Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

پاکستانیوں کی چائے سے محبت : چھ ماہ میں 22 ارب روپے کی چائے

$
0
0

چائے پاکستانیوں کا دل پسند مشروب ہے، گھر ہو یا دفتر، چائے کسی بھی وقت چلے گی۔ پاکستانیوں کو چائے اس قدر پسند ہے کہ گذشتہ چھ ماہ میں بیرون ملک سے 22 ارب روپے کی چائے منگوانی پڑ گئی لیکن چائے نوشی کے شوقینوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ یہ کتنے روپوں کی آرہی ہے، انہیں تو صرف چائے ہی چاہیے۔ پاکستانیوں کی چائے سے محبت کو دیکھتے ہوئے ترکی کی وزارتِ غذا، زراعت اور مویشی نے پاکستان کو ملک میں چائے کی پیداوار بڑھانے کی کوششوں کے اعتراف میں چائے تیار کرنے کا ایک خودکار پلانٹ تحفہ میں دیا ہے۔ نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کورپس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فرخ سیار حامد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ چائے تیار کرنے کا یہ خودکار پلانٹ کراچی پہنچ چکا ہے تاہم اس کو پورٹ سے باہر نکالنے کے لیے کاغذی کارروائی کی جا رہی ہے۔

ترکی کی جانب سے موصول ہونے والا پلانٹ روزانہ 400 سے 500 کلو چائے کو پراسس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو آئندہ برس اپریل میں فعال ہو جائے گا۔
چائے کا یہ پلانٹ مانسہرہ کے قریب شنکیاری کے علاقے میں چائے کے باغ میں لگایا جائے گا، یہ باغ 50 ایکڑ سے زائد اراضی پر پھیلا ہوا ہے جو کہ پاکستان کا پہلا چائے کا باغ ہے جہاں کالی اور سبز چائے کاشت کی جاتی ہے۔ نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کورپس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے پاس چین سے درآمد شدہ ایک پلانٹ موجود ہے جو روزانہ کی بنیاد پر ایک ٹن کالی چائے جبکہ 100 کلو کے قریب گرین ٹی تیار کرتا ہے۔ ڈاکٹر فرخ سیار حامد کا کہنا ہے کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں زمین کا سروے کیا گیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ ضلع مانسہرہ، بٹگرام اور سوات میں تقریباً 1 لاکھ 58 ہزار 1 سو 47 ایکڑ زمین چائے کی پیداوار کے لیے انتہائی مفید ہے تاہم اس زمین کو فی الحال استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں بھی سروے کیا گیا جہاں چائے کی پیداوار کے لیے زمین کے مفید ہونے کے آثار ملے ہیں لیکن جموں کشمیر کے محکمہ جنگلات نے چائے کے منصوبے کے لیے زمین فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔

ڈاکٹر فرخ سیار حامد نے بتایا کہ پاکستان میں چائے کی پیداوار کو فروغ دینے میں سب سے بڑا دھچکا اُس وقت لگا جب سوات میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران علاقے میں 186 ایکڑ اراضی پر پھیلے چائے کے باغات اور ایک پلانٹ تباہ ہو گیا تھا۔ چائے کی تحقیق کرنے والے اس ادارے نے 14 مختلف غیر ملکی چائے کے نمونوں کے ٹیسٹ کیے جن میں 13 ایک جیسے نمونوں کی شناخت ہوئی۔ علاوہ ازیں ادارے نے وادی سرن، کونش اور کنار کے علاقے میں کلسٹر تعمیر کیے جہاں 60 کسانوں کو چائے کی پیداوار کے لیے تیار کیا گیا۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر فرخ سیار حامد نے کہا کہ پاکستان میں پیدا کی جانے والی چائے چینیوں کو بہت زیادہ پسند ہے اور ان مصنوعات کو پاک-چین اقتصادی راہداری کے ساتھ استعمال کیے جانے کے امکانات ہیں۔

چائے کے اس تحقیقی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے 2017 کے پہلے 6 ماہ میں 22 ارب روپے مالیت کی 93 ہزار 500 ٹن کی کالی چائے درآمد کی، جبکہ اسی عرصے کے دوران پاکستان نے 10 کروڑ 60 ہزار روپے مالیت کی 450 ٹن سبز چائے برآمد کی ہے۔ ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گذشتہ 20 سال کے دوران چائے کی درآمدات میں 325 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹر فرخ سیار کے مطابق اگر پاکستان میں دو لاکھ ایکڑ زمین چائے کی کاشت کے لیے مل جائے تو ملک کی تمام ضرورت پوری ہو سکتی ہے کیونکہ چائے نوشی کرنے والوں کی تعداد ہر روز بڑھ ہی رہی ہے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

 


Bangladesh Sends Hundreds of Rohingya Muslims Back to Myanmar

$
0
0
A member of Border Guard Bangladesh (BGB) tells a Rohingya girl not to come on Bangladesh side, in Cox’s Bazar, Bangladesh.

بھارت نے چین کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے فوج واپس بلا لی

$
0
0

بھارت نے چین کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے سرحدی علاقے ڈوکلام سے فوج واپس بلا لی۔ چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا شن ینگ نے ڈوکلام سے بھارتی فوج کی واپسی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ چینی فوجی دستے ڈوکلام میں گشت جاری رکھیں گے۔ چین کی سرکاری خبر ایجنسی ژنہوا کے مطابق چینی حکومت نے تصدیق کی کہ بھارت نے ڈوکلام سے اپنی فوج واپس بلالی ہے جس کے نتیجے میں 2 ماہ سے جاری سرحدی تنازع ختم ہو گیا اور نئے فیصلے کے حساب سے تعیناتیاں اور ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔

چینی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان ہونے والی بات چیت میں سرحدی تنازع اور کشیدگی کو ختم کرنے پر اتفاق کیا گیا، چین تاریخی سرحدی اصولوں کی روشنی میں اپنی سالمیت کو یقینی بنانے کے لیے حق خود مختاری کو استعمال کرتا رہے گا۔ ترجمان نے امید ظاہر کی کہ بھارت بین الاقوامی سرحد کا احترام کرے گا اور سرحدی امن کو یقینی بنانے کے لیے باہمی خودمختاری کے احترام کی بنیاد پر چین کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

دوسری جانب بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ دونوں ممالک نے سفارتی بات چیت میں تنازع کو ختم کرنے پر اتفاق کیا جس کے بعد دونوں نے اپنی اپنی فوجیں واپس بلائی ہیں اور اب کوئی فوج ڈوکلام میں موجود نہیں۔ واضح رہے کہ ڈوکلام چین اور بھوٹان کے درمیان متنازع سرحدی علاقہ ہے جس میں جون میں چین نے سڑک کی تعمیر شروع کی تھی جسے روکنے کے لیے بھارت نے ڈوکلام میں اپنی فوج داخل کردی تھی۔
 

Why Rohingya refugees risk their lives to flee Myanmar ?

$
0
0
Rakhine people flee a conflict area. Thousands are travelling across the border to Bangladesh after violence erupted between the army and Rohingya Muslims in the impoverished state of Rakhine.

So, the Rohingya are an ethnic minority in Myanmar. There are about 1.3 million of them in the country, although, over the last 2.5 years, 10 percent of them have fled on boats. They have lived in the country for generations, some for hundreds of years. But the government has decided to persecute them and has, over the last three years, beaten them with impunity, put them into camps, told them that they have to call themselves Bengali or they will be detained, and otherwise basically left all humanitarian access out, so they can’t even get food or medical care or even go to school.



پاک امریکہ تعلقات کا فیصلہ کن موڑ ؟

$
0
0

70 برسوں سے پاکستان کبھی امریکہ اور کبھی روس کی دوستی کا شکار اور ان کے لئے استعمال ہوتا چلا آیا ہے، ایک مرتبہ پھر امریکہ بہادر نے پاکستان کو وفادار و تابعدار بن کر رہنے کی دھمکی اور سخت ترین تنقید کا نشانہ بنایا ہے، یہ پہلی مرتبہ نہیں امریکہ جب بھی بے وفائی کا ارادہ کرتا ہے تو پہلے طعنے اور تنقید کرتا ہے اور پھر دھمکیاں دیتا ہے، پھر ہم ایسے کمزور اور امداد کے متمنی ہمیشہ سر جھکا کر ’’ڈومور‘‘ کی ڈیمانڈ پوری کرنے کی تگ ودو میں لگے رہتے ہیں۔

اب کی بار بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی ایشیا کے حوالے سے پالیسی بیان میں اپنے تئیں اپنا ’’گناہ‘‘ اور ’’خطا‘‘ کی ذمہ داری کے اعادے اور خمیازہ خود بھگتنے کی بجائے پاکستان کے سر تھوپنے کی کوشش کی ہے، خامیوں سے پر اور شواہد سے عاری الزامات سے واضح ہے کہ یہ امریکہ کی اپنی آواز سے زیادہ بھارت کے زہر آلود اینٹی چین موقف کا اظہار لگتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان پر 16 برس سے زائد عرصے سے مسلط کردہ جنگ کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکہ ہزاروں فوجی مروانے اور کھربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد افغانستان میں امن قائم نہیں کر سکا، 50 فی صد سے زائد حصہ افغان طالبان کے اب بھی زیر تسلط ہے، 20/30 فی صد مکس کنٹرول جبکہ صرف 20 فی صد علاقہ افغان حکومت کے کنٹرول میں ہے، جہاں امریکی قیادت میں نیٹو فورسز اپنی محفوظ پناگاہ کی دعویدار ہیں، ایک امریکی تھنک ٹینک کے مطابق، امریکی فورسز (افغان حکومت) کے قبضے میں مختصر علاقوں کی حالت یہ ہے کہ امریکی فورسز ایک سے دوسرے ضلع یا علاقے میں جانے کے لئے ہیلی کاپٹرز یا جدید بکتر بند وبم پروف گاڑیوں میں سفر کرتی ہیں جبکہ تمام راستے ہیلی کاپٹرز نگرانی کرتے ہیں.

صورت حال کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ صدر اوباما کے دور میں افغانستان سے فورسز کی واپسی کا اعلانیہ خواب نہ صرف چکنا چور ہو گیا ہے بلکہ مزید ہزاروں فوجی بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا۔ امریکی فورسز جہاں مقامی دہشت گرد و انتہا پسند گروپس کے ہاتھوں یرغمال ہیں وہیں امریکہ کے پاس واحد آپشن مذاکرات کا ہے جس کا امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ نے قدرے دھیمے اور بجھے الفاظ میں ذکر بھی کر دیا ہے۔ دراصل امریکہ اپنے اور اپنے اتحادیوں کا کھربوں ڈالرز کا جنگی بوجھ کسی ’’بے وقوف‘‘ دوست کے سر تھوپنا چاہتا ہے اور نظر انتخاب ہے بھارت، جی ہاں بھارت افغان جنگ میں واحد نان نیٹو اتحادی ہے جو ایک دہائی سے تجارت و سیاحت کے نام پر افغانستان کے خانہ جنگی کے شکار ان علاقوں میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے، جہاں خود افغانی بھی جانے سے گھبراتے اور ڈرتے ہیں.

یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت کا افغانستان کے ساتھ براہ راست زمینی راستہ یا رابطے کا ذریعہ نہیں اس کے باوجود اربوں ڈالر جھونکنے کا رسک دراصل Fifth generation Warfare کا وہ حربہ ہے جو غیر اعلانیہ اور ان ڈائریکٹ ہے، اس کا ایک بڑا مقصد جنگی صورت حال کو Exploit کر کے اپنے ’’باس‘‘ اور ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرنا اور پاکستان کو ہر لحاظ سے غیر مستحکم کرنا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت پر خفیہ اداروں کے ذریعے مقامی باشندوں کو پیسہ دے کر ہیومن انٹیلی جنس اور دہشت گردی کے لئے استعمال کرنے کا الزام ہے تاہم وہ ہمیشہ تردید کرتا ہے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی اور موجودہ صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو نئی جہت بخشی ہے، ساتھ ہی پاکستان سے شکوہ شکایتوں اور بے سروپا الزامات کی روایات میں زیادہ پختگی آئی ہے۔

عالمی حالات کے تناظر میں مفادات کے پہلو کو دیکھا جائے تو حالیہ امریکی اور بھارتی سفارتی و اسٹرٹیجک پالیسی کی کئی قدریں مشترک ہیں۔ امریکہ چین کی بڑھتی معاشی واقتصادی سمیت جوہری وعسکری طاقت سے نہ صرف خائف ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں چین کےاثرو رسوخ نے بھی اس کو سخت پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے، پاکستان میں سی پیک کا منصوبہ اور پاکستان کا مضبوط جوہری پروگرام مستقل سر درد ہے۔ دوسری طرف بھارت کے چین اور پاکستان سمیت ہر ہمسائے سے تنازعات اور تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں، چین دنیا کی بڑی معاشی اور دوسری بڑی جوہری طاقت بننے جارہا ہے اس میں پاکستان کی اہم اور کلیدی حیثیت اور نمبرون پارٹنر بننا بھارت کو کسی صورت قبول نہیں، سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کا قتل اور بعض حالیہ واقعات اس غیر اعلانیہ دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہیں، امریکہ خطے پر بزور بھارت اپنی بالادستی چاہتا ہے۔ اب امریکہ کی خطے بارے نئی پالیسی پر پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت کے بھرپور و ٹھوس ردعمل نے امریکہ کے لئے ایک مشکل صورت حال پیدا کردی ہے۔

ماضی میں پاکستانی ’’قیادت‘‘ کے اخلاص، تابعداری اور اپنی قوم سے غداری کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک کال پر اپنی زمین و فضا آپ کے حوالے کر دی، بغیر کسی معاوضے کے اپنا سفری و مواصلاتی نظام نیٹو سپلائی کے لئے وقف کر دیا، ملک کے اندر انتشار اور دہشت گردی کا راج ہوا، معاشرے کو سیاسی ومذہبی انتہا پسند اور منتشر سوچ کا شکار کر دیا گیا، ملک کا نظم و نسق، معاشی، تجارتی، تعلیمی اور معاشرتی ڈھانچہ تباہ و برباد ہوا، نئی نسل کی سوچ کو گرہن لگا کر حقیقی ترقی کا خواب بیچ ڈالا، پھر امریکہ بہادر کہتے ہیں کہ اربوں ڈالر لے کر آپ نے کچھ نہیں کیا؟ جناب آپ کے اربوں ڈالر،10 ہوں گے 20 ہوں گے یا 30 ارب ڈالر، لیکن یہاں تو ملک ہی پورا تباہ ہو گیا، معصوم بچوں، خواتین، جوانوں اور بزرگوں سمیت 70 ہزار افراد جان سے گئے لاکھوں بے آسرا اور اپاہج ہوئے، 120 ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان ہوا، لاکھوں لوگوں کو مہمان ہی نہیں اپنا سمجھا اور اپنی ایک روٹی کا آدھا ان کو کھلایا۔

بلاشبہ 7 دہائیوں سے پاک امریکہ تعلقات نشیب و فراز اور بے کیف حالات کا شکار رہے ہیں لیکن صدر ٹرمپ کی پالیسی سن کر وہ دن یاد آرہا ہے کہ جب 2012 میں، میں امریکہ میں فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی میں لیکچر کے دوران پاکستان میں امن وامان کی صورت حال اور پاکستانی عوام و حکومت کی کوششوں اور قربانیوں کا ذکر کر رہا تھا کہ اچانک ایک سفید فارم پوسٹ گریجویٹ اسٹوڈنٹ نے سوال اٹھا دیا کہ امریکی افواج دہشت گردی کے خلاف افغانستان میں لڑ رہی ہیں، ہم آپ کو اربوں ڈالر دیتے ہیں لیکن آپ ہمارے فوجیوں کا سامان لے جانے والی سپلائی لائن بند کر دیتے ہیں، آپ ہمارے ساتھ ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھ؟ (میں نے واضح کیا کہ سپلائی بندش کی وجہ 26 نومبر 2011 کو پاک افغان سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو فورس نےحملہ کر کے 26 پاکستانی فوجیوں کو شہید کر دیا تھا جس پر ردعمل کے طور پر پاکستان نے نیٹو سپلائی معطل کر دی تھی) میرے وطن واپس آنے کے چند ماہ بعد نیٹو سپلائی لائن کھل گئی مجھے حیرت ہوئی کہ ہم نے اپنی حکمت عملی اور رویے قومی امنگوں کے مطابق بدلے بغیر ہتھیار ڈال دیئے.

اگر ایسا اس وقت ہی ہو جاتا تو آج اس طالب علم کے الفاظ صدر ٹرمپ کو ریاستی سطح پر پالیسی کے طور ادا نہ کرنے پڑتے خیر یہ پہلی مرتبہ تھوڑی ہوا، لیکن اب ہمیں سمجھنا ہو گا کہ یہ ہمارے لئے حتمی پیغام، اطلاع اور سنہری موقع ہے کہ فیصلہ کن موڑ آچکا ہے کچھ اہم فیصلے کرنے کا، اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر امداد (خدمات کا معاوضہ) ٹھکرانے کا، خود کو نئے حوصلے سے اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا، ایران سمیت تمام ہمسایوں کےساتھ رشتوں کو نئے سرے سے استوار کرنے کا، روس سمیت سینٹرل ایشین اسٹیٹس کے ساتھ براہ راست رابطہ کاری اور صنعت وتجارت میں تعاون کا، چین کے ساتھ دوستانہ،پیشہ ورانہ اور سمجھدارانہ سمیت اصولوں پر مبنی تعلقات کو فروغ دینے کا، اب ہمیں محض اپنے بیانات سے نہیں عملی اقدامات سے ایک خودار، سمجھدار، خودمختار اور خود اختیار قوم ہونے کا ثبوت دینا ہو گا، اب امریکہ سے اس فساد کو بڑھانے سے روکنے کے لئے ’’ڈو مور‘‘ کہنا ہو گا، چار فریقی مذاکراتی عمل کو کامیابی سے منطقی انجام تک پہنچانا ہو گا۔ ہمیں امریکہ کی بات سننی بھی ہے تو فیصلہ اپنا لینا ہے، موجودہ حالات کو خود ساختہ مفروضوں، باہمی سیاسی و ادارہ جاتی چپقلش کی بھینٹ نہیں چڑھنے دینا اسی میں ہماری بقا اور ترقی کا راز پنہاں ہے۔

آصف علی بھٹی
 

سندھ کے صحرائی ضلعے تھرپارکر کا پہلا سیاحتی ریزورٹ

$
0
0

سندھ کے صحرائی ضلعے تھرپارکر کے علاقے ننگرپارکر میں اپنی نوعیت کا پہلا سیاحتی ریزورٹ سیاحوں کے لئے کھول دیا گیا۔ بائیس کمروں پر مشتمل اس سیاحتی ریزورٹ کو انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد میں جان دینے والے حریت پسند روپلو کولہی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ یہ ریزورٹ صوبائی حکومت کے محکمہ سیاحت کی جانب سے قائم کیا گیا ہے۔ بھارتی سرحد سے ملحقہ اس علاقے میں سیاحتی سرگرمیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر ایسے ریزورٹ کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ 

ننگرپارکر کا علاقہ ساون کی بارش کے بعد حسین منظر پیش کرتا ہے اور سندھ کے مخلتف علاقوں سے لوگ بڑی تعداد میں یہاں پھیل جانے والی ہریالی کو دیکھنے آتے ہیں۔ حالیہ بارش کے بعد ضلع تھرپارکر کے اس علاقے میں ہزاروں افراد سیاحت کے لیے آئے۔ ریزورٹ میں رہائش کی تمام جدید ترین سہولتوں کے علاوہ پانی, بجلی, گیس اور دیگر سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ سیاح ریزورٹ میں کمرے اب فون پر بُک کروا کر ننگر پارکر کی خوبصورتی کو اور بھی انجوائے کرسکتے ہیں۔

​صوبائی وزیر سیاحت سید سردار شاہ کا کہنا ہے کہ ننگرپارکر کی کارونجھر پہاڑیوں کے درمیان ایک پکنک پوائنٹ بھی تعمیر کیا جا رہا ہے جو جلد مکمل کر لیا جائے گا اور سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائے گا۔ ضلع تھرپارکر, سندھ ہی نہیں بلکہ پاکستان کے غریب ترین اضلاع میں شمار ہوتا ہے لیکن ضلعے میں کوئلے کی کان کنی اور سیاحت کے بے شمار مواقع موجود ہیں جو یہاں کے رہنے والوں کی زندگیاں بدل سکتے ہیں۔
 

روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار

$
0
0

ابھی دو دن پہلے خبر آئی کہ میانمار کی فوج اور وہاں کے بظاہر جمہور نوازوں کے گٹھ جوڑ سے قائم حکومت نے لگ بھگ سو کے قریب روہنگیا مسلمانوں کو بڑے بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا جس میں شیر خوار بچوں کو دریا میں پھینکنے کے ساتھ ساتھ نہتے لوگوں کو زندہ جلانے کےواقعات بھی شامل ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف قتل و غارتگری کا یہ کھیل بظاہر دہشت گرد حملے کے جواب میں کیا گیا جو اب تازہ اطلاعات کے مطابق کافی مشکوک دکھائی دے رہا ہے۔ ان روح فرسا مظالم کے نتیجے میں ہزاروں روہنگیا پناہ کی تلاش میں دربدر پھر رہے ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت نے پناہ کی تلاش میں آئے ڈیڑھ سو سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو واپس میانمار کی جانب دھکیل دیا جہاں سے وہ بہ مشکل اپنی جانیں بچا کر آئے تھے۔ ان میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے جو پرخطر حالات میں سات معمولی کشتیوں پہ سوار ہو کر دریائے ناف کے بنگلہ دیشی حصے میں پہنچے تھے۔

اگست کے اوائل میں بھارتی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ روہنگیا سمیت تمام غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو ملک بدر کر دیں گے۔ اسکے ساتھ ہی حکومت نے دعویٰ کیا کہ ملک میں چالیس ہزار روہنگیا غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں، اگرچہ اس اعلان کے مطابق تمام ’’غیر قانونی تارکین وطن‘‘ کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا گیا مگر یہ جلد ہی واضح ہو گیا کہ اصل ہدف صرف روہنگیا ہیں۔ اس فیصلے کا بنیادی مقصد ہندو انتہا پسندوں کو خوش کرنا تھا۔ اس سرکاری اعلان کے بعد ہندو شدت پسند حکمران جماعت بی جے پی کے کئی رہنمائوں نے کھلے عام روہنگیا کو ان کی قانونی حیثیت سے قطع نظر بار بار نشانہ بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس کو اس کے متعلق تشویش کا اظہار کرنا پڑا۔ انھوں نے حکومت ہند کو یاد دہانی کرائی کہ ’’رجسٹرڈ پناہ گزینوں کو ان ممالک میں واپس نہیں بھیجا جانا چاہئے جہاں ان کے ساتھ اچھے سلوک کی توقع نہ ہو‘‘۔ 

مودی سرکار کی یہ سوچ پناہ گزینوں کے لئے بھارت کی روایتی پالیسی کے عین برعکس ہے جس کے مطابق تبت، سری لنکا یہاں تک کہ افغان پناہ گزینوں کا بھی کھلے دل سے استقبال کیا جاتا تھا۔ حکومت کی یہ معاندانہ پالیسی ہندو انتہا پسندانہ سوچ کے بڑھتے ہوئے اعتماد کی عکاس ہے۔ اگرچہ بھارت میں روہنگیا مسلمانوں کی تعداد چالیس یا پچاس ہزارسے زیادہ نہیں اور یہ ایک ارب سے زیادہ آبادی والے ملک میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں اور یہ کہ یہ مجبور و مقہور لوگ کسی بھی صورت ملک کیلئے کسی خطرے کا باعث نہیں ہو سکتے مگر حکومت نے ان کو ایک سیکورٹی رسک کے طور پر پیش کیا ہوا ہے۔ اس وجہ سے روہنگیا کے خلاف ایک نفرت والا ماحول بن گیا ہے بلکہ اس طرح کے لیبل سے ان کو مذہبی دہشت گردی کے ساتھ جوڑ کر مسلح ہندو گروہوں کو ان کے خلاف تشدد پر اکسایا جا رہا ہے۔

گزشتہ تین سالوں کے دوران ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں پر قاتلانہ حملوں میں بے انتہا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ان حملوں میں مارے جانے والوں کے لواحقین کو حکومت کی طرف سے انصاف کی کوئی امید نہیں بلکہ الٹا انہیں ہی جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جاتا ہے۔ اس سال کے اوائل میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں رہنے والے مٹھی بھر روہنگیا مسلمانوں کو ہندو شدت پسندوں کی جانب سے کھلےعام قتل کی دھمکیاں ملنی شروع ہو گئیں کہ وہ علاقہ چھوڑ دیں۔ ان میں ہندو آبادی کے زیر اثر لگ بھگ سبھی سیاسی جماعتیں شامل تھیں یہاں تک کہ چیمبر آف کامرس نے کھلے عام روہنگیا لوگوں کو علاقے سے نہ نکلنے کی صورت میں قتل کی دھمکی دی۔ 

ان دھمکیوں پر حکومت نے کوئی تادیبی کارروائی کرنے کے بجائے خاموش تماشائی رہنے میں ہی عافیت سمجھی کیونکہ وہ کسی بھی صورت ہندو شدت پسندوں سے الجھنے کا رسک نہیں لے سکتی۔ روہنگیا خطے میں شاید سب سے زیادہ بدقسمت لوگ ہیں۔ میانمار حکومت، نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی معیت میں ان لوگوں کے خلاف بدترین قتل وغارتگری میں ملوث ہے۔ ان کی افواج اور بودھ دہشت گرد انتہائی وحشیانہ طریقے استعمال کر کے مردوں، خواتین اور بچوں کو قتل کرنے میں پیش پیش ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران روہنگیا آبادی والے علاقوں کو فسادات اور فوجی کشی کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا، بیسوں گائوں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا اور لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا گیا۔ صرف میانمار کے اندر سوا لاکھ سے زائد روہنگیا بے گھر کیمپوں میں رہ رہے ہیں جہاں انہیں مستقل بنیادوں پر نازی طرز کے وحشیانہ تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مزید برآں انہیں کسی بھی حال میں کیمپوں کو چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ اقوام متحدہ نے روہنگیا کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ممکنہ طور پر ’’انسانیت کے خلاف جرائم‘‘ کے طور پر بیان کیا ہے، مگر اسکے باوجود وہ ان کے مسلسل قتل عام کو روکنے میں ناکام ہے۔ اگر متاثرین مسلمان اور وہ بھی بہت غریب اور بے سہارا نہیں ہوتے تو شاید ہم نام نہاد بین الاقوامی برادری کے ضمیر کو برما حکومت کے خلاف کچھ ٹھوس اقدامات کرتے دیکھ سکتے۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کے اداروں نے روہنگیا کو دنیا کی سب سے زیادہ مظلوم اقلیتوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی تحقیقات کے مطابق میانمار کی افواج روہنگیا اقلیت کے خلاف قتل وغارت، تشدد، جبری گمشدگی، بلاوجہ گرفتاری، جبری مزدوری اور زنا بالجبر جیسے ماورائے قانون اقدامات میں ملوث ہیں۔ اس کے علاوہ کئی شدت پسند بودھ گروپ حکومت کے تعاون سے روہنگیا کے خلاف نفرت اور تشدد کو فروغ دینےمیں ملوث ہیں۔ 

انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے کئی رپورٹوں میں بودھ گروپوں، فوجی اور نیم فوجی دستوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ اپنے حملوں میں بلا امتیاز پوری کمیونٹی کو نشانہ بناتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے 2004 میں ایک رپورٹ کے مطابق روہنگیا لوگوں کی آزادی کو کافی محدود کر دیا گیا ہے اور ان میں سے زیادہ تر لوگوں کی شہریت کو موثر طریقے سے رد کر دیا گیا ہے۔ ان پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد ہیں جن میں کئی قسم کے جبری ٹیکس بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں شادی کرنے کے حوالے سے بھی کئی قدغنوں کا سامنا ہے۔ ایسے حالات میں عالمی برادری کی عدم توجہی کی وجہ سے ان کی حالت زار اور کسمپرسی مزید کربناک بن جاتی ہے۔

افسوس کہ ان کے پاس مقامی طور پر بھی کسی حمایتی ملک کا سہارا نہیں ہے جو ان کی طرف سے بات کر سکے یا کسی بھی قسم کی بین الاقوامی معاونت کے حصول کے لئے کوئی امداد کر سکے۔ سرکاری طور پر میانمار کی حکومت نے ان کو غیر قانونی تارکین وطن قرار دیا ہے اور اس وجہ سے انہیں شہری حقوق تو درکنار بنیادی انسانی حقوق بھی میسّر نہیں، مقامی طور پر انہیں بنگلہ دیشی کہا جاتا ہے مگر یہ وضاحت بنگلہ دیش کو قبول نہیں، نتیجتاً جب وہ پناہ کی تلاش میں بنگلہ دیش جانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں وہاں آنے سے روک دیا جاتا ہے۔ روہنگیا ظلم اور جبر کی چکّی میں پس رہے ہیں، مسلسل لٹ بھی رہے ہیں اور کٹ بھی رہے ہیں مگر کوئی ملک ان کے حق میں موثر آواز نہیں اٹھا رہا۔

تقدیر کے قاضی کا ہے فتویٰ یہ ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

مرتضیٰ شبلی
 

City govt seeks Pak Army help as rain wrecks havoc in Karachi

$
0
0
City government has sought Pakistan Army assistance to cope with the rain emergency after torrential rains flooded Karachi. Mechanized Engineering Corps of Pakistan Army has accepted the request made by Deputy Karachi Mayor Arshad Wohra. According to sources at Karachi Metropolitan Corporation machinery from Pakistan Army would be received soon for drainage of water accumulated on the roads. Heavy downpour lashed Karachi for the second straight day as major road and low-lying areas were inundated and the life in the metropolitan city almost thrown out of gear.

 According to details, North Nazimabad, F.B Area, Gulistan-e-Johar, Gulshan--e-Ibqal, Shah Faisal Colony, MA Jinnah Road, II Chandrigar Road, North Karachi, Shadman Town, Guslshan-e-Hadeed, Shah Latif Town, Malir and other areas received heavy rain. Meanwhile, many areas of Karachi plunged into darkness as dozens of K-Electric feeders tripped due to heavy rain. Heavy rains wreaked havoc in Karachi leaving five and several others critically injured as a result of electrocution in the early hours of Thursday .








میانمار میں مظالم ، سوچی سے نوبیل انعام واپس لینے کا مطالبہ

$
0
0

میانمار میں روہنگیامسلمانوں پر ظلم و ستم کے خلاف آنگ سان سوچی سے امن نوبیل انعام واپس لینے کے لیے آن لائن پٹیشن دائر کر دی گئی ہے، پٹیشن پر3 لاکھ 500 سو سے زائد دستخط ہو گئے ہیں ۔ پٹیشن کو نارویجن نوبیل کمیٹی تک پہنچانے کے لیے 3لاکھ دستخط درکار تھے۔ آن لائن پٹیشن میں میانمار کے روہنگیا مسلمانوں پر بہیمانہ مظالم ہونے پر میانمار کی رہنما سےامن نوبیل انعام واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

پٹیشن میں آنگ سان سوچی اور میانمارکے فوجی سربراہ کو عالمی عدالت انصاف لے جانے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ آنگ سان سوچی کو جمہوریت کے لیے جدوجہد پر2012 میں نوبیل امن انعام دیا گیا تھا ۔ واضح رہے کہ ملک میں روہنگیا مسلمانوں پرفوج اور بدھ ملیشیا کے حملوں میں ہزاروں روہنگیا ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ جان بچا کر بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مسلمانوں کی تعداد 90 ہزار تک پہنچ گئی ہے.
 

