Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

ڈرونز جو جنگوں کا نقشہ بدل دیں گے

$
0
0

امریکا میں انجینئرز نے ایسے ڈرون تیار کر لیے ہیں جو خودکار مشین گن سے لیس ہیں اور انہیں فوری طور پر دہشتگردی سے متاثرہ علاقوں میں بھیج کر دشمنوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ امریکی شہر فلوریڈا کی ایک کمپنی ڈیوک روبوٹکس نے حال میں ایک ملٹی روٹر ڈرون بنانے کا اعلان کیا ہے جسے ٹی آئی کے اے ڈی کا نام دیا گیا ہے۔ ڈرون پر کئی طرح کی عسکری گنز، ہتھیار ، خودکار رائفل اور گولہ پھینکنے والے لانچر نصب کئے جا سکتے ہیں۔ یہ کمپنی ریزائل آتور نے قائم کی ہے جو اسرائیل ڈیفینس فورس (آئی ڈی ایف) میں اسپیشل مشن یونٹ کمانڈر رہ چکے ہیں۔ ان کے مطابق شہروں میں دہشتگردوں کے حملے کے بعد شہریوں کی جان بچانا اور دشمن کا مارنا ہی اس ڈرون کا اہم مقصد ہے۔ ان کا اشارہ فلسطینی مجاہدین کی جانب ہے جو اپنے کم ترین وسائل کی بنا پر اسرائیلی افواج کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

2015 میں یہ ڈرون اسرائیلی افواج کا حصہ بنے تھے اور اب تک اس میں بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں جن میں سے ایک اہم تبدیلی مشین گن چلنے سے ہونے والا دھچکا سہنا ہے جو بار بار ڈرون کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ اب تک جدید ترین ہتھیار بردار ڈرون 10 کلوگرام وزنی گن اور اسلحہ لے جا سکتا ہے اور فی الحال اسے کنٹرول کرنے کے لیے دور بیٹھے ایک شخص کی ضرورت ہوتی ہے۔ کمپنی نے تعارفی ویڈیو میں مشین گن ڈرون کی ایک جھلک دکھائی ہے اور دوسری جانب اسرائیلی حکومت اب تک ایسے متعدد ڈرون خرید چکی ہے۔

 


لاہور کے حلقہ این اے 120 کا انتخابی معرکہ

$
0
0

لاہور کے حلقہ این اے 120 میں انتخابی معرکہ قریب تر ہے جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی امیدوار بیگم کلثوم نواز ہونگی جبکہ ان کے مد مقابل پاکستان تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد میدان میں ہیں ۔ 2013ء میں اس حلقہ سے نواز شریف نے ڈاکٹر یاسمین راشد کو شکست دی تھی ، این اے 120 حلقہ 95 کے بیشتر علاقوں پر مشتمل تھا لیکن اب اس میں حلقہ 96 کے بہت سے علاقے بھی شامل ہیں۔ یہ حلقہ اب اولڈ سٹی سے ملحقہ علاقوں بند روڈ ، ساندہ ، بلال گنج ، کرشن نگر ، مال روڈ ، انارکلی ، مزنگ ، بیڈن روڈ ، ہال روڈ اور کوپر روڈ جیسے علاقوں پر محیط ہے ۔ 

یہاں پر بسنے والے بیشتر لوگ بھارتی پنجاب سے ہجرت کر کے آباد ہوئے۔ 85 ء کے غیر جماعتی انتخابات میں جن لوگوں نے کامیابی حاصل کی وہ جونیجو حکومت کا حصہ بنے ۔ 1988ء کے جماعتی انتخابات میں میاں نواز شریف نے یہاں سے کامیابی حاصل کی جس کا تسلسل 2013ء تک برقرار رہا ، شریف خاندان نے یہاں سے مسلسل 8 مرتبہ کامیابی حاصل کی۔ دورِ آمریت کے دوران 2002ء میں جو چند ایک سیٹیں جیتی گئیں ان میں بھی مسلم لیگ (ن) کے پرویز ملک نے اس حلقہ سے کامیابی حاصل کی۔ اتفاق سے میرا تعلق بھی اسی حلقہ سے ہے اور راوی روڈ کے جس علاقے سے میرا تعلق ہے وہ 1988ء کے انتخابات میں این اے 96 کہلاتا تھا۔ 88ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے جہانگیر بدر نے یہاں سے کامیابی حاصل کی۔ ان کے مد مقابل جماعت اسلامی کے امیدوار حافظ سلمان بٹ تھے ، 90ء کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کے امیدوار کی حیثیت سے میاں شہباز شریف نے پہلی مرتبہ اس حلقہ سے انتخابات میں حصہ لیا اور پیپلز پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری جہانگیر بدر کو شکست دی۔ 

میاں شہباز شریف نے دوسری مرتبہ 93ء میں اس حلقہ سے انتخابات میں حصہ لے کر جہانگیر بدر کو شکست دی۔ 93ء میں میاں شہباز شریف نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے انتخاب لڑا اور دونوں نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی جس پر جاوید ہاشمی نے الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ 97ء میں ایک مرتبہ پھر میاں شہباز شریف اور جہانگیر بدر کے درمیان قومی اسمبلی کی نشست کے لئے مقابلہ ہوا اور اس بار بھی شہباز شریف نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ این اے 120 ماضی میں این اے 95 اور این اے 96 کے علاقوں میں تقسیم تھا اور اسے آج بھی مسلم لیگ (ن) کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ 2002ء کے عام انتخابات میں این اے 120 کو قومی اسمبلی کے ایک نئے حلقے کے طور پر متعارف کروایا گیا ، تب سے لے کر 2013ء تک مسلم لیگ (ن) یہاں سے واضح کامیابی حاصل کرتی رہی ہے۔ 2002ء میں پرویز ملک بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ 2008ء میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار بلا ل یاسین نے اپنے مخالفین کی ضمانتیں ضبط کروا دیں تھیں جبکہ 2013ء میں اس حلقہ سے میاں نواز شریف نے اپنی مخالف امیدوار پر 40 ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری سے کامیابی حاصل کی۔ 

مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھے جانے والے اس حلقہ میں 88ء سے لے کر 2013ء کے انتخابات تک (ن) لیگ نے اس علاقہ پر خصوصی توجہ مرکوز کئے رکھی۔ حلقہ کے نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا گیا ، ترقیاتی کام کروائے گئے ، جبکہ بہت سے ترقیاتی منصوبے اب بھی جاری ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے میرے بچپن میں جب ٹیلی فون ، گیس اور بجلی کے کنکشنوں کیلئے لوگوں کو سالوں انتظار کرنا پڑتا تھا اس دور میں جب کوئی درخواست جمع کرواتا تو میاں شہباز شریف کے سیکرٹری جاوید اشرف لوگوں کے گھروں کے دروازے کھٹکھٹا کر خود ڈیمانڈ نوٹس دینے جاتے اس حوالہ سے جاوید اشرف کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جاوید اشرف تحریک نجات کے دوران مال روڈ پر نامعلوم افراد کی گولی لگنے سے شہید ہو گئے تھے۔

ہمارے کچھ تجزیہ نگار حقائق کے برعکس ستمبر 2017ء میں ہونے والے انتخابات کے حوالہ سے مختلف نوعیت کے تبصرے کر رہے ہیں غالباً وہ حلقہ این اے 120 کے مسائل اور تازہ ترین صورتحال سے ناواقف ہیں۔ کم و بیش تمام چینلز پر تجزیہ نگار برملا یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے لئے یہ ضمنی الیکشن زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، بعض لوگ پی ٹی آئی کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کو مضبوط ترین امیدوار قرار دے رہے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں ، ڈاکٹر یاسمین راشد نے 2013ء کا الیکشن ہارنے کے بعد کبھی یہاں کے مکینوں سے کسی قسم کا میل جول نہیں رکھا جبکہ پروپیگنڈہ یہ کیا جارہا ہے کہ وہ گزشتہ انتخابات میں اپنی شکست کے بعد یہاں کے رہائشیوں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ این اے 120 میں بلدیاتی انتخابات کا حصہ بننے والے پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 

سابق ایم پی اے آجاسم شریف جو 2008ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوئے تھے مگر 2013ء میں ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ وہ ان دنوں ڈاکٹر یاسمین راشد کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں جبکہ اس حلقہ کی تمام یونین کونسلوں سے پی ٹی آئی کے سبھی امیدوار ہار گئے تھے۔ پرویز مشرف دور میں داتا گنج بخش ٹائون کے 2 مرتبہ ناظم رہنے والے طارق ثناء باجوہ جو اب پی ٹی آئی میں ہیں۔ وہ بھی ڈاکٹر یاسمین راشد کی انتخابی مہم کا حصہ ہیں۔ 2008ء کے عام انتخابات میں اس حلقہ کی صوبائی نشست پی پی 139 میں طارق ثناء باجوہ کے بھائی عارف ثناء باجوہ نے الیکشن لڑا اور وہ صرف 2000 کے قریب ووٹ حاصل کر پائے۔ تب طارق ثناء باجوہ ٹائون ناظم تھے لیکن وہ اپنے بھائی کو کامیابی نہ دلا سکے۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں طارق ثناء باجوہ نے پہلے خود یو سی چیئرمین کے امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا لیکن حالات کو بھانپتے ہوئے بلدیاتی الیکشن سے بھاگ نکلے جبکہ انہی بلدیاتی انتخابات میں ان کا تجویز کردہ امیدوار حافظ زبیر بھی بلدیاتی الیکشن میں بری طرح ہار گیا ۔ 

مظہر اقبال بٹ (بھلی بٹ) 2013ء کے انتخابات میں پی پی 139 سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر تھے لیکن انہیں (ن) لیگ کے امیدوار بلال یاسین کے ہاتھوں شکست ہوئی ، چوہدری اصغر گجر 2008ء میں بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے لیکن 2008ء میں پیپلز پارٹی اور 2013ء میں انہیں پی ٹی آئی کے امیدوار کی حیثیت سے مسلسل دو بار شکست ہوئی۔ یہ حلقہ مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے ، وزیراعظم میاں نواز شریف کی نا اہلی کے بعد بھی مجھے اس حلقہ میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی ، میری رائے میں مسلم لیگ (ن) کو یہاں سے اب بھی شکست نہیں دی جا سکتی بلکہ میرا خیال ہے کہ ستمبر 2017ء کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی امیدوار بیگم کلثوم نواز ووٹوں کے بھاری بھرکم مارجن کے ساتھ کامیابی حاصل کریں گی ، کچھ سیاسی پنڈتوں کی اس رائے سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ کلثوم نواز کو اس حلقہ میں الیکشن کے لئے اس لئے اتارا جا رہا ہے تاکہ مسلم لیگ (ن) کی جیت کو یقینی بنایا جا سکے۔

