چوری اور سینہ زوری کی کہاوتیں تو سنتے آئے ہیں لیکن مسلم ملکوں میں اس کہاوت پر ڈنکے کی چوٹ پر عمل ہو رہا ہے۔ ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم نے 681 ملین ڈالر عوام کی بہبود کے فنڈ کے نام پر اکٹھے کیے تھے اور خود کھا گئے۔ پاکستان میں بھی اربوں کی کرپشن کی گئی، کرپشن کا تمام پیسہ عوام کی محنت کی کمائی تھا، بے چارے عوام روٹی کے محتاج ہیں اور ان کے نام پر اکٹھی کی گئی اربوں ڈالر کی رقم بد دیانت اشرافیہ اور اس کی اولاد کھا رہی ہے۔ یہ سلسلہ نیا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے۔ ملائیشیا کے عوام بھی پسماندہ ملکوں کے عوام کی طرح معاشی مسائل میں گھری ہوئی ہے لیکن حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ عوام کی اربوں روپوں کی رقم انتہائی بے شرمی سے کھا رہے ہیں۔
ملائیشیا کے حکمران ابھی حال میں پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں اور پاکستان کے ساتھ کئی معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں جس کا فائدہ پاکستانی عوام کو ہو گا ، ہزاروں پاکستانی ملائیشیا میں ملازمتیں کر رہے ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ ہزاروں پاکستانیوں کو ملائیشیا میں روزگار کے مواقعے حاصل ہو سکیں گے ۔ ملائیشیا کے حقیقی رہنما ملائیشیا کو ترقی کی راہ پر لگانے کے لیے کوشاں ہیں لیکن اسی ملائیشیا کے سابق حکمران نجیب رزاق نے عوام کی محنت کے 681 ملین ڈالر کھا کر عوام کی کھلی حق تلفی کا ارتکاب کر چکے ہیں۔ نجیب رزاق کے خلاف عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے، یہ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ کرپٹ حکمران طبقات عوام کا حق غصب کر کے بھی محترم بنے رہتے ہیں۔
نجیب رزاق کے خلاف عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے، لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست کرپٹ حکمرانوں کی مدد عدالتوں میں بھی مختلف طریقوں سے کرتے ہیں۔ دنیا میں مختلف قومیں رہتی ہیں لیکن اس ستم ظریفی کو کیا کہیں کہ مسلمان ملکوں کی قیادت ہر جگہ کرپشن کا ارتکاب کر رہی ہے۔ ان کا حال یہ ہے کہ وہ شرمندہ ہونے کے بجائے کرپشن سے انکار کر رہے ہیں بلکہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے پر عمل کرتے ہوئے، ان حکمرانوں پر تنقید کر رہے ہیں جو ان کا احتساب کر رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ بعض مسلم حکمران احتساب کی زد میں آنے والوں کی سفارشیں بھی کر رہے ہیں۔ ماضی میں بھی کرپٹ حکمران دوست ممالک کے سربراہوں کی سفارشوں سے کرپشن کے الزامات سے بری ہوتے رہے ہیں اور آج بھی بیرونی سفارشوں کا کلچر پھل پھول رہا ہے۔
ملائیشیا پاکستان کا دوست ملک ہے۔ نجیب رزاق ملائیشیا دولت جمع کرنے کی ہوس سرمایہ دارانہ نظام کی وہ لعنت ہے جو ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے یہ کوئی انہونی بات ہے نہ تعجب خیز بات ہے، اس نظام میں کرپشن ایک ایسی بیماری ہے جس سے تقریباً تمام ملکوں کے حکمران طبقات متاثر ہیں۔ چونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں قانون اور انصاف حکمران طبقات کے مددگار کا کردار ادا کرتے ہیں جس کا مشاہدہ قدم قدم پر کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے لٹیروں کو اپنے عبرت ناک انجام کا کوئی خوف نہیں رہتا۔ اس حوالے سے یہ سوال فطری ہے کہ کرپٹ حکمران ان اربوں روپوں کا کریں گے کیا؟
انسانی زندگی خواہ اس کو کتنا ہی پرتعیش بنائیں اربوں کھربوں روپے کی ضرورت سے مشروط نہیں ہوتی۔ اربوں کھربوں کی لوٹ مار کا پیسہ صرف بینکوں کی تجوریوں کی زینت بنا رہتا ہے ۔ یہ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ محض اربوں کی دولت کو اپنے قبضے میں رکھنے کی خاطر کروڑوں غریب عوام کو غربت کے صحرا میں دھکیل دیتے ہیں، یہ ایسا جرم ہے جو ملک سے غداری سے زیادہ سنگین ہے اور اس جرم کی سزا ملک سے غداری کرنے سے زیادہ سخت ہونی چاہیے کیونکہ حکومتوں اور حکمرانوں سے غداری، عوام سے غداری کی نسبت بہت کم سنگین ہوتی ہے۔