پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کی معاونت اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے قائم بین الاقوامی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے ترکی، ملائشیا اور چین کی مخالفت کے بعد پاکستان کو بلیک لسٹ نہ کرنے کی اطلاعات ہیں۔ عالمی ادارے ایف اے ٹی ایف نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے گزشتہ سال جون میں پاکستان کا نام عالمی تنظیم کی گرے لسٹ میں شامل کر دیا تھا۔ امریکہ، برطانیہ اور بھارت اس تحریک کے محرک تھے جس میں پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔
ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے 'انادولو'کے مطابق پاکستان بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے عالمی تنظیم کے تین رکن ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ تاہم ایف اے ٹی ایف کے طرف سے اس بابت حتمی فیصلہ ہونے تک پاکستان کے لیے خطرات بدستور موجود ہیں۔ بھارت اس وقت ایف اے ٹی ایف کے ایشیا پیسفک گروپ کا شریک ہے اور پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی کوششوں میں سرگرم ہے، بھارت کا موقف ہے کہ پاکستان منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے بین الاقوامی ضابطوں پر پوری طرح عمل کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی جارحانہ سفارتی کوششوں کے باعث ترکی، ملائشیا اور چین نے پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی مخالفت کی جس کے بعد فی الحال یہ خطرہ ٹل گیا ہے۔
یہ اطلاعات امریکہ کی ریاست فلوریڈا میں جاری رہنے والے ایف اے ٹی ایف اجلاس کے بعد سامنے آئی ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے چارٹر کے مطابق بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے تنظیم کے 36 ملکوں میں سے تین ملکوں کی حمایت لازمی ہے۔ ترکی کے خبررساں ادارے کے مطابق پاکستانی دفتر خارجہ کے بعض عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دعویٰ کیا ہے کہ یہ پاکستان کے لیے مثبت پیش رفت ہے، دوست ممالک نے اس ضمن میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ تاہم پاکستان کے لیے خطرہ مکمل طور پر ابھی ٹلا نہیں ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی تجویز پر حتمی فیصلہ رواں سال اکتوبر میں پیرس میں ہونے والے اجلاس کے دوران کیا جائے گا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے ان اطلاعات پر باضابطہ طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا تاہم سابق سفیر اور سنٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹیڈیز کے سربراہ علی سرور نقوی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ پاکستان کے لیے اچھی خبر ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے اس معاملے پر بہترین سفارت کاری کا مظاہرہ کیا۔ رواں سال فروری میں ایف ایے ٹی ایف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان نے ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے خاطر خواہ پیش رفت نہیں کی ہے، اس لیے ایف اے ٹی ایف نے مزید اقدامات کے لیے پاکستان کو مئی 2019ء کی ڈیڈلائن دی تھی۔ تنظیم کے مطابق گو کہ پاکستان نے ایک سال کے دوران اس معاملے میں پیش رفت کی ہے تاہم اسے ابھی بھی بہت سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