کامران گورائیہ  

’پاکستان‘ دنیا بھر میں مہاجرین کا سب سے بڑا میزبان ملک

$
0
0

پاکستان گزشتہ 3 دہائیوں سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ مہاجرین کی میزبانی کرنے والا ملک ہے۔ اقوام متحدہ کی تنظیم برائے مہاجرین (یواین ایچ سی آر) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت افغانستان سے تعلق رکھنے والے 14 لاکھ 50 ہزار کے قریب مہاجرین موجود ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان تین دہائیوں سے خلوص کے ساتھ دنیا کے سب سے زیادہ مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے اور اس حوالے سے عالمی برادری کی جانب سے مزید تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ 

دوسری جانب پاکستان سے رضاکارانہ طور پر افغانستان واپس جانے والے مہاجرین کی تعداد بھی دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یواین ایچ سی آر مارچ 2002 سے پاکستان مین رجسٹرڈ 41 لاکھ افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے تعاون کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ یواین ایچ سی آر کی جانب سے گزشتہ سال اکتوبر میں ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اقوام متحدہ کے تعاون سے 2016 میں پاکستان میں مقیم تقریباً 3 لاکھ افغان مہاجرین اپنے وطن واپس چلے گئے ہیں۔

 

پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی تباہ کن صورت حال : ڈاکٹر عطاء الرحمٰن

$
0
0

حال ہی میں ہماری حکومت نے تمام جامعات کے ترقیاتی بجٹ میں ساٹھ فیصد کمی کر کے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبہ کو ایک مہلک مالی دھچکا پہنچایا ہے۔2016-2017 میں پاکستانی جامعات کو مختص کیا جانے والا اصل بجٹ 21.48 ارب روپے تھا لیکن اس میں سے صرف 8.42 ارب روپے کی رقم جاری کی گئی۔ فنڈز کو تعلیم کے بجائے بس اسکیموں کے منصوبوں پر خرچ کر دیا گیا اور پاکستانی جامعات کو قابل رحم حالت میں چھوڑ دیا گیا۔ اب افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ جامعات میں ادھوری تعمیر شدہ عمارتیں فنڈز کے انتظار میں کھڑی ہیں اور ٹھیکے دار وائس چانسلرز کے دفاتر کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ 

یہ رقم 2004 میں اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص کی جانے والی رقم سے بھی کم ہے اور یہاں تک کہ یہ ماضی میں پی پی پی کی حکومت کی جانب سے مختص کردہ رقم سے بھی کم ہے۔ اس مایوس کن صورت حال میں پروفیسر مختار احمد کی ایچ ای سی کو ترقیاتی فنڈز کی کمی کے باوجود تباہی سے بچانے کیلئے کی جانے والی کوششیں ہیں۔ یہ ہمارے لئے شرم کا مقام ہے بالخصوص اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے جو وعدے کئے گئے تھے اُن کی روشنی میں یہ انتہائی افسوس ناک صورتحال ہے۔ فنڈز کی کمی کے باعث ایچ ای سی کے کئی اہم منصوبے بند ہو چکے ہیں جو کہ تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔ ان میں سے سب سے اہم منصوبہ جامعات کے لئے اساتذہ تیار کرنا تھا جس کے تحت ہمارے نوجوانوں کو دنیا کی اعلیٰ درجے کی جامعات سے تربیت دلوانا تھا۔

2008 میں ایچ ای سی ایک ہزار طلبا کو سالانہ بیرون ممالک میں اعلیٰ تعلیم کیلئے اور خاص طور پر Ph.D کے لئے وظیفے دیکر بھیج رہی تھی تاکہ انتہائی تربیت یافتہ اساتذہ پر مشتمل فیکلٹی تشکیل دی جا سکے اور اساتذہ اور طلبا کی شرح جو کہ ایک Ph.D استاد پر 130 طلبا (1:130) ہے اس کو کم کر کے 1:20 کے تناسب تک پہنچایا جا سکے۔ تاہم ان حالا ت کی بنا پر یہ بیرون ملک تربیتی پروگرام تباہ ہو چکا ہے۔ اس کا اندازہ اس طرح لگا لیں کہ گزشتہ مالی سال میں صرف 250 طلبا کو بیرون ملک بھیجا گیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے مزید پچاس نئی جامعات کے قیام کے بعد یہ صورت حال مزید ابتر ہو چکی ہے کیونکہ تربیت یافتہ اساتذہ کی فراہمی کے بغیر جامعات کی تعداد میں اضافہ قوم کے ساتھ مذاق کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس طرح عوامی اجتماعات میں بڑے بڑے نعر ے لگا کر عوام کے ووٹ حاصل کرنا اور تعلیم کی پشت پناہی کا مصنوعی تاثر دینے کے نتیجے میں تعلیم کا معیار کم ہو گا اور ایسا سماجی نظام قائم ہو گا جس میں لوگ اہلیت اور قابلیت کے مطابق اختیارات اور مقام حاصل کرنے سے محروم رہ جائینگے۔

2003 ء سے 2008ء کے دوران اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ہونے والی تیزی سے ترقی کی بدولت ہماری کئی جامعات Times Higher Education کی درجہ بندی میں دنیا کی 300، 400، اور 500 صف اول کی جامعات میں شامل ہو گئی تھیں۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران مسلسل تنزلی کے باعث، Times Higher Education کے مطابق اب ہماری ایک بھی جامعہ دنیا کی 500 صف اول کی جامعات میں شامل نہیں ہے۔ 2008ء میں نسٹ 376 ویں نمبر پر تھی، اب یہ بھی زوال پذیر ہے اور 2016 ء میں اس کا نام گر کر 500 سے 550 کی صف میں شامل ہو گیا ہے۔ ابتری کے اس حال پر پردہ ڈالنے کے لئے دنیا کی درجہ بندی کے بجائے ایشیا کے ممالک میں ہماری جامعات کی درجہ بندی ظاہر کر دی جاتی ہے لیکن اس طرح سچ کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ 2008ء کے بعد سے ہماری تمام جامعات تیزی سے روبہ زوال ہیں اور بہتری کی کوئی علامت نظر نہیں ا ٓرہی۔ اس کی اہم ترین وجہ حکومت کی حمایت حاصل نہ ہونا ہے۔ صورت اتنی خراب حال ہے کہ پاکستان کی تمام جامعات کا کل بجٹ ایشیا کی صرف ایک اچھی جامعہ مثلاً نیشنل جامعہ سنگاپور کے بجٹ کا بھی ایک تہائی ہے۔

فیکلٹی ڈویلپمنٹ پروگرام کی تباہی کے ساتھ پاکستانی جامعات کے بین الاقوامی پیٹنٹ میں بھی واضح کمی مشاہدے میں آئی ہے، اس کی وجہ سے بھی جامعات کو دی جانے والی امداد میں کمی اور ایچ ای سی کی جانب سے پیٹنٹ کی فیس کی ادائیگی نہ ہونا ہے۔ 2015 میں فائل کئے جانے والے تیرہ پیٹنٹ کے مقابلے میں 2016 میں صرف ایک بین الاقوامی پیٹنٹ (USPTO) فائل کیا گیا ہے، اس سے بحران کی صورت حال کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ بجٹ کی مشکلات کی وجہ سے تحقیق کا عمل بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ایک سال پرانے ایچ ای سی کو جمع کروائے جانے والے تحقیقی منصوبے ابھی تک منظوری کے منتظر ہیں۔ محققین کو نازک اور حساس سائنسی آلات تک مفت رسائی کا منصوبہ بھی (تجزیے کی مد میں خرچ کی جانے رقم ایچ ای سی کو ادا کرنی ہوتی ہے) تباہی کا شکار ہے اور اس پروگرام کے تحت کئے جانے والے تجزیات کی تعداد میں نوے فیصد کمی آئی ہے۔ 2005ء میں شروع کئے جانے والے ڈیجیٹل لائبریری پروگرام کے تحت 25000 بین الاقوامی تحقیقی جرائد اور 65000 درسی کتب تک مفت رسائی کا معاملہ بھی سکڑ رہا ہے۔ ترقیاتی فنڈز کی کمی کی وجہ سے ایچ ای سی کے اور بہت سے منصوبے بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

یہ مسائل سندھ اور پنجاب میں صوبائی اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے قیام کے بعد مزید گمبھیر ہو گئے ہیں اور تین HEC انتظامیہ کے درمیان انتظامی امور کی رسہ کشی نے انتشار کی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ اعلیٰ تعلیم بین الاقوامی طور پر ایک قومی موضوع ہے، اس کی وجہ قومی تعلیمی معیار کو برقرار رکھنا، ڈگریوں کی بین الاقوامی برابری کو طے کرنا، معیار کو یقینی بنانا اور قومی منصوبہ بندی میں اس کا اہم کردار ہے۔ صوبائی ایچ ای سی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قائم کی گئی ہیں۔ میری جانب سے دائر کی جانے والی پٹیشن پر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ اعلیٰ تعلیم وفاق کا حصہ ہے اور آئین کی اٹھارہویں ترمیم کے مطابق اس کو صوبوں کو منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ صوبوں کو کالجوں کی صورت حال کو بہتر بنانے کی کوشش کرنے چاہئے، بجائے اسکے جامعات کو چلانے کیلئے نئے HEC تشکیل دئیے جائیں۔ اس مسئلے کو سلجھانے کیلئے میں نے فروری 2013ء میں سندھ ہائیکورٹ میں صوبائی ایچ ای سی کے قیام کیخلاف ایک پٹیشن دائر کی تھی۔

لیکن بدقسمتی سے ساڑھے چار سال گزرنے کے بعد بھی سندھ ہائی کورٹ نے اس معاملے میں کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ سندھ ہائی کورٹ کو اس کیس کو قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ترجیح دینا چاہئے تھا جبکہ سپریم کورٹ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کو وفاقی نوعیت کا ہونے کے بارے میں پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے اس فیصلے کا احترام کیا جانا اور اس کو نافذ کیا جانا چاہئے۔ پاکستان میں2003ء سے 2008ء کے دور کو اعلیٰ تعلیم کا سنہری دور کہا گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ہونے والی تیز رفتار ترقی نے بھارت میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی تھیں۔ بھارتی وزیر اعظم کے سامنے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ہونے والی ترقی کے حوالے سے ایک تفصیلی میٹنگ ہوئی جو کہ بھارت کے بڑے اخباروں نے نمایاں طور پر شائع کی اور ہندوستان ٹائمز کی سرخی یہ تھی ’ہندوستان کی سائنس کو پاکستان سے خطرہ‘۔ انڈیا کو اس حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ دشمن تو خود ہمارے درمیان موجود ہیں۔ دراصل ملک کو تباہ کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اُس ملک کی تعلیم کو تباہ کردیا جائے تاکہ اس کے نوجوان نہ اُبھر سکیں۔

