پاکستان میں چینی اور گندم کے بحران کے بعد ان دنوں بجلی بنانے والی نجی کمپنیوں کا اسکینڈل زبان زد عام ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا حکومت ان کمپنیوں سے یہ رقم واپس لے سکے گی؟ اقتدار کے ایوانوں میں گردش کرنے والی اطلاعات کے مطابق پاکستان کی حکومت نے بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں (آئی پی پیز) کے اسکینڈل میں ملوث گروپوں اور شخصیات کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی کابینہ کی منظوری کے ساتھ ایک اعلٰی سطحی تحقیقاتی کمیشن بھی بنایا جا رہا ہے جو ان نجی پاور کمپنیوں کا فرانزک آڈٹ کر کے نوے دنوں میں اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سال 2019 میں سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے سابق چیئرمین محمد علی کی سربراہی میں وفاقی حکومت نے نو رکنی ایک کمیٹی قائم کی تھی تاکہ انڈیپینڈینٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کی طرف سے ملنے والی بجلی کے مہنگا ہونے کی وجوہات کا تعین کیا جا سکے۔
اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بجلی بنانے والی نجی کمپنیوں نے غیر قانونی طرز عمل اپناتے ہوئے اپنے منصوبوں کی لاگت سے بھی کئی گنا زیادہ منافع کمایا اور ان کو طے شدہ شرح سے بھی زیادہ ادائیگیاں کی جاتی رہیں۔ رپورٹ نے نجی پاور کمپنیوں کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کی غیرمنصفانہ شرائط کی بھی نشاندہی کی۔ اس رپورٹ میں سامنے آنے والے حقائق کے بعد حکومت بجلی خریدنے کے معاہدوں کے حوالے سے نجی پاور کمپنیوں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں پر نظر ثانی چاہتی ہے۔ دوسری صورت میں حکومت کو یہ سفارش کی گئی ہے کہ 2002ء کی پالیسی کے تحت بننے والے پاور پلانٹس کو ریٹائر کر دیا جائے، آئی پی پیز کو ڈالر کی بجائے پاکستانی روپے میں ادائیگیاں کی جائیں اور ان کے پاور پلانٹس میں استعمال ہونے والے فیول کی مقدار کے درست تعین کے لیے تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ ایک اور سفارش میں کہا گیا ہے کہ نجی پاور پلانٹس کو گارینٹڈ پرچیز کے بجائے صرف خریدی جانے والی بجلی کی ہی ادائیگی کی جائے۔
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے ممتاز اقتصادی ماہر ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں لگتا کہ حکومت آئی پی پیز سے یہ پیسے واپس لینے میں کامیاب ہو سکے گی۔ ان کے بقول جب یہ معاہدے کیے گئے تو ملک میں بجلی کی شدید قلت تھی اور حکومت کی بارگیننگ کی صلاحیت بھی کمزور تھی۔ اس طرح کی صورتحال میں کمیشن لینے، پیسے لے کر نوازنے اور معاہدے میں غیر منصفانہ شرائط شامل کروانے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ڈاکٹر بنگالی کے مطابق ایسا اس ملک میں پچھلے ستر سالوں سے ہو رہا ہے اور یہ سب کچھ صرف پاور سیکٹر تک ہی محدود نہیں ہے: ''گوادر کے منصوبے کے فائنل ہونے کے بہت بعد ہمیں پتہ چلا تھا کہ اس میں حکومت پاکستان کا آمدن میں حصہ نو فی صد ہے۔ اسی طرح ملک کو جو کمرشل لون ملتے ہیں ان کی کہانیاں بھی ہم سب جانتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر قیصر بنگالی مزید کہتے ہیں، ''اگر آپ ساورن گارنٹی دے کر بھی بیس سال بعد معاہدے دوبارہ کھول لیتے ہیں تو پھر یہاں سرمایہ کاری کون کرنے آئے گا۔ ان معاہدوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ اس لیے مجھے خدشہ ہے کہ حکومت کو کسی ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے جسی صورتحال کا سامنا اسے ریکوڈک اور ترک کمپنی کے ساتھ معاہدوں سے روگردانی کی صورت میں کرنا پڑی تھی۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ چونکہ گندم اور چینی کے اسکینڈل میں خود حکومتی شخصیات کے نام آئے تھے اس لیے پاور سیکٹر اسکینڈل میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے لوگوں کو دھر کر حکومت حساب برابر کرنا چاہتی ہے۔‘‘ ڈاکٹر قیصربنگالی کہتے ہیں کہ حکومت اگر چاہتی ہے کہ ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں تو پھر اسے ہر غیر ملکی حکومت، غیر ملکی ایجنسی یا غیر ملکی کمپنی کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کو خفیہ نہیں رکھنا چاہیے اور اس کی منظوری سینیٹ کی متعلقہ کمیٹیوں سے لی جانا چاہیے اور اس عمل کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہونا چاہیے۔
پاکستان کے ایک اور ماہر معیشت شاہد حسن صدیقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ پاور سیکٹر کی رپورٹ میں سامنے آنے والے حقائق بڑی حد تک درست ہیں اور اس سیکٹر میں نجی پاور کمپنیوں نے غیر قانونی طور پر بہت ناجائز منافع کمایا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ حکومت نجی پاور کمپنیوں کے احتساب میں سنجیدہ نہیں ہے اور وہ ہتھیایا گیا عوامی پیسہ کبھی واپس نہیں لے سکے گی: ''اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو اس میں قانونی پیچیدگیاں بہت ہیں دوسرے اس سکینڈل میں کچھ ایسی شخصیات بھی شامل ہیں جو حکومت یا حکومتی پارٹی کا حصہ ہیں۔ حکومت پہلے ان کے نام ای سی ایل میں ڈالے اور ان کے خلاف کارروائی کرے تو پھر ہی عوام کو یقین آئے گا کہ حکومت اس سلسلے میں سنجیدہ ہے۔‘‘ پاکستان میں بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان میں حکومت لائن لاسز کنٹرول کرنے اور بجلی کے واجبات کی وصولی میں ناکام ہو چکی ہے۔ اس لیے اربوں روپے کے نقصانات کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے نجی پاور سیکٹر کی طرف توجہ کر لی گئی ہے۔