محکمہ شماریات کی جانب سے گذشتہ ہفتے جاری کی گئی رپورٹ میں ملک میں ہوشربا مہنگائی کانہ صرف اعتراف کیا گیا ہے بلکہ مہنگائی میں مسلسل اضافے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے ۔ سبزیوں کے نرخ مرغی اور گوشت کے برابر بلکہ کئی چیزوں کے تو اُن سے بھی زیادہ ہیں۔ مرغی، دال، آٹا، چینی، دودھ ، دہی ، چاول ، گوشت اور ماچس جیسی 22 ضروری اشیاء سمیت ہر چیز کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے نے عوام کی کمر توڑ دی ہے ۔ یہ وہ اشیاء ہیں جو نہ صرف صاحب ِ ثروت لوگوں کے صرف میں آتی ہیں بلکہ غریب و متوسط طبقے سے وابستہ عام آدمی کو بھی زندگی گذارنے کے لیے لازمی استعمال کرنی پڑتی ہیں۔ ایک طرف مہنگائی میں شدید اضافہ ہوا ہے تو دوسری جانب عوام کو نہ ملازمتیں ملی ہیں اور نہ ہی روزگار کے مزید یا دیگرمتبادل وسائل پیدا کیے گئے ہیں ۔ پھر 6 ماہ کے لاک ڈاؤن اور 2 ماہ سے جاری برساتوں نے تو عوام کی کمر کے خم میں مزید اضافہ کر دیا ہے ۔ پھر بڑے بڑے دستر خوانوں پر سجے ثابت بکرے اور تیتروں کا بھنا ہوا گوشت اور مرغ مسالحے دار کھانے کھاتے حکمران تنگ دست و غریب عوام کو دال ، آٹے اور چینی جیسی ضروریات ِ زندگی کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے پر صبر کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ اس ملک میں پاور انڈسٹری، شوگر انڈسٹری ، تعمیراتی انڈسٹری ، ٹرانسپورٹ و دیگر صنعتی و تجارتی شعبوں سے وابستہ لوگوں کو خوش کرنے کے لیے تو سبسڈی کے ذریعے سیکڑوں ارب روپے دیے جاتے ہیں لیکن غریب عوام کو سبسڈی دینے پر اعتراضات کیے جاتے ہیں ۔ عوام کو مہنگائی کم کرنے کے سپنے دکھا کر حکومت میں آنیوالی تبدیلی سرکار نے گذشتہ 2 برس میں آٹے کے نرخ 40 سے 75 روپے پر پہنچا دیے ، چینی 55 روپے سے 105 پر چلی گئی ، دنیا کے مقابلے میں پیٹرول کی قیمتیں دوگنی بلکہ تگنی وصول کی جاتی رہیں ۔ بجلی کے نرخ کم از کم 8 مرتبہ بڑھا کر اس نہج پر پہنچا دیے گئے ہیں کہ اب بجلی کے بل گھر کے کرایہ سے بھی زیادہ آنے لگے ہیں۔ عوام کی حالت جو 2 سال قبل تھی آج عوام اُس سے بھی بدتر صورتحال سے نبرد آزما ہیں ۔ جب کہ وزیر اعظم عوام کو مہنگائی میں کمی کی نوید سنانے کے بجائے عوام اور میڈیا پر اس بات پر برہم ہیں کہ لوگ مہنگائی کے اعداد و شمار دکھا کر ’’نیا پاکستان‘‘ کہاں ہے کے سوالات کے ذریعے ہم پر بے جا تنقید کرتے ہیں ۔ وزیر اعظم شاید بھول گئے ہیں کہ یہ سوالات 2 برس قبل اُنہی کی جانب سے اُٹھائے گئے تھے اور ان کا واحد حل انھوں نے ’’تبدیلی ‘‘ اور ’’نیا پاکستان‘‘ بتایا تھا ۔ ظاہر ہے جب وزیر اعظم کا بتایا ہوا حل مسائل میں کمی کے بجائے اضافے کا سبب بنے گا تو سوالات بھی اُٹھیں گے اور تنقید بھی ہو گی۔
