پاکستان میں رائج سائبر کرائم قوانین کے تحت کسی کے موبائل یا کمپیوٹر سے ڈیٹا چرانا، بری نیت سے اسے پھیلانا یا اس میں کسی قسم کی مداخلت جرم میں شمار ہوتا ہے۔ یہ ڈیٹا تصاویر، ویڈیوز یا تحریری مواد اور کسی بھی دیگر صورت میں ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں سائبر کرائم کی شکایات میں ماضی کی نسبت اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے ملک کے دوسرے بڑے صوبے، سندھ میں سائبر کرائم قوانین کے تحت صرف ایک سال میں سات ہزار سے زائد شکایات درج کی گئی ہیں جو گزشتہ سال کے مقابلے میں دو گنا ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر شکایات خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق بتائی جاتی ہیں۔
البتہ حکام نے واضح کیا ہے کہ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ درج شدہ تمام شکایات حقیقی ہیں۔ ایف آئی اے کے مطابق زیادہ تر شکایات کی تحقیقات جاری ہیں جس کے بعد اس بات کا فیصلہ کیا جاتا ہے کہ ان پر مقدمہ درج کیا جائے یا نہیں۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم فیض اللہ کوریجو نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں بتایا کہ ان شکایات میں 900 کے قریب ایسے کیسز ہیں جو ابھی انکوائری کے مرحلے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض کیسز میں تحقیقات مکمل کیے جانے کے بعد ایف آئی آر کا اندراج کیا جاتا ہے۔ فیض اللہ کوریجو کے بقول سائبر کرائم کے زیادہ تر واقعات شہری علاقوں میں رپورٹ ہوتے ہیں اور بہت سے کیسز میں بلیک میلنگ اور ہراساں کیے جانے کی شکایات سامنے آئی ہیں۔
حکام کے مطابق ان کیسز میں صنفی بنیاد پر اضافہ سب سے اہم عنصر ہے۔ جس میں خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق زیادہ کیسز رپورٹ کیے جارہے ہیں۔ فیض اللہ کوریجو کا کہنا تھا کہ اگر اس کے پس منظر میں جائیں تو اس کی بنیادی وجہ سوشل میڈیا اور مختلف موبائل ایپلی کیشنز کا غلط یا غیر محفوظ استعمال ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خواتین کو معلوم نہیں ہوتا کہ موبائل ایپلی کیشنز کے استعمال میں کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ذرا سی بے احتیاطی سے وہ بلیک میلنگ اور ہراسگی کا شکار ہو جاتی ہیں اور بعض کیسز میں تو بات خودکشی تک جا پہنچتی ہے۔ خیال رہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے حامل اسمارٹ فونز اور موبائل فون ایپلی کیشنز کے ذریعے یہ با آسانی ممکن ہے کہ ویڈیو کال کے دوران تصاویر بھی بنائی جاسکتی اور ویڈیو ریکارڈ بھی کی جا سکتی ہے۔
ان تصاویر کو باآسانی فوٹو شاپ کی مدد سے ایڈٹ کیا جا سکتا ہے۔ موبائل ایپلی کیشنز سے ہی فون کرنے والے کی لوکیشن بھی معلوم کی جاسکتی ہے۔ لہٰذا وہ خواتین جو سوشل میڈیا، موبائل اور ایپلی کیشنز کے سیکیورٹی فیچرز سے ناواقف ہوں، انہیں کوئی بھی شخص فرینڈ ریکویسٹ بھیج کر یا ان سے معلومات حاصل کر کے انہیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ ہمارا معاشرہ سائبر کرائم کو کس حد تک جرم تصور کرتا ہے۔ ان کے بقول اکثر ترمیم شدہ تصاویر کو ہی حقیقت سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس کا منفی اثر اکثر خواتین کی ذاتی زندگیوں پر پڑتا ہے۔ فیض اللہ کوریجو کے مطابق فراڈ اور دھوکہ دہی کے واقعات بھی اب انٹرنیٹ پر عام ہونے لگے ہیں جس کے باعث لوگوں کو بھاری نقصانات اٹھانا پڑ رہے ہیں۔
ان کے بقول لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں انٹرنیٹ پر جو سنہری خواب دکھائے جارہے ہیں، چاہے وہ لاٹری کی صورت میں ہوں، نوکری کی پیشکش یو یا کسی اور شکل میں، وہ حقیقت ہیں۔ لیکن درحقیقت وہ سچے نہیں ہوتے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈیجیٹل ڈیٹا بہت جلد مٹایا، نقل، تبدیل یا حذف کیا جا سکتا ہے۔ لوگ جعل سازوں کے جھانسوں میں آکر دھوکہ دہی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ایسے سیکڑوں کیسز سامنے آتے ہیں جس میں لوگوں نے انٹرنیٹ فراڈ میں اپنی جمع پونجی بھی گنوا دی ہو۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق ملک میں سائبر کرائم کی شرح میں سالانہ 50 فی صد تک اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ سندھ کی طرح پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان سمیت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے بھی سائبر کرائم کی شکایات میں اضافہ ہوا ہے۔
حکام کے مطابق شکایات میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں گزشتہ دس برسوں میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں بڑی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اب بھی کل آبادی کا صرف 16 فی صد حصہ انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے۔ ایف آئی اے حکام کے بقول انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کی سہولت دینے کے بعد ہوا ہے۔ یہیں سے مجرمانہ ذہن رکھنے والے افراد بھی اس ٹیکنالوجی کی جانب راغب ہوئے ہیں۔ البتہ سائبر کرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات سے نمٹنے اور ان کے حل کے لیے ایف آئی اے کے عملے کی استعداد کار بڑھانے، وسائل فراہم کرنے اور انسانی وسائل کی جدید خطوط پر تربیت کی ضرورت بھی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