Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4341

پاکستان کی نئی معاشی ٹیم سے توقعات

$
0
0

اسٹیٹ بینک اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو جیسے کلیدی مالیاتی اداروں کے نئے سربراہوں کی حیثیت سے بالترتیب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے وابستہ ڈاکٹر رضا باقر اور ایڈیشنل سیکریٹری فنانس ڈویژن احمد مجتبیٰ میمن کا تقرر اس امر کا اظہار ہے کہ وزیراعظم عمران خان اُن کی صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے امید رکھتے ہیں کہ دو ہفتے پہلے، منصب سنبھالنے والے مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ کی سربراہی میں مالیاتی نظم کے یہ نئے ذمہ دار قومی معیشت کو اس بحران سے نکالنے میں کامیاب رہیں گے جس سے نجات دلانے میں سابق معاشی ٹیم کامیاب نہ ہو سکی تھی۔

گورنر اسٹیٹ بینک کے منصب پر تین سال کیلئے ڈاکٹر رضا باقر کی تقرری کا باضابطہ اعلان کیا گیا لیکن ایف بی آر کی سربراہی کیلئے احمد مجتبیٰ میمن کے تقرر کا نوٹیفکیشن تادمِ تحریر جاری نہیں ہوا، تاہم امید ہے کہ جلد ایسا ہو جائے گا۔ ڈاکٹر رضا باقر نے ایچی سن سے سندِ فراغت لینے کے بعد کیلیفورنیا اور برکلے یونیورسٹیوں سے اقتصادیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی جبکہ پچھلے سولہ سال سے وہ آئی ایم ایف کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور مالیاتی فنڈ کے ڈیٹ پالیسی ڈویژن کے سربراہ کے طور پر رکن ملکوں کے بیرونی قرضوں کے مسائل کے حل اور ری اسٹرکچرنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ یونان اور یوکرائن جیسے معاشی بحران کے شکار ممالک کی مالیاتی پالیسیوں کی تشکیل میں ان کی معاونت بہت کارآمد رہی ہے۔ 

رومانیہ اور مصر میں بھی آئی ایم ایف مشن کے سربراہ رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے پہلے ڈاکٹر باقر نے ورلڈ بینک میں بھی خدمات انجام دی ہیں۔ اس بنا پر یہ توقع بے جا نہ ہو گی کہ گورنر اسٹیٹ بینک کی حیثیت سے پاکستان کی معاشی پالیسیوں کی تشکیل میں ان کا وسیع تجربہ بہت مفید ثابت ہو گا نیز ان کی موجودگی سے آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر عالمی مالیاتی اداروں کا بھی پاکستان پر اعتماد بڑھے گا اور معاشی مشکلات سے نکلنے کی راہیں ہموار ہوں گی، تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ پاکستان میں ایسے کلیدی مالیاتی منصب پر فائز ہونے کے بعد اپنے موجودہ ادارے سے بھی ان کی وابستگی برقرار رہے گی یا نہیں۔ 

دونوں اداروں سے بیک وقت وابستگی کی صورت میں یہ سوال بہرحال اٹھے گا کہ کسی متنازع صورت حال میں وہ دونوں میں سے کس کے مفاد کو ترجیح دیں گے۔ تاہم جہاں تک اسٹیٹ بینک کے سربراہی کے منصب پر عالمی مالیاتی اداروں کے وابستگان کے تقرر کا معاملہ ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ڈاکٹر یعقوب، ڈاکٹر عشرت حسین اور ڈاکٹر شمشاد اختر جو اسٹیٹ بینک کے سربراہ رہے، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے آئے تھے۔ لہٰذا ڈاکٹر رضا باقر کا گورنر اسٹیٹ بینک مقرر کیا جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں اور اس امر کے روشن امکانات ہیں کہ وہ معیشت کی بحالی میں مؤثر کردار ادا کر سکیں گے۔ 

جہاں تک موجودہ معاشی بحران کا تعلق ہے تو یہ ایک کھلا راز ہے کہ اس میں ماضی کی غلط پالیسیوں کا بڑا حصہ ہے جن کی وجہ سے ملکی برآمدات کم ہوتی، درآمدات بڑھتی اور توازنِ ادائیگی مسلسل منفی ہوتا چلا گیا، بجٹ خسارے میں متواتر اضافہ ہوا، معیشت پر قرضوں کا بوجھ طوفانی رفتار سے بڑھتا رہا، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا رجحان شروع ہوا اور پھر بڑھتا گیا جبکہ روپے کی حقیقی قدر گھٹتی چلی گئی۔ متعدد ماہرین کے مطابق ان حالات میں موجودہ حکومت کو ذمہ داریاں سنبھالتے ہی آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج کیلئے رجوع کرنا چاہئے تھا لیکن اس میں تذبذب کے باعث معاشی زبوں حالی بڑھتی گئی اور عوام کیلئے جسم و جان کا رشتہ قائم رکھنا محال ہو گیا۔ 

بہرحال اگر اب بھی آئی ایم ایف کے تعاون کا درست استعمال کیا جائے، ٹیکس نیٹ میں خاطر خواہ اضافہ ہو، تمام غیر ضروری درآمدات روک دی جائیں، سرمایہ کاری کیلئے حالات کو سازگار بنایا جائے، نئی صنعتوں کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کی جائے، خصوصاً بیرونِ ملک پاکستانیوں کیلئے سرمایہ کاری کے منفعت بخش منصوبے شروع کیے جائیں تو حالات میں تیزی سے بہتری کا رونما ہونا کوئی امرِ محال نہیں اور قوم نئی معاشی ٹیم سے یہی توقع رکھتی ہے۔

اداریہ روزنامہ جنگ



Viewing all articles
Browse latest Browse all 4341

Trending Articles