کسی بھی ملک میں عوام کے’’روٹی ، کپڑا اور مکان‘‘ کا خیال رکھنا اُس ملک کے حکمرانوں کی اولین ذمے داری ہوتی ہے ۔ یہ حکمرانوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ وسائل پیدا کریں یا پھر وقت اور حالات کے مطابق اشیاء کو اپنے کنٹرول میں رکھیں ، لیکن وطن عزیز میں گذشتہ 2 سال کے عرصے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں نہ تو کوئی حکمرانی ہے اور نہ ہی اُس کا اشیاء پر کوئی کنٹرول ہے ۔ اس ملک میں مافیا جب چاہیں آٹے ، چینی کے نرخ بڑھا دیں ، جب چاہیں گندم اور پیٹرول غائب کر دیتی ہیں اور حکومت اُن کے آگے بے بس نظر آتی ہے ۔ سرکار خود کو عوامی تبدیلی کی لہر کی بہترین پیداوار قرار دے رہی ہے جب کہ مخالفین موجودہ حکومت کو نااہل ترین حکومت قرار دے رہے ہیں۔ حکومت کے وزراء اور مشیر چوبیسوں گھنٹے دعوے کرتے نظر آتے ہیں کہ ملکی معیشت مستحکم ہو چکی ہے اور ہم نے نیا پاکستان بنا لیا ہے ، مگر حقائق اس کے برعکس نظر آتے ہیں۔ ملک میں غریب عوام اب دو وقت کی روٹی کے لیے بھی پریشان ہے۔ ملک کے 25 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگ تو چھوڑیں آج متوسط طبقے کے عوام کا بھی گذارہ مشکل ہو گیا ہے ۔ مہنگائی میں یہ ہوشربا اضافہ اب بجٹ کے اعداد و شمار کی ہیرا پھیری سے بھی چھپائے نہیں چھپ رہا۔
میڈیا کی چیخ و پکار تو ایک طرف خود وزیر اعظم اس طوفان ِ مہنگائی کا اعتراف کر چکے ہیں ۔ اُس کے باوجود نہ تو مہنگائی پر کنٹرول کی کوئی فکر نظر آتی ہے اور نہ ہی مہنگائی سے نڈھال عوام کوحکومت کی جانب سے کوئی ریلیف یا سبسڈی دینے کے ارادے نظر آتے ہیں ۔ گذشتہ دو برس کے دوران ملک میں ایک طرف بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف مہنگائی عروج پر ہے ۔ تیل کی قیمتوں میں ہر ماہ اضافہ ہو رہا ہے ، ادویات اور انسان کی ضرورت کی تمام اشیاء کے نرخوں میں بھی روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت کی معاشی پالیسیوں کو اب عام آدمی بھی عوام دشمن قرار دے رہے ہیں۔ لیکن دو سال گذر جانے کے بعد بھی کپتان سمیت حکومتی ٹیم ماضی کے حکمرانوں کو کوسنے میں پوری ہے ۔ دو سال تک یہ باتیں برداشت کرنے والے عوام اب تیسرے سال میں بھی حکومتی موقف کی اُسی تکرار پر عوام اب ’’ناچ نہ آئے ، آنگن ٹیڑھا‘‘ والی کہاوت بخوبی سمجھ گئے ہیں ۔
اس لیے وزیر اعظم کو چاہیے کہ اعتراف اور آسروں کی اس لفاظی سے آگے بڑھ کر عملی طور پر عوام کے دکھوں کا مداوا کرتے ہوئے مہنگائی کے اس جن کو اپنی ’’سحر انگیزی اور ملک کی پاک صاف ٹیم‘‘ کی قابلیت کی مدد سے بوتل میں بند کر کے عوام کو دو وقت کی روٹی کی کم قیمت پر آسان دستیابی کے ساتھ بس جینے دیا جائے ۔ جس کا انتظام کرنا صرف اور صرف حکومت کا ہی کام ہے ۔ حکومت کو بس صرف اپنا کام ہی کرنا چاہیے ۔ ہمیں علم ہے کہ پاکستان کی معیشت کو بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح کورونا کے باعث عدم استحکام کا سامنا ہے لیکن ہم یہ بھی بخوبی سمجھتے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کا یہ طوفان کورونا کی وبا کے دوران ہونے والے معاشی عدم استحکام کے باعث نہیں ہے بلکہ موجودہ سرکار کی 2 سال کے دوران اختیار کی گئی اُن پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس کے تحت ملکی اُمور کو براہ راست IMF کی خواہشات اور مطالبات کے نذر کیا گیا ۔
