرف قوم کی کردار سازی کرے اور جو ملک کو نیا نظام دے‘‘ چیف جسٹس نے غور سے میرے چہرے کی طرف دیکھا‘ میں نے سوچا‘ یہ میرے احساسات کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ یہ جاننا چاہتے ہیں‘ یہ میٹنگ کسی ایجنڈے کا حصہ تو نہیں‘ وہ تھوڑی دیر تک میرے چہرے کی طرف دیکھتے رہے‘ پھر ایک طویل آہ بھری اور اس کے بعد فرمایا ’’ لیکن میں وہ لیڈر نہیں ہوں‘ میں ایک جج ہوں اور صرف جج کی حیثیت سے مرنا چاہتا ہوں‘ میری خواہش ہے لوگ مجھے قانون دان یا زیادہ سے زیادہ اچھے قانون دان کی حیثیت سے یاد رکھیں‘ میں اپنے ہاتھوں پر سیاست کی کالک لے کر دنیا سے نہیں جانا چاہتا‘‘ میں نے عرض کیا ’’ سر سیاست بری چیز نہیں ہوتی‘ برے سیاستدان اسے برا بناتے ہیں‘ آپ کو اللہ تعالیٰ نے عزت بھی دی اور توانائی بھی‘ آپ ڈرتے نہیں‘ گھبراتے نہیں‘ آپ عام آدمی کے دکھ کو بھی سمجھتے ہیں‘ آپ اگر سیاست میں آئیں‘ آپ لوگوں کو جمع کریں‘ آپ انھیں موبلائز کریں تو ملک میں تبدیلی آ سکتی ہے‘‘۔

چیف جسٹس نے قہقہہ لگایا اور پوچھا ’’ کیا لوگ میری پارٹی کو ووٹ دیں گے‘ کیا یہ میرے گرد جمع ہو جائیں گے‘‘ میں نے عرض کیا ’’ لوگ شاید شروع میں آپ کا ساتھ نہ دیں لیکن آپ اگر 2007ء کی طرح ثابت قدم رہے‘ آپ نے کسی ایک علاقے یا مسئلے کو فوکس کر کے عوام کو موبلائز کر لیا تو آپ سات آٹھ برسوں میں ملک کی بڑی سیاسی طاقت ہوں گے لیکن آپ کو ایک کام کرنا ہوگا؟‘‘ وہ مسکرا کر میری طرف دیکھتے رہے۔ ’’ آپ کو شروع میں اعلان کرنا ہو گا‘ میں کوئی سرکاری عہدہ نہیں لوں گا‘ میں صدر بنوں گا اور نہ ہی وزیراعظم‘ میں صرف ٹیم بنائوں گا اور عوام کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کروں گا‘‘ چیف جسٹس نے قہقہہ لگایا‘ مجھے اس قہقہے میں مذاق‘ طنز‘ بے یقینی اور شکوک کے رنگ نظر آئے‘ مجھے محسوس ہوا چیف جسٹس ان باتوں کو ایک صحافتی تکنیک سمجھ رہے ہیں‘ میں یہ باتیں کر کے ان کے مستقبل کا لائحہ عمل معلوم کرنا چاہتا ہوں‘ چیف جسٹس کا شک بڑی حد تک جائز تھا‘ ہم صحافیوں کے بارے میں لوگوں کی رائے اچھی نہیں ہوتی‘ ہمیں پولیس کی طرح کسی کا دوست نہیں سمجھا جاتا‘ ہم سے ہر شخص وفاداری کا تقاضا کرتا ہے لیکن کوئی ہماری وفاداری پر یقین نہیں کرتا‘ لوگ سمجھتے ہیں‘ ہم سیدھا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ الٹی بات کرتے ہیں اور الٹا جواب لینے کے لیے سیدھی بات کا سہارا لیتے ہیں اوریہ خیالات زیادہ غلط بھی نہیں ہیں۔