میں اپنی تحریروں میں پاکستان کو علمی معیشت میں تبدیل کرنے کی اہمیت پر مسلسل زور دیتا رہا ہوں، یہ واحد طریقہ ہے جس کی مدد سے ہم غربت اور تباہی کے اندھیرے سے باہر نکل سکتے ہیں۔ وزارت مالیات کی جانب سے اعلیٰ تعلیم کے ترقیاتی بجٹ میں بڑی کٹوتی ایچ ای سی کےمختلف پروگراموں پر ایک کاری ضرب ثابت ہوئی ہے۔ حکومت کو اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں وہاں سماجی اور معاشی ترقی کا واحد ذریعہ علم ہے۔ قدرتی وسائل اپنی اہمیت کھو چکے ہیں اور اب معیاری انسانی وسائل ہی کسی ملک کی سب سے بڑی دولت ہیں جوکہ ہائی ٹیک صنعتی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں نمایاں کٹوتی پاکستان کو تیزی سے تباہی کی جانب لے جائے گی۔ اس معاملے پر ہماری حکومت کو فوراً اقدام کرنا ہوں گے۔

ڈاکٹر عطاء الرحمٰن
 

سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ … ایک عہد ساز شخصیت

$
0
0

حضرت امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی انمول یادوں کے تذکرے جس طرح اہلِ اسلام کے دلوں میں تازہ ہیں، محسوس ہوتا ہے کہ شاہ صاحب اب بھی ہم میں موجود ہیں۔ حالانکہ انہیں اس عالم سے رخصت ہوئے نصف صدی سے زائد عرصہ بیت چکا ہے، مگر اُن کی یادوں کی خوشبو آج بھی سروسمن کی وسعتوں سے دارو رسن کی حدوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ سید عطاء للہ شاہ بخاری 23؍ ستمبر 1892ء میں صوبہ بہار (انڈیا) کے علاقہ پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ خاندانی نجیب الطرفینی ان کا مقدر بنی۔ اوائل عمری ہی میں اردو زبان وبیان کے رموز سے بہرہ ور ہوئے۔ علم کی پیاس پٹنہ سے امرتسر کے مردم خیز خطّے میں لے آئی۔ تعلیم تکمیل کو پہنچا ہی چاہتی تھی کہ ہندوستان میں تحریک خلافت کا آغاز ہو گیا۔

امرتسر ان دنوں سیاست کا مرکز تھا۔ شاہ صاحب بھی سیاست کی تپش سے محفوظ نہ رہ سکے۔ تعلیم کا سلسلہ موقوف کیا اور سامراج کے تُرک مسلمانوں پرظلم و زیادتی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ شعلہ بار خطابت کا ملکہ قدرت نے وافر مقدار میں مہیا کر رکھا تھا۔ بس اسے آگ دکھانے کی دیر تھی۔ خلافت عثمانیہ کے نحیف و نزار وجود کو انگریزوں نے روند ڈالا تو سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ برصغیر کے چپے چپے میں پہنچے اور انہوں نے اپنی آتشیں تقریروں سے فرنگی سرکار کے خلاف عوام الناس کے دلوں میں بغاوت کے شعلے بھڑکا دیئے۔ اسی تحریک خلافت ہی میں وہ پہلی مرتبہ عین عالم شباب میں جیل کی آزمائشوں میںڈ الے گئے.

اور قید و بند کا یہ سلسلہ ایسا مضبوط ہوا کہ پھران کی ساری زندگی ’’ریل اور جیل‘‘ سے عبارت ہو گئی۔ 1929ء میں اپنے ساتھیوں مولانا ظفر علی خان، چودھری افضل حق، شیخ حسام الدین، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، ماسٹر تاج الدین انصاری اور مولانا مظہر علی اظہر کے ساتھ مل کر برصغیر کی مقبول جماعت مجلس احرار اسلام کی بنیاد رکھی۔ 1930ء میں جب ان کی عمر محض اڑتیس برس تھی، اپنے وقت کی عظیم دینی شخصیت علامہ سیّد انور شاہ کاشمیریؒ کی تجویز پر پانچ سو جیّد علماء کرام اور مشائخ نے ختم نبوت کے محاذ پر اُن کو ’’امیرشریعت‘‘ تسلیم کرتے ہوئے اُن کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور یوں متحدہ پنجاب شاہ صاحب کی مضبوط قیادت میں آ گیا۔ پھر مجلس احرار اسلام نے ان کی رہنمائی میں بیسیوں معرکے سر کیے، جس کی تفصیلات تاریخ کا حصہ ہیں. 

قسّامِ ازل نے بخاریؒ صاحب کو گونا گوں خصوصیات سے نوازا تھا۔ وہ اپنی ذات میں بیک وقت بے مثل خطیب، برجستہ گو شاعر اور شعر فہمی میں یکتائے فن، متبحر عالم دین، سیاست دان، مدبر، نابغہ اور صاحبِ بصیرت انسان تو تھے ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ معاملہ فہمی، مزاج شناسی، دوست داری، وضع داری، تحمل و رواداری جیسی صفات بھی اُن کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ یہی وہ بنیادی وجوہ تھیں کہ جن کی بناء پر وہ مرجع خلائق اور عام و خاص کے دلوں کی دھڑکن تھے۔ برصغیر میں شاہ صاحب جیسی کسی دوسری دلنواز شخصیت کا وجود عنقا تھا۔ وہ اپنے دینی اصول و عقائد پر سختی کے ساتھ کاربند تھے اور ان میں کسی نرمی اور ترمیم کے روادار نہ تھے، مگر ذاتی حیثیت سے وہ ہر دینی وسیاسی، علمی وادبی حتیٰ کہ ایک حد تک مذہب سے گریز پا طبقات میں بھی ہر دلعزیز تسلیم کیے جاتے تھے۔

اسی سبب وہ جہاں علامہ سیّد انور شاہ کشمیریؒ جیسی عظیم دینی ہستی کے منظور نظر تھے، وہیں وہ فیض احمد فیض، صوفی تبسم، اختر شیرانی، جگر مراد آبادی، عبد الحمید عدم، ساغر صدیقی جیسے رندانِ بلاکش کے ہاں میر محفل مانے جاتے تھے۔ شاہ صاحب برصغیر کی وہ واحد شخصیت تھے کہ جن کا احترام ہر طبقہ میں پایا جاتا تھا۔ وہ جہاں حضرت پیر سیّد مہر علی شاہ گولڑویؒ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور قطب الاقطاب حضرت شاہ عبد القادر رائے پوریؒ کی محبتوں کا مرکز تھے وہیں وہ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی اور مفتی اعظم مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بھی تھے۔ شاہ صاحب یکساں طور پر مولانا ابو الکلام آزاد، علامہ محمد اقبالؒ اور مولانا محمد علی جوہر کی عنایات اور ان کی صحبتوں سے فیض یاب ہوئے۔

مختلف النوع شخصیات کے شاہ صاحب کے ساتھ تعلقات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ عقائد ونظریات کے مابین واضح فرق کے باوجود یہ سب لوگ شاہ صاحب کے ساتھ پیار و محبت اور انس و مروّت کیسے روا رکھتے تھے! درحقیقت یہ شاہ صاحب کی وسعت ظرفی، تحمل مزاجی، شفقت و رواداری کے علاوہ ان کی انسان دوستی تھی، کیونکہ انہوں نے ایک دینی رہنما کی حیثیت سے اسلام کے اصولوں کے عین مطابق کسی فرد سے اس کے عقیدہ و نظریہ کی بناء پر نفرت نہیں کی، بلکہ ایک معالج کی طرح مرض سے نفرت ضرور کی، مگر مریض کو گلے لگایا۔ ان کے حسن سلوک سے بے شمار لوگوں کو ہدایت نصیب ہوئی۔ انہوں نے ایک داعی کا کردار ادا کیا اور داعی کسی سے نفرت نہیں کیا کرتا۔ ممتاز نعت گو شاعر حافظ لدھیانویؒ شاہ صاحب کو ملنے ملتان آئے۔

مغرب کی نماز کے لیے جماعت کھڑی ہوئی تو شاہ صاحب نے خود مصلیٰ امامت پر کھڑے ہونے کی بجائے فرمایا کہ آج ہم حافظ بیٹا کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ یہ حکم سن کر داڑھی منڈے نوجوان حافظ لدھیانوی کے بقول اُن کا وجود کانپ کر رہ گیا، لیکن چارو ناچار اُن کو شاہ صاحب سمیت بہت سے علماء کرام کی امامت کرنا پڑی۔ شاہ صاحب کے اس برتاؤ سے اگلے دن سے ہی حافظ لدھیانوی نے بغیر کسی کے کہنے کے داڑھی رکھ لی۔ لوگوں کے عیبوں کی پردہ پوشی شاہ صاحب کا عمر بھر شیوہ رہا۔ وہ خوبیوں پر نگاہ رکھتے اور کمزوریوں سے درگزر فرماتے تھے۔ ہر مکتبہ فکر نے شاہ صاحب کی وسعتِ ظرفی اور وسیع المشربی کی بدولت ان کا دل سے احترام کیا اور اس طرح وہ سب کے لیے عقیدت و محبت کا روشن مینار تھے۔ 

اپنی بے مثال قوتِ لسانی، فکر و نظر کی پختگی اور حلم و تواضع کے پیش نظر وہ ہندوستان کی ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ مشہور انگریز مصنف ڈبلیو، سی سمتھ نے لکھا تھا کہ: ’’یہ غیر معمولی انسان ہندوستان کی سب سے زیادہ اثر آفریں شخصیت ہونے کا نہایت قوی دعویٰ کر سکتا ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے 21؍ اگست 1961ء کو ملتان میں رحلت فرمائی اور وہیں آسودئہ خاک ہیں۔ اللہ ان کی قبر کو اپنی رحمتوں سے بھر دے اور اُن کا سچا نعم البدل عطا کرے جو اُنہی کی طرح تمام طبقات کو اتحاد و یگانگت کا آفاقی درس دے اور اُمت کو توحید و ختم نبوت کی اساس پر یکجا کر دے۔ (آمین )۔