طلبہ کے کوائف حساس اداروں کو دینے کی خبروں پر اظہارِ تشویش

$
0
0

پاکستان کے ایوان بالا 'سینیٹ'کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو لکھے گئے ایک خط میں ان اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ جامعہ اپنے طلبہ کے کوائف انٹیلی جنس ایجنسیوں کو فراہم کرے گی۔ ایک روز قبل مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ گزشتہ ہفتے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رکن صوبائی اسمبلی خواجہ اظہار الحسن پر ہونے والے ناکام قاتلانہ حملے میں مبینہ طور پر جامعہ کراچی کا ایک طالب علم ملوث تھا اور اسی بنا پر یونیورسٹی نے طلبہ کی جانچ پڑتال کے لیے حساس اداروں کو ان کے کوائف دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اپنے خط میں رضا ربانی نے کہا ہے کہ وہ یہ خط اپنی ذاتی حیثیت سے ایک شہری کے طور پر تحریر کر رہے ہیں نہ کہ بطور چیئرمین سینیٹ۔ ان کے بقول یہ اطلاعات کہ یونیورسٹی کے طلبہ کا ریکارڈ حساس اداروں کو پیش کیا جائے گا اور طلبہ کو داخلے کے لیے متعلقہ پولیس تھانے سے کریکٹر سرٹیفیکٹ بھی حاصل کرنا ہو گا، انتہائی اضطراب کا باعث ہیں۔ رضا ربانی نے لکھا ہے کہ یہ دونوں ادارے "ریاست کی سخت تصویر ہیں، جن سے رابطے کے باعث طلبہ میں بے چینی بڑھے گی۔"

ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں میں انتہا پسندی اور تشدد روکنے کے لیے اقدام کرنا ہوں گے اور اس کے لیے نصاب کا از سرِ نو جائزہ لیا جائے اور سینیٹ کی قرارداد کے مطابق طلبہ یونینز کو بحال کیا جائے۔ چیئرمین سینیٹ نے امید ظاہر کی کہ وائس چانسلر ان کا نقطۂ نظر انتظامیہ تک پہنچائیں گے اور اس کی روشنی میں بہتر فیصلہ کریں گے۔ کراچی یونیورسٹی نے طلبہ کا ریکارڈ سکیورٹی اداروں کو دینے اور اس کی پولیس سے تصدیق کرانے کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔
 

روہنگیا مسلمان جائیں تو جائیں کہاں ؟

$
0
0

میانمار سے جان بچا کر انڈیا آنے والے روہنگیا مسلمانوں کے لیے 'اچھی'خبر ہے کہ ملک کے نائب وزیر داخلہ کرن ریجیجو کا کہنا ہے کہ حکومت انھیں سمندر میں پھینکنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ یہ سن کر ان غریب لوگوں کو بہت سکون ملے گا۔ جنہیں تیرنا نہ آتا ہو انھیں اگر سمندر میں پھینک دیا جائے، یا پھینکنے کی دھمکی دی جائے، تو آپ خود ہی سمجھ سکتے ہیں کہ ان پر کیا گزرے گی۔ ویسے بھی حکومت کے سامنے راستے کافی محدود رہے ہوں گے۔ انڈیا سے برما کے راستے میں کہیں سمندر نہیں پڑتا، اگر ایسے حالات میں بھی ان لوگوں کو سمندر میں پھینکا جاتا تو بہت سے لوگ حکومت کی نیت پر شک کرتے۔

یہ سوال بھی اٹھتے کہ جب شمال مشرقی ریاستوں سے برما کی سرحد ملی ہوئی ہے، اور زمین سے سیدھا راستہ موجود ہے، تو سمندر کے راستے جانے کی کیا ضرورت تھی۔ کرن ریجیجو نائب وزیر داخلہ ہیں اس لیے قانون کی باریکیوں کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بالکل واضح کر دیا کہ روہنگیا پناہ گزینوں کو گولی مارنے کا بھی کوئی ارادہ نہیں ہے۔ 'ایسا نہیں ہے کہ ہم انہیں سمندر میں پھینک رہے ہیں یا گولی مار رہے ہیں۔ انہیں واپس بھیجتے وقت قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے۔'

اس کے بعد بھی روہنگیا شکایت کریں تو بات ذرا سمجھ سے باہر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم جان بچا کر بھاگے تھے اور شاید انہیں لگا کہ بنگلہ دیش کے مقابلے میں وہ انڈیا میں زیادہ محفوظ رہیں گے۔ یہاں حکومت کا صرف اتنا کہنا ہے کہ آپ محفوظ رہیں گے، اس میں تو ہمیں کوئی شبہ نہیں، مسئلہ صرف یہ ہے کہ آپ کے آنے سے ہم محفوظ رہیں گے یا نہیں ؟ حکومتیں بغیر سوچے سمجھے کوئی قدم نہیں اٹھایا کرتیں۔ وزارت داخلہ کو لگتا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن آسانی سے دہشتگرد تنظیموں کے جال میں پھنس جاتے ہیں، اور ملک کے وسائل میں انہیں حصہ دینے سے وہ لوگ محرومی کا شکار ہوسکتے ہیں جن کا ان وسائل پر پہلا حق ہے۔

جہاں تک پناہ گزینوں کا سوال ہے، ماضی میں انڈیا کا ریکارڈ کافی اچھا رہا ہے۔ یہاں دلائی لاما اور ہزاروں تبتی آرام سے رہتے ہیں، سری لنکا میں خانہ جنگی کے دوران لاکھوں تمل یہاں آئے، ان کا استقبال بھی ہوا اور انہیں سرکاری امداد بھی ملی۔ برما میں فوجی حکومت کے دوران آنگ سان سو چی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے بھی بہت لوگ بھاگ کر یہاں آئے، افغان پناہ گزین بھی یہاں رہتے ہیں، یہاں تک کہ دہلی کا ایک علاقہ 'لٹل کابل‘ کہلاتا ہے۔ بنگلہ دیش سے چکما آئے تو انہیں بھی پناہ ملی اور جب بی جے پی کی حکومت آئی تو اس نے ان ہندو، سکھ، بودھ، جین اور پارسی پناہ گزینوں کے لیے ملک کی سرحدیں کھول دیں جنھیں اپنے ملکوں میں نشانہ بنایا جا رہا ہو۔ بس شاید جلد بازی میں مسلمان اس فہرست سے باہر رہ گئے۔

کرن ریجیجو کا کہنا ہے انسانی حقوق کی تنظیمیں بلاوجہ ان کی حکومت پر تنقید کر رہی ہیں، روہنگیا غیرقانونی تارکین وطن ہیں اس لیے انھیں واپس بھیجا جانا چاہیے۔ روہنگیاؤں کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے، ویزا پاسپورٹ کے بغیر آجکل کون اپنے گھر سے نکلتا ہے؟ اگر سیاح کاغذی کارروائی پوری کر سکتے ہیں تو پناہ گزینوں کو کیا مسئلہ ہے؟ مارے گئے تو مارے گئے، لیکن بچ کر نکل گئے تو کم سے کم زبردستی واپس بھیجنے کی نوبت تو نہیں آئے گی۔ بہرحال، انڈیا آنے والے روہنگیا مسلمانوں کے لیے یہ مشکل کی گھڑی ہے، وہ جائیں تو جائیں کہاں؟ میانمار انہیں اپنا شہری نہیں مانتا، انڈیا انہیں پناہ دینے کے لیے تیار نہیں، ان کے سامنے بھی راستے محددو ہی ہیں۔ جیسا کہ ایک روہنگیا خاتون پناہ گزین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا : واپس جانے سے اچھا ہے کہ دریا میں کود کر جان دے دوں گی۔ اگر ان لوگوں کو زمین کے راستے میانمار واپس بھیجا گیا، تو میں نے نقشے میں دیکھا ہے کہ راستے میں ایک دریا پڑتا ہے۔

سہیل حلیم
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
 

دنیا اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار ہمیں نہ ٹھہرائے

$
0
0

پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دنیا سے کہا ہے کہ پاکستان کی بجائے وہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے زیادہ اقدامات کرے۔ انھوں نے یومِ دفاع کے موقعے پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ 'عالمی طاقتیں اگر اس کام میں ہمارا ہاتھ مضبوط نہیں کر سکتیں تو ہمیں اپنی ناکامیاں کا ذمہ دار بھی نہ ٹھہرائیں۔' انھوں نے کہا کہ 'بےبہا قربانیوں، اور دو دہائیوں پر محیط جنگ کے باوجود آج ہمیں کہا جا رہا ہے کہ ہم نے دہشت گردی کے عفریت کا بلاتفریق مقابلہ نہیں کیا۔ اگر پاکستان نے اس جنگ میں کافی نہیں کیا تو پھر دنیا کے کسی ملک نے کچھ نہیں کیا کیوں کہ اتنے محدود وسائل کے ساتھ اتنی بڑی کامیابی صرف پاکستان ہی کا کمال ہے۔ اب میں کہتا ہوں، now the world must do more'

جنرل باجوہ نے کہا کہ 'امریکہ سے تعلقات کے بارے میں قوم کے جذبات واضح ہیں۔ ہم امداد نہیں عزت اور اعتماد چاہتے ہیں۔ ہماری قربانیوں کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ ہم امریکہ اور نیٹو کے ہر اس عمل کی حمایت کریں گے جس سے خطے میں بالعموم اور افغانستان میں بالخصوص امن کی راہ ہموار ہو، تاہم ہمارے سکیورٹی خدشات کو بھی ایڈریس کرنا ہو گا۔' جنرل باجوہ نے یہ باتیں اس ماحول میں کی ہیں جب امریکہ اور پاکستان کی تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ دو ہفتے قبل پاکستان نے قائم مقام امریکی نمائندہ خصوصی برائے پاکستان اور افغانستان ایلس ویلز کا دورۂ پاکستان ملتوی کر دیا تھا۔

گذشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نئی افغان پالیسی جاری کرتے ایک تقریر میں الزام لگایا تھا کہ پاکستان نے کچھ ایسے دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے جو افغانستان میں امریکی اور افواج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اس کے چند روز بعد افغانستان میں امریکی اور نیٹو فورسز کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے کہا تھا کہ امریکہ کو معلوم ہے کہ افغان طالبان کی قیادت پاکستان سے کام کر رہی ہے۔ جنرل باجوہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ 'سپر پاورز کی شروع کردہ جنگوں کی قیمت ہم نے دہشت گردی، انتہا پسندی اور اقتصادی نقصان کی صورت میں ادا کی ہے۔ 

