↧
عوام کے سڑکوں پر آنے سے پہلے
حکومت 14 ماہ میں کوئی ایک بھی ایسا کام نہیں کر پائی ، جس کے حوالے سے اس حکومت کے لیے مستقبل کے لیے کوئی اچھی امید رکھی جا سکے۔ اس کے باوجود جو لوگ حکومت کی حمایت کر رہے ہیں ، اس کی صرف دو وجوہات ہیں ایک یہ کہ عمران خان نے ان سیاسی پارٹیوں کو اقتدار سے نکال باہر کیا جو دس سال سے اس ملک کے 22 کروڑ عوام کے سر پر شکیل عادل زادہ کی ’’انکا‘‘ کی طرح سوار تھیں اور ان پر کرپشن کے الزامات موجود ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ حکومت اور عمران خان پر کرپشن کے الزامات نہیں ہیں، عمران خان کا بڑے سے بڑا دشمن بھی ان پر کرپشن کا الزام نہیں لگا سکتا۔ یہ دو کارنامے ایسے ہیں جو مجھ جیسے اہل قلم اور پی ٹی آئی کے ووٹرز کو حکومت کی حمایت پر مجبور کرتے ہیں۔ بے شک یہ دو کام ماضی کی حکومتوں کے کھاتے میں نہیں آئے لیکن ان دو اچھے کاموں کے مقابلے میں کارکردگی کے حوالے سے اصل حکومت پر نظر ڈالی جائے تو سوائے بد ترین مایوسی کے کچھ نہیں ملتا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان اشیا صرف کی آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی کا جوازکیا ہے۔ گندم ہماری خوراک کا بنیادی حصہ ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، گندم کا شمار پاکستان کی بڑی زرعی پیداوار میں ہوتا ہے۔ سال کے بارہ مہینے لاکھوں ٹن گندم سرکاری گوداموں میں پڑی رہتی ہے اور ہزاروں ٹن گندم ناقص انتظام اور نامناسب دیکھ بھال کی وجہ سڑ جاتی ہے اور یہ سڑی ہوئی گندم صاف گندم میں ملا کر چکیوں میں ڈال دی جاتی ہے اور یہ آٹا عوام کو کھلا دیا جاتا ہے۔ یہ روایت عشروں پرانی ہے جس کا کوئی نوٹس لینے والا نہیں۔ عوام کی گزر بسر یعنی غذا کا سب سے بڑا حصہ آٹا ہے، گندم کے آٹے کی روٹی کی عمومی قیمت دس روپے ہوتی ہے اگر کبھی آٹے کی قیمت میں معمولی اضافہ ہوتا ہے تو یا تو روٹی کی قیمت میں اضافہ کر دیا جاتا ہے یا روٹی کا وزن کم کر دیا جاتا ہے۔ آٹے کی فی کلو قیمت کبھی چالیس پچاس روپے کلو سے آگے نہیں بڑھی اب آٹے کی قیمت 70 روپے کلو کر دی گئی ہے، ہمارے ملک میں ہماری ضرورت کی گندم پیدا ہوتی ہے۔
↧