پاکستان قرضوں کے جال میں جکڑا ہوا ہے۔ 2001 میں مالیاتی ماہرین پر مشتمل قائم اعلیٰ سطح کمیٹی جسے ’’ڈیٹ ریڈکشن اینڈ مینجمنٹ کمیٹی‘‘ کا نام دیا گیا تھا اس کے مطابق اس بات میں شبہ نہیں رہا کہ پاکستان قرضوں کے جال میں جکڑ ا ہوا ہے۔ بھاری قرضوں کی ادائیگی کے شیطانی چکر نے سرمایہ کاری اور شرح نمو پر جمود طاری کر دیا ہے۔ ورلڈ بینک کے نائب صدر کی حیثیت سے ریٹائر ہونے والے ڈاکٹر پرویز حسن کی قیادت میں مذکورہ کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے مالی بحران پر قابو پانے کے لئے اقدامات تجویز کئے تھے جس نے پاکستان کی اقتصادیات کو عملی طور پر مفلوج کیا۔ 2001 کی یہ رپورٹ آج 2019 میں صورتحال کی عکاس ہے۔ اس دوران کوئی بہتری نہیں آئی۔
پاکستان کو آج بھی 18 سال قبل کے اقتصادی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ سیاسی عدم استحکام، اقتصادی اور حسن حکمرانی کے چیلنج بدستور موجود ہیں تاہم اس بار اقتصادی پالیسیوں پر سیاسی اتفاق رائے کے لئے میثاق اقتصادیات کی تجویز سامنے آئی ہے۔ رپورٹ میں طے کردہ اغراض و مقاصد سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی حکومت یا سیاسی جماعت ملک کی اقتصادیات کو راہ راست پر نہیں ڈال سکتی۔ اس کے لئے اجتماعی کوشش اور متفقہ مؤقف درکار ہے۔ ڈیٹ ریڈکشن اینڈ مینجمٹ کمیٹی نے اپنی حوالہ شرائط میں قرضوں کا بوجھ کم کرنے کی حکمت عملی دی تھی۔ کمیٹی نے قرار دیا تھا قرضوں کا مسئلہ کمزور اقتصادی فیصلوں کی وجہ سے ابھر کر سامنے آیا۔
اصلاحات کو بڑے عرصے کے لئے التوا میں ڈالا گیا قرضوں کا بوجھ اتارنے کا کوئی آسان علاج نہ تھا۔ کمیٹی نے زور دیا تھا کہ اقتصادی احیا، مالی وصولیوں میں خاطر خواہ اضافہ اور برآمدات اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ چار سالہ حکمت عملی کے کچھ بنیادی مفروضوں پر مرتب کی گئی جو جون 2001 سے جولائی 2004 کے لئے تھی۔ اس دوران قرضوں کا منظر نامہ مکمل تبدیل ہو جائے گا اور قرضوں کا بوجھ کم ہو کر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ قابل برداشت 300 فیصد کی سطح پر آجائے گا۔ رپورٹ کے مطابق 2004 فاضل بجٹ کا سال ہو گا۔ پاکستان کے قرضوں کے شکنجے میں جکڑا ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے بنیادی طور پر موجودہ خطرات کا ذکر کرتے ہوئے سوال اٹھایا تھا کہ آیا پاکستان ا س شیطانی چکر کو توڑ سکے گا۔
یقیناً اگر جانفشانی سے اصلاحات کے لئے کوششیں کی جاتیں تو بہتری کے امکانات موجود تھے لیکن ماضی کا ریکارڈ کوئی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ قرضوں کے بوجھ سے نمنٹے کے مؤثر اقدامات نہ ہونے کے سیاسی واقتصادی طور پر نتائج تباہ کن ہوں گے قرضوں کے بوجھ سے شرح نمو مزید سست ہو جائے گی بڑے پیمانے پر کرنسی نوٹ چھاپنے ہوں گے جس سے افراط زر بڑھے گا روپے کی قدر مسلسل گھٹتی جائے گی بیرونی سطح پر تکنیکی دیوالیہ سے اقتصادی تنہائی میں چلے جائیں گے۔ تجارت اور ٹیکنالوجی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے رپورٹ کے مطابق سرکاری اور بیرونی قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت ہے۔
پیرس کلب کی جانب سے ری شیڈولنگ کے بغیر ڈیٹ سروس سے نمٹنا ممکن نہیں ہے اس کے لئے آئی ایم ایف ورلڈ بینک اور اے ڈی بی کی غیرمعمولی معاونت بھی درکار ہو گا ملکی سطح پر گو کہ مالی پوزیشن بنیادی طور پر فاضل دکھائی دے رہی ہے بیرونی قرضوں کا بوجھ کم کرنے کی واضح طور پر ضرورت ہے تاکہ پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے غیرمعمولی مالی معاونت کی ضرورت نہ پڑے مزید کہا گیا ہے کہ قرضوں کا مسئلہ اٹھنے کی وجہ سے پالیسی ناکامیابیاں ہیں اس مسئلے کا فوری حل بھی نہیں ہے۔ اس کے اطمینان بخش حل میں وقت لگنے کے ساتھ جارحانہ پالیسی اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔
اس کے ساتھ اقتصادی شرح نمو کے فوری احیاء کی بھی ضرورت ہے رپورٹ کے مطابق قرضوں کے جال سے نکلنے کے لئے پاکستان کو مربوط اقتصادی احیا ء اور قرضوں میں کمی کے لئے حکمت عملی کی ضرورت ہے اس حکمت عملی کے دہرے مقاصد قرضوں کے بوجھ میں نمایاں کمی اور وسط مدتی طور پر شرح نمو میں نمایاں اضافہ ہونا چاہئے۔ دو سے تین سال کی مختصر مدت میں قرضوں میں کمی اور کمزور شرح نمو سے بچنا ممکن نہ ہو گا لیکن کمیٹی کو اعتماد تھا کہ مضبوط مالی نظم ونسق اور بہتر طرز حکمرانی کے ذریعے شرح نمو کو 2003-04 سے 5.5 فیصد تک لایا جا سکتا ہے 2004 تک ری شیڈولنگ مرحلے سے نکلنے کے لئے آئی ایم ایف اور پیرس کلب کی غیر معمولی مالی معاونت کی ضرورت ہو گی اس دہائی کے دوسرے حصے میں 6 فیصد کی شرح نمو کے ساتھ 2010 تک سرکاری قرضے تیزی سے نیچے لائے جا سکتے ہیں۔ وسعت کے لئے سب سے زیادہ حوصلہ افزا شعبے زراعت، تیار اشیا کی برآمدات تیل اور گیس ہیں۔