ظاہراً لگ رہا ہے اپوزیشن متحد ہو رہی ہے۔ حکومت کے خلاف تحریک شروع ہونے والی ہے لیکن دیدۂ بینا رکھنے والوں کو کچھ اور خطرات کی بو آرہی ہے۔ 1977 کے بعد سے پاکستان مسلسل غیرنظریاتی ہوتا آرہا ہے۔ معاشرے کے تار و پود پر غیرسیاسی قوتوں کا غلبہ بڑھ رہا ہے۔ سیاستدان وزیراعظم بھی رہے ہیں، صدر بھی مگر اُن کو بھی یہ سمجھوتہ کرنا پڑا ہے کہ وہ غیرسیاسی اور غیرنظریاتی ہو کر حکمرانی کریں گے۔ سیکورٹی اور خارجہ پالیسی اُن کے پاس نہیں ہو گی۔ وزیر خزانہ اُن کے پاس ہوتے ہی نہیں تھے، اس لئے وہ مسلسل سیاستدانوں سے، باہر سے آرہے ہیں۔ آپ غور کریں کہ پاکستان کو ضرورت ہمیشہ ایک اچھے، قابل، ملکی اور عالمی معیشت سمجھنے والے وزیر خزانہ کی رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں اِس کے لئے ماہرینِ معیشت کو پہلے سے پارٹی سے وابستہ نہیں کرتیں پھر عالمی مالیاتی اداروں کے دبائو پر اُن کے تراشے ہوئے اقتصادی ماہرین کو یہ اہم ترین منصب دینا پڑتا ہے۔
ملک میں جب سیاسی اور نظریاتی عمل بھرپور طریقے سے نہ ہو رہا ہو، سیاسی جماعتوں نے کسی نظریاتی منزل کا تعین نہ کیا ہوا ہو، 22 کروڑ کے ہجوم کی کیا ایک سمت ہو گی؟ اصولاً ریاست اور سیاست کی سمت ایک ہونی چاہئے۔ بظاہر لڑائی آمریت اور جمہوریت کی نظر آرہی ہے۔ بیانیے بھی یہی ہیں۔ سلیکٹڈ، کٹھ پتلی لیکن اندر سے آرزو سب کی ہے کہ اُن کو بھی کٹھ پتلی بننے کا موقع دیا جائے۔ خفیہ ملاقاتیں باہر آرہی ہیں۔ آج کل کے ڈیجیٹل دور میں جب ہر لمحہ ہر قدم دیکھا بھی جاتا ہے اور سنا بھی۔ کیمرے کی آنکھیں ریکارڈ بھی کر رہی ہیں۔ ملاقاتیں خفیہ کیسے رہ سکتی ہیں۔ پہلے تو یہ کام بےچارے فدوی کیا کرتے تھے۔ اُن کی رپورٹوں سے گودام بھرے ہوئے ہیں۔ اب مشینیں یہ سب کچھ محفوظ کر رہی ہیں۔ 70 کی دہائی میں ہماری نسلیں تو یہ تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں کہ ایسی مشینیں ایجاد ہو جائیں گی کہ گھر بیٹھے دُنیا کے ہر کونے سے دوست احباب ماہرین ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکیں گے اور بات بھی کر سکیں گے۔
آپ چلتے پھرتے انٹرنیٹ سے اپنے گھر کے، کارخانے کے مختلف حصّے دیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح آج کی نسل میرے آپ کے پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں یہ تصور نہیں کر سکتے ہیں کہ زندگی کبھی وائی فائی اور نیٹ کے بغیر بھی گزرتی ہو گی۔ مگر انتہائی تاسف اور اندوہ کے ساتھ یہ دیکھنا پڑ رہا ہے کہ تیزی سے تبدیل ہوتی ٹیکنالوجی، جدید ترین مواصلاتی رابطوں کے باوجود ہمارے تعصبات 70 اور 80کی دہائیوں کی طرح ہی ذہنی افق پر چھائے ہوئے ہیں بلکہ اسمارٹ فون، انٹرنیٹ بھی یہ تعصبات پھیلانے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔ نفرتیں پوسٹ کی جارہی ہیں۔ وائرل ہو رہی ہیں۔ رابرٹ ڈی کو پلان امریکی صحافی اور تجزیہ کار ہیں، ہمارے تجزیہ کاروں کی طرح نہیں۔ عالمی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ جنوبی ایشیا پر خاص طور پر۔ اپنے تجزیے کتابی شکل میں بھی شائع کرتے ہیں۔ اُن کی کتابوں میں ’’آتی انارکی‘‘، ’’جغرافیے کا انتقام‘‘ بہت چشم کشا ہیں۔ جب سوویت یونین منہدم ہو رہا تھا اُنہوں نے یوگو سلاویہ کا دورہ کیا تو لکھا کہ بظاہر جنگ کمیونزم کے خلاف ہے لیکن یہاں بہت خوفناک نسلی تصادم ہونے والا ہے پھر سربیا، بوسنیا میں قتلِ عام ہوا۔