 ڈاکٹر عمرفاروق احرار


تھر کا انسانی المیہ

$
0
0

سندھ کے ضلع تھر پارکر میں قحط اور ناکافی طبی سہولتوں کی بنا پر گزشتہ کئی سال سے بچوں سمیت انسانی اموات کا افسوسناک سلسلہ تھمنے میں نہیں آ رہا ہے۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے سال 2016 کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ تھر پارکر میں قلت خوراک اور علاج معالجے کی ناکافی سہولتوں کے باعث 13 سو سے زائد بچے موت کے منہ میں جا چکے ہیں جبکہ محکمہ صحت کے ذرائع نےصرف سال رواں میں 172 سے زائد بچوں کی اموات کی تصدیق کی ہے۔ تھر کے انسانی المیہ کا عدلیہ کی جانب سے بھی سوموٹو نوٹس لیا گیا لیکن تاحال یہ مسئلہ حل طلب ہے۔ 

ایک خبر کے مطابق سول اسپتال مٹھی میں صحت کی سہولتیں اور معیاری ادویہ نہ ہونے کی وجہ سے مزید تین بچوں سمیت پانچ افراد جاں بحق ہو گئے جبکہ کئی روز تک موسلا دھار بارشیں ہونے کے باوجود علاقے میں ہنوز غذائی قلت برقرار ہے اور انتظامیہ کی جانب سے مچھر مار اسپرے بھی نہیں کیا گیا جس سے وبائی امراض پھیل رہے ہیں۔ تھر کے دور دراز دیہات سے مٹھی اسپتال آنے والے مریضوں کی بڑی تعداد چکن گونیا، ملیریا، گیسٹرو میں مبتلا بتائی گئی ہے، غذائی قلت کے شکار مریضوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ محکمہ صحت کے ترجمان کے مطابق ضلع بھر میں وبائی امراض پر قابو پانے کے لئے میڈیکل ٹیمیں بھیجی جا رہی ہیں۔

تھر میں غذائی بحران کے مستقل حل اور طبی سہولتوں کی فراہمی کے لئے ضروری ہو گیا ہے کہ حکومتی سطح پر تھر کے باسیوں کیلئے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا جائے اس حوالے سے تھر پر یو این کی تازہ رپورٹ کی سفارشات سے بھی مدد مل سکتی ہے ۔ علاقے میں مضبوط انفراسٹرکچر کی تعمیر پر غور کیا جانا چاہئے۔ ضلع میں اسپتالوں کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ وہاں پر بہترین طبی سہولتوں کی فراہمی ممکن بنانے سے بچوں سمیت انسانی جانوں کا تحفظ کیا جاسکتا ہے۔ مریضوں کی جانب سےمقامی اسپتالوں و طبی مراکز میں غیر معیاری ادویہ کی جو شکایات سامنے آرہی ہیں ان کا دور کیا جانا بھی ضروری ہے۔

اداریہ روزنامہ جنگ

علی ابرار موبائل جیتنے کے لئے دریا کی موجوں سے زندگی ہار گیا

$
0
0

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو صحت افزا مقام مری سے ملانے والے علاقے کوہالہ کے قریب دوستوں سے شرط لگا کر دریائے جہلم میں چھلانے لگانے والا نوجوان ڈوب کر جاں بحق ہو گیا جبکہ واقعے کی وڈیو بھی سوشل میڈیا پر آ گئی۔
گجرات سے چھ دوست تفریح کے لیے کوہالہ پل آئے۔ دوستوں کے اکسانے پر 19 سالہ نوجوان علی ابرار نے دریا میں چھلانگ لگا دی تاہم وہ دریا عبور نہ کر سکا اور تیز بہاؤ میں بہہ گیا۔ ایک روز گزرنے کے باوجود نوجوان کی تلاش جاری ہے اور لاش تاحال نہیں مل سکی ہے۔

پولیس نے نوجوان کے 5 دوستوں کو گرفتار کر کے واقعے کا مقدمہ علی ابرار کے والد کی مدعیت میں درج کر لیا ہے۔ پولیس نے بتایا کہ علی ابرار نے دوستوں سے دریائے جہلم عبور کرنے کی شرط لگائی تھی۔ دوستوں نے موبائل فون اور 15 ہزار روپے دینے کی شرط پر علی ابرار کو دریا عبور کرنے پر اکسایا۔
 

دنیا کو پاکستان کی قربانیوں اور کامیابیوں کا اعتراف کرنا چاہیے : چین

$
0
0

چین نے کہا ہے کہ پاکستان انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتا رہا ہے جس میں اسے بڑی قربانیاں دینی پڑیں اور اس کا اعتراف کیا جانا ضروری ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق نئی پالیسی پر خطاب میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو تو سراہا گیا لیکن ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ اس کی سرزمین پر دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں جن کے خلاف اسے سنجیدگی سے کارروائی کرنا ہو گی۔ چین عموماً عالمی سطح پر پاکستان کے موقف کی حمایت میں آواز بلند کرتا رہا ہے۔

بیجنگ میں معمول کی نیوز بریفنگ کے دوران جب چینی وزارت خارجہ کی ترجمان سے ٹرمپ کی تقریر کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے انسداد دہشت گردی میں بڑی قربانیاں دیں اور اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ انھوں نے کہا کہ چین یہ سمجھتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کاوشوں کا مکمل اعتراف کرنا چاہیے۔ چینی وزارت خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ انھیں خوشی ہے کہ پاکستان اور امریکہ دہشت گردی کے خلاف باہمی احترام کی بنیاد پر تعاون جاری رکھیں اور مل کر خطے اور دنیا کی سلامتی و استحکام کے لیے کام کریں۔

پاکستان میں چین کی طرف سے اس بیان کو امریکی صدر کے دعوؤں پر اپنے دیرینہ اتحادی دوست ملک کے دفاع کی ایک کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر زیڈ اے ہلالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ چین اور پاکستان نہ صرف پڑوسی اور دوست ملک ہیں بلکہ افغانستان اور خطے میں ان کے مفادات بھی مشترک ہیں اور ایک بڑی قوت ہونے کے ناطے چین، پاکستان کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین اس بات پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے کہ خطے میں امریکہ کی پالیسیوں کی وجہ سے جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں یا ہوں گی وہ کس حد تک اس سے متاثر ہو سکتا ہے لہذا وہ اس ضمن میں اپنا موقف پیش کرنے کو بھی ضروری سمجھتا ہے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ
 


’امریکہ کی پریشانی دہشت گردی نہیں، سی پیک ہے‘

$
0
0

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کو تنبیہ پر پاکستان میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنے پہلے خطاب میں پاکستان کو تنبیہ کی کہ اگر وہ مسلسل دہشت گردوں کا ساتھ دے گا تو اس کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ امریکی صدر کے مطابق 20 غیر ملکی دہشت گرد تنظیمیں پاکستان اور افغانستان میں کام کر رہی ہیں جو کہ دنیا میں کسی بھی جگہ سے زیادہ ہیں۔ ان کے بیان پر پاکستان کے سیاسی کارکنوں، رہنماؤں اور دیگر افراد نے سوشل میڈیا پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔

بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ سے اس کے علاوہ امید کی بھی کیا جا سکتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے صدر ٹرمپ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’جیسے انڈیا کشمیر میں اپنی ناکام پالیسی کے باعث پیدا ہونے والی شورش کا ذمہ دار پاکستان کو گردانتا ہے ویسے ہی امریکہ بھی افغانستان میں کئی دہائیوں سے جاری ناقص اور ناکام پالیسی کے لیے پاکستان کو ذمہ دار قرار دے رہا ہے۔‘ صدر ٹرمپ کے خطاب اور پاکستان کے بارے میں سخت الفاظ کے بعد اس وقت ہیش ٹیگ #trump ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان کا کہنا ہے کہ ’معذرت کے ساتھ اوروں کو افغانستان میں ’ڈو مور‘ کی ضرورت ہے، لیکن پاکستان کو نہیں۔ ہم تب تو ٹھیک تھے جب تک سپلائی لائنوں کی ضرورت تھی۔‘ پی ٹی آئی سے ہی تعلق رکھنے والے اسد عمر نے ٹویٹ کی اور صدر ٹرمپ کے بیان کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا: ’جہاں تک پابندیوں کا سوال ہے تو کیا ٹرمپ کو کسی نے بتایا ہے کہ امریکی امداد اتنی کم ہے کے وہ تقریباً بے معنی ہو جاتی ہے۔‘ سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے رکن پارلیمان سید رضا علی عابدی نے اس موقع پر ٹویٹ کی: ’ٹرمپ پاکستان سے ’ڈو مور‘ کا کہہ رہے ہیں اور افغانستان میں انڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کر رہے ہیں۔ امریکہ کی پریشانی دہشت گردی نہیں بلکہ سی پیک ہے۔‘

صدر ٹرمپ کے پاکستان کے حوالے سے بیان پر سینیئر صحافی سید طلعت حسین نے لکھا: ’ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ ناکام افغان پالیسی کی بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہوں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب تک انھیں اپنی غلطی کا احساس ہو گا ہمارے اہم مفادات کو نقصان پہنچ چکا ہو گا۔‘ ایک صارف قاسم انیب نے اس حوالے سے لکھا کہ ’ہم نے افغانستان میں امریکہ کی ایما پر دو جنگیں لڑیں اور دونوں ہی مرتبہ بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں ہزاروں جانیں دیں۔‘

بشکریہ بی بی سی اردو

 

انٹرنیٹ کے ذریعے پاکستان کی جاسوسی ؟

$
0
0

آج کل سوشل میڈیا پر ـ"لوڈو سٹار"گیم کا چرچا ہے جس سے متعلق تبصرے ٹاپ ٹرینڈ بن چکے ہیں۔ حال ہی میں اس گیم کو غیر اسلامی قرار دے دیا گیا ہے ، دوسری طرف ایک اور خبر مشہور ہو گئی کہ بھارتی ایجنسیاں "لوڈو سٹار"کے ذریعے پاکستانیوں کی جاسوسی کر رہی ہیں۔ اس لیے اس گیم کا بائیکاٹ کیا جائے۔ سننے میں یہ مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے کہ ایک گیم کے ذریعے جاسوسی کیونکر ممکن ہے۔ ایک عام شخص کی جاسوسی کر کے ملک دشمن عناصر کیا فوائد حاصل کر سکتے ہیں؟ لیکن یہ حقیقت ہے کہ جدید ٹیکنالوجی نے جہا ں ہر شعبہ زندگی میں انقلاب برپا کیا ہے وہیں روایتی جاسوسی کا نظام بھی الیکٹرانک ہو چکا ہے۔ 

