صدارتی نظام کے حق میں بڑھتے ہوئے مباحثے کے دوران حکومت چلانے کیلئے منتخب نمائندوں کی بجائے غیر منتخب مشیروں اور خصوصی معاونین پر انحصار شروع کر دیا گیا ہے۔ وفاقی کابینہ میں حالیہ اکھاڑ پچھاڑ ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کا اعتماد حکمران جماعت کے ارکان پارلیمنٹ اور سینیٹرز کی بجائے نامزد کردہ افراد پر بڑھ رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تبدیلیوں کے بعد اقتصادیات کی اہم ترین وزارتیں اُن مشیروں اور معاونین کے کنٹرول میں آ گئی ہیں جو پارلیمنٹ میں جواب دہ نہیں۔ اس کے علاوہ، تبدیلیوں کے نتیجے میں صرف منتخب افراد کو ہدف بنایا گیا اور حکومت کے مقرر کردہ غیر منتخب مشیروں اور خصوصی معاونین میں سے کسی کو ہٹایا گیا اور نہ ہی کوئی نئی ذمہ داری دی گئی۔
جس وقت کئی غیر منتخب مشیروں کو پہلے ہی وزیر کی حیثیت سے اہم ذمہ داریاں دی گئی ہیں اس وقت کے اقدام سے ان کی طاقت تعداد اور تفویض کردہ ذمہ داریوں کے لحاظ سے بڑھ گئی ہے۔ کابینہ میں پہلی تبدیلی کرتے ہوئے حکومت نے رکن قومی اسمبلی اسد عمر کو وزیر خزانہ کے اہم ترین عہدے سے ہٹا دیا اور ان کی جگہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو لگا دیا جو اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالنے کیلئے پاکستان پہنچ گئے۔ حفیظ شیخ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک اور رکن قومی اسمبلی سروَر خان کو بھی پٹرولیم کی اہم وزارت سے ہٹا دیا گیا اور انہیں ایوی ایشن کے قلمدان کی پیشکش کی گئی۔
پٹرولیم کی یہ اہم وزارت اب حکومت کی جانب سے مقرر کردہ غیر منتخب شخص نعیم بابر چلائیں گے۔ انہیں کابینہ میں وزیراعظم کے معاون خصوصی کی حیثیت سے شامل کیا گیا ہے۔ وزیر اطلاعات کو تبدیل کرتے ہوئے حکومت نے یہاں بھی غیر منتخب پی ٹی آئی رکن فردوس عاشق اعوان کو گوجر خان سے منتخب ہونے والے پارٹی رکن قومی اسمبلی فواد چوہدری کی جگہ پر مقرر کیا ہے۔ فواد چوہدری اب سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر ہیں جو ایوی ایشن کی طرح پرکشش قلمدان نہیں ہے۔ ڈاکٹر ظفر اللہ مرزا بھی نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے شخص ہیں جنہیں حکومت نے وزارت صحت کیلئے مقرر کیا گیا۔ وہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی عامر محمود کیانی کی جگہ سنبھالیں گے۔
کابینہ میں کی جانے والی تازہ ترین تبدیلیوں کے نتیجے میں اگرچہ چار غیر منتخب مشیر / معاونین خصوصی کابینہ میں شامل ہو گئے ہیں لیکن پی ٹی آئی کی پارلیمانی طاقت میں سے کسی کو بھی ملک کے پالیسی ساز ادارے (کابینہ) میں شامل نہیں کیا گیا۔ غیر منتخب مشیروں / معاونین خصوصی کی کابینہ میں شمولیت ایسے نامزد کردہ افراد کی فہرست میں نیا اضافہ ہے جو اہم عہدوں پر موجود ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر رزاق دائود وزیر اعظم کے مشیر تجارت ہیں، ڈاکٹر عشرت حسین وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات اور کفایت شعاری ہیں، محمد شہزاد ارباب وزیر اعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ ہیں، ملک امین مشیر ماحولیاتی تبدیلی ہیں، بیریسٹر شہزاد اکبر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب ہیں، ذلفی بخاری خصوصی معاون برائے اوور سیز پاکستانیز اور ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ ہیں، شہزاد سید قاسم خصوصی معاون برائے پاور، عثمان ڈار امور نوجوانان دیکھتے ہیں۔
کچھ غیر منتخب خصوصی معاونین وزیراعظم آفس میں وزیراعظم کو گھیرے رکھتے ہیں۔ اب وفاقی کابینہ میں پانچ مشیر اور 17؍ خصوصی معاونین ہیں۔ صدارتی نظام کے برعکس، پارلیمنٹ نظام میں کابینہ منتخب نمائندوں / ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس نظام میں وزیراعظم اور ان کی کابینہ پارلیمنٹ کو جواب دہ ہوتے ہیں۔ صدارتی نظام میں، صدر مملکت اور ان کی کابینہ پارلیمنٹ کو جواب دہ نہیں ہوتے۔ اگرچہ پاکستان میں پارلیمانی نظامِ حکومت ہے لیکن حکومت کا طرزِ حکمرانی صدارتی اور پارلیمانی نظام کا ملاپ ہے۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ آخر وہ کون اہم شخصیت ہے جسے پارلیمنٹ میں آنا چاہئے لیکن نہیں آتی جبکہ حکومت اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ سیاسی مذاکرات سے ہچکچاتی ہے جبکہ غیر منتخب مشیر / خصوصی معاونین کو منتخب ارکان پر ترجیح دی جاتی ہے۔