اس کا اندازہ تو ماہرین کو بہت پہلے ہی ہو گیا تھا ۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سالِ دوراں کے ابتدائی مہینوں میں عالمی جریدے اکنامک انٹیلی جنس یونٹ کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں وطن عزیز کی پالیسیوں اور اعداد و شمار پر ایک طویل بحث کے بعد پیش گوئی کی گئی تھی کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں سال بھر میں کوئی کمی ہوتی نظر نہیں آتی ۔ رپورٹ میں اشیائے خورد و نوش بالخصوص گندم ، ٹماٹر اور چینی کے نرخوں میں اضافے کو مہنگائی کا بنیادی سبب بتایا گیا اور کہا گیا کہ ضروریات ِ زندگی کی اشیاء کی رسد میں تسلسل نہ ہونے کے باعث نرخوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستانی معیشت کی آیندہ سال بحالی کے مثبت اشاروں کا ذکر کرتے ہوئے بھی حکومت سے بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنے پر بھی زور دیا ہے ۔ پھر ڈاکٹر حفیظ پاشا جیسے ماہر معیشت سمیت ملکی و بین الاقوامی معاشی ماہرین کی رائے اور میڈیائی رپورٹس کے مطابق صرف گذشتہ مالی سال کے دوران ملک میں 12 لاکھ افراد بے روزگار ہوئے اور رواں سال اس میں مزید 10 لاکھ لوگوں کا اضافہ ہوا ہے ۔
حکومت اس بے روزگاری اور مہنگائی پر ضابطے کے لیے ہنگامی مؤثر اقدامات پر توجہ دینے کے بجائے سابقہ حکومتوں کے خلاف اور نام نہاد ملک دوست بیانیے کے تحفظ جیسے مفروضوں اور لاحاصل نتائج کے حامل اُمور پر وقت اور توانائیاں ضایع کرنے میں مصروف ہے ۔ پہلے دو سال تو حکومت ملک کے تمام تر مسائل اور حالات کا ذمے سابقہ حکومتوں کے سر ڈالتی رہی ہے لیکن اب عوام یہ بات ماننے کو تیار نہیں ۔ اب تو موجودہ حکومت کو تیسرا سال ہے اور اب عوام تبدیلی سرکار سے اُن وعدوں کی تکمیل چاہتے ہیں ، جو کنٹینر پر کھڑے کپتان نے بجلی کے بل جلا کر سول نافرمانی کی دھمکیاں دیتے ہوئے کیے تھے ۔ اس لیے اس تیسرے سال میں نہ صرف تبدیلی کی وہ لہر حقیقت پاتے نظر آنی چاہیے بلکہ عوام کے مسائل کی حل کی جانب پیش قدمی بھی ہونی چاہیے اور مہنگائی کے طوفان پرضابطہ بھی واضح طور پر نظر آنا چاہیے ۔ اور ہاں جہاں تک بات ہے وزیر اعظم کے اعتراف کی تو کہتے ہیں کہ اعتراف بذات خود اپنی ناکامی تسلیم کرنا ہوتا ہے ، لیکن ہم اگر اس اعتراف کو ناکامی کے بجائے اسمارٹ وزیر اعظم کا بڑاپن بھی مان لیں تو بھی بات یہاں ختم نہیں ہوتی ، کیونکہ عوام کی نظر میں بڑا وہ ہے جو اُن کے دکھوں کا مداوا کرے ، ورنہ اس ملک کی تاریخ ایسے خواب دکھانے والوں سے بھری پڑی ہے ۔