ہم افغانستان کی جنگ پاکستان میں نہیں لڑ سکتے۔ ہم افغان دھڑوں کے درمیان جنگ کا حصہ نہیں بن سکتے۔ تاہم یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ اپنی سرحد کی حفاظت کریں۔ اس سلسلے میں ہم سرحد پر 26 سو کلومیٹر طویل باڑھ اور نو سو سے زیادہ پوسٹیں اور قلعے تعمیر کر رہے ہیں۔' ان کا کہنا تھا کہ 'ہم اپنی سرحد کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور دوسروں سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ جن دہشت گردوں نے مغربی سرحد کے پار پناہ لے رکھی ہے ان کے خلاف جلد اور موثر اقدام ہوں گے۔'
 

دنیا کی ایک ہزار قابل ذکر جامعات میں صرف چار پاکستانی یونیورسٹیاں شامل

$
0
0

پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے زوال کی بین الاقوامی سطح پرنشاندہی کر دی گئی ہے. اور امریکی ادارے ٹائمز ہائرایجوکیشن نے دنیا بھر کی جامعات کے حوالے سے اپنی حالیہ درجہ بندی میں 1 ہزار قابل ذکر جامعات میں سے 3 پاکستانی جامعات کو خارج کر دیا ہے، گزشتہ برس کی درجہ بندی میں 1 ہزار صف اول کی جامعات میں 7 پاکستانی جامعات شامل تھیں تاہم تازہ درجہ بندی میں پاکستان کی 188 سرکاری و نجی جامعات میں سے محض 4 پاکستانی جامعات کو 1 ہزار معروف جامعات میں شامل کیا گیا ہے جس میں سندھ کی کوئی یونیورسٹی شامل نہیں ہے۔

امریکی ادارے ٹائمزایجوکیشن کی حالیہ درجہ بندی میں غیرمتاثرکن کارکردگی پر جن 3 پاکستانی جامعات کے نام خارج کیے گئے ہیں ان میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان، یونیورسٹی آف لاہور اور جامعہ کراچی شامل ہیں اور جامعہ کراچی کے صف اول کی 1 ہزار جامعات سے خارج ہونے سے سندھ کی واحد یونیورسٹی اس درجہ بندی سے باہر ہو گئی ہے جبکہ جن 4 جامعات کو اس درجہ بندی میں شامل کیا گیا ہے ان میں قائد اعظم یونیورسٹی اپنی گزشتہ پوزیشن میں نمایاں بہتری کے ساتھ 500 بہترین جامعات میں شامل ہو گئی ہے جبکہ کامسیٹس یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی 601 سے 800 اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد 801 کی کیٹگری میں شامل ہوئی ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس جاری کی گئی ٹائمز ایجوکیشن درجہ بندی رپورٹ میں 601 سے 800 تک کی صف اول کی جامعات میں کامسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اورقائد اعظم یونیورسٹی شامل تھی جبکہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، جامعہ کراچی اور یونیورسٹی آف لاہور 801 سے شروع ہونے والی درجہ بندی میں موجود تھی ٹائمز ایجوکیشن کی درجہ بندی کے مطابق رواں سال دنیا کی 1 ہزار صف اول کی جامعات میں بھارت کی 30، سعودی عرب کی 5، ملائیشیا کی 8، چین کی 60، جاپان کی 71، ایران کی 14، ترکی کی 16 اور شمالی کوریا کی 27 جامعات شامل ہیں۔
 

شمالی کوریا کے پاس موجود جوہری ٹیکنالوجی پاکستان سے کہیں زیادہ بہتر ہے : ڈاکٹر عبداالقدیر خان

$
0
0

شمالی کوریا کو جوہری ٹیکنالوجی کی فراہمی میں کسی قسم کی مدد فراہم کرنےکے امکان کو مسترد کرتے ہوئے جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبداالقدیر خان نے اعتراف کیا ہے کہ شمالی کوریا کے پاس موجود جوہری ٹیکنالوجی پاکستان سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ گذشتہ روز برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی اردو‘ کو دیئے گئے ٹیلی فونک انٹرویو میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کہنا تھا کہ اپنے اعلیٰ تعلیم یافتہ سائنسدانوں کی وجہ سے شمالی کوریا جوہری شعبے میں خود کفیل ہے۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ان خیالات کا اظہار شمالی کوریا کی جانب سے کامیاب ہائیڈروجن بم کے تجربے کے ایک روز بعد کیا ہے۔ شمالی کوریا نے اپنا چھٹا جوہری تجربہ کیا تھا، جسے پیونگ یانگ کا اب تک کا سب سے طاقتور ہتھیار کا تجربہ بھی قرار دیا جا رہا ہے ۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی کہلائے جانے والے ڈاکٹر عبد القدیر خان کا کہنا تھا کہ ایک میزائل پروگرام کے تحت وہ دو بار شمالی کوریا کے دورے پر گئے جہاں انہیں علم ہوا کہ ان کے پاس پاکستان سے بہتر معیار کی ٹیکنالوجی موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’شمالی کوریا کے سائنسدان انتہائی باصلاحیت ہیں اور ان میں سے زیادہ تر نے روس میں تعلیم حاصل کی ہے‘۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے کہا کہ روس اور چین کبھی بھی شمالی کوریا کو تنہا نہیں چھوڑیں گے، ان دونوں ممالک نے 20 سال تک امریکا سے جاری رہنے والی جنگ میں ویت نام کا ساتھ بھی دیا تھا۔
خیال رہے کہ فروری 2004 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے شمالی کوریا، لیبیا اور ایران کو جوہری ٹیکنالوجی اور مہارت فراہم کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ جب ان سے شمالی کوریا کے جوہری پروگرام میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، شمالی کوریا کے پاس مجموعی طور پر ہم سے بہتر ٹیکنالوجی موجود ہے، ہمارے پاس وہی پرانی اور روایتی ٹیکنالوجی ہے‘۔

تاہم ان کا یہ کہنا تھا کہ میزائل پروگرام کے لیے پاکستان کے شمالی کوریا سے تعلقات سب کے سامنے ہیں، ’پاکستانی حکومت نے خود بھی اعلان کیا تھا کہ ہم شمالی کوریا سے رابطے میں ہیں‘۔ شمالی کوریا کے حالیہ تجربے پر ڈاکٹر عبدالقدیر نے کہا کہ پیونگ یانگ نے جس ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا ہے وہ کسی بھی شہر کو چند منٹ میں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’ہائیڈروجن بم ایٹم بم سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتے ہیں، مثال کے طور پر ایٹم بم کسی علاقے میں ڈیڑھ سے دو کلومیٹر کے ریڈیس میں تباہی پھیلائے گا لیکن ہائیڈروجن بم پورے شہر کو تباہ کر سکتا ہے‘۔
 

میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم

$
0
0

میانمار میں شروع ہونے والے تنازع سے اب تک ایک لاکھ 25 ہزار کے قریب افراد بنگلہ دیش میں داخل ہوئے ہیں جن میں سے اکثریت روہنگیا مسلمانوں کی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ میانمار کی ریاست رخائن میں شروع ہونے والے تشدد سے گزشتہ 11 روز میں ایک لاکھ 23 ہزار 600 افراد نے سرحد پار کی ہے۔
میانمار میں شروع ہونے والے تشدد سے پہلے ہی بنگلہ دیش کی جانب سے ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد 4 لاکھ کے قریب تھی جبکہ حالیہ تنازع کے بعد انسانی بحران جنم لینے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔










ناپاک امریکی عزائم : پرانی غلطیاں پھر نہ دہرائیں

$
0
0

گزشتہ 16برسوں سے امریکی ایجنڈے کے مطابق دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جنگ لڑتے چلے جانا پاکستان کیلئے تباہی اور خسارے کا سودا رہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے 22؍ اگست 2017 کے پاکستان دشمن پالیسی بیان کے بعد جو نیو گریٹ گیم کے تحت ناپاک امریکی عزائم کا آئینہ دار ہے، پاکستان نے جو ردّعمل ظاہر کیا ہے اس سے ریکارڈ تو درست ہو سکتا ہے، قوم کا مورال بھی کسی حد تک بلند ہو سکتا ہے مگر امریکہ کے مقاصد اور حکمت عملی میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ اس بات کے شواہد نظر آ رہے ہیں کہ دہشت گردی کی جنگ میں تعاون برقرار رکھنے کیلئے پاکستان کی سول و ملٹری لیڈرشپ پر مشتمل قومی سلامتی کمیٹی اور پارلیمنٹ نے جو مطالبات امریکہ سے کئے ہیں وہ بھی عملاً تسلیم نہیں کئے جائیں گے۔ امریکی سوچ یہ نظر آتی ہے کہ ماضی کی طرح بیرونی امداد اور بیرونی قرضوں کے حصول کیلئے پاکستان جلد ہی گھٹنے ٹیک دے گا۔ 25؍ نومبر 2009 کے امریکہ، بھارت مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ دونوں ممالک پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے تباہ کرنے کیلئے عملی تعاون کریں گے۔ پارلیمنٹ اور قومی سلامتی کمیٹی نے اس خطرے سے بچنے کیلئے امریکہ سے کوئی مطالبہ کیا ہی نہیں۔ 

پاکستانی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں 22؍اکتوبر 2008 اور ایبٹ آباد آپریشن کے بعد 14؍ مئی 2011 کو متعدد قراردادیں منظور کی گئی تھیں اور 20؍ ستمبر 2011 کو کل جماعتی کانفرنس نے بھی مشترکہ اعلامیہ جاری کیا تھا مگر ڈالر کے حصول اور اقتدار کو طول دینے کیلئے امریکہ سے ان مطالبات کو منوانے کی سنجیدہ کوشش کی ہی نہیں گئی۔ چند حقائق پیش ہیں:

اکتوبر 2008 میں پاکستان کے سیکرٹری دفاع نے کہا کہ اگر امریکہ اقتصادی پابندیاں لگا دے تو پاکستان گھٹنے ٹیک دے گا۔

پاک افغان سرحد پر سلالہ میں وردی میں ملبوس ہماری فوج کے جوانوں کو نیٹو افواج نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔ جس کو صرف سازش قرار دیا گیا تھا۔ یہ ایک قومی سانحہ ہے کہ بعد میں کہا گیا کہ ہمیں نیٹو کو سامان کی ترسیل کی فراہمی بحال کرنے کی جلدی ہے تا کہ پاکستان کو پیسے ملنا شروع ہوں اور ایسا ہی کیا گیا۔