اگر آپ غور کریں تو فیس بک پر سائیڈ بار میں چلنے والے اشہارات آپ کے رجحان اور مزاج کے مطابق ہوتے ہیں ۔ یہی نہیں ،اگر آپ کو کسی ایسے دوست کی فون کال یا میسج موصول ہو جو آپ کے پاس فیس بک پر ایڈ نہیں تو چند دنوں میں ہی آپ اس دوست کی پروفائل کو فیس بک پر ریکمنڈڈ فرینڈز (People you may know) کی فہرست میں پائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فیس بک آپ کے موبائل پر ہونے والی تمام کالز اور میسجز کو ریکارڈ کر رہا ہوتا ہے۔ ہیکنگ کے دیگر آلات میں ونڈوز، اینڈرائیڈ، ایپل آئی او ایس/ او ایس ایکس اور لینکس آپریٹنگ سسٹم والے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ راؤٹرز کو نشانہ بنانے والے سافٹ ویئرز شامل ہیں۔

اس ہولناک حقیقت کاانکشاف 2013 ء میں سی آئی اے کے سابق ٹیکنیکل اسسٹنٹ ایڈورڈ سنوڈن نے کیا۔ انہوں نے برطانوی اخبار "دی گارڈین"کے ذریعے دنیا کو امریکہ کے ڈیجیٹل جاسوسی پروگرام "پرزم"سے آگاہ کیا جس کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسیاں سراغ رسانی کی غرض سے انٹرنیٹ کی نو بڑی کمپنیوں فیس بک، یو ٹیوب، سکائپ، ایپل، پال ٹاک، گوگل، مائکروسافٹ اور یاہو کے سرورز سے صارفین کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل کر رہی ہیں۔ امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی، برطانیہ کی گورنمنٹ کمیونیکیشن ہیڈ کوارٹرز اور اسرائیل کی موساعد دنیا میں ڈیجیٹل جاسوسی کا سب سے بڑا منبع ہیں جو سینکڑوں این جی اوز، ٹیکنالوجی کمپنیز اور مختلف فرمز کے ذریعے لوگوں کی ذاتی تصاویر، ویڈیوز، ای میلز اور دیگر معلومات تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ 

ڈیجیٹل جاسوسی کے تین بڑے ذرائع جن میں سب سے اہم انٹرنیٹ ہے۔ مختلف ایپس کے ذریعے موبائل کی گیلری، کیمرہ، مائیک اور دیگر خفیہ حصوں تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ جب ہم کوئی ایپ انسٹال کرتے ہیں تو وہ ہمارا ڈیٹا مختلف سرورز کو بھیج رہی ہوتی ہیں۔ حالیہ تحقیق کے مطابق 53 فیصد ایپس ڈیٹا چوری کرتی ہیں جس کی ایک عام مثال فلیش لائٹ ایپ ہے جس کا مقصد اندھیرے میں موبائل کو ٹارچ بنانا ہے مگر یہ آپ کی کانٹیکٹ لسٹ کو چوری کرتی ہے۔دوسرا بڑا ذریعہ فائبر آپٹک ہے جس کے ذریعے عالمی کمیونیکیشن کی نگرانی کی جاتی ہے۔"گارڈین''کے مطابق برطانیہ کو دو سو فائبر آپٹک کیبلز تک رسائی حاصل ہے جس کے ذریعے وہ یومیہ چھ سو ملین کمیونیکیشنز کی نگرانی کر سکتا ہے۔ 

فون ٹیپنگ کے علاوہ ہر روز 18 وائرس ( ٹروجن ) بنائے جاتے ہیں جو لوگوں کے ڈیجیٹل ڈیٹا تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عام لوگوں کی جاسوسی پر اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے پس پردہ عالمی اداروں کے کیا مقاصد ہیں تو اس کا آسان جواب یہ ہے کہ نیوورلڈ آرڈر کے مطابق ہر ملک عالمی سطح پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے جس کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ اس مقصد کے لیے انٹرنیٹ پر موجود ہر شخص کی سوچ، لین دین، رجحانات اور تمام دلچسپیوں کو ڈیٹا بیس میں مسلسل ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ کسی خطے اور قوم سے متعلق بنیادی معلومات اگر آپ کے پاس موجود ہوں تو آپ اس خطے کے لوگوں کا مجموعی نفسیاتی طرزِ عمل آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔

صرف نفسیاتی طرزِ عمل ہی نہیں بلکہ قوموں کے مجموعی طرزِ فکر، ایکشن، ری ایکشنز اور متوقع فیصلہ سازی کے بارے میں آپ بڑی آسانی سے ایک زائچہ تیار کر سکتے ہیں۔ یہی وہ معلومات ہیں جن کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی طاقتیں کسی ملک کے حالاتِ زندگی، نفسیات اور معیشت کو کنٹرول کرتی ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق ''ٹاپ سیکرٹ بجٹ ڈاکومنٹس''بلیک بجٹ کے نام سے ترتیب دی گئیں 178 صفحات پر مشتمل دستاویزات میں امریکی خفیہ اداروں نے پاکستان میں کیمیائی اور جراثیمی ہتھیاروں کے ٹھکانوں کے حوالے سے معلومات اکٹھی کرنے کے سلسلے میں جاسوسی نیٹ ورک کو توسیع دی ہے۔

مارچ 2013ء کے انکشافات کے مطابق پاکستان عالمی جاسوسی اداروں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں سے ایک ماہ میں ساڑھے تیرہ ارب خفیہ معلومات حاصل کی گئی ہیں۔ برطانوی خفیہ ادارہ ٹیکنالوجی کمپنی "سسکو"کے رائوٹرز کو ہیک کر کے پاکستان میں مواصلاتی نظام کی جاسوسی کرتا رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستان کو پیچھے دھکیلنے کے لیے تیزی سے جال بننے میں مصروف ہیں۔

سعد الرحمٰن ملک


 

بھارت پر اچانک حملے کیلئے چین کی فوجی مشقیں

$
0
0

چین کی فوج نے سرحدی کشیدگی کے پیش نظر بھارت پر اچانک حملے کی تیاری کے لیے نامعلوم مقام پر مشقیں کی ہیں۔ چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق پیپلز لبریشن آرمی کی مغربی تھیٹر کمانڈ نے یہ مشقیں کیں، ان مشقوں میں فوج کے 10 یونٹس نے حصہ لیا جن میں ہیلی کاپٹروں اور ٹینکوں کے یونٹس بھی شامل تھے۔ سرکاری میڈیا نے اس حوالے سے پانچ منٹ طویل ویڈیو بھی نشر کی جس میں ٹینکوں کو پہاڑوں پر گولہ باری کرتے اور ہیلی کاپٹرز کو زمین پر میزائل سے نشانہ لگاتے دیکھا جا سکتا ہے۔

چینی میڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ان مشقوں کا مقصد پہاڑی علاقے کی جنگ کی تیاری ہے۔ چینی تجزیہ کاروں کے مطابق چینی فوج کی تازہ مشقوں کا ہدف بھارت پر اچانک حملے کی تیاری کرنا ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان متنازع سرحدی علاقے ڈوکلام میں دو ماہ سے کشیدگی جاری ہے اور چنگہائی تبت کا پہاڑی علاقہ بھارت کے قریب ترین واقع ہے جہاں چین کی مغربی تھیٹر کمانڈ تعینات ہے۔ یاد رہے کہ جولائی میں بھی چین نے بھارتی سرحد سے ملحقہ علاقے تبت میں فوجی مشقوں کا انعقاد کیا تھا۔
 

چھ کروڑ پاکستانی زہریلا پانی پینے پر مجبور

$
0
0

پاکستان میں ایک تحقیق کے مطابق پینے کے صاف پانی میں خطرناک زہریلے مادے سنکھیا کی انتہائی زیادہ مقدار کی موجودگی سے چھ کروڑ شہریوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت ڈبلیو ایچ او کی جانب سے پاکستان بھر میں حاصل کردہ زیر زمین پانی کے 12 سو نمونوں کی جانچ سے معلوم ہوا ہے کہ ان میں زہریلا مادہ سنکھیا زیادہ مقدار میں موجود ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی یہ تحقیق جریدے سائنس ایڈوانس میں شائع ہوئی ہے۔ سنکھیا یا آرسنک دراصل ایک معدن ہے۔ یہ بے ذائقہ ہوتا ہے اور گرم پانی میں حل ہو جاتا ہے اور ہلاک کرنے کے لیے اس کے ایک اونس کا سوواں حصہ بھی کافی ہوتا ہے۔
طویل عرصے تک سنکھیا ملا پانی استعمال کرنے کے نتیجے میں خطرناک بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ ان میں جلد کی بیماریاں، پیپھڑوں اور مثانے کا سرطان اور دل کے امراض لاحق ہو سکتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا بھر میں 15 کروڑ افراد کا انحصار زیر زمین اس پانی پر ہے جس میں سنکھیا پایا جاتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے معیار کے مطابق ایک لیٹر پانی میں سنکھیا کی زیادہ سے زیادہ مقدار 10 مائیکرو گرام ہونی چاہیے جبکہ حکومت پاکستان کی جانب سے مقرر کردہ معیار کے مطابق یہ شرح 50 مائیکرو گرام تک قابل قبول ہے۔ تحقیق کے مطابق پاکستان کے مشرقی علاقوں یا دریائے سندھ کے ساتھ میدانی علاقوں میں رہائش پذیر پانچ سے چھ کروڑ افراد پینے کے لیے وہ پانی استعمال کر رہے ہیں جس میں حکومت کی مقرر کردہ مقدار سے زیادہ سنکھیا ہو سکتا ہے۔ سائنس دانوں نے ملک بھر میں مختلف مقامات سے پینے کا صاف پانی حاصل کرنے نلکلوں، کنوؤں سے 12 سو نمونے حاصل کیے اور شماریات کا طریقۂ کار استمعال کرتے ہوئے نقشے مرتب کیے اور ان کی مدد سے اندازہ لگایا کہ اس خطرے سے کتنی آبادی متاثر ہو سکتی ہے۔