ہم اپنی پیشہ ورانہ ذمے داری نبھانے کے لیے عموماً یہ تکنیکس استعمال کرتے ہیں لیکن اس دن ایسا نہیں تھا‘ میں یہ سمجھتا ہوں چیف جسٹس جیسے لوگوں کو عوام کو متحرک کرنا چاہیے‘ یہ لوگ پاکستان کے انا ہزارے بن سکتے ہیں‘ یہ ملک کے لیے ایسے عمل انگیز ثابت ہو سکتے ہیں جو ملک کا سیاسی گند صاف کر دیں گے‘ یہ فوج کو بھی سیاست سے روکیں گے اور سیاستدانوں کو بھی آمر بننے سے باز رکھیں گے مگر چیف جسٹس کو میری نیت پر شک تھا‘ ان کا خیال تھا‘ میں کسی ایجنڈے کے تحت ان کے پاس آیا ہوں اور میں باہر جا کر لوگوں کو بتائوں گا افتخار محمد چوہدری مستقبل کا وزیراعظم بننا چاہتے ہیں‘ چیف جسٹس نے اس کے بعد رانا بھگوان داس کا ذکر چھیڑ دیا‘ رانا بھگوان داس ان دنوں چیف جسٹس سے خوش نہیں تھے‘ میں نے ان کی ناراضی چیف جسٹس تک پہنچائی‘ چیف جسٹس نے دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیا’’ میں رانا صاحب کا دل سے احترام کرتا ہوں‘ یہ حیران کن کردار کے مالک ہیں‘ مسلمان ہم ہیں لیکن یقین رانا صاحب کا مضبوط ہے اور یہ اگر 2007ء میں کردار کا مظاہرہ نہ کرتے تو شاید آج میں اس کرسی پر نہ ہوتا‘‘۔میٹنگ ختم ہوئی‘ میں اٹھا تو چیف جسٹس بھی کرسی سے اٹھے‘ ہاتھ ملایا اور مجھ سے پوچھا ’’ میں اگر اپنی سیاسی جماعت بنائوں تو اس کا نام کیا ہونا چاہیے‘‘ میں نے عرض کیا ’’ پاکستان جسٹس پارٹی‘‘ انھوں نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور پوچھا ’’ کیا آپ میری پارٹی جوائن کریں گے‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’ شروع میں نہیں لیکن آپ نے اگر اس پارٹی کو عدلیہ بحالی جیسی تحریک بنا لیا تو میں کیا پورا ملک آپ کے ساتھ کھڑا ہو جائے گا‘‘ انھوں نے گرمجوشی سے میرا ہاتھ دبایا اور میں باہر آ گیا۔

آج چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ کا پہلا دن ہے ‘میرا خیال ہے ‘یہ پاکستان جسٹس پارٹی کا بھی پہلا دن ہے کیونکہ افتخار محمد چوہدری عدلیہ سے ریٹائر ہوئے ہیں‘ زندگی سے نہیں۔

بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"

پاکستان سے وفاداری کا اقراری مجرم...

$
0
0


پاکستان کا ساتھ دینا شیخ مجیب الرحمن کی سپتری حسینہ واجد کے بنگلہ دیش میں لائق تعزیر ہے مگر کیا قائداعظم اور اس کے پیروکار میاں نوازشریف کے پاکستان میں بھی جرم قرار پا چکا ہے؟ ورنہ پاکستان سے وفاداری کے اقراری مجرم اکیانوے سالہ بزرگ مولانا غلام اعظم کو نوے سال قید کی سزا ملنے پر کوئی تو بولتا۔ وزیراعظم نوازشریف، مشیر خارجہ سرتاج عزیز، طارق کاظمی، وزارت خارجہ کا ترجمان اور حکمران مسلم لیگ کا کوئی عہدیدار؟ راجہ ظفر الحق، اقبال ظفر جھگڑا اور مشاہد اللہ خان میں سے کوئی ایک۔