سوات اور وزیرستان میں آپریشنز امریکی دبائو پر کئے گئے تھے۔ ان تمام آپریشنز سے پہلے پاک افغان سرحد پر باڑ نہ لگانا بڑی غلطی تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کی یہ سوچ درست نہیں ہے کہ دہشت گردی سے جنگ میں امریکہ خطّے میں اپنے مقاصد گزشتہ برسوں میں حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ پاکستان کو غیر مستحکم کرنا امریکی حکمت عملی کا حصّہ ہے چنانچہ قومی سلامتی کمیٹی کے اس بیان سے اتفاق کرنا ممکن نہیں کہ امریکہ اب اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے۔ اب سے 15-16 برس قبل ہم نے ان ہی کالموں میں کہا تھا:

امریکہ طویل مدّت تک افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے چنانچہ حکمت عملی یہ ہے کہ امریکی افواج افغانستان میں مستقل طور پر رکھی جائیں (جنگ 30؍ اکتوبر 2001 اور 6؍ فروری 2002) آمر پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ یہ جنگ جلد ختم ہو جائے گی۔

امریکہ خطّے میں بھارت کی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے (جنگ 26؍فروری 2002)

اس جنگ کے نتیجے میں پاکستانی معیشت کو پہنچنے والے مجموعی نقصانات کا مجموعی حجم پاکستان کو مغرب سے ملنے والی امداد سے کہیں زیادہ ہو گا (جنگ 2؍ اکتوبر 2001)

امریکہ، پاکستان کے خلاف بہ وقت ضرورت استعمال کرنے کیلئے چارج شیٹ تیار کر رہا ہے (جنگ 25؍فروری 2003)

اب سے 15-16 برس قبل تحریر کئے گئے ہمارے یہ خدشات حرف بہ حرف درست ثابت ہوتے رہے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہئے کہ امریکہ طالبان کو کمزور ضرور کرنا چاہتا ہے مگر ان کی طاقت پوری طرح ختم نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس صورت میں افغانستان کے سابق اور موجودہ حکمراں ہی امریکہ کو شکریہ کے ساتھ ملک سے رخصت کرنے کی بات کریں گے۔ ہم ان ہی کالموں میں برس ہا برس سے کہتے رہے ہیں کہ امریکہ اس جنگ کو جیتنے کے بجائے اس جنگ کو طول دینا چاہتا ہے۔ ہلیری کلنٹن نے امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے تسلیم کیا تھا کہ نائن الیون کے چند ماہ بعد امریکی افواج نے تورا بورا کی پہاڑیوں میں اسامہ بن لادن کو گھیر لیا تھا لیکن انہوں نے اسامہ کو بچ نکلنے اور پاکستان میں داخل ہونے کا موقع دیا اور یہ کہ القاعدہ کے دہشت گردوں کے افغانستان سے بچ نکلنے اور پاکستان میں داخل ہونے کا موقع دینے کی ذمہ داری امریکہ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ممتاز امریکی دانشور نوم چومسکی کہتا ہے کہ امریکہ ڈرون حملے کر کے پاکستان میں انتہاپسندی کو فروغ دے رہا ہے اور یہ کہ امریکہ نے پاکستان کی اشرافیہ کو خرید لیا ہے۔ 

امریکی جنرل نکولس کا یہ حالیہ بیان بھی خطرے کی گھنٹی ہے کہ پشاور اور کوئٹہ میں طالبان شوریٰ موجود ہے۔ اس پس منظر میں قومی سلامتی کمیٹی اور پارلیمنٹ کو بھی اس بات پر غور کرنا ہو گا کہ اگر امریکہ اپنے مطالبات منوانے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں اور برآمدات کے ضمن میں یورپی یونین کو منفی پیغامات بھیجے اور صرف چار ممالک (سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ اور برطانیہ) سے پاکستان آنے والی تقریباً 14؍ارب ڈالر سالانہ کی ترسیلات میں کمی کرانے کیلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے تو تمام تر مادّی وسائل ہونے کے باوجود موجودہ معاشی پالیسیوں کے تناظر میں کیا پاکستان ان جھٹکوں کا مقابلہ کر سکے گا۔ واضح رہے کہ گزشتہ چار برسوں میں پاکستان نے 97؍ ارب ڈالر کے تاریخی حجم کے تجارتی خسارے کا سامنا کیا ہے۔ ان ہی چار برسوں میں 74؍ارب ڈالر کی ترسیلات سے اس خسارے کو کم کیا گیا ہے۔ ان ترسیلات کا تقریباً 75 فی صد ان ہی چار ممالک سے آیا ہے۔ اس زبردست خطرے سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو ادائیگیوں کا توازن بہتر بنانے اور اقتصادی دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے فوری طور پر قانون سازی کرنے کے ساتھ کچھ انقلابی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ ایران سے تنائو کی کیفیت ختم کرنا ہو گی اور چین سے مشاورت کے ساتھ مالی معاونت طلب کرنا ہو گی۔

اقتصادی دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے وفاق اور صوبوں کو ایک مقررہ رقم سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر مؤثر طور سے ٹیکس عائد اور وصول کرنا ہو گا، معیشت کو دستاویزی بنانا ہو گا، جائیدادوں کے ڈی سی ریٹ کو مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لانے کیلئے صوبوں کو اقدامات اٹھانا ہوں گے، انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4)کو منسوخ کرنا ہو گا، ملکی پاناماز پر ہاتھ ڈالنا ہو گا، کالے دھن کو سفید ہونے سے روکنا ہو گا، اسمگلنگ پر قابو پانا ہو گا، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں تک رقوم کی فراہمی روکنا ہو گی اور بینکاری کے نظام کی اصلاح کرنا ہو گی۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر نے تجویز پیش کی ہے کہ لوٹی ہوئی دولت کو بیرونی ملکوں سے واپس لانے کیلئے ٹیکس ایمنسٹی دی جائے۔ یہ بات حیران کن ہے کیونکہ اس قسم کی تجاویز دینا اسٹیٹ بینک کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے۔ یہ تجویز مسترد کی جانی چاہئے۔

اگر مندرجہ بالا تجاویز کو نیشنل ایکشن پلان کا حصّہ نہ بنایا گیا تو امریکہ کی جانب سے قومی سلامتی کمیٹی اور پارلیمنٹ کے مطالبات عملاً رد کئے جانے کے باوجود پاکستان دہشت گردی سے جنگ میں بدستور امریکہ کی معاونت کرتا رہے گا یعنی سب کچھ پہلے جیسا ہی ہوتا رہے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکی ایجنڈے کے مطابق دہشت گردی کی جنگ لڑنے اور پاکستان کی سالمیت و مفادات ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جائے۔

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی
 

بھوک سے نڈھال روہنگیا مسلمان

$
0
0

اقوامِ متحدہ نے میانمار کی ریاست رخائن میں جاری مسلم کش فسادات کے نتیجے میں ہجرت کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 7 کروڑ امریکی ڈالر سے زائد امداد کی اپیل کردی۔ غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق میانمار کی ریاست رخائن میں مقیم روہنگیا مسلمان علاقے میں جاری ظلم و بربریت کے بعد اپنا علاقہ چھوڑ کر پڑوسی ملک بنگلہ دیش جانے پر مجبور ہیں۔
بنگلہ دیش میں موجود اقوامِ متحدہ کے نگراں اداروں کے مطابق اب تک میانمار سے 2 لاکھ 94 ہزار سے زائد افراد بے سرو سامانی کی حالت میں سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش آ چکے ہیں۔ خواتین اور بچے گاڑیوں کے شیشے کھٹکھٹاتے رہے اور قریب سے گزرنے والے صحافیوں کے کپڑے کوچھوتے رہے اور اپنے پیٹ پر ہاتھ مارتے ہوئے کھانے کی بھیک مانگتے رہے۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پہلے ہی 4 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان موجود ہیں، تاہم مزید لوگوں کے آجانے سے پہلے سے قائم کیمپوں میں لوگوں کو پناہ دینے کی گنجائش ختم ہوگئی ہے جس کے باعث انسانی المیہ نے جنم لے لیا۔ اقوامِ متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق پناہ گزینوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، لہٰذا بنگلہ دیش حکومت سے درخواست کی گئی ہے کہ ان افراد کی رہائش کی خاطر کیمپوں کی تعمیر کے لیے انسانی حقوق کے اداروں کو مزید زمین مہیا کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر پناہ گزینوں کے لیے عارضی پناہ گاہوں کی اشد ضرورت ہے۔

انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے اہلکار نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ پناہ گزینوں کے کیمپوں میں اشیائے خرد و نوش کی شدید قلت ہے۔ فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک 400 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت روہنگیا مسلمانوں کی ہے۔
 

تباہ کن سمندری طوفان ’ارما‘ فلوریڈا کے جزائر پر

$
0
0

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سمندری طوفان ارما امریکی ریاست فلوریڈا کے ساحلی علاقوں پر پہنچ گیا ہے۔ گذشتہ چند گھنٹوں سے ارما کے جھونکے فلوریڈا کے جزائر سے ٹکرانا شروع ہو گئے تھے اور اب چوتھے درجے کے اس طوفان کا اگلا حصہ فلوریڈا کے زمینی علاقوں پر پہنچ گیا ہے۔ امریکی ریاست کے ساحل پر پانی کی سطح پہلے سے ہی بلند ہونا شروع ہو گئی ہے اور وہاں شدید طوفان کا خدشہ ہے۔ اس سے قبل ریاست سے 63 لاکھ لوگوں کو ساحلی علاقے کو چھوڑ دینے کے لیے کہا جا چکا ہے لیکن فلوریڈا کے گورنر رک سکاٹ کا کہنا ہے کہ اب اتنی تاخیر ہو چکی ہے کہ کسی کے لیے وہاں رکنا خطرے سے خالی نہیں۔ اس سے قبل یہ طوفان کیریبین جزائر سے ٹکرایا تھا جہاں اس کی زد میں آ کر 24 افراد ہلاک ہو گئے۔