سوئس فیڈرل انسٹی ٹیوٹ آف ایکوٹک سائنس سے منسلک اس تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر جول پٹکوسکی نے بی بی سی کو بتایا کہ تحقیق کے نتائج پریشان کن ہیں۔
'ہم پہلی بار پاکستان میں اس مسئلے کی شدت کو دکھانے میں کامیاب ہوئے ہیں کیونکہ جیالوجی اور زمینی مادوں اور دیگر پیمائشوں کی مدد سے اندازہ ہوا کہ دریائے سندھ کے ساتھ میدانی علاقوں کے زیر زمین پانی میں سنکھیا کی انتہائی زیادہ مقدار موجود ہے۔' سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کاشت کاری کے لیے پانی کے استعمال نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ تحقیق میں سنکھیا اور مٹی میں پائی جانے والی تیزابیت کے درمیان مضبوط باہمی تعلق کا اندازہ بھی ہوا ہے۔

ڈاکٹر جول کے مطابق'وادی مہران میں بڑے پیمانے پر کاشت کاری کے لیے پانی استمعال کیا جاتا ہے اور یہاں کا موسم بہت گرم اور خشک ہے۔ اگر آپ سطح پر بہت زیادہ پانی بہا رہے ہیں تو یہ جب زمین میں جذب ہو گا تو آسانی سے سنکھیا کو اپنے ساتھ زیر زمین پانی میں ملا دے گا۔‘ یونیورسٹی آف مانچیسٹر میں ماحولیاتی کمیسٹری کے پروفیسر ڈیوڈ پولایا کا کہنا ہے کہ 'اعداد و شمار پر قابل ذکر حد تک غیر یقینی پائی جاتی ہے، اگر جتنی آبادی کو خطرہ لاحق بتایا گیا ہے اس کا نصف بھی ہو تو اس سےگذشتہ چند دہائیوں میں سامنے آنے والے رجحان کا اندازہ ہوتا ہے جس میں ایک ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جنھیں سنکھیا ملے پانی سے خطرہ لاحق ہے۔'

انھوں نے کہا ہے کہ اس طرح کی جامع تحقیقات دوسرے علاقوں میں بھی ہونی چاہیے اور اس سے کوئی شک نہیں کہ پینے کے پانی میں اس زہریلے مادے سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھے گی۔' ڈبلیو ایچ او کے پروفیسر ریک جانسٹن کے مطابق'نئی تحقیق میں سنکھیا کی پانی میں ملاؤٹ کی شرح کے بارے میں معلومات حاصل ہوئی ہیں اور یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پانی کے دیگر شعبوں کے لیے بھی فائدہ مند ہوں گی۔

بشکریہ بی بی سی اردو
 

چین کے بعد روس نے بھی پاکستان کی حمایت کر دی

$
0
0

امریکی صدر ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان پر چین کے بعد روس نے بھی پاکستان کی حمایت کر دی، روس کا کہنا ہے کہ پاکستان پردباؤ بڑھانے سے افغانستان میں منفی نتائج سامنے آئیں گے۔ روسی صدارتی مندوب برائے افغانستان ضمیر کابولوف کابیان میں کہنا تھا کہ پاکستان پر دباؤ بڑھانے سے خطے کی سیکورٹی صورتحال میں عدم استحکام پیدا ہو گا۔ ضمیرکابولوف نے کہا کہ افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہے۔

روسی صدارتی مندوب برائےافغانستان نے مزید کہا کہ خطے میں کسی بھی قسم کا عدم استحکام افغانستان کے لیے فائدہ مند نہیں ہو گا۔ قبل ازیں امریکی صدر ٹرمپ کے پاکستان سے متعلق بیان پر چینی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ چین اور پاکستان ایک دوسرے کے بہترین دوست ہیں اور پاکستان انسداد دہشت گردی جنگ کے محاذ پر ڈٹا ہوا ہے، جس میں پاکستان نے قابل قدر قربانیاں دی ہیں۔
 

پاکستان کی آبادی بیس کروڑ سے زائد ہو گئی

$
0
0

شماریات بیورو نےچھٹی مردم شماری 2017 کے عبوری نتائج کا اعلان کر دیا ہے جس کے تحت پاکستان کی کل آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ 74 ہزار 520 نفوس پر مشتمل ہے، جن میں 10 کروڑ 64 لاکھ 49 ہزار 322 مرد اور 10 کروڑ 13 لاکھ 14 ہزار 780 خواتین ہیں۔ شماریات بیورو کی جانب سے جاری اعداو شمار کے مطابق 1998 میں ملک کی آبادی 13 کروڑ 23 لاکھ 52 ہزار 279 تھی۔ شماریات بیورو کے اعداوشمار کے مطابق خیبر پختونخوا کی کل آبادی 3 کروڑ 5 لاکھ 23 ہزار 371 افراد پر مشتمل ہے، فاٹا کی کل آبادی 50 لاکھ ایک ہزار 676، پنجاب کی کل آبادی 11 کروڑ 12 ہزار 442 افراد، سندھ کی کل آبادی 4 کروڑ 78 لاکھ 86 ہزار 51، جبکہ سب سےذیادہ رقبہ رکھنے والے صوبہ بلوچستان کی کل آبادی ایک کروڑ 23 لاکھ 44 ہزار 408 افراد پر مشتمل ہے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی کل آبادی 20 لاکھ 6 ہزار 572 افراد پر مشتمل ہے۔ 1998 کی مردم شماری کے تناسب سے 2017 میں آبادی میں 57 فیصد اضافہ ہوا، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے آبادی کے اعداو شمار ابھی جاری نہیں کیئے گئے۔ سب سے ذیادہ آبادی کی شرح میں اضافہ وفاقی دارلحکومت میں 4.91 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں گھروں کی مجموعی تعداد 3 کروڑ 22 لاکھ 5 ہزار111 ہے۔ 

شماریات بیورو کے ریکارڈ کے مطابق شہروں میں بسنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور 1998 میں 32.52 کی شرح، 2017 میں بڑھ کر 36.38 فیصد ہو گئی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ وفاقی دارلحکومت کے شہری علاقوں میں بسنے کا رجحان کم ہو رہا ہے اور گزشتہ مردم شماری کے مقابلے میں حالیہ مردم شماری کے مطابق اسلام آباد کے شہری علاقوں میں بسنے کا رجحان 65.72 فیصد سے کم ہو کر 50.58 فیصد ہو گیا ہے۔ ملک میں سب سے ذیادہ شہر میں بسنے کا رجحان صوبہ سندھ میں ہے جہاں کی 52.02 فیصد آبادی شہروں میں بستی ہے۔ شماریات بیورو کےجاری کردہ اعداو شمار میں ملک میں رہنے والے افغان اور دیگر شہریت کے حامل لوگ بھی شامل ہیں جبکہ افغان مہاجر کیمپس اور سفارتکاروں کی تعداد کو شامل نہیں کیا گیا۔

19 سال کے تعطل کے بعد ملک میں ہونے والی اس مردم شماری کا آغاز 15 مارچ کو ہوا تھا اور اس عمل میں معاونت اور اس میں شامل اہلکاروں کے تحفظ کے لیے فوج کے اہلکار بھی ہر ٹیم کے ساتھ تعینات کیے گئے تھے۔ قوائد کے مطابق ملک میں ہر دس سال بعد مردم شماری کا انعقاد ضروری ہے لیکن پاکستان میں آخری مردم شماری 1998 میں ہوئی تھی اور پھر ملک کو درپیش حالات کی بنا پر یہ عمل موخر ہوتا رہا۔​
 

سکردو کے قریب سرفرنگا کے سرد صحرا میں اپنی نوعیت کی منفرد جیپ ریلی

$
0
0

سرفرنگا سکردو سے 20 کلومیٹر دور ایک ’سرد‘ صحرا ہے جس کی سطحِ سمندر سے بلندی ساڑھے سات ہزار فٹ کے قریب ہے۔ صحرا میں تیز رفتار کے لیے گاڑی کا سسپینشن سسٹم خاص طور پر توانا ہونا چاہیے۔









کیا طلبہ تنظیمں شدت پسندی کی روک تھام کے لیے ضروری ہیں ؟

$
0
0

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ نے اتفاق رائے سے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ملک کی یونیورسٹیوں میں طلبہ تنظیموں کو پوری طرح سے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ جامعات کی یہ تنظیمیں غریب اور متوسط طبقے کی سیاسی نرسریاں سمجھی جاتی تھیں جہاں سے ملک کو سیاسی قیادت ملی۔ لیکن جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں طلبہ اور مزدور یونینوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر رہنما اور سینیٹر افراسیاب خٹک بھی طلبہ یونین سے سینیٹ تک پہنچے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنرل ایوب خان نے طلبہ یونین پر پابندی لگائی تھی اور جب مارشل لا ختم ہوا اور آئین نافذ ہوا تو یہ پابندی اٹھائی گئی۔ اس وقت وہ پشاور یونیورسٹی میں تھے اور پہلی بار یونین کے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ بقول خٹک کے ان دنوں بہت مثبت سرگرمیاں ہوتی تھیں جنرل ضیاالحق کے آنے تک یونیورسٹیاں پر امن تھیں اور وہاں بحث مباحثے ہوتے تھے۔ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے بعد 1988 میں بےنظیر بھٹو نے طلبہ یونین سے پابندی ہٹانے کا اعلان کیا، لیکن تین سال کے اندر یونین سازی کو اس بنیاد پر عدالت میں چیلنج کر دیا گیا کہ یہ تشدد کو فروغ دیتی ہیں بالآخر 1993 میں سپریم کورٹ نے یونین پر پابندی عائد کر دی۔ 

جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کے بعد جب 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے پہلے خطاب میں طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان کیا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ عوامی نیشنل پارٹی پی پی حکومت کی اتحادی جماعت تھی۔ افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ جب مارشل لا ختم ہوتے ہیں تو بہت سارا ملبہ چھوڑ جاتے ہیں اور بہت ساری رکاوٹیں افسر شاہی کے پاس ہوتی ہیں جو دور سے نظر نہیں آتیں۔ 'ہمارے یہاں ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ عبوری دور اپنے منطقی انجام پر پہنچا ہو جس کی وجہ سے جمہوری اداروں کی بحالی ایک بار بھی نہیں ہو سکی۔'

جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن کا دعویٰ ہے کہ جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں طلبہ تنظیموں پر پابندی جماعت اسلامی کو کنارے لگانے کی لیے لگائی گئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ طلبہ تنظیمیں ایک بہت بڑا موقع ہوتا تھا کہ اساتذہ اور طلبہ کو ایک دوسرے کے طریقہ کار کو دیکھیں۔ اس طرح طلبہ کو مالیات اور عوامی رابطہ کا موقعہ مل جاتا تھا۔ 'جنرل ضیاالحق کے بعد جب بےنظیر بھٹو آئیں تو انھوں نے اعلان کیا کہ پنجاب کی یونیورسٹیوں میں الیکشن ہوں گے، یہ الیکشن ہوئے کوئی ناخوشگوار واقعہ بھی پیش نہیں آیا اس کے باوجود انھوں نے ملک کے اندر دیگر جامعات میں الیکشن نہیں کروائے۔'