لاڑکانہ میں کامیاب جلسے کے بعد جدید اور خودکار اسلحہ برداروں کے گھیرے میں پہلا انٹرویو دیتے ہوئے ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے میرے اس سوال کے جواب میں کہ ”جئے سندھ سے آپ کے اتحاد کا سبب کیا ہے؟“ کہا تھا ”ہم نے بہاریوں کے انجام سے سبق سیکھا ہے جو 1971ء میں بنگال قوم پرستوں کے بجائے پاکستان کا ساتھ دیکر کیمپوں میں اذیت ناک زندگی بسر کررہے ہیں“۔
مولانا غلام اعظم اور ان کے ساتھیوں عبدالقادرملا، دلاور حسین سعیدی، علی احسن مجاہد، محمد قمرالزمان، مطیع الرحمان نظامی، عبدالسبحان، اے کے ایم یوسف کا قصور بھی یہی ہے کہ جب بھارت کے مالی ، سیاسی، سفارتی اور فوجی تعاون سے مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریر برپا ہوئی، پاکستان سے وفا داری جرم ٹھہری اور آزادی و خودمختاری کا دفاع پاکستانی نوازی قرار پایا تو ان سرفروشوں نے اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے وطن سے وفاداری کے تقاضے نبھائے۔ غیر ملکی مداخلت کاروں اور ان کے پروردہ ایجنٹوں کا ساتھ دینے سے انکار کیا اور مادر وطن پر بھارتی ٹینکوں کا استقبال کرنے پر آمادہ نہ ہوئے کہ یہ ان کی حمیت، غیرت اور عقیدہ و نظریہ کے خلاف تھا۔