اس کی شدت چار بتائی گئی تھی لیکن کیوبا سے ٹکرانے کے بعد اس کی شدت میں کمی آئی ہے اور اسے تین کیٹیگری میں رکھا گیا ہے۔ لیکن نیشنل ہریکین سنٹر (این ایچ ایس) کا کہنا ہے کہ فلوریڈا تک آتے آتے اس کی طغیانی میں اضافہ ہو جائے گا اور وہ پہلے جیسا تند و تیز ہو جائے گا۔ این ایچ ایس نے متنبہ کیا ہے اس طوفان سے 'جان کا خطرہ ہے'اور یہ فلوریڈا کے ساحل سے دور جزائر کے سلسلے کو اپنی زد میں لے چکا ہے۔ ہزاروں افراد ہنگامی کیمپوں میں پناہ لے رہے ہیں اور ہزاروں گھروں میں بجلی نہیں ہے۔ ایمرجنسی ایجنسی فیما کے سربراہ بروک لونگ نے سی این این کو بتایا ہے کہ فلوریڈا کے 'کیز جزائر میں کوئی محفوظ مقام نہیں ہے۔ اور آپ اس جگہ کو خالی نہ کر کے اپنی جان کو خود خطرے میں ڈال رہے ہیں۔' فلوریڈا کے گورنر نے کہا کہ 'اگر آپ خالی کرائی جانے والی جگہ پر ہیں جہاں سے آپ پناہ گاہ تک پہنچ سکتے ہیں تو آپ جلد از جلد وہاں پہنچ جائیں کیونکہ اب بہت وقت نہیں بچا ہے۔' انھوں نے کہا: 'ہواؤں کے جھونکے آنے شروع ہو گئے ہیں اس لیے اب بہت وقت نہیں ہے کہ آپ وہا‎ں سے ڈرائیو کرکے دور پہنچ جائیں۔'

اطلاعات کے مطابق مغربی خلیجی ساحل کو سب سے زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ طوفان کے راستے میں ٹیمپا اور سینٹ پیٹرز برگ جیسے شہر آ رہے ہیں۔
ٹیمپا خلیج میں 30 لاکھ آبادی ہے اور اسے سنہ 1921 کے بعد سے کسی بھی بڑے طوفان کا سامنا نہیں رہا ہے۔ اس سے قبل کریبیئن جزائر میں تباہی پھیلانے کے بعد طوفان ارما تند و تیز ہواؤں اور بارش کی صورت میں کیوبا سے ٹکرانے کے بعد امریکی ریاست کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ درجہ پانچ کا یہ طوفان سب سے پہلے کیوبا کے شمال مشرقی ساحلی علاقے کیمیگوے میں ٹکرایا۔ ارما کی سمت کی تبدیلی کی وجہ سے بہامس بڑی حد تک محفوظ رہا ہے۔

جمعے کو رات گئے ارما میں گذشتہ چند گھنٹوں میں مزید تیزی آئی اور وہ کیمیگوے آرکیپیلیگو سے ٹکرایا جو کہ وہاں کے ساحلی قصبوں اور دیہات کے لیے خطرہ تھا۔ کئی دہائیوں بعد یہ پہلا موقع ہے جب درجہ پانچ کے کسی طوفان نے کیوبا کو نشانہ بنایا ہو۔ امریکہ میں طوفان سے متعلق اطلاع دینے والے قومی مرکز کے مطابق گرینیچ کے معیاری وقت کے مطابق تین بجے ارما کے نتیجے میں 257 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چل رہی تھیں۔ یہ طوفان اب جن صوبوں کو نشانہ بنا رہا ہے ان میں کیمیگوے، سیگو ڈے آویلا، سنتی پیریٹوس، ویلا کلارا اور میٹنساس شامل ہیں۔

ہوانا سے بی بی سی کے نامہ نگار وِل گرانٹ نے بتایا کہ بہت سے علاقوں میں بجلی معطل ہو گئی ہے اور دوردراز کے علاقوں اور قصبوں میں مواصلاتی رابطوں میں بھی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ وہاں کے مکین پر امید ہیں کہ یہ طوفان اس جزیرے کو چھو کر فلوریڈا سے میامی کی جانب بڑھ جائے گا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تقریباً 50 ہزار سیاح کیوبا چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق ارما اتوار کو فلوریڈا سے ٹکرائے گا۔ اس سے قبل امریکہ میں ہنگامی امداد کے وفاقی ادارے کے سربراہ نے خبردار کیا تھا کہ سمندری طوفان 'ارما'امریکی ریاست فلوریڈا یا اس کی ہمسایہ ریاستوں کے لیے 'تباہ کن'ثابت ہو سکتا ہے۔

کیا مزید طوفان آرہے ہیں؟
شمال میں طوفان ہوزے ارما کے پیچھے اٹلانٹک میں بڑھ رہا ہے اور یہ کیٹیگری فور کا طوفان 240 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آ رہا ہے۔ یہ اسی راستے پر ہے جس پر ارما تھا اور وہاں پہلے ہی امدادی کارروائیاں متاثر ہوئی ہیں۔ بربودہ میں ارما کی وجہ سے 95 فیصد عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ اطلاعات کے مطابق آنے والے گھنٹوں میں طوفان کی شدت میں تیزی سے کمی متوقع ہے۔ تاہم نامہ نگار کا کہنا ہے کہ یہ طوفان بہت سے گنجان آباد علاقوں میں سیلابی صورت حال پیدا کر سکتا ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو



 

پاکستان میں شدت پسندی اور دہشتگردی کو کیسے روکا جائے ؟

$
0
0

کراچی میں پولیس، رینجرز اور حساس اداروں کی حالیہ کارر وائیوں کے نتیجے میں انصار الشریعہ نامی ایک دہشتگرد تنظیم کا سراغ لگایا جس میں شامل اکثر نوجوان اعلیٰ تعلیمی اداروں سے منسلک رہے۔ اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے مبینہ دہشتگردوں نے ایک سابق فوجی کرنل اور پولیس والوں کو شہید کرنے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ اس انکشاف پر کہ اس تنظیم سے جڑے شدت پسندوں کی اکثریت پڑھے لکھے نوجوانوں پر مشتمل ہے جن میں سے ایک تو کراچی یونیورسٹی کا طالب علم بھی رہا، میڈیا میں بحث چھڑ گئی کہ اس کی وجہ کیا ہے اور کس طرح ممکن بنایا جائے کہ نوجوانوں میں شدت پسندی کے رجحانات پیدا نہ ہوں۔ اس بات پرسب فکر مند دکھائی دیے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کو کیسے شدت پسندی سے پاک کیا جائے۔ 

چند سال قبل صفورا کراچی کی ہولناک دہشتگردی کے واقعہ میں شامل کم از کم ایک ملزم بھی کراچی کے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارہ سے منسلک رہا۔ اس معاملہ پر سینٹ چئیرمین جناب رضا ربانی نے بھی بات کی اور حل تجویز کیا کہ کالج و یونیورسٹیوں میں طلبہ تنظیموں پر پابندی ختم کر دی جائے۔ ایک ماہر تعلیم نے اس بیماری کا علاج یہ بتایا کہ اسکولوں کالجوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو تبدیل کیا جائے ۔ امریکہ و یورپ کی طرح اُن ماہر تعلیم کا شاید یہ خیال تھا کہ پاکستان کا نصاب تعلیم شدت پسندی کو تقویت دیتا ہے۔ ممکن ہے کہ نصاب میں کہیں نہ کہیں کوئی ایسی بات ہو لیکن اگر کوئی اس بہانہ اسلامی نصاب اور اسلامی نظریہ پاکستان کو نشانہ بنانا چاہتا ہے جس کے لیے امریکا گزشتہ دس پندرہ سال سے کافی کوشش بھی کر رہا ہے تو ایسا کرنا مرض کا کوئی علاج نہیں بلکہ پاکستان کی اسلامی اساس کو نشانہ بنانا ہے۔ 

کچھ لوگ دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف ایک نیا بیانیہ دینے کی بات بھی کرتے ہیں ۔ اب وہ بیانیہ کیا ہو اس پر مختلف افراد کی رائے مختلف ہو سکتی ہے۔ اس بات سے قطہ نظر کہ کون کیا سازش کر رہا ہے یا دنیا بھر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے کس قسم کا ردعمل پیدا ہو رہا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کے نام کو غلط استعمال کر کے نوجوانوں کو شدت پسندی اور دہشتگردی کی طرف دھکیلا گیا۔ چھوٹے بچوں کو جنت کی لالچ دے کر خودکش بمبار بنا کر مسلمانوں سمیت ہزاروں معصوموں کی جان لی گئی۔ کبھی کسی بازار میں دھماکہ کیا گیا تو کبھی ہسپتال، اسکول، ہوسٹل کو اپنی نفرت کا نشانہ بنا کر ناحق خون بہایہ گیا۔ یہاں تک کہ مسجدوں، امام بارگاہوں، چرچ وغیرہ کو بھی دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا۔ 

دہشتگردی کرنے والوں نے اپنی کارروائی کرتے کبھی یہ نہ سوچا کہ مرنے والے معصوم بچے ہیں، بے قصور مرد عورتیں، کوئی بوڑھا ہے یا جوان۔ پاکستان نے 9/11 کے بعد گزشتہ ایک ڈیڑھ دہائیوں کے دوران جو خون و آگ کا کھیل دیکھا وہ کسی بھی سخت سے سخت انسان کو جھنجوڑنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود ایسا کیوں ہے کہ ہمارے کالجوں یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے جوان اب بھی اسی شدت پسندی اور دہشتگردی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ کیا اسٹوڈنٹ یونین اس کا علاج ہے؟ کیا کسی نئے بیانیہ کی ہمیں ضرورت ہے اور آیا کسی ایک بیانیہ پر ہم متفق بھی ہو سکتے ہیں؟ ان سوالوں کا جواب تو میرے پاس نہیں لیکن میری رائے میں جس اہم ترین نکتہ کی طرف ہماری ریاست، حکومت، میڈیا، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں کی کوئی توجہ نہیں وہ یہ ہے کہ بچوں، نوجوانوں، والدین، معاشرہ کو اصل اسلام (یعنی قرآن و سنت) سے روشناس کریں جو امن کی تعلیم دیتا ہے، جو کہتا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی جان بچانے والے نے گویا پوری انسانیت کو بچا لیا، جو فرقہ واریت سے منع کرتا ہے، جو اصل جہاد کی صورت میں بھی غیر مسلم عورت، بچوں، بوڑھوں کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ تعلیم دیتا ہے جو تم پر تلوار نہ اٹھائے اُس پر تم تلوار نہیں اٹھا سکتے۔ 

انسان کیا اسلام تو جانوروں کے ساتھ ظلم و زیادتی کو گناہ تصور کرتا ہے۔ ہمارا مذہب تو جنگ کے دوران درختوں اور فصلوں کو بھی نقصان پہنچانے کے بھی خلاف ہے۔ ہم نے اپنے بچوں اور معاشرہ کو کب پڑھایا کہ ہمارا مذہب کسی ناحق کا خون تو کیا وضو کرتے وقت پانی کے ضیائع سے بھی روکتا ہے اور اسے گناہ سمجھتا ہے۔ کہتے ہیں کہ والدین بچوں کو سمجھائیں۔ بھئی والدین جو کل طالب علم تھے اُنہیں ریاست اور حکومت نے اسلام کب پڑھایا کہ وہ آج اپنے بچوں کو بتائیں۔ پاکستان میں اصل خرابی یہ رہی کہ ریاست نے اسلامی آئین کے ہوتے ہوئے بھی مذہب کے معاملہ میں اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھا اور یہ لوگوں پر چھوڑ دیا جو مرضی آئے کریں، کسی نے نیا فرقہ بنانا ہے تو بنا لے، مسجدوں کو مختلف فرقوں اور مسلکوں کے لیے مختص کرنا ہے تو وہ بھی کر لیں، جو کسی نے اسلام کے نام پر پڑھانا ہے وہ بھی پڑھا لے، کسی نے کسی دوسرے کو کافر قرار دینا ہے تو اُس کی بھی کھلی چھٹی۔ 