منور حسن کا کہنا ہے کہ حکمرانوں کو یہ سوٹ کرتا ہے کہ آزادی کم سے کم میسر ہو اور لوگ حقوق کے نام پر سڑکوں پر نہ آ سکیں، لہٰذا اس طرح سے چیزیں کی جائیں کہ دستور سے شروع ہوں اور دستور پر ختم ہوں۔ پاکستان میں جامعات میں طلبہ تنظیموں پر پابندی کی ایک وجہ طلبہ گروہوں میں تصادم کو بھی قرار دیا جاتا ہے۔ بےنظیر بھٹو شہید میڈیکل یونیورسٹی لیاری کے وائس چانسلر اختر بلوچ کا کہنا ہے کہ جب ہم یونین کی بات کرتے ہیں تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ طالب علم اپنے مسائل خود حل کرنے کی کوشش کریں گے لیکن بدقسمتی سے ان میں باہر کی قوتوں کا عمل دخل بہت زیادہ ہوتا ہے اور وہ پورے ماحول کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہیں اس کی وجہ سے انتظامیہ بلیک میل ہو جاتی ہے۔
کراچی اور لاہور کی جامعات میں طلبہ تنظیموں میں تصادم کی ایک بڑی وجہ جماعت اسلامی کی طلبہ تنطیم جمعیت کو قرار دیا جاتا ہے۔ منور حسن کا کہنا ہے کہ تشدد کی بنیاد جس نے بھی رکھی ہو اس کے لیے ہمدری پیدا نہیں ہو گی۔ 'جمیعت سب سے زیادہ یونین کے انتخابات جیتنے والی جماعت ہے۔ اگر تشدد کی بنیاد ایسے لوگ رکھتے تو وہ ناپید ہو جاتے اور لوگ انھیں ووٹ نہ دیتے۔ موجودہ وقت میں تو کوئی یونین نہیں ہے لیکن اس عرصے میں تعلیمی اداروں کا کیا حال ہوا ہے، کہ بالآخر رینجرز کو لگانا پڑا ہے؟‘

پاکستان میں گذشتہ چند برسوں میں صفورہ واقعے کے ملزم سعد عزیز اور لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کی طالبہ نورین لغاری سمیت درجن کے قریب اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلبہ اور طالبات شدت پسندی میں ملوث پائے گئے ہیں۔ جس کے بعد انسداد دہشت گردی کے ادارے جامعات سے شدت پسندی کے رجحان کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے سربراہ عامر رانا کا کہنا ہے کہ انتہاپسندی کے رحجانات کی روک تھام کے لیے طلبہ تنظیمیں اہم کردار ادا کر سکتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جتنی بھی تشدد پسند اور دہشت گرد تنظیمیں ہیں وہ ایک متبادل سیاسی نقطہ نظر پیش کرتی ہیں۔ جب مرکزی دھارے کے نقطۂ نظر کو جامعات میں کام کرنے کے لیے اجازت نہیں دیں گے تو وہ خلا اس قسم کی پرتشدد تنظیمیں ہی پورا کریں گی۔

'یہ کہا جاتا ہے کہ طلبہ تنظیمیں آنے سے تشدد بڑھ جائے گا، میرا خیال ہے کہ حکومت کو چیکس لگانا چاہیے تاکہ اسلحے کا فروغ نہ ہوا اور طلبہ یونین سیاسی جماعتیں انھیں آلہ کار نہ بنائیں۔ یہ ایک انتظامی مسئلہ ہے جس کو حل کیا جا سکتا ہے اس بنیاد پر اس سیاسی عمل کو روکنا کسی صورت میں دانش مندی نہیں۔'
بےنظیر بھٹو شہید میڈیکل یونیورسٹی لیاری کے وائس چانسلر اختر بلوچ کا کہنا ہے کہ ہم زندگی کے ہر شعبے میں مذہب کو سامنے لاتے رہے اور مجموعی طور پر کلاشنکوف کلچر اور ملّا ازم آیا۔ 'ان سب چیزوں نے مل کر ہماری معاشرے میں شدت پسندی کو فروغ دیا۔ اب اس سارے بیانیے کو روکنا ہے اس میں ہم طلبہ یونین کی بحالی کی بھی بات کرتے ہیں۔'

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
 

افغانستان میں امریکی ناکامیوں کی طویل فہرست

$
0
0

امریکا کو افغانستان میں آئے تقریباً 16 سال ہو چکے لیکن اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود اب تک وہاں امن و امان قائم نہیں کیا جا سکا۔ سینٹرفار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2001 سے اب تک امریکا افغانستان میں تقریباً 841 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے جس میں 110 ارب ڈالر مالی امداد کی مد میں دیئے گئے جس میں افغان فورسز کی تعمیر نو، اقتصادی امداد اور منشیات کنٹرول کرنے کے منصوبے شامل ہیں۔ اگر اس میں دیگر اخراجات بھی شامل کر لیے جائے تو امریکا کا افغانستان جنگ پر خرچہ 20 کھرب ڈالر تک پہنچ جاتا ہے۔

اس عرصے میں امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کو دیکھا جائے تو 2001 میں 13 سو امریکی فوجی افغانستان میں اترے جس کے بعد اگست 2010 میں یہ تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی اور اب بھی 8 ہزار سے زائد فوجی افغانستان میں موجود ہیں لیکن افغانستان سے اب تک نہ تو شدت پسندوں کی پناہ گاہوں کا خاتمہ ہوا نہ ہی کرپشن ختم ہوئی اور نہ ہی اقتصادی طور پر کوئی بہتری آئی۔ لانگ وار جرنل اور دیگر اداروں کی رپورٹس کے مطابق افغان حکومت کی رٹ تمام تر سپورٹ کے باوجود صرف 60 فیصد رقبے پر قائم ہے اور افغانستان کے 34 میں سے 16 صوبے ایسے ہیں جن میں کہیں افغان طالبان کا مکمل تو کہیں جزوی کنٹرول ہے جبکہ بعض صوبے ایسے ہیں جہاں ان کا اچھا خاصا اثر و روسوخ موجود ہے۔

امریکا کی ناکامیوں کی فہرست یہیں نہیں رکتی کیونکہ افغانستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی مستقل اضافہ د یکھا جا رہا ہے۔ اسی طرح امریکا نے 8 اعشاریہ 4 ارب ڈالر منشیات کے خاتمے پر لگائے مگر افیون کی کاشت کا رقبہ 2001 کے 8 ہزار ایکٹر سے بڑھ کر 2 لاکھ ہیکٹر تک پہنچ گیا جبکہ افیون کی پیداوار بھی 185 میٹرک ٹن سے بڑھ کر 8 ہزار ٹن سے زائد ہو گئی۔ منشیات کے خاتمے کےلیے 94 کروڑ ڈالر کے جہازافغان حکومت کو دئیے مگر مطلوبہ قابلیت اور ناتجربے کار اسٹاف کے باعث یہ منصوبہ بھی ناکام ہوا۔ 66 کروڑ ڈالر کی 630 آرمرڈ وہیکل اور 49 کروڑ کے 20 گارگو جہاز بھی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث ناکارہ ہو گئے اور کئی تو اسکریپ میں بیچ بھی دئیے گئے۔

اس کے علاوہ 49 کروڑ ڈالر کا معدنیات نکالنے کے منصوبے ایک ارب ڈالر جوڈیشل ریفارم اور 47 کروڑ ڈالر مقامی پولیس کے لیے امریکا نے خرچ کیے مگر یہ منصوبے کرپشن کے باعث ناکام ہو گئے۔ اس کے برعکس پاکستان آرمی نے دہشت گردوں کے خلاف اپنے وسائل میں رہتے ہوئے سوات، خیبر ایجنسی، باجوڑ، بونیر، لوئر دیر، مہمند ایجنسی، جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیر ستان میں کامیاب آپریشن کیے جبکہ راجگال اور شاوال جیسے مشکل علاقوں میں بھی دہشت گردوں کے قدم اکھاڑ دیئے۔ اور اب آپریشن ردالفساد کی صورت میں ملک بھر میں دہشت گردوں کا پیچھا کر رہی ہے۔ ان آپریشن کے نتیجے میں پاکستان بھر میں دہشت گردوں کی وارداتوں میں بھی واضح کمی آئی۔

واصف اوصاف
 

امریکہ پھر پاکستان سے منہ موڑ رہا ہے ؟

$
0
0

بعض پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ اپنی ماضی کی پالیسیوں کو دہراتے ہوئے ایک دفعہ پھر پاکستان سے منہ موڑ رہا ہے۔ وائس آف امریکہ کی اردو سروس کی ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ پاکستان کے وزیرِ خارجہ خواجہ آصف کی جانب سے امریکہ کا دورہ ملتوی کر کے پہلے روس، چین اور ترکی سے مشاورت کا فیصلہ امریکہ کے لیے پیغام ہے کہ پاکستان کو اب اس کی زیادہ پرواہ نہیں۔ سینئر صحافی اور اینکر پرسن مجاہد بریلوی نے کہا کہ پاکستان میں انتہا پسندی کو فروغ دینے کی ذمہ داری خود امریکہ پر عائد ہوتی ہے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف آئندہ ہفتے تین علاقائی ممالک - چین، روس اور ترکی کا دورہ کرینگے جہاں وہ ان ممالک کے رہنماؤں کو افغانستان سے متعلق نئی امریکی پالیسی پر پاکستان کے مؤقف سے آگا ہ کریں گے۔ امریکی وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن پہلے ہی خواجہ آصف کو امریکہ مدعو کر چکے تھے لیکن انھوں نے امریکہ کی جانب سے نئی افغان پالیسی کے اعلان کے بعد پہلے پاکستان کے قریبی دوست ملکوں کادورہ کرنے کو ترجیح دی ہے۔



 

آزادی کے ستر برس، کیا پایا کیا کھویا ؟ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی

$
0
0

اب سے 70 برس قبل آزادی کے وقت جو علاقے پاکستان کے حصے میں آئے ان میں انفرا سٹرکچر نہ ہونے کے برابر تھا۔ نوزائیدہ مملکت کے پاس مالی وسائل کم اور مسائل کی بھرمار تھی۔ گزشتہ 7 دہائیوں میں بہرحال پاکستان نے متعدد شعبوں میں قابل قدر ترقی کی ہے مثلاً 