بجا کہ بنگلہ دیش کے قیام میں پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کی کوتاہ بینی اور عاقبت نااندیشی کا دخل تھا خواجہ ناظم الدین کی ناروا معزولی سے لے کر سینئر بنگالی جج کو وفاقی عدالت کا چیف جج نہ بنانے اور یہ منصب جسٹس منیر کو سونپنے تک غلطیوں کی طویل داستان ہے۔ بھٹو سے مل کر مجیب الرحمن کو اقتدار منتقل نہ کرنے کی یحییٰ خان حماقت اور فوجی آپریشن پر کلمہ شکر ادا کرنے کی بھٹوانہ روش نے بنگالیوں کو مشتعل کیا مگر مشرقی پاکستان میں غیر انسانی مظالم کی داستان بھارت کی تربیت یافتہ مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے خونخوار درندہ صفت کارکنوں نے رقم کی جن کے ہاتھ سے مجیب وطن بنگالیوں اور غیر بنگالیوں کی جان محفوظ رہی نہ مال نہ عزت و آبرو ۔ شرمیلا لاس، شریف الحق والیم اور پروفیسر سجاد حسین کی تحقیقی کتابوں میں ظلم کی یہ داستانیں رقم ہیں اور یہ پاک فوج کا پروپیگنڈہ نہیں۔ بنگلہ دیش کا قیام بھی بھارت کی باالواسطہ اور براہ را ست فوجی مداخلت اور سوویت یونین کے ساتھ مل کر تیار کردہ سازش کا نتیجہ تھا کبھی سب پروپیگنڈا ہے۔
مولانا غلام اعظم اور ان کے ساتھیوں نے 1971ء میں ایک غیرت مند پاکستانی شہری کی طرح اپنے وطن کو متحد رکھنے کے لئے جو جدوجہد کی وہ بین الاقوامی قوانین کے تحت جرم تھی نہ معیوب، عالمی برادری اور سعودی عرب جسے برادر اسلامی ممالک کے مشورے پر پاکستان نے بنگلہ دیش کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا تو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے شیخ مجیب الرحمن کا یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا کہ کچھ سرکردہ بنگالی رہنماؤں اور پاکستانی فوجی افسروں پر جنگی جرائم میں مقدمہ چلایا جائے۔ بعد میں بھی کسی بنگلہ دیشی حکومت نے گڑے مردے اکھاڑنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ مگر باسی کڑھی میں ابال اس وقت آیا جب حسینہ واجد حکومت اپنی بھارت نوازی، نااہلی اور ناقص طرز حکمرانی کی وجہ سے عوامی نفرت کا شکار ہوئی اور اپنے سیاسی مخالفین کے انتقام کو عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے میں عافیت نظر آئی جس ٹربیونل کو جنگی جرائم میں مقدمہ چلانے کا اختیار ملا اس پر عالمی برادری معترض ہے اور سزاؤں پر پوری دنیا میں تنقید ہورہی ہے البتہ پاکستان میں جماعت اسلامی کے سوا سب شانت ہیں کیونکہ حب الوطنی کی سزا بھگتنے والے ان رہنماؤں کا تعلق اتفاقاً جماعت اسلامی سے ہے اور سیاسی تعصب نے دیگر قائدین کو گنگ کردیا ہے۔
پاکستان اس وقت 1971ء کی صورتحال سے دوچار ہے فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں چن چن کر وہ لوگ عسکریت پسندوں، علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں، تخریب کاروں کی گولیوں، بموں اور اذیت پسندانہ کارروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں جنہیں اپنے وطن سے پیار ہے اور جو پاکستان دشمن عناصر کے ساتھ اپنی آزادی، خودمختاری اور قومی مفاد پر سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ فاٹا سے کراچی اور بلوچستان تک دشمنوں کا ہدف پاکستانیت ہے اور اس میں سول و فوجی کی کوئی تفریق نہیں۔ پاکستان کے حکمران، سیاستدان اور فوجی عہدیدار روزانہ عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ملک دشمنوں کے مقابلے میں ڈٹ جائیں۔ جذباتی عوام اب تک ڈٹے ہوئے ہیں مگر اندر سے خوفزدہ بھی کہ کہیں کل کلاں کو انہیں بھی بہاریوں اورجنگی جرائم کے ٹریبونل کے سامنے پاکستان کا ساتھ دینے پر موت اور عمر قید کی سزا پانے والوں کے انجام سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ عالمی سامراج کے آلہ کار انہیں اس انجام سے ڈراتے بھی رہتے ہیں۔
مولانا غلام اعظم کو نوے سال کی سزا ملنے پر حکمرانوں کی خاموشی قابل فہم ہے تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو، کی پٹی پڑھانے والے حاشیہ نشینوں نے قائداعظم کے وارثوں اور پیروکاروں پر جادو کردیا ہے مگرباقی سیاستدان، دانشور، انسانی حقوق کے علمبردار اور حب الوطنی کے ٹھیکیدار کہاں ہیں؟ پاکستان سے وفاداری بنگلہ دیش میں جرم ہے اور سزا موت یا عمر قید مگر پاکستان میں مجرمانہ خاموشی اور سنگدلانہ لاتعلقی سے نوجوان نسل، پاکستان کے لئے جان لٹانے پر آمادہ سرفروشوں کو کیا پیغام دیا جارہا ہے؟ یہی کہ خدانخواستہ کل کلاں کو بھارت ساختہ، امریکہ پرداختہ علیحدگی پسند، پاکستان دشمن اور دہشت گرد ٹولہ حملہ ٓاور ہوتو مزاحمت کے بجائے فاتحین کا استقبال کرو، گلے میں ہار ڈالو اور اپنی حریت فکر کے ترانے گاؤ تاکہ مولانا غلام اعظم اور ان کے ساتھیوں کے انجام سے دوچار نہ ہونا پڑے۔

بنگلہ دیش کا قیام عظیم المیہ تھا۔ پرویز مشرف اور آصف علی زرداری نے معافی مانگ کر 1971ء کے زخم مندمل کرنے کی کوشش کی مگر حسینہ واجد کا دل نہ پسیجا اب پاکستان سے وفا موجب سزا و تعزیر نہیں ہے تو ہماری خاموشی نیا ستم ڈھا رہی ہے۔ پاکستانی اشرافیہ خواہ وہ سیاسی ہو یا فوجی حال مست ہے یا مال مست، پاکستانیت پر ضرب بنگلہ دیش میں لگے یا فاٹا، کراچی اور بلوچستان میں اسے کوئی خاص پروا نہیں ورنہ اب تک بیانات کا طوفان فروری برپا ہوتا۔
ارشاد احمد عارف

Allah Give Reward to Maryam Nawaz by Ansar Abbasi

$
0
0
 Allah Give Reward to Maryan Nawaz by Ansar Abbasi
Enhanced by Zemanta
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live