ریاست نے جب اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کی تو یہاں فرقہ واریت اپنے عروج تک پہنچ گئی، ایک دوسرے کو اختلاف کی بنیاد پر قتل و غارت کا بازار گرم ہوا، رنگ نسل اور نصب کی بنیاد پر نفرتوں کے بھیج بوئے گئے، جہاد جیسے اسلامی فریضہ کی غلط تشریحات کر کے شدت پسندی اور دہشتگردی کو بڑھایا گیا۔ میری حکومت، پارلیمنٹ، میڈیا اور سیاست دانوں سے گزارش ہے کہ اگر دہشتگردی اور شدت پسندی کو روکنا ہے تو آئین پاکستان کی روح کے مطابق پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کو قرآن و سنت کے مطابق اسلامی تعلیمات سے روشناس کریں اور اس کے لیے نہ صرف تعلیمی اداروں کو فوکس کریں بلکہ مساجد اورمیڈیا کو بھی استعمال کریں۔

انصار عباسی
 

کیا بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کی آگ ’مجرمانہ سازش‘ تھی؟

$
0
0

بلدیہ ٹاؤن کے واقعے کو آج پانچ سال ہو گئے ہیں۔ اس عرصے میں تین دفعہ تحقیقات ہو چکی ہیں اور اب تک واقعے میں جھلس کر مرنے والوں کے خاندان ٹرائل شروع ہونے کے منتظر ہیں۔ 11 ستمبر 2012 کو بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری علی انٹرپرائیز میں لگنے والی آگ کے کیس کا نہ تو ٹرائل شروع ہوا اور نہ ہی اب تک کوئی بیان ریکارڈ کرایا گیا ہے۔ 2015 میں سندھ ہائی کورٹ نے حکم دیتے ہوئے متعلقہ اداروں کو حکم جاری کیا کہ کیس کو ایک سال کے اندر مکمل کر دیا جائے۔ اس حکم کو بھی آئے آج دو سال مکمل ہو چکے ہیں اور اب تک کیس جوں کا توں لٹکا ہوا ہے۔ واقعے سے جُڑے ایڈووکیٹ اور لیبر یونین کے رہنماؤں کا ماننا ہے کہ بلدیہ کیس ’سیاسی نقطۂ نظر‘ کا شکار ہو گیا ہے جس سے کیس کو بہت نقصان پہنچا ہے۔‘

بی بی سی اُردو کو انٹرویو دیتے ہوئے ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ کیس ایک خاص سمت میں چل رہا تھا، واقعے کے فوراً بعد آنے والی فیڈرل انویسٹگیشن ایجنسی (ایف آیی اے) کی تفصیلی رپورٹ کے مطابق آگ حادثاتی تھی جو کہ فیکٹری کی پہلی منزل پر ہونے والے شارٹ سرکٹ سے لگی تھی لیکن پھر 2015 میں کہا گیا کہ آگ حادثاتی طور پر نہیں بلکہ جان بوجھ کر بھتّہ نہ دینے کی صورت میں لگائی گئی تھی۔ ’اس سے کیس کا رُخ دوسری طرف موڑ دیا گیاـ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج تک ایک بیان بھی ریکارڈ نھیں کیا گیا ہے جو ایک انوکھی بات ہے۔ ساتھ ہی کیس کو روکنے کی کئی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔‘
قومی ٹریڈ یونین کے جنرل سیکریٹری ناصر منصور کہتے ہیں کہ ’ریاستی اداروں نے ایک خاص نقطۂ نظرشامل کیا جس کی وجہ سے کیس سیاسی ہوا اور آج بھی ملوث افراد دندناتے پھر رہے ہیں۔‘ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ ’جن لوگوں کے 2015 میں بننے والی جے آئی ٹی میں نام تھے وہ جب ایک گروہ سے نکل کر دوسرے گروہ میں چلے گئے تو اُن کے خلاف اب کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔‘ جن لوگوں کے 2015 میں بننے والی جے آئی ٹی میں نام تھے وہ جب ایک گروہ سے نکل کر دوسرے گروہ میں چلے گئے تو اُن کے خلاف اب کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔ انھوں نے کہا کہ بنیادی طور پرفیکٹری مالکان اور کپڑا بنانے والی جرمن کمپنی ذمہ دار ہے لیکن لوگوں کو بتایا گیا کہ دہشتگردی کا واقعہ ہے تا کہ فیکٹریوں کی ابتر حالت سے دہیان ہٹایا جائے۔

’اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مالکان کا نام ایف آیی آر میں ہوتے ہوئے بھی وہ فروری 2013 میں ضمانت پر باہر آئے اور 2014 میں ملک سے باہر چلے گئے۔ 2015 میں بننے والی تحقیقاتی کمیشن کو بیان لینے کے لیے مالکان کے پاس دبئی جانا پڑا بجائے اس کے کہ اُن کو ملک واپس لایا جاتاـ‘ 2015 کی تحقیقاتی کمیشن کا مقصد بلدیہ فیکٹری کے واقعے کی دوبارہ سے تحقیق کرنے کا تھاـ اس کی ضرورت تب پیش آئی جب ایک اور کیس میں متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن کا بیان آیا کہ اُس نے یہ سُنا ہے کہ متحدہ کی تنظیمی کمیٹی نے بھتّہ نہ ملنے کی صورت میں فیکٹری میں "کیمیکل پھینکا"جس سے آگ لگ گئی۔

یہی بات فیکٹری مالکان، ارشد بھیلہ اور شاہد بھیلہ، نے جے آیی ٹی کو دیے اپنے بیان میں کہی کہ فروری 2013 میں ضمانت پر رہا ہونے کے بعد اُن کو متحدہ کی تنظیمی کمیٹی کے چیئرمین، حمّاد صدیقی، کی طرف سے دھمکیاں مل رہی تھیں جس میں وہ 25 کروڑ روپے بھتّے کی ڈیمانڈ کر رہے تھےـ 2016 میں جے آئی ٹی کو بنیاد بناتے ہوۓ نیا چالان جمع کرایا گیا جس کے بعد کیس ضلعی عدالت سے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں منتقل ہواـ اس میں یہ بات سامنے آئی کہ فیکٹری مالکان کو حراساں کیا جا رہا تھا اور یہ کہ آگ جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی بلدیہ واقعے میں مرنے والوں کے لواحقین، جو پہلے کیس میں ضلعی عدالت کی مدد کر رہے تھے، اُن کو کہا گیا کہ اب آپ کی مدد کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔

فیصل صدیقی کہتے ہیں کہ ’یہ ایک عجیب بات ہے کیونکہ متاثرین ہمیشہ ایسے کیسز میں مدد کرتے ہیں۔‘ فیکٹری میں آگ لگنے کے بعد زخمیوں کےابتدائی بیان میں یہ بات سامنے آئی کہ فیکٹری میں باہر نکلنے کے راستے بند تھے، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ فیکٹری کی پہلی منزل پر موجود مچان کے گرنے سے زیادہ اموات پیش آئیں نہ کہ آگ لگنے کی وجہ سے۔ تفتیشی کمیشن کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ فیکٹری کی پہلی منزل پر آگ لگنے کہ کوئی نشان نہیں ہیں اور وہاں موجود مشین میں دھاگہ تک صحیح حالت میں ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایف آئی آر درج ہوئی جس میں فیکٹری کے مالکان، مینیجر، اور سیکریٹری لیبر کے نام آئے۔ ایف آیی آر کا متن یہ تھا کہ آگ حادثاتی طور پر لگی ہے لیکن لوگ فیکٹری میں حفاظتی سہولیات نہ ہونے کے باعث مارے گئے۔

بلڈنگ کا ڈھانچہ فیکٹری کے کام کے لیے مناسب نہیں تھا کیونکہ اس میں حادثے کی صورت میں باہر بھاگنے کے راستے نہیں تھےـ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آئی کہ ریسکیو ذرائع اور آگ بجھانے کے ٹینڈرز آگ لگنے کے 45 منٹ بعد پہنچے جس کی وجہ سے زخمی بروقت فیکٹری سے باہر نہ نکلنے کی صورت میں دم گھٹنے سے مر گئے۔ اس کے برعکس، مارچ 2016 میں نئی جے آئی ٹی کے متن کے مطابق آگ اگر حادثاتی ہوتی تو ایک ساتھ پوری عمارت میں پھیلتی۔ آگ ٹکڑوں میں لگی جس میں تہہ خانہ اور گراؤنڈ فلور شامل ہیں اور جہاں کہا گیا کہ شارٹ سرکٹ ہوا ہے، جو کہ کے۔ الیکٹرک کے ابتدائی بیان کے مطابق پہلی منزل پر ہوا تھا، اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔

کمیشن نے مختلف عینی شاہدین کے بیانات لیے جو اشارہ کر رہے ہیں کہ فیکٹری میں آگ ایک ’مجرمانہ سازش‘ تھی۔ کمیشن کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پہلی منزل پر آگ لگنے کہ کوئی نشان نہیں ہیں، وہاں موجود مشین میں دہاگہ تک صحیح حالت میں ہے۔ تحقیقاتی کمیشن سے جُڑے ایک افسر نے کہا کہ کچھ لوگ پنجاب فورینسک سائنس ایجنسی کی رپورٹ جھوٹی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس رپورٹ میں صاف لکھا ہے کہ آگ لگائی گئی ہےـ اس کے علاوہ کمیشن نے مختلف عینی شاہدین کے بیانات لیے جو اشارہ کر رہے ہیں کہ فیکٹری میں آگ ایک 'مجرمانہ سازش'تھی۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ کیس کو جان بوجھ کر ’نقصان پہنچایا جا رہا ہےـ‘ فیصل صدیقی نے آخر میں کہا کہ اس کیس کے دو ہی نتیجے نکل سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ دس سال بعد کسی ملزم کو سزا ہو جائے، دوسری صورت میں یہ ہو سکتا ہے کہ کرمنل ٹرائل سے کوئی نتیجہ نہ نکلے۔

سحر بلوچ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
 

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live