(1) مالی سال 1950 میں پاکستان کی جی ڈی پی تقریباً 10 ارب روپے تھی جو بڑھ کر 31862 ارب روپے تک پہنچ گئی ۔ اسی مدت میں فی کس آمدنی 285 روپے سے بڑھ کر 170508 روپے سالانہ تک پہنچ گئی ہے۔

(2) یکم جولائی 1948 کو پاکستان میں بینکوں کے مجموعی ڈپازٹس ایک ارب روپے سے کچھ ہی زائد تھے جو بڑھ کر اب تقریباً 11600 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ ابتدائی برسوں میں ان بینکوں کا ٹیکس سے قبل مجموعی منافع نہ ہونے کے برابر تھا جو 2016 میں 314 ارب روپے ہو گیا تھا۔

(3) مئی 1998 میں پاکستان نے عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ (پاکستان کے جوہری پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں لیکن اب ان کی خدمات سے استفادہ نہیں کیا جا رہا)۔

یہ کامیابیاں اپنی جگہ مگر مندرجہ ذیل حقائق قابل رشک نہیں ہیں۔ 

(1) 1947 میں پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک تھا لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ہم یہ حیثیت کھو چکے ہیں۔ 

(2) آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے لیکن پاکستان دنیا کی چھٹی نہیں 41 ویں بڑی معیشت ہے۔ 

(3) مالی سال 1980 میں پاکستان پر قرضوں کا مجموعی حجم تقریباً 155 ارب روپے تھا۔ مارچ 2017 تک ان قرضوں و ذمہ داریوں کا مجموعی حجم 23952 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ اس پس منظر میں مندرجہ ذیل حقائق یقیناً چشم کشا ہیں۔ 

(1) 1980 سے 2017 کے 37 برسوں میں پاکستانی معیشت کی اوسط شرح نمو جنوبی ایشیا کے بہت سے ممالک بشمول بنگلہ دیش سے کم رہی۔ اس کی وجوہات میں وڈیرہ شاہی کلچر پر مبنی استحصالی معاشی و مالیاتی پالیسیاں، بار بار آمروں کی مداخلت، سستے اور جلد انصاف کی عدم فراہمی، اداروں کا اپنی حدود سے تجاوز، مالیاتی و انٹلیکچوئل بدعنوانی، موثر احتساب کے نظام کا فقدان اور اقتدار حاصل کرنے، برقرار رکھنے اور اسے طول دینے کیلئے امریکی ایجنڈے کے تحت دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جنگ لڑنا شامل ہیں۔

آئین میں 18ویں ترمیم اور ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کا مقصد صوبوں کو مضبوط بنانا تھا کیونکہ اگر صوبے مضبوط ہوں گے تو پاکستان مضبوط ہو گا۔ ان فیصلوں کے ثمرات حاصل کرنے کیلئے وفاق اور چاروں صوبوں کو متعدد اقدامات اٹھانا تھے لیکن ان اقدامات سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے چنانچہ وفاق اور چاروں صوبوں نے عملاً گٹھ جوڑ کر کے یہ اقدامات اٹھانے کے بجائے استحصالی پالیسیاں اپنائیں۔ پاکستان میں ٹیکسوں کی مد میں استعداد سے پانچ ہزار ارب روپے سالانہ کی کم وصولی ہو رہی ہے۔ چاروں صوبے جہاں مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی حکومت ہے زرعی اور جائیداد سیکٹر کو موثر طور سے ٹیکس کے دائرے میں تو کیا لاتے وہ جائیدادوں کے ڈی سی ریٹ کو مارکیٹ کے نرخوں پر لانے کیلئے آمادہ نہیں ہیں کیونکہ جائیداد سیکٹر لوٹی ہوئی دولت کو محفوظ جنت فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔

سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لئے پاناما لیکس کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا گیا ہے مگر ملکی پاناماز پر کوئی بھی ہاتھ ڈالنے کیلئے تیار نہیں ہے حالانکہ اس مد میں چند ماہ میں تقریباً دو ہزار ارب کی وصولی ممکن ہے۔ اسی طرح انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) کی منسوخی سے تین ہزار ارب روپے سالانہ کی اضافی رقم قومی خزانے میں آ سکتی ہے۔ ٹیکسوں کی چوری کے نقصانات پورا کرنے کیلئے چاروں صوبوں نے تعلیم کی مد میں قومی تعلیمی پالیسی 2009 سے انحراف کرتے ہوئے صرف گزشتہ تین برسوں میں چار ہزار ارب روپے کم مختص کئے گئے ہیں مگر شق 111(4) کو منسوخ کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے۔

اسٹیٹ بینک اور پاکستان میں کام کرنے والے بینک مسلسل بینکنگ کمپنیز آرڈیننس کی متعدد شقوں مثلاً 26۔ اے (4)، 40 (اے) 41 اور آئین کی شقوں 3، 38 (ای) اور 227 سے انحراف کر رہے ہیں۔ بینکوں نے گزشتہ 15 برسوں میں کروڑوں کھاتے داروں کو منافع کی مد میں تقریباً 1450 ارب روپے کم دیئے ہیں۔ ان غلط کاریوں میں تینوں صوبائی بینکوں کا بھی برابر کا کردار ہے۔ وطن عزیز میں آج کل ووٹ کی حرمت کی پامالی کا بڑا چرچا ہو رہا ہے لیکن ووٹ تو اصولی طور پر سیاسی پارٹیوں کے انتخابی منشور کو دیئے جاتے ہیں۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ وفاق اور صوبوں میں برسر اقتدار تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے انتخابی منشور اور وعدوں کے اہم نکات سے 90 فیصد انحراف کیا ہے۔ 

یہی نہیں آئین کی متعدد شقوں سے ریاست کے تمام ستون بھی تسلسل سے انحراف کرتے رہے ہیں۔ آئین کی شق 3 استحصالی کا خاتمہ، 25 (اے) بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم، 37 (ڈی) سستے اور جلد انصاف کی فراہمی، 38 (ڈی) معذور، ضعیف اور بیمار اشخاص کو زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی اور 38 (ای) غریب اور امیر کے فرق کو کم کرنے کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیتی ہیں مگر ان پر عمل نہیں ہو رہا۔ آئین پاکستان کی شق 38 (ایف) میں کہا گیا ہے کہ ربٰو کا جلد از جلد خاتمہ کیا جائے۔ یہ خاتمہ تو کیا ہوتا پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ نے گزشتہ 26 برسوں میں یہ حتمی فیصلہ ہی نہیں دیا کہ سود ہر شکل میں مکمل طور پر حرام ہے یا نہیں۔ بینکوں کے قرضوں کی معافی کا مقدمہ بھی گزشتہ 10برسوں سے سپریم کورٹ میں التوا کا شکار ہے۔

 ہمارے ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس کی تحقیق کے مطابق پچھلی چند دہائیوں سے پاکستان میں جو پالیسیاں اپنائی گئی ہیں ان کے نتیجے میں اس صدی کے آخر تک بھی پاکستانی معیشت سے سود کا خاتمہ ہونا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ اسلامی بینکاری کا موجودہ متوازی نظام غیر اسلامی ہے۔ اسٹیٹ بینک کا شریعہ بورڈ بھی اس نظام کو اسلامی ماننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ مگر اس نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ کچھ اسلامی بینکوں کے شریعہ بورڈز یہ سرٹیفکیٹ دینے کیلئے آمادہ نہیں ہیں کہ اسلامی بینکوں نے کھاتے داروں کو منافع دینے کیلئے جو فارمولا اپنایا ہے وہ شریعت سے مطابقت رکھتا ہے۔ اسلامی بینکوں نے کاروبار کرنے کیلئے جو طریقے اپنائے ہیں ان سے نہ تو اسلامی نظام بینکاری کی کوئی معاشی خرابی دور ہوئی ہے اور نہ ہی اسلامی نظام بینکاری سے معاشرے، معیشت اور فرد کو جو ثمرات ملنے کی توقع تھی ان میں سے کوئی ایک بھی حاصل ہو رہا ہے جو قابل احترام علماء مروجہ اسلامی نظام بینکاری کی پشت پر ہیں وہ بھی دبے لفظوں میں تسلیم کر چکے ہیں کہ اس مروجہ نظام کو اسلامی نظام بینکاری کہا ہی نہیں جا سکتا۔

اگر مندرجہ بالا گزارشات کی روشنی میں معیشت کی بہتری کیلئے فوری طور پر اصلاحی اقدامات نہ اٹھائے گئے اور اقتصادی دہشت گردی پر ممکنہ حد تک قابو پانے کیلئے اقدامات کو نیشنل ایکشن پلان کا حصہ نہ بنایا گیا تو معیشت میں پائیدار بہتری لانے، دہشت گردی کی جنگ جیتنے اور سی پیک کو گیم چینجر بنانے کی توقعات پوری نہ ہو سکیں گی۔ امریکی صدر ٹرمپ نے 21 اگست کو پاکستان کیلئے جو دھمکی آمیز الفاظ استعمال کئے ہیں وہ ’’نیوگریٹ گیم‘‘ کے امریکی عزائم کو ایک مرتبہ پھر واضح کرتے ہیں۔

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی
 

امریکا میں ایک دہائی کا سب سے خطرناک طوفان

$
0
0


ریاست ہائے متحدہ امریکا میں 13 برس بعد آنے والا سب سے خطرناک سمندری طوفان ’ہاروے‘ ریاست ٹیکساس کے ساحل سے ٹکرا گیا۔ 200 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والے اس خطرناک طوفان سے اب تک کم سے کم 5 افراد کے ہلاک اور 14 کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے۔ ریاستی حکام کے مطابق خطرناک طوفان ’ہاروے‘ ٹیکساس کے ساحل سے ٹکرایا، جس سے لاکھوں افراد اپنے مکانات چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ تیز ہواؤں کے ساتھ آنے والے طوفان کے باعث نظام زندگی معطل رہی، اور سڑکیں، گلیاں اور میدان تالاب کا منظر پیش کرنے لگے۔ تیز ہواؤں سے آنے والے طوفان کے بعد ریاست میں تیز بارش بھی ہوئی، جب کہ آخری اطلاعات کے مطابق 2 دن بعد طوفان کی شدت میں کمی آنا شروع ہو گئی۔ خیال رہے کہ اس طوفان سے قبل ریاست ہائے متحدہ امریکا میں اس جیسا خطرناک طوفان 13 برس پہلے آیا تھا، اس طوفان کو ایک دہائی کا سب سے خطرناک طوفان قرار دیا جا رہا ہے۔









Viewing all 4315 articles
Browse latest View live