ایک تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا کے 7 ارب 10 کروڑ افراد یا 91 فیصد عالمی آبادی وبا کے باعث گھروں میں رہنے پر مجبور ہے۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث ممالک نے سیاحوں اور بعض اوقات اپنے شہریوں کے لیے سرحدیں بند کر دی ہیں جس کے باعث سرحد پار نقل و حرکت دنیا کے بیشتر حصوں میں تعطل کا شکار ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کی تحقیق کے مطابق اس وقت 7 ارب 10 کروڑ افراد ایسے ممالک میں رہائش پذیر ہیں جہاں دیگر ممالک سے آنے والے غیر رہائشی اور شہریت نہ رکھنے والے افراد کے آنے پر پابندی ہے۔ مذکورہ تعداد بشمول سیاحوں، کاروباری مسافر اور نئے تارکین وطن سمیت دنیا کی 91 فیصد آبادی ہے جسے گھروں میں رہنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ اور دیگر ایجنسیوں کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق لگ بھگ 3 ارب افراد یا دنیا کی آبادی کا 39 فیصد حصہ ایسے ممالک میں رہائش پذیر ہے جہاں غیر رہائشی یا شہریت نہ رکھنے والے افراد کے لیے سرحدوں کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ سفری اور داخلے پر پابندیوں کے باعث ایئرلائنز روٹس کم کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں اور سیاحت میں بھی تیزی سے کمی آئی ہے۔ خیال رہے کہ ایک ارب 40 کروڑ آبادی والے ملک چین نے 28 مارچ کو کچھ سفارتی اور سائنسی اہلکاروں کے علاوہ غیر ملکیوں کے لیے سرحدیں بند کر دی تھیں۔ بھارت، جس کی آبادی ایک ارب 40 کروڑ کے قریب ہے نے ویزے معطل کر کے کافی حد تک اپنی سرحدیں بند کر دی ہیں جبکہ ملک میں آنے والوں کے لیے شہریت سے قطع نظر سب کے لیے 2 ہفتے قرنطینہ کی ضرورت ہے۔
امریکا جہاں کی آبادی لگ بھگ 33 کروڑ ہے نے ان تمام افراد کے لیے بارڈرز بند کر دیے ہیں جو امریکی شہری یا رہائشی نہیں اور کورونا وائرس سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک جیسا کہ چین، اٹلی، فرانس، اسپین، برطانیہ اور آئر لینڈ سے آتے ہیں۔ جاپان میں ٹوکیو اولپمکس 2021 تک ملتوی ہو گیا ہے جبکہ مسافر نے اگر کورونا کا شکار ممالک کا دورہ کیا ہے تو انہیں ملک میں داخل نہیں ہو سکتے جاپانی شہریوں سمیت ملک میں آنے والے تمام افراد نے اگر وبا سے متاثر ممالک گئے ہوں تو ان کے لیے 14 روز تک خود ساختہ قرنطینہ لازمی ہے۔ ایکواڈور اور کئی وسطی ایشیائی ممالک سمیت کچھ ملکوں نے اپنے شہریوں اور رہائشیوں سمیت تمام افراد کے لیے سرحدیں بند کر دی ہیں۔
دوسری جانب کچھ ممالک پناہ کے طلبگار افراد کے لیے بھی داخلے پر پابندی عائد کر رہے ہیں، امریکا نے کہا ہے کہ میکسیکو سے ملحقہ جنوبی سرحد پر آنے والے پناہ گزینوں کو واپس بھیج دیا جائے گا۔ علاوہ ازیں کینیڈا نے کہا کہ امریکا سے زمینی راستے سے داخل ہونے والے پناہ گزینوں کی نہیں سنی جائے گی جبکہ کئی پناہ گزینوں کی درخواستیں اور سروسز بھی معطل کر دی گئی ہیں۔ تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ دنیا کے 27 کروڑ 20 لاکھ تارکین وطن کو مستقبل قریب میں بڑھتی ہوئی سفری پابندیوں اور چند کمرشل ایئرلائن فلائٹس کی وجہ سے وطن واپسی میں مشکل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق تقریباً 37 فیصد تارکین وطن ان ممالک سے ہیں جہاں غیر رہائشی اور شہریت نہ رکھنے والے افراد کے لیے سرحدیں مکمل طور پر بند ہیں، دنیا کے دیگر 54 فیصد تارکین وطن ان ممالک سے ہیں جہاں مسافروں کے لیے سرحدیں جزوی طور پر بند ہیں۔ تاہم تحقیق میں یہ مشاہدہ بھی کیا گیا ہے کہ اشیا کے بہاؤ کی وجہ سے ممالک اپنی سرحدوں کو کھلا رکھنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکا-کینیڈا کی سرحد پر کمرشل تجارت جاری ہے، یورپی یونین کے ممالک میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