یہ صحافی جنرل ضیا کے عہد میں پاکستان بھی آئے۔ اُس نے لکھا کہ بظاہر جنگ جمہوریت اور آمریت کے درمیان ہے لیکن بہت خطرناک لسانی، نسلی اور فرقہ وارانہ فسادات ہونے والے ہیں، یہ ہوا بھی۔ اُس سے دو نکات ظاہر ہوتے ہیں کہ اصل فصلیں کچھ اور پک رہی ہوتی ہیں۔ حکمران طبقے اُن پر غلاف مختلف چڑھا دیتے ہیں۔ یہ فصلیں اِنہی حکمران طبقوں کی کاشت کی ہوئی ہوتی ہیں۔ سیاسی حکمران ہوں یا آمر، وہ ان ابھرتے ہوئے فتنوں پر قابو پانے کی منظّم کوشش کیوں نہیں کرتے ہیں؟ کیا اُن میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی؟ کیا وہ ان رجحانات کو خطرناک نہیں سمجھتے یا یہ ان کی طوالت اقتدار کے لئے موزوں ہوتے ہیں؟ اس وقت ہمارے اثاثے ہم پر بوجھ بن رہے ہیں۔ ہمارا محل وقوع، جغرافیائی حیثیت جو بہت اہم مواقع دے سکتی ہے، ہماری 62 فیصد نوجوان آبادی قوم کی طاقت بن سکتی ہے۔ معدنی ذخائر، دریا، سمندر ہی ہماری خوشحالی کا وسیلہ بن سکتے ہیں۔
بارشیں ہماری زمینیں زرخیز بنا سکتی ہیں لیکن یہ سب ہمارے لئے مصیبت کا سبب بن رہے ہیں۔ صرف اس لئے کہ ہماری سمت درست نہیں ہے۔ نوجوان کم تعلیم اور بےروزگاری کے باعث لسانی، نسلی گروہوں کی پناہ لے رہے ہیں۔ فرقہ واریت کا ایندھن بن رہے ہیں۔ ابھی جن خطرات کی اطلاعات مل رہی ہیں وہ لسانی، نسلی اور فرقہ وارانہ شدت پسندی سے جڑے ہیں۔ جب بھرپور سیاسی عمل نہ ہو، سیاسی جماعتیں ملک گیر تنظیم نہ رکھتی ہوں اور اپنے کارکنوں کو ایک منزل کی طرف متحرک نہ رکھتی ہوں تو ملک میں جو ذہنی، نظریاتی، اصولی، سیاسی خلا پیدا ہوتا ہے اُسے غیرسیاسی قوتیں، لسانی نسلی گروہ، مسلک پرست طاقتیں پُر کرتی ہیں۔ ایسے انتشار میں فرد کسی نہ کسی لسانی نسلی گروہ، مسلک سے وابستگی میں اپنا تحفظ سمجھتا ہے۔ عمران خان اور اُن کے حامی نہ جانے بار بار کس 22 سالہ جدوجہد کے نتیجے میں حکومت پانے کی بات کرتے ہیں۔ میری اور آپ کی عمر اِسی دشت کی سیاحی میں گزری ہے۔ 2014 کے دھرنے کے علاوہ کوئی جدوجہد دیکھی ہے۔
عمران خان کتنی بار مچھ یا منٹگمری یا کوٹ لکھپت جیل گئے۔ جہانگیر ترین، اسد عمر، عارف علوی کونسے حوالات میں گئے۔ جدوجہد کرنے والوں کی حکومت اتنی کمزور نہیں ہوتی ہے۔ کرپشن کی مخالفت اور اس کے خلاف کارروائی یقیناً قابل تعریف ہے مگر اس کے علاوہ بہت سے کام ہیں جو ان 2 برسوں میں ہو جانے چاہئیں تھے۔ یہ بھی طے ہونا چاہئے کہ پی ٹی آئی پاکستان کو کس سمت میں لے جانا چاہتی ہے۔ ریاست اور حکومت دونوں اپنی مذہبی پالیسی کا اعلان کریں۔ اس فکری اور جذباتی انتشار میں ضرورت ہوتی ہے کہ حکمران اور اپوزیشن کے قائدین اپنی تقریروں، تحریروں اور تحریکوں سے قوم میں آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کریں تاکہ نفرت کی یہ سازشیں کمزور ہوتی جائیں۔ کسی ایک دن سوشل میڈیا پر نظر ڈال لیں تو آپ کو بہت سی ٹانگیں رکھنے والا عفریت آگے بڑھتا، ہمارے محسوسات کو ڈستا نظر آسکتا ہے۔ اس میں آس پاس کے ممالک بھی حصّہ لے رہے ہیں اور اندرونی طاقتیں بھی۔ ایسے رجحانات جمہوریت کے لئے بھی خطرہ ہیں اور ملک کی سالمیت کے لئے بھی۔